عاشورہ یا عرفہ کا روزہ جمعہ کے دن رکھنا
مسئلہ(۱۰۶): خاص طور پر جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے اختیار کرنا مکروہ ہے، حدیث میں اس کی ممانَعت آئی ہے: ’’ لا یصومُ أحدُکم یومَ الجمُعۃِ إلا أن یَصُومَ قَبلَہٗ أو بَعدَہٗ ‘‘۔البتہ چند صورتیں اِس سے مستثنیٰ ہیں:
جمعہ کے ساتھ پہلے یا بعد ، ایک دن اور روزہ رکھ لیا جائے، جیسا کہ حدیثِ مذکور میں صراحت ہے۔
کسی خاص تاریخ میں اس کا روزہ رکھنے کا معمول ہے، اب اتفاق سے وہ تاریخ جمعہ کے دن پڑگئی، تو روزہ رکھ سکتا ہے، کراہت نہ ہوگی۔
جن نفل روزوں کی احادیث میں تاکید وفضیلت آئی ہے، مثلاً عاشورہ، عرفہ کے روزے، اگر یہ روزے جمعہ کے دن پڑگئے، تو حدیث میں وارد فضیلت کی بنا پر روزہ رکھ لے، اِس پر کراہت نہ ہوگی۔(۱)
——————————
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : عن أبي ہریرۃ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ لا یصوم أحدکم یوم الجمعۃ إلا أن یصوم قبلہ أو یصوم بعدہ ‘‘ ۔
(۱/۱۵۷، أبواب الصوم ، باب ما جاء في کراہیۃ صوم یوم الجمعۃ وحدہ ، الرقم :۷۴۳)
ما في ’’ نفع قوت المغتذي [حاشیۃ الترمذي] ‘‘ : وفي معنی المستثنی : ما وافق سنۃ مؤکدۃ کما إذا کان السبت یوم عرفۃ أو عاشوراء للأحادیث الصحاح التي وردت فیہا واتفق الجمہور علی أن ہذا النہي ونہي إفراد الجمعۃ لکراہتہ تنزیہ لا تحریم ۔
(۱/۱۵۷، رقم الحاشیۃ :۴)
ما في ’’ مشکوۃ المصابیح ‘‘ : عن أبي ہریرۃ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ لا تختصوا لیلۃ=
یوم عاشورہ کا روزہ
مسئلہ(۱۱۳): محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے (۱)، رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گذرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے ۔ (۲)
——————————
=ما فی ’’ الہدایۃ ‘‘ : ولو دخل حلقہ ذباب وہو ذاکر لصومہ لم یفطر وفی القیاس یفسد صومہ لوصول المفطر إلی جوفہ۔۔۔۔۔۔ وجہ الاستحسان أنہ لایستطاع الاحتراز عنہ فأشبہ الغبار والدخان۔۔۔۔۔ وفی حاشیۃ الہدایۃ: والدخان المراد بہ إذا دخل فإنہ لیس بمفطر لأنہ لایمکن الاحتراز عنہ لدخولہ من الأنف ۔۔۔۔۔۔ فمفادہ أن إدخال دخان التنباک المتعارف فی زماننا مفسد لأنہ إدخال لا دخول ویمکن الاحتراز عنہ ، کذا في السراج المنیر۔
(۱/۲۱۸، کتاب الصوم، باب ما یوجب القضاء والکفارۃ) (فتاوی رحیمیہ: ۷/۳۶۱)
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما فی ’’ السنن لإبن ماجۃ ‘‘ : عن أبی قتادۃ قال : قال رسول اللہ ﷺ : ’’ صیام یوم عاشوراء إني أحتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التی قبلہ‘‘ ۔
وفی حاشیتہ : حمل الإجماع علی أنہ لیس بفرض وإنما ہو مستحب ۔
(السنن لإبن ماجۃ :ص۱۲۴، باب صیام یوم عاشوراء)
(۲) ما فی ’’ الحدیث النبوی ‘‘ : عن ابن عباس قال : قال رسول اللہ ﷺ : ’’ لئن بقیت إلی قابل لأصومنّ من الیوم التاسع ‘‘۔
وفی حاشیتہ : قال النبیﷺ : (لئن بقیت إلی قابل لأصومنّ من الیوم التاسع) وزاد مسلم قال : (فلم یأت العام المقبل حتی توفی رسول اللہ ﷺ) وہذا تصریح بأن الذی کان یصومہ لیس ہو =