قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟
تحریر یاسر محمد خان
مشاہدات: 731
’’جیمز روبنسن‘‘ اور ’’ڈیرک ایسی ایسی موگلیو‘‘ دو نوبل انعام یافتہ ماہرین معاشیات ہیں۔ انہوں نے 15 سال غریب اور امیر ملکوں پر تحقیق کی۔ اُن کی محنت کا ثمر ’’Why Nations Fail?‘‘ (قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟) کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ دونوں مصنفین نے دنیا کے طول و عرض میں سفر کیا۔ انہوں نے انسانی تاریخ کی گہرائیوں میں جاکر اُسے کھنگالا۔ وہ تباہ حال ملکوں میں گئے اور وہاں اپنے مشاہدات اور مطالعے کو وسعت دی۔ انہوں نے یونانی، رومن اور مایا تہذیب سے مثالیں اکھٹی کیں۔ لاطینی امریکا، سوویت یونین، برطانیہ، دوسرے یورپی ملکوں اور افریقی ملکوں کی معیشت پر عرق ریزی کی۔ یوں ایک ایسی کتاب وجود میں آئی جو تمام دنیا میں پذیرائی پاچکی ہے۔ کتاب کے آغاز میں مصر اور امریکا کا موازنہ دیا گیا ہے۔ مصر کا زرعی نظام بہت زیادہ مضبوط ہے۔ وہ ٹور ازم سے ڈھیروں ریونیو اکھٹا کرتا ہے۔ عوام پڑھے لکھے ہیں۔ اس کے باوجود ملک بہت غریب ہے۔ مصر میں سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے بصیرت اور لٹیرے حکمرانوں اور افسر شاہی نے ملک کو زوال کی کھائی کی طرف دھکیل دیا۔
ایک مثال سے اندازہ لگائیے۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے مصر میں ایک سافٹ ڈرنک لانچ کرنا تھی۔ حسنی مبارک نے اُس میں اپنا کمیشن فکس کرلیا۔ یوں مصر میں سرکاری دفتروں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں صرف اس سافٹ ڈرنک کو بیچنے کی اجازت دے دی گئی۔ مصر کی نجی کمپنیاں بھاری نقصان کے ساتھ بند ہونا شروع ہوگئیں۔
دوسری طرف امیر ملکوں میں حکومت کمپنیوں کو اوپن مارکیٹ دیتی ہے۔ کسی کی طرف داری نہیں کرتی۔ ہر کمپنی میدان میں مقابلہ کرتی ہے اور یوں ملکوں کی اکانومی رواں دواں رہتی ہے۔ شخص حکومتیں کیا ستم ڈھاتی ہیں؟ زمبابوے میں رابرٹ موگابے پچھلے تین عشروں سے ملکی اقتدار پر بزور قابض ہے۔ زمبابوے میں لاکھوں ڈالرز کی ایک لاٹری اسکیم شروع کی گئی۔ سالہاسال سے جب بھی انعام نکلتا تو پہلے انعام کا حق دار ملک بھر میں سے رابرٹ موگابے ہی قرار پاتا۔ جب ایک صحافی نے اُس سے اس بارے میں دریافت کیا تو اُس نے کندھے اُچکا کر کہا: ’’قدرت مجھ پر مہربان ہے۔ دیکھ لینا ہر سال لاٹری میں پہلا انعام میرا ہی نکلتا رہے گا۔‘‘
٭ ملک میں بھتہ خوری ایک صنعت کا درجہ پاگئی ہے۔ اغوا برائے تاوان کی پوری انڈسٹری قائم ہوگئی ہے۔ آپ رشوت اور سفارش سے یہاں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ٭ تعلیم اور علاج کے شعبوں میں خدمت خلق کی بجائے مال دولت سمیٹنے کی مشینیں لگادی گئی ہیں۔ ٭ ہماری سیاست کے افق پر جو بھونچال آئے ہوئے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ جو ملک طاقتور سسٹم کے تحت نہیں چلائے جاتے، اُن کی مثال بھیڑوں کے اُن غولوں جیسی ہے جنہیں کوئی بھی بھیڑیا آگے لگالیتا ہے۔ ٭
امریکا اور میکسیکو سرحدیں ملتی ہیں۔ ایسے علاقے بھی ہیں، جہاں گلی کے ایک طرف امریکا اور دوسری طرف میکسیکو والے بستے ہیں۔ یہ لوگ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے علاقوں کی آب و ہوا یکساں ہے۔ پھر بھی امریکی علاقے میں خوشحالی اور میکسیکن علاقے میں بدحالی دکھائی دیتی ہے۔ دونوں کے ہاں اس تفاوت کی وجہ وہ سسٹم ہے جو امریکا میں واقع کام کرتا دکھائی دیتا ہے، لیکن میکسیکو میں مافیاز مرکزی حکومت کی کرپشن اور ڈرگز کے دھندوں میں حکومتی اہلکاروں کے ملوث ہونے کی وجہ سے یہ ملک تیزی سے روبہ زوال ہے۔ ارجنٹائن کا سب سے بڑا شہر بیونس آئرس سمندر کے کنارے آباد ہے۔ یہاں کی آب و ہوا ہمارے کراچی سے ملتی جلتی ہے۔ بیونس آئرس کا مطلب ہی معطر اور عطر بیز ہوا ہے۔ اس شہر میں دنیا کے امیر ترین افراد بستے ہیں۔ یہا ںغربت بھی اس قدر ہے کہ سارے لاطینی امریکا کے ملکوں میں نہ ہوگی۔ ان بزنس مینوں کو حکومتی نوازشات نے قارون کے خزانے بخشے۔ ان میں سے ایک کھرب پتی نے اپنے بزنس کو امریکا میں پھیلانے کے لیے تگ و دو کی۔ وہاں وہ بری طرح ناکام رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بیونس آئرس میں وہ حکومتی عہدے داروں کو رشوتیں دے دے کر اپنے بزنس کو ترقی دیتا رہتا تھا۔ امریکا میں یہ سب دروازے بند دیکھ کر اُسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بل گیٹس امریکی سسٹم میں رہتے ہوئے دولت کماتا رہا، لیکن وہ 10 ڈالرز بھی اِدھر اُدھر نہ کرے گا۔ امریکا اور دوسرے امیر ملکوں میں بھی بے شمار لوگ دولت کمارہے ہیں۔ پر وہ یہ سب کچھ ایک طاقت ور سسٹم میں رہتے ہوئے کررہے ہیں۔ وہ ٹیکس چوری نہیں کرسکتے۔ وہ رشوت اور سفارش سے اپنے کام نہیں نکال سکتے۔ وہ جائز منافع کے علاوہ کچھ نہیں سمیٹ سکتے۔ اعلیٰ حکومتی عہدے دار بھی اُن کو کوئی ناجائز فیور نہیں دے سکتے۔ ان ملکوں کا جوڈیشل سسٹم اس قدر فعال ہے کہ وہ بڑے بڑے آدمی کو بھی جرم پر چھوٹا بنادیتا ہے۔ حکومتیں اپنا بزنس نہیں چلاتیں۔ افریقی ملکوں جیسے بوٹسوانا اور رونڈا میں سسٹم ٹھیک ہونے کی وجہ سے شرح غربت میں حیرت انگیز کمی آتی جارہی ہے۔ انہی ملکوں کے ہمسایوں میں کانگو، زمبابوے اور سری لیون میں بدترین غربت دیکھنے میں آرہی ہے۔ جنوبی کوریا اور شمالی کوریا دونوں کا ایک ہی نسل سے تعلق ہے۔ اس کے باوجود شمالی کوریا سخت پس ماندہ جبکہ جنوبی کوریا میں کوالٹی آف لائف امیر ملکوں جیسی ہے۔ بیسیویں صدی میں یورپی ملکوں سے آزادی حاصل کرنے والے ملکوں میں حالات لگ بھگ ایک جیسے تھے۔ 60 سال بعد ان میں سے بعض ملک تیزی سے ترقی کررہے ہیں اور کئی پہلے سے بھی برے حالات کا شکار ہوچکے ہیں۔ کتاب ’’قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟‘‘ کے اختتام پر مصنفین نے نچوڑ یہ نکالا ہے۔ کامیاب قومیں ضروری نہیں، بہت لمبے قد کاٹھ کی مالک ہوں۔ ان کا رنگ گورا ہو۔ اُن کا ملک سمندر کے کنارے واقع ہو۔ اُن کو قدرت نے کوئی مافوق الفطرت قوتیں ودیعت کی ہوں۔ اصل میں کامیاب اور امیر ملک ایک طاقتور سسٹم کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ یہ سسٹم وہاں غربت کا خاتمہ کردیتا ہے۔ رشوت ستانی اپنے آپ انجام تک پہنچ جاتی ہے۔ گڈ گورنس نعرہ نہیں، ایک حقیقت بن کر سب کے سامنے آجاتی ہے۔ حکومتیں اور اہلکار اپنا بزنس نہیں چلاسکتے۔ قدم قدم پر غیرقانونی دھندے کرنے والوں کے لیے جال بچھے ہوئے ہیں۔ وہ اُن سے بچ کر نہیں نکل سکتے۔ ایک سرکل ہے جس میں ہر فرد گھوم رہا ہے۔ اس پہیے کے گھومنے سے ترقی اور خوشحالی نکل کر معاشرے کے اندر دور تک پھیلے جارہی ہے۔
ان ملکوں میں سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں صرف سیاست کرتی ہیں۔ اُن کے سارے کارکن گلی محلے سے لے کر اعلیٰ ترین ایوانوں تک پہنچنے کے لیے محض ووٹ کے پابند ہیں۔ وہاں سیاسی پارٹیوں نے اپنے غیرقانونی ونگز نہیں بنائے ہوئے۔ یہ بھتہ خوری میں ملوث نہیں۔ یہ معاشرے میں مار دھاڑ نہیں کرسکتیں۔ یہ غیرقانونی طور پر زمینوں پر قبضہ نہیں کرسکتیں۔ یہ بدترین مجرموں اور قاتلوں کو پناہ نہیں دے سکتیں۔ کونسلر سے لے کر میئر اور میئر سے لے کر وزیر اعظم یا صدر تک کا سفر صرف ووٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ وہاں سیاسی مخالفین پر جبر اور دھونس نہیں جمائی جاسکتی۔ انہیں راستے سے ہٹانے کے لیے قاتلوں کو ہائر نہیں کیا جاسکتا۔ غرض ہر ترقی کرتے ملک میں آپ کو یہ قباحتیں نظر نہیں آئیں گی۔ شفاف پن ہر شعبۂ زندگی کا مرکزی دھارا بن گیا ہے۔
پاکستان کا شمار غریب ملکوں میں ہوتا ہے۔ یہاں بے رحم سسٹم کے نام پر ہر ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے جمہوری چہروں کے پیچھے نہایت دہشت ناک چہرے ہیں۔ ہر بڑی سیاسی پارٹی کی پشت پر مسلح جتھے ہیں۔ جمہوری چہرہ فصاحت و بلاغت کے موتی بکھیرتا ہے۔ شیطانی چہرہ مال دولت ہڑپنے اور مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے فرمان جاری کرتا ہے۔ ہماری جمہوریت اول تو جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کی گیم ہے۔ اس میں عام پاکستانی کے لیے کوئی فلاح کی خبر نہیں آتی۔ جہاں ہم غریب لوگوں کو اسمبلیوں میں پہنچانے والوں کے قول و فعل کا جائزہ لیتے ہیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ بھی جاگیرداروں کی سی ذہنیت کے مالک ہیں۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں بھتہ خوری ایک صنعت کا درجہ پاگئی ہے۔ اغوا برائے تاوان کی پوری انڈسٹری قائم ہوگئی ہے۔ آپ رشوت اور سفارش سے یہاں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ہمارے اقتدار کے سب ایوانوں میں اندھی طاقت کی پوجا کی جاتی ہے۔ قانون ظالم کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔ پولیس کا نظام غریب لوگوں کو پیس کر سرمہ بنادیتا ہے۔ امیروں کو سیلوٹ کرتا ہے۔ ہمارے کورٹ کچہریوں میں غریب غربا انصاف کے لیے مدتوں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ انہیں دھول کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ بڑے شہروں میں قتل و غارت گری ہے۔ زمیوں پر ناجائز قبضے ہیں۔ انڈسٹریوں نے فضائوں میں زہر گھول دیا ہے۔ تازہ ہوا اور پانی ندارد ہے۔ ہماری غذائوں میں بدترین ملاوٹ کی جاتی ہے۔ دوائیوں کی شکل میں پائوڈر بکتا ہے۔ کسان کو اُس کی محنت کا صلہ نہیں ملتا۔ مزدور کے ہاتھ چند سکوں کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ غریبوں کے لیے مہنگائی سے جنگ بدترین شکست بنتی جارہی ہے۔ بے روزگاری کا گراف ہر گزرتے ماہ و سال کے سال بڑھتا جارہا ہے۔ شرح غربت کے اعدادو شمار نہایت درجہ سنگین صورت حال اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ہمارے اربوں کھربوں پتی نہایت قلیل ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ حکومتیں غریبوں پر جی ڈی پی کے ثمرات اپرکلاس سمیٹ لیتی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے حکمرانوں کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ قرضوں کی سود سمیت ادائیگی کے لیے غریب اور متوسط طبقوں کو مزید نچوڑا جاتا ہے۔ میگا پراجیکٹس دولت کی کانیں بن گئی ہیں جہاں سے اربوں روپیہ اِدھر اُدھر کرلیا جاتا ہے۔ ہر کام کا کمیشن مقرر ہے۔ ملازمت سے لے کر کسی بھی جائز حق کے حصول کے لیے اس سرنگ سے گزرنا لازمی قرار پاگیا ہے۔ بیرون ملک تجارت کے تمام ثمرات حکمرانوں کی آل اولاد سمیٹے جارہی ہے۔ اُن کا بزنس کھربوں بنارہا ہے۔ دبئی اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ان لوگوں نے اربوں ڈالرز کے انبار لگائے ہوئے ہیں۔ تعلیم اور علاج کے شعبوں میں خدمت خلق کی بجائے مال دولت سمیٹنے کی مشینیں لگادی گئی ہیں۔ اناج اور سبزی کی منڈیوں میں کارٹل بنے ہوئے ہیں جن کا کام ناجائز منافع اکٹھا کرنا ہے۔ سارا ریاستی ڈھانچہ ڈائنو ساروں کی طرح کھڑا ہے، مگر اس میں حرکت، ہمدردی، صلہ رحمی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ قومی اسمبلی سے لے کر سینیٹ کے انتخابات روپے پیسے کا بے رحم کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ کار سرکار ایک ایسا بھیانک مذاق ہے کہ خون کے آنسو رلاتا ہے۔ ہمارے لیڈروں کے کردار کو دیکھ کر ایک کہانی یاد آتی ہے:
’’لبنانی فلسطینی خلیل جبران نے ’’ہوسِ اقتدار‘‘ کے عوان سے ایک افسانہ لکھا۔ اس کا مرکزی کردار ایک ایسا دیوقامت لیڈر تھا جس کا سر انسان کا اور پائوں لوہے کے بنے ہوئے تھے۔ اس کی خوراک یہ تھی کہ یہ مسلسل زمین کھاتا چباتا چلا جارہا تھا۔ پیاس بجھانے کے لیے یہ سمندر کے پانوں کو غٹاگٹ پیتا جاتا تھا۔ یہ جتنی زیادہ زمین کھاتا اتنی ہی اس کی بھوک بڑھتی جاتی۔ یہ جتنا زیادہ سمندر کو پیتا، اُتنی ہی اس کی پیاس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ اس نے بستیاں، قریے، گھر، محلے سب کترکتر کر کھالیے، پھر بھی یہ اور بھوکا ہوتا جارہا تھا۔ سمندر میں پانی کم ہوتا جاتا تھا، مگر اس کی پیاس نہیں بجھ رہی تھی۔ اس کے دل میں صرف ایک ہی بات کا ڈر تھا کہ اگر زمین ختم ہوگئی یا سمندر خشک ہوگیا تو وہ کیا کھائے پیئے گا۔ یہ خوف اُسے اور زیادہ زمین ہڑپنے اور سمندر کا شورابہ پینے پر مجبور کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ دیوقامت لیڈر اور زیادہ بھوکا اور پیاسا ہوتا گیا۔‘‘
ان دنوں چینلز اور اخبارات دیکھ کر مزید قوی احساس ہورہا ہے کہ ’’قومیں کیوں ناکام ہوجاتی ہیں؟‘‘ جیسی کتابیں ہمارے ہی بداعمال راہنمائوں کو ذہن میں رکھ کر لکھی گئی ہیں۔ خلیل جبرا نے بھی زمینیں کھانے اور سمندر پینے والے لیڈر کے بارے میں لکھتے ہوئے پاکستان کو ذہن میں رکھا ہوگا۔ ہماری سیاست کے افق پر جو بھونچال آئے ہوئے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ جو ملک طاقتور سسٹم کے تحت نہیں چلائے جاتے، اُن کی مثال بھیڑوں کے اُن غولوں جیسی ہے جنہیں کوئی بھی بھیڑیا آگے لگالیتا ہے۔ اُن سب کو اپنی اندھی ہوس کی قربان گاہوں تک لے جاتا ہے۔ ایسے بھیڑیوں کے دانت ہی دستور بن جاتے ہیں یا انصاف کے ترازو کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
جب زوال آتا ہے تو…
تحریر یاسر محمد خان
’’ٹیسیٹس‘‘ (Tacitus) رومن سلطنت کا سب سے بڑا تاریخ دان مانا جاتا ہے۔ ظہورِ اسلام سے پہلے یہ ایمپائر یورپ، ایشیا اور افریقہ کے بیشتر حصے کی مالک بن چکی تھی۔ اس میں برطانیہ، جرمنی، اسپین، اٹلی، آرمینیا، شام، سعودی عرب، مصر، فلسطین جیسے ملک شامل کرلیے گئے تھے۔ یہ دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں میں جگہ بناچکی تھی۔ ’’ٹیسیٹس‘‘ نے ایک کتاب ’’On Imferial Rome‘‘ میں اس چکاچوند تہذیب کی کہانی لکھی ہے۔ یہ کتاب صرف یورپ میں 393 مرتبہ ترجمہ ہوچکی ہے۔ اس کے صفحات ایک الف لیلوی داستان کی طرح ہمارے سامنے ایک نگارخانہ سجادیتے ہیں۔ دولت رومن سلطنت پر ہن کی طرح برس رہی تھی۔ ہر رومن ہمہ وقت زرق برق لباس پہنتا اور دنیا کی لذیذ ترین غذائیں کھاتا تھا۔ جدھر نگا اُٹھتی اُدھر محلات کی قطاری دکھائی دیتیں۔ رومن بادشاہوں کے خزانے قطار و شمار سے باہر تھے۔ سونا چاندی، ہیرے، یاقوت، الماس، زمرد چھتوں تک مالی خانوں میں بھرے رہتے تھے۔ امرا کی جاگیریں، جائیدادیں اور زمینیں ان گنت تھیں۔ رومن بادشاہوں کے شاہی اصطبل دنیا کے بہترین گھوڑوں سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ بجلی کی رفتار سے بھاگتے اور زمینیں اُن کے دوڑنے سے تھرتھراتی تھیں۔ اس کے ساحلوں پر دنیا بھر سے پکڑے ہوئے غلاموں کی منڈیاں قائم تھیں۔ لونڈیوں کو لاکھوں کی تعداد میں بیچا اور خریدا جاتا تھا۔ دنیا کے دوردراز کونوں سے بہترین باورچی روم میں قسمت آزمانے آتے اور اپنے جوہر کے فراواں دام پاتے تھے۔
گویے اور موسیقار اُدھر کا رُخ کرتے اور ڈھیروں سونا چاند وصول کرتے تھے۔ نغمہ و سرود اس سلطنت میں ہوائوں کی طرح بہتا تھا اور رومنوں کو بے خود رکھتا تھا۔ رومن باغات اپنے رقبے میں رنگا رنگی اور ہماہمی میں جنتِ نگاہ کا درجہ رکھتے تھے۔ ان گنت خوش الحان پرندے یہاں سُر بکھیرتے اور رومنوں کی شراب نوشی کا نشہ در آتشہ کردیتے تھے۔ رومن سینٹ میں دنیا کے عظیم ترین مقرر موجود تھے جن کی تقریریں تاریخ کے صفحات میں نقش ہوچکی ہیں۔ رومن تہذیب نے اپنے سے پہلے والی یونانی تہذیب کو مات دے دی تھی۔ اس سلطنت کی حدود لامحدود، دولت قطار و شمار سے باہر اور مادّی ترقی نے بلند ترین اُفق کو چھولیا تھا۔
٭ پاکستان نے اس ورلڈ کپ میں 4 ارب 33 کروڑ روپے صرف کیے ہیں۔ 2003ء کے ورلڈ کپ میں 3 ارب 8 کروڑ لاگت آئی تھی۔ ٭ ہمیں کھیل کود کی بھی ضرورت ہے۔ ایسے کھیل جو جسم کو مضبوط بنائیں اور ہمیں تفریح مہیا کریں۔ ٭ مذہب ہمیں جائز تفریح سے نہیں روکتا، لیکن اگر یہی تفریح ایک خوفناک ذہنی آزار بن جائے، لوگوں کی عقل و شعور کو مختل کردے تو اسے فوری طور پر روکنا ہوگا۔ ٭
اس سلطنت کا زوال اس کے عروج سے زیادہ تیز رفتاری سے آیا۔ ٹیسیٹس نے لکھا ہے کہ ہر رومن آبادی میں ایک اکھاڑہ بنایا گیا تھا۔ اُس میں رومن سلطنت کے قیدیوں کو لایا جاتا۔ انہیں کھلا پلاکر خوب موٹا تازہ کیا جاتا۔ پھر انہیں بھوکے شیروں سے لڑوایا جاتا۔ جب یہ قیدی چیختے چلاتے تو رومن خوب قہقہے لگاتے، شرابیں لنڈھاتے اور جشن مناتے تھے۔ شیر اور درندے قیدیوں کی ہڈیاں نوچتے، اُن کی تکہ بوٹی کردیتے تو مسرت کی کیفیت رومنوں کے لہو میں ناچنا شروع کردیتی۔ دو تین دہائیوں میں یہ اکھاڑے رومن زندگی کا سب سے بڑا مشغلہ بن گئے۔ ان کی تعداد لاکھوں میں جاپہنچی۔ باقاعدہ ٹکٹ فروخت ہوتے قطار اندر قطار لوگ یہاں جمع ہوتے اور پھر درندگی کا یہ میچ شروع ہوجاتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان درندوں کی رو میں رومنوں میں حلول کرگئیں۔ لوگ ذرا سی بات پر درجنوں کو قتل کردیتے۔ آپس میں ہما وقت لڑتے بھڑتے رہتے۔ ہر رومن کے ساتھ اُس کے غلام بھی لڑائیوں میں مشغول ہوجاتے۔ عدم برداشت اس تہذیب کا سب سے بڑا سمبل بن گیا۔ لوگ ذہنی توازن مکمل طور پر کھو بیٹھے۔ ان کے اندر سے رحمدلی، ترس، ہمدردی مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ یہی باہمی لڑائیاں سول وار کی شکل اختیار کرگئیں۔ رومن سلطنت میں ہر سو باغیوں کے لشکر گھومنا شروع ہوگئے۔ ملک آزاد ہوگئے۔
رومن رقبہ گھٹنا شروع ہوگیا۔ وبائوں، قحط سالیوں اور غربت نے سر اُٹھایا اور رومن زوال کو مزید تیز ترکردیا۔ لوگ ابتر حالات میں بھی نشیوں کی طرح اکھاڑوں کا رُخ کرتے۔ انسان، خون، گوشت اور ہڈیاں دیکھ کر اپنی حیوانی جبلت کو آسودہ کرتے۔ ٹیسیٹس کہتا ہے کہ یوں لگتا تھا کہ انسانوں کی مکمل ماہیت قلب ہوچکی ہو۔ وہ رومن جو کبھی تہذیب کا سمبل سمجھے جاتے تھے، دنیا بھر میں ان کے طرزِ زندگی کی کی جاتی تھی، اب انسان اُن سے یوں بھاگتے تھے جیسے وہ آدمی نہ ہوں، بلکہ کوئی بدروحیں ہوں۔ چین کے تین قبیلے نے رومن فوجوں کو شکست دے دی۔ یورپ کی گوتھ نسل کی فوجوں نے ان رومنوں کا تابوت تیار کردیا۔ عیسائیت جو اُس وقت پھل پھول رہی تھی، اُس نے آکر اِس تہذیب کے سر پر اپنی صلیب ٹھونک دی۔ یوں سارا یورپ عیسائی ہوگیا۔
پاکستان کو دیکھیے تو یہاں اکھاڑوں کی جگہ اسٹیڈیم بن گئے ہیں۔ لوگ دن دن بھر یہاں جمع ہوکر دادِ عیش دیتے ہیں۔ میچ شروع ہوتے ہی گلیاں سنسنان ہوجاتی ہیں۔ لوگ کھانا، پینا، نماز، عبادت بالکل بھول جاتے ہیں۔ ہر آدمی جو اس ناگہانی وقت پر سڑک سے گزر رہا ہو، اُس کی زبان پر یہی سوال ہوتے ہیں۔ کتنے رَن بنالیے؟ کتنی وکٹیں گرگئیں؟ ایک عجیب پاگل پن ہے جو کرکٹ نے پاکستانیوں پر مسلط کردیا ہے۔ لوگ دفتروں سے چھٹی کرلیتے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں میں تعلیم کی گردش تھم جاتی ہے۔ کارخانوں میں گھومتے پہیے رُک جاتے ہیں۔ دکانوں میں رکھے ٹی وی کے گرد ہجوم جمع ہوجاتا ہے۔ ہوٹلوں میں تل دھرنے کی جگہ باقی نہیں رہتی۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر مریضوں کو چھوڑ کر میچ کا پوسٹ مارٹم کرنا شروع کردیتے ہیں۔ لوگ ایک یاک چوکے چھکے پہ ناچنا شروع کردیتے ہیں۔ کسی کھلاڑی کے آئوٹ ہونے پر یوں دکھیا ہوجاتے ہیں جیسے کسی قریبی عزیز کا انتقال ہوگیا ہو۔ آنکھیں کرکٹ کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتیں۔ کان کمنٹری کے علاوہ کچھ نہیں سنتے۔ بیرون ملک ہونے والے میچوں کے لیے لوگ رات تین تین بجے الارم لگاکر اٹھ بیٹھتے ہیں۔ تہجد کے وقت کرکٹ کی عبادت شروع کردیتے ہیں۔ زیرلب کسی کرشمے کے انتظار میں درود و وظیفہ پڑھتے رہتے ہیں۔ لوگ ٹی وی اسکرین سے یوں چپک جاتے ہیں جیسے کسی طاقتور ساحرہ کے سحر میں آگئے ہوں۔ حوائج ضروریہ کے لیے بھی اُٹھنے کی زحمت نہیں گوارہ کرتے۔ دوران میچ کوئی بچہ رو پڑے تو اُسے یوں ڈانٹتے ہیں جیسے اُس نے کسی بڑے بوڑھے کی شان میں گستاخی کردی ہو۔ میچ میں سنسنی آنے پر دلوں کی دھڑکنیں بہت تیز ہوجاتی ہیں۔ سانس دھونکی کی طرح چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بیٹھے ہوئے نہایت بے قراری کے عالم میں کمرے میں گھومنا پھرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ لوگ صرف میچ جیتنے کے لیے منتیں مرادیں مان لیتے ہیں۔ میچ پاکستانیوں کے لیے زندگی اور موت کی جنگ بن جاتے ہیں۔ ہر بال کمان سے نکلا تیر بن جاتی ہے۔ اُٹھا ہوا بیٹ تلوار کی صورت دھار لیتا ہے۔ ہفتوں مہینوں خدا کو یاد نہ کرنے والے اُسے یاد کرکے میچ جتوانے کے لیے التجائیں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مسجد میں پہلی صف مکمل کرنے کے لیے نمازیوں کی تعداد کم پڑجاتی ہے۔ لوگ ایک جنون، پاگل پن اور ہذیان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ٹیم میچ ہار جائے تو لوگ ٹی وی توڑ دیتے ہیں۔ کھلاڑیوں کی مائوں بہنوں کے لیے مغلظات سرعام بکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شہروں قصبوں میں جلوس نکلتے ہیں۔ ہر زبان پر مردہ باد کا نعرہ ہوتا ہے۔ لوگ کھلاڑیوں کے پتلے نذر آتش کرتے ہیں۔ گدھوں پر پاکستانی ٹیم لکھ کر انہیں پتھروں اور ڈنڈوں سے مار دیتے ہیں۔ بے گناہ جانوروں کو اذیت ناک موت دے کر بھی خدا کے عذاب سے نہیں ڈرتے۔ ہر گلی، محلے، کوچے، دکان، دفتر، ہوٹل، کارخانے میں آتش بجنگ چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کسی دُشمن ملک نے خدانخواستہ پاکستان پر قبضہ کرلیا ہو۔ سوشل میڈیا پر پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کی شرمناک گالیاں یوں گردش کرتی ہیں جیسے بارش کے پانیوں میں کاغذ تیر رہے ہوں۔ ایک طوفان ہے غم و غصے کا جو پاکستانیوں کے رگ و پے میں سماجاتا ہے۔ کھلاڑیوں کے گھروں میں لوگ اینٹ پتھر پھیکے جاتے ہیں اور اہلِ خانہ کو مغلظات سے نوازا جاتا ہے۔ اگر صرف دو دن بعد یہی ٹیم اگلا میچ جیت جائے تو ہر کوئی دوسرے کو مبارکباد دے رہا ہوتا ہے۔ لوگ دیوانہ وار سڑکوں پہ ناچتے ہیں۔ ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہیں۔ ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام پر اتنے احترام سے لیے جاتے ہیں جیسے وہ کوئی فاتح ہوں جنہوں نے کوئی نیا ملک فتح کرلیا ہو۔ جیسے انہوں نے محمد بن قاسم یا صلاح الدین ایوبی کے نقش قدم پر چل کر عالم اسلام کا وقار بلند کردیا ہو۔ ہر کسی کی زبان پر داد و تحسین ہوتی ہے۔ ہر کھلاڑی کا چوکا چھکا عقیدت کے پھولوں کا حقدار قرار پاتا ہے۔ ہر بائولر کا ذکر یوں کیا جاتا ہے جیسے وہ خدائی کی قدرت کا سب سے بڑا معجزہ ہو۔ پاکستان کا سب سے بڑا ستارہ ہو۔ ٹی وی چینل پر خبرنامے کے پہلے پندرہ بیس منٹ ان خاک کے پتلوں کو دیوتا بناکر دکھانے پر صرف کرتے ہیں۔ ایک طوفان ہے بدتمیزی کا جس نے ساری پاکستانی قوم کو اپنے حصار میں کس لیا ہے۔ ٹی وی ہمیں بار بار باور کرواتا ہے کہ پاکستان کے لیے ’’اُمید کی واحد کرن‘‘ پاکستانی ٹیم ہے۔ ہر دوسرے ٹی وی اشتہار میں کرکٹ کے کھلاڑی ہیں۔ کامیاب زندگی کے زیریں اصول بتارہا ہوتا ہے۔ یہ پلاٹ بیچ رہا ہوتا ہے۔ بالوں کے لیے شیمپو تجویز کررہا ہوتا ہے۔ چہرے کو گورا بنانے والی کریموں کے کرشمے دکھارہا ہوتا ہے۔ کرکٹ کا میچ جیتنے کے بعد ساری پاکستانی قوم کی قیادت سنبھال کر ان کی تقدیروں سے کھیلنے کی کوششوں میں مشغول ہوجاتا ہے۔ ساری قوم میڈیا کے اس پاگل گھوڑے پر سوار بھاگے جارہی ہے۔ نہ ہاتھ باگ پر ہیں نہ پائوں رکاب میں ہیں۔ پیسے کے ان سوداگروں نے کھلاڑیوں کو لات و منات کے بت بنادیا ہے۔ بے راہ رو لوگ ان کے اندھے پجاری بن کے رہ گئے ہیں۔
پاکستان نے اس ورلڈ کپ میں 4 ارب 33 کروڑ روپے صرف کیے ہیں۔ 2011ء کے ورلڈ کپ میں ہم نے 3 ارب 99 کروڑ پھونکے تھے۔ 2007ء کے ورلڈ کپ میں اس غریب قوم کے 3 ارب 58 کروڑ روپے صرف کیے گئے تھے۔ 2003ء کے ورلڈ کپ میں 3 ارب 8 کروڑ لاگت آئی تھی۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر چار سال بعد ان سورمائوں پر اس مقروض قوم کا قیمتی سرمایہ زیادہ سے زیادہ منافع کیا جارہا ہے۔ ان کو بیرون ملک فائیو اسٹار ہوٹلوں میں رکھا جاتا ہے۔ جہاں یہ جوئے کھیلتے ہیں اور بعض شرابیں پی کر غل غپاڑہ کرتے ہیں۔ ہمارے چھ کھلاڑیوں پر سٹہ بازی کے الزامات ثابت ہوئے اور ان پر انٹرنیشنل بورڈ آف کرکٹ نے پابندی لگادی۔ غریب گھرانوں کے یہ نوجوان جب دولت دیکھتے ہیں تو ان کے ہوش و حواس گم ہوجاتے ہیں۔ لاکھوں میں تنخواہ پانے کے بعد بھی ان کی بھوک نہیں مٹتی۔ یہ میچ فکس کرلیتے ہیں۔ عالمی سطح پر کھربوں روپے کا جوا کھیلنے والوں کے ساتھ بن جاتے ہیں۔ یوں یہ طے شدہ پلان کے تحت وکٹیں گنواتے ہیں۔ غلط بائولیں کرواتے ہیں۔ کیچ چھوڑتے ہیں۔ ہارے ہوئے میچ کو جیت کر یا جیتے ہوئے میچ کو ہار کر کروڑوں روپے کمالیتے ہیں۔ کسی مضبوط ٹیم سے جیت کر جوئے میں بڑے حصے کے مالک بن جاتے ہیں یا کسی کمزور ٹیم سے ہارکر مال و دولت جیت لیتے ہیں۔ سٹے بازوں کے شہ سوار ہندوستانی ہیں جو ہر گھوڑے پر رقم لگاتے ہیں۔ گھوڑوں کو کبھی شاہی راتب ملتا ہے یا بوقت ضرورت اُن کو بھوکا رکھ کر لڑوایا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر کھلاڑیوں کی بیگمات، اُن کے بھائی بہن حتیٰ کہ ماں باپ بھی دھن دولت دونوں ہاتھوں سے اکھٹا کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے کرکٹ بورد کے کئی بڑے اہلکار جوئے کے کھیل میں ملوث ہیں۔ ہمارا چیف سلیکٹر آسٹریلیا کے جوئے خانے میں اپنی بیگم کے ہمراہ جوا کھیلتا ہوا پکڑا گیا ہے۔ ٹیم کی سیکشن میں بدترین اقربا پروری دکھائی جاتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے قریبی رشتہ دار پی سی بی کو اندرون خانہ چلاتے ہیں۔ من پسند کھلاڑی شامل کرلیے جاتے ہیں جو اربوں روپے کے سٹے میں ملوث ہوکر ان قومی راہنمائوں کے لیے دولت اکھٹی کرتے ہیں۔ پنجاب کے ایک عبوری وزیراعلیٰ کو بار بار پی سی بی میں اہم منصب پر فائز کیا جاتا رہا ہے۔ عدالتی فیصلے کے باوجود ان حضرت کے پاس نجانے کونسی جادو کی جھڑی ہے کہ نگاہِ انتخاب سیدھی ان پر جاٹکتی ہے۔ ہمارے راہنمائوں اور قوم کو ہوش کے ناخن لینا چاہییں۔ ہوش و حواس گنواکر مجنون پاگلوں کا وطیرہ نہایت درجہ غیرصحت مند ہے۔ ہمیں کھیل کود کی بھی ضرورت ہے۔ ایسے کھیل جو جسم کو مضبوط بنائیں اور ہمیں تفریح مہیا کریں۔ کرکٹ پر ایک مقروض قوم کا یوں اربوں روپیہ پھونک دینا دانشمندی نہیں۔ عام کھلاڑیوں کو قومی ہیرو بناکر پیش کرنا ہمیں عقلی طور پر ایک قلاش قوم ثابت کرتا ہے۔ ہم کرکٹ کی عیاشیوں میں یادِ خدا بھول چکے ہیں۔ ٹیم کے ہارنے پر درندگی کے مظاہرے بتاتے ہیں کہ ہم خوفِ خدا کو بھی تج چکے ہیں۔ ہم زمینی توازن گنواکر حیوانوں میں جاگھسے ہیں۔ ہم ایک خطرناک بیماری mega lomania کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس بیماری کے مریض بظاہر بڑی بڑی باتیں بناتے ہیں، درحقیقت وہ اخلاقی زوال کے پاتال کو چھولیتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کو چلانے والوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے اس دماغی خلجان کو ہوا دے رکھی ہے۔ لوگوں کو مریض بناکر رکھ دیا ہے۔ ایک خطرناک نشہ ٹی وی اسکرین کے ذریعے قوم کی نسلوں میں اُتارا جارہا ہے۔ ہم اپنے معاشرتی فریضوں کو نظرانداز کرکے غلط سمت میں رواں دواں ہوگئے ہیں۔ اگر میڈیا ہمیں یہ بتارہا ہے کہ پاکستان کے لیے دنی ابھر میں اُمید کی واحد کرن اُس کی کرکٹ ٹیم ہے تو ہمیں خود کو مسلمان کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ خدا اور رسول کے بتائے نورانی راستوں کو چھوڑ کر ہم بے دین فرنگیوں کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں ہر آبادی میں پارک ہوں، کھیل کود کے گرائونڈ ہوں، جہاں فارغ وقت میں بچے بڑے جی بھر کے کھیلیں۔ وہ دل کھول کے تفریح کریں۔ اس طرح وہ اپنے روزمردہ کام اور پڑھائی بہتر طور پر کرسکیں گے۔ کھیل کے میدان سے نکلتے ہی ہر بڑا چھوٹا اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا رول ادا کرے۔ مذہب ہمیں جائز تفریح سے نہیں روکتا، لیکن اگر یہی تفریح ایک خوفناک ذہنی آزار بن جائے، لوگوں کی عقل و شعور کو مختل کردے تو اسے فوری طور پر روکنا ہوگا۔
موت کا سفر
چھاپیے
تحریر یاسر محمد خان
چند روز قبل ملک میں ایک سنگین ٹریفک حادثہ ہوا۔ اس میں 67 ہلاکتیں ہوئیں۔ 42 مرد، 11 بچے اور 9 خواتین جاں بحق ہوگئیں۔ 10 اور 11 جنوری کی درمیانی رات کراچی کے میمن گوٹھ تھانہ کی حدود میں لنک روڈ پر ایک آئل ٹینکر اور مسافر بس کے درمیان خوفناک تصادم ہوا۔ آئل ٹینکر غلط راستے پر آرہا تھا۔ رات کے 2 بج رہے تھے۔ بسوں کے متعدد مسافر سوئے ہوئے تھے۔ اس ٹکرائو کے بعد بس میں فوراً آگ پھیل گئی۔ باہر کے راستے میں بھی سیٹیں لگاکر مسافر بٹھائے گئے تھے۔ یوں اس الائو کے بھڑکنے کے بعد مسافر بس سے نہ نکل سکے۔ چھت پر بیٹھے مسافروں نے کود کر اپنی جانیں بچائیں۔ سی این جی سلنڈروں کے پھٹنے کے بعد قیامت کا منظر تھا۔ یوں لاشیں جل کر ناقابل شناخت ہو گئیں۔ فائر بریگیڈ کے پہنچنے میں کئی گھنٹے لگے۔ اس وقت تک تباہی اپنے نقطۂ عروج سے گزر چکی تھی۔ پھر قانون نافذ کرنے والے سوئے ہوئے ادارے حرکت میں آگئے۔ ملک بھر میں ہر طرف سے اظہار افسوس ہونے لگا۔ بس اڈّے کا ریکارڈ ضبط کرلیاگیا۔ بسوں کے لیے نئے نئے قانون بنانے کا مطالبہ زور پکڑگیا۔ آئل ٹینکر کے مالک اور ڈرائیور کی تلاش میں چھاپے مارے جانے لگے۔ 3 ماہ پہلے 11 نومبر کو خیرپور میں پشاور سے کراچی جانے والی مسافر بس اور آئل ٹینکر کے درمیان تصادم میں 60 افراد جل گئے تھے۔ چند روز بعد اس خوفناک واقعہ کو بھلادیا گیا۔
ان چند سالوں کے یاد آجانے والے بڑے حادثوں میں نواب شاہ میں ڈمپر نے اسکول بس کو کچل کر 22 بچوں کو شہید کیا تھا۔ کوئٹہ اور تربت سے کراچی آنے والی 2 بسوں میں گڈانی کے قریب موڑ کاٹتے ہوئے تصادم میں 40 افراد جاں بحق ہوئے۔ پنوں عاقل کے قریب سانگی میں مسافر کوچ اور ٹراہلر میں تصادم سے 40 افراد جاں بحق ہوئے۔ ہر بڑے حادثے کے بعد قومی سطح پر ایک وقتی ہلچل سی مچتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ بڑا ہونے کو جا رہا ہے۔ چند ہی دنوں بعد سسٹم اسی طرح رواں دواں ہو جاتا ہے۔
٭ اگر ہم بحیثیت قوم حادثات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ٹریفک اصولوں اور ضابطوں کو اپنانا ہو گا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہمارے ملک میں ہونے والے بیشتر خوفناک حادثے روکے جا سکتے ہیں۔ ٭ ہمیں درست ڈائریکشن میں چلنا ہو گا تاکہ ہماری سڑکیں مقتل بن کر نہ رہ جائیں۔ہمارا ہر سفر موت کی شاہراہ سے ہو کر نہ نکلتا ہو۔ ہم حادثوں کے ان سارے بڑے بڑے اسباب کو دور کر کے حادثوں میں کئی گنا کمی کر سکتے ہیں۔ ٭ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ سڑکوں کی ابتر حالت ہے۔ سڑکوں کو تعمیر کرنے کے لیے جو بین الاقوامی تقاضے ہیں، انہیں سرے سے پورا نہیں کیا جاتا۔ سڑکیں بنانا ہمارے تعمیراتی ماہرین کے لیے سونے کی کانیں کھودنے کے مترادف ہے۔ ٭
ٹریفک حادثات میں پاکستان دنیا بھر میں بہت ہی بڑے ریکارڈ کا حامل ہے۔ اگر صرف پچھلے 10 سال کا ریکارڈ دیکھا جائے تو یہ نہایت درد ناک تصویر کشی کرتا ہے۔ 2005ء میں ملک میں 9492 حادثے ہوئے جن میں 4868 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ 11415 افراد زخمی یا اپاہیج ہوگئے،10565 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔2006ء میں 10446 حادثے جن میں 5465 افراد جاں بحق اور 12875 زخمی ہوئے، 11481 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2007ء میں 10466 حادثے ہوئے۔5615 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ 12096 افراد زخمی ہوئے اور 11456 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2008ء میں 9496 حادثے ہوئے جن میں 4907 افراد جاں بحق اور 11037 زخمی ہوئے اور 10322 گاڑیاں ان حادثوں میں تباہ ہوگئیں۔ 2009ء میں9747 ٹریفک حادثے ہوئے جن میں 5380 افراد جاں بحق اور 11173 افراد زخمی ہوئے، 10496 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2010ء میں 9723 حادثے ہوئے جن میں 5271 افراد جاں بحق ہوگئے، 11383 افراد زخمی ہوگئے، جبکہ 10822 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2011ء میں 9140 حادثے ہوئے، 4758 افراد جاں بحق ہوئے۔ 9710 زخمی ہوئے جبکہ 9876 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2012ء میں 8988 حادثے ہوئے۔ ان میں 4719 افراد جاں بحق ہوئے۔ 9710 زخمی ہوئے، جبکہ 9877 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2013ء میں 8359 حادثے ہوئے۔ ان میں 4348 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ 9777 زخمی ہوئے اور 9423 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2014ء میں 9752 حادثے ہوئے، ان میں 5773 افراد جاں بحق ہوئے، 12737 افراد زخمی ہوئے، جبکہ 10072 گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔
صو بہ پنجاب میں 2005ء میں 4431 حادثے ہوئے جن میں 2500 افراد جاں بحق، 5408 زخمی اور 4571 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2006ء میں 5355 حادثے ہوئے،
3096 افراد جاں بحق جبکہ 6371 زخمی اور 5355 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2007ء میں 5522 حادثے 3293 افراد جاں بحق ،6163 زخمی اور 5240 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2009ء میں 5344 حادثے ہوئے جن میں 3083 افراد جاں بحق ،5856 زخمی اور 5344 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2010ء میں 5420 حادثے ہوئے ،3167 افراد جاں بحق اور 5809 زخمی جبکہ 5420 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2011ء میں 4990 حادثے ہوئے جن میں 2880 افراد جاں بحق اور 5071 زخمی ہوئے اور4990 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2012ء میں 4517 حادثے ہوئے جبکہ2692 افراد جاں بحق اور 4515 زخمی ہوئے اور4587 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2013ء میں 3696 حادثے ہوئے2145 افراد جاں بحق اور 3941 زخمی ہوئے جبکہ 3696 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2014ء میں 3405 حادثے ہوئے جن میں 2442 زخمی اور 3400 گاڑیاں جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔
صوبہ سندھ میں 2005ء میں1809 حادثے ہوئے1239 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ1260 زخمی ہوئے اور 2034 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2006ء میں 1618 حادثے ہوئے 1079 افراد جاں بحق اور 1303 زخمی ہوئے اور1758 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔2007ء میں1561 حادثے ہوئے1066 افراد جاں بحق جبکہ1135 زخمی ہوئے اور1722 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2008ء میں 1433 حادثے ہوئے961 افراد جاں بحق، 1160 زخمی اور 1562 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2009ء میں 1465 حادثے ہوئے،1031 افراد جاں بحق 1261 زخمی اور 1580 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2010ء میں 1270 حادثے ہوئے،927 افراد جاں بحق 1071 زخمی اور 1541 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2011ء میں 1054 حادثے ہوئے756 افراد جاں بحق، 681 زخمی اور 1121 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2012ء میں935 حادثے ہوئے، 696 افراد جاں بحق، 637 زخمی اور 960 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2013ء میں 945 حادثے ہوئے، 791 افراد جاں بحق، 893 زخمی اور 1103 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2014ء میں 885 حادثے ہوئے،752 افراد جاں بحق، 1202 زخمی اور 892 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔
صوبہ خیبرپختونخواہ میں 2005 ء میں2732ٹریفک حادثے ریکارڈ کیے گئے 875 افراد جاں بحق، 400 زخمی اور 3366 گاڑیاں تباہ ہوئیں، 2006ء میں 2942حادثے ہوئے1006 افراد جاں بحق1 442 زخمی اور3756گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2007ء میں 2893 حادثے ہوئے 942 افراد جاں بحق، 3884 زخمی اور 3634 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2008ء میں2392 حادثے ہوئے،786 افراد جاں بحق، 3340 زخمی اور 2975 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2009ء میں 2559 حادثے ہوئے، 921 افراد جاں بحق، 3560 زخمی اور 3128 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2010ء میں 2722 حادثے ہوئے،3560 زخمی اور 3128 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2011ء میں 2772 حادثے ہوئے،953 افراد جاں بحق، 3913 زخمی اور 3501 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2012ء میں 2968 حادثے ہوئے، 1059 جاں بحق، 4016 زخمی اور 3736 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2013ء میں 3120 حادثے ہوئے،1033 افراد جاں بحق، 4252 زخمی اور 3934 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2014ء میں 3107 حادثے ہوئے، 856 افراد جاں بحق، 4149 زخمی اور 3087 گاڑیاں جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔
صوبہ بلوچستان میں 2005ء میں 520 ٹریفک حادثے ہوئے، 254 افراد جاں بحق، 741 زخمی اور 594 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2006ء میں 551 حادثے ہوئے، 284 افراد جاں بحق، 840 زخمی اور 612 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2007ء میں 490 حادثے ہوئے 314 افراد جاں بحق، 914 زخمی اور 578 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2008ء میں 431 حادثے ہوئے، 248 افراد جاں بحق، جبکہ 747 زخمی اور 545 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2009ء میں 379 حادثے ہوئے، 245 افراد جاں بحق، 496 زخمی اور 444 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ 2010ء میں 311 حادثے ہوئے، 191 افراد جاں بحق، 350 زخمی اور 382 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔2011ء میں 324 حادثے ہوئے، 161 جاں بحق، 480 زخمی اور 374 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ 2012ء میں 297 حادثے، 163 افراد جاں بحق، 362 زخمی جبکہ 381 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 2013ء میں 342 حادثے ہوئے، 247 افراد جاں بحق ہوئے، 480 زخمی اور 434 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔2014ء میں 282 حادثے ہوئے، 233 افراد جاں بحق، جبکہ 448 زخمی اور 272 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ ان سارے اعداد و شمار میں ریلوے ،ایرکریش یا کسی ارضی و سماوی آفت سے ہونے والی اموات شامل نہیں۔ یہ سب ماجرا ہماری سڑکوں کا ہے وہ سڑکیں جو شاہرہ موت کی طرف جاتی ہیں۔ اور جن پر اژدھام وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔
پاکستان میں ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ سڑکوں کی ابتر حالت ہے۔ سڑکوں کو تعمیر کرنے کے لیے جو بین الاقوامی تقاضے ہیں، انہیں سرے سے پورا نہیں کیا جاتا۔ سڑکیں بنانا ہمارے تعمیراتی ماہرین کے لیے سونے کی کانیں کھودنے کے مترادف ہے۔ دنوں ہفتوں میں سڑکیں گڑھے بن جاتی ہیں۔ بڑی سڑکیں ون وے کی بجائے ٹووے ہیں جن پر دونوں اطراف سے بھاری ٹریفک چلتی رہتی ہے۔ حادثات کی روک تھام کے لیے سڑکوں کو ون وے بنانا لازمی امر ہے۔ ہمارے ڈرائیور حضرات کو پوری طرح تربیت یافتہ کرنا اشد ضروری ہے۔ کون نہیں جانتا کہ رشوت کے ذریعے ڈرائیونگ لائسنس کا حصول ہمارے ملک میں کتنا آسان ہے۔ ایسے ڈرائیورز روڈ پر نکل کر انسانی جان کے لیے بہت بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔ لمبے روٹ پر چلنے والی بسوں اور ٹرکوں کے ڈرائیورز کو نیند پوری کرنے کا موقع نہ دینا ایک سفاک عمل ہے۔ ایسے ڈرائیورز بڑے حادثات کا موجب بن جاتے ہیں۔ ڈرائیور حضرات میں نشہ بازی عام ہے۔ منشیات کا بے محابہ استعمال بھی حادثات کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ موبائل فون کا ڈرائیونگ کے دوران استعمال کسی بھی وقت بڑے حادثات کا باعث بن سکتا ہے۔
بسوں کی خستہ حالی،مسافروں کو گنجائش سے زیادہ لاد دینے ،ٹریفک قوانین کی طرف سے صریح لاپروائی بھی انسانی جانوں کے ضیاع کا بڑا باعث ہے۔ مقررہ رفتار سے تیز اسپیڈ پر گاڑیاں چلانا، گاڑیوں میں کان پھاڑنے والا میوزک بجانا ،ٹریفک سگنل توڑنا بھی ہمارے ملک میں جواں مردی کا بڑا نشان سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہم بحیثیت قوم حادثات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان سارے اصولوں اور ضابطوں کو اپنانا ہو گا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہمارے ملک میں ہونے والے بیشتر خوفناک حادثے روکے جا سکتے ہیں۔ جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ تباہ حال خاندانوں کے جاں لیوا عذابوں کو ٹالا جا سکتا ہے۔ ہمیں درست ڈائریکشن میں چلنا ہو گا تاکہ ہماری سڑکیں مقتل بن کر نہ رہ جائیں۔ہمارا ہر سفر موت کی شاہراہ سے ہو کر نہ نکلتا ہو۔ ہم حادثوں کے ان سارے بڑے بڑے اسباب کو دور کر کے حادثوں میں کئی گنا کمی کر سکتے ہیں۔
دوستی کا سفر
چھاپیے
تحریر یاسر محمد خان
’’رابرٹ گرنیئر‘‘ 2001ء میں سی آئی اے کا پاکستان میں اسٹیشن کمانڈر تھا۔ افغانستان پر امریکی حملے کے دوران اُس نے اپنے ملک کے لیے خدمات انجام دیں۔ حال ہی میں اُس کی ایک کتاب ’’88 Days to Kandahar‘‘ شائع ہوئی ہے۔ کتاب کا آغاز اُن امریکی سازشوں سے ہوتا ہے جن سے طالبان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوششیں کی گئیں۔ امریکی ان سازشوں میں کامیاب نہ ہوسکے۔ کتاب کے آخر میں گرنیئر ان نتیجے پر پہنچتا ہے کہ افغانستان پر عسکری حملہ ناکام ہوچکا ہے۔ امریکا من چاہے رزلٹ حاصل نہیں کرپایا۔ اب اُسے میدانِ جنگ میں ناکامی کو مذاکرات کے ذریعے کامیابی میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ یوں امریکا نے جون 2013ء میں دوحہ قطر میں طالبان سے مذاکرات کا براہِ راست آغاز کیا۔ کرزئی اس طرح کی ہر بات چیت کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔ اُس نے اس بیل کو منڈھے چڑھنے نہیں دیا۔ یوں یہ مذاکرات ناکام رہے۔ 2014ء میں امریکی افواج کی تعداد افغانستان میں کم ہوکر 10 ہزار رہ گئی۔ 2015ء میں اس میں مزید کمی ہوگی اور یہ 5500 رہ جائے گی۔ 2016ء میں اوباما کی رخصتی کے وقت ایک ہزار امریکی فوجی افغانستان میں مقیم ہوں گے۔ 2014ء میں امریکی فوجی دستوں اور افغان سیکورٹی فورسز پر طالبان حملوں میں 22 گنا اضافہ ہوگیا ہے، اس لیے افغان صدر اشرف غنی نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا قیام بڑھائے ورنہ اس کا اقتدار سمٹ جائے گا۔ نئے امریکی وزیر دفاع اور پنٹاگون چیف ایش کارٹر نے بغیر پیشگی اعلان کے افغانستان کا دورہ کیا ہے۔ اُس نے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے طویل ملاقاتیں کی ہیں۔ اسی دوران دوحہ قطر میں طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات دوبارہ شروع کردیے گئے ہیں۔ مذاکرات کا پہلا دور 19 اور 20 فروری کو 5 رکنی طالبان وفد کے ساتھ ہوچکا ہے۔
٭ امریکی شدید خواہش مند ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی کا تاج اپنے سر پہ رکھ لیں۔ میدانِ جنگ میں شکست کو ٹیبل ٹاک کے ذریعے جیت لیا جائے۔ ٭ افغانستان میں امن ہوتا ہے تو اس کے مثبت اثرات تمام خطے پر پڑیں گے۔ پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین وطن واپس لوٹ سکیں گے۔ ٭
ہمارے آرمی چیف نے کابل کے دورے کے دوران افغان حکومت کو اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی۔ چین نے بھی قیامِ امن کے لیے حکومت اور طالبان کے درمیان فاصلے کم کرنے کے لیے انتہائی مثبت رول ادا کیا ہے۔ طالبان وفد نومبر میں بیجنگ کا دورہ کرچکا ہے۔ طالبان نے امریکا کی بجائے چین کو قابل بھروسہ قرار دیا ہے۔ یوں افغان طالبان نے وسعتِ نظر اور عمیق دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکی نیشنل سیکورٹی کونسل کی ترجمان برناڈیٹ میھان نے جاری ساری مصالحتی کوششوں کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ افغانستان میں امریکا کے اعلیٰ کمانڈر جنرل جان کیمبل اور سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل آسٹن نے بھی افغان حکومت کی جاری تمام امن کوششوں کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا ہے۔ اُدھر امریکا میں وہائٹ ہائوس کی زیر صدارت ایک بڑی دلچسپ کانفرنس ہوئی ہے۔ اس میں اقوام متحدہ، یورپی یونین، آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس سمیت دنیا کے 60 ملکوں کے نمایندے شریک ہوئے۔ اسے ’’عالمی امن کانفرنس‘‘ کا نام دیا گیا۔ اختتام پر ایک اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اُس میں کہا گیا: ’’عالمی سطح پر دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو کسی مذہب، قومیت اور تہذیب سے منسوب نہ کیا جائے۔‘‘ امریکی مندوب کا ستم ظریفانہ بیان ملاحظہ ہو: ’’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ غیرریاستی عسکریت اور دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے فقط ملٹری فورس کا استعمال اور انٹیلی جنس اطلاعات اکھٹی کرنا اور اس کا تبادلہ کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے قانون کی مکمل حکمرانی اور کمیونٹی کی بنیاد پر حکمت عملی جیسے مطلوب اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘ امریکی مندوب آگے جاکر لکھتا ہے: ’’دہشت گردی کے خطروں سے مقابلہ کرنے کے اقدامات میں ایسی حکمت عملی کو اختیار کرنا چاہیے کہ بین الاقوامی قانون کا مکمل نفاذ کیا جاسکے۔ خاص طور پر انسانی حقوق کا بین الاقوامی قانون، پناہ گزینوں کے لیے بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے قوانین کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد پر عمل کیا جائے۔‘‘ یوں 14 برس افغانستان میں خوار و زبوں ہوکر بدترین شکست کا تاج پہن کر امریکا اب امن کانفرنسیں کررہا ہے۔ وہ ایسے نتائج نکال رہا ہے جو اگر 2001ء میں نکال لیتا تو عالمی امن کو یوں غارت گری کے مقتل تک نہ لے جاتا۔ صبر وتحمل اور دانائی کا دامن پکڑ کر امریکا دہشت گردی کے موذی عفریت کو جنم دینے سے بچ جاتا۔ یوں وقت نے ثابت کیا کہ عقل و شعور سے عاری زبردست فوجی قوت کتنے بڑے پیمانے پر ہلاکت اور تباہی پھیلاسکتی ہے۔ صدر بش جیسا چغد نائن الیون کے بعد کروسیڈ کا اعلان کرنے لگا۔ یوں عیسائیت اور اسلام کے درمیان بڑے پیمانے پر ایک جنگ چھیڑدی گئی۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ پھیلتا چلاگیا۔ عراق پر امریکا اور اتحادیوں کی فوجوں نے لشکرکشی کی۔ لاکھوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ ایک پرامن ملک کو خوفناک سول وار کا تحفہ دیا۔ امریکا نے لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ ملک میں خوفناک خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ الجزائر اور مصر میں ووٹ کے ذریعے آنے والی حکومتوں کے تختے اُلٹے گئے۔ یوں امریکیوں کو ناپسند حکومتیں چلتا کردی گئیں اور ان کی جگہ من پسند کٹ پتلیوں نے لے لی۔ دونوں ملکوں میں متحارب گروہ ایک دوسرے کا خون بہارہے ہیں۔ وہاں امن قائم ہونا ناممکن حد تک مشکل ہوگیا ہے۔ امریکا نے خون آشام یہودیوں کو شہ دی تو انہوں نے فلسطین اور لبنان میں وسیع پیمانے پر قتل و غارت گری کرکے وہاں امن کو تباہ کردیا۔ یہودیوں کی کارروائیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ فہم و فراست سے عاری ان لوگوں نے افغانستان کو راکھ کا ڈھیر بناڈالا۔ پھر بھی ان کے مقدر میں شکست و نامرادی کے انبار آئے ہیں۔ یہ اگر نائن الیون کے بعد ہوش و حواس میں رہتے اور پرامن انداز میں مسئلے حل کرتے تو لاکھوں بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ نہ رنگتے۔ ان پاگل جنونیوں نے انسانی بستیوں میں کارپٹ بمباری کی۔ اسکول، مدرسے، ہسپتال چن چن کر مسمار کردیے۔ سڑکیں پل تباہ ہوگئے ۔ خوراک کا حصول غیرممکن ہوگیا۔ مجبور مخلوق فاقوں مرنے لگی۔ روس اور امریکا دونوں سپر پاوروں نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا، مگر افغانستان کو ختم نہ کرپائے۔ اُن سے پہلے برطانیہ بھی اپنے زخم چاٹتا ہوا وہاں سے فرار ہوا تھا۔ امریکی اور نیٹو افواج نے بھاری جانی اور مالی نقصان اُٹھایا۔ ہزاروں تابوت بگرام سے پرواز کرکے مرنے والوں کے ملکوں کو گئے۔ اہم تنصیبات پر پیہم حملوں نے امریکیوں کو چند ایک مقامات تک محدود کردیا۔ وہ وہاں سے نکل کر کبھی بھی افغانستان کے طول و عرض میں نہ پھیل سکے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی یہ کمین گاہیں بھی غیرمحفوظ ہوتی رہیں۔ کرزئی کا اقتدار کابل کے چند گلی کوچوں سے آگے نہ بڑھ پایا۔ اُسے کابل کے میئر کا خطاب مل گیا۔ امریکی بندوقوں کے سائے میں وہ مسلسل بڑھکیں لگاتا رہا، بے سروپا ہانکتا رہا۔ کرزئی نے افغانستان میں قیام امن کی راہ میں ہمیشہ پاکستان کو ایک رکاوٹ قرار دیا۔ 2001ء کے بعد سے پاکستان نے دوستوں اور دُشمنوں کی تفریق ختم کردی تھی۔ ہم امریکا کی قیادت میں ایسی جنگیں لڑنے لگے جن کی کوئی سمت متعین نہ تھی۔ ملک پر بے یقین کا ایسا کہرا چھایا کہ کچھ دکھائی نہ دیتا تھا، کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ پاکستان میں سی آئی اے اور اُس کی طفیلی ایجنسیاں دندناتی پھرتی تھیں۔ ایک ہاہاکار تھی جو ملک میں دس بارہ برس مچی رہی۔ حکومت کی پالیسی کیا ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ ہمارے ہوائی اڈّوں کو غیرملکی کنٹرول میں دے دیا گیا۔ اُن کے ذریعے سے اسلحہ بارود و شرابیں دھڑا دھڑ افغانستان منتقل ہوتی رہیں۔ افغان جنگ میں ملکی سرزمین پورے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ بے یقینی کی تاریکیاں ایسی پھیلیں کہ کوئی راہِ نجات نظر نہ آتی تھی۔ 2014ء آیا اور افغانستان میں انتخابات ہوئے۔ یہ الیکشن ادھورے رہے، کیونکہ طالبان نے ان کا مکمل بائیکاٹ کیے رکھا۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ اقتدار میں آگئے۔ اشرف غنی کو اس بات کا قوی احساس تھا کہ اقتدار کا جو کیک اُس کے ہاتھ آیا ہے، اُس کا زیادہ حصہ طالبان کا حق تھا۔ وہ جانتا تھا کہ طالبان کو شریکِ اقتدار کیے بغیر ملک میں پائیدار امن قائم نہ ہوپائے گا۔ عبداللہ عبداللہ طالبان کا بدترین مخالف رہا ہے۔ وہ کرزئی جیسی بند گلی کی سوچ کا حاصل شخص ہے۔ اشرف غنی نے وقت کی نزاکت کو محسوس کیا۔ امریکیوں کے کوچ کے بعد اُس کا اقتدار ڈولنا شروع ہوگیا۔ اُس نے فوراً پاکستان کا دورہ کیا۔ جی ایچ کیو میں اُس نے اعلیٰ فوجی حکام سے طویل ملاقاتیں کیں۔ اُس نے افغانستان میں مستقل قیام امن کے لیے پاکستان کی مدد مانگی جو فوراً دے دی گئی۔ یوں ان مہینوں میں ایک نیا منظرنامہ نکھر کر سامنے آگیا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان اور چین اہم رول ادا کررہے ہیں۔ طالبان اور افغانستان حکومت کے درمیان رابطے کروائے جارہے ہیں۔ امریکی شدید خواہش مند ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی کا تاج اپنے سر پہ رکھ لیں۔ میدانِ جنگ میں شکست کو ٹیبل ٹاک کے ذریعے جیت لیا جائے۔
افغانستان میں امن ہوتا ہے تو اس کے مثبت اثرات تمام خطے پر پڑیں گے۔ پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین وطن واپس لوٹ سکیں گے۔ یوں پاکستانی معیشت پر یہ اضافہ بوجھ کم ہوجائے گا۔ افغان طالبان کے حکومت میں حصے دار بننے سے پاکستانی طالبان بھی امن کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ یوں ہم آپریشن پر پورے ایک کھرب 30 ارب روپے صرف کرنے سے بچ جائیں گے۔ یہ اضافی بوجھ دور ہوجانے سے معیشت اپنی اکھڑی ہوئی سانسوں کو بحال کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ افغان بارڈر پر شورشوں کے خاتمے سے ہندوستانی جارحیت کم ہوگی اور ہم دُشمن کو یکسوئی سے جواب دینے کے قابل ہوجائیں گے۔ ان سارے امن مذاکرات اور پاکستان کے اس میں مثبت رول سے ہمیں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ ہتھیاروں کے زور پر مزید انتشار پھیل سکتا ہے۔ پرامن بقائے باہمی کے ذریعے ہم کئی دہکتے محاذوں کو خاموش کرسکتے ہیں۔ چین افغانستان کی تعمیر و ترقی میں پہلے بھی مثبت رول ادا کرتا رہتا ہے۔ امن کے بعد اس کی رفتار بڑھ جائے گی۔ امریکی سپاہ کی شکست ہمیں باور کرواتی ہے، امن کا راستہ ہی خوشحالی کا واحد راستہ ہے۔ آیندہ بھی ہماری حکومتوں کو اپنی بداعمالیو ںسے سبق لینا چاہیے۔ ہم ایک دہائی تک دوست بناتے ہیں۔ دوسری دہائی میں اُن کے قتل و عام میں ساتھی بن جاتے ہیں۔ تیسری دہائی میں بچ جانے والوں کو پھر اپنا اثاثہ قرار دیتے ہیں۔ پھر بین القوامی جھکڑ پر گھوم جاتے اور دوبارہ قتل عام شروع کردیتے ہیں۔ ہمیں میڈیا اور اخبارات پہ چھائے ہوئے اُن مفاد پرستوں سے خبردار رہنا چاہیے جو دوسرے ملکوں کو اپنے باپ دادا کی وراثت سمجھ کر وہاں کے معاملاتِ حکومت اپنے ہاتھ لینا چاہتے ہیں۔ یہ اتنے شاطر ہیں کہ اپنے گھرانوں کی اکانومی پر ہردم نظر رکھتے ہیں۔ قوم و ملک کی اکانومی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مار دھاڑ، قتل و غارت گری، دہشت گردی ان کے نزدیک گھاس کے تنکے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ ہمیں امن کے ہر دُشمن کو پاکستان کا دُشمن سمجھنا ہوگا۔ امریکا اور دوسری بدیسی قوتوں کی بندوقیں اُٹھاکر گھومنا کوئی جواں مردی نہیں۔ ہر ذی ہوش کے لیے افغانستان میں امریکی شکست ایک بہت بڑا سبق رکھتی ہے۔ خدا کرے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں مکمل طور پر پُرامن ہوجائیں۔
کیا واقعی ملک و قوم کی قسمت بدل جائے گی
تحریر یاسر محمد خان
11 فروری 2015ء کا دن پاکستانی تاریخ میں یاد گار رہے گا۔ اُس دن قوم کو یہ نوید ملی کہ ملک میں سونا، چاندی، لوہا اور تانبا کے وسیع ذخائر مل گئے ہیں۔ چینوٹ کے علاقے ’’رجوعد‘‘ میں واقع یہ ذخیرے ریکوڈیک سے 25 گنا زیادہ ہیں۔ چینی اور جرمن ماہرین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان کا یہ علاقہ معدنی دولت سے بے انتہا مالا مال ہے۔ سب سے پہلے جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے اس علاقے میں معدنیات کی خبر دی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت نے اس کا ٹھیکا ارشد وحید نامی ایک پاکستانی نژاد امریکن کو30 سال کے لیے دے دیا۔ یوں اُسے یہ حق مل گیا کہ وہ جتنی چاہے معدنی دولت سمیٹ لے اور حکومت پنجاب کو اس کا 2 فیصد ادا کرتا رہے۔
اس ملک دُشمن معاہدے کو شہباز شریف حکومت نے عدالت میں چیلنج کردیا۔ کورٹ نے اس معاہدے کو منسوخ کردیا اور یوں پنجاب حکومت نے علاقے میں کان کنی کا آغاز کردیا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند جو پہلے ریکوڈیک اور تھر میں معدنیات دریافت کرچکے ہیں، انہیں یہ فریضہ سونپا گیا۔ اس ضمن میں ایک انٹرنیشنل ٹینڈر پاس ہوا اور شفاف انداز میں ایکسپلوریشن کا عمل شروع کیا گیا۔
پنجاب یونیورسٹی، لمس، جیالوجیکل سروے آف پاکستان، لاہور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور میٹرولاجیکل کارپوریشن آف چائنہ نے کان کنی کے عمل کو دن رات جاری رکھا۔ روزانہ صبح ساڑھے 7 بجے سے رات ساڑھے 11 بجے تک کام ہوتا رہا۔ زمین کی تہہ سے ایک ہزار میٹر گہرائی میں جاکر معدنی نمونے حاصل کیے جاتے رہے۔ معدنیات کو کیمیکل اور فزیکل ٹیسٹنگ کے لیے سوئٹزرلینڈ اور کینیڈا بھجوایا گیا۔ وہاں سے بھرپور تصدیق ہوئی کہ اعلیٰ ترین کوالٹی کا سونا، تانبا، چاندی اور لوہا نمونوں میں نہایت وافر مقدار میں موجود ہے۔ جرمن ماہر معدنیات ڈاکٹر جرگن نے چنیوٹ کو کاپر سٹی قرار دیا ہے۔ اس بے پناہ دولت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ٹن خام تیل کی قیمت 300 ڈالر ہے، جبکہ ایک ٹن تانبہ اُس سے 20 گنا زیادہ مالیت کا مالک ہے۔ یہ بین الاقوامی مارکیٹ میں 6 ہزار ڈالر میں بکتا ہے۔ سونا فی اونس 1200 ڈالر اور چاندی فی اونس 21 ڈالر میں پکی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے دوران پاکستانی سائنسدانوں، ماہرینِ ارضیات، کان کن انجینئروں کارپوریٹ سیکٹر کے محب وطنوں نے دن رات محنت کی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی ممکنہ خوشحالی میں ایک نئے دور کا اضافہ ہوگیا ہے۔ چینی کمپنی 2015ء تک اپنا کام ختم کردے گی۔ اس سارے پروجیکٹ کی اکنامک فیز یبلی رپورٹ 2016ء کے آغاز میں مہیا کردی جائے گی۔ تانبے، لوہے، چاندی، سونے کے لیے یہاں ریفائنریاں بنیں گی۔ یہاں ایک اسٹیل ملز لگنے سے ہزاروں پاکستانیوں کو روزگار دستیاب ہوجائے گا۔
٭ اتنی وافر معدنیات اور خزانوں کے ہوتے ہوئے ہم بین الاقوامی سود خوروں کے چنگل میں اور بُری طرح پھنستے جارہے ہیں۔ ٭ حکمرانوں سے درخواست ہے کہ ربّ کریم کی ان انمول نوازشات کو عوام کی دُکھی زندگیوں تک پھیلادیں۔ ٭
اس سے قبل بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام ریکوڈک میں سونے کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے تھے۔ اسلم رئیسانی کی حکومت نے فرانس کی ایک کمپنی ٹیتھان کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔ اس بے انتہا معدنی دولت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سورج کی روشنی میں انسانی آنکھ اس وسیع ذخیرہ سے خیرہ ہوجاتی ہے۔ مذکورہ معاہدے میں بلوچستان حکومت کو کل آمدنی کا 5 فیصد ملنا منظور کرلیا گیا۔ ٹیتھان نے اپنا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو فروخت کردیا۔ پاکساتن کی دولت کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر سپریم کورٹ نے سو موٹو ایکشن لیا اور سارے معاہدے کو منسوخ کردیا۔اب ٹیتھان بین الاقوامی کورٹ آف جسٹس میں چلی گئی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے معاہدے میں اقرار کر رکھا ہے کہ حکومت پاکستان اگر معاہدے کی خلاف ورزی کرے گی تو ہرجانہ ادا کرے گی۔ قانون دان واشگاف انداز میں کہہ رہے ہیں کہ اگر پاکستان کو ہرجانہ ادا کرنا پڑا تو ملک کنگھال ہوکر رہ جائے گا۔ یوں ہماری عاقبت نااندیشی کی وجہ سے ہم معدنیات کے اس وسیع ذخیرے کی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔
سینڈک کے ذخائر پر بھی غیرملکی کمپنیاں قابض ہوچکی ہیں۔ وہاں سے دولت نکال کر دھڑا دھڑ بیرون ملک منتقل کی جارہی ہے۔ پاکستان اس معاہدے سے بھی بہت کم نفع کمارہا ہے۔ دراصل ایسے معاہدوں کے کرنے والے اُن سے بالا بالا کمیشن سمیٹ کر ایک طرف ہوجاتے ہیں۔
نقصان ملک کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ تھر سے کوئلے کے جو وسیع ذخیرے ملے ہیں، ہم ابھی تک اُن کے بارے میں کوئی قومی لائحہ عمل نہیں بنا پائے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے حکومت کو ایک پلان بناکر دیا تھا۔ اس اس کی رو سے یہ معدنی دولت ڈینرل میں منتقل کی جاسکتی ہے۔ کئی مہینے گزرنے کے بعد بھی حکومت نے اس جانب کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ اُدھر جاپان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرینِ ارضیات نے کہا ہے کہ تھر سے کوئلہ نکالنے سے زمین کی Aquafare شدید متاثر ہوگی اور سندھ میں پانی کی شدید ترین قلت پیدا ہوجائے گی۔ اس سارے پروجیکٹ پر ہماری حکومت ذہنی مفلوج کا کردار ادا کررہی ہے۔ تھر میں کوئلہ ملنے پر خوشی کے بعد اب اُس پر بے حسی کی اوس جمتی جارہی ہے۔
ہمارے ملک میں کوئلے کے ذخیرے کوہستان، سوات اور کوہلو میں پائے جاتے ہیں۔ خصوصاً کوہستان کا کوئلہ سب سے اعلیٰ کوالٹی کا ہے۔ ماربل کی کانیں بلوچستان، کوہستان، سوات، باجوڑ اور وزیرستان میں ہیں۔ بین الاقوامی طور پر ماربل کی کٹائی میں 8 فیصد سے زیادہ ماربل ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری بدبختی دیکھئے کہ ہم دھماکوں سے ان قیمتی پتھروں کو توڑتے ہیں۔ یوں 43 فیصد پتھر خاک بن جاتا ہے۔ ہم اعلیٰ معیار کی مشینری سے محروم ہیں۔ یورپ میں یہ کام لیزر کے ذریعے ہوتا ہے۔ لوہے کے ذخیرے کالا باغ اور چنیوٹ میں وافر ہیں۔ تانبا کوہستان، گلگت، بلتستان، ناران اور کاغان میں خاصی مقدار میں موجود ہے۔ جپسم چکوال، جہلم درّہ آدم خیل میں اور فاسفیٹ کی کانیں ہزارہ میں خامی مقدار میں ہیں۔ جم اسٹون (ایک قیمتی پتھر) سوات کے علاقے میں پایا جاتا ہے۔ یوں قدرت نے ہمیں ملک کے طول و عرض میں فراوان معدنی دولت دے رکھی ہے۔ ہم نے اس بابت کوئی ٹھوس قومی پالیسی نہیں بنائی۔ زیادہ تر حکمرانوں نے یہ قدرت کے یہ عطیے کوڑیوں کے بھائو بین الاقوامی سوداگاروں کو بیچ ڈالے۔ اپنی جیبیں بھریں اور ملک کے مستقبل سے لاتعلقی اختیار کرلی۔
کچھ عرصہ پہلے پولینڈ کی ایک بڑی کمپنی نے اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان کو ایک بریفنگ دی۔ بتایا گیا کہ کوئٹہ میں پندرہ بیس سال کے بعد پانی کی سکت قلت درپیش ہوگی۔ ایک ٹیکنالوجی کے ذریعے پشین کے علاقوں میں پانی کے بڑے ذخیروں کا رُخ کوئٹہ کی طرف موڑا جاسکتا ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس پروجیکٹ کو داخل دفتر کردیا۔ انہوں نے دنیا کی دوسری کمپنیوں سے اس بارے میں کوئی آئوٹ پٹ نہ لیا۔ یوں ایک ایسا منصوبہ جس میں مال بننے کے امکانات محدود تھے، اُس کا دفتر شروع ہی میں لپیٹ دیا گیا۔ یہی رویہ ہمیں ہوبہو دوسرے صدیوں میں بھی نظر آتا ہے۔ سندھ میں اقتدار کے شہسواروں نے جو نئے نئے افق دریافت کیے ہیں، انہوں نے سندباد کے سارے محیرالعقول انکشافات کو مات دے دی ہے۔ تھر میں بکھرے کوئلوں کانوں کے ہوتے ہوئے مخلوق خدا بے یارومددگار سسک سسک کر مرے جارہی ہے۔ 84 ملکوں میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق ایک عام پاکستانی کنبہ اپنی آمدنی کا 50 فیصد خوراک پر صرف کرتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں یہ شرح 6 سے 7 فیصد ہے۔ ہندوستان میں مہنگائی کم ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں ایک عام کنبہ اپنی آمدنی کا 25 فیصد غذا پر صرف کرتا ہے۔ پاکستان حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ 60 فیصد آبادی غذائی عدم استحکام کے ہاتھوں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ 50 فیصد عورتیں اور بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 5 سال سے کم عمر کے 44 فیصد بچے ذہنی اور جسمانی طور پر نامکمل نشوونما کا شکار ہیں۔ 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں 35 فیصد اموات کی وجہ شدید غذائی قحط کو قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں 3 فیصد بچے ایسے ہیں جنہیں بین الاقوامی غذائی پلان کے عین مطابق خوراک میسر ہے۔ ایشین ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان میں خوراک کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ 34 لاکھ پاکستانیوں کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیتا ہے۔ 2013-14ء کے اکنامک سروے یہ اعتراف موجود ہے اگر 2 ڈالر یومیہ کو معیار بنایا جائے تو 60 فیصد پاکستانی خط غربت سے نیچے ہیں جس میں سے 50 فیصد شدید غذائی بحران کی زد میں ہیں۔ ایس ڈی پی آئی کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 30 لاکھ پاکستان غربت کی یکسر سے نیچے سرک جاتے ہیں۔ 2008ء کے بعد سے 20 فیصد غریب ترین آبادی کی آمدنی 22 فیصد نیچے گری ہے۔ ہمارے ملک میں صرف 15 فیصد شہریوں اور 18 فیصد دیہاتیوں کو بالکل صاف ستھرا پانی مہیا ہے۔ 80 فیصد سے زیادہ آبادی جو پانی پیتی ہے، اُس میں آرسینک، نائٹریٹ، سلفر اور بیکٹریا خوفناک حد تک ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ 40 فیصد اموات اس گندے پانی کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ بچوں میں 60 فیصد اموات اس بنا پر ہیں۔ ہر سال ڈھائی لاکھ بچے گندے پانی کی وجہ سے موت کی وادی میں اُتر جاتے ہیں۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈاکٹروں کے مطابق ملک کے 80 فیصد امراض آلودہ پانی کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں۔
عام پاکستانی مہنگائی کے خوفناک بوجھ تلے کچلا جاچکا ہے۔ پیٹرول کی قیمت 108 روپے سے 70 روپے تک آگئی ہے۔ یوں اس میں لگ بھگ 38 روپے کی تاریخی کمی ہوچکی ہے، مگر آٹے کی قیمت ایک روپیہ گری ہے۔ ساری اشیائے خورد نوش کی قیمتیں غباروں کی طرح آسمانوں پر چڑھے جارہی ہیں۔ ایشیا بھر میں سروے کرنے والی بڑی تنظیموں نے باقاعدہ جدول سازی کرکے بتایا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح سارے براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ دن بدن اس کی طاقت بڑھتی جارہی ہے اور عوام کی توانائیاں ماند پڑتی جارہی ہیں۔ پچھلے برس مہنگائی کی شرح 8.6 فیصد رہی۔ بے روزگاری بڑھ کر 6.2 فیصد تک پہنچ گئی۔
اس المناک منظرنامے کے بعد حکمرانوں کے شادیانے بجانے پر خوش ہونے کو دل نہیں چاہتا۔ نہیں جانتے کہ چنیوٹ میں 500 ملین ٹن کے ذخیروں کی خبر پر کیا ردّعمل دکھایا جائے؟ کیا واقعی ان سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی؟ عام پاکستانی کی زندگی میں سکھ کی چھائوں آجائے گی۔ اب تک تو اتنی وافر معدنیات کے ہوتے ہوئے ہم بین الاقوامی سود خوروں کے چنگل میں اور بُری طرح پھنستے جارہے ہیں۔ حکمرانوں سے درخواست ہے کہ ربّ کریم کی ان انمول نوازشات کو عوام کی دُکھی زندگیوں تک پھیلادیں۔ ملک سے غربت کا خاتمہ ہو۔ بے روزگاری کے قہر کو مٹادیا جائے۔ مہنگائی کے چڑھتے دریائوں کا راستہ روکا جائے۔ اس ملک کو قدرت نے بے پناہ نواز رکھا ہے۔ عوام نہایت درجہ محنتی ہیں۔ اُن کی ساری توانائیاں اگر صرف خوراک کی بہم رسانی پر مرکوز نہ ہوں گی تو وہ ملک کی تسلیم و ترقی میں کون سا رول ادا کرسکیں گے؟ اگر اُن کا گول محض روئی ہی ہو، جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنا ہی مقصد حیات ہو تو اُن کی زندگیوں میں کون سی چاشنی باقی رہ جائے گی۔ وہ حراست سے یکسر محروم سانسیں لے کر زندہ رہیں گے۔ خدا کرے کہ معدنی دولت کے ساتھ ساتھ قدرت ہمارے حکمرانوں کو گداز قلب بھی عطا کرے۔ اس کے بغیر بڑے سے بڑے ذخیرے بھی راکھ کے ڈھیر سے زیادہ قیمت نہیں رکھتے۔ کشتی سونے کی بنی ہوئی ہی کیوں نہ ہو، ناخدا ہی اُسے ساحل تک پہنچاتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ ایک وسیع و عریض خطہ ہے۔ ان میں سے بعض ملک امن کا گہوارہ ہیں۔ وہاں خوشحالی اور آسودگی ہے، جبکہ بیشتر ملکوں نے ماضی اور حال میں بدترین بدامنی، قتل و غارت گری، فسادات اور دہشت گردی کا سامنا کیا ہے۔ مصر میں دہائیوں تک امریکا نواز حکومتیں رہیں۔ اخوان المسلمون کے اقتدار میں آتے ہی داخلی اور خارجی سازشیں شروع ہوگئیں۔ مرسی حکومت کو ختم کرکے دوبارہ امریکی پٹھو اقتدار میں آگئے ہیں۔ مصر دو گرہوں میں بٹ کر داخلی انتشار کا آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ شام میں پچھلے چار برسوں سے بدترین خانہ جنگی جاری ہے۔
2 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں 10 ہزار 6 سو بچے ہیں۔ 6 ہزار خواتین بھی میں مرنے والوں میں شامل ہیں۔ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال نے 2 ہزار سے زیادہ افراد کی جان لے لی ہے۔ یہ خانہ جنگی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ عراق میں امریکی جارحیت کے دوران 10 لاکھ سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ صدام حکومت کی رخصتی کے بعد سے ملک میں ایک دن کے لیے بھی امن قائم نہ ہوسکا۔ عراق کے زخموں سے بدستور لہو کے فوارے نکلے جارہے ہیں۔ عراقی مہاجرین عرب دنیا میں بھٹکتے پھررہے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اسرائیل نے دہائیوں سے فلسطین اور لبنان میں امن کے پرخچے اُڑا رکھے ہیں۔ دونوں ملکوں میں اُس کی جارحیت کی وجہ سے عورتوں، بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں کا قتل عام جاری رہا۔
انسانی بستیوں پر بے محابہ بمباری سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلادی گئی۔ بڑے ملکوں نے اسرائیل کی درندگی پر مسلسل آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہر سال یہ جن بوتل سے باہر آکر تباہی مچاتا ہے۔ کچھ مذمتی قراردادیں منظور کی جاتی ہیں اور بس۔ اگلے برس آگ اور خون کا یہ کھیل اور زیادہ وقت کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے منفی اثرات سارے مشرق وسطیٰ میں تیزی سے پھیلتے جارہے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، روس، فرانس، جرمنی جیسے ملک اس ضمن میں کوئی بھی فعال کردار ادا نہیں کرپائے۔ یوں یہودیوں کی چیرہ دستیاں ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔
٭ اسرائیل وہ گندی مچھلی ہے جس نے سارے تالاب کے پانیوں کو آلودہ اور بدبودار کر رکھا ہے۔ ٭ مسلم دنیا کو اپنی سادگی کے علاوہ اغیار کی عیاری اور مکاری پر بھی مستقل نظر رکھنا ہوگی۔ ٭
یمن مشرقِ وسطیٰ کے غریب ملکوں میں شامل ہے۔ اس کا کل رقبہ 5,27,829 مربع کلومیٹر ہے۔ آبادی 2 کروڑ 38 لاکھ 33 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ اس کی جی ڈی پی 58.202 ڈالرز پر مشتمل ہے۔ آمدنی فی کس 2 ڈالرز یومیہ سے بھی کم ہے۔ اس پر 33 سال تک علی عبداللہ صالح حکمران رہا۔ اُس کی پالیسیوں نے ملک کو کنگال کرکے رکھ دیا۔ یمن میں پانی کی ایسی قلت پیدا ہوئی کہ 1994ء میں یہاں ایک سول وار کی سی کیفیت درپیش ہوگی۔ پڑوسی ملک مدد کو آئے اور یوں یہ خطرہ ٹلا۔ یمن میں القاعدہ کی جڑیں مضبوط ہیں۔ پاکستان کے بعد یمن ہی وہ ملک ہے جہاں امریکی ڈرون حملے سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ عرب بہار کے بعد مسلم دنیا پر دہائیوں سے حکومت کرنے والے حکمرانوں پر بُرا وقت آیا۔ 2011ء میں علی عبداللہ صالح کے خلاف صنعاء اور دوسرے شہروں میں مظاہر شروع ہوگئے۔ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی۔ حکومت نے مظاہرین سے سختی سے نپٹنے کی حکمت عملی اپنائی۔ 2 ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ 22 ہزار شدید زخمی ہوئے، جبکہ 7 ہزار افراد جیلوں میں قید کردیے گئے۔ علی عبداللہ صالح کے پاس کوئی راہ نجات نہ بچی۔ ناچار اُس کے زہر 2011ء میں مظاہرین سے مذاکرات کیے۔ اقتدار کی قربانی دی اور اپنی آل اولاد کے ساتھ ملک سے باہر چلاگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ علی عبداللہ نے اپنے جانشین کے لیے اپنے بیٹے کو تیار کر رکھا تھا۔ اُس کی یہ پلاننگ بھی ناکام ہوئی۔ فروری 2012ء میں یمن میں نئے حکمران کے لیے پولنگ ہوئی۔ منصور ہادی کو ملک کا صدر چن لیا گیا۔ اُس نے 25 فروری 2012ء کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھالیا۔ نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے باوجود یمن میں مکمل طور پر امن قائم نہ ہوسکا۔ ستمبر 2014ء میں صنعاء کا محاصرہ کرلیا گیا۔ جنوری 2015ء میں صدر اور وزیراعظم مستعفی ہوگئے۔
اقلیت سے تعلق رکھنے والے باغیوں نے 6 فروری کو حکومت پر قبضہ کرلیا۔پارلیمنٹ کو زبردستی تحلیل کردیا گیا۔ 5 رکنی صدارتی کونسل تشکیل دے دی گئی۔ 551 اراکین پر مشتمل ایک نیشنل کونسل بنائی جائے گی جو پارلیمنٹ کے نعم البدل کے طور پر کام کرے گی۔ حوثیوں کے ان اقدامات کے خلاف ملک بھر میں مظاہر شروع ہوگئے ہیں۔ لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ خلیجی ملکوں نے بغاوت کی مذمت کی ہے۔ اسے ناقابلِ قبول اور سنگین عمل قرار دیا ہے۔ بحرین، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے جان کیری سے ملاقات کی ہے اور اُسے اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے جمہوریت کی فی الفور بحالی اور دارالحکومت صنعاء کا محاصر اُٹھالینے پر زور دیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایمن کے حالات خراب سے خراب تر ہورہے ہیں۔ 11 فروری کو امریکا اور برطانیہ نے اپنے سفارت خانے بند کرکے عملے کو یمن سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں اپنے اپنے باشندوں کو یمن سے دور رہنے کی ہدایات جاری کررہی ہیں۔ ملک میں ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ کی وجہ سے سیاحت ہوتی تھی، اُس کا مکمل طور پر خاتمہ ہوچکا ہے۔ بیرونی دنیا سے معاملات دلانے کے لیے درکار حکومت کا وجود نہ ہونے سے سفارتی خلا خطرناک طور پر بڑھ گیا ہے۔ بیرون ملک یمن کے سفارت خانوں کا کوئی راہنما نہیں ہے۔ وہ بے یقینی کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھارہے ہیں۔
کسی اقلیت کا امریکی ہتھیاروں کے زور پر حکومت پر قبضے نے اکثریت کو بھی مسلح جدوجہد کی راہ دکھادی ہے۔ یوں مشرق وسطیٰ جس کے دہانے سے ہمہ وقت آتش فشاں کا لاوہ اُبلتا رہتا تھا، اب اس کا دائرہ ایک اور ملک تک وسیع ہوگیا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں انسانی المیوں کا پہلا بڑا محرک چند ملکوں میں مطلق العنان بادشاہتیں رہی ہیں۔ انہیں ہم دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلی قسم میں علی عبداللہ صالح جیسے حکمران آتے ہیں جنہوں نے اقتدار کا سارا کیک خود ہڑپ کرلیا اور عوام کے لیے شب و روز کو بھاری سے بھاری تر بناتے چلے گئے۔ ایسے حکمرانوں کے چلے جانے کے باوجود ان ملکوں میں شورشیں تھمنے میں نہیں آتیں۔ نئی حکومتیں چند ماہ میں سیاہ کو سفید بنانے میں ناکام رہتی ہیں۔ انجام کار خانہ جنگیاں سر اُٹھالیتی ہیں اور ملکوں کو ہڑپ لیتی ہیں۔ علی عبداللہ کے 33 سال یمن کو مشرقِ وسطیٰ کے غریب ترین ملکوں کی فہرست میں سب سے آگے لے گئے۔ نئے حکمران حالات میں خاطرخواہ سدھار نہ لاپائے اور یوں صدر اور وزیراعظم رخصت ہوگئے۔ شورشیں ملک کو خانہ جنگی کے گرد اب تک لے آئی ہیں۔ اسی خطے میں بعض ایسے ملک بھی ہیں جہاں شخصی حکومتوں کے باوجود امن اور خوشحالی ہے۔ یہاں کے حکمرانوں نے عوام کے شب و روز کو سہل بنارکھا ہے۔ ضروریاتِ زندگی نہایت کم نرخوں پر مہیا ہیں۔ روزگار بہت وافر ہیں اور وہ عوام کو فکرِ معاش سے بالکل آزاد کردیتے ہیں۔ امن و امان کے مسائل ان ملکوں میں دیکھنے میں نہیں آتے۔ یہاں بھلے ان ملکوں میں ’’عرب بہار‘‘ کے بعد بھی کوئی خزاں نہیں آئی۔
مشرقِ وسطیٰ میں انسانی المیوں کا دوسرا سب سے بڑا محرک یہاں کے کچھ ملکوں میں امریکی موجودگی ہے۔ ان ملکوں میں امریکی سپاہ نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ باقاعدہ اُن کی چھائونیاں ہیں۔ بھاری اسلحہ و بارود مہیا ہے، اس لیے امریکا اسرائیل گٹھ جوڑ نے تمام خطے کو خانہ جنگی کے شعلوں میں لپیٹ رکھا ہے۔ یمن اُن ملکوں میں سے ایک ہے جہاں امریکی اپنے سارے جنگی سازو سامان کے ساتھ موجود ہے۔ یہاں القاعدہ پر ڈرون حملے دن رات جاری ہیں۔ اُسے القاعدہ کی طرف سے زبردست مزاحمت درپیش ہے۔ امریکی ہتھیار یمنی مارکیٹ میں بم ہونے کی وجہ سے مسلح گروہوں نے طاقت پکڑلی ہے اور ایک منتخب شدہ حکومت کا خاتمہ کرکے ملک کو زوال کی پاتال کی طرف لیے جارہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ سے باہر بھی جن ملکوں میں امریکا نے حال میں دخل اندازی کی ہے وہاں زبردست بدامنی پھیلی ہے۔ افغانستان میں 13 برس بعد بھی اُسے طالبان کے خلاف کوئی خاطرخواہ کامیابی نہ مل پائی۔ سارا افغان معاشرہ اب امریکی بارود کی کاشت کردہ فصلیں کاٹ رہا ہے۔ معمر قذافی لیبیا کا آمر ہی سہی اُس نے ملک کو ایک کر رکھا تھا۔ امریکیوں نے وہاں دخل اندازی کرکے ملک کو مسلح گروہوں کی جاگیر بنادیا۔ لیبیا میں خونِ مسلم کی ارزانی دیکھ کر اس خانہ جنگی کے جلد ختم ہونے کی کوئی امید باقی نہیں رہ جاتی۔ امریکا نے یہاں جو آگ لگائی تھی، اُس میں اُس کا اپنا سفارتخانہ اور سارے سفارت کار جل کر راکھ ہوگئے۔ لبنان اور صومالیہ میں بھی امریکی دراندازی سے وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔ انجام کار امریکی اپنا نقصان دیکھ کر وہاں سے بھی فرار ہوگئے۔ عراق جیسا ہنستا بستا ملک بھی امریک ہوس کا شکار بن کر مستقل خانہ جنگی کا ٹھکانہ بن گیا ہے۔
آج کی مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال میں اس خطے کے ملکوں پر ایک بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ ان ملکوں کو فعال ہوکر یمن کے منظرنامے کو بہتر بنانا ہوگا۔ سارے متحارب گروہوں کو ایک میز پر اکھٹا کرکے گفت و شنید ہو، کیونکہ ایک مرکزی حکومت کا وجود یمن کے لیے نہایت ضروری ہے۔ یمنی آبادی کے تناسب کو مدنظر رکھا جائے۔ اقلیت اگر اکثریت پار حاوی ہوجائے تو مزید انتشار اور بدامنی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ اقوام متحدہ جس نے مڈل ایسٹ میں مستقل امن کے لیے کبھی کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا، اُسے بھی اب اس نازک صورتحال میں ایک پورے ملک کی تباہی کی طرف پھسلنے کو روکنا ہوگا۔ اس تنظیم کو دنیا پر ثابت کرنا ہوگا کہ یہ صرف یہودی اور عیسائی مفادات کا اکٹھ نہیں ہے۔ مسلم دنیا کے مسائل حل کرنے میں بھی کارگر ہوسکتی ہے۔ عرب لیگ اور او آئی سی ک وبھی سرگرم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایمن میں امن لوٹ آتا ہے تو انہی خطوط پر خطے کے دوسرے ملکوں میں بھی سکون کاشت کیا جاسکتا ہے۔مصر و شام کو بھی اچھا مستقبل دیا جاسکتا ہے۔ فلسطین و لبنان میں بھی اچھے دن لوٹ کر واپس آسکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر امریکی اور اسرائیلی اتحاد کو خطے میں توڑنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل وہ گندی مچھلی ہے جس نے سارے تالاب کے پانیوں کو آلودہ اور بدبودار کر رکھا ہے۔ اس سارے خطے میں امن و سکون کا غارت گر اسرائیل ہے۔ اس کی ہر سازش میں امریکا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یوں ان دونوں نے عرب اکثریت کے اس خطے میں انہیں چین و قرار سے محروم کر رکھا ہے۔ ایک اور مسلم ملک کا زوال کی کھائی کی طرف لڑھکنا ان اسلام دُشمن قوتوں کے لیے خوش کن ہوگا۔ ساری مسلم دنیا کو آگے آنا ہوگا تاکہ یمن جیسی صورتحال وبا کی طرح دوسرے ملکوں میں نہ پھیل جائے۔ مسلم دنیا کو اپنی سادگی کے علاوہ اغیار کی عیاری اور مکاری پر بھی مستقل نظر رکھنا ہوگی۔ خدا ہمیں اس امتحان میں سرخرو کرے، آمین!
خوف کی گہری دھند
تحریر یاسر محمد خان
سری لنکا نے برطانیہ سے 1984ء میں آزادی حاصل کی۔ ملک میں سنہالی اور تامل آبادی کی اکثریت تھی۔ سنہالی اکثریت میں تھے اور تامل اقلیت میں۔ سنہالیوں نے حکومت بنائی تو تامل خم ٹھونک کر میدان میں آگئے۔ تامل لبریشن موومنٹ کی بنیاد رکھی گئی۔ دو دہائیوں تک یہ تحریک نسبتاً پرامن رہی۔ 1972ء میں تامل ٹائیگرز کے وجود میں آنے کے بعد سری لنکا میں دونوں نسلی گروہوں کے درمیان باقاعدہ ایک جنگ کی فضا بن گئی۔ تامل ٹائیگرز نے ملک کی بڑی شخصیات پر حملے شروع کردیے۔ لیڈر شپ قتل ہونے لگی۔ سری لنکا کی فوج ان لوگوں کا خصوصی ہدف بن گئی۔ چھائونیوں میں تواتر کے ساتھ بم دھماکے ہونے لگے۔ فوجی دھڑا دھڑ مرنے لگے۔ نائن الیون کی طرز پر خودکش ہوا بازوں نے اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اسلحہ کے ڈپو اُڑا دیے گئے۔ فضائیہ اور بحریہ کے اڈّوں پر بم دھماکے ہوئے۔
تامل ٹائیگرز نے سری لنکن پولیس فورس پر چند بڑے حملے کیے جن میں ہزاروں سپاہی قتل ہوگئے۔ بسوں، ٹرینوں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، شاپنگ سینٹروں، بازاروں، عبادت گاہوں اور پارکوں میں خودکش بمبار گھس گئے۔ ان دہشت گردوں کی دسترس سے مسجد میں بھی محفوظ نہ رہیں۔
سینکڑوں نمازیوں کو شہید کردیا گیا۔ تامل ٹائیگرز نے جافنا اور گردونواح کے سب علاقوں پر مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور سنہالیوں کا قتلِ عام شروع کردیا۔ گائوں کے گائوں رات کی تاریکی میں تہ تیغ کردیے گئے۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ دہائیوں تک یہ زبردست شورش سری لنکا کو مکمل طور پر جکڑے رہی۔ ملک کا طول و عرض اس کی گرفت میں آگیا۔ تامل ٹائیگرز خوف اور دہشت کا ایک بہت بڑا سمبل بن گئے۔ سری لنکن حکومت بے بسی کی تصویر بنی اس سارے منظر نامے کو تکتی رہی۔ دنیا کے 33 ملکوں نے تامل ٹائیگرز پر پابندی لگادی۔ یہ لوگ بلیک مارکیٹوں سے اسلحے کے انبار خریدتے رہے اور بے مہابا قتل و غارت گری کرتے رہے۔ ان کا لیڈر پربھاکرن جافنا اور گردونواح کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔ اُس نے دہشت گردوں کی ٹریننگ کے لیے جدید ترین کیمپ لگالیے۔ نوجوان پود لاکھوں کی تعداد میں یہاں سے دہشت گردی میں کامل مہارت حاصل کرنے لگی۔ حکومت نے بارہا پر بھاکرن سے مذاکرات کی کوشش کی، لیکن ناکامی ہوئی۔ آخر لیڈر شپ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان دہشت گردوں کے سامنے ہار ماننے کا مطلب سری لنکا کا خاتمہ ہوگا۔ ملک کے بہترین دماغ ایک چھت تلے اکھٹے ہوئے۔ انہوں نے ایک جامع اور مربوط پالیسی تشکیل دی۔ سری لنکا نے اندرونی اور بیرونی وسائل یکجا کیے اور نہایت یکسوئی سے آپریشن کا آغاز کیا۔ یہ آپریشن تیزی سے آگے بڑھا اور اس نے مقبوضہ علاقوں کو واگزار کروانا شروع کردیا۔ اپریل 2009ء میں جافنا کے گردونواح کا محاصرہ کرلیا گیا۔ تامل ٹائیگرز گھیرے میں آگئے۔ آخر 18 مئی 2009ء کی رات تامل ٹائیگرز کو آخری لڑائی میں بھی شکست ہوگئی۔ پربھاکرن مارا گیا، اُس کے بیوی بچے بھی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ تامل ٹائیگرز کی ساری لیڈر شپ ماری گئی۔ یوں سری لنکا میں مکمل امن ہوگیا۔ اُس کی مفلوک الحال معیشت تیزی سے ترقی کرنے لگی۔ داخلی امن کے لہلہانے کے بعد سری لنکا اب تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل ہوگیا ہے۔
٭ دہشت گردی نے عوام کو نفسیاتی طور پر مفلوج کردیا ہے۔ ہماری بستیوں سے خوشیاں، مسکراہٹیں اور زندگی کی ہماہمی نوچ لی ہے۔ ٭ دنیا میں آج تک کوئی ایسا ملک نہیں جو داخلی سکون کے بغیر ترقی کرگیا ہو۔ ٭ اس نازک موڑ پر ملک کو پُرامن بنانے کے لیے قومی و صوبائی حکومتیں، افواج، ایجنسیاں، پولیس سب کو سرگرم رول ادا کرنا ہوگا۔ ٭
آپ لائبیریا کو دیکھ لیں۔ افریقہ کا یہ چھوٹا سا ملک ہیروں کی کانوں کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہی ہیرے اس کے لیے وبال جان بن گئے۔ بڑی طاقتوں نے اس ملک میں پنجے گاڑ دیے۔ داخلی امن تار تار ہوکر رہ گیا۔ ملک گروہوں اور گروپوں میں بٹ گیا۔ شورشیں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگیں۔ لائبیریا کے لیڈروں نے ایک پالیسی بنائی۔ یو این او کی مدد لی اور ملک کو اسلحے سے پاک کردیا۔ گروہ بندیاں ختم کردی گئیں۔ لائبیریا کی معدنیات پر ہاتھ صاف کرنے والی بیرونی طاقتوں کی سخت حوصلہ شکنی کی گئی۔ انہیں دیس نکالا دے دیا گیا۔ یوں انتشار سکون میں بدل گیا۔ بدامنی کی جگہ امن نے لے لی۔ آج کا لائبیریا ان افریقی ملکوں میں سے ایک ہے جسے امیر ترین کہا جاسکتا ہے۔
آپ کینیا کو دیکھ لیں۔ اس ملک کا کنٹرول مافیاز کے قبضے میں رہا۔ فساد اور بدامنی نے کینیا کو لاچار کردیا۔ نیروبی میں دہشت گردی کی کارروائیاں بہت بڑے پیمانے پر ہوتی تھیں۔ عوام خواب غفلت سے جاگے۔ انہوں نے پرخلوص لیڈر شپ ڈھونڈی اور مافیاز کا خاتمہ کردیا گیا۔ ایک پالیسی کی مدد سے ملک کے سارے سسٹم کو ٹھیک کردیا گیا۔ لیڈروں کے وژن، ان کی خلوصِ نیت اور عزم و ہمت سے آج کینیا ایک مضبوط معیشت اور جی ڈی پی کا مالک ہے۔ اس کی برآمدات اپنے ہمسائیہ ملکوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہیں۔
آپ سوڈان کی مثال دیکھ لیں۔ اس ملک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان خوفناک جنگیں ہوئیں۔ ہزاروں افراد مارے گئے۔ ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔ بیرونی طاقتور کے ایما پر سورشیں بڑھتی گئیں۔ سوڈان جو زرعی طور پر دنیا کی بڑی معیشتوں میں تھا، دانے دانے کا محتاج ہوگیا۔ لیڈروں نے یو این او کی مدد سے صلح کی اور جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے۔ ہتھیار پھینک کر ہل اُٹھالیے گئے۔ آج کا سوڈان امارت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بدامنی کے اِکا دُکا واقعات کے علاوہ یہاں امن ہے۔ اکانومی کو سنبھالا ملنے سے سوڈان افریقی اُفق پر جگمگانے لگا ہے۔ آپ روانڈا کو دیکھ لیں۔ یہاں تلسی اور ہوتو قبیلوں نے 1994ء میں ایک دوسرے کے لاکھوں افراد قتل کردیے۔ خوفناک خانہ جنگی نے ملک کو برباد کرکے رکھ دیا۔ یہاں قحط پڑا اور ہزاروں افراد اُس کی نذر ہوگئے۔ آخر کو لیڈروں نے دونوں قبیلوں کے درمیان امن قائم کیا۔ یوں تلسی اور ہوتو ایک ہوگئے۔ ملک نے ان دودہائیوں میں ترقی اور خوشحالی کی حیرت ناک مثالیں قائم کردی ہیں۔ آج کا روانڈ افریقہ کی سب سے زیادہ مستحکم معیشتوں میں سے ایک ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار، امن و امان میں روانڈا اپنی مثال آپ ہے۔
آپ آئرلینڈ کو دیکھ لیں۔ یہاں مدتوں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان سخت کش مکش رہی۔ علیحدگی پسند گروہوں نے وسیع پیمانے پر دہشت گردی کو فروغ دیے رکھا۔ برطانیہ نے دونوں بڑے گروہوں میں صلح کروادی۔ آئرلینڈ کو سازگار ماحول دیا گیا۔ دنیا بھر سے اس کی تجارت شروع ہوگئی۔ کوئلے کی کانوں سے کوئلہ نکال کر آئرلینڈ میں تعمیر و ترقی پر سرمایہ صرف ہونے لگا۔ یوں صدیوں تک بدامن رہنے والا آئرلیڈ اب پُرامن ہے۔ آئرلینڈ کے ادیب و شاعر اس امن کے گیت گاکر نوبل پرائز جیت رہے ہیں۔ عوام برطانیہ سے بہت خوش ہیں۔ اسی طرح اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ کے درمیان صدیوں تک جنگیں ہوئیں۔ 1707ء میں برطانیہ نے اسکاٹ لینڈ کو مستقل اپنا حصہ بنالیا۔ (باقی صفحہ5پر) 2014ء میں اسکاٹ لینڈ کو یہ حق دیا گیا کہ وہ اگر چاہے تو برطانیہ سے الگ ہوجائے۔ اسکاٹش عوام کی اکثرت نے برطانیہ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ تعمیر و ترقی، امن و خوشحالی اور برابری کی سطح کے تعلقات نے برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کو ایک کردیا۔
اسی طرح دنیا کے کئی ملکوں میں چھوٹے چھوٹے گروہ بدامنی پھیلاتے رہے۔ اٹلی میں مافیاز نے کوارٹرز بنائے رکھے۔ حکومت نے پالیسیاں بناکر ان گروہوں کو توڑا اور یوں اٹلی یورپ کے پرسکون ملکوں میں سے ایک بن گیا۔ امریکا کے نیویارک کی مارکیٹوں پر مافیاز کا قبضہ رہا۔ روڈی جولیانی نامی میئر کی پالیسیوں نے ان جونکوں کو کچل دیا۔ امریکا کی خوشحالی کی کتاب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ امریکا کی طاقت بڑھی تو وہ بیرونی دنیا کو قبضے میں کرنے کے لیے اپنی توجہ اُدھر کرنے کے قابل ہوگیا۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں آج تک کوئی ایسا ملک نہیں جو داخلی سکون کے بغیر ترقی کرگیا ہو۔ جہاں دہشت گردی کے مہیب سایوں نے خوشحالی بکھیردی ہو، جہاں بدامنی اور شورشوں کے عفریت کسی بھی بہتری کے پیامبر بنگ ئے ہوں۔ ترقی، خوشحالی انہی ملکوں میں آئی ہے جنہوں نے پہلے اپنے گھر کو مکمل طور پر پُرسکون اور پُرامن کیا ہے۔ بدامنی کی سنگلاخ زمینوں میں کبھی خوشحالی کا پھول نہیں کھل سکتا۔
پاکستان سری لنکا سے ایک برس پہلے وجود میں آیا۔ ایک دہائی تک سیاسی انتشار نے یہاں زلزلے بپا کیے رکھے۔ ایک ایک سال میں دو دو حکومتیں آتی اور جاتی رہیں۔ مشرقی پاکستان آبادی میں بڑا ہونے کے باوجود عدم توجہگی کا شکار رہا۔ دوسری دہائی میں مارشل لا نے مشرقی پاکستان کو مزید دور کردیا اور علیحدگی کی تحریک نے زبردست شورش برپا کردی۔ دُشمن طاقتیں میدان میں آئیں اور پاکستان دولخت ہوگیا۔ مغربی پاکستان میں 70 کی دہائی پُرامن رہی۔ اُس کے بعد سے ہم مسلسل بدامنی، بے سکونی، انتشار اور دہشت گردی کی فضا میں زندہ ہیں۔ 80 کی ساری دہائی میں ملک میں مسلسل بم دھماکے ہوتے رہے۔ بڑی بڑی منڈیاں، مارکٹیں اور بازار ان کا نشانہ بنے۔ ہزاروں افراد اُن کی نذر ہوگئے۔ ہم کے جی بی اور را کے شیطانی شکنجے کو توڑنے میں ناکام رہے۔ 2001ء کے بعد سے ہر گزرتے سال دہشت گردی کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اسکولوں، بازاروں، عبادت گاہوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یوں لگتا ہے پاکستان کے سارے دشمن ایک ہوکر اس کی بنیادوں کو اُڑا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے بڑے چھوٹے شہر خوف کے شکنجے میں پوری طرح جکڑ گئے ہیں۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر فسادات کے لیے عبادت گاہوں پر تواتر سے خودکش حملے ہورہے ہیں۔ نسلی بنیادوں پر خلیجیں دن بدن وسیع ہوتی جارہی ہیں۔ ملک گروہوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔ کھربوں روپے کے نقصان نے معیشت کا لہو چوس لیا ہے۔ 50 ہزار کنبے اپنے کفیلوں کو کھوکر معاشی اَبتری کی دلوں میں اُترگئے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے فضا میں بارود کی بو ایسی رچ بس گئی ہے کہ یہاں کوئی بھی آنے کو تیار نہیں۔ دہشت گردی نے عوام کو نفسیاتی طور پر مفلوج کردیا ہے۔ ہماری بستیوں سے خوشیاں، مسکراہٹیں اور زندگی کی ہماہمی نوچ لی ہے۔ ہر دن کے اخبارات تازہ لہو کے چھینٹوں سے لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ریڈیو پر خبرنامے کا آغاز اعصاب شکن خبروں سے ہوتا ہے۔ لوگ جہاں کہیں بھی مل بیٹھتے ہیں تو گفتگو کا آغاز دہشت گردی کے تازہ واقعے سے ہوتا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس سیلاب کے آگے بند باندھنے میں بُری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ ہماری پولیس اور ایجنسیاں ایسے ہر واقعے کے بعد دوڑ پڑتی ہیں۔ ان کی روک تھام اور تدارک کے لیے ان کی زنبیل میں کچھ نہیں ہے۔ سانحہ پشاور نے بچوں اور والدین کو سارے تعلیمی سفر سے کوفزدہ کردیا ہے۔ ہمارے اساتذہ کتابیں پڑھنے کی بجائے اسلحہ چلانے کی ٹریننگ لے رہے ہیں۔ اس ساری کارروائی نے امن نافذ کرنے والے اداروں کے وجود کو بے معنی بناکر رکھ دیا ہے۔ اگر ہر شخص نے پستول اور بندوق چلانا سیکھ کر اپنی حفاظت کرنی ہے تو ان اداروں کا وجود کسی بھی قسم کی افادیت کھو بیٹھتا ہے۔ خوف کی ایک گہری دھند ہے جس میں راستے گم ہوچکے ہیں۔
سچی اور تلخ بات یہ ہے کہ ریاست نے عام شہریوں کو کبھی بھی اپنا بچہ تسلیم نہیں کیا۔ مدتوں سے لوگ دہشت گردی کے بھاری پہیوں تلے کچلے جاتے رہے۔ ریاست کی جبینِ ناز پر سلوٹ تک نہیں آئی۔ شاید ہی دنیا میں کوئی اور ملک ہو جہاں ریاست نے عام عوام کے ساتھ ایسے رشتے کا مظاہرہ کیا ہو۔ چاہیے تو یہ تھا کہ 80 کی دہائی میں ہی اس عفریت کا سر کچل دیا جاتا۔ اس وقت ہم بیرونی دنیا سے آتی دولت گننے اور سمیٹنے میں مشغول رہے۔ ہم پر ہٹن برس رہا تھا۔ ہماری شیروانیاں، سوٹ بوٹ اور وردیاں اسی مشن میں کامل ترین یکسوئی کے ساتھ فرق رہیں۔ لوگ سڑکوں پہ راکھ بن کر اُڑتے رہے۔ بیرونی طاقتوں نے پاکستان کو اپنی سفلی تجربہ گاہ بنالیا۔ ہماری ساری حکومتیں دہشت گردی کی جڑ تک جاکر اُسے ختم کرنے سے غافل رہیں۔ مشرف دور میں ایک بار پھر اقتدار کے شجر سے ڈالر جھڑنے لگے اور بھوکے ضمیر فروش اُن کی بوریاں بھنرا شڑوع ہوگئے۔ نوٹوں کی تہیں لگا لگاکر اُن کے پہاڑ کھڑے کرلیے گئے۔ ملک کی نہ نہ کوئی خارجہ پالیسی تھی نہ ہی داخلہ۔ خاجی میدان میں ہم ہر بڑی بولی لگانے والے کے غلام تھے اور اندرونی ملک ہم عوام سے اتنے ہی دور تھے جتنا ایک برہمن شودروں سے دور ہوتا ہے۔ عوام دہشت گردی کی تلوار سے گاجر مولی کی طرح کٹتے رہے۔ ریاست ان سب لہو رُلا دینے والے دُکھوں سے دور ڈالروں سے کھیلتی رہی۔ سالوں پر سال گزرتے گئے۔ ہم اس دلدل میں گہرے سے گہرے دھنستے گئے۔ امن کے ناپید ہونے پر معاشی ترقی کو بریکیں لگ گئیں اور یہ ڈھلوان سے پیچھے کی طرف پھسلنا شروع ہوگئی۔ ساری کی ساری معاشرتی اقدار پر دہشت اور خوف نے اپنے سائے پھیلادیے۔ لاقانونیت ملکی قانون کا درجہ اختیار کرگئی۔ فساد درفساد نے کاروبار مملکت کے آئین کا درجہ اختیار کرلیا۔ ملکی تعمیر و ترقی اجاڑ کھنڈروں میں پھڑ پھڑاتی چمگادڑیں بن گئیں۔ تعلیم و شعور سے ہم یوں محروم ہوئے جیسے بیوہ اپنے سہاگ سے محروم ہوجاتی ہے۔ جوان ہوتی نسلوں کو ہم نے جو ورثہ دیا وہ اتنا کرب ناک تھا کہ یہ ذہنی سکون سے مکمل طور پر محروم ہوگئیں۔ دینی اقدار کے ٹھنڈے سایوں سے دور یہ نسلیں خوف دہشت کے صحرائوں میں بھٹکتی پھررہی ہے۔ نہ روزگار ہے نہ معاشی آسودگی ہے۔ نہ کوئی کاررواں ہے، نہ کوئی منزل ہے۔ اکیسیویں صدی کے ان برسوں میں پاکستان نے دہشت گردی کے پاتال کو چھولیا ہے۔ 16 دسمبر کے بعد سے ہمیں قومی طور پر یہ احساس خوفناک شدت کے ساتھ ہوا ہے کہ ہم کس درجہ کی بربادی کا شکار ہوگئے ہیں۔
اس نازک موڑ پر ملک کو پُرامن بنانے کے لیے قومی و صوبائی حکومتیں، افواج، ایجنسیاں، پولیس سب کو سرگرم رول ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو پالیسیاں بنانا ہوں گی اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا۔ دہشت گردی کو بنیادوں سے ختم کرنا ہوگا۔ بیرونی اور اندرونی ہاتھ بے نقاب کرنا ہوں گے۔ دُشمن ملکوں کے پس پردہ کردار کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ امریکی عمل دخل کو ملک میں محدود کیے بغیر ہم کامیاب نہ ہوپائیں گے۔ آج تک دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جس پر امریکی حکومت کا کنٹرول ہو اور وہ پُرامن بھی ہو۔ امریکا جس میں ملک میں گھسا ہے وہاں خوفناک داخلی انتشار نے سر اُٹھایا ہے۔ ہماری حکومتوں کے لیے یہ ایک امتحان ہے۔ اس غریب ملک نے ان پر بے تحاشہ سرمایہ صرف کر رکھا ہے۔ وہ پاکستان کو داخلی امن کے حصول میں کامیاب کرنے کے لیے پوری طرح سرگرم ہوجائیں۔ ملک اسلحے سے پاک کیا جائے۔ نسلی اور دوسری بنیادوں پر تقسیم کو کم سے کم کیا جائے۔ مادر پدر آزاد میڈیا کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ یقین جانیے! اگر پاکستان داخلی طور پر پُرامن ہوجائے تو ہماری معیشت نہایت تیزی سے ترقی کرے گی۔ ہم تعلیمی اُفق پر اوپر جاسکیں گے۔ روزگار کے نت نئے دروازے کھل جائیں گے۔ جب عوام محسوس کرے گی کہ ریاست کو اُس کی تکلیف پر درد ہوتا ہے تو وہ اپنا فعال کردار ادا کریں گے۔ یوں ملک کی ترقی کے لیے درکار ساری قوتیں یکجا ہوجائیں گی۔
ملکوں کا داخلی سکون افراد کے ذہنی سکون میں ڈھل جاتا ہے۔ اگر پاکستان ہر طرح سے پرامن ہوجائے تو پاکستانیوں کی شخصیت پر اس کے نہایت درجہ مثبت اثرات پڑیں گے۔ ذہنی اضطراب سے نجات کے رستے نکلیں گے۔ ہر فرد ملت کے مقدر کو اجائے گا۔ اپنا کام پوری دل جمعی اور یکسوئی سے انجام دے گا۔ یوں ملکی خوشحالی کی رفتار تیز تر ہوجائے گی۔ مذہبی اقدار کے فروغ سے ہمارا دین اور دنیا دونوں سنور جائیں گے۔ انسانی باطن کی ساری میل صاف کرنے کے لیے دین سے بڑی کوئی قوت نہیں۔ ہماری ملی شیرازہ بندی کے لیے اسلام کی تعلیمات اپنی پوری جامعیت کے ساتھ موجود ہیں۔ ہم پاکستان کو انہیں اپنے قلب و روح میں سمونا ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں بے سکونی کی ایک بڑی وجہ دین سے دوری ہے۔ محض دنیاوی ترقی سمندر کا شورابہ ہے، جتنا اسے پیو اتنی پیاس بڑھتی جاتی ہے۔ دینی اقدار کا لنگر ہی قوموں کو سہارا دیتا ہے۔ اگر یہ لنگر ٹوٹ جائے تو قوموں کی کشتیاں مادّی ترقی کے پانیوں میں بھی غرق ہوسکتی ہیں۔ پاکستان کو پُرامن معاشرہ اور صحت مند روحانی اقدار دونوں کی اَشد ضرورت ہے۔
خطے کے لیے خطرے کی گھنٹیاں؟
تحریر یاسر محمد خان
اوبامہ چھٹے امریکی صدر ہیں جنہوں نے بھارت کا دورہ کیا۔ سب سے پہلے آئزن ہاور نے 1959ء میں بھارت کا رخ کیا تھا۔ اس وقت پنڈت نہرو بھارتی وزیر اعظم تھا۔ چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہت خراب ہو چکے تھے۔ امریکا اور بھارت اس لیے بھی ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ اس وقت روس اور بھارت بہت گہرے تھے۔ آئزن ہاور نے نئی دہلی میں یہ تاریخی الفاظ کہے: ’’ امریکا بھارت سے دوستی کا خواہاں ہے، لیکن پاکستان امریکا کا دل ہے۔‘‘ 1969ء میں صدر رچرڈ نکسن نے بھارت کا دوسرا دورہ کیا۔ اندرا گاندھی وزیراعظم تھی۔ اس وقت اپوزیشن نے اس کی ناک میںدم کر رکھا تھا۔ امریکا ویت نام کی دلدل میں گہرادھنس چکا تھا۔ دونوں ملکوں کے لیے یہ دورہ کچھ زیادہ گرم جوشی کا حامل نہ بن سکا۔
1978ء میں جمی کارٹر تیسرے امریکی صدر کی حیثیت سے بھارت کا دورہ کیا۔ کارٹر نے 1974ء میں بھارتی ایٹمی دھماکوں ر اس کی سرزنش کی۔ بھارتی وزیراعظم مرارجی ڈیسائی اور جمی کارٹر کے درمیان مذاکرات ناکام رہے۔ یوں اس دورے سے بھارت کے لیے اچھے نتائج پیدا نہ ہوپائے۔ 2000ء میں بل کلنٹن چوتھے امریکی صدر تھے جو بھارت آئے۔ انہوں نے 5 روز قیام کیا۔ آگرہ، جے پور، احمدآباد اور ممبئی میں اس نے سیر کی۔ بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ کلنٹن اور اٹل بہاری واجپائی کے مذاکرات کئی اعتبار سے کامیاب رہے۔
2006ء میں جارج بش پانچویں امریکی صدر تھے جو بھارت کے دورے پر آئے۔ اس وقت عراق اور افغانستان تنوروں کی طرح دہک رہے تھے۔ بھارتی مسلمانوں نے شہر شہر مظاہرے کر کے بش کو مسلم جذبات کی تصویر دکھائی۔ بش نے بھارت کو نیوکلیئردنیا کا حصہ بننے کے لیے آشیر باد دی۔ 2010ء میں باراک اوباما نے پہلی بار بھارت کا دورہ کیا۔ اس نے امریکا بھارت تجارت کے لیے حجم کو بڑا کرنے کے لیے منصوبوں پر دستخط کیے، کئی اعتبار سے یہ اہم دورہ تھا۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا۔ اس نے اوبامہ کو گجرات کی صنعتی ترقی دکھانے کے لیے مدعو کیا۔ اوبامہ نے یہ پیش کش قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ نیویارک کی ایک عدالت میں مودی کو گجرات کے مسلمانو ں کے قتل کا ذمہ دار قرار دے کر ایک مقدمہ چلایا جارہا تھا۔ مودی کے امریکا داخلے پر پابندی تھی۔ کئی امریکی ججوں نے بھی مودی کے بارے میں سخت ریمارکس دے رکھے تھے۔ جنوری 2015ء میں امریکا کی اس عدالت نے یہ مقدمہ خارج کر دیا۔ یوں اوبامہ کے بھارت دورے کی راہ پوری طرح ہموار کر دی گئی۔ 25جنوری کو اوبامہ بھارت پہنچے۔ جہاں مودی نے پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے جھپی ڈالی۔ امریکا اور بھارت نے مل کر ڈورن بنانے کا اعلان کیا۔ نیوکلیئر معاہدے پر تمام اختلاف ختم ہو گئے۔ دفاع، ماحولیات اور تجارت کے شعبوں میں نئے تاریخ ساز معاہدے ہوئے۔ فوجی ٹرانسپورٹ طیاروں کی مشترکہ تیاری کا ڈول ڈالا گیا۔ امریکا نے سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لیے بھارت کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ امریکا نے افغانستان میں بھارت کو اپنا قابل اعتماد پارٹنر قرار دیا۔ واشنگٹن جوہری مواد کی نگرانی کے مطالبے سے دستبردار ہو گیا۔ اوبامہ نے نئی دہلی سے بہتر تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی میں سرفہرست قرار دیا۔ مودی پر یس کانفرنس میں اوبامہ کو بے تکلفی سے باراک کہہ کر پکارتا رہا۔ دونوں نے تنہائی میں ملاقاتیں کیں جن کی تفصیلات منظر عام پر نہ آسکیں۔ امریکا نے بھارت کو سرمایہ کاری اور قرضوں کی مد میں 4کھرب روپے دینے کا عندیہ دیا۔
٭ جن ملکوں کے حاکم غریب ہوں وہاں کی عوام خوشحال ہوتی ہے اور جن ملکوں پر امیروں کی حکومت ہو وہاں عوام سخت تنگ دست ہو جاتی ہے۔ ٭ آپ پاکستان کے وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنروں، وزیروں مشیروں کا طرز رہائش دیکھ لیں۔ نہیں لگے گا کہ اس ملک کا بچہ بچہ عالمی سود خور مہاجنوں کے سودی جال میں پھنسا ہوا ہے۔ ٭ ملک اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں، کوئی بھی ملک اپنے عوام کے لیے بہتری کا کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ٭
یوں امریکی صدر کا یہ دورہ ہر اعتبار سے کامیاب رہا۔ بھارت امریکا ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ پہلے کبھی نہ تھے۔ اب امریکی صنعت کار انڈیا میں اپنی فیکٹریاں لگائیں گئے۔ سرکار انہیں اس س ضمن میں رعائتیں دے گی۔ غریب مزدوروں کے لیے روزگار کے نت نئے دروازے کھلیں گے۔ بھارت امریکا سے جدید ترین اسلحہ سستے داموں خریدے گا۔ افغانستان میں بھارت امریکا کا بازو پکڑے اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں رہے گا۔ افغانستان میں معدنیات نکالنے کے لیے ہی بھارتی اشرف غنی کو شیشے میں اتار چکے ہیں۔ امریکی سفارش پر ہندوستان وہاں مزید رعائتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ جوہری مواد کی نگرانی سے دستبردار ی کے بعد ہندوستان بین الاقوامی جوہری منڈی میں کسی روک ٹوک کے بغیر خرید و فروخت کر سکے گا۔ اسے ان ملکوں میں شامل کر لیا گیا ہے جو ایٹمی مواد کو کسی بندش کے بغیر جتنا چاہیں حاصل کر سکتے ہیں۔ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت ملنے کے بعد بھارت کشمیر جیسے معاملے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔ وہ امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کی ہم سری کر سکے گا۔ 4کھرب روپے کی سرمایہ کاری سے بھارت کی معیشت کی گروتھ اور بڑھ جائے گی۔ دوسری طرف اوبامہ کے دورے کے دوران پاک بھارت سرحدوں پر کشیدگی بڑھا دی گئی۔ انڈیا نے پاکستانی چوکیوں پر بمباری جاری رکھی۔ یوں اس دورے سے ہندوستان نے ان گنت فائدے حاصل کیے ہیں۔ پاکستان میں لوگ پوچھتے پھر رہے ہیں کہ 2001ء سے امریکی بندوقیں اٹھا کر لوگوں کو مارنے اور’’ڈومور ڈو مور‘‘ کی صدائیں سننے کے بعد بھی امریکی صدر کے پاس چند گھنٹے بھی نہیں تھے کہ وہ پاکستان بھی آجاتا اور اس ملک کے مکینوں کو خوش کر جاتا جیسے بھارت کا پہلا دورہ کرنے والے امریکی صدر آئزن ہاور نے پاکستان کو امریکا کا دل قرار دیا تھا۔
اگر ہم پچھلے پندرہ سالوں کا جائزہ لیںتو تین امریکی صدوربھارت کے چارلمبے چوڑے دورے کر چکے ہیں۔ 2000ئ، 2006ئ، 2010ء اور 2015میں بھارت امریکا تعلقات نے بلندیوں کے نئے افق تلاش کیے ہیں۔ دونوں ملکوں نے گہری دوستیاں بنائی ہیں۔ بھارت نے امریکا سے وسیع تر مفادات کے حصول کے لیے درانتیاں تیز سے تیز کر لی ہیں۔ ان 15سالوں میں صرف ایک بار صدر کلنٹن بھارتی دورے سے واپسی پر 2000ء میں چند گھنٹوں کے لیے اسلام آباد میں اسٹاپ اوور کے لیے رکا۔ اس نے پی ٹی وی پر ایک تقریر ریکارڈ کروائی جس میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے پر نصیتحوں کا ایک طومار تھا۔ اس دوران پاکستان وار آن ٹیرر کے شعلوں میں جلتا رہا۔ ایک کھرب روپے کا معاشی نقصان ہوا۔ 50ہزار پاکستانیوں کے لاشے اٹھائے گئے۔ ہزاروں افراد کسی کیس، کسی فرد جرم،
کسی ثبوت اور کسی گواہ کے بغیر امریکا کے حوالے کردیے گئے۔ 2001ء کے بعد سے پاکستانی حکومت نے امریکا کے زر خرید کا رول ادا کیے رکھا۔ درحقیقت اس مدت میں دنیاکے کسی بھی ملک نے امریکی کے لیے اتنی ’’خدمات‘‘ انجام نہیں دیں۔پاکستان کی اکانومی بیٹھ گئی۔ ملک خوف و دہشت کی جاگیریں بن کے رہ گیا۔ دہشت گردی کے طوفانوں نے بستی بستی قریے قریے کو ڈبو کر رکھ دیا۔ بھارت نے اس دوران سرحدوں پر بدترین جارحیت کو اپنی متعلقہ پالیسی بنائے گا۔ پچھلے سال اکتوبر سے لے کر اب تک بھارتی تو پ خانہ خاموش نہیں ہوا۔ امریکا نے اپنی خارجہ پالیسی میں ان سے کسی بات کا لحاظ نہیں رکھا۔ اندھوں کی طرح نیاز کی ساری ریوڑیاں ہندوئوں میں بانٹ دی ہیں۔ دورہ امریکا کے دوران ہمارے آرمی چیف نے انڈین گورنمنٹ کے پاکستان میں مداخلت کے بارے میں ناقابل تردید ثبوت مہیا کیے۔ انہیں بھی امریکیوں نے طاق نسیاں میں رکھ دیا۔ یوں امریکا نے پاکستان سے اپنی تاریخی بے وفائی کی کتاب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ ہم ’’ڈو مور ‘‘ کے علاوہ کسی بھی آشیر باد کے مستحق نہیں قرار پائے۔
صرف دوسروں کو الزام دینے کی بجائے ہمیں خود بھی اپنی غلط کاریوں کو دیکھناچاہیے۔ ہم اپنی بربادی کے لیے خود بھی ذمہ دار ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ آج کی دنیا میں بین الاقوامی تعلقات ایک سائنس کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔ ملک اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں۔ اپنی عوام کی بہتر ی کے لیے ہر قدم اٹھاتے ہیں۔ داخلی خوشحالی اور آسودگی کو خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھرائو قرار دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے عوام کے لیے بہتری کا کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، ملک مضبوط ترین نظام حکومت پر چلائے جارہے ہیں۔ انہی نظاموں میں سے ایک نے ایک سیاہ فام اور عام امریکی باشندے کو ملک کا صدر چن لیا۔ بھارت میں چائے بیچنے والا دنیا کی سب بڑی جمہوریت کا قائد بن گیا۔ اخبارات نے مودی کی بیگم سے امریکی صدر کے دورے کے بارے میں ردعمل جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ یوں اخبار وں میں اس کے گھر کی ایک اندرونی تصویر بھی چھپ گئی۔ اس کمرے کو دیکھنے کے بعد یقین نہیں آتا کہ یہ ہندوستانی وزیراعظم کا گھر ہے۔ کمرے میں ایک معمولی ایک پرچھوٹا سا ٹی وی پڑا ہوا تھا۔ سبز رنگ کا ایک چھوٹا فریج ہے جس پر سامان پرا ہوا ہے۔ کمرے میں معمولی سا بجلی کا سوئچ بورڈ اور تار پہ لٹکا ہوا ایک بلب روشن ہے۔ چھوٹی سی عام الماری اور معمولی کرسی دھری ہوئی ہے۔ وزیر اعظم ہندوستان کے گھر کا یہ کمرہ دیکھنے کے بعد کوئی بھی غیر جانبدار مبصر اس ملک کے روشن مستقبل پر حتمی رائے دینے کی پوزیشن میں آجاتا ہے۔ مودی نے صوبہ گجرات کی شاندار صنعتی ترقی کے بعد ہندوستان کی عنان اقتدار سنبھالی۔ ایسے شخص کا Livinng Standardاگر یہی ہے تو بجا طور پر ہندوستا ن کی معاشی ترقی کا گروتھ ریٹ حیرت انگیز طور پر بڑھے جار ہا ہے۔ اگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیراعظم ہمارے لیڈروں کے سرونٹ کو اٹرز سے بھی بدتر جگہ میں رہتا ہے تو ہم اس کا مقابلہ کس طرح کر پائیں گے؟ آپ پاکستان کے وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنروں، وزیروں مشیروں کا طرز رہائش دیکھ لیں۔ نہیں لگے گا کہ اس ملک کا بچہ بچہ عالمی سود خور مہاجنوں کے سودی جال میں پھنسا ہوا ہے۔
دنیا میں اور کونسی جمہوریت ہو گی جس میں کھربوں پتی صنعت کار عنان اقتدار سنبھالے ہوئے ہوں۔ جہاں کاروبار مملکت اور اپنا ذاتی کاروبار ایک ہوگیا ہو۔ جہاں اقتدار سونے کی ایسی کان ہو جس سے ہر دم سونا نکالا جا رہا ہو۔ جہاں امیر ترین اراکین اسمبلی و سینٹ ٹیکس کی مد میں ایک کلرک سے کم ٹیکس ادا کرتے ہوں۔ جہاں ہر میگا پراجیکٹ کی تکمیل اپنی جیبیں بھرنے کی ایک اسکیم سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی ہو۔ جہاں بجلی، گیس، پیٹرول اور پانی اکیسویں صدی میں ناپید ہو گیا ہو۔ جہاں حکمرانوں کے بیٹے، داماد، سالے اورسمدھی اکانومی کے ہر چوراہے پر سانپ کی طرح پھن پھیلائے جھوم رہے ہوں۔ جہاںزرعی ملک ہونے کے باوجود بچے قعط اور کمی خوراک سے دھڑا دھڑ مر رہے ہوں۔ جہاں ڈاکو اور چور سوٹ بوٹ لگا کر اقتدار کی غلام گردشوں میں بلا روک ٹوک گھوم رہے ہوں۔ جہاں کار سرکارایک رلا دینے والے مذاق سے زیادہ اہمیت نہ رکھتا ہو۔ جہاں غریب کے تن کا کپڑا اور پیٹ کی آخری روٹی چھینی جارہی ہو۔ جہاں 5000میں کرائے کا قاتل مل جاتا ہو اور 2000بھتہ کے لیے لوگ قتل ہو جائیں۔ جہاں قانون، انصاف، روادار ی اور صفائی مکمل طورپر ناپید ہو گئے ہوں۔
کڑوا سچ یہی ہے کہ ہم نے اس ملک کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے۔ ہمارے کھرب پتی حکمران اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہم سب لوگ جس جمہوریت پر کار بند ہے اور ان ملکوں میں جمہوریت کس طرح کے لیڈر پیدا کیے جارہی ہے۔ افلاطون نے جب ایک خیامی ریاست کا نقشہ کھنچا تھا تو اس نے سرمایہ داروں کے حکمران بننے پر پابندی لگادی تھی۔ اس نے کہا تھا جو نکیں انسانی بدن کا لہو اتنی جلدی نہیں چوس سکتیں جتنی جلد سرمایہ دار ساری ریاست کا خون چوس جاتا ہے۔ افلاطون نے یہ بھی کہا تھا کہ جن ملکوں کے حاکم غریب ہوں وہاں کی عوام خوشحال ہوتی ہے اور جن ملکوں پر امیروں کی حکومت ہو وہاں عوام سخت تنگ دست ہو جاتی ہے۔
کہاں ہیں رواداری کے دعویدار؟
تحریر یاسر محمد خان
’’جیلانڈز پوسٹن‘‘ ڈنمارک کا سب سے کثیر الاشاعت اخبار ہے۔ یہ کوپن ہیگن کے علاوہ 10 ڈینش شہروں سے شائع ہوتا ہے۔ 30 ستمبر 2005ء کو اس اخبار نے دنیا بھر میں بدنامی کمائی۔ اس نے 12 گستاخانہ خاکے شائع کیے۔ اشاعت سے پہلے اخبار کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں کوپن ہیگن سے شائع ہونے والی ایک کتاب زیر بحث آئی۔ ’’کارکے گور‘‘ نامی رائٹر کو اس کتاب کے لیے ایک کارٹونسٹ چاہیے تھا۔ ڈنمارک کے بڑے کارٹونسٹوں نے گستاخانہ خاکے بنانے سے انکار کردیا تھا۔ جیلانڈز پوسٹن نے اس رذیل ترین کام کا بیڑا اُٹھایا اور اخبار کے کارٹون نگاروں کو خاکے بنانے کا فریضہ سونپا۔ اس بورڈ میٹنگ میں ان خاکوں کو شائع کرنے کی منظوری دے دی گئی۔
30 ستمبر کو خاکے شائع ہوتے ہی ڈنمارک میں طوفان آگیا۔ مسلم سولیڈیرٹی موومنٹ نامی تنظیم نے ان خاکوں کے خلاف ایک مظاہرہ کیا۔ اس میں 3500 مسلمان شریک ہوئے۔ انہوں نے اخبار کی کاپیاں جلائیں۔ پولیس نے انہیں منتشر کردیا۔ 15 اکتوبر کو سارے ڈنمارک میں مسلمانوں نے شہروں شہروں جلوس نکالے۔ کوپن ہیگن میں وزیراعظم کے دفتر میں ایک یادداشت پیش کی گئی۔
حکومت کو اس صحافتی دہشت گردی روکنے کے لیے اپنا رول ادا کرنے کی درخواست کی گئی۔ ڈینش وزیر اعظم نے آزادیٔ اظہار رائے کا بہانہ کرکے معاملے سے جان چھڑالی۔ 12 دسمبر 2005ء کو ڈینش کورٹ میں ایک کیس دائر کیا گیا۔ عدلیہ سے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے والے پریس کو روکنے کی استدعا کی گئی۔ 31 جنوری 2006ء کو ڈینش کورٹ نے خاکوں کی اشاعت کو درست قرار دے کر درخواست خارج کردی۔ اس دوران یہ خاکے جرمنی، سوئیٹرزلینڈ، پولینڈ، فرانس، میکسیکو، اٹلی، فن لینڈ، آئس لینڈ، رومانیہ، بلغاریہ، ہنگری اور چیک ری پبلک کے اخبارات میں وقفے وقفے سے شائع ہونا شروع ہوگئے۔ عیسائی یورپ سے نکل کر یہ سیلابِ بلا لاطینی امریکا، اسٹریلیا، نیوزی لینڈ جیسے دور افتادہ ملکوں اور براعظموں میں پھیل گیا۔ کئی ملکوں کی حکومتوں نے فری پیرس کے خوشنما نعرے کی اوٹ میں پناہ لے لی۔ اخبارات کو اس شیطانی فعل سے روکنے کی کوئی بندش یا رکاوٹ کھڑی نہ کی گئی۔ امریکا اور برطانیہ نے اپنے اخبارات کو ان خاکوں کے شائع کرنے سے روک دیا۔ کئی صحافیوں کو ملازمتوں سے برخاست کیا گیا۔ اس ضمن میں سخت قوانین بنائے گئے اور یوں ان ملکوں میں نسبتاً امن رہا۔
٭ ان حالات میں سارے مسلمان ملکوں کی قیادت کو آگے آنا ہوگا۔ ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جو اس شرانگیزی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے۔ ٭
مارچ 2006ء میں بیرون ملک 11 ڈینش سفیروں نے وزیراعظم کو خط لکھے۔ اُسے ان سفارت خانوں پر حملوں اور جانی نقصان کے احتمال کے بارے میں بتایا۔ مشرق وسطیٰ میں 15.4 فیصد ڈینش تجارت پر زد لگی۔ ڈیری مصنوعات کا بائیکاٹ ہوا۔ یوں ڈنمارک کی اکانومی نے زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے۔ ڈنمارک کے مسلمان لیڈروں نے مشرق وسطیٰ کے دورے کیے۔ مسلم حکومتوں کو یورپ میں پھیلنے والی اس بدترین دہشت گردی کے بارے میں آگاہ کیا۔ شام میں ڈنمارک اور ناروے کے سفارت خانوں پر حملے ہوئے۔ پاکستان میں2008ء میں ڈینش ایمبیسی کو نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر میں ڈنمارک کے باشندے غیرمحفوظ قرار پاگئے اور اپنے ملک لوٹ گئے۔ ان توہین آمیز خاکوں کی مسلسل اشاعت کے بعد 2006ء کا سارا سال مسلم دنیا میں مظاہروں کا سال رہا۔ یورپی ایمبیسیوں اور مشنوں پر دنیا بھر میں حملے جاری رہے۔ 200 سے زائد افراد ان کارروائیوں میں ہلاک ہوگئے۔ اپریل 2006ء میں ڈینش وزیراعظم نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے معافی مانگی۔ ان خاکوں کیا شاعت پر گہرے افسوس کا اظہار کیا اور خاکوں کو رکوانے پر اپنی بے بسی کا بھی اظہا رکیا۔
26 اپریل 2006ء کو جیلانڈز پوسٹن نے اپنے فرنٹ پیج پر مسلمانوں کی دل آزاری پر گہری ندامت کا اظہار کیا۔ آیندہ ان خاکوں کو شائع کرنے سے اجتناب برتنے کا تہیہ کیا۔ اس اعتذار کو عربی زبان میں بھی شائع کرادیا گیا۔ سارے ڈینش پریس ٹی وی، ریڈیو پر اس اقدام پر تاسف کا اظہار کیا گیا۔
اس دوران دنیا بھر کے عیسائی اور یہودی پریس نے ان خاکوں کو مسلسل شائع کیے رکھا۔ خصوصاً فرانسیسی پریس نے جس سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ کیا اُس کی مثال نہیں ملتی۔ زبان اور قلم اجازت نہیں دیتے کہ اس اخلاقی گراوٹ سے پردہ اُٹھایا جائے۔ یہی وہ سفلہ پن تھا جس نے چارلی ہیبڈو کو شرانگیزی پر اُکسایا کہ وہ خاکے شائع کرے اور نتیجے میں 17 افراد کی لاشیں اُٹھائے۔ 30 ہزار کی اس محدود اشاعت کے جریدے نے اگلے شمارے میں یہ خاکے دوبارہ چھاپنے اور لاکھوں کی تعداد میں شائع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یوں خاکے دوبارہ چھاپ دیے گئے۔ یہ بدی ہے کہ 2005ء کے بعد سے رکنے پر نہیں آرہی۔ اس دراز کو بڑھ کر شگاف بنانے والی قوتیں میدان میں آگئی ہیں۔ بیجمن نیتن یاہو جو 2500 مسلمانوں کو شہید کرنے کے بعد میڈیا کا سب سے بڑا چیمپین بن کر سامنے آگیا ہے۔ اُس نے چارلی ہیبڈو کی پالیسی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں اُس نے اسرائیلی حکومت کی بھرپور مدد فراہم کرنے کی ’’خوش خبری‘‘ بھی دی ہے۔ جب سی این این کے مشہور اینکر جم کلینزی نے خاکوں کی اشاعت پر یہودیوں کی پشت پناہی کو بے نقاب کیا تو امریکا میں طوفان آگیا۔ جم کلینزی کے خلاف مظاہرے ہوئے، اُس کے گھر پر پتھرائو کیا گیا اور اُسے جبراً نوکری سے برخاست کردیا گیا۔ یوں 34 برس سی این این کا ملازم رہنے کے بعد جم کلینزی کو حق گوئی کی پاداش میں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ سخت حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ بین الاقوامی میڈیا میں یہودیوں کی نام نہاد Genocide کا ذکر تک نہیں کرسکتے۔ دنیا بھر کا پریس اور الیکٹرانک میڈیا گھیرائو کرلیتا ہے۔ اسے یہودیوں کے زخموں پر نمک پاشی قرار دیا جاتا ہے۔ وہی میڈیا دنیا کی سب سے متبرک ہستی کی توہین کرتا پھرے تو اسے آزادیٔ اظہار قرار دیا جاتا ہے۔ یوں مغربی دنیا نے بدترین دوغلا رول اپنا رکھا ہے۔ اسے بخوبی علم ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اپنے پیغمبر کی گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ اس کے باوجود یہودی تسلط کا شکار مغربی دنیا بار بار اس شرمناک ترین فعل کا ارتکاب کیے جارہی ہے۔ چارلی ہیبڈو واقعے کے بعد فرانسیسی حکومت نے اخلاق باختگی کا ثبوت دیا۔ دنیا کے 40 ملکوں کی قیادت پیرس میں جمع ہوئی۔ چارلی ہیبڈو کے دفتر سے ایک مارچ شروع کیا گیا۔ اسے مارچ برائے آزادیٔ اظہار رائے قرار دیا گیا۔ چارلی ہیبڈو جیسے چھیتڑے کو جسے چند ہزار بے ضمیروں کے علاوہ کوئی منہ نہ لگاتا تھا، اب اُس کی اشاعت لاکھوں میں پہنچادی گئی ہے۔ سارا یورپ اس کا خریدار بن گیا ہے۔ یوں فرانسیسی حکومت کی بداعمالی نے ایک معاملے کو ڈی فیوز کرنے کے بجائے اُسے اور بڑھکادیا ہے۔ آگ کے یہ شعلے فرانس کے درودیوار کو چاٹ جائیں گے۔ مسلمان مظاہرین کو دل کا غبار نکالنے کے لیے جلسے جلوسوں سے روک دیا گیا ہے۔ باپردہ عورتوں پر اس ضمن میں پابندی لگادی گئی ہے۔ جلوسوں میں نماز پڑھنے کو زورِ بازو کے ذریعے روکا جارہا ہے۔ فرانس میں مسلم آبادی کے گرد گھیرا تن کیا جارہا ہے۔ یوں فرانس یورپ کا ایسا ملک بن گیا ہے جہاں کے مسلمان حکومت کے سب سے زیادہ زیرعتاب آگئے ہیں۔
اگر ہم تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو ہمیں فرانس ہی ایک ایسا ملک دکھائی دیتا ہے جس کے دانشوروں نے اسلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اعلیٰ ترین ارشادات دنیا کے سامنے رکھے۔ 18 ویں صدی کا سب سے بڑا فرنچ شاعر، تاریخ دان اور فلاسفر ’’والتیر‘‘ تھا۔ اُس نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’فلاسفیکل ڈکشنری‘‘ میں مذاہب عالم کا ایک جامع موازنہ کیا۔ اُس نے پادریوں کی پھیلائی گئی جماعت کی سیاہیوں کو علم کے نور سے دھو ڈالا۔ اُس نے انہیں للکارا اور کہا کہ تم سارے راہب اور پادری کیا انسانوں پر یہ قانون عائد کرسکتے ہو کہ صبح 4 بجے سے رات 10 بجے تک نہ کچھ پینا ہو نہ کھانا ہو۔ اپنے آپ کو دن بھر کامل روزے کی حالت میں رکھنا ہو۔ زندگی بھر شراب کو منہ نہ لگانے کو اپنے آپ پر لاگو کرکے دیکھو کہ تمہارا حال کیا ہو؟ کیا جلتے بلتے صحرائوں میں تم لوگ سفر کرکے حج کے لیے نکل سکتے ہو؟ کیا تم لوگ اپنے اندر اتنی توانائی اتنی طاقت رکھتے ہو کہ تم اس مقصد کے لیے دس قدم بھی چل سکو؟ کیا تم پادری لوگ غریبوں کو اپنی آمدنی کا ایک معقول حصہ زکوٰۃ کی صورت میں ادا کرسکتے ہو؟ کیا تم لوگ اتنا بڑا جگر اور حوصلہ رکھتے ہو؟ تم لوگ جو خود 18، 18 عورتوں کی محبت سے لطف اندوز ہوتے ہو، جب اس حکم کو سنتے ہو کہ مسلمان مرد چار سے زیادہ عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا تو تم لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہو۔ تم منافق لوگ ایسے پاکیزہ مذہب کو شہوانی قرار دیتے ہو۔ وہ بندش جو اسلام اپنے ماننے والوں پر لگاتا ہے اُس سے معاشرے میں کس درجہ اخلاقی سدھار آتا ہے؟ تم لوگ کبھی نہیں جان پاتے، کیونکہ تم تعصب کی عینک سے یہ سب کچھ دیکھتے ہو۔ سچائی اور حقیقت تک تمہاری نظر نہیں جاسکتی۔ تعصب ایک ایسی رائے ہے جس میں انصاف کا ذرا برابر عنصر باقی نہیں بچتا۔ سب سے خطرناک مذہبی تعصب ہوتا ہے جو سب سے پہلے تحمل اور بردباری کو ختم کردیتا ہے۔ مسیحی پادری دنیا کی سب سے رذیل قسم لوگ ہیں۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر الزامات لگاتے ہیں۔ تاریخ انسانی کا سب سے زریں باب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک ہے۔ مسیحی مورخ جو چاہے بکواس کریں۔ تاریخ اُن کی کسی ایک بات کی بھی تصدیق نہیں کرتی۔‘‘
18 ویں صدی کے ہی فرانس میں دانشوروں کی ایک جماعت بنی، جسے ’’قاموسی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ فلسفہ کی تاریخ میں ’’The Encyclopedists‘‘ کہلاتے ہیں۔ ’’دیدرو‘‘ نامی فلاسفر ان کا سربراہ تھا۔ اس جماعت نے دنیا بھر کے علوم اکھٹے کیے اور سینکڑوں جلدوں میں انہیں شائع کیا۔ یہ سب مواد بعد میں انقلابِ فرانس کا پیش خیمہ بن گیا۔ دیدرو کے ایک قریبی ساتھی مانٹیکیو نے ’’The Persian Letters‘‘ نامی کتاب لکھی جس میں اسلام کو دنیا میں روشنی بکھیرنے والا مذہب قرار دیا۔ مانٹیکیو حیرانی سے پوچھتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں کون سا ایسا جوہر تھا جس نے چند برسوں میں دنیا کی سب سے روشن تہذیب کو وجود بخشا؟
ہم دیکھتے ہیں کہ فرانسیسی دانشوروں کی اس روایت کے خاتمے کے بعد اس ملک نے ایسی نسلیں پیدا کیں جنہوں نے اسفل السافلین پادریوں کے نقشِ قدم پر چلنا اپنا فرض جانا۔ اکیسیویں صدی کا فرانس ایک ایسا ملک ہے جس میں تعصب کے بھپکے اُٹھ رہے ہیں۔ جس نے انسانی ضمیر کے سب سے بڑے سوداگروں کا روپ دھار لیا ہے۔ یہودیوں کا یہ فعل کہ وہ آیندہ چارلی ہیبڈو کے سارے مالی معاملات میں معاونت کریں گے، ثابت کرتا ہے کہ اس سازش میں مسیحی اور یہودی ایک ہیں۔ یہودی چھپ کر وار کررہا ہے، اُس نے ایک ایسی آڑ لی ہے جہاں سے وہ شب خون مارنے کی تیاریاں کررہا ہے۔ موساد کی ساری ذیلی ایجنسیاں یورپ میں مقیم مسلمانوں پر شب و روز کو مزید بھاری بنانے کے لیے سرگرم ہوگئی ہیں۔ جرمنی نے مسلمان باشندوں پر سخت گیر قوانین لاگو کرنے شروع کردیے ہیں۔ سارے یورپ میں ایک مہم چل پڑی ہے جو ان ملکوں سے مسلمانوں کے بزور انخلا پر ختم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ سارے یورپ کے مسیحی لیڈر اجلاس کررہے ہیں۔ سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کس طرح یورپ کو مسلمانوں سے خالی کروایا جائے؟ یورپی مسلمان ان ملکوں کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کررہے ہیں۔ دفتروں میں اعلیٰ ترین صلاحیتوں والے کارکن ہوں یا فیکٹریوں میں مشینوں کو چلانے والے فنی ماہرین سب جگہ مسلمان ان ملکوں کی اکانومی میں سرگرم پارٹ ادا کررہے ہیں۔ یورپ اتنی آسانی سے اس بھاری بوجھ کو نہیں اُٹھاپائے گا۔ مسلم آبادی کے انخلا کے بدترین اثرات ان ملکوں کی اکانومی کو دیں گے۔
اس نازک ترین دور میں بھی مسلم حکومتوں کا طرز عمل مایوس کن ہے۔ ان کی جانب سے ڈھیلا ڈھالا احتجاج ان بھیانک شعلوں کو سرد نہیں کرسکے گا۔ عوامی سطح پر مسلم دنیا سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ ہر شہر اور قصبے میں جلوس نکل رہے ہیں۔ لوگ بجاطور پر گہرے اشتعال کی حالت میں ہیں۔ ان حالات میں سارے مسلمان ملکوں کی قیادت کو آگے آنا ہوگا۔ ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جو اس شرانگیزی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے۔ اگر مسلم دنیا نے 2005ء میں جیلانڈز پوسٹن کی شرمناک اور ذلت آمیز پالیسی کے خلاف کوئی کارگر اسٹرٹیجی بنائی ہوتی تو آج ہم یہ دن نہ دیکھ رہے ہوتے۔ جس بھی ملک میں ایسے خاکے شائع ہوں اُس کی حکومت کا بائیکاٹ کردیا جائے۔ سارے مسلم ممالک سفارتی تعلقات منقطع کردیں۔ تجارت کے سب دروازے بند ہوجائیں۔ حکومتی سطح پر تعلقات کے خاتمے سے ان ملکوں کو ایک ایسا بے لچک پیغام جائے گا جو ان کی پالیسیاں بدل دے گا۔ وہ آزادی اظہارِ رائے کی آڑ میں شیطانی اعمال پر مہرتصدیق ثبت نہیں کرپائیں گے۔ مسلم دنیا کے انتہائی شدید ردّعمل کا ڈر و خوف ہی انہیں فعال کردار ادا کرنے پر مائل کرے گا۔
اب یہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ آگے بڑھیں۔ ایک روڈ میپ بنائیں۔ ایک پلان آف ایکشن بنایا جائے۔ مسلمان قیادت واقعی قیادت کا حق ادا کرے۔ ابھی تک اس کا کردار چند لیڈروں کو چھوڑ کر شرمناک رہا ہے۔ متمول عرب ممالک یورپی ملکوں پر گہر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ یہ یورپی ملک پیٹرولیم مصنوعات کی خرید کے لیے مشرق وسطیٰ کے زیرنگیں ہیں۔ یورپ کی مصنوعات سب سے زیادہ عرب ملکوں میں بکتی ہیں۔ اگر عرب حکومتیں اس ضمن میں قیادت سنبھالیں تو یورپ کو نکیل ڈالی جاسکتی ہے۔ انہیں بے مہار چھوڑ دینے کا مطلب مستقبل میں بھی ایسی شرمناک حرکتوں کے ارتکاب کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ اربوں کی مسلم آبادی کا یوں بے بس ہوجانا ملی جمود کی نشانی ہے۔ اس جمود کو مسلم دنیا کی قیادت ہی توڑ سکتی ہے۔ قوت رکھتے ہوئے اُسے کڑے وقت میں استعمال نہ کرنا بڑی بدنصیبی کی علامت ہے۔
بھارت کی شرانگیزیاں
تحریر یاسر محمد خان
بھارتی صوبہ مہارا شٹر میں 10 اپریل کا دن قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن سیواجی مرہٹہ پیدا ہوا تھا۔ اس کی جنم بھومی پونا شہر کے جنوب میں واقع ایک پہاڑی قلعہ شونر تھی۔ شیوا جی بچپن ہی سے مغلیہ حکومت کے خلاف نفرت اور تعصب کے شدید جذبات لکھتا تھا۔ جوان ہوتے ہی اس نے مرہٹوں کی ایک فوج بنالی۔ لوٹ مار کو اپنے پیشے کا درجہ دے دیا۔ ٹورنا کا قلعہ فتح کرنے پر اس کے ہاتھ 2 لاکھ روپے لگے جس سے اس نے اپنی فوج طاقت کو بہت مضبوط کرلیا۔ اس نے پورن دھر، کلیان، سنگھرہ اور کوندانہ کے اہم قلعے فتح کرلیے۔ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے کمانڈر شائستہ خان کو اس کی گوشمالی کے لیے بھیجا۔ اس نے سیواجی مرہٹہ کو شکست دی۔ اس کے صدر مقام پونا پر قبضہ کرلیا۔
سیواجی نے کئی سو مرہٹوں کو عورتوں کا لباس پہنایا۔ رات کے وقت بارات کی صورت پونا داخل ہوگیا۔ اس نے مسلمان فوج پر شب خون مارا اور بہت جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔ یوں سیواجی نے دوبارہ قوت پکڑکر سورت جیسے خوبصورت اور متمول شہر میں زبردست لوٹ مار مچادی۔ وہاں کے باشندوں اوران کی املاک اور مکانوں کو نذر آتش کردیا۔ اورنگزیب نے ایک اور کمانڈر کو بھاری فوج کے ساتھ بھیجا۔
سیواجی نے اپنی کمزوری دیکھ کر صلح کر لی۔ 35 مقبوضہ قلعوں میں سے 23 مغل فوج کے حوالے کردیے۔ دیئے۔ اسے پنج ہزاری منصب عطا ہوا، مگر سیواجی نے اسے حقیر جانا اور آگرہ سے فرار ہونے کے حربے سوچنے لگا۔ اس نے در و شکم کا بہانہ کیا اور یوں دربار سے رخصت لے لی۔ مٹھائی کے بڑے بڑے ٹوکروں میں اپنی آل اولاد کو بٹھا کر فرار ہوگیا۔ اب اس نے سادھوں کا بھیس بدلا اور دکن پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ قطب شاہ کے دربار میں اس نے اپنی سازشوں سے جلد مقام حاصل کر لیا اور اپنی ’’سوراجیہ‘‘ حکومت بنانا شروع کردی۔ دنوں مہینوں میں اس نے کرناٹک کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا۔ اس نے ’’چوتھ‘‘ نامی ظالمانہ ٹیکس متعارف کروایا۔ یوں مخلوقِ خدا پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے۔
٭ سارک کی ہنگامی کانفرنس بلا کر بھارتی جنون ان ملکوں پر عیاں کیا جانا چاہیے۔ ان اسلامی ملکوں کو جن کے بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں انہیںفعال کرنا ہوگا۔ ٭ اگر بھارت کا پاگل پن ختم نہیں ہوتا اور وہ شر انگیزیاں جاری رکھتا ہے تو ساری دنیا کی نظروں کے سامنے اسے آہنی ہاتھ سے روکنا ہو گا۔ ٭
بیجاپور کے والی نے افضل خان نامی ایک بہادر جرنیل کو سیوا جی کاسر لانے لیے بھیجا۔ سیواجی جنگ پر جنگ ہارنے لگا۔ قریب تھا کہ وہ مغل فوج کے ہاتھ لگ جاتا اور اسے قتل کردیا جاتا۔ اس نے اپنی ازلی مکاری سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک سازش تیار کی۔ افضل خان سے ملاقات کی ایک دست بستہ درخواست کی۔ ایک ویران پہاڑی پر دونوں جب ایک دوسرے کے نزدیک پہنچے تو سیواجی نے اپنے ہاتھ پر چڑھائے آہنی پنجے سے افضل خان کا پیٹ چاک کردیا۔ وہ وہیں تڑپ تڑپ کر ختم ہوگیا۔ سیواجی کی فوجوں نے مغلیہ فوج پر حملہ کردیا۔ یوں افراتفری اور بددلی سے سراسیمہ مغل فوج کو شکست ہوگئی۔ آج بھی ہندو تاریخ میں سیواجی کی اس مکاری کو بہترین حکمت عملی قرار دیا جاتا ہے۔ انگریز مورخ اسے ایک ڈاکو سردار اور اس کی ریاست کو ڈاکو ریاست قرار دیتے ہیں۔ اسے ایک ایسا پہاڑی چوہا کہا جاتا ہے۔ جو شب خون مکاری و عیاری سے شہروںپر حملہ کرتا۔ پہاڑی غاروں میں جا چھپتا تھا۔
سیواجی ہندو تاریخ کا وہ کردار ہے جس نے زندگی بھر قتل و غارت گری کی جس نے شہروں میں دور تک ویرانیاں بچھائیں اور مظلوموں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔
جس کے قزاقوں جیسے کردار اور فریب کاری پر مشتمل شخصیت کو آج بھی بھارتی ہندو ایک بڑے لیڈر کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ 10 اپریل کو سارے مہاراشٹر میں خصوصاً پونا میں سیواجی کا جنم دن منایا جاتا ہے۔ اسے خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی اندھی لوٹ مار کو مغل راج کے خلاف دفاعی ہتھیار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور افضل خان کے خلاف بدترین مکاری کو بہترین جنگی حکمت عملی کے طور پر سراہا جاتا ہے۔
31دسمبر 2014ء کو جب پرانا سال رخصت ہورہا تھا۔ نئے سال کے لیے دعائیں ہر ہونٹ پر کپکپا رہی تھیں۔ بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) نے دن 11 بجے ایک میٹنگ کال کی۔ پاکستان کی طرف سے 5 رینجرز کے جوان اس سلسلے میں بارڈر ٹریک پر پہنچے۔ کسی اشتعال کے بغیر بھارتی سورمائوں نے اپنے مہمانوں پر فائرنگ شروع کردی۔ یوں ایک فلیگ میٹنگ کے بہانے 2 رینجرز اہلکاروں کو شہید کردیا گیا۔ ان کی لاشیں اٹھانے کے لیے آنے والوں پر 5 گھنٹوں تک بھارتی سپاہ گولہ بارود پھنکتی رہی۔ یہ کاروائی اگلی ساری رات جاری رہی۔ پنجاب رینجرز کی بھرپور کارروائی کے بعد بھارتی بندوقیں خاموش ہوئیں۔ ڈی جی رینجرز نے بھارت کے ساتھ نچلی سطح پر ہر قسم کے مذاکرات بند کرنے کا اعلان کیا۔ یوں نئے سال کے ان ابتدائی دنوں میں پاکستان کی ابیال ڈرگ، ننگل، بھورے چک، سکمال اور لمبٹریال چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے بھارتی وزیر خارجہ ششماسوراج کو خط بھی لکھا۔ سیکریٹری خارجہ نے بھارتی جارحیت کو ناقابل برداشت قرار دیا۔ غیرملکوں کے سفیروں کو اس بارے میں ایک مفصل بریفنگ بھی دی گئی۔ ان سب کے باوجود بھارتی اشتعال انگیزیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ رینجرز کے علاوہ عام شہری بھی بھارتی فائرنگ سے زخمی اور شہید ہونے لگے۔ 5 جنوری کو شکرگڑھ اور ظفروال سیکٹرز میں بھارتی گولہ باری سے 4 شہری شہید ہوگئے۔ وسیع پیمانے پر مکین نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ شہری آبادیوں پر سیدھی نشانہ بازی سے مکانات تباہ، مویشی ہلاک اور کاروباری زندگی معطل ہو کررہ گیا ہے۔
2014ء میں بھارت نے 562 مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی۔ ورکنگ بائونڈری پر 48 ہزار 688 لائٹ مشین گن راونڈ چلائے، جبکہ 37 ہزار 285 مارٹر گولے فائر کیے گئے۔ صرف اکتوبر 2014ء میں پاکستان کے 14 شہری بھارتی جنون کی نذر ہوگئے۔ مجوعی طور پر 24 افراد شہید اور 150 سے زائد زخمی ہوگئے۔ 347 بار لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی۔ اس نے سامبا سیکٹر، پانڈو سیکٹر، سیالکوٹ سیکٹر، نکیال سیکٹر، کوٹلی آزاد کشمیر، بٹل سیکٹر، چڑی کوٹ سیکٹر، شکرگڑھ سیکٹر، لنجوٹ سیکٹر، شکماسیکٹر، راولا کوٹ سیکٹر اور دیوار ناڑی سیکٹر میں اندھا دھند فائرنگ کی۔ عام شہریوں کے مکانات، املاک اور کھڑی فصلوںکو تباہ کردیا گیا۔ 2012ء میں 114 بار بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کی حدود کو پامال کیا۔ 2011ء میں 62 مرتبہ بھارتی فوج نے اس رقص ابلیس کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔ 2010ء میں 44 بار بھارتی جارحیت کا یہ ننگا ناچ دیکھنے میں آیا۔ 2009ء میں 28 بار بھارتی ازلی دشمنی کے یہ بھیانک ثبوت دیے گئے۔ 2008ء میں 77 بار بھارتی درندوں نے اپنی بدخصلتی کا مظاہرہ کیا۔ 2007ء میں 21 بار ایسے دل فگاری واقعات ہوئے۔ 2006ء میں 3 بار لائن آف کنٹرول کی دھجیاں بکھیری گئی۔ 2003ء میں ایک ایل اوسیز معاہدہ عمل میں آیا تھا جس میں دونوں ملکوں نے سرحدوں کو ہر ممکن طور پر پر امن رکھنے کا اقرار کیا تھا۔ 2001ء سے 2003ء تک بھارتی جنگی جنون آپریشن پر اکرام کی صورت سرحدوں پر منڈلاتا رہا تھا۔
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر گزرتے سال بھارتی جنگلی پاگل پن کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ مشرقی سرحدوں پر امن کے ہر پنچی کے بال و پر اکھاڑ کر پھینک دیے گئے ہیں۔ پاکستان کے اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندو سپاہ مسلسل حرکت میں ہے۔ اکتوبر 2014ء سے ہم ایک ایسے فیز میں داخل ہوگئے جہاں بارڈر پرسکون نام کی چیز ڈھونڈنے میں نہیں ملتی۔ بھارت نے اکتوبر 2014ء سے اپنے توپ خانے کو سر گرم رکھا ہوا ہے۔ 20 ہزار دیہاتیوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی ہے۔ 64 دیہات کو آبادی سے خالی کروانا پڑا ہے۔ سول آبادی اسکول ہسپتال چن چن کر نشانہ بنائے گئے۔ بارڈر سے فوج شمالی وزیر ستان منتقل کرنے پر ہندوئوں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور بلااشتعال فائرنگ کو اپنا وطیرہ بنالیا۔ اندورن ملک بھارتی میڈیا ایک جنونی ہیجان میں مبتلا ہوگیا ہے۔ ہر طرف سے پکڑو مارو کی صدائیں آرہی ہیں۔ 26 جنوری کو صدر اوبامہ بھارت کے یوم جمہوریہ کے دورے پر آرہا ہے۔ اس کی آمد سے قبل بھارت ماحول کو گرما کر خود کو بے گناہ قرار دینے کے حربوں پر عمل پیرا ہے۔ اوبامہ بھارت میں کئی نئے معاہدوں پر دستخط کرنے آرہا ہے۔ پہلے بھی اس کی خواہش پر بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ سے استثنیٰ ملا۔ بھارت نے دنیا بھر میں اپنی جوہری بر آمدات سے نہ صرف مال سمیٹا، بلکہ ملکوں سے گہرے تعلقات بھی استوار کرلیے۔ روپے کی اس ریل پیل نے ہندو زہنیت کو مزید عریاں کردیا۔ خباثتیں مکمل طور پرننگا ہوگئیں۔
بھارت کرئہ ارض کا سب سے بڑاعجوبہ ہے۔ عددی اعتبار سے یہ سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اس کی آبادی 220 بلین افراد پر مشتمل ہے۔ یہ 35 صوبوں اور ریاستوں پر مشتمل ہے۔ ملک کی 86 کروڑ آبادی شدید ترین غربت کی چکی میں پیس رہی ہے۔ 50 کروڑ نفوس شدید کمی خوراک کے عفریت کے رحم وکرم پہ ہیں۔ ہندوستان دنیا بھر میں بے روزگاری میں سب سے آگے ہے۔ ہر 100 میں سے 22 افراد کے پاس کوئی روز گار نہیں۔ ملک کا بجٹ خسارہ 100 بلین ڈالرز ہے۔ تجارتی خسارہ 190 بلین ڈالرز ہے، جبکہ عوامی قرضہ جی ڈی پی کا 27 فیصد ہے۔ راجیہ سبھا، لوک سبھا اور صوبائی اسمبلیوں کے کل اراکین 9290 ہیں۔ ان میں بیشتر بی جی پی کے نعرے ’’ہندو توا‘‘ کو دل میں جگہ دیے ہوئے ہیں۔ بھارتی میڈیا پر ان دنوں ان زہریلے سانپوں نے جی بھر کر پاکستان کے خلاف زہر اگلا ہے۔ بی بی سی نے ششما سوراج کا ایک انٹرویونشر کیا جس میں اس نے سرحدی کشیدگی کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا۔ حیرت ہے کہ غریب غربا کی 86 کروڑ فوج رکھنے کے باوجود بھارت اپنے دفاع پر سالانہ 42 بلین ڈالرز کیونکر لگارہا ہے۔ اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ کے ثمرات میں سے ایک وہ اسلحے اور گولہ بارود کے ڈھیر ہیں جن کو دنیا بھر کی بلیک مارکیٹوں سے اکٹھا کیا گیا ہے۔ امریکی پشت پناہی پر بھارت کیلئے ٹینک، بکتر بند گاڑیوں، میزائلوں، مشین گنوںاورراکٹوں کا حصول نہایت درجہ آسان بنا دیا گیا ہے۔ ہندو اس طاقت کو پاکستان پر چاند ماری کے لیے مسلسل استعمال کر رہا ہے۔
جان کیری کے دورہ پاکستان پر اس ساری صورت حال کی سنگینی اسے سمجھانا ہو گی۔ مسکراہٹوں اور گرم جوش مصافحوں کے تبادلوں، پر تعیش ظہرانوں کے انعقاد کے علاوہ یہ نہایت سنگین مسئلہ ہر فورم پر اٹھانا ہوگا۔ پاکستان تمام سرحدی ملکوں کو صورت حال سے آگاہ کرے۔ اقوام متحدہ کے ہر فورم پر مسئلے کو پوری طرح واضح کیا جائے۔ سارک کی ہنگامی کانفرنس بلا کر بھارتی جنون ان ملکوں پر عیاں کیا جانا چاہیے۔ ہمیں دی ہیگ ہالینڈ میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں جانا ہو گا۔ ان اسلامی ملکوں کو جن کے بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں انہیںفعال کرنا ہوگا۔ ہر طرف سے دبائو آنا چاہیے تا کہ بھارتی حکومت اورفوج کا نشہ ہرن ہو۔ ہمیں پہلے ہر طور اس مسئلے کو صلع جوئی سے حل کرنا چاہیے۔ اگر بھارت کا پاگل پن ختم نہیں ہوتا اور وہ شر انگیزیاں جاری رکھتا ہے تو ساری دنیا کی نظروں کے سامنے اسے آہنی ہاتھ سے روکنا ہو گا۔ ہماری جنگی کاروائیاں بھارتی فوج کو براہ راست نشانہ بنائیں۔
ہمیں اسلام کے زیریں اصولوں کی روشنی میں عام آبادیوں کو بچانا ہو گا۔ ہم ہندووں کی پشت زہنیت پر کبھی نہیں اتر سکتے۔ ہماری ہر کاروائی اپنے دفاع کے لیے ہو گی۔ ہماری بہادر افواج کسی بھی ایسے چیلنج کا مقابلہ سرفروشی سے کر سکتی ہیں۔ امن کی ہر خواہش کو دشمن ہماری بزدلی نہ سمجھ لے اس لیے ہمیںسیلف ڈیفنس کے سارے ضابطوں کو بھی پورا کرنا ہو گا۔ آہنی لاٹھی کا ایک ہی وار سیواجی مرہٹہ کے ان پیروکاروں کے لیے کافی ہو گا۔ لومڑی مکاری میں کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائے وہ بہادری اور دلیری میں شیر کی ہم پلہ کبھی ہو سکتی۔
فلسطین کی آزادی تک
تحریر یاسر محمد خان
’’ہیلوی کے یوسی‘‘ (Halvi K Youssie) اسرائیل کا ایک بڑا دانشور ہے۔ 7 ستمبر 2002ء کو اس نے مشہور امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں ایک مضمون لکھا۔ اس کا عنوان Introspective as a prerequisite for Peace (امن کے لیے اوّلین شرط باطن میں جھانکنا) تھا۔ یہ مضمون اپنے وقت کی شہرئہ آفاق تحریروں میں شامل ہوگیا۔ اسے دنیا بھر کے پریس نے چھاپا۔ بے شمار زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے۔ ’’یوسی نے اسرائیل فلسطین جنگ پر ایک نئے انداز میں روشنی ڈالی تھی۔ وہ یہودیوں کی تاریخ کے اوّلین دور میں گیا۔ اجتماعی یہودی لاشعور (Collective Jewish Unconscious) سے پردہ اٹھایا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہودی اپنی تاریخی بداعمالیوں کا بوجھ اپنے باطن میں اٹھائے پھر رہے ہیں ۔ یہ بوجھ دوسری قوموں کے خلاف شدید نفرت جنگ و جدل کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ یہودی نفسیات میں سفاکیت در آئی ہے۔ وہ کسی بھی مظلوم کا نقطہ نظر سننے اور جانچنے کا روادار نہیں رہی۔ یہودیوں نے پچھلی چند صدیوں میں یورپ کو سازشوں کا گڑھ بنادیا۔ ملکوں کو باہم لڑایا اور یوں ان کے خلاف نفرت بیسویں صدی کے پہلے نصف میں اپنی انتہا تک پہنچ گئی۔ ہٹلر نے جرمنی میں ان کا صفایا شروع کردیا۔ زیرک یہودی دماغوں نے دنیا بھر سے اپنے اثاثے اکٹھے کیے۔ فلسطین میں ایک جنگی الائو روشن کردیا۔
1948ء میں یہودیوں نے مسلمانوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا۔ 1956ئ، 1967ء اور 1973-74ء میں جنگیں ہوئی۔
اسرائیل نے ایک لاکھ 9 ہزار 93 مربع میل کا عرب علاقہ ہڑپ کرلیا۔ فلسطینی مسلمان لبنان، اردن اور شام میں بکھر گئے۔ عیسائیوں کے ساتھ ساتھ اردن اور شام کی مسلمان حکومتوں نے بھی ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے۔ لبنان میں یہ مسلمان صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں میں مقیم ہوگئے۔ یہ کیمپ باقاعدہ طرز کے بنے ہوئے مکانات تھے۔ مسلمانوں نے اپنی جمع پونجی ان کی تعمیر پر خرچ کردی تھی۔ یوں یہ باقاعدہ کالونیاں بن گئیں۔ اسرائیل کے ایما پر ایک عیسائی ’’بشیر جمائل‘‘ کو لبنان کا صدر منتخب کرلیا گیا۔ چند دنوں بعد وہ قتل ہوگیا اور فلسطینی مسلمان کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا جانے لگا۔ اسرائیل نے لبنان کے فلانجی عیسائیوں کو اپنا ہراول دستہ بنایا اور مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا۔ ’’یوسی‘‘ کے مطابق صابرہ کیمپ سے صرف اڑھائی سو قدم دور ایک 7 منزلہ عمارت کو یہودیوں نے اپنا کیمپ آفس بنالیا۔ یوں 15 ستمبر 1982ء کو دن 2 بجے یہ قتل عام شروع ہوا۔ صابرہ اور شتیلہ کیمپ ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ اسرائیلوں نے کیمپوں کے راستے ٹینک لگا کر بند کردیے۔ عیسائی اور یہودی رائفلوں، گرنیڈوں اور مشین گنوں سے حملہ آور ہوئے۔ غروب آفتاب تک قتل عام جاری رہا۔ خصوصاً نوجوان لڑکوںکو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ 16 ستمبر 1982ء کی صبح اسرائیلی وزیر دفاع مشیروں کے حکم پر فلانجی عیسائی فوجوں نے قتل عام جاری رکھا۔ غروب آفتاب کے وقت یہودیوں نے مارٹر گنوں سے روشنی کے گولے Flares فائر کرنا شروع کردیے۔ یوں رات کو دن بنادیا گیا۔ یہ گولے پیراشوٹ سے فضا ہی میںمعلق رہتے تھے۔ مارٹر گنوں، رائفلوں، مشین گنوں، سب مشین گنوں، گرنیڈوں کے دھماکے فضائوں میں گونجنے لگے۔ کیمپوں میں قیامت بپا کردی گئی۔ عورتوں، بوڑھوں، شیر خوار بچوں، نوجوانوں کا لہو گلی گلی بہنا شروع ہوگیا۔ مسلمانوں کو مارنے کے لیے ایسے ایسے طریقے ایجاد کیے گئے کہ شیطان بھی ششدرہ گیا۔
17 ستمبر 1982ء کو فلسطینیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ایک جگہ اکٹھے ہوجائیں۔ جیسے ہی ایک ہجوم جمع ہوا اس پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ ہسپتالوں میں گھس کر زخمی فلسطینیوں کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ 18 ستمبر کو ریڈ کراس نے زخمیوں کو طبی امداد دینے کے لیے اسرائیلی حکومت سے درخواست کی جسے سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ اس رات لبنان کے سارے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دے کر رخصت پر بھیج دیا گیا۔ ہسپتالوں میں جمع زخمی تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ 19 ستمبر 1982ء کو دن ساڑھے 10 بجے قتل عام ختم کردیا گیا ۔ ریڈکراس، ہولی ڈیفنس، لبنان کی مسلمان فوج اور رضاکار کیمپوں میںداخل ہوئے۔ جدھر نظر اُٹھتی لاشیں ہی لاشیں دکھائی دے رہی تھیں۔ یہودیوں نے اموات کم دکھانے کے لیے بلڈوزر سے گڈھے کھودے اور لاشیں گڈھوں میں پھینک دیں۔ ایک مشترکہ قبر ایسی دیکھی گئی جو 50 مربع گز کی تھی۔ اس ہولناک سانحے کے بعد یہودیوں نے فلانجیوں کو قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ خود کو اس شیطانی کھیل سے بری الذمہ قرار دیا۔ ’’ہیلوی کے یوسی‘‘ لکھتا ہے: ’’یہ سب قتل عام یہودیوں نے کیا۔‘‘ وہ اسے وقت کی ستم ظریفی قرار دیتے ہوئے کہتا ہے: ’’صابرہ اور شتیلہ عین اس جگہ واقع تھے جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایمان کی درانتی سے فصل صلیبی کاٹی تھی۔ رچرڈ سوئم کو شکست دی تھی اور عیسائی مسلمانوں کی ساری شرائط مان کر میدان جنگ سے واپس جا پائے تھے۔‘‘
1982ء کے بعد بھی ہر سال مسلمان اپنے خون کا خراج ادا کرتے رہے ہیں۔ جنوری 2006ء میں حماس نے فلسطین میں الیکشن جیتا تو اب تک 2009ئ، 2012ء اور 2014ء میں وسیع پیمانے پر مسلما نوں کا قتل عام ہوچکا ہے۔ سب سے ہولناک سال 2014ء رہا جس میں 2000 سے زائد مسلمان شہید کردیے گئے۔
8 جولائی سے 26 اگست تک اسرائیل نے ’’آپریشن برائے تحفظ کنارہ‘‘ شروع کیے رکھا۔ یوں غزہ کے مغربی کنارے پر فضائی اور زمینی کا روائی کرتے ہوئے فلسطینی علاقے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا۔ اسرائیل نے 3 یہودیوں کے قتل کا بہانہ بنایا اور درندگی کا راج قائم کردیا ۔ 7 ہفتوں پر محیط یہ قتل عام مہذب دنیا کی عین آنکھوں کے نیچے ہوتا رہا، مگر اسرائیل کا کوئی کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ اسرائیل کے مطابق اس نے حماس کے 5000 سے زائد ٹھکانوں پر بمباری کی۔ 34 خفیہ سرنگیں اور حماس کا دو تہائی اسلحہ تباہ کیا گیا۔ 2143 فلسطینیوں میں سے 1500 عام شہری شہید ہوئے۔ 17000 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ 30,920 مکانات جزوی طور پر تباہ ہوئے۔ 120 مسجدیں شہید کی گئیں اور 43 کو جزوی نقصان پہنچا۔ 24 اسکول مکمل طور پر جبکہ 198 جزوی طور پر تباہ ہوگئے۔ 9563 افراد شدید زخمی ہوئے۔ 4 لاکھ 75 ہزار افراد بے گھر ہوگئے۔ حماس نے اسرائیل پر 4564 راکٹ فائر کیے جن سے 161 افراد ہلاک ہوئے اور 651 زخمی ہوئے۔ ان خوفناک اور دل ہلا دینے والے حملوں کے باوجود امریکی حکومت نے اسرائیل کی دل کھول کر مدد کی۔ دراصل یہودیوں نے اسرائیل کے بعد جس ملک میں سب سے زیادہ جڑیں گاڑ رکھی ہیں وہ امریکا ہے۔
’’ چارلس ایف مارڈن‘‘ (Charles F. Marden) نامی امریکی نے ان پر ایک کتاب لکھی ہے۔ Minorities in American Societyکے نام سے شائع ہوئے ہے۔ اس میں امریکا میں موجودہ 4 بدنام زمانہ یہودی تنظیموں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔ ان میں ایک The American Jewish Committee، 2 پر The Anti Defamation League 3 پر The American Jewish Congress اور 4 پرThe Jewish Labour Committee شامل ہیں۔ مارڈن لکھتا ہے: ’’نسل کے اعتبار سے یہودی امریکیوں سے انتہائی مختلف ہیں۔ ان کی ناکیں لک کی طرح، بال سیاہ اور چہروں کے خدوخال ایسے ہوتے ہیں جو غیریہودیوں کی نگاہ میں کشش سے عاری ہوتے ہیں۔ ان کے روز مرہ زندگی کے طور طریقے مختلف ہیں جن کی بنیاد ان کے ایک ایسے مذہب پر رکھی گئی ہے جو عجیب و غریب رسومات اور خانگی رسم و رواج کا مجموعہ ہے۔ یہودیوں میں سب سے آگے نکل جانے کا خبط ایسا ہے کہ وہ غیریہودیوں کے خلاف جار حانہ طریقے اور زمین دوز کا روائیاں شروع کردیتے ہیں۔ ان کے ذہن پرلے درجے کے سازشی ہیں۔ وہ غیریہودی دنیا میں کوئی نہ کوئی مصیبت پیدا کرنے کی اسکیمیں ہمہ وقت سوچتے رہتے ہیں۔
ایک امریکی فلم پروڈیوسر ’’جارج پیکرز‘‘ نے خاصی عرق ریزی کی اور یہودیوں کے جرائم پر ایک فلم بنائی۔ اس کا نام A History of Jewish Crimes رکھا گیا۔ امریکی سنسر بورڈ میں بیٹھے یہودیوں نے اس فلم پر مکمل پابندی لگوادی۔ امریکا سمیت دنیا بھر میں اس کے دکھانے پر سزا مقرر کردی گئی۔ یوں انسانیت کے خلاف کیے گئے یہودی جرائم پر سے پردہ نہ اٹھ پایا۔ آج جب 2014ء اختتام پذیر ہوچکا ہے۔ امریکی آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم نہ کرنے پرپہلے نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ میں اس مقصد کے لیے ایک قرار داد پیش کی گئی۔ دنیا کے 193 میں سے 180 ملکوں نے اس کی پرزور حمایت کی۔ فرانس، برطانیہ اور سویڈن جیسے عیسائی ملکوں نے بھی قرارداد کی حمایت کی۔ اسرائیل، امریکا، کینیڈا اور ناروے سمیت 7 ملکوں نے اس کی مخالفت کی۔ 4 ملکوں نے اس قرارداد کے نہ حق میں نہ مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ یوں امریکا نے یہودیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے فلسطینی مسلمانوں کے جائز حق کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے سارے ذیلی اداروں اور ایجنسیوں کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ فلسطینی حق خوداریت کے راستے میں حائل ہر دیوار کو گرادے تا کہ یہ تنازعہ حل ہو اور پائیدار امن کی کوئی صورت نکل سکے۔ پاک فوج کے سربراہ نے بھی مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے فوری حل پر زور دیا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جن ملکوں میںعیسائیوں پر کوئی بُرا وقت آتا ہے، ساری عیسائی دنیا ان کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے۔ پوپ بھی کھیتولک چرچ سے فرمان جاری کرنا شروع کردیتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا بھی دن رات اس مسئلے کو اٹھائے اٹھائے پھرتا ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات میں اسے نہایت نمایاں جگہ ملتی ہے۔ ہر بین الاقوامی فورم پر اسے پوری طرح ہائی لائٹ کیا جاتا ہے۔ بڑے ملکوں کی تنظیمیں بھی فعال کردار ادا کرنا شروع کردیتی ہیں۔ یوں مشرقی تیمور میں عیسائیوں کے لیے علیحدہ ریاست وجود میں آگئی۔ نائیجیریا میں ’’بوکو حرام‘‘ ایک بین الاقوامی اچھوت بنادی گئی۔ دن رات عیسائیوں کے حقوق پر فرمان سننے کو آرہے ہیں۔ الشباب کے نظام پر تبصرے اور تجزیے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ارجنٹائن نے برطانوی تسلط سے اپنے جزیرے خاک لینڈ کو چھڑایا تو ساری دنیا برطانیہ کی طرف ہوگئی۔ روس نے عیسائی اکثریت کا ملک ہڑپنا شروع کیا ہے تو ہر طرف ایک واویلا سنائی دے رہا ہے۔ ساری عیسائی دنیا میں زلزلے بپا ہونے لگے ہیں۔ رُوس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے یورپی یونین امریکا کی سرکردگی میں خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہے۔
دوسری طرف دیکھیں تو او آئی سی مسلم دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اس کے 4میں سے ایک سیکرٹری جنرل کی بظاہر تمام تر توجہ فلسطین پر مرکوز رہتی ہے۔ اس تنظیم نے القدس کمیٹی بھی بنا رکھی ہے۔ ایک القدس فنڈ بھی قائم کر رکھا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے ملٹری تعاون کا ایک دفتر بھی کاغذات میں موجود ہے۔ عملاً جب کبھی مسلمانوں پر کڑا وقت آیا ہے، اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹرز سے بیانات کا ایک تند و تیز سیلاب نکل آتا ہے۔ پریس کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ اعلامیے جاری کیے جاتے ہیں۔ الفاظ کا ایک پہاڑ کھڑا کردیا جاتا ہے، جسے روندکر اسرائیل اپنی سفلی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ مسلم دنیا کی دوسری بڑی تنظیم عرب لیگ ہے جو صرف عرب دنیاسے اپنا سروکار رکھتی ہے۔ اس کا بجٹ او آئی سی سے 10 گنا زیادہ ہے۔ اس کے باوجود یہ او آئی سی جیسی ہی ناکامیوں اور نا مرادیوں کا تاج سرپر سجائے ہوئے ہے۔ مسلم دنیا کے بعض ملکوں کے پاس الف لیلوی دولت کے انبار ہیں۔ اس کے بادشاہ سونے کے محلوں میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے ذاتی جہازوں کے بیڑے ہیں۔ ان کے پاس اتنے وسائل ہیں فلسطینیوں کے لیے ایک دو مسلمان ملکوں کے علاوہ کوئی مدد کو نہ آیا۔ شرم کی بات یہ ہے کہ عیسائی دفاعی تنظیم ریڈ کراس سب سے پہلے غزہ پہنچی۔ ساری مسلم دنیا اجلاس قراردادوں، اعلامیوں، مذمتی بیانات، بینروں اور نعروں جلوسوں کے علاوہ کچھ نہ کرسکی۔ عربوں میں ملی بے حسی کی مقدار مرور ایام کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ محض مذمتی تیر چلا کر یہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ متاثرین کی بحالی کے لیے مسلم دنیاسے فنڈز بہت کم آتے ہیں۔ یوں خون مسلم بہتا رہتا ہے۔ زخمی سسکتے رہتے ہیں۔ ان کے گھر اندھیری گھچائیں بن جاتے ہیں۔ بچوں کے اسکول تباہ اور مسجدیں برباد کردی جاتی ہیں۔ ہسپتال اور اناج گھر بھسم کردیے جاتے ہیں۔ خوراک کے دانے دانے کے لیے مجبور مسلمان بھٹکتے پھرتے ہیں۔ سارے دفاع کی تباہی کی وجہ سے بیرونی امداد، خوارک اور ادویات مستحقین تک نہیں پہنچ پاتیں۔ یہ کہانی نئے اسکرپٹ کے ساتھ ہر دوسرے برس دوہرائی جارہی ہیں۔ ان بھیانک فلسطین کا مسئلہ فلسطینیوں کی مرضی اور منشا کے مطابق حل ہو جاتا ہے تو یہ سارے خطے کے لیے امن لے کر آئے گا۔ یہ رہتا ہوناسور اگربھر جائے تو عالمی امن کے خواب کا ایک بڑا حصہ پورا ہو جائے گا۔
پاکستان کو اس کڑے وقت میں آگے آنا ہوگا۔ ہمیں اس اُبھرتے ہوئے منظرنامے میں ایک فعال کردار ادا کرنا ہے۔ فلسطین کی آزادی ہماری خارجہ پالیسی کا محدود رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے ہم اسے عملی جامہ پہننانے کے لیے سب سے آگے آجائیں۔ ساری اسلامی دنیا کو باور کرانا ہو گا کہ ان تاریخی ساعتوں میں سب گراں خوابی سے بیدار ہوں اورا پنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ اقوام متحدہ میں ہر مسئلے کے پائیدار حل کے لیے اسے مسلسل زندہ رکھنا ہوگا۔ دنیا قرار داد پاس کرواکر اپنے کام دھندوں میں لگ جائے گی۔ امریکی منافق کوشش کریں گے کہ اس پر وقت کی گرد جم جائے، یہ نظروں سے دور ہوجائے اور اسرائیلوں کی گوشمالی کا یہ موقع ضائع ہوجائے۔ اب یہ مسلم دنیا پھر منحصر ہے کہ وہ کس قدر جاندار کردار ادا کرتی ہے؟ اگر اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور عالمی ضمیر کو بار بار جھنجھوڑا جائے تومنزل قریب آسکتی ہے۔ اگر ہم نے موقع ضائع کر دیا تو اس بھاری قرار داد کا مستقبل وقت کی گہری دھند میں روپوش ہوجائے گا۔ ہم خدانخواستہ! دوبارہ اسرائیلی درندوں کی سفاکیت و بربریت کی مثالیں دیکھ رہے ہوں گے۔ اگر عیسائی ملک اپنے چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر ساری دنیا کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں، وہ میڈیا اور سیمینارز میں اسے وقت کا سب سے زیادہ اہم معاملہ بنا کر پیش کرسکتے ہیں تو ہم کئی دہائیوں سے جاری اس جنگ و جدل کو رکوانے کے لیے کیوں سر گرم نہیں ہوسکتے ہیں؟ او آئی سی عرب لیگ سارے اسلامی ملک ان کی ساری فعال تنظیمیں اس قرارداد کی ہمہ وقت تازہ رکھیں تو مسئلہ فلسطین کا حل نکلنا شروع ہوجائے گا۔ اگر سورج کی روشنی کاغذ پر مرتکز ہو تو اسے جلا ڈالتی ہے اگر ساری مسلم دنیاکی قوت ایک ہو جائے تو اسرائیل کو بھسم کرسکتی ہے۔ فلسطینیوں کے گرد کسا ہوا یہودی شکنجہ ٹوٹ سکتا ہے۔ فلسطین کو آزادی مل سکتی ہے۔