یاسر محمد خان

خبردار
تحریر یاسر محمد خان

’’را‘‘ (RAW) بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ہے۔ یہ Research & Analysis Wing کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کا قیام 21 ستمبر 1968ء کو عمل میں آیا۔ پہلے یہ انوسٹی گیشن بیورو کہلاتی تھی۔ 1962ء کی چین بھارت جنگ میں بھارتی چین کے بارے میں نہایت غلط اندازے لگاتے رہے۔ آئی بی کی رپورٹوں کے مطابق چینی 3 دنوں تک بھارتی گولہ باری کا سامنا کرنے کے قابل نہ تھے۔ جواہر لال نہرو اُس وقت بھارتی وزیر اعظم تھا۔ اُس نے اس جنگ میں بھارتی شکست کو شدت سے محسوس کیا۔ ’’را‘‘ کے نام سے ایک بڑی خفیہ ایجنسی بنانے کی منظوری دی۔ 1964ء میں نہرو کی موت کے بعد لال بہادر شاستر ہندوستانی وزیراعظم بنا۔ 1965ء میں بھارت کے تمام اندازے دوبارہ غلط ثابت ہوئے اور اُسے عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شاستری تاشقند معاہدے کے دنوں میں چل بسا۔ اندرا گاندھی نے آکر ’’را‘‘ کے لیے 20 ملین ڈالرز فنڈز کی منظوری دی۔ ایوی ایشن ریسرچ سینٹر کو ’’را‘‘ کا حصہ بنایا جس نے چین اور پاکستان کی خفیہ فلائی نگرانی شروع کردی۔ 1971ء میں ’’را‘‘ کا بجٹ بڑھاکر 300 ملین ڈالرز کردیا گیا۔ یوں بظاہر دنیا کی نظر میں یہ تحقیق کا یہ ادارہ ہے جو حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں نتائج اخذ کرتا ہے۔ درحقیقت یہ پڑوسی ملکوں کے لیے ایک دلدل ہے۔ ایک ایسا ہولناک گردبار ہے جس کے جھکڑوں نے جنوبی ایشیا کو لرزہ براندام کر رکھا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا بجٹ بڑھایا جاتا رہا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اس کے تمام فنڈز کو آڈٹ سے مبرا قرار دے دیا گیا۔ یوں ارب یہ اربوں ڈالرز صرف کرنے والی ایجنسی بن گئی ہے۔ اس کے ڈیپارٹمنٹس کتنے ہیں؟ اور اس کے عملے کی تعداد کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں بتاسکتا۔ نئی دہلی میں اس کا ہیڈکوارٹر ہے۔ بھارت کے طول و عرض میں اس کے خفیہ دفاتر واقع ہیں۔ ضلع گوڑ گائوں میں جاسوسوں کو بیرونی زبانیں سکھانے کا ایک جدید ترین سینٹر بنایا گیا ہے۔ یہ جاسوس فر فر بولنا سیکھتے ہیں تو انہیں متعلقہ ملکوں میں جاسوسی کے لیے بھجوادیا جاتا ہے۔

یہ ایجنسی ڈائریکٹ بھارتی وزیراعظم کو رپورٹ دیتی ہے۔ اس کا کمانڈر اینڈ کنٹرول سسٹم وزیراعظم کے دفتر سے آپریٹ کرتا ہے۔ ’’را‘‘ نے وقت کے ساتھ ساتھ جاسوسی کے جال کو تمام ہمسایہ ملکوں میں پھیلادیا۔ بھارتی مفادات کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا جانے لگا۔ خوبصورت عورتوں کو یہ ایجنسی نہایت پرکشش مراعات پر ہائر کرتی ہے۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹ ملکوں سے راز چوری کرنے، خفیہ مقامات کی حساس تصویریں اور تفصیلات اکٹھی کرنے، اعلیٰ پوسٹوں پر تعین افراد کو شراب و شباب کی طرف راغب کرنے، کمپیوٹروں سے نازک ڈیٹا اُڑا لینے، علیحدگی پسندوں کو جدید ترین اسلحہ مہیا کرنے، اُن کو اعلیٰ جنگی ٹریننگ دینے، نقشوں کی مدد سے انہیں عین ہدف پر حملہ کرنے کی مہارت دینے راہ میں حائل اعلیٰ شخصیات کو قتل کرانے، فراقہ وارانہ اور لسانی فسادات کروانے جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹ افغانستان سری لنکا، برما، مالدیپ، بھوٹان اور نیپال جیسے ہمسایہ ملکوں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ افغانستان میں یہ مدتوں پاکستان دشمن عناصر کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتے رہیں۔ اس کے ایجنٹ 1979ء سے پہلے کی ہر افغان حکومت کو پاکستان کے خلاف مضبوط بناتے رہے۔ روسی حملے کے وقت را روس کی پشت بان گئی۔ 1988ء کے بعد یہ لک میں قتل و غارت گری کرنے والے ہر لشکر کی ڈھال بن گئی۔ یوں طالبان کے خلاف یہ شمالی اتحادی کی سب سے بڑی سپورٹ بن گئی۔ نائن الیون کے بعد یہ افغانستان میں طالبان کے لہو کو سونگھتی پھری اور پھر کرزئی اور اشرف غنی کے ساتھ شیر و شکر ہوگئی۔ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز خیفہ طور پر ’’را‘‘ سے مدد لیتے رہے اور جافنا کے گردونواح پر قابض ہوگئے۔ 2015ء میں سابق صدر راہندھارا جاپسکا کو راستے سے ہٹانے کے لیے را نے ہر طرح کا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ سابق صدر سری لنکا اور چین کو نہایت قریب لے آیا تھا، یوں اسے راستے سے ہٹادیا گیا۔ نیپال میں شاہی خاندان تمام کا تمام را کے زیرنگیں رہا۔ جب ایک شاہ نے حکم عدولی کی تو وہ خاندان سمیت قتل کردیا گیا۔ برما، مالدیپ اور بھوٹان را کے مدار میں گھومنے والے سیارے بن کر رہ گئے ہیں۔ را یہاں ہندوستانی مفادات کی فصلیں بوتی اور سازشوں کی درانتی سے انہیں مسلسل کاٹتی رہتی ہے۔

را کی خفیہ کارروائیوں پر سب سے دلچسپ کتاب میجر جنرل وی کے سنگھ نے لکھی۔ یہ ’’IRO raw experience‘‘ (ناپختہ تجربہ) کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کتاب نے بھارت میں سنسنی پھیلادی۔ وی کے سنگھ بتاتا ہے کہ چین کی قوت سے خوفزدہ را امریکی سی آئی اے کے ساتھ مل کر چین کی مسلسل جاسوسی کرتی رہتی ہے۔

جب پاکستان کے ایٹم بم بنانے کی تیاریوں کی بھنک را کو پڑی تو اُس نے کہوٹہ کے بارے میں ہر طرح کی جانکاری کی کوششیں شروع کردی۔ یورینیم افزودگی کی ایک بڑی نشانی قریبی آبادی کے بالوں میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔ را کے ایجنٹوں نے کہوٹہ کے گردونواح میں حجاموں کی دکانوں سے کٹے بالوں کو جمع کیا اور ریسرچ سے اندازہ لگالیا کہ پاکستان یورینیم افزودہ کرچکا ہے۔ 1989ء میں کشمیری مجاہدین کے خلاف را نے ’’آپریشن چانکیہ‘‘ کا آغاز کیا۔ کشمیری فریڈم فائٹرز کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ اُن کے گھروں کی نگرانی، انہیں اغوا کرکے موت کے گھاٹ اُتارنے، مشتبہ افراد پر انسانیت سوز تشدد، عورتوں کی عصمت دری،بچوں کا بہیمانہ قتل سب را کی پالیسیوں کا شاخسانہ تھا۔ مئی 2000ء میں را کے ایجنٹ آزاد کشمیری میں کوٹلی ضلع کے لنجوٹ نامی گائوں میں گھس آئے اور 16 افراد کی گردنیں کاٹ گئے۔

را نے پاکستان کے خلاف سب سے بڑی کارروائی 1969ء سے 1971ء کے درمیان مشرقی پاکستان میں کی۔ نہایت منظم انداز میں ہر پاکستان مخالف کو دوست بنایا گیا۔ کلکتہ کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بنگالی مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا، اُن کو اعلیٰ درجے کے کھانے کھلائے جاتے اور ان کی خوب برین واشنگ کی جاتی۔ مشرقی پاکستان میں سب سے پہلے استاذوں کو را نے اپنے شیشے میں اُتارا۔ یہ جوں ہی را کے حلقہ دام میں پھنسے، انہوں سارے بنگالی بچوں کی کایا کلپ کردی۔ یہ زہر بنگال میں تیزی سے پھیلتا چلاگیا۔ بنگالی ریڈیو اور ٹی وی کا سارا عملہ کلکتہ سے پروپیگنڈے کے نت نئے دائو سیکھ کر آنے لگا۔ بنگالی کسانوں کو قائل کرلیا گیا کہ اُن کے پٹ سن کے کم دام مغربی پاکستان کی وجہ سے ہیں۔ آزادی کے بعد ہر بنگالی کسان مالدار اور آسودہ حال ہوجائے گا۔ بنگالی اخبارات میں را کے ایجنٹ گھس گئے اور ہر پڑھے لکھے بنگالی کو آزادی کے لیے تیار کرنا شروع ہوگئے۔ عوامی لیگ کی ساری لیڈر شپ شیخ مجیب الرحمن کی سرکردگی میں را کے زیر اثر آگئی۔ یہ لوگ آئے روز بھارت کے دورے کرنے لگے۔ بنگالی لیڈر شپ کو بوریوں میں بھر کے روپے دیے گئے جو انہوں نے گلی محلے کی سطح پر اپنے کارکنوں میں بانٹے۔ علیحدگی کی فصل پک کر تیار ہوگئی تھی۔ را اپنی کاوشوں کو یوں پھلتے دیکھ کر نہال ہوئے جارہی تھی۔ بنگال کے ہر کوچے میں بنگلہ دیش کا نعرہ بلند ہورہا تھا۔ عوامی لیگ نے مکتی باہنی نامی ایک عسکری ونگ بنالیا تھا۔ یہ لوگ ہندوستان میں فوجی ٹریننگ حاصل کرچکے تھے، وہاں انہیں مفت خوراک، رہائش اور الائونس ملے تھے۔

اس پس منظر میں 1970ء کے انتخابات ہوئے۔ را کو دھڑکا لگ گیا کہ اگر مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان کی حکومت تسلیم کرلی تو اُس کی سازش کے پرکٹ جائیں گے۔ یہاں را نے یحییٰ خان اور بھٹو کے اتحادیوں میں اپنا اثرورسوخ استعمال کیا۔ یوں باہمی آویزش کی ہوائیں ملک کے دونوں حصوں میں چلنا شروع ہوگئیں۔ کامیاب ہوتے ہوئے مذاکرات کو سبوتاژ کردیا گیا۔ مغربی پاکستان میں را کے ایجنٹوں نے امن کی کوئی بیل منڈھے نہ چڑھنے دی۔ اُس کے پتے اور جڑیں نوچ کر پھینک دی گئیں۔ 1971ء کی جنگ شروع ہوئی۔ را کے ایجنٹوں نے بنگالیوں کا قتل عام شروع کردیا۔ سارے بنگال میں یہ باور کروادیا گیا کہ پاک فوج بنگالیوں کا لہو بہارہی ہے۔ اس منظرنامے میں را نے مکتی باہنی کو استعمال کیا۔ ہندوستانی فوج بارڈر پار کرکے ڈھاکہ تک آن پہنچی۔ 16 دسمبر کو پاکستان ٹوٹ گیا۔ ڈھاکہ ڈوب گیا۔ اندرا گاندھی نے اپنے خبث باطن کا اظہار کیا اور کہا: ’’ہم نے آج نظریہ پاکستان دفن کردیا ہے۔‘‘

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ وہاں اُسے مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے اپنے ملک کا عظیم محسن قرار دیا۔ مودی نے اقرار کیا کہ بھارت نے مکتی باہنی کا بھرپور ساتھ دیا اور پاکستان کو توڑا۔ اُس نے را کے کردار کو سراہا جس نے بنگلہ دیش کے خواب کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ مودی نے 1971ء میں پاکستان مخالف تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اُس نے پاکستان پر زہریلے نشتر پھینکے اور اسے دہشت گردی کو پروان چڑھانے والا ملک قرار دیا۔ بی جے پی کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو ’’بنگلہ دیش لبریش وار آنر‘‘ کا تمغہ بھی دیا گیا۔ یوں اس دورے میں بھارت کا وہ روپ کھل کر سامنے آگیا جسے اب تک ڈپلومیسی کے پردے میں چھپایا گیا تھا۔ را کا مکروہ، بھیانک اور لرزہ خیز چہرہ تمام دنیا نے دیکھ لیا ہے۔

را بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو اسلحہ بارود فوجی ٹریننگ دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں ناقابل تردید ثبوت مہیا ہیں۔ ہماری فوج، ایف سی اور ایجنسیاں را کے اس گھن چکر کو توڑ رہی ہیں۔ کئی علیحدگی پسند ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ان حالات میں ہماری سیاسی قیادت کو بلوغت دکھانی چاہیے۔ ایسے نازک موقع پر فوج کے خلاف سندھ میں اٹھنے والی بیان بازی سے را کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ ہم اندرونی طور پر جتنے کمزور ہوں گے، دشمن اتنا ہی طاقت ور ہوگا۔ 1965ء میں ہم ایک تھے تو ہندوستان ہمارا کچھ نہ بگاڑ پایا۔ 1971ء میں ہم کمزور ہوئے تو اُس نے ہماری فصیلوں میں شگاف ڈال دیے۔ ہمارے قلعے کو مسمار کردیا۔ اُس نے مشرقی پاکستان کی دراڑ کو گہرا شگاف بنادیا۔ ہمیں اس نازک وقت میں فوج کو مکمل سپورٹ کرنا ہوگا۔ ہماری باہمی لڑائیاں ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتی ہیں۔ ہمیں صوبائی، قبائلی اور لسانی حدبندیوں سے بالا ہونا ہوگا۔ ہماری خفیہ ایجنسیوں کو زیادہ سے زیادہ طاقت ور بنانا ہوگا تاکہ وہ را کی گوشمالی کرسکیں۔ را کے ایک سابق سربراہ وجے پرکاش نے اقرار کیا تھا کہ را اور سی آئی اے دونوں مل کر چین میں غداروں کو نہیں ڈھونڈ پائے۔ یوں یہ دونوں ایجنسیاں وہاں ناکام ہوگئیں۔ خدا کرے کہ ہم پاکستانی بھی اتنے متحد ہوں کہ را پاکستان سے اپنے سر پر نامرادی کا تاج سجائے واپس لوٹ جائے۔

خبردار
تحریر یاسر محمد خان

’’را‘‘ (RAW) بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ہے۔ یہ Research & Analysis Wing کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کا قیام 21 ستمبر 1968ء کو عمل میں آیا۔ پہلے یہ انوسٹی گیشن بیورو کہلاتی تھی۔ 1962ء کی چین بھارت جنگ میں بھارتی چین کے بارے میں نہایت غلط اندازے لگاتے رہے۔ آئی بی کی رپورٹوں کے مطابق چینی 3 دنوں تک بھارتی گولہ باری کا سامنا کرنے کے قابل نہ تھے۔ جواہر لال نہرو اُس وقت بھارتی وزیر اعظم تھا۔ اُس نے اس جنگ میں بھارتی شکست کو شدت سے محسوس کیا۔ ’’را‘‘ کے نام سے ایک بڑی خفیہ ایجنسی بنانے کی منظوری دی۔ 1964ء میں نہرو کی موت کے بعد لال بہادر شاستر ہندوستانی وزیراعظم بنا۔ 1965ء میں بھارت کے تمام اندازے دوبارہ غلط ثابت ہوئے اور اُسے عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شاستری تاشقند معاہدے کے دنوں میں چل بسا۔ اندرا گاندھی نے آکر ’’را‘‘ کے لیے 20 ملین ڈالرز فنڈز کی منظوری دی۔ ایوی ایشن ریسرچ سینٹر کو ’’را‘‘ کا حصہ بنایا جس نے چین اور پاکستان کی خفیہ فلائی نگرانی شروع کردی۔ 1971ء میں ’’را‘‘ کا بجٹ بڑھاکر 300 ملین ڈالرز کردیا گیا۔ یوں بظاہر دنیا کی نظر میں یہ تحقیق کا یہ ادارہ ہے جو حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں نتائج اخذ کرتا ہے۔ درحقیقت یہ پڑوسی ملکوں کے لیے ایک دلدل ہے۔ ایک ایسا ہولناک گردبار ہے جس کے جھکڑوں نے جنوبی ایشیا کو لرزہ براندام کر رکھا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا بجٹ بڑھایا جاتا رہا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اس کے تمام فنڈز کو آڈٹ سے مبرا قرار دے دیا گیا۔ یوں ارب یہ اربوں ڈالرز صرف کرنے والی ایجنسی بن گئی ہے۔ اس کے ڈیپارٹمنٹس کتنے ہیں؟ اور اس کے عملے کی تعداد کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں بتاسکتا۔ نئی دہلی میں اس کا ہیڈکوارٹر ہے۔ بھارت کے طول و عرض میں اس کے خفیہ دفاتر واقع ہیں۔ ضلع گوڑ گائوں میں جاسوسوں کو بیرونی زبانیں سکھانے کا ایک جدید ترین سینٹر بنایا گیا ہے۔ یہ جاسوس فر فر بولنا سیکھتے ہیں تو انہیں متعلقہ ملکوں میں جاسوسی کے لیے بھجوادیا جاتا ہے۔

یہ ایجنسی ڈائریکٹ بھارتی وزیراعظم کو رپورٹ دیتی ہے۔ اس کا کمانڈر اینڈ کنٹرول سسٹم وزیراعظم کے دفتر سے آپریٹ کرتا ہے۔ ’’را‘‘ نے وقت کے ساتھ ساتھ جاسوسی کے جال کو تمام ہمسایہ ملکوں میں پھیلادیا۔ بھارتی مفادات کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا جانے لگا۔ خوبصورت عورتوں کو یہ ایجنسی نہایت پرکشش مراعات پر ہائر کرتی ہے۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹ ملکوں سے راز چوری کرنے، خفیہ مقامات کی حساس تصویریں اور تفصیلات اکٹھی کرنے، اعلیٰ پوسٹوں پر تعین افراد کو شراب و شباب کی طرف راغب کرنے، کمپیوٹروں سے نازک ڈیٹا اُڑا لینے، علیحدگی پسندوں کو جدید ترین اسلحہ مہیا کرنے، اُن کو اعلیٰ جنگی ٹریننگ دینے، نقشوں کی مدد سے انہیں عین ہدف پر حملہ کرنے کی مہارت دینے راہ میں حائل اعلیٰ شخصیات کو قتل کرانے، فراقہ وارانہ اور لسانی فسادات کروانے جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹ افغانستان سری لنکا، برما، مالدیپ، بھوٹان اور نیپال جیسے ہمسایہ ملکوں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ افغانستان میں یہ مدتوں پاکستان دشمن عناصر کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتے رہیں۔ اس کے ایجنٹ 1979ء سے پہلے کی ہر افغان حکومت کو پاکستان کے خلاف مضبوط بناتے رہے۔ روسی حملے کے وقت را روس کی پشت بان گئی۔ 1988ء کے بعد یہ لک میں قتل و غارت گری کرنے والے ہر لشکر کی ڈھال بن گئی۔ یوں طالبان کے خلاف یہ شمالی اتحادی کی سب سے بڑی سپورٹ بن گئی۔ نائن الیون کے بعد یہ افغانستان میں طالبان کے لہو کو سونگھتی پھری اور پھر کرزئی اور اشرف غنی کے ساتھ شیر و شکر ہوگئی۔ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز خیفہ طور پر ’’را‘‘ سے مدد لیتے رہے اور جافنا کے گردونواح پر قابض ہوگئے۔ 2015ء میں سابق صدر راہندھارا جاپسکا کو راستے سے ہٹانے کے لیے را نے ہر طرح کا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ سابق صدر سری لنکا اور چین کو نہایت قریب لے آیا تھا، یوں اسے راستے سے ہٹادیا گیا۔ نیپال میں شاہی خاندان تمام کا تمام را کے زیرنگیں رہا۔ جب ایک شاہ نے حکم عدولی کی تو وہ خاندان سمیت قتل کردیا گیا۔ برما، مالدیپ اور بھوٹان را کے مدار میں گھومنے والے سیارے بن کر رہ گئے ہیں۔ را یہاں ہندوستانی مفادات کی فصلیں بوتی اور سازشوں کی درانتی سے انہیں مسلسل کاٹتی رہتی ہے۔

را کی خفیہ کارروائیوں پر سب سے دلچسپ کتاب میجر جنرل وی کے سنگھ نے لکھی۔ یہ ’’IRO raw experience‘‘ (ناپختہ تجربہ) کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کتاب نے بھارت میں سنسنی پھیلادی۔ وی کے سنگھ بتاتا ہے کہ چین کی قوت سے خوفزدہ را امریکی سی آئی اے کے ساتھ مل کر چین کی مسلسل جاسوسی کرتی رہتی ہے۔

جب پاکستان کے ایٹم بم بنانے کی تیاریوں کی بھنک را کو پڑی تو اُس نے کہوٹہ کے بارے میں ہر طرح کی جانکاری کی کوششیں شروع کردی۔ یورینیم افزودگی کی ایک بڑی نشانی قریبی آبادی کے بالوں میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔ را کے ایجنٹوں نے کہوٹہ کے گردونواح میں حجاموں کی دکانوں سے کٹے بالوں کو جمع کیا اور ریسرچ سے اندازہ لگالیا کہ پاکستان یورینیم افزودہ کرچکا ہے۔ 1989ء میں کشمیری مجاہدین کے خلاف را نے ’’آپریشن چانکیہ‘‘ کا آغاز کیا۔ کشمیری فریڈم فائٹرز کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ اُن کے گھروں کی نگرانی، انہیں اغوا کرکے موت کے گھاٹ اُتارنے، مشتبہ افراد پر انسانیت سوز تشدد، عورتوں کی عصمت دری،بچوں کا بہیمانہ قتل سب را کی پالیسیوں کا شاخسانہ تھا۔ مئی 2000ء میں را کے ایجنٹ آزاد کشمیری میں کوٹلی ضلع کے لنجوٹ نامی گائوں میں گھس آئے اور 16 افراد کی گردنیں کاٹ گئے۔

را نے پاکستان کے خلاف سب سے بڑی کارروائی 1969ء سے 1971ء کے درمیان مشرقی پاکستان میں کی۔ نہایت منظم انداز میں ہر پاکستان مخالف کو دوست بنایا گیا۔ کلکتہ کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بنگالی مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا، اُن کو اعلیٰ درجے کے کھانے کھلائے جاتے اور ان کی خوب برین واشنگ کی جاتی۔ مشرقی پاکستان میں سب سے پہلے استاذوں کو را نے اپنے شیشے میں اُتارا۔ یہ جوں ہی را کے حلقہ دام میں پھنسے، انہوں سارے بنگالی بچوں کی کایا کلپ کردی۔ یہ زہر بنگال میں تیزی سے پھیلتا چلاگیا۔ بنگالی ریڈیو اور ٹی وی کا سارا عملہ کلکتہ سے پروپیگنڈے کے نت نئے دائو سیکھ کر آنے لگا۔ بنگالی کسانوں کو قائل کرلیا گیا کہ اُن کے پٹ سن کے کم دام مغربی پاکستان کی وجہ سے ہیں۔ آزادی کے بعد ہر بنگالی کسان مالدار اور آسودہ حال ہوجائے گا۔ بنگالی اخبارات میں را کے ایجنٹ گھس گئے اور ہر پڑھے لکھے بنگالی کو آزادی کے لیے تیار کرنا شروع ہوگئے۔ عوامی لیگ کی ساری لیڈر شپ شیخ مجیب الرحمن کی سرکردگی میں را کے زیر اثر آگئی۔ یہ لوگ آئے روز بھارت کے دورے کرنے لگے۔ بنگالی لیڈر شپ کو بوریوں میں بھر کے روپے دیے گئے جو انہوں نے گلی محلے کی سطح پر اپنے کارکنوں میں بانٹے۔ علیحدگی کی فصل پک کر تیار ہوگئی تھی۔ را اپنی کاوشوں کو یوں پھلتے دیکھ کر نہال ہوئے جارہی تھی۔ بنگال کے ہر کوچے میں بنگلہ دیش کا نعرہ بلند ہورہا تھا۔ عوامی لیگ نے مکتی باہنی نامی ایک عسکری ونگ بنالیا تھا۔ یہ لوگ ہندوستان میں فوجی ٹریننگ حاصل کرچکے تھے، وہاں انہیں مفت خوراک، رہائش اور الائونس ملے تھے۔

اس پس منظر میں 1970ء کے انتخابات ہوئے۔ را کو دھڑکا لگ گیا کہ اگر مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان کی حکومت تسلیم کرلی تو اُس کی سازش کے پرکٹ جائیں گے۔ یہاں را نے یحییٰ خان اور بھٹو کے اتحادیوں میں اپنا اثرورسوخ استعمال کیا۔ یوں باہمی آویزش کی ہوائیں ملک کے دونوں حصوں میں چلنا شروع ہوگئیں۔ کامیاب ہوتے ہوئے مذاکرات کو سبوتاژ کردیا گیا۔ مغربی پاکستان میں را کے ایجنٹوں نے امن کی کوئی بیل منڈھے نہ چڑھنے دی۔ اُس کے پتے اور جڑیں نوچ کر پھینک دی گئیں۔ 1971ء کی جنگ شروع ہوئی۔ را کے ایجنٹوں نے بنگالیوں کا قتل عام شروع کردیا۔ سارے بنگال میں یہ باور کروادیا گیا کہ پاک فوج بنگالیوں کا لہو بہارہی ہے۔ اس منظرنامے میں را نے مکتی باہنی کو استعمال کیا۔ ہندوستانی فوج بارڈر پار کرکے ڈھاکہ تک آن پہنچی۔ 16 دسمبر کو پاکستان ٹوٹ گیا۔ ڈھاکہ ڈوب گیا۔ اندرا گاندھی نے اپنے خبث باطن کا اظہار کیا اور کہا: ’’ہم نے آج نظریہ پاکستان دفن کردیا ہے۔‘‘

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ وہاں اُسے مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے اپنے ملک کا عظیم محسن قرار دیا۔ مودی نے اقرار کیا کہ بھارت نے مکتی باہنی کا بھرپور ساتھ دیا اور پاکستان کو توڑا۔ اُس نے را کے کردار کو سراہا جس نے بنگلہ دیش کے خواب کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ مودی نے 1971ء میں پاکستان مخالف تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اُس نے پاکستان پر زہریلے نشتر پھینکے اور اسے دہشت گردی کو پروان چڑھانے والا ملک قرار دیا۔ بی جے پی کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو ’’بنگلہ دیش لبریش وار آنر‘‘ کا تمغہ بھی دیا گیا۔ یوں اس دورے میں بھارت کا وہ روپ کھل کر سامنے آگیا جسے اب تک ڈپلومیسی کے پردے میں چھپایا گیا تھا۔ را کا مکروہ، بھیانک اور لرزہ خیز چہرہ تمام دنیا نے دیکھ لیا ہے۔

را بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو اسلحہ بارود فوجی ٹریننگ دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں ناقابل تردید ثبوت مہیا ہیں۔ ہماری فوج، ایف سی اور ایجنسیاں را کے اس گھن چکر کو توڑ رہی ہیں۔ کئی علیحدگی پسند ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ان حالات میں ہماری سیاسی قیادت کو بلوغت دکھانی چاہیے۔ ایسے نازک موقع پر فوج کے خلاف سندھ میں اٹھنے والی بیان بازی سے را کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ ہم اندرونی طور پر جتنے کمزور ہوں گے، دشمن اتنا ہی طاقت ور ہوگا۔ 1965ء میں ہم ایک تھے تو ہندوستان ہمارا کچھ نہ بگاڑ پایا۔ 1971ء میں ہم کمزور ہوئے تو اُس نے ہماری فصیلوں میں شگاف ڈال دیے۔ ہمارے قلعے کو مسمار کردیا۔ اُس نے مشرقی پاکستان کی دراڑ کو گہرا شگاف بنادیا۔ ہمیں اس نازک وقت میں فوج کو مکمل سپورٹ کرنا ہوگا۔ ہماری باہمی لڑائیاں ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتی ہیں۔ ہمیں صوبائی، قبائلی اور لسانی حدبندیوں سے بالا ہونا ہوگا۔ ہماری خفیہ ایجنسیوں کو زیادہ سے زیادہ طاقت ور بنانا ہوگا تاکہ وہ را کی گوشمالی کرسکیں۔ را کے ایک سابق سربراہ وجے پرکاش نے اقرار کیا تھا کہ را اور سی آئی اے دونوں مل کر چین میں غداروں کو نہیں ڈھونڈ پائے۔ یوں یہ دونوں ایجنسیاں وہاں ناکام ہوگئیں۔ خدا کرے کہ ہم پاکستانی بھی اتنے متحد ہوں کہ را پاکستان سے اپنے سر پر نامرادی کا تاج سجائے واپس لوٹ جائے۔

اعدادو شمارکی ہیرا پھیری
تحریر یاسر محمد خان
مشاہدات: 407

بجٹ تقریر ختم ہوئی تو میں نے مختلف چینلوں پر تبصرے سننا شروع کردیے۔ حکومتی سیاست دانوں کی داد و تحسین سیلابی پانیوں کے دھاروں کی صورت بہہ رہی تھی۔ بجٹ کی شان میں قصیدوں کی طرح کا کلام سننے کو مل رہا تھا۔ اپوزیشن اس بجٹ میں دنیا جہان کی خامیاں تلاش کرنے کی کوششوں میں تھی۔ تیز نوکیلے پنجوں سے اس کا تار تار بکھیرا جارہا تھا۔ سب سے زیادہ منفرد کام ایک چینل نے یہ کیا کہ بوجھ اُٹھانے والے مزدوروں، کوئلہ کی کانوں میں کان کنی کرنے والے محنت کشوں اور بجلی کے کھمبوں پر چڑھ کر بجلی ٹھیک کرنے والے کارکنوں کے حالات زندگی اور بجٹ پر ان کا ردّعمل دکھایا۔ تین نمایندے ملک کے مختلف حصوں سے یہ پروگرام کررہے تھے۔

پروگرام کے پہلے حصے میں بتایا گیا کہ کراچی کی آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ افراد سے زیادہ ہے۔ جمشید ٹائون سے متصل مزدوروں کی آبادی ’’بانو کالونی‘‘ کہلاتی ہے۔ یہاں تنگ و تاریک گلیاں ہیں۔ ایک ایک دو دو کمروں کے کچے پکے بے ہنگم مکانات ہیں۔ یہاں کے مکین ڈرائیور، بوجھ ڈھونے والے، گاڑیاں دھونے والے، چوکیدار، دکانوں پر کام کرنے والے، تندور چلانے والے، گھروں میں کام کرنے والے، قہوہ خانوں پر لوگوں کو چائے قہوہ دینے والے لوگ ہیں۔

یہ لوگ ہنر سے محروم، کم اجرت پانے والے پردیسی مزدور ہیں۔ یہ ملک بھر سے شمالی علاقوں، میدانی خطوں اور بنجر زمینوں سے ماتھا پھوڑنے کے بعد اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے خواب دیکھتے ہوئے یہاں آن پہنچے ہیں۔ سندھ باقی صوبوں سے زیادہ ایسے مزدور رکھتا ہے۔ا س صوبے میں لیبر سروے کے مطابق ایک کروڑ 22 لاکھ 3 ہزار مزدور ہیں۔ شہری مزدوروں کی تعداد 58 لاکھ 60 ہزار ہے یعنی یہ 47.91 فیصد ہیں۔ پنجاب میں شہری مزدور 33.37 فیصد، بلوچستان میں 33 فیصد اور کے پی کے میں 19.22 فیصد ہیں۔ بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں سے 4 گنا زیادہ پاکستانی اندرون ملک ہجرت کررہے ہیں۔ جب نمایندے نے بانو کالونی کے مزدوروں سے سوال کیا کہ بجٹ ان کے لیے کیا لایا؟ اُن میں بیشتر کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ لفظ لبوں پر پھڑپھڑاکر رہ گئے۔ گہری مایوسی کے اندھیرے اُن کے چہروں پہ واضح دکھائی دینے لگے۔

٭ مزدوروں سے سوال کیا کہ بجٹ ان کے لیے کیا لایا؟ اُن میں بیشتر کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ لفظ لبوں پر پھڑپھڑاکر رہ گئے۔ گہری مایوسی کے اندھیرے اُن کے چہروں پہ واضح دکھائی دینے لگے۔ ٭ لائن مین نے کہا: ’’مجھ سے بجٹ کے بارے میں کیا پوچھتے ہو؟ کرنٹ لگنے سے میری موت کے بعد میرے لواحقین سے یہ سوال کرنا۔‘‘ ٭ حقیقت یہ ہے کہ بڑے قرضے لینے والے صنعت کاروں کو اس سے فائدہ ہوا ہے۔ عام آدمی کی زندگی میں اس سے کوئی بھی بہتری نہیں آئی۔

پروگرام کے دوسرے حصے میں کوئلہ نکالنے والے کان کنوں کی زندگی پر ڈاکومینٹری تھی۔ ان لوگوں کی بتیاں اُجاڑ، بیابان شمشان گھاٹوں کا منظر پیش کررہی تھیں۔ زندگی کی ہر سہولت سے محروم یہ لوگ جھونپڑیوں میں اپنی زندگی کے دن پورے کررہے ہیں۔ کوئلہ نکالتے وقت کوئلے کے باریک ذرّے سانس کے ساتھ ان کے جسموں میں داخل ہوکر انہیں صحت سے محروم کردیتے ہیں۔ ان کانوں میں میتھین گیسوں کے دھماکے، اچانک آگ بھڑک اُٹھنے کی افتادیں، سرنگ بیٹھ جانے کے منڈلاتے خطرے اور زہریلی گیسوں کے ناگہانی اخراج کا دھڑکا ہر دم لگا رہتا ہے۔ لیبر سروے کے مطابق ان کان کنوں میں سے 68 فیصد یعنی 14 لاکھ کان کن 5 ہزار سے 10 ہزار روپے اجرت پاتے ہیں اور اپنے کنبوں کو پالتے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے 1995ء میں اپنا ایک کنونشن بنایا جو 176 نمبر کہلاتا ہے۔ اس میں کانوں میں جسمانی تحفظ، علاج، خطروں کی شناخت کرنا، رسک کا تخمینہ لگانا، خطرات کی روک تھام اور بیمہ کی اسکیمیں رکھی گئی ہیں۔ پاکستان نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ یوں کان میں مرنے والے کا معاوضہ 1923ء کے مائنر ایکٹ کے تحت 2 ہزار روپے دیا جارہا ہے۔ اس ایکٹ کے باب 2 کی شق 9 کے مطابق چیف انسپکٹر کان سے متعلق تمام ریکارڈ صیغہ راز میں رکھے گا اور عوام تک معلومات کی کوئی رسائی نہ ہوگی۔ انگریز دور کے بعد بھی اس بے رحمی کا کوئی سدباب نہ ہوپایا۔ جب ان کان کنوں سے بجٹ کے بارے میں کیے گئے تو بیشتر رونے لگے۔ اپنا بیٹا کان کنی میں کھونے والی ایک نحیف و نزار ماں نے رونا شروع کردیا۔ ان لوگوں کو بجٹ نام کی کسی بھی چیز کے بارے کوئی معلومات نہ تھی۔ پروگرام کے تیسرے حصے میں بجلی کے لائن مینوں کے حالات زندگی تھے۔ یہ لوگ ٹرانسمیشن لائنوں، ہائی ٹینشن کیبل، ٹرانسفارمروں اور گلی محلے میں الجھے بجلی کے تاروں کے ساتھ جھولتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ واپڈ ہائیڈرو الیکٹراک ورکز یونین کے مطابق ہر سال پاکستان میں 150 سے زائد بجلی مزدور کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہ کام دنیا کے 10 خطرناک ترین کاموں میں شامل ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں مزدوروں کو کرنٹ پروف دستانے، آستینیں، چمڑے کی جرابیں، کھمبوں پر چڑھنے کے لیے ذاتی سیڑھی، کرنٹ سے محفوظ رکھنے والے جوتے اور آگ پکڑنے سے محفوظ رکھنے والا لباس مہیا کیا جاتا ہے۔ کراچی الیکٹراک کارپوریشن 2005ء میں پرائیوٹائز ہوئی۔

یہ 2008ء سے نئی انتظامیہ کے تحت کام کررہی ہے۔ 12 سے 15 ہزار مزدور ٹھیکے پر 7 ہزار روپے ماہوار پر کسی بھی بیمہ، پنشن کے بغیر یہ آجر بھرتی کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک لائن مین نے بجٹ کے بارے میں سوال پر زہرخندہنی ہنستے ہوئے کہا: ’’مجھ سے بجٹ کے بارے میں کیا پوچھتے ہو؟ کرنٹ لگنے سے میری موت کے بعد میرے لواحقین سے یہ سوال کرنا۔‘‘

ایسی سنگین صورت حال میں ان محنت کشوں کے مصائب کو کم کرنے کے لیے حکومت کے پاس بجٹ میں کچھ نہیں۔ ہم نے 50 ارب روپے اسلام آباد پنڈی کی میٹرو پہ لگادیے۔ یوں ہمیں یہ سڑک 2 ارب فی کلومیٹر میں پڑی۔ لاہور اور اسلام آباد کی میٹرو دنیا کی سب سے مہنگی ترین سڑکیں ہیں۔ اس سے پہلے استنبول میں میٹرو پر 2012ء میں 90 کروڑ فی کلومیٹر لاگت آئی تھی۔ پیرس، شنگھائی اور احمد آباد کی میٹرو پر ہم سے 4 گنا کم لاگت آئی۔ اقتصادی سروے کے مطابق 2014-15ء میں ہم نے 2810 ارب ٹیکس کا ہدف مقرر کیا۔ اسے 3 بار کم کیا گیا۔ یوں 5.1 فیصد کی بجائے ہم نے 2.24 فیصد ہدف حاصل کیا۔ ترقی کی مقررہ شرح 3.3 فیصد رکھی گئی جو 2.8 فیصد ہی حاصل ہوپائی۔ صنعتی شعبے میں ترقی کا ہدف 6.8 رکھا گیا جو 3.62 حاصل ہوپایا۔ برآمدات 20 ارب 20 کروڑ ہوئیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 3.2 فیصد کم رہیں۔ زراعت میں ہم نے میٹرو منصوبوں کی وجہ سے کم توجہ دی، یوں گنے کی پیداوار 7.13 فیصد، گندم کی پیداوار 2 فیصد اور مکئی کی پیداوار 5 فیصد کم ہوئی۔

بے روزگاری حکومتی اعدادو شمار کے مطابق 6 فیصد ہے۔ ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں پچھلے 14 سالوں میں ایک کھرب 7 ارب نقصان اُٹھایا۔ صرف پچھلے سال اس کی وجہ سے ملکی خزانے کو 4 ارب روپے کا خسارہ ہوا۔ ہماری آبادی میں 1099 افراد کے لیے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے۔ ہم نے بجٹ اور رمضان سے عین پہلے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔ یوں پیٹرول 77 روپے 79 پیسے، مٹی کا تیل 64 روپے 94 پیسے، ہائی اسپیڈ ڈیزل 87 روپے 12 پیسے، لائٹ ڈیزل 61 روپے 51 پیسے تک جاپہنچا۔ مہنگائی کا تیز رفتار ریلا چل نکلا ہے۔ رمضان تک اس کی تباہ کاریوں میں سخت اضافہ ہوجائے گا۔ غریب اور متوسط طبقے کو اس بجٹ نے بالکل بے آسرا کردیا ہے۔ متمول طبقوں پر ٹیکسوں یک چھوٹ اور مفلس و قلاش لوگوں کے لقمے لقمے پر ٹیکس کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ کم سے کم تنخواہ 13 ہزار روپے مختص کی گئی ہے۔ پر زمینی حقائق یہ ہیں کہ 5 ہزار سے 7 ہزار روپے تنخواہ پر غریبوں کا استحصال کرنے والے عین حکومتی نظروں کے سامنے ایسے قوانین کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 102 روپے رکھے گئے ہیں۔ 75 ہزار سے زائد بجلی کے بلوں میں 10 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا۔ 4 سے 5 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں پر 2 فیصد ٹیکس لگادیا گیا ہے۔ واپڈا کے لیے 112 ارب 28 کروڑ مختص کیے گئے ہیں۔ تعمیراتی مٹیریل کو درآمد کرنے والوں پر ڈیوٹی 30 فیصد سے کم کرکے 20 فیصد کردی گئی ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 7 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔ پورٹس اینڈ شپنگ کے لیے 12 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ 50 کروڑ سے زائد آمدنی والوں پر 3 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ تعمیرات کے بڑوں کے لیے کئی مراعات کا اعلان کردیا گیا ہے۔ وہ جون 2018ء تک ٹیکس سے آزاد رہیں گے۔ فیڈرل سیکریٹریوں کی تنخواہوں میں 100 فیصد اصافہ کردیا گیا ہے۔ ٹیکسائل مالکان کسی بھی ٹیکس کے بغیر بیرون ملک سے مشینری منگواسکتے ہیں۔ چاول کے مل مالکان ایک سال تک ٹیکس سے مستثنیٰ رہیں گے۔ نیب ملازموں کو 41 کروڑ دیے گئے ہیں۔ غریب عوام کی صحت کو بجٹ میں نظرانداز کردیا گیا۔ وزیر خزانہ نے شرح سود میں کمی کے جھنڈے لہرائے۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑے قرضے لینے والے صنعت کاروں کو اس سے فائدہ ہوا ہے۔ عام آدمی کی زندگی میں اس سے کوئی بھی بہتری نہیں آئی۔ یہ صحیح معنوں میں بڑے صنعت کاروں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا بجٹ ہے۔ اس میں خوفناک غربت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی مجبور مخلوق کے لیے کھوکھلے اعداد وشمار اور بے روح الفاظ کا راتب تیار کیا گیا تھا۔ بجٹ تقریر نہایت مایوس کن تھی۔ چھوٹے سرکاری ملازموں کے لیے 7.5 فیصد اور گریڈ 22 کے افسروں کے لیے 100 فیصد تنخواہ میں اضافہ اُس مائنڈ سیٹ کو آشکار کرتا ہے جو ہماری اشرافیہ کا حصہ ہے۔ یہ ایک غریب کش بجٹ ہے۔ شروع سے آخر تک اس کا سنگین حقائق سے کوئی لینا دینا نہیں۔

آگ برساتے سورج میں ریڑھا کھینچنے والا اورنگ زیب اس آس پر بجٹ تقریر سنتا رہا کہ حکومت اُس کی مشکلات آسان کردے گی۔ وہ اپنی 5 بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرسکے گا۔ کڑکتی دھوپ میں سڑکوں پہ تارکول بچھانے والا اصفر سوچ رہا تھا کہ حکومت مہنگائی میں کمی کا کوئی ایسا منتر پڑھے گی کہ مہنگائی کی ڈائن اُس کا خون چوسنا بند کردے گی۔ منڈیوں میں بوریا اُٹھانے والے احمد خاں کا خیال تھا کہ حکومت علاج معالجہ فری کردے گی اور وہ اپنی ماں کا مہنگا علاج بالکل مفت کروانے کے قابل ہوجائے گا۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے سیاہ بخت مقصود کا خیال تھا کہ حکومت اس کے 8 بچوں کو بالکل مفت اعلیٰ تعلیم دلوانے کا اعلان کرے کردے گی اور یوں وہ کوئلے کی کانوں میں اپنا مستقبل سیاہ ہونے سے بچ جائیں گے۔ لوگوں کے تاریک گھروں میں روشنی پھیلانے والا لائن نور محمد بجٹ سے یہ توقع لگائے بیٹھا تھا کہ حکومت اُس کے تاریک گھر کو روشن کرنے کے لیے کوئی ایجنڈ بنانے کا اعلان کردے گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں زندگی بھر تنگدستی کی دلدلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مہنگائی کی خندقوں میں پھنسے ہوئے لوگ ہیں۔ یہ محرومی کے صحرائوں میں برہنہ پا سفر کرنے والی مجبور مخلوق ہے۔ انہیں لہولہان پیروں کے ساتھ بے مہری کی کڑکتی دھوپ میں چلنا پڑتا ہے۔

پاکستانی حکومت اُن کے سروں پہ مہربانی کی کوئی چھتری نہیں تانتی۔ اُس کے کاندھوں پہ کوئی دست شفقت نہیں رکھتا۔ اس کے رستے زخموں کے لیے کوئی مرہم فراہم نہیں کی جاتی۔ آنتیں کاتتی بھوک کے لیے کوئی حکومتی پکوان مہیا نہیں کیا جاتا۔ اس کے تار تار لباس کے لیے کوئی رفوگر نہیں آتا۔ وزیر خزانہ کی تقریر اعدادو شمار کی گرد اُڑاکر چلی گئی۔ شرح نمو میں اضافے کی خوش الحان نوید سنائی جاتی رہی۔ مجبوروں کو بتایا جارہا ہے کہ پاکستان 2050ء میں دنیا کی اٹھاویں بڑی اکانومی بن جائے گا۔ بجٹ تقریر میں بیرون ملک سے چھپنے والی داد و تحسین کو نمایاں جگہ دی گئی۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ زندگی کی ڈور ٹوٹنے سے بچانے والی خوراک عوام کو کن نرخوں پہ مل رہی ہے۔ بہتر ہوتا کہ وزیر خزانہ ملکی کشوں کی رائے کو بجٹ میں جگہ دیتے، تاکہ بھیانک حقیقتیں آشکار ہوجاتیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو دبئی اور سنگاپور جیسی سفری سہولتوں کے لیے آسمان سے تارے توڑ لائے ہیں۔ ہم نے اسلام آباد کے میٹرو اسٹیشنوں کے لیے چراغ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ ہم فاقوں سے مرجانے والوں کے لیے روٹی کا لقمہ تو فراہم نہیں کرتے، سنگ مر مر سے اُن کے عالی شان مزار بنادیتے ہیں۔ ہم وژن، عقل، شعور تج چکے ہیں۔ ہمارا اُن سے کوئی سروکار نہیں رہا۔

ہمارا معاشرہ اور جعل سازی
تحریر یاسر محمد خان

یہ 1907 ء کا ذکر ہے۔ لکھنؤ کی ڈسٹرک کوسٹ میں قتل کے ایک مشہور مقدمے کا فیصلہ ہونا تھا۔ انگریز جج نے گواہوں اور ثبوتوں کی روشنی میں ملزم ہنو مان سنگھ کو مجرم پایا۔ اس پر قتل کا جرم ثابت ہوگیا۔ دفعہ 302 اس پر عائد ہوجانی تھی۔ ہنومان سنگھ بہت امیر آدمی تھا۔ اس نے جج تک 10 ہزار روپے پہنچائے۔ بڑی بڑی سفارشیں کر وائی گئیں، لیکن جج ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس نے سزائے موت کے فیصلے کو قلم بند کیا اور اس پر اپنے دستخط ثبت کردیے۔ دو روز بعد کھلی عدالت میں فیصلہ سنایا جانا تھا۔ کورٹ روم کھچا کھچ بھر ہوا تھا۔ سارا لکھنؤ احاطۂ عدالت میں آگیا تھا۔ وقت مقررہ پر انگریز جج اپنی روایتی آن بان کے ساتھ کورٹ میں داخل ہوا۔ سب لوگ تعظیم میں کھڑے ہوگئے۔ چپراسی نے جج کا آفس باکس لاکر میز پر رکھا۔ جج نے کوٹ کی جیب سے چابی نکالی اور باکس کھولا۔ اس نے فیصلہ پڑھنے سے پہلے اس پر طائرانہ نگاہ ڈالی تو ہکا بکا رہ گیا۔ فیصلہ راتوں رات تبدیل ہوچکا تھا۔ وہ گھبرا کر فیصلہ باآواز بلند پڑھنے لگا: ’’ملزم ہنومان سنگھ باعزت طور پر رہا کیا جاتا ہے۔‘‘ فوراً بعد جج نہایت سراسیمگی کے عالم میں عدالت سے اٹھ گیا۔ اس نے بار بار دیکھا کہ لکھائی ہو بہو اس کی ہے۔ دستخط بھی اسی کے ہیں، مگر اصل فیصلہ غائب ہوچکا ہے۔

یہ کیس لکھنؤ کے ایک مشہور پولیس افسر حاجی روشن علی نے حل کیا۔ اس نے میرن نام کے ایک جعل ساز کو گرفتار کیا جو اپنے زمانے کا نہایت باکمال خطاط اور خوش نویس تھا۔ اس کا کمال دیکھیں کہ فیصلہ لکھنے والے جج کو رعشہ کا عارضہ تھا۔ فیصلہ لکھتے وقت ا س کے ہاتھ کانپتے تھے۔ میرن نے سردیوں میں نہایت ٹھنڈے پانی سے غسل کیا۔ کاغذ قلم لے کر کانپتے ہاتھوں سے جج کی لکھائی کی نقل بنائی۔ دستخط کر کے اسے قانونی فیصلہ بنادیا۔ یہ وہ دور تھا جب عوام سائنس کے نام سے بھی واقف نہ تھی۔ جعلی ریکارڈ تیار کرنے کے لیے نہ تو سائنسی ایجادات ہوئی تھیں، نہ کیمیائی اجزا ، نہ ہی فوٹو گرافی کے فن نے اوج کمال کی منزلیں طے کی تھیں۔ میرن عربی، فارسی، اردو، سنکرت، انگریزی ہر زبان میں ہو بہو اصل کے جعلی دستاویز بنالیتا تھا۔ اس کے بنائے کاغذات پر لوگوں نے بڑی بڑی زمین داریاں اور جاگیرداریاں بنائی تھیں۔ اس نے ہزاروں جعلی دستاویزات، شاہی فرامین، وصیت نامے یہاں تک کہ پرامیسری نوٹ بھی بناڈالے تھے۔

حاجی روشن علی نے جب اسے گرفتار کیا تو وہ لکھنؤ کی ایک اجاڑ ویران حویلی کے تہہ خانے میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھا۔ پولیس جب پیچ در پیچ شکستہ سیڑھیاں اتر کر تہہ خانے میں پہنچی تو اپنے آرٹ کا تاجدار ایک گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے شاہانہ کروفر کے ساتھ بیٹھا تھا۔ سامنے چاندی کا پیچوان سلگ رہا تھا۔ چھوٹی چھوٹی چوکیوں پر ان گنت ڈبے، دواتیں سجی تھیں۔ قلم دانوں میں قسما قسم کے برش، قلم اور قلم تراش دھرے ہوئے تھے۔ قلموں میں کلک کے قلم، سیٹھے کے قلم، موٹے اور باریک نب والے قلم شامل تھے۔ روشنائیاں اور برش تو اتنے تھے کہ گنتی سے باہر تھے۔ ایک طرف بڑے بڑے بکسوں میں مہریں رکھی ہوئی تھیں۔ مغل بادشاہوں، اودھ کے نوابوں، ایبٹ انڈیا کمپنی اور انگریز دور کی ہر طرح کی مہریں موجود تھیں۔ تہہ خانے میں مشینیں ناپید تھیں سوائے تیزاب اور رنگوں کے کچھ اور نہ تھا جسے سائنسی کہا جاسکتا ہو۔ جنرل اسٹامپ پیپرز، کچہریوں کے ٹکٹ اتنے تھے کہ دو تین ہزار جعلی دستاویزات کا پیٹ بھر سکتے تھے۔ میرن کی خوش نویسی، خطاطی اور فن مصوری کا پایہ اس درجہ بلند تھاکہ مطلوبہ کاغذ پر ایک نظر ڈال کر اس کی ہو بہو نقل اتار لیتا تھا۔ تہہ خانے میں ہر معیار کا کاغذ تھا۔ کرم خوردہ، آب رسیدہ، سفید، بادامی، باسی پرانا نیا ہر طرح کی دستاویز کے لیے مطلوبہ کاغذ موجود تھا۔ کاغذ کو قدیمی بنانے کے لیے وہ اسے دیمک سے چٹواتا یا چوہوں سے کچھ حصے کتروا دیتا یا کاغذ کو جھینگروں کے نیچے بچھا دیتا، یوں چند گھنٹوں میں دستاویز سینکڑوں سال پرانی دکھائی دینے لگتی۔

اردو کے مشہور وقائع نگار نادم سیتا پوری کے مطابق جب روشن علی نے پہلی بار تہہ خانہ دیکھا تو اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ گرے۔ بڑے بڑے لیمپوں اور شمعوں سے یہ بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ لوبان کی خوشبو سے فضا معطر تھی۔ تجوری میں لاکھوں روپے کی نقدی تھی۔ ہیرے جواہرات کی کثرت تھی۔ حاجی روشن علی نے بستر مرگ پر کہا کہ اس نے اپنی 90 سالہ زندگی میں میرن جعل ساز سے بڑی صلاحیتوں والا مجرم نہیں دیکھا۔ وہ اگر خوش نویسی، خطاطی اور مصوری کی فیلڈ میں آگے جاتا تو وہ ہندوستان کا سب سے بڑا آرٹسٹ بن سکتا تھا۔ اس نے اپنی جینئس کو ہر طرح کی جعل سازی کے لیے وقف کردیا۔ انگریز پولیس افسروں نے بھی اقرار کیا کہ یورپ کی تاریخ میں بھی میرن جیسی صلاحیتوں کا مالک آدمی نہیں دیکھا گیا، افسوس کہ اس عجوبہ روزگار انسان نے اپنی زندگی کے بقیہ ایام ہندوستان کی جیلوں میں گزارے۔

ایک صدی بعد آج ہم کمپیوٹر کے دور میں زندہ ہیں۔ اس کو آئی ٹی کا زیریں دور کہا جاسکتا ہے۔ اب میرن جعل ساز کی جگہ ’’ایگزیکٹ‘‘ نے لے لی ہے۔ سارے شواہد اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ جعلی ڈگریاں بیچ بیچ کر کروڑوں ڈالرز سمیٹے گئے ہیں۔ یوں کمپنی کا منیجر بننا یا چیف ایگزیکٹیو کی کرسی تک جاپہنچنے کے لیے ڈاکٹر، جج، نرس یا انجینئر بننے کے لیے دنوں میں مصدقہ ڈگریاں دی جاتی رہیں۔ سافٹ ویئر کی آڑ میں ڈپلوموں اور ڈگریوں کا کام وسیع پیمانے پر 2006ء سے جاری تھا۔ 370 سے زاید ویب سائٹس پر پھیلی یونیورسٹیوں اور کیمپس زمین پر کہیں موجود نہیں۔ اس ادارے میں کام کرنے والے پروفیسرز معاوضہ لے کر پروفیشنل اداکاروں کا پارٹ ادا کرتے رہے۔ ایک سعودی شہری نے 4 لاکھ ڈالرز کے عوض جعلی ڈگری خریدی۔ ایک مصری نے 12 ہزار میں انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کرلی۔ ابوظہبی کی ایک نرس نے 60 ہزار ڈالرز خرچ کرکے پروفیشنل ڈگری پائی۔ یہ کمپنی یومیہ ایک لاکھ 20 ہزار ڈالرز کما رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز میں ٹھوس ثبوتوں کے بعدبڑی اسٹوری چھپنے کے بعد راولپنڈی اسلام آباد میں ایگزیکٹ کے دفاتر سیل کردیے گئے۔ ایف بی آر کے مطابق ایگزیکٹ نے 42 کروڑ روپے کے ٹیکس استثنیٰ کا غلط دعویٰ کیا۔ کمپنی سافٹ ویر قانون کا وسیع پیمانے پر غلط استعمال کررہی ہے۔ کمپنی نے صرف 26 روپے ٹیکس دیا۔ چھاپوں میں اہم دستاویزات برآمد ہوئیں۔ دفاتر سیل کیے گئے۔ کمپیوٹر ریکارڈ کو قبضے میں لے لیا گیا۔ کمپنی کا آڈٹ کرانے کا حکم جاری کیا گیا۔

دوسری طرف دبئی سے آنے والی خبروں میں بتایا گیا کہ ایگزیکٹ دبئی فری زون میں رجسٹرڈ اور اس کے 6 لاکھ شیئرز ہیں۔ ایگزیکٹ کمپنی 5 منزلہ عمارت میں واقع ہے۔ پرتعیش سہولیات عملے کو حاصل رہیں۔ 3 سو کے قریب ملازموں کو کمپنی نے ہر طرح کی مراعات دے رکھی تھیں۔ کمپنی کے تمام کمپیوٹرز کا فرانزک تجریے کے لیے عملے سے تعاون حاصل کیا گیا ہے۔ ایک ملازم نے بتایا کہ ڈگریاں کراچی میں چھپتیں اور آسٹریلیا سے پوسٹ ہوتی تھیں۔ 10 کمپیوٹروں، 4 اسٹمپ باکس غیرترسیل شدہ ڈگریوں سے ٹھوس ثبوت ایف آئی اے نے حاصل کیے ہیں۔ جعلی مہریں بنانے والی الیکٹرانک مشین اور غیرملکی یونیورسٹیوں کے مونوگرام برآمد کرلیے گئے ہیں۔ کمپنی کے 34 خفیہ بینک اکائونٹس ملے ہیں۔ نیویارک ٹائمز میں یہ اسٹوری بریک کرنے والے صحافی ڈیکلن والش نے 21 مئی کو بتایا کہ کمپنی کے سابقہ ملازموں نے اُسے تمام ثبوت مہیا کیے تھے۔ اُسے 3 ماہ لگے اور اُس نے اس اسٹوری کے متعلق ناقابل تردید ثبوت اکٹھے کیے۔ ایف آئی اے نے ٹھوس شواہد کے لیے ایف بی آئی اور انٹرپول سے مدد لینے کا عندیہ بھی دیا۔

دوسری جانب امریکا اور برطانیہ کے بڑے وکلا نے ایگزیکٹ کے خلاف کارروائی کے لیے وافر ثبوت فراہم کردیے ہیں۔ جعل سازوں نے امریکی میل، انٹرنیٹ اور فون لائنیں استعمال کیں۔ جان کیری، ہیلری کلنٹن کے نام اور دستخط استعمال کیے گئے۔ 27 مئی کو حکومت پاکستان نے باقاعدہ تصدیق کردی کہ ایگزیکٹ کے دفاتر سے لاکھوں جعلی ڈگریاں برآمد کرلی گئی ہیں۔ کئی لاکھ جعلی اسٹوڈنٹ کارڈز بھی ملے ہیں۔ فرانزک شواہد نے ثابت کردیا ہے کہ عالمی سطح پر تعلیم کے شعبے میں بہت بڑے پیمانے پر جعل سازی کی جاتی رہی۔ ہمارا اخلاقی زوال دیکھیں کہ مغربی تعلیم نے کس کس طرح کے نابغے پیدا کیے ہیں۔ ہمارے مدرسوں نے شبلی نعمانی جیسی ہستی پیدا کی جن کے نام اور کام سے برصغیر کا بچہ بچہ واقف ہے۔ انہی شبلی نعمانی کا بھائی برطانیہ سے بیرسٹری کرکے آیا تھا۔ آج کوئی بھی اُس کے نام سے واقف نہیں۔ اسلام کی روح سے دوری نے اس معاشرے کو درست معنوں میں ایک جعلی معاشرہ بنادیا ہے۔

ہمارے ایک صوبے کے وزیراعلیٰ نے ایک بار ہنستے ہوئے کہا تھا: ’’ڈگری اصلی ہو یا نقلی ڈگری ہی ہوتی ہے۔‘‘ جب مشرف نے اسمبلی ممبران کے لیے بی اے کی شرط عائد کی تو اَن پڑھ، گنوار دولت مندوں نے جعلی ڈگریاں حاصل کرلیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی پارلیمنٹ کے اراکین کے ٹیکس گوشوارے ان کے شاہانہ لائف اسٹائل کا منہ چڑارہے ہیں۔ کھرب پتیوں نے اس ملک کو اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ چند لاکھ اس کے خزانے میں جمع کرادیتے۔ جعلی گوشوارے داخل کرکے ٹیکس چوری کرلیا گیا۔ ہمارے بازاروں میں جعلی ادویات کی بھرمار ہے۔ آپ بھاری قیمت دے کر بھی چاک اور رنگ ملاکر پانی خریدتے ہیں۔ جان بچانے والی ادویات کو بھی ان جہنمیوں نے نہیں بخشا۔ ہمارے ہاں روپے اور زیور کو ڈبل کرنے کے دعوے دار ڈبل شاہ کثرت میں ہیں جو لوگوں کو خواب بیچ کر ان کی حقیقتیں تک چراکر لے جاتے ہیں۔ چند سال قبل چینی حاجیوں کو لوٹنے والے ایک پاکستانی گروہ کا پتہ لگا تھا۔ اس نے حجاز مقدس پہنچانے کا جھانسا دے کر انہیں لوٹ لیا۔ ہمارے اپنے 2010ء کے حج اسکینڈل میں لوگوں نے اپنی جیبیں بھرنے کے لیے عازمین کے لیے حجاز کی زمین تنگ کردی تھی۔ ہمارے کمپیوٹرز اور موبائل ایسی ای میلز اور میسجز سے بھرے ہوئے ہیں جن میں آپ کی لاٹری یا کار نکال دی جاتی ہے۔ ہماری این ایل جی ڈیل اور رینٹل پاور پراجیکٹس میں لوگوں نے ٹیکس دینے والے عوام کا روپیہ لوٹ لیا۔ ہماری مارکیٹوں میں مردہ اور حرام جانوروں کا گوشت کثرت سے بکتا ہے۔ مردہ جانوروں کی چربی سے خوردنی تیل بنانے والے گروہ بھی یہاں آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ ٹیلی مارکیٹنگ کے میدان میں بڑے بڑے فراڈ دیکھنے میں آرہے ہیں۔

اے ٹی ایم مشینوں سے نکلنے والی رسیدوں سے اکائونٹ نمبر تک پہنچنے والے عالی دماغ بھی ہمارے معاشرے میں کثرت سے ہیں۔ سرکاری دفتروں میں سے لوگوں کے شناختی کارڈوں کی کاپیاں حاصل کرکرکے عوام کے مال، سکون و قرار ختم کردینے والوں کے گینگ یہاں دندناتے پھرتے ہیں۔ بڑے شہروں کی بیشتر ہائوسنگ اسکیمیں ننگا فراڈ ہیں۔ لوگ مدتوں قسطیں جمع کرواتے رہتے ہیں جب پلاٹ پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں تو ان کے ہاتھ فائل کے چند جعلی کاغذوں کے سوا کچھ نہیں آتا۔ زمینوں پر قبضہ کرنے والا مافیا اتنا سرگرم ہے کہ اربوں کھربوں کی سرکاری زمینیں ڈکار گیا ہے۔ چند سال قبل گوادر میں ہائوسنگ اور کمرشل اسکیموں کا بہت غلغلہ مچا۔ بلوچستان حکومت کی اجازت لیے بغیر یہ فراڈ سال بھر چلتا رہا۔ 25 سال قبل ہمارے ہاں کوآپریٹو بینکوں کا شہرہ تھا۔ ان ڈاکوئوں نے لوگوں کی پنشن، بیوائوں کی قلیل آمدن اور بیٹیوں کے جہیز کے لیے رکھے روپوں اور زیورات پر ہاتھ صاف کیا اور صاف بچ نکلے۔ آئی ٹی کے اس دور میں کریڈٹ کارڈ کے ذریعے فراڈ کیے جارہے ہیں۔ بینکوں کے جعلی لیٹرز آف کریڈٹ کی بنا پر سادہ لوحوں کو لوٹا جارہا ہے۔ اور تو اور اب آن لائن کمیٹیاں ڈالی جاتی ہیں۔ جب کمیٹی نکلنے کا وقت آتا ہے تو ویب سائٹس ہی پردہ فرما جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ہیلتھ انشورنس کی اسکیموں پر فراڈ کثرت سے ہیں۔ کئی بیمہ کمپنیوں نے بُرے وقتوں سے لوگوں کو اتنا ڈرایا کہ جب اُن پر حقیقت میں برا وقت آیا تو ان انشورنس ایجنٹوں نے انہیں احساس دلایا کہ بُرا وقت مزید بُرا کیسے بن جاتا ہے۔ او ایل ایکس اور آن لائن گاڑیوں میں جعل سازی عروج پر ہے۔ جعل ساز جاپان سے لوگوں کو ای میلز بھیجتے ہیں اور پیسہ مگرمچھوں کی طرح ہڑپ لیتے ہیں۔ دو نمبر میڈیکل کالج دھڑا دھڑ عطائیوں کو جنم دے رہے ہیں۔ ہمارے گلی کوچوں میں جعلی ڈاکٹروں نے لوگوں کی زندگیاں برباد کردی ہیں۔ بے شمار لوگ جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ ہمارے اخبارات اور ٹی وی پر جعلی دوائیوں کی ایسی طلسماتی کرامات دکھائی جاتی ہیں کہ لوگ دھڑا دھڑ یہ زہر پیتے جارہے ہیں۔ رنگ گورا کرنے والی جعلی کریموں نے عورتوں کو روپیہ اور اچھی صورت دونوں سے محروم کردیا ہے۔ منرل واٹر فراہم کرنے والی متعدد کمپنیاں بدبودار، باسی پانی بیچ کر روپیہ سمیٹ رہی ہیں۔ خوراک میں ملاوٹ اس درجہ ہے کہ مرچوں میں لکڑی کا برادہ اور اینٹوں کا سفوف ملایا جارہا ہے۔ جعل سازی کی یہ مختصر فہرست دیگر کے چند دانے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ جو معاشرہ اسلام کا نور بانٹنے والے مدرسوں کو ’’جعلی‘‘ سمجھے اُس کے بطن سے Exactly یہی کچھ برآمد ہوگا۔

انقلاب بذریعہ تعلیم
تحریر یاسر محمد خان

’’ابونصر محمد فارابی‘‘ کو مسلمانوں کا ارسطو کہا جاتا ہے۔ وہ 259 ہجری میں پیدا ہوئے۔ 339 ہجری میں وفات پائی۔ انہوں نے اپنے زمانے کے سب سے مشہور استادوں سے تعلیم حاصل کی۔ فارابی فلسفہ، منطق، فقہ، ادب اور طب میں دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔ وہ دنیا کی 70 زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی ذہانت ضرب المثل کا درجہ پاگئی تھی۔ عربی، فارسی، ترکی، سریانی اور یونانی زبانوں میں انہوں نے کتابیں لکھیں۔ اپنی زندگی میں ان کی 113 تصانیف منصہ شہود پر آئیں۔ یونان کے بڑے عالموں نے انہیں ارسطو کا ہم پلہ اور افلاطون اور سقراط سے بہتر ماہر تعلیم قرار دیا۔ وہ بلاشبہ ایک بلند پایہ مفکر حیات تھے۔ زندگی کا کوئی بھی گوشہ ان کی باریک بین نگاہ سے اوجھل نہیں ہوتا۔ فارابی نے زندگی بھر یا تو کتابیں لکھیں یا درس و تدریس کے ذریعے اسلامی دنیا کو روشنی اور حرارت بخشی۔ ان کے شاگردوں سے مسلم سلطنت کا کوئی کو نہ بھی خالی نہ رہاتھا۔ ایک بلند مینارہ نور کی طرح ان کے اجالے کئی زمانوں تک گئے اور تاریکیوں میں علم کے چراغ ضوفشاں کیے۔

فارابی نے فلسفۂ تعلیم میں وجودیات (ontology) اور قدریات (Ariology) پر سیر حاصل بحث کی۔ وہ وجودیات میں انسان، کائنات او راللہ تعالی کے باہمی تعلق کو اجاگر کرتے ہیں۔ قدریات میں اخلاقی اقدار کی معاشرتی اہمیت کو نہایاں کرتے ہیں۔ ان کا قول تھا: ’’علم و حکمت کے جو مسلمان کو پاکباز، سچا او راعلی ترین اخلاق کا پیکر ہونا چاہیے۔‘‘ وہ خیانت، فریب اور مکر و حیلہ کو علم کے بڑے دشمنوں میں سے گردانتے تھے۔ وہ سرے سے ایسے علم کے مخالف تھے جو دنیا میں اصلاح اخلاق اور آخرت میں حصول سعادت کا باعث نہ ہو۔ وہ حصول سعادت کے لیے عمدہ اخلاق کو بنیاد قرار دیتے ہیں۔

فارابی کے نزدیک اس کائنات کو بڑے ہی حکیمانہ انداز میں ترتیب دیا گیا ہے۔ ہرجزو اپنے کل سے جڑا ہو ا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے سانچے میں ایسا ڈھالا ہوا ہے کہ انسانی عقل اس کا مکمل احاطہ کبھی نہیںکر پائے گی۔ انسان اس کائنات میں بے لگام نہیں ہے۔ وہ ایک ذمہ دار زندگی گزارنے کا پابند ہے۔ یہاں فارابی جدید عمرانیات کی بنیاد مضبوط کرتے ہیں تعلیم کو معاشرت سے مکمل طور پر جوڑ دیتے ہیں۔ وہ علم کے ذریعے انسان کو اپنی فطرت اور مقام کے شعور کے لیے جدو جہد کرنے پر اکساتے ہیں۔ اہل علم کا احترام کرنے اور عالموں کو سوسائٹی میں اہم ترین رول دینے پر زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اہل علم سے ہی معاشرہ آگے بڑھتا ہے۔ ترقی کا پہیہ آگے کی طرف گھومتا ہے۔ روشنیوں کا نزول ہوتا اور تاریکیاں چھٹتی ہیں۔ اسی لیے فارابی ایک باضمیر عالم کو روشن چراغ سے تشبیہہ دیتے ہیں۔

فارابی کی کتابیں یورپ میں ترجمہ ہوئیں اور نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ یورپ نے فلسفہ کی تعلیم کا ہرکتاب میں ایک باب فارابی کی تعلیمات کے لیے مختص کر دیا۔ اسلامی دنیا اپنے آباسے ایسی دور ہوئی کہ ہم لوگوں نے فارابی جیسے عالموں کو بھلا دیا۔ ہم گم کر دہ راہ مسافر بن گئے۔ آج کی مسلم دنیا میں چکا چوند تو ہے حرارت نہیں ہے۔ ساز بہت ہیںسوز ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر آپ پاکستان کو دیکھیں تو اپنی بدقسمتی اور زیادہ آشکار ہو جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں فنگشنل لٹریسی یعنی فعال تعلیم کی شرح 10 فیصد سے بھی کم ہے، یوں ہمارے ہاں ڈگریاں ہیں علم نہیں ہے۔ جہالت میں اضافہ حیرت انگیزطور پر بڑھتا جا رہا ہے۔ این جی اوز نے کلچرکو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

پاکستانی وزارت نوجواں کے مطابق ملک میں پرائمری سے کم تعلیم یافتہ افراد 18.30 فیصد ہیں۔ پرائمری تک 30.14 فیصد مڈل تک، 20.90 فیصد میٹرک تک، ایم اے ایم ایس سی پاس 1.58 فیصد لوگ ہیں۔ اگر ان افراد کو شہری اور دیہاتی علاقوں میں تقسیم کر کے دیکھا جائے تو دیہی علاقوں میںپرائمری سے کم تعلیم یافتہ افراد کی تعداد 22.57 ہے۔ پرائمری تک 34.88 فیصد، مڈل تک 20.25فیصد، میٹرک تک 14.71 فیصد، انٹرمیڈیٹ تک4.24فیصد، بی اے بی ایس سی تک 1.96 ایم اے ایم ایس سی تک 0.75 افراد بنتے ہیں۔ دوسری طرف شہری علاقوں میں پرائمری سے کم تعلیم یافتہ افراد کی تعداد 14.6 فیصد ہے۔ پرائمری تک 25.45 فیصد، مڈل تک 21.54 فیصد، میٹرک تک 19.85 فیصد، انٹرمیڈیٹ تک 8.85 فیصد، بی اے بی ایس سی تک 6.78 فیصد اور ایم اے ایم ایس سی تک 2.40 فیصد ہیں۔

پاکستانی تنظیم برائے قومی مردم شماری کے مطابق 20 کروڑ پاکستانیوں میںسے شرح خواندگی 43.92 فیصد ہے۔ مردوں میں 54.81 فیصد اور خواتین میں یہ 32.02 فیصد ہے۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تین کروڑ بچے اسکول نہیں جارہے، حکومتیں سو رہی ہیں۔ جس میں 5 سے 16 سال عمر کے بچوں میںصرف 2 کروڑ 70 لاکھ بچے اسکول جارہے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 25 کے مطابق ریاستی قانون یہ ہے کہ 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور ضروری تعلیم دی جائے گی اور ریاست اس کی پابند ہے۔ اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح بلوچستان 66 فیصد، فاٹا62 فیصد، سندھ 51 فیصد، گلگت بلتستان میں 48 فیصد، پنجاب میں 47 فیصد، خیبرپختونخواہ میں 34 فیصد جبکہ کشمیر میں 43 فیصد ہے۔ آبادی کے لحاظ سے 52 فیصد پنجاب میں بستے ہیں یعنی ایک کروڑ 30 لاکھ، سندھ میں 25 فیصدیعنی 62 لاکھ50 ہزار، خیبر پختونخواہ میں 10 فیصدیعنی 25 لاکھ اور بلوچستان میں 7 فیصد یعنی 17 لاکھ 50 ہزار بچیاسکول نہیں جا پاتے۔ پرائمری سطح پر 23 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے، اسکول نہ جانے کی زیادہ تر تعداد لڑکیوں کی ہے۔ 3کروڑ میں سے ایک کروڑ 37 لاکھ بچیاں اسکول نہیں جاتیں۔ ایک کروڑ 4 لاکھ لڑکوں کو تعلیم جیسا حق حاصل نہیں ہے۔ فاٹا میں 78 فیصد جبکہ خیبرپختونخواہ میں 50 فیصد لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔ انہیں تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بلوچستان میں 72 فیصد لڑکیاں، سندھ میں 58 فیصد، پنجاب میں 50 فیصدلڑکیاں اسکول نہیں جا پاتیں ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے گزر بسر کرنے والے خاندانوں کے بچے اسکول نہیں جاتے۔ اسکول نہ جانے والے70 فیصد بچوں یعنی ایک کروڑ 75 لاکھ نے کبھی کلاس روم کی شکل تک نہیں دیکھی، جبکہ کہ پہلی کلاس میں پڑھنے والے صرف 48 فیصد بچے پانچویں کلاس تک پہنچ پاتے ہیں جبکہ بقیہ 52 فیصد تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔

2002ء میں پہلی کلاس میں پڑھنے والے بچوں کی 75 فیصد تعداد 2012ء میں دسویں کلاس تک پہنچنے میں ناکام رہی تھی۔ پاکستان اپنی ایجوکیشنل سسٹم پر مجموعی پیداوار کا صرف 1.5 فیصد تعلیم پر خرچ کر تا ہے۔ جو ایشیاء میں انتہائی کم شرح ہے۔ ملائشیا تعلیم پر 8.1 فیصد، ایران 4.9 فیصد، بھارت 4.1 فیصد، نیپال 3.4 فیصد اور بنگلہ دیش 2.9 فیصد خرچ کرتے ہیں۔ ایشیاء میں اسکول جانے والے بچوں کی چوتھی بڑی آبادی پاکستان کی ہے۔ دنیا بھر میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی بڑی تعداد پاکستان میں ہے۔ ایشیاء میں بدترین تعلیمی ترقی پسماندگی پاکستان کا ہے۔ تعلیمی ترقی میں دنیا کے 120 ممالک میں پاکستان 113 نمبر پر آتا ہے۔ ایشیا ء میں خواندگی کی تیسری بڑی بدترین شرح بھی پاکستان کی ہے۔ پاکستان کی خواندگی کی شرح 54.9 جو کہ صرف بھوٹان سے 47 فیصد اور افغانستان سے 28.1 فیصد سے بہتر ہے۔ پاکستان میں 6 کروڑ بچے ہیں۔ ان میں سے 3 کروڑ کسی بھی تعلیمی ادارے کی آغوش میں نہیں سما پائے۔ یہ چند سالوں میںجوان ہو جائیں گے۔ ان کے پاس تعلیم ہو گی نہ روزگار۔ یہ معاشرے کا دست و بازو بننے کے بجائے ایک بوجھ بن کر اس پر سوار ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ ہماری لٹریسی پر دستخط کرنے والے کو پڑھے لکھوں میں شمار کر لیتی ہے۔ ہمیں فنکشنل اورنان فنکشنل لٹریسی کے درمیان تمیز کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ ہم فریب کی دھند میں اپنا آپ کھو بیٹھیں گے۔

ہمارے ہاں ٹیکنکل اداروں کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم اپنے بچوں کو ثمر آور ہنر سکھانے میں غفلت برت رہے ہیں۔ اگر یہ بچے ہنر مند ہو جائیںگے تو روز گار میں بھی اضافہ ہو گا۔ ہمارے اسکولوں اور کالجوں سے آنے والی کھیپ بڑی تیزی سے بے روز گاری کے جھکڑوں کی زد میں آتی جارہی ہے۔ نئی نسل کی پنیریاں جڑوں سے اکھڑی جارہی ہیں۔ ان کو ہنرمندی کے سائبان دینے سے معاشرے میں بے کیفی اور بے آرامی میں خاطر خواہ کمی ہو گی اور معاشی آسودگی آئے گی۔

ہمارے پرائمری اسکولوں میںڈراپ آوٹ کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ بچے نو عمری میں ہی چائلڈ لیبر کے عفریت کے نرغے میں آئے جارہے ہیں۔ ان کے والدین ان کی تعلیم کا بوجھ نہیں اٹھا پائے۔ یہ چند روپوں کے لیے اپنے بچپن کے سہانے خوابوںسے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ ان کو کھلونوں کی جگہ گالیاں اور گھر گھیاں ملتی ہیں۔ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس یہ بچے ہمارے شہروں اور قصبوں کا جزو لاینفک بن گئے ہیں۔ معاشرے نے ان سے بے اعتنائی اور سرد مہری کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ ہمارے پلاننگ کمیشن آف ایجوکیشن میں ایسے نابغے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جن کاکام اعدادو شمار سے تعلیم کی بنجر گود کو ہرا کرنا ہے۔ ہمیں سب سے اچھا کی رپورٹیں دی جارہی ہیں۔ سنہری رنگوں سے تعلیمی کہکشائیں بنائی جارہی ہیں۔ حکومت کہنے کو تعلیمی بجٹ دو گنا کر رہی ہے۔ حقیقت میں تعلیمی فنڈز میں کٹوتیاں کر کے چند منصوبوں کے اندھے دوزخ جیسے پیٹ بھرنے کے لیے کوششیں زورں پر ہیں۔ اس حکومت نے غیر ملکی قرضوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیا ہے۔ ہم تعلیم جیسی بار آور صنعت پر پیسہ لگانے کے بجائے کھربوں روپے میٹروبسوں پر لگا رہے ہیں۔ ہماری قومی ترجیحات میں بچوں کا روشن مستقبل فٹ نہیں ہوتا۔ اس چوکھٹے میں صرف وہی منصوبے آسکتے ہیں جن میں مال بنانے کے زریں مواقعے ہوں۔ یوں تعلیم کے بغیر ترقی پروں کے بغیر اڑنے جیسی حماقت بن کر رہ گئی ہے۔

ترقی یافتہ دنیا کو دیکھیں تو وہاں تعلیم کی شرح 100 فیصد دکھائی دیتی ہے۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، چین، جاپان، سوئزز لینڈ وغیرہ میں کوئی بھی بچہ ان پڑھ نہیں ملے گا۔ تعلیم ان ملکوں کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے۔ استاد، پبلشر، کتب فروش، سائنس کی لیبارٹریوں کا سامان بنانے والے سمعی و بصری معاونات سے تعلیم دینے والوں کی سب سے بڑی کھیپ ا ن ملکوں میں ہے۔ تعلیم کا شجروہاں مسلسل لذیذ پھل اگائے جا رہا ہے۔ ’’ایڈیم اسمتھ‘‘ سے لے کر ’’جان کینس‘‘ تک ہر بڑا ماہر معاشیات تعلیم کے گن گائے جارہا ہے۔ اس صنعت پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ ڈاکٹرز، انجینئرز، ڈپلومیٹس، کمپیوٹر ماہرین اور سائنس دان دھڑا دھڑ تعلیم کی کھٹائی سے نکلے جارہے ہیں۔ ہم سب سے کم خرچ تعلیم و صحت پر کرتے ہیں۔ نتیجہ صاف نظر آرہا ہے۔ اور نہ مغرب کی ترقی کے حقیقی اسباب کو جاننے والے ہم نعرہ بازوں کی قوم بن کر رہ گئی ہیں۔ جو جتنا بڑا نعرہ لگائے ہم لاکھوں کی تعداد میں بھیڑ بکریوں کی طرح اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ مجمع باز مقرروںنے ہماری قومی نبضیں اپنے ہاتھوں میں لے لی ہیں۔ ہر شعبدے باز کے ہاتھوں پر ہم بیعت کرنے کو دوڑ ے چلے آتے ہیں۔

اگر ہم صحیح معنوں میں ترقی کرنے کے خواہاں ہیں تو ہمیںفارابی جیسے موتی خاک سے چننے ہوں گے۔ ہمیں ان بزرگوں کا دامن تھامنا ہو گا۔ مغرب نے ہمارے آبا سے جو سیکھا وہ سامنے سورج کی طرح چمکتا نظر آرہا ہے۔ ہم نے جب اندھیروں کو گلے لگایا تو یہی تاریکیاں ہمارا مقدر بن گئیں۔ ہمارے حکمرانوں کو خواب سے بیدار ہونا ہو گا۔ نئی نسلوں کا مستقبل سنوارنا ہو گا۔ تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دینی ہو گی۔ لٹریسی بڑھانے کے لیے بچوں کو پڑھانا ہوگا۔ انہیں دنیاوی اور دنیوی دونوں علوم دینا ہوں گے تاکہ اصلاح اخلاق اور حصول سعادت دونوں مل جائیں اور ہم دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو جائیں۔

جب چاغی گونج اُٹھا

تحریر یاسر محمد خان

11 اور 12 مئی 2015ء کو بھارتی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس منعقد ہوئے۔ 11 مئی کو نہایت دھواں دھار تقریریں ہوئیں۔ ایجنڈا پاکستان پر سخت آہنی ہاتھ ڈالنا تھا۔ کشمیریوں کے لیے اُٹھائی گئی ہمارے دفتر خارجہ کی آواز موضوع بحث آئی۔ آر کے سنگھ اور کیرتی آزاد جیسے ہارڈ لائنز سے آگ کے الائو نکال رہے تھے۔ زہر کی پچکاریاں اُن کی زبانوں سے چھوٹ رہی تھیں۔ 12 مئی کو نریندر مودی نے ایک فقرہ بولا تو سب مکمل طور پر خاموش ہوگئے۔ اُن پر سکتہ ہوگیا۔ زبانیں گنگ رہ ہوگئیں۔ چنگاریاں اُڑاتی زبانیں راکھ کے ڈھیر بن گئیں۔ نریندر مودی نے بس اتنا کہا: ’’نہ بھولو کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔‘‘ اس کے بعد مودی نے پاک بھارت کرکٹ سیریز دوبارہ شروع کرنے کی منظوری دیدی۔ کرکٹ کو دونوں ملکوں کے تعلقات ہموار کرنے کے لیے ایک مرکزی پالیسی بنانے کا اعلان کردیا۔ یوں یہ اجلاس جو پاکستان دُشمنی کے واشگاف نعروں سے شروع ہوا، پاکستان دوستی کی دستاویز پر دستخط پر تمام ہوگیا۔

ایٹمی طاقت بننے کے عظیم ثمرات محسوس کرنے کے لیے ہم تاریخ کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں۔ 1974ء میں بھارتی صوبے راجستھان میں پوکھران کے مقام پر بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔

امریکا کے خلائی سیاروں کے ذریعے اس کارروائی کی تمام تر تیاری بین الاقوامی میڈیا پر دکھائی جاتی رہی۔ اُس وقت بھارت روس کے بلاک کا اہم ساتھی تھا۔ یوں امریکی خلائی سیاروں نے دنیا بھر کی نظریں پوکھران پر مرکوز کردیں۔ یہاں مہینوں سے جلدی انتہائی پراسرار سرگرمیاں اسکرینوں پر دکھائی گئیں۔ کس کس طرح بھارتی فوج نے قرب و جوار کی بستیاں خالی کروانا شروع کیں؟ اندرا گاندھی نے گرین سگنل دیا تو پوکھران کی زمین میں بھونچال برپا ہوگیا۔ پہاڑوں کے سنگلاخ پتھر سرمہ بن کر رہ گئے۔ کان پھاڑ دینے والے اس دھماکے کے بعد بھارت دنیا کی ایٹمی طاقتوں میں چھٹے نمبر پر آگیا۔ سارے بھارت میں انتہاپسند ہندوئوں نے وحشیانہ جشن منایا۔ پڑوسی ملکوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ بھارت نے ایٹمی میدان میں اپنے سورما ہونے کا واشگاف اعلان کردیا تھا۔ عالمی طاقتیں بغیر دانتوں والی کتیا کی طرح کھانس کر خاموش ہوگئیں۔

٭ وہ شام پاکستان کی تاریخ کی سب سے یادگار شام تھی۔ پاکستانی دیوانہ وار مبارکبادوں کے پھول ایک دوسرے پر نچھاور کررہے تھے۔ ٭ چاہیے تو یہ تھا کہ ہر سال یومِ تکبیر کو ہم اُسی جذبے سے مناتے جیسے ہم 14 اگست یا 23 مارچ مناتے ہیں۔ ٭ یومِ تکبیر اگر ہر سال پورے جذبے اور ذوق و شوق سے منایا جاتا تو یہ نسلی منافرتوں، لسانی حدبندیوں اور صوبائی تعصبات کی تمام دیواروں میں شگاف ڈال سکتا تھا۔ ٭

پاکستان کے لیے اُس وقت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا گھاڑا بھی تازہ تھا۔ 92 ہزار پاکستانی سپاہ بھارتی جیلوں سے سالوں کی قید کے بعد رہا ہوئی تھی۔ ہماری معیشت کٹی پتنگ کی طرح ہوا میں ہچکولے کھارہی تھی۔ پاکستانی قوم کا مورال زمیں بوس ہوچکا تھا۔ ان سب کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے فوراً پاکستانی سائنس دانوں کو ایک چھت تلے جمع کیا۔ اُن کے روشن دماغوں سے آئوٹ پٹ لی اور ایٹم بم کے حصول کے لیے سرتوڑ کوششیں شروع کردی گئیں۔ 1976ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہوٹہ پروجیکٹ کی کمان سنبھالی تو سفر مزید تیز ہوگیا۔ 1979ء میں ہم نے نیوکلیئر فیول سائیکل کے سارے مرحلے عبور کرلیے۔ پاکستان ایٹم بم بناچکا تھا، مگر عالمی دبائو کی وجہ سے اُس کا تجربہ کرنے کا حوصلہ نہیں پارہا تھا۔ 1980ء میں پہلی بار جاپانی میں سرنگیں کھودی گئیں۔ ہم 1983ء سے 1998ء تک 24 مرتبہ اہم بموں کے کولڈٹین کرچکے تھے۔

یہ سارے تجربات کامیابی کی سمت واضح اشارے کررہے تھے۔ ہم البتہ ایٹم بم کا پورے کا پورا تجربہ کرنے کی جرأت دکھانے کے قابل نہ تھے۔ پاکستانی سائنس دان بھی اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ سو فیصد کامیابی کا بلاخوف تردید اعلان کرپاتے۔ تقدیر نے 13 مئی 1998ء کو ہماری کمزور قوتِ فیصلہ کو سخت تازیانہ دیا۔ اس روز بھارت نے یکے بعد دیگرے 3 ایٹمی دھماکے کردیے۔ ایک ملک جو پہلے ہی خود کو ایٹمی طاقت منوا چکا تھا، اُس کا ایسی اندھی طاقت کا مظاہرہ جنون اور پاگل پن کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔ ہندو فطرت کا یہ وحشیانہ ناچ 13 مئی 1998ء کو پاکستان کے لیے ایک وحشت ناک خواب بن گیا۔

ان ایٹمی دھماکوں کے وقت 1998ء میں ہندوستان فوج کی عددی تعداد اور فوجی اسلحہ بارود میں ہم سے بہت آگے تھا۔ بھارت کے پاس 12 لاکھ 63 ہزار فوج تھی۔ پاکستان کی فوج 6 لاکھ 20 ہزار تھی۔ پاکستان کے پاس بری فوج کی کل تعداد 5 لاکھ 50 ہزار تھی۔ بھارت کے پاس 11 لاکھ بری فوجی تھے۔ پاکستانی بحریہ 25 ہزار جوانوں اور افسروں پر مشتمل تھی۔ بھارت کے پاس 53 ہزار کی نیوی تھی۔ پاکستانی فضائیہ 45 ہزار اور بھارتی فضائیہ ایک لاکھ 10 ہزار افسروں پر مشتمل تھی۔ پاکستانی 2 ہزار 3 سو ٹینکوں کے مقابلے میں ہندوستان کے پاس 4 ہزار ایک سو 75 ٹینک تھے۔ پاکستانی فضائیہ کے پاس 401 طیارے اور انڈیا کے پاس 772 جدید ترین لڑاکا جہاز تھے۔ پاکستان کے پاس 45 ملٹی پل راکٹ لانچرز تھے۔ بھارت کئی گنا زیادہ یعنی 1500 ملٹی پل راکٹ لانچرز کا حامل تھا۔ پاکستانی فوج کے پاس 5 سو مارٹر گولے تھے، جبکہ بھارت کے پاس کوالٹی میں بہتر 1500 مارٹر گولے تھے۔ پاکستان کے پاس صرف 400 ڈیفنس توپیں تھیں۔ انڈیا 2 ہزار 400 ایسی توپوں کا ملک تھا۔ اس واضح عسکری برتری کے علاوہ اگر پاکستان اور بھارت کی ایٹمی طاقت کا مقابلہ کیا جائے تو بھارت کے پاس 4 سو کلوگرام پلوٹینم موجود تھی جس سے وہ 65 سے 90 ایٹم بم بآسانی بناسکتا تھا۔ پاکستان کے پاس بمشکل 2 سو کلوگرام پلوٹینم تھی جس سے ہم 25 سے لے کر 30 تک ایٹم بم بناسکتے تھے۔ یوں بھارت بری، بحری، ہوائی فوج، اسلحے، بارود، بموں، گولوں، توپوں، جہازوں، ٹینکوں، بکتربند گاڑیوں اور ایٹم بموں میں ہم سے کئی گنا زیادہ طاقت کا حامل تھا۔ ان سب عوامل کے باوجود بی جے پی، اٹل بہاری واجپائی اور تعصب کے بھپکے چھوڑ کے ہندوئوں کا پاکستان کو للکارنا اُن کے واضح خبیث باطن کا ثبوت تھا۔ وہ جس کی طاقت کو دنیا جانتی تھی اُس نے 13 مئی 1998ء کو ہماری کمزوری کا اشتہار دنیا بھر کے نشریاتی اداروں میں لگادیا تھا۔ اپنے تئیں اُس نے ہمیں شکستِ فاش دے دی تھی۔

اُس دن سے 28 مئی تک کا وقت ہمارے لیے نہایت درجہ کٹھن تھا۔ ہم نے ایٹمی دھماکوں کی دھواں دھار تیاریاں شروع کردیں۔ دنیا بھر کے زور کردینے کی دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی، جاپان، روس، فرانس، اٹلی کے سفارت کاروں کی گاڑیاں صبح شام وزیراعظم ہائوس کا رُخ کرنا شروع ہوگئیں۔ ان طاقتوں کا ایما پر دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں کے باہر مظاہرین کتبے پکڑے جمع ہونا شروع ہوگئے۔ ہم پر چاروں اطراف سے دبائو پڑنا شروع ہوگیا۔ امریکا نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ کبھی ننگی دھمکیاں دیں، کبھی 5 ارب ڈالرز امداد کی نوید سناتا۔ نواز شریف کو 500 ملین ڈالرز کی رشوت کی پیش کیش کی گئی۔ ہمارے کئی قرضے معاف کرنے اور باقی میں سرچ سود میں حیرت انگیز کمی کی نوید لیے آئی ایم ایف کے گماشتے اسلام آباد میں تواتر سے اُترنا شروع ہوگئے۔ امریکی خلائی سیارے برابر چاغی پر نگاہیں جمائے سب تیاریاں بغور دیکھے جارہے تھے۔ کوئٹہ سے ملٹری ہیلی کاپٹرز پانی کے بڑے گیلن لیے مسلسل چاغی آرہے تھے۔ 4 ہزار ماہرین اور 400 گاڑیاں کوئٹہ سے چاغی اور چاغی سے کوئٹہ تک محوسفر تھیں۔ تیاریاں اپنے عروج پر پہنچیں اور 28 مئی کو دفاع پاکستان کا سب سے روشن باب تحریر ہوگیا۔ سہ پہر 3 بجکر 16 منٹ پر چاغی کے سیاہ پہاڑوں نے سفید چادریں اوڑھ لیں۔ فضا زبردست ارتعاش سے گونج اُٹھی۔ بھارت کے 3 ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کے 5 کامیاب ایٹمی دھماکے کردیے۔ یوں 28 مئی کا عام دن ہمارے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ’’یومِ تکبیر‘‘ بن گیا۔ وہ شام پاکستان کی تاریخ کی سب سے یادگار شام تھی۔ پاکستانی دیوانہ وار مبارکبادوں کے پھول ایک دوسرے پر نچھاور کررہے تھے۔ اُن سب کے چہروں پر مسکراہٹوں یک کہکشائیں تھیں۔ خوشی کا ایک گہرا سیلاب تھا جس نے پاکستانی قوم کو اپنے تیز ترین بہائو میں لے لیا تھا۔ امیر، غریب، مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے سب اس میں بہے جارہے تھے۔ مٹھائیاں اتنی بانٹی گئیں کہ حلوائویں کے گوداموں میں انہیں بنانے والا سامان ختم ہوگیا۔ نواز شریف کی شہرت اور عظمت کا گراف اپنے بلند ترین نقطے کو چھورہا تھا۔ پاکستانی اسٹاک مارکیٹ ہفتوں تک نہایت اونچی شرح پر رہی۔ اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے بچے دنوں تک پاکستانی قوم کی عظمت کے ترانے گاتے رہے۔ 16 دسمبر 1971ء کا منحوس دن دیکھنے کے بعد تین عشروں بعد 28 مئی کی شام آئی تھی۔ اس شام کے ہاتھ میں پھلجڑیوں، فانوسوں اور چراغوں کی ضیائیں تھیں۔ پاکستانی تاریخ میں یہ فتح مبین کا دن تھا۔ ہندوستان میں ہندوئوں کی سٹیاں گم ہوگئیں۔ لوک سبھا میں کانگریس نے بی جے پی کے لتے لیے۔ واجپائی اپنے حواس گم کر بیٹھے۔ جنوبی ایشیا میں کمتر فوجی طاقت رکھنے والا پاکستان بھارت سے میلوں آگے نکل گیا تھا۔ آہستہ خرام کھچوے نے مغرور خرگوش کو دوڑ میں شکست دے دی تھی۔ طاقت کے توازن کا پلڑا عین ہندوستان کے برابر آگیا تھا۔

چاہیے تو یہ تھا کہ ہر سال یومِ تکبیر کو ہم اُسی جذبے سے مناتے جیسے ہم 14 اگست یا 23 مارچ مناتے ہیں۔ افسوس 1998ء سے 2015ء تک ہم نے اس دن کو شایانِ شان طریقے سے نہیں منایا۔ صرف ایک بار 28 مئی 1999ء کو نواز شریف حکومت نے اسے ایک جشن کی طرح منایا۔ ماضی میں ہم اس یومِ تکبیر کے بارے میں چند توصیفی بیانات اور اکادکا تقریبات سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ ہمارا پریس اور میڈیا بھی قیامِ پاکستان کے بعد سب سے اہم ترین اس دن کو اُس کا جائز مقام دینے میں ناکام رہا ہے۔ یومِ تکبیر اگر ہر سال پورے جذبے اور ذوق و شوق سے منایا جاتا تو یہ نسلی منافرتوں، لسانی حدبندیوں اور صوبائی تعصبات کی تمام دیواروں میں شگاف ڈال سکتا تھا۔ یہ ہماری ترسی روحوں میں نور اور حرارت بھرسکتا تھا۔ ہم من حیث القوم بھول گئے ہیں کہ یہ جوہری ہتھیار ہمارا کتنا بڑا اثاثہ ہے۔ آج امریکا، اسرائیل اور بھارت ہم پہ ہاتھ ڈالتے ہوئے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ اُن کے زہریلے عزائم دہشت کے مارے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ خوف سے تھرتھر کانپتے ہوئے اُن کی گھگی بندھ جاتی ہے۔ اسی آئی اے، را اور موساد اس آہنی دیوار سے ٹکراکر اپنا سر پھوڑ لیتی ہیں۔ ایٹم بم کے حامل ملک سے سیدھا ٹکرائو انہیں فنا کے گھاٹ اُتار سکتا ہے۔ جوہری ہتھیار ہمارے ہاتھ میں آئی، وہ لاٹھی ہے جسے دیکھ کر دانت کچکچاکر ہماری طرف دوڑنے والے کتے رفوچکر ہوجاتے ہیں۔

دُشمنوں نے اب اپنی پالیسی کو ایک ٹرن دیا ہے۔ انہیں علم ہے کہ پاکستانی جوہری ہتھیار ایک حقیقت ہے جنہیں حقائق کی زمینوں سے اُکھاڑا نہیں جاسکتا۔ اب ہر طرف سے پاک فوج پر غلاظت پھینکی جارہی ہے۔ سیمورہرش نامی امریکی صحافی نے حال ہی میں سابق کمانڈر انچیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پر نہایت رکیک حملے کیے ہیں۔ امریکا اور یورپ میں تسلسل کے ساتھ ایسی کتابیں چھپ رہی ہیں۔ اخباروں میں میں آرٹیکل آرہے ہیں جن میں ہماری افواج کو بدترین الزامات کے ترازو میں تولا جارہا ہے۔ حیرت ہے جس فوج نے ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ہر قدم اُٹھایا، جس نے کراچی میں امن کے لیے تیز تر کوششیں کیں، جو بلوچستان میں را کے ایجنٹوں کے نیٹ ورک کو توڑ رہی ہے، اُسے ہی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے؟ دوم یومِ تکبیر کو ایسے منانا چاہیے کہ یہ دن دفاع پاکستان کا اہنی سمبل بن جائے۔ فوج اور جوہری ہتھیار ہمارے لیے آفات کے صحرائوں میں نخلستان کی طرح ہیں۔ یہ جلتی بلتی دھوپ میں گھنے سایہ دار پیڑ ہیں۔ یہ اس آبلہ پا قوم کے لہولہان پیروں کے لیے مرہم ہیں۔ یہ وہ باریں ہیں جو یہودی، مسیحی اور ہندو درندوں کے پنجوں سے ہمیں بچائے ہوئے ہیں۔ خدارا! دُشمنوں کے ہاتھوں ہتھیار بن کر اپنوں کو زخمی کرنے کی کوششیں مت کریں۔ اپنے اثاثوں کو حقیر جاننے والوں کی ہوس کا پیٹ دوزخ کی آگ ہی بھرسکتی ہے۔

را کی سازشوں کا جال

تحریر یاسر محمد خان

\
22 اپریل کی صبح راجستھان سے آئے کسانوں نے دہلی پہ دھاوا بول دیا۔ ہر طرف سے لوگوں کا ہجوم آیا۔ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے جمع ہوگیا۔ ان لوگوں کے لباس پھٹے پرانے اور میل کچیل سے لتھڑے ہوئے تھے۔ ان کے پائوں میں گرد آلود ٹوٹے ہوئے جوتے تھے۔ ان کے چہروں پہ غموں نے ڈھیرے ڈال رکھے تھے۔ بے موسمی بارشوں نے ان کی فصلیں مکمل طور پر تباہ کردی تھیں۔ وہ قرضوں کے بوجھ تلے بری طرح دبے ہوئے تھے۔ اچانک گجندر سنگھ نامی ایک کسان نے ایک پیڑ کے ساتھ لٹک کر خودکشی کرلی۔ ہجوم ناقابل بیان حد تک جذبات سے بپھرگیا۔ پولیس اور پیرا ملٹری فورس نے ان پر چڑھائی کردی۔ آنسو گیس کے گولوں نے فضا میں زہر گھول دیا۔ یہ بھوکے مجبور کسان تتر بتر ہوگئے۔ پارلیمنٹ کے اندر بھارتی لیڈر شپ ان زندہ لاشوں سے لاتعلق دفاعی بجٹ بڑھانے اور کشمیر میں ہندو آبادکاری کے عمل کو تیز کرنے پر بحث کرتی رہی۔

دولت اور غربت پر تحقیق کرنے والی تنظیم Oxfom کے مطابق بھارت دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں ارب پتی سرمایہ داروں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ کہا گیا ہے کہ اگلے 20 سالوں میں ان کی تعداد تمام دنیا میں پہلے نمبر پر آجائے گی۔ اسی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ پچھلے 20 سالوں یعنی 1995ء سے 2014ء کے درمیان 3 لاکھ بھارتی کسان غربت اور تنگ دستی سے مجبور ہوکر خودکشی کرچکے ہیں۔

سب سے چونکا دینے والی خبر یہ ہے کہ بھارت کے امیرترین صوبے مہاراشٹر میں سب سے زیادہ کسانوں نے اپنی زندگیوں کے چراغ خود گل کیے۔ مہاراشٹر میں واقع اندراگاندھی انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ ریسرچ نے بتایا ہے کہ پچھلے 10 سال میں کسانوں میں کودکشی کی شرح 15 فی ہزار سے بڑھ کر 57 فی ہزار ہوگئی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بدقسمتی کے سائے بڑھتے جارہے ہیں۔ بھارت کا 50 فیصد کسان ساہوکارہوں کے ہاتھوں رہن ہے۔ ایک ہیکڑ سے کم زمین رکھنے والے 77 فی صد کسان سود درسود کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

بھارت کے قیام کے وقت زرعی سیکٹر کا حصہ ملک کی مجموعی پیداوار میں 51 فیصد تھا جو اب حیرت انگیز طور پر کم ہوکر 14 فیصد رہ گیا ہے۔ ملک کی 67 فیصد آبادی کی گزربسر کا واحد ذریعہ زراعت ہے۔ بھارت کی 22 فیصد آبادی یعنی کل 260 ملین افراد شہری علاقوں میں 33 روپے اور دیہی علاقوں میں 27 روپے یومیہ کمانے کی محدود ترین استطاعت رکھتی ہے۔ کانگریس حکومت نے اپنے آخری ایام میں ایک فوڈ سیکورٹی قانون پارلیمنٹ سے پاس کروایا۔ اس کی رو سے مستحق افرا دکو ہر مہینے چاول 3 روپے فی کلو، گندم 2 روپے فی کلو اور باجرا یا جوار ایک روپے فی کلو کے حساب سے سرکاری ڈپووں سے ملنا تھی۔ اس کے لیے مرکزی حکومت نے ٹیکس کی رقم سے صوبوں کا حد 32 فیصد بڑھاکر 42 فیصد کردیا۔ جنتا پارٹی نے آتے ہی اس منصوبے کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ مالی خسارے کے حجم کو جی ڈی پی کے 4.1 فی صد ہدف تک محدود کرنے کے لیے صحت، زراعت اور تعلیم میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی گئیں۔ دیہی کے علاوہ شہری زندگی میں عسرت اور تنگ دستی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ امیر صوبوں کی آندھرا پردیش، گجرات، ہریانہ، کرناٹک، پنجاب اور کیرالا میں امیری اور غریبی کے درمیان ناقابل عبور خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ یوں ان صوبوں میں 10 فیصد آبادی کی آمدن میں پچھلے 24 سالوں میں 35 سے 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہاں کی 90 فیصد آبادی نے ان ڈھائی دھائیوں میں صرف 3 سے 4 فیصد اضافہ پایا ہے۔ بھارت 241 ملین ٹن اناج سالانہ پیدا کردیا ہے۔ لاکھوں ٹن اناج سرکاری گوداموں میں گل سڑک کر ختم ہوچکا ہے۔ اس کو غیرمناسب اور ناکافی حفاظتی اقدامات اور رشوت خور سرکاری عملے کی مجرمانہ غفلت نے ضائع کردیا۔ بی جے پی مہنگی زراعت، بیچ اور کھاد کے بڑھتے نرخوں، سود کے جال میں جکڑے کسانوں، موسمی آفات سے تباہ ہونے والی فصلوں، اناج کی تیزی سے بڑھی قلت ہمارے زرعی سسٹم پر سرمایہ داروں کی آہنی گرفت سے مکمل طور پر قطع تعلق کرچی ہے۔ اس نے مریخ میں خلائی مشن بھیجنے کے لیے کروڑوں ڈالرز کا بجٹ بنایا ہے۔ ہتھیاروں، میزائلوں اور طیاروں کے لیے اربوں ڈالرز پس انداز کر رکھے ہیں۔ بھارت کے سارے انتہاپسند ہندو اب کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے یکسو ہوچکے ہیں۔

بھارت نے یہ سازش اپنے دوست اسرائیل سے شعار لی ہے جس نے آہستہ آہستہ فلسطین میں گھسنا شروع کیا اور پھر مسلم اکثریت کو اقلیت قرار دلوانے کی سازش میں کامیاب ہوگیا۔ بھارت کئی دہائیوں سے جموں اور لداخ میں دھیرے دھیرے ہندو آباد کرتا رہا ہے۔ اب اُس نے کشمیریوں کو بھی یہودی طرز پر اپنے وطن میر اجنبی بنانے کے لیے ہتھکنڈے تیز کردیے ہیں۔ دھن دولت کے زور پر زمینیں ہتھیائی جارہی ہیں۔ کشمیر کی معاشی شہ رگ کو دبوچنے کے لیے چالیں چلی جارہی ہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرلیا ہے۔

بھارتی آئین کے مطابق اس آرٹیکل کو صرف وہی قانون سازی اسمبلی ختم کرسکی ہے جس کا وجود اب ناپید ہوچکا ہے۔ یہ آرٹیکل واضح کرتا ہے کہ کشمیر میں کوئی غیرکشمیری نہ تو جائیداد خرید سکتا ہے، نہ وہاں مستقل سکونت اختیار کرسکتا ہے۔

سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ایک بار کشمیر کے دورے پر گئے تو وہاں کے فطرتی حسن کو دیکھ کر بہوت رہ گئے۔ مستقل وہاں رہائش اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ آئین کی رو سے ایسا نہیں کرسکتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ راشٹریہ سیوک سنگھ اور بجرنگ دل نے کشمیر کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے ہندو آبادکاری کا عمل تیز کردیا۔ اپریل 2014ء میں مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے بھارت فوج اور پولیس کی زیر نگرانی سارے ہندوستان سے ہندو کشمیر کا رُخ کررہے ہیں۔ وہ زمینیں خرید رہے ہیں۔ جائیدادیں اونے پونے ہتھیارہے ہیں۔ غیرآباد زمینوں پر مکانات تعمیر کررہے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کی تجارت اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے۔ سرینگر میں سارے کاروبار پر اُن کا قبضہ تیزی سے جاری ہے۔ چھوٹے مسلمان دکاندار ہندو معاشی عفریت کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ دیہی کشمیر میں انہیں مزروعے اور زرخرید غلام بنانے کے لیے جنگی پیمانے کی حکمت عملی پر کام ہورہا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت ذکی الرحمن لکھوی کی رہائی کے خلاف اقوام متحدہ میں چلاگیا۔ ہم کشمیر پر ایک ڈھیلے ڈھالے بیان سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ خطے میں ہندوستان کا اثر و رسوخ میں تجارت، معیشت، سیکورٹی، تعلیم، صحت، زراعت اور صنعت پر دونوں ملکوں نے اہم معاہدے کیے ہیں۔ بھارت نے افغانستان میں 2 بلین ڈالرز سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اُس نے وہاں کئی ہائی پروفائل منصوبے مکمل کیے ہیں۔ ان میں پارلیمنٹ کی بلدنگ، ہسپتال اور شمالی افغانستان کو ایران سے ملانے والی 250 کلومیٹر شاہراہ کی تعمیر شامل ہے۔ ہندوستان اپنے عالمی قد کاٹھ کو بڑھانے کے لیے پاکستان کو اکیلا کررہا ہے۔ عالمی طاقتوں کو اُس نے شیشے میں اُتارلیا ہے۔ مسلمان ملکوں کے ساتھ بھی اُس کے مراسم گہرے ہوئے جارہے ہیں۔ چین کے ساتھ اُس کی سردمہری ختم ہوچکی ہے۔ پاکستان کی داخلی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے وہ مشرقی سرحدوں پر اندھادھند گولہ باری کررہا ہے۔ را کی پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی سازشوں کا جال بے نقاب ہوچکا ہے۔ بلوچستان کے علاہ اب سندھ بھی اس کا مشق ستم بن گیا ہے۔ مذاکرات کے دروازے وہ پہلے ہی بند کرچکا ہے۔ تجارت میں اپنا فائدہ دیکھ کر اور ہماری اکانومی کو پسپا کرنے کے لیے اُس کی کارروائیاں زور و شور سے جاری ہیں۔ سیاچن پر اُس کا غاصبانہ قصبہ مکمل طور پر ختم نہیں کروایا جاسکا۔ ایسے منظرنامے میں کشمیر میں کایا کلپ کرنے کی سازش عین ہندو کردار کی تفسیر ہے۔ ہمارا دفتر خارجہ اس کے مقابلے میں موم کے پتلوں کا ایک میوزیم ہے جو حقائق کے آگ برساتے سورج میں پگھل جاتا ہے۔

لازم ہے کہ حکومت پاکستان ایک ایسی آرگنائزیشن بنائے جو بھارتی سازشوں کی تہہ تک جائے۔ اُن کے توڑ کے لیے پلان اور پلاننگ مرتب کرے۔ اس میں فوجی اور حکومتی ایجنسیوں کے نہایت زیرک افسران، بین الاقوامی امور کا تجربہ رکھنے والے سفارت کار اور ہندوستانی سیاست کے خدوخال کو باریک بینی سے دیکھنے والے دانشور شامل ہوں۔ وہ بغور دیکھیں کہ کشمیر میں ہندو آبادکاری کو کس طرح روکا جاسکتا ہے؟ ہماری حکومت کے پاس کون کون سے آپشن ہیں؟ بھارت کشمیر میں ڈیم بنا بناکر پاکستان کو بنجر اور اجاڑ بنانے کے لیے کیا کچھ کررہا ہے؟ ہمارے پاس ان کا کون سا توڑ ہے؟ سرحدوں پر ہندو توپوں کو کیسے خاموش کیا جائے؟ پاکستان میں را کے نیٹ ورک کو کس طرح پورے طور پر توڑا جائے؟ بلوچستان اور سندھ میں ہندوستان کی سازشوں کے تانے بانے کیسے توڑے جاسکتے ہیں؟ بھارت سے تجارت میں پاکستان کو کس درجہ نقصان ہورہا ہے؟ اس کا تخمینہ لگاکر اُسے کڑے قوانین کے تابع کس طرح کیا جائے؟ اگر پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی دعوت کو کمزوری سمجھا جاتا ہے تو کیوں نہ انہیں معطل رکھا جائے؟ مسلمان ملکوں کے ساتھ بھارت جو پینگیں بڑھارہا ہے اُن کا پاکستان کو کس کس طور نقصان ہوسکتا ہے؟ ان ساری سمتوں میں پوری دل جمعی سے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

مقامی حکومتیں کیوں ضروری ہیں؟
تحریر یاسر محمد خان
مشاہدات: 631

قدیم زمانے سے چین میں تین مذاہب پروان چڑھے۔ یہ تائوازم، بدھ ازم اور کنفیوشس ازم کہلاتے ہیں۔ تائو ازم اور بدھ ازم میں ترکِ دنیا کو روحانی سکون و قرار کا سرچشمہ قرار دیا جاتا تھا۔ اُن کے بعد چین نے اپنا سب سے بڑا مذہبی راہنما کنفیوشس پیدا کیا۔ اُس نے اپنی تعلیمات میں تائوازم اور بدھ ازم کی روح شامل کرتے ہوئے انہیں دنیا میں بہترین زندگی گزارنے کے اصولوں میں ڈال لیا۔ ڈھائی ہزار سال بعد بھی چین میں کنفیوشس کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سونگ خاندان کی حکومت سے لے کر آج تک چینی بچوں کو جو پہلے اسباق پڑھائے جاتے ہیں، وہ کنفیوشس کے ان خیالات سے شروع ہوتے ہیں: ’’قومی زندگی کی تنظیم کرنے والے سب سے پہلے اپنی گھریلو زندگی کو باقاعدہ بنائیں۔ جو لوگ گھریلو زندگی کو منظم بنانا چاہتے ہیں، وہ سب سے پہلے ذاتی زندگی کی ترتیب و تہذیب کریں۔ وہ سب سے پہلے اپنے دلوں کو پاک صاف کریں۔ دلوں کو پاک صاف کرنے والے سب سے پہلے نیتو ںکو مضبوط بنائیں۔ نیتوں کو مخلص بنانے والے سب سے پہلے سمجھ بوجھ پیدا کریں۔ سمجھ بوجھ اشیاء کے علم کی چھان بین سے پید اہوتی ہے۔ سمجھ بیدار ہوجائے تو نیت اور ارادہ مخلص ہوجاتا ہے۔ جب نیت صاف اور ارادہ مخلص ہوجائے تو دل صاف و پاک ہوجاتا ہے۔

جب دل صاف ہوجائے تو ذاتی زندگی کی تہذیب و تربیت پوری ہوجاتی ہے۔ ذاتی زندگی کی تربیت و تہذیب ہوجائے تو گھریلو زندگی منظم اور باقاعدہ ہوجائے گی۔ جب گھریلو زندگی منظم ہوجائے تو قومی زندگی میں بھی ایک نہایت گہرا نظم آجائے گا۔ راہنما سے لے کر ایک عام آدمی کی زندگی تک ہر چیز کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ذاتی زندگی کی ترتیب و تہذیب کی جائے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ بنیاد باقاعدہ اور ٹھیک نہ ہو تو ساری عمارت درست اور مضبوط ہو۔ دنیا میں ایسا کوئی درخت نہیں جس کا تنا تو کمزور اور نازک ہو اور اُس کی اوپر کی شاخیں، ٹہنیاں بے حد بھاری بھرکم اور مضبوط ہوں۔ اس کائنات کی ہر چیز کی کوئی نہ کوئی علت موجود ہے اور ہر چیز کا دوسری کے ساتھ تعلق اٹل ہے۔ اسی طرح انسانی معاشروں میں ابتدا اور انتہا دونوں موجود ہیں۔ کسی بھی انسانی ریاست کے نیچے والے حصوں میں اگر کوئی ٹیڑھ اور کجی ہے تو وہی سب سے اوپر بھی اسی طرح واشگاف انداز میں نظر آئے گی۔ آپ پانی کو بلوکر اُس میں سے مکھن نہیں نکال سکتے۔ آپ جنگلی جڑی بوٹیاں کھیتوں میں اُگاکر اُس سے پیٹ کے لیے اناج حاصل نہیں کرسکتے۔

٭ ترقی کرنے کے اصول کو چین سمیت ترقی یافتہ دنیا نے پوری طرح اپنا رکھا ہے۔ ہر ایسا ملک اپنا ایک بلدیاتی نظام رکھتا ہے۔ ٭ ہر ترقی یافتہ ملک میں یہ مرکزی اور صوبائی حکومتو ںکی بنیاد ہے۔ اسی سسٹم سے نتھر کر اعلیٰ لیڈر شپ ملکوں کی باگ ڈور سنبھال رہی ہے۔ ٭

آپ کے کھانے کے ڈونگوں میں جو کچھ ہوگا وہی اُلٹ کر پلیٹوں میں نظر آجائے گا۔ بڑے سے بڑا لیڈر بھی معاشرے کو نچلی سطح پر ٹھیک کیے بغیر ترقی اور کامیابی کے پہیے کو آگے نہیں دھکیل سکتا۔‘‘

پاکستانی تاریخ قدم قدم پر اس آفاقی اصول سے روگردانی کرتی نظر آتی ہے۔ اگر نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کی بات کی جائے تو ہمیں جمہوریت کی روح کہیں بھی کارفرما نظر نہیں آتی۔ ہمارے لیڈر سارے کی ساری پاور اپنے ہاتھوں میں مرتکز کرنے کی تگ و دور میں لگے رہے۔ یوں انہوں نے آمروں کے لبادے پہن لیے۔ ہم بلدیاتی انتخابات کا معاملہ دیکھتے ہیں۔ اگر قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو خاصی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پہلے 10 برس تک جمہوری حکومتیں اس درجہ کمزور رہیں کہ ان کی ساری تگ و دور اپنے وجود کو معدوم ہونے سے بچانے میں لگی رہیں۔ ایوب خان کے 10 سالوں میں بی ڈی ممبرز کا نظام وضع کیا گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں 80 ہزار بی ڈی ممبرز چنے گئے۔ یہی ممبرز صوبائی اور قومی اسمبلیوں کا انتخابی ادارہ (الیکٹرول کالج) بن گئے۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ ایوب خان کے دور میں اس سسٹم نے کئی اچھے کام کیے۔ گائوں، دیہات، قصبوں، تحصیلوں اور ضلعوں میں عوامی بہبود کے ان گنت منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچے۔ ایوب خان کی اقتداء سے رخصتی کے ساتھ ہی یہ سسٹم بھی دھڑام سے نیچے آگرا۔ ملک کے دوسرے فوجی حکمران یحییٰ خان دوبارہ بلدیاتی اداروں کو اپنے پائوں پر کھڑا نہیں کرسکے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بلدیاتی اداوں کے استحکام کے لیے مثبت کوششوں سے اجتناب کیا۔ صدر ضیاء الحق نے 3 بار بلدیاتی انتخابات کروائے اور 11 سالوں میں ملک میں ترقیاتی کاموں کی نئے سرے سے داغ بیل ڈالی۔ تواتر کے ساتھ ہونے والے اس پراسیس کے نتیجے سے لیڈر شپ اُبھر کر اوپر آئی۔ بے نظیر نے اپنے والد کی طرح کا طرزِ عمل اپنایا اور اس باب میں کوئی اضافہ نہ کیا۔ نوازشریف کے پہلے دورِ حکومت میں 1991ء میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ دوسرے صوبے اس نوازش سے محروم رہے۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں 1997ء کے ایک کابینہ اجلاس میں اعلان ہوا کہ 1998ء میں بلدیاتی انتخابات ملک بھر میں ہوں گے۔ 1999ء ختم ہونے پر آگیا، لیکن اس جانب حکومت نے کوئی قدم نہ اُٹھایا۔ 12 اکتوبر کے انقلاب کے بعد جنرل مشرف نے 2001ء میں مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کروایا۔ ناظم اور نائب ناظم چنے گئے۔ انہوں نے کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کی جگہ لے لی۔ اس طرح بیوروکریٹوں کی فرعونیت سے عوام کو نجات ملی۔ کئی بڑے شہروں میں ان ناظمین نے آبادیوں کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ عوامی فلاح و بہبود کو چار چاند لگادیے گئے۔ 2008ء سے 2013ء کے دوران پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ناظمین کو عضو معطل بنادیا گیا۔ فنڈز روک لیے گئے۔ ترقیاتی منصوبے ادھوے چھوڑ دیے گئے۔ سڑکیں اور پل مکمل نہ ہوپائے۔ یہ سارے فنڈز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے من پسند اراکین میں بانٹ دیے گئے۔ یوں 2009ء میں بلدیاتی ادارے توڑکر اُن کی جگہ ایڈمنسٹریٹرز مقرر کردیے گئے۔

2013ء میں اس حکومت نے اقتدار میں آکر بلدیاتی انتخابات کو سردخانے میں ڈال دیا۔ 8 نومبر 2013ء کو قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں ان انتخابات کو ملتوی کردیا گیا۔ عذر یہ تراشا گیا کہ 20 دنوں میں 5 کروڑ بیلٹ پیپرز چھپوانا ناممکن ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس اعتراض کو مسترد کردیا اور صوبائی بلدیاتی انتخابات کا ایک شیڈول جاری کردیا۔ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہوچکے۔ 25 اپریل 2015ء کو 17 سال بعد 42 کنٹونمنٹ بورڈز کا الیکشن ہوگیا۔ خیبرپختونخواہ، سندھ اور پنجاب کا الیکشن ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ سب کچھ شدید عدالتی دبائو کے نتیجے میں ہورہا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت نے اس بھاری پتھر کو بڑی بے دلی سے اُٹھانے کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمارے صوبائی اور مرکزی لیڈر اپنے اختیارات نچلی سطح پر عوامی نمایندوں کو سوپنا نہیں چاہتے۔ ہماری بڑی سیاسی پارٹیاں شخصی اقتدار کی حامل نہیں۔ یہ مخصوص خاندانوں کی جاگیریں ہیں۔ ان پارٹیوں میں قیادت کے انتخاب کے لیے کبھی الیکشن نہیں ہوتے۔ یہ لیڈر ہر شے کو اپنی مٹھی میں جکڑ کر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ہر اُس بلدیاتی ادارے کے دُشمن ہیں جو ان کی مرضی اور منشاء کے بغیر وجود میں آجائے۔ یہ سارے خزانوں کی کنجیاں اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ اس مائنڈ سیٹ کو وہ ممبران اسمبلی اور مضبوط کرتے ہیں جو بھاری سرمایہ لگاکر اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں۔ وہ مقامی سطح پر تعمیر و ترقی کے لیے سارے فنڈز اور گرانٹیں خود ہڑپ لیتے ہیں۔ اس حمام میں ننگوں کا یک جم غفیر ہے جو ہمہ وقت یہاں جمع رہتا ہے۔ یہ اقتدا رکے شجر سے گرنے والے ہر پھل کا شیرہ شیر مادر کی طرح جزو بدن بنالیتا ہے۔ یہی وجہ ہے ہماری سڑکیں ٹوٹی پھوٹی، ہمارے فٹ پاتھ کچرے کے ڈھیرے، ہمارے پارک اُجاڑ، بیابان، ہمارے پل شکستہ حال، ہماری گلیاں کیچڑ میں لت پت اور ہمارے بازار کوڑا کرکٹ کے ڈھیر بن کر رہ گئے ہیں۔ عوامی بہبود کے لیے لوکل سطح پر جو ڈھانچہ چاہیے، اُس کے نہ ہونے سے معاملات ناقابل اصلاح حدود کو پہنچ گئے ہیں۔ دہشت ناک ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب غیرجمہوری روشیں ہماری جمہوری ادوار میں اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہیں۔

کنفیوشس کے ترقی کرنے کے اصول کو چین سمیت ترقی یافتہ دنیا نے پوری طرح اپنا رکھا ہے۔ ہر ایسا ملک اپنا ایک بلدیاتی نظام رکھتا ہے۔ وقفے وقفے سے الیکشن ہوتے رہتے ہیں۔ کونسلرز چنے جاتے ہیں۔ انہی میں سے چیئرمین یا میئرز کا انتخاب ہوتا ہے۔ وہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے گرانٹیں لیتے ہیں۔ عوامی بہبود کے لیے یکسوئی سے اقدامات اُٹھاتے ہیں۔ سڑکیں، گلیاں، بازار پختہ کرواتے ہیں۔ اسکول اور ہسپتال چلاتے ہیں۔ عوامی فلاح کے اداروں کو ہمہ وقت فعال رکھتے ہیں۔ مقامی سطح پر لوگوں کی زندگیوں میں سکھ بوتے اور آزار کے کانٹے نکالتے ہیں۔ کسی بھی بلدیاتی رکن پر کرپشن کا ذرا برابر بھی دھبہ لگ جائے تو وہ بررضا و رغبت استعفیٰ دے دیتا ہے۔ یہ سسٹم اپنے اپنے علاقوں کو صاف ستھ رکھنے، انہیں سرسبز و شاداب بنانے، لائبریریوں کو چلانے، کمیونٹی سینٹروں میں عوام کو راحت کے اسباب مہیا کرنے، مقامی سطح پر قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے نہایت کامیابی سے استعمال ہورہا ہے۔ ہر ترقی یافتہ ملک میں یہ مرکزی اور صوبائی حکومتو ںکی بنیاد ہے۔ اسی سسٹم سے نتھر کر اعلیٰ لیڈر شپ ملکوں کی باگ ڈور سنبھال رہی ہے۔ بہترین کارکردگی دکھانے والا کونسلر سے ترقی کرکے ملک کا وزیراعظم یا صدر بن جاتا ہے۔ اُس کا عوامی بہبود کا ریکارڈ اُس کے ساتھ ساتھ اُس کا پشت بان بنا رہتا ہے۔ یوں طیب اردگان نامی ایک کونسلر اچھے کردار، بہترین وژن، اعلیٰ کارگزاری کی بنا پر ترکی کا ہردل عزیز حکمران بن گیا ہے۔ اُس نے گلیوں کوچوں کو صاف ستھرا بنائے کے جس مشن کا آغاز کیا تھا، اُسی تجربے نے اُسے سارے معاشرے کی غلاظتیں صاف کردینے کا لازوال ہنر سکھادیا۔ انڈونیشیا کا موجودہ صدر جوکو دو دو ایک بڑھی کا بیٹا ہے۔ وہ سوراکرتا شہر کا کونسلر، پھر میئر، پھر جکارتہ کا گورنر اور آخر میں ملکی صدر بن گیا۔ اُس نے انڈونیشیا کو جو ترقی دلوائی ہے اُس کی مثال ان چند برسوں میں ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں گلی کوچوں نے تجربے کی کٹھالی سے گزار کر ہیرا بنادیا۔ ایک عالم کی آنکھیں ان کی چمک سے خیرہ ہوگئیں۔ ہماری جمہوریت نے عوام کی جیبوں میں کنکر پتھر بھردیے اور پھر یہ اصرار بھی کیا کہ انہیں ہی ہیرے جواہرات سمجھو۔

چین سے سیکھو
تحریر یاسر محمد خان

’’ماوزے تنگ‘‘ چین کا عظیم ترین راہنما تھا۔ 1949ء میں چین آزاد ہوا تو عوام عجیب کیفیت کا شکار تھی۔ 84 فیصد چینی افیون کے نشے کے عادی تھے۔ انہیں برطانیہ نے اس بیماری میں مبتلا کیا تھا۔ ماوزے تنگ جب راہنما بنا تو اس نے قوم کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد شروع کی۔ اُس نے اپنا لانگ مارچ شروع کیا تو اسے ہزاروں میل پیدل چل کر سارے چینی نظام کو اپنے ہاتھ میں لینے کا امتحان درپیش ہوا۔ لاکھوں چینی چنے اور گرم پانی لے کر اس سفر پر چل پڑے۔ راستے میں ہزاروں اموات ہوئیں۔ یہ قافلہ حبس کرب سے گزرا۔ اُس کی تفصیلات ایک کتاب Glances of the Fateful Years میں لکھی گئی ہیں۔ اس لانگ مارچ کے شروع کرنے سے پہلے ماوزے تنگ دنیا بھر کی مذہبی کتابیں پڑھتا رہا۔ اُس پر قرآن پاک پڑھتے ہوئے سورۃ الفیل نے عجیب اثر کیا۔ ان مقدس آیات نے اُس کے دل کی دنیا بدل کے رکھ دی۔ اس نے انسانوں کے ایک لشکر کی قیادت کی اور چینی انقلاب کا موجب بن گیا۔ اُس نے کہا اگر آپ ایک سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو گندم بوئو۔ اگر 10 سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو ساتھ درخت بھی لگائو۔ اگر صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں کی تربیت بھی کرو اور انہیں تعلیم بھی دو۔

بیجنگ میں ایک اعلیٰ ترین درجے کا انسٹیٹیوٹ قائم کیا گیا، جہاں سے ساری چینی قیادت کھٹالی سے سونے کی طرح نکلنا شروع ہوگئی۔ وزیر، مشیر، افسر، وزیراعظم اور صدر سب یہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ ان لوگوں نے چین کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ اُسے امریکا کے بعد دنیا کی سب سے بڑی معیشت بنادیا گیا۔ کہا جارہا ہے 2021ء تک چین کی سب سے بڑی معاشی قوت بن جائے گا۔ انقلاب کے بعد چین میں ہزاروں فیکٹریاں اور کارخانے لگے۔ چینی عوام پر روزگار کے بند دروازے کھلنے لگے۔ اسکولوں اور کالجوں کا ایک جال بچھادیا گیا۔ تعلیم اس قدر سستی کہ ہر کس و ناکس کو اُس تک رسائی ہوگئی۔ چینی یونیورسٹیاں صحیح معنوں میں دانش گاہیں بن گئیں۔ سڑکوں، پلوں، ریلوے لائنوں اور ایرپورٹوں کا ایک جال ملک میں بچھادیا گیا۔ نہروں، بندوں اور جھیلوں نے زراعت کو سنہری دور عطا کردیا۔ چینی ہر معاملے میں خود کفیل ہوتے گئے۔ مساوات کے نظام نے افسر، ماتحت، کسان، پروفیسر سب کو دسترخوان پر ایک جیسی نعمتیں عطا کردیں۔ چین میں کوئی بے روزگار نہ رہا۔ کسی قسم کی کوئی مہنگائی نہ رہی۔ لاء اینڈ آرڈر کے سب مسائل حل ہوگئے۔ کرپشن پر ٹھیکیداروں کو سزائے موت ہوئی تو اس کا یکسر خاتمہ ہوگیا۔ چینیوں نے دنیا بھر کے علوم اپنی زبان کے توسط سے سیکھے۔ انہوں نے کسی بھی غیرملکی کلچر کو خود پر مسلط نہ ہونے دیا۔ چینی معاشرہ سکون قرار کا گہوارہ بنادیا گیا۔ دوسری قوموں سے مسابقت اور اُن سے کوئی مقابلہ نہیں کیا گیا۔ سارے کی ساری توانائیاں چینی عوام کو بلندی سے بلند تر معیار زندگی دینے پر مرکوز کردی گئیں۔ چینی چین میں سیلابوں کے آگے بند باندھ دیے گئے۔ قحط سالی کا یکسر خاتمہ کردیا گیا۔ جدید ترین ہسپتال ہر آبادی میں کثرت سے بنے۔ بیماروں کو صحت یابی ملی۔ یوں ہر چینی دل و جان سے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں شامل ہوگیا۔ ماوزے تنگ مرنے لگا تو اُس نے وصیت کی کہ اس کے یومِ وفات پر چین میں کوئی سرکاری چھٹی نہ کی جائے۔ ہر چینی روزمرہ اوقات سے دو گھنٹے زیادہ کام کرے۔ ہو بہو ایسا ہی ہوا اور اب تک ہر سال اس عظیم لیڈر کی وفات کے دن سارا چین دو گھنٹے زیادہ کام کرتا ہے۔ ایک افیمچی قوم کا ایسی دیوقامت معاشی قوت بن جانا موجودہ تاریخ کا ایک حیران کن بات ہے۔

٭ اگر صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں کی تربیت بھی کرو اور انہیں تعلیم بھی دو۔ 2021ء تک چین کی سب سے بڑی معاشی قوت بن جائے گا۔ ٭ خوشی کی بات ہے کہ چینی صدر کے دورے کے دوران ہمارے وزیر خزانہ نے پاکستان کے دنیا کی 18 ویں بڑی معیشت بن جانے کی نوید سنائی۔ ٭

پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کا آغاز 1950ء میں ہوا۔ پاکستان نے چین تائیوان تنازعے میں چین کا ساتھ دیا۔ یوں اس دوستی کا آغاز ہوا۔ بباقاعدہ تعلقات 31 مئی 1951ء کو شروع ہوئے۔ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے سفارت کانوں نے کام شروع کردیا۔ 1962ء میں چین، ہندوستان جنگ میں پاکستان نے چین کا بھرپور ساتھ دیا اور خطے میں چین کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے۔

1965ء میں چینیوں نے ہمارے احسانات کا بہترین صلہ دیا۔ جنگ میں درپردہ ہمیں خاصا اسلحہ فراہم کیا گیا۔ چینی ماہرینِ جنگ نے ہماری عسکری قیادت کو نہایت قیمتی مشورے دیے۔ فوجی اور اقتصادی رابطوں میں تیزی آتی گئی۔ 1966ء سے 1980ء تک چین پاکستان کو مفت اسلحہ فراہم کرتا رہا۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا نے اپنی ساری گرم جوشی ہندوستان کے نام کردی تھی۔ 1970ء اور 1972ء میں امریکیوں نے بھٹو کی خوشامد کرکے چین سے رابطے ہمارے توسط سے شروع کیے۔ ہنری کسنجر اور رچرڈ نکسن پاکستانی کوششوں سے چائنہ کے دورے پر پہنچے۔ 1978ء میں قراقرم ہائی وے نے سرحدوں کی دیواریں گرادیں اور پاک چین دوستی اور زیادہ مضبوط ہوگئی۔ 1980ء میں افغانستان کے سکے پر چائنہ نے پاکستان کی حمایت اور روس کی مذمت کی۔ 1984ء میں پاک چائنہ جوہری توانائی کے سمجھوتوں پر دستخط ہوئے۔ 1990ء میں سیٹلائٹ کے شعبے میں دونوں ملکوں نے مل کر کام کرنے کا عمل شروع کیا۔ 1999ء میں چشمہ کے مقام پر 300 میگاواٹ کا جوہری بجلی گھر دوست ملک کی مدد سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ 2002ء میں گوادر پورٹ پر اجیکٹ کے لیے چین نے 198 ملین ڈالرز کی مدد دی۔ بندرگاہ کی تعمیر کے لیے چین کی تکنیکی اور افرادی مہارت پیہم میسر رہی۔ 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلابوں میں چین نے پاکستان کو 500 ملین ڈالرز کی امداد دی۔ 2008ء میں دونوں ملکوں نے فری ٹریڈ کے تاریخی معاہدے پر دستخط کیے۔ اُسی سال قراقرم ہائی وے کے ساتھ ساتھ ریل روٹ بنانے کا سمجھوتہ ہوا تاکہ چینی مصنوعات کو گوادر اور پوسٹ تک رسائی مشکل نہ ہو۔

2009ء میں دونوں ملکوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کا ایک معاہدہ کیا۔ 5 جولائی 2013ء کو پاک چائنہ اکنامک کاری ڈور کا معاہدہ ہوا جس نے 6.5 بلین ڈالرز کراچی میں نیوکلیئر پاور پلانٹ بنانے کی منظوری دی جو 1100 میگاواٹ بجلی بنائے گا۔ 22 مئی 2014ء کو لاہور میں میٹرو ٹرین پراجیکٹ پر چین نے 1.27 بلین ڈالرز کی مدد دینے کا وعدہ کیا۔ 8 نومبر 2014ء کو چینی وزیراعظم اور ہمارے وزیراعظم نے 19 معاہدوں کی منظوری دی جن میں 42 بلین ڈالرز کی مدد پاکستان کو فراہم ہوگی۔ اسی دوران چین نے پاک فوج مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے دفاع کے لیے اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی فراہم کیے رکھی۔ یوں ہم نے 2001ء میں الخالد ٹینک، 2007ء میں لڑاکا طیارے جے ایف 17 تھنڈر، 2008ء میں ایف 22 پی فریگیٹ اور کے 8 قراقرم نامی جدید ترین طیارے چین کی فنی مدد سے بنائے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں چین نے ہمیں امریکی مکاری و عیاری سے متنبہ کیا۔ پھر بھی ہم اُس دلدل میں گہرے اُترتے گئے۔ ہم وار آن ٹیرر لڑتے رہے۔ مشرف دور میں ہیلری کلنٹن نے پاکستان کے دورے کے دوران پاکستانی خدمات کے صلے میں انرجی بحران حل کرنے کے لیے امریکی مدد کا یقین دلایا۔ سات آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی امریکا نے پاکستان کو اس میدان میں سوئی تک فراہم نہیں کی۔ ہم نے اُس کی جنگ میں 60 ہزار پاکستانی شہری، 6 ہزار فوجی اور معیشت کا ایک کھرب ڈالرز کے نقصان کی صورت اس ’’دوستی‘‘ کا خراج ادا کیا۔ چین شدید ترین موسموں میں ہمارا ساتھی رہا۔ امریکا مخالف ہوا کے پہلے ہی جھونکے پر ہمیں تنہا چھوڑ کر فرار ہوگیا۔

چینی صدر کے حالیہ دورے میں 45 کھرب 68 ارب روپے کے معاہدے عمل میں آئے ہیں۔ یہ کل 51 معاہدے ہیں جن میں سے 8 پر کام شروع ہوچکا ہے۔ پاک چین تجارتی حجم کو 20 ارب ڈالرز تک لے جانے پر اتفاق ہوا ہے۔ سب سے بڑا منصوبہ خجراب سرحد سے گوادر کی بندرگاہ تک سڑکوں اور ریلوے لائن کی تعمیر ہے۔ 30 منصوبے صرف اس سے متعلق ہیں۔ کراچی لاہور موٹر وے، مری میں ٹرانمشن لائن کی اپ گریڈیشن، میٹرو ٹرانزٹ سسٹم اورنج لائن لاہور، پاکستان میں چینی ثقافتی مرکز کا قیام، ڈی ٹی ایم بی براڈ کاسٹنگ، ایف ایم ریڈیو 98 دوستی چینل، کروٹ 720 میگاواٹ ونڈ پاور پراجیکٹ، سچل 50 میگاواٹ ونڈ پاور پراجیکٹ، چھمبر 1000 میگاواٹ ونڈ پاور پراجیکٹ، قائداعظم پارک بہاولپور میں 100 میگاواٹ کا پاور پلانٹ، چین پاک مشترکہ تحقیقی مرکز اسلام آباد، لاہور میں چین کے صنعتی و تجارتی بینک کی ایک شاخ، پاک چین سرحد کے آر پار آپٹک فائبرکیبل سسٹم اور دیگر توانائی، ٹرانسپورٹ، ریلوے، انفراسٹرکچر، زراعت، مالیات، صحت، تخفیفِ غربت اور ثقافتی تبادلوں کے منصوبے شامل ہںی۔ چین قراقرم ہائی وے کے لیے رعایتی قرضے فراہم کرے گا۔ وہ پاکستان کو سیکورٹی کے مزدی آلات بھی فراہم کرے گا۔ وزارت پیٹرولیم اور ایک چینی کمپنی کے درمیان ایران پاک گیس پائپ لائن اور گوادر میں ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کے لیے 2 ارب ڈالرز کے معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ اس منصوبے میں 85 فیصد رقم چین اور 15 فیصد پاکستان شامل کرے گا۔ پائپ لائن گوادر سے نواب شاہ تک تعمیر کی جائے گی۔ چینی ورکرز کی سیکورٹی کے لیے پاک فوج کی 9 بٹالینز اور سول آرمڈ فورسز کے 6 ونگز کی تشکیل کردی گئی ہے۔ اس کے لیے ایک علیحدہ سیکورٹی ڈویژن بنادیا گیا ہے۔ اس کی سربراہی میجر جنرل کے رینک کا ایک آفیسر کیا کرے گا۔ یہ سربراہ براہ راست جی ایچ کیو کو رپورٹ کرے گا۔ یوں 10 ہزار پاکستانی فوجی چینی انجینئروں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کریں گے۔ یہ دورہ اب تک کے کسی بھی چینی سربراہ کے دورے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک تاریخ ساز دورہ ہے۔ اس کی اہمیت پاک چین تعلقات میں ایک بلند مینارہ نور کی ہے۔

اس دورے کے موقع پر اسلام آباد کو رنگ برنگے پرچموں سے سجایا گیا۔ شاہراہ دستور پر چینی صدر کی تصویریوں والے بڑے بڑے ہوڈنگ رکھے گئے۔ پارلیمنٹ، وزیراعظم اور صدر ہائوس پر روشن قمقمے سجے ہوئے تھے۔ اسلام آباد کے ایرپورٹ سے شاہراہ دستور کو راتوں رات نیا بنادیا گیا۔ درختوں، پودوں، گھاس کو متناسب کردیا گیا۔ اس طرح ہر لحاظ سے ان دنوں کو پاکستان کی تاریخ میں یادگار بنایا گیا۔ نہایت روح پرور مناظر قوم کو دیکھنے کو ملے۔

ہماری ساری لیڈر شپ کو چین کی محیر العقول ترقی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ قیادت کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کرنا چاہییں۔ خوشی کی بات ہے کہ چینی صدر کے دورے کے دوران ہمارے وزیر خزانہ نے پاکستان کے دنیا کی 18 ویں بڑی معیشت بن جانے کی نوید سنائی۔ بتایا گیا کہ ترقی کی شرح نمو بڑھ گئی اور افراط زر خسارے میں واضح کمی آگئی ہے۔ آپریشن ضرب عضب پر 1.75 ارب ڈالرز اور آئی ڈی پیز کی بحالی پر 80 کروڑ روپے ڈالرز صرف ہوں گے۔ ہمیں جلد از جلد داخلی امن حاصل کرلینا چاہیے تاکہ چینی پراجیکٹس سے آنے والے ترقی کے دھارے کا راستہ بند نہ ہوجائے۔ دوسری طرف ہماری معیشت کی ترقی کے ثمرات عام آدمی کی زندگی میں دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم چین سے معاہدوں سے بہت کچھ حاصل کرلیں گے، لیکن چینی ہمارے ممبران اسمبلی کو ٹیکس چوری کرنے سے نہیں روک پائیں گے۔ وہ ہمیں ناجائز ٹھیکوں اور پرمٹوں کے ذریعے اپنے اہل و عیال کو نوازنے کی جمہوری روش سے باز نہیں رکھ سکیں گے۔ وہ ساری مارکیٹ اکانومی کا شیرہ خود ہڑپ کرجانے والی میانہ چالبازی سے ہمیں باز نہیں رکھ پائی ںگے۔ وہ ہمیں دبئی میں پلازے، جائیدادیں اور سوئس بینکوں میں دولت کے پہاڑوں جیسے کالے دھن کو جمع کرنے سے روکنے میں قاصر ہوں گے۔ سہارا دینے والے ہاتھوں کا شکریہ پر وزن اپنی ہی ٹانگوں پر ڈالنا پڑتا ہے۔ چلنا اور دوڑنا اپنی ہی ٹانگوں سے ہوتا ہے۔ معاشی ترقی کی میراتھن دوڑ میں جیت اپنے قدم دلواتے ہیں۔ حکمرانوں کے لیے اس حقیقت کا ادراک انتہائی ضروری ہے۔

اپنی حفاظت کی خاطر
تحریر یاسر محمد خان

’’ڈانا اباچر‘‘ اور ’’لوئی گومیرٹ‘‘ امریکی کانگریس کے دو اراکین ہیں۔ اباچر ریاست کیلیفورنیا اور گومیرٹ ٹیکساس سے تعلق رکھتا ہے۔ ان دونوں نے امریکا میں ایک تحریک چلارکھی ہے۔ یہ بلوچستان کی پاکستان سے مکمل علیحدگی کے سرخیل ہیں۔ یہ کانگریس میں تقریریں کرتے ہیں۔ قراردادیں پاس کرواتے ہیں۔ اخبارات اور میڈیا میں ان دونوں نے ایک حلقہ پیدا کرلیا ہے۔ اس مہم میں استاذ، سماجی کارکن اور دانشور شامل ہوگئے ہیں۔ یہ ہر وقت اس پروپیگنڈے میں مصروف رہتے ہیں کہ بلوچستان میں ہماری ایجنسیوں نے 12 ہزار بلوچوں کو اغوا کر رکھا ہے۔ دراصل ان لوگوں کی نظریں معدنیات کے ان ذخائر پر ہیں جن کا دنیا میں بہت شور و غلغلہ ہے۔

امریکا میں ہندوستانی لابی بہت مضبوط ہے۔ اس کے ایما پر کانگریس اور سینیٹ کے اراکین کو راغب کیا جارہا ہے کہ وہ امریکی حکومت پر دبائو بڑھائے۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے بلوچستان کو الگ کرلیا جائے۔ امریکی یہودی اور ہندو لابیوں نے اَٹھ کرلیا ہے کہ چین کو بلوچستان میں سرمایہ کاری کو روکا جائے۔ چینیوں کو مضبوط سے مضبوط تر ہوتا دیکھ کر یہ سارے دُشمن باہم شیر و شکر ہوگئے ہیں۔ پاکستانی سرحد سے متصل ایرانی علاقے میں آباد بلوچوں نے بلوچستان لبریشن فرنٹ سے اتحاد مضبوط کرلیا ہے۔ یوں مختلف راستوں سے اسلحہ، گولہ بارود اور کرنسی آرہی ہے۔ علیحدگی پسند طاقت پکڑتے جارہے ہیں۔ بلوچستان حکومت ان دہشت گردوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتی جارہی ہے۔ لا اینڈ ارڈر کی صورت حال دن بدن مخدوش ہوتی جارہی ہے۔ غیربلوچیوں کے قتل عام کاایک سلسلہ ہے جو اَب لامتناہی ہوچکا ہے۔

تربت کے علاقے گوگدان میں 10 اور 11 اپریل کی درمیانی رات کو مزدوروں کے قتل کی لرزہ خیز واردات ہوئی۔ یہ بدقسمت سوراب ڈیم کی تعمیر میں شامل تھے۔ مرنے والوں میں 13 کا تعلق پنجاب اور 7 کا سندھ سے ہے۔ ان کو رات 1 بجکر 40 منٹ پر نیند سے اُٹھایا گیا۔ ان کے صوبوں کی شناکت کی گئی اور برسٹ مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ ہر طرف سے مذمت کی صدائوں کے درمیان وزیراعلیٰ نے ہلاک ہونے والوں کے لیے دس دس لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے پانچ پانچ لاکھ روپے کا اعلان کردیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے اپنے علاقے میں یہ پچھلے دو سالوں میں چوتھا بڑا واقعہ ہے۔ 2013ء میں 9 پختون مزدوروں کو قتل کیا گیا۔ گوادر میں ایف ڈبلیو او کے محنت کاروں کو اغوا کرکے موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ 13 فروری 2014ء کو تربت سے وہاں کے ڈپٹی کمشنر، 2 اسسٹنٹ کمشنروں، ایک تحصیل دار اور 4 پولیس اہلکار کو اغوار کرلیا گیا۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے دہشت گرد انہیں اپنے ٹھکانوں میں لے گئے۔ سرکاری گاڑیاں اور اسلحہ بھی ان کے قبضے میں چلاگیا۔ وزیراعلیٰ نے ایک مذاکراتی ٹیم دہشت گردوں سے مذاکرات کے لیے بھیجی، اُسے بھی بیچ راستے میں گن پوائنٹ پر اغوا کرلیا گیا۔ بے بس وزیراعلیٰ رہائی کی اپیلیں کرتے رہ گئے۔ آخرکار قبائلی عمائدین نے اپنے اثر و رسوخ سے ان سب اغواشدگان کو رہائی دلوائی۔

امریکا ایران، افغانستان اور ہندوستان کا عمل دخل صوبے میں کثرت کے ساتھ دیکھنے میں آرہا ہے۔ خصوصاً ہندوستان علیحدگی پسندوں کو بھاری اسلحہ، ٹریننگ اور کرنسی دیے جارہے جارہا ہے۔ جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے تو انہوں نے شرم الشیخ میں سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو بلوچستان میں بھارتی تخریب کارانہ سرگرمیوں کے ناقابل تردید ثبوت فراہم کیے تھے۔ اُس کے بعد بھی ان برسوں میں ہندوئوں نے اپنے مشن کو جاری رکھا ہوا ہے۔ بی جے پی کے دورِ حکومت میں یہ عمل دخل خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ بھارت صوبے کو آتش فشاں میں تبدیل کرتا جارہا ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ نے تربت واقعے کے بعد اسے ’’را‘‘ سے فنڈز لینے والے دہشت گرد گروپوں کا کیا دھرا قرار دیا۔ آرمی چیف نے کوئٹہ کا ایک روزہ دورہ کیا۔ جہاں انہیں ایف سی ہیڈکوارٹرز میں بریفنگ دی گئی۔ انہوں نے گورنر، وزیراعلیٰ اور کمانڈر سدرن کمانڈ سے ملاقاتیں کیں۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے بلوچستان حکومت کی بے دریغ مدد کا تہیہ کیا۔ انہوں نے بیرونی طاقتوں اور ایجنسیوں کو سخت الفاظ میں انتباہ کیا کہ ان کو مکمل شکست فاش دی جائے گی۔ دہشت گردوں کو چھپنے کے لیے کہیں جگہ نہیں ملے گی۔ اُن کے سہولت کاروں کا جال کاٹ دیا جائے گا۔ اس ضمن میں آرمی چیف نے وزیراعظم سے بھی ملاقات کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کی طرز پر بلوچستان میں بھی ایک آپریشن زیرغور ہے۔

اس وقت بھی تین یا چار بڑے سردار حکومت کے ساتھ پنجہ آزمائی کررہے ہیں، جبکہ بلوچستان میں درجنوں سردار ہیں۔ ان سب نے دہائیوں سے واویلا مچارکھا ہے کہ مرکز اُن کی معدنیات کھاگیا ہے اور صوبے کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر حصہ دے رہا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ یہ سردار صوبے کی تعمیر و ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس تصویر کے دو رُخ ہیں۔ پہلا یہ کہ ڈیرہ بگٹی، کوہلو، خضدار اور تربت میں مزدور صوبے کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہیں۔ تصویر کا دوسرا رُخ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ پنجاب کے دیہی علاقوں، اندرون سندھ اور خیبرپختونخواہ میں غربت میں خوفناک حد تک اضافہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت بلوچستان میں بھی لگنے چنے پراجیکٹس کے علاوہ زیادہ سرمایہ صرف نہیں کررہی۔ اس بات کو رد کرنے والے کہتے ہیں کہ خان آف قلات، جام آف لسبیلہ، مینگل، بگٹی، اچکزئی، مری، جمالی، ریسانی یہاں حکمران رہے۔ انہوں نے مشرف اور زرداری دور میں ترقیاتی فنڈز کے لیے مرکز سے اربوں لیے۔ اُن میں سے کتنا حصہ صوبے میں استعمال ہوا۔ یوں ان سرداروں نے مال ہڑپ کرلیا۔ پروپیگنڈے کے شور سے آسمان سر پر اُٹھالیا۔ زرداری حکومت نے جب آغاز حقوق بلوچستان کا آغاز کیا تو انہی سرداروں نے اُس کی مخالفت شروع کردی۔ یوں اگر تصویر کے سارے ٹکڑے جوڑے جائیں تو ایک وحشت ناک منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ اس میں سویلین اور فوجی حکومتوں کی بداعمالیاں، سرداروں کی شورہ پشتیاں، بیرونی طاقتوں کی دہشت گردیاں سب شامل ہوجاتی ہیں۔ یہ منظرنامہ دیکھنے والے کو دہشت میں مبتلا کردیتا ہے۔ اُس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مستقبل وحشت ناک خواب کی طرح مسلط ہوجاتا ہے۔ ہم اندر سے کمزور ہوئے تو دُشمنوں نے ہمارے صحن میں رسّے بنالیے۔ دُشمن ایجنسیاں یہاں اپنے ٹھکانے مضبوط کرچکی ہیں۔ ملک کی بنیادوں میں ڈائنامائٹ بچھایا جارہا ہے۔ سی آئی اے، موساد اور را تینوں پنجے جھاڑ کر ہمارے شکار کے لیے یہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ غیرملکی قوتیں اور ایجنسیاں پاکستان کو غیرمستحکم کرنے سے باز رہیں۔

قانون کی حکمرانی
تحریر یاسر محمد خان

کنیا لال گابا (کے ایل گابا) تقسیم ہند سے قبل قانون دانی میں ایک بہت بڑا نام تھا۔ قبولِ اسلام کے بعد وہ خالد لطیف گابا کی حیثیت سے جانے گئے۔ انہوں نے برطانیہ سے قانون کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ لاہور میں پریکٹس کا آغاز کیا۔ خدا نے انہیں زمینِ رساء عطا کیا ہوا تھا۔ سیرت النبی پر اُن کی کتاب بہت مشہور ہوئی۔ کئی زبانوں میں اُس کا ترجمہ ہوا۔ کے ایل گابا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مقدس کا قانون دان کی حیثیت سے بڑا مبسوط مطالعہ پیش کیا۔ اُن کی کئی تصانیف میں برٹس اور اسلامک لا کا موازنہ ملتا ہے۔ اُن کی ایک کتاب نہایت درجہ دلچسپ ہے۔ یہ تقسیم ہند سے پہلے شائع ہوئی تھی۔ اب بھی اسے بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ یہ ’’Famous Trials for Love and Murder‘‘ ہے۔ اس میں ہندوستانی تاریخ کے مشہور مقدمات کی رُوداد ہے۔ ہر مقدمہ ایک ہوش رُبا داستان ہے۔ سب مقدمات میں مجرموں کو سزائیں ہوئیں اور ان سزائوں پر ہوبہو عمل ہوا۔ کئی مقدموں میں جرم کرنے والے انگریز تھے۔ انہیں اپنی اعلیٰ سماجی حیثیت کا زعم تھا، مگر قانون نے انہیں بھی پابند سلاسل کیا۔ اُن کی سزائوں میں کسی قسم کی کوئی تخفیف نہ ہوپائی۔ ایک مقدمے میں انگریز مرد اور عورت کو سزائے موت ہوئی۔ دونوں نے مل کر عورت کے خاوند کو قتل کیا تھا۔ سزا دینے والے سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج ہندوستانی تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ میں اس سزا پر عملدرآمد رُک جائے گا۔ سپریم کورٹ کے انگریز ججوں نے نچلی عدالتوں کے فیصلے کی توثیق کی۔

انگریز مرد ملکہ برطانیہ کے رشتہ داروں میں سے تھا۔ ملکہ اُس کی 5 سزا میں تخفیف کا قانونی حق رکھتی تھی۔ اُس نے بھی عدالتوں کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کی اور یوں دونوں انگریز مرد اور عورت تختۂ دار پر لٹکائے گئے۔ کے ایل گابا نے لکھا انگریز راج نے ہندوستان میں بے شمار قباحتوں کو جنم دیا۔ انہوں نے ’’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘‘ کے فارمولے پر عمل کیا۔ اُن کی تہذیب کی درخشاں علامت اُن کا انصاف تھاجس میں وہ وہ اپنے قانون سے روگردانی نہیں کرتے تھے۔ یوں انہوں نے ہندوستان کے وسیع و عریض رقبے پر حکمرانی کی۔ اُن کا آئین کتابوں میں لکھا ہوا نہ تھا۔ اُن کا قانون مجرم کو پکڑتا تھا اور اُسے اُس کے سماجی مقام سے الگ کرکے سزا دیتا تھا۔ اُن کے نظامِ عدل و انصاف نے اپنے بیشتر ضابطے اسلامی قانون سے اَخذ کیے ہوئے تھے۔

٭ ہمارا سارا جمہوری نظام ایک ’’مقدس فراڈ‘‘ ہے۔ اس میں شروع سے آخر تک دھوکہ دہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ٭ دنیا میں آج تک کسی بھی ملک نے قانون کی حکمرانی کے بغیر ترقی نہیں کی۔ ٭

قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے ایک صاحبِ بصیرت جج ہوا کرتے تھے جس کا نام جسٹس رستم کیانی تھا۔ ایک بار انہوں نے کہا تھا: ’’انگریز جاتے ہوئے ملک سے سب سے قیمتی چیز ایک ڈبے میں ڈال کر لے گئے۔‘‘ جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ کیا شے تھی؟ انہوں نے کہا: ’’قانون کی عملداری۔‘‘ جی ہاں! پاکستان میں وقت کے ساتھ قانون کتابوں میں بند ہوتا گیا۔ باہر معاشرے میں اندھی طاقت کی حکمرانی قائم ہوگئی۔ ہم صرف انتخابی عمل تک خود کو محدود کرکے سوچیں تو احساس ہوگا کہ ہم کس درجہ بے قانون معاشرہ ہیں۔ اگر ہم صرف 2013ء کے انتخابات کی بات کریں تو اِس کے نتیجے میں ہمارے ملک میں اب تک بدنظمی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس الیکشن کے نتیجے میں قومی اور صوبائی حکومتیں نہیں، مگر ابتدا سے ہی ان پر سوالیہ نشان لگ گئے۔ دوسری پارٹیوں کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف نے سب سے زیادہ واویلا مچایا۔ یہ شور شرابا پچھلے برس یومِ آزادی کے موقعے پر ایک ملک گیر احتجاج میں بدل گیا۔ لاہور سمیت دوسرے شہروں سے قافلے روانہ ہوئے۔ انہوں نے اسلام آباد کا گھیرائو کرلیا۔ ہفتوں بلکہ مہینوں تک شہر اقتدار میں غدر مچارہا۔ پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ ہوا۔ شہر بھر کی سڑکیں بند رہیں۔ کاروبار تباہ ہوکر رہ گیا۔ بیرون ملک سے آنے والے سربراہان کے دورے ملتوی کرنے پڑے۔ سرکاری دفتروں میں روزمرہ کا کام رُک گیا۔ دوسرے شہروں سے آنے والے سائلین کے لیے کوئی جائے پناہ نہ رہی۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کی چھوٹی بڑی عدالتوں تک رسائی ناممکن حد تک مشکل بنادی گئی۔ دونوں شہروں میں اشیائے خوردنوش کا کال پڑگیا اور اُن کی قیمتیں آسمانوں تک جاپہنچیں۔ اسکولوں، کالجوں میں پڑھائی لکھائی کا عمل رُک گیا۔ سڑکوں پہ ٹرانسپورٹ نہ چلنے کی وجہ سے شہریوں کو ہر قدم پر سو سو رکاوٹوں کا عبور کرنا پڑا۔ بیماروں کی ہسپتالوں تک رسائی ممکن نہ رہی۔ ہر جگہ کنٹینرز پڑے ہوئے تھے۔ راستے کھود کر رکاوٹیں کھڑی کردی گئی تھیں۔ سارا کارِ مملکت ایک نوگوایریا بن گیا تھا۔ ہر طرف پولیس کے دستے گشت کرتے تھے اور ہر گزرنے والے کو شکوک بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔ اس دوران عمران خان اور طاہر القادری کو ہمارے میڈیا نے ہر دم اپنی آنکھ کے سامنے رکھا۔ اُن کی جگالی شدہ تقریریں اتنی بار دکھائی اور سنائی گئیں کہ لوگوں کے ہوش و حواس گم ہوکر رہ گئے۔ ان لیڈروں نے لاہور سے روانہ ہونے پر جو وعدہ وعید کیے تھے، انہیں پس پشت ڈال دیا گیا۔ مائیک گرجتے رہے اور تقریروں کا سیلاب ملک کے گلی کوچوں میں بہتا رہا۔ عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں میں مغربی لباسوں میں خواتین ڈانس کرتی رہیں۔ اسے نیا پاکستان قرار دیا گیا۔ ایک طوفان تھا بدتمیزی کا جس کے حصار میں سارا پاکستان ہفتوں کسا رہا۔ خدا خدا کرکے یہ طوفان تھما۔ حکومت اور تحریک انصاف میں مذاکرات کے دوڑ شروع ہوئے۔ اس کے نتیجے میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کا ایک معاہدہ عمل میں آیا ہے۔ وزیراعظم نے مشاورتی اجلاس میں اس کی منظوری دے دی ہے۔ یہ کمیشن 45 دنوں میں اپنی کارروائی پوری کرے گا۔ دھاندلی ثابت ہوگئی تو اسمبلیاں نہ توڑنے کا کوئی جواز حکومت کے پاس نہیں رہے گا۔ ایک صدارتی آرڈیننس جاری ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ کے 3 ججوں پر مشتمل جوڈیشنل کمیشن بنادیا گیا ہے۔ ان میں چیف جسٹس ناصر الملک، جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس امیرہانی مسلم کے نام شامل ہیں۔ اس کمیشن کو سول اور فوجداری دونوں عدالتوں کے اختیارات حاصل ہیں۔ اس کمیشن میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا موقف پیش کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ اس ضمن میں پہلا اجلاس سپریم کورٹ میں ہوچکا ہے۔ اس اجلاس میں کارروائی کا طریقۂ کار وضع کردیا گیا ہے۔ یہ کمیشن کسی بھی فرد کو یا اتھارٹی کو طلب کرسکے گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کے ساتھ ہر طرح سے تعاون کرنے کی پابند ہوں گی۔ کمیشن کی انکوائری پر اثرانداز ہونے والے کو توہین عدالت کا مرتکب تصور کیا جائے گا۔ اس کمیشن کی سفارشات حتمی ہوں گی۔

سچی بات یہ ہے کہ ہمارا سارا جمہوری نظام ایک ’’مقدس فراڈ‘‘ ہے۔ اس میں شروع سے آخر تک دھوکہ دہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ہمارے نمایندے اربوں پتی ہوتے ہوئے بھی انتخابی فارموں میں خود کو کنگال دکھاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن انتخابات پر اخراجات کا جو پیمانہ وضع کرتا ہے اُس کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ ہر حلقے میں کروڑوں اربوں روپے صرف ہوتے ہیں۔ اَن پڑھ دولت مندوں کے لیے یہ سارا انتخابی عمل ایک گیم کی حیثیت رکھتا ہے۔ پڑھے لکھے شائستہ لوگ پہلے ہی جھٹکے میں انتخابی چھلنی سے باہر ہوجاتے ہیں۔ پھر ووٹ خریدے جاتے ہیں۔ گائوں دیہات میں ووٹ برادری ذات کی سطح پر دیے اور بیچے جاتے ہیں۔ بڑے جاگیرداروں کے مزارعوں نے الیکشن کے دن بس اپنے انگوٹھوں پر سیاسہی لگوانا ہوتی ہے۔ زرد آور لوگ جعلی ووٹوں کی قطاریں باندھ دیتے ہیں۔ گھی کے ڈبوں اور آٹے کے تھیلوں کے عوض بھی ووٹ اسی دھرتی پر خریدے جاتے ہیں۔ ہر بڑے اُمیدوار نے لنگر کا انتظام کیا ہوتا ہے۔ بھوکی مجبور مخلوق چند دن خوابوں میں ملنے والے کھانوں اور مشروبات کا لطف لے لیتی ہے۔ بڑے شہروں میں نسلی اور لسانی تقسیم ہی ووٹ کے لیے بہترین جائے امان بن جاتی ہے۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری اسمبلیاں اور سینیٹ میں ایک بھاری تعداد ان لوگوں کی ہے جو بدترین کرپشن میں ملوث ہیں۔ جن نے کبھی ملکی خزانے کو ٹیکس نہیں دیا۔ جو زمینوں پر قبضے کرواتے اور جائیدادیں ہڑپ کرلیتے ہیں۔ جو بڑے شہروں کی قیمتی زمینوں میں اپنے ناجائز پلازے کھڑے کرلیتے ہیں۔ دولت اور الیکشن میں ملنے والی اندھی طاقت جب اکھٹے ہوتے ہیں تو سب سے پہلے قانون کو شکست ہوجاتی ہے۔ یہی وہ جڑ ہے جس سے تمام تر معاشرتی بگاڑتی پیدا ہورہا ہے۔ اسی کے نتیجے میں ملک پر ایک ایسی نحوست چھائی ہوئی ہے جس میں سے نکلنا مشکل ہوا جارہا ہے۔ ہمارے جمہوری نمایندگان کو جو مرعات ملتی ہیں وہ غریب غربا نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچی ہوں گی۔ ان کی رہائش گاہیں اور دعوتیں نری ہوتی ہیں۔ یہ من چاہے ہوٹلوں میں قیام کرسکتے ہیں۔ ان کا ہوائی سفر سرکار کے ذمے ہوتا ہے۔ ان کا بیرون ملک علاج ٹیکس ادا کرنے والے غریبوں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ ان کے بچے بیرون ملک کے جی سے ماسٹرز تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ سوئس بینکوں میں ان کی دولت کے انبار جمع ہوتے رہتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں جمع یہ طبقہ صرف بادشاہت کے مزے اُڑانے کے لیے جمع رہتا ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ غریب طبقہ ان کی عیاشیوں کے لیے اپنے خون پسینے کی کمائی اُڑاتا رہتا ہے۔ ملکی قرضوں کے انباروں میں اضافے کے ساتھ ساتھ سود بڑھتا جاتا ہے۔

آئی ایم ایف ہر ضرورتِ زندگی کو مہنگا کرنے کا عندیہ دیتی رہتی ہے۔ بجلی گیس آئے روز مہنگے ہوتے رہتے ہیں۔ جی ایس ٹی میں اضافے پر اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ آٹا، دالیں، گھی کے نرخ غباروں کی طرح اُفق پر جھولنے لگتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم، ان کی کتابیں، اسکول یونیفارم، بیگ بستے مہنگے پر مہنگے ہوتے جاتے ہیں۔ غربت کی چادر سے سر اور پائوں ایک ساتھ ڈھاپنا ناممکن ہوتا جاتا ہے۔ بچیوں کے لیے جہیز جمع کرنے میں عمریں لگ جاتی ہیں۔ جائز ضرورتوں کا گلہ گھونٹ گھونٹ کر سانس کی ڈوری کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ ان مجبور طبقوں کے لیے قوانین بنانے والے سالہا سال سے انہیں شکنجوں میں کس کر اُن کا لہور نچوڑے جارہے ہیں۔ آپ ساری بڑی پارٹیوں کے قائدین کو دیکھ لیں۔ آپ کو احساس ہوگا کہ ان کے رہن سہن میں ایک عام پاکستانی کی زندگی کی جھلک تک نہیں۔ ان کے الیکشن کے سارے کھیل میں حرصِ اقتدار اور دولت اکٹھی کرنے کے علاوہ کوئی مشن نہیں نظر آئے گا۔ اس الیکشن پر بیٹھنے والے جوڈیشنل کمیشن کا نتیجہ جو بھی آئے اُس میں عام آدمی کے لیے خیر کی خبر شاید کوئی نہ ہو۔ اگر ملک میں اس کے نتیجے میں قانون کی مکمل عملداری قائم ہوجائے تو اسے ایک عجوبہ ہی قرار دیا جاسکتا۔ یہا ںتلخ حقائق کا سورج سوا نیزے پر آیا ہوا ہے۔ یہاں تپتی ریت سے پائوں آبلہ پا ہیں۔ زبانوں میں کانٹے چبھے ہوئے ہیں۔ ہونٹوں پہ پیاس کی کہانیاں ہیں۔ قانون کی مکمل عملداری کا نخلستان ہی عام آدمی کے دُکھوں کا درماں بن سکتا ہے۔ کاش! یہ کمیشن اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم اُٹھاسکے۔

دنیا میں آج تک کسی بھی ملک نے قانون کی حکمرانی کے بغیر ترقی نہیں کی۔ جب قانون لہو میں رَچ بس جاتا ہے تو قومیں زقند بھر کر آگے کی طرف گامزن ہوجاتی ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ نام نہاد جمہوری حکومتیں اپنے اندر آمریت کا زہر رکھتی ہیں۔ یہ دہائیوں تک بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی رہتی ہیں۔ یہ اپنی طاقت نیچے نمایندوں کو منتقل نہیں کرتیں۔ وزرائے اعلیٰ اٹھارہ اٹھارہ محکموں کے قلمدان اپنے پاس رکھتے ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک ایسا بے بس ادارہ ہے جس کے کہے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یوں سارے ملک میں بے انصافی ہر گلی کوچے میں بچے جن رہی ہے اور انصاف بے اولاد ہے۔

وقت کی ضرورت ہے کہ ہمارا سارا جمہوری نظام سخت گیر قوانین کے تحت ہو۔ ہر نمایندہ مقررہ رقم سے زیادہ الیکشن پر خرچ نہ کرے۔ بدمعاشوں، رسہ گیروں، جرائم پیشہ افراد کو نااہل قرار دیا جائے۔ شریف شرفا کو بلدیاتی نظام سے لے کر پارلیمنٹ تک منتخب کیا جائے۔ دھن دولت اور زور زبردستی سے ووٹ چھیننے والوں کی سخت حوصلہ شکنی ہو۔ دیہی معاشرے کو جاگیرداری کی لعنت سے آزاد کروایا جائے۔ متوسط طبقے کو زیادہ سے زیادہ نمایندگی ملے۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ خالصتاً عوام سے ہوں۔ وی وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہو۔ ہر فرد ملکی قوانین کے تابع ہو۔ تبھی ہم خود کو جمہوریت کہلاپائیں گے۔ قانون جب تک زور آوروں کو دیکھ کر کونے کدروں میں چوہے کی طرح چھپتا رہے گا، ہم جمہوریت کے صرف خول کے پجاری بنے رہیں گے۔ اس کا گودا کبھی ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا۔

حرم کی پاسبانی کے لیے
تحریر یاسر محمد خان

سلطنت عثمانیہ ٹوٹ کر بکھری تو مسلمان ملک الگ الگ ہوگئے۔ سعودی عرب نے تمام مسلم دنیا کے لیے مرکزی حیثیت حاصل کرلی۔ ساری دنیا کے مسلمان اس مقدس سرزمین کی طرف راہنمائی کے لیے دیکھنے لگے۔ سعودی عرب میں آلِ سعود نے مسلمان ملکوں کی اُن کے کڑے وقتوں میں بھرپور مدد کی۔ لبنان کی خانہ جنگی کا 1969ء میں خاتمہ ہوا۔ اس میں مرکزی رول سعودی عرب نے ادا کیا۔ متحارب گروپوں کو قائل کیا اور اُن میں اتحاد قائم ہوگیا۔ عراق کے کویت پر حملے کے کڑے وقت میں سعودی عرب نے کویت کا ہر ممکن ساتھ دیا۔ اُس کی آزادی کے لیے راہ ہموار کی۔ افغانستان میں روسی جارحیت ہوئی تو سعودیہ نے افغان جہاد میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اس ملک کو روسی استعمار سے نجات دلوائی۔ افریقی مسلمان ملکوں میں قحط آیا تو سعودی عرب نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ خوراک، اجناس وافر مہیا کیں اور یوں مصیبت کا شکار مسلمانوں کی اَشک شوئی کے لیے نہایت درجہ درد مندی دکھائی۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے سعودیہ کے ہم پر احسانات ان گنت رہے۔ مہاجرین کی آبادکاری میں سعودی بھائیوں نے کھلے دل سے امداد کی۔

نوازائیدہ مملکت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے اُن کی مدد ہر دم حاضر رہی۔ 1965ء میں جب دُشمن ہماری آزادی کے درپے ہوا تو سعودی بھائی سب سے آگے تھے۔ ہماری جیت میں اُن کا کردار مرکزی تھا۔ ہماری فتح پر سعودی عرب میں خوشیاں منائی گئیں۔ 1998ء میں ہم نے ایٹمی دھماکے کیے تو تمام دنیا ہماری مخالف بن گئی۔ یہاں بھی سعودی عرب آگے آیا اور ہماری گرتی ہوئی اکانومی کو سنبھالا دیا۔ جب جب بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمارے درپے ہوئے ہمیں سعودی عرب سے ہمیشہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آئے اور ہمارے عذابوں کو کم کرنے کے لیے اس مقدس زمین سے امداد آپہنچی۔

٭ حوثیوں کا اگلا ٹارگٹ اُس راستے پر کنٹرول تھا جس سے سعودی عرب دنیا بھر کو تیل سپلائی کرتا ہے۔ اگر حوثی اس مشن میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سعودی عرب کی اکانومی پر اس کے نہایت منفی اثرات پڑتے۔ ٭ یمن میں حوثیوں کو ہٹانے کے لیے آپریشن ’’ڈیزرٹ اسٹارم‘‘ اپنی پوری رفتار سے جاری ہے۔ ٭ پاکستان اور ترکی کو آگے آنا چاہیے اور مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے لیے اپنا بھرپور رول ادا کرنا چاہیے۔ ٭

ہمارے زلزلوں، سیلابوں میں سعودی عرب دنیا بھر میں سب سے پہلے آیا اور ہمیں دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کیا۔ 17 لاکھ پاکستانی تارکین وطن حجاز مقدس میں رزق کمارہے ہیں۔ اپنے کنبوں کی کفالت کررہے ہیں۔ سعودی عرب میں اُن کی خدمات کا بھرپور صلہ مل رہا ہے۔ یہ پاکستانی ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں 1979ء ایرانی انقلاب کے بعد سے حالات میں یکسر تبدیلی آگئی۔ اُسی سال ایک گروہ نے خانہ کعبہ پر قبضے کی کوشش کی اور اپنے انجام کو پہنچا۔ ایران عراق جنگ سالوں تک چلتی رہی جس میں دونوں ملکوں کا بہت نقصان ہوا۔ 2010ء میں مشرقِ وسطیٰ میں زلزلے آنا شروع ہوگئے۔ عرب اسپرنگ نے بعض ملکوں میں شخصی حکومتوں کا خاتمہ کردیا۔ وہاں خوفناک جنگی کشمکش پیدا ہوگی۔

عراق پہلے ہی امریکی حملوں کے بعد تین حصوں میں تقسیم ہوکر رہ گیا ہے۔ علیحدگی پسند طاقت پکڑگئے ہیں اور ایران کی مدد انہیں حاصل ہے۔ لیبیا میں معمر قذافی کے بعد خانہ جنگی چل رہی ہے۔ اُس ملک کا داخلی امن تار تار ہوکر رہ گیا ہے۔ شام میں بشار الاسد اور مخالفوں کے درمیان گھمسان کی لڑائیاں ہورہی ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین اور لبنان میں جو مظالم ڈھائے وہ اس گہرے غبار میں چھپ گئے ہیں۔ اُدھر مصر میں امریکی آشیرباد پر مرسی حکومت کا خاتمہ کرکے جنرل سیسی اقتدار پر قابض ہوگیا ہے۔ وہاں آتش فشاں کے دہانے سے مسلسل لاوا نکل رہا ہے۔ سارے مشرقِ وسطیٰ میں آگ کے شعلے بلند ہورہے ہیں۔ اسلحے کے سوداگروں کی چاندی ہوگئی ہے۔ وہ دھڑا دھڑ مسلمان ملکوں کو اسلحہ بیچے جارہے ہیں۔ یمن میں 3 دہائیوں پر پھیلی شخصی حکومت کے بعد چند ماہ تک امن رہا۔ پھر حوثی قبائلیوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور حکومت کو چلتا کردیا۔

حوثی قبائلیوں کی حالیہ کارروائیوں کی تاریخ جانے بغیر یمن کی تازہ صورتحال کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ ایک جامع رپورٹ کے مطابق یہ فرقہ شمالی یمن میں 1982ء تک ایک تہائی آبادی کا حامل تھا۔ 1980ء میں یمن میں تیل دریافت ہوا اور 2001ء میں اس کی پیداوار 4 لاکھ 40 ہزار بیرل یومیہ ہوگی۔ 2014ء تک آتے آتے اس میں حیرت ناک کمی دیکھنے میں آئی اور یہ ایک لاکھ بیرول یومیہ تک رہ گئی۔ اس کی بڑی وجہ جنوبی اور شمالی یمن میں زبردست کشمکش تھی جو پچھلے چار پانچ برسوں میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ اپریل 2003ء میں یمنی تحویل سے 10 دہشت گرد فرار ہوگئے اور انہوں نے حوثیوں کے علاقے میں پناہ لے لی۔ 2004ء میں حوثیوں کی کارروائیوں میں تیزی آگئی۔ جون سے اگست تک سینکڑوں افراد ہلاک ہوگئے۔ ستمبر 2004ء میں حوثی راہنما حسین ال حوثی یمنی حملے ہلاک ہوگیا۔ مارچ اور اپریل 2005ء میں یمنی فوج اور حوثیوں کے درمیان جنگ میں 200 افراد ہلاک ہوگئے۔ جولائی 2005ء میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 40 افراد ہلاک ہوگئے۔ مارچ 2006ء میں حکومت نے حسین ال حوثی کے 600 گرفتار حامیوں کو ایک امن معاہدے کی رو سے رہا کردیا۔ جنوری سے مارچ 2007ء کے دوران حوثیوں نے امن معاہدے کو تار تار کردیا۔ سیکورٹی حکام نے سینکڑوں حوثیوں کو قتل کردیا۔ جون 2007ء میں عبدالمالک ال حوثی نے دوبارہ سیز فائر پر اتفاق کیا۔ جولائی 2007ء میں صنعا میں خودکش دھماکے ہوئے۔ غیرملکیوں سمیت یمنی باشندے بھی جاں بحق ہوگئے۔ جنوری 2008ء میں یمنی فوج اور حوثیوں کے درمیان دوبارہ جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ جون 2009ء میں یمنی حکومت نے 176 گرفتار اراکین کو رہا کردیا۔ اگست 2009ء میں یمنی فوج نے شمالی صدا میں حوثیوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کا انخلا شروع ہوگیا۔ سب سے پہلے اکتوبر 2009ء میں یمن سعودی عرب بارڈر پر سعودی فوج اور حوثیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ فروری 2010ء میں ایک بار پھر یمن اور حوثیوں کے درمیان سیز فائر ہوا۔ مارچ 2010ء میں 178 مغویوں کو رہا کردیا گیا۔ ستمبر 2010ء میں حکومتی پیش قدمی کے بعد جنوبی شب واہ سے ہزاروں شہریوں کا انخلا شروع ہوگیا۔ دسمبر 2010ء میں یمن اور حوثیوں کے درمیان لڑائی میں 300 افراد مارے گئے۔ مارچ 2010ء میں صدر صالح نے خانہ جنگی کے خطرے کے پیش نظر ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کردیا۔ مئی 2011ء میں قبائل اور فوج کے درمیان جھڑپوں میں تیزی آگئی۔ درجنوں افراد ہلاک ہوگئے۔ ایرپورٹ بند ہوگئے۔ ہزاروں افراد صنعا سے نقل مکانی کرگئے۔ جون 2011ء میں صدر صالح کے راکٹ حملے میں زخمی ہوگئے اور سعودی عرب میں علاج کے لیے 3 ماہ مقیم رہے۔ نومبر 2011ء میں صدر صالح نے اقتدار چھوڑ دیا۔ ہادی منصور نئے صدر منتخب ہوگئے۔ مئی 2012ء میں یمن کو 4 ارب ڈالرز کی امداد ملی۔ جون 2012ء میں یمنی فوج نے تین اہم صوبوں شقر، زنجی بار اور جار کو خالی کروایا۔ فروری 2014ء میں حوثیوں نے امران صوبے میں فوجوں کو پسپا کرکے کلی اقتدار سنبھال لیا۔ اگست 2014ء میں حوثیوں نے دارالحکومت کا گھیرائو کرلیا۔ ستمبر 2014ء میں حوثیوں نے دارالحکومت کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ جنوری 2015ء میں حوثیوں نے نئے آئین کو ماننے سے انکار کردیا اور سرکاری ٹی وی پر قبضہ کرلیا۔ فروری 2015ء میں حوثیوں نے تمام اختیارات اپنے قبضے میں لیے ہوئے 5 رکنی کمیٹی بنائی جس نے صدر ہادی منصور کی جگہ لے لی۔ وہ گھر میں قید کردیے گئے جہاں سے وہ نکل کر سعودی عرب فرار ہوگئے۔ (باقی صفحہ5پر) مارچ 2015ء میں حوثیوں نے جنوبی یمن کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ حوثیوں کا اگلا ٹارگٹ اُس راستے پر کنٹرول تھا جس سے سعودی عرب دنیا بھر کو تیل سپلائی کرتا ہے۔ اگر حوثی اس مشن میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سعودی عرب کی اکانومی پر اس کے نہایت منفی اثرات پڑتے۔

امریکا جس نے 2012ء میں یمن کو 353 ملین ڈالرز، 2013ء میں 316.23 ملین ڈالرز اور 2014ء میں 22.4 ملین ڈالرز کی امداد دی، وہ یمن کی سمندری حدود کی حفاظت کرتا رہا ہے۔ امریکیوں نے متعدد بار ایرانی ساخت کا اسلحہ پکڑا ہے جو ایران سے حوثیوں کی کمک کے لیے آرہا تھا۔ جنوری 2013ء میں صدر اوباما نے کانگریس کو خط لکھا اور بتایا کہ ایران مسلسل حوثیوں کو اسلحہ بارود مہیا کررہا ہے جس سے علاقائی امن کوشدید خطرات کا سامنا ہے۔ امریکا نے یمن میں اپنے لیے خطرات دیکھ کر اپنا انسداد دہشت گردی کا فوجی اڈا بند کردیا۔ اپنا سفیر واپس بلالیا اور یوں مارچ 2015ء میں 10 عرب ملکوں نے مل کر حوثیوں کے بڑھتے ہوئے شِکروں کا راستہ روک لیا ہے۔ 40 ہزار عرب فوجیوں کی ایک سپاہ بنائی جائے گی جو عرب ملکوں کے مفادات کے لیے باطل قوتوں سے ٹکرائے گی۔ ایسی فوج اسرائیل کی کارروائیوں پر بھی کنٹرول رکھے گی۔ یمن میں حوثیوں کو ہٹانے کے لیے آپریشن ’’ڈیزرٹ اسٹارم‘‘ اپنی پوری رفتار سے جاری ہے۔ حوثیوں کے اسلحہ ڈپو اُن کی چھائونیوں اور کمین گاہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب کی حفاظت کے لیے اپنی فوج کی خدمات حاضر کردی ہیں۔ یہ حجاز مقدس کے ایک ایک انچ کی حفاظت کریں گی۔ پاکستان اور ترک قیادت کے درمیان اس جنگ کے بارے میں ہم آہنگی پائی گئی ہے۔

پاکستان اور ترکی کو آگے آنا چاہیے اور مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے لیے اپنا بھرپور رول ادا کرنا چاہیے۔ یہ ملک مسلم دنیا میں بلند مقام پر فائز ہیں۔ ان کی کاوشوں سے جنگی آگ کے شعلوں کو سرد کیا جاسکتا ہے۔ یہ ملک ایران کو بھی قائل کریں کہ فرقہ وارانہ لڑائیوں میں مسلمان ملکوں کو سوائے نقصان میں اور کچھ نہیں ملے گا۔ اسرائیل مزید مضبوط ہوتا جائے گا۔ امریکا سمیت اسلحے کے سوداگر اربوں ڈالرز اور پائونڈز اکٹھے کرلیں گے۔ مسلمان ملکوں کو تباہی اور بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

پاکستان نے مشکل کی اس گھڑی میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم اگر خود کو حجاز مقدس کے دفاع کے لیے محدود رکھیں تو بہت بہتر ہوگا۔ عرب دنیا اتحاد کرکے جو پالیسی بناتی ہے وہ اس پر گامزن ہے۔ یمن میں ابھی بھی پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں، انہیں وہاں سے فی الفور نکالا جائے۔ جنگ پھیلتی جارہی ہے اور اس میں اب تک مجموعی طور پر ایک ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ایک لاکھ یمنی بے جانماں ہوچکے ہیں۔ سارے مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر تباہی دیکھنے میں آرہی ہے۔ عالمی برادری کو اس انسانی المیے پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی سرحد میں گھس کر سعودی فوجیوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اُن کو بے دست و پاکرنا ضروری ہے۔ مسلم دنیا اس وقت ایک ہنگامی صورت حال میں ہے۔ پاکستان کو ہر بین الاقوامی فورم میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے۔ مشرقِ وسطیٰ میں خونِ مسلم بہہ رہا ہے، اسے روکنا ہوگا۔ حرم کی پاسبانی کے لیے کل عالم اسلام کو ایک ہونا ہوگا۔ اسی میں مادّی اُمت کی دینی اور دنیاوی فلاح ہے۔

دُشمن دیکھ لے
تحریر یاسر محمد خان

’’شکرپڑیاں‘‘ اسلام آباد کا ایک پرفضا مقام ہے۔ سطح سمندر سے بلند ہونے کی وجہ سے یہاں کا ماحول نہایت دلکش ہے۔ درختوں اور پودوں کی حد نگاہ تک پھیلی ہوئی ان گنت قطاریں ہیں۔ چہار سو بچھی ہوئی ہریالی آنکھوں کو بہت بھاتی ہے۔ شکرپڑیاں کی بلندی سے نیچے اسلام آباد کا نظارہ ایک راحت افروز تجربہ ہے۔ اس مقام پر افواج پاکستان کے لیے ایک بڑا پریڈ گرائونڈ بھی بنا ہوا ہے۔ 23 مارچ کی صبح یہاں ایک ہجوم جمع ہوچکا تھا۔ پاکستان میں 7 سال بعد فوجی پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سخت سیکورٹی کی وجہ سے اسپیشل پاس کے حامل افراد ہی پریڈ دیکھ پائے۔ راولپنڈی اسلام آباد میں بڑی بڑی اسکرینوں کے ذریعے ہزاروں افراد نے اس سے لطف لیا۔ ٹی وی کے ذریعے کروڑوں پاکستانیوں نے پریڈ کی لمحہ بہ لمحہ کارروائی کا نظارہ کیا۔ صدرِ مملکت اور دوسرے معزز مہمانوں کی آمد کا اعلان بگل بجاکر کیا گیا۔ پھر قومی ترانہ بجایا گیا اور پریڈ کا باضابطہ آغاز ہوا۔ تینوں مسلح افواج کے دستوں کی قیادت بریگیڈیئر خرم سرفراز خان نے کی۔ فضا نعرئہ تکبیر اور پاکستان زندہ باد سے گونج اُٹھی۔ پریڈ میں بری، بحری، ہوائی فوج کے علاوہ خواتین، رینجرز اور ایف سی کے دستوں نے بھی حصہ لیا۔ باری باری یہ دستے اسٹیج کے سامنے سے گزرے اور انہوں نے سماں باندھ دیا۔ ایس ایس جی کمانڈوز اور ملٹری بینڈ نے بھی مارچ پاسٹ کیا۔ پاک فضائیہ کے سربراہ نے ایف 16 طیارہ فضا میں اُڑاکر اپنا فنی کمال دکھایا۔

جنگی طیاروں نے قطاریں باندھ کر ہوا میں اپنی مہارت کے مظاہرے پیش کیے۔ ملٹری ہیلی کاپٹروں سے پیراشوٹ کے ذریعے فوجیوں نے ایرشو کیا۔ چھاتہ بردار رنگے برنگے پیرا شوٹوں میں زمین پر اُترے تو رنگوں کی بہار آگئی۔ ہر ہوا باز کے ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم تھا۔ پیرا ٹروپرز نے اعلیٰ جنگی مظاہرے پیش کیے۔ تھنڈر جے ایف 17 میراج اور دوسرے لڑاکا طیاروں نے اعلیٰ درجے کے کمالات دکھائے۔ مسلسل 17 گھنٹے پرواز کرنے والے اورین طیاروں کا دستہ توجہ نگاہ بنارہا۔ جدید میزائلوں، پاکستان کے تیار کردہ ڈرون طیاروں، براق، الخالد اور ضرار ٹینکوں، ایڈوانس ریڈار سسٹم کی نمائش اس پریڈ کا حصہ تھی۔ نصر اور شاہین ٹو میزائلوں کو بھی روح پرور نظاروں کے طور پر پیش کیا گیا۔ یوں یہ پریڈ کئی لحاظ سے منفرد اور یکتا تھی۔ اس میں ساری فوج نے مجبوری طور پر حصہ لیا۔ 7 سالوں تک پریڈ نہ ہونے کے داغ کو دھودیا گیا۔ دنیا پر ثابت کردیا کہ پاکستان کا دفاع نہایت ٹرینڈ اور اعلیٰ فنی جوہر کے حامل کمانڈروں کے ہاتھ میں ہے۔ اس پریڈ سے قوم کو ایک تازہ ولولہ ملا ہے۔

٭ دنیا پر ثابت کردیا کہ پاکستان کا دفاع نہایت ٹرینڈ اور اعلیٰ فنی جوہر کے حامل کمانڈروں کے ہاتھ میں ہے۔ ٭ ساری اسلامی دنیا میں ہماری فوج بہترین حربی صلاحیتوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہمارے اسلحے اور جوہری ہتھیاروں کو مسلم ملکوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ٭

پچھلے چند برسوں میں ملک نے دہشت گردی کے عفریت کو بستیوں میں تباہ کاریاں مچاتے ہوئے دیکھا ہے۔ پاک افغان سرحد پر پائیدار امن ایک خواب بن کر رہ گیا تھا۔ فوجی قیادت نے نئی افغان حکومت کے ساتھ مل کر خطے میں امن کے لیے ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ ہماری مشرقی سرحدوں پر دُشمن ہمیں ضرب عضب میں مصروف دیکھ کر بدترین شرپسندی پر اُتر آیا۔ پچھلے دو سالوں میں سینکڑوں بار سرحد کی خلاف ورزی کی گئی۔ پاکستانی گائوں دیہات پر بے مہابہ بمباری کی جاتی رہی۔ ہمیں خاصا جانی اور مالی نقصان اُٹھانا پڑا۔ اوبامہ کے ہندوستانی دورے کے بعد انڈیا کی شورہ پشتی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ 23 مارچ کو افواج پاکستان نے اپنے زورِ بازو اور جنگی سازوسامان کا جو مظاہرہ کیا، اُس سے ہندوستان کی سرحد پر امن قائم ہونے کے ہر وار کا کاری جواب دیا جائے گا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں داخلی امن کے لیے فوج کی کوششوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ درست ہے کہ کراچی سمیت بڑے شہروں میں اگر سکون ہوگا تو ملکی ترقی کی رفتار تیزتر ہوئی ہے جس کی نظر ملکی سرحدوں کے علاوہ ملک کے کونے کونے پر مرکوز سرجری کی ضرورت ہے۔ ہماری جمہوری حکومت کی ترجیحات میں یہ شامل ہی نہیں تھا۔ جمہوری لیڈروں نے اُس گھن کی طرف کبھی توجہ نہیں دی جو ملک کو اندر سے چاٹے جارہا ہے۔ فوج نے بروقت ادراک کیا کہ دفاع ہمیں صرف بیرونی دُشمنوں سے ہی نہیں کرنا، ہمیں اُن اندرونی دُشمنوں کی بھی گوشمالی کرنی ہے جو ملک کی بنیادوں کو مسلسل کھوکھلا کیے جارہے ہیں۔ ہمارے بدخواہوں نے اندر سے نقب لگارکھی ہے۔ این جی اوز کے نوکیلے پنجے ملک کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں۔ اسرائیل، امریکا اور بھارت کی ایجنسیاں شیر و شکر ہوکر پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ ان کے جال کو فوی الفور توڑنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں گروہی، نسلی اور لسانی بنیاد پر تقسیم نے قوم کو متحارب گروہوں میں بانٹ دیا ہے۔

ہر گروہ دوسرے سے دست و گریبان ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے مسلح ونگز بنا رکھے ہیں۔ گولی کی دہشت نے حکمرانی کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ راہبروں اور راہزنوں میں فرق مفقود ہوگیا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں نے غیربلوچیوں کا قتل عام شروع کر رکھا ہے۔ ان تنظیموں کو بیرونی قوتیں اسلحہ بارود مہیا کررہی ہیں۔ سندھ میں اور شہروں کے علاوہ کراچی دہائیوں سے بھتہ خوروں کے قبضے میں ہے۔ بھتہ نہ دینے والی فیکٹری میں سینکڑوں مزدوروں کو زندہ جلادیا گیا۔ اس شہر میں نقص امن نے سارے ملک کی معیشت پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ کراچی میں لینڈ مافیا نے کھربوں کی زمینیں ناجائز طور پر ہتھیا رکھی ہیں۔ اگر فوج صرف سرحدوں کے دفاع پر ہی توجہ مرکوز رکھتی تو ہم اندرونی طور پر ختم ہوتے جاتے۔ فوجی قیادت نے حالات کے ادراک میں زیرک پن دکھایا ہے۔ ہم اگر اندرون طور پر مضبوط ہوجائیں گے تو بیرونی دفاع میں ہمیں کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اگر ملک اندر سے ہی کھوکھلا ہوجائے تو صرف بیرونی دفاع ہمیں بچا نہ پائے گا۔ سوویت یونین کے پاس دنیا میں اسلحے کے سب سے بڑے انبار تھے۔ لاکھوں پر مشتمل فوجیں تھیں۔ اُسے معاشی بدحالی نے ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ آج کی دنیا میں قومیں محض اسلحے اور فوجوں کے زور پر ہی مضبوط نہیں ہوتیں۔ درست ہے کہ گولہ بارود کی اہمیت اپنی جگہ بہت زیادہ ہے، دراصل معاشی آسودگی کسی بھی ملک کے دفاع میں مرکزی کردار کی حامل بن گئی ہے۔ آج وہی ملک آگے ہیں جہاں عوام خوشحال ہیں، فوجیں بہت تربیت یافتہ ہیں اور جدید ترین اسلحہ بھی بہم ہے۔

ہماری افواج نہایت تربیت یافتہ ہیں۔ ان کے پاس دنیا کا اعلیٰ اسلحہ موجود ہے۔ ہم بحیثیت قوم خوشحال نہیں ہیں۔ ہماری معیشت نہایت درجہ کمزور ہے۔ ہم بیرونی امداد کے سہارے ملک چلارہے ہیں۔ ہم سود پر بھاری قرضے لیتے ہیں۔ ہمارے بجٹ کا 66 فیصد سود سمیت قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہوجاتا ہے۔ سال بہ سال یہ بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ جب ہم جی ڈی پی کے 34 فیصد سے اپنا سارا بجٹ بنائیں گے تو ملکی ترقی میں بڑی بہتری کی امید رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ ملک میں سولہ سترہ سالوں سے کوئی مردم شماری نہیں ہوپائی، اس لیے ہمیں کتنے اسکول اور ہسپتال چاہییں، ہمیں کچھ پتہ نہیں۔ بلدیاتی انتخابات سالہا سال سے مؤخر ہونے کی وجہ سے ہمارے شہر کوڑا دان بن کر رہ گئے ہیں۔ ڈینگی اور دوسری وبائیں پھیلتی جارہی ہیں۔ جمہوری قیادت نعروں، خطابوں اور خوابوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ سنگین مسائل ہیں کہ آندھیوں کی طرح یورش کیے جارہے ہیں۔ ان کا بوجھ کم ہونے کی بجائے دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ سیاسی لیڈر ہر محاذ پر پسپا ہوئے جارہے ہیں۔

ان حالات میں پاکستانی فوج نے جو قدم اُٹھائے، وہ سب درست سمت میں ہیں۔ فوج کو چاہیے کہ وہ اندرون اور بیرون دونوں طرف کڑی نظر رکھے۔ خود کو سیاست میں مت اُلجھائے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ فوج نے جب بھی ملکی قیادت سنبھالی ہے، اُس کا نتیجہ انجام کار اچھا نہیں نکلا۔ پرویز مشرف کے دور میں فوجی مورال بہت نیچے چلاگیا تھا۔ مشرف اپنے اقتدار کو تادیر قائم رکھنے کے لیے اس جانب غفلت برتتے رہے۔ فوجی وردی تمسخر اور تضحیک کا نشانہ بننے لگی۔ پچھلے چند برسوں میں فوج سیاست سے دور رہی تو اُس کا وقار پھر بلند ہونا شروع ہوگیا۔ جنرل راحیل شریف نے پچھلے برس فورسز کی کماند سنبھالی تھی۔ ایک برس میں انہوں نے فوج کو بلند مورال عطا کیا ہے۔ فوج اندرون اور بیرون ملک اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر ناموری کماچکی ہے۔ ساری اسلامی دنیا میں ہماری فوج بہترین حربی صلاحیتوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہمارے اسلحے اور جوہری ہتھیاروں کو مسلم ملکوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمیں فوج کے اس شفاف امیج کی بہت حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔

درست ہے کہ کئی مسلم ملکوں میں خانہ جنگی ہے۔ وہاں متحارب گروپ ایک دوسرے پر شب خون مار رہے ہیں۔ ان حالات کا حل یہ نہیں کہ ہم اُن جنگوں کا براہ راست حصہ بن جائیں۔ ہمیں مکہ و مدینہ کی حفاظت پاکستان سے بڑھ کر کرنی چاہیے، مگر فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی ہر جنگ میں ہمیں غیرجانبدار رہنا ہوگا۔ ہماری فوج کے پیچھے اسلامی تعلیمات کا جگمگاتا سمندر ٹھاٹیں مار رہا ہے۔ اس کا نظریہ وہی 23 مارچ ہے جس کی روح پرور پریڈ ہم سب نے دیکھی ہے۔ خدارا! اس فوج کو مسلمانوں کے خلاف مت استعمال ہونے دیجیے۔ یہ دیارِ مقدس کی حفاظت کے لیے جائے تو بسم اللہ۔ یہ اگر یمن کے خلاف بننے والے اتحاد میں استعمال ہو تو ہمیں ایسے ہر قدم کو اُٹھانے سے پہلے سو سو بار سوچنا ہوگا۔