ہور چوپو!
یہ عید کے بعد والے ہفتے کی بات ہے۔ ہمارے دوست مسٹر کلین ہمیں شاندار سوٹ بوٹ میں ملبوس فراٹے مارتی ہوئی گاڑی میں بیٹھے گلی سے گزرتے نظر آئے۔ ہمیں تجسس سا ہوا، لیکن یہی خیال کیا کہ شاید کسی عید ملن پارٹی میں تشریف لے جارہے ہوں گے۔ موصوف جب بہت ساری ’’پابندیوں‘‘ اور ’’مجبوریوں‘‘ کے باوجود رمضان میں افطار پارٹیوں کو اپنے جلووں سے جگمگاتے ہیں تو عید ملن پارٹیوں کے لیے تو شیطان بھی آزاد ہوچکا ہوتا ہے۔ موصوف جب مخلوط پارٹیوں میں جاتے ہیں تو سوٹ بوٹ کا زیادہ اہتمام کرتے ہیں، اسی لیے انہیں جاتے دیکھ کر ہمیں گمان ہو ا کہ ضرور کسی ’’رنگین پارٹی‘‘ میں شرکت فرمانے جارہے ہوں گے۔ خیر دن گزر گیا، شام کو ہم نماز پڑھ کر مسجد سے واپس آ رہے تھے کہ مسٹر کلین ہمیں سڑک پر چہل قدمی کرتے ملے۔ ہم نے موصوف سے حال احوال کیا۔ انہیں قریبی ہوٹل میں چائے پلانے کی پیش کش کی جو انہوں نے از راہ کرم قبول فرمالی۔ چلتے چلتے ہم نے پوچھ ہی لیا: ’’اکیلے اکیلے کہاں عید کی دعوتیں اُڑائی جارہی ہیں؟‘‘ مسٹر کلین نے سینہ چوڑا کرکے کہا: ’’امریکی سفارت خانے میں پارٹی تھی، آپ چلتے ساتھ؟‘‘ ہم نے تھوڑی سے شرارت کی اور کہا: ’’کیا آنجہانی میجر جنرل کی ’’آخری رسومات‘‘ کی تقریب تھی؟ ہمیں پتا ہوتا تو ہم بھی تماشائے عبرت دیکھنے ضرور ساتھ چلتے۔‘‘ مسٹر کلین نے کہا: ’’وہاں اگر آپ کو آنجہانی کی میت پر کچھ پڑھنے کو کہا جاتا تو کیا کرتے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’ہم ضرور کچھ پڑھ بھی لیتے۔‘‘ مسٹر کلین نے کہا:
’’کیا؟ ہم نے کہا: ’’ہور چوپو!‘‘
مسٹر کلین نے خشمگیں نگاہ سے ہماری طرف دیکھا۔ ہوٹل کی کر سی پر بیٹھتے ہی گویا ہوئے: ’’اچھا! تو آپ آج افغانستان میں امریکی جنرل کے مرنے کی خوشی میں چائے پلارہے ہیں۔ ملاجی! زیادہ خوش نہ ہوں۔ ایک جنرل کے مرنے سے امریکا کو کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘ ہم نے بار والے کو اسپیشل دودھ پتی کا آرڈر دیا۔ مسٹر کلین کے جواب میں عرض کیا: ’’ہمیں کسی کے مرنے پر خوشی نہیں ہوتی، مگر اس بات کی خوشی ہے کہ افغانستان میں تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ افغانستان میں تاریخی ہزیمت کے بعد سلطنت برطانیہ کو اپنی افواج کے انخلاء کے سلسلے میں جتنے پاپڑ بیلنے پڑے تھے، آج امریکا کو شاید اس سے زیادہ بیلنے پڑیں۔‘‘ مسٹر کلین نے اپنے آپ کو انجان سا بناکر کہا: ’’انگریزوں کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے تھے؟‘‘ ہمارے ہاتھ میں تاریخِ افغانستان سے متعلق ایک کتاب تھی۔ ہم نے اس کا ایک صفحہ کھول کر پڑھناشروع کیا:
’’میوند میں انگریزی فوج کی اس تاریخی ہزیمت کی خبر کابل میں جنرل رابرٹسن کو اس وقت ملی جب امیرعبدالرحمن انگریزوں کے خلاف فیصلہ کن جہاد کا پرچم بلند کرتے ہوئے ایک لاکھ مجاہدین کے طوفانی لشکر کے ساتھ چاریکار پہنچ چکا تھے۔ میوند کی شکست نے انگریز فوج کی رہی سہی ہمت بھی توڑ کر رکھ دی، بلکہ پوری سلطنتِ برطانیہ ہل کر رہ گئی۔ برطانیہ کے متعصب عیسائی کابینہ میں پھوٹ پڑگئی۔ ہندوستان کے مغرور وائسرائے لیٹن نے استعفاء دے دیا۔ انگریزوں کے سامنے اب سب سے بڑا مسئلہ بچی کھچی فوج کو زندہ سروں کے ساتھ افغانستان سے نکالنا تھا، چنانچہ ایک مرتبہ پھر شاطر فرنگی نے چاپلوسی، خوشامد اور دوستی کا آزمودہ نسخہ استعمال کرنا شروع کیا۔ جنرل رابرٹسن نے امیرعبدالرحمن کو دوستی اور خیر سگالی سے بھر پور جذبات سے بھرا ہوا خط بھیجا اور عزائم معلوم کرنے کے لیے خط کے جواب کی درخواست کی۔ امیر عبدالرحمن اپنی خود نوشت سوانح عمر ’’تاج التواریخ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میں نے اس خط کے جواب کا مضمون بنانے کے لیے اپنے ساتھیوں اور مجاہد کمانڈروں سے تحریر تجاویز طلب کیں۔ انہوں نے انگریزوں کو نہایت سخت الفاظ میں جواب دینے کے لیے اپنے اپنے پسند کے الفاظ لکھ بھیجے۔ ایک نے لکھا: ’’اے فرنگیو! ہم اب تم سے یہی چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک چھوڑ دو، ہم تمہیں نکال کر رہیں گے یا اپنی جانیں قربان کردیں گے۔‘‘ ایک اور کمانڈر کا جواب تھا: ’’اگر تم ہمیں مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوتے تو مذاکرات سے پہلے جو نقصان تم نے افغانستان کو پہنچایا ہے اس کا جرمانہ ادا کرو۔‘‘ ایک دوسرے مجاہد کے جذبات یہ تھے: ’’ایک کروڑ روپیہ کا خسارہ ادا کرو ورنہ ہم ایک انگریز کو بھی زندہ پشاور واپس جانے نہیں دیں گے۔‘‘ لیکن امیر عبدالرحمن نے سفارتی زبان استعمال کرتے ہوئے انگریزوں کو لکھا: ’’ہم نے اپنی قوم کو ایک متحد اور مستحکم حکومت دلانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ انگریز اب اپنا مستقبل خود سوچیں۔ اگر نہوں نے مذاکرات کرنے ہیں تو مذاکرات کے لیے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کریں۔‘‘
ہم یہاں پہنچے تھے کہ دودھ پتی چائے آگئی۔ مسٹر کلین نے چائے لانے میں تاخیر کرنے پر ’’بار والے‘‘ کو ڈانٹتے ہوئے جلدی جلدی چسکیاں لیں اور پیالی خالی کرتے ہی اُٹھ کر چل دیے۔