تحریر حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب
ضرب مومن: کفار کے مقابلے میں امت مسلمہ آج تقسیم درتقسیم نظر آرہی ہیں۔ ایسی صورتحال کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ آپ کے خیال میں اُمت مسلمہ کے حکمرانوں کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب: اس وقت جب عالم اسلام پر نظر ڈالی جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ فلسطین کے بعد برما (میانمار)، عراق، شام، لیبیااورافغانستان سمیت بیشتر مسلم ممالک سخت تکلیف میں ہیں۔ آج عالم اسلام کے ممالک باہمی تنازعوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ لاکھوں مسلمان ان حادثات میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کے حکمرانوں، عوام اورعلماء کرام کو صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کو ہر وقت سامنے رکھنے اور غور کرنے کی توفیق عطافرمائے جس میں اللہ تعالیٰ نے دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ بزدل ہوجاؤگے۔ عالم اسلام خصوصاً پاکستان اور سعودی عرب کو اضافی طور پر سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ہر ایک کو اصلاح کی طرف لوٹنا ہوگا۔
ضر ب مومن: آپ عالمی رابطہ ادب اسلامی پاکستان چیپٹر کے صدر ہیں۔کیا عالم اسلام کے حکمرانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اوراختلافات کو ختم کرنے کے لیے عالمی رابطہ ادب اسلامی بھی کوئی کردار ادا کرسکتا ہے ؟ حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب: عالمی رابطہ ادب اسلامی کا قیام حضرت مولانا ابوالحسن ندویؒ نے مکہ مکرمہ (غارحرائ)سے کیا تھا جس کی پاکستان سمیت تقریباً 15 ممالک میں برانچیں کام کررہی ہیں جس کا مقصد قلم، تقریر اور تحریک کے ذریعے اسلامی ادب کو بنیاد بناتے ہوئے کہانیوں اور ناول کے ذریعے اُمت مسلمہ کے بچوں، بچیوں کے دلوں میں قرآن کی تعلیم و ترتیب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دینِ اسلام سے محبت بٹھائی جائے۔ آیندہ عالمی سطح پر ہونے والی میٹنگ میں وہ ایجنڈا میں اس بات کوبھی شامل کروائیں گے کہ قلم کے ذریعے ساری امت مسلمہ کو اتحاد ویکجہتی کا پیغام دیں، کیونکہ ہماری بقابھی اسی میں ہے۔ 29 اور 30 اکتوبر 2016ء کو ایوان اقبال لاہور میں محسن پاکستان ڈاکٹر محمد علامہ اقبال پر عالمی کانفرنس منعقد ہورہی ہے جس میں عالم اسلام کے خطباء آرہے ہیں۔ اس موقع پر محسن پاکستان کی تعلیمات اورخاص طور پر واحدیت امت پر مکالمے پڑھے جائیں گے۔
ضرب مومن : مملکت اسلامی پاکستان کی موجودہ صورتحال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب: اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت بہت دباؤ میں ہے۔ ایسی صورتحال میں مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک یاد آتی ہے، فرمایا کہ قیامت کے قریب آسمان سے فتنے موسلادھار بارش کی طرح نازل ہوں گے، کوئی گھر اس سے خالی نہ ہوگا۔ آج پاکستان کے حالات پر حقیقت پسندی اور غیر جانبداری سے غور کریں تو یوں لگتاہے کہ دین اسلام کے دشمن اس واحد ایٹمی اسلامی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس ملک کو ہر شر سے محفوظ بنائے اورجو اس ملک کے دشمن ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے تباہ وبرباد کردے ۔ اللہ تعالیٰ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والے ملک کی حفاظت بنائے اور اس ملک پاکستان بناتے وقت جو وعدہ کیا گیا تھا اسے پورا ہونا چاہیے۔
ضرب مومن: آ پ متحدہ علماء بورڈ کے صدربھی ہیں۔ پاکستان کو درپیش چیلنج میں متحدہ علماء بورڈ کا کیا کردار ہے؟ فارغ التحصیل علمائے کرام کو معاشرے کی تعلیم و ترتیب کے لیے کس طرح اہتمام کریں ؟
حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب: متحدہ علماء بورڈ نے ایک ضابطہ اخلاق کا ڈرافٹ تیار کرلیا ہے جس میں فرقہ واریت، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی سفارش کی ہے۔ ایسی صورتحال میں میں معاشرے میں رہنے والے مسلمان بھائیوں سے بھی درخواست کروں گا۔ اس ملک میں بڑی جنگیں ہوچکی ہیں، بہت خون بہہ چکا ہے، ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دائرئہ کار میں رہتے ہوئے اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے۔ وہ ملک کی ترقی اور قوم کی بہتری کے لیے جو کچھ کرسکتا ہے کرے۔
ضربِ مومن: چند دنوں بعد مدارس کی سالانہ تعطیلات ہورہی ہیں۔ ان میں طلبہ کو کیا پیغام دیں گے کہ وہ اپنے گھروں وعلاقوں میں کیا کردار ادا کریں؟
حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب: پورے ملک کے 22 لاکھ طلبہ رمضان المبارک کی چھٹیاں اپنے گھروں میں گزارتے ہیں۔ جامعہ اشرفیہ سمیت بعض مدارس میں دورئہ تفسیر کروایا جاتا ہے۔ جہاں تک گھروں میں جانے والے طلبہ کا تعلق ہے میری انہیں نصیت ہے کہ وہ نماز کی پابندی کے ساتھ والدین، بہن بھائیوں سے محبت بڑوں کے ادب اورچھوٹوں سے شفقت رکھیں۔ ان کی تمام حرکات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصول زندگی کی پیروی میں ہوں تاکہ گھر والوں وعزیزارقاب کو پتہ چلے کہ ہمارے بچوں پر دین اسلام کا رنگ وروپ چڑھ گیا ہے۔ اگر طلبہ نے اس معاملے میں غفلت کا مظاہرہ کیا تو ان کے اساتذہ پر انگلی اٹھے گی، اب اساتذہ کی عزت ان کے ہاتھ میں ہے۔ خدارا! گھروں میں جانے والے طلبہ اس کا دھیان رکھیں۔
ضرب مومن: گزشتہ دنوں جامعۃ الرشید احسن آباد کراچی کی آپ کی صدارت میںسالانہ تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب کو آپ نے کس نظر سے دیکھا ؟
حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب: جامعۃ الرشید کراچی کے متعلق میں اپنے دل سے عرض کروں گا کہ مجھے
اس کی اینٹ اینٹ سے پیار ہے۔ جامعۃ الرشید کے بانی حضرت مفتی رشید احمدؒ کے ساتھ میرے والد محترم کی جامعہ اشرفیہ نیلاگنبد اور دارالافتاء ناظم آباد میں کئی نشستیں ہوئی۔ وہ مجسمہ اخلاص، محبت تقویٰ کا پہاڑ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت پر عمل کرنے والے تھے۔ انہوں نے جامعۃ الرشید کی بنیاد بڑی اخلاص سے رکھی تھی۔ حضرت استاذ صاحب کی زیرسرپرستی جامعۃ الرشید کے ہر شعبے نے جو ترقی کی ہے، اس کی پورے پاکستان میں مثال نہیں ملتی۔ ان کے تعلیم وتدریس کا نظام اورہر شعبہ قابل رشک ہے، وہ سائنس کی اس دنیا میں ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ میری دلی دعا ہے کہ حضرت مفتی صاحب کے جتنے بھی مقاصد ہے، اللہ تعالیٰ انہیں ترقی اورقبولیت عطافرمائے۔