کیا واقعی ملک و قوم کی قسمت بدل جائے گی
تحریر یاسر محمد خان
11 فروری 2015ء کا دن پاکستانی تاریخ میں یاد گار رہے گا۔ اُس دن قوم کو یہ نوید ملی کہ ملک میں سونا، چاندی، لوہا اور تانبا کے وسیع ذخائر مل گئے ہیں۔ چینوٹ کے علاقے ’’رجوعد‘‘ میں واقع یہ ذخیرے ریکوڈیک سے 25 گنا زیادہ ہیں۔ چینی اور جرمن ماہرین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان کا یہ علاقہ معدنی دولت سے بے انتہا مالا مال ہے۔ سب سے پہلے جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے اس علاقے میں معدنیات کی خبر دی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت نے اس کا ٹھیکا ارشد وحید نامی ایک پاکستانی نژاد امریکن کو30 سال کے لیے دے دیا۔ یوں اُسے یہ حق مل گیا کہ وہ جتنی چاہے معدنی دولت سمیٹ لے اور حکومت پنجاب کو اس کا 2 فیصد ادا کرتا رہے۔
اس ملک دُشمن معاہدے کو شہباز شریف حکومت نے عدالت میں چیلنج کردیا۔ کورٹ نے اس معاہدے کو منسوخ کردیا اور یوں پنجاب حکومت نے علاقے میں کان کنی کا آغاز کردیا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند جو پہلے ریکوڈیک اور تھر میں معدنیات دریافت کرچکے ہیں، انہیں یہ فریضہ سونپا گیا۔ اس ضمن میں ایک انٹرنیشنل ٹینڈر پاس ہوا اور شفاف انداز میں ایکسپلوریشن کا عمل شروع کیا گیا۔
پنجاب یونیورسٹی، لمس، جیالوجیکل سروے آف پاکستان، لاہور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور میٹرولاجیکل کارپوریشن آف چائنہ نے کان کنی کے عمل کو دن رات جاری رکھا۔ روزانہ صبح ساڑھے 7 بجے سے رات ساڑھے 11 بجے تک کام ہوتا رہا۔ زمین کی تہہ سے ایک ہزار میٹر گہرائی میں جاکر معدنی نمونے حاصل کیے جاتے رہے۔ معدنیات کو کیمیکل اور فزیکل ٹیسٹنگ کے لیے سوئٹزرلینڈ اور کینیڈا بھجوایا گیا۔ وہاں سے بھرپور تصدیق ہوئی کہ اعلیٰ ترین کوالٹی کا سونا، تانبا، چاندی اور لوہا نمونوں میں نہایت وافر مقدار میں موجود ہے۔ جرمن ماہر معدنیات ڈاکٹر جرگن نے چنیوٹ کو کاپر سٹی قرار دیا ہے۔ اس بے پناہ دولت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ٹن خام تیل کی قیمت 300 ڈالر ہے، جبکہ ایک ٹن تانبہ اُس سے 20 گنا زیادہ مالیت کا مالک ہے۔ یہ بین الاقوامی مارکیٹ میں 6 ہزار ڈالر میں بکتا ہے۔ سونا فی اونس 1200 ڈالر اور چاندی فی اونس 21 ڈالر میں پکی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے دوران پاکستانی سائنسدانوں، ماہرینِ ارضیات، کان کن انجینئروں کارپوریٹ سیکٹر کے محب وطنوں نے دن رات محنت کی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی ممکنہ خوشحالی میں ایک نئے دور کا اضافہ ہوگیا ہے۔ چینی کمپنی 2015ء تک اپنا کام ختم کردے گی۔ اس سارے پروجیکٹ کی اکنامک فیز یبلی رپورٹ 2016ء کے آغاز میں مہیا کردی جائے گی۔ تانبے، لوہے، چاندی، سونے کے لیے یہاں ریفائنریاں بنیں گی۔ یہاں ایک اسٹیل ملز لگنے سے ہزاروں پاکستانیوں کو روزگار دستیاب ہوجائے گا۔
٭ اتنی وافر معدنیات اور خزانوں کے ہوتے ہوئے ہم بین الاقوامی سود خوروں کے چنگل میں اور بُری طرح پھنستے جارہے ہیں۔ ٭ حکمرانوں سے درخواست ہے کہ ربّ کریم کی ان انمول نوازشات کو عوام کی دُکھی زندگیوں تک پھیلادیں۔ ٭
اس سے قبل بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام ریکوڈک میں سونے کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے تھے۔ اسلم رئیسانی کی حکومت نے فرانس کی ایک کمپنی ٹیتھان کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔ اس بے انتہا معدنی دولت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سورج کی روشنی میں انسانی آنکھ اس وسیع ذخیرہ سے خیرہ ہوجاتی ہے۔ مذکورہ معاہدے میں بلوچستان حکومت کو کل آمدنی کا 5 فیصد ملنا منظور کرلیا گیا۔ ٹیتھان نے اپنا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو فروخت کردیا۔ پاکساتن کی دولت کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر سپریم کورٹ نے سو موٹو ایکشن لیا اور سارے معاہدے کو منسوخ کردیا۔اب ٹیتھان بین الاقوامی کورٹ آف جسٹس میں چلی گئی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے معاہدے میں اقرار کر رکھا ہے کہ حکومت پاکستان اگر معاہدے کی خلاف ورزی کرے گی تو ہرجانہ ادا کرے گی۔ قانون دان واشگاف انداز میں کہہ رہے ہیں کہ اگر پاکستان کو ہرجانہ ادا کرنا پڑا تو ملک کنگھال ہوکر رہ جائے گا۔ یوں ہماری عاقبت نااندیشی کی وجہ سے ہم معدنیات کے اس وسیع ذخیرے کی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔
سینڈک کے ذخائر پر بھی غیرملکی کمپنیاں قابض ہوچکی ہیں۔ وہاں سے دولت نکال کر دھڑا دھڑ بیرون ملک منتقل کی جارہی ہے۔ پاکستان اس معاہدے سے بھی بہت کم نفع کمارہا ہے۔ دراصل ایسے معاہدوں کے کرنے والے اُن سے بالا بالا کمیشن سمیٹ کر ایک طرف ہوجاتے ہیں۔
نقصان ملک کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ تھر سے کوئلے کے جو وسیع ذخیرے ملے ہیں، ہم ابھی تک اُن کے بارے میں کوئی قومی لائحہ عمل نہیں بنا پائے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے حکومت کو ایک پلان بناکر دیا تھا۔ اس اس کی رو سے یہ معدنی دولت ڈینرل میں منتقل کی جاسکتی ہے۔ کئی مہینے گزرنے کے بعد بھی حکومت نے اس جانب کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ اُدھر جاپان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرینِ ارضیات نے کہا ہے کہ تھر سے کوئلہ نکالنے سے زمین کی Aquafare شدید متاثر ہوگی اور سندھ میں پانی کی شدید ترین قلت پیدا ہوجائے گی۔ اس سارے پروجیکٹ پر ہماری حکومت ذہنی مفلوج کا کردار ادا کررہی ہے۔ تھر میں کوئلہ ملنے پر خوشی کے بعد اب اُس پر بے حسی کی اوس جمتی جارہی ہے۔
ہمارے ملک میں کوئلے کے ذخیرے کوہستان، سوات اور کوہلو میں پائے جاتے ہیں۔ خصوصاً کوہستان کا کوئلہ سب سے اعلیٰ کوالٹی کا ہے۔ ماربل کی کانیں بلوچستان، کوہستان، سوات، باجوڑ اور وزیرستان میں ہیں۔ بین الاقوامی طور پر ماربل کی کٹائی میں 8 فیصد سے زیادہ ماربل ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری بدبختی دیکھئے کہ ہم دھماکوں سے ان قیمتی پتھروں کو توڑتے ہیں۔ یوں 43 فیصد پتھر خاک بن جاتا ہے۔ ہم اعلیٰ معیار کی مشینری سے محروم ہیں۔ یورپ میں یہ کام لیزر کے ذریعے ہوتا ہے۔ لوہے کے ذخیرے کالا باغ اور چنیوٹ میں وافر ہیں۔ تانبا کوہستان، گلگت، بلتستان، ناران اور کاغان میں خاصی مقدار میں موجود ہے۔ جپسم چکوال، جہلم درّہ آدم خیل میں اور فاسفیٹ کی کانیں ہزارہ میں خامی مقدار میں ہیں۔ جم اسٹون (ایک قیمتی پتھر) سوات کے علاقے میں پایا جاتا ہے۔ یوں قدرت نے ہمیں ملک کے طول و عرض میں فراوان معدنی دولت دے رکھی ہے۔ ہم نے اس بابت کوئی ٹھوس قومی پالیسی نہیں بنائی۔ زیادہ تر حکمرانوں نے یہ قدرت کے یہ عطیے کوڑیوں کے بھائو بین الاقوامی سوداگاروں کو بیچ ڈالے۔ اپنی جیبیں بھریں اور ملک کے مستقبل سے لاتعلقی اختیار کرلی۔
کچھ عرصہ پہلے پولینڈ کی ایک بڑی کمپنی نے اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان کو ایک بریفنگ دی۔ بتایا گیا کہ کوئٹہ میں پندرہ بیس سال کے بعد پانی کی سکت قلت درپیش ہوگی۔ ایک ٹیکنالوجی کے ذریعے پشین کے علاقوں میں پانی کے بڑے ذخیروں کا رُخ کوئٹہ کی طرف موڑا جاسکتا ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس پروجیکٹ کو داخل دفتر کردیا۔ انہوں نے دنیا کی دوسری کمپنیوں سے اس بارے میں کوئی آئوٹ پٹ نہ لیا۔ یوں ایک ایسا منصوبہ جس میں مال بننے کے امکانات محدود تھے، اُس کا دفتر شروع ہی میں لپیٹ دیا گیا۔ یہی رویہ ہمیں ہوبہو دوسرے صدیوں میں بھی نظر آتا ہے۔ سندھ میں اقتدار کے شہسواروں نے جو نئے نئے افق دریافت کیے ہیں، انہوں نے سندباد کے سارے محیرالعقول انکشافات کو مات دے دی ہے۔ تھر میں بکھرے کوئلوں کانوں کے ہوتے ہوئے مخلوق خدا بے یارومددگار سسک سسک کر مرے جارہی ہے۔ 84 ملکوں میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق ایک عام پاکستانی کنبہ اپنی آمدنی کا 50 فیصد خوراک پر صرف کرتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں یہ شرح 6 سے 7 فیصد ہے۔ ہندوستان میں مہنگائی کم ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں ایک عام کنبہ اپنی آمدنی کا 25 فیصد غذا پر صرف کرتا ہے۔ پاکستان حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ 60 فیصد آبادی غذائی عدم استحکام کے ہاتھوں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ 50 فیصد عورتیں اور بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 5 سال سے کم عمر کے 44 فیصد بچے ذہنی اور جسمانی طور پر نامکمل نشوونما کا شکار ہیں۔ 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں 35 فیصد اموات کی وجہ شدید غذائی قحط کو قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں 3 فیصد بچے ایسے ہیں جنہیں بین الاقوامی غذائی پلان کے عین مطابق خوراک میسر ہے۔ ایشین ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان میں خوراک کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ 34 لاکھ پاکستانیوں کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیتا ہے۔ 2013-14ء کے اکنامک سروے یہ اعتراف موجود ہے اگر 2 ڈالر یومیہ کو معیار بنایا جائے تو 60 فیصد پاکستانی خط غربت سے نیچے ہیں جس میں سے 50 فیصد شدید غذائی بحران کی زد میں ہیں۔ ایس ڈی پی آئی کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 30 لاکھ پاکستان غربت کی یکسر سے نیچے سرک جاتے ہیں۔ 2008ء کے بعد سے 20 فیصد غریب ترین آبادی کی آمدنی 22 فیصد نیچے گری ہے۔ ہمارے ملک میں صرف 15 فیصد شہریوں اور 18 فیصد دیہاتیوں کو بالکل صاف ستھرا پانی مہیا ہے۔ 80 فیصد سے زیادہ آبادی جو پانی پیتی ہے، اُس میں آرسینک، نائٹریٹ، سلفر اور بیکٹریا خوفناک حد تک ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ 40 فیصد اموات اس گندے پانی کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ بچوں میں 60 فیصد اموات اس بنا پر ہیں۔ ہر سال ڈھائی لاکھ بچے گندے پانی کی وجہ سے موت کی وادی میں اُتر جاتے ہیں۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈاکٹروں کے مطابق ملک کے 80 فیصد امراض آلودہ پانی کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں۔
عام پاکستانی مہنگائی کے خوفناک بوجھ تلے کچلا جاچکا ہے۔ پیٹرول کی قیمت 108 روپے سے 70 روپے تک آگئی ہے۔ یوں اس میں لگ بھگ 38 روپے کی تاریخی کمی ہوچکی ہے، مگر آٹے کی قیمت ایک روپیہ گری ہے۔ ساری اشیائے خورد نوش کی قیمتیں غباروں کی طرح آسمانوں پر چڑھے جارہی ہیں۔ ایشیا بھر میں سروے کرنے والی بڑی تنظیموں نے باقاعدہ جدول سازی کرکے بتایا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح سارے براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ دن بدن اس کی طاقت بڑھتی جارہی ہے اور عوام کی توانائیاں ماند پڑتی جارہی ہیں۔ پچھلے برس مہنگائی کی شرح 8.6 فیصد رہی۔ بے روزگاری بڑھ کر 6.2 فیصد تک پہنچ گئی۔
اس المناک منظرنامے کے بعد حکمرانوں کے شادیانے بجانے پر خوش ہونے کو دل نہیں چاہتا۔ نہیں جانتے کہ چنیوٹ میں 500 ملین ٹن کے ذخیروں کی خبر پر کیا ردّعمل دکھایا جائے؟ کیا واقعی ان سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی؟ عام پاکستانی کی زندگی میں سکھ کی چھائوں آجائے گی۔ اب تک تو اتنی وافر معدنیات کے ہوتے ہوئے ہم بین الاقوامی سود خوروں کے چنگل میں اور بُری طرح پھنستے جارہے ہیں۔ حکمرانوں سے درخواست ہے کہ ربّ کریم کی ان انمول نوازشات کو عوام کی دُکھی زندگیوں تک پھیلادیں۔ ملک سے غربت کا خاتمہ ہو۔ بے روزگاری کے قہر کو مٹادیا جائے۔ مہنگائی کے چڑھتے دریائوں کا راستہ روکا جائے۔ اس ملک کو قدرت نے بے پناہ نواز رکھا ہے۔ عوام نہایت درجہ محنتی ہیں۔ اُن کی ساری توانائیاں اگر صرف خوراک کی بہم رسانی پر مرکوز نہ ہوں گی تو وہ ملک کی تسلیم و ترقی میں کون سا رول ادا کرسکیں گے؟ اگر اُن کا گول محض روئی ہی ہو، جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنا ہی مقصد حیات ہو تو اُن کی زندگیوں میں کون سی چاشنی باقی رہ جائے گی۔ وہ حراست سے یکسر محروم سانسیں لے کر زندہ رہیں گے۔ خدا کرے کہ معدنی دولت کے ساتھ ساتھ قدرت ہمارے حکمرانوں کو گداز قلب بھی عطا کرے۔ اس کے بغیر بڑے سے بڑے ذخیرے بھی راکھ کے ڈھیر سے زیادہ قیمت نہیں رکھتے۔ کشتی سونے کی بنی ہوئی ہی کیوں نہ ہو، ناخدا ہی اُسے ساحل تک پہنچاتے ہیں۔