چین سے سیکھو
تحریر یاسر محمد خان
’’ماوزے تنگ‘‘ چین کا عظیم ترین راہنما تھا۔ 1949ء میں چین آزاد ہوا تو عوام عجیب کیفیت کا شکار تھی۔ 84 فیصد چینی افیون کے نشے کے عادی تھے۔ انہیں برطانیہ نے اس بیماری میں مبتلا کیا تھا۔ ماوزے تنگ جب راہنما بنا تو اس نے قوم کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد شروع کی۔ اُس نے اپنا لانگ مارچ شروع کیا تو اسے ہزاروں میل پیدل چل کر سارے چینی نظام کو اپنے ہاتھ میں لینے کا امتحان درپیش ہوا۔ لاکھوں چینی چنے اور گرم پانی لے کر اس سفر پر چل پڑے۔ راستے میں ہزاروں اموات ہوئیں۔ یہ قافلہ حبس کرب سے گزرا۔ اُس کی تفصیلات ایک کتاب Glances of the Fateful Years میں لکھی گئی ہیں۔ اس لانگ مارچ کے شروع کرنے سے پہلے ماوزے تنگ دنیا بھر کی مذہبی کتابیں پڑھتا رہا۔ اُس پر قرآن پاک پڑھتے ہوئے سورۃ الفیل نے عجیب اثر کیا۔ ان مقدس آیات نے اُس کے دل کی دنیا بدل کے رکھ دی۔ اس نے انسانوں کے ایک لشکر کی قیادت کی اور چینی انقلاب کا موجب بن گیا۔ اُس نے کہا اگر آپ ایک سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو گندم بوئو۔ اگر 10 سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو ساتھ درخت بھی لگائو۔ اگر صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں کی تربیت بھی کرو اور انہیں تعلیم بھی دو۔
بیجنگ میں ایک اعلیٰ ترین درجے کا انسٹیٹیوٹ قائم کیا گیا، جہاں سے ساری چینی قیادت کھٹالی سے سونے کی طرح نکلنا شروع ہوگئی۔ وزیر، مشیر، افسر، وزیراعظم اور صدر سب یہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ ان لوگوں نے چین کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ اُسے امریکا کے بعد دنیا کی سب سے بڑی معیشت بنادیا گیا۔ کہا جارہا ہے 2021ء تک چین کی سب سے بڑی معاشی قوت بن جائے گا۔ انقلاب کے بعد چین میں ہزاروں فیکٹریاں اور کارخانے لگے۔ چینی عوام پر روزگار کے بند دروازے کھلنے لگے۔ اسکولوں اور کالجوں کا ایک جال بچھادیا گیا۔ تعلیم اس قدر سستی کہ ہر کس و ناکس کو اُس تک رسائی ہوگئی۔ چینی یونیورسٹیاں صحیح معنوں میں دانش گاہیں بن گئیں۔ سڑکوں، پلوں، ریلوے لائنوں اور ایرپورٹوں کا ایک جال ملک میں بچھادیا گیا۔ نہروں، بندوں اور جھیلوں نے زراعت کو سنہری دور عطا کردیا۔ چینی ہر معاملے میں خود کفیل ہوتے گئے۔ مساوات کے نظام نے افسر، ماتحت، کسان، پروفیسر سب کو دسترخوان پر ایک جیسی نعمتیں عطا کردیں۔ چین میں کوئی بے روزگار نہ رہا۔ کسی قسم کی کوئی مہنگائی نہ رہی۔ لاء اینڈ آرڈر کے سب مسائل حل ہوگئے۔ کرپشن پر ٹھیکیداروں کو سزائے موت ہوئی تو اس کا یکسر خاتمہ ہوگیا۔ چینیوں نے دنیا بھر کے علوم اپنی زبان کے توسط سے سیکھے۔ انہوں نے کسی بھی غیرملکی کلچر کو خود پر مسلط نہ ہونے دیا۔ چینی معاشرہ سکون قرار کا گہوارہ بنادیا گیا۔ دوسری قوموں سے مسابقت اور اُن سے کوئی مقابلہ نہیں کیا گیا۔ سارے کی ساری توانائیاں چینی عوام کو بلندی سے بلند تر معیار زندگی دینے پر مرکوز کردی گئیں۔ چینی چین میں سیلابوں کے آگے بند باندھ دیے گئے۔ قحط سالی کا یکسر خاتمہ کردیا گیا۔ جدید ترین ہسپتال ہر آبادی میں کثرت سے بنے۔ بیماروں کو صحت یابی ملی۔ یوں ہر چینی دل و جان سے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں شامل ہوگیا۔ ماوزے تنگ مرنے لگا تو اُس نے وصیت کی کہ اس کے یومِ وفات پر چین میں کوئی سرکاری چھٹی نہ کی جائے۔ ہر چینی روزمرہ اوقات سے دو گھنٹے زیادہ کام کرے۔ ہو بہو ایسا ہی ہوا اور اب تک ہر سال اس عظیم لیڈر کی وفات کے دن سارا چین دو گھنٹے زیادہ کام کرتا ہے۔ ایک افیمچی قوم کا ایسی دیوقامت معاشی قوت بن جانا موجودہ تاریخ کا ایک حیران کن بات ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کا آغاز 1950ء میں ہوا۔ پاکستان نے چین تائیوان تنازعے میں چین کا ساتھ دیا۔ یوں اس دوستی کا آغاز ہوا۔ بباقاعدہ تعلقات 31 مئی 1951ء کو شروع ہوئے۔ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے سفارت کانوں نے کام شروع کردیا۔ 1962ء میں چین، ہندوستان جنگ میں پاکستان نے چین کا بھرپور ساتھ دیا اور خطے میں چین کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے۔
1965ء میں چینیوں نے ہمارے احسانات کا بہترین صلہ دیا۔ جنگ میں درپردہ ہمیں خاصا اسلحہ فراہم کیا گیا۔ چینی ماہرینِ جنگ نے ہماری عسکری قیادت کو نہایت قیمتی مشورے دیے۔ فوجی اور اقتصادی رابطوں میں تیزی آتی گئی۔ 1966ء سے 1980ء تک چین پاکستان کو مفت اسلحہ فراہم کرتا رہا۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا نے اپنی ساری گرم جوشی ہندوستان کے نام کردی تھی۔ 1970ء اور 1972ء میں امریکیوں نے بھٹو کی خوشامد کرکے چین سے رابطے ہمارے توسط سے شروع کیے۔ ہنری کسنجر اور رچرڈ نکسن پاکستانی کوششوں سے چائنہ کے دورے پر پہنچے۔ 1978ء میں قراقرم ہائی وے نے سرحدوں کی دیواریں گرادیں اور پاک چین دوستی اور زیادہ مضبوط ہوگئی۔ 1980ء میں افغانستان کے سکے پر چائنہ نے پاکستان کی حمایت اور روس کی مذمت کی۔ 1984ء میں پاک چائنہ جوہری توانائی کے سمجھوتوں پر دستخط ہوئے۔ 1990ء میں سیٹلائٹ کے شعبے میں دونوں ملکوں نے مل کر کام کرنے کا عمل شروع کیا۔ 1999ء میں چشمہ کے مقام پر 300 میگاواٹ کا جوہری بجلی گھر دوست ملک کی مدد سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ 2002ء میں گوادر پورٹ پر اجیکٹ کے لیے چین نے 198 ملین ڈالرز کی مدد دی۔ بندرگاہ کی تعمیر کے لیے چین کی تکنیکی اور افرادی مہارت پیہم میسر رہی۔ 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلابوں میں چین نے پاکستان کو 500 ملین ڈالرز کی امداد دی۔ 2008ء میں دونوں ملکوں نے فری ٹریڈ کے تاریخی معاہدے پر دستخط کیے۔ اُسی سال قراقرم ہائی وے کے ساتھ ساتھ ریل روٹ بنانے کا سمجھوتہ ہوا تاکہ چینی مصنوعات کو گوادر اور پوسٹ تک رسائی مشکل نہ ہو۔
2009ء میں دونوں ملکوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کا ایک معاہدہ کیا۔ 5 جولائی 2013ء کو پاک چائنہ اکنامک کاری ڈور کا معاہدہ ہوا جس نے 6.5 بلین ڈالرز کراچی میں نیوکلیئر پاور پلانٹ بنانے کی منظوری دی جو 1100 میگاواٹ بجلی بنائے گا۔ 22 مئی 2014ء کو لاہور میں میٹرو ٹرین پراجیکٹ پر چین نے 1.27 بلین ڈالرز کی مدد دینے کا وعدہ کیا۔ 8 نومبر 2014ء کو چینی وزیراعظم اور ہمارے وزیراعظم نے 19 معاہدوں کی منظوری دی جن میں 42 بلین ڈالرز کی مدد پاکستان کو فراہم ہوگی۔ اسی دوران چین نے پاک فوج مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے دفاع کے لیے اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی فراہم کیے رکھی۔ یوں ہم نے 2001ء میں الخالد ٹینک، 2007ء میں لڑاکا طیارے جے ایف 17 تھنڈر، 2008ء میں ایف 22 پی فریگیٹ اور کے 8 قراقرم نامی جدید ترین طیارے چین کی فنی مدد سے بنائے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں چین نے ہمیں امریکی مکاری و عیاری سے متنبہ کیا۔ پھر بھی ہم اُس دلدل میں گہرے اُترتے گئے۔ ہم وار آن ٹیرر لڑتے رہے۔ مشرف دور میں ہیلری کلنٹن نے پاکستان کے دورے کے دوران پاکستانی خدمات کے صلے میں انرجی بحران حل کرنے کے لیے امریکی مدد کا یقین دلایا۔ سات آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی امریکا نے پاکستان کو اس میدان میں سوئی تک فراہم نہیں کی۔ ہم نے اُس کی جنگ میں 60 ہزار پاکستانی شہری، 6 ہزار فوجی اور معیشت کا ایک کھرب ڈالرز کے نقصان کی صورت اس ’’دوستی‘‘ کا خراج ادا کیا۔ چین شدید ترین موسموں میں ہمارا ساتھی رہا۔ امریکا مخالف ہوا کے پہلے ہی جھونکے پر ہمیں تنہا چھوڑ کر فرار ہوگیا۔
چینی صدر کے حالیہ دورے میں 45 کھرب 68 ارب روپے کے معاہدے عمل میں آئے ہیں۔ یہ کل 51 معاہدے ہیں جن میں سے 8 پر کام شروع ہوچکا ہے۔ پاک چین تجارتی حجم کو 20 ارب ڈالرز تک لے جانے پر اتفاق ہوا ہے۔ سب سے بڑا منصوبہ خجراب سرحد سے گوادر کی بندرگاہ تک سڑکوں اور ریلوے لائن کی تعمیر ہے۔ 30 منصوبے صرف اس سے متعلق ہیں۔ کراچی لاہور موٹر وے، مری میں ٹرانمشن لائن کی اپ گریڈیشن، میٹرو ٹرانزٹ سسٹم اورنج لائن لاہور، پاکستان میں چینی ثقافتی مرکز کا قیام، ڈی ٹی ایم بی براڈ کاسٹنگ، ایف ایم ریڈیو 98 دوستی چینل، کروٹ 720 میگاواٹ ونڈ پاور پراجیکٹ، سچل 50 میگاواٹ ونڈ پاور پراجیکٹ، چھمبر 1000 میگاواٹ ونڈ پاور پراجیکٹ، قائداعظم پارک بہاولپور میں 100 میگاواٹ کا پاور پلانٹ، چین پاک مشترکہ تحقیقی مرکز اسلام آباد، لاہور میں چین کے صنعتی و تجارتی بینک کی ایک شاخ، پاک چین سرحد کے آر پار آپٹک فائبرکیبل سسٹم اور دیگر توانائی، ٹرانسپورٹ، ریلوے، انفراسٹرکچر، زراعت، مالیات، صحت، تخفیفِ غربت اور ثقافتی تبادلوں کے منصوبے شامل ہںی۔ چین قراقرم ہائی وے کے لیے رعایتی قرضے فراہم کرے گا۔ وہ پاکستان کو سیکورٹی کے مزدی آلات بھی فراہم کرے گا۔ وزارت پیٹرولیم اور ایک چینی کمپنی کے درمیان ایران پاک گیس پائپ لائن اور گوادر میں ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کے لیے 2 ارب ڈالرز کے معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ اس منصوبے میں 85 فیصد رقم چین اور 15 فیصد پاکستان شامل کرے گا۔ پائپ لائن گوادر سے نواب شاہ تک تعمیر کی جائے گی۔ چینی ورکرز کی سیکورٹی کے لیے پاک فوج کی 9 بٹالینز اور سول آرمڈ فورسز کے 6 ونگز کی تشکیل کردی گئی ہے۔ اس کے لیے ایک علیحدہ سیکورٹی ڈویژن بنادیا گیا ہے۔ اس کی سربراہی میجر جنرل کے رینک کا ایک آفیسر کیا کرے گا۔ یہ سربراہ براہ راست جی ایچ کیو کو رپورٹ کرے گا۔ یوں 10 ہزار پاکستانی فوجی چینی انجینئروں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کریں گے۔ یہ دورہ اب تک کے کسی بھی چینی سربراہ کے دورے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک تاریخ ساز دورہ ہے۔ اس کی اہمیت پاک چین تعلقات میں ایک بلند مینارہ نور کی ہے۔
اس دورے کے موقع پر اسلام آباد کو رنگ برنگے پرچموں سے سجایا گیا۔ شاہراہ دستور پر چینی صدر کی تصویریوں والے بڑے بڑے ہوڈنگ رکھے گئے۔ پارلیمنٹ، وزیراعظم اور صدر ہائوس پر روشن قمقمے سجے ہوئے تھے۔ اسلام آباد کے ایرپورٹ سے شاہراہ دستور کو راتوں رات نیا بنادیا گیا۔ درختوں، پودوں، گھاس کو متناسب کردیا گیا۔ اس طرح ہر لحاظ سے ان دنوں کو پاکستان کی تاریخ میں یادگار بنایا گیا۔ نہایت روح پرور مناظر قوم کو دیکھنے کو ملے۔
ہماری ساری لیڈر شپ کو چین کی محیر العقول ترقی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ قیادت کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کرنا چاہییں۔ خوشی کی بات ہے کہ چینی صدر کے دورے کے دوران ہمارے وزیر خزانہ نے پاکستان کے دنیا کی 18 ویں بڑی معیشت بن جانے کی نوید سنائی۔ بتایا گیا کہ ترقی کی شرح نمو بڑھ گئی اور افراط زر خسارے میں واضح کمی آگئی ہے۔ آپریشن ضرب عضب پر 1.75 ارب ڈالرز اور آئی ڈی پیز کی بحالی پر 80 کروڑ روپے ڈالرز صرف ہوں گے۔ ہمیں جلد از جلد داخلی امن حاصل کرلینا چاہیے تاکہ چینی پراجیکٹس سے آنے والے ترقی کے دھارے کا راستہ بند نہ ہوجائے۔ دوسری طرف ہماری معیشت کی ترقی کے ثمرات عام آدمی کی زندگی میں دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم چین سے معاہدوں سے بہت کچھ حاصل کرلیں گے، لیکن چینی ہمارے ممبران اسمبلی کو ٹیکس چوری کرنے سے نہیں روک پائیں گے۔ وہ ہمیں ناجائز ٹھیکوں اور پرمٹوں کے ذریعے اپنے اہل و عیال کو نوازنے کی جمہوری روش سے باز نہیں رکھ سکیں گے۔ وہ ساری مارکیٹ اکانومی کا شیرہ خود ہڑپ کرجانے والی میانہ چالبازی سے ہمیں باز نہیں رکھ پائی ںگے۔ وہ ہمیں دبئی میں پلازے، جائیدادیں اور سوئس بینکوں میں دولت کے پہاڑوں جیسے کالے دھن کو جمع کرنے سے روکنے میں قاصر ہوں گے۔ سہارا دینے والے ہاتھوں کا شکریہ پر وزن اپنی ہی ٹانگوں پر ڈالنا پڑتا ہے۔ چلنا اور دوڑنا اپنی ہی ٹانگوں سے ہوتا ہے۔ معاشی ترقی کی میراتھن دوڑ میں جیت اپنے قدم دلواتے ہیں۔ حکمرانوں کے لیے اس حقیقت کا ادراک انتہائی ضروری ہے۔