چھ ڈاکٹر

چھ ڈاکٹر
جاوید چوہدری  اتوار 22 جنوری 2017

’’انسان کو زندگی میں چھ ڈاکٹروں کی ضرورت پڑتی ہے‘ آپ غریب ہیں یا امیر آپ کو ان ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرناہوں گی‘‘ وہ مسکرایا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا ننگا پاؤں سہلانے لگا‘ وہ پاؤں سے بھی 97 سال کا نہیں لگتا تھا‘ میں اسے دیکھ کر حیران ہو رہا تھا‘ انسان اپنی عمر چھپا سکتا ہے لیکن ہاتھ‘ پاؤں‘ گردن اور آنکھیں ہمیشہ راز کھول دیتی ہیں‘ یہ چاروں عمر کے چغل خور ہیں‘ آپ جتنی بھی احتیاط کر لیں مگر عمر گزرنے کے ساتھ آپکے پاؤں سوکھ جاتے ہیں‘ ہاتھوں اور گردن پر جھریاں پڑ جاتی ہیں اور آنکھوں کے گرد گدیاں سی بن جاتی ہیں‘ آپ کو دنیا میں ایسے انسان بہت کم ملیں گے جن کے یہ چاروں اعضاء عمر کے ساتھ متاثر نہ ہوئے ہوں‘ وہ بھی ایک ایسا ہی شخص تھا۔
وہ زندگی کی 97 بہاریں دیکھ چکا تھا‘ اس کے پوتے اور نواسیاں بال بچے دار تھیں لیکن وہ اپنی آٹھویں بیوی کے ساتھ بھرپور زندگی گزار رہا تھا‘ وہ کسی بھی طرح چالیس پینتالیس سے بڑا دکھائی نہیں دیتا تھا‘ میں لمبا سفر طے کر کے اس کے پاس ایمسٹرڈیم گیا‘ وہ شہر کے مضافات میں چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا‘ پنشن کی رقم میاں بیوی کے لیے کافی تھی‘ وہ مہینے میں آٹھ دن کوچنگ کرتا تھا‘ پچاس یورو فی کس چارج کرتا تھا اور لوگوں کو صحت مند‘ خوش حال اور پرمسرت زندگی کا طریقہ بتاتا تھا۔
میں نے بھی اسے پچاس یورو ادا کیے اور اس کی ’’اوپن ائیر اکیڈمی‘‘ میں بیٹھ گیا‘ جارج نے یہ اکیڈمی گھر کے چھوٹے سے لان میں بنا رکھی تھی‘ لوگ بلاکس کے بینچوں پر بیٹھتے تھے اور وہ ننگی زمین پر گھاس پر بیٹھ کر انھیں لیکچر دیتا تھا‘ ہمارے گروپ میں چھ لوگ تھے‘ دو لڑکیاں اور چار لڑکے‘ ہم سب ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے لیکن ہمارا مسئلہ کامن تھا‘ ہم ’’موت تک صحت مند زندگی‘‘ کا راز معلوم کرنا چاہتے تھے‘ ہم بینچوں پر تھے اور وہ ہمار سامنے ننگے پاؤں ننگی زمین پر براجمان تھا۔

وہ بولا ’’ہم انسان ہیں تو پھر ہم صحت مند زندگی کے لیے چھ ڈاکٹروں کے محتاج ہیں‘‘ ہم خاموشی سے اس کی طرف دیکھتے رہے‘ وہ بولا ’’یہ چھ ڈاکٹر‘ سورج‘ آرام‘ ایکسرسائز‘ خوراک‘ خدا پر اعتماد اور ہمارے دوست ہیں‘‘ وہ رکا‘ اپنا ایک پاؤں اٹھا کر گود میں رکھا اور اسے دونوں ہاتھوں سے سہلانے لگا‘ وہ بولا ’’آپ اگر دن میں ایک گھنٹہ اپنے جسم کو سورج کی روشنی دیتے ہیں‘ آپ اگر آٹھ گھنٹے سوتے ہیں‘ ایک گھنٹہ آرام کرتے ہیں اور ایک گھنٹہ سستاتے ہیں‘ آپ اگر روزانہ ایکسرسائز کرتے ہیں‘ آپ اگر متوازن خوراک کھاتے ہیں‘ آپ اگر خدا کی ذات پر یقین رکھتے ہیں اور آپ اگر دوست بنانا اور دوستی نبھانا جانتے ہیں تو پھر آپ کی میڈیکل ٹیم پوری ہے۔
آپ کو مزید مشورے کی ضرورت نہیں‘ آپ میری طرح صحت مند بھی رہیں گے اور آپ کی عمر میں بھی لمبی ہو گی‘‘ وہ رکا‘ لمبا سانس لیا اور بولا ’’آپ کو پوری زندگی ان چھ ڈاکٹروں کی ضرورت ہو گی‘ آپ ڈاکٹر سن‘ ڈاکٹر سلیپ‘ ڈاکٹر ایکسرسائز‘ ڈاکٹر ڈائیٹ‘ ڈاکٹر بی لِیو اور ڈاکٹر فرینڈ کو اپنے ساتھ رکھیں اور صحت مند زندگی گزاریں‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ڈاکٹر سن ہمارے لیے کیوں ضروری ہے‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’سورج انرجی ہے‘ یہ ڈاکٹر ہماری پوری کہکشاں کو توانائی دیتا ہے‘ یہ نہ ہوتا تو شاید زمین پر زندگی بھی نہ ہوتی چنانچہ ہم اس کے بغیر اچھی اور صحت مند زندگی کیسے گزار سکتے ہیں؟
آپ کو اس کا ہاتھ بہرحال پکڑنا ہو گا‘‘ وہ رکا اور بولا ’’ڈاکٹر سلیپ ہمارے ٹوٹے ہوئے سیلز کی مرہم پٹی کرتا ہے‘ ہمارا جسم سارا دن ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزرتا ہے‘ ہمارے سیلز آٹھ گھنٹے میں بری طرح زخمی ہو جاتے ہیں‘ ہم جب آنکھیں بند کرتے ہیں تو ڈاکٹر سلیپ آ کر ہمارے ان زخمی سیلوں پر مرہم لگا دیتا ہے‘ یہ انھیں دوبارہ کارآمد بنا دیتا ہے‘ آپکے پاس اگر یہ ڈاکٹر نہیں تو آپ کے زخمی سیل مرنے لگیں گے اور یوں آپ گھل گھل کر ختم ہو جائینگے‘ میں روزانہ آٹھ گھنٹے سوتا ہوں‘ میں ہر تین گھنٹے بعد آدھ گھنٹے کے لیے ایزی چیئر پر بیٹھ جاتا ہوں اور دن میں دو بار ہلکی سی نیند لیتا ہوں‘ یہ سستانا‘ یہ آرام اور یہ نیند مجھے اندر سے مضبوط کر دیتی ہے چنانچہ میں صحت مند ہوں‘‘ وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور بولا ’’ڈاکٹر ایکسرسائز ڈاکٹر کم اور سرجن زیادہ ہے‘ یہ میرے اندر جنم لینے والی بیماریوں کو کاٹ کر باہر نکال دیتا ہے۔
ایکسرسائز انسان کو برتن کی طرح اندر سے صاف کرتی ہے‘ آپ اس ڈاکٹر کی خدمات حاصل کریں‘ یہ آپ کو اندر سے مضبوط بنا دے گا‘‘ میں نے ہاتھ کھڑا کر دیا‘ وہ میری طرف متوجہ ہو گیا‘ میں نے پوچھا ’’ہمیں کون سی ایکسرسائز کرنی چاہیے‘‘ وہ بولا ’’کوئی بھی ایکسرسائز جس میں آپ کا سانس چڑھ جائے اور جسم پسینے میں بھیگ جائے‘‘ وہ رکا اور بولا ’’میں دن میں تین بار ایکسرسائز کرتا ہوں‘ صبح خالی پیٹ واک کرتا ہوں‘ شام کو سائیکل چلاتا ہوں اور رات کے وقت کسرت کرتا ہوں‘‘ میں نے ایک بار پھر ہاتھ کھڑا کر دیا‘ وہ میری طرف متوجہ ہو گیا۔
میں نے کہا ’’آپ ایک ریٹائر شخص ہیں‘ آپ پورا دن ایکسرسائز کر سکتے ہیں لیکن ہم ورکنگ پیپل ہیں‘ ہم نے اپنے پروفیشن‘ جاب اور فیملی کو بھی وقت دینا ہوتا ہے‘ ہم دن میں تین تین بار ایکسرسائز کیسے کر سکتے ہیں‘‘ اس نے قہقہہ لگایا‘ انگلی سے میری طرف اشارہ کیا اور بولا ’’ویری گڈ کوئسچن‘ میں نے ایکسرسائز کا یہ شیڈول ریٹائرمنٹ کے بعد شروع نہیں کیا‘ یہ میری جوانی کی روٹین ہے‘ میں صبح خالی پیٹ پیدل دفتر جاتا تھا‘ مجھے دفتر پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا تھا‘ یہ گھنٹہ میری مارننگ واک ہوتی تھی‘ میں ناشتہ دفتر میں کرتا تھا‘ میں پچھلے ستر سال سے شام کے وقت لوگوں کے گھروں میں پمفلٹ پھینک رہا ہوں۔
میں روز اشتہاری کمپنی سے پمفلٹ لیتا ہوں‘ شام کے وقت سائیکل پر بیٹھتا ہوں‘ سائیکل چلاتا جاتا ہوں اور گھروں میں پمفلٹ پھینکتا جاتا ہوں‘ مجھے اس سے جو آمدنی ہوتی ہے میں وہ رقم خیرات کر دیتا ہوں یوں میری ایکسرسائز بھی ہو جاتی ہے اور چیرٹی بھی اور رات کو میں جم میں باقاعدہ ’’مسل ایکسرسائز‘‘ کرتا ہوں‘ میں نے پوری زندگی اپنے مہمانوں کو پارکوں میں ملاقات کا وقت دیا‘ میں چلتے چلتے بات کرتا ہوں اور چلتے چلتے بات سنتا ہوں یوں ڈاکٹر ایکسرسائز ہمیشہ میرے ساتھ رہتا ہے‘‘ وہ رکا۔
لمبی سانس لی اور بولا ’’انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جسے اپنے قدکاٹھ اور وزن کے مقابلے میں انتہائی کم خوراک کی ضرورت ہوتی ہے‘ ہمیں خوراک کو دوائی کی طرح استعمال کرنا چاہیے‘ ہم یہ نہیں کریں گے تو دوائی ہماری خوراک کی جگہ لے لے گی‘ آپ گرین ٹی پئیں‘ چائے میں چینی اور دودھ استعمال نہ کریں‘ پھل اور سبزیاں کھائیں‘ گوشت ہفتے میں ایک بار کھائیں‘ مچھلی‘ انڈہ اور چکن روزانہ لیکن تھوڑا تھوڑا لیں اور آپ ایک گھنٹے میں پانی کی ایک بوتل پی جائیں‘ انسان سولہ گھنٹے جاگتا ہے‘ روزانہ پانی کی سولہ بوتلیں اس کے اندر جانی اور باہر نکلنی چاہئیں‘ آپ یہ کر کے دیکھ لیں‘ ڈاکٹرڈائیٹ پوری زندگی آپ کی حفاظت کرے گا‘‘۔
وہ رکا‘ لمبا سانس لیا اور بولا ’’آپ خدا کی ذات پر سو فیصد اعتماد رکھیں‘ دنیا میں کوئی نقصان نقصان اور کوئی فائدہ فائدہ نہیں ہوتا‘ یہ صرف وقت کی بات ہوتی ہے‘ نقصان اور فائدہ دونوں چند دن‘ چند ماہ یا چند سالوں کے بعد بے معنی ہو جاتے ہیں‘ آقا اور غلام چند برسوں کی تکلیف اور چند سالوں کی آسائش ہوتی ہے‘ رخمی صحت مند ہو جاتا ہے اور صحت مند زخمی ہو کر بیڈ پر پڑا ہوتا ہے‘ آپ اپنی کامیابی اور ناکامی دونوں کو من جانب اللہ سمجھ لیں‘ آپ سکھی ہو جائیں گے‘ بچوں کو امیر ہونا نہ سکھائیں‘ خوش ہونا سکھائیں تاکہ یہ بڑے ہوں تو یہ چیزوں کی اہمیت دیکھیں‘ ان کی قیمت نہ پڑھیں۔
دنیا کا جو شخص آپ سے محبت کرتا ہے وہ آپ کو کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گا اور جو چلا گیا وہ آپ کا تھا ہی نہیں‘ انسان ہونے اور انسان بننے میں بڑا فرق ہوتا ہے‘ دنیا کا ہر شخص انسان ہے لیکن کیا وہ اشرف المخلوقات بھی ہے؟ یہ اس کے رویئے‘ یہ اس کی سوچ اور یہ اس کی شائستگی طے کرتی ہے‘ انسان ہونے کے بجائے انسان بننا سیکھو‘ سکھی رہو گے‘ جیتنا چاہتے ہو تو اکیلے دوڑو‘ کامیاب ہونا چاہتے ہو تو لوگوں کو ساتھ لے کر آہستہ آہستہ چلو‘ زندگی اچھی گزرے گی‘ ہم مسافر ہیں اور ہمارا خدا ہمارا ٹریول ایجنٹ‘ ہمارے روٹس‘ ہماری منزلیں اور ہمارے ساتھی مسافر دنیا میں ہر چیز ہمارے ٹریول ایجنٹ نے طے کر دی ہے۔
آپ اگر سفر کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں تو آپ لائف کے اس پیکیج کو قبول کر لیں آپ کی زندگی اچھی ہو جائے گی اور آپ اگر تنگ ہونا چاہتے ہیں تو آپ اس پیکیج پر اعتراضات شروع کر دیں‘ آپ کی زندگی عذاب ہو جائے گی‘ پیکیج پر اعتماد سیلف کانفیڈنس پیدا کرتا ہے اور یہ سیلف کانفیڈنس آپ کو اچھی زندگی فراہم کرتا ہے چنانچہ یہ ڈاکٹر بھی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے‘‘ وہ رکا لمبا سانس لیا اور بولا ’’اور ہاں ڈاکٹر فرینڈ بھی آپ کی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
آپ کی زندگی میں ایسے لوگ ضرور ہونے چاہئیں جن سے مل کر آپ قہقہے لگا سکیں‘ آپ جن کے ساتھ اپنی خوشیاں‘ اپنی اداسیاں اور اپنے غم شیئر کر سکیں‘ یہ ڈاکٹرہمارے جذبات کی مرہم پٹی کرتے ہیں‘ یہ نہ ہوں تو ہم اپنے ٹوٹے جذبوں کے لہو میں ڈوب کر مر جائیں ‘ ہماری عمر چھوٹی اور غم لمبے ہو جائیں‘‘۔
وہ رکا‘ لمبا سانس لیا‘ اٹھا‘ بوٹ پہنے اور بولا ’’ہم باقی گفتگو واک کے دوران کریں گے‘‘۔