چشمۂ شیریں!
ہم نئے آنے والے طلبہ کے جائزے اورداخلے کی ذمہ داریوں کی ادائی کے سلسلے میں مدرسے میں مصروف کار تھے۔ ہمیں نئے طلبہ کے کوائف کا جائزہ لینے اور ان کا ابتدائی شفوی امتحان لینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ مدرسے میں ہر طرف چہل پہل اور رونق نظر آرہی تھی۔ہم نے ابھی کچھ ہی طلبہ کو نمٹایا تھا اورہمارے سامنے طلبہ کی ایک لمبی قطار تھی اور آس پاس بھی لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ اتنے میں ایک طالب علم نے آکر بتایا کہ باہر ایک صاحب آئے ہیں، آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ہمیں فکر سی لگ گئی کہ اس مصروفیت کے وقت میں کن صاحب کو کیا پریشانی لاحق ہوگئی جو ہم سے ملنے آگئے۔ خیر ہم نے طالب علم سے ان صاحب کو اندر بلانے کو کہا،کچھ ہی دیر میں دیکھا کہ ہمارے دوست مسٹر کلین تشریف لارہے ہیں۔ہمیں حیرت سی ہوئی کہ مسٹر موصوف کااس طرف گزر کیسے ہوا؟مسٹر کلین نے آتے ہی کہا، ملاجی ! بڑ ا میلہ لگایا ہوا ہے،حلوہ پکا ہے کیا؟ ہم نے عرض کیا،آئیے آئیے،حلوہ بھی کھلادیں گے آپ کو،سنائیے کیسے تشریف آوری ہوئی؟مسٹر کلین نے کہا،دراصل ہماری خالہ کا انتقال ہوگیا تھا پرسوں،آج ان کا سوئم ہے، قرآن خوانی کے لیے بچے چاہیے تھے۔ہم نے مسٹر کلین کی خالہ مر حومہ کے ایصال ثواب کے لیے دعا کی،اس حادثہ فاجعہ پر ان سے تعزیت کی تاہم ان سے گزارش کی کہ ہمارے ہاں بچے تعلیم حاصل کرنے کے
لیے آتے ہیں، ہم انہیں قرآن خوانی کے لیے باہر نہیں بھیجتے۔ مسٹر کلین اس پر تھوڑے سے ناراض ہوگئے اور کہنے لگے، ملاجی! اگر مدرسے سے قرآن خوانی کے لیے بچے بھی نہ ملیں تو پھر ان مدارس کا اور فائدہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا،دیکھیں مسٹر!یہی آپ کی غلط فہمی ہے، آپ سمجھتے ہیں ان مدارس کا فائدہ بس یہی ہے کہ یہاں سے قرآن خوانی کی’’ رسم‘‘ کے لیے بچے دستیاب ہوں۔گویا قرآن کریم صرف قرآن خوانی کے لیے ہے اور مدارس میں پڑھنے پڑھانے والے اسی رسم کی ادائی کے لیے فراد فراہم کرنے کے لیے ہیں۔
ہم مسٹر کلین سے یہ باتیں کر رہے تھے کہ ہمارے موبائل کے فون کی گھنٹی بجی،یہ ہمارے جاننے والے ایک حاجی صاحب تھے جو شہر کے بڑے تاجر بھی ہیں۔حاجی صاحب اپنے پوتے کے داخلے کے سلسلے میں مدد کی درخواست کر رہے تھے۔حاجی صاحب سے بات کرکے فارغ ہوئے تو موبائل کی گھنٹی دوبار بجی،فون اٹھایا توایک جاننے والے میجر صاحب تھے، انہیں اپنے بیٹے کے حفظ میں داخلے کے سلسلے میں رہنمائی مطلوب تھی۔دوسری طرف کئی لوگ ہمارے سامنے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔مسٹر کلین نے یہ سارا منظر دیکھا تو چکرا سے گئے، کہنے لگے، ملاجی!یہ آپ ملا لوگ لوگوں کو کیا پٹی پڑھاتے ہیں کہ اب ہر شخص ملا بننے کے چکر میں ہے۔مجھے تو ضمیر جعفری کا شعر یاد آرہا ہے جو انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں کہا تھا کہ؎ یہ یکدم لوگوں کو’’ کی‘‘ ہوگیا ہے کہ ہر شخص مولوی ہوگیا ہے
ہم نے عرض کیا، دیکھیں ہم نے کسی کو کوئی پٹی نہیں پڑھائی، ہم قرآ ن و حدیث پڑھاتے ہیں اور قرآن و حدیث میں محبت،شفقت، رحمت،امن، بھائی چارہ اوراخلاق و کردار کا درس ملتا ہے۔ہمارے پاس وہ وسائل،سہولیات اور آسائشیں نہیں ہیں کہ ہم لوگوں کو مادی طاقت کے ذریعے اپنی طرف متوجہ کر سکیں۔ہمارے پاس روحانی ذرائع ہیں اور آج کے اس دور میں لوگ روحانیت کے پیاسے ہیں۔شیخ سعدی کا کہنا ہے؎ ہر کجا چشمہ ٔ بود شیریں مر دم و مرغ ومور می آیند
جہاں بھی میٹھا چشمہ ہوتا ہے، انسان، چرند درند سب اس کی طرف دوڑ آتے ہیں۔یہ مدارس خیر کا سر چشمہ ہیں،مسلمان عوام جانتے ہیں کہ ان مدارس میں نونہالان قوم کو ایمان اخلاق اور کردار کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، اس لیے وہ نہ صرف ان مدارس کے ساتھ دامے درمے اور سخنے تعاون کرتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے بھی مدارس اور علماء پر اعتماد کرتے ہیں۔ ایک زمانے تک تو یہ بات درست تھی کہ مدارس میں زیادہ تر غریب لوگوں کے بچے پڑھتے تھے، مگر اب صورت حال بد چکی ہے،
اب بڑے بڑے تاجروں، سرمایہ داروں ، افسران اورطبقہ اشرافیہ کے بہت سے لوگ بھی اپنے بچوں کو مداراس کی تعلیم دلانے کو ترجیح دینے لڌکھا،موصوف ہونق بنے ہوئے ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ اس پر کیا تبصرہ کریں۔ ہم نے اپنی تپائی کے نیچے رکھا سوہن حلوہ کا ڈبہ جو ہمارے ایک شاگرد تحفے میں لائے تھے، نکالا اور مسٹر کلین سے عرض کیا،آئیں حلوہ کھائیں،باتیں تو ہوتی رہیں گی!