عَنْ جَابِرٍ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ یَقُوْلُ : إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاةِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَالتِّرْمِذِيُّ۔
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انسان اور کفر اور شرک میں نماز نہ پڑھنے کا فرق ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
نماز ہر مسلمان بالغ عاقل مرد اور عورت پر فرض ہے، اور کسی شرعی عذر کے بغیر نماز چھوڑنا جائز نہیں ہے اور کبیرہ گناہ ہے، احادیث مبارکہ میں بے نمازی کے لیے بہت سخت وعیدیں آئی ہیں۔ لیکن نماز چھوڑنے کی اس عملی کوتاہی سے وہ شخص کافر نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کا نکاح ٹوٹے گا، البتہ وہ سخت گناہ گار ہوگا اور اس پر سچی توبہ کرنا لازم ہوگا۔
کتنی سخت وعید ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے چھوڑنے پر کفر کا حکم لگارہے ہیں ، اگرچہ علماء کرام نے اس کو “انکارکرنے ” کے ساتھ مقید کیا ہے ، یعنی جو شخص نماز نہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی فرضیت کا بھی انکار کرے وہ کافر ہے ، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی فکر اتنی بڑی چیز ہے کہ جس کے دل میں ذرا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وقعت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی اہمیت ہوگی اور آپ ﷺ سے محبت ہوگی اس کے لئے یہ ارشادات نہایت سخت ہیں ، اس کے علاوہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بعض ائمہ رحمہم اللہ کا تو مذہب یہی ہے کہ بلاعذر جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والاکافر ہے ۔اس لئے ہر مسلمان کو اس کبیرہ گناہ سے بچنے کی فکر کرنی چاہئے۔
عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ : لَا إِسْلَامَ لِمَنْ لَمْ یُصَلِّ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس شخص کا کوئی اسلام نہیں جو نمازی نہیں۔‘‘
قَالَ عَلِيٌّ رضی الله عنه : مَنْ تَرَکَ صَلَاةً وَاحِدَةً مُتَعَمِّدًا، فَقَدْ بَرِیئَ مِنَ اللهِ وَبَرِیئَ اللهُ مِنْهُ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس شخص نے جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑی، تو وہ اللہ تعالیٰ سے بری ہوا، اور اللہ تعالیٰ اس سے بری ہوا۔‘‘
اس حدیث اورصحابہ رضی اللہ عنہم کے فرمان میں کفر سے مراد دائرہ اسلام سے خارج کر دینے والاکفر ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو مومنوں اور کافروں کے درمیان حد فاصل مقرر فرمایا ہے، اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ ملت کفر اور ملت اسلامیہ دونوں الگ الگ ہیں، لہذا اگر کوئی شخص معاہدے یعنی نماز کی پابندی نہیں کرتا تو وہ کافروں میں سے ہے۔
اگر کوئی شخص نماز کی فرضیت کا ہی انکار کر دے تو اس سے وہ کافر ہوجائے گا اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں اس کا نکاح بھی ختم ہوجائے گا، اس پر سچی توبہ کے ساتھ تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح لازم ہوگا۔
نماز اہم ترین عبادت ہے ، اور ایمان کے بعد تمام فرائض پر مقدم ہے ، اور قیامت میں سب سے پہلے اسی کے بارے میں سوال ہوگا ، یہ اسلام کی علامت ہے ، اور دین کا ستون ہے ، گناہوں کی معافی ، دل کو نورانی بنانے اور اللہ تعالیٰ کا قرب اور رضا حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ، نماز کا مرتبہ دین میں ایسا ہی ہے جیسا کہ سرکا درجہ بدن میں لیکن افسوس ہے کہ نماز جتنی اہم ہے ہمارے زمانہ میں اُتنی ہی اس سے غفلت اور لاپرواہی کا معاملہ کیا جاتا ہے ۔
حضرت نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
جس شخص کی نماز فوت ہوگئی وہ ایسا ہے گویا اس کے گھر کے لوگ اور مال ودولت سب چھین لیا گیا ہو۔یعنی اگر آدمی سے اس کا مال اور بال بچے سب چھین لئے جائیں اور وہ اکیلا کھڑا رہ جائے تو جس قدر رنج وصدمہ اس حالت میں اس کو ہوگا ایسا ہی صدمہ نماز چھوٹنے میں ہونا چاہیئے ، کیونکہ نماز کا ضائع کرنا بھی انجام کے اعتبار سے ایسا ہی ہے ۔اور آدمی جس قدر اپنے بال بچوں اور مال ودولت کے ضائع ہونے سے ڈرتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ نماز کے ضائع ہونے سے ڈرنا چاہیئے۔
لہٰذا نماز بہت اہتمام سے اور توجہ سے باجماعت اداکرنی چاہئے، بغیر معتبر عذر کے جماعت ہر گز نہ چھوڑنی چاہیئے اور پوری نماز آرام واطمینان سے اداکرنی چاہیئے ، جلدی جلدی نہ پڑھنی چاہئے۔اور جس طرح اپنے مقام پر باقاعدہ نماز اداکرنی چاہئے اسی طرح سفر میں بھی نماز پڑھنی چاہئے ۔ بعض خواتین وحضرات سمجھتے ہیں کہ سفر میں نماز معاف ہے اس لئے وہ نماز نہیں پڑھتے ، یہ ناجائز اور بڑا گناہ ہے ، کیونکہ سفر کی وجہ سے فرض نمازوں میں قصر ہوتا ہے ، لیکن نماز معاف نہیں ہوتی ۔
اللہ پاک سب مسلمانوں کو پابندی سے نماز پڑھنے کی توفیق عطافرمائیں ۔ آمین۔