مہذب درندے
ہمارے کرم فرما حکیم فقیر حسین یار باش آدمی ہیں۔دوست احباب کو جمع کرنے اور زمانے کی مصروفیات، دکھوں اور پریشانیوں کے علیٰ الرغم بے تکلفی کی محفلیں جمانے کے لیے انہیں مواقع کی تلاش ہوتی ہے۔ اسی شوق کے زیر اثر موصوف ہر سال رمضان میں کسی ایک دن دوستوں کے لیے دعوت افطار کا بندوبست بھی ضرورکرتے ہیں۔ان کی دعوت میں اور کوئی جائے یا نہ جائے ،ہم اور ہمارے دوست مسٹر کلین ضرور جاتے ہیں۔ہم اس لیے جاتے ہیں کہ ہم نے پڑھ رکھا ہے کہ دعوت قبول کرنا سنت ہے۔اب ہم اتنی میٹھی سنتوں پر بھی عمل نہ کریں توکڑی سنتوں پر کیسے عمل کرسکیں گے؟جہاں تک ہمارے دوست مسٹر کلین کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک تو ایسی دعوتوں میں جانا گویا ’’واجب‘‘ ہے۔ایک تو اس لیے کہ بقول ان کے ’’گناہ گار مسلمان‘‘ ہیں، اگر افطار پارٹیوں میں بھی نہیں جائیں گے تو لوگ کیسے یقین کریں گے کہ وہ بھی رمضان کا’’ احترام‘‘ کرتے ہیں۔موصوف اتنے بھی سیکولر اور لبرل نہیں ہیں کہ ’’مذہبی روایات‘‘ پر بالکل بھی عمل نہ کریں۔وہ اکثر دلاور فگار کے یہ اشعار گنگناتے پائے جاتے ہیں کہ؎
اگرچہ پورا مسلماںتو نہیں لکنت
میں اپنے دین سے رشتہ تو جوڑ سکتا ہوں
نماز و روزہ و حج و زکوۃ نہ سہی
شب برأت ، پٹاخے تو چھوڑ سکتاہوں
شب برأت میں پٹاخے چھوڑنے جیسی’’ مذہبی روایات‘‘ پر موصوف ہمیشہ جوش و خروش سے عمل کرتے ہیں۔ میٹھی عید کی سویاں، بکرا عید کے چٹخارے،عاشورہ کی حلیم اور شب برأت کے کھابے اور پٹاخے موصوف کی دل چسپیوں کا حصہ ہوتے ہیں۔، بچپن میں پٹاخے چھوڑنے جیسی ’’ مذہبی روایات‘‘ پر عمل کرنے کے نتیجے میں موصوف کو کئی بار مار بھی پڑی ،اب اگر کوئی مسٹر کلین کو’’ لامذہب ‘‘ہونے کا طعنہ دیتا ہے تو موصوف جواب میں بتاتے ہیں کہ ’’مذہب ‘‘کی خاطرانہوں نے جتنی مار کھائی ہے، اعتراض کرنے والوں نے کبھی نہیں کھائی ہوگی!
دوسری بات یہ ہے کہ رمضان میں عام طورپر سماجی زندگی کی روٹین تبدیل ہوجاتی ہے۔افطار پارٹی وہ واحد جگہ ہوتی ہے جہاں مسٹر کلین جیسے دانشور وں کو اپنی ’’دانش‘‘ کا منجن بےچن کا موقع ملتا ہے۔اس لیے وہ ایسے کسی موقع کو ضائع نہیں کرتے۔حکیم فقیر کی دعوت افطار میں ہم افطار سے کچھ دیر پہلے پہنچے تو بہت سے دوست احباب جمع تھے اور حسب توقع مسٹر کلین کی تقریر جاری تھی۔موصوف نے بات تو ’’روزہ اور ڈسپلن ‘‘ کے موضوع سے شروع کی تھی
تاہم تھوڑا سا آگے چل کر حسب عادت وہ مغرب کی مدح سرائی اور مسلمانوں کے سر پر خاک ڈالنے کی روش پر رواں ہوگئے۔موصوف کا کہنا تھا کہ مغرب والے اس لیے ہم سے آگے نکل گئے ہیں کہ وہ مشتعل مزاجی کی بجائے تحمل و برداشت، جذباتیت کی بجائے دلیل و منطق اور جانب دارانہ سوچ کی بجائے معروضیت پر یقین رکھتے ہیں۔وہ کسی خاص مذہب یا ملت کی بجائے انسانیت کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں، وہ چیزوں کو مخصوص زاویے سے دیکھنے کی بجائے میرٹ پر پرکھتے ہیں۔انہوں نے کچھ بین الاقوامی اصول بنارکھے ہیں جن پر وہ سختی سے عمل کرتے ہیں۔مسٹر کلین کا کہنا تھا کہ آج کی دنیا تہذیب کی دنیا ہے،آج مہذب اور منظم ابلاغ کاری کے ذریعے ہی اپنی بات منوائی جاسکتی ہے… مسٹرکلین کی یہ تقریر جاری تھی،ہم اس پر اپنی معروضات پیش کرنے کے لیے موصوف کی گفتگو میں کسی،وقفے،کومے یا سکتے کا انتظار ہی کر رہے تھے کہ اچانک ایک کونے سے ماسٹر مبین کی گرج دار آواز بلند ہوئی۔ماسٹر صاحب کے ہاتھ میں اس دن کا اخبار تھا، انہوں نے اخبار کا پہلا صفحہ پھیلادیا اور کہا: ’’جی ہاں! صحیح فرمارہے ہیں مسٹر کلین، آج کی دنیا تہذیب کی دنیا ہے، یہ اس مہذب دنیا کی آج کی تصویر ہے،اس میں فلسطینیوں کی یہ جلی کٹی لاشیں،بمباری سے بھسم کیے گئے یہ معصوم بچے، یہ تباہ شدہ مکانات،یہ آہ و زاری کرتی مائیں اور بہنیں،یہ سارے مناظر مسٹر کلین کے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں کہ مغرب والے بہت ہی مہذب، بہت انسان دوست اور بہت غیر جانب دار ہیں۔مغرب کی’’ غیر جانب داری‘‘ کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ امریکا اور مغربی ممالک نے اسرائیلی حملوں میں سو سے زائد فلسطینی مسلمانوں کی شہادت پر انہوں نے باقاعدہ ’’تشویش‘‘ کا اظہار کیا ہے، ساتھ ہی اسے اسرائیل کا’’ دفاع کا حق‘‘ بھی تسلیم کیا ہے۔‘‘ ماسٹر مبین نے کہا: ’’اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ مغرب والے واقعی بہت متحمل مزاج اورحقیقت پسند بھی ہیں۔سو سے زائد بے گناہ انسانوں کے قتل پر انہیں ذرا برابر بھی غصہ،شرم، حیا اور احساس نہیں ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے پہلے تین یہودیوں کے قتل پر امریکی صدر اوباما نے ذرا جذبات سے مغلوب ہوکر کہا تھا کہ میں ان کی ماوؤں کے دکھ کو محسوس کرتا ہوں۔فلسطینی بچوں کی شاید مائیں نہیں ہوتیں،اس لیے اوباما کو ایسا کوئی احساس نہیں ہوا۔ مغرب والے واقعی بہت مہذب ہوں گے، مگر میں انہیں مہذب انسان نہیں بلکہ مہذب درندے ہی کہہ سکتا ہوں جن کی سرپرستی اور ایماء پر اور جن کے فراہم کردہ ہتھیاروں سے اسرائیل فلسطین میں انسانیت کا قتل عام کر رہا ہے۔‘‘ ماسٹر مبین نے کہا: ’’آج ہٹلر کو اس لیے برا کہا جاتا ہے کہ اس نے یہودیوں کو مارا تھا،میں تو کہتا ہوں کہ وہ اس لیے برا تھا کہ اس نے ان یہودیوں کوزندہ کیوں چھوڑا۔
ہمیں اوباما سے، یہودیوں سے اور مغرب والوں سے گلا نہیں ہے، وہ وہی کر رہے ہیں جو وہ تاریخ کے ہر دور میں کرتے آئے ہیں،ہمارا خون تو ان لوگوں پر کھول اٹھتا ہے، جو اس کے باوجود یہاں بیٹھ کر ان ظالموں اور غاصبوں کی مدح سرائی کرتے ہیں۔‘‘ ماسٹر مبین یہ کہتے ہوئے تھوڑے سے جذباتی ہوگئے۔ دوسری طرف مسٹر کلین کے چہرے کی خشونت،یبوست اوروحشت میں ہزار فی صد اضافہ دیکھنے میں آرہاتھا، وکچھ کہنا بھی چاہ رہے تھے اور کہتے ہوئے گھبرا بھی رہے تھے۔اس سے پہلے کی بات آگے بڑھتی، حکیم فقیر حسین نے مداخلت کردی اورکہا کہ افطار کا وقت قریب ہے۔باقی گفتگو افطار اور نماز کے بعد کرتے ہیں۔افطار میں مسٹر کلین موجود تھے اور سموسوں اور پکوڑوں کے ساتھ انصاف کرتے دکھائی دے رہے تھے، تاہم نماز کے بعد دیکھا گیا تو موصوف شایدجلدی میں اپنے نئے جوتے چھوڑ کر اور ہمارے پرانے پھٹے جوتے پہن کر وہاں سے جاچکے تھے۔