قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟
تحریر یاسر محمد خان
’’جیمز روبنسن‘‘ اور ’’ڈیرک ایسی ایسی موگلیو‘‘ دو نوبل انعام یافتہ ماہرین معاشیات ہیں۔ انہوں نے 15 سال غریب اور امیر ملکوں پر تحقیق کی۔ اُن کی محنت کا ثمر ’’Why Nations Fail?‘‘ (قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟) کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ دونوں مصنفین نے دنیا کے طول و عرض میں سفر کیا۔ انہوں نے انسانی تاریخ کی گہرائیوں میں جاکر اُسے کھنگالا۔ وہ تباہ حال ملکوں میں گئے اور وہاں اپنے مشاہدات اور مطالعے کو وسعت دی۔ انہوں نے یونانی، رومن اور مایا تہذیب سے مثالیں اکھٹی کیں۔ لاطینی امریکا، سوویت یونین، برطانیہ، دوسرے یورپی ملکوں اور افریقی ملکوں کی معیشت پر عرق ریزی کی۔ یوں ایک ایسی کتاب وجود میں آئی جو تمام دنیا میں پذیرائی پاچکی ہے۔ کتاب کے آغاز میں مصر اور امریکا کا موازنہ دیا گیا ہے۔ مصر کا زرعی نظام بہت زیادہ مضبوط ہے۔ وہ ٹور ازم سے ڈھیروں ریونیو اکھٹا کرتا ہے۔ عوام پڑھے لکھے ہیں۔ اس کے باوجود ملک بہت غریب ہے۔ مصر میں سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے بصیرت اور لٹیرے حکمرانوں اور افسر شاہی نے ملک کو زوال کی کھائی کی طرف دھکیل دیا۔
ایک مثال سے اندازہ لگائیے۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے مصر میں ایک سافٹ ڈرنک لانچ کرنا تھی۔ حسنی مبارک نے اُس میں اپنا کمیشن فکس کرلیا۔ یوں مصر میں سرکاری دفتروں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں صرف اس سافٹ ڈرنک کو بیچنے کی اجازت دے دی گئی۔ مصر کی نجی کمپنیاں بھاری نقصان کے ساتھ بند ہونا شروع ہوگئیں۔
دوسری طرف امیر ملکوں میں حکومت کمپنیوں کو اوپن مارکیٹ دیتی ہے۔ کسی کی طرف داری نہیں کرتی۔ ہر کمپنی میدان میں مقابلہ کرتی ہے اور یوں ملکوں کی اکانومی رواں دواں رہتی ہے۔ شخص حکومتیں کیا ستم ڈھاتی ہیں؟ زمبابوے میں رابرٹ موگابے پچھلے تین عشروں سے ملکی اقتدار پر بزور قابض ہے۔ زمبابوے میں لاکھوں ڈالرز کی ایک لاٹری اسکیم شروع کی گئی۔ سالہاسال سے جب بھی انعام نکلتا تو پہلے انعام کا حق دار ملک بھر میں سے رابرٹ موگابے ہی قرار پاتا۔ جب ایک صحافی نے اُس سے اس بارے میں دریافت کیا تو اُس نے کندھے اُچکا کر کہا: ’’قدرت مجھ پر مہربان ہے۔ دیکھ لینا ہر سال لاٹری میں پہلا انعام میرا ہی نکلتا رہے گا۔‘‘
٭ ملک میں بھتہ خوری ایک صنعت کا درجہ پاگئی ہے۔ اغوا برائے تاوان کی پوری انڈسٹری قائم ہوگئی ہے۔ آپ رشوت اور سفارش سے یہاں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ٭ تعلیم اور علاج کے شعبوں میں خدمت خلق کی بجائے مال دولت سمیٹنے کی مشینیں لگادی گئی ہیں۔ ٭ ہماری سیاست کے افق پر جو بھونچال آئے ہوئے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ جو ملک طاقتور سسٹم کے تحت نہیں چلائے جاتے، اُن کی مثال بھیڑوں کے اُن غولوں جیسی ہے جنہیں کوئی بھی بھیڑیا آگے لگالیتا ہے۔ ٭
امریکا اور میکسیکو سرحدیں ملتی ہیں۔ ایسے علاقے بھی ہیں، جہاں گلی کے ایک طرف امریکا اور دوسری طرف میکسیکو والے بستے ہیں۔ یہ لوگ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے علاقوں کی آب و ہوا یکساں ہے۔ پھر بھی امریکی علاقے میں خوشحالی اور میکسیکن علاقے میں بدحالی دکھائی دیتی ہے۔ دونوں کے ہاں اس تفاوت کی وجہ وہ سسٹم ہے جو امریکا میں واقع کام کرتا دکھائی دیتا ہے، لیکن میکسیکو میں مافیاز مرکزی حکومت کی کرپشن اور ڈرگز کے دھندوں میں حکومتی اہلکاروں کے ملوث ہونے کی وجہ سے یہ ملک تیزی سے روبہ زوال ہے۔ ارجنٹائن کا سب سے بڑا شہر بیونس آئرس سمندر کے کنارے آباد ہے۔ یہاں کی آب و ہوا ہمارے کراچی سے ملتی جلتی ہے۔ بیونس آئرس کا مطلب ہی معطر اور عطر بیز ہوا ہے۔ اس شہر میں دنیا کے امیر ترین افراد بستے ہیں۔ یہا ںغربت بھی اس قدر ہے کہ سارے لاطینی امریکا کے ملکوں میں نہ ہوگی۔ ان بزنس مینوں کو حکومتی نوازشات نے قارون کے خزانے بخشے۔ ان میں سے ایک کھرب پتی نے اپنے بزنس کو امریکا میں پھیلانے کے لیے تگ و دو کی۔ وہاں وہ بری طرح ناکام رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بیونس آئرس میں وہ حکومتی عہدے داروں کو رشوتیں دے دے کر اپنے بزنس کو ترقی دیتا رہتا تھا۔ امریکا میں یہ سب دروازے بند دیکھ کر اُسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بل گیٹس امریکی سسٹم میں رہتے ہوئے دولت کماتا رہا، لیکن وہ 10 ڈالرز بھی اِدھر اُدھر نہ کرے گا۔ امریکا اور دوسرے امیر ملکوں میں بھی بے شمار لوگ دولت کمارہے ہیں۔ پر وہ یہ سب کچھ ایک طاقت ور سسٹم میں رہتے ہوئے کررہے ہیں۔ وہ ٹیکس چوری نہیں کرسکتے۔ وہ رشوت اور سفارش سے اپنے کام نہیں نکال سکتے۔ وہ جائز منافع کے علاوہ کچھ نہیں سمیٹ سکتے۔ اعلیٰ حکومتی عہدے دار بھی اُن کو کوئی ناجائز فیور نہیں دے سکتے۔ ان ملکوں کا جوڈیشل سسٹم اس قدر فعال ہے کہ وہ بڑے بڑے آدمی کو بھی جرم پر چھوٹا بنادیتا ہے۔ حکومتیں اپنا بزنس نہیں چلاتیں۔ افریقی ملکوں جیسے بوٹسوانا اور رونڈا میں سسٹم ٹھیک ہونے کی وجہ سے شرح غربت میں حیرت انگیز کمی آتی جارہی ہے۔ انہی ملکوں کے ہمسایوں میں کانگو، زمبابوے اور سری لیون میں بدترین غربت دیکھنے میں آرہی ہے۔ جنوبی کوریا اور شمالی کوریا دونوں کا ایک ہی نسل سے تعلق ہے۔ اس کے باوجود شمالی کوریا سخت پس ماندہ جبکہ جنوبی کوریا میں کوالٹی آف لائف امیر ملکوں جیسی ہے۔ بیسیویں صدی میں یورپی ملکوں سے آزادی حاصل کرنے والے ملکوں میں حالات لگ بھگ ایک جیسے تھے۔ 60 سال بعد ان میں سے بعض ملک تیزی سے ترقی کررہے ہیں اور کئی پہلے سے بھی برے حالات کا شکار ہوچکے ہیں۔ کتاب ’’قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟‘‘ کے اختتام پر مصنفین نے نچوڑ یہ نکالا ہے۔ کامیاب قومیں ضروری نہیں، بہت لمبے قد کاٹھ کی مالک ہوں۔ ان کا رنگ گورا ہو۔ اُن کا ملک سمندر کے کنارے واقع ہو۔ اُن کو قدرت نے کوئی مافوق الفطرت قوتیں ودیعت کی ہوں۔ اصل میں کامیاب اور امیر ملک ایک طاقتور سسٹم کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ یہ سسٹم وہاں غربت کا خاتمہ کردیتا ہے۔ رشوت ستانی اپنے آپ انجام تک پہنچ جاتی ہے۔ گڈ گورنس نعرہ نہیں، ایک حقیقت بن کر سب کے سامنے آجاتی ہے۔ حکومتیں اور اہلکار اپنا بزنس نہیں چلاسکتے۔ قدم قدم پر غیرقانونی دھندے کرنے والوں کے لیے جال بچھے ہوئے ہیں۔ وہ اُن سے بچ کر نہیں نکل سکتے۔ ایک سرکل ہے جس میں ہر فرد گھوم رہا ہے۔ اس پہیے کے گھومنے سے ترقی اور خوشحالی نکل کر معاشرے کے اندر دور تک پھیلے جارہی ہے۔
ان ملکوں میں سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں صرف سیاست کرتی ہیں۔ اُن کے سارے کارکن گلی محلے سے لے کر اعلیٰ ترین ایوانوں تک پہنچنے کے لیے محض ووٹ کے پابند ہیں۔ وہاں سیاسی پارٹیوں نے اپنے غیرقانونی ونگز نہیں بنائے ہوئے۔ یہ بھتہ خوری میں ملوث نہیں۔ یہ معاشرے میں مار دھاڑ نہیں کرسکتیں۔ یہ غیرقانونی طور پر زمینوں پر قبضہ نہیں کرسکتیں۔ یہ بدترین مجرموں اور قاتلوں کو پناہ نہیں دے سکتیں۔ کونسلر سے لے کر میئر اور میئر سے لے کر وزیر اعظم یا صدر تک کا سفر صرف ووٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ وہاں سیاسی مخالفین پر جبر اور دھونس نہیں جمائی جاسکتی۔ انہیں راستے سے ہٹانے کے لیے قاتلوں کو ہائر نہیں کیا جاسکتا۔ غرض ہر ترقی کرتے ملک میں آپ کو یہ قباحتیں نظر نہیں آئیں گی۔ شفاف پن ہر شعبۂ زندگی کا مرکزی دھارا بن گیا ہے۔
پاکستان کا شمار غریب ملکوں میں ہوتا ہے۔ یہاں بے رحم سسٹم کے نام پر ہر ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے جمہوری چہروں کے پیچھے نہایت دہشت ناک چہرے ہیں۔ ہر بڑی سیاسی پارٹی کی پشت پر مسلح جتھے ہیں۔ جمہوری چہرہ فصاحت و بلاغت کے موتی بکھیرتا ہے۔ شیطانی چہرہ مال دولت ہڑپنے اور مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے فرمان جاری کرتا ہے۔ ہماری جمہوریت اول تو جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کی گیم ہے۔ اس میں عام پاکستانی کے لیے کوئی فلاح کی خبر نہیں آتی۔ جہاں ہم غریب لوگوں کو اسمبلیوں میں پہنچانے والوں کے قول و فعل کا جائزہ لیتے ہیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ بھی جاگیرداروں کی سی ذہنیت کے مالک ہیں۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں بھتہ خوری ایک صنعت کا درجہ پاگئی ہے۔ اغوا برائے تاوان کی پوری انڈسٹری قائم ہوگئی ہے۔ آپ رشوت اور سفارش سے یہاں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ہمارے اقتدار کے سب ایوانوں میں اندھی طاقت کی پوجا کی جاتی ہے۔ قانون ظالم کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔ پولیس کا نظام غریب لوگوں کو پیس کر سرمہ بنادیتا ہے۔ امیروں کو سیلوٹ کرتا ہے۔ ہمارے کورٹ کچہریوں میں غریب غربا انصاف کے لیے مدتوں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ انہیں دھول کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ بڑے شہروں میں قتل و غارت گری ہے۔ زمیوں پر ناجائز قبضے ہیں۔ انڈسٹریوں نے فضائوں میں زہر گھول دیا ہے۔ تازہ ہوا اور پانی ندارد ہے۔ ہماری غذائوں میں بدترین ملاوٹ کی جاتی ہے۔ دوائیوں کی شکل میں پائوڈر بکتا ہے۔ کسان کو اُس کی محنت کا صلہ نہیں ملتا۔ مزدور کے ہاتھ چند سکوں کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ غریبوں کے لیے مہنگائی سے جنگ بدترین شکست بنتی جارہی ہے۔ بے روزگاری کا گراف ہر گزرتے ماہ و سال کے سال بڑھتا جارہا ہے۔ شرح غربت کے اعدادو شمار نہایت درجہ سنگین صورت حال اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ہمارے اربوں کھربوں پتی نہایت قلیل ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ حکومتیں غریبوں پر جی ڈی پی کے ثمرات اپرکلاس سمیٹ لیتی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے حکمرانوں کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ قرضوں کی سود سمیت ادائیگی کے لیے غریب اور متوسط طبقوں کو مزید نچوڑا جاتا ہے۔ میگا پراجیکٹس دولت کی کانیں بن گئی ہیں جہاں سے اربوں روپیہ اِدھر اُدھر کرلیا جاتا ہے۔ ہر کام کا کمیشن مقرر ہے۔ ملازمت سے لے کر کسی بھی جائز حق کے حصول کے لیے اس سرنگ سے گزرنا لازمی قرار پاگیا ہے۔ بیرون ملک تجارت کے تمام ثمرات حکمرانوں کی آل اولاد سمیٹے جارہی ہے۔ اُن کا بزنس کھربوں بنارہا ہے۔ دبئی اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ان لوگوں نے اربوں ڈالرز کے انبار لگائے ہوئے ہیں۔ تعلیم اور علاج کے شعبوں میں خدمت خلق کی بجائے مال دولت سمیٹنے کی مشینیں لگادی گئی ہیں۔ اناج اور سبزی کی منڈیوں میں کارٹل بنے ہوئے ہیں جن کا کام ناجائز منافع اکٹھا کرنا ہے۔ سارا ریاستی ڈھانچہ ڈائنو ساروں کی طرح کھڑا ہے، مگر اس میں حرکت، ہمدردی، صلہ رحمی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ قومی اسمبلی سے لے کر سینیٹ کے انتخابات روپے پیسے کا بے رحم کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ کار سرکار ایک ایسا بھیانک مذاق ہے کہ خون کے آنسو رلاتا ہے۔ ہمارے لیڈروں کے کردار کو دیکھ کر ایک کہانی یاد آتی ہے:
’’لبنانی فلسطینی خلیل جبران نے ’’ہوسِ اقتدار‘‘ کے عوان سے ایک افسانہ لکھا۔ اس کا مرکزی کردار ایک ایسا دیوقامت لیڈر تھا جس کا سر انسان کا اور پائوں لوہے کے بنے ہوئے تھے۔ اس کی خوراک یہ تھی کہ یہ مسلسل زمین کھاتا چباتا چلا جارہا تھا۔ پیاس بجھانے کے لیے یہ سمندر کے پانوں کو غٹاگٹ پیتا جاتا تھا۔ یہ جتنی زیادہ زمین کھاتا اتنی ہی اس کی بھوک بڑھتی جاتی۔ یہ جتنا زیادہ سمندر کو پیتا، اُتنی ہی اس کی پیاس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ اس نے بستیاں، قریے، گھر، محلے سب کترکتر کر کھالیے، پھر بھی یہ اور بھوکا ہوتا جارہا تھا۔ سمندر میں پانی کم ہوتا جاتا تھا، مگر اس کی پیاس نہیں بجھ رہی تھی۔ اس کے دل میں صرف ایک ہی بات کا ڈر تھا کہ اگر زمین ختم ہوگئی یا سمندر خشک ہوگیا تو وہ کیا کھائے پیئے گا۔ یہ خوف اُسے اور زیادہ زمین ہڑپنے اور سمندر کا شورابہ پینے پر مجبور کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ دیوقامت لیڈر اور زیادہ بھوکا اور پیاسا ہوتا گیا۔‘‘
ان دنوں چینلز اور اخبارات دیکھ کر مزید قوی احساس ہورہا ہے کہ ’’قومیں کیوں ناکام ہوجاتی ہیں؟‘‘ جیسی کتابیں ہمارے ہی بداعمال راہنمائوں کو ذہن میں رکھ کر لکھی گئی ہیں۔ خلیل جبرا نے بھی زمینیں کھانے اور سمندر پینے والے لیڈر کے بارے میں لکھتے ہوئے پاکستان کو ذہن میں رکھا ہوگا۔ ہماری سیاست کے افق پر جو بھونچال آئے ہوئے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ جو ملک طاقتور سسٹم کے تحت نہیں چلائے جاتے، اُن کی مثال بھیڑوں کے اُن غولوں جیسی ہے جنہیں کوئی بھی بھیڑیا آگے لگالیتا ہے۔ اُن سب کو اپنی اندھی ہوس کی قربان گاہوں تک لے جاتا ہے۔ ایسے بھیڑیوں کے دانت ہی دستور بن جاتے ہیں یا انصاف کے ترازو کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔