شکنجہ

شکنجہ
آپ نے ایسے بہت سے دانشور دیکھے، سنے اور بھگتے ہوںگے جو ٹی وی چینلوں پر دانش بانٹ یا اخبارات کے صفحات پر خرد کے موتی بکھیر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں خوش قسمتی سے ایک ایسا عظیم دانشور میسر ہے جو نائی کی دکان، قصائی کے تھڑے اور چھپر ہوٹل کی چارپائی پر بیٹھے اَن پڑھ مزدوروں، محنت کشوں اور دیہاڑی دار افراد کو بھی بین الاقوامی سیاست کے ’’اسرار ورموز‘‘ سکھاتا ہے۔ ان کے لیے فکر ونظر کے نئے نئے دریچے وا کرتا ہے۔ جی ہاں! آپ درست سمجھے۔ یہ ہمارے دوست مسٹر کلین ہیں جو عالمی سیاست خطے کے بدلتے ہوئے حالات اور ملکی صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہیں، مطالعہ کرتے ہیں اور ہر صبح اپنا’’ نتیجۂ فکر‘‘ لے کر گھر سے باہر آتے اور کہیں نہ کہیں کچہری لگاکر بیٹھ جاتے ہیں۔
موصوف شاعر تو نہیں ہیں۔ اگرچہ ایک زمانے میں جب ملک میں ’’ترقی پسند شاعری‘‘ کا غلغلہ ہوتا تھا۔ موصوف نے اردو شاعری کو اپنے کلام سے مالامال کرنے کے لیے بڑے جتن بھی کیے تھے۔ ایک عدد شعری مجموعہ مرتب کرکے اس پر ماسکو سے ’’دادِشاعری‘‘ حاصل کرنے کی کوشش بھی فرمائی تھی، مگر یہ دال گل نہ سکی۔ اس زمانے کے بڑے بڑے جغادری قسم کے شعرا نے شاید حسد کی بنا پر موصوف کے کلام کو’’ شاعری‘‘ ماننے سے انکار کردیا تھا جس پر وہ بڑے دل گرفتہ ہوئے اور شاعری کی دنیا ہی چھوڑ دی، مگر ان کا شاعرانہ مزاج نہیں گیا۔ اب جس طرح شاعر کو جب ’’آمد‘‘ ہوتی ہے تو اسے اس وقت تک

چین نہیں آتا جب تک وہ اپنا تازہ کلام آٹھ دس آدمیوں کو سنا نہ دے۔ بالکل اس طرح مسٹرکلین کو بھی جب کوئی ’’آئیڈیا‘‘ سوجھتا ہے تو وہ گھر سے نکلتے ہیں، قریبی چائے خانہ ان کی ’’شکارگاہ‘‘ ہوتی ہے جہاں بیٹھے لااُبالی نوجوان ان کا خاص نشانہ بنتے ہیں۔ وہاں کوئی نہ ہو تو نائی کی دکان میں تو ہر وقت آٹھ دس شکار دستیاب ہوتے ہیں۔
پرسوں ہم نائی کی دکان میں داڑھی کا خط بنوارہے تھے۔ اتنے میں مسٹر کلین بھی تشریف لائے۔ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے، کیونکہ ان کے ذہن میں جو تازہ آئیڈیا آیا ہوا تھا، اسے صرف ہمیں سناکر ہی وہ قلبی تسکین حاصل کرسکتے تھے۔ ہمیں سامنے لگے شیشے پر اپنا مخاطب بناتے ہوئے موصوف گویا ہوئے: ’’ملّاجی! اب آپ لوگ اپنی خیرمنائیں۔ آپ کو دونوں جانب سے گھیرنے کے انتظامات مکمل ہوگئے ہیں۔ ایک جانب کابل میں شمالی اتحاد کی حکومت آرہی ہے اور دوسری جانب دہلی میں نریندرمودی وزیراعظم بن گیا ہے۔ آپ ملّا لوگ جو زیادہ پھیلنے کی کوشش کررہے تھے اور افغانستان میں اتحادی افواج کی شکست کا جشن منانے والے تھے، اب شکنجے میں آچکے ہیں۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’دیکھیں! اس وقت تو ہم قینچی اور استرے کی زد میں ہیں،کچھ دیر میں فارغ ہوکر آپ کے ملفوظات پر کچھ عرض کرسکیںگے، آپ اپنے ارشادات جاری رکھیں۔‘‘ مسٹر کلین نے اپنی تقریر جاری رکھی۔ نائی کی دکان میں اپنی باری کا انتظار کرنے والے افراد اس تقریر سے اُکتاکر ایک ایک ہوکر کھسکنے لگے۔ حجام کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر تھے، مگر مسٹر کلین اس سے بے نیاز اپنے کام میں مگن تھے۔ ہم جیسے ہی فارغ ہوئے، مسٹر کلین کے پاس جاکر بیٹھ گئے۔
ان سے گزارش کی: ’’ہم جب سے پیدا ہوئے ہیں، باطل کے شکنجے ہمارا تعاقب کررہے ہیں، لیکن آپ تسلی رکھیں، ہم بڑے سخت جان ہیں۔ ہم شکنجے میں نہیں پھنستے، شکنجے ہمارے وجود میں آکر پھنس جاتے ہیں۔ آپ ہمارے صرف ایک سوال کا جواب دیں۔ آپ ایک لبرل وسیکولر دانشور کہلاتے ہیں، ہندوستان میں نریندرمودی کی جیت سیکولرازم کی موت ہے، مودی 2 ہزار سے زائد مسلمانوں کا اعلانیہ قاتل ہے۔ ہندودہشت گرد تنظیم آرایس ایس کا بنیادی رکن رہا ہے اور اس پر اسے کوئی ندامت نہیں۔ اب ایک ایسے شخص کے 126 ملین انسانوں کی سرزمین کے سیاہ وسفید کے مالک بن جانے پر
آپ کے دل میں لڈو کیوں پھوٹ رہے ہیں؟ آپ کے خیمے میں تو ایک ایک مذہبی انتہاء پسند کے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کے وزیر اعظم بن جانے پر ماتم بپا ہونا چاہیے؟‘‘
مسٹر کلین نے کہا: ’’لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ ہمارے خیال میں خطے میں پھیلی ’’طالبان انتہاپسندی‘‘ کا علاج مودی جیسا آدمی ہی کرسکتا ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’تو اس سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی نا کہ آپ لوگوں کا مسئلہ ’’مذہبی انتہاپسندی‘‘ نہیں، بلکہ اسلام ہے۔ دنیا میں کہیں اگر کوئی اسلامی جماعت جمہوری و آئینی جدوجہد کے ذریعے اقتدار میں آتی ہے تو اس کے خلاف واویلا شروع کردیا جاتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق غضب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ مذہبی منافرت پھیلنے کی باتیں کی جاتی ہیں، لیکن اگر ہندوستان جیسے ملک میں نریندر مودی جیسا اعلانیہ قاتل مسلمانوں کے خلاف اور پاکستان کے خلاف فطرت کی مہم چلاکر برسراقتدار آجاتا ہے تو اس پر کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آتی۔ اقوام متحدہ، امریکا، یورپی یونین اور دیگر مغربی اداروں کے پیٹ میں کوئی مروڑ نہیں اٹھتا، آخر یہ سب کیا ہے؟‘‘
مسٹر کلین ہماری اس بات کا جواب ڈھونڈھنے کے لیے ابھی سر کھجانے ہی لگے تھے کہ بتی چلی گئی۔ موصوف نے تقریر چھوڑ محکمۂ بجلی کو صلواتیں سنانی شروع کردیں۔ گریبان میں پھونک مارتے ہوئے باہر کی طرف چل دیے!

کم عمر افراد کے لیے
ہمارے دوست مسٹر کلین کو سماجی مسائل سے خصوصی دلچسپی ہے۔ اسی دلچسپی کے باعث موصوف این جی اوز کے لیے ’’ریسرچ ورک‘‘ کرتے رہے ہیں۔ خاص طور پر مذہبی نوعیت کے سماجی معاملات پر تو موصوف ’’اجتہادی شان‘‘ رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی ’’اجتہاد‘‘ کرتے ہوئے انہیں کوئی اُلجھن ہوجاتی ہے تو ہمیں بھی یاد فرمایا کرتے ہیں۔ گزشتہ روز موصوف ہمارے مسکین خانے تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں حسب معمول کاغذات اور اخبارات کا ایک پلندا سا تھا۔ گرمی کے باعث پسینے میں شرابور تھے۔ تشریف رکھنے کے ساتھ ہی فرمانے لگے: ’’ملاجی! مجھے ایک چیز کی سمجھ نہیں آئی۔ شادی کے لیے 18 سال کی عمر کی قید کا قانون پیش کیا گیا ہے تو آپ ملا لوگوں نے اس پر بھی آسمان سر پر اٹھالیا ہے۔ اگر ملک میں ایسا قانون بنتا ہے تو اس سے اسلام کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟‘‘
ہم نے زمینی پنکھے کا رُخ مسٹر موصوف کی طرف کردیا تاکہ وہ کچھ ’’ٹھنڈے‘‘ ہوجائیں۔ گزارش کی: ’’آپ کے اس سوال کا جواب بعد میں دیا جائے گا۔ پہلے آپ یہ وضاحت فرمائیے پاکستان میں 18 سال سے کم عمر میں شادی کا قانون لانے کا مقصد کیا ہے؟ یہ ایجنڈا کس کا ہے؟ کیا پاکستان میں کہیں بھی عوامی سطح پر کوئی مطالبہ سامنے آیا ہے کہ شادی کے لیے عمر مقرر کی جائے؟ کیا کسی سیاسی جماعت کے انتخابی منشور میں یہ بات شامل تھی کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد سب سے پہلے 18 سال سے کم عمر کی شادیوں پر پابندی لگائی جائے گی؟ اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو پھر یہ قانون کہاں سے آیا ہے؟ اس کا محرک کون ہے؟‘‘ مسٹر کلین اس بات پر تھوڑے سے بر افروختہ ہوگئے۔ کہا:

’’ایک تو آپ لوگوں میں یہ مصیبت ہے کہ جب بھی ہوا کا تازہ جھونکا چلتا ہے، آپ لوگوں کو اس میں بیرونی سازش کی بو محسوس ہوتی ہے۔ آپ لوگوں کی ناک میں یہ اتنا تیز ’’سینسر‘‘ کہا ں سے لگا ہوتا ہے؟ بھائی میرے! ہر چیز دُشمنوں کی سازش نہیں ہوتی۔‘‘
ہم نے عرض کیا: ’’دیکھیں! دیگر معاملات کو تو آپ ہماری سازشی حس کا کرشمہ سمجھ سکتے ہیں، جہاں تک 18 سال سے کم عمر میں شادی کے قانون کا تعلق ہے تو اس کو تو ’’حواسِ خمسہ‘‘ رکھنے والے ہر شخص کو پتا ہے کہ چند روز قبل برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ملکہ برطانیہ کے ’’سب سے بڑے وزیر‘‘ (برطانوی نو آبادیات میں ’’وزیراعظم‘‘ کا عہدہ شاہ بر طانیہ کے ماتحت حکومت کی علامت ہے) چند روز قبل یہ ’’فرمان‘‘ جاری کیا تھا کہ پاکستان میں نوعمری کی شادیاں قابل قبول نہیں ہیں۔ اب اس شاہی فرمان کے بعد کہاں گنجائش رہ جاتی ہے کہ غلام سرتابی کریں۔ یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے یہ قانون بر طانوی وزیر اعظم کے اس فرمان کی تعمیل میں بنا یا گیا ہے۔ ‘‘
’’چلیں چھوڑیں اس بات کو! آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں۔ پہلے آپ ایک سوال کا جواب دیں۔ کیا 18 سال کی عمر سے پہلے زنا کرنے پر سزا بھی ہونی چاہیے؟‘‘ مسٹر موصوف نے کہا: ’’دیکھیں! جو بھی غلط کام کرے، اس کو اس کی سزا ملنی چاہیے، مگر 18 سال سے کم عمر کے مجرم کو دیگر جرائم میں بھی کم سزا دی جاتی ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’بہت خوب! ایک 17 سالہ نوجوان اگر جائز طریقے سے شادی کرے گا تو یہ بڑاجرم ہوگا اور اگر زنا کرے گا تو وہ ’’معصوم‘‘ کہلائے گا؟‘‘ مسٹر کلین نے کہا: ’’دیکھیں! آپ بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ شادی ایک ذمہ داری ہے اور جب تک کوئی نوجوان ’’میچور‘‘ نہ ہو، شادی کے تقاضوں کی تکمیل نہیں کرسکتا۔‘‘ ہم نے عرض کیا:
’’بھائی! شادی بیاہ کا تعلق فطری امور سے ہے۔ ان امور کی حتمی تحدید خود فطرت نے نہیںکی۔ شادی کی فطری ضرورت کا تعلق عمر سے نہیں بلوغ سے ہے اور بلوغ حقیقی کی کوئی حتمی عمر متعین نہیں۔ اس میں مختلف جسمانی، طبعی، موسمی، علاقائی اور معروضی عوامل کے تحت فرق ہوسکتا ہے۔ کھانا انسان کی فطری ضرورت ہے، مگر انسان کس وقت کھائے؟ کتنا کھائے؟ کیا کھائے؟ اس کی کوئی تحدید نہیں ہے۔ ہر انسان اپنی ضرورت، خواہش، گنجائش اورطبعی افتاد کے مطابق کھاتا پیتا ہے۔ ہاں! حلال حرام اور جائز ناجائز کی تحدید شریعت کا تقاضا ہے۔ شریعت کا کوئی تقاضا فطرت کے بر خلاف نہیں ہوتا۔ شادی کی بھی یہی بات ہے۔‘‘
مسٹر کلین نے کہا: ’’اچھا ملاجی! آپ کھانے پینے کا صرف فلسفہ ہی بتائیں گے یا کچھ کھلانے پلانے کی عملی ’’تطبیق‘‘ کی صورت بھی نکالیں گے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’ضرور نکالیں گے، لیکن کھلانے اور خاص طور پر ’’پلانے‘‘ میں ہم مغرب کی بجائے شریعت کی تحدید پر ہی عمل کریں گے!‘‘ کچھ ہی دیر میں کھانے کے لیے سموسے اور پینے کے لیے چائے مسٹر کلین کی خدمت میںحاضر تھی!