شام سے سیکھنے کی باتیں
جاوید چوہدری منگل 31 اکتوبر 2017
دنیا میں سات بڑی اسلامی فوجی طاقتیں تھیں‘ ترکی‘ پاکستان‘ ایران‘ عراق‘ لیبیا‘ شام اور مصر۔ یہ ساتوں افواج اسرائیلی عزائم کے راستے میں رکاوٹ تھیں‘ یہودی روایات کے مطابق دنیا کا یہ فیز چھ ہزار سال پر مشتمل ہے‘ یہودی کیلنڈر 3766 قبل مسیح میں شروع ہوا‘ یہ اب تک 5778 سال پورے کر چکا ہے۔
یہودیوں کا خیال ہے قیامت کو صرف 222 سال باقی ہیں‘ یہودیوں نے ان برسوں میں بیت المقدس کی جگہ دوبارہ ہیکل سلیمانی بھی تعمیر کرنا ہے اور آخری جنگ بھی لڑنی ہے‘ یہ ہیکل سلیمانی کو ’’تھرڈ ٹمپل‘‘ بھی کہتے ہیں‘ روایات کے مطابق ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے بعد دجال آئے گا‘ یہ دنیا کی آخری عالمی جنگ چھیڑدے گا۔
عیسائی عقائد کے مطابق حضرت عیسیٰ دجال کو قتل کر دیں گے جب کہ اسلامی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ امام مہدی کے ساتھ مل کر اسے قتل کریں گے‘ یہ جنگ کے بعد مدینہ تشریف لے جائیں گے‘ 45 سال حیات رہیں گے‘ ان کے بعد حضرت معقد کی حکومت آئے گی۔ یہ 30 سال حکومت کریں گے‘ پھر سینوں سے اچانک قرآن اڑ جائے گا اور پھر دنیا کے اختتام کا سلسلہ شروع ہو جائے گا‘ یہودی عقائد کے مطابق ہیکل سلیمانی اگلے تیس سال کے اندر مکمل ہونا چاہیے‘ پچاس سال کے اندر دجال کو ظاہر ہونا چاہیے اور پھر ایک لمبی جنگ شروع ہو جانی چاہیے‘ یہودی‘ عیسائی اور مسلمان تینوں کے مطابق آخری جنگ کا میدان شام ہو گا۔
یہ جنگ ’’لد‘‘ کے مقام پر ہو گی اور ’’لد‘‘ شام میں واقع ہے‘ حضرت امام مہدی خراسان میں پیدا ہوں گے‘ جنگ کا ایک حصہ عراق اور ترکی میں بھی لڑا جائے گا اور ایک میدان بلوچستان میں بھی سجے گا‘ یہودی اس جنگ کی تیاری کر رہے ہیں‘ یہ جلد سے جلد یہ تمام علاقے اپنے قبضے میں لینا چاہتے ہیں‘ یہ ہیکل سلیمانی بھی بنانا چاہتے ہیں چنانچہ یہ مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگیں کھودتے چلے جا رہے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں یوں یہ مسجد کسی دن گر جائے گی اور یہ اس کی جگہ تھرڈ ٹمپل یا ہیکل سلیمانی تعمیر کر لیں گے۔
یہ اسلامی دنیا کی ساتوں افواج اور پاکستان کے ایٹم بم کو اپنے عزائم کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں‘ یہ اپنے اتحادیوں کے ذریعے ساتوں اسلامی افواج کو تباہ کرتے چلے جا رہے ہیں‘ عراق اپنی فوج کے ساتھ تباہ ہو گیا‘ لیبیا کی فوج بھی ختم ہو گئی‘ مصری فوج بتدریج کمزور ہوتی جا رہی ہے‘ ترک فوج بھی مشکل دور سے گزر رہی ہے‘ شام خانہ جنگی کا شکار ہے‘ یہ خانہ جنگی اس کی فوج کو کھا جائے گی‘ یہ پانچ سات برسوں میں اپنے دفاع کے لیے روس کا محتاج ہو جائے گا اور پیچھے رہ گئے ایران اور پاکستان ‘یہ دونوں اس وقت عالمی ٹارگٹ ہیں۔
یہ لوگ کوشش کر رہے ہیں پاکستان اور ایران بھی کسی نہ کسی طرح گلف کی جنگ کا حصہ بن جائیں‘ یہ لوگ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی ختم کرنا چاہتے ہیں‘ شام اسرائیل کی سرحد پر واقع ہے‘ یہ ایک مضبوط فوج کا مالک بھی تھا لہٰذا شام کو خانہ جنگی میں دھکیل دیا گیا چنانچہ مضبوط فوج شام کا پہلا گناہ‘ اس کا پہلا ایشو تھا۔
شام کا دوسرا ایشو گیس پائپ لائین تھا‘ روس یورپ کے لیے گیس کا سب سے بڑا سپلائر ہے‘ روسی پائپ لائین ترکی آتی ہے اور یہ ترکی سے یورپ میں داخل ہو جاتی ہے‘ قطرکے شمال مشرق میں 1971ء میں گیس کا دنیا کاسب سے بڑا ذخیرہ دریافت ہوا‘ قطر بھی یورپ کو گیس سپلائی کرنا چاہتا ہے‘ قطر کی پائپ لائین سعودی عرب ‘ اردن‘ شام اور ترکی سے یورپ جائے گی‘ امریکا اس معاملے میں قطر اور سعودی کے ساتھ کھڑا ہے‘ یہ یورپ کو قطری گیس سپلائی کر کے روس کی مناپلی بھی توڑنا چاہتا ہے اور اپنی گیس کمپنیوں کو بھی فائدہ پہنچانا چاہتا ہے‘ روس شامی صدر بشارالاسد کے قریب ہے۔
شامی صدر روس کی خواہش پر قطری پائپ لائین کو راستہ نہیں دے رہے تھے چنانچہ امریکا‘ سعودی عرب اور قطر نے بشارالاسد کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کر لیا اور یہ فیصلہ شام کی تباہی کا باعث بن گیا‘ شام میں بھاری ’’سرمایہ کاری‘‘ ہوئی‘ فوج کے اعلیٰ عہدیدار خریدے گئے‘ ریٹائر فوجی بھی اکٹھے کیے گئے‘ اپوزیشن کو بھی سرمایہ اور ہتھیار دیے گئے اور میڈیا بھی بشار الاسد کے خلاف کھڑا کر دیا گیا۔
امریکی اشارے پر اپوزیشن نے شام میں انسانی حقوق‘ مساوات اور آزادی رائے کی تحریکیں شروع کر دیں‘ اپوزیشن نے 15 مارچ 2011ء کو درعا شہر میں حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا‘ حکومت نے مظاہرہ روکنے کی کوشش کی‘ تصادم ہوا اور پورے ملک میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ فوج کے اندر سے ایک گروپ الگ ہوا اور اس نے ’’فری سیرین آرمی‘‘ کے نام سے اپنا گروپ بنا لیا‘ یہ گروپ حکومتی فورسز سے گتھم گتھا ہو گیا۔
امریکا نے ترکی کے ساتھ مل کر شام کی سرکاری فورسز پر حملہ کر دیا‘ سعودی عرب بھی میدان میں کود پڑا‘ یہ القاعدہ اور داعش کو شام لے آیا‘ کرد بھی اٹھ کھڑے ہوئے‘ امریکا نے ان کو بھی ہتھیار دے دیے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے شام میں خوفناک خانہ جنگی شروع ہو گئی‘ خانہ جنگی میں روس اور ایران بشار الاسد کے ساتھ کھڑے ہو گئے‘ ایران مقدس مقامات اور مزارات بچانے کے لیے بھی میدان میں آیا اور یہ ہم عقیدہ ہونے کی وجہ سے بھی بشار الاسد کی مدد کر رہا ہے جب کہ روس قطر کی پائپ لائین سے بچنے کے لیے شام کے ساتھ کھڑا ہے۔
ترکی نے شروع میں کھل کر امریکا اور سعودی عرب کا ساتھ دیا لیکن جب15 جولائی 2016ء کو طیب اردگان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی اور اس بغاوت کے ڈانڈے امریکا میں جا ملے تو یہ امریکا کی سازش بھی سمجھ گیا اور یہ اس سے دور بھی ہو گیا‘ ترکی اس وقت شام کی جنگ کو اپنی سرحدوں سے دور دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے‘ یہ بڑی حد تک بشار الاسد کی مدد بھی کر رہا ہے۔
شام تقریباً سات سال سے خانہ جنگی کا شکار ہے‘ یہ خانہ جنگی حلب‘ درعا‘ حمال‘ حمص‘ ادلب اور لداقیہ جیسے شہروں کو بھی نگل گئی اور اس نے پورے شام کے تارپور بھی ہلا دیے ہیں‘ حلب اور حمص دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں‘ یہ ثقافت‘ آرٹ اور آثار قدیمہ کے مراکز ہیں‘ حلب کو یونیسکو نے عالمی ورثہ بھی قرار دے رکھا ہے‘ دہشت گردوں نے یہ دونوں شہر تباہ کر دیے‘ حمص کی حالت بھی پتلی ہے‘ ادلب کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بن چکا ہے‘ رقہ شہر ملبے کا ڈھیر ہے اور لداقیہ اپنے ہی مزار کا چراغ بنتا جا رہا ہے‘ شام میں اس وقت سیکڑوں جتھے‘ گروپ اور لشکر برسرپیکار ہیں‘ القاعدہ النصر فرنٹ کے نام سے شیعہ کمیونٹی کو قتل کر رہی ہے‘ داعش سنی اور شیعہ دونوں کا قتل عام کر رہی ہے ۔
کرد قوم پرست سب کے ساتھ لڑ رہے ہیں‘ فری سیرین آرمی سرکاری فوج کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے‘ امریکا اور روس دونوں نے شام میں اپنے فوجی اڈے بنا رکھے ہیں‘ ترک فوجیں‘ ادلب‘ لداقیہ اور حلب تک پہنچ چکی ہیں جب کہ سعودی عرب نے اپنی سرحدوں کے ساتھ کیمپ بنا رکھے ہیں‘ یہ جنگی لشکروں کو سرمایہ بھی دے رہا ہے‘ ہتھیار بھی اور خوراک بھی لیکن شام خانہ جنگی کے باوجود تیزی سے سنبھل رہا ہے‘ ملک کے نوے فیصد شورش زدہ علاقے دوبارہ حکومت کے قبضے میں آ چکے ہیں‘ القاعدہ اور داعش شام سے افغانستان منتقل ہو رہی ہیں‘ یہ اب پاکستان اور ایران کو ٹارگٹ کریں گے۔
فری سیرین آرمی دم توڑتی جا رہی ہے اور کرد علیحدگی پسند بھی پسپائی اختیار کر رہے ہیں‘ شام کے بہتر ہوتے حالات دنیا بھر کے لیے حیران کن واقعہ ہے‘ امریکا اور اس کے اتحادی اس صورتحال سے پریشان ہیں‘ اسرائیل کے دکھ میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے شام نے یہ کامیابی کیسے حاصل کی؟ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ صدر بشار الاسد ہیں‘ یہ جنگ کے دوران دمشق میں ڈٹے رہے‘ یہ اور ان کا خاندان اس وقت بھی دمشق کی سڑکوں پر پھرتا رہا جب دہشت گرد دمشق کی پہاڑیوں تک پہنچ چکے تھے اور انھوں نے شہر کا پانی تک بند کر دیا تھا‘ بشار الاسد اس وقت بھی ملک سے باہر گئے اور نہ ہی انھوں نے اپنا خاندان باہر بھجوایا‘ یہ اگر ایک بار ملک سے باہر چلے جاتے تو آج شام چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا ہوتا ‘دمشق شہر پر اسرائیل کا جھنڈا لہرا رہا ہوتا۔
یہ اس شخص کی استقامت اور بہادری تھی جس نے شام کو بچا لیا‘ دوسرا حکومت نے جنگ کے زمانے میں بھی سرکاری نظام نہیں ٹوٹنے دیا‘ حکومت کے تمام محکمے بھی کام کرتے رہے اور ملک میں کسی چیز کی قلت بھی پیدا نہیں ہوئی جب کہ دوسری طرف باغیوں کے علاقوں میں قتل وغارت گری بھی ہوئی‘ آبروریزیاں بھی ہوئیں‘ قاضی عدالتیں بھی بنیں اور اشیائے صرف کی قلت بھی پیدا ہوئی چنانچہ لوگوں نے سوچا غاصب بشار الاسد ان نام نہاد انقلابیوں سے سو درجے بہتر ہیں اور یہ باغیوں سے کٹ کر حکومتی فورسز کے ساتھ شامل ہوتے چلے گئے اور یوں باغی ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔
ہم شام سے دو چیزیں سیکھ سکتے ہیں‘ میاں نواز شریف بشار الاسد بنیں‘ یہ خود بھی واپس آئیں اور اپنے خاندان کو بھی واپس لے کر آئیں‘ یہ اپنے مقدمات مردانہ وار فیس کریں‘ یہ جلد یا بدیر کامیاب ہو جائیں گے اور دوسرا وہ لوگ جنہوں نے عراق اور شام کو تباہ کر دیا وہ اب ہماری سرحد پر اکٹھے ہو رہے ہیں‘ یہ لوگ ہماری فوج اور ایٹمی پروگرام کو بھی تباہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ ملک میں شیعہ سنی جنگ بھی چھیڑنا چاہتے ہیں چنانچہ ہمیں چوکنا ہونا ہوگا ورنہ ہم دوسری صورت میں اٹھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔