زہر کی دیگ/ سامراجی طاقتوں کی خونی بساطیں

زہر کی دیگ/ سامراجی طاقتوں کی خونی بساطیں

تحریر یاسر محمد خان

’’اینگس ولسن‘‘ (Angus Wilson) بیسویں صدی کا ایک معروف امریکی ادیب تھا۔ اُس نے اپنی تحریروں میں مغربی کلچر کا پوسٹ مارٹم کیا۔ اُس کو قدرت نے ایک روشن ضمیر عطا کیا تھا۔ وہ مغربی چکاچوند سے ذرا برابر بھی متاثر نہ تھا۔ اُس نے انسانیت کو حیوانیت کی کند چھری سے ذبح ہوتے ہوئے دیکھا۔ اُس نے مجبور مخلوق کو یورپی درندگی کے ہاتھوں پامال ہونے کا گہرا مشاہدہ کیا۔ اُس کا سب سے زردار ناول ’’The Old Man at the Zoo‘‘ ہے۔ یہ 1961ء میں شائع ہوا۔ دنیا بھر کی زبانوں میں اس کا مہینوں میں ترجمہ ہوگیا۔ اس ناول کی کہانی ایک اٹامک وار کے گرد گھومتی ہے۔ یورپی درندے دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے ہیں۔ شہروں اور قصبوں کو ملبے کا ڈھیروں میں تبدیل کردیتے ہیں۔ عورتوں کو بیوا اور بچوں کو یتیم بنادیتے ہیں۔ بستی بستی، قریے قریے موت رقص کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ہر سمت آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ لاشوں کے ڈھیر اور زخمیوں کی کراہوں کے علاوہ کچھ دکھائی اور سنائی نہیں دیتا۔ لوگ گداگروں کی طرح کوڑے کے ڈھیروں سے رزق تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ زمین مردار خوروں کے لیے جنت بن جاتی ہے۔ قیامت کی سرانڈ کرئہ ارض کو اپنے حصار میں کس لیتی ہے۔ سفید فام وحشی پر سمت موت کے بیوپاری بنے گھومتے ہیں۔ ساری انسانیت اُن کے دیے زخموں سے نڈھال دکھائی دیتی ہے۔

ان سنگین ترین حالات میں امریکا کی انسداد بے رحمی حیوانات کی تنظیم چڑیا گھروں کے جانوروں کی جان بچانے کے لیے اپنے لامحدود وسائل حرکت میں لے آتی ہے۔ اس کے کارکن چڑیا گھروں کے گرد حصار کس لیتے ہیں۔ وہ انہیں بارود کی بو سے بچانے کے لیے سو سو جتن کرتے ہیں۔ اُن کی خوراک کے لیے بہترین گوشت مہیا کیا جاتا ہے۔ اُن کی صحت مندی کے لیے مختلف ٹیسٹ لیے جاتے ہیں۔ بیمار ہونے والے جانوروں کے لیے بہترین ویٹنری ڈاکٹر مہیا کیے جاتے ہیں۔ چڑیا گھروں کو سائونڈ پروف بنادیا جاتا ہے تاکہ جنگی دھمک جانوروں تک نہ پہنچ جائے۔ امریکی اور یورپی ماہرین حیوانات گاہے گاہے وہاں دورے کرتے ہیں۔ جانوروں کو ہر ممکن سہولت پہنچانے کے لیے تگ و دُو کرتے ہیں۔ معاہدے اور ایم او یوز سائن کیے جاتے ہیں کہ جنگ صرف انسانوں کو ضرر پہنچانے کے لیے ہے۔ حیوانات چونکہ بے قصور ہوتے ہیں، اس لیے اُن بے زبانوں کو جنگی شعلوں میں نہیں گھسٹنا چاہیے۔

٭ بلی کتوں کے حقوق کا پرچم بلند کرنے والوں نے حضرت انسان کے ساتھ جو کچھ کیا، یہ حالیہ رپورٹ اُس دیگ کا فقط ایک دانہ ہے۔ ٭ اکیسویں صدی کے ان ابتدائی سالوں میں امریکیوں نے مسلم دنیا میں ہر سمت حدنگاہ بربادی بکھیری ہے۔ گولہ بارود کی تہیں بچھائی ہیں۔ ٭ ہمارے راستوں میں سی آئی اے، موساد اور ’’را‘‘ نے بارودی خندقیں بچھارکھی ہیں۔ ہمیں اپنے اصل دُشمنوں کو پہچاننا ہوگا۔ ٭

ساری دنیا کے چڑیا گھروں کے باہر بچوں کے لاشے بکھرے پڑے ہوتے ہیں۔ خوراک کے لیے بھیک مانگتے گداگر نظر آتے ہیں۔ آخرکار کچھ مجبور مفلس بوڑھے چڑیا گھروں میں داخل ہوکر التجا کرتے ہیں کہ انہیں جانور ہی سمجھ لیا جائے اور یہاں سکونت اختیار کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے وہ جانوروں کا راتب بڑی خوشی سے کھانے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ امریکی ماہرین اُن کی التجائوں کو رَد کردیتے ہیں۔ انہیں چڑیا گھروں سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ انہیں ٹھڈوں اور مکوں سے باہر دھکیل دیا جاتا ہے۔ وہ باہر سڑکوں پر تڑپ تڑپ کر مرجاتے ہیں۔ لاکھوں انسانوں کے مرنے کے باوجود امریکی جشن مناتے ہیں کہ کرئہ ارض کے حیوانات کی تمام نسلیں محفوظ ہیں۔ سیمینار منعقد ہوتے ہیں۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برستے ہیں۔ ’’اینگس ولسن‘‘ ناول کے آخر میں بڑی دردمندی کے ساتھ سوال کرتا ہے: ’’آیا مغربی سفید فام لوگوں کے لیے انسان زیادہ قیمتی ہے یا حیوان؟ ایسی تہذیب جو انسانوں کو مارکر جانوروں کو بچائے، اُسے حیوانی تہذیب ہی کیا جاسکتا ہے۔

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اسی حیوانی تہذیب کی سب سے بڑی یادگار ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے مسمار ہوتے ہی اس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اذیتیں دے دے کر مارنا شروع کردیا۔ 8 کروڑ ڈالر صرف کرکے ایذا رسانی کے نت نئے طریقے سیکھے۔ گوانتاناموبے اور دوسری جیلوں میں قیدیوں کو ہفتوں نیند سے محروم رکھا گیا۔ انہیں پانی میں مسلسل غوطے دیے گئے۔ اُن کے زخموں کو نمک سے لبالب بھردیا گیا۔ پشت سے پیٹ میں خوراک ڈالنے کا ظالمانہ طریقہ استعمال کیا گیا۔ اُن کے ناخن اُکھاڑے گئے۔ انہیں چھوٹے چھوٹے پنجروں میں قید رکھا گیا۔ اُن کے کانوں کے پاس قیامت کا شور اُٹھانے والا میوزک بجایا گیا۔ انہیں بجلی کے کرنٹ لگائے گئے۔ اُن کی آنکھوں کے سامنے کلام پاک کی بے حرمتی کی جاتی رہی۔

امریکی سینیٹ کی کمیٹی نے 5 سالہ محنت کے بعد 60 لاکھ خفیہ کاغذات میں سے 485 ورق شائع کیے ہیں۔ ان اوراق میں جابجا کالی سیاہی بکھری ہوئی ہے۔ ظلم کی ناقابلِ بیان داستانیں چھپالی گئی ہیں۔ اوباما شرم کے مارے منہ چھپائے پھررہا ہے۔ سی آئی اے کا چیف ’’برینن ٹارچر‘‘ کے دفاع کے لیے بودی اور بے ہنگم دلیلوں کا پہار کھڑا کرتا رہا۔ سی آئی اے نے سینٹ پر دبائو بڑھائے رکھا کہ رپورٹ شائع نہ ہو۔ اسے مسلم دنیا میں ہلچل مچادینے والی دستاویز قرار دے کر اس کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کئی سال ہوتی رہیں۔ ڈیان فائن اسٹائن نامی سینیٹر نے اس کو میڈیا کے حوالے کیا۔ رپورٹ کے شائع ہوتے ہی امریکا سمیت دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی۔ امریکی سفارت خانوں کے گرد پہرا بڑھادیا گیا۔ امریکی میڈیا نے اس رپورٹ کو شرمناک قرار دیا۔ سی این این پر کئی دنوں مباحثہ ہوتا رہا۔ کریہہ شکل سی آئی اے ایجنٹ انسانیت سوز اذیت رسانی کے طریقوں کا دفاع کرتے رہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر سے مشتبہ افراد کو امریکی تحویل میں لیا گیا۔ دوران حراست کئی افراد اذیتیں سہہ نہ پائے اور فوت ہوگئے۔

پاکستان نے نائن الیون کے بعد اس قیامت کو جھیلا ہے۔ ہر داڑھی والے کو مشکوک سمجھا جانے لگا۔ پاکستان میں سی آئی اے نے ذیلی دفاتر قائم کرلیے۔ ایذارسانی کے سارے حربے آزمائے جانے لگے۔ قیدی بگرام اور گوانتاناموبے کے عقوبت خانوں کی سمت پرواز کرنے لگے۔ ہمارا قانون، ہماری پولیس، ہمارا سارا عدالتی نظام بے بسی کی تصویر بن گیا۔ ملک کے گلی کوچوں میں امریکی خفیہ ایجنٹ بے مہار بیلوں کی طرح دوڑے پھرنے لگے۔ امریکی پاگل کتوں کے کاٹنے پر ہم بائولہ پن کا شکار ہوگئے۔ ہم پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف قرضوں کا ہن پھینکنا شروع ہوگیا۔ یورپی جادوگروں کے ہاتھوں میں ہماری دستار گیند کی صورت ہوا میں اُچھلنے لگی۔ بے حمیتی، بے غیرتی، ملت فروشی کو Enlightened Moderationکا نعرہ بنادیا گیا۔ 2001ء سے شروع ہونے والا پاگل پن کا دورہ پوری ایک دہائی پر محیط ہوگیا۔ اس دوران ہزاروں بے گناہ پاکستانی سی آئی اے کی رتھ کے تلے کچلے گئے۔ اُن کا وجود معدوم ہوکر رہ گیا۔ اُن کی لاشوں کا کیا بنا؟ اُن کا مرقد کس گلی کوچے میں ہے؟ اُن کو کفن بھی نصیب ہوا کہ نہیں؟ کسی کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں۔ ہم اسی پالیسی کی فصل آج کاٹ رہے ہیں۔ ہمارا انصاف تو بے اولاد ہی مرگیا، البتہ ظلم نے بچے چن چن کر ہمارے گلی کوچے بھردیے ہیں۔ بدی کا پہیہ گھوم کر ظالموں کے سروں پہ آن بجا ہے۔

آپ نے مغربی ذرائع ابلاغ پر ایک اصطلاح ضرور سنی ہوگی۔ ہر یورپی White Man’s Burden کا ذکر کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ طوہاً و کرہاً سفید فاموں کو دنیا کو مہذب بنانے کا بوجھ اُٹھانا ہی پڑے گا۔ کندھے اُچکاکر چہروں پہ بے نیازی طاری کیے یہ بدطینت مخلوق ساری انسانیت کی تہذیب و ترقی کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے۔ یہ لوگ جو بظاہر سروں پہ دھوپ کی گٹھڑی اُٹھائے پھررہے ہیں، ان کے دلوں میں شمشان کی راتوں جتنا اندھیرا ہے۔ بلی کتوں کے حقوق کا پرچم بلند کرنے والوں نے حضرت انسان کے ساتھ جو کچھ کیا، یہ حالیہ رپورٹ اُس دیگ کا فقط ایک دانہ ہے۔ یہ ساری کی ساری دیگ زہرِ ہلاہل سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں جلی ہوئی ہڈیوں کی راکھ ہے۔ زخموں کی رَستی ہوئی پیپ ہے۔ انسانی گودے کا شوربہ ہے۔ لہو کی رنگ سے یہ سارے کی ساری لال ہے۔

امریکی جنگی الائو نے اس دیگ کو پکایا ہے اور اب پھر فرمان یہی ہے کہ اگر تہذیب یافتہ کہلانا ہے، اکیسویں صدی کا باشعور انسان ہونے کا خطاب پانا ہے تو امریکی بائولوں کا تیار کردہ یہ تہذیبی پکوان ضرور چکھا جائے۔ اکیسویں صدی کے ان ابتدائی سالوں میں امریکیوں نے مسلم دنیا میں ہر سمت حدنگاہ بربادی بکھیری ہے۔ گولہ بارود کی تہیں بچھائی ہیں۔ ڈرون حملوں سے پتہ نہیں کتنے بے گناہوں کا خون کیا ہے؟ پاکستانی لیڈر شپ کو وقت کی اس گہری ہوتی ہوئی دھند میں اپنے اصلی دُشمنوں کو پہچاننا ہوگا۔ ہمارے راستوں میں سی آئی اے، موساد اور ’’را‘‘ نے بارودی خندقیں بچھارکھی ہیں۔ ہمیں خود کو جاننے کے علاوہ اپنے اصل دُشمن کو بھی پوری طرح پہچاننا ہوگا۔ اس بھیانک اندھیرے میں عقل و خرد کی شمعیں روشن کرنا ہوں گی۔