دیوار مہربانی، میزبان فریج

دیوار مہربانی، میزبان فریج
جاوید چوہدری  منگل 23 فروری 2016

وہ کون تھا، اس کا نام کیا تھا اور وہ کہاں کا رہنے والا تھا، دنیا نہیں جانتی لیکن اس کے ایک فیصلے نے کروڑوں لوگوں کی سوچ بدل دی اور سوچ بدلنے کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا، یہ دریا ابھی بہہ رہا ہے! اس اجنبی نے کیا کیا؟ اس نے شہر کی دیوار پر کھونٹیاں لگائیں۔
ان پر اپنے فالتو کپڑے لٹکائے، دیوار پر جلی حروف میں ’’دیوار مہربانی‘‘ لکھا، اس کے نیچے یہ دوفقرے لکھے اور غائب ہو گیا ’’اگر آپ کو ضرورت نہیں تو آپ یہاں لٹکا جائیے اور اگر آپ کو ضرورت ہے تو آپ یہاں سے اتار لیجیے،، ان دو فقروں، ان آدھ درجن کھونٹیوں اور دیوار پر درج اس ’’دیوار مہربانی‘‘ نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، یہ ’’دیوار مہربانی‘‘ اب وائرس کی طرح پوری دنیا میں پھیل رہی ہے، آپ کو آج صرف دو ماہ میں یہ ’’دیوار مہربانی‘‘ دنیا کے مختلف ملکوں میں نظر آ رہی ہے، ماہرین کا خیال ہے، یہ تصور ایک برس میں آدھی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور یوں یہ دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والی روایت بن جائے گا۔
یہ تصور ہے کیا اور یہ کیوں پھیلا، ہم اس طرف جانے سے پہلے ایک جغرافیائی حقیقت جانتے ہیں، بلوچستان کا ایک حصہ افغانستان اور دوسرا ایران سے جڑا ہوا ہے، یہ دو سرحدیں صرف زمینی سرحدیں نہیں ہیں، یہ موسمیاتی باؤنڈریز بھی ہیں، یہاں سے سرد موسم شروع ہوتا ہے اور آپ جوں جوں بلوچستان سے دور ہوتے جاتے ہیں، سردی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، یہ سردی ایران اور افغانستان سے سینٹرل ایشیا میں داخل ہوتی ہے، یہ وہاں پہنچ کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔

ایک لہر روس سے ہوتی ہوئی سائبیریا پہنچتی ہے، وہاں سے قطبین میں داخل ہوتی ہے اور آخر میں برفوں میں دفن ہو جاتی ہے، دوسری لہر ترکی سے ہوتی ہوئی یورپ میں داخل ہو جاتی ہے اور یہ 28 ملکوں سے ہوتی ہوئی اسپین پہنچ کر دم توڑ دیتی ہے، اسپین سے گرمی شروع ہو جاتی ہے، یہ گرمی مراکش میں داخل ہوتی ہے اور پورے افریقہ کو دوزخ بناتی ہوئی عرب ملکوں تک پہنچتی ہے اور وہاں سے لاطینی امریکا کی طرف نکل جاتی ہے، گرمی اور سردی کی یہ لہریں سورج کے ساتھ ساتھ کرہ ارض پر دوڑتی بھاگتی رہتی ہیں، یہ کیسے اٹھتی ہیں، یہ کیسے سفر کرتی ہیں اور ان کا ہمارے شمسی نظام کے ساتھ کیا تعلق ہے۔
یہ ہمارا موضوع نہیں، ہمارا موضوع دیوار مہربانی ہے، ہم اس طرف آتے ہیں، یہ دیوار مہربانی ایران کے سرد علاقے میں پیدا ہوئی، ایران کے شمال مشرقی اور مغربی صوبے سردیوں میں شدید سرد ہو جاتے ہیں، مشہد اسی ’’ٹھنڈی بیلٹ‘‘ میں واقع ہے، 2015ء کے دسمبر میں مشہد کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے تھا، زندگی جمنا شروع ہو گئی، سردی کے اس شدید موسم میں کسی شخص نے غریبوں کو کپکپاتے دیکھا تو اس کے ذہن میں اچھوتا آئیڈیا آیا، وہ ایک رات پینٹ کا ڈبہ، برش، کھونٹیاں اور گھر بھر کے فالتو کپڑے لے کر شہر کی مرکزی شاہراہ ’’سجاد بلیوارڈ‘‘ چلا گیا، اس نے دیوار پینٹ کی، اس پر کھونٹیاں لگائیں۔
اپنے فالتو گرم کپڑے ان پر لٹکائے، دیوار پر ’’دیوار مہربانی‘‘ لکھا، اس کے نیچے دو فقرے لکھے اور پینٹ اور برش لے کر غائب ہو گیا، صبح جب شہر جاگا تو اس آئیڈیا نے تمام شہریوں کو حیران کر دیا، لوگ گھر گئے، اپنے فالتو کپڑے نکالے اور آ کر چپ چاپ کھونٹیوں پر لٹکا دیے، ضرورت مند آئے، اپنے ماپ کے کپڑے اتارے، پہنے اور چلے گئے، یہ دیوار چند دنوں میں مخیر حضرات اور ضرورت مندوں کی عبادت گاہ بن گئی، مشہد کے لوگ دن میں کم از کم ایک بار اس دیوار پر ضرور آتے تھے، نوجوانوں نے دیوار کی تصویریں بنائیں اور سوشل میڈیا پر چڑھا دیں۔
یہ آئیڈیا سوشل میڈیا پر پاپولر ہو گیا، عوام نے شہر کی دوسری گلیوں اور سڑکوں پر بھی دیوار مہربانی بنا دیں، یہ دیوار ایک ہفتے میں مشہد سے نکلی اور پورے ایران میں پھیل گئی، دسمبر کے آخر میں تہران میں ’’دیوار مہربانی‘‘ بنی اور تہران کے لوگ بھی دیوار پر کپڑے، جیکٹیں، کمبل اور جوتے لٹکانے لگے اور تہران کے ضرورت مند بھی دیوار مہربانی کی مہربانی سے اپنی ضرورتیں پوری کرنے لگے، یہ آئیڈیا سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھتے ہی دیکھتے سینٹرل ایشیا اور مشرقی یورپ تک پھیل گیا، مشرقی یورپ میں اس وقت شامی پناہ گزینوں کی یلغار جاری تھی، یورپ کے لوگوں کو بھی یہ آئیڈیا پسند آ گیا، انھوں نے بھی ان تمام سڑکوں پر دیوار مہربانی بنانا شروع کر دیں جہاں سے شامی مہاجرین کے قافلے گزرتے تھے، یورپی میڈیا نے ان دیواروں کی تصاویر نشر کرنا شروع کر دیں اور یوں یہ آئیڈیا گلوبل ہو گیا۔
پاکستان میں بڑی تعداد میں اہل تشیع رہتے ہیں، مشہد ان کی نظروں میں مقدس شہر ہے، دسمبر میں چند زائرین مشہد سے کراچی واپس آئے، انھوں نے اپنی آنکھوں سے مشہد میں دیوار مہربانی دیکھی تھی، یہ لوگ اس آئیڈیا سے متاثر تھے چنانچہ انھوں نے کراچی کی چند دیواروں پر دیوار مہربانی لکھا اور وہاں فالتو کپڑے لٹکا دیے، کراچی شہر میں سردی نہیں پڑتی چنانچہ اس آئیڈیا کو یہاں زیادہ پذیرائی نہ ملی لیکن یہ آئیڈیا جب لاہور، سیالکوٹ، راولپنڈی، کوئٹہ اور پشاور پہنچا، جب ان شہروں میں ’’دیوار مہربانی‘‘ بنیں اور جب لوگوں نے ان پر اپنے سویٹر، جیکٹیں، چادریں، کوٹ، جرابیں، لانگ شوز اور مفلر لٹکانا شروع کیے تو اس آئیڈیا کو پر لگ گئے، یہ آئیڈیا کتنا موثر ہے، آپ اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجیے۔
پشاور میں جنوری میں پہلی بار دیوار مہربانی بنی، اس دیوار پر پہلے دو دن ہزار لوگوں نے گرم کپڑے لٹکائے اور اتنی ہی تعداد میں ضرور مندوں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا، یہ آئیڈیا اب پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے، اخبارات میں روزانہ کسی نہ کسی دیوار مہربانی کی تصویر شایع ہوتی ہے اور عوام کھونٹیوں پر لٹکے لباس اور ان میں سے اپنے ماپ کے کپڑے تلاش کرتے ضرورت مندوں کی تصویریں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور اس عظیم مشہدی انسان کے لیے دعا کرتے ہیں جس نے دنیا کو دیوار مہربانی کا آئیڈیا دیا۔
یہ ایران کا پہلا آئیڈیا نہیں جس نے تیزی سے دنیا کے دروازے پر دستک دی، اس سے قبل ایران سے فریج کا آئیڈیا بھی نکلا تھا، تہران کے کسی صاحب نے اپنی دکان کے سامنے ایک فریج رکھا اور اس فریج کے دروازے پر لکھ دیا ’’آپ اگر بھوکے ہیں تو آپ اس فریج سے اپنی مرضی کی چیز نکال کر کھا لیں،، یہ آئیڈیا بھی کامیاب ہو گیا، لوگوں نے اپنے گھروں اور دکانوں کے سامنے فریج رکھنا شروع کر دیے، لوگ زائد کھانا ان فریجوں میں رکھ جاتے تھے، ضرورت مند آتے تھے، فریج کھولتے تھے اور اپنی ضرورت کے مطابق کھانا لے لیتے تھے، تہران کے بعد یہ فریج ایران کے باقی شہروں میں بھی رکھے جانے لگے، یہ آئیڈیا بھی سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا میں پھیل گیا، آپ کو آج یہ فریج بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں نظر آتے ہیں، یہ دونوں آئیڈیاز شاندار ہیں۔
ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں، اس میں 85 کروڑ لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں، یہ لوگ ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ بھوکے ایشیا میں رہتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق ایشیا کی ایک تہائی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، آپ اگر صرف بچوں کے اعداد و شمار دیکھ لیں تو آپ پریشان ہو جائیں گے، دنیا میں ساڑھے چھ کروڑ بچے روزانہ بھوکے پیٹ اسکول جاتے ہیں، ان میں سے دو کروڑ 30 لاکھ بچے افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں، یہ تصویر کی ایک سائیڈ ہے جب کہ دوسری طرف دنیا میں روزانہ ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک ضایع ہوتی ہے۔
یہ کل خوراک کا ایک تہائی حصہ بنتا ہے، ہم اگر اس خوراک کو رقم میں تبدیل کریں تو ترقی یافتہ ممالک کے عوام سالانہ 680 ارب ڈالر اور ترقی پذیر ملکوں کے لوگ 310 ارب ڈالر کی خوراک ضایع کرتے ہیں، ضایع ہونے والی خوراک کا بڑا حصہ پھلوں، سبزیوں، گوشت، مچھلی، ڈیری مصنوعات اور اناج پر مشتمل ہوتا ہے، یہ ملک اگر اپنا فالتو کھانا کوڑے کے ڈھیروں پر پھینکنے کے بجائے یہ خوراک بھوک سے بلبلاتے اور مرتے لوگوں تک پہنچا دیں تو دنیا کی شکل بدل جائے گی۔
انسان، انسان کے قریب آ جائے گا مگر ہم لوگ اپنی فالتو خوراک ڈسٹ بینوں میں پھینک دیں گے، ہمارے فالتو کھانے سے ہمارے گٹر بند ہو جائیں گے لیکن ہمیں اپنے ہمسائے میں بھوک کا بھنگڑا دکھائی نہیں دے گا، آپ ذرا سوچئے، ہم اپنے گھر کے سامنے ایک پرانا فریج رکھ کر بھوک کے خلاف کتنا بڑا جہاد کر سکتے ہیں؟ کپڑوں کے معاملے میں بھی یہی صورتحال ہے، ہماری وارڈروبز بھری رہتی ہیں۔
ہم سال بھر درجنوں سوٹس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے، ہمارے پاس ایسے درجنوں جوتے بھی ہوتے ہیں جنھیں سال میں ایک بار بھی ہمارے پاؤں نصیب نہیں ہوتے لیکن ہم اس کے باوجود ان جوتوں اور ان کپڑوں کو اپنے آپ سے جدا نہیں کرتے، ہمارے کپڑے، ہمارے جوتے خواہ الماری میں سڑ جائیں لیکن ہم کسی کو دیں گے نہیں!ہمارے اسٹوروں میں گرم چادریں، کمبل، گدے اور تکیے سڑتے رہ جائیں گے، ہم گھر سے نکلنے سے پہلے یہ سوچتے رہیں گے،ہم آج کون سا سویٹر پہنیں لیکن ہمیں ہمسائے میں پڑے وہ لوگ نظر نہیں آئیں گے جو پوری رات کپکپا کر گزارتے ہیں۔
جن کے پاس سردیاں گزارنے کے لیے کوٹ ہوتے ہیں، جیکٹیں اور نہ ہی رضائیاں اور کمبل۔ ہم زیادہ نہیں کر سکتے، نہ کریں لیکن ہم اپنی گلی میں دیوار مہربانی تو بنا سکتے ہیں، ہم اپنے تمام فالتو کپڑے دھو کر اور استری کر کے اس دیوار مہربانی پر لٹکا تو سکتے ہیں، ہم اسی طرح اپنی گلی میں میزبان فریج بھی رکھ سکتے ہیں تا کہ ہماری گلی کے لوگ اپنی فالتو خوراک اس فریج میں رکھ دیں اور ضرورت مند گزرتے گزرتے یہ خوراک نکال کر کھا لیں، کیا یہ بھی ممکن نہیں، کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے؟ ہم اسی طرح غریب بستیوں کے اسکولوں اور اسپتالوں میں بھی میزبان فریج اور دیوار مہربانی بنا سکتے ہیں تا کہ لوگ وہاں اپنی زائد ادویات بھی چھوڑ جائیں، خوراک بھی اور کپڑے بھی اور یہ تمام چیزیں بعد ازاں ضرورت مند مریضوں اور ان کے لواحقین کے کام آ جائیں،کیا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے؟۔
میں نے ملک میں فلاح و بہبود کے درجنوں بڑے ادارے دیکھے ہیں، ان میں کراچی کا سیلانی ٹرسٹ ابتدائی نمبروں میں آتا ہے، مولانا بشیر قادری اس ٹرسٹ کے روح رواں ہیں، یہ ٹرسٹ ہر سال فلاح پر اربوں روپے خرچ کرتا ہے، میرا خیال ہے، اگر سیلانی ٹرسٹ دیوار مہربانی اور میزبان فریج کا یہ آئیڈیا گود لے لے تو یہ لوگ یہ کار خیر پورے ملک میں پھیلا سکتے ہیں، یہ شاندار آئیڈیا ہے اور یہ شاندار آئیڈیا اپنے جیسے شاندار لوگوں کا انتظار کر رہا ہے، ایسے شاندار لوگوں کا انتظار جو ان شاندار آئیڈیاز کو ملک کے شاندار لوگوں تک پہنچا دیں اور سیلانی ٹرسٹ کے لوگ ایسے ہی شاندار لوگ ہیں۔