دوستی کا سفر

دوستی کا سفر

تحریر یاسر محمد خان

’’رابرٹ گرنیئر‘‘ 2001ء میں سی آئی اے کا پاکستان میں اسٹیشن کمانڈر تھا۔ افغانستان پر امریکی حملے کے دوران اُس نے اپنے ملک کے لیے خدمات انجام دیں۔ حال ہی میں اُس کی ایک کتاب ’’88 Days to Kandahar‘‘ شائع ہوئی ہے۔ کتاب کا آغاز اُن امریکی سازشوں سے ہوتا ہے جن سے طالبان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوششیں کی گئیں۔ امریکی ان سازشوں میں کامیاب نہ ہوسکے۔ کتاب کے آخر میں گرنیئر ان نتیجے پر پہنچتا ہے کہ افغانستان پر عسکری حملہ ناکام ہوچکا ہے۔ امریکا من چاہے رزلٹ حاصل نہیں کرپایا۔ اب اُسے میدانِ جنگ میں ناکامی کو مذاکرات کے ذریعے کامیابی میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ یوں امریکا نے جون 2013ء میں دوحہ قطر میں طالبان سے مذاکرات کا براہِ راست آغاز کیا۔ کرزئی اس طرح کی ہر بات چیت کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔ اُس نے اس بیل کو منڈھے چڑھنے نہیں دیا۔ یوں یہ مذاکرات ناکام رہے۔ 2014ء میں امریکی افواج کی تعداد افغانستان میں کم ہوکر 10 ہزار رہ گئی۔ 2015ء میں اس میں مزید کمی ہوگی اور یہ 5500 رہ جائے گی۔ 2016ء میں اوباما کی رخصتی کے وقت ایک ہزار امریکی فوجی افغانستان میں مقیم ہوں گے۔ 2014ء میں امریکی فوجی دستوں اور افغان سیکورٹی فورسز پر طالبان حملوں میں 22 گنا اضافہ ہوگیا ہے، اس لیے افغان صدر اشرف غنی نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا قیام بڑھائے ورنہ اس کا اقتدار سمٹ جائے گا۔ نئے امریکی وزیر دفاع اور پنٹاگون چیف ایش کارٹر نے بغیر پیشگی اعلان کے افغانستان کا دورہ کیا ہے۔ اُس نے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے طویل ملاقاتیں کی ہیں۔ اسی دوران دوحہ قطر میں طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات دوبارہ شروع کردیے گئے ہیں۔ مذاکرات کا پہلا دور 19 اور 20 فروری کو 5 رکنی طالبان وفد کے ساتھ ہوچکا ہے۔

٭ امریکی شدید خواہش مند ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی کا تاج اپنے سر پہ رکھ لیں۔ میدانِ جنگ میں شکست کو ٹیبل ٹاک کے ذریعے جیت لیا جائے۔ ٭ افغانستان میں امن ہوتا ہے تو اس کے مثبت اثرات تمام خطے پر پڑیں گے۔ پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین وطن واپس لوٹ سکیں گے۔ ٭

ہمارے آرمی چیف نے کابل کے دورے کے دوران افغان حکومت کو اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی۔ چین نے بھی قیامِ امن کے لیے حکومت اور طالبان کے درمیان فاصلے کم کرنے کے لیے انتہائی مثبت رول ادا کیا ہے۔ طالبان وفد نومبر میں بیجنگ کا دورہ کرچکا ہے۔ طالبان نے امریکا کی بجائے چین کو قابل بھروسہ قرار دیا ہے۔ یوں افغان طالبان نے وسعتِ نظر اور عمیق دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکی نیشنل سیکورٹی کونسل کی ترجمان برناڈیٹ میھان نے جاری ساری مصالحتی کوششوں کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ افغانستان میں امریکا کے اعلیٰ کمانڈر جنرل جان کیمبل اور سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل آسٹن نے بھی افغان حکومت کی جاری تمام امن کوششوں کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا ہے۔ اُدھر امریکا میں وہائٹ ہائوس کی زیر صدارت ایک بڑی دلچسپ کانفرنس ہوئی ہے۔ اس میں اقوام متحدہ، یورپی یونین، آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس سمیت دنیا کے 60 ملکوں کے نمایندے شریک ہوئے۔ اسے ’’عالمی امن کانفرنس‘‘ کا نام دیا گیا۔ اختتام پر ایک اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اُس میں کہا گیا: ’’عالمی سطح پر دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو کسی مذہب، قومیت اور تہذیب سے منسوب نہ کیا جائے۔‘‘ امریکی مندوب کا ستم ظریفانہ بیان ملاحظہ ہو: ’’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ غیرریاستی عسکریت اور دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے فقط ملٹری فورس کا استعمال اور انٹیلی جنس اطلاعات اکھٹی کرنا اور اس کا تبادلہ کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے قانون کی مکمل حکمرانی اور کمیونٹی کی بنیاد پر حکمت عملی جیسے مطلوب اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘ امریکی مندوب آگے جاکر لکھتا ہے: ’’دہشت گردی کے خطروں سے مقابلہ کرنے کے اقدامات میں ایسی حکمت عملی کو اختیار کرنا چاہیے کہ بین الاقوامی قانون کا مکمل نفاذ کیا جاسکے۔ خاص طور پر انسانی حقوق کا بین الاقوامی قانون، پناہ گزینوں کے لیے بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے قوانین کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد پر عمل کیا جائے۔‘‘ یوں 14 برس افغانستان میں خوار و زبوں ہوکر بدترین شکست کا تاج پہن کر امریکا اب امن کانفرنسیں کررہا ہے۔ وہ ایسے نتائج نکال رہا ہے جو اگر 2001ء میں نکال لیتا تو عالمی امن کو یوں غارت گری کے مقتل تک نہ لے جاتا۔ صبر وتحمل اور دانائی کا دامن پکڑ کر امریکا دہشت گردی کے موذی عفریت کو جنم دینے سے بچ جاتا۔ یوں وقت نے ثابت کیا کہ عقل و شعور سے عاری زبردست فوجی قوت کتنے بڑے پیمانے پر ہلاکت اور تباہی پھیلاسکتی ہے۔ صدر بش جیسا چغد نائن الیون کے بعد کروسیڈ کا اعلان کرنے لگا۔ یوں عیسائیت اور اسلام کے درمیان بڑے پیمانے پر ایک جنگ چھیڑدی گئی۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ پھیلتا چلاگیا۔ عراق پر امریکا اور اتحادیوں کی فوجوں نے لشکرکشی کی۔ لاکھوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ ایک پرامن ملک کو خوفناک سول وار کا تحفہ دیا۔ امریکا نے لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ ملک میں خوفناک خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ الجزائر اور مصر میں ووٹ کے ذریعے آنے والی حکومتوں کے تختے اُلٹے گئے۔ یوں امریکیوں کو ناپسند حکومتیں چلتا کردی گئیں اور ان کی جگہ من پسند کٹ پتلیوں نے لے لی۔ دونوں ملکوں میں متحارب گروہ ایک دوسرے کا خون بہارہے ہیں۔ وہاں امن قائم ہونا ناممکن حد تک مشکل ہوگیا ہے۔ امریکا نے خون آشام یہودیوں کو شہ دی تو انہوں نے فلسطین اور لبنان میں وسیع پیمانے پر قتل و غارت گری کرکے وہاں امن کو تباہ کردیا۔ یہودیوں کی کارروائیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ فہم و فراست سے عاری ان لوگوں نے افغانستان کو راکھ کا ڈھیر بناڈالا۔ پھر بھی ان کے مقدر میں شکست و نامرادی کے انبار آئے ہیں۔ یہ اگر نائن الیون کے بعد ہوش و حواس میں رہتے اور پرامن انداز میں مسئلے حل کرتے تو لاکھوں بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ نہ رنگتے۔ ان پاگل جنونیوں نے انسانی بستیوں میں کارپٹ بمباری کی۔ اسکول، مدرسے، ہسپتال چن چن کر مسمار کردیے۔ سڑکیں پل تباہ ہوگئے ۔ خوراک کا حصول غیرممکن ہوگیا۔ مجبور مخلوق فاقوں مرنے لگی۔ روس اور امریکا دونوں سپر پاوروں نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا، مگر افغانستان کو ختم نہ کرپائے۔ اُن سے پہلے برطانیہ بھی اپنے زخم چاٹتا ہوا وہاں سے فرار ہوا تھا۔ امریکی اور نیٹو افواج نے بھاری جانی اور مالی نقصان اُٹھایا۔ ہزاروں تابوت بگرام سے پرواز کرکے مرنے والوں کے ملکوں کو گئے۔ اہم تنصیبات پر پیہم حملوں نے امریکیوں کو چند ایک مقامات تک محدود کردیا۔ وہ وہاں سے نکل کر کبھی بھی افغانستان کے طول و عرض میں نہ پھیل سکے۔

 

وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی یہ کمین گاہیں بھی غیرمحفوظ ہوتی رہیں۔ کرزئی کا اقتدار کابل کے چند گلی کوچوں سے آگے نہ بڑھ پایا۔ اُسے کابل کے میئر کا خطاب مل گیا۔ امریکی بندوقوں کے سائے میں وہ مسلسل بڑھکیں لگاتا رہا، بے سروپا ہانکتا رہا۔ کرزئی نے افغانستان میں قیام امن کی راہ میں ہمیشہ پاکستان کو ایک رکاوٹ قرار دیا۔ 2001ء کے بعد سے پاکستان نے دوستوں اور دُشمنوں کی تفریق ختم کردی تھی۔ ہم امریکا کی قیادت میں ایسی جنگیں لڑنے لگے جن کی کوئی سمت متعین نہ تھی۔ ملک پر بے یقین کا ایسا کہرا چھایا کہ کچھ دکھائی نہ دیتا تھا، کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ پاکستان میں سی آئی اے اور اُس کی طفیلی ایجنسیاں دندناتی پھرتی تھیں۔ ایک ہاہاکار تھی جو ملک میں دس بارہ برس مچی رہی۔ حکومت کی پالیسی کیا ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ ہمارے ہوائی اڈّوں کو غیرملکی کنٹرول میں دے دیا گیا۔ اُن کے ذریعے سے اسلحہ بارود و شرابیں دھڑا دھڑ افغانستان منتقل ہوتی رہیں۔ افغان جنگ میں ملکی سرزمین پورے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ بے یقینی کی تاریکیاں ایسی پھیلیں کہ کوئی راہِ نجات نظر نہ آتی تھی۔ 2014ء آیا اور افغانستان میں انتخابات ہوئے۔ یہ الیکشن ادھورے رہے، کیونکہ طالبان نے ان کا مکمل بائیکاٹ کیے رکھا۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ اقتدار میں آگئے۔ اشرف غنی کو اس بات کا قوی احساس تھا کہ اقتدار کا جو کیک اُس کے ہاتھ آیا ہے، اُس کا زیادہ حصہ طالبان کا حق تھا۔ وہ جانتا تھا کہ طالبان کو شریکِ اقتدار کیے بغیر ملک میں پائیدار امن قائم نہ ہوپائے گا۔ عبداللہ عبداللہ طالبان کا بدترین مخالف رہا ہے۔ وہ کرزئی جیسی بند گلی کی سوچ کا حاصل شخص ہے۔ اشرف غنی نے وقت کی نزاکت کو محسوس کیا۔ امریکیوں کے کوچ کے بعد اُس کا اقتدار ڈولنا شروع ہوگیا۔ اُس نے فوراً پاکستان کا دورہ کیا۔ جی ایچ کیو میں اُس نے اعلیٰ فوجی حکام سے طویل ملاقاتیں کیں۔ اُس نے افغانستان میں مستقل قیام امن کے لیے پاکستان کی مدد مانگی جو فوراً دے دی گئی۔ یوں ان مہینوں میں ایک نیا منظرنامہ نکھر کر سامنے آگیا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان اور چین اہم رول ادا کررہے ہیں۔ طالبان اور افغانستان حکومت کے درمیان رابطے کروائے جارہے ہیں۔ امریکی شدید خواہش مند ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی کا تاج اپنے سر پہ رکھ لیں۔ میدانِ جنگ میں شکست کو ٹیبل ٹاک کے ذریعے جیت لیا جائے۔

افغانستان میں امن ہوتا ہے تو اس کے مثبت اثرات تمام خطے پر پڑیں گے۔ پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین وطن واپس لوٹ سکیں گے۔ یوں پاکستانی معیشت پر یہ اضافہ بوجھ کم ہوجائے گا۔ افغان طالبان کے حکومت میں حصے دار بننے سے پاکستانی طالبان بھی امن کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ یوں ہم آپریشن پر پورے ایک کھرب 30 ارب روپے صرف کرنے سے بچ جائیں گے۔ یہ اضافی بوجھ دور ہوجانے سے معیشت اپنی اکھڑی ہوئی سانسوں کو بحال کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ افغان بارڈر پر شورشوں کے خاتمے سے ہندوستانی جارحیت کم ہوگی اور ہم دُشمن کو یکسوئی سے جواب دینے کے قابل ہوجائیں گے۔ ان سارے امن مذاکرات اور پاکستان کے اس میں مثبت رول سے ہمیں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ ہتھیاروں کے زور پر مزید انتشار پھیل سکتا ہے۔ پرامن بقائے باہمی کے ذریعے ہم کئی دہکتے محاذوں کو خاموش کرسکتے ہیں۔ چین افغانستان کی تعمیر و ترقی میں پہلے بھی مثبت رول ادا کرتا رہتا ہے۔ امن کے بعد اس کی رفتار بڑھ جائے گی۔ امریکی سپاہ کی شکست ہمیں باور کرواتی ہے، امن کا راستہ ہی خوشحالی کا واحد راستہ ہے۔ آیندہ بھی ہماری حکومتوں کو اپنی بداعمالیو ںسے سبق لینا چاہیے۔ ہم ایک دہائی تک دوست بناتے ہیں۔ دوسری دہائی میں اُن کے قتل و عام میں ساتھی بن جاتے ہیں۔ تیسری دہائی میں بچ جانے والوں کو پھر اپنا اثاثہ قرار دیتے ہیں۔ پھر بین القوامی جھکڑ پر گھوم جاتے اور دوبارہ قتل عام شروع کردیتے ہیں۔ ہمیں میڈیا اور اخبارات پہ چھائے ہوئے اُن مفاد پرستوں سے خبردار رہنا چاہیے جو دوسرے ملکوں کو اپنے باپ دادا کی وراثت سمجھ کر وہاں کے معاملاتِ حکومت اپنے ہاتھ لینا چاہتے ہیں۔ یہ اتنے شاطر ہیں کہ اپنے گھرانوں کی اکانومی پر ہردم نظر رکھتے ہیں۔ قوم و ملک کی اکانومی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مار دھاڑ، قتل و غارت گری، دہشت گردی ان کے نزدیک گھاس کے تنکے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ ہمیں امن کے ہر دُشمن کو پاکستان کا دُشمن سمجھنا ہوگا۔ امریکا اور دوسری بدیسی قوتوں کی بندوقیں اُٹھاکر گھومنا کوئی جواں مردی نہیں۔ ہر ذی ہوش کے لیے افغانستان میں امریکی شکست ایک بہت بڑا سبق رکھتی ہے۔ خدا کرے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں مکمل طور پر پُرامن ہوجائیں۔