دمشق کی عقیدت گاہیں

دمشق کی عقیدت گاہیں
جاوید چوہدری جمعرات 26 اکتوبر 2017

سینٹ پال عیسائیوں کی مقدس ترین ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں‘ یہ ایک عام انسان تھے‘ یہ شکار کے لیے نکلے اور سفر کے دوران بینائی سے محروم ہو گئے‘ حضرت عیسیٰ ؑان کے خواب میں آئے‘ انھیں بینائی لوٹائی‘ بپتسمہ دیا اور انھیں عیسائیت کی تبلیغ کا حکم دے دیا‘ یہ دمشق آئے اور دمشق کے ایک شہری جودا کے گھر قیام کیا‘ حضرت عیسیٰ ؑاس رات دمشق کے ایک دوسرے شہری حنانیا کے خواب میں آئے اور انھیں شاہراہ مستقیم پر جودا کے گھر جانے اور سینٹ پال سے ملنے کی ہدایت کی‘ حنانیا اگلے دن جودا کے گھر گئے اور سینٹ پال کے ہاتھوں عیسائیت قبول کر لی‘ دمشق میں اس وقت رومیوں کی حکومت تھی‘ گورنر کو سینٹ پال کی بھنک پڑ گئی‘ حنانیا اور جودا نے انھیں ٹوکرے میں بٹھا کر شہر کی فصیل سے باہر پہنچا دیا یوں سینٹ پال دمشق سے نکلے اور سینٹرل ایشیا اور یورپ میں تبلیغ میں مشغول ہو گئے‘ حنانیا کا گھر بعد ازاں چرچ بن گیا‘ یہ چرچ آج تک دمشق میں موجود ہے‘ یہ دنیا کے قدیم ترین کلیساؤں میں شمار ہوتا ہے۔
یہ چرچ دمشق کی شاہراہ مستقیم کے قریب گلی میں ہے‘ شاہراہ مستقیم دنیا کی قدیم ترین سڑک یا گلی کہلاتی ہے‘ یہ باب جابیہ سے باب شرقی تک جاتی ہے ‘ یہ قدیم دمشق کو دو حصوں میں تقسیم کرتی تھی‘ یہ انگریزی میں اسٹریٹ اسٹریٹ (Straight Street)‘ عربی میں شاہراہ مستقیم اور اسلام میں صراط مستقیم کہلاتی ہے‘ بائیبل نے اسے حنانیا کے حوالے سے اسٹریٹ اسٹریٹ لکھا‘ دمشق کے لوگ اسے ہزاروں سال سے شاہراہ مستقیم کہتے چلے آ رہے ہیں جب کہ شام کے مفسرین کا خیال ہے قرآن مجید نے صراط مستقیم کی اصطلاح شاہراہ مستقیم سے لی تھی‘ میں ہفتے کی سہ پہر صراط مستقیم پر تھا‘حنانیا چرچ زیر زمین ہے‘ پتھروں کا بنا ہے اور صرف دو کمروں پر مشتمل ہے‘ چرچ کے دائیں بائیں دمشق کی عیسائی آبادی رہتی ہے‘ گھر صدیوں پرانے اور گلیاں ہزاروں سال قدیم ہیں‘ شاہراہ مستقیم کی بغلی گلیوں میں یہودیوں کے مکانات بھی ہیں‘ یہودی دمشق سے نقل مکانی کر چکے ہیں لیکن ان کے گھر اور دکانیں ابھی تک موجود ہیں‘ گلیوں میں درجنوں چھوٹے چھوٹے قہوہ خانے بھی ہیں‘ یہ قہوہ خانے پرانے گھروں میں قائم ہیں اور یہ سیاحوں کو ماضی میں لے جاتے ہیں۔
دمشق میں تین سو صحابہ کرامؓ ‘سیکڑوں اولیاء اللہ اورہزاروں دانشور مدفون ہیں‘ باب صغیر شہر کا سب سے بڑا قبرستان ہے‘ یہ شہر کے دروازے باب صغیر کے باہر قائم ہے‘ قبرستان میں ہزاروں قبریں ہیں اور ہر قبر عقیدت اور محبت کی لازوال داستان ہے‘ باب صغیر میں نبی اکرم ؐ کی تین ازواج مطہرات ام المومنین حضرت حفصہؓ ‘ حضرت ام سلمہؓ اور حضرت ام حبیبہ ؓ مدفون ہیں‘ حضرت فاطمہؓ کی کنیز حضرت فضہؓ بھی یہاں آرام فرما رہی ہیں‘ آپ حضرت بی بی سکینہ ‘ مؤذن رسولؐ حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ ‘ حضرت واثلہ بن الاسقع ؓ ‘ حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ ‘ حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرؓ ‘ حضرت اوس بن اوسؓ ‘حضرت بہلول داناؒ‘ حضرت ذوالنون مصریؒ اور حضرت نصر بن ابراہیمؒ سمیت کسی بڑے ولی‘ محدث‘ مورخ اور صحابی کا نام لیں وہ آپ کو باب صغیر میں آرام کرتا ملے گا‘ ابن تیمیہؒ‘ ابن کثیرؒ‘ ابن عربی ؒ اور حافظ ابن عساکر جیسے جید علماء بھی دمشق میں مدفون ہیں‘ باب صغیر کے قبرستان سے باہر کربلا کے 16شہداء کے سر مبارک بھی دفن ہیں‘ یہ الگ عمارت ہے اور اس عمارت کی زیارت کے لیے روزانہ ہزاروں زائرین یہاں آتے ہیں‘ زائرین میں زیادہ تعداد اہل تشیع کی ہوتی ہے‘ حضرت بلال حبشیؓ بھی باب صغیر میں آرام فرما رہے ہیں‘ آپؓ فتح شام کے بعد مدینہ منورہ سے دمشق تشریف لے آئے تھے‘ نبی اکرمؐ ایک بار خواب میں تشریف لائے اور فرمایا ’’آپ مجھے بھول گئے ہیں‘‘ حضرت بلالؓ اٹھے اور آدھی رات کو مدینہ کے لیے روانہ ہو گئے۔

یہ مدینہ منورہ پہنچے تو پورا شہر اکٹھا ہوگیا‘ لوگ دیوانہ وار ان کے ہاتھ چوم رہے تھے‘ آپؓ مسجد نبوی میں داخل ہوئے‘ نبی اکرمؐ کا منبر خالی دیکھا تو دھاڑیں مار کر رونے لگے‘ پورا مدینہ آپؓ کے گریہ میں شامل ہو گیا‘ لوگوں نے آخر میں اذان کی درخواست کی لیکن آپؓ نے صاف انکار کر دیا‘ لوگ ضد کرتے رہے‘ آپؓ انکار کرتے رہے‘ آپؓ کا کہنا تھا میری آواز میرے رسولؐ کے ساتھ ہی رخصت ہو گئی ہے‘ لوگ حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کو لے آئے‘ یہ دونوں چچا چچا کہہ کر آپؓ کے ساتھ لپٹ گئے‘ آپؓ نے دونوں شہزادوں کو سینے سے لگا لیا‘ شہزادوں نے بھی اذان کی فرمائش کر دی‘ آپؓ میں حسنین کو انکار کی ہمت نہیں تھی چنانچہ آپؓ کھڑے ہوئے اور اذان دینا شروع کر دی مگر آپ جوں ہی اشہدان محمدالرسول اللہ پر پہنچے‘ آپ کی آواز گھٹ گئی اور آنکھیں فرات بن گئیں‘ مسجد نبوی میں موجود ہر شخص کے دل کی دھڑکنیں رک گئیں‘ آپؓ نے اذان ادھوری چھوڑی اور شام روانہ ہو گئے‘ آپؓ آخری عمر میں طاعون کا شکار ہوئے‘ 63سال کی عمر میں انتقال فرمایا اور باب صغیر میں مدفون ہوئے‘ میں مزار پہنچا‘ دروازے پر قفل چڑھا تھا‘ میں نے دنیا کے سب سے بڑے عاشق رسولؐ کی قبر کا بوسا لیے بغیر واپس جانے سے انکار کر دیا‘ اللہ تعالیٰ کو مجھ پر رحم آ گیا۔
چوکیدار چابی لے کر پہنچ گیا‘ روضے کا دروازہ تنگ اور چھوٹا تھا‘ میں سیڑھیاں اتر کر اندر داخل ہوا‘ سامنے وہ ہستی آرام کر رہی تھی جس کی آواز سے سورج کی آنکھ کھلتی تھی‘ جس نے فتح مکہ کے بعد خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں لگائی تھیں اور جس کی استقامت نے استقامت کو استقامت اور صبر کو صبر بنا دیا تھا‘ میں نے روضے کو چومنا شروع کیا تو چومتا ہی چلا گیا‘ مجھے اس وقت یوں محسوس ہو رہا تھا میں صدیوں کا ترسا ہوا شخص ہوں‘ میرے روئیں روئیں میں پیاس اور مسام مسام میں بھوک تھی‘ میں روضہ مبارک کے سرہانے بیٹھ گیا‘ میں آپؓ کے سر مبارک کو چومتا تھا اور پھر فرش پر ہاتھ رگڑ کر اپنی آنکھوں‘ اپنے سینے پر ملتا تھا‘ مجھے اس دن پہلی مرتبہ اپنے نصیب پر رشک آیا‘ کہاں میں اور کہاں حضرت بلالؓ کا روضہ مبارک اور کہاں یہ سناٹا‘ کہاں یہ تنہائی‘ میں واقعی خوش نصیب تھا‘ میں اپنے نصیب پر شاداں تھا۔
میں حضرت بلالؓ کے روضہ مبارک سے باہر نکلا تو دائیں بائیں دس پندرہ نئی قبریں دیکھ کر حیران رہ گیا‘ پتہ چلا دمشق میں قبریں فروخت ہوتی ہیں‘ لوگ مقدس ہستیوں کے دائیں بائیں موجود قبریں فروخت کر دیتے ہیں اور لوگ ان قبروں میں اپنے مردے دفنا دیتے ہیں‘ حضرت بلالؓ کے مزار کے اردگرد قبر کا ریٹ 20 لاکھ شامی پاؤنڈ تھا۔حضرت زینبؓ کا مزار شہر سے دس کلو میٹر باہر ہے‘ یہ جگہ ماضی میں راویہ کہلاتی تھی‘ یہ اب زینبیہ بن چکی ہے‘ حضرت زینبؓ نے طبعی عمر کے بعد یہاں انتقال فرمایا اور آپؓ یہاں مدفون ہوئیں‘حضرت زینبؓ کا ایک مزار قاہرہ میں بھی موجودہے‘ مجھے وہاں بھی حاضری کی سعادت حاصل ہوئی لیکن مورخین دمشق کے مزار کو اصلی گردانتے ہیں‘ قاہرہ میں سیدہ زینب بنت یسجی المتوج مدفون ہیں‘ میں جمعے کی رات حضرت زینبؓ کے مزار پرپہنچا‘ مزار بہت بڑا اور شاندار ہے‘ گنبد پر سونا چڑھا ہے‘ حبیب بینک کے مالکان نے بھی ستر اور اسی کی دہائی میں مزار کی تعمیر کے لیے امداد دی تھی‘ میں دیر تک جالی کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا‘ مجھے حضرت رقیہ کے مزار پر بھی حاضری کی سعادت نصیب ہوئی‘ آپ مسجد امیہ کے قریب مدفون ہیں‘ آپ حضرت امام حسینؓ کی صاحبزادی تھیں‘ آپ واقعہ کربلا کے وقت پانچ چھ سال کی تھیں‘ آپ گہرے صدمے کے عالم میں تھیں اور آپ اپنے بابا کو یاد کرتیں اور اونچی آواز میں روتی رہتی تھیں‘ یزید نے ایک دن اپنے خادم سے پوچھا ’’یہ بچی کیسے چپ ہو سکتی ہے‘‘ خادم نے بتایا‘ آپ اگر اسے حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک دے دیں تو یہ خاموش ہو جائے گی۔
یزید نے امام عالی مقام کا سر اندر بھجوا دیا‘ امام سجاد نے سر مبارک بی بی رقیہ کی گود میں رکھ دیا‘ بی بی نے امام عالی مقام کا سر چومنا شروع کر دیا‘ وہ ہچکیاں لیتی جاتی تھیں اور اپنے بابا کا سر‘ ماتھا‘ آنکھیں اور ہونٹ چومتی جاتی تھیں‘ بی بی رقیہ نے والد کو چومتے چومتے جان دے دی‘ بی بی رقیہ کو یزید کے محل کے ایک کونے میں دفن کر دیا گیا‘ عباسیوںنے 750ء میں دمشق فتح کیا‘ یزید کا محل گرا دیا لیکن بی بی رقیہ کا مزار سلامت رہا‘ مزار کے گرد ایک محلہ آباد ہو گیا‘ یہ محلہ آج تک موجود ہے‘ مجھے مزار پر حاضری اور دعا کی سعادت نصیب ہوئی‘ دربار کے تمام انتظامات اور محلے کی سیکیورٹی ایرانی محافظوں کے پاس ہے‘ یہ زائرین کو تلاشی کے بعد محلے میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں‘ مورخین کا خیال ہے حضرت رقیہ اور حضرت سکینہ ایک ہی ہستی کے دو نام ہیں‘ کیا سچ ہے اللہ بہتر جانتا ہے‘ فاتح دمشق نورالدین زنگی کا مزار جامعہ امیہ کے ہمسائے میں تھا‘ گلی کے اندر درجنوں دکانیں تھیں‘ دکانوں کے درمیان لکڑی کا گیٹ تھا‘ گیٹ کے اندر وسیع صحن تھا‘ صحن کی ایک سائیڈ پر مسجد تھی‘ دوسری طرف قدیم مدرسہ اور ڈیوڑھی میں سلطان کا اداس مزار‘ میں نے فاتحہ پڑھی اور باہر آ گیا۔سلطان نے بیت المقدس کے لیے شاندار منبر بنوایا تھا‘ وہ یہ منبر خود اپنے ہاتھوں سے قبلہ اول میں رکھنا چاہتے تھے لیکن قضا نے مہلت نہ دی‘ یہ کام بعد ازاں سلطان کے جرنیل سلطان صلاح الدین ایوبی نے کیا‘ یروشلم فتح کیا اور سلطان نور الدین زنگی کا منبر بیت المقدس میں رکھ دیا‘ سلطان صلاح الدین ایوبی کا مزار مسجد کے دائیں ہاتھ احاطے سے باہر تھا‘ میں جوں ہی اس سادہ سے مزار کے اندر داخل ہوا‘ میری آنکھیں چھلک پڑیں‘ میں نے مزار پر ہاتھ پھیرا اور اپنی آنکھوں پر رکھ لیا‘ سلطان صلاح الدین ایوبی ہماری پوری مسلم امہ کا ہیرو تھا۔