درد کی ٹیسیں

درد کی ٹیسیں
ہمارے دوست مسٹر کلین ہمیں کچھ پریشان سے دکھائی دے رہے تھے۔ گلی میں ان کی اور ان کے بچوں کی چلت پھرت کچھ زیادہ نظر آرہی تھی۔ ہمیں اس پر تشویش تو تھی تاہم مسٹر کلین سے پوچھنے کی فرصت نہیں ملی اور خود انہوں نے بھی کچھ بتایا نہیں۔ پرسوں ہم بچے کو ٹیکا لگوانے قریبی نجی ہسپتال گئے تو دیکھا مسٹر کلین کا پورا خاندان ہسپتال کی راہداریوں میں موجود تھا۔ کسی کے ہاتھ میں دواؤں کا تھیلا تھا تو کوئی کھانے کے برتن اٹھائے ہوئے تھا۔ ہمیں پہلے تو خود مسٹر کلین کی خیریت کی فکر ہوئی، پھر یاد آیا کہ انہیں تو آج صبح ہی گلی سے صحیح سالم گزرتے دیکھا تھا۔ خیر! تو ہم نے مسٹر کلین کے ایک بھتیجے کو ایک طرف کھینچ کر ان سے ماجرا معلوم کیا۔ انہوں نے بتایا: ’’مسٹر کلین کے بڑے صاحبزادے کو اپنڈیکس کا پرابلم ہوگیا ہے، ابھی کچھ دیر پہلے اس کا آپریشن ہوا ہے، سارے گھر والے اس وجہ سے پریشان ہیں۔‘‘ ہم نے مسٹر کلین کا پوچھا تو انہوں نے بتایا: ’’بیٹے کو آپریشن تھیٹرمیں لے جانے کے بعد انکل کی طبیعت بھی اچانک خراب ہوگئی تھی، انہیں بھی اب اسپیشل وارڈ میں ٹریٹمنٹ دی جارہی ہے۔‘‘ ہم ہسپتال انتظامیہ سے خصوصی اجازت لے کر اسپیشل وارڈ میں گئے اور مسٹر کلنی سے ملاقات کی جن کی طبیعت اب کافی بہتر تھی۔ مسٹر کلین نے ہماری اس اچانک آمد کا بُرا نہیں منایا، بلکہ پہی دفعہ انہوں نے ہم سے خصوصی دعا کے لیے بھی کہا۔ ہم نے نقد میں ہی ہاتھ اٹھاکر ان کی اور ان کے صاحبزادے کی ہر قسم کی ظاہری و باطنی بیماریوں سے صحت یابی کی دعا کی۔ موصوف آمین کہتے رہے۔
پھر انہوں نے ہمیں ساتھ میں پڑے بنچ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہم بیٹھ گئے تو موصوف نے بیٹے کی بیماری، اس پر ہونے والے اخراجات

اور پورے خاندان کی پریشانی کا بہت دل گداز انداز میں تذکرہ کیا۔ ہم نے ان کے ساتھ ہمدردی کے کلمات ادا کیے اور انہیں تسلی دی۔ پھر ہم نے ان سے رخصت لینا چاہی تو موصوف نے کہا: ’’میں بچے کی بیماری کی وجہ سے دو چار روز سے میڈیا سے ٹچ نہیں رہا ہوں، بتائیے! کیا حالات چل رہے ہیں؟ سنا ہے وزیرستان آپریشن کامیابی سے جاری ہے۔ دہشت گردوں کا پیچھا کیا جارہا ہے۔ اچھا ہے! ایک دفعہ ان کا صفایا ہوجائے، جان چھوٹ جائے گی ان سے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’وزیرستان میں آپریشن کی کامیابی یا ناکامی معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جب آئی ایس پی آر کہہ رہا ہے کہ آپریشن کامیاب ہے تو یقینا درست ہی کہہ رہا ہوگا۔ ہم کون ہوتے ہیں شک کرنے یا سوال اٹھانے والے؟ البتہ وزیرستان آپریشن کے متاثرین کا مسئلہ ہمارے سامنے ہے کہ لاکھوں لوگ در بدر پھر رہے ہیں اور ان کو سنبھالنے کے لیے ہماری حکومت اور فوج کے انتظامات ناکافی ثابت ہورہے ہیں۔ سخت گرمی کے موسم اور رمضان کے مقدس مہینے میں قبائلی عوام کو ایک دوہرے عذاب میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اخبارات میں چھپنے والی تفصیلات بہت پریشان کن ہیں۔‘‘ مسٹر کلین نے کہا: ’’ ملاجی! جہاںاتنا بڑا آپریشن ہورہا ہے، وہاں چھوٹی موٹی مشکلات تو ٓہوں گی نا۔ ہمیں دراصل ہر بات پر واویلا کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
ہمیں مسٹر کلین کی اس بات پربڑا غصہ آیا، مگر ہم نے غصے پر قابو رکھتے ہوئے گزارش کی: ’’دیکھیں مسٹرجی! آپ کے صاحبزادے کا اپنڈکس کا آپریشن ہوا ہے جو کہ طبی دنیا میں سب سے چھوٹا اور معمولی آپریشن کہلاتا ہے۔
آپ پڑھے لکھے بلکہ اچھے خاصے دانشور انسان ہیں اور اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں اپنڈکس کی وجہ سے بندے کوزیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود آپ کا یہ حال ہوا کہ آپ خود پر بھی قابو نہ رکھ سکے، آپ کے پورے خاندان کو جتنی پر یشانی ہوئی وہ آپ خود بیان کر چکے۔ ہم نے بھی یہاں دیکھا بھی کہ کس طرح ہر کوئی پریشان و سرگرداں نظر آرہا تھا۔ اب آپ خود انصاف کریں، آپ کے گھر میں کسی کا ایک چھوٹا سے طبی آپریشن ہوتا ہے، تو آپ کی یہ حالت ہوجاتی ہے، شمالی وزیرستان کے جن لوگوں کو مناسب پیشگی انتظامات کے بغیر بنوں کے بے آب و گیاہ میدانوں میں کھلے آسمان تلے چھوڑ دیا گیا ہے، جو روٹی کے چند نوالوں اور پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، جن کے پیارے ان سے بچھڑ گئے ہیں، جن کی سب سے قیمتی متاع عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے، آپ کی نظر میں ان کا مسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ان کی مشکلات بس ’’چھوٹی موٹی مشکلات‘‘ ہیں؟‘‘
مسٹر کلین نے ہماری اب اَن سنی کرتے ہوئے سینے پر ایسے ہاتھ رکھا جیسے انہیں اچانک درد کی ٹیس اٹھی ہو۔ ہم نے ان کی ’’تکلیف‘‘ کا احساس کرتے ہوئے ان سے اجازت طلب کی اور یہ دعا کرتے ہوئے وہاں سے نکل آئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہر قسم کی تکلیف، دُکھ اور درد سے نجات و عافیت عطافرمائے۔ انہیں اور ان کے ہم نواؤں کو دوسروں کے دُکھ، درد اور تکلیف کا بھی احساس کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔