خوف کی گہری دھند

خوف کی گہری دھند

تحریر یاسر محمد خان

سری لنکا نے برطانیہ سے 1984ء میں آزادی حاصل کی۔ ملک میں سنہالی اور تامل آبادی کی اکثریت تھی۔ سنہالی اکثریت میں تھے اور تامل اقلیت میں۔ سنہالیوں نے حکومت بنائی تو تامل خم ٹھونک کر میدان میں آگئے۔ تامل لبریشن موومنٹ کی بنیاد رکھی گئی۔ دو دہائیوں تک یہ تحریک نسبتاً پرامن رہی۔ 1972ء میں تامل ٹائیگرز کے وجود میں آنے کے بعد سری لنکا میں دونوں نسلی گروہوں کے درمیان باقاعدہ ایک جنگ کی فضا بن گئی۔ تامل ٹائیگرز نے ملک کی بڑی شخصیات پر حملے شروع کردیے۔ لیڈر شپ قتل ہونے لگی۔ سری لنکا کی فوج ان لوگوں کا خصوصی ہدف بن گئی۔ چھائونیوں میں تواتر کے ساتھ بم دھماکے ہونے لگے۔ فوجی دھڑا دھڑ مرنے لگے۔ نائن الیون کی طرز پر خودکش ہوا بازوں نے اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اسلحہ کے ڈپو اُڑا دیے گئے۔ فضائیہ اور بحریہ کے اڈّوں پر بم دھماکے ہوئے۔

تامل ٹائیگرز نے سری لنکن پولیس فورس پر چند بڑے حملے کیے جن میں ہزاروں سپاہی قتل ہوگئے۔ بسوں، ٹرینوں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، شاپنگ سینٹروں، بازاروں، عبادت گاہوں اور پارکوں میں خودکش بمبار گھس گئے۔ ان دہشت گردوں کی دسترس سے مسجد میں بھی محفوظ نہ رہیں۔

سینکڑوں نمازیوں کو شہید کردیا گیا۔ تامل ٹائیگرز نے جافنا اور گردونواح کے سب علاقوں پر مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور سنہالیوں کا قتلِ عام شروع کردیا۔ گائوں کے گائوں رات کی تاریکی میں تہ تیغ کردیے گئے۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ دہائیوں تک یہ زبردست شورش سری لنکا کو مکمل طور پر جکڑے رہی۔ ملک کا طول و عرض اس کی گرفت میں آگیا۔ تامل ٹائیگرز خوف اور دہشت کا ایک بہت بڑا سمبل بن گئے۔ سری لنکن حکومت بے بسی کی تصویر بنی اس سارے منظر نامے کو تکتی رہی۔ دنیا کے 33 ملکوں نے تامل ٹائیگرز پر پابندی لگادی۔ یہ لوگ بلیک مارکیٹوں سے اسلحے کے انبار خریدتے رہے اور بے مہابا قتل و غارت گری کرتے رہے۔ ان کا لیڈر پربھاکرن جافنا اور گردونواح کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔ اُس نے دہشت گردوں کی ٹریننگ کے لیے جدید ترین کیمپ لگالیے۔ نوجوان پود لاکھوں کی تعداد میں یہاں سے دہشت گردی میں کامل مہارت حاصل کرنے لگی۔ حکومت نے بارہا پر بھاکرن سے مذاکرات کی کوشش کی، لیکن ناکامی ہوئی۔ آخر لیڈر شپ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان دہشت گردوں کے سامنے ہار ماننے کا مطلب سری لنکا کا خاتمہ ہوگا۔ ملک کے بہترین دماغ ایک چھت تلے اکھٹے ہوئے۔ انہوں نے ایک جامع اور مربوط پالیسی تشکیل دی۔ سری لنکا نے اندرونی اور بیرونی وسائل یکجا کیے اور نہایت یکسوئی سے آپریشن کا آغاز کیا۔ یہ آپریشن تیزی سے آگے بڑھا اور اس نے مقبوضہ علاقوں کو واگزار کروانا شروع کردیا۔ اپریل 2009ء میں جافنا کے گردونواح کا محاصرہ کرلیا گیا۔ تامل ٹائیگرز گھیرے میں آگئے۔ آخر 18 مئی 2009ء کی رات تامل ٹائیگرز کو آخری لڑائی میں بھی شکست ہوگئی۔ پربھاکرن مارا گیا، اُس کے بیوی بچے بھی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ تامل ٹائیگرز کی ساری لیڈر شپ ماری گئی۔ یوں سری لنکا میں مکمل امن ہوگیا۔ اُس کی مفلوک الحال معیشت تیزی سے ترقی کرنے لگی۔ داخلی امن کے لہلہانے کے بعد سری لنکا اب تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل ہوگیا ہے۔

٭ دہشت گردی نے عوام کو نفسیاتی طور پر مفلوج کردیا ہے۔ ہماری بستیوں سے خوشیاں، مسکراہٹیں اور زندگی کی ہماہمی نوچ لی ہے۔ ٭ دنیا میں آج تک کوئی ایسا ملک نہیں جو داخلی سکون کے بغیر ترقی کرگیا ہو۔ ٭ اس نازک موڑ پر ملک کو پُرامن بنانے کے لیے قومی و صوبائی حکومتیں، افواج، ایجنسیاں، پولیس سب کو سرگرم رول ادا کرنا ہوگا۔ ٭

آپ لائبیریا کو دیکھ لیں۔ افریقہ کا یہ چھوٹا سا ملک ہیروں کی کانوں کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہی ہیرے اس کے لیے وبال جان بن گئے۔ بڑی طاقتوں نے اس ملک میں پنجے گاڑ دیے۔ داخلی امن تار تار ہوکر رہ گیا۔ ملک گروہوں اور گروپوں میں بٹ گیا۔ شورشیں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگیں۔ لائبیریا کے لیڈروں نے ایک پالیسی بنائی۔ یو این او کی مدد لی اور ملک کو اسلحے سے پاک کردیا۔ گروہ بندیاں ختم کردی گئیں۔ لائبیریا کی معدنیات پر ہاتھ صاف کرنے والی بیرونی طاقتوں کی سخت حوصلہ شکنی کی گئی۔ انہیں دیس نکالا دے دیا گیا۔ یوں انتشار سکون میں بدل گیا۔ بدامنی کی جگہ امن نے لے لی۔ آج کا لائبیریا ان افریقی ملکوں میں سے ایک ہے جسے امیر ترین کہا جاسکتا ہے۔

آپ کینیا کو دیکھ لیں۔ اس ملک کا کنٹرول مافیاز کے قبضے میں رہا۔ فساد اور بدامنی نے کینیا کو لاچار کردیا۔ نیروبی میں دہشت گردی کی کارروائیاں بہت بڑے پیمانے پر ہوتی تھیں۔ عوام خواب غفلت سے جاگے۔ انہوں نے پرخلوص لیڈر شپ ڈھونڈی اور مافیاز کا خاتمہ کردیا گیا۔ ایک پالیسی کی مدد سے ملک کے سارے سسٹم کو ٹھیک کردیا گیا۔ لیڈروں کے وژن، ان کی خلوصِ نیت اور عزم و ہمت سے آج کینیا ایک مضبوط معیشت اور جی ڈی پی کا مالک ہے۔ اس کی برآمدات اپنے ہمسائیہ ملکوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہیں۔

آپ سوڈان کی مثال دیکھ لیں۔ اس ملک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان خوفناک جنگیں ہوئیں۔ ہزاروں افراد مارے گئے۔ ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔ بیرونی طاقتور کے ایما پر سورشیں بڑھتی گئیں۔ سوڈان جو زرعی طور پر دنیا کی بڑی معیشتوں میں تھا، دانے دانے کا محتاج ہوگیا۔ لیڈروں نے یو این او کی مدد سے صلح کی اور جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے۔ ہتھیار پھینک کر ہل اُٹھالیے گئے۔ آج کا سوڈان امارت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بدامنی کے اِکا دُکا واقعات کے علاوہ یہاں امن ہے۔ اکانومی کو سنبھالا ملنے سے سوڈان افریقی اُفق پر جگمگانے لگا ہے۔ آپ روانڈا کو دیکھ لیں۔ یہاں تلسی اور ہوتو قبیلوں نے 1994ء میں ایک دوسرے کے لاکھوں افراد قتل کردیے۔ خوفناک خانہ جنگی نے ملک کو برباد کرکے رکھ دیا۔ یہاں قحط پڑا اور ہزاروں افراد اُس کی نذر ہوگئے۔ آخر کو لیڈروں نے دونوں قبیلوں کے درمیان امن قائم کیا۔ یوں تلسی اور ہوتو ایک ہوگئے۔ ملک نے ان دودہائیوں میں ترقی اور خوشحالی کی حیرت ناک مثالیں قائم کردی ہیں۔ آج کا روانڈ افریقہ کی سب سے زیادہ مستحکم معیشتوں میں سے ایک ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار، امن و امان میں روانڈا اپنی مثال آپ ہے۔

آپ آئرلینڈ کو دیکھ لیں۔ یہاں مدتوں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان سخت کش مکش رہی۔ علیحدگی پسند گروہوں نے وسیع پیمانے پر دہشت گردی کو فروغ دیے رکھا۔ برطانیہ نے دونوں بڑے گروہوں میں صلح کروادی۔ آئرلینڈ کو سازگار ماحول دیا گیا۔ دنیا بھر سے اس کی تجارت شروع ہوگئی۔ کوئلے کی کانوں سے کوئلہ نکال کر آئرلینڈ میں تعمیر و ترقی پر سرمایہ صرف ہونے لگا۔ یوں صدیوں تک بدامن رہنے والا آئرلیڈ اب پُرامن ہے۔ آئرلینڈ کے ادیب و شاعر اس امن کے گیت گاکر نوبل پرائز جیت رہے ہیں۔ عوام برطانیہ سے بہت خوش ہیں۔ اسی طرح اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ کے درمیان صدیوں تک جنگیں ہوئیں۔ 1707ء میں برطانیہ نے اسکاٹ لینڈ کو مستقل اپنا حصہ بنالیا۔ (باقی صفحہ5پر) 2014ء میں اسکاٹ لینڈ کو یہ حق دیا گیا کہ وہ اگر چاہے تو برطانیہ سے الگ ہوجائے۔ اسکاٹش عوام کی اکثرت نے برطانیہ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ تعمیر و ترقی، امن و خوشحالی اور برابری کی سطح کے تعلقات نے برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کو ایک کردیا۔

اسی طرح دنیا کے کئی ملکوں میں چھوٹے چھوٹے گروہ بدامنی پھیلاتے رہے۔ اٹلی میں مافیاز نے کوارٹرز بنائے رکھے۔ حکومت نے پالیسیاں بناکر ان گروہوں کو توڑا اور یوں اٹلی یورپ کے پرسکون ملکوں میں سے ایک بن گیا۔ امریکا کے نیویارک کی مارکیٹوں پر مافیاز کا قبضہ رہا۔ روڈی جولیانی نامی میئر کی پالیسیوں نے ان جونکوں کو کچل دیا۔ امریکا کی خوشحالی کی کتاب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ امریکا کی طاقت بڑھی تو وہ بیرونی دنیا کو قبضے میں کرنے کے لیے اپنی توجہ اُدھر کرنے کے قابل ہوگیا۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں آج تک کوئی ایسا ملک نہیں جو داخلی سکون کے بغیر ترقی کرگیا ہو۔ جہاں دہشت گردی کے مہیب سایوں نے خوشحالی بکھیردی ہو، جہاں بدامنی اور شورشوں کے عفریت کسی بھی بہتری کے پیامبر بنگ ئے ہوں۔ ترقی، خوشحالی انہی ملکوں میں آئی ہے جنہوں نے پہلے اپنے گھر کو مکمل طور پر پُرسکون اور پُرامن کیا ہے۔ بدامنی کی سنگلاخ زمینوں میں کبھی خوشحالی کا پھول نہیں کھل سکتا۔

پاکستان سری لنکا سے ایک برس پہلے وجود میں آیا۔ ایک دہائی تک سیاسی انتشار نے یہاں زلزلے بپا کیے رکھے۔ ایک ایک سال میں دو دو حکومتیں آتی اور جاتی رہیں۔ مشرقی پاکستان آبادی میں بڑا ہونے کے باوجود عدم توجہگی کا شکار رہا۔ دوسری دہائی میں مارشل لا نے مشرقی پاکستان کو مزید دور کردیا اور علیحدگی کی تحریک نے زبردست شورش برپا کردی۔ دُشمن طاقتیں میدان میں آئیں اور پاکستان دولخت ہوگیا۔ مغربی پاکستان میں 70 کی دہائی پُرامن رہی۔ اُس کے بعد سے ہم مسلسل بدامنی، بے سکونی، انتشار اور دہشت گردی کی فضا میں زندہ ہیں۔ 80 کی ساری دہائی میں ملک میں مسلسل بم دھماکے ہوتے رہے۔ بڑی بڑی منڈیاں، مارکٹیں اور بازار ان کا نشانہ بنے۔ ہزاروں افراد اُن کی نذر ہوگئے۔ ہم کے جی بی اور را کے شیطانی شکنجے کو توڑنے میں ناکام رہے۔ 2001ء کے بعد سے ہر گزرتے سال دہشت گردی کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اسکولوں، بازاروں، عبادت گاہوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یوں لگتا ہے پاکستان کے سارے دشمن ایک ہوکر اس کی بنیادوں کو اُڑا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے بڑے چھوٹے شہر خوف کے شکنجے میں پوری طرح جکڑ گئے ہیں۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر فسادات کے لیے عبادت گاہوں پر تواتر سے خودکش حملے ہورہے ہیں۔ نسلی بنیادوں پر خلیجیں دن بدن وسیع ہوتی جارہی ہیں۔ ملک گروہوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔ کھربوں روپے کے نقصان نے معیشت کا لہو چوس لیا ہے۔ 50 ہزار کنبے اپنے کفیلوں کو کھوکر معاشی اَبتری کی دلوں میں اُترگئے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے فضا میں بارود کی بو ایسی رچ بس گئی ہے کہ یہاں کوئی بھی آنے کو تیار نہیں۔ دہشت گردی نے عوام کو نفسیاتی طور پر مفلوج کردیا ہے۔ ہماری بستیوں سے خوشیاں، مسکراہٹیں اور زندگی کی ہماہمی نوچ لی ہے۔ ہر دن کے اخبارات تازہ لہو کے چھینٹوں سے لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ریڈیو پر خبرنامے کا آغاز اعصاب شکن خبروں سے ہوتا ہے۔ لوگ جہاں کہیں بھی مل بیٹھتے ہیں تو گفتگو کا آغاز دہشت گردی کے تازہ واقعے سے ہوتا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس سیلاب کے آگے بند باندھنے میں بُری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ ہماری پولیس اور ایجنسیاں ایسے ہر واقعے کے بعد دوڑ پڑتی ہیں۔ ان کی روک تھام اور تدارک کے لیے ان کی زنبیل میں کچھ نہیں ہے۔ سانحہ پشاور نے بچوں اور والدین کو سارے تعلیمی سفر سے کوفزدہ کردیا ہے۔ ہمارے اساتذہ کتابیں پڑھنے کی بجائے اسلحہ چلانے کی ٹریننگ لے رہے ہیں۔ اس ساری کارروائی نے امن نافذ کرنے والے اداروں کے وجود کو بے معنی بناکر رکھ دیا ہے۔ اگر ہر شخص نے پستول اور بندوق چلانا سیکھ کر اپنی حفاظت کرنی ہے تو ان اداروں کا وجود کسی بھی قسم کی افادیت کھو بیٹھتا ہے۔ خوف کی ایک گہری دھند ہے جس میں راستے گم ہوچکے ہیں۔

سچی اور تلخ بات یہ ہے کہ ریاست نے عام شہریوں کو کبھی بھی اپنا بچہ تسلیم نہیں کیا۔ مدتوں سے لوگ دہشت گردی کے بھاری پہیوں تلے کچلے جاتے رہے۔ ریاست کی جبینِ ناز پر سلوٹ تک نہیں آئی۔ شاید ہی دنیا میں کوئی اور ملک ہو جہاں ریاست نے عام عوام کے ساتھ ایسے رشتے کا مظاہرہ کیا ہو۔ چاہیے تو یہ تھا کہ 80 کی دہائی میں ہی اس عفریت کا سر کچل دیا جاتا۔ اس وقت ہم بیرونی دنیا سے آتی دولت گننے اور سمیٹنے میں مشغول رہے۔ ہم پر ہٹن برس رہا تھا۔ ہماری شیروانیاں، سوٹ بوٹ اور وردیاں اسی مشن میں کامل ترین یکسوئی کے ساتھ فرق رہیں۔ لوگ سڑکوں پہ راکھ بن کر اُڑتے رہے۔ بیرونی طاقتوں نے پاکستان کو اپنی سفلی تجربہ گاہ بنالیا۔ ہماری ساری حکومتیں دہشت گردی کی جڑ تک جاکر اُسے ختم کرنے سے غافل رہیں۔ مشرف دور میں ایک بار پھر اقتدار کے شجر سے ڈالر جھڑنے لگے اور بھوکے ضمیر فروش اُن کی بوریاں بھنرا شڑوع ہوگئے۔ نوٹوں کی تہیں لگا لگاکر اُن کے پہاڑ کھڑے کرلیے گئے۔ ملک کی نہ نہ کوئی خارجہ پالیسی تھی نہ ہی داخلہ۔ خاجی میدان میں ہم ہر بڑی بولی لگانے والے کے غلام تھے اور اندرونی ملک ہم عوام سے اتنے ہی دور تھے جتنا ایک برہمن شودروں سے دور ہوتا ہے۔ عوام دہشت گردی کی تلوار سے گاجر مولی کی طرح کٹتے رہے۔ ریاست ان سب لہو رُلا دینے والے دُکھوں سے دور ڈالروں سے کھیلتی رہی۔ سالوں پر سال گزرتے گئے۔ ہم اس دلدل میں گہرے سے گہرے دھنستے گئے۔ امن کے ناپید ہونے پر معاشی ترقی کو بریکیں لگ گئیں اور یہ ڈھلوان سے پیچھے کی طرف پھسلنا شروع ہوگئی۔ ساری کی ساری معاشرتی اقدار پر دہشت اور خوف نے اپنے سائے پھیلادیے۔ لاقانونیت ملکی قانون کا درجہ اختیار کرگئی۔ فساد درفساد نے کاروبار مملکت کے آئین کا درجہ اختیار کرلیا۔ ملکی تعمیر و ترقی اجاڑ کھنڈروں میں پھڑ پھڑاتی چمگادڑیں بن گئیں۔ تعلیم و شعور سے ہم یوں محروم ہوئے جیسے بیوہ اپنے سہاگ سے محروم ہوجاتی ہے۔ جوان ہوتی نسلوں کو ہم نے جو ورثہ دیا وہ اتنا کرب ناک تھا کہ یہ ذہنی سکون سے مکمل طور پر محروم ہوگئیں۔ دینی اقدار کے ٹھنڈے سایوں سے دور یہ نسلیں خوف دہشت کے صحرائوں میں بھٹکتی پھررہی ہے۔ نہ روزگار ہے نہ معاشی آسودگی ہے۔ نہ کوئی کاررواں ہے، نہ کوئی منزل ہے۔ اکیسیویں صدی کے ان برسوں میں پاکستان نے دہشت گردی کے پاتال کو چھولیا ہے۔ 16 دسمبر کے بعد سے ہمیں قومی طور پر یہ احساس خوفناک شدت کے ساتھ ہوا ہے کہ ہم کس درجہ کی بربادی کا شکار ہوگئے ہیں۔

اس نازک موڑ پر ملک کو پُرامن بنانے کے لیے قومی و صوبائی حکومتیں، افواج، ایجنسیاں، پولیس سب کو سرگرم رول ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو پالیسیاں بنانا ہوں گی اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا۔ دہشت گردی کو بنیادوں سے ختم کرنا ہوگا۔ بیرونی اور اندرونی ہاتھ بے نقاب کرنا ہوں گے۔ دُشمن ملکوں کے پس پردہ کردار کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ امریکی عمل دخل کو ملک میں محدود کیے بغیر ہم کامیاب نہ ہوپائیں گے۔ آج تک دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جس پر امریکی حکومت کا کنٹرول ہو اور وہ پُرامن بھی ہو۔ امریکا جس میں ملک میں گھسا ہے وہاں خوفناک داخلی انتشار نے سر اُٹھایا ہے۔ ہماری حکومتوں کے لیے یہ ایک امتحان ہے۔ اس غریب ملک نے ان پر بے تحاشہ سرمایہ صرف کر رکھا ہے۔ وہ پاکستان کو داخلی امن کے حصول میں کامیاب کرنے کے لیے پوری طرح سرگرم ہوجائیں۔ ملک اسلحے سے پاک کیا جائے۔ نسلی اور دوسری بنیادوں پر تقسیم کو کم سے کم کیا جائے۔ مادر پدر آزاد میڈیا کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ یقین جانیے! اگر پاکستان داخلی طور پر پُرامن ہوجائے تو ہماری معیشت نہایت تیزی سے ترقی کرے گی۔ ہم تعلیمی اُفق پر اوپر جاسکیں گے۔ روزگار کے نت نئے دروازے کھل جائیں گے۔ جب عوام محسوس کرے گی کہ ریاست کو اُس کی تکلیف پر درد ہوتا ہے تو وہ اپنا فعال کردار ادا کریں گے۔ یوں ملک کی ترقی کے لیے درکار ساری قوتیں یکجا ہوجائیں گی۔

ملکوں کا داخلی سکون افراد کے ذہنی سکون میں ڈھل جاتا ہے۔ اگر پاکستان ہر طرح سے پرامن ہوجائے تو پاکستانیوں کی شخصیت پر اس کے نہایت درجہ مثبت اثرات پڑیں گے۔ ذہنی اضطراب سے نجات کے رستے نکلیں گے۔ ہر فرد ملت کے مقدر کو اجائے گا۔ اپنا کام پوری دل جمعی اور یکسوئی سے انجام دے گا۔ یوں ملکی خوشحالی کی رفتار تیز تر ہوجائے گی۔ مذہبی اقدار کے فروغ سے ہمارا دین اور دنیا دونوں سنور جائیں گے۔ انسانی باطن کی ساری میل صاف کرنے کے لیے دین سے بڑی کوئی قوت نہیں۔ ہماری ملی شیرازہ بندی کے لیے اسلام کی تعلیمات اپنی پوری جامعیت کے ساتھ موجود ہیں۔ ہم پاکستان کو انہیں اپنے قلب و روح میں سمونا ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں بے سکونی کی ایک بڑی وجہ دین سے دوری ہے۔ محض دنیاوی ترقی سمندر کا شورابہ ہے، جتنا اسے پیو اتنی پیاس بڑھتی جاتی ہے۔ دینی اقدار کا لنگر ہی قوموں کو سہارا دیتا ہے۔ اگر یہ لنگر ٹوٹ جائے تو قوموں کی کشتیاں مادّی ترقی کے پانیوں میں بھی غرق ہوسکتی ہیں۔ پاکستان کو پُرامن معاشرہ اور صحت مند روحانی اقدار دونوں کی اَشد ضرورت ہے۔