حقیقتیں(3)

حقیقتیں(3)
جاوید چوہدری  اتوار 6 مارچ 2016

پرورش
ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کیے لیکن آٹھ بچے مل کر ماں کو چار سال نہ پال سکے۔
بے چھت
زلزلہ آیا پورا شہر مر گیا‘ صرف میں بچا‘ کیوں؟ کیونکہ میرے سر پر چھت نہیں تھی اور زلزلے بے چھت لوگوں کو کچھ نہیں کہتے۔
علاج
میں ڈاکٹر بدلتا رہا، میں دوائیں بھی تبدیل کرتا رہا لیکن شفاء نصیب نہ ہوئی، مجھے آخر میں پتہ چلا، خرابی دواؤں اور ڈاکٹروں میں نہیں تھی، نقص مجھ میں تھا، میں بزدلی کے مرض میں مبتلا ہوں اور بزدل مریضوں کو کسی دواء کسی ڈاکٹر سے شفاء نہیں ہوتی۔
ADVERTISEMENT

انصاف
جج نے چور سے کہا ’’تم پر چوری ثابت نہیں ہو سکی‘ تمہیں باعزت بری کیا جاتا ہے‘‘ چور نے ہاتھ جوڑ کر پوچھا ’’جناب کیا میں اب چوری کی سائیکل استعمال کر سکتا ہوں‘‘۔
باپ
انسان کو اس وقت تک بچہ پیدا نہیں کرنا چاہیے جب تک وہ باپ بننا نہ سیکھ لے۔
پکی چھت
جو شخص اپنا فرش پکا نہیں کر تا، اسے کبھی پکی چھت نصیب نہیں ہوتی۔
کامیابی
جو لوگ کامیاب نہیں ہونا چاہتے‘ کامیابی کبھی ان پر ترس نہیں کھاتی۔
میل
جو لوگ دولت کو ہاتھ کی میل سمجھتے ہیں، دولت بھی ان کے ساتھ وہ سلوک کرتی ہے جو صابن میل کے ساتھ کرتا ہے۔
ککھ پتی
وہ ایک ایک روپیہ جمع کرتا رہا‘ وہ لکھ پتی بن گیا‘ میں ایک ایک روپیہ خرچ کرتا رہا ‘ میں ککھ پتی ہو گیا۔
کان
میں نے اپنے پیٹ کو ہزاروں دلیلیں لیکن یہ نہ مانا، میں نے تنگ آ کر اس پر ہاتھ پھیرا تو مجھے پتہ چلا میرے پیٹ کے کان ہی نہیں ہیں، یہ بے چارہ کیسے سنتا!
اعلیٰ ظرف
وہ زندگی کے آخری حصے میں کثرت سے دعا کیا کرتے ہیں ’’یا باری تعالیٰ! مجھے پھل دار درختوں جتنا ظرف عطا فرما دے‘‘ ہم پوچھتے تھے ’’باباجی یہ خواہش کیوں؟‘‘ وہ جواب دیتے تھے ’’میں نے آج تک کسی کو پھل دار درختوں سے زیادہ اعلیٰ ظرف نہیں پایا‘‘۔ ہم پوچھتے تھے ’’کیسے؟‘‘ وہ جواب دیتے تھے ’’ہم درختوں کو پتھر مارتے ہیں‘ یہ بے چارے زخمی ہو جاتے ہیں لیکن جواب میں اپنا میٹھا ترین پھل ہماری طرف اچھال دیتے ہیں‘ مجھے انسانوں میں کوئی اتنا اعلیٰ ظرف شخص دکھا دو‘‘۔
نصیب
میں جھونپڑی میں رہتا تھا تو روز بارش ہوتی تھی، میں نے چھت پکی کر لی تو بارشیں بھی بند ہو گئیں۔
انصاف
حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ سے پوچھا ’’یا باری تعالیٰ فرعون خدائی کا دعوے دار تھا لیکن تم نے اس کے باوجود اس کی رسی دراز رکھی‘‘ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ’’موسیٰ! فرعون انصاف پسند تھا‘ میں اسے کیسے برباد کر دیتا‘‘۔
خسارہ
میں نے اس کی نئی قمیض گندی کرنے کے لیے کیچڑ اٹھایا لیکن اس کی قمیض گندی ہونے سے پہلے میرے ہاتھ گندے ہو گئے۔
ہڑتال
میرے شہر کی تمام گھڑیوں نے ہڑتال کر دی لیکن وقت کی دکان اس کے باوجود کھلی رہی۔
خوشی
مانگنے والے نے مہاتما بودھ سے کہا ’’مجھے خوشی چاہیے‘‘ بودھ نے مسکرا کر جواب دیا ’’میرے بچے تمہارے مطالبے میں دو چیزیں اضافی ہیں‘‘ مانگنے والے نے پوچھا ’’کیا‘‘ بودھ نے جواب دیا ’’مجھے اور چاہیے‘‘ ۔ مانگنے والا حیرت سے دیکھنے لگا‘ بودھ نے جواب دیا ’’تم مجھے اور چاہیے نکال دو، پیچھے خوشی رہ جائے گی‘‘۔
نظریہ ضرورت
سید زادی کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے، شمر کا فوجی آگے بڑھا، بچی کا ہاتھ پکڑا اور کنگن اتارنے لگا، وہ کنگن اتارتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا، بچی نے پوچھا ’’ چچا تم کیوں رو رہے ہو‘‘ فوجی نے جواب دیا ’’مجھ سے آل ِ رسولؐ کا یہ دکھ دیکھا نہیں جاتا‘‘ بچی نے کہا ’’تم پھر میرے کنگن کیوں اتار رہے ہو‘‘ اس نے جواب دیا ’’بی بی کنگنوں کا اترنا لازم ہو چکا ہے، یہ میں نہیں اتاروں گا تو کوئی اور اتار لے گا‘‘۔
گدھا نہ ہو کہیں کا
کمہار کا باپ مر گیا، کمہار گدھے کو شہر لے گیا، ختم کے لیے راشن خریدا اور گدھے بیچارے کو راشن ڈھونا پڑ گیا، کمہار کی بیٹی کی شادی آئی، گدھا کئی دن تک جہیز ڈھوتا رہا، گدھے نے ایک دن سوچا ’’ہم بھی کیا مخلوق ہیں، انسانوں کی خوشی ہو یا غمی، بوجھ بہرحال ہمیں ہی اٹھانا پڑتا ہے‘‘۔
اشرف المخلوقات
جانوروں نے ایک دن اللہ سے شکوہ کیا ’’بھینسیں اپنے بچھڑوں کے لیے دودھ دیتی ہیں لیکن انسان پی جاتا ہے، مرغیاں اپنی نسل بڑھانے کے لیے انڈے دیتی ہیں لیکن انسان کھا جاتا ہے اور بھیڑ بکریاں اپنی افزائش کے لیے میمنے جنتی ہیں لیکن انسان انھیں بھی چٹ کر جاتا ہے ’’اللہ نے پوچھا ’’پھر‘‘ جانوروں نے کہا ’’یا باری تعالیٰ ! انسان اس کے باوجود اشرف المخلوقات ہے اور ہم جانور‘ کیا یہ ظلم نہیں‘‘۔
انسان کی موت
کراچی میں گولی چل رہی تھی، کتے کے پلے نے کچرہ گھر سے باہر جھانکنے کی کوشش کی، کتیا نے اسے پنجہ مار کر کہا ’’بے وقوف، سر اندر رکھو! کیوں انسان کی موت مرنا چاہتے ہو‘‘ اور پلے نے گھبرا کر ماں کے پیچھے پناہ لے لی۔
اگنور
میں نے شکوہ کیا ’’لوگ آج کل مجھے بہت برا بھلا کہتے ہیں‘‘ وہ ہنسے اور کہا ’’یہ برا بھلا اس سے سو گنا اچھا ہے کہ لوگ تمہیں کچھ بھی نہ کہیں، تمہیں اگنور کر کے گزر جائیں‘‘۔
رزق
گورکن نے اپنی بیوی سے کہا ’’یہ ڈاکٹر جب سے آیا ہے، ہمارا رزق تنگ ہو گیا‘ آؤ مل کر اس کے لیے بد دعا کریں‘‘ اور بیوی نے جھولی پھیلا کر دہائی دی ’’جا ڈاکٹر، اللہ تمہیں غارت کرے‘‘۔
فیڈ بیک
لڑکے نے فون پر پوچھا ’’سر کیا آپ کو اچھا ڈرائیور چاہیے‘‘ دوسری طرف سے جواب آیا ’’میرے پاس بہت اچھا ڈرائیور موجود ہے‘‘ لڑکے نے کہا ’’سر میں آدھی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘ جواب ملا ’’نہیں شکریہ! آپ اگر مفت بھی کام کریں تو بھی میں اپنا ڈرائیور نہیں چھوڑوں گا‘‘ فون بند ہو گیا، پی سی او کا مالک سن رہا تھا، اس نے افسوس سے کہا ’’بیٹا ہمت نہیں ہارنی، تمہیں نوکری ضرور ملے گی‘‘ لڑکے نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں ان کا ڈرائیور ہوں، میں صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا‘ کیا یہ لوگ میرے کام سے مطمئن ہیں؟‘‘
اردو
میں نے رخصت ہونے سے پہلے میزبان سے کہا ’’خان صاحب ماشاء اللہ آپ کی اردو بہت اچھی ہے‘‘ میزبان سادہ سا دیہاتی پٹھان تھا‘ اس نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر پوری سنجیدگی سے جواب دیا ’’نہیں سر! آپ ویسے ہی بکواس کر رہے ہیں‘‘۔
مسائل
میں نے عرض کیا ’’میں مسائل میں گھرا ہوا ہوں‘‘ انھوں نے مسکرا کر جواب دیا ’’مسائل زندگی کی علامت ہیں، آپ زندہ ہیں تو مسئلے رہیں گے‘‘ وہ رکے اور پھر آہستہ سے بولے ’’دنیا میں صرف ایک جگہ ہے جہاں کوئی مسئلہ نہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کون سی جگہ‘‘ وہ بولے ’’قبرستان‘‘۔
کاروبار
میں نے پوچھا ’’کیا میں کاروبار کر سکتا ہوں‘‘ وہ بولے ’’ہاں اگر آپ 24 میں سے 16 گھنٹے مسکرا سکتے ہیں تو!‘‘