حرام اورمشتبہ سے اپنے آپ کو بچائیں!
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر حلال کو اختیار کرنے کا حکم دیاہے،کھانے پینے سے متعلق بھی انبیاء علیہم السلام کو اور ان کے ذریعہ ان کی اُمتوں کویہ حکم دیاگیاکہ حلال اور پاکیزہ چیزوں کو کھاؤ،اور نیک اعمال کرو،سورۂ مومنون میں ارشاد ہے:’’اے پیغمبرو! تم (اور تمہاری اُمتیں) نفیس، پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال کرو (اور) میں تم سب کے کیے ہوئے کو خوب جانتا ہوں۔‘‘(المومنون:۵۱)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے والد نے مجھے ایک چیز دی تو میری والدہ نے میرے والد حضرت بشیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں اس پر اس وقت تک رضا مند نہیں ہوں جب تک کہ تم اس ہدیہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنا لو ،چنانچہ میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ!ﷺ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک چیز دی ہے اور میری اہلیہ عمرہ بنت رواحہ نے مجھ سے کہا کہ میں اس ہبہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا:۔ ’’جس طرح تم نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے، کیا اسی طرح اپنے سب بیٹوں کو بھی ایک ایک غلام دیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’ اِتَّقُوْا اللّٰہَ وَاعْدِلُوْا فِيْ أَوْلاَدِکُمْ‘‘ ۔ ’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ ‘‘حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا:’’حضرت نعمان رضی اللہ عنہ نے اپنے سننے کو یقینی طورپربیان کرنے کے لیے اپنی انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا کہ میرے ان کانوں نے خود سنا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ الْحَلاَلَ بَیِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ ۔’’ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔‘‘ یہ پہلا جملہ ہے،اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو وہ ہیں جن کا حلال ہونا سب کو معلوم ہے،اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا حرام ہونا سب کو معلوم ہے،یعنی ان دونوں کا معاملہ صاف اور روشن ہے۔ واضح ہے کہ انسان حلال کو اختیار کرے اور حرام سے اپنے آپ کو بچائے۔ حلال جیسے: نیک کام،اچھی گفتگو، حلال ذرائع سے کمایاہوا مال وغیرہ اور حرام جیسے کفرہے،شرک ہے، مردارہے،جھوٹ ہے،سود کھانا،غیبت کرنا، چغل خوری کرنا،شراب پینا،کسی کا مال چھین لینا ،کسی کے حق پر قبضہ کرلینا ، وغیرہ، تو ان میں سے حلال چیزوں کو انسان اختیار کرنے والابنے اورحرام سے دوررہے۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے گزارش کی کہ یارسول اللہ! ﷺپ میرے حق میں دعاکیجیے کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول فرمایا کرے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:سعد !پاکیزہ چیزیں کھاؤ،حلال لقمہ کھایاکرو،اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتا رہے گا۔‘‘ آج کل بہت سی دعائیں کی جاتی ہیں، مگر لوگوں کا شکوہ یہ ہوتاہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں، اس لیے ہر شخص کو اپنے حال پر غور کرنا چاہیے، اور اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے، میں کتنا حلال کماتا ہوں، اور کس قدر اپنے آپ کو حرام سے بچاتا ہوں؟
ہمارادین اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حرام کی ذرہ برابر آمیزش سے بھی بچنے کا حکم دیاہے،حرام مال اگرچہ قلیل کیوں نہ ہو اس کوبھی اپنے حلال مال میں خلط ملط نہ کریں، حرام کو حلال میں شامل نہ کریں،اگرچہ زیاہ مال حلال ہو اور اس میں کسی قدر حرام شامل ہوجائے یہ بھی انسان کے لیے عبادات اور دعاؤں کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔’’حلال وحرام کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے ،پس جوشخص شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا،اپنے آپ کو محفوظ رکھا، اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا اور جو شبہ ڈالنے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا ۔‘‘اور جو آدمی شبہات سے بچتاہے وہ حرام سے بھی محفوظ رہے گااور جو شبہات سے نہیں بچے گاوہ ایک نہ ایک دن حرام میں واقع ہوجائے گا۔ اور جہاں کہیں شبہ پیش آئے وہاں انسان کو مستند علماء سے پوچھ لیناچاہیے کہ آیایہ معاملہ درست ہے یا نہیں؟یہ کاروبار کرناجائز ہے یا نہیں؟ وغیرہ ۔اورحلال پر قناعت کرنے اور حلال کو اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ برکت بھی دیتے ہیں اور نیک اعمال کی توفیق بھی عطافرماتے ہیںاس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ حلال غذا کا عمل صالح میں بڑا دخل ہے۔ جب انسان کی غذا حلال ہوتی ہے تو نیک اعمال کی توفیق اسے خود بخود ہونے لگتی ہے اور جب غذا ہی حرام ہو تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اس راہ میں مشکلات حائل ہو جاتی ہیں اور آدمی نیکی سے محروم ہوجاتاہے۔
مذکورہ احادیث سے معلوم یہ ہوتاہے کہ دل کی صفائی اور پاکی کے لیے یہ لازم ہے کہ انسان حلال پر اکتفاء کرنے والا بنے۔ حرام سے بھی اور مشتبہ چیزوں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حلال پر قناعت نصیب فرمائے اور حرام اور مشتبہ چیزوں سے ہمیں محفوظ فرمائے۔