رات گئی بات گئی
(جاوید چوہدری کا ایک کالم)
“آپ بہت حسین ہیں “ اب پتا چلا ہے کہ امریکی عوام آپ کے کیوں دیوانے ہین “ اس فقرے کے جواب میں خاتون نے کہا “ ہائے آپ بھی کتنے اچھے ہیں ۔“ یہ صدر آسف علی زرداری اور سارا پیلن کے درمیان کا وہ مکالمہ ہے جس نے دونوں “رہنماؤں “ کو بین الاقوامی میڈیا کا ہاٹ کیک بنا دیا ‘ اس مکالمے کے آخر میں زرداری نے فوٹوگرافر کی بات پر فرمایا “ اگر اس کا اصرار جاری رہا تو میں انہیں گلے بھی لگا سکتا ہوں“ زرداری کا دورہ مکمل ہو چکا ہے لیکن ان مکالموں سے ابھی تک بھاپ اٹھ رہی ہے ۔ سارا پیلن ری پبلکن پارٹی کی طرف سے نائب صدارت کا الیکشن لڑ رہی ہیں ، وہ چوالیس برس کی خوبصورت سیاستدان ہیں ،وہ امریکی اسٹیٹ الاسکا کی گورنر ہیں ، پانچ بچوں کی ماں ہیں ، امریکہ میں “اینٹی ابارشن “ تحریک کی سرخیل ہیں ، انہوں نے ٹیلی ویژن پر خبریں پڑھنے سے اپنا کیرئر شروع کیا تھا اور جوانی میں انہوں نے مقابلہ حسن بھی جیتا تھا اور اس وقت وہ اپنی بے باک تقریروں کے باعث پوری طرح امریکی میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں ۔ سارا پیلن نے پچیس ستمبر کو صدر پاکستان آصف عل؛ی زرداری سے ملاقات کی ‘ اس ملاقات میں آصف علی زرداری سارا کے حسن سے متاثر ہو گئے اور انہوں نے بڑی بے باکی سے سارا پیلن کی تعریف شروع کر دی ‘ اس تعریف کے دوران دونوں کے عالمی راہنماؤں کے درمیاں ان دلچسپ فقروں کا تبادلہ ہوا ‘ یہ فقرے آج کل پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا با لخصوص ٹی وی چینلز پر بڑے تواتر سے دکھائے جا رہے ہیں اور لوگ چسکے لے لے کر یہ فقرے دہرا رہے ہیں ۔
اس واقعے کے بارے میں دو قسم کی آراء سامنے آرہی ہیں ۔ لبرل طبقوں کا خیال ہے امریکی کلچر میں اس قسم کی گفتگو کو “گڈول جیسچر“ سمجھا جاتا ہے اور اس سے فریقین کے درمیان ایک سفارتی قربت اور بے تکلفی پیدا ہوتی ہے جناچہ صدر آصف علی زرداری نے اس بے باکی کا مظاہرہ کرکے ری پبلکن پارٹی اور امریکی میڈیا کا دل چیت لیا جبکہ قدامت پسند طبقوں کا کہنا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کو احتیاط کرنا چاہیے تھی ‘ انہیں کم از کم پاکستان کے امیج کا خیال ضرور رکھنا چاہیے تھا کیونکہ وہ امریکہ میں امریکی کلچر کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ہیں اور صدر کی اس حرکت سے ہمارا سر شرم سے جھک گیا۔ وغیرہ وغیرہ ۔مجھے دونوں طبقوں کی رائے کا احترام ہے لیکن مجھے “سر شرم سے جھک گیا “ کے فقرے پر بہت اعتراض ہے کیونکہ اگر ہم اس خاص زاوئے سے اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں نہایت دکھ سے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے اٹی پڑی ہے اور اس قسم کے کسی بھی واقعے پر ماضی میں ہمارا سر شرم سے نہیں جھکا تھا مثلا آپ ملک غلام محمد کو لیجئے ، ملک غلام محمد پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل تھے ‘ ان کے دور میں ایک نوجوان سوئس خاتون مس روتھ بورل گورنر ہاؤس کی گورنس تھی ، ملک غلام محمد نے خصوصی طور پر اسے اپنی نگہداشت کے لیے امپورٹ کیا تھا ‘ ملک غلام محمد کو فالج ہو چکا تھا ‘ وہ سارا دن ویل چئیر پر پڑے رہتے تھے اور مس بورل اپنے رومال سے ان کی رالیں صاف کرتی رہتی تھی جبکہ گورنر جنرل اس کے ساتھ چہلیں کرتے رہتے تھے ، مس بورل کے ساتھ گورنر جنرل کی چہلوں کی بے شمار تصاویر اس زمانے کے اخبارات میں شائع ہوئیں لیکن ہمارا سر شرم سے نہیں جھکا ۔ سکندر مرزا پاکستان کے چوتھے گورنر جنرل اور پہلے صدر تھے ، وہ سرکاری کھانوں کے دوران نشے کے عالم میں خواتین کی ساڑھیوں کا پلو پکڑ کر گانا گانا شروع کر دیتے تھے ، یہ منظر بھی سینکڑوں ، ہزاروں لوگوں نے دیکھا تھا لیکن ہمارا سر شرم سے نہیں جھگا ۔ صدر جنرل یحیٰی خان پاکستانی تاریخ کے انتہائی متنازعہ کردار تھے ، حمود الرحمان رپورٹ میں صدر کی ذاتی زندگی کے ایسے ایسے گھناؤنے واقعات درج ہیں کہ انسان کو ان ہاتھوں سے بو آنے لگتی ہے جن سے اس نے یہ رپورٹ تھام رکھی ہوتی ہے ۔جنرل یحیٰی خان ایوان صدر سے برہنہ باہر آجاتے تھے ، وہ نشے کے عالم میں خواتین کے ساتھ کھلی گاڑی میں کھڑے ہوتے تھے اور پورے صدارتی پروٹوکول کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر سیر کرتے تھے ، انہوں نے ایرانی شہنشاہیت کی ہزار سالہ تقریبات میں دنیا بھر کے حکمرانوں کے سامنے گملے میں پیشاب کر دیا تھا اور اسی تقریب میں انہوں نے مانٹی کارلو کی شہزادی گریس کیلی کے بازو پر ہاتھ پھیر کر ایسے شرمناک مکالمے بولے تھے کہ شہزادی گریس نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا تھا ۔صدر محترم نے ایک بار پشاور کے گورنر ہاؤس میں جنرل رانی اور رفیق سہگل کو کمرے میں بند کرکے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے حکم جاری کیا تھا کہ جب تک جنرل رانی نہ کہے یہ کمرہ نہ کھولا جائے اور وہ ایک بار سندھ گورنر ہاؤس کے سوئمنگ پول سے نکل کر سیدھے سڑک پر آگئے تھے لیکن ہمارا سر شرم سے نہیں جھکا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق بھارتی اداکارہ ہیما مالنی کے بہت بڑے فین تھے ، وہ ١٩٨٤ میں بھارت کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے ہیما مالنی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کر دی تھی لیکن ہمارا سر شرم سے نہیں جھکا تھا ۔جناب الٰہی بخش سومرو اور گوہر ایوب نے اسپیکر قومی اسمبلی کی حثیت سے غیر ملکی خواتین کے ساتھ ڈانس بھی کیئے تھے ، بوسے بھی لیئے تھے اور جام صحت بھی نوش کیئے تھے اور وہ تصاویر بھی عالمی میڈیا پر شائع ہوئیں تھیں لیکن ہمارا سر شرم سے نہیں جھکا تھا ۔میاں نواز شریف بھارت کے سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال کو ٹیلی فون پر گانے سناتے تھے (یہ بات گجرال نے ١٩٩٩ میں ایک انٹرویو میں بھی کہی تھی لیکن میاں نواز شریف نے گزشتہ روز مجھے مدینہ منورہ سے فون کرکے اس کی تردید کردی )لیکن ہمارا سر شرم سے نہیں جھکا اور کمانڈر خلیل صوبہ سرحد کے گورنر تھے ، ان کے دور میں ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ انجلینا جولی صوبہ سرحد کے دورے پر آئی ، گورنر صاحب نے اس کے حسن کی تعریف میں اپنی ساری انگریزی خرچ کر ڈالی تھی ، وزیر اعظم شوکت عزیز ان سے چند قدم آگے نکل گئے اور انہوں نے کونڈولیزارائس کی ٹانگوں کی تعریف کردی ۔کونڈولیزارائس نے اپنی کتاب میں اس واقعے پر پوری پاکستانی قوم کو شرمندہ کر دیا تھا لیکن ہمارا سر نہیں جھکا اور رہ گئے صدر پرویش مشرف تو انہوں نے اپنے دور میں قوم کو شرمندگی کے بے شمار موقع فراہم گئے تھے ۔ صدر پاکستان اپریل ٢٠٠٥ کو بھارت کے دورے پر گئے تھے ، بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے صدر مشرف کے اعزاز میں ڈنر دیا تو ہمارے صدر نے بھارتی وزیر اعظم سے درخواست کی کہ آپ بالی ووڈ کی اداکارہ رانی مکھر جی کو بھی بلا لیں ، رانی مکھر جی کھانے پر آئی تو نہ صرف ہمارے صدر نے اس سے ہاتھ ملایا بلکہ بڑی دیر تک اس کی تعریف بھی کرتے رہے ۔صدر مشرف ایشوریا رائے کے بھی بہت فین تھے ، صدر محترم کے ڈانس بھی بڑے مشہور تھے ، وہ سر پر گلاس رکھ کر رقص کیا کرتے تھے ، انہوں نے چودہ اگست کے موقع پر ہوری قوم کے سامنے ڈانس کیا تھا جبکہ ان کی محفل میں سی بی آر کے سابق چئیرمین عبداللہ یوسف اور شوکت عزیز بھی ڈانس کا مظاہرہ کرتے تھے لیکن ہمارے سر شرم سے نہیں جھکے ۔
سارا پیلن کا واقعہ شرمناک تھا لیکن ان قوموں کے لیے جن کی آنکھوں میں شرم باقی ہو جنکہ ہم لوگ ایک ایسے مقام میں رہ رہے ہیں جس میں تمام سیاستدان الف ننگے ہیں اور ہم نے اج تک کسی “ننگے بادشاہ“ کی برہنگی پر اعتراض نہیں کیا ، پاکستان کی تاریخ میں آج تک ہم نے کسی حکمران ، کسی لیڈر ، کسی وزیر ،مشیر ،سفیر حتٰی کہ کسی کونسلر تک کا محاسبہ نہیں کیا ۔پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس میں آج تک کسی سیاستدان نے کرپشن ، اختیارات سے تجاوز ، لوٹ کھسوٹ اور اخلاقی بد دیانتی کے جرم میں سزا نہیں پائی ، اگر کوئی قسمت کا مارا سیاستدان گرفتار بھی ہوا تو وہ نہ صرف عدالتوں سے باعزت بری ہو گیا بلکہ اس نے الیکشن بھی لڑا اور وہ دوبارہ اقتدار میں بھی آیا چنانچہ جس ملک میں کرپشن ، لوٹ کھسوٹ اور دیدہ دلیری اور سینہ زوری
کی یہ حالت ہو اس میں اخلاق سے گرے چند فقروں ہر کیا احتساب ہوگا ‘ جس ملک کے صدر ( پرویز مشرف ) نے امریکہ میں کھڑے ہو کر یہ کہہ دیا ہو “ مختاراں مائی کے بعد پاکستان کی بے شمار خواتین کی خواہش ہے کہ ان کے ساتھ بھی ایسا واقعہ پیش آئے تاکہ وہ کینیڈا کا ویزہ حاصل کر سکیں “ تو پھر پیچھے کیا بچتا ہے ؟ پھر کس چیز کا رونا باقی ہے لہٰذا سارا پیلن سے صدر آصف علی زرداری نے ذرا سا “مخول “ کیا تھا اور سارا پیلن نے اس مخول کو ہنسی میں اڑا دیا ۔آیئے ہم بھی اس واقعے پر ایک قہقہہ لگایئں اور اس سارے معاملے کو ہوا میں اڑا کر اطمینان سے اپنے معمولات زندگی میں مصروف ہو جائیں ‘ رات گئی بات گئی ۔صدر کا دورہ ختم ہوا ‘ ہماری شرمندگی اور خفت کا سلسلہ بھی تمام ہوا ۔ کیوں ؟ کیونکہ ندامت کے داغ تو ان قوموں پر لگتے ہیں جن کے پاس دامن ہو جبکہ ہم تو وہ قوم ہیں جس کا گریبان بچا ہے اور نہ ہی دامن چنانچہ شرم کس بات کی ؟ ندامت کس چیز کی ؟
بہت خوب،خرد صاحب ایسا پیاراسا مضمون یہاں ارسال کرنے کا شکریہ
جس طرح کہ جاوید چوہدری صاحب کے کالم سے واضح ہورہا ہے ؛اکثر سیاست دان ایک نمبر کے عیاش،فحاش،اپنے مفادوں کے یار مظلوموں کے خون کے پیاسے اور ون نمبر ٹھرکی ہیں
پاکستانی معاشرے کی چودہ خوبیاں
جاوید چوہدریہفتہ 9 اگست 2014
یہ ڈیلف کی دوسری شادی تھی۔ وہ جوان ،خوبصورت‘ پڑھی لکھی اور مہذب تھی جب کہ اس کا خاوند گجرات کا ان پڑھ اور ادھیڑ عمر تھا‘ محمد اکرم اور ڈیلف کی عمروں میں بیس سال کا فرق تھا‘ ڈیلف تیس برس کی دہلیز پر بیٹھی تھی اور اکرم صاحب پچاس کی لکیر عبور کر چکے تھے‘ یہ دونوں ایمسٹرڈیم میں رہتے تھے‘ اکرم صاحب بیس سال کی عمر میں یورپ آئے‘ دھکے کھاتے ہالینڈ پہنچے اور یہاں کے ہو کر رہ گئے‘ یہ مزدور تھے‘ پوری زندگی مزدوری میں گزار دی‘ یہ ایک دن پھولوں کے فارم میں کام کر رہے تھے، فارم کا مالک ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا ’’کیا تم پاکستانی ہو‘‘ اکرم صاحب نے ہاں میں سر ہلا دیا‘ مالک نے اس کے بعد ان سے عجیب سوال کیا ’’ کیا تم ہالینڈ کی خوبصورت لڑکی سے شادی کر لو گے‘‘ اکرم صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ’’کیا مطلب‘‘ مالک نے جواب دیا ’’ میری سالی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے‘ یہ کسی پاکستانی کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے‘ میں صرف تمہیں جانتا ہوں چنانچہ میں نے تم سے پوچھ لیا‘‘۔
اکرم صاحب رشتے کے اس عجیب و غریب پیغام پر حیران رہ گئے‘ مالک انھیں حیران دیکھ کر بولا ’’ تم خاتون سے مل لو‘ اگر تمہیں پسند آئی تو تم اس سے شادی کر لینا ‘‘ اکرم صاحب مان گئے‘ ملاقات ہوئی‘ اکرم صاحب کو خاتون پسند آ گئی اور شادی ہو گئی‘ خاتون نے اکرم صاحب کی زندگی کی سمت بدل دی‘ وہ فارم ہاؤس کے مزدور سے پھولوں کے بیوپاری بن گئے‘ میں 2005ء میں ایمسٹر ڈیم گیا‘ اکرم صاحب سے ملاقات ہوئی‘ وہ مجھے گھر لے گئے‘ ڈیلف سے ملاقات ہوئی‘ ڈیلف نے بتایا ’’ یہ میری دوسری شادی ہے، میرا پہلا خاوند بھی پاکستانی تھا‘ میں نے 20 سال کی عمر میں اس سے شادی کی‘ ہم دس سال اکٹھے رہے‘ وہ بیچارہ حادثے میں ہلاک ہو گیا‘ میں نے اس کے بعد فیصلہ کیا میرا دوسرا خاوند بھی پاکستانی ہو گا‘‘۔
میں بہت حیران ہوا‘ میں نے حیرت کا اظہار کیا تو ڈیلف نے عجیب وجہ بتائی‘ اس کا کہنا تھا ’’میں نے پاکستانیوں میں عجیب عادت دیکھی جو دوسری کسی کمیونٹی میں موجود نہیں‘ پاکستانی کھل کر قہقہہ لگاتے ہیں‘ یہ سارا دن بیٹھے رہیں تو یہ سارا دن قہقہے لگاتے رہیں گے‘ میرا پہلا خاوند بھی اتنا ہی زندہ دل تھا اور میرا یہ خاوند بھی زندگی سے بھرپور قہقہے لگاتا ہے‘‘ میں ڈیلف کی بات پر حیران رہ گیا اور میں نے اس کے بعد پاکستانیوں کو ڈیلف کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا‘ ڈیلف کا مشاہدہ درست تھا۔
ہم لوگ واقعی کھل کر ہنسنے کے ماہر ہیں‘ ڈیلف سے ملاقات اور اس کا بتایا ہوا نقطہ میری اس ریسرچ کی بنیاد بن گیا‘ میں نے ریسرچ کی اور مجھے پاکستانیوں میں 14 حیران کن خوبیاں نظر آئیں‘ میں آج یہ خوبیاں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں‘ آپ بھی یقینا کنٹینروں میں الجھے پھنسے اس ملک اور اس ملک کے 19 کروڑ مایوس لوگوں کی ان 14 خوبیوں پر حیران رہ جائینگے‘ یہ خوبیاں آپ کو دوسری اقوام میں کم ملیں گی۔ پاکستانیوں کی پہلی خوبی جمہوریت پسندی ہے‘ ہمارے لوگ جمہوریت سے محبت کرتے ہیں‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں آمریت کا دور زیادہ سے زیادہ دس سال ہوا ہے‘ جنرل خواہ ایوب خان ہو‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق یا پھر پرویز مشرف ہو اس کو بہر حال آٹھ دس برسوں میں اپنا دسترخوان لپیٹنا پڑجاتا ہے اور وہ اقتدار سیاستدانوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جب کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں جب بھی آمریت آئی‘ یہ تیس چالیس سال سے پہلے ختم نہیں ہوئی، آپ اٹلی سے لے کر اسپین اور شام سے لے کر مصر‘ لیبیا‘ عراق اور تیونس کی مثالیں دیکھ لیں آپ کو پاکستان ان سے مختلف لگے گا۔
دو‘ دنیا میں 58 اسلامی ممالک ہیں‘ ان 58 اسلامی ممالک میں سے صرف چار ملکوں میں صحیح معنوں میں جمہوریت ہے‘ ترکی‘ ملائیشیا‘ بنگلہ دیش اور پاکستان۔ ہمیں اپنی جمہوریت پر بیشمار تحفظات ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے پاکستان میں الیکشن بھی ہوتے ہیں اور عوام جیسے تیسے سہی اپنی مرضی سے حکمران بھی منتخب کرتے ہیں‘ ملک میں ون پارٹی سسٹم ہے اور نہ ہی ’’ کنٹرولڈ ڈیموکریسی‘‘۔ ہمارا ملک سیاسی لحاظ سے اس حد تک آزاد ہے کہ یہاں کوئی بھی پارٹی کسی بھی وقت پورا ملک بند کر سکتی ہے، علامہ طاہر القادری انقلاب لانے کے لیے کینیڈا سے تشریف لے آتے ہیں اور عمران خان آزادی مارچ کے ذریعے پورا ملک معطل کر دیتے ہیں اور کوئی انھیں روک نہیں سکتا‘ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اتنی آزادی ممکن نہیں۔
تین‘ لوگ سیاسی لحاظ سے سمجھ دار ہیں‘ میں اس سلسلے میں دو سیاسی جماعتوں کی مثال دوں گا‘ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف‘ یہ دونوں نئی سیاسی جماعتیں ہیں‘ ن لیگ 6 اکتوبر 1993ء میں بنی اور پی ٹی آئی کے پاس 2002ء کی قومی اسمبلی میں صرف ایک سیٹ تھی لیکن لوگوں نے ن لیگ کو دوبار ہیوی مینڈیٹ دیا‘ پی ٹی آئی بھی پنجابی پارٹی ہے لیکن اس پارٹی نے نہ صرف خیبر پختونخواہ میں حکومت بنا لی بلکہ اس نے تین صوبوں اور قومی اسمبلی میں بھاری نشستیں بھی حاصل کر لیں جب کہ ان کے مقابلے میں مقامی جماعتیں‘ قوم پرست پارٹیاں اور مذہبی سیاسی جماعتیں الیکشن ہار جاتی ہیں، لوگ علامہ طاہر القادری کے لیے جان دے دیتے ہیں لیکن یہ انھیں ووٹ نہیں دیتے‘ سندھی قوم پرست جماعتیں بھی پورا سندھ بند کرا دیتی ہیں لیکن یہ ووٹ نہیں لے پاتیں‘ جماعت اسلامی ملک کا سب سے بڑا جلسہ کر لے گی لیکن مینڈیٹ نہیں لے سکے گی اور طالبان ملک پر قبضہ کر سکتے ہیں مگر ووٹ نہیں لے سکتے‘ کیا یہ عوام کی سیاسی بلوغت کی نشانی نہیں۔
چار‘ پاکستان کا بنیادی انفرا سٹرکچر‘ سڑکوں کا معیار‘ صفائی‘ مواصلاتی نظام اور سوک سینس سارک کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت اچھی ہے‘ ہماری سڑکیں یورپ کا مقابلہ نہیں کر سکتیں لیکن یہ معیار میں ہمسایہ ممالک سے بہت آگے ہیں‘پاکستان میں دنیا کا دوسرا بڑا نہری نظام بھی ہے، ہم آج بھی ایک سو53 سال پرانی ریل کی پٹڑی پر ٹرین چلا رہے ہیں اور ہمارا گندے سے گندا شخص بھی کھانا کھانے سے قبل ہاتھ ضرور دھوئے گا جب کہ سارک کے دیگر ممالک میں یہ روایت موجود نہیں۔
پانچ‘ لوگ پاکستان میں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلاتے ہیں‘ ملک کی پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بیس فیصد طالبعلم انتہائی نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ کچی بستیوں تک میں پرائیویٹ انگریزی اسکول قائم ہیں‘ یہ حقائق عوام کی تعلیم پسندی ثابت کرتے ہیں جب کہ تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں یہ رجحان موجود نہیں۔
چھ‘ ہمارے ملک میں ایک شخص پورے خاندان کی ذمے داری اٹھا لیتا ہے‘ یہ اس ذمے داری کو مذہبی فریضہ سمجھ کر نبھاتا ہے، آپ کو یہ احساس ذمے داری دنیا کے دیگر ممالک میں نظر نہیں آتا۔ سات‘ ہم لوگ مہمان نواز ہیں‘ ہم لوگ کسی مہمان کو چائے اور کھانے کے بغیر نہیں جانے دیتے‘ ہم ادھار لے لیں گے مگر مہمان کو خاطر داری کے بغیر اٹھنے نہیں دینگے۔ آٹھ ‘ ہم میں حس مزاح ہے‘ ہم ہنسنا جانتے ہیں‘ لوگ یورپ اور امریکا کے تعلیمی اداروں میں ہمارے طالبعلموں کو ٹولیوں میں بیٹھ کر ہنستے اور لوٹ پوٹ ہوتے دیکھ کر حیران ہوتے ہیں ۔ نو‘ ہمارا میڈیا اور ہماری عدلیہ آزاد ہے‘ ہمارا میڈیا وہ کچھ دکھا دیتا ہے جس کا دوسرے ملکوں میں تصور نہیں کیا جاتا‘ ہماری عدالتیں بھی انصاف فراہم کریں یا نہ کریں لیکن یہ احکامات جاری کرنے میں مکمل آزاد ہیں‘ ہمارے جج کوئی بھی حکم جاری کر سکتے ہیں اور کوئی ان کا احتساب نہیں کر سکتا‘ یہ آزادی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں موجود نہیں۔
دس‘ ہم لوگ صدقات اور خیرات میں دنیا میں پانچویں نمبر پر ہیں‘ ہم میں سے 98 فیصد لوگ صدقہ کرتے ہیں‘ ہم خیرات بھی دیتے ہیں، ہمارے دروازوں سے ضرورت مند خالی ہاتھ واپس نہیں جاتے۔ گیارہ‘ ہم میں ’’لوک دانش‘‘ موجود ہے‘ آپ چٹے ان پڑھ لوگوں سے گفتگو کریں‘ آپ کو ان کی گفتگو میں محاورے بھی ملیں گے‘ ضرب المثل بھی‘ قصے بھی‘ واقعات بھی اور زندگی کے سبق بھی‘ ہمارے لوگوں کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے جب کہ دنیا کے دیگر علاقوں کے لوگ کہنے کے معاملے میں بانجھ واقع ہوئے ہیں۔ یہ دو تین فقرے بولنے کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں۔ بارہ‘ ہمارے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں‘ یہ نہ صرف برائیوں اور خرابیوں سے واقف ہیں بلکہ یہ ان کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں‘ آپ کسی شخص کے پاس بیٹھ جائیں وہ ’’ہم لوگ‘‘ کے فقروں سے گفتگو شروع کرے گا اور پھر پورے معاشرے کی خرابیاں بیان کر دیگا‘ میں نے یہ معاشرتی اعلیٰ ظرفی اور اعتراف جرم کسی دوسری قوم میں نہیں دیکھا‘ لوگ یہ معاشرتی برائیاں دور بھی کرنا چاہتے ہیں شاید یہی وجہ ہے ہمارے لوگ ہر قسم کے احتجاج‘ مارچز‘ جلسے‘ جلوس اور ریلیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
تیرہ‘ ہم لوگ جی جان سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں‘ آپ کسی جگہ کھڑے ہو جائیں اور کسی گزرنے والے سے راستہ پوچھ لیں‘ وہ باقاعدہ رک کر نہ صرف آپ کو راستہ بتائے گا بلکہ وہ آپ کے ساتھ چل پڑیگا‘ لوگ دوسرے لوگوں کو راستہ بھی دیتے ہیں‘ خواتین اور بزرگوں کے لیے جگہ بھی خالی کر دیتے ہیں اور راستوں میں پانی اور دودھ کی سبیلیں بھی لگاتے ہیں‘ یورپ میں لوگ دوسروں سے صرف عادتاً پوچھتے ہیں ’’ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں‘‘ جب کہ ہمارے ملک میں لوگ حقیقتاً دوسروں کی مدد کرتے ہیں، یہ ایکسیڈنٹ کی صورت میں زخمیوں کو اسپتال چھوڑ کر آتے ہیں‘ آگ لگنے کے بعد پورا محلہ مل کر آگ بجھاتا ہے اور زلزلے اور سیلابوں کے بعد پورے ملک سے امدادی قافلے چل پڑتے ہیں اور چودہ‘ پاکستان 19 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ہے‘ یہ دنیا کی ساتویں بڑی کنزیومر مارکیٹ ہے‘ لوگوں کو یہاں سوئی سے لے کر جہاز تک درکار ہیں۔
پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ آپ یہاں زہر بھی بیچنا چاہیں تو وہ بک جائے گا‘ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود سبزی بازار سے خریدتے ہیں‘ گھر میں لان موجود ہوگا لیکن ہم اس سے آلو‘ پیاز اور لیموں حاصل کرنا توہین سمجھتے ہیں چنانچہ ہم انیسں کروڑ لوگ کنزیومر ہیں‘ دنیا میں کسی جگہ اتنی بڑی مارکیٹ موجود نہیں چنانچہ پاکستان میں صنعت‘ کاروبار اور تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں‘ حکومت بس کاروباری ماحول پیدا کر دے اور اس کے بعد ملک کی معیشت کو آسمان سے باتیں کرتا دیکھے۔
یہ پاکستانی معاشرے کے 14 خوبصورت رنگ ہیں‘ ہم شاندار لوگ ہیں بس ہمیں اپنی خوبیاں نظر نہیں آتیں‘ ہم نے جس دن ڈیلف کی طرح اپنی خوبیاں پا لیں‘ ہم نے اپنے رنگ دیکھ لیے‘ ہم اس دن ترقی کے راستے پر آ جائیں گے‘ ہم اس دن پاک سرزمین شاد باد بن جائیں گے‘ ہم اس دن پاکستانی ہو جائیں گے۔
ملک کا جھنڈا:
کاش جاوید چودھری کرپشن اور غربت میں دنیا بھر میں حاصل شدہ اعلی ترین ” مقامات ” کو بھی ایک خوبی کے طور پر لکھ دیتے ۔۔ جس سے ہماری ” شعوری بلوغت ” کا بخوبی اندازہ ہوجاتا کہ ہم اپنے ہی ملک کا خزانہ لوٹنے والوں کو اپنے ہی کندھوں پر اٹھاتے ہیں۔
1993 سے ن لیگ کو ایک ” نئی جماعت ” کہہ کر یا تو کالم نگار نے اپنے ” وسعتِ مطالعہ ” یا پھر کسی ” نمک ” کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ ورنہ 80 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کی گود میں چوسنی لے کر پلنے والے اور 1988 میں خفیہ ایجنسیوں کے متفقہ منصوبہ اور مدد سے بننے والی آئی جے آئی کو یوں ” 1993 میں مسلم لیگ ن ” کی قلعی میں نہ لپیٹا جاتا ۔
لیکن بہرحال ہم قہقہے لگانے والی قوم ہیں۔ جس سے بےحسی واضح ہوتی ہے
پڑوس میں کوئی لٹ جائے۔ ۔۔۔ ہم قہقہے ہی لگائیں گے
محلے میں کسی بہن بیٹی کی آبرو ریزی ہوجائے ۔ ۔۔۔ ہم قہقہے لگاتے ہیں
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ، دہشت گردی کا بازار گرم رہے ۔۔۔ ہم قہقہقے لگاتے ہیں
شمالی علاقہ جات میں زائرین کی بھری بس کو کیڑے مکوڑوں کی طرح سروں میں گولیاں دے ماری جائیں
یا مساجد و چرچ کو بموں سے اڑا دیا جائے ۔۔۔ ہمارے قہقہقے نہیں رکتے ۔۔
یہ ہے شریعت از جاوید چوہدری
والدہ نے سات دن دودھ پِلایا، آٹھویں دن دشمن اسلام ابو لہب کی کنیز ثوبیہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا، ثوبیہ نے دودھ بھی پلایا اور دیکھ بھال بھی کی، یہ چند دن کی دیکھ بھال تھی، یہ چند دن کا دودھ تھا لیکن ہمارے رسولؐ نے اس احسان کو پوری زندگی یاد رکھا، مکہ کا دور تھا تو ثوبیہ کو میری ماں میری ماں کہہ کر پکارتے تھے، ان سے حسن سلوک بھی فرماتے تھے، ان کی مالی معاونت بھی کرتے تھے، مدنی دور آیا تو مدینہ سے ابولہب کی کنیز ثوبیہ کے لیے کپڑے اور رقم بھجواتے تھے، یہ ہے شریعت۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضاعی ماں تھیں، یہ ملاقات کے لیے آئیں، دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور میری ماں، میری ماں پکارتے ہوئے ان کی طرف دوڑ پڑے، وہ قریب آئیں تو اپنے سر سے وہ چادر اتار کر زمین پر بچھا دی جسے ہم کائنات کی قیمتی ترین متاع سمجھتے ہیں، اپنی رضاعی ماں کو اس پر بٹھایا، غور سے ان کی بات سنی اور ان کی تمام حاجتیں پوری فرما دیں، یہ بھی ذہن میں رہے، حضرت حلیمہ سعدیہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، وہ اپنے پرانے مذہب پر قائم رہی تھیں، فتح مکہ کے وقت حضرت حلیمہ کی بہن خدمت میں حاضر ہوئی، ماں کے بارے میں پوچھا، بتایا گیا، وہ انتقال فرما چکی ہیں، رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، روتے جاتے تھے اور حضرت حلیمہ کو یاد کرتے جاتے تھے، رضاعی خالہ کو لباس، سواری اور ایک سو درہم عنایت کیے، رضاعی بہن شیما غزوہ حنین کے قیدیوں میں شریک تھی، پتہ چلا تو انھیں بلایا، اپنی چادر بچھا کر بٹھایا، اپنے ہاں قیام کی دعوت دی، حضرت شیما نے اپنے قبیلے میں واپس جانے کی خواہش ظاہر کی، رضاعی بہن کو غلام، لونڈی اور بکریاں دے کر رخصت کر دیا ، یہ بعد ازاں اسلام لے آئیں، یہ ہے شریعت۔
جنگ بدر کے قیدیوں میں پڑھے لکھے کفار بھی شامل تھے، ان کافروں کو مسلمانوں کو پڑھانے، لکھانے اور سکھانے کے عوض رہا کیا گیا، حضرت زید بن ثابتؓ کو عبرانی سیکھنے کا حکم دیا’ آپؓ نے عبرانی زبان سیکھی اور یہ اس زبان میں یہودیوں سے خط و کتابت کرتے رہے، کافروں کا ایک شاعر تھا، سہیل بن عمرو۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں بھی کرتا تھا اور توہین آمیز شعر بھی کہتا تھا، یہ جنگ بدر میں گرفتار ہوا، سہیل بن عمرو کو بارگاہ رسالت میں پیش کیا گیا، حضرت عمرؓ نے تجویز دی، میں اس کے دو نچلے دانت نکال دیتا ہوں’ یہ اس کے بعد شعر نہیں پڑھ سکے گا، تڑپ کر فرمایا ” میں اگر اس کے اعضاء بگاڑوں گا تو اللہ میرے اعضاء بگاڑ دے گا” سہیل بن عمرو نے نرمی کا دریا بہتے دیکھا تو عرض کیا ” مجھے فدیہ کے بغیر رہا کر دیا جائے گا” اس سے پوچھا گیا ”کیوں؟” سہیل بن عمرو نے جواب دیا ” میری پانچ بیٹیاں ہیں، میرے علاوہ ان کا کوئی سہارا نہیں” رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن عمرو کو اسی وقت رہا کر دیا، یہاں آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے، سہیل بن عمرو شاعر بھی تھا اور گستاخ رسول بھی لیکن رحمت اللعالمینؐ کی غیرت نے گوارہ نہ کیا، یہ پانچ بچیوں کے کفیل کو قید میں رکھیں یا پھر اس کے دو دانت توڑ دیں’ یہ ہے شریعت۔
غزوہ خندق کا واقعہ ملاحظہ کیجیے’ عمرو بن عبدود مشرک بھی تھا، ظالم بھی اور کفار کی طرف سے مدینہ پر حملہ آور بھی ۔ جنگ کے دوران عمرو بن عبدود مارا گیا، اس کی لاش تڑپ کر خندق میں گر گئی، کفار اس کی لاش نکالنا چاہتے تھے لیکن انھیں خطرہ تھا، مسلمان ان پر تیر برسا دیں گے، کفار نے اپنا سفیر بھجوایا، سفیر نے لاش نکالنے کے عوض دس ہزار دینار دینے کی پیش کش کی، رحمت اللعالمینؐ نے فرمایا ”میں مردہ فروش نہیں ہوں، ہم لاشوں کا سودا نہیں کرتے، یہ ہمارے لیے جائز نہیں” کفار کو عمرو بن عبدود کی لاش اٹھانے کی اجازت دے دی، خیبر کا قلعہ فتح ہوا تو یہودیوں کی عبادت گاہوں میں تورات کے نسخے پڑے تھے، تورات کے سارے نسخے اکٹھے کروائے اور نہایت ادب کے ساتھ یہ نسخے یہودیوں کو پہنچا دیے اور خیبر سے واپسی پر فجر کی نماز کے لیے جگانے کی ذمے داری حضرت بلالؓ کو سونپی گئی، حضرت بلالؓ کی آنکھ لگ گئی، سورج نکل آیا تو قافلے کی آنکھ کھلی، رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا ”بلال آپ نے یہ کیا کیا” حضرت بلالؓ نے عرض کیا ”یا رسول اللہ ﷺ جس ذات نے آپؐ کو سلایا، اس نے مجھے بھی سلا دیا” تبسم فرمایا اور حکم دیا ”تم اذان دو” اذان دی گئی، آپؐ نے نماز ادا کروائی اور پھر فرمایا ”تم جب نماز بھول جاؤ تو پھر جس وقت یاد آئے اسی وقت پڑھ لو” یہ ہے شریعت۔
حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سفر کر رہے تھے، کفار جنگ بدر کے لیے مکہ سے نکلے، کفار نے راستے میں حضرت حذیفہؓ کو گرفتار کر لیا، آپ سے پوچھا گیا، آپ کہاں جا رہے ہیں، حضرت حذیفہؓ نے عرض کیا ”مدینہ” کفار نے ان سے کہا ” آپ اگر وعدہ کرو، آپ جنگ میں شریک نہیں ہو گے تو ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں” حضرت حذیفہؓ نے وعدہ کر لیا، یہ اس کے بعد سیدھے مسلمانوں کے لشکر میں پہنچ گئے’ مسلمانوں کو اس وقت مجاہدین کی ضرورت بھی تھی، جانوروں کی بھی اور ہتھیاروں کی بھی لیکن جب حضرت حذیفہ ؓ کے وعدے کے بارے میں علم ہوا تو مدینہ بھجوا دیا گیا اور فرمایا ”ہم کافروں سے معاہدے پورے کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں صرف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہیں” نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا، رسول اللہ ﷺ نے عیسائی پادریوں کو نہ صرف ان کے روایتی لباس میں قبول فرمایا بلکہ انھیں مسجد نبویؐ میں بھی ٹھہرایا اور انھیں ان کے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت بھی تھی’ یہ عیسائی وفد جتنا عرصہ مدینہ میں رہا، یہ مسجد نبویؐ میں مقیم رہا اور مشرق کی طرف منہ کر کے عبادت کرتا رہا۔
ایک مسلمان نے کسی اہل کتاب کو قتل کر دیا، آپؐ نے مسلمان کے خلاف فیصلہ دیا اور یہ مسلمان قتل کے جرم میں قتل کر دیا گیا، حضرت سعد بن عبادہؓ نے فتح مکہ کے وقت مدنی ریاست کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا، یہ مکہ میں داخل ہوتے وقت جذباتی ہو گئے اور انھوں نے حضرت ابو سفیانؓ سے فرمایا ”آج لڑائی کا دن ہے، آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا” رحمت اللعالمینؐ نے سنا تو ناراض ہو گئے، ان کے ہاتھ سے جھنڈا لیا، ان کے بیٹے قیسؓ کے سپرد کیا اور فرمایا ”نہیں آج لڑائی نہیں، رحمت اور معاف کرنے کا دن ہے”۔ مدینہ میں تھے تو مکہ میں قحط پڑ گیا، مدینہ سے رقم جمع کی، خوراک اور کپڑے اکٹھے کیے اور یہ سامان مکہ بھجوا دیا اور ساتھ ہی اپنے اتحادی قبائل کو ہدایت کی ”مکہ کے لوگوں پر برا وقت ہے، آپ لوگ ان سے تجارت ختم نہ کریں”۔ مدینہ کے یہودی اکثر مسلمانوں سے یہ بحث چھیڑ دیتے تھے ”نبی اکرم ﷺ فضیلت میں بلند ہیں یا حضرت موسیٰ ؑ ” یہ معاملہ جب بھی دربار رسالت میں پیش ہوتا، رسول اللہ ﷺ مسلمانوں سے فرماتے ”آپ لوگ اس بحث سے پرہیز کیا کریں”۔
ثماثہ بن اثال نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کا اعلان کر رکھا تھا’ یہ گرفتار ہو گیا، اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، اس نے انکار کر دیا، یہ تین دن قید میں رہا، اسے تین دن دعوت دی جاتی رہی، یہ مذہب بدلنے پر تیار نہ ہوا تو اسے چھوڑ دیا گیا، اس نے راستے میں غسل کیا، نیا لباس پہنا، واپس آیا اور دست مبارک پر بیعت کر لی۔ ابو العاص بن ربیع رحمت اللعالمین ؐکے داماد تھے، رسول اللہ ﷺکی صاحبزادی حضرت زینبؓ ان کے عقد میں تھیں، یہ کافر تھے، یہ تجارتی قافلے کے ساتھ شام سے واپس مکہ جا رہے تھے، مسلمانوں نے قافلے کا مال چھین لیا، یہ فرار ہو کر مدینہ آگئے اور حضرت زینبؓ کے گھر پناہ لے لی، صاحبزادی مشورے کے لیے بارگاہ رسالت میں پیش ہو گئیں’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”ابوالعاص کی رہائش کا اچھا بندوبست کرو مگر وہ تمہارے قریب نہ آئے کیونکہ تم اس کے لیے حلال نہیں ہو” حضرت زینبؓ نے عرض کیا ”ابوالعاص اپنا مال واپس لینے آیا ہے” مال چھیننے والوں کو بلایا اور فرمایا گیا ”یہ مال غنیمت ہے اور تم اس کے حق دار ہو لیکن اگر تم مہربانی کر کے ابوالعاص کا مال واپس کر دو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اجر دے گا” صحابہؓ نے مال فوراً واپس کر دیا، آپ ملاحظہ کیجیے، حضرت زینبؓ قبول اسلام کی وجہ سے مشرک خاوند کے لیے حلال نہیں تھیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے داماد کو صاحبزادی کے گھر سے نہیں نکالا، یہ ہے شریعت۔
حضرت عائشہ ؓنے ایک دن رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ” زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا” فرمایا، وہ دن جب میں طائف گیا اور عبدیالیل نے شہر کے بچے جمع کر کے مجھ پر پتھر برسائے، میں اس دن کی سختی نہیں بھول سکتا، عبدیالیل طائف کا سردار تھا، اس نے رسول اللہ ﷺ پر اتنا ظلم کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی جلال میں آ گئی’ حضرت جبرائیل امین تشریف لائے اور عرض کیا، اگر اجازت دیں تو ہم اس پورے شہر کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیں، یہ سیرت کا اس نوعیت کا واحد واقعہ تھا کہ جبرائیل امین نے گستاخی رسول پر کسی بستی کو تباہ کرنے کی پیش کش کی ہو اور عبدیالیل اس ظلم کی وجہ تھا، عبد یالیل ایک بار طائف کے لوگوں کا وفد لے کر مدینہ منورہ آیا، رسول اللہ ﷺ نے مسجد نبویؐ میں اس کا خیمہ لگایا اور عبد یالیل جتنے دن مدینہ میں رہا، رسول اللہ ﷺ ہر روز نماز عشاء کے بعد اس کے پاس جاتے’ اس کا حال احوال پوچھتے، اس کے ساتھ گفتگو کرتے اور اس کی دل جوئی کرتے۔
عبداللہ بن ابی منافق اعظم تھا، یہ فوت ہوا تو اس کی تدفین کے لیے اپنا کرتہ مبارک بھی دیا’ اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور یہ بھی فرمایا، میری ستر دعاؤں سے اگر اس کی مغفرت ہوسکتی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ بار اس کے لیے دعا کرتا” یہ ہے شریعت۔ مدینہ کی حدود میں آپ کی حیات میں نو مسجدیں تعمیر ہوئیں، آپؐ نے فرمایا ”تم اگر کہیں مسجد دیکھو یا اذان کی آواز سنو تو وہاں کسی شخص کو قتل نہ کرو” یہ ہے شریعت۔
ایک صحابیؓ نے عرض کیا ”یا رسول اللہ ﷺ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں” جواب دیا ”غصہ نہ کرو” وہ بار بار پوچھتا رہا، آپؐ ہر بار جواب دیتے ”غصہ نہ کرو” یہ ہے شریعت اور اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں فرمایا ” پیغمبرؐ اللہ کی بڑی رحمت ہیں، آپ لوگوں کے لیے بڑے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں، آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے چھٹ جاتے” اور یہ ہے شریعت لیکن ہم لوگ نہ جانے کون سی شریعت تلاش کر رہے ہیں، ہم کس شریعت کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیا کوئی صاحب علم میری رہنمائی کرسکتا ہے؟۔
کریڈٹ(ٹو)
جاوید چوہدری جمعـء 1 جنوری 2016
شیئر
ٹویٹ
تبصرے
مزید شیئر
www.facebook.com/javed.chaudhry
یوسف خان 1922ء میں پشاور میں پیدا ہوئے‘ گھر قصہ خوانی بازار میں تھا‘ بزرگ پھلوں کا کاروبار کرتے تھے لیکن یوسف خان کو اداکاری کا شوق تھا‘ یہ جوانی میں ممبئی پہنچے‘ بمبئی ٹاکیز تقسیم سے پہلے ہندوستان کی بڑی فلم ساز کمپنی تھی‘ کمپنی کی مالک دویکا رانی نام کی ایک خاتون تھی‘ یوسف خان 1942ء میں اس کے دفتر پہنچ گئے۔
وہ جوان بھی تھے اور خوبصورت بھی‘ دویکا رانی کو ان کی یونانی وجاہت نے مبہوت کر دیا‘ وہ اس وقت ’’جوار بھاٹا‘‘ کے نام سے فلم بنا رہی تھی‘ دویکا رانی نے یوسف خان کا نام بدلا‘ انھیں دلیپ کمار کا نام دیا اور جوار بھاٹا میں کاسٹ کر لیا‘ یہ فلم 1944ء میں ریلیز ہوئی اور اس کے بعد ہندوستان بھر میں دلیپ کمار‘ دلیپ کمار ہو گئی‘ دلیپ کمار نے پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ یہ آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ یہ لیجنڈ ہو گئے۔
دلیپ کمار نے اپنے 60 برس کے فلمی کیریئر میں لاکھوں مداح پیدا کیے‘ ان مداحوں میں بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور میاں نواز شریف کے والد میاں شریف بھی شامل تھے‘ واجپائی کی دو کمزوریاں ہیں‘ دلیپ کمار اور لتا منگیشکر‘ یہ پوری زندگی دلیپ کمار کو دیکھ کر مبہوت ہوتے رہے‘ رہی لتا منگیشکر تو واجپائی زندگی میں جس بھی عہدے پر فائز رہے‘ یہ دوران سفر ہمیشہ لتا کے گانے سنتے رہے۔
یہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2004ء میں اسلام آباد آئے‘ شوکت عزیز اس وقت وزیر خزانہ تھے‘ یہ اس دورے میں واجپائی کے وزیر مہمان داری بنے‘ مجھے شوکت عزیز نے بتایا‘ واجپائی جوں ہی گاڑی میں بیٹھتے تھے‘ ڈرائیور فوراً لتا کی کیسٹ لگا دیتا تھا‘ یہ کیسٹ واجپائی اپنے ساتھ لائے تھے اور انھوں نے یہ گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور کے حوالے کر دی تھی‘ وہ لتا کا گانا سنتے سنتے وجد میں بھی آ جاتے تھے‘ میاں شریف نے اپنے چھ بھائیوں کے ساتھ مل کر 1939ء میں لاہور کے ریلوے روڈ پر لوہے کی چھوٹی سی بھٹی لگائی۔
اس زمانے میں ان بھائیوں کی واحد تفریح سینما ہوتی تھی‘ یہ لوگ 1940ء کی دہائی میں دلیپ کمار سے متعارف ہوئے اور ہندوستان کے لاکھوں نوجوانوں کی طرح ان کے مداح ہو گئے یوں دلیپ کمار میاں شریف مرحوم اور واجپائی دونوں کے مشترکہ ہیرو تھے‘ میاں نواز شریف 1997ء میں دوسری بار وزیراعظم بنے تو انھوں نے 1998ء میں دلیپ کمار کو ملک کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ نشان پاکستان دینے کا فیصلہ کیا‘ دلیپ کمار کو اطلاع دی گئی‘ دلیپ کمار نے فوری طور پر وزیراعظم واجپائی سے رابطہ کیا‘ ان دنوں پاکستان اور بھارت کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔
دلیپ کمار کا خیال تھا‘ واجپائی انھیں یہ ایوارڈ لینے سے روک دیں گے لیکن واجپائی نے نہ صرف انھیں مبارک باد پیش کی بلکہ انھیں یہ ایوارڈ وصول کرنے کی اجازت بھی دے دی‘ دلیپ کمار واجپائی کی اجازت کے بعد 1998ء میں پاکستان آئے اور صدر پاکستان سے نشان پاکستان بھی وصول کیا اور پاکستان کو اپنا وطن بھی ڈکلیئر کیا‘ دلیپ کمار کی آمد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ’’بیک ڈور ڈپلومیسی‘‘ کا راستہ کھول دیا‘ اٹل بہاری واجپائی اور میاں نواز شریف دونوں قریب آ گئے اور اس قربت کے نتیجے میں واجپائی 1999ء میں ’’دوستی بس‘‘ لے کر لاہور پہنچ گئے‘ اداکار دیوآنند بھی ان کے ساتھ تھا‘ اس کے بعد کارگل کا واقعہ پیش آیا‘ واجپائی نے میاں نواز شریف کو فون کیا اور کہا ’’یہ آپ نے کیا کر دیا‘‘ میاں نواز شریف اس وقت تک کارگل کی پیش رفت سے واقف نہیں تھے۔
واجپائی نے شکایت کے بعد کہا ’’ہمارے ایک مشترکہ دوست اس وقت میرے پاس بیٹھے ہیں‘ یہ بھی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں‘‘ واجپائی نے اس کے ساتھ ہی فون دوسرے شخص کو پکڑا دیا‘ نواز شریف نے چند سیکنڈ بعد دوسری طرف سے دلیپ کمار کی آواز سنی‘ دلیپ کمار کا کہنا تھا ’’بھائی صاحب‘ آپ جب بھی ہندوستان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے لگیں تو یہ ذہن میں رکھ لیا کریں یہاں 20 کروڑ مسلمان رہتے ہیں اور آپ کی غلطیوں کا خمیازہ ان بے چارے ہندوستانی مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے‘‘ نواز شریف نے دلیپ کمار اور واجپائی کو یقین دلایا ’’میں کارگل کی ڈویلپمنٹ سے واقف نہیں ہوں‘‘ واجپائی نے نواز شریف کی بات پر یقین کر لیا۔
کیوں؟ کیونکہ بھارتی ایجنسیوں نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اوراس وقت کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل عزیز کی ایک مبینہ گفتگو ریکارڈ کی تھی‘ جنرل پرویز مشرف نے چین سے ٹیلی فون کے ذریعے جنرل عزیز سے پوچھا تھا ’’وزیراعظم کو ابھی تک آپریشن کی بھنک تو نہیں پڑی‘‘ اور جواب میں جنرل عزیز نے کہا تھا ’’نہیں ابھی نہیں‘‘ یہ ٹیپ بعد ازاں واجپائی نے برجیش مشرا کے ذریعے میاں شریف مرحوم کو رائے ونڈ پہنچا دی۔
بارہ اکتوبر 1999ء کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات شدید سردمہری کا شکار ہو گئے‘ یہ سردمہری 2001ء میں اس وقت ٹوٹی جب آگرہ میں پرویز مشرف اور واجپائی کے درمیان ملاقات ہوئی‘ اس ملاقات سے قبل اٹل بہاری واجپائی نے اپنا خصوصی ایلچی نواز شریف کے پاس بھجوایا‘ میاں نواز شریف اس وقت جدہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے‘ ایلچی نے نواز شریف کو واجپائی کا پیغام دیا ’’آپ کو اگر کوئی اعتراض نہ ہو تو ہم جنرل مشرف سے مذاکرات شروع کر لیں‘‘ میاں نواز شریف نے جواب دیا ’’پاکستان اور بھارت کے مذاکرات شخصیات کے درمیان نہیں ہوتے‘ دو ملکوں کے درمیان ہوتے ہیں اور ملکوں کے مذاکرات جاری رہنے چاہئیں‘‘ واجپائی نے نواز شریف کے اس جواب کے بعد مذاکرات اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔
یہ بی جے پی کی قیادت کے ساتھ شریف خاندان کے رابطوں کا پہلا فیز تھا‘ دوسرا فیز 2014ء کے آخر میں شروع ہوا‘ نریندر مودی بی جے پی کے مضبوط ترین امیدوار بن کر سامنے آئے‘ مودی کو بھارت کے بیس بڑے سرمایہ کاروں کی حمایت حاصل تھی‘ یہ سرمایہ کار گجرات میں مودی کی پرفارمنس سے متاثر تھے‘ ان میں سے دو سرمایہ کاروں کا شریف خاندان سے بھی رابطہ تھا‘ پہلا مضبوط ترین رابطہ گجرات کا ایک بزنس ٹائیکون تھا‘ یہ شخص مودی کا قریبی دوست ہے اور یہ آج بھی ان پر حاوی ہے اور دوسرا شخص سچن جندل ہے‘ جندل فیملی پنجابی ہے۔
ہریانہ کی رہنے والی ہے اور یہ لوگ لوہے کے کاروبار سے وابستہ ہیں‘ یہ بھی مودی سے رابطے میں ہیں لیکن مودی ان پر زیادہ اعتماد نہیں کرتے‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ‘ پنجابی ہونا ہے‘ مودی گجراتی ہیں اور گجراتی لوگ ثقافت کی وجہ سے پنجابیوں کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں ہوتے اور دوسری وجہ جندل فیملی کا کانگریس کی طرف جھکاؤ ہے‘ سچن جندل چار بھائی ہیں‘ ان کا ایک بھائی نووین جندل کانگریس کے ٹکٹ پر دو بار لوک سبھا کا ممبر بنا چنانچہ مودی جندل پر اتنا اعتماد نہیں کرتے جتنا اعتماد انھیں گجرات کی اس کاروباری شخصیت پرہے جس نے نواز شریف اور نریندر مودی کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
مودی سرکار کے ابتدائی چھ ماہ سیاسی لحاظ سے خوفناک ثابت ہوئے‘ ان کی ناتجربہ کاری‘ کم علمی اور دنیا کے بدلتے حالات سے ناواقفیت نے ان کا دماغ خراب کر دیا‘ یہ اقلیتوں سے بھی الجھ پڑے اور یہ پاکستان کو بھی فتح کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے‘ ان کی ان پالیسیوں کے تین خوفناک نتائج نکلے‘ بھارت کی 80 فیصد آبادی سیکولر ہے‘ یہ سیکولر لوگ مودی کے پیچھے سے ہٹ گئے‘ یوں بہار کے الیکشنوں میں بی جے پی کا صفایا ہو گیا‘ ڈیڑھ سال بعد یوپی میں الیکشن ہوں گے اور بی جے پی ان میں بھی مار کھا جائے گی۔
دہلی کے صوبے میں پہلی ہی عام آدمی پارٹی جیسی نئی سیاسی قوت آ کر بیٹھ چکی ہے‘ دو‘ پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نے بھارتی سرمایہ کاروں کو پریشان کر دیا‘ ممبئی اسٹاک ایکسچینج اس وقت دنیا کی 10ویں بڑی اسٹاک ایکسچینج ہے‘ یہ پاک بھارت سرحدوں کی صورتحال کا چند لمحوں میں اثر لیتی ہے چنانچہ مودی کی پاکستان پالیسی کا خمیازہ بھارت کے ان سرمایہ کاروں کو اربوں روپے کے خسارے کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے جو انھیں گجرات سے نکال کر دہلی لائے تھے‘ یہ بزنس ٹائیکون بھی اب ان کے پیچھے سے ہٹ رہے ہیں‘ یہ صورتحال اگر جاری رہی تو مودی اپنے فنانسرز کی ہمدردی سے مکمل محروم ہو جائیں گے اور تین‘ تاریخ میں پہلی بار دنیا کی تین بڑی قوتوں کی پاکستان میں بیک وقت دلچسپی پیدا ہوئی۔
چین اقتصادی راہداری کی شکل میں پاکستان میں تاریخی سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ روس نے پہلی بار کھل کر پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور امریکا نے اسلام آباد میں خطے کی سب سے بڑی ایمبیسی بنا لی‘ یہ اب پاکستان میں بیٹھ کر افغانستان اور سینٹرل ایشیا کو کنٹرول کرے گا‘ پاکستان اور بھارت کی سرحدی جھڑپیں ان تینوں طاقتوں کے عزائم کے راستے کی رکاوٹ ہیں چنانچہ انھوں نے بھی مودی پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔
یہ وہ تین فیکٹر ہیں جنہوں نے مودی کو نواز شریف کی طرف ہاتھ بڑھانے پر مجبور کر دیا‘ مودی نے 30 نومبر کو پیرس میں نواز شریف کو باقاعدہ تلاش کیا‘ ان کا ہاتھ پکڑا اور زور دے کر کہا ’’ہم کو تم سے بات کرنی ہے‘‘ اور اس کے بعد دونوں میں دو منٹ کی گفتگو ہوئی اور پوری دنیا حیران رہ گئی‘ اس ملاقات میں تین فیصلے ہوئے‘ دونوں ملکوں کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بنکاک میں ملیں گے‘ یہ ملاقات اس سے پہلے طے نہیں تھی‘ یہ فیصلہ پیرس میں ہوا‘ دو‘ جامع مذاکرات ہوں گے اور تین‘ نریندر مودی اور میاں نواز شریف ایک دوسرے سے براہ راست رابطہ رکھیں گے۔
یہ جب چاہیں گے اور جہاں چاہیں گے ایک دوسرے کو فون کر لیں گے‘ مودی نے اس تیسرے فیصلے کا فائدہ 26 دسمبر کی صبح اٹھایا‘ میاں نواز شریف اس دن فیملی کے ساتھ ناشتہ کر رہے تھے اور اچانک مودی کا فون آ گیا‘ مودی نے سب سے پہلے عید میلادالنبیؐ کی مبارک باد دی‘ پھر سالگرہ پر مبارکباد پیش کی اور اس کے بعد کابل سے دہلی جاتے ہوئے اسلام آباد میں رکنے کی خواہش ظاہر کی‘ میاں نواز شریف نے نواسی کی شادی کا بتایا تو مودی لاہور آنے پر رضا مند ہو گئے‘ مودی نے اپنے وفد کے لوگوں کو ائیرپورٹ چھوڑا اور میاں نواز شریف کے ساتھ جاتی عمرہ چلے گئے‘ رائے ونڈ میں انھوں نے دوبار میاں نواز شریف کی والدہ کے پاؤں چھوئے‘ نواسی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دہلی روانہ ہو گئے اور اب بھارت اور پاکستان کے درمیان جو کچھ ہو رہا ہے وہ نریندر مودی اور میاں نواز شریف کے درمیان براہ راست ہو رہا ہے۔
سرحد پار بھارتی ادارے اس سے واقف ہیں اور نہ ہی سرحد کے اس طرف پاکستانی ادارے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا بھارت اور پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹس دو منتخب وزراء اعظم کو 68 سال پرانے تنازعے یوں آسانی سے حل کرنے دیں گی؟ میرا خیال ہے‘ نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ نریندر مودی کی اس 180 درجے کی تبدیلی نے بھارتی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘ وہ یہ گولی آرام سے نگلنے کے لیے تیار نہیں اور اس کی اس بے چینی کا نقصان میاں نواز شریف کو ہو گا‘ انھیں کوئی شخص اتنا بڑا کریڈٹ اتنی آسانی سے نہیں لینے دے گا‘ انھیں پچھلی بار واجپائی کی محبت کا نقصان اٹھانا پڑا اور انھیں شاید اس بار مودی کی مہربانیاں لے کر بیٹھ جائیں۔
کریڈٹ
میاں نوازشریف اور ان کے طرز حکمرانی پر تمام اعتراضات درست ہیں، خاندانی سیاست کے الزامات میں بھی صداقت ہے، وزارت عظمیٰ صرف پنجاب، دو وفاقی وزراء اور میاں نواز شریف کی ذات تک محدود ہے، یہ بھی ٹھیک ہے، میاں صاحبان کسی کی سنتے نہیں، یہ کام نکلنے کے بعد احسان بھی بھول جاتے ہیں اور یہ آج کل فوج کے ساتھ ’’کولیشن پارٹنر‘‘ بھی ہیں، یہ فوج کے معمولی سے اعتراض پر مشاہد اللہ جیسے پرانے ساتھی اور کارکن کو بھی ’’ڈمپ،، کر دیتے ہیں، یہ بھی ٹھیک ہے اور یہ بھی درست ہے، ریاست ایم کیو ایم کے ساتھ لڑ رہی ہے لیکن حکومت اسے ’’ریسکیو‘‘ کر رہی ہے، یہ اسے تمام ممکناً سپورٹ فراہم کر رہی ہے اور یہ بھی ٹھیک ہے۔
میاں نواز شریف رینجرز کے ایشو کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کو زندہ ہونے کا موقع دے رہے ہیں، رینجرز کے اختیارات ایک ایسی نورا کشتی ہے جس کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کے مردہ جسم میں روح پھونکی جا رہی ہے، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ پانچ دسمبر سے پہلے اور پانچ دسمبر کے بعد کی پاکستان پیپلز پارٹی کا موازنہ کر لیں، آپ کو دونوں میں واضح فرق نظر آئے گا، رینجرز کے اختیارات پر سندھ اسمبلی کی قرارداد، سندھ حکومت کے ’’نوٹیفکیشن‘‘ اور چوہدری نثار کی تین پریس کانفرنسوں نے پیپلز پارٹی کی بکھری ہوئی صفوں میں اتحاد بھی پیدا کر دیا اور اس کے ناراض کارکنوں میں بجلی بھی بھر دی، وفاق اور صوبے کا یہ اختلاف آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی کو توانائی دے گا۔
یہ توانائی بلاول بھٹو کی لانچنگ میں بھی کام آئے گی اور یہ پاکستان تحریک انصاف کو مسلم لیگ ن کے راستے سے بھی ہٹا دے گی اور یہ بھی درست ہے، میاں نواز شریف پر اگلا حملہ فروری مارچ میں ہو گاا ور یہ حملہ اگست 2014ء کے حملے سے زیادہ سخت ہو گا اور اس میں ان کے بچنے کے چانس کم ہوں گے اور یہ بھی درست ہے، میاں صاحبان نے طیب اردگان کو اپنا استاد بنا لیا ہے، یہ ترکی ماڈل کے تحت پہلے خود کو مضبوط بنائیں گے اور اس کے بعد جنرل پرویز مشرف جیسے جرنیلوں کو آرٹیکل 6 کے ذریعے سزائیں دیں گے لیکن ان تمام اعتراضات اور اعترافات کے باوجود ہمیں بہرحال یہ ماننا ہو گا ملک بدل رہا ہے، پاکستان میں بڑی بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت میاں نواز شریف سے ان تبدیلیوں کا کریڈٹ نہیں چھین سکے گی۔
ہم اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو26 دسمبر کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا اچانک لاہور آنا اورڈیڑھ گھنٹے میاں نواز شریف کے فارم ہاؤس میں رہنا بھی ایک ناقابل فراموش تبدیلی ہے، پاکستان کی تاریخ میں بھارت کے دو وزیراعظم دھماکا خیز انٹری کے ساتھ لاہور آئے، پہلی بار اٹل بہاری واجپائی فروری 1999ء میں بس پر بیٹھ کر لاہور پہنچے، مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا اور دونوں ملکوں کے تنازعے حل کرنے کا اعلان کیا، واجپائی کی آمد کا یہ کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے، دوسری بار 26 دسمبر کو اچانک نریندر مودی لاہور پہنچ گئے، اس اچانک دورے نے بھی پوری دنیا کو حیران کر دیا، نریندر مودی نے 30 نومبر کو پیرس میں میاں نواز شریف سے اچانک ملاقات کی، اس ملاقات نے تعلقات کے نئے دروازے کھول دیے۔
6 دسمبر کو بنکاک میں بھارت اور پاکستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزرز کی ملاقات ہوئی، 8 دسمبر کو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اسلام آباد آئیں،26 دسمبر کو نریندر مودی آ گئے اور جنوری میں بھارتی سیکریٹری خارجہ آئیں گے، اگلے ماہ دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ بھی شروع ہو جائے گی، تجارتی معاملات بھی طے پا جائیں گے اور جنوری فروری میں کشمیر کے تنازعے پر بھی ایک بڑا بریک تھرو ہو گا، اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور اگر بہار کے موسم میں کارگل جیسا کوئی واقعہ پیش نہ آیا تو دو برسوں میں پاکستان اور بھارت کے باہمی تنازعے بڑی حد تک طے پا جائیں گے مگر دو سال سے پہلے دو ماہ آتے ہیں اور یہ دو ماہ دونوں ملکوں کی تاریخ میں بہت اہم ہیں، کیوں؟ کیونکہ کارگل اس بار پاکستان کی طرف سے نہیں ہو گا، بھارت کی طرف سے ہو گا اور میاں نواز شریف اس پر پوزیشن لینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے، کیوں؟
کیونکہ نریندر مودی کو لاہور پہنچانے میں چار بڑے بزنس مینوں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، یہ بزنس مین نریندر مودی کے الیکشن فنانسر بھی ہیں اور دوست بھی، مودی کے یہ بزنس مین دوست اور میاں نواز شریف کے چند بزنس مین دوست ’’بیک ڈور ڈپلومیسی‘‘ کے ذریعے ڈپلومیسی کے فرنٹ ڈور کھول رہے ہیں، اگر خدانخواستہ مستقبل میں کارگل جیسا کوئی ایڈونچر ہو جاتا ہے تو یہ دوست میاں صاحب کو کوئی پوزیشن نہیں لینے دیں گے اور یوں یہ ایک بار پھر پھنس جائیں گے لیکن یہ مستقبل کی باتیں ہیں، ہو سکتا ہے یہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو مگر یہ حقیقت اپنی جگہ حقیقت رہے گی، میاں نواز شریف نریندر مودی کو اچانک لاہور کھینچ لائے اور تعلقات کی رکی پھنسی گاڑی چل پڑی اور کوئی شخص یہ کریڈٹ میاں نواز شریف سے نہیں چھین سکے گا، یہ دونوں بار انھیں لاہور لے آئے جو پاکستانیوں سے ہاتھ تک ملانا نہیں چاہتے تھے، نواز شریف اب اگر بھارت سے کشمیر پر کوئی ’’سیٹلمنٹ‘‘ کرا لیتے ہیں تو یہ واقعی کمال ہو گا۔
ملک کی سفارتی تاریخ کا دوسرا بڑا واقعہ اتوار 27 دسمبر کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا افغانستان کا دورہ تھا، اس ملاقات میں فیصلہ ہوا، پاکستان طالبان سے افغانستان کے مذاکرات کرائے گا، دونوں ملکوں کے درمیان ہاٹ لائین بھی قائم ہو گی اور دونوں مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ بھی کریں گے، یہ فیصلے اگر نتیجہ خیز ثابت ہو جاتے ہیں تو افغانستان میں امن ہو جائے گا اور افغانستان کا امن پاکستان پر خوشگوار اثرات مرتب کرے گا، آپ تصور کیجیے، پاکستان اگر بھارت اور افغانستان دونوں کے ساتھ اپنے معاملات طے کر لیتا ہے تو ملک کی اقتصادی، کاروباری اور سیاسی حالت دس برسوں میں کہاں سے کہاں آ جائے گی؟ اور اس کا کریڈٹ کس کو جائے گا؟
یہ کریڈٹ صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ توانائی اور دہشت گردی ملک کے دو بڑے مسائل ہیں، ہم بجلی اور گیس دونوں کی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں، ملک میں گرمیوں میں پنکھے نہیں چلتے اورسردیوں میں چولہے نہیں جلتے مگر اب توانائی میں بھی بڑے پیمانے پر کام ہو رہا ہے، اگر قطر سے ایل این جی آ جاتی ہے اور تاپی گیس پائپ لائین کے ذریعے ترکمانستان کی گیس پاکستان پہنچ جاتی ہے تو آپ خود فیصلہ کیجیے، ملک میں گیس کی کتنی فراوانی ہو جائے گی؟ اسی طرح اگر بجلی کے تمام منصوبے بھی 2017ء تک مکمل ہو جاتے ہیں اور ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم ہو جاتی ہے تو اس کا کریڈٹ بھی کس کو جائے گا؟یقینا میاں نواز شریف کو جائے گا، ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا، نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گردی میں نمایاں کمی ہوئی، ملک اب کھل رہا ہے،لوگ اب آزادانہ گھوم رہے ہیں۔
فوج اگر 2016ء میں ملک کو دہشت گردی سے مکمل طور پر آزاد کرا لیتی ہے تو اس کا کریڈٹ بھی میاں نواز شریف کو چلا جائے گا، اسی طرح کراچی بھی اب بڑی حد تک کنٹرول میں ہے، کراچی کی حالت ٹھیک کرنے میں جنرل راحیل شریف اور چوہدری نثار علی خان دونوں نے قابل تعریف کام کیا، یہ اگر بروقت فیصلے نہ کرتے تو کراچی ہاتھ سے نکل جاتا لیکن اس کا کریڈٹ بھی بالآخر نواز شریف کو جائے گا، اسی طرح چین اور پاکستان کی اقتصادی راہداری بھی عہد ساز فیصلہ ہے، یہ راہداری اگر مکمل ہو گئی تو یہ ملک راہداری ٹیکس ہی سے چل جائے گا، کراچی سے لاہور تک موٹروے بھی پورے ملک کو آپس میں جوڑ دے گی، یہ منصوبہ بھی عوام پر اچھے اثرات مرتب کرے گا اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بھی بڑی بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور میں بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک تقریباً ختم ہو گئی، ہزارہ کمیونٹی پر حملے بھی بند ہو گئے، باغیوں نے بھی ہتھیار پھینکنا شروع کر دیے اور طویل عرصے بعد بلوچستان میں یوم آزادی اورقائداعظم کی سالگرہ کی تقریبات بھی منعقد ہوئیں، پشاور سے بھی اچھی خبریں آ رہی ہیں، عمران خان وہاں حکومتی نظام پر توجہ دے رہے ہیں، یہ اگر صوبے میں پولیس، محکمہ مال، صحت اور تعلیم کا نظام ٹھیک کر لیتے ہیں، یہ اگر شہروں کو صاف پانی فراہم کر دیتے ہیں اور یہ اگر لوگوں کو جان اور مال کی گارنٹی دے دیتے ہیں تو خیبرپختونخواہ کے عوام جھولی اٹھا کر عمران خان کو دعائیں دیں گے لیکن کریڈٹ اس کا بھی بہرحال میاں نواز شریف کو جائے گا، کیوں؟ کیونکہ یہ اگر 2013ء میں ڈاکٹر مالک اور ثناء اللہ زہری میں معاہدہ نہ کراتے اور یہ عمران خان کو کے پی کے میں حکومت بنانے اور چلانے کا موقع نہ دیتے تو ان دونوں صوبوں میں یہ مثبت تبدیلیاں نہ آتیں چنانچہ اس کا کریڈٹ بھی نواز شریف کو جائے گا۔
پاکستان اگر اسی رفتار سے چلتا رہتا ہے تو پوری دنیا 2018ء میں نواز شریف کے لیے تالیاں بجانے پر مجبور ہو جائے گی لیکن میاں صاحب کو اس سے پہلے چند دوسرے بڑے قدم بھی اٹھانا ہوں گے، مثلاً ملک میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے لیے بھی کوئی بڑی ’’اقتصادی راہداری‘‘ بنانا ہوگی، مثلاً تعلیم اور صحت یہ دونوں اب مڈل کلاس کے ہاتھوں سے بھی نکل چکی ہیں، آپ پورے ملک میں کوئی ایسا سرکاری اسکول دکھا دیجیے جس میں یونین کونسل کا کوئی چیئرمین اپنے بچوں کو داخل کرانے کا رسک لے لے، سرکاری اسپتالوں میں علاج تو دور کی بات آپ ان کے اندربھی داخل نہیں ہو سکتے، ملک میں ماحولیاتی آلودگی انتہا کو چھو رہی ہے، آپ لاہور شہر میں دل کھول کر سانس نہیں لے سکتے، پولیس آج بھی ظالم ہے اور انصاف اندھا، آپ جس سرکاری محکمے کے قابو میں آ جائیں وہ آپ کی چیخیں نکلوا دیتا ہے۔
ٹریفک کا نظام بدترین ہے، ہم حادثات میں دنیا میں پہلے تین نمبروں پر آتے ہیں، پورے ملک میں کوئی ایک شہر اور کسی ایک شہر کا کوئی ایک ایسا محلہ نہیں جس کے عوام ٹونٹی کا پانی پی سکیں، پاکستان کا کوئی شہر کرائم فری بھی نہیں، سرے راہ لٹ جانا اب لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور ملک میں ٹینشن اور ڈپریشن کی ادویات کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے، یہ مسئلے کون حل کرے گا؟ آپ کو یقینا ان پر بھی توجہ دینی چاہیے، آپ کو یہ کریڈٹ بھی لینا چاہیے،کیوں؟ کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو، آپ سڑکوں، پلوں،پاور پلانٹس، میٹروز، سفارت کاری اور گیس پائپ لائین کا کریڈٹ لیتے لیتے عوام کے اس اصل کریڈٹ سے محروم ہو جائیں جو سیاستدان کو لیڈر اور قائد کو قائداعظم بناتا ہے، جو لیڈروں کو مرنے کے بعد بھی مرنے نہیں دیتا، یہ منصوبے کمال ہیں لیکن اصل منصوبہ انسان ہیں اور آپ کریڈٹ جمع کرتے کرتے اس ملک کے انسانوں کو بھول گئے ہیں اور یہ وہ غلطی ہے جسے اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرتا چنانچہ لوگوں کی طرف بھی دیکھئے میاں صاحب! یہ بھی ایک منصوبہ ہیں، ایسا منصوبہ جس کا کریڈٹ صدیوں تک قائم رہتا ہے۔
نسبت
جاوید چوہدری اتوار 27 دسمبر 2015
’’آپ نے زیارت کا نام سنا ہوگا؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا‘ اس نے ہاں میں سر ہلایا اور جواب دیا ’’جی ہاں‘‘ میں نے پوچھا ’’زیارت کیا ہے؟‘‘اس نے جواب دیا ’’ یہ قائداعظم کی رہائش گاہ کا نام ہے‘‘ میں نے بھی ہاں میں سر ہلایا اور عرض کیا ’’آپ بڑی حد تک درست ہیں‘ قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری 65 دن زیارت شہر کے ایک گھر میں گزارے تھے‘‘ میں رکا اور پھر پوچھا ’’زیارت ہے کیا‘‘ اس نے سوچ کر جواب دیا ’’یہ شاید کوئی شہر‘ کوئی گاؤں ہے‘‘ میں نے ہاں میں سر ہلایا اور عرض کیا ’’جی ہاں‘ یہ بلوچستان کا ایک دور دراز شہر ہے‘‘ میں نے اس کے بعد اس سے پوچھا ’’قائداعظم زیارت میں کہاں مقیم رہے تھے‘‘ نوجوان نے چند لمحے سوچا اور پھرانکار میں سر ہلا دیا۔
میں نے عرض کیا ’’زیارت میں ایک سرکاری عمارت تھی‘ یہ گورنر جنرل کے ایجنٹ کی گرمائی رہائش گاہ تھی‘ یہ عمارت 1892ء میں انگریز نے بنوائی‘ زیارت میں صنوبر کے گھنے جنگل ہیں‘ صنوبر کی ہوا ٹی بی کے مریضوں کے لیے اچھی ہوتی ہے چنانچہ انگریز نے زیارت میں سینی ٹوریم بنوا دیا‘ یہ عمارت شروع میں سینی ٹوریم تھی‘ پھر یہ بلوچستان کے انگریز افسروں کی گرمائی رہائش گاہ بن گئی اوراس مناسبت سے ریذیڈنسی کہلائی‘ پاکستان بننے کے بعد یہ بلوچستان کے لیے گورنر جنرل کے ایجنٹ کی ریذیڈنسی ہو گئی‘قائداعظم محمد علی جناح ٹی بی کے آخری اسٹیج کے مریض تھے چنانچہ انھیں ڈاکٹروں کی ہدایت پر7جولائی1948ء میںکوئٹہ منتقل کیا گیا اور پھر یہ اسی روز زیارت شفٹ ہو گئے‘قائداعظم 7 جولائی سے 10 ستمبر1948ء تک 65 دن اسی عمارت میں مقیم رہے‘ قائداعظم کو11 ستمبر1948ء کو کراچی لے جایا گیا‘ وہ کراچی پہنچتے ہی انتقال کر گئے‘‘ میں خاموش ہوگیا۔
ہمارے درمیان دیر تک خاموشی رہی‘ نوجوان نے بے چینی سے کروٹ بدلی اور بولا ’’جناب آپ کی بات سر آنکھوں پر لیکن زیارت ریذیڈنسی کا میرے سوال کے ساتھ جوڑ نہیں بنتا‘‘ میں نے مسکرا کر جواب دیا ’’بہت گہرا تعلق ہے‘ زیارت سیکڑوںسال پرانا قصبہ ہے‘ یہ ریذیڈنسی 1892ء میں بنی اور اس میں سیکڑوں جنرل‘نواب ‘سیاستدان اور بیورو کریٹ مقیم رہے لیکن اس ریذیڈنسی کے 50 سال اور زیارت شہر کی سیکڑوں سال کی تاریخ ایک طرف اور قائداعظم محمد علی جناح کے 65 دن ایک طرف‘ قائداعظم نے اس عمارت اور اس شہر کو صرف 65 دن عنایت کیے اور اس کے بعد یہ عمارت اور یہ شہر دونوں انمول ہو گئے۔
یہ دونوں دنیا بھر میں مشہور ہو گئے‘ قائداعظم کی تشریف آوری سے قبل بلوچستان کے نوے فیصد لوگ بھی زیارت شہر سے واقف نہیں تھے لیکن قائداعظم کے نام سے جڑنے کے بعد یہ شہر بھی تاریخ کا حصہ بن گیا اور یہ عمارت بھی۔ قائداعظم کی چند دن کی رہائش نے اس پچاس سال پرانی عمارت کو عجائب گھر کا درجہ دے دیا‘قوم نے اس کے بعد اس عمارت کو گرنے دیا‘ بکنے دیا اور نہ ہی کسی دوسرے شخص کو اس میں رہائش پذیر ہونے دیا‘ یہ عمارت جون 2013ء میں دہشت گردی کا نشانہ بنی‘ یہ خبر پوری دنیا میں پھیلے پاکستانیوں پر بجلی بن کر گری اور یہ تڑپ اٹھے‘ ریاست بھی تلملا اٹھی‘ قوم نے 10 ماہ میں یہ عمارت نہ صرف دوبارہ کھڑی کر دی بلکہ وزیراعظم نے زیارت جا کر خود اس کا افتتاح بھی کیا۔
میں کل ٹی وی پردیکھ رہا تھا‘ بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری زیارت ریذیڈنسی کے سامنے کھڑے ہو کر قائداعظم کی سالگرہ منا رہے ہیں‘‘ میں رکا اور پھر عرض کیا ’’ یہ کیا ثابت کرتا ہے‘‘ وہ خاموش رہا‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کراچی کی مثال بھی لے لو‘ قائداعظم نے 1943ء میں فلیگ اسٹاف ہاؤس خریدا‘ یہ گھر یہودی آرکی ٹیکٹ نے 1890ء میں بنایا تھا‘ یہ انگریز جرنیلوں کی سرکاری رہائش گاہ ہوتا تھا‘ یہ پھر ایک امیر پارسی خاندان نے خریدلیا‘ قائداعظم نے یہ 1943ء میں پارسی بزنس ٹائیکون سہراب کاوس جی سے خرید لیا‘ آپ 1944ء میں یہاں شفٹ ہوئے لیکن کبھی جم کر اس گھر میں نہ رہ سکے‘ آپ یہاں آتے تھے۔
ایک آدھ دن رکتے تھے اور آگے نکل جاتے تھے‘ آپ لاہور میں چند دن فلیٹیز ہوٹل میں بھی رہائش پذیر ہوئے‘ ممبئی میں آپ نے 1936ء میں اپنا گھر بنوایا‘یہ گھر مالا بار ہل پرماؤنٹ پلیزنٹ روڈ پر واقع تھا‘ قائداعظم اس گھر میں بمشکل آٹھ دس سال رہے‘ دہلی میں 10۔ اورنگزیب روڈ قائداعظم کی رہائش گاہ تھی‘ قائداعظم نے اس عمارت میں بھی صرف چند ماہ گزارے مگر آپ چند برسوں کے اس مختصر قیام کا نتیجہ دیکھئے‘ دہلی اور ممبئی کی یہ دونوں عمارتیں آج بھی جناح ہاؤس کہلاتی ہیں‘‘ میں پھر خاموش ہو گیا۔
وہ حیرانی سے میری طرف دیکھتا رہا‘ میں اس بار اس کے بولنے سے پہلے بول پڑا‘ میں نے عرض کیا ’’میرے عزیز زیارت کے اردگرد اس جیسے درجنوں قصبے اور شہر موجود ہیں لیکن ان کے نام آج بھی لوگ نہیںجانتے‘ زیارت کو کس کی زیارت گاہ کی وجہ سے زیارت کہا جاتا ہے‘ لوگ یہ بھی نہیں جانتے‘ انگریزوں نے اس علاقے میں ریذیڈنسی کے علاوہ بھی درجنوں عمارتیں‘ہاؤس اور ریسٹ ہاؤس بنائے تھے‘ وہ عمارتیں ختم ہوگئیں‘ فلیگ اسٹاف ہاؤس کے اردگرد بھی درجنوں پرانی عمارتیں تھیں‘ قائداعظم کے زمانے میں کراچی میں بھی سیکڑوں امیر خاندان ہوتے تھے۔
اورنگزیب روڈ دہلی اور ماؤنٹ پلیزنٹ روڈ ممبئی میں قائداعظم کے گھرکے دائیں بائیں اس دور کے درجنوں امراء‘ رؤساء اور کامیاب لوگ رہتے تھے اورلاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں بھی اب تک ہزاروں امیراور کامیاب لوگ راتیں گزارچکے ہیں لیکن وہ لوگ کون تھے؟ وہ کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے؟ قائداعظم کے گھر کے دائیں بائیں موجود محلات بھی درجنوں مرتبہ بکے‘ ان میں درجنوں خاندان مقیم ہوئے اور یہ بعد ازاں وہاں سے روتے دھوتے رخصت ہوگئے‘ قائداعظم کے دور میں ہندوستان میں 564 ریاستیں تھیں‘ ان تمام ریاستوں کے والی بھی تھے‘ نواب بھی اور مہاراجے بھی اور ان کے محلات بھی تھے اور قلعے بھی۔
قائداعظم کے زمانے میں ممبئی‘ دہلی‘ کراچی‘لاہوراور بلوچستان میں بھی ایسے سیکڑوں خاندان موجود تھے جو دولت اور زمین جائیداد میں محمد علی جناح سے ہزار درجے بہتر تھے‘ 1980ء کی دہائی میں ماضی اور حال کے 75 امیر ترین لوگوں کی فہرست بنی تھی‘ اس فہرست میں فرعون 13ویںنمبر پر تھا جب کہ نظام آف دکن پانچویں نمبر پرتھا‘ نظام کے پاس اس قدر دولت تھی کہ پاکستان کے ابتدائی مہینوں میںپورے ملک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نظام دیتا تھا‘ قائداعظم جس گاڑی میں گورنر جنرل کا حلف لینے گئے تھے‘ وہ نواب آف بہاولپور کی ملکیت تھی‘ قائداعظم کو جب زیارت سے کراچی شفٹ کیا جا رہا تھا تو انھیں نواب آف بہاولپور کے محل میں ٹھہرانے کا بندوبست کیا گیا تھا‘ پنجاب کے ٹوانے‘ نون‘ ممدوٹ اور دولتانے اس قدر بڑے جاگیردار تھے کہ ان کی زمینوں کے درمیان ریلوے کے تین تین ‘چارچار اسٹیشن آتے تھے۔
سندھ کے جتوئی‘ مخدوم اور رند بھی ایشیا کے بڑے جاگیردار کہلاتے تھے اور کراچی میں بھی ایسے ایسے رئیس موجود تھے جن کی شپنگ کمپنیاں یورپ کی بڑی بڑی کمپنیوں کو شرما دیتی تھیں لیکن پھریہ لوگ کہاں گئے؟ ان کی دولت‘ ان کے محلات‘ ان کی کمپنیاں اور ان کی جاگیریں کہاں چلی گئیں؟‘‘ میں رکا‘ سانس لی اور نوجوان سے عرض کیا ’’یہ لوگ‘ ان کے خاندان‘ ان کی جاگیریں‘ ان کے محل‘ ان کے ویلے اور ان کا مال و دولت 68 سال میں ختم ہوگیا‘ گھر بک گئے‘ محل گر گئے اور کوٹھیوں کی جگہ پلازے بن گئے‘ جائیدادیں تقسیم در تقسیم ہو گئیں‘ فیکٹریوں کو مندہ نگل گیا یا پھر سالے اور بہنوئی کھا گئے‘ محل آثار قدیمہ کے ہتھے چڑھ گئے یا پھر قرقی کا شکار ہو گئے۔
ہاتھی‘ گھوڑے اور چیتے مر گئے اور تلواریں‘ نیزے اور ڈھالیں لوہاروں نے پگھلا دیں یا پھر عجائب گھروں میں سج گئیں اور بات ختم جب کہ اس کے مقابلے میں ہمارے قائد نے جس گھرمیں 65 دن گزارے وہ ریذیڈنسی ہوگیا اور آپ نے جس مکان میں چند سال قیام فرما لیا وہ جناح ہاؤس بن گیا اور قوم نے اس کی ایک ایک اینٹ کی حفاظت کی ذمے داری اٹھا لی‘ ریاست نے پھر اسے گرنے دیا‘ ٹوٹنے دیا اور نہ ہی بکنے دیا اور اگر کبھی کوئی بدبخت قائداعظم کی اس رہائش گاہ کو جلانے کی جسارت کر بیٹھا جس کی 123 سال کی تاریخ میں قائداعظم کے ساتھ صرف 65 دن کی نسبت تھی تو قوم نے 10 ماہ میں اس عمارت کو ٹھیک اسی جگہ‘ اسی نقشے کے ساتھ دوبارہ کھڑا کر دیا۔
یہ کیاہے؟‘‘میں نے لمبی سانس لی اور خاموش ہو گیا‘ وہ تھوڑی دیر تک میری طرف دیکھتا رہا اور پھر بولا’’ہاں یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’یہ نسبت ہے‘ یہ نسبت اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نصیب کرتا ہے جو اپنا سب کچھ دوسروں پر قربان کر دیتے ہیں‘ قائداعظم نے کروڑوں لوگوں کو گھر دینے کے لیے اپنے تین مکان قربان کیے‘ قوم نے اس کے جواب میں کسی ایسے کمرے کی دیوار بھی میلی نہیں ہونے دی جس میں قائداعظم نے چند دن قیام فرما لیا تھا‘ قائداعظم نے کروڑوں خاندانوں کی بقا کے لیے اپنے خاندان کی قربانی دی‘قوم نے اس کے جواب میں اپنے ہر خاندان کو قائد کا خاندان ڈکلیئر کر دیا‘ قائداعظم نے قوم کے بچوں اور بچیوں کے لیے اپنی اکلوتی بیٹی کی قربانی دی۔
قوم نے اس کے جواب میں اپنی تمام بیٹیوں کو قائد کی بیٹیاں قرار دے دیا‘ قائداعظم نے قوم کی آزادی کے لیے مال و دولت کو ٹھوکر ماری‘ قوم نے اس کے جواب میں اپنے ہر نوٹ پرقائداعظم کی تصویر چھاپ دی‘ قائداعظم قوم کے لیے اپنے بزرگوں کی قبریں ممبئی میں چھوڑ آئے‘ قوم نے اس کے جواب میں قائداعظم کی قبر کو زیارت گاہ بنا دیا اور قائداعظم نے قوم کی آزادی کے لیے دن رات ایک کر دیے۔
قوم نے اس کے جواب میں اپنے تمام دن رات قائداعظم کے نام وقف کر دیے جب کہ قائد کے مقابلے وہ تمام لوگ جو اپنی زمینوں‘ جائیدادوں‘ محلوں اور کاروبار کے محافظ بنے رہے‘ وہ سب دنیا سے بے نام چلے گئے‘ لوگ آج ان کے نام سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کے محلوں کے مقام سے‘ وہ چلے گئے اوران کے ساتھ ہی ان کے نام لیوا بھی رخصت ہو گئے اور تم پوچھ رہے ہو‘ قائداعظم کو کیا ملا‘ ان کو کیا حاصل ہوا؟میرے بچے قائداعظم ایک نسبت بن گئے‘ ایک ایسی نسبت جس نے اگر پتھرکو بھی چھو لیا تو وہ پتھر اس کے بعد پتھر نہیں رہا‘زیارت گاہ بن گیا‘‘۔
نوجوان مسکرایا‘ ہاتھ ملایا اورباہر نکل گیا۔
بے چارہ سوالی ہے
جاوید چوہدری جمعرات 24 دسمبر 2015
نام تو طیبہ تھا لیکن عرب اسے یثرب کہتے تھے، عربی میں یثرب تکلیف اور بیماری کے مقام کو کہا جاتا ہے، یہ بات تھی بھی درست، پورے عرب میں سب سے زیادہ بارشیں اسی علاقے میں ہوتی تھیں لہٰذا وادی میں زہریلے مادے پیدا ہو گئے تھے، جو بھی طیبہ میں قدم رکھتا بیمار ہو جاتا لیکن پھر وہاں میرے حضورﷺ تشریف لائے، محققین کہتے ہیں یہ اگست 622ء کا پہلا ہفتہ تھا لیکن کچھ کا خیال ہے یہ اکتوبر کا مہینہ تھا۔
آپﷺ قبا میں چودہ دن قیام کے بعد یثرب میں داخل ہوئے تو بنو نجار کی بچیوں نے دف بچا کر استقبال کیا، اس واقعے کے ایک ہزار تین سو اسی برس ایک ماہ اور 23 دن بعد ہم ٹھیک اس جگہ کھڑے تھے، سامنے ایک قدیم قلعے کے آثار تھے، شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی نے قلعے کی طرف اشارہ کر کے بتایا ’’وہ بچیاں وہاں کھڑی ہو کر دف بجا رہی تھیں‘‘ قریب ہی ایک مسجد تھی، بتایا گیا ’’حضورﷺ نے یہاں ہجرت کی پہلی نماز جمعہ ادا فرمائی تھی‘‘ قلعے اور مسجد کے درمیان ایک احاطہ تھا اور احاطہ میں ایک چبوترے کے آثار تھے، وہاں رسول اللہﷺ نے ایک صحابیؓ کی درخواست پر نمازادا کی تھی، پلکوں پر آنسو آبشار کی طرح گرنے لگے۔
حضورﷺ یہاں سے آگے بڑھے تو یثرب مدینہ بن گیا اور طیبہ منورہ اور پھر یہ شہر دنیا میں سکون، ایمان، شفاء اور قبولیت کا مرکز ہو گیا، یہ شہر کیا ہے؟ آپ اس کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سلگتے کوئلوں پر چلتے چلتے ایسی وادی میں آ گئے جہاں گلاب کی نرم پتیاں بچھی ہیں اور ہوا عنبر اور مشک کے بطن سے جنم لے رہی ہے، دنیا بھر کے درخت دن کو آکسیجن اور رات کو کاربن ڈائی آکسائیڈ بناتے ہیں ماسوائے مدینہ کے اشجار کہ یہ بے ادبی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے عربی کا ایک شعر پڑھا، واہ کیا نازک احساس اور ہزاروں لاکھوں پھولوں کی گندھی فکر تھی، شاعر نے کہا ’’ اگر تمہیں مدینے میں سکون نہیں ملتا تو پھر کہاں ملے گا، اگر تمہاری دعائیں مدینے میں قبول نہیں ہوتیں تو پھر کہاں ہونگی!!‘‘
انصار کو بڑی شدت سے حضورﷺ کا انتظار تھا، وہ روز صبح گھروں سے نکلتے اور شہر سے باہر آ کر آپﷺ کا انتظار کرنے لگتے، سورج ڈوبتا تو ساتھ ہی آس بھی ڈوب جاتی لیکن صبح سورج کے ساتھ شوق دید پھر آنکھ کھول لیتا، اس دن بے انتہا گرمی تھی، لوگ شام سے پہلے ہی مایوس ہو گئے لیکن جونہی حضورﷺ کی اونٹنی نے قبا میں قدم رکھا، ایک یہودی نے آپﷺ کو دیکھا اور ’’ اے لوگو! تمہارا نجات دہندہ آ گیا‘‘ کا نعرہ لگا کر گلیوں میں دوڑنے لگا، امیدیں ایک بار پھر طلوع ہو گئیں۔ چودہ دن بعد آپﷺ مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو سیکڑوں جاں نثار دائیں بائیں چل رہے تھے۔ یہ انصار تھے وہ انصار جنہوں نے آپﷺ کے راستے میں آنکھیں بچھائیں۔
آپﷺ کے ساتھیوں کو اپنے گھروں، کھیتوں، باغوں اور دکانوں میں حصہ دیا اور بدلے میں حضورﷺ کو پایا۔ تاریخ کو حنین کی وہ شام کبھی نہیں بھولتی جب میرے حضورﷺنے نو مسلم مکیوں کومال غنیمت سے زیادہ حصہ دیا، چند انصار نے یہ تقسیم ناپسند کی‘ آپﷺ نے انھیں مخاطب کر کے فرمایا ’’کیا تم کو یہ پسند نہیں لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم محمدﷺ کو لے کراپنے گھر آئو‘‘ انصار بے اختیار ہو کر چیخے ’’ہمیں صرف رسول اللہﷺ درکار ہیں‘‘ اور پھر وہاں گریہ کا سیلاب آ گیا، داڑھیوں سے آنسو ٹپکنے لگے، قریش اونٹ اور بکریاں لے گئے اور انصار کو حضورﷺ مل گئے۔ یہ اعزاز اب دنیا کی کوئی طاقت اہل مدینہ سے نہیں چھین سکتی۔
انصار مہمان نواز تھے، اللہ کے نبیﷺ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔
آج بھی مدینہ کے شہری کسی اجنبی کو دیکھتے ہیں تو اُسے محمد کہہ کر پکارتے ہیں اور ساتھی کو یا صدیق لہٰذا یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس میں ہر مہمان، ہر اجنبی کا نام محمد اور ہر ساتھی صدیق ہے۔ انصار نے حضورﷺ کی تواضح کی اور ان کی نسلیں حضورﷺ کے مہمانوں کی خدمت کر رہی ہیں۔ رمضان میں پورا مدینہ اشیاء خورونوش لے کر مسجد نبویﷺ حاضر ہو جاتا ہے ‘دستر خوان بچھا دیے جاتے ہیں، میزبانوں کے بچے مسجد نبویﷺ کے دالانوں، ستونوں اور دروازوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں، حضورﷺ کا جو بھی مہمان نظر آتا ہے ۔
وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر افطار کی دعوت دیتے ہیں۔ مہمان دعوت قبول کر لے تو میزبان کے چہرے پر روشنی پھیل جاتی ہے، نامنظور کر دے تو میزبان کی پلکیں گیلی ہو جاتی ہیں، میں مسجد نبویﷺ میں داخل ہوا تو ایک سات آٹھ برس کا بچہ میری ٹانگ سے لپٹ گیا اور بڑی محبت سے کہنے لگا ’’چچا، چچا آپ میرے ساتھ بیٹھیں گے‘‘ میرے منجمد وجود میں ایک نیلگوں شعلہ لرز اٹھا، میں نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسا دیا اور سوچا ’’ یہ لوگ واقعی مستحق تھے کہ رسول اللہﷺ اپنے اللہ کے گھر سے اٹھ کر ان کے گھر آ ٹھہرتے اور پھر واپس نہ جاتے۔‘‘
وہاں روضہ اطہر کے قریب ایک دروازہ ہے۔
باب جبرائیل، آپﷺ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے حجرہ مبارک میں قیام فرماتے تھے، افطار کا وقت ہوتا، دستر خوان بچھتا، گھر میں موجود چند کھجوریں اور دودھ کا ایک آدھ پیالہ اس دستر خوان پرچن دیا جاتا، حضرت بلالؓ اذان کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ فرماتے ’’ عائشہؓ باہر دیکھو باب جبرائیل کے پاس کوئی مسافر تو نہیں ‘‘ آپؓ اٹھ کر دیکھتیں، واپس آ کرعرض کرتیں’’ یا رسول اللہﷺ وہاں ایک مسافر بیٹھا ہے۔‘‘ آپﷺ کھجوریں اور دودھ کا وہ پیالہ باہر بھجوا دیتے، میں جونہی باب جبرائیل کے قریب پہنچا، میرے پیروں کے ناخنوں سے رانوں کی ہڈیوں تک ہر چیز پتھر ہو گئی، میں وہی بیٹھ گیا، باب جبرائیل کے اندر ذرا سا ہٹ کر حضرت عائشہؓ کے حجرے میں میرے حضورﷺ آرام فرما رہے ہیں۔ میں نے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچا، آج بھی رمضان ہے۔
ابھی چند لمحوں بعد اذان ہو گی، ہو سکتا ہے آج بھی میرے حضورﷺ حضرت عائشہؓ سے پوچھیں ’’ ذرا دیکھئے باہر کوئی مسافرتو نہیں‘‘ اور ام المومنین عرض کریں گی ’’ یا رسول اللہﷺ باہر ایک مسافر بیٹھا ہے، شکل سے مسکین نظر آتا ہے، نادم ہے، شرمسار ہے، تھکا ہارا ہے، سوال کرنے کا حوصلہ نہیں، بھکاری ہے لیکن مانگنے کی جرأت نہیں، لوگ یہاں کشکول لے کر آتے ہیں‘ یہ خود کشکول بن کر آ گیا، اس پر رحم فرمائیں یا رسول اللہﷺ، بیچارہ سوالی ہے، بے چارہ بھکاری ہے‘‘ اور پھر میرا پورا وجود آنکھیں بن گیا اور سارے اعضاء آنسو۔
آپ سیلفی ضرور لیں
جاوید چوہدری منگل 22 دسمبر 2015
ٹونی روبنز امریکا کا مشہور ’’موٹی ویشنل اسپیکر‘‘ اداکار، سیلف ہیلپ رائٹر اور کوچ ہے، فوربس میگزین نے 2007ء میں ٹونی روبنز کو دنیا کی سو مشہور ترین شخصیات میں شامل کیا تھا، اس کی ایک کتاب ’’ان لمیٹڈ پاور‘‘ نے دنیا میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے، یہ کیلیفورنیا کا رہنے والا تھا، تین بہن بھائیوں میں بڑا تھا، سات سال کی عمر میں والدین میں طلاق ہو گئی، ماں نے اس کے بعد بے شمار شادیاں کیں مگر ہر شادی کا انجام طلاق نکلا، ٹونی تعلیم مکمل نہ کر سکا، ماں نشے کی لت میں مبتلا تھی، چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمے داری اس کے کندھوں پر تھی، یہ جیسے تیسے یہ ذمے داریاں پوری کرتا رہا، یہ 17 سال کا تھا، ماں چھری لے کر اس کے پیچھے بھاگی، یہ گھر سے نکلا اور پھر واپس نہیں گیا، یہ جم رون کا اسسٹنٹ بنا، پھر اپنا کام شروع کیا اور دنیا کو حیران کر دیا، اس کے لفظوں میں طاقت ہے، یہ چند الفاظ بولتا ہے اور لوگوں کی کیفیت بدل جاتی ہے، امریکا کے بڑے بڑے کارپوریٹ گرو، سیاستدان، کھلاڑی اور اداکار اس کے کلائنٹ ہیں، صدر بل کلنٹن اور صدر جارج بش بھی اپنی نفسیاتی الجھنوں میں ٹونی روبنز کی مدد لیتے تھے، انسانوں کو دکھوں سے نکالنا ٹونی روبنز کی خصوصیت ہے، لوگ اس کے پاس آتے ہیں، یہ ان سے گفتگو کرتا ہے اور لوگ اپنی الجھنوں، اپنے دکھوں سے نکل جاتے ہیں، اس نے زندگی میں ہزاروں لوگوں کا علاج کیا، یہ تمام لوگ ٹونی کی کامیابی کی داستان ہیں۔
مجھے ایک بار ٹونی روبنز کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا، انٹرویو لینے والے نے پوچھا ’’دنیا کا کون سا دکھ، کون سا نقصان ہے جس کا علاج ٹونی روبنز کے پاس نہیں‘‘ ٹونی روبنز نے ہنس کر جواب دیا ’’اولاد کا دکھ‘‘ انٹرویو لینے والا خاموشی سے دیکھتا رہا، ٹونی نے لمبی سانس لی اور بولا ’’ میں لوگوں کو ہر قسم کے دکھ سے نکال لیتا ہوں لیکن میں آج تک ان والدین کا علاج نہیں کر سکا جنہوں نے کسی حادثے، کسی ان ہونی یا کسی بیماری میں اپنا بچہ کھو دیا ہو‘‘ ٹونی کا کہنا تھا ’’اولاد بالخصوص جوان اولاد کا نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے، دنیا کے کسی شخص کے پاس اس نقصان کا کوئی علاج موجود نہیں‘‘ ٹونی روبنز کے الفاظ نے مجھے حیران کر دیا، کیوں؟ کیونکہ یہ کسی عام انسان کا اعتراف نہیں تھا، یہ دنیا کے ایک بڑے موٹی ویشنل اسپیکر کا اعتراف تھا چنانچہ میں اسے مسترد نہیں کر سکتا تھا، ٹونی کی بات غلط نہیں تھی، اولاد انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے، ہم اپنی زیادہ تر کمزوریوں پر قابو پا لیتے ہیں لیکن ہم سرتوڑ کوشش کے باوجود اولاد کی کمزوری سے باہر نہیں نکل پاتے، آپ اگر والد یا والدہ ہیں تو آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں، بچے یا بچی کی موت انسان کو کہاں کہاں سے زخمی کرتی ہے اور انسان پھر ان زخموں کے ساتھ کیسے زندگی گزارتا ہے؟
زندگی کا ایک عمل ہے، انسان پیدا ہوتا ہے، پڑھتا ہے، بڑا ہوتا ہے، کیریئر بناتا ہے، شادی کرتا ہے، بچے پیدا کرتا ہے، ان کی پرورش کرتا ہے، ان کی شادیاں کرتا ہے اور پھر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، یہ عمل اگر اسی طرح چلتا رہے تو کوئی ایشو، کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اگر کسی والد یا والدہ کو ادھیڑ عمری یا بڑھاپے میں اپنے کسی بچے کی لاش اٹھانی پڑ جائے، اس کا جنازہ پڑھنا پڑ جائے یا اس کی تدفین کرنی پڑ جائے تو آپ خود اندازہ کیجیے، ان بے چاروں پر کیا گزرے گی، اولاد کا غم بہت خوفناک ہوتا ہے، یہ چند گھنٹوں میں انسان کی ہڈیاں سُکیڑ دیتا ہے، والد 36 انچ کی پتلون پہن کر قبرستان جاتا ہے اور جب بچے کی تدفین کے بعد گھر لوٹتا ہے تو اس کی کمر 34 انچ ہو چکی ہوتی ہے، آپ اپنے اردگرد دیکھیں، آپ کو ایسے درجنوں لوگ ملیں گے جن کے سر پر بچے کی موت کا تودا گرا اور اس کے بعد ان لوگوں نے باقی عمر زندگی کا ماتم کرتے کرتے گزاری، وہ زندگی کا مرثیہ بن کر رہ گئے، موت برحق ہے، یہ آ کر رہتی ہے، دنیا میں جو بھی وجود ایک بار سانس لیتا ہے، اس کو موت کا ذائقہ ضرور چکھنا پڑتا ہے، خواہ وہ دیوتا ہو یا نبی، ولی ہو یا بادشاہ، ہم نے بھی مر جانا ہے اور ہماری آل اولاد نے بھی، یہ حقیقت ہے لیکن یہ حقیقت اگر اس حد تک رہے تو کوئی مضائقہ نہیں، مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اولاد موت کو خود دعوت دیتی ہے، یہ جان بوجھ کر ایسی ’’ون ویلنگ‘‘ کرتی ہے جس کے آخر میں موت کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہ وہ موت ہے جو والدین کو عمر بھر زندہ نہیں رہنے دیتی۔
آپ راولپنڈی کی مثال لے لیجیے، ہمارے شہر میں چند دن قبل جمشید پرویز نام کا ایک 22 سالہ نوجوان چلتی ٹرین کے سامنے سیلفی بناتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا، یہ نوجوان ڈھوک رتہ کا رہنے والا تھا، طالب علم تھا، عمر 22سال تھی، نوجوان کا والد ریلوے میں درجہ چہارم کا ملازم ہے، جمشید تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک جنرل اسٹور پر 150 روپے دیہاڑی پر کام بھی کرتا ہے، جمشید کے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں، یہ 15 دسمبر کو اپنے کلاس فیلو وسیم کے ساتھ کالج سے واپس آ رہا تھا، یہ دونوں مریڑھ چوک میں پہنچے تو ان کے دماغ میں ایک عجیب شیطانی خیال آیا، یہ پل پر چڑھے اور ریل کی پٹڑی پر چلنے لگے، سامنے سے ٹرین آرہی تھی، جمشید نے چلتی ٹرین کے ساتھ سیلفی بنانے کا فیصلہ کیا، دوست وسیم اس کو سمجھاتا رہ گیا لیکن جمشید نے موبائل نکالا، وسیم کو ساتھ کھڑا کیا اور سیلفی بنانے میں مصروف ہو گیا، ٹرین کی رفتار تیز تھی، وہ سیلفی سے پہلے ان تک پہنچ گئی، وسیم نے چھلانگ لگا دی لیکن جمشید ٹرین کی زد میں آ گیا، انجن نے اس کے جسم کے ٹکڑے کر دیے، جمشید کی موت نے نہ صرف اس کے والدین اور بہن بھائیوں کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ اس کا پورا محلہ اس وقت نفسیاتی مریض بن چکا ہے، یہ نوجوان چلا گیا، یہ دفن ہوگیا، اس کی قبر کی مٹی بھی عنقریب سخت ہو جائے گی لیکن اس کے والدین، اس کے بہن بھائی اور اس کے دوست کبھی اس کا غم نہیں بھلا پائیں گے۔
وہ نوجوان وسیم جس نے اپنے سامنے اس کے جسم کے پرزے اڑتے دیکھے، یہ اب باقی زندگی کیسے نارمل گزارے گا، آپ خود فیصلہ کیجیے، اسی قسم کا ایک واقعہ 21 نومبر کو فیصل آباد میں بھی پیش آیا، فیصل آباد کے چند نوجوانوں نے شرط لگائی، ہم میں سے کون زیادہ دیر تک ریل کی پٹڑی پرلیٹتا ہے، شرط لگ گئی، سوشل میڈیا پر اعلان کر دیا گیا اور وقت طے ہو گیا، نوجوان وقت مقررہ پر آئے اور ریل کی پٹڑی پر لیٹ گئے، ٹرین آئی اور تیزی سے ان کی طرف بڑھنے لگی، یہ ٹرین جب تھوڑی دور رہ گئی تو تمام دوست اٹھ کر بھاگ گئے لیکن 19 سال کا ظہیر لیٹا رہا، اس کے دوست اس کو پکارتے رہے لیکن اس کا کہنا تھا، ٹرین ابھی بہت دور ہے، یہ بحث جاری تھی کہ ٹرین آئی اور ظہیر کے اوپر سے گزر گئی اور وہ جیتے جاگتے نوجوان سے قیمے کی ڈھیری بن گیا، یہ بچہ انجینئرنگ کا طالب علم تھا، اسی طرح چند ماہ قبل گجرات کے چند نوجوانوں نے نمک کھانے کی شرط لگائی، ایک نوجوان پاؤ بھر نمک کھا گیا، یہ اب اسپتال میں آخری سانسیں گن رہا ہے اور اس کی بیوہ ماں پاگل ہو کر اسپتال کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہے، میں شوگر کا مریض ہوں، میں عموماً شوگر کے مریضوں سے ملتا رہتا ہوں، مجھے چند سال قبل شوگر کے دو انوکھے مریض ملے، ایک نوجوان پانچ سو روپے کی شرط جیتنے کے لیے روح افزاء کی پوری بوتل پی گیا تھا، یہ اس کے بعد سال بھر اسپتالوں میں رہا، اس کی زندگی بچ گئی لیکن یہ شوگر کا خوفناک مریض بن گیا۔
یہ اب سسک سسک کر جی رہا ہے، اسی طرح ایک نوجوان شرط جیتنے کے لیے ایک کلو برفی کھا گیا، اس نے برفی کی شرط جیت لی لیکن شوگر کی شرط نہ جیت سکا، یہ اب تک شوگر کی وجہ سے اپنے پاؤں اور دونوں گردوں سے محروم ہو چکا ہے، یہ اب مظلومیت اور اذیت کی خوفناک مثال ہے، لاہور میں میرے ایک جاننے والے کا بیٹا انرجی ڈرنک کی شرط جیت گیا، وہ بارہ ریڈبُل چڑھا گیا، دوستوں نے اس جیت پر تالیاں بجائیں، وہ داد سمیٹنے کے لیے کھڑا ہوا، اسے ہارٹ اٹیک ہوا، وہ گرا، تڑپا اور اس نے دوستوں کے سامنے جان دے دی، اسی طرح پچھلے دنوں چین میں بھی کسی نوجوان نے دس انرجی ڈرنک پی لیے تھے، اس کی طبیعت خراب ہو گئی، اسپتال قریب تھا، ڈاکٹروں نے معائنہ کیا، پتہ چلا اس کے دل کا سائز بڑا ہو رہا ہے، دل آدھ گھنٹے میں اتنا بڑا ہو گیا کہ ڈاکٹر دل کو گنجائش دینے کے لیے اس کی پسلیاں کاٹنے پر مجبور ہوگئے، یہ نوجوان آج بھی اسپتال میں پڑا ہے، اس کا دل ننگا ہے اور دیکھنے والے کھلی آنکھوں سے اس کے دل کو پھولتا اور سکڑتا دیکھتے ہیں اور عبرت پکڑتے ہیں۔
آپ اگر اخبارات کو غور سے پڑھیں تو آپ کو ان میں روزانہ ایسی خبریں ملیں گی جن میں نوجوانوں نے شرط لگائی اور وہ عمارت کی منڈیر پر چلتے ہوئے گر کر مر گئے، ریل کی پٹڑی پر لیٹ کر جان سے گزر گئے، برسات میں چڑھے ہوئے دریا کو تیر کر پار کرنے کی کوشش کی اور پانی میں بہہ کر زندگی کی سرحد سے باہر نکل گئے، ون ویلنگ شروع کی، کسی انڈر پاس کے ستون سے ٹکرائے اور دماغ کنکریٹ سے چپک گیا، یا پھر چائے پینے، مٹھائی کھانے یا جیکٹ کو آگ لگا کر پانی میں کودنے کا مقابلہ ہوا اور ندگی دکھوں کی خوفناک داستان بن کر رہ گئی یا پھر رات کے وقت ریس لگائی، گاڑی بے قابو ہوئی، اپنی زندگی ختم ہوئی اور یہ والدین کو پوری زندگی رونے دھونے کے لیے پیچھے چھوڑ گئے، یہ بچے، یہ شرطیں لگانے والے بچے بہت ظالم ہیں، یہ نہ جانے اپنے والدین، اپنے بہن بھائیوں اور اپنے عزیز رشتے داروں سے کس جرم کا بدلہ لیتے ہیں، یہ ان کو کس گناہ کی سزا دیتے ہیں، کاش اس ملک میں کوئی ادارہ، کوئی عدالت شرط لگانے پر پابندی لگا دے۔
کوئی ادارہ جمشید پرویز اور ظہیر جیسے نوجوانوں کی کہانیوں کو سلیبس کاحصہ بنا دے، کاش تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ہی عبرت کا نشان بننے والے ان نوجوانوں کی تصویریں لیں، ان کی کہانیاں لکھیں اور کالج اور اسکول کی دیواروں پر لگا دے تا کہ دوسرے طالب علموں کو عبرت ہو اور یہ اس قسم کی غلطی نہ کریں، میری جمشید اور ظہیر جیسے نوجوانوں کے والدین سے بھی درخواست ہے، آپ بھی مختلف تعلیمی اداروں میں جائیں، طالب علموں کو اپنے بیٹے کی کہانی سنائیں اور ان کو مشورہ دیں ’’بیٹا آپ اپنی زندگی کی حفاظت کریں کیونکہ آپ تو چلے جائیں گے لیکن آپ کے بعد آپ کے والدین، آپ کے بہن بھائیوں کی زندگی قبرستان بن جائے گی، یہ لوگ باقی زندگی آپ کا تابوت اٹھا کر گزاریں گے، آپ ٹرین کی پٹڑی پر لیٹیں یا پھر چلتی ٹرین کے ساتھ سیلفی بنائیں مگر یہ یاد رکھیں، آپ کی اس حماقت، آپ کی اس غلطی کا تاوان آپ کی ماں پوری زندگی آہوں اور سسکیوں میں ادا کرے گی‘‘ شاید آپ کے یہ لفظ سیکڑوں ہزاروں والدین کو اس غم سے بچا لیں جس کا علاج ٹونی روبنز جیسے لوگوں کے پاس بھی نہیں، شاید، شاید، آپ کی ایک وزٹ آپ کے مرحوم بچے کے کلاس فیلوز کو بچا لے۔
Rich Dad — Poor Dad
جاوید چوہدری اتوار 20 دسمبر 2015
وہ پانچ بہن بھائی تھے،تین بھائی اور دو بہنیں،والد ٹھیکیدار تھا،جنرل ایوب خان کے دور میں ملک میں ترقیاتی کام شروع ہوئے،سڑکیں بنیں،ڈیم بننے لگے اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بچھنے لگیں،والد نے اس دور کا بھرپور فائدہ اٹھایا،اس نے منگلا ڈیم سے مٹی نکالنے کا ٹھیکہ لیا،پھر سندھ میں اسکولوں کی عمارتیں بنانے اور آخر میں بلوچستان میں ہیلتھ یونٹس کی تعمیر کا کام سنبھال لیا،یہ کام کام نہیں تھے،یہ سونے کی کانیں تھیں،والد ان کانوں کا جتنا سونا سمیٹ سکتا تھا اس نے سمیٹ لیا،وہ سمجھ دار آدمی تھا۔
اس نے جو کمایا پراپرٹی میں لگا دیا،بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی خوب کیا،لڑکے ایچی سن میں پڑھے اور لڑکیوں نے کانونٹ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی،والد نے بچوں کو دنیا کی ہر نعمت فراہم کی،یہ لوگ اس وقت ذاتی گاڑیوں پر اسکول اور کالج جاتے تھے جب نوے فیصد پاکستانی تانگوں پر سفر کرتے تھے،یہ لوگ اس وقت ہوائی جہازوں میں سفر کرتے تھے جب بحری جہاز بیرون ملک اور ٹرینیں اور بسیں اندرون ملک سفر کا ذریعہ تھیں،پانچ بچوں کے ذاتی بینک اکاؤنٹ بھی تھے،یہ جب چاہتے تھے اور جتنے چاہتے تھے بینک سے پیسے نکال لیتے تھے،دنیا میں دولت 80 فیصد لوگوں کو خراب کر دیتی ہے۔
یہ لوگ شراب،شباب کباب اور جوئے کے عادی ہو جاتے ہیں یا پھر نمود و نمائش کے ذریعے اللہ کے دیئے رزق کو آگ لگانے لگتے ہیں لیکن ان کا والد مختلف انسان تھا،دولت نے اسے خراب نہیں کیا،وہ آخری سانس تک سادہ اور شریف آدمی رہا،پانچ وقت کا نمازی،زندگی میں تین حج اور دس عمرے اور سگریٹ تک کو منہ سے نہیں لگایا،بچے بھی بہت اچھے تھے،یہ پانچوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے،یہ جب تک آپس میں مل نہیں لیتے تھے،یہ سونے کے لیے بیڈ روم میں نہیں جاتے تھے چنانچہ خاندان کی زندگی میں ہر طرف امن ہی امن،سکون ہی سکون اور خوش حالی ہی خوش حالی تھی لیکن پھر اچانک ہر چیز بدل گئی،حالات نے پلٹا کھایا،خاندان ٹوٹا اور پانچوں بہن بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔
ان پانچوں کی باقی زندگی عدالتوں،کچہریوں اور وکیلوں کے دفتروں میں دھکے کھاتے گزری،کیوں؟ ہم اس کیوں کی طرف آنے سے پہلے اس واقعے کی طرف جائیں گے جو اس خوشحال فیملی کو بکھیرنے کی وجہ بنا،ان کا والد 1972ء میں اچانک فوت ہو گیا،والد کی تدفین کے بعد جائیداد کے کاغذات اکٹھے کیے گئے،پتہ چلا والد نے کراچی،لاہور،کوئٹہ اور ڈھاکہ میں کروڑوں روپے کی کمرشل پراپرٹی چھوڑی،فیصل آباد کے مضافات میں زرعی زمین بھی تھی اور ملتان میں دو فیکٹریاں بھی۔
جائیداد کی تقسیم پہلا تنازعہ تھا جس نے ان بہن بھائیوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جنھیں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر نیند نہیں آتی تھی،یہ تنازعہ بڑھتے بڑھتے دشمنی بن گیا،پانچوں بہن بھائی جائیداد میں حصے کے لیے عدالتوں میں گئے اور پھر اس کے بعد واپس نہ آئے،یہ مقدمے اب تک چل رہے ہیں،ان 43 برسوں میں ان کی شادیاں ہوئیں،ان کے بچے ہوئے،ان کے بچوں کی شادیاں ہوئیں،ماں کا انتقال ہوا،دو بھائیوں کو ہارٹ اٹیک ہوا اور ایک بہن ایکسیڈنٹ میں ٹانگوں سے محروم ہو گئی لیکن یہ لوگ اکٹھے نہیں ہوئے،انھوں نے ایک دوسرے کا منہ نہیں دیکھا،جائیداد کی دشمنی اب تیسری نسل میں منتقل ہو چکی ہے،اب کزن ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں،یہ لوگ بھی نہ جانے کب تک لڑتے رہیں گے۔
آپ یقینا ان پانچ بہن بھائیوں کو لالچی،مطلبی،کوتاہ فہم اور ظالم کہیں گے لیکن میں ان کو مظلوم اور بے گناہ سمجھتا ہوں،کیوں؟ کیونکہ میری نظر میں یہ لوگ لالچی،مطلبی،کوتاہ فہم اور ظالم نہیں ہیں،ان کا والد تھا،وہ ایک ایسا ظالم اور لالچی شخص تھا جو دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنی اولاد کے لیے فساد کی بے شمار جڑیں چھوڑ گیا،یہ والد کی چھوڑی ہوئی وہ زمین،جائیداد،ملیں اور رقم تھی جس نے 43 برسوں تک بچوں کو اکٹھے نہیں بیٹھنے دیا،جس نے انھیں ایک دوسرے کی خوشیوں اور غمیوں میں بھی جمع نہیں ہونے دیا اور جس نے بہن کو بہن اور بھائی کو بھائی نہیں رہنے دیا چنانچہ آپ فیصلہ کیجیے،ظالم اور لالچی کون تھا،بچے یا والد؟ آپ جتنا غور کریں گے،آپ بھی اتنا ہی والد کو اس سارے فساد کا ذمے دار قرار دیں گے۔
اب سوال یہ ہے،کیا یہ صرف ایک خاندان یا چند لوگوں کی داستان ہے؟ جی نہیں،آپ دائیں بائیں دیکھیں،آپ کو اپنے ہر طرف ایسے ہزاروں خاندان نظر آئیں گے جن کے والدین اپنے بچوں کے لیے عمر بھر خوشحالی جمع کرتے رہے،جو زندگی بھر اپنی آل اولاد کے لیے دولت کے انبار لگاتے رہے لیکن جوں ہی ان کی آنکھ بند ہوئی،ان کی وہ اولاد ان کے جنازے میں ہی لڑ پڑی جس کی خوشحال اور مطمئن زندگی کے لیے وہ تنکا تنکا جمع کرتے رہے تھے،ان کی اولاد پھر کبھی اکٹھی نہ بیٹھ سکی،بچے عمر بھر وکیلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے رہے اور جب بچوں کا آخری وقت آیا تو ان کی کوئی بہن،بھائی،بھتیجا اور بھانجا ان کا منہ دیکھنے کے لیے نہیں آیا چنانچہ پھر ظالم کون ہوا،والد یا اولاد؟ آپ ان کے مقابلے میں اب ان لوگوں کو دیکھئے،جو اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں چھوڑ کر جاتے،یہ لوگ زندگی میں جتنا کماتے رہے،اتنا کھاتے رہے۔
کرائے کے چھوٹے مکانوں میں زندگی گزاری،گھر بنایا تو وہ بھی تنگ اور چھوٹا تھا،ایک آدھ گاڑی خریدی اور کپڑے اور جوتے بھی زیادہ نہیں تھے لیکن بچوں کی تربیت،تعلیم اور صحت پر بے انتہا توجہ دی،اپنی اولاد کو خود اسکول چھوڑ کر آئے،ان کے لیے کتابیں خریدیں،ان کے ساتھ میدانوں میں دوڑ لگائی،کرکٹ کھیلی،ہاکی اور فٹ بال سے لطف لیا،قہقہے لگائے،لطیفے سنائے اور باربی کیو کیا،یہ لوگ جب یہ مشکل اور غریب زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی اولاد کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی جسے یہ آپس میں تقسیم کرتے اور اس تقسیم کے دوران کوئی تنازعہ پیدا ہوتا چنانچہ اولاد نہ صرف والدین کے انتقال کے بعد بھی ایک دوسرے سے ملتی رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی محبت میں اضافہ بھی ہوتا گیا،آپ کبھی ملک میں ’’کزن میرجز‘‘پر بھی تحقیق کریں۔
آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ’’کزن میرج‘‘کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے دادا اور نانا ترکے میں زمین جائیداد چھوڑ کر نہیں جاتے،والدین نے کیونکہ دولت نہیں چھوڑی ہوتی چنانچہ بچے آپس میں ملتے رہتے ہیں اور جب ان کی اولاد جوان ہوتی ہے تو بھائی بھائی سے رشتہ مانگ لیتا ہے اور بہن اپنی بیٹی بھتیجے سے بیاہ دیتی ہے اور یوں محبت اور رشتے آگے بڑھتے جاتے ہیں جب کہ آپ ان کے مقابلے میں امیر خاندان کے بچوں کو اپنے کزنز کے گلے کاٹتے دیکھیں گے،یہ غریب اور امیر خاندانوں کی زندگی کا ایک پہلو ہے،آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے۔
میں نے زندگی میں غریب والدین کے زیادہ تر بچوں کو ترقی کرتے دیکھا،آپ بھی سروے کریں،آپ بھی زندگی کے مختلف شعبوں کے کامیاب لوگوں کا بیک گراؤنڈ دیکھیں،آپ کو اسی فیصد کامیاب لوگوں کا بچپن غربت اور عسرت میں لتھڑا دکھائی دے گا،والد غریب تھا،وہ لوہا کوٹتا تھا،وہ موچی،کسان،سیلز مین یا فیکٹری مزدور تھا،وہ کلرک یا سیکشن آفیسر تھا،وہ مزارعہ تھا یا پھر وہ معمولی دکاندار تھا لیکن بیٹا سیٹھ بن گیا،مل مالک،اعلیٰ افسر،جرنیل،سائنس دان یا اداکار ہو گیا،آپ یہ ڈیٹا جمع کریں اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں،کیوں؟ اور کیسے؟ آپ وجہ جان کر حیران رہ جائیں گے،غربت میں دس ہزار خرابیاں اور ایک لاکھ خامیاں ہوتی ہیں لیکن اس میں ایک ایسی حیران کن خوبی ہوتی ہے جو دنیا کی کسی دوسری چیز میں نہیں پائی جاتی،غربت دنیا کا سب سے بڑا طعنہ ہے،یہ طعنہ انسان کے اندر غربت کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دیتا ہے اور انسان سینہ ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔
یہ غربت سے لڑ پڑتا ہے اور ہمیشہ کامیاب ہو جاتا ہے،میں غریب والدین کے کامیاب بچوں سے ہمیشہ عرض کرتا ہوں،آپ اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے غریب والد کا شکریہ ادا کریں،کیوں؟ کیونکہ آپ کی یہ ساری کامیابی آپ کے والد کی غربت کا رد عمل ہے،آپ کو آپ کے ناکام اور غریب والد نے کامیاب اور امیر بنایا،آپ اگر بچپن میں غربت اور ناکامی نہ دیکھتے تو آپ کے دل میں کبھی ناکامی اور غربت کے خلاف اتنی نفرت پیدا نہ ہوتی اور آپ کے دل میں اگر یہ نفرت سر نہ اٹھاتی تو آپ کبھی کامیاب نہ ہوتے،میں اسی طرح سخت ماں باپ کے کامیاب بچوں سے بھی عرض کرتا ہوں،آپ اپنے والدین کی سختی کا شکریہ ادا کریں۔
وہ اگر آپ پر سختی نہ کرتے تو آپ شاید گھر سے نہ بھاگتے،آپ شاید کتابوں،اسپورٹس اور کاروبار میں پناہ نہ لیتے اور شاید آپ میں حالات کے خلاف لڑنے کا اتنا حوصلہ پیدا نہ ہوتا،یہ حوصلہ،سختی کا مقابلہ کرنے کی یہ ہمت آپ کی کامیابی کا اصل گُر ہے اور آپ نے یہ گُر اپنے والدین کی سختی،ظلم اور منفی رویوں سے کشید کیا،وہ اگر نرم نہ ہوتے تو آپ اس وقت کامیابی کی آخری سیڑھی کے بجائے میاں چنوں میں بوریاں جھاڑ رہے ہوتے یا پھر آپ نے لاڑکانہ میں آلو چھولے کی ریڑھی لگائی ہوتی،یہ آپ کے والدین کی سختی تھی جس نے آپ کو زندگی کے نئے میدان تلاش کرنے پر مجبور کیا،یہ سختی تتلی کے انڈے کا وہ باریک سوراخ ثابت ہوئی۔
جس سے نکلنے کی کوشش میں قدرت تتلی کے جسم پر خوبصورت پر اگا دیتی ہے،انڈے کا سوراخ جتنا چھوٹا ہوتا ہے،تتلی کے پر اتنے ہی خوبصورت اور لمبے ہوتے ہیں اور یہ سوراخ جتنا بڑا ہوتا ہے،تتلی کے مرنے کے چانس بھی اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں،زندگی میں اگر سختی،غربت اور مسائل نہ ہوں تو شاید دنیا میں کوئی ایڈیسن،آئن سٹائن،نیوٹن،شیکسپیئر،مائیکل اینجلو،مارک زکر برگ اور بل گیٹس پیدا نہ ہو،دنیا کے زیادہ تر کامیاب لوگ سختی اور غربت کی پیداوار ہوتے ہیں،یہ مشکلات کے کوکون سے نکلتے ہیں چنانچہ آپ اگر امیر ہیں تو آپ جان لیں آپ کی جائیداد آپ کے بعد آپ کے بچوں کو اکٹھا نہیں بیٹھنے دے گی اور آپ اگر غریب ہیں تو آپ ہرگز ہرگز شرمندہ نہ ہوں،آپ کی یہ غربت آپ کے بچوں کی کامیابی کا ذریعہ بنے گی اور یہ ان کو ایک دوسرے سے جوڑے بھی رکھے گی،غریب باپ امیر باپ کے مقابلے میں ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے۔
گڈ بائی شجاعت عظیم
جاوید چوہدری جمعرات 17 دسمبر 2015
شجاعت عظیم بے وقوف آدمی ہے اور یہ بے وقوف آدمی بالآخر اس انجام کو پہنچ گیا جس انجام تک ہمارے جیسے ملکوں کے بے وقوف پہنچا کرتے ہیں‘ یہ 35 سال قبل ائیر فورس میں تھے‘ یہ امریکا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے‘ نوکری سے استعفیٰ دیا لیکن استعفیٰ منظور نہ ہوا‘ یہ باز نہ آئے‘ یہ بار بار درخواست کرتے رہے‘ اعلیٰ افسروں کو یہ گستاخی پسند نہ آئی‘ ان پر اجازت کے بغیر چھٹی کرنے کا کیس بنا‘ کورٹ مارشل ہوا اور یہ ائیر فورس سے فارغ کر دیے گئے۔
انھوں نے کیس کا مناسب دفاع نہیں کیا تھا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ ائیر فورس چھوڑنا چاہتے تھے اور کورٹ مارشل کے ذریعے انھیں یہ موقع مل رہا تھا‘ یہ ان کی پہلی بے وقوفی تھی‘ انھیں چاہیے تھا‘یہ اعلیٰ تعلیم کا خبط نہ پالتے‘ یہ چپ چاپ یس سر بن جاتے‘ سلیوٹ کرتے‘ سلام کرتے‘ باسز کی خوشامدیں کرتے اور سرکاری خزانے سے بیرون ملک کورسز کرتے کرتے فورس کی آخری سیڑھی تک پہنچ جاتے‘ ان کی دوسری بے وقوفی کورٹ مارشل تھی‘ ان کو چاہیے تھا‘ یہ کیس کو ’’مینج‘‘ کر لیتے‘ معافی مانگ لیتے‘ کوئی تگڑی سفارش کرا لیتے اور ملک سے چپ چاپ نکل جاتے‘ بات ختم ہو جاتی لیکن یہ حماقت پر حماقت کرتے چلے گئے۔
شجاعت عظیم ائیر فورس سے فارغ ہونے کے بعد ملک سے باہر چلے گئے‘ ملک سے باہر تعلیم بھی حاصل کی‘ کاروبار بھی کیا اور لبنان کے وزیراعظم رفیق الحریری کے خاندانی پائلٹ بھی رہے‘ یہ الحریری فیملی کا تقریباً حصہ تھے‘ یہ رفیق الحریری اور ان کے صاحبزادے سعد الحریری کو دنیا جہاں میں لے کر گئے‘ شجاعت عظیم نے جنرل پرویز مشرف کے الحریری فیملی اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کے ساتھ تعلقات بھی استوار کروائے‘ انھوں نے کینیڈا میں بزنس کیا اور اربوں روپے کمائے‘ لاہور میں ’’سکھ چین‘‘ کے نام سے ایک ہاؤسنگ اسکیم بھی بنائی۔
یہ ایک بھرپور اور شاندار زندگی گزار رہے تھے‘ سعودی عرب‘ یو اے ای اور لبنان کے شاہی خاندانوں کے ساتھ گھریلو مراسم تھے‘ کینیڈا اور امریکا میں بزنس تھا‘ شاندار گھر تھے‘ کینیڈین نیشنلٹی تھی‘ لاہور میں خوبصورت ہاؤسنگ اسکیم تھی‘ اسلام آباد میں پانچ ایکڑ کا شاہی فارم ہاؤس تھا اور پوری دنیا میں دوست احباب تھے‘ زندگی میں سکون ہی سکون تھا لیکن پھر ان سے تیسری بے وقوفی ہو گئی‘ فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن کے لیے درخواستیں طلب کیں‘ 131 امیدواروں نے اپلائی کی‘ شجاعت عظیم بھی ان امیدواروں میں شامل تھے۔
پاکستان کے سب سے معتبر ادارے نے 131 میں سے 15 لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا‘ چار امیدواروں کو فائنل کیا گیا‘ سمری وزیراعظم کے پاس گئی اور وزیراعظم نے شجاعت عظیم کو سلیکٹ کر لیا‘ یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا‘ جولائی 2013ء میں شجاعت عظیم نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا‘ وزیراعظم نے جنوری 2014ء میں انھیں معاون خصوصی برائے ہوا بازی تعینات کر دیا‘ یہ تقرری بھی عدالت میں چیلنج ہو گئی‘ شجاعت عظیم کو ان تقرریوں میں نہیں پڑنا چاہیے تھا‘ یہ آرام سے زندگی گزارتے‘ یہ کینیڈا‘ دوبئی‘ بیروت اور اسلام آباد میں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن یہ بھی ملک کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو خوشحالی اور کامیابی کا خاص لیول اچیو کرنے کے بعد قوم کی خدمت کے خبط میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس خبط میں اپنی اور اپنے خاندان کی مت مار لیتے ہیں۔
سول ایوی ایشن کا ڈی جی اور بعد ازاں وزیراعظم کا مشیر بننا شجاعت عظیم کی تیسری بے وقوفی تھی‘ یہ اس کے بعد مسلسل بے وقوفیاں کرتے چلے گئے‘ مثلاً یہ 18 گھنٹے کام کرتے تھے اور اس کے بدلے ریاست سے کوئی تنخواہ‘ کوئی مراعات وصول نہیں کرتے تھے‘ یہ ملک کے اندر اور بیرون ملک تمام سفروں کے اخراجات‘ ائیر ٹکٹ‘ ہوٹلز‘ گاڑیوں اور کھانوں کے بل ذاتی جیب سے ادا کرتے تھے‘ یہ اپنے اسٹاف کے اخراجات بھی خود برداشت کرتے تھے‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ شجاعت عظیم کے آنے سے پہلے پی آئی اے صرف 18 جہازوں تک محدود تھی‘ یہ انھیں 38 جہازوں تک لے گئے‘ اگلے ہفتے مزید دو جہازوں کا اضافہ ہو جائے گا۔
جون 2013ء تک پی آئی اے کی 31 فیصد فلائیٹس لیٹ ہوتی تھیں‘ یہ شرح اب 18 فیصد پر آ گئی ہے یعنی 82فیصد فلائیٹس وقت پر ہیں‘ پی آئی اے دس سال سے خسارے میں تھی‘ 2013ء تک اس کا خسارہ 44 ارب روپے سالانہ تھا‘ یہ خسارہ 2014ء میں 28 ارب اور جون 2015ء میں 18 ارب ہو گیا جب کہ 2015ء کی آخری سہ ماہی میں پی آئی اے نے دس سال بعد پہلی بار دو ارب 85 کروڑ روپے منافع کمایا‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ شجاعت عظیم نے ملک کے سات کامیاب ترین بزنس مینوں کو اعزازی ڈائریکٹر بھی بنا دیا‘ یہ لوگ ادارے سے ایک روپیہ نہیں لیتے لیکن یہ پی آئی اے کو کامیابی کے درجنوں مشورے دیتے ہیں۔
کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ ملک میں پندرہ سال سے سول ایوی ایشن کی کوئی پالیسی نہیں تھی‘ شجاعت عظیم نے چھ ماہ میں پالیسی بنا دی‘ اس پالیسی کے نتیجے میں چارٹر ائیر لائنز اور پرائیویٹ ائیر لائنز پاکستان آنے لگیں‘ کوئٹہ‘ پشاور اور فیصل آباد کے ائیرٹرمینلز کو اسٹیٹ آف دی آرٹ بنا دیا‘ میں ’’عادی مسافر‘‘ ہوں‘ میں مہینے میں دو تین بار ملک کے اندر اور کم از کم ایک بار بیرون ملک سفر کرتا ہوں‘ میں نے تین سال پی آئی اے سے انٹرنیشنل سفر نہیں کیا‘ میں چھ ماہ پہلے قومی ائیر لائین سے پیرس گیا تو مجھے یہ پی آئی اے پرانی پی آئی اے سے بہتر لگی‘ ائیر پورٹس کا ماحول بھی سو درجے تبدیل ہو چکا ہے‘ اسلام آباد ائیر پورٹ اب قدرے محفوظ بھی ہے۔
صاف ستھرا بھی اور آسان بھی۔ دنیا میں دستی سامان کے ’’ٹیگس‘‘ کو ختم ہوئے بیس سال ہو چکے تھے لیکن پاکستان میں یہ پچھلے سال تک چلتے رہے‘ آپ سامان پر ٹیگ لگاتے تھے‘ ان ٹیگس پر پھر مہر لگتی تھی‘ پھر انھیں پنچ کیاجاتا تھا اور پھر جہاز تک ان کا معائنہ ہوتا تھا‘ کسی نے اس فضول حرکت کا نوٹس نہیں لیا مگر شجاعت عظیم نے آتے ہی حماقت کا یہ سلسلہ بند کر دیا اور ائیر پورٹس پر نئے کاؤنٹر بھی بنے‘ واش روم بھی ٹھیک ہوئے‘ کافی شاپس بھی بنیں اور عملے کا رویہ بھی تبدیل ہوا‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ اسلام آباد کے نئے ائیر پورٹ کا افتتاح اپریل 2007ء میں ہوا تھا‘ یہ ائیر پورٹ سات برسوں میں صرف 65 فیصد مکمل ہوا‘ اس شخص نے اڑھائی سال میں اسے تکمیل کے قریب پہنچا دیا‘ یہ اگلے سال کے آخر تک کھول دیا جائے گا۔
ملک میں سول ایوی ایشن کا صرف ایک ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ تھا‘ اس شخص نے 9 بنا دیے‘ یہاں سے اب دو سال میں 12 سو ائیروناٹیکل انجینئر نکلیں گے‘ پاکستان میں 68 سال سے دھند کے دوران فلائیٹس بند ہو جاتی ہیں‘ اس شخص نے ذاتی تعلقات استعمال کر کے لاہور ائیرپورٹ پر آئی ایل ایس سسٹم لگوا دیا‘ یہ اربوں روپے کا سسٹم قطر کی حکومت نے پاکستان کو گفٹ کیا‘ پی آئی اے دوبئی کی عام سی دوکانوں سے جہازوں کے پرزے خریدتی تھی‘ یہ پرزے خطرناک ہوتے تھے‘ اس شخص نے یہ پریکٹس بند کرا دی‘ پی آئی اے اب بوئنگ کارپوریشن سے اصلی پرزے خرید رہی ہے اور اس شخص نے پی آئی اے سے 302 جعلی ڈگری ہولڈر بھی نکال دیے‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں تھی اور کیا شجاعت عظیم بے وقوفیوں کے اس طویل پروفائل کے ساتھ بے وقوف ثابت نہیں ہو جاتے؟۔
شجاعت عظیم کے دو جرائم ہیں‘ یہ بے وقوف ہیں اور یہ انسان ہیں اور ہمیں اس ملک میں انسان چاہئیں اور نہ ہی مفت ڈیلیور کرنے والے بے وقوف۔ ہمیں یہاں صرف فرشتے چاہئیں‘ ایسے فرشتے جن کے گیلے دامن سے ہم وضو کر سکیں یا پھر ہمیں جنرل یحییٰ خان جیسے عظیم حکمران چاہئیں جو ملک کو حمود الرحمن رپورٹ دے کر قومی اعزازات کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جائیں لیکن شاید کبھی کبھی یہ مرحوم جنرل یحییٰ خان بھی فرشتوں سے یہ پوچھتے ہوں‘ وہ قوم جو مجھے سلام کرتی رہی‘ اس نے شجاعت عظیم کو کام کیوں نہیں کرنے دیا؟ یہ درست ہے۔
شجاعت عظیم کا کورٹ مارشل ہوا تھا لیکن کیا کورٹ مارشل سیکیورٹی رسک‘ کوٹیکنا‘ ہائی جیکنگ اور آئین توڑنے سے بڑا جرم تھا؟ یہ وہ ملک ہے جس میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو دوبار سیکیورٹی رسک‘ کرپٹ اور نااہل قرار دے کر حکومت سے فارغ کیا گیا تھا‘ آصف علی زرداری کرپشن کے سنگین جرائم میں گیارہ سال جیل میں رہے لیکن پھر اسی ریاست نے اس سیکیورٹی رسک اور اس کرپٹ شخص کو اس عالم میں صدر تسلیم کر لیا کہ ان کے خلاف سوئٹرز لینڈ میں مقدمے چل رہے تھے۔
میاں نواز شریف ہائی جیکنگ کے کیس میں جیلوں میں بند رہے اور جنرل پرویز مشرف وہ آئین توڑ کرچھ سال اور پانچ ماہ تک ملک کے باوردی صدر رہے جسے توڑنے کی سزا موت ہے لیکن ہم نے آصف علی زرداری کو صدر اور میاں نواز شریف کو تیسری بار وزیراعظم بھی بنایا اور جنرل پرویز مشرف آرٹیکل چھ کے ملزم ہونے کے باوجود گھر میں بیٹھ کر سابق صدر اور سابق آرمی چیف کی تمام مراعات انجوائے کر رہے ہیں‘ ہمارے ملک میں ایسے ایسے لوگ بھی حکومت کر گئے جنھیں پاکستان کا پہلا پاسپورٹ جہاز میں اس وقت دیا گیا تھا جب وہ وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے لیے تشریف لا رہے تھے۔
وہ آئے‘ حکومت کی‘ ملک کا بیڑا غرق کیا‘ پاسپورٹ پھاڑ کر پھینکا اور واپس چلے گئے لیکن ریاست‘ ریاست کے اعلیٰ ادارے، عدلیہ سب خاموش رہے‘ جس ملک میں آصف علی زرداری سنگین جرائم کے بعد صدر‘ میاں نواز شریف ہائی جیکنگ کے چارجز کے بعد وزیراعظم اور جنرل پرویز مشرف آئین توڑنے‘ ملک میں دو بار مارشل لاء لگانے کے باوجود صدر بن سکتے ہیں‘ اس ملک میں شجاعت عظیم معاوضے کے بغیر کام کیوں نہیں کر سکتا؟ ہم نے جب معین قریشی اور شوکت عزیز کو غیر ملکی پاسپورٹس کے باوجود وزراء اعظم مان لیا تھا‘ ہم نے جب ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو یونیفارم میں صدر تسلیم کر لیا تھا اور ہم جب ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے داخل ہونے پر خاموش رہے تھے تو پھر شجاعت عظیم کے ’’جرائم‘‘ پر اتنا شور کیوں ہے؟
قانون اور آئین ان کو عبرت کی نشانی کیوں بنانا چاہتا ہے؟ ہم نے آج تک جنرل پرویز مشرف کے ’’پی سی او‘‘ پر حلف اٹھانے والوں کا احتساب نہیں کیا‘ ہم نے ان لوگوں کو کورٹ میں بلا کر نہیں پوچھا جنہوں نے پی آئی اے کو خسارے کا قبرستان بنا دیا تھا‘ جن کی وجہ سے یہ ادارہ ہر سال 44 ارب روپے کا نقصان کرتا تھا‘ جو جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر تیس تیس سال ملازمتیں کرتے رہے اور جو بل امریکا کے بناتے تھے اور اسپیئر پارٹس دوبئی سے خریدتے تھے لیکن ہم نے بلااجازت چھٹی کرنے کے جرم میں ائیرفورس سے فارغ ہونے والے شجاعت عظیم پر پورا قانون نافذ کر دیا‘ کیوں؟ کیوں؟ ہم بھی کیا لوگ ہیں‘ ہم مارشل لاء والوں کو ملک تک توڑنے کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن ہم کورٹ مارشل والوں کو مفت کام نہیں کرنے دیتے‘ ہاتھی خواہ ہماری پوری فصل اجاڑ دیں لیکن ہم بکری کو مفت دودھ نہیں دینے دیں گے‘ واہ‘ سبحان اللہ۔
شجاعت عظیم اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں‘ یہ چالیس بے وقوفیوں کے بعد ان کی پہلی عقل مندی ہے‘ میں انھیں اس عقل مندی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں‘ گڈ بائی شجاعت عظیم۔ آپ اگر اگلی بار آئیں تو معین قریشی بن کر آئیں‘ قوم آپ کا والہانہ استقبال کرے گی‘ چیف جسٹس آپ سے حلف لیں گے اور ملک کے تمام آئینی ادارے آپ کو سلیوٹ کریں گے‘ ہر بار بے وقوفی اچھی نہیں ہوتی‘ انسان کو میچور بھی ہونا چاہیے۔
دشمن کے بچے
جاوید چوہدری جمعرات 17 دسمبر 2015
قیامت کو گزرے چار سال گزر چکے ہیں لیکن فیصل آباد کے 34 خاندانوں کے زخموں سے آج بھی خون ٹپک رہا ہے، یہ خاندان بدنصیب تھے، ان کے بچے ملت گرائمر اسکول کے طالب علم تھے، اسکول کا ٹور اسلام آباد آیا، کل 110 طالب علم تھے، عمریں دس گیارہ برس تھیں، یہ لوگ اسلام آباد سے واپس فیصل آباد جا رہے تھے، کلر کہار کے قریب بس کی بریکس فیل ہوئیں، بس کھائی میں گری اور 34 معصوم بچے دنیا سے رخصت ہو گئے، اسکول کا وائس پرنسپل، بس کا ڈرائیور اور کنڈیکٹر بھی جان کی بازی ہار گیا، یہ 26 ستمبر 2011ء کا واقعہ تھا، یہ اس نوعیت کا واحد واقعہ نہیں تھا۔
26 مئی 2013ء کو گجرات میں بچوں کی اسکول وین میں آگ لگ گئی، اس حادثے میں 16 بچے زندہ جل گئے، ان بچوں کی عمریں بھی 6 سے 10 کے درمیان تھیں، والدین کو اطلاع ملی تو وہ دیوانہ وار جلتی ہوئی وین سے لپٹ گئے، مائیں سلگتی ہوئی ہڈیوں اور چٹختی ہوئی کھوپڑیوں کو نام لے لے کر پکار رہی تھیں، تھر میں 2014ء میں 607 اور 2015ء میں 200 بچے غذائی قلت کے ہاتھوں قتل ہو گئے، 2012ء میں سروسز اسپتال کی نرسری وارڈ میں آگ لگ گئی، 22 بچے جل کر مر گئے، ان میں سات بچے شیر خوار تھے اور 15 نومولود۔ ان بچوں نے ابھی پوری طرح آنکھیں بھی نہیں کھولی تھیں، 2015ء میں لاہور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں چوہا نومولود بچے کو کاٹ کر کھا گیا۔
31 اگست 2015ء کو ہارون آباد میں ٹرک نے رکشے کو ٹکر مار دی، اسکول جاتے پانچ بچے پانچ منٹ میں قیمہ بن گئے اور 16جنوری 2014ء کو نواب شاہ میں ڈمپر نے اسکول وین اڑا دی، 21 بچے صفحہ ہستی سے مٹ گئے، یہ چند واقعات ہیں، آپ اگر ملک کا دس سال کا ڈیٹا نکالیں تو آپ کو ملک کے مختلف شہروں، قصبوں اور دیہات میں روزانہ چار پانچ بچے اس طرح سڑکوں، گلیوں، ویگنوں اور رکشوں میں مرتے نظر آئیں گے، آپ کسی دن ریلوے کے کھلے پھاٹکوں میں مرنے والے بچوں کا ڈیٹا بھی نکال لیجیے، آپ کی آنکھوں میں خون کے آنسو آ جائیں گے مگر یہ تصویر کا ایک پہلو ہے، آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے۔
پاکستان افغانستان کے بعد دنیا کا دوسرا ملک ہے جس کے بچے آج بھی پولیو کا شکار ہیں، جس میں آج بھی بچوں کو ویکسین دینے والے ورکرز کو گولی مار دی جاتی ہے، جس میں نومولود بچے سردیوں میں سردی اور گرمیوں میں گرمی سے مر جاتے ہیں، جس کے 30 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جس کے اڑھائی کروڑ بچے آج بھی تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں، جس کے 67 لاکھ بچے اسکول میں داخل ہی نہیں ہوتے، جس میں پنجاب کے 61، سندھ کے 53، خیبر پختونخواہ کے 51 اور بلوچستان کے صرف 47 فیصد بچے پرائمری اسکولوں میں داخل ہو پاتے ہیں۔
جس کے 65 فیصد اسکولوں میں پینے کے پانی، 62 فیصد میں واش روم، 61 فیصد میں چاردیواری اور 39 فیصد میں بجلی نہیں، سندھ کے 35 فیصد اسکولوں کی عمارتیں ہی موجود نہیں ہیں اور جو دنیا کے ان پانچ ملکوں میں شمار ہوتا ہے جن کے بچے خطرناک حد تک ’’انڈرویٹ‘‘ ہیں، ہمارے 43 فیصد بچوں کا قد اور وزن عمر سے مطابقت نہیں رکھتا، یونیسکو کے دعوے کے مطابق پاکستان نائیجیریا کے بعد شدید تعلیمی بحران کا شکار دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، ہمارے بعد ایتھوپیا اور بھارت کا نمبر آتا ہے اور پاکستان افریقہ کے تین ممالک کے بعد دنیا کا پہلا ملک ہے جو اساتذہ کی شدید کمی کا شکار ہے۔
یہ تصویر کا دوسرا پہلو تھا، تصویر کا ایک تیسرا پہلو بھی موجود ہے، ہمارے کالج، ہماری یونیورسٹیاں اور ہمارے تکنیکی ادارے معیار میں دنیا کے تیسرے درجے کے تعلیمی اداروں کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے، میں چند دن قبل ٹیلی ویژن پر سندھ کے ایک اسکول کی رپورٹ دیکھ رہا تھا، اسکول کی آٹھویں جماعت کے بچوں کو اردو لکھنا نہیں آتی تھی، آپ ملک کی دس بڑی یونیورسٹیوں کا سروے کرا لیں، آپ کو اگر وہاں ایک فیصد طالب علم بھی کتاب، اخبار اور میگزین پڑھتے مل جائیں تو آپ نظام تعلیم کو 21 توپوں کی سلامی دے دیجیے گا، ہم لوگ تو ہیلتھ اور انجینئرنگ تک میں جہالت کی فیکٹری ہیں۔
اللہ نہ کرے آپ کبھی علیل ہوں اور آپ کو کسی اسپتال میں داخل ہونا پڑ جائے کیونکہ سرکاری اسپتال تو رہے ایک طرف ملک کے مہنگے ترین پرائیویٹ اسپتال بھی آپ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ دیں گے اور آپ باقی زندگی اپنی پیپ صاف کرتے گزاریں گے، آپ تعلیمی اداروں کا سروے کرائیں، آپ کو ان میں گراؤنڈ، لائبریریاں اور لیبارٹریاں نہیں ملیں گی، آپ باقی ملک کو چھوڑ دیجیے، آپ اسلام آباد کے سرکاری اسکولوں کا جائزہ لے لیں۔
آپ کو وفاقی دارالحکومت کے مضافات اور دیہی علاقوں کے اسکول دیکھ کر شرم آ جائے گی، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز اسلام آباد کے اسکولوں اور کالجوں پر توجہ دے رہی ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں کامیاب کرے لیکن میں زیادہ پر امید نہیں ہوں، کیوں؟ کیونکہ میرا تجربہ ہے، حکومت کا جو بھی منصوبہ پبلسٹی سے شروع ہوتا ہے، وہ کبھی مکمل نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ اشتہاروں، نعروں اور دعوؤں تک رہتا ہے تاہم میں مریم نواز کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں، یہ ان کی سیاسی زندگی کا دوسرا منصوبہ ہے، یہ کم از کم ضرور کامیاب ہونا چاہیے۔
آپ تصویر کے ان تینوں پہلوؤں کو دیکھیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں، کیا وزیراعظم، وزراء اعلیٰ، حکومت اور ریاست ملک کے بچوں کو واقعی اپنے بچے سمجھتی ہے؟ کیا یہ لوگ ان لاکھوں کروڑوں بچوں کو بھی اے پی ایس کے شہید بچوں جتنی اہمیت دیتے ہیں، کیا ان کے دل سڑکوں، گلیوں، موٹروے، ریلوے کراسنگ اور جی ٹی روڈ پر مرنے، جلنے اور تڑپنے والے بچوں کے لیے بھی اتنے ہی دھڑکتے ہیں جتنے آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں کے لیے تڑپے اور کیا یہ اسکول نہ پہنچ پانے، صاف پانی نہ پی پانے اور استاد، عمارت اور واش روم سے محروم بچوں کے لیے بھی اپنے دلوں میں اتنی ہی ہمدردی محسوس کرتے ہیں جتنی یہ 16 دسمبر کو پشاور میں اے پی ایس اسکول میں محسوس کر رہے تھے؟
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے، نہیں، ہماری ریاست، ہماری حکومت اور ہمارے حکمرانوں نے ملک کی طرح بچے بھی تقسیم کر دیے ہیں، ایک وہ بچے ہیں جن کی برسی پر وزیراعظم، چاروں وزراء اعلیٰ، گورنرز، وفاقی وزراء، سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور فوجی سپہ سالار اپنی تمام سرکاری اور غیر سرکاری مصروفیات ترک کر دیتے ہیں اور دوسری طرف ریلوے کراسنگ، وینوں، بسوں اور رکشوں میں مرنے والے وہ بچے ہیں جن کے لیے آج تک ریاست کے منہ سے افسوس کا ایک لفظ تک نہیں نکلا، ہمارے ملک میں ہر سال سیکڑوں بچے اسکولوں کی یونیفارم میں سڑکوں پر مارے جاتے ہیں لیکن آج تک ملک کی کسی اسمبلی، کسی ایوان میں ان بچوں کے لیے دعائے مغفرت تک نہیں ہوئی، ریاست کو آج تک وہ ریلوے پھاٹک بند کرنے کی توفیق نہیں ہوئی جو ہر مہینے دس پندرہ پچاس معصوم بچوں کا خون پی جاتے ہیں۔
ملک کے چاروں وزراء اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر جواب دیں، کیا انھوں نے زندگی میں کبھی ٹریفک حادثوں میں مرنے والے بچوں کے لیے کوئی میٹنگ کی؟ کیا انھوں نے کبھی کوئی ایسا فیصلہ کیا جس سے ملک کے تمام بچے اسپتالوں میں پیدا ہو سکیں، انھیں مناسب خوراک مل سکے اور یہ عزت اور اعتماد کے ساتھ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکیں؟ اور وزیراعظم بھی اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر جواب دیں، کیا میاں نواز شریف نے کبھی ان بچوں کی حفاظت، صحت اور تعلیم کے لیے وقت نکالا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے، دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اعلان کرتا ہے۔
اللہ ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا، نہیں، یقیناً نہیں! آپ قوم کاحوصلہ دیکھئے، جس نے کل ان قائم علی شاہ، شہباز شریف، پرویز خٹک اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اے پی ایس کی تقریب میں آنسو بہاتے اور شہید بچوں کے والدین کو ایوارڈ دیتے دیکھا، جن کے اپنے صوبوں میں ہر سال سیکڑوں بچے بھوک، بیماری، حادثوں اور گندے پانی کی وجہ سے مر جاتے ہیں اور قوم نے اس وزیراعظم کو بھی بچوں کو اپنا مستقبل قرار دیتے سنا جس کے پندرہ کلومیٹر کے اسلام آباد میں ایک بھی ایسا سرکاری اسکول موجود نہیں جس میں یہ اپنے کسی پوتے پوتی یا نواسے نواسی کو داخل کرا سکیں، قوم نے آزاد کشمیر کے اس وزیراعظم کو بھی شہید بچوں کے والدین کو سلام پیش کرتے دیکھا جو زلزلے کے دس سال گزرنے کے بعد بھی آزاد کشمیر میں اسکول نہیں بنا سکا اور جس کے آزاد کشمیر میں آج بھی ڈیڑھ لاکھ بچے ننگی زمین پر کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ہمارے ملک میں آج بھی 30 ہزار اسکول صرف کاغذوں میں پائے جاتے ہیں۔
یہ سرے سے زمین پر موجود ہی نہیں ہیں، آج بھی چاروں وزراء اعلیٰ کے اپنے حلقوں کے سرکاری اسکولوں میں استاد پورے نہیں ہیں، یہ بھی کیا کمال لوگ ہیں، یہ بھی فوج کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے پشاور پہنچ جاتے ہیں لیکن اپنے حلقے میں نہیں جاتے، میں اس دن مانوں گا جس دن میاں شہباز شریف، قائم علی شاہ، ڈاکٹر عبدالمالک اور پرویز خٹک اپنے اپنے حلقوں کے اسکولوں کو اتنا محفوظ، اتنا مضبوط اور اتنا شاندار بنا لیں گے کہ ان کے پوتے اور پوتیاں ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکیں یا پھر یہ لوگ ان اسکولوں کو اتنی سہولتیں دے دیں گے جتنی ملک بھر کے آرمی پبلک اسکولوں کو حاصل ہیں اور وزیراعظم صرف اسلام آباد کے اسکولوں کالجوں کا معیار فوجی تعلیمی اداروں کے برابر کر دیں گے، وہ دن ملکی تاریخ کا سنہری دن ہو گا۔
آج ریاست سے پھاٹکوں، سڑکوں اور بسوں میں مرنے والے بچے، غذائی قلت کے شکار بچے، متعدی امراض کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بچے اور اسکولوں، کتابوں، استادوں، صاف پانی، واش روم اور لیبارٹریوں کو ترسنے والے بچے یہ سوال کر رہے ہیں، ہمارا پاکستان کب بنے گا، ہمارا وزیراعظم، ہمارے گورنرز، ہمارے وزراء اعلیٰ اور ہمارے لیڈر کب آئیں گے، ہمارے حصے کی حکومتیں کب بنیں گی اور ہماری ریاست کا ظہور کب ہو گا؟
ان کا میاں نواز شریف اور ان کا میاں شہباز شریف کب آئے گا اور ان کے سر پر کون ہاتھ رکھے گا؟ آپ کوئی توپ نہ چلائیں، آپ بس ان بچوں کو دشمن کا بچہ سمجھ کر پڑھا دیں، آپ ان بچوں کو اس دشمن کے بچے سمجھ کر جان، عزت اور تعلیم دے دیں جن کو ہم دس دن سے یہ پیغام دے رہے ہیں ’’ہم نے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘ آپ جن بچوں کو آج تک اپنا بچہ نہیں بنا سکے، آپ انھیں دشمن کا بچہ ہی سمجھ لیں، شاید اس سے ان بچوں کا مقدر بدل جائے۔
حکمت کی واپسی
جاوید چوہدری منگل 15 دسمبر 2015
بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں،معاشروں اور قبیلوں کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتے تھے،جس ملک کے پاس اچھی نسل کے گھوڑے ہوتے تھے،وہ ملک فوجی اور معاشی لحاظ سے دوسرے ملکوں سے بہت آگے ہوتا تھا،اس زمانے میں سپہ گری تین فنون کا مجموعہ ہوتی تھی،گھوڑا،تلوار اور نیزہ،جس شخص کو یہ تینوں ہینڈل کرنا آ جاتے تھے،وہ مرد میدان کہلاتا تھا اور جو ان میں کورا ہوتا تھا،لوگ اسے زنان کہتے تھے،تاتاریوں کے پورے انقلاب کی بنیاد گھوڑے تھے،چنگیز خان دنیا کا پہلا جرنیل تھا۔
جس نے اپنے سپاہیوں کو چلتے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سونے اور دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ سے تیر چلانے کی ٹریننگ دی،تاتاری سپاہی مسلسل سفر کرتے تھے،یہ آرام کے لیے نہیں رکتے تھے،یہ گھوڑی کے دودھ کی لسی پیتے تھے اور گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے سو جاتے تھے،گھوڑا بھاگتے بھاگتے مر جاتا تھا تو یہ اس کی گردن کاٹ کر اس کا خون دوسرے گھوڑے کو پلاتے اور چھلانگ لگا کر اس پر بیٹھ جاتے تھے یوں وہ ایک ماہ کا سفر دس دن میں طے کر لیتے تھے،تاتاریوں سے پہلے تیر چلانے کے لیے بھی گھوڑا روکنا پڑتا تھا لیکن چنگیز خان نے دوڑتے گھوڑے سے تیر چلانے کی تکنیک ایجاد کر لی۔
اس تکنیک اور اس اسپیڈ نے تموجن کو خان اعظم چنگیز خان بنا دیا چنانچہ دنیا میں اگر گھوڑا نہ ہوتا تو شاید چنگیز خان بھی نہ ہوتا،آج سے اڑھائی ہزار سال قبل ہندوستان میں گھوڑا،افیون،ستون اور پائجامہ نہیں ہوتا تھا،یہ چاروں چیزیں سکندر اعظم نے یہاں متعارف کرائیں،یونانی فوج گھوڑوں پر بیٹھ کر ہندوستان میں داخل ہوئی،ہندوستانیوں کے لیے گھوڑا نیا تھا اور یونانیوں کے لیے ہاتھی چنانچہ پورس کے ہاتھی گھوڑوں کو دیکھ کر پسپا ہو گئے اور سکندر کے گھوڑوں نے ہاتھی دیکھ کر ہمت ہار دی،امریکا میں بھی گھوڑا نہیں ہوتا تھا،یہ جانور ہسپانوی تاجر لے کر امریکا پہنچے،یورپی رائفل اور گھوڑے یہ دو ہتھیار تھے۔
جنہوں نے امریکا کے قدیم باشندوں ریڈ انڈینز کا صفایا کر دیا لیکن پھر ایک رات اسپین کے مہم جوؤں کے دو سو گھوڑے کھل گئے،یہ گھوڑے ریڈ انڈینز کے ہتھے چڑھ گئے،ریڈ انڈینز چند ماہ میں گھڑ سواری سیکھ گئے اور اس کے بعد انھوں نے گوروں کی مت مار دی،عربی لوگ بھی گھوڑوں کے معاملے میں بہت حساس ہوتے تھے،یہ اسے آسمانی تحفہ سمجھتے تھے،یہ لوگ گھوڑے کے معاملے میں کس قدر ’’عصبیت پسند‘‘تھے،آپ اس کا اندازہ معراج کے واقعہ سے لگا لیجیے،نبی اکرمؐ نے جب فرمایا،میںرجب کی ستائیسویں شب کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے عرش پر گیا تھا تو لوگوں نے آپؐ کی سواری براق کو دنیا کا تیز ترین گھوڑا قرار دے دیا،دنیا بھر میں آج بھی جب براق کی تصویر بنائی جاتی ہے تو مصور گھوڑے کے ساتھ دو پر لگا دیتا ہے اور یوں گھوڑا براق بن جاتا ہے،عربی گھوڑے دنیا کے بہترین گھوڑے سمجھے جاتے تھے۔
یہ جنگوں میں کامیابی کی ضمانت ہوتے تھے،حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور میں طائف میں جنگی گھوڑوں کا پہلا اصطبل بنایا،یہ دنیا میں عربی گھوڑوں کا پہلا فارم تھا،ان جیسے فارم بعد ازاں دنیا بھر میں قائم ہوئے اور ان فارموں کے گھوڑے جنگوں میں کامیابی کے ضامن بنے،عربی ادب کا ایک تہائی حصہ گھوڑوں پر مشتمل ہے،آپ آج بھی عربی ادب کی کوئی پرانی کتاب کھول لیجیے،آپ کو اس کے ہر صفحے پر گھوڑے کا ذکر ملے گا،عربی زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے،اس سے اگر گھوڑوں کا تذکرہ نکال دیا جائے تو پیچھے صرف حروف تہجی رہ جائیں گے،میں عربی زبان کو تین حوالوں سے دنیا کی مقدس ترین زبان سمجھتا ہوں،یہ وہ زبان ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ آخری بار انسان سے مخاطب ہوا۔
دوسرا،یہ وہ زبان ہے جو ہمارے وہ نبیؐ بولتے تھے جن کی آن اور شان پر ہم اپنی جان قربان کر سکتے ہیں اور تیسری خوبی،یہ دنیا کی وہ زبان ہے جو کائنات کی کسی چیز کو بے نام نہیں رہنے دیتی،یہ ہر چیز کو لفظوں کا لباس دے دیتی ہے،عربی کے بعد یہ خوبی فرنچ زبان میں ہے،شاید اسی لیے فرنچ کو سفارت کاری کی زبان سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں بھی عربی کی طرح کوئی ابہام نہیں ہوتا،اس میں بھی گھوڑا صرف گھوڑا نہیں ہوتا،یہ سفید، سیاہ،مشکی، چھوٹا،بڑا،موٹا،باربرداری،سواری اور جنگی گھوڑا ہوتا ہے،عربی زبان کس قدر گہری اور بلیغ ہے،آپ اس کا اندازہ صرف ایک لفظ سے لگا لیجیے،وہ لفظ ہے حکمت،عرب گھوڑے کی لگام کو حکمت کہتے تھے،یہ لوگ گھوڑے کو طاقت کی علامت سمجھتے تھے،ان کا خیال تھا،لگام اس طاقت کو قابو میں رکھتی ہے،یہ نہ ہو تو گھوڑا اپنے سوار اور سامنے موجود لوگ دونوں کو روند ڈالے چنانچہ عرب لگام کے استعمال کو حکمت کہتے تھے۔
معاشرے بھی اتھرے گھوڑے ہوتے ہیں،ان کے نتھنوں میں اگر حکمت کی لگام نہ ہو تو یہ بھی خود کو اور دوسروں کو روند ڈالتے ہیں،ادب،مصوری اور موسیقی یہ تینوں معاشروں کی حکمت ہوتی ہیں،معاشروں کی یہ لگام جتنی مضبوط ہو گی،ان کی طاقت اتنی ہی قابو میں رہے گی،آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ پاکستان میں فنون لطیفہ کے زوال پر تحقیق کرلیں،آپ چند لمحوں میں ملک میں موجود دہشت گردی کی وجوہات تک پہنچ جائیں گے۔
ملک میں جب نثر،شاعری،مصوری،تھیٹر،موسیقی اور قوالی تھی تو اس وقت معاشرے میں امن،برداشت اور سکون بھی تھا لیکن جب ملک میں فنون لطیفہ سکڑنے لگے تو پھر دہشتگردی،عدم برداشت،بدامنی اور بے سکونی میں بھی اضافہ ہونے لگا،یہ ایک ایسا ملک تھا جس میں عطاء اللہ شاہ بخاریؒ جیسے خطیب موچی دروازے میں پوری پوری رات خطاب کرتے تھے اور جلسہ گاہ کے بالکل سامنے شرابی شراب خانے میں بیٹھ کر شغل مے کرتے تھے اور جلسے میں موجود کوئی شخص ان گناہ گاروں کے خلاف نعرہ لگاتا تھا اور نہ ہی یہ شرابی باہر نکل کر مولویوں کو مولوی کہتے تھے،یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں ہمارے علماء کرام لاکھ لاکھ لوگوں کو ساتھ لے کر مرزا غلام احمد قادیانی کے گاؤں قادیان چلے جاتے تھے۔
گاؤں میں پہنچ کر ختم نبوت پر تقریر کرتے تھے اور لوگ قادیانیوں کو گالی تک دیے بغیر واپس لاہور آ جاتے تھے اور یہ ایک ایسا ملک تھا جس میں فیض احمد فیض جیسے لبرل کمیونسٹ بھی تھے اور مولانا مودودی جیسے مذہبی اسکالر بھی اور یہ دونوں خوفناک اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی بے انتہا عزت کرتے تھے،مولانا مودودی نے پوری زندگی فیض صاحب کو گالی دی اور نہ ہی فیض صاحب کے منہ سے مودودی صاحب کے خلاف کوئی فقرہ نکلا لیکن پھر فنون لطیفہ کو زوال آیا اور یہ زوال اپنے ساتھ طالبانائزیشن،فرقہ واریت اور دہشت گردی کا بھوت لے آیا،آج حالت یہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فوج کے بغیر ربیع الاول اور محرم کے مہینے گزارنا مشکل ہوتے ہیں،امراء ان مقدس اسلامی مہینوں میں اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچانے کے لیے غیر اسلامی ملکوں کی طرف نکل جاتے ہیں،یہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟ یہ حکمت کی اس کمزور ہوتی لگام کی وجہ سے ہوا جو معاشرے جیسے اتھرے گھوڑے کو قابو رکھتی ہے،دہشت گردی اور فنون لطیفہ دونوں ’’سی سا‘‘کا تختہ ہوتے ہیں،فنون لطیفہ کی سائیڈ جب بھی زمین کی طرف آئے گی تو دہشتگردی،بدامنی اور بے سکونی کی سائیڈ آسمان کی طرف اٹھے گی اور جب بھی دہشت گردی کی سائیڈ نیچے زمین کی طرف بڑھے گی تو فنون لطیفہ اوپر اٹھ جائیں گے اور یہ وہ حقیقت ہے جسے یورپ ہم سے پانچ سو سال پہلے سمجھ گیا تھا چنانچہ ان لوگوں نے سو سو سال لمبی جنگوں میں بھی قلم،کتاب،برش،آواز اور وائلن کو مرنے نہیں دیا اور یہ ان کی وہ حکمت تھی۔
جس نے آج یورپ کو یورپ بنا دیا جب کہ ہم معاشرے کو جنگ کے بغیر وہاں لے گئے جہاں لکھنے والے حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت ابو طالب کا نام لکھتے ہوئے گھبراتے ہیں،جہاں ہم کالموں میں فلم،موسیقی،پینٹنگ اور مجسموں کا ذکر کرتے ہوئے شرماتے ہیں اور جہاں ہمارے کالم نگار بھائی اپنی جان بچانے کے لیے آیات اور احادیث کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں،ہمارا بس نہیں چلتا ورنہ ہم قائداعظم اور علامہ اقبال کی تصویروں پر داڑھی لگا دیں اور فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کو برقعہ پہنا دیں،ہم نے آج فیصلہ کرنا ہے۔
ہمیں ملا عمر کا دہشت زدہ پاکستان چاہیے یا پھر قائداعظم اور علامہ اقبال کا وہ پرامن اوربرداشت سے لبریز پاکستان جس میں ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حلف برداری کی تقریب کے ابتدائی کارڈ کراچی کی ہندو،پارسی اور آغا خانی کمیونٹی کو جاری ہوئے تھے اور جس میں علامہ اقبال جیسے عظیم مسلم مفکر نے عیسائیوں کی درس گاہ مرے کالج میں تعلیم حاصل کی تھی اور جس کا پہلا قومی ترانہ کسی مسلمان نہیں بلکہ جگن ناتھ آزاد جیسے ہندو شاعر نے لکھا تھا،ہمیں اس بے لگام اتھرے معاشرے جس میں عقیدہ ’’کاز آف ڈیتھ‘،بن رہا ہے،اس میں حکمت واپس لانی ہو گی ورنہ اسے وہ افغانستان بنتے دیر نہیں لگے گی جس میں افغان گلوکاراؤں کو سنگسار کر دیا جاتا ہے۔
عطاء الحق قاسمی فکری،نظریاتی اور جسمانی دہشت کے شکار اس معاشرے میں روشنی کا مینار ہیں،یہ گزشتہ چھ سال سے لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین ہیں،لاہور کی آرٹس کونسل اور الحمراء کمپلیکس عطاء الحق قاسمی کی چیئرمین شپ سے پہلے بھوت بنگلہ اور کھڈے لائین سرکاری ملازمین کا قبرستان تھی،قاسمی صاحب آئے اور انھوں نے اس قبرستان میں روح پھونک دی،یہ اب ملک کا سب سے بڑا اور متحرک ثقافتی مرکز بن چکا ہے،قاسمی صاحب تین برس سے ادبی اور ثقافتی فیسٹیول بھی منعقد کر رہے ہیں،قاسمی صاحب کے یہ میلے ملا عمر کے ظہور سے پہلے کے پاکستان کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں۔
لاہور میں اس سال بھی 11 سے 13 دسمبر تک تین دن ادبی اور ثقافتی میلا تھا،میں بھی یہ میلا دیکھنے لاہور گیا،الحمراء میں تین دن 38 نشستیں ہوئیں،ان نشستوں میں شاعری سے لے کر مصوری تک فنون لطیفہ کے تمام شعبوں کا احاطہ ہوا،ہر نشست لاجواب تھی اور ہر نشست میں پورا ہال بھرا ہوتا تھا،قاسمی صاحب نے فیسٹیول کے لیے پورے ملک سے ادیبوں،شاعروں،مصوروں،موسیقاروں،اداکاروں اور صحافیوں کو لاہور میں اکٹھا کیا،یہ لوگ عوام اور عوام ان لوگوں کو اس طرح دیکھ رہے تھے۔
جس طرح صحرا میں بھٹکتا ہوا پیاسا پانی کو دیکھتا ہے،یہ فیسٹیول صرف فیسٹیول نہیں تھا،یہ مستقبل کے پاکستان کا ریفرنڈم بھی تھا اور اس ریفرنڈم نے دنیا کو بتا دیا تھا،قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستانیوں نے ملا عمر کا پاکستان مسترد کر دیا ہے،لوگ اب ایک آزاد،متوازن اور ہنستا گاتا پاکستان چاہتے ہیں،اس فیسٹیول نے یہ بھی ثابت کر دیا،پاکستان کی کھوئی ہوئی حکمت واپس آ رہی ہے،وہ لگام جو مستقبل میں اس اتھرے گھوڑے کو کنٹرول بھی کرے گی اور اسے غیرملکی لشکریوں سے بھی بچائے گی۔
میں قاسمی صاحب کو اس کامیاب کاوش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں،واقعی قاسمی صاحب،قاسمی صاحب ہیں،ان کا کوئی مقابلہ نہیں۔
اسٹوری آف لائف
جاوید چوہدری اتوار 13 دسمبر 2015
یہ پیٹر کی کہانی ہے، مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔ پیٹر کی عمر آٹھ سال تھی، وہ مشرقی یورپ کے کسی چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا، والدین زمیندار اور خوش حال تھے، پیٹر ان کی اکلوتی اولاد تھا، وہ خوبصورت بھی تھا، ذہین اور مہذب بھی۔ خاندان سے لے کر گاؤں کے بچوں، لڑکوں اور بوڑھوں تک سب اس سے خوش تھے۔
وہ اسکول میں ہردل عزیز تھا، ساتھی طالب علم بھی اسے پسند کرتے تھے اور وہ اساتذہ کا بھی پسندیدہ اسٹوڈنٹ تھا، وہ ہمیشہ ہوم ورک کر کے اسکول آتا تھا، وہ کھیل، کلاس ورک اور مطالعہ تینوں میں لاجواب تھا، گویا پیٹر گاؤں کا بے مثال بچہ تھا، بس اس میں ایک خرابی تھی، وہ خرابی کیا تھی؟
میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں، یہ صرف پیٹر کی کہانی نہیں، یہ دراصل ہم سب کی کہانی ہے، ہم سب کسی نہ کسی سطح پر پیٹر ہیں اور ہم پیٹر کی اس کہانی سے ہوتے ہوئے بہت جلد اپنی ذات میں چھپے پیٹر تک پہنچ جائیں گے چنانچہ یہ کہانی پیٹر کے ساتھ ساتھ ہماری کہانی بھی ہے، اللہ دتہ، محمد معراج الدین، ظفر اقبال اور محمد آصف کی کہانی۔ یہ کہانی ہماری کہانی کیسے ہے؟ہمیں یہ جاننے کے لیے پہلے پیٹر کی کہانی سننا ہو گی۔
پیٹر میں بس ایک خرابی تھی، وہ ’’ڈے ڈریمنگ‘‘ کا شکار تھا، وہ بیٹھے بیٹھے کھلی آنکھوں کے ساتھ خواب دیکھتا تھا، وہ لمحہ موجود میں زندہ نہیں رہتا تھا، وہ وقت کو کبھی آگے لے جاتا تھا اور کبھی پیچھے۔ وہ اکثر اوقات کلاس میں بیٹھ کر خیالوں ہی خیالوں میں بیس سال کا خوبصورت جوان بن جاتا تھا، وہ خود کو گھوڑے پر بیٹھا ہوا دیکھتا، گھوڑے کو ایڑھ لگاتا اور اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگتا، پیٹر خیالوں کی دنیا میں سفر کرتا ہوا کبھی جنگیں لڑتا، کبھی شہزادی کے محل میں پہنچ جاتا، کبھی کسی ملکہ کو اغواء کر کے گھوڑے پر بٹھاتا، گھوڑے کو وادیوں، پہاڑوں، جنگلوں اور میدانوں میں دوڑاتا اور دشمنوں کے گھوڑوں کو اپنے پیچھے بھاگتا ہوا محسوس کرتا، وہ کبھی خیالوں کی دنیا میں پولو کے میچ کھیلتا، کبھی تاجر بن کر منڈی میں اترتا، کبھی جہاز ران بن کر سمندر کی لہروں سے لڑتا۔
کبھی اس کا بحری جہاز کسی بے آب و گیاہ اجنبی جزیرے پر رک جاتا اور وہ باقی زندگی رابن سن کروسو بن کر گزار دیتا، وہ کبھی ویگا بانڈ بن جاتا اور کبھی رابن ہڈ بن کر امیروں کو لوٹنے اور غریبوں میں تقسیم کرنے لگتا، وہ کبھی بوڑھا کنگ لیئر بن جاتا اور محسوس کرتا، وہ بیمار بوڑھا بادشاہ ہے، وہ موت کے بستر پر لیٹ کر آخری سانسیں لے رہا ہے اور اس کی شہزادیاں اور شہزادے وصیت سننے کے لیے اس کے گرد کھڑے ہیں اور وہ کبھی کبھی خود کو پوپ بھی محسوس کرنے لگتا، وہ سمجھتا وہ ویٹی کن سٹی میں پوپ کی بالکونی میں کھڑا ہے اور پوری دنیا بالکونی کے نیچے کھڑی ہو کر اس کی زیارت کر رہی ہے۔
وہ وقت کو آگے اور پیچھے لے جانے والے اس کھیل کو بہت انجوائے کرتا تھا، وہ گھنٹوں بیٹھ کر یہ کھیل کھیلتا تھا، دنیا میں اس کھیل میں اس سے بڑا کوئی کھلاڑی نہیں تھا، وہ کلاس روم میں بیٹھ کر خیالوں ہی خیالوں میں کھیل کے میدان میں بھی چلا جاتا تھا، وہ کھیل کے دوران خود کو دنیا کا کامیاب ترین کھلاڑی بھی محسوس کرتا تھا اور وہ واش روم میں کموڈ پر بیٹھ کر اپنے فارم ہاؤس میں کاشتکاری بھی شروع کر دیتا تھا۔
پیٹر ایک شاندار بچہ تھا، بس اس میں صرف یہ خرابی تھی، وہ ذہنی طور پر وہاں موجود نہیں ہوتا تھا جہاں وہ جسمانی طور پر ہوتا تھا، اس کا جسم اور اس کا ذہن ہر وقت دو الگ الگ دنیاؤں میں رہتے تھے، وہ وہاں نہیں رہتا تھا جہاں اسے رہنا چاہیے تھا، پیٹر کی خواہش تھی وہ کسی نہ کسی طریقے سے وقت کو کنٹرول کرنا سیکھ لے، وہ جب چاہے وقت کو آگے لے جائے اور جب چاہے وقت کو ری ورس کر لے، وہ ہمہ وقت یہ خواہش لے کر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔
آپ اللہ کی کرنی دیکھئے، پیٹر ایک دن جنگل سے گزر رہا تھا، پیٹر کو ٹھوکر لگی، وہ گرا اور بے ہوش ہو گیا، آنکھ کھلی تو اس نے ایک بڑھیا کو اپنے اوپر جھکے ہوئے پایا، یہ بڑھیا وقت تھی، وقت نے پیٹر سے اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوچھی، پیٹر نے کہا ’’میں چاہتا ہوں، میں جب چاہوں، میں وقت کو آگے پیچھے لے جا سکوں‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’بے وقوف بچے! وقت دریا ہے۔
یہ آگے کی طرف بہتا ہے، یہ پیچھے نہیں جاتا، میں تمہیں صرف وقت میں، صرف آگے بہنے کا طریقہ بتا سکتی ہوں‘‘ پیٹر مان گیا، بڑھیا نے اسے ایک گیند دی، گیند سے ایک دھاگہ باہر لٹک رہا تھا، بڑھیا نے اسے بتایا، یہ دھاگہ تمہاری زندگی جتنا طویل ہے، تم اس دھاگے کو جتنا باہر کھینچ لو گے، تم وقت میں اتنا ہی آگے چلے جاؤ گے، پیٹر خوش ہو گیا، بڑھیا چلی گئی، پیٹر نے تھوڑا سا دھاگہ کھینچا، ٹرررر، ٹرررز کی آواز آئی اور پیٹر دس سال آگے چلا گیا، وہ اب اٹھارہ سال کا خوبصورت جوان تھا۔
وہ جوانی کی ایڑھیوں پر چلتا تھا اور شہر کی حسین خواتین بالکونی میں کھڑی ہو کر اسے دیکھتی تھیں، پیٹر جوانی کو انجوائے کرنے لگا، وہ دن کے وقت گلیوں میں گھوڑے دوڑاتا، شامیں شراب خانوں اور رقص گاہوں میں گزارتا اور راتیں گاؤں کے اشرافیہ کے ہاں۔ پیٹر نے دیکھا، اس کے والدین بوڑھے ہو رہے ہیں، گاؤں کے سمجھ دار اور سیانے لوگ انتقال کر چکے ہیں اور گاؤں کا سائز بڑا ہو چکا ہے، پیٹر چند ماہ اس ٹائم فریم میں رہا، اکتاہٹ ہوئی تو اس نے صندوق سے گیند نکالا اور دھاگہ کھینچ دیا۔
وہ مزید دس سال آگے چلا گیا، وہ اب 28 سال کا جوان تھا، کھلنڈرے پن کی عمر گزر چکی تھی، وہ اب زندگی میں سیٹل ہونا چاہتا تھا، والدین بوڑھے بھی ہو چکے تھے اور بیمار بھی۔ زمینیں بک رہی تھیں، گھوڑے نیلام ہو رہے تھے اور جمع پونجی خرچ ہو رہی تھی، ماں کی کمر کا درد شدید ہوتا جا رہا تھا، وہ اب چلنے پھرنے سے بھی معذور تھی، والد کو دل کے امراض نے گھیر لیا تھا، ملازم ملازمت چھوڑ کر جا رہے تھے۔
پیٹر نے ملازمت کی کوشش کی لیکن وہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ناکام رہا، کاروباری کوشش کی لیکن ناتجربہ کاری، سستی اور لاابالی پن سے مار کھا گیا اور سیاست میں قدم رکھا مگر اس میں بھی فیل ہو گیا، غیر سنجیدہ ماضی کی وجہ سے دوست احباب بھی ساتھ چھوڑ رہے تھے، وہ اب گاؤں میں مارا مارا پھرتا تھا اور اپنی بے مقصد زندگی کو کوستا تھا، پیٹر چند دن میں زندگی کے اس فیز سے بھی اکتا گیا، اس نے گیند نکالی، دھاگہ کھینچا اور 38 سال کا ہو گیا، اس کی زندگی اب سیٹل ہو چکی تھی، سرکے بال کم ہو گئے تھے۔
کنپٹیاں سفید ہو رہی تھیں، گردن کے پچھلے مہروں میں اب ہلکی ہلکی درد رہتی تھی، محلے کی لڑکی ریٹا سے شادی بھی ہو چکی تھی اور اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے، ماں دو برس قبل انتقال کر گئی، باپ معذور ہوچکا تھا اور وہ اب سارا سارا دن وہیل چیئر پر بیٹھا رہتا تھا، بڑی حویلی اور فارم ہاؤس بک چکے تھے، وہ اب چھوٹے گھر میں رہتے تھے، بیوی اچار چٹنیاں بناتی تھی اور وہ بازار میں بیچ دیتا تھا، شام کے وقت گاؤں کے پب میں بیٹھ جاتا تھا اور بس یہ تھی زندگی۔
پیٹر نے گھبرا کر زور سے دھاگہ کھینچ دیا، وہ اس بار بیس سال آگے چلا گیا، وہ اب 58 برس کا تھا، بچے جوان ہو کر شہر جا چکے تھے، گھر مزید چھوٹا ہو گیا تھا، بیوی ریٹا کے گردے فیل ہو چکے تھے، وہ پیٹ پر بیگ لگا کرزندگی گزار رہی تھی، محلے کے تمام پرانے لوگ مر چکے تھے، گاؤں قصبہ بن گیا تھا اور اس میں ہر وقت شور ہوتا رہتا تھا، وہ باتھ روم میں گرنے کی وجہ سے اپنے کولہے کی ہڈی بھی تڑوا چکا تھا، ہڈی جڑ گئی لیکن اس کی چال میں جھول آ گیا۔
وہ اب چلتے ہوئے ایک سائیڈ پر ہلکا سا جھکتا تھا، بڑا بیٹا شہر سے پیسے بھجوا دیتا تو دونوں میاں بیوی تین وقت کھانا کھا لیتے تھے، پیسے نہیں آتے تھے تو وہ آلو ابال کر کھا لیتے تھے، گھر میں سرے شام اندھیرا ہو جاتا تھااور اس کے بعد وہاں دونوں میاں بیوی کی کھانسی کی آوازیں ہوتی تھیں، وہ دونوں کھانس کھانس کر رات گزار دیتے تھے، پیٹر لائف کے اس فیز سے بھی گھبرا گیا، اس نے گیند نکالی اور دھاگہ کھینچ دیا، وہ اب 68 سال کا ہو چکا تھا، بیوی فوت ہو چکی تھی، مکان بک گیا تھا، وہ اولڈ پیپل ہوم میں رہتا تھا، تمام دوست، احباب، رشتے دار مر چکے تھے۔
ریڈیو کی جگہ ٹی وی نے لے لی تھی اور ٹیلی ویژن انٹرنیٹ میں تبدیل ہو رہا تھا، پیٹر کے پھیپھڑوں میں اب پانی بھی بھر جاتا تھا اور حلق میں بلغم بھی آتی تھی، وہ چلنے پھرنے سے بھی تقریباً معذور ہو چکا تھا، وہ چند قدم اٹھاتا تھا اور تھک کر بیٹھ جاتا تھا، بھوک نہیں لگتی تھی اور اگر لگتی تھی تو کھانا نہیں ملتا تھا، کھانا مل جاتا تو دانت نہ ہونے کی وجہ سے وہ کھا نہیں پاتا تھا اور اگر وہ کھانا کھا لیتا تو کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اور اگر کھانا ہضم ہو جاتا تو قبض ہو جاتی تھی اور قبض بھوک سے زیادہ اذیت ناک ہوتی تھی۔
زندگی خوفناک بلکہ عبرتناک صورتحال اختیار کر چکی تھی، پیٹر سارا سارا دن ریلوے اسٹیشن پر بیٹھا رہتا تھا، وہ کتابیں پڑھنا چاہتا تھا لیکن نظر کی کمزوری آڑے آ جاتی تھی، وہ میوزک سننا چاہتا تھا لیکن کان کام نہیں کرتے تھے، وہ ماضی کو یاد کرنا چاہتا تھا لیکن یادداشت اس کا ساتھ نہیں دیتی تھی، باتیں، واقعات اور چیزیں آپس میں گڈ مڈ ہو جاتی تھی، پیٹر نے ایک دن ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے پوچھا ’’ پیٹر! تمہاری زندگی کا شاندار ترین وقت کون سا تھا‘‘ اس کے دماغ میں فوراً آٹھ سال کے پیٹر کی تصویر ابھری، اسے محسوس ہوا۔
اس کی زندگی کا شاندار ترین وقت وہ تھا، جب وہ کھیتوں، جنگلوں اور وادیوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور اندیشوں اور آلام کے سایوں نے ابھی جنم نہیں لیا تھا، پیٹر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اس نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے آخری بار دھاگہ کھینچا، ٹک کی آواز آئی اور دھاگہ ٹوٹ گیا، وہ اب اپنی قبر کے سرہانے کھڑا تھا، قبر پرانی بھی تھی، بوسیدہ بھی اور ویران بھی۔ قبر اپنے حالات کے منہ سے بول رہی تھی، مجھے مدت سے کسی نے نہیں دیکھا، میرے سرہانے کوئی نہیں آیا، کسی نے مجھ پر ایک پھول تک قربان نہیں کیا، پیٹر نے ہچکی لی اور اس کی آنکھ کھل گئی، وہ اسی طرح جنگل میں بیٹھا تھا، ہاتھ میں گیند تھی اور بڑھیا اس کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔
پیٹر نے گیند بڑھیا کو واپس کی اور اس سے پوچھا ’’وقت کیا ہے‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور بولی ’’وقت آج ہے، وقت لمحہ موجود ہے، آج سے پہلے افسوس تھا اور آج کے بعد حسرت ہو گی‘‘ پیٹر نے پوچھا ’’اور زندگی کیا ہے‘‘ بڑھیا نے جواب دیا ’’زندگی آج کو انجوائے کرنے کا نام ہے، آج کا دن، صرف آج کا دن، لمحہ موجود، جو لوگ آج میں بیٹھ کر گزرے کل کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا جو آج میں بیٹھ کر مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں، ان سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہوتا، انسان گزرے کل کو ٹھیک کر سکتا ہے اور نہ ہی آنے والے کل کو، یہ صرف آج کو ٹھیک کر سکتا ہے۔
یہ صرف آج کو درست رکھ سکتا ہے اور یہ صرف آج کو انجوائے کر سکتا ہے، تم آج آٹھ سال کے لڑکے ہو، تم اگلے سال نو سال کے ہو جاؤ گے، تم اس کے بعد کچھ بھی کر لو تم آٹھ سال میں واپس نہیں آ سکو گے چنانچہ اٹھو اور آٹھ سال کو انجوائے کرو، خود کو خوابوں میں ضایع نہ کرو کیونکہ رابن سن کروسو ہو، رابن ہڈ ہو یا پھر کنگ لیئر ہو، ان سب کا اختتام بہرحال ویران قبروں پر ہوتا ہے، دنیا میں ماضی اور مستقبل دونوں مر جاتے ہیں، صرف آج زندہ رہتا ہے چنانچہ زندہ میں زندہ رہو، ہمیشہ زندہ رہو گے‘‘ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور گیند سمیت غائب ہو گئی۔
پیٹر اٹھا اور وادی میں دوڑنے لگا، وہ اب آٹھویں سال کو انجوائے کر رہا تھا۔
بھائی صاحب آنکھیں کھولیں
جاوید چوہدری جمعرات 10 دسمبر 2015
لاہور میں چند ماہ قبل ایک پوش علاقے میں ڈکیتی کی واردات ہوئی، خاتون کا کہنا تھا ’’ ڈاکو دراز قد تھا، وہ چھت کو ٹچ کر رہا تھا‘‘ یہ ٹِپ غیر معمولی تھی، یہ علامت لاہور کے کرمنل ریکارڈ آفس (سی آر او) بھجوا دی گئی، یہ شعبہ لاہور میں 2002ء میں بنا تھا، کروڑوں روپے سے مجرموں کا ریکارڈ رکھنے کے لیے سافٹ ویئر بھی خریدا گیا تھا لیکن یہ شعبہ بھی ملک کے دوسرے شعبوں کی طرح بے جسم اور بے روح رہا، یہ 13 سال تک روح کا انتظار کرتا رہا، اللہ نے کرم کیا اور پنجاب حکومت نے ایس پی عمر ریاض کو اس کھڈے کی لائن میں پھینک دیا، عمر ریاض ایک دیہاتی نوجوان ہے۔
اس نے بھینسوں کا چارہ کاٹتے کاٹتے 2006ء میں سی ایس ایس کیا، پاکستان بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور پولیس سروس جوائن کر لی، یہ نوجوان ملک کے ان چند افسروں میں شامل ہے جنہوں نے تین سو روپے کی پتلون پہن کر سی ایس ایس کیا تھا، یہ پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو میں ٹائی کے بغیر شامل ہوا تھا، انٹرویو کے دوران ٹائی کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کا جواب تھا ’’سر میرے پاس ٹائی تھی ہی نہیں، لگاتا کہاں سے‘‘ میں نے بہت کم لوگوں کو عمر ریاض جتنا کتابوں کا دیوانہ دیکھا، یہ اپنا اضافی وقت لائبریریوں اور بک اسٹالز میں گزارتا ہے، یہ ممکن نہیں کوئی اچھی کتاب آئی ہو اور عمر ریاض نے نہ پڑھی ہو، یہ حقیقتاً کتابی کیڑا ہے، یہ بیوروکریسی کے ان تین لوگوں میں شامل ہے جنھیں میں نے پڑھتے دیکھا، سیرت اصغر وفاقی سیکریٹری ہیں۔
یہ علم کا خزانہ ہیں، میں پچھلے بیس سال سے ان کے ہاتھوں میں کتابیں دیکھ رہا ہوں، میرا دوست عرفان جاوید دوسرا شخص ہے اور عمر ریاض تیسرا۔ یہ تینوں ہمیشہ حیران کر دیتے ہیں، ہماری پوری کابینہ میں صرف خرم دستگیر پڑھتے ہیں، یہ دل، دماغ اور علم تینوں میں وسیع ہیں، کیوں ہیں؟ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی، میں عمر ریاض کی طرف واپس آتا ہوں، عمر ریاض کو اگست 2014ء میں سی آر او میں پھینک دیا گیا، یہ ڈیپارٹمنٹ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کے دفتر کا حصہ ہے، عمر ریاض نے چارج لینے کے بعد مجرموں کا ڈیٹا جمع کرنا شروع کر دیا، ڈیپارٹمنٹ نے ایک سال میں اڑھائی لاکھ مجرموں کا ڈیٹا جمع کر لیا۔
ان میں لاہور کے مجرم بھی شامل ہیں، ڈیپارٹمنٹ کے پاس ان مجرموں کی تصویروں، قد کاٹھ، وزن، تعلیمی قابلیت، تاریخ پیدائش، عادتوں اور فنگر پرنٹس سمیت ضروری معلومات موجود ہیں لہٰذا جب خاتون نے بتایا ’’ڈاکو دراز قد تھا، وہ چھت کو ٹچ کر رہا تھا‘‘ تو یہ ٹِپ سی آر او بھجوا دی گئی، عمر ریاض نے اپنے ڈیٹا بینک میں موجود چھ فٹ سے لمبے ڈاکو تلاش کیے، کل گیارہ ڈاکو نکلے، خاتون کو ان 11 مجرموں کی تصویریں دکھائی گئیں اور خاتون نے دس سیکنڈ میں ڈاکو کو شناخت کر لیا، پولیس نے چھاپہ مارا اور وہ ڈاکو ایک دن میں گرفتار ہو گیا۔
یہ مجرموں تک رسائی کا جدید ترین طریقہ ہے، یہ طریقہ ایف بی آئی کے بانی جے ایڈگر ہوور (J- Edger Hoover) نے وضع کیا تھا، اس نے مجرموں کی تفصیلات جمع کرنا شروع کیں اور کمال کر دیا، امریکا میں جہاں بھی کوئی مجرم پکڑا جاتا تھا، اس کی تفصیلات ایف بی آئی کے ہیڈ کوارٹر واشنگٹن ڈی سی میں پہنچا دی جاتی تھیں، ملک میں جب اس نوعیت کی دوبارہ واردات ہوتی تھی تو ایف بی آئی مجرموں کے ڈیٹا، طریقہ واردات، کرائم سین اور تصویروں کی مدد سے چند گھنٹوں میں مجرم تک پہنچ جاتی تھی، بائیو میٹرک سسٹم، فیس میچنگ مشین، فنگرپرنٹس میچنگ سسٹم اور ڈی این اے نے یہ کام مزید آسان کر دیا، امریکا کے پاس اب دنیا کے ہر اس شخص کا ڈیٹا موجود ہے ۔
جس نے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ بنوایا، جس نے کسی یورپی ملک کے ویزے کی درخواست دی یا جس نے موبائل فون استعمال کیا، ملک کی کسی بڑی لیبارٹری سے خون ٹیسٹ کرایا، ہوائی سفر کیا، میٹرک تک تعلیم حاصل کی یا پھر ای میل اکاؤنٹ، فیس بک پیج یا ٹویٹر اکاؤنٹ بنایا، دنیا کے ان تمام لوگوں کا ڈیٹا ایف بی آئی کے مین سرور میں محفوظ ہے، ایف بی آئی اب جہاں چاہتی ہے، جسے چاہتی ہے اور جب چاہتی ہے چند سیکنڈ میں تلاش کر لیتی ہے جب کہ ہم کراچی جیسے جدید شہروں میں ٹارگٹ کلرز کو بھی تلاش نہیں کر پاتے، کیوں؟ کیونکہ ہم ماڈرن دور کے یہ ماڈرن ہتھیار استعمال نہیں کر رہے، یہ درست ہے، ہماری حکومتوں کے پاس ایف بی آئی جتنے وسائل نہیں ہیں، ہم دنیا بھر کا ڈیٹا جمع نہیں کر سکتے لیکن ہم بِہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کا مقابلہ تو کر سکتے ہیں۔
نتیش کمار جب نومبر 2005ء میں وزیراعلیٰ بنا تو یہ صوبہ ہندوستان میں جرائم میں پہلے نمبر پر تھا، بالی ووڈ بِہار کے مجرموں پر فلمیں بنایا کرتا تھا لیکن پھر نتیش کمار نے بِہار کا امیج بدلنے کا فیصلہ کر لیا، اس نے کرمنلز آئیڈینٹی فکیشن کا جدید نظام لگایا، مجرم پکڑے، سزائیں دلائیں اور آگ میں جلتا ہوا بِہار پرامن ہو گیا، نتیش کمار نے پچھلے سات سالوں میں 75 ہزار مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا، یہ نتیش کمار کا وہ کارنامہ تھا جس کے ذریعے اس نے اکتوبر، نومبر 2015ء کے الیکشن میں بِہار سے بی جے پی کا جنازہ نکال دیا، ہم ایف بی آئی کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن ہم کم از کم نتیش کمار کے ماڈل سے تو فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں 20 کروڑ لوگ ہیں، ہم میں سے دس کروڑ لوگ کبھی نہ کبھی تھانے، کچہری یا اسپتال ضرور جاتے ہیں، کیا حکومت ان کا ڈیٹا جمع نہیں کر سکتی، ہمارے نادرا کے پاس جدید ترین سسٹم ہیں، نادرا ڈی این اے کو بھی شناختی عمل کا حصہ بنا لے، ملک کا جو بھی شہری شناختی کارڈ بنوائے، نادرا کا ملازم تصویر اور فنگر پرنٹ کے ساتھ اس کے جسم کا ایک بال بھی لے لے، بال سے ڈی این اے لیا جائے اور اسے بھی شہری کی شناخت کا حصہ بنا لیا جائے، دنیا کا ماہر ترین مجرم بھی موقع واردات پر کوئی نہ کوئی ایسی نشانی چھوڑ جاتا ہے جس سے ڈی این اے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
آپ خود اندازہ کیجیے، اس ایک فیصلے سے پولیس کی مجرموں تک رسائی کتنی آسان ہو جائے گی، آپ اگر فوری طور پر یہ نہیں کر سکتے تو بھی آپ کم از کم پورے ملک کے مجرموں کا ڈیٹا ضرور جمع کر سکتے ہیں، آپ تھانوں میں آنے اور بلائے جانے والے تمام لوگوں کے کوائف، تصویریں، فنگر پرنٹس اور ڈی این اے لے لیں، آپ جیلوں اور حوالات میں محبوس لوگوں کا ڈیٹا بھی جمع کر لیں، آپ اس ڈیٹا کو نادرا کے مرکزی ڈیٹا اور چاروں صوبوں کے پولیس ڈیٹا سے جوڑ دیں، اس سے پولیس اور ملک دونوں کو کتنا فائدہ ہو گا، آپ اس وقت اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے، دنیا اب پیرس دھماکوں کے چند گھنٹے بعد مجرموں کی اصل شناخت تک پہنچ جاتی ہے۔
یہ کیلیفورنیا میں فائرنگ کے بعد تاشفین ملک اورسید رضوان فاروق کے رشتے داروں تک بھی پہنچ جاتی ہے اور یہ کہروڑ پکا میں تاشفین کے اسکول اور اس کے کلاس فیلوز اور سعودی عرب میں محلے کی اس دکان تک بھی پہنچ جاتی ہے جس سے تاشفین اور اس کا خاندان سودا خریدتا تھا لیکن ہم آج کے اس زمانے میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگا رہے ہیں یا پھر مقناطیس کے دور میں سوئی تلاش کرنے کے لیے بھوسے کے ڈھیر کو آگ دکھا رہے ہیں، ہم دنیا کے قدموں کے ساتھ قدم کیوں نہیں ملاتے، ہم نے کبھی سوچا؟۔
پنجاب میں گورننس کے تمام ایشوز کے باوجود یہ حقیقت ہے، صوبے میں چھوٹے بڑے بے شمار کام ہو رہے ہیں، پاکستان میں اب ایوب خان کے بعد پہلی بار انفراسٹرکچر بچھ رہا ہے، آپ اگر فرق دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ سندھ، بلوچستان اور کے پی کے جائیں اور اس کے بعد پنجاب بالخصوص لاہور اور راولپنڈی آئیں تو آپ کو واقعی فرق محسوس ہو گا، پنجاب کے سرکاری ادارے بھی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ فعال ہیں، حکومتی محکموں میں بھی کچھ نہ کچھ اصلاحات ہو رہی ہیں، مجھے پچھلے دنوں لاہور کے چلڈرن اسپتال جانے کا اتفاق ہوا، اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر مسعود صادق نے بتایا ’’ ہمارے پچاس فیصد مریض بچوں کا تعلق کے پی کے سے ہوتا ہے‘‘ میں نے وجہ پوچھی، انھوں نے بتایا ’’پورے خیبر پختونخوا میں بچوں کا کوئی اسپتال نہیں چنانچہ وہاں دل کے مریض بچوں کے پاس صرف دو آپشن بچتے ہیں۔
یہ فوت ہو جائیں یا لاہور آ جائیں‘‘ ڈاکٹر مسعود صادق نے بتایا ’’ ہم ان بچوں کا مفت علاج کرتے ہیں‘‘ اسی طرح کسی صاحب نے بتایا، فیصل آباد کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں بلوچستان کے سو طالب پڑھ رہے ہیں، حکومت نے نہ صرف ان کے تعلیمی اخراجات معاف کر دیے ہیں بلکہ یہ انھیں میرٹ کے بغیر داخلے بھی دیتی ہے، یونیورسٹی کو ہدایت ہے، بلوچستان کا جو بھی نوجوان اپلائی کرے، اسے فوری طور پر داخلہ دیا جائے لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود ابھی بے شمار کام باقی ہیں، حکومت کو ابھی سی آر او جیسے مزید ادارے بھی بنانا ہیں اور ان کی خدمات کا دائرہ بھی وسیع کرنا ہے، سی آر او کے پاس ابھی صرف اڑھائی لاکھ لوگوں کا ڈیٹا ہے، اس کے پاس سافٹ ویئر بھی پرانے اور چھوٹے ہیں، میاں شہباز شریف کو چاہیے۔
یہ ڈیپارٹمنٹ کا دورہ بھی کریں، اسے ارفع کریم ٹاور جیسی کسی جدید عمارت میں بھی شفٹ کریں، یونیورسٹیوں کے طالب علم ہائیر کر کے پورے پنجاب کے مجرموں کا ڈیٹا بھی جمع کرائیں، پولیس کے تمام تھانوں کو یہ حکم بھی دیا جائے، یہ ایف آئی آر کی کاپی پہلے ’’سی آر او‘‘ میں بھجوائیں، سی آر او معلومات کو سینٹرل کمپیوٹر میں موجود مجرموں کے ڈیٹا کے ساتھ میچ کرے اور باقی کارروائی اس کے بعد کی جائے، حکومت سی آر او کو نادرا جتنی بڑی فنگر پرنٹ میچنگ مشین بھی فراہم کرے تا کہ یہ لوگ چند سیکنڈ میں فنگر پرنٹ میچ کر سکیں اور سی آر او کے پاس فیس میچنگ مشین بھی نہیں، یہ سافٹ وئیر عام مل جاتے ہیں، یہ یورپ کے چھوٹے چھوٹے ائیر پورٹس پر لگے ہیں، آپ اپنے حلیے میں خواہ کتنی ہی تبدیلی کر لیں۔
یہ چند سیکنڈ میں آپ کو آپ کی اصل تصویر کے ساتھ میچ کر دیتے ہیں، دنیا میں ٹیکنالوجی بہت آگے نکل چکی ہے، مجھے پچھلے دنوں کسی خاتون نے خفیہ نمبر سے میسج کیا، اس کا کہنا تھا، اس کا نام نادیہ ثاقب ہے اور وہ اسسٹنٹ کمشنر ہے، میرا بیٹا آئی ٹی کا معمولی سا کام کرتا ہے، اس نے دو منٹ میں بتا دیا، یہ خاتون خاتون نہیں، اس کا نام شاہد کھٹانہ ہے، یہ چیچہ وطنی کا رہنے والا ہے، یہ پاکستان تحریک انصاف کاجعلی کارکن ہے اور یہ نادیہ ثاقب کے نام سے اب تک درجنوں لوگوں کو لوٹ چکا ہے، ہم نے دس منٹ میں اس شخص کا پورا بیک گراؤنڈ، اس کا ایڈریس، اس کی لوکیشن اور اس کے عزیزوں، رشتے داروں اور دوستوں کے نام، پتے اور فون نمبر نکال لیے، ہم اگر انفرادی سطح پر اتنا کر سکتے ہیں تو پھر حکومتیں کیوں نہیں کر سکتیں، شاید حکومتیں کرنا ہی نہیں چاہتیں، یہ 21 ویں صدی میں بھی غلیل سے سانڈ کو مارنا چاہتی ہیں اور مچھلی کو سورج کی روشنی میں تل کر کھانا چاہتی ہیں۔
بھائی صاحب آنکھیں کھولیں، دنیا کو 21 ویں صدی میں داخل ہوئے 15 سال ہو چکے ہیں، ہم 14 ویں صدی کی سوچ کے جوتے پہن کر 21 ویں صدی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے، اٹھ جائیے، اس سے پہلے کہ 22 ویں صدی شروع ہو جائے، وہ صدی جس میں سائنس مجرموں کا ماں کے پیٹ میں ’’این کاؤنٹر‘‘کردے، آپ پلیز اس سے پہلے پہلے اٹھ جائیں۔
لمحہ فکریہ
جاوید چوہدری منگل 8 دسمبر 2015
محمد حنیف عباسی راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے لیے دوبار ایم این اے منتخب ہوئے، راولپنڈی کے این اے 55 اور این اے چھپن 1985ء سے شیخ رشید کے حلقے چلے آ رہے ہیں، یہ ان حلقوں کی ایک ایک گلی، ایک ایک مکان اور ایک ایک مکین سے واقف ہیں اور ان حلقوں کے تمام مکین، تمام مکان اور تمام گلیاں بھی شیخ رشید کی ’’دیکھیں جی ای ای ای‘‘ تک سے آگاہ ہیں لیکن پھر حنیف عباسی آئے اور انھوں نے شیخ رشید سے راولپنڈی چھین لیا۔
یہ درست ہے 2013ء کے عام انتخابات میں شیخ رشید این اے 55 سے جیت گئے اور عمران خان نے این اے 56 میں حنیف عباسی کو شکست دے دی لیکن یہ بھی حقیقت ہے، عوام ہارنے کے باوجود ان دونوں حلقوں کو حنیف عباسی کا حلقہ سمجھتے ہیں، شیخ رشید اور عمران خان دونوں ایم این اے ہونے کے باوجود راولپنڈی میں آزادانہ نہیں گھوم سکتے جب کہ حنیف عباسی ناکام سابق امیدوار ہیں لیکن یہ شہر کی گلیوں میں بھی پھرتے ہیں اور لوگ انھیں سر پر بھی بٹھاتے ہیں۔
راولپنڈی میں پانچ دسمبر کو بلدیاتی الیکشن ہوئے، یہ الیکشن پاکستان مسلم لیگ ن سویپ کر گئی، راولپنڈی کے عوام نے فرزند پاکستان شیخ رشید کو ووٹ دیے اور نہ ہی عمران خان کی تبدیلی کی تائید کی، عمران خان یقینا اس وقت اپنی ناکامی کی وجوہات تلاش کر رہے ہوں گے، میں زیادہ نہیں لیکن کم از کم راولپنڈی کے معاملے میں ان کی ’’رہنمائی‘‘ ضرور کر سکتا ہوں، پاکستان تحریک انصاف کو پورے ملک میں مار پڑی، اس مار کی بے شمار وجوہات ہوں گی لیکن راولپنڈی میں اس کی ایک ہی وجہ تھی اور وہ واحد وجہ تھی حنیف عباسی۔ راولپنڈی کی فتح پاکستان مسلم لیگ ن کی فتح نہیں، یہ دراصل حنیف عباسی کی فتح ہے۔
حنیف عباسی نے 2013ء میں الیکشن ہارنے کے بعد اپنا حلقہ نہیں چھوڑا تھا، یہ راولپنڈی میں مسلسل ترقیاتی کام کراتے رہے، آپ راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی مثال لے لیں، ملک بھر میں ایسا کوئی دوسرا ادارہ نہیں، آپ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی، ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ راولپنڈی، اسپورٹس کمپلیکس، چاندنی چوک فلائی اوور، سکستھ روڈ فلائی اوور اور مسلم ہائی اسکول، جامعہ ہائی اسکول اور وقار النساء کالج کے اسپورٹس گراؤنڈ کی مثالیں لے لیجیے اور آپ میٹرو بس پراجیکٹ کو بھی دیکھ لیجیے، آپ کو ہر منصوبے میں حنیف عباسی نظر آئے گا۔
یہ آپ کو گلیوں اور محلوں میں بھی دکھائی دے گا جب کہ اس کے مقابلے میں عمران خان نے 2013ء کا الیکشن جیتنے کے بعد اپنے حلقے میں قدم نہیں رکھا، یہ اور ان کے معاونین اڑھائی سال عوام کو دکھائی نہیں دیے، راولپنڈی میں پارٹی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، دھڑے ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں چنانچہ عمران خان اپنے ذاتی حلقے سے بری طرح ہار گئے جب کہ حنیف عباسی نے اپنے عوامی رابطوں کی وجہ سے شہر میں کمال کر دیا، میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں یہ الیکشن حنیف عباسی کی ذاتی فتح اور عمران خان کی ذاتی شکست تھا۔
ملک بھر میں بلدیاتی الیکشن ختم ہو چکے ہیں، اب نتائج کو سمجھنے کی باری ہے چنانچہ اب ملک کی تین بڑی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بیٹھ کر ٹھنڈے دماغ سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا تجزیہ کرنا چاہیے، یہ تجزیہ ملک کی بقا کے لیے ضروری ہو گا، پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کو پہل کرنی چاہیے، یہ درست ہے، ن لیگ نے پورا پنجاب اپنی جھولی میں ڈال لیا لیکن یہ کامیابی پارٹی اور ملک دونوں کی ناکامی ہے، پاکستان مسلم لیگ ن کو بلدیات میں پورے ملک کا نمایندہ ہونا چاہیے تھا لیکن ان الیکشنوں نے ثابت کر دیا یہ صرف پنجاب کی پارٹی ہے۔
یہ سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں آٹے کے نمک سے زیادہ نہیں اور یہ ن لیگ جیسی قومی پارٹی کی بے عزتی ہے، وفاقی وزراء کل سے راولپنڈی میں ہار کی بنیاد پر عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں، یہ مطالبہ صرف عمران خان سے کیوں؟ وزیراعظم سے بھی یہ مطالبہ ہونا چاہیے کیونکہ الیکشنوں کے بعد وزیراعظم کی پارٹی بھی چاروں صوبوں کی نمایندہ پارٹی نہیں رہی، یہ بھی اب صرف پنجاب کی پارٹی ہے اور وزیراعظم تین صوبوں میں عوامی نمایندگی کھو چکے ہیں، الیکشنوں کے بعد یہ بھی طے ہو گیا، ملک میں اب کوئی ایسی پارٹی نہیں بچی جس کی جڑیں پورے ملک میں ہوں اور وہ ملک کی مختلف نسلی، لسانی اور ثقافتی اکائیوں کو جوڑ کر رکھ سکے اور یہ حقیقت ملکی بقا کے لیے خطرناک ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی بہت کچھ سوچنا ہوگا، اسے سوچنا ہو گا، اس نے اب بھٹو اور بے نظیر کی پارٹی بن کر رہنا ہے یا پھر آصف علی زرداری کی جماعت۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے تین بڑے ایشوز ہیں، پہلا ایشو کرپشن کی کہانیاں ہیں، پارٹی کو آصف علی زرداری سمیت ان تمام لیڈروں سے جان چھڑانا ہو گی جن پر کرپشن کے الزامات ہیں، پارٹی اگر کسی دن بیٹھ کر ساٹھ سال سے زائد عمر کے تمام انکلوں کو فارغ کر دے تو یہ پارٹی اور ملک دونوں کے لیے بہتر ہو گا، دوسرا ایشو قیادت کا کنفیوژن ہے، پارٹی ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی، اس کے قائد آصف علی زرداری ہیں یا بلاول بھٹو، پارٹی یہ تک فیصلہ نہیں کر سکی بلاول کو زرداری کہنا چاہیے یا بھٹو، یہ کنفیوژن پارٹی کو ڈبوتا چلا جا رہا ہے چنانچہ پارٹی کو فوری طور پر اپنے قائد کا تعین کرنا چاہیے، پارٹی اب قیادت کا مزید کنفیوژن افورڈ نہیں کر سکتی اور تیسرا ایشو فاصلے ہیں۔
پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، یہ صوبہ جس کے ہاتھ میں ہوتا ہے، وہ ملک کا حکمران بنتا ہے، میاں نواز شریف کے پاس پنجاب سے قومی اسمبلی کی جنرل نشستیں131 ہیں جن میں گیارہ نشستیں آزادامیدواروں کی ہیں جو آزاد حیثیت میں جیت کرن لیگ میں شامل ہوئے، یہ ان سیٹوں کی بنیاد پر وزیراعظم ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے لیکن قائدین نے اس کے باوجود پنجاب ن لیگ کے لیے کھلا چھوڑ رکھا ہے، بلاول بھٹو کراچی میں بیٹھ کر پنجاب کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ زرداری صاحب دوبئی سے سندھ حکومت اور پارٹی دونوں کو چلا رہے ہیں چنانچہ پارٹی اور صوبائی حکومت دونوں کا بیڑا غرق ہو گیا۔ قائدین اگر مستقبل میں سیاست کرنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں پنجاب میں بھی بیٹھنا ہو گا اور میاں برادران کی مخالفت بھی برداشت کرنا ہو گی۔
آپ کو بہرحال ’’اِدھر تم اور اُدھر ہم‘‘ اور افہام و تفہیم کی مصنوعی سیاست چھوڑنا ہوگی ورنہ دوسری صورت میں 2018ء کے الیکشنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی سندھ سے بھی فارغ ہو جائے گی، یہ چھوٹی پارٹیوں کے ہاتھوں شکست کھا جائے گی، سندھ کی چھوٹی پارٹیاں مل کر حکومت بنائیں گی اور وہ کمزور حکومت سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کر دے گی لہٰذا پارٹی نے آج ہی فیصلہ کرنا ہے ’’ابھی یا کبھی نہیں‘‘ پاکستان تحریک انصاف کو بھی دو بڑے فیصلے کرنا ہوں گے، پارٹی کی خامیاں ضمنی اور بلدیاتی الیکشنوں نے کھول کر سامنے رکھ دی ہیں، عمران خان جلسوں اور حلقوں کی سیاست کا فرق جان گئے ہیں۔
یہ سمجھ گئے ہیں فیس بک پر 250 پیج بنانے اور اڑھائی کروڑ ’’لائکس‘‘ اکٹھے کرنے سے حکومتیں نہیں بنتیں، حکومتوں کے لیے ووٹ چاہیے ہوتے ہیں اور ووٹوں کے لیے حمزہ شہباز شریف اور ووٹروں سے رابطے ضروری ہوتے ہیں لہٰذا عمران خان کے پاس اب دو آپشن بچے ہیں، یہ حمزہ شہباز شریف کو اپنے ساتھ ملا لیں یا پھر پارٹی کو گراس روٹ لیول تک ’’ری آرگنائز‘‘ کریں، میاں برادران کا کمال افرادی قوت ہے، یہ زیادہ لوگ ہیں، انھوں نے مختلف لوگوں کو مختلف ٹاسک دے رکھے ہیں، میاں نواز شریف پارٹی اور حکومت کے سربراہ ہیں، میاں شہباز شریف پنجاب چلا رہے ہیں۔
حسین نواز، حسن نواز اور سلمان شہباز بزنس دیکھتے ہیں، اسحاق ڈار وزارت خزانہ بھی دیکھ رہے ہیں اور دوسری وزارتوں کے لیے سمریاں بھی لکھ رہے ہیں، حمزہ شہباز حلقوں کی سیاست کے ایکسپرٹ ہیں، یہ ملک کے ایک ایک حلقے کی دائی ہیں اور مریم نواز میڈیا کو دیکھ رہی ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں دوسری طرف عمران خان ہی عمران خان ہیں، خان صاحب بے شک خاندان کو سیاست میں نہ لائیں لیکن یہ اپنے ساتھیوں، اپنے کارکنوں کو اپنا خاندان بنا سکتے ہیں، یہ مختلف کمیٹیاں بنائیں اور ہر کمیٹی کو اسی طرح اختیارات دیں جس طرح میاں برادران نے اپنے خاندان کے لوگوں کو دے رکھے ہیں، یقین کریں، یہ دو سال میں بازی پلٹ دیں گے کیونکہ ان کے پاس تین ایسے ہتھیار ہیں جن سے ن لیگ محروم ہے۔
ان پر کرپشن کا کوئی چارج نہیں، ان کا انٹرنیشنل ایکسپوژر میاں برادران سے سو گنا زیادہ ہے اور تین یہ عوام، میڈیا اور سوشل میڈیا تینوں میں پاپولر ہیں، انھوں نے بس الیکشن جیتنے کی تکنیکس سیکھنی ہیں اور بات ختم۔ عمران خان کا دوسرا فیصلہ خاموشی ہونی چاہیے، عمران خان اگر چھ ماہ خاموشی اختیار کر لیں تو میچ ان کے ہاتھ میں آ جائے گا، فوج اور میاں صاحب کے درمیان شدید اختلافات ہیں، یہ اختلافات فروری مارچ تک مزید کھل کر سامنے آ جائیں گے، عمران خان کے بیانات نے میاں صاحب کو محتاط بنا رکھا ہے، خان صاحب اگر خاموشی اختیار کر لیں تو میاں صاحب پورے اطمینان کے ساتھ وہ کر گزریں گے جو یہ کرنا چاہتے ہیں اور میاں صاحب اگر وہ کر گزرے تو پھر خالی گلیاں ہوں گی اور خان صاحب ہوں گے اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی پالیسی ری وائز کرنا ہوگی۔
ریاست نے الطاف حسین کے بیانات پر پابندی لگائی، رینجرز کے آپریشن کو بھی 27 ماہ ہو چکے ہیں، ہم نے فوج کی نگرانی میں این اے 246 کا الیکشن بھی کرا لیا، ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپے بھی پڑ گئے اور عین بلدیاتی الیکشن کے دن ایم کیو ایم کی قیادت پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی ایف آئی آر بھی درج ہو گئی لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ ایم کیو ایم اس کے باوجود کراچی اور حیدرآباد میں جیت گئی، کیوں؟ آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے، جب وفاقی کابینہ میں ایک بھی مہاجر وزیر نہیں ہو گا، جب کابینہ میں ملک کے سب سے بڑے شہر کا صرف ایک وزیر مملکت ہو گا اور لوگ اس کے نام سے بھی واقف نہیں ہوں گے، جب وفاقی سیکریٹریٹ میں کوئی مہاجر سیکریٹری نہیں ہوگا، جب سندھ ملک کا واحد صوبہ ہو گا ۔
جس میں چالیس سال سے کوٹہ سسٹم چل رہا ہو گا اور جب ریاست ڈاکٹر عاصم حسین کو بکتر بند گاڑی میں نئے کپڑوں، خوشبو اور تازہ شیو کے ساتھ عدالت لائے گی اور ایم کیو ایم کے لیڈروں کو آنکھیں باندھ کر اور ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں گھسیٹا جائے گا تو آپ خود فیصلہ کیجیے، کراچی کے شہری کس کو ووٹ دیں گے؟ کیا مہاجر مہاجر کو ووٹ نہیں دے گا چنانچہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اب اپنی پالیسیوں کا جائزہ لینا ہو گا۔
یہ بلدیاتی الیکشن محض بلدیاتی الیکشن نہیں ہیں، یہ لمحہ فکریہ ہیں، ایک ایسا لمحہ فکریہ جو ہجوموں کو معاشرے اور معاشروں کو ہجوم بناتے ہیں، ہمیں اس لمحہ فکریہ کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہو گا، ہم نے مستقبل میں معاشرہ بننا ہے یا پھر ہجوم۔ فیصلہ بہرحال آپ نے کرنا ہے، تین سیاسی جماعتوں اور ایک اسٹیبلشمنٹ نے۔
وہ بارہ روپے
جاوید چوہدری اتوار 6 دسمبر 2015
ہم وہاں تین لوگ تھے، ہم میں سے ایک سینئر بیورو کریٹ تھا، وہ اکیسویں گریڈ کا ایڈیشنل سیکریٹری تھا، دوسرا پروفیسر ڈاکٹر تھا، وہ دل کے امراض کا علاج کرتا تھا اور تیسرا میں تھا، وقت ضایع کرنے والی خبطی صحافی۔ ہم تینوں مذہبی طبقے بالخصوص تبلیغی جماعت کے خلاف تھے، ہمارا خیال تھا’’ یہ لوگ توانائی اور وقت دونوں ضایع کرتے ہیں، معاشرے کو اس وقت بل گیٹس، وارن بفٹ اور مارک زکر برگ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے، ہمیں وال ماریٹ جیسی کمپنیاں اور سیم والٹن جیسے لوگ چاہئیں۔
اس سیم والٹن جیسے لوگ جس نے 1950ء میں آرکنساس کے چھوٹے سے ٹاؤن میں چھوٹا سا اسٹور کھولا، دن رات محنت کی، یہ اسٹور 17 برسوں میں ایک سے 24 ہوگیا، یہ اسٹور 1970ء کی دہائی میں آرکنساس کی اسٹیٹ سے باہر نکلا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے امریکا میں پھیل گیا، دنیا کے 15 ملکوں میں اس وقت وال مارٹ کے ساڑھے آٹھ ہزار اسٹورز ہیں، یہ اسٹورز کی دنیا کی سب سے بڑی چین اور دنیا کی دوسری بڑی پبلک کارپوریشن ہے۔
ملازمین کی تعداد بائیس لاکھ ہے اور یہ کمپنی سالانہ 252 ارب ڈالر کماتی ہے، یہ دنیا میں سب سے زیادہ مصنوعات بیچنے والی کارپوریشن بھی ہے اور یہ لوگ دنیا میں سب سے سستی مصنوعات بھی فروخت کرتے ہیں، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ساڑھے آٹھ ہزار اسٹورز ایک دفتر سے چلائے جاتے ہیں، اسٹورز کے ریکس میں مصنوعات کم ہوتی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ ہی چین کی مختلف کمپنیوں اور فیکٹریوں میں آرڈرز پہنچتے جاتے ہیں، ایک خود کار نظام کے تحت یہ مصنوعات چین سے نکلتی ہیں، بحری جہازوں کے ذریعے دنیا کی مختلف بندرگاہوں پر اترتی ہیں، ٹرینوں، کنٹینروں اور ٹرکوں کے ذریعے اسٹورز تک آتی ہیں اور ریک خالی ہونے سے پہلے شیلف میں پہنچ جاتی ہیں، پے منٹس کا سسٹم بھی خود کار ہے۔
اسٹورز کی آمدنی روزانہ بینکوں میں جاتی ہے، یہ بینک یہ رقم سینٹرل اکاؤنٹ میں پھینکتے ہیں اور سینٹرل اکاؤنٹ سے یہ رقم آٹومیٹک کمپنیوں کو منتقل ہو جاتی ہے، گویا مصنوعات کی ڈیلیوری، سیل، پے منٹ اور ٹیکس سے لے کر منافع تک سارا نظام خود کار ہے، یہ سارے فیصلے کمپیوٹر کرتا ہے، مالکان، ڈائریکٹرز اور شیئر ہولڈرز صرف کامیابی کو انجوائے کرتے ہیں‘‘ عالم اسلام کو ایسے لوگ چاہئیں جو معاشرے میں تحریک بھی پیدا کریں اور معاشرے کو سکون، اطمینان اور کامیابی کے ٹریک پر بھی لائیں جب کہ ہمارے علماء کرام تھوڑے بہت پڑھے لکھے لوگوں اور معمولی درجے کا کام کرنے والے ورکروں کو بھی بے عملی اور سستی کے غار میں دھکیل رہے ہیں، ہم طب، انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنسز اور سماجیات میں پہلے ہی دنیا سے بہت پیچھے ہیں اور جو لولے لنگڑے لوگ بچ گئے ہیں۔
ہم انھیں بھی کام سے اٹھا کر چِلوں پر لگا رہے ہیں، ہم انھیں بھی دفتروں، لیبارٹریوں اور ورکشاپوں سے نکال کر حجروں میں دھکیل رہے ہیں، یہ کہاں کی عقل مندی، یہ کہاں کی دانش وری ہے‘‘ ان دونوں نے میری بات سے اتفاق کیا، میں نے ان سے عرض کیا ’’تعمیرات اس وقت دنیا کی سب سے بڑی انجینئرنگ ہے، چین اس میدان میں کمال کر رہا ہے، چین نے پچھلے مہینے 18 دنوں میں 57 منزلہ ٹاور بنا کر دنیا کو حیران کر دیا، اس سے پچھلے مہینے 15 دنوں میں 30 منزلہ ہوٹل اور تین دن میں دو منزلہ گھر بنایا اور یہ عمارتیں قابل رہائش بھی تھیں، چین اب سات ماہ میں 220 منزلہ ٹاور بنانے کا تجربہ کر رہا ہے جب کہ ہم چالیس چالیس دن کے چِلے کاٹ رہے ہیں، ہم چالیس روزہ لگا رہے ہیں، کیا اس کی کوئی جسٹی فی کیشن، اس کا کوئی جواز ہے؟‘‘ وہ دونوں ہنسے اور میری تائید کی، میں نے ان سے عرض کیا ’’ہم فرد کو بدلنے، اس کو متحرک کرنے کی بجائے اسے مزید سست بنا رہے ہیں۔
یہ دنیا عمل کی دنیا ہے، یہ دنیا ماں کے پیٹ میں پلتے بچے کے دل کا آپریشن کر رہی ہے، یہ ہمارے خون میں چھپے ڈی این اے سے ہمارے آباؤ اجداد کا اندازہ لگا رہی ہے، یہ ہمیں بتا رہی ہے، ہم سب لوگ زیمبیا کے بش مین قبیلے کی نسل سے ہیں، یہ قبیلہ انسان کا جد امجد تھا، ہم سب لوگ اس قبیلے کے خون میں سفر کرتے ہوئے دنیا کے مختلف خطوں میں پہنچتے ہیں، انسان زیمبیا سے نکل کر سب سے پہلے برصغیر پہنچا تھا، قازقستان کی نیازوف فیملی پورے روس، پورے یورپ اور پورے امریکا کی جد امجد ہے، یہ لوگ برف کے زمانے میں ریڈ انڈینز کا پیچھا کرتے کرتے روس اور وہاں سے یورپ اور پھر الاسکا پہنچے، برف پگھلی تو یورپ کے لوگ یورپ، امریکا کے امریکا اور روس کے روس میں محدود ہو کر رہ گئے، ہمارے خون کا ڈی این اے ہمیں بتاتا ہے۔
آسٹریلیا کے قدیم باشندے ابروجینل اور نیوزی لینڈ کے موری تامل ناڈو کے گاؤں جوتھی ماڑی کم میں رہنے والے ویروماندی کے کزن ہیں، یہ لوگ بھی ہزاروں سال پہلے برف پر سفر کرتے ہوئے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پہنچے تھے، برف پگھل گئی اور یوں ان کا تامل ناڈو سے رابطہ کٹ گیا، اکیسویں صدی میں جب ڈی این اے کا انقلاب آیا اور سائنس نے انسان کے ٹریک کو ٹریک کرنا شروع کیا تو اسے پتہ چلا ہم کون ہیں، ہم کہاں سے چلے اور کب اور کہاں پہنچے لیکن ہمارے لوگ رائے ونڈ ہی سے باہر نہیں نکل رہے‘‘۔
میری گفتگو جاری تھی، اچانک ایڈیشنل سیکریٹری بولے ’’میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں، میں بھی یہ سمجھتا ہوں، ہماری عبادات صرف فرائض تک محدود ہونی چاہئیں اور ہمیں اپنے وقت کا زیادہ حصہ دنیا کی فلاح پر خرچ کرنا چاہیے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے، تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے اور ہمیں اس رخ پر بھی توجہ دینی چاہیے،، میں نے پوچھا ’’دوسرا رخ کیا ہے‘‘ وہ بولے ’’ میں ایک دن دفتر میں بیٹھا تھا، میرے ایک بیچ میٹ کا فون آیا، وہ باریش بھی ہے اور تبلیغی جماعت سے بھی تعلق رکھتا ہے، ان کا کہنا تھا، ان کے چند دوست مجھ سے ملنا چاہتے ہیں، میں عموماً مولویوں سے پرہیز کرتا ہوں، یہ میری پرانی عادت ہے، میں مولویوں کی دکان سے سودا تک نہیں خریدتا، اس کی وجہ مذہب سے نفرت نہیں ہے بلکہ میں سوچتا ہوں۔
دکاندار کی غلط بیانی، منافع خوری یا خریدی ہوئی چیز کے نقص مجھے کہیں مذہب اور مولویوں سے مزید بدگمان نہ کر دیں چنانچہ میں کسی ایسے شخص سے ملتا ہوں اور نہ ہی معاملہ کرتا ہوں جس سے ملاقات میری بدگمانی میں اضافہ کر دے لیکن میں اس دن بحث کے موڈ میں تھا، میں اس دن کسی ایسے شخص کا منتظر تھا میں جس کے ساتھ سینگ پھنسا سکوں اور میرے کولیگ نے مجھے یہ موقع فراہم کر دیا، میں نے ان لوگوں کو لنچ کے وقت بلا لیا، وہ چھ لوگ تھے، وہ سب صحت مند مولوی تھے، وہ آئے اور میرے سامنے بیٹھ گئے، میں نے ان کے سامنے یہی آرگومنٹ رکھا جو آپ اس وقت ہمارے سامنے کھول کر بیٹھے ہیں، میں نے ان سے پوچھا، آپ نے آج تک معاشرے اور فرد کے لیے کیا کیا؟ آپ نے دنیا کو کیا دیا؟‘‘ وہ تمام لوگ خاموشی سے میری بات سنتے رہے، ان میں موجود ایک شخص نے میرا نام دہرایا اور اس کے بعد پوچھا’’ مجھے آپ کا نام جانا پہچانا لگ رہا ہے۔
آپ کہیں فلاں سال سندھ کے فلاں ضلع میں ڈپٹی کمشنر تو نہیں تھے؟ میں نے ہاں میں سر ہلایا اور عرض کیا، جی ہاں میں اس سال سندھ میں تھا اور اس ضلع کا ڈی سی تھا، اس نے اس کے بعد کہا، جناب آپ کو یاد ہو گا، آپ ایک رات ہائی وے سے گزر رہے تھے اور آپ کی گاڑی ڈاکوؤں نے روک لی تھی، میں نے دماغ پر تھوڑا سا زور دے کر جواب دیا ہاں! آپ کی یہ بات بھی درست ہے، میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا لیکن میں نے یہ اپنے ڈیپارٹمنٹ اور پریس دونوں سے خفیہ رکھا، اس نے اس کے بعد کہا، آپ کو یاد ہو گا، آپ کو ایک نوجوان ڈاکو نے تھپڑ مارے تھے، آپ جب بھی یہ کہتے تھے۔
میں ڈی سی ہوں تو وہ ڈاکو آپ کو تھپڑ مارتا تھا، میں نے کہا ،ہاں! یہ بھی حقیقت ہے لیکن یہ واقعہ رپورٹ نہیں ہوا تھا، یہ آپ تک کیسے پہنچا؟ وہ صاحب مسکرائے اور مسکرا کر جواب دیا، وہ تھپڑ مارنے والا ڈاکو میں تھا، آپ مجھے دیکھیں اور اس وقت کے ڈاکو کو ذہن میں لائیں جس نے علاقے کے ڈپٹی کمشنر کو تھپڑ مارے تھے اور آپ اس کے بعد اپنا سوال دہرائیں، مولویوں کی کسی تنظیم نے آج تک کسی کا مقدر نہیں بدلا، آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا، میں اس کے جواب سے واقعی لاجواب ہو گیا، اس نے بعد ازاں بتایا، وہ سب سے پہلے خود تبدیل ہوا اور پھر اس کو دیکھ کر اس کا سارا قبیلہ، اس کے سارے ساتھی جرائم اور گناہوں سے توبہ تائب ہو گئے، میں یہ سن کر اپنی جگہ سے اٹھا، اس کا ہاتھ چوما اور اس سے اپنی مغفرت کی دعا کی درخواست کی‘‘ ایڈیشنل سیکریٹری خاموش ہو گئے، ہم دونوں بھی خاموش تھے۔
یہ خاموشی چند لمحے جاری رہی پھر پروفیسر صاحب نے سر اٹھایا اور بولے ’’میرے پاس بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے، میرے کلینک میں ایک بزرگ آدمی داخل تھا، اس کے پاس ہر وقت لوگوں کا میلا لگا رہتا تھا، لوگ ساری ساری رات اس کے کمرے کے سامنے کھڑے رہتے تھے، ہم جب لوگوں کو منع کرتے تھے تو وہ رونا شروع کر دیتے تھے، ہمیں لوگوں کی اس عقیدت نے پریشان کر دیا، میں جس شخص سے پوچھتا تھا، آپ کو اس بوڑھے سے کیا ملتا ہے تو وہ جواب دیتا تھا، سکون، ہم جوں ہی انھیں دیکھتے ہیں، ہمارے سینے میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے، میں نے ایک دن باباجی سے پوچھ لیا، آپ کون ہیں اور آپ کو یہ رتبہ کیسے ملا، باباجی نے مسکرا کر جواب دیا، میں لاہور کا ایک جیب کترا تھا، میں جیب تراشی کرتا تھا۔
میں نے ایک دن لاری اڈے پر ایک مسافر کی جیب کاٹی، جیب سے 38 روپے اور ایک خط نکلا، یہ بیٹے کا اپنی ماں کے نام خط تھا، بیٹے نے لکھا تھا، ماں میں محنت مزدوری کر کے صرف 38 روپے جمع کر سکا ہوں، آپ ڈاکٹر کو یہ پیسے دے کر علاج شروع کرا لو، میں باقی 12 روپے بھی آپ کو جلد بھجوا دوں گا، میں یہ خط پڑھ کر لرز گیا، میں اسی وقت راج مزدوروں کے ساتھ بیٹھ گیا، میں نے بارہ دن مزدوری کر کے بارہ روپے جمع کیے، حلال روزی کے یہ بارہ روپے ان 38 روپوں میں ملائے اور یہ رقم خط پر لکھے پتے پر منی آرڈر کر دی، بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد میرا کوئی قدم برائی کے راستے پر نہیں پڑنے دیا، میں نے باباجی کا ہاتھ چوماا اور باہر آ گیا، وہ باباجی بھی تبلیغ کا کام کرتے تھے،، پروفیسر صاحب بھی خاموش ہو گئے، وہاں اب خاموشی کا راج تھا، ہم تینوں خاموش بیٹھے تھے، تصویر کے دوسرے رخ نے ہم تینوں کو لاجواب کر دیا تھا۔
کوئی ایک
جاوید چوہدری جمعـء 4 دسمبر 2015
میکس کی عمر اس وقت چاردن ہے‘ یہ بچی پچھلے ہفتے امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں پیدا ہوئی‘ دنیا کے تمام والدین اپنے بچوں کی پیدائش پر صدقہ کرتے ہیں‘ ہم مسلمان قربانی کرتے ہیں‘ قرآن خوانی کراتے ہیں اور کھانا پکا کر محتاجوں اور مسکینوں کو کھلاتے ہیں‘ ہندو مٹھائی تقسیم کرتے ہیں جب کہ عیسائی ضرورت مندوں میں نقد رقم بانٹتے ہیں‘ دنیا کی ہر ماں‘ ہر باپ اپنی استطاعت کے مطابق نئے آنے والے بچے یا بچی کی خوشی مناتا ہے لیکن میکس ایک مختلف بچی ہے۔
یہ دنیا کی پہلی بچی ہے جس کی پیدائش پر اس کے والد نے 45 ارب ڈالر صدقہ کر دیے‘ یہ کسی بچی کی پیدائش پر انسانی تاریخ کا سب سے بڑا عطیہ‘ سب سے بڑا صدقہ ہے‘ یہ بچی کون ہے؟ اس کے والدین کون ہیں اور 45 ارب ڈالر کا یہ عطیہ کیوں کیا گیا؟ یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے‘یہ داستان 2004ء میں شروع ہوئی۔
2004ء میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک کمرے میں تین نوجوان رہتے تھے‘ مارک ان تینوں میں نالائق‘ سست اور شرمیلا تھا‘ یہ اس وقت بمشکل 19 برس کا تھا‘ یہ 1984ء میں نیویارک کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا‘ والد دندان ساز تھا‘ یہ خاندان کا چوتھا بچہ تھا‘ تین بہنیں اس کے علاوہ تھیں‘ اسکول میں نالائق اور غبی تھا‘ یہ 2002ء میں ہارورڈ یونیورسٹی پہنچ گیا‘ کمپیوٹر پروگرامنگ اس کا جنون تھا‘ مارک نے 2004ء کے شروع میں اپنے گندے کمرے میں بیٹھ کر ویب سائیٹ کی ڈومین خریدی‘ سوشل نیٹ ورک کی ویب سائیٹ ڈیزائن کی اور چار فروری 2004ء کو فیس بک ڈاٹ کام کے نام سے یہ ویب سائیٹ لانچ کر دی۔
اس ویب سائیٹ کا مقصد ہارورڈ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کے درمیان آن لائین رابطے پیدا کرنا تھا‘ مارک نے ویب سائیٹ کے لیے تمام ڈیٹا‘ اسٹوڈنٹس کے پروفائل‘ ان کی تصویریں اور پتے یونیورسٹی کے ڈیٹا بینک سے لیے تھے‘ یہ ویب سائیٹ جوں ہی انتظامیہ کے نوٹس میں آئی‘ انتظامیہ نے ہیکنگ کا الزام لگا کر مارک کو نوٹس جاری کر دیا لیکن مارک پیچھے نہ ہٹا‘ اس کے پاس اس وقت صرف ہزار ڈالر تھے‘ اس نے اتنی ہی رقم اپنے ایک کلاس فیلو سیورن سے لی اور ویب سائیٹ کو مزید بہتر بنانا شروع کر دیا‘ فیس بک یونیورسٹی طالب علموں کے لیے دلچسپ تجربہ ثابت ہوئی‘ چار دن میں 650 طالب علموں نے فیس بک جوائن کر لی۔
یہ تعداد تین ہفتوں میں 6 ہزار تک پہنچ گئی‘ 25 فروری کو کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم بھی فیس بک جوائن کرنے لگے‘ اگلے دن یعنی 26 فروری کو سٹین فورڈ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس بھی فیس بک پر آ گئے اور 28 فروری کو ییل یونیورسٹی بھی مارک کی اس عجیب و غریب ایجاد پر نظر آنے لگی‘ مارچ میں طالب علموں کی تعداد 30 ہزار تک پہنچ گئی‘ مارک کو اب ویب سائیٹ ہینڈل کرنے کے لیے اسٹاف کی ضرورت تھی‘ جیبیں خالی تھیں اور کاروبار مشکل چنانچہ مارک نے مجبوراً اپنے رومیٹ ڈسٹن موسکووٹز کو پانچ فیصد شیئر دے کر ساتھ ملا لیا۔
موسکووٹز اس وقت یہ نہیں جانتا تھا‘ وہ ہاں جو اس نے ہنستے ہنستے کر دی تھی‘ وہ اسے مستقبل میں کروڑ پتی بھی بنا دے گی اور وہ پوری دنیا میں مشہور بھی ہو جائے گا‘ مارک نے مارچ کے مہینے میں فیس بک پر اشتہارات کا سلسلہ بھی شروع کر دیا‘ پہلے مہینے کی کمائی ساڑھے چار سو ڈالر تھی‘ کمپنی میں اپریل میں دس ہزار ڈالر کی مزید سرمایہ کاری ہوئی‘ اس سرمایہ کاری نے فیس بک کو چھ ماہ میں امریکا کی 34 یونیورسٹیوں کے ایک لاکھ طالب علموں تک پہنچا دیا اور یہ وہ کامیابی تھی جس نے مارک پر ہارورڈ یونیورسٹی کے دروازے بند کر دیے‘ وہ ہارورڈ سے نکلا اور سیدھا سلیکان ویلی پہنچ گیا اور مارک سے مارک زکر برگ ہو گیا۔
مارک زکر برگ نے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ فیس بک کی مالیت صرف چار ماہ میں دس ملین ڈالر ہو چکی تھی لیکن مارک نے کمپنی بیچنے سے انکار کر دیا‘ 2005ء کی گرمیوں میں جب فیس بک کے یوزرز کی تعداد دو لاکھ ہوئی تو پے پال کمپنی کے شریک بانی پیٹر تھیل نے فیس بک میں پانچ لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کر دی‘ یہ سرمایہ کاری یوزرز کی تعداد کو پانچ لاکھ تک لے گئی اور پھر اس کے بعد مارک نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ فیس بک اس وقت دنیا کی مقبول ترین سوشل میڈیا ویب سائیٹ ہے‘ اس کے یوزرز کی کل تعداد ایک ارب 55 کروڑ ہے‘ دنیا کے 145 ممالک کے لوگ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔
دنیا کے تمام سربراہان‘ لیڈرز‘ اداکار‘ گلوکار‘ کھلاڑی‘ رائٹرز‘ صحافی‘ بزنس مین اور دنیا کی تمام چھوٹی بڑی آرگنائزیشنز فیس بک پر موجود ہیں‘ دنیا کا کوئی شخص زمین پر ہو یا نہ ہو لیکن وہ فیس بک پر ضرور ہوتا ہے‘ دنیا فیس بک سے قبل سات براعظموں ‘ 145 ملکوں‘ مختلف قومیتوں اورہزاروںزبانوں میں تقسیم تھی لیکن یہ فیس بک کے بعد سمٹ کر ایک وال پر آگئی‘ آج امریکا ہو‘ روس ہو یا افغانستان ہو‘ صدر اوباما ہوں‘ پیوٹن ہوں یا پھر اشرف غنی ہوں‘ یہ تمام لوگ‘ یہ تمام ملک فیس بک کے بغیر ادھورے ہیں‘ لوگ اب یہ تک کہتے ہیں‘ ڈھونڈنے والوں کو فیس بک پر خدا بھی مل جاتا ہے۔
فیس بک نے مارک زکربرگ کو 23 سال کی عمر میں ارب پتی بنا دیا‘ یہ دنیا کا پہلا نوجوان تھا جو 23 سال کی عمر میں ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہوا‘ یہ امریکا کا ساتواں امیر ترین شخص بھی ہے اور یہ دنیا کی ان 100 بااثر ترین شخصیات میں بھی شمار ہوتا ہے جن میں صدر اوباما‘ ڈیوڈ کیمرون‘ نریندر مودی اورپیوٹن جیسے لوگ شامل ہیں‘ فیس بک میں اس وقت 10 ہزار ملازمین ہیں‘ یہ سالانہ ساڑھے بارہ ارب ڈالر کماتی ہے‘ اس کی روزانہ آمدنی تین کروڑ 34 لاکھ ڈالر اور ایک سیکنڈ میں 387 ڈالر ہے‘ دنیا کی 56 کمپنیوں کا براہ راست روزگار بھی فیس بک سے وابستہ ہے ۔
مارک زکر برگ کے پاس کمپنی کے 28.2 فیصد شیئرز ہیں‘ ان شیئرز کی مالیت 45 ارب ڈالر ہے‘ گویا اکیلا مارک زکر برگ پاکستان کے اسی فیصد قرضے ادا کر سکتا ہے‘ یہ فیس بک کا چیئرمین ہے لیکن یہ اپنی خدمات کا صرف ایک ڈالر معاوضہ لیتا ہے‘ یہ اس کی کل تنخواہ ہے‘ اس نے مئی 2012ء میں پریسیلا چین کے ساتھ شادی کی‘ بیگم عام سی ڈاکٹر ہے‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں پچھلے ہفتے بیٹی کی نعمت سے نوازا‘ میکس ان کی پہلی اولاد ہے‘ مارک زکر برگ نے بیٹی کی پیدائش پر اپنی 99 فیصد دولت خیرات کر دی‘ یہ 45 ارب ڈالر بنتے ہیں‘ یہ رقم اس کے قائم کردہ فنڈ میں شفٹ ہو جائے گی‘ یہ اس رقم سے دنیا بھر کے مسکینوں‘ بیماروں‘ لاچاروں اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی مدد کرے گا‘ یہ مہلک امراض کا علاج تلاش کرائے گا‘ غریب ملکوں میں اسکول اور اسپتال بنوائے گا‘ معذوروں کو مصنوعی اعضاء فراہم کرے گا اور غربت کے نچلے درجے میں زندگی گزارنے والوں کی مالی مدد کرے گا‘ مارک زکر برگ نے اپنی 99 فیصد دولت عطیہ کرتے وقت اپنی بیٹی میکس کو ایک خط بھی لکھا‘ یہ خط بھی شاہکار ہے‘ مارک نے خط میں لکھا ’’آپ کی والدہ اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعے ہم آپ کو یہ بتا سکیں‘ آپ کے آنے سے ہمیں مستقبل کی کتنی امیدیں ملی ہیں‘ آپ نے دنیا میں آ کر ہمیں اس دنیا کی طرف متوجہ کر دیا جس میں آپ نے زندگی گزارنی ہے‘‘ مارک کا کہنا ہے‘ میں اس دنیا کو اپنی بیٹی کے رہنے کے لیے بہتر جگہ بنانا چاہتا ہوں‘ مارک نے دنیا کو بہتر جگہ بنانے کے لیے اپنی 99 فیصد دولت خیرات کر دی‘ یہ اب فیس بک کے صرف ایک فیصد شیئرز کا مالک ہے۔
آپ فیس بک کے اس ایک فیصد شیئر ہولڈر کو دیکھئے اور اس کے بعد اسلامی دنیا کے ان تمام شہزادوں کو دیکھئے جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ آپ ان کے بعد پاکستان کے ان ارب پتیوں کو بھی دیکھئے جنھیں اللہ تعالیٰ نے رزق اور دولت سے نوازا اور آپ اس کے بعد ملک کے ان حکمرانوں کو بھی دیکھئے جنھیں اللہ نے دولت بھی دی‘ شہرت بھی دی اور اقتدار بھی عنایت کیا اور آپ اس کے بعد سوچئے‘ یہ کیسے لوگ ہیں جن کے سامنے خلقت بھوک سے ایڑھیاںرگڑتی ہے‘ جن کے سامنے اہل ایمان پسماندگی‘ جہالت اور بیماری کی پست ترین سطح پر سسک رہے ہیں اور جن کے سامنے مسلمان جوہڑ کے پانی سے وضو بھی کرتے ہیں اور یہ پانی اپنے بچوں کو بھی پلاتے ہیں لیکن انھیں ایک لمحے کے لیے بھی خدا کا خوف نہیں آتا‘ آپ تیل کی دولت سے مالا مال عرب ملکوں اور یورپ کے عوام کا موازنہ بھی کر لیجیے‘آپ کو یورپ کی مڈل کلاس عرب ممالک کے خوش حال ترین لوگوں سے بہتر زندگی گزارتی نظر آئے گی‘ آپ پاکستان کے حکمرانوں‘ اشرافیہ اور بزنس مین کلاس کو بھی دیکھ لیجیے۔
یہ لوگ دہائیوں سے اپنے بچوں کو اس دنیا میں چھوڑ کر جا رہے ہیں جس میں بیماری‘ افلاس‘ جہالت اور جرائم کے انبار لگے ہیں‘ بھٹو کا خاندان 45 برسوں میں لاڑکانہ کو پینے کا صاف پانی‘ اچھی تعلیم‘ معیاری اسپتال اور کرائم فری ماحول نہیں دے سکا‘ باچا خان کے خاندان نے آج تک چارسدہ کی حالت نہیں بدلی‘ مولانا فضل الرحمن آج تک ڈی آئی خان کو نہیں بدل سکے اور شریف فیملی آج تک لاہور کو اتنا صاف ستھرا اور محفوظ نہیں بنا سکی کہ ان کے پوتے اور پوتیاں سیکیورٹی کے بغیر باہر نکل سکیں‘ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکیں‘ گورنمنٹ کے اسپتال میں علاج کرا سکیں اور ٹونٹی کا پانی پی سکیں‘ ہم کیسے لوگ ہیں؟ ہم خود کو اللہ تعالیٰ کی مقدس قوم بھی کہتے ہیں‘ ہم خود کو نبی اکرمؐ کی شفاعت کا حق دار بھی سمجھتے ہیں۔
ہم کلمہ بھی پڑھتے ہیں‘ قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے ہیں اور باقاعدگی سے نماز بھی ادا کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو بدترین ماحول بھی دے رہے ہیں! ہم کیسے مسلمان ہیں‘ ہم کیسے پاکستانی ہیں اور ہم کیسے انسان ہیں‘ ہم ایمان کے دعوے دار ہیں لیکن 31 سال کا ایک نوجوان صدقے اور خیرات میں ہم سے لاکھوں کوس آگے نکل گیا‘ ہم ایمان کے ڈھول پیٹتے رہ گئے اور بے ایمان ملک کا ایک بے ایمان نوجوان ایمان کی پوری دکان لوٹ کرلے گیا۔
کیا ہم مسلمانوں کے پاس مارک زکر برگ کا کوئی ایک متبادل ہے‘ کوئی ایک ایسا متبادل جو اپنی 99 فیصد دولت انسانیت کے لیے وقف کر دے‘ جو اپنے بچوں کو بہتر دنیا دینے کے لیے اپنی ساری دولت لٹا دے؟ میں مسلمانوں کو اس دن مسلمان سمجھوں گا جس دن یہ مارک زکر برگ جیسا ایک انسان پیدا کر لیں گے‘ ایسا مارک زکر برگ جو اپنی ساری دولت اپنی بیٹی کے نام پر صدقہ کر دے اور جو عین جوانی میں اللہ کا دیا ہوا مال اللہ کے نام وقف کر دے! کوئی ہے‘ کوئی ایک‘ 68 اسلامی ملکوں میں کوئی ایک!
کوبرا ایفیکٹ
جاوید چوہدری جمعرات 3 دسمبر 2015
امیر تیمور 1398ء میں مارتا دھاڑتا ہوا ہندوستان پہنچا، دہلی اس کا ٹارگٹ تھا، وہ دہلی پہنچا تو ہندوستان نے اسے حیران کر دیا، دہلی کے مضافات میں دو دفاعی قلعے تھے، لونی اور جومبہ، یہ دونوں دہلی کے تخت کے محافظ تھے، یہ قلعے اب موجودہ دہلی میں شامل ہو چکے ہیں، جومبہ سنسکرت زبان میں سانپ کو کہتے ہیں، امیر تیمور جومبہ پہنچا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا، قلعے میں خواتین کے سوا کوئی نہیں تھا، یہ خواتین قلعے کی فصیل پر نہتی کھڑی تھیں، تیمور کا لشکر بھی انھیں دیکھ کر پریشان ہو گیا، یہ پریشانی شام تک جاری رہی، تیمور کو شام کے وقت معلوم ہوا، جومبہ کے قلعے کی دو دیواریں ہیں، دیواروں کے درمیان خندق ہے اور اس خندق میں لاکھوں کوبرا سانپ ہیں۔
یہ سانپ جومبہ اور دہلی کے اصل محافظ تھے، یہ کوبرا سانپ قلعے کی فصیل پر کھڑی خواتین نے پالے تھے، یہ سپیرنیاں تھیں اور سانپ ان کے غلام تھے، تیمور کا کوئی سپاہی جب بھی خندق میں پاؤں رکھتا تھا تو فصیل پر کھڑی عورتیں منہ سے ایک عجیب سی آواز نکالتی تھیں اور سیکڑوں سانپ اس سپاہی سے لپٹ جاتے تھے اور وہ شخص چند منٹوں میں زمین پر ڈھیر ہو جاتا تھا، تیمور کو رات کے وقت ایک اور خوفناک تجربہ بھی ہوا، دہلی کے ہزاروں سانپ اس کی چھاؤنی میں داخل ہو گئے اور اس کے گھوڑوں اور سپاہیوں کی جان لے لی، تیمور نے ان کا مقابلہ کیسے کیا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے اور یہ کہانی ہمارا موضوع نہیں، ہمارا موضوع دہلی کے سانپ ہیں۔
دہلی کے دو بڑے دفاع تھے، سانپ اور ساون۔ دہلی میں ساون کا مہینہ بہت سخت ہوتا تھا، مون سون شروع ہوتے ہی آسمان دریا بن جاتا تھا، یہ بارش دہلی کے مضافات کو دلدل بنا دیتی تھی اور یوں فوجی گاڑیاں اور گھوڑے مفلوج ہو کر رہ جاتے تھے، بارش کے بعد حبس اور ہیضہ دونوں حملہ آور فوج پر حملہ کر دیتے تھے، سپاہی وردی اتارنے پر مجبور ہو جاتے تھے لیکن آفت کم نہیں ہوتی تھی، اسہال اور قے اس کے بعد اگلی مصیبتیں ہوتی تھیں، یہ مصیبتیں ابھی جاری ہوتی تھیں کہ پردیسیوں پر مچھر بھی یلغار کر دیتے تھے اور یوں لشکر ملیریا میں بھی مبتلا ہو جاتا تھا، حملہ آور فوج کے جو سپاہی ملیریا سے بچ جاتے تھے وہ کوبرا سانپوں کا نشانہ بن جاتے تھے، دہلی کے مضافات میں لاکھوں کروڑوں کوبرا سانپ تھے، ہندو سانپ کو دیوتا مانتے ہیں۔
یہ سانپ کو مارتے نہیں تھے چنانچہ دہلی کے مضافات سانپ گھر بن چکے تھے، یہ سانپ بھی ملیریا کی طرح تخت کے محافظ تھے، یہ حملہ آوروں کی باقی ماندہ فوج کو ڈس لیتے تھے، یہ سانپ تیمور کے لیے بھی مسئلہ بنے اور جب 1857ء کی جنگ کے بعد انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کیا تو یہ ان کے لیے بھی چیلنج بن گئے، انگریز سپاہی روز دہلی میں کسی نہ کسی کوبرے کا نشانہ بن جاتے تھے، آپ کو آج بھی دہلی کے گورا قبرستان میں ایسے سیکڑوں انگریزوں کی قبریں ملیں گی جن کی موت سانپ کے ڈسنے سے ہوئی تھی، انگریز دہلی کے سانپوں سے عاجز آ گئے لہٰذا انھوں نے ان سے نبٹنے کے لیے ایک دلچسپ اسکیم بنائی۔
انھوں نے دہلی کے مضافات میں ’’سانپ ماریں اور انعام پائیں‘‘ کا اعلان کر دیا، انگریز اسسٹنٹ کمشنر سانپ مارنے والوں کو نقد انعام دیتے تھے،یہ انعام چند دنوں میں تجارت بن گیا، دہلی کے لوگ کوبرا مارتے، اس کی لاش ڈنڈے پر لٹکاتے اور اے سی کے دفتر کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور اے سی کا اردلی سانپ گن کر انھیں انعام کی رقم دے دیتا، یہ سلسلہ چل پڑا، سیکڑوں لوگ اس کاروبار سے وابستہ ہو گئے، دہلی میں سانپ کم ہونے لگے یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آ گیا جب سانپ کے شکاری سارا دن مارے مارے پھرتے لیکن کوئی سانپ ان کے ہتھے نہیں چڑھتا تھا، اس صورتحال نے ان لوگوں کو پریشان کر دیا، کیوں؟ کیونکہ سانپ کشی ان کا روزگار بن چکا تھا، ان لوگوں کو سانپ پکڑنے کے سوا کچھ نہیں آتا تھا اور دہلی میں سانپ ختم ہوتے جا رہے تھے، ان لوگوں نے اس کا ایک دلچسپ حل نکالا، سپیروں نے گھروں میں سانپ پالنے شروع کر دیے۔
یہ گھروں میں سانپ پالتے، یہ سانپ جب ’’سرکاری سائز‘‘ کے برابر ہو جاتے تو یہ روز ایک سانپ مارتے، اس کی لاش لے کر اے سی کے دفتر پہنچتے اور انعام لے کر گھر واپس آ جاتے، سپیروں کا روزگار ایک بار پھر چل پڑا مگر یہ راز زیادہ دنوں تک راز نہ رہ سکا، انگریزوں کو اس کاروبار کی اطلاع مل گئی، وائسرائے نے میٹنگ بلائی اور اس میٹنگ میں سپیروں کو انعام دینے کی اسکیم ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا، انگریز سرکار نے ہرکاروں کے ذریعے دہلی کے مضافات میں منادی کرا دی ’’کل سے سانپ مارنے والے کسی شخص کو انعام نہیں ملے گا‘‘ یہ اعلان سانپ پکڑنے اور مارنے والوں کے سر پر چٹان بن کر گرا اور وہ لوگ مایوس ہو گئے، اس وقت ان لوگوں کے قبضے میں لاکھوں سانپ تھے۔
ان لوگوں نے وہ تمام سانپ مایوسی کے عالم میں کھلے چھوڑ دیے، وہ سانپ دہلی اور اس کے مضافات میں پھیل گئے، یہ سانپوں کی نسل کشی کے دن تھے، سانپوں نے انڈے بچے دیے اور یوں دہلی میں انسان کم اور سانپ زیادہ ہو گئے، انگریزوں نے تحقیق کی، پتہ چلا یہ سانپ انعامی اسکیم سے پہلے کے سانپوں سے دس گنا زیادہ ہیں، اس صورتحال سے ایک اصطلاح نے جنم لیا، وہ اصطلاح تھی ’’کوبرا ایفیکٹ‘‘ آج بھی جب کسی برائی کو مارنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش کے نتیجے میں وہ برائی دوگنی ہو جاتی ہے تو اسے ’’کوبرا ایفیکٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔
ہم اگر عالم اسلام کی 35برس کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم خود کو بری طرح عالمی طاقتوں کے کوبرا ایفیکٹ کا شکار پائیں گے، سوویت یونین 1979ء میں افغانستان میں داخل ہوا، یہ وہ کوبرا تھا جس سے مقابلے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اسلامی ممالک کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، امریکا کا حکم تھا چنانچہ عراق، سعودی عرب، مصر، سوڈان، یمن، دارالسلام، مراکش، اردن اور پاکستان میں مدارس کا جال بچھ گیا، اسلام اور جہاد کے نام پر دھڑا دھڑ نوجوان بھرتی ہوئے، ان نوجوانوں کو فوجی ٹریننگ دی گئی اور پھر انھیں افغانستان کے تنور میں جھونک دیا گیا۔
یہ سلسلہ 1991ء تک جاری رہا، پھر روس ٹوٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی امریکا نے انعامی رقم کی آفر بھی واپس لے لی جس کے بعد لوکل سپانسر بھی غائب ہو گئے، اس حماقت کا یہ نتیجہ نکلا، دنیا میں 1980ء تک روس امریکا کا اکیلا دشمن تھا لیکن 1990ء میں پورے عالم اسلام میں امریکا کے دشمن پیدا ہو گئے، امریکا کے پالے ہوئے مجاہدین اپنے اپنے ملکوں میں گئے اور وہاں تباہی مچا دی، امریکا کا شروع میں خیال تھا، یہ تباہی صرف مسلمان ملکوں تک محدود رہے گی لیکن پھر نائن الیون ہو گیا، امریکا کو اس وقت حماقت کا احساس ہوا اور یہ بپھرے سانڈ کی طرح افغانستان، ایران، عراق اور لیبیا کی طرف دوڑ پڑا، عراق پر حملہ ہوا، صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی، افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، ایران کے گرد دائرہ لگا دیا گیا اور لیبیا کے کرنل قذافی کو عبرت کا نشان بنا کر دنیا سے رخصت کر دیا گیا لیکن اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ عراق میں بارہ نئے صدام حسین پیدا ہو گئے۔
افغانستان کے طالبان پاکستان اور چین تک پھیل گئے، ایران نے اپنا میزائل اور ایٹمی پروگرام تیز کر دیا اور لیبیا میں خانہ جنگی شروع ہوگئی، اسلامی دنیا کی اس افراتفری سے داعش نے جنم لیا، امریکا اور اس کے اتحادیوں نے شروع میں گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا لیکن جب داعش نے یورپ کے مسلمان اتحادیوں پر حملے شروع کر دیے اور یہ یورپ تک پہنچ گئی تو امریکا اور اس کے اتحادی ایک بار پھر گھبرا گئے، یہ اب گھبراہٹ میں نئی انعامی اسکیمیں متعارف کرا رہے ہیں، ان کی کوشش ہے، یہ پاکستانی اور ترک فوج کو داعش سے نبٹنے کا کام سونپ دے، اب سوال یہ ہے، کیا پاکستان ایک بار پھر اس جھانسے میں آ جائے گا؟ اگر پاکستان آ گیا تو یہ ہمارے لیے آخری جھانسہ ہو گا کیونکہ امریکا کی خواہش ہو گی، داعش سے نبٹنے کے لیے پاکستان میں ایک بار پھر فوج حکومت میں آ جائے، ملک میں جنرل پرویز مشرف جیسا کوئی جنرل ایک بار پھر سامنے آئے، اقتدار پر قابض ہو اور داعش سے نبٹنے کا کام شروع کر دے۔
آپ پاکستان میں پیش آنے والے تازہ ترین واقعات کا تجزیہ کر لیجیے، کیا پاکستان میں پچھلے چھ ماہ سے داعش کا لفظ بار بار سامنے نہیں آ رہا؟ فوج پر حملہ آوروں کو سپورٹ کہاں سے مل رہی ہے؟ صفورا جیسے سانحے داعش کے کھاتے میں کیوں چلے جاتے ہیں؟ دیواروں پر داعش کی چاکنگ کون کر جاتا ہے،داعش کے پمفلٹ کون بانٹ رہا ہے اور کیوں بانٹے جا رہے ہیں، فوجیوں پر حملے کیوں ہو رہے ہیں اور بین الاقوامی میڈیا پاکستان کو داعش کا اگلا ٹارگٹ کیوں قرار دے رہا ہے؟ آپ بھی اگر ان تمام خبروں کا جائزہ لیں گے تو آپ کے اندر بھی خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں گی، آپ کو بھی یہ شک ہو جائے گا۔
امریکا کی کوشش ہے یہ پاکستان سے داعش کے خلاف وہی کام لے جو اس نے 2001ء میں طالبان کے خلاف جنرل پرویز مشرف سے لیا تھا اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر آپ خود اندازہ کیجیے، 2016ء کے اس کوبرا ایفیکٹ کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ وہ پاکستان جو آج تک 1980ء اور 2001ء کے کوبرا ایفیکٹس سے باہر نہیں نکل سکا وہ 2016ء کے ایفیکٹس سے کیسے باہر آئے گا چنانچہ ہوشیار ہو جائیں، پاکستان میں کسی بھی وقت داعش کی موجودگی کے خوفناک انکشافات سامنے آ سکتے ہیں، داعش پاکستان کی حساس ترین تنصیبات پر حملہ بھی کر سکتی ہے اور امریکا کی طرف سے داعش کے پاکستانی رابطوں سے جنگ کا حکم بھی آ سکتا ہے، اس حکم، اس حملے اور ان انکشافات کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہو گا، پرانے کوبرا ایفیکٹس سے نکلنے کے لیے ایک نئے کوبرا ایفیکٹ کی ایجاد، دس سال طویل ایک نئے دور کا آغاز۔
جب تک
جاوید چوہدری منگل 1 دسمبر 2015
کُری اسلام آباد کے مضافات میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، یہ گاؤں تاریخ میں شہر ہوتا تھا، یہ باقاعدہ کُری شہر کہلاتا تھا، ماضی میں یہاں تجارتی قافلے آتے تھے، یہ شہر علاقے کی سب سے بڑی اناج منڈی بھی تھا، مری اور کشمیر جانے والے لوگ بھی یہاں قیام کرتے تھے، سید پور اور کُری دونوں اس علاقے کے بڑے شہر تھے لیکن وقت کیونکہ کسی کا رشتے دار نہیں ہوتا چنانچہ یہ دونوں شہر زمانے کی دست برد کا شکار ہو گئے، یہ اب وفاقی دارالحکومت کے مضافات کہلاتے ہیں لیکن آپ آج بھی اگر کُری اور سید پور میں چند گھنٹے گزاریں تو آپ کو ان کی شکستہ دیواروں میں تاریخ کی بو باس ملے گی۔
آپ کو اس بوباس میں ان شہروں کے درخشاں ماضی کی روشنی بھی نظر آئے گی،کُری شہر کا گردوپیش اسلام آباد کا خوبصورت ترین علاقہ ہے، راول ڈیم اس سے آدھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، اس کے دائیں جانب مارگلہ کی پہاڑیاں اور پشت پر مری کے پہاڑ ہیں کُری شہر کے گرد دو نئے رہائشی سیکٹر ڈویلپ ہو رہے ہیں، پارک انکلیو اور بحریہ انکلیو۔ پارک انکلیو سی ڈی اے نے جولائی 2011ء میں شروع کیا تھا جب کہ بحریہ انکلیو بحریہ ٹاؤن کا منصوبہ ہے اور یہ بھی جولائی 2011ء میں اسٹارٹ ہوا، مجھے اتوار کے دن اپنے دوست ڈاکٹر اسلم کے ساتھ بحریہ انکلیو جانے کا اتفاق ہوا، ہم دونوں اس کی ڈویلپمنٹ دیکھ کر حیران رہ گئے، سڑکیں اور فٹ پاتھ بن چکے ہیں، عمارتیں، پلازے، شاپنگ مالز، فلیٹس کے کمپلیکس اور سینما گھر بن رہے ہیں۔
چڑیا گھر آباد ہے، لوگ سارا دن یہاں آتے رہتے ہیں، ریستوران اور کیفے بھی ہیں اور ڈیڑھ دو سو خاندان بھی یہاں آباد ہو چکے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں پارک انکلیو بے آباد اور بے آب و گیا ہے، یہاں صرف ایک سڑک بنی ہے اور یہ سڑک بھی سی ڈی اے کے موجودہ چیئرمین معروف افضل اورسینئر ممبر عامر احمد علی نے بنوائی، یہ لوگ بھی اگر ذاتی دلچسپی نہ لیتے تو پارک انکلیو ساڑھے چار برس گزرنے کے باوجود آج تک سڑک سے محروم ہوتا۔
میں اور ڈاکٹر اسلم دو گھنٹے وہاں پھرتے رہے، ہم نے وہاں تین باتیں نوٹ کیں، حکومتی سیکٹر پارک انکلیو کی لوکیشن پرائیویٹ ہاؤسنگ اسکیم بحریہ انکلیو سے سو درجے بہتر ہے لیکن دونوں کی ڈویلپمنٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے، ایک طرف حکومت ساڑھے چاربرسوں میں سڑک کے سوا کچھ نہیں بنا سکی جب کہ دوسری طرف اتنے ہی عرصے میں پاکستان کا سب سے بڑا مال، تھیم پارک اور دارالحکومت کا وسیع ترین کمرشل ایریا بن رہا ہے، ایک طرف پلاٹس کی قیمتیں منفی میں جا رہی ہیں اور دوسری طرف لوگ دوگنی قیمتوں میں پلاٹس خرید رہے ہیں، ایک طرف کوئی گھر نہیں بنا اور دوسری طرف لوگ باقاعدہ رہائش پذیر ہیں اور ایک طرف ابھی کمرشل ایریا ڈیزائن نہیں ہوا اور دوسری طرف پانچ مرلے کے کمرشل پلاٹس پانچ پانچ کروڑ روپے میں بک رہے ہیں، کیوں؟ یہ فرق کیوں ہے؟ یہ حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کا فرق ہے، ہمیں ماننا ہو گا۔
ہمارے ریاستی ادارے اہلیت، مہارت اور ٹیکنالوجی میں مار کھا رہے ہیں، یہ اب کوئی نئی چیز ڈویلپ کر سکتے ہیں اور نہ ہی چلا سکتے ہیں چنانچہ حکومت کو اب نئے منصوبے بنانے اور چلانے کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر پر فوکس کرنا ہو گا، حکومت پرائیویٹ اداروں کو کام کرنے دے، یہ سخت قوانین بنائے، تمام منصوبوں کی تکمیل کی ڈیڈ لائین طے کرے، اس ڈیڈ لائین پر نظر رکھے، ٹیکس جمع کرے اور صارفین کے حقوق کے لیے عدالتیں بنائے، یہ پالیسی ملک کو چند برسوں میں تبدیل کر دے گی، دوسری بات، ہمیں پارک روڈ سے بحریہ انکلیو تک سڑک کے دونوں طرف ہزاروں ایکڑ زمین نظر آئی، یہ سرکاری زمینیں ہیں، ان پر قبضے ہو چکے ہیں یا پھر ہو رہے ہیں، یہ سات آٹھ کلو میٹر کی پٹی ہے، حکومت اس پٹی کو نیلام کر کے کھربوں روپے کما سکتی ہے، بحریہ انکلیو اس پٹی کے آخر میں ہے، وہاں پانچ مرلے کا کمرشل پلاٹ پانچ کروڑ اور آٹھ مرلے کا آٹھ کروڑ میں بک رہا ہے، یہ پٹی اس علاقے سے سات آٹھ کلو میٹر پہلے آتی ہے، حکومت اگر سڑک کے دائیں بائیں موجود پلاٹوں کو کمرشل بنا کر فروخت کر دے اور پیچھے موجود زمین کے رہائشی بلاکس بنا کر نیلام کر دے تو یہ کھربوں روپے جمع کر لے گی۔
حکومت ملک کی مختلف تعمیراتی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر بھی کر سکتی ہے، یہ اشتہار دے، کمپنیوں کو دعوت دے، حکومت زمین فراہم کرے، یہ کمپنیاں ہاؤسنگ اسکیمیں بنائیں، پلاٹس بیچیں، ترقیاتی کام کریں اور منافع حکومت کے ساتھ شیئر کر لیں، عام لوگوں کو بھی فائدہ ہو گا، سرمایہ کاری بھی بڑھے گی، جابز بھی تخلیق ہوں گی اور سرکاری خزانے میں رقم بھی آئے گی، مجھے ایک بار یوسف رضا گیلانی کے دور میں وزیراعظم کے ساتھ تربیلا جانے کا اتفاق ہوا، وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر مارگلہ کی پہاڑیوں کے اوپر سے ہوتا ہوا تربیلا پہنچا، آپ یقین کیجیے، ہری پور سے لے کر تربیلا تک کا علاقہ ملک کے خوبصورت ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے، یہ قیمتی اور خوبصورت علاقہ تین تین، چار چار مرلے کی بے ہنگم آبادیوں میں تبدیل ہو رہا ہے، پہاڑ کے ایک طرف اسلام آباد کا ای سیون سیکٹر ہے جس میں ایک کنال کا رہائشی پلاٹ آٹھ سے دس کروڑ روپے میں ملتا ہے جب کہ پہاڑ کی دوسری جانب اس سے ہزار درجے بہتر زمین قبضہ گروپوں کے قبضے میں ہے۔
حکومت اگر تھوڑی سی توجہ دے تو یہ مارگلہ کی پہاڑیوں کی دوسری طرف تین نئے اسلام آباد بنا سکتی ہے، یہ نئے شہر اسلام آباد پر آنے والا دباؤ بھی کم کریں گے،لوگوں کو رہائشی سہولت بھی ملے گی اور ملک میں نوکریوں اور سرمایہ کاری کے نئے سلسلے بھی شروع ہوں گے، ہم ہر سال صرف ڈیڑھ ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کی دہلیز چومتے ہیں اور یہ ہمیں ترسا ترسا کر اپنی شرائط پر رقم دیتے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں بے شمار ایسے مقامات اور جگہیں موجود ہیں جنھیں ہم بیچ کر ہر مہینے آئی ایم ایف کی قسط سے زیادہ رقم حاصل کر سکتے ہیں، ہمیں بہرحال جلد یا بدیر اپنے اثاثوں سے استفادہ کرنا ہو گا۔
ہمارے حکمران کسی دن بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے یہ بھی سوچیں، وہ کیا جذبہ، وہ کیا چیز ہے کہ حکومت اشتہارات دے کر تھک جاتی ہے مگر اسے سونے کا گاہک نہیں ملتا جب کہ ملک ریاض کاغذ کا ایک ٹکڑا اربوں روپے میں بیچ دیتا ہے، یہ ہزاروں میل دور کوئی پراجیکٹ لانچ کرتا ہے، وہاں ابھی جھاڑیوں اور ریت کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور لوگ اسے کھربوں روپے دے جاتے ہیں، کیوں؟ لوگوں کو حکومت پر اعتماد کیوں نہیں اور ملک ریاض کے نام کے ساتھ پرنٹر سے نکلنے والا ایک کاغذ کروڑوں اربوں روپے کا کیوں ہو جاتا ہے؟ حکمرانوں کو اس کی وجہ ضرور تلاش کرنی چاہیے اور ہم عوام کو بھی یہ بات کبھی نہ کبھی ٹھنڈے دل سے سوچنا ہو گی، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں، تمام ریاستی ادارے مل کر بھی ملک ریاض کی کریڈیبلٹی کو نقصان نہیں پہنچا سکے! لوگ ریاستی مخالفت کے باوجود آج بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں اور لوگ ریاست کو دس روپے نہیں دیتے لیکن ٹھیکیدار ملک ریاض کو کھربوں روپے دے دیتے ہیں، کیوں؟ آخر کیوں؟ اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی اور ہم عوام کو بھی بالآخر یہ وجہ تلاش کرنا ہوگی اور تیسری اور آخری بات۔
کُری روڈ سے واپس آتے ہوئے ڈاکٹر اسلم نے افسوس سے کہا ’’ملک ریاض جیسے میٹرک پاس شخص نے ملک میں ہاؤسنگ کا سارا تصور بدل دیا، یہ اس کے بیسیوں منصوبوں میں سے ایک چھوٹا سا منصوبہ ہے، یہ منصوبہ بھی دیکھنے والوں کو حیران کر دیتا ہے، یہ ملک کا سب سے بڑا ایمپلائر بھی ہے، چالیس ہزار لوگ اس کی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں، یہ بینکوں سے سود نہیں لیتا، اس نے کبھی کسی بینک سے قرضہ نہیں لیا، یہ ملک میں بے شمار خیراتی ادارے بھی چلا رہا ہے اور یہ عاجز بھی ہے، میں نے ہمیشہ اس کو اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے قبل کانوں کو ہاتھ لگاتے دیکھا لیکن اس کے باوجود ہمارا پورا سسٹم اس کے خلاف ہے، لوگ اس کو گالیاں دیتے ہیں، کیوں؟ مجھے آج تک وجہ سمجھ نہیں آئی‘‘ میں نے مسکرا کر جواب دیا ’’یہ ہمارا قومی المیہ ہے۔
ہم تھینک لیس قوم ہیں، ہم نے آج تک اسلام کو پوری طرح قبول نہیں کیا، ہم نے آج تک قائداعظم اور علامہ اقبال کو نہیں مانا، ہم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے قائداعظم کی بہن اور علامہ اقبال کے بیٹے کو ووٹ نہیں دیے تھے اور ہم تو وہ ہیں جنہوں نے آج تک جمہوریت کو نہیں مانا لہٰذا ہم ملک ریاض کے کنٹری بیوشن کو کیسے مانیں گے؟ دوسرا، ہم ایک ایسے خطے میں رہ رہے ہیں جس میں لوگ مخالفت، بدتمیزی اور غیبت کو باقاعدہ کام سمجھتے ہیں، آپ کسی دن اپنے تمام ملنے والوں کی گفتگو ریکارڈ کر لیں، آپ کو ان کی گفتگو میں یہ تینوں عنصر ملیں گے، یہ اپنی گفتگو میں کسی نہ کسی کی مخالفت کریں گے، یہ آپ کو اپنی بدتمیزی کا کوئی نہ کوئی واقعہ سنائیں گے اور یہ کسی نہ کسی شریف انسان کی غیبت بھی کریں گے، ہماری گفتگو کے ان تین لازم عناصر نے ملک سے دلیل، ثبوت اور تہذیب تینوں کا جنازہ نکال دیا، ہم من حیث القوم سب کے خلاف ہیں، آپ پبلک میں کسی معتبر شخص کا نام لے لیں۔
لوگ اس کے کپڑے اتار دیں گے اور اگر نہ اتار سکیں تو ’’لیکن‘‘ کا لفظ لگا کر آپ کے ذہن میں اس کے بارے میں شکوک وشبہات ضرور پیدا کر دیں گے اور تیسری اور آخری وجہ ہمارے ملک میں زیادہ تر نکمے لوگ مبصر بن جاتے ہیں، یہ لوگ پوری زندگی اپنے لیے اچھا ڈرائیور، اچھا چوکیدار اور اچھا خانساماں تلاش نہیں کر پاتے، انھیں عمر بھر اچھا دوست نہیں ملتا اور یہ ایک دکان، ایک دفتر اور ایک گھر نہیں چلا پاتے لیکن یہ لوگوں کے ایمان اور ایمانداری کا فیصلہ چٹکیوں میں کر دیتے ہیں، یہ لوگ ہر اس شخص کے خلاف ہیں جو کام کر رہا ہے یا کام کرنا چاہتا ہے اور ہر اس شخص کے حامی ہیں جو زندگی میں تنکا دوہرا نہیں کرتا اور ہم تو ایسے لوگ ہیں جو پیر بھی اس کو مانتے ہیں جو کپڑے بدلنے، کنگھی کرنے اور منہ دھونے کا تردد نہ کرے، ایسے معاشروں میں کام کرنے والے لوگ مجرم ہوتے ہیں اور ملک ریاض اس ملک کا سب سے بڑا مجرم ہے کیونکہ اس نے 25 سال میں وہ کر دکھایا جو ریاست 250 سال میں نہیں کر سکتی چنانچہ اس ملک کا ہر شخص پتھر لے کر اس کے سامنے کھڑا ہے اور یہ پتھر بردار لوگ اس وقت تک کھڑے رہیں گے جب تک یہ کام بند نہیں کرتا، جب تک یہ ملک نہیں چھوڑتا‘‘۔
ڈیتھ بیڈ
جاوید چوہدری اتوار 29 نومبر 2015
ٹام کی زندگی شاندار تھی،اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان میں تاثیر رکھی تھی،وہ جس سے بات کرتا تھا،وہ اپنااکاؤنٹ اس کی کمپنی کے حوالے کر دیتا تھا،ٹام روز کمپنی کے سرمائے میں ایک دو ملین ڈالر کا اضافہ کر تا تھا،کمپنی اس سے خوش تھی اور وہ کمپنی سے بہت خوش تھا،ٹام کا لنچ فائیو اسٹار فرنچ،اٹالین اور مراکو ریستورانوں میں ہوتا تھا،لنچ کا بل کمپنی ادا کرتی تھی،کمپنی نے اس کے دوسرے اخراجات بھی اٹھا رکھے تھے۔
گاڑی کمپنی نے دی،مین ہیٹن میں تین بیڈ روم کا فلیٹ بھی کمپنی نے دیا تھا،وہ کمپنی کا جیٹ اور ہیلی کاپٹر بھی استعمال کرتا تھا،کمپنی فرسٹ کلاس فضائی ٹکٹ بھی دیتی تھی،تنخواہ بھی چھ ہندسوں میں تھی اور ٹام کے پورے خاندان کی میڈیکل انشورنس بھی کمپنی کے ذمے تھی،شام چھ بجے اس کی ذاتی مصروفیات شروع ہو جاتی تھیں،وہ کلب جاتا تھا،وہاں نئے دوست بناتا تھا،یہ نئے دوست آنے والے دنوں میں اس کے کلائنٹ بنتے تھے،وہ ڈنر بھی فائیو اسٹار ہوٹل میں کسی فائیو اسٹار بزنس مین کے ساتھ کرتا تھا۔
دس بجے کے بعد وہ کسی اعلیٰ درجے کے پب یا رقص گاہ میں چلا جاتا تھا،وہ دو گھنٹے وہاں رہتا تھا،بارہ بجے واپس آتا تھا تو اس کی بیگم اور تینوں بچے سو چکے ہوتے تھے،وہ بھی آڑھا ترچھا ہو کر لیٹ جاتا تھا،اگلی صبح آٹھ بجے پھر کام شروع ہو جاتا تھا،یہ سلسلہ جمعہ تک چلتا تھا،وہ جمعہ کی شام کمپنی کا جیٹ جہاز لے کر نیویارک سے باہر چلا جاتا تھا،کبھی شکاگو،کبھی آرلینڈو،کبھی میامی،کبھی سان فرانسسکو اور کبھی ہونولولو۔
وہ مہینے میں ایک بار یورپ،مڈل ایسٹ یا مشرق بعید کا چکر بھی لگا تا تھا،مارتھا اس کی بیوی یورپ اور فارایسٹ کی وزٹس میں اس کے ساتھ ہوتی تھی،یہ اس کے معمولات تھے،اللہ نے جوانی ہی میں اسے نعمتوں سے نواز دیا تھا،پیسہ تھا،دوست تھے،توانائی تھی،فیملی تھی اور نصف درجن کریڈٹ کارڈ ۔ ٹام کی زندگی شاندار تھی لیکن پھر اس کو نظر لگ گئی۔
ٹام ایک صبح اٹھا تو اس کا سر بھاری تھا،اس نے اس بھاری پن کو رات کی شراب نوشی کے کھاتے میں ڈال دیا،اس نے ’’ہینگ اوور‘‘سمجھ کر اپنا سر جھٹک دیا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھاری پن درد بن گیا،وہ ڈاکٹر کے پاس گیا،ڈاکٹر نے اسے درد کش گولیاں دیں اور گھر بھجوا دیا لیکن درد میں افاقہ نہ ہوا،وہ رات بے چینی اور بے آرامی میں گزری،وہ اگلی صبح دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گیا،ڈاکٹر نے خون چیک کرانے کا مشورہ دیا،وہ لیبارٹری چلا گیا،بلڈ رپورٹس آئیں توڈاکٹر نے خون کے مزید دو نمونے لیے اور یہ دو مختلف لیبارٹریوں میں بھجوا دیے‘۔
ہفتے بعد رپورٹس آ گئیں،تینوں لیبارٹریوں کی رپورٹ ایک جیسی تھیں،ڈاکٹر نے اس سے مزید دو دن مانگے اور اس کی رپورٹس ملک کے تین بڑے اسپیشلسٹس کو بھجوادیں،تینوں کا ایک ہی جواب تھا،معجزے کے علاوہ مریض کا کوئی علاج نہیں‘پھر ڈاکٹر نے اسے بلایا،کرسی پر بٹھایا،پانی کا گلاس اس کے ہاتھ میں دیا اور سرجھکا کر بولا ’’ٹام تمہارے پاس صرف تین ماہ ہیں‘‘ٹام کے طوطے اڑ گئے،اس نے گھبرا کر پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ڈاکٹر نے بتایا ’’تم بلڈ کینسر کی آخری اسٹیج پر ہو،اس اسٹیج کا معجزے کے سوا کوئی علاج نہیں ہوتا،تمہارے پاس اب دو آپشن ہیں۔
تم یہ تین مہینے مختلف ڈاکٹروں اور مختلف اسپتالوں کا چکر لگا کر گزار دو یا پھر ان تین ماہ کو اپنی زندگی کے بہترین دن رات بنا لو،چوائس از یورز‘‘یہ لفظ بم تھے اور ان بموں نے ٹام کی بنیادیں ہلا دیں،وہ اٹھا اور چپ چاپ باہر نکل گیا،وہ دماغی طور پر غائب ہو چکا تھا،وہ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا لیکن اسے نظر کچھ نہیں آ رہا تھا،وہ کانوں سے سن رہا تھا لیکن اسے سنائی کچھ نہیں دے رہا تھا اور وہ چل رہا تھا لیکن اس کے قدم نہیں اٹھ رہے تھے۔
وہ دس منٹ میں کامیاب لوگوں کی فہرست سے ناکام ترین لوگوں میں شامل ہو چکا تھا،وہ چلتا رہا،صبح تک پیدل چلتا رہا،اگلے دن کے سورج نے آنکھ کھولی تو ٹام کی آنکھ بھی کھل گئی،وہ بے خودی میں چلتے چلتے نیویارک سے باہر آ گیا تھا،وہ نیویارک کے مضافات کا چھوٹا سا گاؤں تھا اور وہ گاؤں کی مصنوعی جھیل کے کنارے کھڑا تھا،اس نے جھرجھری لی،ایک لمبا سانس لیا،اپنی ٹائی کھولی،اوورکوٹ کی جیب سے میڈیکل رپورٹس نکالیں،پھاڑیں،ڈسٹ بین میں پھینکیں اور ڈیتھ بیڈ کے تین ماہ کو آئیڈیل بنانے کا فیصلہ کر لیا،فیصلے کے اس لمحے نے ٹام کی زندگی بدل دی۔
ٹام روز آسمان دیکھتا تھا،وہ زندگی میں سیکڑوں جھیلوں کے کناروں پر گیا،اس نے زندگی میں ہزاروں پھول بھی دیکھے اور اس نے کم وبیش اتنے ہی پرندوں کی آوازیں بھی سنی تھیں لیکن فیصلے کے اس ایک لمحے نے ان تمام آوازوں،پھولوں،جھیلوں اور آسمانوں کا رنگ بدل دیا،آسمان،جھیل،پھول اور آوازیں،کائنات کی ہر چیز خاص ہو گئی،اس کے حلق میں چالیس برس سے درج ذائقے زندہ ہو گئے۔
وہ ماں کے دودھ سے پچھلی رات کی شراب تک ہر نگلی چکھی چیز کا ذائقہ محسوس کرنے لگا،وہ چالیس برس سے گھروں کی چمنیاں اور ان چمنیوں سے ابلتا دھواں دیکھ رہا تھا لیکن دھوئیں میں تین رنگ ہوتے ہیں،یہ اسے زندگی میں پہلی بار معلوم ہوا،وہ روزسانس لیتا آیا تھا،اس کے پھیپھڑے روزانہ سکڑتے اور پھیلتے تھے لیکن اس نے ہوا کے ذائقے،ہوا کی خوشبو کوپہلی بار محسوس کیا تھا،شبنم جب پاؤں کے نیچے کچلی جاتی ہے تو وہ ایک خاص آواز میں احتجاج کرتی ہے،شبنم کا وہ احتجاج بھی اس نے زندگی میں پہلی بار محسوس کیا،آبی پرندے جب جھیل سے جدا ہوتے ہیں تو یہ جھیل کو بوندوں کی سلامی پیش کرتے ہیں،جدائی کی یہ سلامی بھی اس نے پہلی بار محسوس کی۔
وہ ہمیشہ فراری اورلیموزین میں سفر کرتا تھا،وہ طویل عرصے بعد بس اورٹرین میں سوار ہوا‘اس نے پہلی بار ٹرین کی ٹک ٹک ٹھک ٹھک محسوس کی،وہ بچپن سے کافی پی رہا تھا لیکن کافی کا ذائقہ اسے پہلی بار محسوس ہوا،ہوا میں نمی بھی ہوتی ہے‘اس کا احساس اسے پہلی بار ہوا،چلتے ہوئے قدموں کی آواز میں ایک ردھم،ایک موسیقی ہوتی ہے،یہ بھی اسے پہلی بار محسوس ہوا اور موبائل فون،نیوز چینلز،مہنگی گاڑیاں اورتعلقات یہ دنیا کی واہیات ترین چیزیں ہیں،یہ بھی اسے پہلی بار پتہ چلا،وہ گھر پہنچا،اس نے بچوں کے چہرے دیکھے،اپنے کتے جیری کو غور سے دیکھااور بیوی کونظر بھر کر دیکھا تو معلوم ہوا اصل خوشی تو یہ ہیں،اس نے اپنے بینک اکاؤنٹس دیکھے،کریڈٹ کارڈ کے بل پڑھے اور قسطوں پر خریدی چیزوں کا ڈیٹا دیکھا تو پتہ چلا وہ آج تک بینکوں،پراپرٹی ڈیلروں اور الیکٹرانکس بنانے والی کمپنیوں کے لیے پیسہ کماتا رہا تھا،اسے زندگی میں پہلی بار اپنے لان میں کھلے پھول اور میز پر پڑے سنگترے کی خوشبو محسوس ہوئی،اسے پہلی بار اپنی وارڈروب کے کپڑے اور جوتے اضافی لگے اور اسے گھر کی گراسری فضول خرچی محسوس ہوئی ۔
ٹام کی زندگی کا اگلادن بظاہر موت کی طرف ایک اور قدم تھا لیکن عملاً وہ اس کی زندگی کا پہلا دن تھا،اس نے زندگی کے اس پہلے دن جاب سے استعفیٰ دے دیا،کریڈٹ کارڈ توڑ کر ٹوکری میں پھینک دیے،بینک میں پڑی ساری دولت نکال لی،آدھی پر اپرٹی بیچ کر آدھی کی قسطیں ادا کر دیں‘پراپرٹی کو کرائے پر چڑھا دیا،بچوں کو اسکول سے چھٹی کرائی اور فیملی کو ساتھ لے کر لانگ ہالیڈیز پر نکل گیا،اس نے اپنے تمام مخالفوں،تمام دشمنوں سے اپنے رویئے کی معافی مانگ لی اور وہ لوگ جنھوں نے اس کا دل دکھایا تھا،ان سب کو صدق دل سے معاف کر دیا،اس نے وہ سو کتابیں بھی خرید لیں جنھیں وہ زندگی میں پڑھنا چاہتا تھا۔
ٹام نے اس دن ہر ملنے والے کو مسکرا کر ملنا شروع کر دیا،سوری اور تھینک یو اس کا تکیہ کلام بن گیا تھا،وہ لوگوں کو کم اور فیملی اور دوستوں کو زیادہ وقت دینے لگا،وہ شام ساڑھے سات بجے ڈنر کرنے لگا،وہ نو بجے سو جاتا تھا،ساڑھے چار بجے اٹھ جاتا تھا اور صبح تین گھنٹے جنگلوں،جھیلوں اور پارکوں میں گھومتا تھا،موبائل اس نے بند کر دیا،فلمیں وہ دیکھنے لگا اور میوزک وہ سننے لگا،ٹام کی اس نئی زندگی نے ٹام کو بتایا،اصل زندگی تو ڈیتھ بیڈ کی زندگی ہے‘ہم انسان تو اس وقت جینا شروع کرتے ہیں جب ہم اپنی موت کا دن معلوم کر لیتے ہیں،ہمیں اس وقت معلوم ہوتا ہے،ہم انسان جسے زندگی سمجھتے ہیں،وہ دراصل مرے ہوئے بے جان دن ہوتے ہیں اور جسے ہم موت سمجھتے ہیں وہ اصل زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
ٹام نے اپنی زندگی کے شاندار دن ڈیتھ بیڈ پرگزارے،اصل زندگی کے اصل دن لیکن ہم یہ اصل زندگی کب شروع کریں گے؟ اس دن جب ہمیں بھی ڈاکٹر یہ بتائے گا ’’آپ کے پاس صرف ایک مہینہ بچا ہے‘‘۔
گریٹ ٹریجڈی
جاوید چوہدری جمعـء 27 نومبر 2015
ادریس جالا ملائشیا سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ مذہباً عیسائی ہیں‘ یہ گورنمنٹ لنکڈ کمپنیز (جی ایل سی) کے سربراہ رہے‘ جی ایل سی ملائشیا کی طاقتور کمپنیوں کا گروپ ہے‘ ملائشیا کی اسٹاک مارکیٹ کا 36 فیصد حصہ اس گروپ کے پاس ہے‘ یہ دنیا کے طاقتور ترین گروپوں میں بھی شمار ہوتا ہے‘ جالا اس گروپ کے سربراہ تھے‘ انھوں نے گروپ کو ملک کا طاقتور ترین ادارہ بنا دیا‘ یہ ’’بگ فاسٹ رزلٹ میتھڈالوجی‘‘ کے ایکسپرٹ ہیں‘ ان کا فلسفہ ہے‘ آپ اگر بڑے منصوبوں سے جلد نتائج حاصل کر لیں تو آپ پورا کھیل تبدیل کر سکتے ہیں۔
مہاتیر محمد ادریس جالا کے بہت بڑے فین ہیں‘ یہ اپنے دور میں حکومت کے مختلف منصوبوں پر جالا سے مشورے کرتے تھے‘ مشاورت کا یہ عمل مہاتیر محمد کے بعد بھی جاری رہا‘ وزیراعظم عبداللہ بداوی نے انھیں اپنی ٹیم کا باقاعدہ حصہ بنا لیا‘ 2005ء میں ملائشین ائیر لائین شدید خسارے کا شکار تھی‘ حکومت نے ادریس جالا کو اس کا سربراہ بنا دیا‘ انھوں نے دو سال میں نہ صرف ائیر لائین کو خسارے سے نکال لیا بلکہ کمپنی کو منافع بخش بھی بنا دیا‘ حکومت نے 2009ء میں پرفارمنس‘ مینجمنٹ اینڈ ڈیلیوری یونٹ بنایا‘ یہ ادارہ حکومت کی مینجمنٹ‘ پرفارمنس اور سرکاری منصوبوں کی ڈیلیوری تیز کرنے کے لیے بنایا گیا تھا‘ ادریس جالا کو اس یونٹ کا سربراہ بنا دیا گیا‘ ان کا اسٹیٹس وفاقی وزیر کے برابر ہے‘ ادریس جالا نے اپنی بگ فاسٹ رزلٹ میتھڈالوجی کا بھرپور استعمال کیا اور سرکاری منصوبوں کو پر لگ گئے‘ ملائشیا تجارت اور صنعت کے ساتھ ساتھ زرعی طاقت بھی بن گیا۔
منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے وفاقی سیکریٹریوں اور وزراء کی ٹریننگ کے لیے ادریس جالا کو پاکستان بلایا‘ یہ 10 ستمبر 2013ء کو پاکستان تشریف لائے‘ انھوں نے 11 ستمبر کو پلاننگ کمیشن میں بگ فاسٹ رزلٹ تھیوری پر لیکچر بھی دیا اور وفاقی سیکریٹریوں کو کامیاب حکومتوں کی کامیاب پالیسیوں کی ٹریننگ بھی دی‘ ادریس جالا نے ٹریننگ سیشن کے دوران انکشاف کیا‘ ملائشیا کے وزیراعظم روزانہ ناشتے کی میز پر دو وفاقی سیکریٹریوں سے ملاقات کرتے ہیں‘ ملاقات کے دو سیشن ہوتے ہیں‘ سیکریٹری پہلے سیشن میں وزیراعظم کو جاری منصوبوں کی پراگریس بتاتے ہیں‘ دوسرے سیشن میں مستقبل کے منصوبوں پر بات ہوتی ہے‘ میں وزیراعظم کے ہر ناشتے پر موجود ہوتا ہوں‘ میں ساتھ ساتھ نوٹس لیتا رہتا ہوں‘ ناشتے کے ساتھ ہی یہ میٹنگ ختم ہو جاتی ہے‘ میں اس کے بعد میٹنگ میں ہونے والے فیصلوں کے منٹس بناتا ہوں‘ یہ منٹس تمام متعلقہ اداروں کو بھجوا دیے جاتے ہیں اور یوں ان فیصلوں پر اسی دن عمل شروع ہو جاتا ہے‘ اگلے دن دو نئے سیکریٹری ناشتے پر مدعو ہوتے ہیں اور یہ دونوں بھی دو سیشن میں اپنے اپنے محکموں کے ’’آن گوئنگ‘‘ پراجیکٹس کی پراگریس بتاتے ہیں اور مستقبل کے منصوبے ڈسکس کرتے ہیں اور میں منٹس بنا کر اسی طرح مختلف محکموں اور اداروں کو بھجوا دیتا ہوں۔
ادریس جالا کا کہنا تھا‘ پاکستان کے پاس منصوبوں کی کمی نہیں‘ آپ کے پاس درجنوں شاندار منصوبے موجود ہیں‘ آپ کا مسئلہ عمل درآمد ہے‘ آپ کو چاہیے‘ آپ ’’امپلی منٹیشن‘‘ کا فول پروف اور تیز ترین سسٹم بنائیں‘ آپ چند برسوں میں ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائیں گے‘ ادریس جالا کے لیکچر کے دوران ایک سیکریٹری نے دوسرے سیکریٹری کے کان میں سرگوشی کی ’’کیا وزیراعظم نواز شریف نے آج تک تمہیں ملاقات کے قابل سمجھا‘‘ سیکریٹری نے سرگوشی میں جواب دیا‘ وزیراعظم میرے نام اور میری شکل دونوں سے واقف نہیں ہیں‘ اس سیکریٹری نے یہ سوال بائیں جانب بیٹھے سیکریٹری سے بھی پوچھا‘ اس کا جواب تھا‘ وزیراعظم نے ایک بار میٹنگ کے لیے بلایا تھا لیکن وہ میٹنگ کینسل ہو گئی تھی‘ اس کے بعد سرگوشی کا یہ عمل آگے چل پڑا‘ یہ سوال ہر سیکریٹری کے کان تک پہنچا اور ہر سیکریٹری کا جواب ناں تھا۔
اس سیشن میں 25 وفاقی سیکریٹری اور چیئرمین موجود تھے‘ صرف دو نے ہاں میں سر ہلایا‘ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا‘ میں نے ایک بار اسحاق ڈار صاحب کے ساتھ وزیراعظم سے ملاقات کی جب کہ دوسرے سیکریٹری کا جواب تھا‘ میں درجنوں مرتبہ وزیراعظم سے ملا ہوں‘ یہ اعتراف سن کر سب کی ہنسی نکل گئی‘ کیوں؟ کیونکہ وہ مواصلات کے سیکریٹری تھے اور وزیراعظم ان کی مدد کے بغیر سڑکیں اور موٹر ویز نہیں بنا سکتے تھے چنانچہ ان سے ملاقات لازم تھی اور یہ ملاقاتیں ہو رہی تھیں‘ باقی تمام سیکریٹریز ادریس جالا سے ’’بگ فاسٹ رزلٹ‘‘ کا فلسفہ سمجھ رہے تھے‘ یہ آج بھی اپنے دفتروں میں فارغ بیٹھ کر ادریس جالا کے فارمولے کے نوٹس پڑھتے ہیں‘ اپنی ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتے ہیں اور سرکاری پلاٹ پر مکان بنانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں‘ وزیراعظم کبھی ان سے پہلے ملے‘ نہ آج مل رہے ہیں اور نہ ہی یہ مستقبل میں ان سے ملیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ ملک اور عوامی ترقی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں۔
میاں نواز شریف کی نفسیات پر پے درپے ناکامیوں‘ دو بار حکومتوں سے برخاستگی اور طویل جلاوطنی نے برے اثرات چھوڑے ہیں‘ یہ اب کسی پر اعتماد نہیں کرتے‘ انھوں نے اپنے گرد حصار کھینچ لیا ہے‘ یہ خود اس حصار سے باہر نکلتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کو اس میں پاؤں رکھنے دیتے ہیں‘ یہ خارجہ امور اور دفاع جیسی وزارتیں بھی کسی کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ وفاقی سیکریٹری تو رہے دور یہ اپنے وزراء تک سے ملاقات نہیں کرتے‘ کچن کیبنٹ بھی اب سمٹ کر دو وزراء تک محدود ہو چکی ہے‘ یہ رات چھ سے آٹھ بجے کے دوران بیڈ روم میں چلے جاتے ہیں اور پھر صبح تک کے لیے تمام رابطے منقطع ہو جاتے ہیں‘ ملک میں اگر کوئی ہنگامی صورتحال پیش آ جائے تو صرف اسحاق ڈار واحد شخص ہیں جو وزیراعظم کے دروازے پر دستک دے سکتے ہیں اور یہ بھی اپنا یہ استحقاق سال چھ ماہ میں ایک آدھ بار استعمال کرتے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں یوسف رضا گیلانی اپنی تمام تر بیڈ گورننس اور کرپشن کے الزامات کے باوجود ہزار درجے بہتر تھے‘ آپ پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی وزیر سے پوچھ لیں‘ یہ گواہی دے گا۔
گیلانی صاحب کے وزراء رات بارہ ایک بجے وزیراعظم ہاؤس جا کر وزیراعظم کو جگا لیتے تھے‘ وزیراعظم سلیپنگ سوٹ میں ان سے ملتے تھے‘ وزیر قانون اور سیکریٹری قانون کو جگا کر بلوایا جاتا تھا اور ان سے رات کے وقت نوٹیفکیشن جاری کرا دیا جاتا تھا‘ وفاقی سیکریٹری اور چیف سیکریٹری بھی ہنگامی حالت میں ان سے کسی بھی وقت رابطہ کر سکتے تھے‘ یہ دل کے بھی کھلے تھے‘ میاں شہباز شریف نے آصف علی زرداری اور وفاقی حکومت کے بارے میں کیا کیا نہیں کہا اور کیا کیا نہیں کیا لیکن گیلانی صاحب نے اس کے باوجود ان پر اپنے دروازے بند نہیں کیے‘ یہ ان سے ملتے بھی تھے اور ان کے کام بھی کرتے تھے‘ پاکستان مسلم لیگ ن نے 2013ء کا الیکشن لاہور کی میٹرو دکھا کر لڑا تھا‘ میٹرو کے معاملے میں اگر یوسف رضا گیلانی میاں شہباز شریف کی مدد نہ کرتے‘ یہ وفاقی اداروں کو ’’کوآپریشن‘‘ کا حکم نہ دیتے تو پنجاب حکومت کبھی یہ منصوبہ مکمل نہ کر پاتی‘ یہ ایک حقیقت ہے اور دوسری حقیقت جنرل پرویز مشرف کی ٹیم ہے‘ جنرل مشرف بلاشبہ آمر تھے اور ہم نے آمر کی حیثیت سے ہمیشہ ان کی محالفت کی لیکن جہاں تک ان کی ٹیم کا معاملہ ہے تو وہ واقعی شاندار تھی‘ جنرل مشرف نے چن چن کر ماہر لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا تھا‘ یہ ادریس جالا جیسے لوگ تھے اور ان لوگوں نے حقیقتاً کمال کیا‘ افسوس ہم آمر کا تو کچھ نہ بگاڑ سکے لیکن ہم نے اس کی ٹیم کے ساتھ بھارتی جاسوس جیسا سلوک کیا۔
جنرل مشرف کے بعد دو جمہوری حکومتیں آ چکی ہیں‘ یہ دونوں حکومتیں آج تک عبداللہ یوسف جیسا چیئرمین ایف بی آر اور کامران لاشاری جیسا دوسرا چیئرمین سی ڈی اے نہیں لا سکیں‘ باقی وزراء اور چیئرمین دور کی بات ہیں‘ جنرل مشرف اور شوکت عزیز جیسے بھی تھے لیکن انھوں نے بہرحال ڈیلیور کیا تھا‘ شوکت عزیز نے ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف کا قرضہ ختم کر دیا تھا‘ اگر فوجی حکومتیں ایسے لوگ تلاش کر سکتی ہیں تو یہ لوگ جمہوری حکومتوں کو کیوں نہیں ملتے؟ حکومتیں ختم ہونے کے بعد ماہر اور تجربہ کار بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کی قومیت کیوں مشکوک ہو جاتی ہے اور ڈاکٹر عطاء الرحمن جیسے لوگ اچھوت کیوں ہو جاتے ہیں؟ ہم نے کبھی سوچا؟ ہماری حالت یہ ہے‘ ہم گورننس سیکھنے کے لیے ادریس جالا کو ملائیشیا سے بلا لیتے ہیں لیکن ہم شوکت عزیز سے یہ نہیں پوچھتے‘ آپ نے ایک چیک کے ذریعے آئی ایم ایف کے سارے قرضے کیسے ادا کر دیے تھے؟
ہم عبداللہ یوسف سے یہ نہیں پوچھتے ’’ آپ کے دور میں ٹیکس وصولی کی شرح کیسے بڑھ گئی تھی‘‘ اور ہم کامران لاشاری کو بلا کر ان سے نہیںپوچھتے ’’ آپ نے اضافی بجٹ کے بغیر اسلام آباد کو کیسے ٹھیک کر لیا تھا‘‘ ہمارے وزیراعظم کے پاس دنیا جہاں کے لوگوں کے لیے وقت ہے‘ یہ کامیابی اور گورننس کے کلیے سیکھنے کے لیے دنیا بھر میں مارے مارے پھرتے ہیں لیکن انھوں نے کبھی وزراء اور وفاقی سیکریٹریوں کو بلا کر نہیں پوچھا ’’ہم ملک کیسے چلا سکتے ہیں اور کون کون سا منصوبہ زیر التواء ہے‘‘ دنیا کے لیے ہمارے پاس بہت وقت ہے لیکن گھر والوں سے ملاقات کے لیے ابھی سورج ہی طلوع نہیں ہوا‘ ہم ان رویوں کے ساتھ ملک کیسے چلائیں گے؟ کیا کسی کے پاس کوئی جواب ہے؟
میرا خدشہ ہے‘ یہ ملک میں کسی نیشنل پارٹی کی آخری حکومت ہے‘ اس کے بعد کمزور حکومتیں آئیں گی اور وہ اپنی دھوتیاں سنبھالنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گی چنانچہ جو کچھ کرنا ہے‘ ان لوگوں نے کرنا ہے‘ یہ زور بھی بہت لگا رہے ہیں‘ ایوب خان کے بعد ملک میں پہلی بار انفراسٹرکچر کے اتنے بڑے منصوبے شروع ہوئے ہیں‘ یہ لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی بھی ختم کر دیں گے لیکن سوال یہ ہے‘ جب اسپرنگ واپس اپنی پوزیشن پر جائے گا تو ان میٹروز‘ ان ہائی ویز‘ ان انڈر پاسز اور ان راہ داریوں کی کیا صورتحال ہو گی؟ انسانوں اور انسانی معاشروں کو ڈویلپ کرنا بھی حکومتوں اور لیڈروں کی ذمے داری ہوتی ہے اور ہمارے وزیراعظم یہ ذمے داری نہیں نبھا رہے‘ یہ ذمے داریاں نبھانے کے لیے وزیراعظم کا دستیاب ہونا ضروری ہوتا ہے اور وزیراعظم اپنے وزراء ہی کو دستیاب نہیں ہیں‘ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے‘ میاں نواز شریف کی پرسنیلٹی میں وزارت عظمیٰ اور لیڈر شپ دونوں ختم ہو رہی ہیں اور یہ صرف میاں نواز شریف کے لیے خطرناک نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ٹریجڈی ہے‘ گریٹ ٹریجڈی چنانچہ میرا مشورہ ہے‘ وزیراعظم یا تو جاگ جائیں یا پھر دبئی میں آصف علی زرداری کے ساتھ والا گھر خرید لیں کیونکہ اس بار کوئے یار سے نکلنے کے بعد کوچہ ملامت کے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا اور دنیا میں اس وقت دبئی سے بڑا کوئی کوچۂ ملامت نہیں۔
رات آہستہ آہستہ اتر رہی تھی
جاوید چوہدری جمعرات 26 نومبر 2015
’’آپ یہاں رکیں میں لائٹ آن کرتا ہوں‘‘اور پھر چوکیدار سلیپر گھسیٹتا ہوا عمارت کے پیچھے گم ہو گیا،میرے سامنے 25 بائی 25 فٹ کی چوکی تھی،میں سیڑھیاں چڑھ کر دروازے تک پہنچ گیا،دروازہ کھلا تھا،اندر اندھیرا تھا،میں اندھیرے کے باوجود اندر داخل ہو گیا،یہ ایک مستطیل ہال تھا،چھت اور دیواریں اونچی تھیں،چاروں دیواروں پر جالیاں لگی تھیں،روشنی اور ہوا جالیوں کے ذریعے اندر آ رہی تھی،رات کے ساڑھے دس بجے تھے،بازار بند ہو چکا تھا،صرف چائے خانے کھلے تھے،چائے کے کھڑکتے برتنوں اور لاہوری گالیوں کی آوازیں دھڑا دھڑ اندر آ رہی تھیں،ہال کے درمیان میں سفید سنگ مر مر کی قبر تھی،قبر پر کوئی رحم دل انسان سرخ گلاب کا ہار لٹکا گیا تھا۔
یہ ہار اور جالیوں سے چھن چھن کر آتی آوازیں اس مزار کا کل اثاثہ تھیں،عمارت کے پیچھے سے ٹک کی آواز آئی اور مقبرے کا بلب روشن ہوگیا،قبر مزید نمایاں ہو گئی،میں نے فاتحہ پڑھی،قبر کے گرد چکر لگایا اور باہر آ گیا،باہر چھوٹا سا لان تھا،لان کی مرجھائی ہوئی گھاس مقبرے کے مقیم کی داستان سنا رہی تھی،نئی انارکلی کی دکانیں بند ہو رہی تھیں،رات لاہور پر اتر رہی تھی اور مقبرہ اس اترتی ہوئی رات کی سیاہی بڑھا رہا تھا،رات کی شراب تاریخ کی شراب میں مل رہی تھی اور یہ ملتی ہوئی شرابیں وقت کا نشہ بڑھا رہی تھیں،میں چوکی کی سیڑھی پر بیٹھ گیا اور وقت کی کتاب میرے سامنے کھل گئی۔
وہ ترکستان کا رہنے والا تھا،بچپن میں غلام بنا لیا گیا،نیشا پور لایا گیا،غلاموں کی منڈی میں کھڑا کر دیا گیا،قاضی فخرو الدین وہاں سے گزرے،وہ امام ابو حنیفہؒ کی اولاد میں سے تھے،قاضی صاحب کی نظر بچے پر پڑی تو اس کی معصومیت نے ان کا دل کھینچ لیا،قیمت ادا کی اور اسے گھر لے آئے،بچے کا نام قطب الدین رکھا اور بیٹوں کی طرح اس کی پرورش شروع کر دی،قاضی فخرو الدین اسے جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے،والد کی یہ محبت اولاد کے دل میں کینہ بن گئی،قاضی صاحب ضعیف بھی تھے اور علیل بھی،وہ جلد انتقال کر گئے،غلام زادہ دوبارہ غلام بن گیا۔
قاضی صاحب کے مردہ جسم کی بو ابھی کفن تک نہیں پہنچی تھی کہ ان کے ایک بیٹے نے اس کا ہاتھ پکڑا،اسے گھسیٹتے ہوئے غلاموں کی منڈی میں لے گیا اور اسے کھڑے کھڑے نیلام کر دیا،نیا آقا سوداگر تھا،وہ اسے غزنی لے گیا،غزنی میں شہاب الدین غوری کی حکومت تھی،شہاب الدین اس دور کا میاں شہباز شریف تھا،اس کا بڑا بھائی غیاث الدین غوری غورستان کا بادشاہ تھا،یہ سلطنت سینٹرل ایشیا سے ہندوستان تک پھیلی تھی،غزنی اس سلطنت کا بڑا صوبہ تھا،غزنی کا انتظام شہاب الدین غوری کے ہاتھ میں تھا،وہ زندگی اور تاریخ دونوں میں اپنے بھائی غیاث الدین غوری سے زیادہ مشہور تھا۔
اس کی فتوحات بھی زیادہ تھیں اور وہ صلاحیت میں بھی غیاث الدین سے بہت آگے تھا لیکن وہ اس کے باوجود مرنے تک بھائی کا وفادار رہا،شہاب الدین غوری کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی،اس نے اس کا حل غلاموں کی شکل میں نکالا،وہ شاندار غلام خریدتا،ان کی شاہانہ تربیت کرتا اور پھر انھیں ملک کے مختلف علاقے اور شعبے سونپ دیتا،شہاب الدین غوری کے ان غلاموں نے کمال کر دیا،یہ لوگ آگے چل کر خاندان غلاماں کہلائے اور انھوں نے گورننس کے بے شمار ایسے اصول متعارف کرائے جو آج تک زندہ ہیں،قطب الدین کا نیا آقا شہاب الدین غوری کی اس عادت سے واقف تھا چنانچہ وہ اسے لے کر سیدھا دربار پہنچ گیا،شہاب الدین کو قطب الدین پسند آ گیا۔
اس نے اسے اپنے غلاموں میں شامل کر لیا،وہ باصلاحیت انسان تھا،وہ چند ہی برسوں میں بادشاہ کے قریب پہنچ گیا،شہاب الدین غنی تھا،وہ مانگنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا تھا،اسے ایک دن معلوم ہوا قطب الدین اس سے بھی بڑا غنی ہے،یہ اپنے تصرف میں موجود ہر چیز محل کے خادموں میں تقسیم کر کے سوتا ہے،بادشاہ کو یہ ادا پسند آئی اور اسے اپنا بیٹا بنا لیا،دہلی اور اجمیر فتح ہوئے تو یہ دونوں شہر قطب الدین کو سونپ دیے گئے،شہاب الدین اور قطب الدین دونوں اس کے بعد ہندوستان فتح کرتے چلے گئے اور سلطنت کے سائز میں اضافہ ہوتا چلا گیا،یہاں تک کہ قطب الدین کی جاگیر سمانا، میرٹھ، ہانسی، بنارس، گوالیار، گجرات،کالنجر،مہوہ اور برایوں تک پھیل گئی،ملتان اور لاہور بھی قطب الدین کی ملکیت بن گئے۔
وہ ہندوستان کا مختار کل ہو گیا لیکن وہ اس کے باوجود اپنی اوقات اور اپنے آقا کی مہربانی نہیں بھولا،شہاب الدین غوری جب بھی ہندوستان آیا،قطب الدین نے دہلی سے سوکوس باہر نکل کر اس کا استقبال کیا،شہاب الدین بھی پوری زندگی اپنے اس غلام پر فخر کرتا رہا،شہاب الدین غوری 15 مارچ 1206ء کو ہندوستان سے واپس افغانستان جاتے ہوئے گکھڑوں کے ہاتھوں مارا گیا،شہاب الدین غوری کے انتقال کے بعد تخت اس کے بھتیجے سلطان محمود غوری کے پاس چلا گیا،وہ سلطان غیاث الدین غوری کا بیٹا تھا،سلطنت کا نام غورستان تھا اور دارالحکومت غور شہر تھا۔
سلطان محمود درویش صفت انسان تھا،اس نے تخت پر بیٹھتے ہی سلطنت کے دو حصے کیے،افغانستان،ایران اور سینٹرل ایشیا کے علاقوں کو جوڑ کر ایک ملک بنایا اور ہندوستان کے شہروں کو اکٹھا کر کے دوسرا ملک تشکیل دیا،غزنی کو پہلے حصے کا دارالحکومت قرار دیا گیا اور دہلی کو دوسرے حصے کا اور پھر یہ دونوں ملک شہاب الدین غوری کے دوغلاموں میں تقسیم کر دیے،غزنی تاج الدین یلدوز کو مل گیا اور ہندوستان قطب الدین کے حصے آ گیا،قطب الدین خودمختاری کی یہ سند وصول کرنے کے لیے دہلی سے لاہور آیا،گھوڑے سے اتر کر سند اور خلعت وصول کی،ہونٹوں اور آنکھوں سے لگائی اور ملک سے سلطان بن گیا،سلطان ہند قطب الدین۔
وہ بادشاہ بن گیا لیکن حسد نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا،غزنی کی سلطنت پانے والا تاج الدین یلدوز خود کو ہندوستان کا مالک بھی سمجھتا تھا،قطب الدین دہلی میں جشن منا رہا تھا کہ یلدوز غزنی سے نکلا،لاہور فتح کیا اور لاہور پر قابض ہو کر بیٹھ گیا،قطب الدین واپس آیا،شہاب الدین کے دونوں غلاموں کے درمیان لڑائی ہوئی،قطب الدین جیت گیا اور یلدوز غزنی واپس بھا گ گیا،قطب الدین نے غزنی تک اس کا پیچھا کیا،غزنی میں بھی لڑائی ہوئی،یلدوز یہ جنگ بھی ہار گیا یوں غزنی بھی قطب الدین کے ہاتھ آ گیا،وہ غزنی میں بیٹھ گیا،یہ اس کی زندگی کا بدترین دور تھا،اس نے خود کو صرف دو کاموں تک محدود کر لیا،وہ دن رات اپنے دکھوں کو یاد کرتا تھا اور شراب نوشی کرتا تھا،یاسیت اور شراب نوشی نے سلطنت پر اس کی گرفت ڈھیلی کر دی۔
غزنی میں اس کے خلاف بغاوت ہوئی،شہر کے لوگوں نے دروازے کھول کر شہر دوبارہ تاج الدین یلدوز کے حوالے کر دیا،وہ جان بچا کر بھاگا اور لاہور پہنچ کر دم لیا،یہ شکست الارم ثابت ہوئی،وہ جاگ گیا،وہ جانتا تھا،یلدوز مضبوط ہونے کے بعد لاہور پر حملہ کرے گا چنانچہ اس نے لاہور کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا،وہ لاہور کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا رہا،لاہور مضبوط ہو گیا لیکن وہ قضا کے ہاتھوں ہار گیا،وہ 1210ء میں لاہور کے قلعے کے باہر چوگان کھیل رہا تھا،وہ اچانک گھوڑے سے گرا،گھوڑے کی کاٹھی اس کی چھاتی پر گر گئی،پسلیاں ٹوٹ کر پھیپھڑوں اور دل میں پیوست ہو گئیں،شاہی طبیب اسے بچانے کی کوشش کرتے رہے لیکن موت قطب الدین سے زیادہ تگڑی تھی،وہ اس کی بے قرار روح کو لے کر اڑ گئی۔
پیچھے اس کا کچلا مسلا بے سانس جسم رہ گیا،یہ جسم چوگان کے میدان کے ایک کونے میں دفن کر دیاگیا،اس نے تین بیٹیاں پیچھے چھوڑیں،ایک بیٹی اس کے غلام شمس الدین التتمش کے عقد میں تھی،دوسری دونوں بیٹیاں دوسرے غلام ناصر الدین قباچہ کی بیویاں بنیں،یہ دونوں غلام بھی وقت کے عظیم حکمران تھے لیکن ان دونوں نے بھی زندگی ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر گزار دی،یہ دونوں عمر بھر ایک دوسرے کی تلوار سے بچتے رہے یہاں تک کہ ناصر الدین قباچہ بھکر سے فرار ہوتے ہوئے دریائے سندھ میں ڈوب کر مر گیا۔
قطب الدین کو دنیا سے رخصت ہوئے 805 سال ہو چکے ہیں،ان 805 برسوں میں اس کی سلطنت ریت بن کر تاریخ کے صحرا میں بکھر گئی،اس کی آل اولاد بھی وقت کے قبرستان میں دفن ہو گئی،اس کی غلامی،اس کی سلطانی،اس کی جدوجہد،اس کی فتوحات اور اس کی منصوبہ بندی یہ سب وقت کی بنجر زمین میں جذب ہو گئے،پیچھے صرف چار چیزیں رہ گئیں،دہلی کا قطب مینار،یہ مینار آج بھی تلک بن کر زمین کے ماتھے پر چمک رہا ہے،سفید ہاتھی،اس نے دنیا کو سفید ہاتھی کی اصطلاح دی تھی،قطب الدین کے پاس ایک سفید ہاتھی تھا،وہ ہمیشہ اس ہاتھی پر سواری کرتا تھا،یہ شاہی ہاتھی تھا۔
یہ صرف اس وقت باہر نکالا جاتا تھا جب بادشاہ سلامت محل سے باہر قدم رنجہ فرماتے تھے اور یہ مرحلہ عموماً دو تین ماہ بعد آتا تھا چنانچہ ہاتھی کے پاس شاہی چارہ کھانے اور لید کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا تھا،یوں یہ سفید ہاتھی ’’وائیٹ ایلیفنٹ‘‘مشہور ہو گیا،قطب الدین کا یہ سفید ہاتھی اس کی موت کا صدمہ برداشت نہ کر سکا،وہ بھی تیسرے دن فوت ہو گیا اور اس کے بعد کسی بادشاہ کو سفید ہاتھی نصیب نہیں ہوا،اس کی تیسری نشانی لکھ پتی کی اصطلاح تھی،وہ وقت کا حاتم طائی تھا،وہ مانگنے والوں کو لاکھ روپے سے کم خیرات نہیں دیتا تھا چنانچہ جو ضرورت مند اس کے دربار تک پہنچ جاتا تھا۔
وہ لکھ پتی ہو کر واپس آتا تھا،لوگ اسے لکھ بخش بھی کہتے تھے،لاہور کی قدیم گلیوں میں آج بھی سخیوں کو قطب دوراں یا قطب زمانہ کہا جاتا ہے،یہ قطب ولایت والا قطب نہیں،یہ قطب الدین کا قطب ہے اور اس کی چوتھی اور آخری نشانی لاہور کے انارکلی بازار کی ایک تنگ و تاریک گلی میں اس کا مزار ہے،وقت کے آٹھ سو تیشے بھی اس کی یہ نشانی نہیں مٹا سکے،یہ مقبرہ آج تک قائم ہے،اس کا خاندان،اس کی سلطنت اور اس کا دور،وقت نے اس کی ہر چیز خاک کا پیوند بنا دی لیکن وقت اگر نہیں مٹا سکا تو لاہور میں اس کا مقبرہ اور دہلی میں اس کا مینار نہیں مٹا سکا۔
قطب الدین کے ایک ہاتھ کی چھوٹی انگلی ٹوٹی ہوئی تھی،وہ جب شہاب الدین غوری کے محل میں داخل ہوا تو دوسرے غلاموں نے ٹوٹی ہوئی انگلی کی وجہ سے اسے ایبک کہنا شروع کر دیا،یہ لفظ اس کی چھیڑ تھا لیکن اللہ تعالیٰ کو شاید اس کی سخاوت پسند آ گئی اور باری تعالیٰ نے اس کی اس چھیڑ کو اس کا اعزاز بنا دیا چنانچہ آج تاریخ جب تک قطب الدین کو ایبک نہ کہہ لے یہ اس وقت تک خود کو مکمل نہیں سمجھتی۔ اور میں رات کے ساڑھے دس بجے اس قطب الدین ایبک کے مقبرے کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا اور رات آہستہ آہستہ قطب الدین ایبک کے لاہور پر اتر رہی تھی۔
’’مولوی صاحب مر چکے ہیں‘‘
جاوید چوہدری منگل 24 نومبر 2015
منگل کا دن تھا،نومبر کا مہینہ تھا،تاریخ 17 تھی اور سن تھا 2015ء،قاری عبدالرحمن انھیں کراچی ائیر پورٹ پر ڈراپ کر کے واپس چلے گئے،راستے سے فون کیا،جواب دیا ’’ بورڈنگ کارڈ میری جیب میں ہے،ظہر کی نمازپڑھ لی ہے،فلائیٹ وقت پر ہے،عصر انشاء اللہ لاہور میں پڑھوں گا‘‘قاری صاحب مطمئن ہو گئے،دن کے سوا بجے تھے،فلائیٹ نے ڈیڑھ بجے اڑنا تھا،قاری عبدالرحمن نے ڈیڑھ بجے دوبارہ فون کیا،انھوں نے فون اٹھایا لیکن وہ بول نہ سکے،قاری صاحب کو ان کے کراہنے اور اونچی اونچی سانس لینے کی آوازیں سنائی دیں،قاری صاحب نے بلند آواز سے پوچھا ’’حضرت آپ خیریت سے ہیں۔
آپ ٹھیک تو ہیں‘‘وہ جواب دے رہے تھے لیکن بات سمجھ نہیں آ رہی تھی،قاری صاحب اس وقت شاہراہ فیصل پر تھے،وہ مڑے اور گاڑی واپس ائیر پورٹ کی طرف دوڑا دی،وہ راستہ بھر انھیں فون کرتے رہے لیکن انھوں نے دوبارہ فون نہیں اٹھایا،قاری صاحب ائیر پورٹ پہنچے،ائیر پورٹ حکام سے ملے،انھیں بتایا،فلاں مسافر شاہین ائیر لائین کی فلائیٹ سے لاہور جا رہے تھے لیکن وہ لاؤنج میں بیمار پڑے ہیں،مجھے ان تک لے جائیں،حکام نے فوراً جواب دیا،شاہین ائیر لائین کی فلائیٹ جا چکی ہے،آپ کا مسافر چلا گیا ہے،قاری صاحب نے ان کے سامنے موبائل ملایا،ان کے فون پر بیل جا رہی تھی۔
قاری صاحب نے حکام کو فون دکھایا اور بتایا،میرے مسافر کا فون آن ہے،وہ ابھی تک لاؤنج میں موجود ہیں،مجھے اندر لے جائیں،حکام نے انکار کر دیا،قاری صاحب گیٹ پر کھڑے ہو کر انھیں مسلسل فون کرنے لگے،تھوڑی دیر بعد کسی صاحب نے فون اٹھا لیا،قاری صاحب نے کہا ’’آپ فون اشتیاق صاحب کو دے دیں‘‘اس صاحب نے دکھی آواز میں جواب دیا ’’آپ کے مسافر انتقال کر چکے ہیں‘‘قاری صاحب کے منہ سے چیخ نکل گئی،انھیں اس بار اندر جانے کی اجازت مل گئی۔
وہ اندر پہنچے تو ٹوٹے ہوئے گندے سے اسٹریچر پر پاکستان کے اس عظیم مصنف کی لاش پڑی تھی جس نے 45 برس تک ملک کی تین نسلوں کی فکری رہنمائی کی،جس نے 100 کتابیں اور 800 ناول لکھے،جس نے دو ہزار صفحات پر مشتمل اردو زبان کا طویل ترین ناول لکھا،آپ کا بچپن یا لڑکپن اگر ستر،اسی یا نوے کی دہائی میں گزرا ہے اور آپ کا کتاب سے ذرا سا بھی تعلق رہا ہے تو پھر اس گندے اور ٹوٹے ہوئے اسٹریچر پر پڑی وہ لاش آپ کی محسن تھی۔
وہ پوری زندگی بچوں کے لیے سسپنس سے بھرپور جاسوسی اور تفتیشی کہانیاں لکھتے رہے،آخر میں اپنے لیے موت پسند کی تو وہ بھی تفتیش اور سسپنس سے بھرپور تھی،کراچی ائیرپورٹ پر اس عالم میں فوت ہوئے کہ ان کے ہاتھ میں بورڈنگ پاس تھا اور ائیرپورٹ کے اسپیکروں سے اعلان ہو رہا تھا ’’ شاہین ائیر لائین کے ذریعے کراچی سے لاہور جانے والے مسافر اشتیاق احمد فوری طور پر فلاں گیٹ پر پہنچ جائیں‘‘اعلان ہوتا رہا اور بورڈنگ پاس ہوا میں لہراتا رہا لیکن وہ سیٹ سے نہ اٹھ سکے،جہاز لاہور چلا گیا اور وہ جہاز کے بغیر آخری منزل کی طرف روانہ ہو گئے اور ملک کے وہ لاکھوں بچے یتیم ہو گئے جن کے وہ چاچا جی تھے،اشتیاق چاچا جی،ایک ایسے چاچا جی جنہوں نے انھیں بچپن میں ادب اور نیکی دونوں کی لت لگا دی تھی،جنہوں نے انھیں پاکستانی بنایا تھا،اردو زبان میں بچوں کے ادب کے سب سے بڑے خالق اشتیاق احمد ہم سے بچھڑ گئے۔
اشتیاق احمد ایک ایسے انسان تھے جن کے لیے سیلف میڈ جیسے لفظ بنے ہیں،بھارتی پنجاب کے قصبے کرنال میں پیدا ہوئے،پاکستان بننے کے بعد والدین کے ساتھ جھنگ آ گئے،خاندان قیام پاکستان سے پہلے بھی غریب تھا اور پاکستان بننے کے بعد بھی۔ بڑی مشکل سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی،لاہور میں میونسپل کارپوریشن میں ملازم ہو گئے۔
سو روپے ماہانہ معاوضہ ملتا تھا،خاندان بڑا تھا،آمدنی کم تھی چنانچہ وہ شام کے وقت آلو چھولے کی ریڑھی لگانے لگے،یہ ’’کاروبار‘‘چل پڑا تو کمپنی کو پان اور سگریٹ تک پھیلا دیا،وہ دن کی ملازمت اور شام کے کاروبار سے ایک گھنٹہ بچاتے تھے اور رات سونے سے پہلے کہانیاں لکھتے تھے،ان کی پہلی کہانی 1960 ء کی دہائی میں کراچی کے کسی رسالے میں شایع ہوئی،وہ کہانی اشتیاق صاحب کے لیے رہنمائی ثابت ہوئی اور وہ باقاعدگی سے لکھنے لگے،کہانیاں سیارہ ڈائجسٹ میں شایع ہونے لگیں،وہ کہانی دینے کے لیے خود ڈائجسٹ کے دفتر جاتے تھے۔
کہانی بھی دے آتے تھے اور مفت پروف بھی پڑھ دیتے تھے،پبلشر کو ان کی یہ لگن پسند آ گئی،اس نے انھیں پروف ریڈر کی جاب آفر کر دی،اشتیاق صاحب نے میونسپل کارپوریشن کی پکی نوکری چھوڑی اور 100 روپے ماہانہ پر کچے پروف ریڈر بن گئے،وہ اب کہانیاں لکھتے تھے اور پروف پڑھتے تھے،کہانیاں رومانوی ہوتی تھیں،ان کی چند کہانیاں ’’اردو ڈائجسٹ‘،میں بھی شایع ہوئیں،1971ء میں پہلا ناول لکھا،وہ ناول رومانوی تھا،پبلشر نے وہ ناول پڑھنے کے بعد انھیں جاسوسی ناول لکھنے کا مشورہ دیا،اشتیاق صاحب نے قلم اٹھایا،محمود،فاروق،فرزانہ اور انسپکٹر جمشید کے لافانی کردار تخلیق کیے اور صرف تین دن میں ناول مکمل کر کے پبلشر کے پاس پہنچ گئے اور پھر اس کے بعد واپس مڑ کر نہ دیکھا،وہ شروع میں شیخ غلام علی اینڈ سنز کے لیے لکھتے تھے۔
پھر شراکت داری پر ’’مکتبہ اشتیاق‘‘بنالیا اور آخر میں اشتیاق پبلی کیشنز کے نام سے اپنا اشاعتی ادارہ بنا لیا،وہ ہفتے میں چار ناول لکھتے تھے،ان ناولوں کی باقاعدہ ایڈوانس بکنگ ہوتی تھی،آپ کسی دن نادرا کا ریکارڈ نکال کر دیکھیں،آپ کو 80،90 اور 2000ء کی دہائی میں لاکھوں بچوں کے نام محمود،فاروق،جمشید اور فرزانہ ملیں گے،یہ نام کہاں سے آئے،یہ نام اشتیاق صاحب کے ناولوں سے کشید ہوئے،وہ جھنگ میں بیٹھ کر صرف ایک کام کرتے تھے،لکھتے تھے اور صرف لکھتے تھے،اللہ تعالیٰ نے انھیں کہانیاں بُننے کا ملکہ دے رکھا تھا،اشتیاق صاحب کی کہانی آخری سطر تک اپنا سسپنس برقرار رکھتی تھی۔
ان کے لفظوں میں مقناطیسیت تھی،قاری ان کا لکھا ایک فقرہ پڑھتا تھا اور اس کی آنکھیں لوہا بن جاتی تھیں اور وہ اس کے بعد ان کی تحریر سے نظریں نہیں ہٹا پاتا تھا،مقبولیت اگر کوئی چیز ہوتی ہے تو اشتیاق احمد اس کی عملی تفسیر تھے اور اگر تحریر کو پڑھے جانے کے قابل بنانا ایک فن ہے تو اشتیاق احمد اس فن کے امام تھے،وہ لکھتے بچوں کے لیے تھے لیکن ان کے پڑھنے والوں میں آٹھ سے اسی سال تک کے ’’نوجوان‘‘شامل تھے،وہ بڑے شہروں سے گھبراتے تھے۔
ان میں ایک خاص نوعیت کی جھجک اور شرمیلا پن تھا،وہ درویش صفت تھے،انھوں نے عمر کے آخری پندرہ سال مذہب کے دامن میں گزارے،وہ باریش ہو گئے،جامعۃ الرشید کے ساتھ منسلک ہوئے،روزنامہ اسلام کا بچوں کا میگزین سنبھال لیا،حلیہ بھی عاجز تھا اور حرکتیں بھی چنانچہ وہ قلمی کمالات اور ادبی تاریخ رقم کرنے کے باوجود سرکاری اعزازات سے محروم رہے،خاک سے اٹھے انسان تھے،خاک میں کھیل کھیل کر خاک میں مل گئے،سرکار نے زندگی میں ان کا احوال پوچھا اور نہ ہی سرکار کو ان کے مرنے کے بعد ان کا احساس ہوا،وہ تھے تو سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہیں تھے۔
وہ نہیں ہیں تو ورثے میں ہزاروں کہانیاں،100 کتابیں اور 800 ناول چھوڑنے کے باوجود کچھ بھی نہیں ہیں،سرکار زندگی میں ان کی طرف متوجہ ہوئی اور نہ ہی مرنے کے بعد،کاش ان کی بھی کوئی لابی ہوتی،کاش یہ بھی کسی بڑے شہر میں پلے ہوتے،کاش یہ بھی انگریزی ہی سیکھ لیتے اور یہ برطانیہ اور امریکا کے بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے تو زندگی میں بھی ان کے گھر کے سامنے لوگوں کا مجمع رہتا اور موت کے بعد بھی ان کی قبر،ان کے گھر کے سامنے سے پھول ختم نہ ہوتے،یہ بس کرنالی،جھنگوی اور پاکستانی ہونے کی وجہ سے مار کھا گئے،یہ ایک گم نام‘ناتمام زندگی گزار کر رخصت ہو گئے اور ان کی ہزار کتابیں بھی ان کو نامور نہ بنا سکیں،حکومت ان کے وجود سے بے خبر تھی اور ان کی آخری سانس تک بے خبر رہی۔
وہ منگل کی اس دوپہر کراچی ائیر پورٹ پہنچے،بورڈنگ کروائی،ظہر کی نماز ادا کی،قاری عبدالرحمن کا فون ریسیو کیا،انھیں بتایا ’’فلائیٹ وقت پر ہے،میں انشاء اللہ عصر کی نماز لاہور میں پڑھوں گا‘‘اور لاؤنج میں بیٹھ گئے،لاؤنج میں کوئی شخص انھیں نہیں جانتا تھا،جان بھی کیسے سکتا تھا،وہ حلیے سے پورے مولوی لگتے تھے اور آج کے زمانے میں کوئی شخص کسی مولوی کو پیار اور دلچسپی سے نہیں دیکھتا،اشتیاق احمد کو بیٹھے بیٹھے بے چینی ہونے لگی،ماتھے پر پسینہ آ گیا،دل گھبرانے لگا،سانس چڑھنے لگی اور نبض کی رفتار میں اضافہ ہونے لگا،وہ پریشانی کے عالم میں دائیں بائیں دیکھنے لگے لیکن وہاں ان کا کوئی مددگار نہیں تھا،اس دوران فلائیٹ کا اعلان ہو گیا،وہ ہمت کر کے قطار میں کھڑے ہو گئے لیکن ان کی ٹانگوں میں جان کم ہو رہی تھی۔
وہ آگے بڑھے اور کاؤنٹر پر کھڑی خاتون کو بتایا ’’مجھے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے پلیز ڈاکٹر کو بلا دیں‘‘خاتون نے انھیں بیٹھنے کی ہدایت کی اور کام میں مصروف ہو گئی،وہ سیٹ پر بیٹھ گئے اور لمبے لمبے سانس لینے لگے،ان کے سینے میں شدید درد تھا،وہ بری طرح کراہ رہے تھے،ان کو کراہتے دیکھ کر مسافر نے شور مچا دیا،اس کے بعد وہاں ’’ڈاکٹر بلاؤ،ڈاکٹر بلاؤ‘‘کی آوازیں گونجنے لگیں،اشتیاق صاحب اس دوران تڑپنے لگے،مسافروں نے ان کے تڑپنے کا نظارہ دیکھنے کے لیے ان کے گرد گھیرا ڈال لیا،ہجوم کی وجہ سے آکسیجن کم ہو گئی،انھوں نے لمبی ہچکی لی اور دم توڑ دیا،ڈاکٹر آدھ گھنٹے بعد وہاں پہنچا،وہ خالی ہاتھ تھا،اس کے پاس سٹیتھو اسکوپ تک نہیں تھا،ڈاکٹر نے ان کی نبض ٹٹولی،نتھنوں پر انگلی رکھی،دل کو دبا کر دیکھا اور پھر مایوسی سے سر ہلا کر کہا ’’مولوی صاحب مر چکے ہیں‘‘لوگ افسوس سے لاش کو دیکھنے لگے۔
اشتیاق صاحب کے انتقال کے آدھ گھنٹے بعد اسٹریچر آیا،اسٹریچر گندہ بھی تھا اور ٹوٹا ہوا بھی،لاش سیٹ سے اٹھا کر اسٹریچر پر ڈال دی گئی،قاری عبدالرحمن پہنچے،لاش ان کے حوالے کر دی گئی،بورڈنگ پاس ابھی تک ان کے ہاتھ میں تھا،یہ بورڈنگ پاس وزیر اعظم اور وزیراعظم کے مشیر شجاعت عظیم کے نام ان کا آخری پیغام تھا ’’خدا کے لیے ملک کے تمام ائیر پورٹس پر کلینکس بنوا دیں،میں آج مر گیا ہوں،کل آپ کی باری بھی آ سکتی ہے،اللہ نہ کرے آپ یوں ڈیپارچر لاؤنج میں آخری سانس لیں‘‘۔ ڈرائیور نے ان کے ہاتھ سے بورڈنگ پاس کھینچا،اسٹریچر اندر رکھا،ایمبولینس کا دروازہ بند کیا اور محمود،فاروق،انسپکٹر جمشید اور فرزانہ جیسے کرداروں کا خالق دنیا سے رخصت ہوگیا۔
وہ زمین کا رزق زمین کے معدے میں اتر گیا،پیچھے صرف تاسف اور بے حسی رہ گئی،یہ بے حسی اور یہ تاسف آج بھی کراچی ائیرپورٹ کے لاؤنج کی اس نشست پر پڑا ہے جس پر اشتیاق صاحب نے آخری سانس لی تھی،یہ تاسف اور یہ بے حسی یہاں برسوں تک بال کھولے پڑی رہے گی،کیوں؟ کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ملک کے سب سے بڑے ادیب نے طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑا،اگر ائیرپورٹ پر ڈاکٹر ہوتا تو شاید وہ بچ جاتے لیکن یہ اگر اور مگر اشتیاق صاحب جیسے لوگوں کے لیے نہیں ہے،یہ لفظ میاں نواز شریف اور شجاعت عظیم جیسے لوگوں کے لیے بنے ہیں،یہ لوگ ہمیشہ قائم رہیں گے جب کہ اشتیاق صاحب جیسے لوگ بورڈنگ پاس ہاتھوں میں پکڑ کر دنیا سے اسی طرح رخصت ہوتے رہیں گے،رہے نام سدا بے حسی کا۔
معافی اور توبہ
جاوید چوہدری اتوار 1 نومبر 2015
’’ اچھا تم بتاؤ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے بڑا تحفہ کیا دیا تھا،، وہ مسکرائے اور میری طرف دیکھا، میں سوچ میں پڑ گیا، وہ اس دوران میری طرف دیکھتے رہے، میں نے تھوڑی دیر سوچا اور عرض کیا ’’ شعور،، انھوں نے انکار میں سر ہلا دیا، میں نے عرض کیا ’’ عقل‘‘ وہ فوراً بولے ’’ شعور اور عقل دونوں ایک ہی چیز ہیں‘‘ میں نے مزید سوچا اور عرض کیا ’’ آکسیجن، سورج کی روشنی، پانی، خوراک اور جمالیاتی حس‘‘ انھوں نے ناں میں گردن ہلا دی، میں نے عرض کیا ’’تعمیر کا فن، انسان کائنات کی واحد مخلوق ہے جو پتھروں کو ہیرے کی شکل دے سکتی ہے۔
جو مٹی کا محل بنا سکتا ہے اور جو ریت کے ذروں کو شیشے میں ڈھال سکتا ہے‘‘ وہ مسکرائے اور انکار میں سر ہلا دیا، میں نے اس کے بعد انسان کی تمام خوبیوں اور صلاحیتوں کا نام لینا شروع کردیا لیکن وہ انکار میں سر ہلاتے رہے یہاں تک کہ میں تھک گیا اور بے بسی سے ان کی طرف دیکھنے لگا، وہ مسکرائے اور نرم آواز میں بولے ’’ آپ نے انسان کی جن خوبیوں اور صلاحیتوں کا ذکر کیا وہ تمام اللہ تعالیٰ کی دین ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے یہ خوبیاں قائم اور دائم رہتی ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے تو انسان فرعون ہو یا نمرود یا بش اس کی خوبیاں اس کی خامیاں بن جاتی ہیں اور وہ دنیا میں زندہ لاش بن کر رہ جاتا ہے‘‘ میں خاموشی سے سننے لگا، وہ بولے ’’ میں آپ کو اب اس سب سے بڑے تحفے کے بارے میں بتاتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا‘‘ میں ہمہ تن گوش ہوگیا، وہ بولے ’’ قدرت نے انسان کو اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی صلاحیت سے نواز رکھا ہے۔
دنیا کی کوئی دوسری مخلوق، کوئی خاکی یا نوری پیکر اس خوبی کی مالک نہیں‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’ جناب میں آپ کی بات نہیں سمجھا‘‘ وہ بولے ’’ مثلاً تم چاند کو لے لو، اللہ تعالیٰ نے جب کائنات بنائی تو اس نے چاند میں ایک پروگرام فیڈ کر دیا اور چاند اب اس پروگرام کے تحت چمک رہا ہے اور جب تک قدرت پروگرام نہیں بدلے گی یہ چاند اسی طرح چمکتا رہے گا، آپ سورج ، ستاروں اور سیاروں کولے لیجیے، زمین کی حرکت کو لیجیے، ہواؤں، فضاؤں ،ندیوں اور نالوں کو لے لیجیے، دریاؤں، سمندروں اور پہاڑوں کو لے لیجیے، زلزلوں، طوفانوں اور سیلابوں کو لے لیجیے، یہ تمام ایک پروگرام کے تحت چل رہے ہیں اور قدرت یہ پروگرام فیڈ کر کے ان سے لاتعلق ہو گئی‘‘ وہ خاموش ہوگئے۔
میں نے عرض کیا ’’ جناب میں اب بھی آپ کا نقطہ نہیں سمجھ سکا‘‘ وہ بولے ’’ دنیا کا کوئی پہاڑ، کوئی درخت، کوئی جانور، کوئی ستارہ اور کوئی سیارہ اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتا لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس خوبی سے نواز رکھا ہے کہ وہ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے، وہ اسے راضی کر سکتا ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’ جناب میں یہی تو آپ سے پوچھ رہا ہوں‘‘ وہ مسکرائے اور بولے ’’ لیکن اس نقطے کو سمجھنے کے لیے مجھے پیچھے تاریخ میں جانا پڑے گا‘‘ میں خاموشی سے سننے لگا، وہ بولے ’’ آپ شیطان اور حضرت آدم ؑ کا واقعہ دیکھئے، اللہ تعالیٰ نے شیطان کو حکم دیا وہ انسان کو سجدہ کرے، شیطان نے حکم عدولی کی ، اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوئے اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راندئہ درگاہ کردیا۔
شیطان آسمانوں سے اترا اور کروڑوں سال سے زمین پر خوار ہو رہا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو گندم کا دانہ چکھنے سے منع فرمایا، حضرت آدم ؑ نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی، اللہ تعالیٰ ان سے بھی ناراض ہوئے اور انھیں بھی آسمان سے زمین پر بھیج دیا لیکن حضرت آدم ؑ کے رویئے اور شیطان کے رویئے میں بڑا فرق تھا‘‘ وہ دم لینے کے لیے رکے اور دوبارہ گویا ہوئے ’’ شیطان زمین پر آنے کے باوجود اپنی بات پر اڑا رہا جب کہ حضرت آدم ؑ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے لگے، وہ سجدے میں پڑے رہتے تھے ۔
روتے جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہی، اپنی غلطی ، اپنے جرم اور اپنے گناہ کی معافی مانگتے جاتے تھے، حضرت آدم ؑ کی توبہ کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول نہ کرلی اور مشیت ایزدی ان سے راضی نہ ہوگئی‘‘ وہ خاموش ہوگئے، ہمارے درمیان خاموشی کے بے شمار پل گزر گئے، جب یہ وقفہ طویل ہوگیا تو میں نے عرض کیا’’ جناب میں اب بھی آپ کی بات نہیں سمجھا‘‘ وہ مسکرائے اور نرم آواز میں بولے ’’ اللہ تعالیٰ کا انسان کے لیے سب سے بڑا انعام توبہ ہے، انسان اس انعام ، اس تحفے کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی ذات کو راضی کر سکتا ہے اور وہ اللہ جو اپنے بندے کی کسی خطا، کسی جرم، کسی کوتاہی اور کسی گناہ سے ناراض ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے مان جاتا ہے اور اس بندے پر اپنے رحم، اپنے کرم اور اپنی محبت کے دروازے کھول دیتا ہے اور یوں انسان سکون میں چلا جاتا ہے‘‘ ۔
وہ رکے اور دوبارہ بولے ’’ جب تک انسان کو اللہ کی محبت، کرم اور رحم نصیب نہیں ہوتا اس وقت تک انسان کو سکون، آرام، چین، خوشی اور مسرت حاصل نہیں ہو تی، خوشی ، خوشحالی اور سکون اللہ کی رضا مندی سے منسلک ہے اور جو شخص، جو قوم اور جو طبقہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی سے محروم ہو جاتا ہے اس کا سکون، خوشی اور خوشحالی چھن جاتی ہے چنانچہ جب بھی انسان کا رزق تنگ ہو جائے، اس کا دل مسرت اور خوشی سے خالی ہو جائے، وہ چین اور سکون سے محروم ہو جائے اور اسے زندگی میں ایک تپش ،ڈپریشن اور ٹینشن کا احساس ہو تو اسے چاہیے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائے ،وہ کثرت سے توبہ کرے اور وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرے‘‘ میں خاموش رہا، وہ بولے ’’ یہ سکون کا ایک نسخہ ہے۔
سکون کا دوسرا نسخہ معافی ہے، ہم لوگ دن میں اوسطاً سو سے تین سو تک غلطیاں کرتے ہیں، اگر ہم ہر غلطی پر معذرت کو اپنی روٹین بنالیں، ہم نے جلدبازی، بے پروائی، نفرت، غصے، تکبر اور ہٹ دھرمی میں جس شخص کا حق مارا، ہم نے جس کو نقصان پہنچایا اور ہم نے جس کو ڈسٹرب کیا، ہم اگر فوراً اس شخص سے معافی مانگ لیں تو بھی ہماری زندگی میں سکون ، آرام اور خوشی آسکتی ہے، ہمیں معافی مانگنے میں کبھی کوتاہی نہیں برتنی چاہیے کیونکہ معافی وہ چٹان ہے جس کے نیچے سکون، خوشی اور خوشحالی کے چشمے چھپے ہیں اور جب تک ہم یہ چٹان نہیں سرکائیں گے۔
ہم خوشی، خوشحالی اور سکون کا ٹھنڈا پانی نہیں پی سکیں گے‘‘ وہ رکے اور دوبارہ بولے ’’ یاد رکھو دنیا میں صرف اور صرف شیطان توبہ اور معافی سے دور رہتا ہے جب کہ اللہ کے بندے ان دونوں چیزوں کو اپنی روٹین بنا لیتے ہیں، ہٹ دھرمی، تکبر، ظلم، ضد، نفرت اور غصہ شیطان کی خامیاں ہیں اور جن لوگوں کی ذات میں یہ ساری خامیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں، تم کبھی ان کے منہ سے توبہ اور معافی کا لفظ نہیں سنو گے چنانچہ تم کبھی ان لوگوں کو پرسکون، خوش اور خوشحال نہیں پاؤ گے، یہ دولت مند ہو سکتے ہیں لیکن یہ دولت انھیں خوشی اور سکون فراہم نہیں کرتی، تم ان لوگوں کا انجام بھی اچھا ہوتا نہیں دیکھو گے جب کہ معافی اور توبہ کرنے والے لوگوں میں تمہیں غصہ، نفرت،ضد، ظلم، تکبر اور ہٹ دھرمی نہیں ملے گی اور تمہیں یہ لوگ کبھی پریشان، ڈپریس اور ٹینس نہیں ملیں گے چنانچہ ہر لمحہ لوگوں سے معافی مانگتے رہو اور اللہ سے توبہ کرتے رہو، تمہاری زندگی سے کبھی سکون، خوشی اور خوشحالی کم نہیں ہوگی‘‘ وہ خاموش ہوگئے، میں نے ان کے گھٹنے چھوئے اور باہر آگیا۔
زلزلے کیوں آتے ہیں
جاوید چوہدری جمعـء 30 اکتوبر 2015
جولیان مینٹل امریکا کا فائیو اسٹار وکیل تھا‘ وہ ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا‘ نیویارک میں ایک بڑی لاء فرم کا مالک تھا‘ اس کے پاس اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین ترین قانونی ماہرین تھے‘ وہ فیس بھی کروڑوں میں وصول کرتا تھا لہٰذا وہ امراء کا وکیل کہلاتا تھا‘ اس کے بارے میں مشہور تھا‘ وہ جس کیس پر ہاتھ ڈال دیتا تھا‘ وہ اس کو جیت کر ہی رہتا تھا‘ امریکا کی بڑی کمپنیاں اور امیر ترین لوگ اس کے کلائنٹ تھے‘ لوگ اس کی میز پر بلینک چیک چھوڑجاتے تھے۔
وہ خود بھی رئیس شخص تھا‘ لاطینی امریکا میں ذاتی جزیرے کا مالک تھا‘ ذاتی جیٹ جہاز تھا‘ نیویارک کے مہنگے ترین علاقے میں مہنگے فلیٹ میں رہتا تھا‘ اس کے پاس سرخ رنگ کی ایک ایسی فراری کار بھی تھی جو کمپنی نے دنیا کے صرف چند لوگوں کے لیے بنائی تھی اور وہ روزانہ نیویارک کے مہنگے ترین ریستوران میں کھانا کھاتا تھا اور مہنگے ترین شراب خانوں میں بیٹھتا تھا‘ یہ اس کی زندگی کا ایک پہلو تھا‘ دوسرا پہلو یکسر مختلف تھا‘ وہ اپنے پیشے کو اپنی ذات سے زیادہ اہمیت دیتا تھا‘ وہ بیس گھنٹے مصروف رہتا تھا‘ مقدموں کی فائلیں پڑھتے پڑھتے میز پر ہی سو جاتا تھا۔
بیوی طلاق لے چکی تھی‘ بچے تھے نہیں‘ دوست اس نے بنائے نہیں تھے اور عزیز ‘رشتے دار اور کلاس فیلوز اس کے رویئے کی وجہ سے برسوں پہلے اسے چھوڑ گئے تھے چنانچہ وہ شدید تنہائی کا شکار تھا‘ وہ اس تنہائی کو شراب‘ عورتوں اور کام سے پُر کرنے کی کوشش کرتا تھا‘ اس کوشش نے اسے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا‘ اس کے بال سفید ہو گئے‘ گردن کی جلد لٹک گئی‘ چہرہ سوجھ گیا‘ سانس پھولنے لگی اور معدے میں السر نکل آیا‘ وہ پانی اور ڈبل روٹی کے سوا کچھ نہیں کھا سکتا تھا‘ وہ باون سال کی عمر میں ستر سال کا بوڑھا دکھائی دیتا تھا‘ مصروفیت اور تنہائی جب ایک جگہ جمع ہوتی ہیں تو یہ انسان کو ڈھیر کر دیتی ہیں‘ جولیان کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ وہ ایک دن عدالت میں دلائل دے رہا تھا‘ اچانک اس کے سینے میں درد اٹھا‘ اس نے دل پر ہاتھ رکھا اور جج کے سامنے فرش پر گر گیا۔
جولیان کو خوفناک ہارٹ اٹیک ہوا‘ اسے اسپتال پہنچا دیا گیا‘ وہ ایک ماہ آئی سی یو میں رہا‘ اس ایک مہینے نے جولیان کو اندر سے تبدیل کر دیا‘ اس نے اسپتال میں پڑے پڑے اپنی لاء فرم ساتھیوں کو گفٹ کر دی‘ اپنا گھر‘ اپنا جزیرہ اور اپنا جیٹ طیارہ بھی بیچ دیا اور اپنی عزیز ترین فراری بھی اونے پونے فروخت کر دی‘ وہ اسپتال سے ڈس چارج ہونے کے بعد شہر سے غائب ہو گیا‘ وہ کہاں گیا؟ بڑے عرصے تک لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے رہے لیکن جولیان کی اگلی منزل کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا‘ لوگ اسے آہستہ آہستہ بھول گئے‘ اس واقعے کے تین سال بعد جولیان اچانک نیویارک واپس آ گیا۔
لوگ اسے دیکھ کر حیران رہ گئے کیونکہ بوڑھا‘ بیمار‘ چڑچڑا اور تھکا ہوا جولیان اب شکل سے تیس سال کا جوان لگتا تھا‘ اس کا چہرہ سرخ‘ آنکھیں روشن‘ بال سنہری‘ کمر تیس‘ چھاتی باڈی بلڈرز کی طرح ابھری ہوئی‘ بازو موٹے اور سخت اور ٹانگیں گھوڑے کی طرح مضبوط اور پتلی تھیں‘ وہ دس کلو میٹر دوڑ بھی لگا سکتا تھا اور ہزار ہزار سیڑھیاں بھی چڑھ جاتا تھا‘ نیا جولیان پرانے جولیان سے بالکل مختلف تھا‘ یہ پرسکون بھی تھا‘ صحت مند بھی تھا اور توانائی سے بھرپور بھی تھا‘ لوگوں نے اس سے اس کایا کلپ کا فارمولہ پوچھا‘ جولیان نے بتایا‘ میں جب اسپتال میں داخل ہوا تو مجھے اپنی زندگی کے تجزیئے کا موقع ملا‘ میں نے اس وقت اپنے آپ سے پوچھا‘ جولیان کیا یہ زندگی ہے؟
کیا صرف کام کرنا‘ پیسہ کمانا اور تعیشات جمع کرنا زندگی ہے اور کیا زندگی کا دوسرا نام اندھی مصروفیت‘ تنہائی اور بیماری ہے؟ میرے اندر سے آواز آئی‘ نہیں! زندگی اور زندگی کا مقصد سراسر مختلف ہے‘ مجھے جوانی میں کسی نے بتایا تھا‘ ہندوستان میں بے شمار جوگی رہتے ہیں‘ ان کے پاس پرسکون اور مطمئن زندگی کے نسخے ہیں‘ میں نے اپنے ہارٹ اٹیک کو ویک اپ کال سمجھا اور باقی عمر زندگی کا اصل مقصد تلاش کرنے کے لیے وقف کر دی‘ میں نے اپنی ساری زمین‘ جائیداد بیچی اور بھارت چلا گیا‘ میں بھارت میں مختلف شہروں‘ مختلف آشرموں اور مختلف جوگیوں کے پاس دھکے کھاتا رہا لیکن مجھے پرسکون زندگی کا کوئی فارمولہ نہ ملا‘ میں چلتے چلتے سری نگر پہنچ گیا۔
وہاں ایک چھوٹے سے مندر میں ایک جوگی رہتا تھا‘ مجھے پتہ چلا یہ جوگی بھی میری طرح ایک نامور وکیل تھا‘ وہ بھی میری طرح زندگی سے ایک دن تنگ آگیا‘ اس نے بھی وکالت چھوڑی اور نروان تلاش کرتے کرتے اس مندر میں ڈیرے ڈال لیے‘ میں اس جوگی کے پاس پہنچ گیا‘ وہ اس وقت تک بہت بوڑھا ہو چکا تھا‘ اس نے مجھے بتایا‘ ہمالیہ کی انتہائی بلندیوں پر ایک قبیلہ رہتا ہے‘ یہ لوگ نروان پا چکے ہیں‘ ان کے پاس ایسے نسخے ہیں جن کے ذریعے یہ انسان کو اندر اور باہر دونوں سائیڈ سے بدل دیتے ہیں‘ جوگی کا کہنا تھا‘ میں ان لوگوں کی تلاش میں یہاں پہنچا ہوں لیکن بڑھاپے کی وجہ سے پہاڑوں پر نہیں جا سکتا‘ تم کوشش کرو شاید تم کامیاب ہو جاؤ۔
میرے ہاتھ ٹپ آ گئی‘ میں اٹھا اور پہاڑوں کی طرف چل پڑا‘ میں مہینوں ہمالیہ میں مارا مارا پھرتا رہا‘ بارشیں آئیں‘ طوفان آئے‘ برفیں پڑیں‘ لینڈ سلائیڈنگ ہوئی لیکن میں آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ میں اس قبیلے تک پہنچ گیا‘ وہ کمال لوگ تھے‘ وہ پہاڑوں میں رہتے تھے‘ اپنا اگاتے تھے‘ اپنا کھاتے تھے‘ کسی کے پاس جاتے تھے اور نہ کسی کو پاس آنے دیتے تھے‘ ان میں سے ہر شخص کی عمر سو سال سے زیادہ تھی لیکن وہ ہمارے نوجوانوں سے زیادہ چاک و چوبند تھے۔
ان کی زندگی ڈسپلن میں پروئی ہوئی تھی‘ وہ رات کو جلد سو جاتے تھے اور صبح چار بجے بیدار ہو جاتے تھے‘ وہ لوگ ذہنی‘ جسمانی اور روحانی لحاظ سے بہت تگڑے تھے‘ وہ کسی منفی سوچ کو ذہن کے قریب نہیں بھٹکنے دیتے تھے‘ اگر کبھی کسی کے ذہن میں کوئی منفی سوچ آ جاتی تو وہ فوراً برف کے یخ تالاب میں چھلانگ لگا دیتا اور اس وقت تک پانی میں رہتا جب تک اس کا جسم نیلا نہیں پڑ جاتا تھا‘ وہ چپ کا روزہ بھی رکھتے تھے‘ وہ پورا پورا دن کسی سے کلام نہیں کرتے تھے‘ وہ سمجھتے تھے‘ انسان کی سوچ جب تک صحت مند نہیں ہوتی‘ انسان اس وقت تک جسمانی لحاظ سے صحت مند نہیں ہو سکتا اور جب تک آپ اپنی سوچ کو نیک نہیں بناتے‘ آپ اس وقت تک جسمانی نیک بھی نہیں ہو سکتے‘ وہ سمجھتے تھے۔
آپ جب تک اندر سے تبدیل نہیں ہوتے‘ آپ اس وقت تک باہر کی دنیا نہیں بدل سکتے‘ ان کا خیال تھا‘ انسان کو اندر سے پرسکون ہونا چاہیے‘ بیرونی دنیا خود بخود ٹھیک ہو جائے گی‘ جولیان نے بتایا‘ میں تین سال اس قبیلے میں رہا‘ میں نے ان تین برسوں میں ان سے زندگی کا اصل فارمولہ سیکھا‘ ہمیں سونا کیسے چاہیے‘ ہمیں جاگنا کیسے چاہیے‘ ہم سورج اور چاند سے کیسے توانائی حاصل کر سکتے ہیں‘ جنگل اور پہاڑ انسان کے لیے کیوں ضروری ہیں‘ ہمیں کیا کھانا چاہیے اور ہمیں کس کس چیز سے پرہیز کرنا چاہیے‘ ہم اس عارضی زندگی کو کیسے مفید بنا سکتے ہیں۔
ہم ایک ایک لمحے کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں اور ہم اپنی سوچوں کو کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں؟ میں نے ان سے یہ سارے فارمولے سیکھ لیے‘ میں جب ماہر ہوگیا تو انھوں نے مجھے حکم دیا‘ تم اب واپس جاؤ اور اپنے لوگوں کو شاندار اور مطمئن زندگی کے یہ سارے گر سکھاؤ‘ میں اس جنت سے واپس نہیں آنا چاہتا تھا لیکن انھوں نے مجھے زبردستی یہاں بھجوا دیا‘ جولیان مینٹل بعد ازاں پوری زندگی لوگوں کو روحانی‘ ذہنی اور جسمانی صحت کے گر سکھاتا رہا‘ وہ نیویارک میں ’’امریکی بھکشو‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا‘ اس کی زندگی اور اس کی تعلیمات پر رابن شرما نے ایک انتہائی خوبصورت کتاب لکھی‘ یہ کتاب بیسٹ سیلر ہے اور یہ اب تک جولیان مینٹل جیسے لاکھوں لوگوں کی زندگی بدل چکی ہے‘ یہ ایک ایسے بھکشو کی کہانی ہے جس نے نروان کے لیے اپنی فراری تک بیچ دی‘ جس نے خود بھی نروان پایا اور جو آخری سانس تک لوگوں میں نروان بانٹتا رہا‘ وہ کہتا تھا‘ آپ فیصلہ کریں‘ زندگی آپ نے گزارنی ہے یا پھر زندگی نے آپ کو گزارنا ہے۔
ہم لوگ زند گی بھر جولیان مینٹل جیسی صورتحال سے دوچار رہتے ہیں‘ ہم زندگی کے کسی ایک ٹریک پر سرپٹ بھاگتے ہیں اور اس چھوٹے سے ٹریک کو مکمل زندگی سمجھ بیٹھتے ہیں‘ قدرت ہمیں دیکھتی رہتی ہے‘ اسے پھر ہم پر رحم آ جاتا ہے اور وہ کبھی بھاری مالی نقصان‘ کبھی ایکسیڈنٹ‘ کبھی مقدمے اور کبھی بیماری کی شکل میں ہمیں جھٹکا دے دیتی ہے‘ قدرت اس جھٹکے کے ذریعے ہمیں زندگی کے چھوٹے سے‘ معمولی سے ٹریک سے نکال کر زندگی کے اصل بحر بیکراں سے متعارف کرانا چاہتی ہے لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس جھٹکے کو مصیبت یا امتحان سمجھ کر اپنا علاج کراتے ہیں‘ معاملات سیٹل کرتے ہیں اور دوبارہ پرانے کنوئیں میں چھلانگ لگا دیتے ہیں‘ قدرت کچھ عرصہ بعد ایک آدھ اور جھٹکا دیتی ہے۔
یہ دوسری ویک اپ کال ہوتی ہے‘ انسان اگر اس کال پر بھی آنکھ نہ کھولے تو پھر قدرت مایوس ہو جاتی ہے‘ وہ شخص زندگی کی بساط سے فارغ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو بٹھا دیتا ہے‘ آپ دنیا میں فلاح وبہبود کرنے والے تمام لوگوں کا پروفائل نکال کر دیکھ لیجیے‘ آپ کو ان کی زندگی میں جولیان مینٹل جیسے ایسے حادثے ملیں گے جنہوں نے ان کا زاویہ نظر‘ ان کی زندگی کا سارا دھارا بدل دیا اور وہ چھوٹے کنوئیں سے نکل کر زندگی کے بحر بیکراں سے جا ملے‘ قدرت یہ کرم صرف لوگوں پر نہیں کرتی‘ یہ قوموں کو جگانے کے لیے بھی ایسے ہی جھٹکے دیتی ہے۔
یہ قوموں پر بیماریاں‘ آتش فشاں‘ سیلاب‘ سونامی اور زلزلے بھیج کر انھیں بتاتی رہتی ہے تم اگر اپنی نسلوں کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہو تو تم اپنے سسٹم بہتر بنا لو‘ دنیا کی جو قومیں قدرت کے جھٹکوں میں چھپا یہ پیغام سمجھ جاتی ہیں‘ وہ بچ جاتی ہیں اور جو نہیں سمجھتیں‘ وہ کھنڈر بن جاتی ہیں‘ یہ دوسرا زلزلہ قدرت کی فائنل کال تھا‘ ہم نے اگر اس کال کو سیریس نہ لیا تو قدرت یقینا ہماری بساط بھی لپیٹ دے گی‘ کیوں؟ کیونکہ قدرت کسی کی رشتے دار نہیں ہوتی‘ یہ کسی سے رعایت نہیں کرتی۔
ویک اپ کال
جاوید چوہدری جمعرات 29 اکتوبر 2015
میرا پہلا رد عمل خوف تھا، میں خوف کے عالم میں کبھی ادھر بھاگتا تھا اور کبھی ادھر، مالی مجھے روکنے کی کوشش کر رہا تھا، وہ مجھے آوازیں بھی دے رہا تھا اور میرے پیچھے بھی بھاگ رہا تھا، میں گھر کے اندر جانے کی کوشش کر رہا تھا، میری بیوی اور بچے اندر تھے، میں انھیں جلد سے جلد باہر نکالنا چاہتا تھا لیکن راستے میں مالی کھڑا تھا، وہ مجھے بار بار پکڑ لیتا تھا، گھر رعشے کے مریض کی طرح کانپ رہا تھا، کھڑکیاں بج رہی تھیں، شیشے آوازیں دے رہے تھے، مکان کبھی دائیں جانب جھکتا تھا اور کبھی بائیں جانب، میں لان میں کھڑا تھا، میں کبھی مکان کو دیکھتا تھا، کبھی بچوں کو آوازیں دیتا تھا اور کبھی اندر کی جانب دوڑتا تھا، میرے پاؤں کی مٹی کھسک رہی تھی۔
مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا زمین ابھی پھٹ جائے گی اور میں زمین میں سو ڈیڑھ سو کلومیٹر نیچے دھنس جاؤں گا، مجھے موت کا تقریباً یقین ہو چکا تھا، میں نے اپنی طرف سے آخری کلمہ اور آخری درود بھی پڑھ لیا، میں نے توبہ بھی کر لی اور اللہ تعالیٰ سے گناہوں اور حسرت گناہوں کی معافی بھی مانگ لی، یہ ایک منٹ اور بیس سیکنڈ کا زلزلہ میری زندگی کا مشکل ترین وقت تھا، مجھے اس وقت اپنے اور اپنے خاندان کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا، زمین نے سانس لی اور پوری کائنات تھم گئی، میرے بچے بھی باہر آ گئے، ہم شام تک اللہ کا شکر ادا کرتے رہے، آج زلزلے کو گزرے تین دن ہو چکے ہیں لیکن میں ابھی تک اپنی ٹانگوں میں ’’وائبریشن‘‘ محسوس کرتا ہوں، زلزلہ جا کر بھی میرے وجود سے نہیں گیا، یہ ابھی تک مجھے ہلا رہا ہے۔
زلزلے کے بعد دو نئے رد عمل سامنے آئے، پہلا ردعمل زندگی کی بے ثباتی تھا، انسان اللہ کی ایک ایسی ڈھیٹ مخلوق ہے جو اس کائنات میں خود کو اہم ترین، ناگزیر ترین اور حتمی ترین سمجھتا ہے، انسان کی پلاننگ میں ہر چیز شامل ہوتی ہے لیکن موت نہیں ہوتی، یہ ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچتا ہے اور نہ ہی مرنے کے بارے میں۔ انسان کا غرور، اس کی نفرت، اس کی حقارت اور اس کی دشمنیاں تک حتمی ہوتی ہیں، یہ سمجھتا ہے دنیا کے تمام لوگ مر جائیں گے، ساری عمارتیں، سارے محلات ڈھے جائیں گے لیکن مجھے موت آئے گی اور نہ ہی میری عمارت گرے گی لیکن جب قضا آتی ہے تو یہ اسے ایک اضافی سانس بھی نہیں دیتی، میں پچھلے دس سال سے روزانہ اخبارات میں سب سے پہلے گزشتہ روز مرنے والوں کی خبریں پڑھتا ہوں، میں روز یہ خبریں پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں، زندگی کا مزید ایک دن ملنے پر باری تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور مجھے جس جس شخص نے تکلیف دی، میں صدق دل سے اس کو روز معاف کرتا ہوں اور میں نے جس جس شخص کو آزار پہنچایا، میں دل میں اس کا نام لے کر اس سے معافی مانگتا ہوں اور یہ فیصلہ کرتا ہوں، وہ شخص مجھے جب بھی اور جہاں بھی ملے گا میں سلام میں بھی پہل کروں گا اور اس سے معذرت بھی کروں گا۔
میں پچھلے چند برسوں سے یہ بھی محسوس کر رہا ہوں، ہم لوگ زندگی نہیں گزار رہے بلکہ زندگی ہمیں گزار رہی ہے، ہم صبح سے لے کر رات تک پاگل کتوں کی طرح دوڑتے ہیں، کیا یہ زندگی ہے؟ ہماری زندگی کا گزرا ہوا ہر لمحہ جب واپس نہیں آئے گا، ہم جب اس کرہ ارض پر صرف ایک بار اترے ہیں تو پھر ہم زندگی اور وقت جیسی نعمت ضایع کیوں کرتے ہیں، ہم اپنی، خالص اپنی زندگی کب گزاریں گے؟ یہ سوچ مجھے اندر باہر سے بدلتی جا رہی ہے، مجھے سیاحت، مطالعے، وظائف اور فلموں کا شوق ہے چنانچہ میں نے اپنی زندگی میں یہ چاروں عناصر بڑھا لیے ہیں، مجھے دو دن بھی مل جائیں تو میں ان جگہوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہوں جنھیں میں مرنے سے پہلے دیکھنا چاہتا ہوں، میں زندگی میں حضرت موسیٰ ؑ کے راستے پر بھی سفر کرنا چاہتا ہوں اور مارکو پولو اور ابن بطوطہ کے ٹریک پر بھی جانا چاہتا ہوں اور میں سکندر اعظم، چنگیز خان اور امیر تیمور کے راستوں کو بھی کھنگالنا چاہتا ہوں اور میں بیت المقدس میں بھی شکرانے کے دو نفل ادا کرنا چاہتا ہوں۔
مجھے یقین ہے اللہ تعالیٰ مجھے اتنی مہلت ضرور عنایت کرے گا، زلزلے کے بعد پہلے رد عمل نے میرے شوق کو مہمیز دے دی، میرا یہ یقین پختہ ہو گیا، زندگی بے اعتبار ہے چنانچہ جو کرنا ہے وہ آج ہی کرنا ہے، کل کا انتظار فضول ہے، اللہ تعالیٰ کے سسٹم میں کل نام کی کوئی چیز موجود نہیں، نہ گزرا ہوا کل اور نہ ہی آنے والا کل، بس آج ہی آج ہے اور دنیا کے ہر زندہ انسان کو اس آج کو ذہن میں رکھ کر زندگی گزارنی چاہیے، ہم اگر اپنے ہر دن کو آخری سمجھ کر گزارنا شروع کر دیں تو ہم زندگی کی بے شمار کوتاہیوں سے بچ جائیں، ہمارے پاس غیبت، غرور، لیگ پُلنگ، بدتمیزی، چوری، قتل، زنا اور دوسروں پر الزام تراشی کے لیے وقت ہی نہیں بچے گا، ہم شکر، توبہ اور وقت کا صحیح استعمال بھی کریں گے، میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سمجھتا ہوں، ہم زندگی کے ہر دن کو آخری دن سمجھ لیں تو ہم کسی تبلیغ کے بغیر فوراً صراط مستقیم پر آ جائیں، ہم بندے بن جائیں۔
زلزلے کے بعد دوسرا رد عمل ریاستی تھا، ہم میں قومی سطح پر بحرانوں سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں، ہم نے قوم کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ نہیں سکھائی، دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے جاپان میں آتے ہیں، وہاں سالانہ چھوٹے بڑے اوسطاً 15سو زلزلے آتے ہیں، جاپان نے زلزلوں سے نبٹنے کے لیے نہ صرف قوم کو تیار کر لیا بلکہ اس نے زلزلوں کا وارننگ سسٹم بھی ڈویلپ کر لیا، زلزلے کے دوران زمین میں دو قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں، پہلی قسم کو ’’پی ویوز‘‘ کہتے ہیں، دوسری قسم ’’ایس ویوز‘‘ کہلاتی ہے، زلزلے کے وقت ’’پی ویوز‘‘ تیزی سے حرکت کرتی ہیں، یہ مہلک نہیں ہوتیں، مہلک ’’ایس ویوز‘‘ ہوتی ہیں، یہ تباہی پھیلا دیتی ہیں، جاپان نے ’’پی ویوز‘‘ کو مانیٹر کرنے والے سینسرز بنا لیے ہیں، یہ سینسرز ’’پی ویوز‘‘ کو محسوس کرتے ہیں، فوراً مرکزی دفتر کو اطلاع دیتے ہیں اور مرکزی سسٹم چند سیکنڈ میں پورے ملک میں خطرے کے سائرن بجا دیتا ہے یوں لوگ فوراً عمارتوں سے باہر آ جاتے ہیں، ٹریفک رک جاتی ہے، ٹرینیں سست ہو جاتی ہیں اور بجلی اور گیس کے مرکزی کنیکشنز کے سسٹم ایکٹو ہو جاتے ہیں۔
حکومت نے پوری قوم کو ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کی ٹریننگ بھی دے دی ہے چنانچہ وہاں بچے تک ارلی وارننگ کے ساتھ محفوظ مقامات پر شفٹ ہو جاتے ہیں، یہ سسٹم اب انڈونیشیا، رومانیہ، تائیوان، میکسیکو اور کیلی فورنیا سمیت دنیا کے ان تمام ملکوں میں لگ چکا ہے جو فالٹ لائین پر موجود ہیں، ہم بھی اگر ذرا سی کوشش کریں تو جاپان ہمیں نہ صرف یہ سسٹم دے سکتا ہے بلکہ یہ ہمارے لوگوں کو ٹریننگ بھی دے دے گا، ہم یہ سسٹم لیں، ٹریننگ لیں اور یہ سسٹم بنا کر پورے ملک میں لگا دیں، اس سے ہم ہزاروں لاکھوں جانیں بچا لیں گے، آپ خود سوچئے جب لوگ سائرن کی آواز کے ساتھ گھروں سے باہر آ جائیں گے تو کتنی جانیں بچ جائیں گی۔
ہم اگر سبق سیکھنا چاہیں تو ہم 2005ء اور 2015ء کے زلزلوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، ہمارے نظام میں بے شمار خامیاں ہیں، ہمارے سرکاری ادارے بھی اتنے ہی منقسم ہیں جتنے ہم آپس میں تقسیم ہیں، 2005ء کے زلزلے کے بعد بحالی کا کام ایرا، صوبائی حکومتوں، وفاق اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے درمیان الجھ کر رہ گیا، آپ نیو بالاکوٹ کی مثال لے لیجیے، چین نے پرانے بالاکوٹ کے ساتھ نیا شہر تعمیر کر دیا لیکن ہم آج تک اس شہر میں کوئی ایک خاندان آباد نہیں کر سکے، زلزلے کو دس سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی2243 اسکول اور پچاس فیصد سرکاری اسپتال اور عمارتیں تعمیر نہیں ہو سکیں، آج بھی ڈیڑھ لاکھ بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، آپ دوسری اقوام کا کمال اور اپنا فکری اور عملی زوال دیکھ لیجیے، دنیا کے جس ملک نے بھی زلزلے کے بعد ہماری بحالی کا منصوبہ شروع کیا، وہ ملک منصوبہ مکمل کر کے واپس چلا گیا لیکن ہم نے جو بھی منصوبہ شروع کیا وہ آج تک ادھورا ہے، ہم دس سال سے 2005ء کے زلزلے کو رو رہے تھے لیکن 26 اکتوبر کو نیا زلزلہ آ گیا، اللہ کرم کرے، ہم نہ جانے کب تک ان متاثرین کو فائلوں میں لے کر پھرتے رہیں گے، ہم ان زلزلوں سے کچھ اور سیکھیں یا نہ سیکھیں لیکن ہم یہ ضرور سیکھ سکتے ہیں، ملک میں آیندہ کوئی منصوبہ ادھورا نہیں رہنا چاہیے، ہم کسی فائل کو اوپن نہیں چھوڑیں گے، کاش وزیراعظم فیصلہ کریں۔
ملک میں اب جو بھی فائل بنے گی اس فائل پر منصوبہ مکمل کرنے کی تاریخ بھی لکھی جائے گی اور اگر وہ منصوبہ یا وہ کام اس مدت میں مکمل نہیں ہوتا تو پھر تاخیر کے ذمے داروں کا احتساب ہو گا، کاش وزیراعظم اعلان کر دیں ہم 26 اکتوبر 2015ء کے تمام متاثرین کو جون 2016ء تک بحال کر دیں گے، ملک میں 30 جون کے بعد کوئی متاثرہ شخص بچے گا اور نہ ہی ہی کوئی منصوبہ۔ کاش ہم فوری طور پر نئے بلڈنگ کوڈز بھی بنا دیں اور ملک کا کوئی ادارہ، کوئی شخص ان کوڈز کی خلاف ورزی کی جرأت نہ کرے، ملک کی تمام تین منزلہ عمارتوں میں ایمرجنسی ایگزٹ بھی موجود ہوں اور آگ پر قابو پانے والے آلات بھی۔
ہم اسکولوں کے بچوں کو زلزلے، سیلاب اور آتش زدگی سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی ٹریننگ بھی دیں، تمام سرکاری ملازمین کے لیے بھی یہ ٹریننگ لازمی قرار دے دی جائے اور ان کے سرٹیفکیٹ باقاعدہ سروس فائل میں لگائے جائیں، جو سرکاری ملازم ٹریننگ نہ لے اسے پروموشن نہ دی جائے، پرائیویٹ اداروں کے لیے بھی’’ایس او پیز‘‘ بنائے جائیں اور ان سے ان پر عمل بھی کرایا جائے، یہ فیصلہ کر لیا جائے ملک میں کوئی شخص اپنی عمارت خود نہیں بنائے گا، تعمیرات کی باقاعدہ کمپنیاں بنائی جائیں اور یہ کمپنیاں فرش سے لے کر چھت تک تعمیر کریں، تعمیرات کے لیے آرکی ٹیکٹ بھی لازم قرار دے دیے جائیں اور اگر کوئی عمارت ناقص پائی جائے تو تعمیراتی کمپنی اور آرکی ٹیکٹ کو بھاری جرمانہ کیاجائے، اس سے ملک میں روزگار کے نئے ذرایع بھی پیدا ہوں گے اور کوالٹی آف لیونگ اور انسانی سیکیورٹی میں بھی اضافہ ہو گا۔
ہم لوگ اگر 26 اکتوبر کے دن کو ’’ویک اپ‘‘ کال سمجھ کر جاگ گئے تو یہ دن اس نئے پاکستان کا پہلا دن ثابت ہو گا جس کے انتظار میں قوم نے 70 سال جاگ کر گزار دیے لیکن اگر ہم نے یہ دن بھی دوسرے ہزاروں دنوں کی طرح ضایع کر دیا تو پھر شاید قدرت ہمیں تیسری ویک اپ کال نہ دے اور ہم نیند ہی میں دنیا سے پرواز کر جائیں، پمپئی، موہن جو دڑو اور ہڑپہ کے ان لوگوں کی طرح جنہوں نے قدرت کی ویک اپ کالز پر جاگنے سے انکار کر دیا تھا۔
کیا ہم اس کریکٹر کے ساتھ
جاوید چوہدری جمعـء 23 اکتوبر 2015
میرے لیے موت کی آغوش کسی فاسق شخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے ہزار درجے بہتر ہے،حضرت امام عالی مقام:فوٹو:فائل
حضرت امام حسینؓ اتمام حجت فرماچکے تھے‘ وہ واپس اپنے خیمہ کی طرف مڑے لیکن مالک بن عروہ اپنا گھوڑا لے کر سامنے آگیا‘لشکر امام کے گرد آگ جل رہی ہے‘ وہ گستاخ مسکرایا اور کہا’’ اے حسینؓ! تم نے دوزخ کی آگ یہیں لگا لی (نعوذ باللہ )‘حضرت امام حسینؓ نے اس کا گستاخانہ جملہ سن کرفرمایا ’’اے دشمن خدا تو جھوٹا ہے‘‘ مسلم بن سجوعہ نے اس کے منہ پر تیر مارنا چاہا مگر سیدنا حضرت امام حسینؓ نے فرمایا ’’خبر دار! میری طرف سے کوئی جنگ کی ابتدا نہیں کرے گا‘‘ یہ فرما کر امام عالی مقام نے اپنا دست مبارک بارگاہ خدا وندی میں اٹھایا اور عرض کیا ’’یا اللہ! عذاب دوزخ سے قبل اس گستاخ کو دنیا کی آتش میں مبتلا کردے‘‘۔
ابھی امام عالی مقام کے اٹھے ہاتھ نیچے نہیں آئے تھے کہ مالک بن عروہ کے گھوڑے کا پاؤں زمین کے ایک سوراخ میں پھنس گیا ‘ وہ گھوڑے سے گرا‘ اس کا پاؤں رکاب میں الجھا ‘ گھوڑا اسے لے کر بھاگ کھڑا ہوا اور اسے آگ کی خندق میں ڈال دیا۔ ایک اور گستاخ نے حضرت امام حسینؓ کے سامنے آ کر کہا ’’اے حسینؓ! دیکھ دریائے فرات کیسے موجیں مار رہا ہے‘ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں‘ تمہیںاس میں سے ایک قطرہ بھی نہیں ملے گا‘ تم پیاسے ہی مر جاؤ گے‘‘ (نعوذ باللہ)۔ امام عالی مقام نے پھر بارہ گاہ الٰہی میں عرض کیا ’’یا اللہ اس کو پیاسا مار دے‘‘آپؓ کا یہ فرمانا تھا ‘ اس گستاخ کا گھوڑا بھی بھاگ کھڑا ہوا ‘ وہ شخص گھوڑے کو پکڑنے کے لیے دوڑا اور اچانک اس پر پیاس کی شدت غالب آ گئی اور العطش العطش پکارنے لگا‘ لوگ پانی اس کے منہ کو لگاتے تھے لیکن وہ پانی کا ایک قطرہ تک پی نہیں پاتا تھا حتیٰ کہ وہ اسی طرح پانی پانی پکارتا مر گیا‘‘۔
ہم اگر اسلامی دنیا اورمسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ تلاش کریں تو ہم بے اختیار کہہ اٹھیں گے‘ کریکٹر‘ مسلمان 14 سو سال سے کریکٹر کی وجہ سے مار کھا رہے ہیں‘ ہماری صفوں میں ہر دور میں ابن زیاد اور شمر جیسے لوگ شامل ہو جاتے ہیں اور یہ شمر اپنے چند برسوں کے مفاد اور تھوڑے سے فائدے کے لیے حضرت امام حسینؓ جیسی شخصیات کو اپنے گھوڑوں کے سموں تلے روند دیتے ہیں‘ ہم لوگ اندر سے کیسے ہیں‘ آپ صرف کربلا کے سانحے کی تفصیلات پڑھ لیں‘ آپ مسلمانوں کے کریکٹر سے آگاہ ہو جائیں گے۔
کوفہ کے چند لوگ حضرت امام حسینؓ کے پاس آئے‘ آپؓ نے ان سے دریافت کیا’’ تمہاری پارٹی کے لوگوں کا کیا خیال ہے؟‘‘ مجمع بن عبداللہ العامری نے جواب دیا’’ سر برآوردہ قسم کے لوگ آپ کے خلاف جتھہ بنائے ہوئے ہیں‘ ان کو بڑی بڑی رشوتیں مل چکی ہیں ‘حکومت نے ان کی خواہشات پوری کر دی ہیں‘ وہ سب آپ کے خلاف برسر پیکار ہوں گے‘ رہے عوام تو ان کے دل آپ کی جانب مائل ہیں مگر ان کی تلواریں کل آپ کے خلاف اٹھیں گی‘‘۔عبید اللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کو بھیجا ‘ حضرت امام حسین ؓ نے فرمایا’’ عمر! میری تین باتوں میں سے کوئی ایک بات مان لو‘‘ وہ خاموش رہا‘ آپؓ نے فرمایا ’’ مجھے واپس جانے دو‘ میں جیسے آیا ہوں ویسا ہی واپس چلا جاتا ہوں۔
اگر اس سے انکار کرتے ہو تو پھرمجھے یزید کے پاس لے چلو ہم دونوں اپنا فیصلہ خود کر لیں گے اور اگر یہ بھی پسند نہیں تو پھر مجھے ترکوں کی طرف جانے دو ‘‘ عمر بن سعد نے یہ پیغام ابن زیاد تک پہنچادیا‘ عمر بن سعد کا خیال تھا‘ ہمیں حضرت امام حسینؓ کو یزید کے پاس بھیج دیناچاہیے مگر شمر ذی الجوشن نہیں مانا‘ اس کا کہنا تھا‘حضرت امام حسین ؓ کو آپ کا حکم ماننا چاہیے‘ یہ بات حضرت امام حسین ؓ تک پہنچادی گئی‘ آپؓ نے فرمایا ’’میں یہ نہیں کروں گا‘‘ عمر بن سعد حضرت امام حسینؓ سے لڑنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ ابن زیاد نے شمر ذی الجوشن کو بھیج دیا اور اسے حکم تھا’’ اگر عمرجنگ کے لیے تیار نہ ہوتواسے قتل کر دو اور اس کی جگہ لے لو‘حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بھی بند کر دو‘‘۔ امام عالی مقام اور ان کے ساتھی سب تلواریں حمائل کیے ہوئے تھے‘ حضرت امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا پانی پی لو ‘ اپنے گھوڑوں کو بھی پلاؤ اور دشمنوں کے گھوڑوں کو بھی پانی پینے دو۔
عمر بن سعد اور شمر ذی الجوشن نے حضرت امام حسینؓ اوران کے ساتھیوں کا نویں محرم کی شام گھیراؤ کر لیا‘ اس رات حضرت امام حسینؓ نے اپنے اہل خاندان کو وصیت کی‘ اپنے ساتھیوں کے سامنے تقریر کی اور ان کو اختیار دیا‘ آپ جانا چاہیں تو چلے جائیں ‘ آپ ؓ نے فرمایا ‘ میں دشمنوں کا تنہا ہدف ہوں لیکن ان کے بھائیوں‘ صاحبزادوں اور بھائیوں کے صاحبزادوں نے جواب دیا ‘ آپؓ کے بعد ہماری زندگی بے کار ہے۔
اللہ ہم کووہ نہ دکھائے جسے ہم پسند نہیں کرتے‘ حضرت عقیلؓ کے صاحبزادوں نے کہا‘ ہماری جانیں‘ ہمارے مال اور ہمارے اہل و عیال سب آپؓ پر قربان ہوں‘ جو انجام آپؓ کا ہوگا وہ ہمارا ہو گا‘ آپؓ کے بعد ہمارے زندہ رہنے پر تف ہے۔ جمعہ کے دن صبح کی نماز حضرت امام حسینؓ نے ادا کی‘ (بعض روایات کے مطابق ہفتہ کا دن تھا) ‘ آپ کے ساتھیوں میں بتیس سوار اور چالیس پیدل تھے‘حضرت امام حسینؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے ‘ آپؓ نے قرآن کریم اپنے سامنے رکھ لیا‘ آپؓ کے صاحبزادے علی بن حسین (حضرت زین العابدین) بیمار اور کمزور تھے۔
وہ بھی جنگ کے لیے تیار ہوئے لیکن آپؓ نے ان کو روک دیا‘ حضرت امام حسینؓ دشمن کے سامنے پہنچے توآپ انھیں یاد دلانے لگے ‘ لوگو ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں‘ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو‘ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبیؐ کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہؓ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیارؓ میرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ ﷺکا وہ قول یاد نہیں جو انھوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا ‘ یہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے تو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے؟ حر بن یزیدکے دل پر اس تقریر کا اثر ہوا‘ وہ دشمن کی صفوں سے نکل کر آپؓ سے مل گئے۔
شمر آگے بڑھا اور حضرت امام حسینؓ کے رفقاء پر حملے شروع کر دیے ‘ آپؓ کے ساتھی آپؓ کے سامنے جنگ کرتے رہے ‘ آپؓ ان کے لیے دعا کرتے رہے‘ وہ تمام آپؓ کے سامنے شہید ہو گئے ۔آخر میںشمر نے آواز لگائی’’ اب حضرت حسینؓ کی باری ہے‘ انتظار کس چیز کا ہے؟‘‘ یہ آواز سن کر زرعہ بن شریک آپ ؓ کی طرف بڑھا اور آپ کے شانہ مبارک پر وار کیاپھر سنان بن انس نے تیر چلایا جس سے آپؓ گر گئے‘ شمر آپؓ کی طرف بڑھا اور پیچھے سے وار کر کے سر مبارک تن سے جدا کر دیا‘ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد ان کے جسم اطہر کو دیکھا گیا تو اس پر نیزوں کے33 نشان تھے جب کہ دوسری ضربوں کے اس وقت 34 آثار تھے‘ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ 72 جاں نثار شہید ہوئے‘ حضرت امام حسینؓ جس روز شہید ہوئے وہ عاشورہ جمعہ کا دن تھا‘ محرم کا مہینہ اور سنہ 61ہجری تھا‘ آپ کی عمر مبارک اس وقت 56 سال‘پانچ ماہ اور پانچ دن تھی۔
آپ ملاحظہ کیجیے ہم کریکٹر میں کس قدر کمزور ہیں‘ شمر کے لشکر نے حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد اہل بیت کے خیموں کو گھیرا اور اہل بیت کا مال و متاع لوٹنا شروع کر دیا‘ آٹھ دس سال کی ایک چھوٹی سی بچی کے ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے‘ ایک ظالم نے بچی کا بازو پکڑا اور کنگن اتارنا شروع کر دیے‘ وہ کنگن اتارتا جاتا تھا اور ساتھ ساتھ روتا جاتا تھا‘ بچی نے روتے روتے اس سے پوچھا ’’چچا میں تو نواسہ رسول کے غم میں رو رہی ہوں‘ تم کیوں رو رہے ہو‘‘اس بدبخت نے جواب دیا ’’میں جب آپ کے خیموں کو آگ سے جلتے دیکھتا ہوں۔
حضرت امام حسینؓ کا لاشہ دیکھتا ہوں‘ حضرت علیؓ شیر خدا کے خاندان کو کربلا کی ریت پر خون میں لت پت دیکھتا ہوں تو میری آنکھیں ابل آتی ہیں‘‘ بچی نے پوچھا ’’ پھر چچا آپ میرے کنگن کیوں اتار رہے ہیں‘‘ بدبخت نے جواب دیا ’’ میں یہ کنگن اس لیے اتار رہا ہوں کہ یہ اگر میں نہیں اتاروں گا تو یہ کوئی دوسرا اتار لے گا‘‘ آپ ہم مسلمانوں کا کریکٹر ملاحظہ کیجیے‘ واقعہ کربلا کے برسوں بعد کوفہ کے چند علماء کرام حضرت زین العابدین کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا ’’ حضرت یہ فرمائیے گا کیا ہم مسلمان مچھر مار سکتے ہیں‘‘ آپ نے اداس لہجے میں جوب دیا ’’ آپ کیسے لوگ ہیں‘ آپ نے حضرت امام حسینؓ کو کربلا میں شہید کر دیا لیکن مچھر مارنے کے لیے فتویٰ تلاش کر رہے ہیں‘‘ ہم آج بھی ایسے ہی ہیں‘ ہم بڑے سے بڑا ظلم کرتے ہوئے‘ ایک سیکنڈ نہیں سوچتے‘ اس ملک میں دس برسوں میں پچاس ہزار بے گناہ لوگ مار دیے گئے۔
کسی نے کسی سے نہیں پوچھالیکن ہم آج بھی پولیو کی ویکسین کے لیے فتوے تلاش کر رہے ہیں‘ ہم ہر سال غم حسینؓ بھی مناتے ہیں اور مسلمان ہونے کے باجود کسی دوسرے مسلمان کو عزت سے زندگی بھی نہیں گزارنے دیتے‘ حضرت امام عالی مقام نے فرمایا تھا ’’ میرے لیے موت کی آغوش کسی فاسق شخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے ہزار درجے بہتر ہے‘‘ لیکن ہم لوگ فاسقوں کے ساتھ بھی رہتے ہیں اور خود کو حضرت امام حسینؓ کا غلام بھی کہتے ہیں‘ ہم شمر جیسی ظالمانہ زندگی گزارتے ہیں لیکن عزت حضرت امام حسین ؓ جیسی چاہتے ہیں‘ ہم کیسے لوگ ہیں؟کیا ہم اس کریکٹر کے ساتھ دنیا اور آخرت میں اللہ کی مہربانی کے حق دار ہو سکتے ہیں۔
الٹی شلواریں،ٹھنڈے گوشت
جاوید چوہدری جمعرات 22 اکتوبر 2015
اگر دنیا کا کوئی شخص اردو کی روح نکالنا چاہے تو وہ بس اردو سے غالب کو نکال دے، یہ زبان چند سیکنڈ میں بے روح ہو جائے گی اور اگر کوئی شخص اس زبان کو بے ادب کرنا چاہے تو یہ اس سے سعادت حسن منٹو کو خارج کر دے، اردو کا دو تہائی ادب دم توڑ جائے گا، اردو افسانہ اور سعادت حسن منٹو ایک ہی شخص کے دو مختلف نام ہیں، منٹو افسانہ ہے اور افسانہ منٹو، ہم اگر افسانے کا نام ’’منٹو سانہ‘‘ رکھ دیں تو یہ غلط نہیں ہو گا، منٹو، منٹو تھا اور منٹو بہرحال منٹو ہی رہے گا خواہ ہم کچھ بھی کر لیں، ہمیں یہ حقیقت ماننا ہو گی، ہمیں اس حقیقت کے ساتھ یہ بھی ماننا ہو گا۔
منٹو کہانیوں کی فیکٹری تھا، اس کے اندر ہر وقت ہزاروں کہانیاں ابلتی رہتی تھیں، وہ بس کہانی دان کا ڈھکن اٹھاتا تھا، ہاتھ اندر ڈالتا تھا اور کوئی شاہکار نکال کر سامنے رکھ دیتا تھا، یہ عظیم سعادت حسن منٹو کثرت شراب نوشی کے ہاتھوں 18 جنوری 1955ء میں 42 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گیا، شراب اس کا جگر پی گئی اور تمباکو اس کے پھیپھڑے چاٹ گیا، اسے میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا لیکن اس کی کہانیاں، اس کے لفظ آج بھی زندہ ہیں، وقت کی چکی نے منٹو کو پیس دیا لیکن یہ منٹو کے کام اور منٹو کی تخلیق کا آٹا نہ بن سکی لہٰذا دنیا میں جب تک اردو قائم رہے گی منٹو بھی اس وقت تک زندہ رہے گا۔
سرمد کھوسٹ نوجوان اور تخلیقی قوت سے لبریز فلم ساز ہیں، سرمد کھوسٹ نے پچھلے دنوں اس سعادت حسن منٹو کی زندگی پر شاندار فلم بنائی، یہ فلم صرف ایک فلم نہیں ہے، یہ پاکستانی عوام اور اردو ادب پر ایک عظیم احسان بھی ہے، یہ فلم تکنیکی لحاظ سے بھی مکمل اور اعلیٰ ہے، میں نے ’’منٹو‘‘ سینما میں دیکھی، فلم جب ختم ہوئی تو مجھ سمیت تمام لوگوں نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں، میں ایک مہینہ گزرنے کے باوجود ابھی تک اس فلم کے زیر اثر ہوں لیکن اس تمام تر تعریف اور منٹو سے محبت کے باوجود مجھے اس فلم پر ایک اعتراض بھی ہے۔
اس فلم میں ایک ایسے عظیم انسان کو ولن بنا کر پیش کیا گیا جو کسی بھی طرح اس سلوک کا مستحق نہیں تھا، دنیا کی ہر فلم دو کرداروں کے گرد گھومتی ہے، ہیرو اور ولن۔ آپ ان دونوں میں سے کسی ایک کو نکال دیں تو فلم، فلم نہیں رہتی، آپ دنیا کی تمام فلموں کا اختتام دیکھ لیجیے، فلم کی کہانی کب ختم ہوتی ہے؟ اس وقت ختم ہوتی ہے جب ولن یا ہیرو کہانی سے نکل جاتے ہیں، یہ دونوں جب تک فلم میں موجود رہتے ہیں، فلم اس وقت تک چلتی رہتی ہے لیکن جوں ہی دونوں میں سے ایک کردار خارج ہوتا ہے تو فلم فوراً ختم ہو جاتی ہے چنانچہ ہیرو اور ولن دونوں فلم کی مجبوری ہوتے ہیں، یہ مجبوری فلم منٹو کو بھی درپیش تھی لیکن سرمد کھوسٹ نے یہ مجبوری ایک ایسے کردار کے ذریعے پوری کرنے کی کوشش کی جو پچھلے 75 برسوں سے ہیرو چلا آ رہا ہے۔
وہ کردار چوہدری محمد حسین تھے، سرمد کھوسٹ نے چوہدری صاحب جیسے عظیم انسان کو ولن بنا کر تاریخ اور اخلاقیات دونوں کے ساتھ ظلم کیا، ہمیں یہ حقیقت ماننا ہو گی، سعادت حسن منٹو خود اپنی ذات کے ولن تھے، منٹو کو کسی دوسرے شخص نے نہیں مارا، منٹو کو خود منٹو نے قتل کیا، منٹو کی ذات میں چھپا شرابی، ضدی، بے حس اور فحش سعادت حسن دنیا کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا قاتل تھا، منٹو کو سماج، فسادات اور چوہدری محمد حسین جیسے محب وطن لوگوں نے پریشان نہیں کیا، اسے شراب اور ضد پی گئی اور یہ اردو کے اس عظیم ادیب کی کہانی کا وہ پہلو ہے جس سے ملک کے ہر اس دانشور، ادیب اور صحافی کو عبرت پکڑنی چاہیے جو اپنی سستی، کاہلی، ضد، بے حسی اور نشے کو ادب ثابت کرنے کی لت میں مبتلا ہے، یہ بہرحال ایک لمبی بحث ہے اور یہ بحث ہمارا موضوع نہیں، ہمارا موضوع چوہدری محمد حسین ہیں۔
چوہدری محمد حسین کون تھے؟ چوہدری محمد حسین علامہ اقبال کے انتہائی قریبی دوست اور ساتھی تھے، وہ تحصیل پسرور کے گاؤں پہاڑنگ اونچہ میں پیدا ہوئے، جاٹ گھرانے سے تعلق تھا، عربی، فارسی اور اردو کے عالم تھے، وہ مالیر کوٹلہ کے نواب ذوالفقار علی خان کے بچوں کے اتالیق بھی تھے، علامہ اقبال کی نواب صاحب سے دوستی تھی، علامہ صاحب کی چوہدری محمد حسین سے پہلی ملاقات 1918ء میں نواب صاحب کے گھر میں ہوئی اور یہ ملاقات چند ماہ میں گہری دوستی میں بدل گئی۔
یہ دوستی علامہ صاحب کے انتقال کے بعد بھی جاری رہی، علامہ صاحب اور ان کا خاندان چوہدری صاحب کے احسانات تلے دبا ہوا تھا، وہ علامہ صاحب کے اس قدر قریب تھے کہ علامہ اقبال نے انتقال سے قبل جاوید اقبال اور منیرہ اقبال کی ذمے داری اپنے بڑے بھائی شیخ عطاء محمد کے بجائے چوہدری محمد حسین کو سونپ دی اور چوہدری صاحب نے مرتے دم تک یہ ذمے داری نبھائی، علامہ اقبال کو شاہی مسجد کے سائے تلے دفن کرنے کا آئیڈیا بھی چوہدری صاحب کا تھا، انھوں نے تدفین کی اجازت کے لیے نہ صرف وزیراعلیٰ پنجاب سر سکندر حیات سے رابطہ کیا بلکہ وہ چیف منسٹر کی طرف سے مثبت جواب نہ ملنے پر گورنر پنجاب سر ہنری کریک کے پاس بھی گئے اور ان سے شاہی مسجد کے ساتھ علامہ صاحب کی تدفین کی اجازت لی، علامہ صاحب کا مقبرہ بھی چوہدری صاحب نے بنوایا تھا، مقبرے کے لیے ہندوستان، افغانستان اور ایران سے آرکی ٹیکٹ بلائے گئے تھے۔
چوہدری صاحب انھیں فکر اقبال کی روشنی میں ڈیزائن تیار کرنے کی ہدایت دیتے تھے یہاں تک کہ موجودہ مقبرے کا ڈیزائن تیار ہوا، چوہدری صاحب نے خود دھوپ میں کھڑے ہو کر مقبرہ تیار کروایا، علامہ صاحب کی آخری کتاب ’’ ارمغان حجاز‘‘ بھی چوہدری صاحب نے اپنی نگرانی میں شایع کروائی، وہ علامہ صاحب کے انتقال کے بعد کتابوں کی رائیلٹی، جائیداد اور دونوں بچوں کے گارڈین تھے، انھوں نے یہ ذمے داری عبادت کی طرح نبھائی، خود پنجاب پریس برانچ کے معمولی ملازم تھے۔
چھ صاحبزادیوں اور تین صاحبزادوں کے والد تھے، وہ اور ان کا خاندان عسرت میں زندگی گزارتا رہا لیکن انھوں نے علامہ اقبال کے بچوں کو ہمیشہ سونے کا نوالہ کھلایا، جاوید اقبال اور منیرہ اقبال کو اعلیٰ تعلیم بھی دلائی اور ان کے شاہانہ اخراجات بھی برداشت کیے، منیرہ اقبال کی میاں صلاح الدین سے شادی بھی چوہدری صاحب نے کروائی تھی، والد کی طرح جہیز بنایا، والد کی طرح بارات کا استقبال کیا اور والد ہی کی طرح روتے ہوئے اپنے دوست کی بیٹی کو رخصت کیا، وہ انتقال تک میاں صلاح الدین کے گھر جاتے تھے، منیرہ اقبال کے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے اور پانی تک پیے بغیر واپس آ جاتے تھے۔
وہ دفتر کے بعد سیدھے جاوید منزل جاتے تھے اور جاوید اقبال کو دیوان غالب پڑھاتے تھے، جسٹس جاوید اقبال خود تسلیم کرتے تھے ’’ میں والد کا سایہ سر پر نہ ہونے کی وجہ سے بھٹک گیا تھا، اگر چوہدری محمد حسین نہ ہوتے تو شاید میں کبھی راہ راست پر نہ آتا، چوہدری صاحب نے مرتے دم تک میرا ہاتھ تھامے رکھا‘‘۔
وہ چوہدری صاحب تھے جنہوں نے جاوید اقبال میں اردو، انگریزی، فلسفہ اور قانون پڑھنے کا جذبہ پیدا کیا، چوہدری صاحب کی تحریک پر ہی جاوید اقبال برطانیہ گئے اور کیمبرج میں داخلہ لیا، انھوں نے جاوید اقبال کا ماتھا چوم کر انھیں 15 ستمبر 1949ء کو لندن روانہ کیا تھا، جاوید اقبال برطانیہ سے انھیں خط لکھتے تھے اور ان سے ہر معاملے میں رہنمائی لیتے تھے، وہ جاوید اقبال کو باقاعدگی سے اخراجات بھی بھجواتے تھے اور انھیں خط کے ذریعے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے مشورے بھی دیتے تھے، چوہدری صاحب لاہور میں انتقال کر گئے، انھوں نے مرنے سے قبل جاوید منزل جانے کی خواہش ظاہر کی، ان کے صاحبزادے ان کو چارپائی پر لٹا کر جاوید منزل لے گئے، وہ تھوڑی دیر علامہ اقبال کے کمرے میں لیٹے رہے۔
علامہ صاحب کی روح سے گفتگو کی، گھر واپس آ گئے اور اسی رات دنیا سے رخصت ہو گئے، چوہدری صاحب کے انتقال کی خبر کیمبرج پہنچی تو جاوید اقبال دھاڑیں مار کر رونے لگے، ان کا کہنا تھا ’’مجھے محسوس ہوا میرا والد 1938ء میں نہیں بلکہ آج ہی فوت ہوا‘‘ چوہدری صاحب علامہ صاحب کے بچوں اور جاوید اقبال اور منیرہ اقبال چوہدری صاحب سے کتنی محبت کرتے تھے آپ اس کا اندازہ اس سے لگا لیجیے، چوہدری صاحب کے نو بچے تھے لیکن ان میں سے کوئی بچہ معاشی اور سماجی ترقی نہ کر سکا، کیوں؟ کیونکہ چوہدری صاحب نے اپنا سارا وقت اور وسائل اپنے دوست کے بچوں کے لیے وقف کر دیے تھے۔
وہ اپنے بچوں پر توجہ نہ دے سکے، جاوید اقبال اور منیرہ اقبال کو ان کی ان قربانیوں کا احساس تھا، یہ بھی ان سے والد کی طرح محبت کرتے تھے، یہ اس محبت کا ثبوت تھا، جاوید اقبال 1956ء میں لندن سے پاکستان واپس آئے، رات کا وقت تھا، وہ والد علامہ اقبال کی قبر پر جانے کے بجائے گرتے پڑتے سیدھا چوہدری صاحب کی قبر پر گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے، چوہدری صاحب علامہ صاحب کے مقبرے سے چند قدم دور اقبال پارک میں مدفون ہیں، جاوید اقبال چوہدری صاحب کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے بعد گھر جانے لگے تو میاں امیر الدین نے ان سے کہا ’’ یہاں تک آئے ہو تو اپنے والد کے مزار پر بھی ہوتے چلو،، جاوید اقبال نے اپنی کتاب ’’ اپنا گریبان چاک‘‘ میں لکھا ’’مگر میرے لیے تو چوہدری صاحب کی لحد پر حاضر ہونا ہی والد کے مزار کی زیارت تھی‘‘۔
یہ تھے چوہدری محمد حسین، ایک سچے عاشق اقبال، جنہوں نے پوری زندگی علامہ صاحب کی محبت اور ان کی اولاد کی پرورش میں گزار دی، یہ درست ہے، وہ پنجاب کی پریس برانچ میں ملازم تھے، وہ منٹو کو فحش نگار سمجھتے تھے اور وہ ہر اس رسالے پر پابندی بھی لگا دیتے تھے جس میں منٹو کا افسانہ چھپتا تھا لیکن اس میں چوہدری صاحب کا کیا قصور تھا؟ کیا یہ حقیقت نہیں تھی، منٹو ان دنوں شراب کی ایک بوتل کے لیے کچرہ نگاری پر اتر آیا تھا، وہ پانچ روپے جیب میں ڈالتا تھا، پبلشر سے کاغذ اور قلم لیتا تھا، بیٹھے بیٹھے کہانی گھسیٹتا تھا اور شراب کی بوتل لے کر گھر چلا جاتا تھا جہاں اس کی نیک فطرت بیوی بیمار بچیوں کو لے کر دہلیز پر بیٹھی ہوتی تھی۔
چوہدری محمد حسین نے منٹو کی جن کہانیوں پر پابندی لگائی، آپ یقین کیجیے وہ کہانیاں آج بھی رسائل اور اخبارات میں شایع نہیں ہو سکتیں، آپ الٹی شلوار یا ٹھنڈا گوشت نکالیے اور اپنی بہن اور بیٹی کو پڑھنے کے لیے دے دیجیے، آپ اگر ایسا نہ کر سکیں تو آپ جان لیں چوہدری محمد حسین ولن نہیں ہیرو تھے اور آپ اگر آسانی سے ایسا کر گزریں تو میں چوہدری صاحب کو ولن مان لوں گا، ایک ایسا ولن جس نے سعادت حسن منٹو کو شراب کے لیے کہانیاں نہیں لکھنے دیں اور جو اس ملک کو الٹی شلواروں اور ٹھنڈے گوشتوں کا ملک نہیں دیکھنا چاہتا تھا، اسے علامہ اقبال کا پاکستان دیکھنا چاہتا تھا، اس علامہ اقبال کا پاکستان جس کے شہری خودی بیچنے کے بجائے غریبی میں نام پیدا کرنے کا ہنر جانتے ہوں۔
مظلوم اقبال
جاوید چوہدری منگل 20 اکتوبر 2015
پورچ میں دو کرسیاں پڑی تھیں، ایک کرسی پر ایک نوجوان بیٹھا تھا اور دوسری کرسی پر اس نے ٹانگیں رکھی ہوئی تھیں، میں اور قاسم علی شاہ آدھ کھلے گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو نوجوان نے بیزاری سے ہماری طرف دیکھا، ہاتھ کا اشارہ کیا، کرسی سے اٹھا اور سلیپر گھسیٹتا ہوا عمارت کے بائیں جانب چل پڑا، ہم دونوں اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے، بائیں جانب عمارت میں داخلے کا دروازہ تھا، نوجوان نے اندر داخل ہو کر سرگوشی کی ’’اوئے وزیٹرز آئے نے‘‘ اندر افراتفری مچ گئی، ہم دونوں اندر داخل ہوئے تو دو نوجوان آڑھے ترچھے کھڑے تھے، وہ ہماری آمد سے قبل یقینا فرش پر لیٹے ہوئے تھے، وہ ننگے پاؤں تھے۔
ان کے گھسے ہوئے گندے سلیپر ساتھ پڑے تھے، یہ عمارت کی چھوٹی سی لابی تھی، لابی کی دائیں دیوار پر وزیٹرز بک رکھی تھی اور بک کے اوپر عمارت کی تعارفی تختی لگی تھی’’جاوید منزل علامہ اقبال کی آخری رہائش گاہ ہے، اس مکان میں حضرت علامہ کا 21 اپریل 1938ء میں انتقال ہوا، جاوید منزل کی تعمیر کے لیے 1934ء میں نزول ارضی رقبہ سات کنال بذریعہ نیلام بعوض 25025 روپے خرید کی گئی، اس کوٹھی کی تعمیر پر سولہ ہزار روپے خرچ ہوئے، بجلی، پنکھوں اور فرنیچر پر مزید ایک ہزار روپے خرچ ہوئے، اس طرح کل لاگت 42025 روپے ہوئی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ جی ہاں! یہ مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کا گھر تھا۔
میں ہفتہ 17 اکتوبر 2015ء کو علامہ صاحب کے گھر کی زیارت کے لیے لاہور میں جاوید منزل پہنچ گیا، یہ گھر علامہ صاحب کی تیسری بیگم اور جسٹس جاوید اقبال کی والدہ سردار بیگم نے بنوایا تھا، علامہ صاحب ہندوستان اور پوری مسلم امہ کے عظیم مفکر ہونے کے باوجود عسرت میں زندگی گزار رہے تھے، قانون کی پریکٹس نہ ہونے کے برابر تھی، نواب آف بھوپال ہر مہینے سو روپے بھجوا دیتے تھے، تھوڑی سی رقم کتابوں کی رائیلٹی سے مل جاتی تھی اور یوں گھر کا خرچ چلتا تھا۔
سردار بیگم اکثر علامہ صاحب سے الجھتی رہتی تھیں، وہ روتے ہوئے کہتی تھیں ’’میں اس گھر میں لونڈی کی طرح کام کرتی ہوں اور ساتھ ہی پیسے بچانے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں، دوسری طرف آپ ہیں کہ بجائے نیک نیتی سے کچھ کرنے کے بستر پر دراز شعر لکھتے رہتے ہیں،، اور علامہ صاحب جواب میں کھسیانی ہنسی ہنس دیتے تھے، سردار بیگم اپنا گھر چاہتی تھیں جب کہ علامہ اقبال میکلوڈ روڈ پر کرائے کے مکان میں رہتے تھے، بیگم نے گھر کے اخراجات میں سے پیسے بچا کر رقم جمع کی اور میو روڈ پر سات کنال کا پلاٹ خرید لیا، نقشے اور تعمیر کی ذمے داری شیخ عطاء محمد کو سونپی گئی۔
گھر مکمل ہوا تو سردار بیگم علیل ہو گئیں، انھیں چارپائی پر لٹا کر جاوید منزل لایا گیا، وہ گھر میں تین دن رہ کر انتقال فرما گئیں، والدہ نے انتقال سے قبل یہ گھر جاوید اقبال کو ہبہ کر دیا تھا، علامہ صاحب کے استعمال میں تین کمرے اور ایک کچن تھا، علامہ صاحب انتقال تک اپنے صاحبزادے جاوید اقبال کو ان تین کمروں کا کرایہ ادا کرتے رہے، جاوید اقبال علامہ صاحب کے انتقال کے 39برس بعد تک اس گھر میں مقیم رہے۔
حکومت نے 1977ء میں جاوید منزل جاوید اقبال سے خریدی اور اسے اقبال میوزیم بنا دیا، یہ گھر اب میوزیم ہے، میں علامہ صاحب کی خوشبو کو محسوس کرنے کے لیے اس عظیم عمارت میں داخل ہو گیا جس میں عالم اسلام کے اس مفکر نے زندگی کے آخری سال گزارے، جس کے بارے میں مشاہیر کی متفقہ رائے تھی ’’آپ بیسویں صدی میں اسلامی فکر کے مبلغ تھے‘‘ آپ جاوید منزل کی لابی سے آگے بڑھیں تو چھوٹا سا دلان آتا ہے، یہ دلان مردان خانے کو زنان خانے سے الگ کرتا ہے، دلان میں علامہ صاحب کی جائے نماز بچھی ہے، جائے نماز کی دائیں دیوار پر ان کی مسجد قرطبہ میں نماز پڑھنے کی تصویر ہے جب کہ سامنے مسجد قرطبہ میں لکھی ہوئی نظم دعا آویزاں ہے، دلان کے بائیں جانب ایک چھوٹا کمرہ ہے۔
یہ بچوں کا کمرہ تھا، کمرے میں علامہ صاحب کی تصاویر، ڈگریاں، اسناد، خطوط، کتابوں کے مسودے اور ہاتھ سے لکھے اشعار آویزاں ہیں، علامہ صاحب کی لکھائی باریک اور مشکل تھی، انھوں نے اپنے ہاتھ سے بے شمار اشعار کی تصحیح فرمائی تھی، یہ عادت ان کی پروفیشنلزم اور خوب سے خوب تر کی متلاشی فطرت کو ظاہر کرتی ہے، اس کمرے کے ساتھ ایک مستطیل کمرہ ہے، یہ بھی زنان خانے کا حصہ تھا، اس کمرے کی دیواروں پر بھی علامہ اقبال کی مختلف تصاویر، خطوط اور تحریروں کے عکس لگے ہیں، یہ کمرہ ایک بڑے کمرے سے متصل ہے۔
یہ فیملی کا اجتماعی کمرہ تھا، اس کمرے میں علامہ صاحب کے استعمال کی اشیاء رکھی ہیں، علامہ صاحب کے کوٹ، پتلونیں، کرتے، پائجامے، چھڑی، نک ٹائیاں، کالرز، بوٹ، جوتے، دستانے، چادریں، مفلر، ویسٹ کوٹ، ٹوپیاں، تہبند، کف لنکس، عینک اور کلاہ رکھی ہے، ایک شو کیس میں علامہ صاحب اور ان کی بیگم کی بینک کی دستاویز، مہر اور پاسپورٹ ہے، بینک کی پاس بک بھی اسی شو کیس میں ہے، پاس بک میں ان کے کھاتے کی تفصیل درج ہے، یہ ہال دلان میں علامہ صاحب کی جائے نماز کے قریب کھلتا ہے، دلان کا ایک چھوٹا سا دروازہ آپ کو اس عظیم خواب گاہ میں لے جاتا ہے۔
جس میں علامہ صاحب نے آخری سانس لی، یہ علامہ صاحب کا بیڈروم ہے، بیڈروم میں دو بڑی کھڑکیاں ہیں، یہ کھڑکیاں پورچ میں کھلتی ہیں، علامہ صاحب کا بیڈ کھڑکیوں کے ساتھ لگا ہے، یہ معمولی سی چارپائی ہے، بیڈ پر ایک گول تکیہ ہے، تکیے پر کھیس پڑا ہے، بستر وہی ہے جو علامہ صاحب استعمال کرتے تھے، سرہانے کتابوں کی الماری ہے، الماری کے ساتھ انگیٹھی ہے، انگیٹھی پر مٹی کے تیل کا لیمپ اور تصویریں رکھی ہیں، انگیٹھی کے سامنے میز ہے اور میز پر علامہ صاحب کے لکھنے کا سامان پڑا ہے، کمرے کی ایک سائیڈ پر شیو کا سامان رکھا ہے، بیڈ کی پائنتی پر دیوار پر کیلنڈر آویزاں ہے۔
کیلنڈر پر علامہ صاحب کے انتقال کی تاریخ 21 اپریل ظاہر ہوتی ہے، دیوار پر علامہ صاحب کا کلاک ہے، کلاک کے سوئیاں علامہ صاحب کے انتقال کے وقت پر رکی ہیں، یہ کمرہ علامہ صاحب کے ڈرائنگ روم میں کھلتا ہے، ڈرائنگ روم بہت چھوٹا اور غریبانہ ہے، ڈرائنگ روم کا ایک دروازہ پورچ میں نکلتا ہے اور دوسرا ڈائننگ روم میں۔ ڈائننگ روم بھی سادا اور عام سا ہے، کمرے کے عین درمیان ایک گول میز اور پانچ کرسیاں رکھی ہیں۔
دو الماریاں ہیں جن میں چینی کے برتن ہیں، کچن ڈائننگ روم سے متصل ہے اور بس! مصور پاکستان کا گھر ختم ہوگیا۔ گھر کے سامنے اور بیک پر لان ہے، سرونٹ کوارٹرز گھر کے سامنے دائیں جانب ہیں، علامہ صاحب کے انتقال کے بعد بیرونی لان میں دکانیں بنا دی گئی تھیں، دکانوں کا کرایہ مدت تک جاوید اقبال اور منیرہ اقبال کا نان نفقہ چلاتا رہا تاہم حکومت نے یہ دکانیں مسمار کر دی ہیں۔
علامہ صاحب کے گھر میں تین قسم کی فیلنگز ہوتی ہیں، پہلی فیلنگ علامہ صاحب کی ذات سے وابستہ ہے، آپ جب یہ محسوس کرتے ہیں، علامہ محمد اقبال اس فضا میں سانس لیتے تھے، وہ اس گھر کے درودیوار کو چھوتے تھے، وہ یہ کیلنڈر، یہ گھڑی، یہ بوٹ، یہ دستانے اور یہ کوٹ استعمال کرتے تھے اور وہ اس گاؤ تکیے سے ٹیک لگا کر کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ اور کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے جیسے آفاقی خیالات کو کاغذی پیرہن دیتے تھے تو آپ کی نظریں جھک جاتی ہیں۔
سانسیں وضو کر لیتی ہیں اور تصور مہکنے لگتا ہے اور آپ خود کو ایک ایسی مقدس عبادت گاہ میں محسوس کرنے لگتے ہیں جہاں داخل ہونے کے لیے نفس پر غسل واجب ہو جاتا ہے، آپ وہاں علی بخش کو بھی محسوس کرتے ہیں، آپ کو وہاں مولانا ظفر علی خان بھی نظر آتے ہیں، مولانا محمد علی جوہر بھی، سر راس مسعود بھی اور لیاقت علی خان بھی۔ آپ جب بیڈ روم سے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو سامنے صوفے پر قائداعظم اپنی عظیم ہمشیرہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے بھی محسوس ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی آپ ماضی میں چلے جاتے ہیں، اس روشن اور تابناک ماضی میں جب ملک کا تصور دینے والے، جب ملک بنانے والے اور جب ملک چلانے والے تمام لوگ اکٹھے تھے، یہ احساس بہت قیمتی ہے۔ دوسری فیلنگ ڈپریشن سے بھرپور ہے۔
علامہ صاحب کا گھر ملک کے سب سے بڑے مفکر کا گھر نہیں لگتا، بیسویں صدی میں پورے عالم اسلام میں علامہ اقبال جیسی کوئی دوسری ہستی نہیں تھی، علامہ صاحب نے اپنے خیالات کے ذریعے پوری مسلم ورلڈ کو متاثر کیا لیکن یہ شہرت، یہ عزت اور یہ مقام ان کے گھر کا چولہا نہ جلا سکا، علامہ صاحب کو گزر اوقات کے لیے نوابوں کے وظیفے کا انتظار کرنا پڑتا تھا یا پھر وکیل کی حیثیت سے عدالتوں میں دھکے کھانا پڑتے تھے، علامہ صاحب کی روایتی سستی کی وجہ سے پریکٹس نہ ہونے کے برابر تھی، وہ دن رات اپنے خیالات میں غلطاں رہتے تھے چنانچہ نان نفقے کی فکر مشکل تھی ۔
لہٰذا اگر ان کی بیگم کفایت شعار نہ ہوتیں، وہ بچت نہ کرتیں اور وہ اپنے زیورات بیچ کر یہ گھر نہ بناتیں تو شاید علامہ اقبال کا جنازہ بھی کرائے کے مکان سے اٹھتا اور ان کے بعد ان کے دونوں نابالغ بچے بھی گلیوں میں رل جاتے، آپ خود فیصلہ کیجیے جن لوگوں کا مصور پاکستان پوری زندگی وظیفوں پر گزارہ کرتا رہا ہو، وہ قوم ہاتھ میں کشکول لے کر نہیں پھرے گی تو کیا کرے گی، ہم لوگ نسلوں سے ظالم اور سنگ دل ہیں، ہم نے مفکر پاکستان تک کے باعزت دال دلیے کا بندوبست نہیں کیا تھا، کلام اقبال گانے والے قوال خوش حال ہو گئے لیکن کلام اقبال تخلیق کرنے والے کی زندگی عسرت میں گزری، اس کا مزار تک ’’امداد‘‘ کے ذریعے بنا، یہ حقیقت ہمارے اجتماعی ضمیر اور ہمارے فلسفہ حیات کی ننگی دلیل ہے۔
علامہ صاحب کا گھر آج بھی عسرت اور بے توقیری کی تصویر ہے، دیواروں کا پینٹ اکھڑ چکا ہے، فرنیچر پر دھول اور مٹی کی تہہ جمی ہے، میوزیم میں 14 ملازمین ہیں لیکن یہ لوگ فرش پر لیٹ جاتے ہیں، یہ حالت زار ثابت کرتی ہے، پاکستان کی طرح اب مصور پاکستان بھی ہماری ترجیحات میں شامل نہیں، ہم علامہ صاحب کے گھر سے لے کر علامہ صاحب کے ملک تک سب کو فراموش کر چکے ہیں اور تیسری فیلنگ اس گھر کی اداسی، اس گھر کا سناٹا ہے۔
مجھے میوزیم کے چوکیدار نے بتایا، جاوید منزل میں ہفتہ ہفتہ کوئی شخص قدم نہیں رکھتا، حکومت کی کسی اعلیٰ شخصیت کو یہاں آئے دہائیاں گزر چکی ہیں، جنرل پبلک یہ تک نہیں جانتی یہ علامہ اقبال کا گھر ہے، پراپرٹی ڈیلر گھر کو کرائے پر لینے کے لیے پہنچ جاتے ہیں، میں نے پوچھا ’’مین گیٹ پورا کیوں نہیں کھولا جاتا‘‘ بتایاگیا ’’ لوگ صحن میں گاڑیاں کھڑی کر جاتے ہیں‘‘ پوچھا ’’ دیواریں کیوں خراب ہیں، پینٹ کیوں اکھڑا ہوا ہے‘‘ جواب ملا ’’یہ محکمے کا کام ہے، ہم کیا کہہ سکتے ہیں‘‘ میری وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم سے درخواست ہے، آپ چند لمحوں کے لیے علامہ اقبال کو بھول جائیں اور آپ محمد اقبال کو اپنا کشمیری بزرگ سمجھ لیں اور جاوید منزل پر توجہ دیں۔
آپ لاہور کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کو پابند بنا دیں یہ نرسری سے لے کر پانچویں جماعت تک کے طلباء اور طالبات کو جاوید منزل کی سیر ضرور کروائیں گے، اسکولوں کے لیے دن بھی طے کر دیے جائیں، یوں جاوید منزل کا سناٹا بھی ٹوٹ جائے گا اور نئی پود بھی اقبال اور فکر اقبال سے متعارف ہو جائے گی، اسی طرح آپ ہر سرکاری مہمان کو جاوید منزل ضرور لے کر جائیں، آپ سرکاری محکموں کو بھی پابند کر دیں، یہ بھی اپنے ملازمین کو جاوید منزل کی سیر ضرور کرائیں گے، اسی طرح آپ عوام کو جاوید منزل کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اشتہاری مہم بھی چلائیں۔
آپ مشاہیر کے عجائب گھروں کو بچوں کے سلیبس میں بھی شامل کرا دیں تاکہ ہمارے بچوں کو کم از کم یہ علم تو ہو علامہ اقبال تھے کون؟ ہم کس قدر بدقسمت لوگ ہیں، ہمارے علامہ اقبال زندگی میں بھی قوم کے جاگنے کا انتظار کرتے رہے اور یہ آج بھی قوم کی راہ دیکھ رہے ہیں، اس قوم کی راہ جسے اٹھاتے اٹھاتے یہ موت کی نیند سو گئے تھے، ہمارے علامہ اقبال کتنے مظلوم ہیں۔
ا
صل نظریہ پاکستان
جاوید چوہدری اتوار 18 اکتوبر 2015
’’نظریہ پاکستان کیا ہے؟‘‘ نوجوان کا سوال سیدھا تھا لیکن سوال نے مجھے چکرا کر رکھ دیا، میں نے چند لمحے سوچا اور پھر عرض کیا ’’ پاکستان کے دو نظریئے ہیں، آپ کس کی بات کر رہے ہیں‘‘ نوجوان کی حیرت میں اضافہ ہو گیا، اس نے کہا ’’ سر آپ دونوں بتا دیجیے‘‘ میں نے عرض کیا ’’ایک نظریہ وہ ہے جسے ہم اپنی درسی کتابوں میں پڑھتے ہیں، جو ہمیں تقریروں میں سنایا اور بتایا جاتا ہے اور دوسرا نظریہ پاکستان ہمارے رسولؐ کا نظریہ تھا‘‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا، میں نے عرض کیا ’’ ہمیں پڑھایا جاتا ہے، یہ ملک ہندو اور مسلمانوں کی تفریق پر بنایا گیا تھا، مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں۔
یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتیں، یہ نظریہ ہمارے ملک کی اساس تھا، یہ درست ہے، واقعی ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور ان دونوں کو اکٹھا رکھنا ممکن نہیں، میں اس نظریے سے اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ نظریہ صرف ملک بنانے کے لیے تھا، آپ اس کے ذریعے ملک چلا نہیں سکتے، آپ کو ملک چلانے کے لیے دوسرے نظریہ پاکستان کی ضرورت ہے اور اس دوسرے نظریئے کے بانی نبی اکرم ؐ ہیں اور یہ نظریہ لکھنو، دہلی یا لاہور میں نہیں بنا تھا، یہ مدینہ میں تیار ہوا تھا اور ہم جب تک اس نظریئے کو نہیں اپنائیں گے۔
ہم اس وقت تک یہ ملک نہیں چلا سکیں گے‘‘ میں خاموش ہو گیا، وہ چند لمحے میری طرف دیکھتا رہا اور پھر بولا ’’ اور وہ نظریہ پاکستان کیا تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’وہ نظریہ پاکستان صرف ہمارے ملک کے لیے نہیں تھا، وہ دراصل دنیا کے تمام ملکوں، تمام قوموں، تمام معاشروں، تمام اداروں اور تمام لوگوں کے لیے تھا، آپ فرد ہیں یا قوم آپ جب تک وہ نظریہ نہیں سمجھتے، آپ جب تک اس پر عمل نہیں کرتے، آپ زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘ میں ایک بار پھر خاموش ہو گیا۔
لان میں سے ایک سرخ چڑیا اڑی، ہوا میں نیم دائرہ بنایا، ہمارے قریب پہنچی، میز پر بیٹھی اور حیرت سے ہم دونوں کو دیکھنے لگی، میں روز ان چڑیوں کے درمیان بیٹھتا ہوں، یہ مجھ سے مانوس ہیں، یہ اکثر اڑ کر میز پر بیٹھ جاتی ہیں، یہ بے تکلفی سے میری پلیٹ میں ٹھونگے بھی مارنے لگتی ہیں، چڑیا چند لمحے اجنبی نوجوان کو غور سے دیکھتی رہی، اس نے پھر میری طرف دیکھا، منہ سے چیں چیں چیں کی آواز نکالی اور اڑ گئی، میں اسے اڑتے دیکھنے لگا۔
نوجوان بے تاب تھا، اس کے وجود میں اضطراب تھا، اس نے کرسی پر کروٹ بدلی اور پوچھا ’’سر وہ کیا نظریہ تھا‘‘ میں نے چڑیا کا تعاقب ترک کیا اور نوجوان کو دیکھنے لگا، میں چند لمحے اسے غور سے دیکھتا رہا، نوجوان کے کانوں کی لوؤں پر بال تھے، ہم سب کے کانوں کی جھالر پر بال ہوتے ہیں لیکن اس کی لوئیں بالوں سے بھری تھیں، میں نے زندگی میں کبھی کسی کے کانوں پر اتنے بال نہیں دیکھے تھے، میں چند لمحے اس کے کان اور کانوں کی لوؤں کے بال دیکھتا رہا اور پھر عرض کیا ’’یہ جاننے کے لیے آپ کو ہجرت کا واقعہ پڑھنا ہو گا، آپ یاد کیجیے، مسلمان مکہ میں کیسی زندگی گزار رہے تھے۔
کفار اسلام کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، مسلمان انھیں تبلیغ کرتے تھے اور وہ ان پر پتھر برساتے تھے، ان پر اوجڑیاں ڈال دی جاتی تھیں، وہ راستوں میں کانٹے بچھا دیتے تھے، مسلمانوں سے رشتے توڑ دیتے تھے، کفار ان کو جادوگر اور بھٹکے ہوئے کہتے تھے، مسلمان مکہ میں کمزور بھی تھے، وہ لوگ ان پر کوڑے برساتے تھے، ان کو تپتی ریت پر لٹا دیتے تھے، ان کی شہ رگ کاٹ دیتے تھے، ان کے سر اتار دیتے تھے، ان کو ایسی گھاٹیوں میں بند کر دیتے تھے جہاں یہ تین تین سال تک پانی اور کھانے کے لیے بلکتے رہتے تھے اور یہ اللہ کے رسول ؐ کو شہید کرنے کے منصوبے بھی بناتے تھے۔
آپ اگر مکہ میں موجود مسلمانوں کی حالت دیکھیں گے تو یہ آپ کو مظلوم بھی لگیں گے، کمزور بھی، بے بس بھی اور نادار بھی۔ اللہ کے رسولؐ کے پاس اس وقت دو آپشن تھے، وہ دعا فرماتے اور اللہ تعالیٰ کفار کے دل پلٹ دیتا یا کوئی خوفناک آندھی آتی، کوئی وباء پھوٹتی یا پھر زمین سے کوئی بلا نکلتی اور مکہ کے سارے کفار مارے جاتے اور مسلمانوں کو چند برسوں میں اقتدار مل جاتا یا پھر رسول اللہ ﷺ جدوجہد کا راستہ چنتے، نبی اکرمؐ نے دوسرا راستہ منتخب کیا، آپؐ نے اپنے ساتھیوں کو لیا اور مکہ سے ساڑھے چار سو کلو میٹر دور مدینہ میں پناہ لے لی۔
وہ ہجرت اور مدنی زندگی کے تیرہ سال اصل نظریہ پاکستان ہیں، آپ اگر ملک کو چلانا چاہتے ہیں تو آپ کو ہجرت اور مدنی زندگی کو سمجھنا ہو گا‘‘ میں خاموش ہو گیا، چڑیا واپس آ گئی، وہ اب میری پلیٹ میں چونچ مار کر کیک کھا رہی تھی، میں پدرانہ شفقت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا، نوجوان نے ایک بار پھر کرسی پر کروٹ بدلی اور پوچھا ’’سر مدنی زندگی میں کیا تھا‘‘ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، چڑیا مزے سے کیک کھا رہی تھی، میں نے عرض کیا ’’نبی اکرم ؐ نے مدینہ میں اس سماجی نظرئیے کی بنیاد رکھی جس کے بغیر دنیا کا کوئی شخص کامیاب ہو سکتا ہے، ادارہ، کمپنی اور نہ ہی ملک۔ آپؐ نے مدینہ منورہ میں سب سے پہلے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی گنجائش پیدا کی۔
آپؐ نے مہاجرین اور انصار کو اس طرح ایک دوسرے کا ساتھی اور دوست بنایا کہ وہ انصار یا مہاجر بعد میں تھے اور مدنی اور مسلمان پہلے تھے، آپؐ نے اپنے پاؤں جمانے کے لیے ان یہودیوں کے ساتھ معاہدے بھی کیے جن کے بارے میں آیت اتری، یہ آپ کے دوست نہیں ہو سکتے، مدینہ کے قرب و جوار کے قبائل سے بھی خوش گوار تعلقات قائم کیے، کفار حملے کرتے رہے لیکن مسلمان صرف دفاع تک محدود رہے، انھوں نے کبھی آگے بڑھ کر حملہ نہیں کیا، ان تیرہ برسوں میں ایسا وقت بھی آیا جب رسول اللہ ﷺ کے قریبی ساتھی بھی بے چین ہو کر بول پڑتے تھے، کیا ہم سچے نہیں ہیں، کیا ہمارا مذہب سچا نہیں اور کیا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ نہیں لیکن اللہ کے آخری نبیؐ نرم خوئی کے ساتھ چلتے رہے یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا جب مسلمان مدینہ سے نکلے، مکہ پہنچے اور مکہ شہر بغیر لڑے فتح کر لیا۔
آپ فتح مکہ کے دن بھی دیکھو، آپؐ خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ان تمام لوگوں کو معاف فرما دیا جن کے زخموں اور جن کے دکھوں نے اللہ کے رسولؐ کو اپنا گھر، بار اور اپنا شہر چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، اس عورت کے گھر کو دار الامان قرار دے دیا جس نے آپؐ کے عزیز ترین دوست اور چچا کا کلیجہ چبایا تھا، اس غلام کو بھی معاف کر دیا جس نے یہ کلیجہ نکالا تھا، ان لڑکوں کو بھی معاف کر دیا جو رسول اللہ ﷺ کو پتھر مارتے تھے، ان کو بھی معاف کر دیا جو نماز کے دوران آپؐ پر اوجڑی ڈال دیتے تھے، ان کو بھی معاف کر دیا ۔
جنھوں نے آپؐ کے خاندان کو گھاٹی میں دھکیل کر ان کا کھانا پینا بند کر دیا تھا اور ان کو بھی معاف کر دیا جنھوں نے اہل ایمان کے گھر بار اور زمین جائیداد پر قبضہ کر لیا تھا‘‘ میں دم لینے کے لیے رک گیا، نوجوان حیرت سے میری طرف دیکھ رہا تھا، میں نے لمبا سانس لیا اور اس سے پوچھا ’’آپ نے اس سے کیا سیکھا؟‘‘ اس نے چند لمحے سوچا اور پھر کہا ’’مجھے آپ کا نقطہ سمجھ نہیں آیا‘‘ میں مسکرایا، تین چار لمبے سانس لیے اور پھر عرض کیا ’’مسلمانوں کی مدنی زندگی اور فتح مکہ دنیا کی تمام اقوام، تمام اداروں، تمام کمپنیوں اور تمام لوگوں کو چند سبق، چند پیغامات دیتی ہے۔
یہ آپ اور مجھے بتاتی ہیں، آپ اگر تعداد میں کم ہیں، آپ اگر کمزور ہیں، آپ اگر غریب ہیں، آپ کی ٹریننگ اگر مکمل نہیں اور آپ کو اگر ابھی حالات اور چیزوں کو سمجھنے کے لیے وقت چاہیے تو آپ کبھی اپنے سے زیادہ مضبوط دشمن سے نہ لڑیں، آپ کو اگر مضبوط ہونے کے لیے اپنا وطن، گھر، بار اور زمین جائیداد بھی چھوڑنی پڑے تو آپ چھوڑ دیں، ہمارے رسولؐ تو اپنی سب سے بڑی صاحبزادی تک کو مکہ میں چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے، آپ لوگ بھی اپنے کلیم عارضی طور پر چھوڑ دیں، مکہ جیسی سخت زمین سے نکل کر چھوٹے سے مدینہ میں چلے جائیں یا پھر اپنے گرد ایک چھوٹا سا مدینہ آباد کر لیں، اپنے ساتھیوں کو ٹرینڈ کریں، اپنی تعداد اور استطاعت بڑھائیں، معاشی طور پر خوش حال ہوں۔
اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کریں اور اس دوران اگر دشمن آپ پر حملہ کرے تو آپ خود کو صرف دفاع تک محدود رکھیں، آپ کبھی کمزور فوج اور کمزور معیشت کے ساتھ دشمنوں سے الجھنے کی غلطی نہ کریں، اس دوران اگر آپ کو حدیبیہ جیسا کوئی معاہدہ بھی کرنا پڑے تو کر گزریں کیونکہ معاہدے ٹوٹتے بنتے دیر نہیں لگتی، آپ اس دوران دیکھیں گے آپ جوں جوں مضبوط ہوتے جا رہے ہیں، آپ کا دشمن کمزور ہوتا جا رہا ہے، کیوں؟ کیونکہ یہ قانون قدرت ہے، طاقت اور دولت دونوں ہمیشہ زوال پذیر ہوتی ہیں، آپ جوں جوں خود کو طاقتور بناتے جائیں گے، آپ کا دشمن قانون قدرت کا شکار ہوتا چلا جائے گا، وہ روز بروز کمزور ہوتا جائے گا یہاں تک کہ فتح مکہ کا دن آ جائے گا۔
آپ کے تمام دشمن زیر ہو جائیں گے لیکن آپ جب دشمن کو زیر کر لیں تو آپ اسے معاف کر دیں، کیوں؟ کیونکہ معاف کرنے سے دشمن آپ کا دوست بن جائے گا، وہ آپ کی طاقت میں اضافے کا باعث بنے گا اور آپ اگر اسے معاف نہیں کرتے، آپ اگر اس سے انتقام لیتے ہیں تو اس کی نسل کا کوئی نہ کوئی فرد بدلے کا جھنڈا اٹھا لے گا اور وہ آپ ہی کی طرح تھوڑی تھوڑی طاقت جمع کرے گا، لشکر بنائے گا اور پھر آپ کو آرام سے زندگی نہیں گزارنے دے گا چنانچہ عقل کا تقاضا ہے آپ فتح کے بعد دشمنی کے سلسلے کو آگے نہ بڑھنے دیں، آپ دشمنوں کو معاف کر کے دوست بنا لیں،، میں خاموش ہو گیا۔
نوجوان نے لمبا سانس کھینچا اور بولا ’’لیکن سر یہ اصل نظریہ پاکستان کیسے ہو گیا‘‘ میں نے عرض کیا ’’ ہم نے ملک بنانے والے نظریئے سے ملک بنا لیا، ہم سے اب یہ ملک چل نہیں رہا، کیوں؟ کیونکہ ہم ملک چلانے والے نظریئے پر کام نہیں کر رہے، ہمیں چاہیے تھا، ہم جنگیں لڑنے کے بجائے پہلے دنیا میں اپنے دوستوں کی تعداد میں اضافہ کرتے، معاشی اور عسکری لحاظ سے مضبوط ہوتے، ہم پہلے پوری قوم کو ٹرینڈ کرتے اور پھر آگے بڑھتے جب کہ ہم ہجرت کے فوراً بعد جنگوں اور لڑائیوں میں الجھ گئے یہاں تک کہ ہم نے آدھا ملک بھی کھو دیا اور ہم امن و امان، تعلیم، صحت اور معیشت میں بھی ناکام ریاستوں کے برابر کھڑے ہو گئے، آپ حد ملاحظہ کیجیے۔
پچھلے ماہ دنیا کے 190 سربراہان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔ کیوں؟ کیونکہ ہم مدنی زندگی کی اسپرٹ بھلا بیٹھے ہیں، ہم خود کو مضبوط کرنے، اتنا مضبوط کرنے کہ ہم گھر سے نکلیں اور دشمن کشمیر کے کاغذات لے کر چل پڑے، ہم نے اس کی بجائے اپنا ملک تباہ کر لیا، میرے عزیز یہ دنیا ہے، اس دنیا میں بھکاریوں کو بھیک میں روٹی کے ٹکڑے تو مل سکتے ہیں لیکن کشمیر نہیں اور جو قوم کشمیر لیتے لیتے مشرقی پاکستان کھو بیٹھی ہو اس کی حمایت میں کون تقریر کرے گا چنانچہ مدنی زندگی کا پیغام ہے، آپ بڑے مقاصد کے حصول سے پہلے خود کو جسمانی، ذہنی اور معاشی لحاظ سے مضبوط بناؤ، مقصد خود چل کر آپ کی دہلیز پر آ جائے گا ورنہ دوسری صورت میں آپ رہو گے اور نہ ہی آپ کی دہلیز‘‘۔
اصل سکندر اعظم
جاوید چوہدری جمعـء 16 اکتوبر 2015
سکندر اعظم کون تھا مقدونیہ کا الیگزینڈر یا تاریخ اسلام کے حضرت عمر فاروقؓ ، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دینا دنیا بھر کے مؤرخین پر فرض ہے، آج ’’ایس ایم ایس‘‘ کا دور ہے، موبائل کا میسجنگ سسٹم چند سیکنڈ میں خیالات کو دنیا کے دوسرے کونے میں پہنچا دیتا ہے، جدید دور کی اس سہولت سے اب قارئین اور ناظرین بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔
گزشتہ روز کسی صاحب نے پیغام بھجوایا ’’کاش آپ نے آج حضرت عمر فاروق ؓ پر کالم لکھا ہوتا‘‘ یہ پیغام پڑھتے ہی یاد آیا آج تو حضرت عمر فاروقؓ کا یومِ شہادت تھا اور میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں مقدونیہ کا الیگزینڈر سکندر اعظم تھا یا حضرت عمر فاروق ؓ۔ ہم نے بچپن میں پڑھا تھا مقدونیہ کا الیگزینڈر بیس سال کی عمر میں بادشاہ بنا، 23 سال کی عمر میں مقدونیہ سے نکلا، اس نے سب سے پہلے پورا یونان فتح کیا، اس کے بعد وہ ترکی میں داخل ہوا، پھر ایران کے دارا کو شکست دی، پھر وہ شام پہنچا، پھر اس نے یروشلم اور بابل کا رخ کیا، پھر وہ مصر پہنچا، پھر وہ ہندوستان آیا، ہندوستان میں اس نے پورس سے جنگ لڑی، اپنے عزیز از جان گھوڑے کی یاد میں پھالیہ شہر آباد کیا۔
مکران سے ہوتا ہوا واپسی کا سفر شروع کیا، راستے میں ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوا اور 323 قبل مسیح میں 33 سال کی عمر میں بخت نصر کے محل میں انتقال کر گیا، دنیا کو آج تک بتایا گیا وہ انسانی تاریخ کا عظیم جرنیل، فاتح اور بادشاہ تھا اور تاریخ نے اس کے کارناموں کی وجہ سے اسے الیگزینڈر دی گریٹ کا نام دیا اور ہم نے اسے سکندر اعظم یعنی بادشاہوں کا بادشاہ بنا دیا لیکن آج اکیسویں صدی کے پندرہویں سال کے سولہویں دن میں پوری دنیا کے مؤرخین کے سامنے یہ سوال رکھتا ہوں کیا حضرت عمر فاروقؓ کے ہوتے ہوئے الیگزینڈر کو سکندر اعظم کہلانے کا حق حاصل ہے؟ میں دنیا بھر کے مؤرخین کو سکندر اعظم اور حضرت عمر فاروقؓ کی فتوحات اور کارناموں کے موازنے کی دعوت دیتا ہوں۔
آپ بھی سوچئے الیگزینڈر بادشاہ کا بیٹا تھا، اسے دنیا کے بہترین لوگوں نے گھڑ سواری سکھائی، اسے ارسطو جیسے استادوں کی صحبت ملی تھی اور جب وہ بیس سال کا ہو گیا تو اسے تخت اور تاج پیش کر دیا گیا جب کہ اس کے مقابلے میں حضرت عمر فاروقؓ کی سات پشتوں میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا تھا، آپؓ بھیڑ بکریاں اور اونٹ چراتے چراتے بڑے ہوئے تھے اور آپؓ نے تلوار بازی اور تیر اندازی بھی کسی اکیڈمی سے نہیں سیکھی تھی، سکندراعظم نے آرگنائزڈ آرمی کے ساتھ دس برسوں میں 17 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا تھا جب کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے دس برسوں میں آرگنائزڈ آرمی کے بغیر 22 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا اور اس میں روم اور ایران کی دو سپر پاورز بھی شامل تھیں۔
آج کے سیٹلائیٹ، میزائل اور آبدوزوں کے دور میں بھی دنیا کے کسی حکمران کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں جو حضرت عمر فاروقؓ نے نہ صرف گھوڑوں کی پیٹھ پر فتح کرائی تھی بلکہ اس کا انتظام و انصرام بھی چلایا تھا، الیگزینڈر نے فتوحات کے دوران اپنے بے شمار جرنیل قتل کرائے، بے شمار جرنیلوں اور جوانوں نے اس کا ساتھ چھوڑا، اس کے خلاف بغاوتیں بھی ہوئیں اور ہندوستان میں اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار بھی کر دیا لیکن حضرت عمر فاروقؓ کے کسی ساتھی کو ان کے حکم سے سرتابی کی جرأت نہ ہوئی، وہ ایسے کمانڈر تھے کہ آپ نے عین میدان جنگ میں عالم اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ کو معزول کر دیا اور کسی کو یہ حکم ٹالنے کی جرأت نہ ہوئی، آپؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو کوفے کی گورنری سے ہٹا دیا، آپؓ نے حضرت حارث بن کعبؓ سے گورنری واپس لے لی، آپؓ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کا مال ضبط کر لیا اور آپؓ نے حمص کے گورنر کو واپس بلا کر اونٹ چرانے پر لگا دیا لیکن کسی کو حکم عدولی کی جرأت نہ ہوئی۔
الیگزینڈر نے 17 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا لیکن دنیا کو کوئی نظام، کوئی سسٹم نہ دے سکا جب کہ حضرت عمر فاروقؓ نے دنیا کو ایسے سسٹم دیے جو آج تک پوری دنیا میں رائج ہیں، آپؓ نے نماز فجر میں الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ کرایا، آپؓ کے عہد میں نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا، آپؓ نے شراب نوشی کی سزا مقرر کی، سن ہجری کا اجراء کیا، جیل کا تصور دیا، مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں، مسجدوں میں روشنی کا بندوبست کرایا، پولیس کا محکمہ بنایا، ایک مکمل عدالتی نظام کی بنیاد رکھی، آب پاشی کا نظام قائم کرایا، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں اور فوج کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا، آپؓ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواؤں اور بے آسراؤں کے وظائف مقرر کیے۔
آپؓ نے دنیا میں پہلی بار حکمرانوں، سرکاری عہدیداروں اور والیوں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا، آپؓ نے بے انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا اور آپؓ نے دنیا میں پہلی بار حکمران کلاس کی اکاؤنٹیبلٹی شروع کی، آپؓ راتوں کو تجارتی قافلوں کی چوکیداری کرتے تھے، آپؓ فرمایا کرتے تھے جو حکمران عدل کرتے ہیں وہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں، آپؓ کا فرمان تھا ’’ قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتا ہے،، آپؓ کی مہر پر لکھا تھا ’’عمر! نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے،، آپؓ کے دسترخوان پر کبھی دو سالن نہیں رکھے گئے۔
آپؓ زمین پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سو جاتے تھے، آپؓ سفر کے دوران جہاں نیند آ جاتی تھی آپؓ کسی درخت پر چادر تان کر سایہ کرتے تھے اور سو جاتے تھے اور رات کو ننگی زمین پر دراز ہو جاتے تھے، آپؓ کے کرتے پر چودہ پیوند تھے اور ان پیوندوں میں ایک سرخ چمڑے کا پیوند بھی تھا، آپؓ موٹا کھردرا کپڑا پہنتے تھے، آپؓ کو نرم اور باریک کپڑے سے نفرت تھی، آپؓ کسی کو جب سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تو اس کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور اگر سرکاری عہدے کے دوران اس کے اثاثوں میں اضافہ ہو جاتا تو آپؓ اس کی اکاؤنٹیبلٹی کرتے تھے۔
آپؓ جب کسی کو گورنر بناتے تو اسے نصیحت فرماتے تھے، کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا، آپؓ فرماتے تھے ظالم کو معاف کر دینا مظلوموں پر ظلم ہے اور آپؓ کا یہ فقرہ آج انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے ’’مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں تم نے انھیں کب سے غلام بنا لیا ؟ ‘‘ فرمایا میں اکثر سوچتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں ’’عمرؓ بدل کیسے گیا‘‘ آپؓ اسلامی دنیا کے پہلے خلیفہ تھے جنھیں ’’امیر المومنین‘‘ کا خطاب دیا گیا، دنیا کے تمام مذاہب کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہے اسلام کی سب سے بڑی خصوصیت عدل ہے اور حضرت عمر فاروقؓ وہ شخصیت ہیں جو اس خصوصیت پر پورا اترتے ہیں۔
آپؓ کے عدل کی وجہ سے عدل دنیا میں عدل فاروقی ؓ ہو گیا، آپ شہادت کے وقت مقروض تھے چنانچہ آپؓ کی وصیت کے مطابق آپ کا واحد مکان بیچ کر آپ کا قرض ادا کر دیا گیا اور آپؓ دنیا کے واحد حکمران تھے جو فرمایا کرتے تھے میرے دور میں اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کی سزا عمر (حضرت عمر فاروقؓ) کو بھگتنا ہو گی، آپؓ کے عدل کی یہ حالت تھی آپؓ کا انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دور دراز علاقے کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چیخ کر بولا ’’ لوگو! حضرت عمرؓ کا انتقال ہو گیا‘‘ لوگوں نے حیرت سے پوچھا ’’تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں ہو تمہیں اس سانحے کی اطلاع کس نے دی‘‘ چرواہا بولا ’’ جب تک حضرت عمر فاروقؓ زندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کر لے گیا، میں نے بھیڑیئے کی جرأت سے جان لیا آج دنیا میں حضرت عمر فاروقؓ موجود نہیں ہیں‘‘۔
میں دنیا بھر کے مؤرخین کو دعوت دیتا ہوں وہ الیگزینڈر کو حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے رکھ کر دیکھیں انھیں الیگزینڈر حضرت عمر فاروق ؓ کے حضور پہاڑ کے سامنے کنکر دکھائی دے گا کیونکہ الیگزینڈر کی بنائی سلطنت اس کی وفات کے پانچ سال بعد ختم ہو گئی جب کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دور میں جس جس خطے میں اسلام کا جھنڈا بھجوایا وہاں سے آج بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں آتی ہیں، وہاں آج بھی لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں، دنیا میں الیگزینڈر کا نام صرف کتابوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے جب کہ حضرت عمر فاروقؓ کے بنائے نظام دنیا کے 245 ممالک میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں، آج بھی جب کسی ڈاک خانے سے کوئی خط نکلتا ہے ۔
پولیس کا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، کوئی فوجی جوان چھ ماہ بعد چھٹی پر جاتا ہے یا پھر حکومت کسی بچے، معذور، بیوہ یا بے آسرا شخص کو وظیفہ دیتی ہے تو وہ معاشرہ، وہ سوسائٹی بے اختیار حضرت عمر فاروقؓ کو گریٹ تسلیم کرتی ہے، وہ انھیں تاریخ کا سب سے بڑا سکندر مان لیتی ہے ماسوائے ان مسلمانوں کے جو آج احساس کمتری کے شدید احساس میں کلمہ تک پڑھنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھتے ہیں۔
لاہور کے مسلمانوں نے ایک بار انگریز سرکار کو دھمکی دی تھی ’’ اگر ہم گھروں سے نکل پڑے تو تمہیں چنگیز خان یاد آ جائے گا‘‘ اس پر جواہر لال نہرو نے مسکرا کر کہا تھا ’’افسوس آج چنگیز خان کی دھمکی دینے والے مسلمان یہ بھول گئے ان کی تاریخ میں ایک (حضرت) عمر فاروقؓ بھی تھا‘‘ ہم آج بھی یہ بھولے ہوئے ہیں کہ ہم میں ایک (حضرت) عمر فاروقؓ بھی تھے جن کے بارے میں رسولؐ اللہ نے فرمایا تھا ’’ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ حضرت عمرؓ بن خطاب ہوتے‘‘۔
زوال کی دیمک
جاوید چوہدری جمعرات 15 اکتوبر 2015
سردار ایاز صادق صاحب آپ جیت چکے ہیں‘ آپ کو این اے 122 سے چوتھی مرتبہ ایم این اے بننا مبارک ہو‘ آپ پچھلے تین دن سے کامیابی کے ڈھول پیٹ رہے ہیں‘ یہ بھی آپ کا حق ہے‘ آپ اب اگر اپنے اس حق کی دھم دھم سے مطمئن ہو گئے ہوں تو میں آپ کی شان میں ایک گستاخی کر لوں؟ میں آپ سے چند سوالوں کی جسارت کر لوں؟ آپ کی بہت مہربانی‘ آپ نے مجھے اجازت دے دی۔
سردار صاحب آپ نے ابھی تازہ تازہ اپنے حلقے کا دورہ کیا‘ آپ ابھی تازہ تازہ اپنی اس محبوب عوام کے گھروں سے واپس آئے ہیں جس نے چوتھی بار آپ کو عزت دی‘ جنھوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کی تاریخ کے حساس ترین موڑ پر آپ‘ آپ کے قائد اور آپ کی جماعت کی عزت رکھ لی‘یہ لوگ اگر 11 اکتوبر کو آپ پر مہربانی نہ کرتے‘ یہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہ کرتے تو آپ لوگ اس وقت لاہور شہر میں نکلنے کے قابل نہ ہوتے‘ یہ این اے 122 کے لوگوں کی مہربانی اور کھلا دل ہے جس کے صدقے آپ آج کامیابی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔
جن کی مہربانی سے آپ دوبارہ قومی اسمبلی کے اسپیکر بن رہے ہیں اور آپ کے ساتھی وزراء منہ پر بند مٹھی رکھ کر اورُرُڑ کی آوازیں نکال رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے جناب اسپیکر! آپ کے حلقے کے ان لوگوں کو اس محبت‘ اس فراخ دلی اور اس اعلیٰ ظرفی کا کیا انعام ملا؟ ان لوگوں کو آپ کے چار مرتبہ ایم این اے بننے اور دوبار اسپیکر منتخب ہونے کا کیا فائدہ ہوا؟
آپ ووٹ مانگنے کے لیے گھر گھر‘ گلی گلی گئے‘ آپ نے اپنے حلقے کے لوگوں کی صورتحال دیکھی چنانچہ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے‘ کیا آپ کے حلقے کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی مل رہا ہے‘ کیا حلقے میں سیوریج کا سسٹم ٹھیک ہے‘ کیا علاقے کی گلیاں صاف ہیں‘ کیا نالیاں پکی ہیں‘ کیا پانی بدبودار اور بیماریوں سے پاک ہے‘ کیا آپ اپنے گھر کی ٹونٹی کا پانی پی سکتے ہیں‘ کیا آپ کے حلقے کے تمام اسکولوں اور کالجوں کی عمارتیں مکمل ہیں۔
کیا استاد پورے ہیں‘ کیا آپ کے حلقے کے لوگوں کو ڈاکٹرز‘ نرسز اور ادویات کی سہولت دستیاب ہے‘ کیا پورے حلقے میں سینیٹری ورکرز موجود ہیں‘ کیا تھانے ٹھیک ہیں‘ کیا آپ کے تھانے میں آپ کی سفارش اور ٹیلی فون کے بغیر ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے‘ کیا آپ کے حلقے میں جرائم نہیں ہوتے‘ کیا آپ کے حلقے میں لوگوں کو باعزت روزگار مل رہا ہے اور کیا آپ کے حلقے میں میرٹ‘ انصاف اور قانون کی پابندی ہوتی ہے؟ اگر ہاں تو پھر آپ بے شک اگلے دو تین برس تک خوشیوں کے شادیانے بجاتے رہیے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ جشن کس بات کا؟ آپ یہ مٹھائیاں کیوں تقسیم کر رہے ہیں؟ جناب اسپیکر! کہیں آپ عوام کو چوتھی مرتبہ بے وقوف بنانے پر تو خوش نہیں ہیں؟ کہیں آپ چوتھی بار اپنا اُلو سیدھا ہونے پر تو شاداں نہیں ہیں؟
جناب ایاز صادق صاحب آپ جس دن ان سوالوں کا جواب تلاش کر لیں گے‘ آپ کو اس دن اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا ’’میری چار کامیابیوں کا میرے لوگوں‘ میرے عوام کو کیا فائدہ ہوا‘‘ آپ یقین کیجیے جناب ایاز صادق صاحب! آپ کے حلقے سے لوگ 1890ء سے حکمران بنتے اور تاریخ کے قبرستان میں دفن ہوتے آ رہے ہیں اور آپ بھی بہت جلد ان لوگوں کا حصہ بننے والے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ بھی ماضی کے چالاک حکمرانوں کی طرح عوام کی خواہشوں‘ عوام کی ضرورتوں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں چنانچہ آپ میں اور ماضی کے سیاسی مزاروں میں کوئی فرق نہیں‘ عوام آپ سے پہلے بھی محروم تھے اور عوام آج بھی محروم ہیں۔
لوگ پہلے بھی محرومیوں کی درخواستیں جیب میں ڈال کر عوام کے نمائندوں کے پیچھے دوڑتے تھے اور عوام آج بھی پاؤں میں ضرورتوں کے تنور باندھ کر آپ جیسے لوگوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں‘ ان بے چارے بے بس لوگوں کو کل کوئی مسیحا ملا اور نہ ہی آج کسی نے ان کے دکھ‘ ان کے درد پر ہاتھ رکھا‘ یہ بے بس لوگ آپ جیسے لوگوں کے اقتدار کی بھٹی کے ایندھن کے سوا کچھ نہیں ہیں‘ آپ آج انھیں بھٹی میں ڈال کر اسپیکر کا کیک بنا لیجیے اور کل آپ جیسا کوئی دوسرا آپ جیسے نعرے‘ لارے اور لپے لگا کر ان کی خواہشوں‘ ان کی ضرورتوں سے اپنی بھٹی گرم کر لے گا اور بس۔
بات رہی پی پی 147 سے پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار محسن لطیف کی ناکامی کی تو پاکستان مسلم لیگ ن کی یہ سیٹ خاندانی سیاست کی نذر ہو گئی‘ محسن لطیف کی ناکامی نے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے خاندانوں کے اختلافات کھول کر سامنے رکھ دیے‘ یہ اختلافات کیا ہیں؟ آپ یہ جاننے کے لیے محسن لطیف کا بیک گراؤنڈ جان لیجیے‘ محسن لطیف میاں نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کے بھائی میاں لطیف کے صاحبزادے ہیں۔
میاں لطیف کی بیگم اور محسن لطیف کی والدہ میاں برادران کے تایا میاں عبدالعزیز کی صاحبزادی ہیں‘ میاں عبدالعزیز میاں نواز شریف کے والد میاں شریف کے بھائی اور اتفاق گروپ کے پارٹنر تھے‘ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد جب میاں برادران گرفتار ہوئے اور بیگم کلثوم نواز نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک شروع کی تو پورے خاندان میں محسن لطیف اور پوری مسلم لیگ ن میں جاوید ہاشمی دو واحد لوگ تھے جنھوں نے کھل کر ان کا ساتھ دیا‘ محسن لطیف اس پورے دور میں اپنی پھوپھی کے ساتھ رہے‘ میاں نواز شریف اور کلثوم نواز کو آج بھی محسن لطیف کی قربانی اور ساتھ کا احساس ہے‘ یہ آج بھی دونوں کے قریب ہیں‘ محسن لطیف پی پی 147 سے دو بار ایم پی اے منتخب ہوئے‘ یہ 2008ء میں ایم پی اے بنے‘ دوسری بار 2013ء میں جیتے لیکن یہ 11 اکتوبر کو ضمنی الیکشن میں ہار گئے‘ کیوں؟ اور کیسے؟
اس کی وجہ خاندانی سیاست اور میاں برادران کے اندرونی سیاسی اختلافات ہیں‘ میاں یوسف عزیز محسن لطیف کے سگے ماموں ہیں‘ یہ محسن لطیف کے والد میاں لطیف کے سالے اور والدہ شہناز لطیف کے بھائی ہیں‘ میاں یوسف عزیز میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بہنوئی بھی ہیں‘ محسن لطیف کی والدہ شہناز لطیف کا اپنے بھائی اور میاں برادران کے بہنوئی میاں یوسف عزیز کے ساتھ جائیداد کا جھگڑا چل رہا ہے‘ معاملہ عدالتوں تک جا پہنچا ہے۔
اس معاملے نے خاندان کو دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا‘ میاں نواز شریف اور کلثوم نواز کا جھکاؤ میاں لطیف‘ شہناز لطیف اور محسن لطیف کی طرف ہے جب کہ میاں شہباز شریف کے صاحبزادے میاں یوسف عزیز کے ساتھ ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ میاں شہباز شریف کے خاندان کا میاں یوسف عزیز کے ساتھ ایک دوسرا تعلق بھی ہے اور یہ تعلق پہلے تعلق کو مزید مضبوط بناتا ہے‘ حمزہ شہباز شریف پنجاب میں حلقوں کی سیاست کے انچارج ہیں‘ یہ خاندان میں محسن لطیف کے مخالف دھڑے کے ساتھ ہیں چنانچہ خاندان کی اس لڑائی کا نقصان محسن لطیف کے حلقے کے لوگوں کو پہنچنا شروع ہو گیا۔
اڑھائی برسوں میں پی پی 147 میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا‘ محسن لطیف کو اسٹریٹ لائیٹس کے خراب بلب تبدیل کرانے کے لیے بھی حمزہ شہباز سے رابطہ کرنا پڑتا تھا اور رابطے کے باوجود بلب تبدیل نہیں ہوتے تھے‘ یہ حلقے کے لیے جو بھی کام لے کر جاتے تھے وہ نہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ محسن لطیف نے عوام سے چھپنا شروع کر دیا‘ الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن نے این اے 122 اور پی پی 147 میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو حمزہ شہباز محسن لطیف کے بجائے یہ ٹکٹ حافظ نعمان کو دینا چاہتے تھے‘ حافظ نعمان پی پی 148 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے تگڑے امیدوار ہیں۔
2013ء میں ن لیگ نے ان کی جگہ اختر رسول کو ٹکٹ دے دیا تھا‘ حمزہ شہباز شریف اس بار انھیں پی پی 147 سے الیکشن لڑانا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف نہیں مانے‘ ن لیگ کے لاہوری گروپ نے سردار ایاز صادق کو یہ حلقہ اپنے صاحبزادے کے حوالے کرنے کا مشورہ بھی دیا لیکن یہ بھی نہ مانے اور یوں یہ ٹکٹ مجبوری کے عالم میں محسن لطیف ہی کو مل گیا مگر محسن لطیف کا ہارنا طے ہو چکا تھا اور یہ ہارے اور یہ شاید اب سیاست میں واپس بھی نہ آ سکیں کیونکہ حمزہ شہباز 2018ء کے الیکشنوں تک مزید مضبوط ہو جائیں گے اور یہ پی پی 147 کا ٹکٹ سردار ایاز صادق کے صاحبزادے کو دے دیں گے لیکن اپنے خاندانی حریف پر مہربانی نہیں کریں گے چنانچہ آپ اگر سردار ایاز صادق کی این اے 122 میں پرفارمنس دیکھیں اور پی پی 147 میں خاندانی سیاست کا تجزیہ کریں تو آپ دونوں جگہوں پر کف افسوس ملنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
پاکستان کے سیاسی حکمران طبقے کا سب سے بڑا ایشو تاریخ ناشناسی ہے‘ یہ لوگ پڑھتے نہیں ہیں چنانچہ یہ اپنی ساٹھ ستر سال کی زندگی کو آفاقی سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں قدرت ان کی غلام ہے اور یہ کبھی ان کی چھت پر سورج غروب نہیں ہونے دے گی‘ کاش یہ لوگ کبھی لاہور کی تاریخ کی کتاب ہی پکڑ کر شاہی قلعے سے قطب الدین ایبک اور ایاز کے مزارات تک کا چکر لگا لیں‘ یہ راجہ رنجیت سنگھ کے دور ہی کا مطالعہ کر لیں تو یہ اپنی زندگی اور اقتدار دونوں کی اوقات سے آگاہ ہو جائیں گے۔
یہ جان لیں گے لاہور اگر اپنے بانی لاہو اور محمود غزنوی کے اس عظیم گورنر ایاز کا نہیں ہوا جس کی وفاداری پر علامہ اقبال جیسے شاعر بھی قلم اٹھانے پر مجبور ہو گئے تھے تو پھر یہ آپ کی جیب میں کتنی دیر رہے گا‘ آپ کتنی دیر اس پر اپنے اقتدار کے جھنڈے لہرا لیں گے؟ تاریخ کا سبق ہے‘ عوام سے جھوٹے وعدے کرنے والے سرداروں کی چالاکیاں اور شہزادوں کی خاندانی لڑائیاں بڑی بڑی سلطنتوں کو نگل جاتی ہیں اور میاں برادران کی سلطنت ان دونوں امراض کا شکار ہو چکی ہے‘ شہزادے بھی آپس میں لڑ رہے ہیں اور سردار بھی عوام سے جھوٹے وعدے کر رہے ہیں چنانچہ زوال کی دیمک کرسی کے پایوں میں جگہ بناتی جا رہی ہے‘ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے پارٹی اندر سے کمزور ہو رہی ہے اور یہ کمزوری کسی نہ کسی دن گلستان جوہر کی پہاڑی کی طرح نیچے آ گرے گی۔
اکبری منڈی
جاوید چوہدری منگل 13 اکتوبر 2015
این اے 122 کا ضمنی الیکشن صرف ایک الیکشن نہیں تھا، یہ عوام، وقت اور قدرت کی سپریم جوڈیشل کا حتمی فیصلہ بھی تھا، یہ فیصلہ ملک، سیاسی جماعتوں اور ملک کے سیاسی نظام کا مستقبل بھی ہے، پاکستان مسلم لیگ ن ساڑھے سات برس سے لاہور کے ترقیاتی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے، یہ غلط بھی نہیں کیونکہ لاہور میں ساڑھے سات سال میں ریکارڈ کام ہوئے ہیں، لاہور میں انڈرپاسز، اوور ہیڈ برجز، سڑکوں، میٹروبس اور پارکس کا جال بچھا دیا گیا، آپ اگر کراچی، کوئٹہ یا پشاور سے لاہور جائیں تو آپ کو ایک سماجی جھٹکا لگتا ہے اور آپ کو یہ سمجھنے میں بڑی دیر لگتی ہے ’’لاہور بھی پاکستان کا حصہ ہے‘‘۔
وزیراعلیٰ پنجاب در اصل لاہور کو پیرس بنانے کے خبط میں مبتلا ہیں، یہ دن رات اس کام میں جتے ہوئے ہیں، ان کا خیال تھا، لاہور کے لوگ ان کی ان شبانہ روز کوششوں کا دل سے احترام کرتے ہیں اور یہ لاہور کے جس کھمبے پر ہاتھ پھیر دیں گے لوگ اسے مقدس پتھر سمجھ کر چومنے پر مجبور ہو جائیں گے لیکن این اے 122 اور پی پی 147کے نتائج نے اس دعوے کو دھوپ میں رکھا مومی مجسمہ ثابت کر دیا اور پاکستان مسلم لیگ ن لاہور شہر میں صوبائی نشست سے بھی محروم ہو گئی اور حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق، عابد شیر علی اور ماروی میمن کی جدوجہد، الیکشن سے ایک دن قبل وزیراعظم کی پریس کانفرنس اور دہی بھلوں کی آڑ میں شملہ پہاڑی، بوہڑ والا چوک اور ٹولنٹن مارکیٹ کے دورے کے بعد بھی پاکستان مسلم لیگ ن کا کھمبا پی ٹی آئی کے امیدوار سے صرف اڑھائی ہزار ووٹ زیادہ لے سکا۔
آپ ذرا تصور کیجیے اگر الیکشن سے ایک دن قبل وزیراعظم لاہور میں پریس کانفرنس نہ کرتے، یہ لاہوریوں کو ’’اورنج لائین میٹرو ٹرین‘‘ کی رشوت پیش نہ کرتے، یہ حلقے کا دورہ نہ کرتے، اگر وزیراعلیٰ این اے 122 کے ناراض دھڑوں کو راضی نہ کرتے، اگر حمزہ شہباز شریف اپنی چمک نہ دکھاتے، اگر خواجہ سعد رفیق ریلوے سے وابستہ 40 ہزار ووٹروں کو پکی نوکریوں اور ’’نج کار ی نہیں ہو گی‘‘ کا لولی پاپ نہ دیتے، اگر عابد شیر علی دھمال نہ ڈالتے اور اگر ماروی میمن جنرل پرویز مشرف سے سیکھی ہوئی اخلاقیات کا کھلا ڈلا استعمال نہ کرتیں تو کیا بنتا؟ نتائج کیا ہوتے؟ یقینا ایاز صادق کا انجام بھی وہی ہوتا جو پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی امیدوار محسن لطیف کا ہوا، اس ضمنی الیکشن نے ثابت کر دیا۔
عمران خان میاں برادران کے لاہوری قلعے میں ٹھیک ٹھاک شگاف ڈال چکے ہیں اور یہ اگر اب اپنے کھلنڈرے پن اور زبان پر قابو پا لیں اور سنجیدہ سیاست شروع کر دیں تو یہ اگلے عام الیکشنوں میں پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کا وہی حال کریں گے جو 2013 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ہوا لیکن حقیقت یہ ہے جس طرح پاکستان مسلم لیگ ن ہمیشہ اپنے غرور اور گردن کے سریے سے مار کھاتی ہے، بالکل اسی طرح عمران خان اپنی زبان سے اپنے تیل کے کنوؤں کو آگ لگا دیتے ہیں، جس طرح میاں برادران کو اپنے تکبر پر قابو نہیں رہتا بالکل اسی طرح عمران خان کے دانت بھی ان کی زبان کو نہیں سنبھال پاتے، میں دل سے یہ سمجھتا ہوں، پاکستان مسلم لیگ ن اخلاقی لحاظ سے یہ الیکشن ہار چکی ہے اور اسے اب ایاز صادق کو قومی اسمبلی کاا سپیکر نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اڑھائی ہزار ووٹوں کی لیڈ والا اسپیکر میاں برادران کی بڑی سیاسی غلطی ثابت ہو گا۔
یہ ضمنی الیکشن عمران خان کے منشور پر بھی عدم اعتماد ہے، عمران خان ملک میں الزامات، بدزبانی، گالیوں اور ’’میں ناں مانوں‘‘ کی سیاست کے امام ہیں، دنیا کا کوئی صحیح الدماغ شخص پانچ منٹ تک عمران خان کی تقریر نہیں سن سکتا، یہ سنی سنائی باتوں کو آسمانی حکم ماننے کے ماہر بھی ہیں، یہ الزام پہلے لگاتے ہیں، ثبوت بعد میں تلاش کرتے ہیں اور جب ثبوت کو ثابت کرنے کی باری آتی ہے تو یہ اس الزام کو سیاسی بیان قرار دے دیتے ہیں جسے یہ پہلے الہام کا درجہ دیتے ہیں۔
یہ اس بار بھی الہامی بیانات کے ساتھ ضمنی الیکشنوں میں اترے، یہ اپنے اس مہنگے ترین امیدوار کو بھی میدان میں لے آئے جس نے حلقے میں دولت کے دریا بہا دیے، عمران خان نے اوکاڑہ میں اشرف سوہنا کو بھی اپنا امیدوار بنا دیا، اشرف سوہنا تازہ تازہ پاکستان پیپلز پارٹی سے لوٹے ہو کر پاکستان تحریک انصاف میں آئے ہیں لیکن نتیجہ کیا نکلا، اس اشرف سوہنا کی ضمانت ضبط ہو گئی جس کے لیے عمران خان نے تاریخی جلسہ کیا تھا جب کہ عبدالعلیم خان کو ان کے کروڑوں روپے بھی کامیاب نہ کروا سکے، عمران خان کو این اے 122 اور این اے 144 سے دو باتیں سیکھنی چاہئیں، اول، لوگ آپ کی بدزبانی، الزامات اور بدتمیزی کو پسند نہیں کر رہے، آپ ہر وہ الیکشن ہار جاتے ہیں، آپ ہر اس پلیٹ فارم پر اپنا مقدمہ لوز کر بیٹھتے ہیں جہاں آپ اپنی زبان کے سارے گھوڑے کھول دیتے ہیں، آپ کو اس ہار کے بعد اپنی زبان کو قابو میں رکھنے کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔
دوم، آپ کا یہ خبط غلط ثابت ہو رہا ہے ’’لوٹے‘‘ آپ کی کامیابی کی ضمانت ہیں، آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں اور جواب دیں آپ نے آج تک جتنے جینوئن، نئے اور نوجوانوں کو ٹکٹ دیے، ان میں سے کتنے امیدوار ہارے اور آپ نے جتنے ’’لوٹوں‘‘ کو اپنا امیدوار بنایا ان میں سے کتنے لوگ جیتے؟ آپ کو اپنی اصلاح کا بھرپور فارمولہ مل جائے گا، آپ یہ دو باتیں بھی پلے باندھ لیں، آپ جب تک نئے پاکستانی پیدا نہیں کریں گے، آپ اس وقت تک نیا پاکستان تخلیق نہیں کر سکیں گے اور نئے پاکستانی ڈی جے بٹ اور گالیوں کے بطن سے پیدا نہیں ہوں گے اور دوسری بات آپ خواہ کچھ بھی کر لیں۔
آپ قوم کو شیخ رشید، عبدالعلیم خان اور اشرف سوہنا جیسے لوگوں کے ساتھ نئے پاکستان میں نہیں لے جا سکیں گے، کیوں؟ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے پرانا پاکستان پھٹا پرانا پاکستان بنا تھا، عمران خان اپنے لاہور کے جیتنے والے ایم پی اے شعیب صدیقی سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، یہ پی ٹی آئی کے جینوئن ورکرز ہیں، یہ عبدالعلیم خان کی طرح امیر بھی نہیں ہیں، عمران خان نے ان کے لیے کوئی جلسہ کیا اور نہ ہی ووٹ مانگے لیکن یہ اس کے باوجود جیت گئے، کیوں؟ کیونکہ یہ جینوئن ہیں اور یہ جلسوں میں ٹھمکے لگانے کے بجائے دروازے دروازے جا کر چپ چاپ ووٹ مانگتے رہے چنانچہ یہ جیت گئے اور حلقے پر کروڑوں روپے لگانے اور بھابھی کو کروڑوں روپے کے تحفے دینے والے ہار گئے، عمران خان شعیب صدیقی سے سیاست کے اصل گر سیکھ سکتے ہیں۔
گیارہ اکتوبر کے ضمنی الیکشنوں نے آصف علی زرداری کی سیاست کو بھی بری طرح بے نقاب کر دیا، لاہور کے این اے 122 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر عامر حسن تھے، یہ سردار ایاز صادق اور عبدالعلیم سے زیادہ پڑھے لکھے، متحرک اور نوجوان ہیں، یہ حلقہ کبھی پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن ضمنی الیکشن میں بیرسٹر عامر کو صرف 1683 ووٹ ملے، ان کی ضمانت بھی ضبط ہو گئی، اوکاڑہ میں سابق ایم این اے چوہدری سجادالحسن پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے، ان کو 3700 ووٹ ملے، یہ دونوں نتائج ثابت کرتے ہیں، بھٹو کی پارٹی کو جو نقصان جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف، میاں نواز شریف اور طالبان مل کر نہیں پہنچا سکے۔
وہ نقصان ذوالفقار علی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری نے ایک جھٹکے میں پہنچا دیا، یہ پارٹی 35 سال تک جبر کے ٹھڈے اور مکے کھاتی رہی لیکن زندہ رہی مگر آصف علی زرداری کے پانچ سال اور ایک صدارت نے پارٹی کا جنازہ نکال دیا، یہ پارٹی اگر ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہو گئی تو یہ بہت بڑا معجزہ ہو گا مگر معجزوں کی تاریخ بتاتی ہے جب خدا کسی سے ناراض ہوتا ہے تو آپ کے ہاتھ میں چابی ہونے کے باوجود آپ معجزوں کے دروازے نہیں کھول پاتے اور آصف علی زرداری آج کے دور میں اس کی بہت بڑی مثال ہیں، مجھے خطرہ ہے 2018ء کے الیکشنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی ٹکٹ سامنے رکھ کر بیٹھی رہے گی اور یوسف رضا گیلانی تک ٹکٹ نہیں لیں گے، میاں نواز شریف کو آصف علی زرداری کا انجام دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنی چاہیے۔
غرور اور تکبر پر معافی مانگنی چاہیے اور ان تمام لوگوں کا احتساب کرنا چاہیے جن پر نندی پور، ایل این جی اور میٹرو میں پیسے بنانے کا الزام ہے یا جو لوگ فرنٹ مینوں کے ذریعے رقمیں وصول کر رہے ہیں، آپ بلاشبہ خوش قسمت ہیں لیکن اب آپ ناکامی اور احتساب سے زیادہ دور نہیں ہیں اور جس دن آپ کے ایک شہزادے کے دو فرنٹ مین ایم پی اے اور دو صوبائی وزیر پکڑے گئے اس دن آپ کے اقتدار کو گرہن لگ جائے گا، آپ بھی اس دن اپنے لندن کے فلیٹ کی تزئین و آرائش پر مجبور ہو جائیں گے اور اس ضمنی الیکشن نے الیکشن کمیشن اور سیاست کا رہا سہا بھرم بھی کھول دیا، این اے 122 کی الیکشن مہم کے دوران کیا کیا نہیں ہوا، دونوں امیدوار مہم پر صرف پندرہ پندرہ لاکھ روپے خرچ کر سکتے تھے لیکن اخراجات کی حد ایک ارب تک جا پہنچی۔
وفاق سے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، بجلی اور پانی کے وزیر مملکت عابد شیر علی اور ماروی میمن قانون کی دھجیاں اڑاتی رہیں اور خیبر پختونخوا سے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور ان کے وزرا لاہور میں ووٹ مانگ کر الیکشن کمیشن کے ضابطوں کا مذاق اڑاتے رہے لیکن الیکشن کمیشن جوتے تلاش کرتا رہ گیا، اس الیکشن نے یہ بھی ثابت کر دیا ملک میں الیکشن اب غریب آدمی کے بس کی بات نہیں، آپ اگر اب قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا ارب پتی ہونا ضروری ہے۔
آپ کے پاس اگر پیسہ ہے تو آپ کے لیے جنرل پرویز مشرف کے دروازے بھی کھلے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے محلات بھی، عمران خان کے انقلاب کا میدان جنگ بھی اور میاں نواز شریف کی بانہیں بھی اور آپ اگر غریب ہیں تو آپ خواہ کتنے ہی پڑھے لکھے، سمجھ دار، ایماندار اور تجربہ کار کیوں نہ ہوں آپ ملک کے عظیم لیڈروں سے ملاقات تک نہیں کر سکتے، قائداعظم کے اس ملک میں نظریات اور اخلاص کو انتقال فرمائے دہائیاں گزر چکی تھیں لیکن اس ضمنی الیکشن میں ان مرحوم نظریات کی تدفین ہو گئی چنانچہ آپ کے بعد قائداعظم کے ملک کی سیاست اور اکبری منڈی میں کوئی فرق نہیں رہا، آپ اکبر اعظم ہیں تو منڈی کے دروازے آپ پر کھل جائیں گے اور آپ اگر اکبر ایس بابر ہیں تو آپ کا کوئی وارث نہیں ہوگا۔