جاوید چوہدری

اپنا گریبان چاک
جاوید چوہدری اتوار 11 اکتوبر 2015

’’اسی طرح کوئی فوجی کرنل کسی کرمنل کیس میں ملوث تھا، معاملہ جسٹس شمیم حسین قادری کے سامنے پیش ہوا، جسٹس صاحب نے کرنل کو برا بھلا کہہ دیا، ذوالفقار علی بھٹو نے چیف جسٹس سردار اقبال کو اسلام آباد طلب کیا اور ان سے کہا، آپ اپنے جج صاحبان کو سنبھالیے، ہم ابھی جنگل سے باہر نہیں نکلے، سردار اقبال نے جسٹس شمیم قادری کو بھٹو کا پیغام پہنچا دیا، جسٹس قادری اتنے خوفزدہ ہوئے کہ معافی تلافی کے لیے کمانڈر انچیف جنرل ٹکا خان تک جا پہنچے اور شاید اس کی درازی عمر کے لیے بکرے کی قربانی بھی دی‘‘ یہ ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب ’’اپنا گریبان چاک‘‘ کا اقتباس ہے۔
ڈاکٹر صاحب تین اکتوبر 2015ء کو 91 سال کی عمر میں ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے، ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب آج سے بارہ سال قبل 2003ء میں شایع ہوئی، وہ جنرل پرویز مشرف کا مارشل لائی دور تھا، میڈیا کہنے کی حد تک آزاد تھا لیکن آزادی کی دیگ پر احتیاط کا ڈھکن چڑھا تھا، خوف کے اس زمانے میں ’’اپنا گریبان چاک‘‘ جیسی کتاب نے تہلکہ مچا دیا، ہم میڈیا کے لوگ ہمیشہ آزادی رائے کے لیے جدوجہد کا پرائیڈ لیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے اگر ملک میں رائے کی تھوڑی بہت آزادی ہے تو اس کا نوے فیصد کریڈٹ ڈاکٹر جاوید اقبال جیسے لوگوں اور ان کی ’’اپنا گریبان چاک‘‘ جیسی کتابوں کو جاتا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں، جس میں لوگ ’’گھوڑے شاہ‘‘ کے مزار کی مٹی اور حضرت بری امام ؒ کے بھانبڑ کے نمک کو تعویز بنا لیتے ہوں اور جس میں لوگ مجذوبوں کے لنگر اور گٹر کے پانی کو طب سمجھتے ہوں، اس ملک میں علامہ اقبال کا بیٹا ہونا اور پھر نارمل زندگی گزارنا کمال ہے اور ڈاکٹر صاحب پوری زندگی یہ کمال کرتے رہے، میں کتابوں کا کیڑا ہوں، میری زندگی میں شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو گا میں نے جس میں کتاب نہ پڑھی ہو، میں زندگی میں درجنوں مشاہیر سے بھی ملا ہوں لیکن ان میں جاوید اقبال جیسے لوگ اور ’’اپنا گریبان چاک‘‘ جیسی کتابیں بہت کم تھیں مثلاً ملک کا شاید ہی کوئی شخص یہ توقع کرتا ہو علامہ اقبال کا بیٹا اپنی سوانح عمری میں بڑھاپے کے مسائل بتاتے ہوئے یہ بھی لکھ دے گا، بڑھاپے میں مردانگی کی کمی بہت تکلیف دیتی ہے (نوٹ: میں نے یہاں ڈاکٹر صاحب کے اصل الفاظ نہیں لکھے، مجھ میں ان کے لفظ ری پروڈیوس کرنے کی جرأت نہیں) اور حضرت علامہ اقبال کا صاحبزادہ کتاب میں کیمبرج کے دور کی گرل فرینڈز کی تصویریں بھی چھاپ دے گا۔
اس کے لیے حقیقتاً جرأت، بہادری اور ایک خاص قسم کی درویشی چاہیے اور ڈاکٹر جاوید اقبال میں یہ درویشی اور یہ جرأت دونوں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں، ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں ہم نے ان ڈاکٹر محمد اقبال کو بھی علامہ، مولانا اور رحمۃ اللہ علیہ بنا دیا جو زندگی بھر مولاؤں اور علاماؤں سے بھاگتے رہے اور جن پر عمر بھر جید علامہ اور مولانا کفر کے فتوے لگاتے رہے، ہم ایک ایسے سماج میں رہ رہے ہیں جس میں ہمارا بس نہیں چلتا ورنہ ہم ڈاکٹر محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویروں پر داڑھی لگا دیں اور ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ بھی ہیں جس میں آمر جعلی ریفرنڈم اور امریکا کو اپنے ہوائی اڈے دینے سے قبل سرکاری قاری سے تلاوت کرواتے ہیں۔
صلح حدیبیہ کی مثال دیتے ہیں اور جارج بش کو اپنا آقا مان لیتے ہیں، اس معاشرے، اس سماج اور اس ملک میں علامہ اقبال کا بیٹا ہو کر نارمل زندگی گزارنا، ایسی بے باک کتاب لکھنا اور کتاب کی اشاعت کے بعد بارہ سال تک بازاروں، کلبوں اور محفلوں میں آتے جاتے رہنا واقعی کمال تھا اور ڈاکٹر جاوید اقبال 91 سال کی عمر تک یہ کمال کرتے رہے، ڈاکٹر جاوید اقبال ہمارے مردہ معاشرے کے چند زندہ لوگوں میں شمار ہوتے تھے، یہ چلے گئے اور ان کے ساتھ ہی زندگی کی وہ قندیل بھی بجھ گئی جو منافقت سے بھرے معاشرے میں اعتدال کی علامت تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے لکھا، یحییٰ بختیار بھٹو صاحب کے اٹارنی جنرل تھے، وہ اپنے کسی دوست کو جج بنوانا چاہتے تھے، اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سردار اقبال کو سفارش کی، چیف جسٹس نے جواب دیا ’’ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ…‘‘ اٹارنی جنرل ناراض ہو گئے، جاوید اقبال نے لکھا، 1997ء میں جب چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور میاں نواز شریف کے درمیان لڑائی ہوئی تو میاں نواز شریف کی گھبراہٹ کا یہ عالم تھا کہ یہ جیل جانے کی صورت میں نئے پارٹی لیڈر کے انتخاب کے لیے صلاح مشورے کر رہے تھے، میں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا، آپ صدر فاروق لغاری کا مواخذہ کر دیں، چیف جسٹس اکیلا ہو جائے گا۔
میری تجویز مان لی گئی، فاروق احمد لغاری نے گھبرا کر استعفیٰ دے دیا اور یوں سارا بحران ٹل گیا، جسٹس جاوید اقبال کی کتاب تاریخی واقعات اور حقائق کا خزانہ ہے، انھوں نے کتاب میں ملک کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کا بڑی محبت سے ذکر کیا، سر ظفر اللہ خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر اور پاکستان کے مستقل مندوب بھی رہے تھے، جاوید اقبال نے لکھا، سر ظفر اللہ خان وزیر خارجہ کی حیثیت سے بیروت کے دورے پر گئے، بیروت کے پاکستانی سفارتخانے میں ایک فلسطینی چپڑاسی کام کرتا تھا، چپڑاسی نے ایک دن وزیر خارجہ سے عرض کیا، ہم لوگ اسرائیل کے قیام سے پہلے خوشحال تھے لیکن اب ہم پر برا وقت ہے، میری بہن آکسفورڈ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔
آپ اگر اس کے ساتھ کاغذی شادی کر لیں تو اس کی فیس معاف ہو جائے گی، وہ جب تعلیم مکمل کر لے تو آپ اس کو طلاق دے دیں، سر ظفر اللہ نے سوچنے کے لیے وقت مانگا، سال گزر گیا، وہ ایک بار پھر بیروت گئے تو چپڑاسی نے دوبارہ درخواست کر دی، سر ظفر اللہ مان گئے، فیصلہ ہوا پاکستان کے وزیر خارجہ خاتون کے ساتھ صرف کاغذی شادی کریں گے، یہ اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہیں کریں گے، خاتون وظیفے پر آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے لگی، جسٹس جاوید اقبال نے لکھا، میں نیویارک میں اقوام متحدہ کا مشن اٹینڈ کرنے گیا تو سر ظفر اللہ نے ان دنوں اس خاتون کو طلاق دے کر آزاد کر دیا کیونکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر چکی تھی، ڈاکٹر جاوید اقبال نے کینیڈا میں مقیم عالم دین ڈاکٹر فضل الرحمن کا ذکر بھی کیا، ڈاکٹر صاحب نے دعویٰ کیا، وہ علامہ اقبال کے بعد عالم اسلام کے دوسرے بڑے اسکالر تھے، وہ میکگل یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال ان کے پاس گئے، انھیں بڑی مشکل سے منایا اور انھیں پاکستان لے آئے، جنرل ایوب خان نے انھیں اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ بنا دیا، ڈاکٹر صاحب نے پاکستان میں مستقل رہائش کا فیصلہ کر لیا، انھوں نے چند مربع زمین بھی خرید لی لیکن پھر پاکستانی علماء نے ان کے خلاف محاذ کھول دیا، یہ تحریک زور پکڑ گئی یہاں تک کہ ڈاکٹر فضل الرحمن امریکا چلے گئے، شکاگو یونیورسٹی سے منسلک ہوئے اور وہیں انتقال فرمایا، اسی طرح ڈاکٹر جاوید اقبال نے پیرس میں ڈاکٹر حمید اللہ سے ملاقات کا احوال بھی لکھا، ڈاکٹر صاحب نے لکھا ، میں ایوب خان کا پیغام لے کر ڈاکٹر حمید اللہ کے پاس گیا، ڈاکٹر صاحب ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے تھے۔
میں نے انھیں ایوب خان کا پیغام دیا اور ان سے عرض کیا ’’آپ پاکستان تشریف لے آئیں‘‘ ڈاکٹر حمید اللہ نے صاف انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا، میں جب حیدر آباد دکن سے نکلا تو میں سیدھا پاکستان گیا مگر مجھے پاکستان کے باسیوں نے وہاں آباد نہ ہونے دیا، میرے ساتھ وہی سلوک ہوا جیسا ڈاکٹر عبدالسلام سے کیا گیا تھا، میں اب فرانس میں ہوں، پیرس میں روز چند فرانسیسی میری دعوت پر اسلام قبول کرتے ہیں، مجھے پاکستان آنے کی کیا ضرورت ہے‘‘ ڈاکٹر جاوید اقبال نے گورنر جنرل اسکندر مرزا کے ساتھ ایک لنچ کا احوال بھی لکھا، لنچ بہت سادہ اور دلچسپ تھا، اسکندر مرزا اور بیگم ناہید مرزا کے علاوہ کیبنیٹ لاج میں پرنس علی خان، امریکی سفیر اور ان کی اہلیہ اور اصفہانی اور ان کی بیگم لنچ پر موجود تھی۔
اسکندر مرزا محبت سے پیش آئے، ہر مہمان سے میرا تعارف کرایا ’’مجھے لنچ کے دوران ایک بات بری طرح کھٹکی، وہاں صرف دو زبانوں میں گفتگو ہو رہی تھی، انگریزی یا فارسی۔ مجھے سارا وقت یوں محسوس ہوتا رہا، میرے ملک کے حاکم پاکستانی نہیں ہیں، غیر ملکی ہیں‘‘ ڈاکٹر جاوید اقبال نے لکھا، جنرل ایوب خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنا تھا، میں اور بھٹو بھی صدر کے وفد میں شامل تھے، ذوالفقار علی بھٹو اسکندر مرزا کے ذریعے طاقت کے برآمدے میں آئے تھے، وہ اسکندر مرزا کے دور اقتدار میں سردار عبدالرب نشتر کے ذریعے گورنر جنرل ہاؤس کے باورچی خانے میں مرغیاں بھجوایا کرتے تھے، وہ بڑی مشکل سے اسکندر مرزا تک پہنچے، اسکندر مرزا نے انھیں کابینہ میں شامل کیا، ہم یو این کے وفد لاؤنج میں کھڑے تھے۔
اسکندر مرزا اپنی بیگم کے ساتھ گزرے، میں نے انھیں روک کر کافی پلائی، تھوڑی دیر بعد بھٹو وہاں سے گزرے، انھوں نے اسکندر مرزا کو دیکھا تو وہ نظریں چرا کر وہاں سے دوسری طرف نکل گئے، مجھے ان کا یہ رویہ اچھا نہ لگا چنانچہ میں نے بعد ازاں اس سے پوچھا، آپ نے ایسا کیوں کیا، بھٹو نے جواب دیا، میں نے سوچا، کہیں جنرل ایوب خان برا نہ مان جائیں، میں اس لیے اسکندر مرزا سے نہیں ملا، ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی ہمشیرہ منیرہ اقبال کی پیدائش کا واقعہ بھی لکھا ’’منیرہ کی ولادت زنان خانے کی درمیانی کوٹھڑی میں ہوئی تھی، انگریز ڈاکٹرانی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔
جب میری والدہ کو بتایا گیا، بیٹی ہوئی ہے تو فوراً بول اٹھیں ’’ہائے اس کی شادی کس سے ہو گی؟ انھیں (علامہ اقبال کو) تو اس کے لیے کوئی بر پسند نہیں آئے گا‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کے پہلے صفحے پر لکھا، میں گیارہ برس کا تھا تو میری والدہ کا انتقال ہو گیا، چودہ برس کا ہوا تو والد فوت ہو گئے، میں نے ان حادثوں سے سیکھا ’’جب ماں باپ کم عمری میں چل بسیں تو بعد کی زندگی میں کسی بھی عزیز کی موت کا اتنا رنج نہیں ہوتا‘‘ یہ اس کتاب کے چند اقتباسات ہیں، ڈاکٹر صاحب نے جتنی بھرپور زندگی گزاری تھی، انھوں نے اس سے زیادہ بھرپور کتاب لکھی، یہ کتاب پاکستان کی سیاسی، فکری اور سماجی تاریخ ہے اور اس تاریخ کے بغیر پاکستان کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکے گی۔
آپ ہمارا کمال دیکھئے، ہم نے قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ کو ایوب خان سے شکست دلوائی جب کہ جاوید اقبال ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں ہار گئے لیکن ہم اس کے باوجود قائد اعظم کو بانی پاکستان اور علامہ اقبال کو مصور پاکستان بھی کہتے ہیں، جو قومیں اپنے بانیوں کے خاندانوں کو عزت نہیں دیتیں وہ اسی طرح در در بھٹکتی ہیں، وہ اسی طرح اپنی شناخت کے لیے کوچوں اور گلیوں میں ماری ماری پھرتی ہیں۔
گڈ بائی اسٹاڈ
جاوید چوہدری جمعـء 9 اکتوبر 2015

اسٹاڈ ہمارے سامنے بکھرا پڑا تھا، زینہ بہ زینہ پہاڑ تھے، پہاڑوں کے سروں پر پائن کے درختوں کی بارڈر لائین تھی، چراہ گاہیں تھیں، کھیتوں کی رسی کی حد بندیاں تھیں، حد بندیوں کے اندرگائیں چر رہی تھیں اور ان کے گلوں میں بندھے ٹل بج رہے تھے، شہر کے درمیان سے دریا شور مچاتا ہوا گزر رہا تھا، پرندے شمال سے جنوب کی طرف اڑ رہے تھے، سفید برف پوش پہاڑ جھک کر شہر کو تانک رہے تھے، شہر میں نرم، گرم اور خوشبودار ہوائیں بہہ رہی تھیں اور اس وسیع زندہ پینٹنگ کے درمیان لکڑی کے گھر سر اٹھا کر دائیں بائیں دیکھ رہے تھے اور لوگ گلیوں میں آہستہ آہستہ چل رہے تھے، وہ شہر شہر نہیں تھا۔
وہ کیلنڈر کی خوبصورت تصویر تھی، ایک ایسی تصویر جس میں قدرت نے چند لمحوں کے لیے جان پھونک دی ہو، آپ کسی دن اپنی کوئی محبوب تصویر، کوئی محبوب پینٹنگ نکالیے، اپنے سامنے رکھئے اور فرض کیجیے، یہ تصویر اچانک زندہ ہو گئی ہے، ندیاں، آبشاریں اور جھرنے اچانک بہنے لگے ہیں، ہوائیں، درخت اور گھاس انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ہے، گائے، بھیڑوں اور پرندوں کے ٹھہرے وجود میں زندگی دوڑ گئی ہے اور تصویر میں موجود لوگوں کے رکے قدم چل پڑے ہیں، آپ یہ محسوس کر کے جو محسوس کریں گے، ہم اس وقت وہی محسوس کر رہے تھے، ہمارے سامنے ہماری محبوب ترین پینٹنگ زندہ حالت میں موجود تھیں، تصویر کی رگیں زندگی سے لبریز تھیں اور اسٹاڈ! زندگی سے بھرپور اسٹاڈ ہمارے سامنے موجود تھا۔
سوئٹزر لینڈ امراء اور آرٹسٹوں کی تفریح گاہ ہے، آپ اگر افورڈ کر سکتے ہیں اور آپ چند دن نیچر کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دنیا میں آپ کی تین پناہ گاہیں ہو سکتی ہیں، برازیل، نیوزی لینڈ اور سوئٹزر لینڈ۔ برازیل کی فضا مرطوب ہے لہٰذا ہم پاکستانی اس میں زیادہ کمفرٹیبل محسوس نہیں کرتے جب کہ نیوزی لینڈ اور سوئٹزر لینڈ میں کھلا پن اور ایک رومانوی خنکی ہے، ہم پاکستانی ایسی فضا، ایسے ماحول کو جنت نظیر سمجھتے ہیں چنانچہ ہمیں یہ دونوں ملک زیادہ سوٹ کرتے ہیں مگر اس ’’سوٹ‘‘ کرنے کی ایک پرائس ہے اور یہ پرائس ٹھیک ٹھاک زیادہ ہے۔
سوئٹزر لینڈ یورپ کا مہنگا ترین ملک ہے اور اسٹاڈ اس مہنگے ملک کا مہنگا ترین شہر، کیوں؟ کیونکہ یہ شہر دنیا کے خوبصورت اور صاف ستھرے ملک کا صاف اور خوبصورت ترین ٹاؤن ہے، آبادی صرف 9 ہزار دو سوہے، شہر شام ہوتے ہی کمروں اور گھروں میں گھس جاتا ہے، آپ سات بجے کے بعد بازار میں جائیں تو آپ کو سناٹے کے سوا کچھ نہیں ملتا، شہر کے چاروں اطراف پہاڑ ہیں، پہاڑوں پر فارم ہاؤسز ہیں اور ان فارم ہاؤسز میں سیکڑوں ہزاروں گائیں ہیں، آپ رات کے پچھلے پہر باہر نکلیں تو اندھیرے اور دھند میں لپٹے اس ماحول میں چاند کا اضافہ ہو جاتا ہے، یہ ہے اسٹاڈ، کل اسٹاڈ۔
اسٹاڈ کے تین حصے ہیں، پہلا حصہ شہر پر مشتمل ہے، یہ چھوٹا سا شہر ہے، بازار بھی چھوٹا ہے لیکن اس چھوٹے سے بازار میں دو دو کروڑ روپے کی گھڑیوں سے لے کر بیس بیس لاکھ روپے کے جوتوں اور بیگز کے تمام بڑے برانڈڈ آؤٹ لیٹس موجود ہیں، ریستوران، کافی شاپس اور پب بھی ہیں اور یہ سارے شام تک آباد رہتے ہیں، شہر کا دوسرا حصہ امراء کی رہائش گاہیں ہیں، یہ حصہ پہاڑی پر واقع ہے، شہر کی دائیں جانب پہاڑی پر تہہ در تہہ ولاز ہیں۔
ان کی مالیت یقینا اربوں میں ہو گی، یہ دنیا کے مختلف امراء کی ملکیت ہیں، یہ لوگ یہاں چھٹیاں گزارنے آتے ہیں، ہر ولا محل جیسا ہے جس میں دنیا جہاں کی آسائشیں موجود ہیں، قصبے کا واحد فائیو اسٹار ہوٹل بھی اسی حصے میں واقع ہے، اس ہوٹل کی عمارت پورے ٹاؤن میں نمایاں ہے، یہ آپ کو شہر کے ہر حصے سے نظر آتی ہے اور شہر کا تیسرا حصہ پہاڑوں پر ہے، فارم ہاؤسز ہیں، اسٹاڈ کے گرد چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں، یہ گاؤں شہر کے چاروں اطراف ہیں، یہ پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر ہیں، اسٹاڈ سے بیس منٹ کی ڈرائیو پر کیبل کار کا سٹیشن ہے، یہ کیبل کار آپ کو تین ہزار میٹر کی بلندی پر گلیشیئر پر لے جاتی ہے۔
یہ گلیشیئر ’’گلیشیئر 3000‘‘ کہلاتا ہے، گلیشیئر کی انتہائی بلندی پر لوہے کا تین سو فٹ لمبا پل ہے، پل پر ہر وقت برف باری ہوتی رہتی ہے، اس پل پر چلنا دل گردے کا کام ہے کیونکہ وہاں ہوا بھی تیز ہوتی ہے، برف بھی گر رہی ہوتی ہے، درجہ حرارت بھی منفی میں ہوتا ہے، پل بھی جما ہوتا ہے اور نیچے ہزاروں فٹ گہری کھائیاں بھی ہوتی ہیں، گلیشیئر 3000 پر صرف خوف نہیں وہاں ایک رومانوی حیرت بھی موجود ہے، آپ جب تین ہزار میٹر کی بلندی پر پہنچتے ہیں تو آپ وہاں ایک وسیع کمپلیکس اور اس کمپلیکس میں تین گرم ریستوران دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں، آپ کی یہ حیرت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب آپ برف کے عین درمیان بیٹھ کر لنچ کا لطف اٹھاتے ہیں، یہ ایک لائف ٹائم تجربہ تھا لیکن میں اس قصبے میں ایسے مزید تین تجربوں سے گزرا۔ یہ تجربے میری زندگی کے شاندار ترین اثاثوں میں شامل ہو چکے ہیں۔
پہلا تجربہ ہوٹل کی بالکونی میں بیٹھ کر رات کو صبح میں تبدیل ہوتے دیکھنا تھا، میں صبح کاذب کے وقت اٹھا اور بالکونی میں بیٹھ گیا، ہمارا ہوٹل شہر کی آخری حد پر تھا، ہوٹل کے بعد فارم ہاؤسز اور پہاڑوں کا سلسلہ تھا، بالکونی سے آگے ایک وسیع منظر تھا اور میں کمبل اوڑھ کر اس منظر کا حصہ بن گیا، چاند پہاڑوں میں گم ہو چکا تھا، شہر پر اندھیرے کی چادر تنی تھی، اس چادر میں دریا کا پانی، جھینگر اور گیلی ہوا کی آوازیں چھید ڈال رہی تھیں، میں بت بن کر بالکونی میں بیٹھا رہا، میرے سامنے صبح کاذب صبح صادق میں تبدیل ہوئی، آسمان کے ایک کونے سے روشنی اٹھی، اس نے اندھیرے کا نقاب اٹھایا، رات کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے رات کی ساری سیاہی چوس گئی۔
میرے سامنے پرندوں نے آنکھ کھولی، اپنے پر پھڑپھڑائے، چونچیں کھولیں، اپنے ہم نفسوں کو اپنی خیریت کی اطلاع دی اور آسمان کے سمندر میں تیر کر زندگی کا نیا دن ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگے، میرے سامنے گائیوں نے سر اٹھائے اور ٹل بجا کر قدرت کا شکریہ ادا کرنے لگیں، میرے سامنے مرغیاں ڈربوں سے نکلیں اور بلوں کی طرف بھاگتے کیڑوں پر ٹھونگے مارنے لگیں اور میرے سامنے دریا کے پانی کی رفتار اور آواز میں اضافہ ہو گیا، میں نے وہاں بالکونی میں بیٹھے بیٹھے صبح کو دن میں تبدیل ہوتے بھی دیکھا، نرم کرنوں کو گرم شعاعوں میں بدلتے بھی دیکھا اور روشنی کو اندھیروں کے کونوں کھدروں میں جھانکتے بھی دیکھا، اسٹاڈ کی وہ صبح، وہ بالکونی اور بالکونی کا وہ رت جگا میرا اثاثہ بن چکا ہے۔
دوسرا تجربہ آدھی رات کے وقت شہر کے سناٹے کا تعاقب تھا، چاند کی سولہویں رات تھی لیکن اسٹاڈ کی صاف فضا چودھویں کا تاثر دے رہی تھی، چاند ٹاؤن سے چند ہاتھ کے فاصلے پر ٹنکا تھا، شہر میں سناٹا تھا، بازار بند تھا، مکانوں میں اندھیرا تھا اور میں اس اندھیرے، اس سناٹے میں چاند کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا، میں ایک قدم اٹھاتا تھا اور وہ مجھ سے دس قدم آگے چل پڑتا تھا، کیوں؟ میں یہ سوال بچپن سے پوچھ رہا ہوں لیکن جواب نہیں مل رہا، شاید چاند خواہش ہے اور خواہشیں ہمیشہ انسان سے دس قدم آگے رہتی ہیں، نصف رات کی وہ واک بھی کمال تجربہ تھی۔
اسٹاڈ کی خاموش گلیاں تھیں، چاند تھا اور جنگلوں کی گیلی ہوائیں تھیں اور میں اس اداس منظر میں اپنا پتہ ڈھونڈ رہا تھا، اگر آوا گون سچ ہے، اگر انسانی روح بار بار زمین پر آتی ہے، اگر ہم سب بدن کی طبعی موت کے بعد جسم بدل لیتے ہیں اور اگر ہمارا یہ جنم آخری یا پہلا نہیں تو پھر میں نے یقینا پچھلے جنم پہاڑوں میں گزارے ہوں گے، میں خانہ بدوش رہا ہوں گا یا پھر میں ابن بطوطہ، مارکو پولو اور امیر تیمور کے لشکروں اور قافلوں کا حصہ رہا ہوں گا یا پھر میں ہن قبائل، دراوڑوں اور جارجیا کے گوجر قبیلوں کے ساتھ ساتھ پہاڑوں میں مارا مارا پھرتا رہا ہوں گا یا پھر میں زندگی کے خچروں پر بیٹھ کر موت کے عفریتوں سے بچنے کے لیے جنگلوں میں بھاگتا رہا ہوں گا کیونکہ میری روح کا یہ اضطراب، میری یہ پارہ صفتی بے سبب نہیں ہے۔
یہ یقینا بے شمار ناآسودہ جنموں، یہ بے شمار ادھوری زندگیوں کی فرسٹریشن ہے جو ہزاروں جینز میں سفر کرتی ہوئی مجھ تک پہنچی اور یہ اب مجھے پیاسے اونٹ کی طرح صحرا میں دوڑا رہی ہے، مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے، میں نے اگر چند دن اور قدم نہ اٹھائے تو میرے تلوؤں میں گھاس اگ آئے گی اور میں اپنی ہی یاد کا مزار بن کر رہ جاؤں گا، اس رات کا چاند اور اسٹاڈ کا وہ سناٹا دونوں مجھے پچھلے جنموں کی یاد لگ رہے تھے، ایک ایسا گزرا ہوا واقعہ جس کا کوئی کونہ یاد کی الماری سے باہر لٹک رہا ہو اور آپ اسے دیکھ کر لباس کو شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
اسٹاڈ میری گزری یادوں کا کوئی کونہ تھا۔ اسٹاڈ کا تیسرا اثاثہ آخری شام تھی، ہم تینوں پہاڑوں پر نکل گئے، ہم نے ایک سائیڈ سے چلنا شروع کیا اور پندرہ کلو میٹر کا دائرہ بنا لیا، راستے میں درجنوں جنگل، پانی کے چشمے، ندیاں اور نالے آئے، ہم چھوٹے دیہات میں بھی گئے، فارم ہاؤسز میں چرتی گائیوں کے قریب سے بھی گزرے، کسانوں کے کتے بھی بھگتائے، انگوروں کی بیلوں کے سایوں سے بھی گزرے، گھروں کی چمنیوں سے اڑتا دھواں بھی چکھا، بچوں اور خواتین کو پینگ لیتے بھی دیکھا اور دودھ اور پنیر کی فیکٹریوں میں بھی جھانکا، اس واک میں وہ مقام بھی آیا جہاں سے گلیشیئر 3000 اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ نظر آتا ہے اور وہ ویو پوائنٹ بھی جہاں سے پورا اسٹاڈ شہر اپنے تمام رنگوں کے ساتھ دکھائی دیتا ہے اور وہ جگہ بھی جہاں کی شام دنیا کی قیمتی ترین شام ہوتی ہے اور وہ سانس لیتا اور آہیں بھرتا زیرو پوائنٹ بھی جہاں سے شاید، شاید اور شاید زندگی نے پہلی ہچکی لی تھی، یہ واک بھی زندگی کی یادگار ترین واکس میں سے ایک واک تھی۔
آپ کی زندگی میں آنے والے لوگ اور شہر دو قسم کے ہوتے ہیں، وہ لوگ اور وہ مقام جو آپ کو دیکھتے ہی اچھے لگتے ہیں اور وہ مقام اور وہ لوگ جو آپ کو آہستہ آہستہ پسند آتے ہیں، جو آپ پر دھیرے دھیرے کھلتے ہیں، اسٹاڈ دوسری قسم کا شہر ہے، یہ آپ کو شروع میں اچھا نہیں لگتا لیکن آپ جوں ہی اس شہر میں ایک رات گزار لیتے ہیں، یہ آپ کا اور آپ اس کے ہو جاتے ہیں اور اسٹاڈ اب میرا شہر ہے۔
اسٹاڈزیادہ دور نہیں تھا
جاوید چوہدری جمعرات 8 اکتوبر 2015

برگ (Brig) سوئٹزر لینڈ کے تقریباً درمیان میں واقع ہے‘ یہ قصبہ ریلوے کے مشہور سوئس روٹ ’’گلیشیئر ایکسپریس‘‘پر بھی آتا ہے‘ گلیشیئر ایکسپریس دنیا کے پانچ یادگار ریل روٹس میں شمار ہوتی ہے‘ یہ ایک لائف ٹائم تجربہ ہے‘ ٹرین زرمت شہر سے چلتی ہے اور 9 گھنٹے میں ایلپس کے قدموں میں جھکے آخری سوئس شہر سینٹ موریس پہنچتی ہے‘یہ ملک کے تقریباً تمام خوبصورت شہروں‘ قصبوں‘ دیہات اور وادیوں سے گزرتی ہے۔
مجھے گرمی اور سردی دونوں موسموں میں اس ٹرین پر سفر کا موقع ملا‘ یہ حقیقتاً یادگار سفر تھا‘ میں تین سال قبل بچوں کے ساتھ برگ سے بھی گزرا‘ مجھے وادی کے حسن نے جکڑ لیا‘ میں واپس آ گیا‘ میں نے تین برسوں میں درجنوں سفر کیے لیکن برگ اپنی ہلکی آنچ کے ساتھ میرے اندر سلگتا رہا‘ میں اس آنچ کو دباتا رہا لیکن یہ دبنے کے ساتھ ساتھ اسپرنگ بنتی چلی گئی یہاں تک کہ میں بے بس ہو گیا اور ہلکی ہلکی کسک لیے اس شہر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا‘ فیش (FESCH) برگ کا گاؤں ہے‘ یہ گاؤں ایک رات کے لیے ہمارا ٹھکانہ تھا‘ یہ گاؤں بھی دوسرے سوئس دیہات کی طرح پہاڑ کی اترائیوں پر قائم ہے۔
جنگل کے اندر لکڑی کے مکان اور باڑے ہیں‘ چرا گاہیں دور دور تک پھیلی ہیں‘ گاؤں کے درمیان سے پہاڑی دریا گزرتا ہے اور آپ کو پورے گاؤں میں سوئس گائیوں کی گھنٹیاں بھی سنائی دیتی ہیں‘ سوئس کسان اپنی گائے کے گلے میں چھوٹی بالٹی جتنی گھنٹی باندھ دیتے ہیں‘ یہ گھنٹی بجتی ہے تو اس کی آواز دور دور تک سنائی دیتی ہے‘ آپ سوئٹزر لینڈ میں جہاں بھی چلے جائیں‘ آپ کو سوئس گائے اور اس کے گلے میں گھنٹیاں ضرور سنائی دیں گی۔
برگ میں دیکھنے کی تین جگہیں ہیں‘ گومس برج (Goms) شہر کے مضافات میں ہے‘ یہ لکڑی کا 280 میٹرلمبا اور سو میٹر اونچا پل ہے‘ یہ دو پہاڑوں کو آپس میں ملاتا ہے‘ موٹی تاروں پر ایستادہ ہے‘ ستون کے بغیر ہے اور آپ جب اس کے اوپر سے گزرتے ہیں تو یہ جھولے کی طرح جھولتا ہے‘ پل کے دوسرے سرے پر گومس کا گاؤں ہے اور اس کے کھیت‘ چرا گاہیں اور باڑے ہیں اور اس کے انگور کے باغ ہیں اور انگور کے ان باغوں میں وائین کی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں ہیں اور دودھ سے کریم اور پنیر نکالنے والے یونٹ ہیں‘ برگ کے پہاڑوں میں تین درمیانے سائز کے ڈیم بھی ہیں‘ یہ ڈیم بھی قابل دید ہیں۔
ہم آدھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اوبر والڈ (Oberwald) پہنچے تو ایک خوبصورت جھیل ہمارے سامنے تھی‘ یہ برفانی علاقے کا ڈیم تھا‘ حکومت نے برف پوش پہاڑوں کے درمیان ڈیم بنا دیا‘ برف پگھلتی ہے‘ ڈیم بھرتا اور پانی قرب و جوار کے شہروں کو سپلائی کر دیا جاتا ہے‘ اوبروالڈ میں ٹھنڈی ہوائیں بھی چل رہی تھیں‘ ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی اور برف کی بوندیں بھی گر رہی تھیں‘ جھیل پر شربتی سی دھند چھائی تھی‘ آپ سسٹم کا کمال دیکھئے‘ آپ کو اس بلندی پر بھی ریستوران اور ہوٹل ملتے ہیں‘ آپ وہاں قیام کرنا چاہیں تو قیام کریں‘ کھانا پینا چاہیں تو کھائیں پئیں اور اگر جھیل میں واٹر اسپورٹس کرنا چاہیں تو یہ موقع بھی دستیاب ہے۔
وہاں سردی میں شدت تھی چنانچہ ہم وہاں سے جلد روانہ ہو گئے‘ برگ کی تیسری اٹریکشن کیبل کار ہے‘ برگ سے بھی کیبل کار آپ کو گلیشیئر پر لے جاتی ہے‘ ہم نے کیبل کار نہیں لی‘ کیوں؟ کیونکہ یہ تجربہ پورے سوئٹز لینڈ میں عام ہے‘ آپ کسی بھی شہر میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں ٹرین اور کیبل کار ضرور ملے گی چنانچہ ہم نے یہ آئیڈیا ڈراپ کر دیا اور اپنی آخری منزل اسٹاڈ کی طرف چل پڑے‘ اسٹاڈ انگریزی میں GSTAAD لکھا جاتا ہے لیکن بولتے وقت جی سائلنٹ ہو جاتا ہے۔
اسٹاڈ امراء کا گاؤں ہے‘ دنیا جہاں کے بزنس مین ‘کارپوریٹ گرو‘ سیاستدان‘ رئیس اداکار‘ گلوکار اور مصور اسٹاڈ آتے ہیں اور ہفتوں یہاں رہتے ہیں‘ یہ قصبہ دنیا بھر کے امراء اور آرٹسٹوں میں اتنا مقبول کیوں ہے؟ یہ سوال مجھے دوسری بار اسٹاڈ لے کر جا رہا تھا‘ میں پچھلے سال دسمبر میں اسٹاڈ گیا تو شہر برف میں دفن تھا‘ شہر‘ اس کا گرد ونواح اور اس کی فضا تینوں سفید کمبل لپیٹ چکے تھے یوں میرے سوال کا جواب بھی برف میں دفن ہو گیا لیکن میں اس سال برفباری سے پہلے اسٹاڈ کی طرف دوڑ پڑا۔
اسٹاڈ برگ سے ساڑھے چھ گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا‘ راستے میں پہاڑ تھے‘ جنگل تھے‘ جھیلیں تھیں‘ آبشاریں‘ ندیاں اور دریا تھے اور چرا گاہیں تھیں اور یہ تمام عناصر مل کر سوئٹزر لینڈ کو سوئٹزرلینڈ بنا رہے تھے‘ سوئٹزر لینڈ ’’ماڈرن لیونگ‘‘ کا ایک شاندار ماڈل ہے‘ رقبہ پاکستان سے 20 گنا کم یعنی صرف 41 ہزار دو سو 88 مربع کلومیٹر‘ آبادی ہمارے شہر لاہور سے بھی کم یعنی 82 لاکھ۔ ملک میں کوئی سمندر نہیں‘ کوئی بڑی انڈسٹریل سائیٹ نہیں‘ ملک سے تیل نکلتا ہے‘ سونا اور نہ ہی یورینیم‘ ملک میں پہاڑوں‘ جنگلوں اور جھیلوں کے سوا کچھ نہیں‘ ملک ایک ہے لیکن زبانیں اور معاشرتیں نصف درجن‘ ملک میں کوئی فوج نہیں‘ پولیس بھی بہت کم ہے مگر ان کم ترین وسائل کے باوجود یہ ملک دنیا کے پرامن‘ صاف ستھرے اور خوبصورت ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
کیسے اور کیوں؟ ہم اس کیوں اور اس کیسے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘ سوئٹزر لینڈ کے تین کمال ہیں‘ اس نے سیاحت کو اپنی انڈسٹری بنا لیا‘ اس نے ملک میں سیاح کو امن‘ اطمینان اور سہولت فراہم کی‘ ملک کو ریل کی پٹڑی سے جوڑ دیا‘ دنیا بھر میں ٹرینوں کے نام ہوتے ہیں لیکن سوئٹزر لینڈ میں ٹرین کا وقت اس کا نام ہوتا ہے‘ ٹرین نے اگر آٹھ بج کر چار منٹ پر پہنچنا اور گیارہ منٹ پر چلنا ہے تو پھر یہ ہرحال میں آٹھ بج کر چار منٹ پر پہنچے گی اور گیارہ منٹ پر روانہ ہو جائے گی‘ حکومت نے ملک کے تمام پہاڑوں کو کیبل کار سے بھی منسلک کر دیا‘ آپ ملک کے کسی شہر میں چلے جائیں۔
آپ کو وہاں کیبل کار بھی ملے گی اور یہ کیبل کار آپ کو تین چار ہزار میٹر کی بلندی پر کسی نہ کسی گلیشیئر پر بھی لے جائے گی اور آپ کو وہاں برف کے عین درمیان میں ریستوران بھی ملے گا‘ ہوٹل بھی اور ویو پوائنٹ بھی۔ حکومت نے ایک ایک گاؤں تک سڑک بھی بچھا دی ہے‘ آپ کسی طرف نکل جائیں‘ آپ کو وہاں زیورچ اور جنیوا کے معیار کی سڑکیں ملیں گی‘ آپ کسی جھیل پر چلے جائیں‘ آپ کو اس میں بحری جہاز اور فیری ملے گی اور لوگ اس فیری کو باقاعدہ استعمال بھی کر رہے ہوں گے‘ سوئٹزر لینڈ کا دوسرا کمال لوگوں کی ٹریننگ اور سماجی تربیت ہے‘ حکومت نے دیہات کے غریب ترین لوگوں کا معیار زندگی ہمارے امراء کے لائف اسٹائل سے بھی اونچا کر دیا‘ آپ کسی سوئس گاؤں میں چلے جائیں۔
آپ لوگوں کے گھر‘ ان کے باڑے اور ان کا طرز رہائش دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ مجھے غریب سے غریب ترین سوئس کسان بھی میاں منشاء سے زیادہ مطمئن اور خوش نظر آیا‘ کیوں؟ کیونکہ اس کے گھر میں وہ ساری سہولتیں موجود ہیں جو ہمارے ملک میں صرف میاں منشاء‘ حسین داؤد اور ملک ریاض جیسے امراء کو حاصل ہوتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو صرف کوالٹی آف لائف سے نہیں نوازا بلکہ یہ لوگ دنیا کے مطمئن اور شاد ترین لوگوں میں بھی شمار ہوتے ہیں‘ یہ ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی دروازے کھول کر سوتے ہیں اور جنگلی جانور تک ان کی نیند خراب کرنے کی جرأت نہیں کرتے اور یہ وہ سہولت ہے جو ہمارے ملک کے طاقتور ترین اور امیر ترین لوگوں کو بھی حاصل نہیں‘ سوئس اپنے ملک سے اولاد کی طرح پیار بھی کرتے ہیں۔
آپ کو پورے ملک میں کوئی سوئس گند پھیلاتا نظر نہیں آئے گا‘ آپ کو کسی پہاڑ‘ کسی جھیل کے کنارے زمین پر ٹشو پیپر‘ سگریٹ کا ٹوٹا یا ریپر دکھائی نہیں دے گا‘ آپ کو کوئی نالی‘ کوئی گندہ پرنالہ اور کوئی بدبودار جوہڑ بھی نظر نہیں آئے گا‘ گھاس کاٹنا سب کی ذمے داری ہے اور یہ لوگ وقت مقررہ سے پہلے یہ ذمے داری پوری کرتے ہیں‘ گائے کا گوبر کہاں جاتا ہے میں درجنوں مرتبہ سوئٹزر لینڈ گیا لیکن مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں ملا‘ آپ کسی کسان کے باڑے میں چلے جائیں‘ آپ باڑے کی صفائی دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ کسانوں کے لیے جانور چرانے سے پہلے ربڑ کے لانگ شوز اور روشنی منعکس کرنے والی جیکٹ پہننا ضروری ہے‘ آپ کو پورے ملک میں کوئی شخص اونچی آواز میں بولتا یا چلا کر آواز دیتا نظر نہیں آئے گا۔
کھیتوں کی حد بندی رسی سے کی جاتی ہے اور کوئی اس رسی کو پھلانگنے کی جرأت نہیں کرتا‘ سوئس گائیں تک مہذب اور شائستہ ہیں‘ یہ بھی گزرنے والوں کو گھور کر نہیں دیکھتیں اور سوئٹزر لینڈ کا تیسرا کمال اس کی معاشی پالیسیاں ہیں‘ حکومت نے کسانوں کو اناج یا دودھ بیچنے کے بجائے مصنوعات بنانے کی ٹریننگ دی چنانچہ ان لوگوں نے گھروں میں چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹ لگا رکھے ہیں‘ یہ دودھ کے بجائے کریم اور پنیر بیچتے ہیں‘ یہ گندم‘ دالوں اور جو کا دلیہ بنا کر مارکیٹ کرتے ہیں اور یہ پھل کے بجائے جوس اور ٹین پیک فروٹ فروخت کرتے ہیں‘ یہ لوگ شہروں کے بجائے گاؤں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
حکومت نے سستی مصنوعات کے بجائے برانڈ بنانے پر بھی توجہ دی‘ امریکا‘ یورپ اور جاپان کی کمپنیاں جتنا منافع ایک لاکھ گھڑیاں بیچ کر کماتی ہیں‘ یہ لوگ اتنی رقم سو گھڑیوں کی فروخت سے حاصل کر لیتے ہیں‘ بینکنگ‘ انشورنس اور ادویات کی صنعت پر بھی ان کی اجارہ داری ہے‘ سوئس حکومت نے آج سے ساٹھ سال قبل دنیا جہاں کے کرپٹ سیاستدانوں اور آمروں کو خفیہ اکاؤنٹس کی سہولت دی اور ان کے پیسوں سے پورا ملک تعمیر کر لیا‘ یہ امراض اور ان کے علاج پر تحقیق میں بھی دنیا سے بہت آگے ہیں‘ آپ ایلو پیتھک‘ ہومیو پیتھک یا یونانی کسی بھی مہنگی دواء کا پروفائل نکال کر دیکھ لیں۔
آپ کو اس کی جنم کنڈلی میں سوئٹرز لینڈ کا نام ضرور ملے گا‘ یہ ہوٹلنگ اور میزبانی کی انڈسٹری میں بھی بہت آگے ہیں‘ آپ کو جتنے ہوٹل اور ریستوران اس چھوٹے سے ملک میں ملیں گے‘ آپ کو شاید اتنے پورے براعظم افریقہ میں نہ ملیں‘ یہ ملک صرف ملک نہیں ہے‘ یہ ترقی‘ امن اور خوشحالی کا پورا فارمولہ ہے‘ سوئس فارمولہ اور ہم اس وقت اس فارمولے سے گزر رہے تھے اور اسٹاڈ! جی ہاں اسٹاڈ جس کا جی سائلنٹ ہوتا ہے وہ اب ہم سے زیادہ دور نہیں تھا‘ ہماری آخری منزل اسٹاڈ…جی اسٹاڈ۔

ہائی الپائن روڈ پر
جاوید چوہدری منگل 6 اکتوبر 2015

یہ سفر بروک سے شروع ہوا، بروک ایلپس کے دامن میں آسٹریا کا ایک خاموش مگر مطمئن گاؤں ہے، آپ جب بھی اس گاؤں کو دیکھیں گے، آپ کو یہ سردیوں کی دھوپ میں لیٹا ہوا بیل محسوس ہو گا، شاد، مطمئن، خاموش اور جگالی کرتا ہوا، گاؤں کے تین اطراف سبز پہاڑ ہیں، پہاڑوں سے ندیاں اور ٹھنڈی ہوائیں گاؤں میں اترتی ہیں، شام کے وقت جب سورج کی کرنیں اپنے دھاگے سمیٹتی ہیں تو ہواؤں کی تندی، ہواؤں کی دستک میں اضافہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ گاؤں پر رات اتر آتی ہے۔
رات اترتے ہی گاؤں میں اندھیرے، تیز شور مچاتی ہواؤں اور پانی کے قہقہوں کے سوا زندگی کی تمام علامتیں سو جاتی ہیں، یہ گاؤں اس رومانوی سڑک کا دروازہ ہے میں جس کے چکر میں دوسری بار آسٹریا پہنچا، یہ سڑک 48 کلو میٹر لمبی ہے اور یہ دنیا کی خوبصورت ترین سڑکوں میں شمار ہوتی ہے، یہ سڑک ہائی الپائن روڈ یا پینا رامک روڈ کہلاتی ہے، بروک اس روڈ کا نقطہ آغاز ہے، آپ جوں ہی سڑک پر سفر شروع کرتے ہیں، آپ کے دونوں اطراف جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں، میں پچھلے سال اکتوبر کے آخر میں یہاں پہنچا تھا لیکن شدید برفباری کی وجہ سے سڑک بند ہو چکی تھی، یہ سڑک اکتوبر کے وسط تک بند ہو جاتی ہے چنانچہ میں اس سال یکم اکتوبر کو بروک پہنچ گیا، ہم تین تھے۔
مبشر شیخ، ملک ضیغم اور میں۔ ہم نے صبح کے وقت سفر شروع کیا، پہاڑوں پر برفباری شروع ہو چکی تھی، ہمارے دونوں اطراف گھاٹیاں تھیں، گھاٹیوں میں پائین کے اونچے درخت، جنگلی سیب، چیری اور بلیو بیری کے پودے تھے، درختوں پر سیب لٹک رہے تھے، دور نیچے گاؤں بھی نظر آ رہے تھے، چراگاہیں بھی اور چمنیوں کا دھواں بھی۔ ہم جوں جوں آگے بڑھتے گئے، برف اور سردی میں اضافہ ہوتا گیا، ہمارے دائیں بائیں اب برف تھی اور یخ ہوائیں تھیں، ہائی الپائن روڈ پر لاتعداد ویو پوائنٹ اور ریستوران ہیں، آپ رک کر برف میں تصویر بھی بنا سکتے ہیں اور چائے کافی بھی لے سکتے ہیں، ہم رکتے رہے اور آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ہائی الپائن روڈ کا آخری سرا آگیا، اونچائی اڑھائی ہزار میٹر تھی، برف باری ہو رہی تھی۔
ہمارے چاروں اطراف دھند، برف، سردی اور ایلپس کا جادو تھا، وہ خواب کی دھند میں لپٹا ہوا ایک ایسا منظر تھا جو صدیوں کے لیے روح کا لباس بن جاتا ہے، وہاں ہائی الپائن روڈ کے آخری سرے پر پہنچنے سے پہلے تک ہماری روحیں ننگی تھیں مگر ہم نے جوں ہی اس سرے کو چھوا ہماری ننگی روح کو کپڑے مل گئے، ہماری روح کو لباس مل گیا، منظر بھی دوستوں اور کھانوں کی طرح رزق ہوتے ہیں، آپ کے قدموں نے موت سے پہلے اپنے اپنے حصے کی زمینوں کو ضرور چھونا ہوتا ہے، آپ کی آنکھوں نے بند ہونے سے پہلے آپ کے حصے کے منظروں کا ذائقہ بھی ضرور چکھنا ہوتا ہے اور ہائی الپائن روڈ کا وہ آخری سرا اور اس آخری سرے پر دھند میں لپٹا ہوا وہ منظر ہمارے مقدر کا رزق تھا اور ہم نے یکم اکتوبر کو اپنا حصہ وصول کر لیا۔
ہائی الپائن روڈ آسٹریا، اٹلی اور سوئٹرز لینڈ تین ملکوں کے بارڈر پر ہے، ہم نے چوٹی کی دوسری طرف اترنا شروع کر دیا، سڑک کا اختتام چھوٹے سے آسٹرین گاؤں پر ہوا، بارش ہو رہی تھی، گاؤں بارش میں نکھرا ہوا تھا، دریا کے کنارے چرچ تھا، چرچ کا مینار گاؤں کی بلند ترین عمارت تھا، چرچ کی دیوار کے ساتھ چھوٹا سا قبرستان تھا، قبروں پر تازہ پھول ہوا میں رقص کر رہے تھے، بازار چھوٹا مگر صاف ستھرا تھا، مکان جنگل میں بنے تھے اور ہر مکان کے قریب سے چھوٹی سی ندی گرزتی تھی۔
وہ گاؤں اس قدر پرسکون اور خوبصورت تھا کہ میں نے اس کا نام ڈیلیٹ کر دیا، سیاحت کے مذہب میں خوبصورت جگہوں کا نام یاد رکھنا گناہ کبیرہ ہوتا ہے کیونکہ میرا تجربہ ہے خوبصورت دیہات، مقامات اور لوگوں کے نام عموماً خوبصورت نہیں ہوتے، آپ جب بھی نام جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ اکثر اوقات چوہڑ کانا نکلتے ہیں چنانچہ آپ کو جب بھی کوئی خوبصورت جگہ، مقام، گاؤں یا شخص نظر آئے تو آپ میری طرح آنکھ سے اس کی تصویر بنائیں اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے جینز کی ہارڈ ڈرائیو میں محفوظ کر لیں، وہ منظر، وہ مقام نسلوں تک کے لیے آپ کے لہو میں محفوظ ہو جائے گا، میں نے آنکھوں سے اس گاؤں کی تصویر اتاری اور اپنے جینز میں سیو کر لی، یہ گاؤں اب بارش میں بھیگی ہوئی اپنی خوبصورت دوپہر کے ساتھ میری آنے والی نسلوں کو منتقل ہو جائے گا۔
برگ (Brig) ہماری اگلی منزل تھا، یہ سوئٹزر لینڈ کا خوبصورت ٹاؤن ہے، برگ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر فیش (Fesch) نام کا گاؤں ہے، ہم نے اس گاؤں میں ٹھہرنا تھا، یہ ہائی الپائن روڈ سے سات گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا، ہم اندھیرے سے پہلے وہاں پہنچنا چاہتے تھے، اترائی کا سفر شروع ہو گیا، سڑک سنگل بھی تھی اور خطرناک بھی۔ پہاڑ کی اترائیوں پر گھاس کے میلوں لمبے میدان تھے، ہوائیں جب گھاس کے بدن میں اتر کر اسے گدگداتی تھیں تو یہ لمحوں میں اپنا رنگ بدلتی تھی۔
ہمارے سر پر نیلا آسمان تھا، سامنے سورج کی سرخ شعاعیں تھیں اور دائیں بائیں گھاس کے میدان تھے اور ان میدانوں کو گدگداتی ہوائیں تھیں اور گھاس کے بدلتے ہوئے رنگ تھے اور ان تبدیل ہوتے ہوئے رنگوں کے درمیان ہماری گاڑی بہہ رہی تھی، ہم اس وقت قدرت کی اس وسیع پینٹنگ کا حصہ تھے، ہم اٹلی کے پہاڑی شہر بل زانو کو چومتے ہوئے ٹیورن کے قریب سے گزرے، میلان اور سینٹ مورس دونوں وہاں سے زیادہ دور نہیں تھے۔
یورپ میں ایلپس کے سائے میں سفر بہترین علاج ہے، نکھری ہوئی فضا، جنگل، آبشاریں، ندیاں اور میلوں تک پھیلے گھاس کے میدان یہ آپ کی ساری ٹینشن، ساری فرسٹریشن چوس لیتے ہیں، آپ کو اگر اللہ تعالیٰ نے وسائل، صحت اور حوصلہ دے رکھا ہے تو آپ جب بھی پریشان ہوں آپ سوئٹزر لینڈ، اٹلی یا آسٹریا کی طرف سے ایلپس کے پہاڑی علاقوں میں نکل جائیں، میرا دعویٰ ہے آپ تین چار دن میں مکمل صحت مند ہو جائیں گے، آپ کاغان، سوات یا سکردو بھی جا سکتے ہیں لیکن وہاں وہ سہولتیں نہیں ہیں جو آپ کو یورپ کے اس سکردو، سوات یا کاغان میں ملتی ہیں۔
یورپ نے تمام دیہات تک بجلی، سڑک، ریل، شاپنگ سینٹرز، اسپتال اور امن و امان پہنچا دیا ہے، آپ یقین کیجیے میں خود کو جتنا محفوظ ان اجنبی پہاڑوں میں فیل کرتا ہوں میں اتنا اپنے علاقوں میں محسوس نہیں کرتا جب کہ میرے لیے ان ملکوں کی زبان، کلچر اور خوراک تینوں ناقابل برداشت ہیں، ہم اگر اپنے علاقوں میں امن قائم کر لیں، ہم وہاں تک سڑک اور بجلی پہنچا دیں اور ہم وہاں صفائی کا بندوبست کر لیں تو ہمارے شمالی علاقہ جات یورپ سے آگے نکل جائیں مگر قدرت ہم پر جتنی مہربان ہے ہم اتنے ہی سنگدل اور ظالم ہیں، ہم قدرت سے چن چن کر اس کی مہربانیوں کا بدلہ لے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اگر کبھی نعمتوں کی ناشکری پر قوموں کا حساب شروع کیا تو ہم اس کے قہر کا نشانہ بننے والی پہلی قوم ہوں گے۔
مجھے بعض اوقات یہ بھی محسوس ہوتا ہے، ہم قدرت کے قہر کا نشانہ بن رہے ہیں، خدا کی پناہ جن لوگوں نے سوات، کالام، ناران اور دیوسائی کے میدان تک گندے کر دیے ہوں، ان پر اللہ کا عذاب نہیں اترے گا تو کیا گل پاشی ہو گی؟ ہم نے روشنی میں برگ پہنچنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہو گئے، ہماری ناکامی کی وجہ ہم تینوں کی شاعرانہ طبیعت تھی، ہماری گاڑی میں چائے کی کیٹل تھی، یہ کیٹل گاڑی کی بیٹری سے گرم ہو جاتی تھی، ملک ضیغم چلتی گاڑی میں چائے بنانے کے ایکسپرٹ ہیں چنانچہ ہمیں جہاں گھنا جنگل، آبشار، ندی یا سیب کا باغ نظر آتا، ہم چائے کے کپ اٹھا کر وہاں کھڑے ہو جاتے، موٹروے پر ایسے درجنوں اسپاٹ تھے، مجھے یہ اسپاٹ دنیا جہاں میں ملے، اگر نہیں ملے تو اپنے ملک میں نہیں ملے، میرے ایک دوست ہر ہفتے موٹر وے پر جاتے ہیں۔
یہ دریا کے پل پر رکتے ہیں، گاڑی سائیڈ پر کھڑی کرتے ہیں، فولڈنگ چیئر نکالتے ہیں اور پل کے نیچے چلے جاتے ہیں، پل کے نیچے جالی ٹوٹی ہوئی ہے، میرے دوست جالی کراس کر کے پل کے نیچے دریا کے کنارے بیٹھ جاتے ہیں، تھرماس سے کافی نکال کر پیتے ہیں، میوزک سنتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں، کاش ہائی وے ڈیپارٹمنٹ ایسے لوگوں کی مجبوری کو سمجھ لے، یہ موٹروے پر مختلف خوبصورت اسپاٹ بنا دے، ان اسپاٹس کو راستہ دے دے تو سیکڑوں لوگ روزانہ لاہور اور اسلام آباد سے آ کر ان اسپاٹس سے فائدہ اٹھائیں تاہم یہ خیال رکھا جائے، یہ اسپاٹس قدرتی ہونے چاہئیں۔
وہاں ریستوران یا چائے خانہ بنانے کی اجازت نہ دی جائے، لوگ اپنی چائے، کافی خود بنا کر انجوائے کریں، ملک کے بڑے شہروں اور خوبصورت مقامات پر باربی کیو ایریاز بھی ہونے چاہئیں اور ایسی جگہیں بھی جہاں نوجوان اچھل کود سکیں، ناچ گا سکیں، یہ مقامات معاشرے کی گھٹن میں کمی لائیں گے، ہمیں سماجی تبدیلی کا ایک محکمہ بھی بنانا چاہیے، یہ محکمہ لوگوں کی تربیت کرے، یہ لوگوں کو ہاتھ دھونے، تھوکنے، کھانسنے، سلام کرنے، بات کرنے، قطار میں کھڑے ہونے، اپنی ذاتی، گھریلو، خاندانی اور محلے کی صفائی، کپڑے پہننے اور اختلاف رائے کی ٹریننگ دے، یہ لوگوں کو بتائے سیوریج کا پانی کس طرح ندیوں، نالوں اور نلکوں میں شامل ہو جاتا ہے اور آپ لوگ کس طرح خود اپنے ہی سیوریج کا پانی پیتے ہیں۔
اس سے وضو کرتے ہیں اور کپڑے دھوتے ہیں، یہ محکمہ لوگوں کو بتائے آپ ٹوائلٹ کے بعد ہاتھ نہیں دھوتے، اس سے تیس روپے کا صابن بچ جاتا ہے لیکن آپ گندے ہاتھوں کی وجہ سے کالے یرقان کا شکار ہو جاتے ہیں، یہ کالا یرقان آپ کا جگر نگل جاتا ہے اور لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے آپ کو کم از کم تیس لاکھ روپے چاہئیں چنانچہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے، آپ نے اپنے اور اپنے خاندان کے اوپر 30 روپے خرچ کرنے ہیں یا پھر ساری زمین جائیداد بیچ کر 30 لاکھ روپے کا بندوبست کرنا ہے، یہ محکمہ لوگوں کو صاف پانی، صاف ماحول اور جسمانی صفائی کی تربیت بھی دے، یہ لوگوں کو بتائے لوگ دواء اور دولت کے بغیر کیسے سو سال تک صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں، ہمارے ملک کو ایسے محکمے، ایسی این جی اوز اور ایسے رضا کاروں کی شدید ضرورت ہے۔
ہم برگ (Brig) پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔
ترقی چیونٹی کے پاؤں لے کر پیدا ہوتی ہے
جاوید چوہدری اتوار 4 اکتوبر 2015

وہ مزدور کا مقدر لے کر پیدا ہوا تھا لیکن اس نے اپنے وژن، محنت اور ایمانداری سے اپنا مقدر بدل دیا، وہ 2007ء میں دنیا کا چوتھا امیر ترین شخص بن گیا۔
وہ 1926ء میں سویڈن کے ایک گاؤں Agonnaryd میں پیدا ہوا، اس کے والدین ایک فارم ہاؤس ایلمٹریاڈ (Elmtaryd) میں مزدوری کرتے تھے، اس کے والدین نے پانچ برس کی عمر میں اسے بھی مزدوری پر لگا دیا لیکن اس نے مزدور کی بجائے کاروبار کا فیصلہ کیا، اس کا نام تین سال کی عمر میں رکھا گیا، اس کے نام کے دو حصے تھے انگوار اور کیمپارڈ، اس نے گیارہ سال کی عمر میں ماچسیں بیچنا شروع کیں، وہ ماچسوں کے ڈبے لیتا اور سائیکل پر گلی گلی ماچسیں بیچتا رہتا، وہ یہ کام چھ ماہ تک کرتا رہا پھر ایک دن اسے معلوم ہوا اگر وہ شہر سے تھوک میں ماچس خرید لے اور یہ ماچس گاؤں کے دکانداروں اور پھیری بازوں کو بیچ دے تو وہ زیادہ منافع کما سکتا ہے۔
انگوار اگلے دن اسٹاک ہوم چلا گیا اور وہاں سے تھوک میں ماچس خرید لایا، اس نے یہ ماچسیں تھوڑا سا منافع رکھ کر بیچ دیں، اس نے اگلے سال تک ماچسوں کے کاروبار کو مچھلی، کرسمس ٹری، کرسمس کارڈز، پھولوں کے بیج، بال پوائنٹس اور پینسلوں تک پھیلا دیا، وہ یہ ساری اشیاء تھوک میں خریدتا تھا اور بعد ازاں گاؤں کے دکانداروں کو فروخت کر دیتا تھا، وہ 17 سال کا ہوا تو اس کے والد نے اسے تھوڑے سے پیسے دیے۔
اس نے اس معمولی سی رقم سے ایک ایسی کمپنی کی بنیاد رکھ دی جس نے آنے والے دنوں میں پوری دنیا کا لائف اسٹائل تبدیل کر دیا، انگوار نے اس رقم سے وزن میں ہلکا لیکن رنگوں میں تیز فرنیچر بنانا شروع کر دیا، لوگوں کا خیال تھا اس کا آئیڈیا ناکام ہو جائے گا کیونکہ اس وقت لکڑی کے بھاری بھر کم فرنیچر کا رواج تھا، لوگ ایک مرتبہ فرنیچر بنواتے تھے اور یہ فرنیچر تین نسلوں تک ان کا ساتھ دیتا تھا چنانچہ اس وقت یورپ میں فرنیچر ایک ایسی پراڈکٹ سمجھا جاتا تھا جس کی مانگ نہ ہونے کے برابر تھی، اس وقت تک فرنیچر کے اسٹورز اور شو رومز بھی شروع نہیں ہوئے تھے۔
لوگ ترکھانوں سے اپنی ضرورت کا فرنیچر بنوا لیتے تھے لیکن انگوار نے فرنیچر کو کاروبار کی شکل دینے کا فیصلہ کیا، اس کا خیال تھا آنے والے دنوں میں پوری دنیا میں نقل مکانی شروع ہو جائے گی، لوگ روزگار کے لیے آبائی شہروں سے باہر نکلیں گے لہٰذا اس نقل مکانی کے دوران بھاری فرنیچر کی نقل و حمل مشکل ہو جائے گی۔
اس کا خیال تھا مستقبل قریب میں بڑے شہروں پر آبادی کا دباؤ بڑھ جائے گا جس کے نتیجے میں مکانوں اور فلیٹوں کا سائز چھوٹا ہو گا چنانچہ لوگوں کو چھوٹے سائز کے مکانوں کے لیے فرنیچر بھی چھوٹے سائز کا چاہیے، اس کا خیال تھا مستقبل رنگوں کا دور ہو گا، آنے والے دنوں میں ہر چیز رنگین ہو جائے گی چنانچہ اس نے ان تمام امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اکیا (ikea) کے نام سے یورپ میں فرنیچر سازی کی پہلی کمپنی کی بنیاد رکھی۔
’’اکیا‘‘ ایک لایعنی لفظ تھا، یہ چار حروف آئی، کے ،ای اور اے کا مجموعہ تھا، اس نے چار حرف اپنے نام اور اپنے گاؤں سے لیے تھے، آئی اس کے نام انگوار کو ظاہر کرتا تھا، کے سے مراد کیمپارڈ تھی، ای کا تعلق اس فارم ہاؤس ایلمٹریاڈ سے تھا، جس میں اس نے پرورش پائی تھی اور اے اس کے آبائی گاؤں Agunnaryd کا پہلا حرف تھا، انگوار نے جب اپنی کمپنی کا نام ’’اکیا‘‘ رکھا تو لوگوں کا خیال تھا اس کے بزنس کی طرح اس کی کمپنی کا نام بھی لایعنی ہے لہٰذا یہ کاروبار اور یہ کمپنی چند ماہ میں ماضی کا قصہ بن جائے گی لیکن انگوار نے آنے والے دنوں میں لوگوں کے سارے خدشات باطل ثابت کر دیے۔
اس نے سائز میں چھوٹا، وزن میں ہلکا اور رنگوں میں تیز فرنیچر بنوایا اور یہ فرنیچر آنے والے دنوں میں دنیا کا لائف اسٹائل بن گیا، اس نے دنیا کی نفسیات اور طرز رہائش بدل کر رکھ دی ’’اکیا‘‘ بیس برس بعد یورپ کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی، اس کی یہ کامیابی اس کے وژن، محنت اور ایمانداری کا نتیجہ تھا، اس نے وقت کی تبدیلی کو بھانپ لیا تھا، وہ سمجھ گیا تھا چھوٹی اور کارآمد چیزوں کا دور آنے والا ہے لہٰذا مستقبل میں صرف وہی چیزیں کامیاب ہوں گی جو سائز میں چھوٹی، وزن میں ہلکی اور استعمال میں وسیع ہوں گی، 1980ء میں اس نے بزنس کو ایک اور کروٹ دی، اس نے گھر میں استعمال ہونے والی ہر قسم کی مشینری بنانا شروع کر دی، وہ اس وقت کچن میں استعمال ہونے والی چھوٹی چمچ سے لے کر گھر میں استعمال ہونے والے باتھ ٹب تک ہر چیز بنا رہا ہے۔
اس کا کاروبار یورپ سے لے کر امریکا تک اور دبئی سے لے کر نیوزی لینڈ تک دنیا کے 34 بڑے ممالک میں پھیلا ہوا ہے، اس کے اسٹورز پر روزانہ 900 ملین ڈالر کی سیل ہوتی ہے اور آج یہ کہا جاتا ہے یورپ میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو گا جس میں ’’اکیا‘‘ کی کوئی نہ کوئی چیز نہ ہو، مارچ 2007ء میں فوربس انٹرنیشنل نے مزدور کے اس بیٹے کو دنیا کا چوتھا امیر ترین شخص قراردیا تھا جب کہ جون 2015ء میں Bloomberg Billionaires Index نے اسے دنیا کا آٹھواں امیر ترین شخص قرار دیا، اس وقت اس کے ذاتی اکاؤنٹ میں 43 بلین ڈالر جمع ہیں جب کہ اس کی دولت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
انگوار کیمپارڈ ایک انتہائی دلچسپ شخص ہے، وہ ارب پتی ہونے کے باوجود انتہائی سادہ زندگی گزارتا ہے، وہ پندرہ سال پرانی والو گاڑی استعمال کرتا ہے، اپنی گاڑی خود چلاتا ہے، ہمیشہ جہاز کی اکانومی کلاس میں سفر کرتا ہے، اس نے سات سال کی عمر میں کرسمس پیپر بیچنے کا کام شروع کیا تھا وہ اب تک یہ کاروبار کر رہا ہے، وہ ہر سال کرسمس پیپر خریدتا ہے اور کرسمس کے بعد ان پیپرز کی سیل لگاتا ہے، اس نے ’’ اکیا ‘‘ کے تمام ملازمین کو کاغذ کی دونوں سمتیں استعمال کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
اس کے کسی دفتر میں اگر کوئی شخص ایک سمت استعمال کر کے کاغذ ردی کی ٹوکری میں پھینک دے تو وہ لڑنے مارنے پرآمادہ ہو جاتا ہے، وہ ہمیشہ سستے ریستورانوں میں کھانا کھاتا ہے، اس نے چالیس برس قبل ’’اکیا‘‘ کے دفاتر اور فیکٹریوں میں ملازموں کے لیے سستا کھانا شروع کرایا تھا، وہ اگر کھانے کے وقت اپنی کسی فیکٹری یا دفتر کے نزدیک ہو تو وہ ہمیشہ ’’ اکیا‘‘ کے کیفے ٹیریا میں کھانا کھاتا ہے اور دو تین ڈالر ،پاؤنڈ ،مارک یا کراؤن بچا کر خوش ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی فراخ دل شخص بھی ہے، اس نے INGKA Fondation کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنا رکھا ہے۔
وہ اس ادارے کے ذریعے اب تک 36 بلین ڈالر کی چیرٹی کر چکا ہے، دنیا کے نامور میگزین اکانومسٹ کے مطابق انگوار فلاح عامہ میں بل گیٹس کے مقابلے میں کہیں زیادہ رقم خرچ کرتا ہے لیکن وہ اپنی چیرٹی کے تمام کاموں کی تشہیر نہیں کرتا لہٰذا دنیا اس کی خیرات اور فلاحی کاموں سے پوری طرح واقف نہیں، اگر انگوار کیمپارڈ کی ذات کا مطالعہ کیا جائے تو وہ ایک ’’ کنجوس سخی،، محسوس ہوتا ہے، وہ ایک طرف اپنے کسی ورکر کو ایک پنسل ضایع کرنے کی اجازت نہیں دیتا، وہ کاغذ کی دوسری پرت ضایع کرنے کے جرم میں اپنے ایم ڈی تک کو فارغ کر دیتا ہے جب کہ دوسری طرف وہ اربوں کھربوں ڈالر خیرات کر دیتا ہے، وہ شاید اس وقت دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد شخص ہو گا۔
مجھے انگوار کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا، اس انٹرویو میں اس نے دو دلچسپ باتیں کیں ، اس نے بتایا ’’ دنیا میں نوکری کرنے والا کوئی شخص خوشحال نہیں ہو سکتا، انسان کی معاشی زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے کام کا آغاز کرتا ہے‘‘ اس کی دوسری بات اس سے بھی دلچسپ تھی، اس کا کہنا تھا ’’کامیابی اور ترقی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں، اس کا کہنا تھا ’’اگر تعلیم سے روٹی کمائی جا سکتی تو آج دنیا کے تمام پروفیسر ارب پتی ہوتے‘‘ اس کا کہنا تھا اس وقت دنیا میں ساڑھے نو سو ارب پتی ہیں لیکن ان میں ایک بھی پروفیسر ، ڈاکٹر یا ماہر تعلیم شامل نہیں‘‘ اس کا کہنا تھا ’’دنیا میں ہمیشہ درمیانے پڑھے لکھے لوگوں نے ترقی کی، یہ لوگ وقت کی قدر و قیمت سمجھتے ہیں چنانچہ یہ لوگ ڈگریاں حاصل کرنے کی بجائے طالب علمی کے دور ہی میں کاروبار شروع کر دیتے ہیں چنانچہ ان کی کامیابی انھیں کالج یا یونیورسٹی سے اسٹور، کارخانے یا منڈی میں لے جاتی ہے‘‘ اس کا کہنا تھا وہ زندگی میں کبھی کالج نہیں گیا لیکن اس وقت اس کی کمپنی میں 30 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین و حضرات کام کر رہے ہیں۔
یہ تعلیم یافتہ لوگ وژن، علم اور دماغ میں اس سے کہیں بہتر ہیں بس ان میں ایک خامی تھی، ان میں نوکری چھوڑنے کا حوصلہ نہیں تھا، انھیں اپنے اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تھا‘‘ اس کا کہنا تھا ’’اگر کوئی شخص انگوار کے لیے کام کر سکتا ہے تو وہ خود اپنے لیے بھی کام کر سکتا ہے،بس اس کے لیے ذرا سا حوصلہ چاہیے‘‘ اس نے دنیا بھر کے نوجوانوں کو پیغام دیا ’’ترقی چیونٹی کے پاؤں لے کر پیدا ہوتی ہے لیکن جوان ہونے تک اس کے پاؤں ہاتھی جتنے بڑے ہو جاتے ہیں‘‘ اس کا کہنا تھا ’’دنیا میں ہر چیز کا متبادل موجود ہے لیکن محنت کا کوئی شارٹ کٹ نہیں‘‘ اس نے کہا ’’ دنیا کا کوئی کیمیائی عمل لوہے کو سونا نہیں بنا سکتا لیکن انسانی ہاتھ وہ طاقت ہیں جو دنیا کی کسی بھی دھات کو سونے میں بدل سکتے ہیں‘‘۔
اس نے کہا ’’ دنیا میں نکمے لوگوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں جب کہ کام کرنے والوں کے لیے پوری دنیا کھلی پڑی ہے‘‘ اس نے کہا ’’ہنر مند شخص کا ہنر اس کا پاسپورٹ ہوتا ہے‘‘ میں نے جب انگوار کے یہ خیالات سنے تو میں نے سوچا کاش میں یہ خیالات پاکستان کے ان تمام بے روزگار نوجوانوں تک پہنچا سکوں جو دن رات بے روزگاری کا رونا روتے رہتے ہیں، کاش میں ان نوجوانوں کو بتا سکوں اگر فارم ہاؤس کا ایک مزدور مسلسل محنت سے انگوار بن سکتا ہے تو پاکستانی نوجوانوں کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے؟ یہ لوگ کامیاب کیوں نہیں ہو سکتے، انگوار نے کہا تھا ’’آگے بڑھنے کا راستہ انھیں ملتا ہے جو چلنا جانتے ہیں‘‘ میرا خیال ہے ہمارے نوجوانوں کو چلنے کا ہنر نہیں آتا۔
مٹی کی تاثیر

جاوید چوہدری منگل 29 ستمبر 2015
ww.facebook.com/javed.chaudhry
کرمان آج کے ایران کا دوسرا بڑا صوبہ ہے، یہ جنوب مشرق میں واقع ہے، پورے صوبے کی آبادی تیس لاکھ ہے، یہ پرامن، خوش حال اور مطمئن لوگوں کا صوبہ ہے، کرمان شہر صوبے کا دارالحکومت اور بڑا شہر ہے، یہ شہر دو ہزار سال کی تاریخ کا امین ہے، شاہراہ ریشم شہر کو چوم کر آگے بڑھتی ہے، مارکو پولو نے یہ شہر اور یہ صوبہ یورپ میں متعارف کرایا، وہ 1250ء سے 1260ء کے درمیان کرمان سے گزرا، شہر اور شہر کے لوگوں سے متاثر ہوا اور اپنی کتاب میں بڑی محبت سے ان کا ذکر کیا، کرمان اس وقت ملک ہوتا تھا، ملک پر بادشاہت تھی، بادشاہ سیاہ و سفید کا مالک ہوتا تھا۔
کرمان کے دائیں بائیں سات ایرانی سلطنتیں تھیں، ساتوں ریاستوں میں اس وقت جنگیں چل رہی تھیں، صرف کرمان میں امن تھا، مارکو پولو نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب میں کرمان کے بادشاہ کا ایک دلچسپ واقعہ لکھا، مارکو پولو نے لکھا، کرمان کے لوگ معزز، پرامن اور سادہ تھے، وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے تھے، کرمان کے بادشاہ نے ایک دن اپنے مشیر جمع کیے اور ان سے پوچھا ’’ میں حیران ہوں، ہمارے لوگ پرامن، صلح جو اور ایمان دار ہیں جب کہ ہمارے ہمسایہ ممالک کے لوگ مکار، خونخوار اور جھگڑالو ہیں، یہ ہر وقت ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔
ہمارے ہمسائے ہم سے اتنے مختلف کیوں ہیں؟‘‘ ایک مشیر نے جواب دیا ’’ یہ مٹی کا فرق ہے، ان کی مٹی ہماری مٹی سے مختلف ہے‘‘ بادشاہ نے اس رائے کو جانچنے کا فیصلہ کیا، اصفہان کرمان کے ہمسائے میں واقع ہے، یہ ملک ہمہ وقت جنگوںکا شکار رہتا تھا، اصفہان کے لوگ تند خو، لڑاکے، ظالم اور جنگ جو بھی تھے، کرمان کے بادشاہ نے اپنے سفیر اصفہان بھجوائے، انھیں ہدایت کی، یہ اصفہان کے سات مختلف مقامات کی مٹی بوریوں میں بھریں اور کرمان لے آئیں۔
سفیر گئے اور اصفہان کی مٹی کرمان لے آئے، بادشاہ نے وہ مٹی محل کے سات کمروں میں بچھائی اور اس پر قالین بچھا دیے، بادشاہ نے اس کے بعد شاندار ضیافت کا اہتمام کیا، مہمان آئے، بادشاہ نے انھیں ان سات کمروں میں بٹھا دیا، کھانا شروع ہوا اور کرمان کے وہ سردار جن کی شرافت، نرمی اور برداشت کی مثالیں دی جاتی تھیں وہ چند لمحوں میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہو گئے، وہ ایک دوسرے کے گلے تک کاٹنے پر تل گئے، بادشاہ مشیر کی آبزرویشن کا قائل ہو گیا، وہ مان گیا ’’مٹی انسان کے مزاج پر اثر کرتی ہے‘‘۔
ہم اگر چند لمحوں کے لیے مارکوپولو کے اس واقعے کو سچ مان لیں اور تاریخ اور دنیا کو مٹی کے ریفرنس سے دیکھیں تو ہمیں اسلامی دنیا کے مسائل، افراتفری، ہنگاموں اور قتل و غارت گری کی وجہ بھی سمجھ آ جائے گی اور ہم یورپ، امریکا اور مشرق بعید کی ترقی کی وجوہات بھی سمجھ جائیں گے، آپ اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو تاریخ کے ہر دور میں مکہ شہر میں شدت، انا اور سختی ملے گی جب کہ آپ اگر مکہ سے ساڑھے چارسو کلومیٹر دور مدینہ چلے جائیں تو آپ کو اس شہر کا امن، سکون، وسعت اور مہمان نوازی حیران کر دے گی۔
مکہ اور مدینہ دونوں ایک ہی ملک کے شہر ہیں لیکن دونوں میں اتنا فرق کیوں؟ ہم یقینا رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ ؓ کو اس کی وجہ قرار دیں گے، یہ درست بھی ہے کیونکہ جس زمین نے نبی اکرم ؐ کے قدم چومے ہوں اس کی تاثیر نے بہرحال تبدیل ہونا ہی تھا، یہ ہمارے رسولؐ کا اعجاز تھا لیکن سوال یہ ہے نبی اکرم ؐ نے مدینہ میں صرف دس سال گزارے جب کہ آپؐ نے حیات مبارکہ کے 53 سال مکہ میں بسر کیے، آپؐ کی ولادت بھی مدینہ کے بجائے مکہ میں ہوئی تھی، خلفائے راشدین کی زندگیوں کا بڑا حصہ بھی اسی شہر میں گزرا تھا اور ہزاروں صحابہ کرامؓ بھی مکہ ہی میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں جوان ہوئے لیکن اس کے باوجود مکہ اور مدینہ کی فضاؤں میں فرق ہے۔
کیوں؟ آپ اس کیوں کے جواب کے لیے کرمان کے بادشاہ کا واقعہ دوبارہ پڑھیں اور آپ اس کے بعد اسلامی دنیا کے ان تمام ملکوں، خطوں اور شہروں کی تاریخ بھی دیکھیں جن میں اس وقت جنگیں چل رہی ہیں، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، یہ تمام شہر، یہ تمام خطے اور یہ تمام ملک تاریخ کے تمام ادوار میں جنگوں، افراتفری اور قتل و غارت گری کا شکار رہے، یہ شہر اسلام کے ظہور سے پہلے بھی جنگوں کا شکار تھے، اسلامی دور میں بھی جنگوں کا شکار رہے اور آج بھی افراتفری اور قتل و غارت گری کا نشانہ ہیں، آپ لبنان، فلسطین اور یوروشلم کی تاریخ دیکھ لیں، آپ شام، یمن، مصر، عراق اور ایران کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں اور آپ پاکستان اور بھارت کے ان علاقوں کا پروفائل بھی نکال لیں جہاں آج لڑائیاں چل رہی ہیں۔
آپ کو وجہ سمجھ آ جائے گی، آپ اس کے بعد یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کریں، آپ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد آج یورپ کے ان ملکوں، ان خطوں اور ان علاقوں میں ایک بار پھر افراتفری نظر آئے گی جو ہزاروں سال میدان جنگ یا جنگوں کی وجہ رہے، آپ یونان کی تاریخ پڑھیں اور اس کے بعد یونان کی موجودہ صورتحال دیکھیں، آپ رومن ہسٹری پڑھیں اور اس کے بعد موجودہ اٹلی کو دیکھیں اور آپ اسپین، جرمنی اور آسٹریا کی تاریخ پڑھیں اور اس کے بعد موجودہ صورتحال کا تجزیہ کریں، آپ کو مستقبل، حال اور ماضی تینوں میز پر رکھے نظر آئیں گے۔
آپ اس کے بعد اس نقطہ نظر سے امریکا اور روس کو بھی دیکھیں، آپ کو ان دونوں ملکوں کے متحارب خطوں اور ان خطوں کے لوگوں کی نفسیات بھی سمجھ آ جائے گی، آپ کو آج بھی امریکا کے ان شہروں میں لاء اینڈ آرڈر، قتل و غارت گری اور لوٹ مار دکھائی دے گی جن میں مایا سولائزیشن، ریڈ انڈینز اور گوروں کے دور میں لڑائیاں ہوتی تھیں اور آپ کو آج بھی روس کے ان علاقوں میں آگ، بارود اور لاشیں نظر آئیں گی جن میں ماضی میں جنگیں ہوتی تھیں، یہ کیا ہے؟ یہ مٹی کا اثر ہے اور آپ اگر چند لمحوں کے لیے اس اثر کو حقیقت مان لیں تو آپ کو اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا ’’پاکستانی اپنے ائیرپورٹس پر دوسرے مسافروں کو کہنیاں اور ٹھڈے کیوں مارتے ہیں اور یہ یورپی ائیر پورٹس پر اترتے ہی چپ چاپ لائن میں کیوں لگ جاتے ہیں؟‘‘ اور آپ یہ بھی جان لیں گے حج کے دوران ہر سال مکہ میں بھگدڑ کیوں مچتی ہے؟ لوگ کیوں مرتے ہیں؟ آپ بس چند لمحوں کے لیے کرمان کے بادشاہ کا فلسفہ مان لیں۔
آپ بس چند لمحوں کے لیے مکہ مکرمہ کی تاریخ پڑھ لیں، آپ جان جائیں گے مکہ کی مٹی میں سختی بھی ہے اور شدت بھی۔ یہ سخت مٹی ہے، اس مٹی نے فتح مکہ تک نبی اکرم ؐ کو نبی نہیں مانا تھا، اس مٹی کی شدت دیکھ کر نبی اکرم ؐ اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ ہجرت فرما گئے مگر مٹی کو قرار نہ آیا اور یہ مسلمانوں کے خلاف مدینہ کی طرف لشکر بھجواتی رہی، یہ اس شہر کی مٹی کی شدت تھی جس کی وجہ سے شاید نبی اکرم ؐ فتح مکہ کے بعد واپس مدینہ لوٹ گئے اور یہ بھی اس شہر کی مٹی کی شدت ہے جس کے ہاتھوں ہر سال حاجی تکلیف بھی اٹھاتے ہیں، زخمی بھی ہوتے ہیں اور شہید بھی۔ مکہ مکرمہ کی مٹی میں شدت اور تکلیف دونوں ہیں چنانچہ ہم مسلمان اگر سہولت اور آسانی کے ساتھ حج کرنا چاہتے ہیں۔
ہم اگر اپنے آپ اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ان 800 لوگوں جیسے انجام سے بچانا چاہتے ہیں جو 2015ء میں حج کی تکمیل سے پہلے منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے حبس اور بھگدڑ کے ہاتھوں شہادت پا گئے تو پھر ہمیں کچھ اصول، کچھ ضابطے اور کچھ نظام وضع کرنا ہوں گے، یہ نظام، یہ ضابطے اور یہ اصول مٹی کی شدت تبدیل نہیں کر سکیں گے لیکن یہ حاجیوں کا حج ضرور آسان بنا دیں گے، یہ ہزاروں جانیں ضرور بچا لیں گے، میری سعودی عرب کی حکومت سے درخواست ہے، یہ تخمینہ لگائے منیٰ میں ایک وقت میں کتنے حاجی رمی کر سکتے ہیں، یہ اس تخمینے کے بعد حاجیوں کے مختلف گروپوں کو وقت الاٹ کر دے، ہر گروپ صرف اپنے مقررہ وقت پر رمی کے لیے کیمپ سے نکلے، رمی کے راستے میں آٹو میٹک بیریئر لگا دیے جائیں۔
یہ بیریئر سیکیورٹی گیٹس کی طرح ہوں، آپ ان میں صرف داخل ہو سکیں، واپس نہ آ سکیں، آپ مشین میں کارڈ ڈالیں، بیریئر کھلے اور آپ رمی کے پل پر چڑھ جائیں، یہ بیریئر پل پر ہر آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں، آپ ان کے ذریعے تعداد بھی مانیٹر کر لیں گے اور لوگ بھی ڈسپلن میں رہیں گے، آپ اس سلسلے میں ویٹی کن سٹی اور آرلینڈو (امریکا) کے ڈزنی ورلڈ کا سسٹم بھی دیکھ سکتے ہیں، ڈزنی ورلڈ میں روزانہ ڈیڑھ لاکھ لوگ آتے ہیں لیکن وہاں کسی قسم کی افراتفری نہیں مچتی، کیوں؟ ان کا بیریئر سسٹم۔ یہ سسٹم ہر پارک میں صرف اتنے لوگوں کو داخل ہونے دیتا ہے جتنی اس میں گنجائش ہوتی ہے، رمی کے مقام پر سایہ بھی نہیں اور لوگوں کی کثرت کی وجہ سے وہاں آکسیجن بھی کم ہو جاتی ہے۔
سعودی حکومت شیاطین کے مقامات تک سائے کا بندوبست کر دے، راستے میں آکسیجن بھی پھینکی جائے، حاجیوں کے لیے پانی کی بوتل بھی لازمی قرار دے دی جائے، حاجی اس وقت تک پل پر نہ چڑھ سکیں جب تک ان کے ہاتھ میں پانی کی بوتل نہ ہو، حاجیوں کے لیے ٹریننگ بھی ضروری قرار دے دی جائے، حکومتیں ملک بھر میں پرائیویٹ ٹریننگ کمپنیاں بنوائیں،یہ کمپنیاں اپنے اپنے شہر کے عازمین کو ٹریننگ دیں، حاجیوں کے پاس جب تک ٹریننگ کا کارڈ نہ ہو، انھیں اس وقت تک جہاز پر سوار نہ ہونے دیا جائے۔
میری حکومت پاکستان سے بھی درخواست ہے، آپ نادرا کی مدد سے ایسی ’’چپ‘‘ تیار کروائیں جس میں حاجی سے متعلقہ تمام معلومات موجود ہوں، یہ چپ ’’ربڑ بین‘‘ کے ذریعے حاجی کے بازو پر کہنی سے اوپر اس جگہ باندھ دی جائے جہاں وضو کا پانی نہیں جاتا، یہ چپ ہر قسم کے حادثے کے بعد وزارت حج، پاکستانی سفارت خانے اور حج گروپ کی مدد بھی کرے گی اور حاجیوں کے لواحقین بھی اس پریشانی سے بچ جائیں گے جس میں یہ اس وقت مبتلا ہیں، منیٰ کے حادثے کو پانچ دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک68 لوگ مسنگ ہیں۔
یہ بے چارے زخمی حالت میں کسی اسپتال میں پڑے ہوں گے یا پھر کسی مردہ خانے میں۔ زخمی عربی نہیں جانتے ہوں گے اور شہید کے جسم پر احرام کے سوا کوئی نشانی نہیں ہو گی چنانچہ پہچان کیسے ہو گی اور آخر میں ان مسلمان بھائیوں سے بھی درخواست ہے جو ایک بار حج کر چکے ہیں، مسلمان پر صرف ایک بار حج فرض ہے، آپ یہ فرض ادا کر چکے ہیں، آپ اب دوسرے مسلمان بھائیوں کے فرض میں رکاوٹ نہ بنیں، اللہ رکاوٹ بننے اور تکلیف دینے والوں کو پسند نہیں کرتا، ایسا نہ ہو، آپ کے پاؤں، آپ کی کہنی سے حج کے دوران دوسرے مسلمان بھائی کو تکلیف پہنچ جائے اور آپ زندگی بھر کی نیکیوں سے محروم ہو جائیں۔
یہ آپ کا بچہ بھی ہو سکتاہے
جاوید چوہدری جمعـء 25 ستمبر 2015

یہ جمعہ کی صبح تھی، تاریخ تھی 18 ستمبر اور سن تھا 2015ء۔ پشاور میں بڈھ بیر کے ائیر بیس پر حملہ ہوا، 13 دہشت گرد آئے، بیس کے اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی، فوج، ائیر فورس اور کوئیک ریسپانس فورس نے جوابی کارروائی کی، فائرنگ شروع ہوئی اور گولیاں اڑ اڑ کر بیس سے باہر آنے لگیں، محمد جلیل پشاور کا ایک عام شہری ہے، یہ اس دن بیس کے قریب سے گزر رہا تھا، اس نے دور سے دیکھا، سات آٹھ برس کا ایک بچہ زخمی حالت میں سڑک پر پڑا ہے۔
لوگ بچے کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن فائرنگ اور سیکیورٹی اداروں کے خوف کی وجہ سے بچے کے قریب نہیں جا رہے، محمد جلیل نے بچے کو اٹھانے اور اسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا لیکن وہ بھی مصلحت اور خوف کا شکار ہو کر آگے چل پڑا، وہ ابھی زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ اس کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگا، وہ خود کو گرا ہوا شخص محسوس کرنے لگا، وہ تاسف کے ہاتھوں مجبور ہوا، واپس پلٹا، برستی ہوئی گولیوں میں بچے کے قریب گیا، اس نے بچے کو سیدھا کیا اور اس کے منہ سے چیخ نکل گئی، اس نے بچے کو اپنے ساتھ لپٹا لیا، کیوں؟ کیونکہ وہ زخمی بچہ اس کا اپنا بیٹا شاکر اللہ تھا۔
وہ بچہ حملے کے دوران ائیر بیس کے قریب سے گزر رہا تھا اور اچانک فائرنگ کی زد میں آگیا، جلیل نے بچے کو اٹھایا اور اسپتال کی طرف دوڑ پڑا، بچے کی جان بچ گئی، جلیل آٹھ دن سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہا ہے، اللہ نے ضمیر کی آواز کے ذریعے اس کے اکلوتے بیٹے کی جان بچا لی۔
ہم سب جلیل ہیں، ہم روز سڑکوں، چوراہوں اور چوکوں پر درجنوں حادثے دیکھتے ہیں، ہمارے سامنے گاڑیاں الٹی پڑی ہوتی ہیں، ہمارے سامنے لوگ جلتی عمارتوں کی کھڑکیوں سے مدد مدد پکار رہے ہوتے ہیں، ہم لوگوں کو ڈوبتا بھی دیکھتے ہیں اور ہم روز لوگوں کودوا، خون کی بوتل اور پٹی کے لیے چلاتے بھی دیکھتے ہیں لیکن ہم چپ چاپ ان کے قریب سے گزر جاتے ہیں، ہمیں اپنے کام پر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے، ہم نے دفتر جانا ہوتا ہے۔
ہم نے شاپنگ کرنی ہوتی ہے اور ہمارے گھر میں ہمارے مہمان ہمارا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، یہ تمام کام ضروری ہیں لیکن ہم اگر ایک لمحے کے لیے ان زخمیوں، ان مجبوروں، ان لاچاروں اور مدد مدد پکارتے ان بے بسوں کے قریب سے گزرتے ہوئے یہ سوچ لیں ’’ یہ زخمی بچہ شاکر اللہ کی طرح میرا بیٹا بھی ہو سکتا ہے‘‘ تو آپ اندازہ کیجیے، ہماری وجہ سے کتنے لوگوں کی جان بچ جائے گی، ہم کتنے لوگوں کے لیے مدد گار ثابت ہوں گے، میں محمد جلیل جیسے بے شمار لوگوں کو جانتا ہوں۔
یہ لوگ گاڑی روک کر زخمیوں کی مدد کے لیے نیچے اترے تو پتہ چلا یہ زخمی ان کا اپنا بھائی، بیٹا یا عزیز ترین دوست ہے اور میں ایسے درجنوں لوگوں سے بھی واقف ہوں جو زخمیوں کے قریب سے گزر گئے اور چند گھنٹے بعد معلوم ہوا وہ جسے سڑک پر مرتا چھوڑ آئے تھے وہ ان کا عزیز تھا، میرے ایک سرجن دوست کی ذاتی زندگی کا واقعہ ہے، یہ آپریشن تھیٹر میں بارہ گھنٹے گزار کر گھر پہنچے، کھانا کھایا اور سو گئے، اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، انھوں نے گراہم بیل کو گالیاں دیتے دیتے فون اٹھایا، اسپتال سے فون تھا، نرس کا کہنا تھا، ایکسیڈنٹ کا کیس ہے، فوری آپریشن ضروری ہے۔
ڈاکٹر صاحب تھکے ہوئے بھی تھے اور نیند میں بھی تھے، انھوں نے غصے سے فون بند کر دیا، بستر میں گھسے لیکن نیند نہ آئی، کروٹیں بدلتے رہے یہاں تک کہ احساس ندامت کا شکار ہو گئے، اٹھے اور سلیپنگ سوٹ میں اسپتال پہنچ گئے، مریض کو دیکھا اور منہ سے چیخ نکل گئی، وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا، بیٹا لاہور میں پڑھتا تھا، وہ فیملی کو سرپرائز دینے کے لیے اسلام آباد آیا لیکن مندرہ کے قریب ایکسیڈنٹ ہو گیا، زخم شدید تھے چنانچہ اسے شہر کے بڑے اسپتال میں پہنچا دیا گیا، ڈیوٹی پر موجود نرس نے سرجن کو فون کیا لیکن وہ نیند میں تھا، سرجن پہنچا لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی تھی، ڈاکٹر صاحب کا بیٹا فوت ہو چکا تھا۔
مجھے لاہور کے ایک طالب علم نے اپنا واقعہ سنایا، وہ دوستوں کے ساتھ کینٹین پر بیٹھا تھا، ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور اونچی آواز میں بولا ’’ او پازیٹو خون کی دو بوتلیں چاہئیں، ایمرجنسی ہے‘‘ طالب علم کا کہنا تھا ’’میرا بلڈ گروپ او پازیٹو ہے لیکن میں نے اعلان پر توجہ نہ دی، میں دوستوں کے ساتھ گپ لگاتا رہا، وہ لڑکا بار بار اعلان کر رہا تھا، ہم اس کے اعلان سے چڑنے لگے، میرے دوست نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے آہستہ آواز میں بولنے کا اشارہ کیا لیکن وہ باز نہ آیا، وہ اعلان کرتا رہا، مجھے غصہ آ گیا، میں نے ہاتھ اٹھایا، اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا ’’ میرا گروپ او پازیٹو ہے لیکن میں خون نہیں دوں گا، جاؤ جو کرنا ہے کر لو‘‘ وہ لڑکا سیدھا میری طرف آیا، میرے سامنے ہاتھ باندھے اور رو کر کہنے لگا ’’سر میرا دوست یونیورسٹی کی بس کے نیچے آ گیا ہے۔
خدا کے لیے خون کی دو بوتلیں دے دیں، یہ بچ جائے گا‘‘ میں جوانی کی مستی میں تھا، میں نے قہقہہ لگایا اور اسے بلڈ بینک سے رابطے کا مشورہ دے دیا، وہ منتیں کرتا رہا لیکن میں نہ مانا، میں شام کو ہاسٹل پہنچا تو وہ لڑکا میرے کمرے کے باہر بیٹھا تھا، وہ مجھے اور میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا، بات کھلی تو پتہ چلا، وہ نوجوان میرے چھوٹے بھائی کا دوست تھا، میں اس سے واقف نہیں تھا، یہ دونوں مجھے ملنے آئے، میرے بھائی نے چلتی ہوئی بس سے اترنے کی کوشش کی، نیچے گرا اور بس کا ٹائر اس کے اوپر سے گزر گیا، بھائی شدید زخمی تھا، اسے او پازیٹو خون کی ضرورت تھی، اس کا دوست میری منتیں کرتا رہا اور میرا بھائی اسپتال میں آخری سانسیں لیتا رہا، میرے گھر والے مجھے فون بھی کرتے رہے لیکن اس دن لاہور میں فون سروس بند تھی اور یوں میرا بھائی فوت ہو گیا، مجھے اس دن سے اپنے آپ اور اپنے خون دونوں سے شدید نفرت ہے‘‘۔
اسلام آباد میں میرے ایک جاننے والے کے ساتھ بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا، یہ وزیراعظم ہاؤس میں میٹنگ کے لیے جا رہے تھے، یہ مارگلہ روڈ پر پہنچے تو سڑک پر ایک کار الٹی پڑی تھی، لوگ گاڑی کے گرد جمع تھے، ٹریفک جام تھی، انھیں جلدی تھی لیکن ان کی گاڑی پھنس گئی، یہ پریشان ہو گئے اور پریشانی میں ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کی ہدایت کرنے لگے، ڈرائیور لوگوں کو ہارن دینے لگا لیکن گاڑی گزارنے کی جگہ نہیں تھی، یہ غصے میں آ گئے۔
یہ گاڑی سے نیچے اترے اور لوگوں کو دھکے دینے لگے، یہ لوگوں کو دھکیل رہے تھے اور ڈرائیور گاڑی آگے کھسکا رہا تھا، گاڑی جب حادثے کا شکار گاڑی کے قریب پہنچی تو ڈرائیور نے اس کی ایک جھلک دیکھ لی، وہ گھبرا کر نیچے اتر آیا، صاحب نے ڈرائیور کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا، ڈرائیور نے ہاتھ کے اشارے سے دوسری گاڑی کی طرف متوجہ کیا اور چلا کر کہا ’’ سر یہ ہماری گاڑی ہے‘‘ صاحب پریشان ہو گئے، یہ لوگوں کو دھکیل کر گاڑی کے قریب پہنچے تو پتہ چلا، وہ ان کے گھر کی گاڑی تھی، گاڑی پھسل کر الٹ گئی تھی اور بیگم صاحبہ اور تینوں بیٹیاں زخمی حالت میں اندر پھنسی تھیں۔
یہ بچیوں کو لہو لہان دیکھ کر نیم پاگل ہو گئے، بہرحال اللہ تعالیٰ نے کرم کیا، ان کے اہل خانہ کی جان بچ گئی لیکن یہ آج بھی گہرے صدمے میں ہیں، اسی قسم کا ایک واقعہ لاہور کے ایک شخص نے سنایا، اس نے بتایا، ایک سرکاری عمارت کو آگ لگ گئی، عمارت کی پانچویں منزل پر انٹرویو چل رہا تھا، آگ لگتے ہی عملہ بھاگ گیا لیکن انٹرویو کے لیے موجود امیدوار وہیں پھنس گئے، آگ اور دھواں ناقابل برداشت ہوا تو امیدوار کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر مدد کے لیے پکارنے لگے لیکن فائر بریگیڈ بھی دور تھا اور آگ میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے لیے اونچی سیڑھیاں بھی دستیاب نہیں تھیں۔
عمارت کی گرد ہجوم جمع ہو گیا، یہ تماش بین آگ میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے بجائے کھڑکیوں میں مدد مدد پکارتے لوگوں کی موبائل فون سے ویڈیو بنانے لگے، آگ مزید پھیل گئی تو ایک نوجوان کھڑکی کے باہر لٹک گیا، ہجوم اس کی ویڈیو بھی بنانے لگا، ویڈیو بنانے والوں میں سے ایک نوجوان نے اپنے فون کا کیمرہ زوم کیا تو وہ چیخ اٹھا ’’ یہ میرا بھائی ہے، یہ میرا بھائی ہے‘‘ ہجوم فوراً اس کی طرف متوجہ ہو گیا، وہاں اب ایک نیا کھیل شروع ہو گیا، لوگ پہلے کھڑکی سے لٹکے نوجوان کی فلم بناتے، فون کو وہاں سے گھماتے اور پھر سر پیٹتے اور لوگوں کی منت کرتے بھائی کی ویڈیو بناتے، اس وقت وہاں سیکڑوں لوگ موجود تھے لیکن وہ تمام لوگ کیمرہ مین تھے، ان میں سے کوئی شخص لٹکے ہوئے نوجوان کی مدد کے لیے تیار نہیں تھا۔
یہاں تک کہ وہ نوجوان گرا، تڑپا اور جان دے دی، ہجوم نے اس کے تڑپنے کی فلم بھی بنائی، آپ نے لاہور یوحنا آباد میں دو نوجوانوں کو زندہ جلانے کے ویڈیو کلپ بھی دیکھے ہوں گے، آپ سنگدلی ملاحظہ کیجیے، دو زندہ انسانوں کو جلایا جا رہا تھا اور لوگ جلتے ہوئے لوگوں کی فلم بنا رہے تھے، یہ فلم بنانے والے لوگ یہ بھی بھول گئے، یہ جلی ہوئی لاشیں ان کے اپنے بھائی یا بیٹے کی بھی ہو سکتی ہیں، ملک میں چالیس برس سے کراچی کے مشہور نیورو سرجن ڈاکٹر جمعہ کا واقعہ بھی گردش کر رہا ہے۔
ڈاکٹر جمعہ کے آپریشن تھیٹر میں حادثے کے شکار ایک نوجوان کو لایا گیا، نوجوان کے سر پر گہری چوٹ تھی، ڈاکٹر جمعہ نے فیس مانگی، نوجوان کے ساتھ اس وقت کوئی شخص نہیں تھا لہٰذا فیس ممکن نہیں تھی، ڈاکٹر صاحب زخمی کو چھوڑ کر گھر چلے گئے، زخمی نوجوان فوت ہو گیا، اگلی صبح معلوم ہوا، وہ نوجوان ڈاکٹر صاحب کا سگا بیٹا تھا، وہ شاہراہ فیصل پر حادثے کا شکار ہوا اور بروقت آپریشن نہ ہونے کی وجہ سے انتقال کر گیا، ڈاکٹر جمعہ اور ان کا خاندان چالیس برس سے اس واقعے کی تردید کر رہا ہے لیکن یہ اس کے باوجود ایک سبق آموز کہانی ہے۔
آج عید کا دن ہے، ہم اپنے اہل خانہ کے ساتھ عید کی خوشیاں منا رہے ہیں، میری تمام پڑھنے والوں سے درخواست ہے، آپ آج سے یہ فیصلہ کر لیں، آپ کل سے حادثوں کی جگہوں پر رکیں گے اور حادثے کے شکار لوگوں کی مکمل مدد کریں گے، کیوں؟ کیونکہ ہو سکتا ہے حادثے کا شکار بچہ شاکر اللہ کی طرح آپ کا اپنا بیٹا اور اسپتال کی ایمرجنسی میں پڑا نوجوان آپ کا اپنا بھائی ہو، آپ کا یہ فیصلہ معاشرے کے لیے عید کا بہت بڑا تحفہ ثابت ہو گا۔
یہ خاموشی کہاں تک
جاوید چوہدری منگل 22 ستمبر 2015

جنرل مشرف سیاسی فیصلوں میں فوج کو اعتماد میں نہیں لیتے تھے‘ فوج میاں برادران کے جلاوطنی کے معاہدے تک سے واقف نہیں تھی‘
لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز 37 برس پاک فوج کا حصہ رہے‘ یہ تین نسلوں سے فوجی ہیں‘ ان کے والد بھی فوج میں تھے‘ وہ بریگیڈیئر کے عہدے تک پہنچے‘ جنرل شاہد عزیز نے 1971ء کی جنگ لڑی‘ یہ سیکنڈ لیفٹیننٹ سے تھری اسٹار جنرل تک پاک فوج کے پورے کمانڈ سسٹم کا حصہ رہے‘ یہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز بھی رہے‘ چیف آف جنرل اسٹاف بھی‘ لاہور کے کور کمانڈر بھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کے لیے چیئرمین نیب بھی۔
یہ جنرل پرویز مشرف کے رشتے دار بھی ہیں‘ پاک فوج میں اس وقت ان کی تیسری نسل خدمات سرانجام دے رہی ہے‘ ان کے صاحبزادے بھی پاک فوج میں ہیں‘ جنرل شاہد عزیز نے ریٹائرمنٹ کے بعد ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ کے نام سے اپنی آٹو بائیو گرافی لکھی‘ میں نے گزشتہ ہفتے یہ کتاب ختم کی‘ جنرل شاہد عزیز کی یہ کتاب خاصی متنازعہ تھی‘ کتاب کی اشاعت کے بعد جنرل مشرف‘ ان کے ساتھیوں اور فوج کے چند حاضر سروس اور ریٹائر عہدیداروں نے جنرل شاہد عزیز کو آڑے ہاتوں بھی لیا‘ اس کتاب کو فوج کے خلاف سازش بھی قرار دیا اور جنرل شاہد عزیز کے کورٹ مارشل کا مطالبہ بھی کیا ۔
ان دنوں جنرل شاہد عزیز کے ایک انٹرویو نے بھی تہلکہ مچایا لیکن سچی بات ہے میں نے جب یہ کتاب پڑھی تو مجھے اس میں کوئی برائی‘ خرابی یا سازش نظر نہیں آئی‘ یہ ایک دھڑکتے دل اور قوم سے شرمندہ ایک ایسے جنرل کی آپ بیتی ہے جس نے مکمل جرأت کے ساتھ اپنی‘ اپنے ادارے اور اپنے ساتھیوں کی غلطیوں اور زیادتیوں کا اعتراف کیا‘ جنرل شاہد نے فوج‘ حکومت اور سیاستدانوں کی کشتیوں میں موجود ان تمام سوراخوں کی بھی کھل کر نشاندہی کی جن کو ہم کبھی صابن‘ کبھی گوند اور کبھی کاغذ لگا کر بند کرتے ہیں اور کبھی قالین‘ دری یا جائے نماز کے نیچے چھپا دیتے ہیں مگر انھیں مستقل بند نہیں کرتے‘ یہ کتاب منافقت پر مبنی نظام کا ایک مکمل تجزیہ بھی ہے اور ایک ایسے شخص کا اعتراف جرم بھی جو 39 برس تک اس نظام کا حصہ رہا‘ ہم جنرل شاہد عزیز کے خیالات اور انکشافات سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ہم انھیں یکسر مسترد نہیں کر سکتے کیونکہ جب دھواں اور آگ دونوں موجود ہوں تو پھر زیادہ سے زیادہ یہ بحث کی جا سکتی ہے۔
یہ آگ لگائی کس نے تھی یا اسے بجھانے کی ذمے داریکس پر عائد ہوتی ہے لیکن آگ اور دھوئیں کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ حقیقت ہے سیاستدان ہوں‘ حکومت ہو یا پھر فوج ہو ملک کے تمام اداروں میں دھواں بھی ہے اور آگ بھی۔ میرا ذاتی خیال ہے فوج‘ حکومت اور سیاستدان اگر اس کتاب کو سسٹم کے بارے میں تحقیقاتی مکالمہ سمجھ لیں اور اسے پڑھ کر 68 سال سے جاری غلطیوں کی اصلاح کر لیں تو کم از کم ڈھلوان پر جاری سفر ضرور رک سکتا ہے‘ ہم مزید پھسلنے سے ضرور بچ سکتے ہیں۔
جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا‘ جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999ء سے قبل میاں نواز شریف کی حکومت کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے‘ جنرل شاہد عزیز اس وقت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز تھے‘ جنرل مشرف نے سری لنکا جانے سے قبل 10 کور کمانڈرز جنرل محمود‘ سی جی ایس جنرل عزیز خان اور ڈی جی ایم او یعنی انھیں یہ ذمے دار ی سونپ دی تھی‘ ڈی جی ایم آئی میجر جنرل احسان الحق اور ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈیئر راشد قریشی بھی اس آپریشن کا حصہ تھے‘ جنرل مشرف کو اس معاملے میں کور کمانڈر پشاور جنرل سعید الظفر پر اعتماد نہیں تھا۔
میاں نواز شریف کو برطرف کرنے‘ پی ٹی وی اسلام آباد پر قبضے اور جنرل پرویز مشرف کو کراچی میں بحفاظت اتارنے کے پورے آپریشن کی نگرانی جنرل شاہد عزیز نے خود کی‘ جنرل شاہد عزیز نے اعتراف کیا‘ ہم اسے انقلاب سمجھ رہے تھے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ہم سب کا دل ٹوٹتا گیا یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آیا جب وہ فوجی وردی جو قوم کا پرائیڈ تھی وہ صرف دفتروں میں پہنی جانے لگی‘ افسر گھر سے سادہ کپڑوں میں نکلتے اور دفتر میں وردی پہن لیتے تھے‘ جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا‘ فوج چوہدریوں کے خلاف تھی‘ یہ ان کا جنرل مشرف سے گٹھ جوڑ نہیں چاہتی تھی لیکن مشرف نے فوج کی بات نہیں مانی‘ جنرل مشرف نے 31 جنوری 2002ء کو کور کمانڈرز کی میٹنگ میں اعلان کیا‘ ہم پاکستان مسلم لیگ ق کی مدد کریں گے‘ پیپلز پارٹی کو توڑیں گے اور ن لیگ کو کمزور کریں گے‘ جنرل مشرف نے 2002ء کے الیکشنز میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کیا‘ ووٹرز تک کی عمر 21 سال سے 18 سال کر دی گئی‘ جنرل شاہد نے انکشاف کیا۔
جنرل مشرف سیاسی فیصلوں میں فوج کو اعتماد میں نہیں لیتے تھے‘ فوج میاں برادران کے جلاوطنی کے معاہدے تک سے واقف نہیں تھی‘ مجھے جب چیئرمین نیب بنایا گیا تو جنرل مشرف نے مجھے کہا‘ تم فیصل صالح حیات کے مقدموں کو نہ چھیڑنا‘ مجھے حکومت کی سیاسی مجبوریاں بتا کر دوسرے سیاستدانوں کی فائلیں کھولنے سے بھی روک دیا گیا‘ مجھے 2007ء میں طارق عزیز نے بلا کر صدر مشرف کا حکم سنایا ’’ بے نظیر بھٹو کے تمام مقدمات بند کر دیے جائیں‘‘ میں نے تعاون نہ کیا تو چیئرمین کے اختیارات دو ڈپٹی چیئرمینوں میجر جنرل محمد صدیق اور حسن وسیم افضل میں بانٹ دیے گئے‘ بے نظیر اور آصف علی زرداری کے مقدمات حسن وسیم افضل کے حوالے کر دیے گئے۔
میں نے فیڈ بیک جاری رکھا تو حسن وسیم افضل کے دفتر کو لاہور شفٹ کر دیا گیا‘ میں چیئرمین نیب تھا تو میں نے پٹرول کی درآمد میں 81 ارب روپے کی کرپشن پکڑی لیکن وزیراعظم شوکت عزیز اور صدر مشرف نے یہ معاملہ بھی دبا دیا‘ صدر اور وزیراعظم چینی مافیا کے خلاف بھی کارروائی نہیں کرنے دیتے تھے‘ میں نے جب اپنی کوششیں جاری رکھیں تو مجھے استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا گیا‘ چیف جسٹس کا ایشو بن چکا تھا‘ میں اس دوران حکومت کی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا تھا چنانچہ میں نے دو ماہ کی چھٹی لی اور چپ چاپ گھر بیٹھ گیا۔
جنرل شاہد عزیز کی پوری کتاب انکشافات کا خزانہ ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جنرل پرویز مشرف کے کردار سے متعلق حصہ چشم کشا ہے‘ ہم اگر خطے میں امریکا کے ظالمانہ کردار کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ کے وہ حصے ضرور پڑھنے چاہئیں‘ جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا‘ جنرل مشرف امریکا کے ساتھ معاملات کو انتہائی خفیہ رکھتے تھے‘ جنرل شاہد عزیز اس وقت چیف آف جنرل اسٹاف تھے اور جنرل یوسف وائس چیف‘ یہ دونوں فوج کے مکمل کرتا دھرتا تھے لیکن یہ دونوں بھی زیادہ تر معاملات سے ناواقف ہوتے تھے‘ یہ ریٹائرمنٹ کے بعد 2005ء میں گوادر گئے تو انھیں وہاں معلوم ہوا‘ امریکا نے نومبر 2001ء میں گوادر اور جیوانی میں اپنی نیوی بھی اتاری تھی‘ بھاری ہتھیار بھی اور جوان بھی۔ امریکی فوج بعد ازاں بلوچستان کے راستے افغانستان گئی‘ گوادر میں 2005ء میں بھی امریکی مورچے موجود تھے۔
’’میں 2001ء میں سی جی ایس تھا‘ مجھے اس کارروائی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا‘ میں نے جنرل یوسف سے رابطہ کر کے پوچھا‘ وہ بھی ناواقف تھے گویا یہ کارروائی فوج کے دونوں اعلیٰ ترین عہدے داروں سے خفیہ رکھی گئی تھی‘‘ جنرل مشرف نے جیکب آباد‘ شمسی‘ ژوب اور دالبندین کے ہوائی اڈے بھی چپ چاپ امریکا کے حوالے کر دیے اور ان معاملات میں بھی فوج سے غلط بیانی کی گئی‘ پاک فوج کے دستے جب سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے ان ہوائی اڈوں پر گئے تو امریکی فوجیوں نے انھیں اندر داخل نہیں ہونے دیا‘ ان اڈوں پر امریکی سی آئی اے قابض ہو چکی تھی‘ جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا۔
امریکی سازو سامان این ایل سی کے ٹرالرز کے ذریعے بھی افغانستان پہنچایا گیا‘ جنرل شاہد نے انکشاف کیا‘ امریکا نے ایک گہری سازش کے ذریعے پاک فوج اور مجاہدین کو آپس میں لڑایا‘ امریکی افغانستان کی جنگ کو پاکستان تک پھیلانا چاہتے تھے‘ امریکا نے پہلے افغانستان کے مختلف حصوں میں موجود طالبان کو پاکستانی سرحد کے قریب تورا بورا میں جمع کیا اور پھر بمباری شروع کر دی‘ یہ لوگ بھاگ کر پاکستان گئے‘ پاکستان کے ساتھ ان کا کوئی اختلاف نہیں تھا‘ یہ لوگ جب پاکستان میں داخل ہوئے تو میں نے جنرل یوسف کے آفس میں سیٹ کام کے چیف جنرل ٹونی فرینکس سے پوچھا‘ آپ جب طالبان کو پاکستانی سرحد کے قریب اکٹھا کر رہے تھے تو آپ نے ہمیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا‘ جنرل کا جواب تھا‘ یہ ہماری کوتاہی ہے لیکن یہ کوتاہی نہیں تھی‘ امریکا نے جان بوجھ کر اپنے دشمنوں کو پاکستان میں پھیلا دیا تا کہ پاکستان بھی مکمل طور پر افغان جنگ کا حصہ بن جائے۔
امریکا نے اس کے بعد ہم پر فاٹا میں فوج بھجوانے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا‘ ہمیں غیر ملکی مجاہدین کو گرفتار کرنے کا ٹاسک بھی دیا گیا‘ ہم نے کوہاٹ کی جیل خالی کی اور 80 عرب باشندوں کو وہاں بند کر دیا‘ کابل پر قبضے کے بعد امریکا نے بھارت کے لیے دروازے کھول دیے‘ انڈیا نے وہاں ٹھکانے بنا لیے‘ امریکیوں نے 110 پاکستانی بھی بھارت کے حوالے کر دیے‘ یہ لوگ انھیں انڈیا لے گئے اور اس کے بعد ان کی کوئی خبر نہیں آئی‘ امریکا نے گیارہ سو پاکستانی ہمارے حوالے کیے اور ہم نے انھیں 232 غیر ملکی مجاہدین دیے۔
جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا‘ 26 جنوری 2002ء کو پچاس جوانوں کی ایک پلٹن نے چار امریکیوں کے ساتھ قبائلی علاقے میں غیر ملکی مجاہدین کی تلاش میں ایک گھر کے دروازے پر دستک دی‘ گھر کا مالک باہر نکلا تو اسے بتایا گیا‘ تمہارے گھر کی تلاشی ہو گی‘ وہ گھر کی خواتین کو پردہ کرانے کے لیے اندر گیا لیکن واپس نہ آیا‘ جوان اندر داخل ہوئے تو گھر میں مجاہدین موجود تھے‘ مجاہدین نے فائرنگ شروع کر دی‘ کارروائی میں شامل ایک افسر نے اس آپریشن کی باقاعدہ فلم بنائی‘ رات دس بجے تک فائرنگ ہوتی رہی یہاں تک کہ وہ لوگ جوانوں کا گھیرا توڑ کر فرار ہو گئے‘ یہ فائرنگ پاکستان میں فوج اور مجاہدین کی پہلی لڑائی تھی‘ یہ لڑائی پھر اس کے بعد رکی نہیں‘ پاکستان اس کے بعد میدان جنگ بن گیا۔
مجھے جنرل شاہد عزیز کی کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری جنگ نہیں تھی‘ یہ امریکا اور جنرل پرویز مشرف کی جنگ تھی اور ایک طویل عمل کے ذریعے اسے پاکستان کی جنگ بنا دیا گیا‘ یہ پرائی جنگ اب تک ہمارے 60 ہزار سویلین اور 7 ہزار جوانوں کو نگل چکی ہے‘ یہ جنگ روز کیپٹن اسفند یار جیسے کسی نہ کسی افسر کی شہادت کا باعث بنتی ہے لیکن اس کے باوجود آج تک اس جنگ کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہوئی‘ کسی نے کوئی مقالہ نہیں لکھا‘ کیوں؟ اتنی خاموشی کیوں ہے؟ یہ سناٹا کب تک چلے گا؟ یہ خاموشی کب تک‘ آخر کب تک۔!!

چانس
جاوید چوہدری اتوار 20 ستمبر 2015

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنئے، یہ ہالی ووڈ کے اعلیٰ ترین ایکٹرز میں شمار ہوتے ہیں، آپ اگر ان کی گھمبیر آواز کے زیرو بم، ان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ اور ان کی چال کی ڈھال سے واقف نہیں ہیں تو آپ ان کی فلمیں Street Smart, The Shawshank Redemption اور Invictus دیکھئے، آپ مورگن فری مین کے سحر میں میں مبتلا ہو جائیں گے، دنیا کے تمام اچھے اداکار خود کو کردار میں ڈھال لیتے ہیں، یہ بھکاری کا کردار ادا کرتے ہوئے بھکاری بن جاتے ہیں۔
بادشاہ کے کردار میں بادشاہ ہو جاتے ہیں اور عاشق کے کردار میں عاشق بن جاتے ہیں لیکن مورگن فری مین دنیا کے ان چند اداکاروں میں شمار ہوتے ہیں جو کردار کو اپنے اندر ڈھال لیتے ہیں اور وہ کردار چند لمحوں میں مورگن فری مین بن جاتا ہے، آپ مورگن فری مین کو کسی بھی کردار میں دیکھیں، مورگن آپ کو بھکاری، عاشق یا بادشاہ نہیں لگے گا، آپ مورگن کو مورگن ہی پائیں گے لیکن مورگن فری مین کی اداکاری اور ان کی فلمیں ہمارا موضوع نہیں، ہمارا موضوع ان کی زندگی کا وہ چھوٹا سا واقعہ ہے جس نے ایک عام سے غریب سیاہ فام بچے کو دنیا کا عظیم اداکار بنا دیا، یہ واقعہ محض ایک واقعہ نہیں، یہ تقدیر، قسمت اور نصیب کی ایک ایسی تشریح ہے جس کی تلاش میں ہم دن رات مارے مارے پھرتے ہیں۔
آپ کو اس واقعے میں وہ سب کچھ مل جائے گا جس کی جستجو میں آپ کتابیں ادھیڑتے اور جوتے گھساتے رہتے ہیں، مورگن فری مین امریکی ریاست Tennessee کے شہر Memphis میں 1937 میں پیدا ہوئے، والدہ اسکول ٹیچر تھی اور والد حجام۔ ان کے آباؤ اجداد نائیجیریا سے غلام بن کر امریکا آئے تھے، یہ والدین کے چوتھے بچے تھے، گھر میں غربت اور بیماری بھی تھی اور گورے بھی سیاہ فام باشندوں سے نفرت کرتے تھے، والدین نے انھیں بچپن میں دادی کے پاس چارلس ٹاؤن بھجوا دیا، ان کا پورا بچپن دادی، نانی اور والدین کے گھروں کے درمیان فٹ بال بن کر گزرا، یہ احساس کمتری کے مارے ہوئے ایک خاموش طبع بچے تھے، اسکول میں بھی ان کے زیادہ دوست نہیں تھے، یہ اچھے اسٹوڈنٹ بھی نہیں تھے۔
یہ میسی سپی (Mississippi) ریاست کے ٹاؤن گرین ووڈ کے بورڈ اسٹریٹ ہائی اسکول میں پڑھتے تھے، ان کی عمر نو سال تھی، یہ کلاس میں بیٹھے تھے، استاد نے ان سے آگے بیٹھے بچے سے کوئی سوال پوچھا، وہ بچہ جواب دینے کے لیے کرسی سے اٹھا، جواب دیا اور کرسی پر واپس بیٹھنے لگا تو مورگن فری مین نے شرارتاً اس کی کرسی کھینچ لی، وہ بچہ فرش پر گر گیا، پوری کلاس ہنس پڑی، استاد سخت تھا، وہ چھڑی اٹھا کر مورگن فری مین کو مارنے کے لیے دورڑا، یہ ڈر گئے، یہ کرسی سے اٹھے اور باہر کی طرف دوڑ لگا دی، استاد بھی پیچھے بھاگا لیکن یہ کلاس سے نکل گئے، یہ برآمدے میں دیوانہ وار دوڑنے لگے، یہ دوڑتے دوڑتے کسی سے ٹکرائے اور فرش پر گر گئے، یہ جس شخص سے ٹکرائے تھے اس نے انھیں اٹھایا، ان کے کپڑے جھاڑے اور ان سے پوچھا ’’ بیٹا آپ اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہیں،، مورگن فری مین نے ڈرتے ڈرتے ساری بات بتا دی۔
اس شخص نے قہقہہ لگایا، ان کی انگلی پکڑی اور کوریڈور میں چلنا شروع کر دیا، وہ بھی استاد تھا لیکن وہ اس وقت قسمت کا دیوتا ثابت ہوا، وہ مورگن فری مین کا ہاتھ پکڑ کر انھیں اسکول کے آڈیٹوریم میں لے آیا، ہال میں کسی ڈرامے کی ریہرسل چل رہی تھی، استاد نے ہال میں پہنچ کر تالی بجائی، ریہرسل میں مصروف بچوں اور بچیوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اونچی آواز میں اعلان کیا، آپ اپنی فوج کے نئے سپاہی سے ملیے، تمام بچوں نے تالیاں اور نعروں سے انھیں خوش آمدید کہا، وہ استاد اس کے بعد ان کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا ’’آپ کا نام کیا ہے‘‘ مورگن فری مین نے اپنا نام بتایا، استاد دوبارہ مسکرایا اور بولا ’’ آپ ایک پیدائشی ایکٹر ہیں، میں اسکول میں تھیٹر کا استاد ہوں، ہم ایک ڈرامے کی ریہرسل کر رہے ہیں۔
آپ آج سے اس ڈرامے کا حصہ ہیں‘‘ مورگن فری مین نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’ لیکن کیا میرے ٹیچر مجھے اس کی اجازت دے دیں گے‘‘ استاد نے مسکرا کر جواب دیا ’’ یہ میرا مسئلہ ہے، میں استاد سے بات کر لوں گا‘‘ مورگن فری مین نے ہاں میں سر ہلا دیا، استاد انھیں لے کر پرنسپل کے پاس گیا، پرنسپل نے انھیں تھیٹر کلاس میں شفٹ کر دیا اور یوں کرسی کھینچنے کی ایک غلطی، ایک حرکت نے سیاہ فام نالائق طالب علم کو مورگن فری مین بنا دیا، وہ ڈرامے کاحصہ بنے، ڈرامہ مکمل ہوا، اسکول نے دیکھا، مورگن فری مین کی اداکاری پر تالیاں بجیں اور پھر مورگن فری مین نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
ہم اب مورگن فری مین کی کہانی کو چند لمحوں کے لیے یہاں روکتے ہیں اور پنجاب کے مشہور کردار راجہ رنجیت سنگھ کا ایک واقعہ لیتے ہیں، رنجیت سنگھ گوجرانوالہ کا رہنے والا تھا، یہ ایک عام سا شخص تھا، مغل کمزور ہوئے تو رنجیت سنگھ نے چھوٹی سی فوج بنائی اور مارتا دھاڑتا جولائی1799ء میں لاہور پر قابض ہو گیا، رنجیت سنگھ ان پڑھ لیکن وژنری انسان تھا، اس نے ایک اطالوی جنرل ژاں بپتیست وینچورہ کی خدمات حاصل کیں، وینچورہ نے اس کی سلطنت ملتان سے جلال آباد تک پھیلا دی، راجہ رنجیت سنگھ واحد بادشاہ تھا جس نے پٹھانوں کو فتح کیا، یہ فتح وینچورہ کا کمال تھا، وینچورہ کے بارے میں مشہور تھا، وہ اس وقت تک ناشتہ نہیں کرتا تھا جب تک اس کے سامنے دس افراد کو پھانسی نہیں دے دی جاتی تھی۔
آپ نے یقینا یہ فقرہ سنا ہو گا ’’سو جا سو جا ورنہ گبر آ جائے گا‘‘ یہ فقرہ وینچورہ سے منسوب تھا، وینچورہ ستمبر 1843 میں پنجاب سے فرانس چلا گیا اور وہ اپریل 1858میں فرانس ہی میں انتقال کر گیا لیکن آج بھی اٹک کے پل کے پار بے شمار مائیں اپنے بچوں سے کہتی ہیں ’’ سو جا سو جا ورنہ وینچورہ آ جائے گا‘‘ وینچورہ جب فرانس گیا اور لوگوں نے اس سے سکھ حکومت کے عروج و زوال کی وجہ پوچھی تو وہ ایک لفظ میں جواب دیتا تھا ’’مقدر‘‘۔ لوگ تفصیل پوچھتے تھے تو وہ کہتا تھا ’’ رنجیت سنگھ مقدر کا دھنی تھا، وہ جہاں قدم رکھ دیتا تھا وہ جگہ اس کی ہو جاتی تھی، وہ مر گیا تو سکھوں کا مقدر بھی فوت ہو گیا‘‘ وینچورہ کی آبزرویشن درست تھی، راجہ رنجیت سنگھ واقعی خوش نصیب تھا، اس کی رنگت سیاہ تھی، چہرے پر چیچک کے داغ تھے۔
وہ ایک آنکھ سے کانا بھی تھا اور دائمی مریض بھی تھا لیکن اس نے اس کے باوجود دنیا کی واحد سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی ’’کیسے؟‘‘ اس کا جواب ہے ’’مقدر‘‘۔ ایک بار ایک ایرانی کنیز اس کے سامنے ناچ رہی تھی، وہ ناچتے ناچتے رنجیت سنگھ کے سامنے پہنچی تو اس کی ہنسی نکل گئی، رنجیت سنگھ بھانپ گیا، اس نے اسے روک کر پوچھا ’’ تم ہنس کیوں رہی تھی‘‘ کنیز نے جان کی امان پائی اور ڈرتے ڈرتے جواب دیا ’’ عالی جاہ میں نے جب آپ کی طرف دیکھا تو میرے دماغ میں آیا، اللہ تعالیٰ جب حسن بانٹ رہا تھا تو آپ اس وقت کہاں تھے اور میری ہنسی نکل گئی‘‘ رنجیت سنگھ نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’تم جس وقت حسن لینے کے لیے خوبصورتی کی قطار میں کھڑی تھی، میں اس وقت مقدر کی کھڑی کے سامنے تھا، تم نے حسن لے لیا، مجھے مقدر مل گیا چنانچہ آج حسن مقدر کے سامنے ناچ رہا ہے‘‘۔
ہم اگر ان دونوں کہانیوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں یہ جانتے دیر نہیں لگے گی مقدر کا دوسرا نام چانس ہے اور قدرت چانس دنیا کے ہر شخص کو دیتی ہے اور وہ لوگ جو چانس کا سرا پکڑ لیتے ہیں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور جو مقدر کی کھڑکی کے سامنے پہنچ کر ڈبل مائینڈڈ ہو جاتے ہیں، وہ باقی زندگی وقت کا ماتم کرتے گزارتے ہیں، آپ فرض کیجیے اس دن استاد مورگن کے آگے بیٹھے بچے سے سوال نہ کرتا، کلاس قہقہے نہ لگاتی، استاد ناراض نہ ہوتا، وہ مارنے کے لیے مورگن کے پیچھے نہ بھاگتا، مورگن کلاس سے نہ دوڑتا، ڈرامے کا استاد عین وقت برآمدے میں نہ آتا، مورگن اس سے نہ ٹکراتا اور استاد اسے ریہرسل کی جگہ لے کر نہ جاتا تو کیا ہوتا؟ کیا مورگن، مورگن فری مین بنتا؟ شاید نہ بنتا لہٰذا کرسی کھینچنے سے لے کر ریہرسل کے ہال تک دس منٹ کا وہ ایکٹ قسمت کا کھیل تھا، قسمت کا وہ کھیل اہم تھا لیکن اس سے زیادہ اہم مورگن فری مین کی ہاں تھی۔
وہ اگر اس دن ریہرسل میں شریک ہونے سے انکار کر دیتا، وہ آڈیٹوریم سے واپس آ جاتا تو ایکٹر بننے کا چانس ضایع ہو جاتا بالکل اسی طرح مغل پورے ہندوستان میں کمزور ہوئے لیکن آزاد ریاست کا چانس صرف رنجیت سنگھ نے لیا۔ وہ بھی اگر ہندوستان کے دوسرے 25 کروڑ باشندوں کی طرح چپ چاپ بیٹھا رہتا یا پھر گوجرانوالہ فتح کر کے صبر کر لیتا تو وہ بھی دس بیس برس میں ختم ہو جاتا، دوسرا چانس وینچورہ تھا، نپولین کی شکست کے بعد فرانس اور اٹلی کے بے شمار جنرل نوکریوں کی تلاش میں ہندوستان آئے، وینچورہ بھی ان میں شامل تھا، رنجیت سنگھ واحد حکمران تھا ۔
جس نے وینچورہ کو چانس دیا، اپنی فوج کا بڑا حصہ اس کے حوالے کیا اور وینچورہ نے نہ صرف نوشہرہ اور وزیر آباد میں گورننس کی مثال قائم کر دی بلکہ سکھ حکومت جلال آباد کے پہاڑوں تک پھیلا دی، راجہ رنجیت سنگھ اگر وینچورہ کا چانس نہ لیتا اور وینچورہ بھی اس کی پیش کش قبول نہ کرتا تو یہ کہانی بھی گوجرانوالہ کی گلیوں میں جذب ہو جاتی اور اگر مورگن فری مین بھی ڈرامہ استاد کی پیش کش پر سر ہاں میں نہ ہلاتا تو مورگن فری مین بھی آسکر ونر اداکار نہ بنتا، یہ بھی گرین ووڈ کے ہائی اسکول کے برآمدے میں ضایع ہو جاتا بالکل اسی طرح جس طرح اسکول کے دوسرے لاکھوں طالب علم گمنامی کے اندھیرے کی سیاہی بن گئے۔
مقدر چانس ہوتا ہے، قدرت یہ چانس ہمیں روز دیتی ہے، ہمارا کمال بس اتنا ہے ہم اس چانس کو مس نہ ہونے دیں، ہم اسے فوراً گرفت میں لے لیں، آپ بھی دائیں بائیں دیکھیں، چانس آپ کے ساتھ بھی کھڑا ہو گا۔
قوم جواب کی منتظر ہے
جاوید چوہدری جمعرات 17 ستمبر 2015

وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ لندن کے نسلی فسادات کو اپوزیشن اور میڈیا کے کھاتے میں ڈال دیتے‘ آگ بجھاتے‘ ملزموں کو گرفتار کرتے‘ فوجی عدالتوں میں مقدمے چلاتے اور دوبارہ نندی پور جیسے منصوبوں میں چھلانگ لگا دیتے یا پھر یہ مسئلے کو سیریس لیتے اور اس کا کوئی مستقل حل تلاش کرتے‘ ڈیوڈ کیمرون کیونکہ اچھے اور کامیاب وزیراعظم نہیں تھے چنانچہ انھوں نے فسادات کو اپوزیشن اور میڈیا کے نامہ اعمال میں ڈالا اور نہ ہی فوجی عدالتیں بنائیں۔
وہ مسئلے کے مستقل حل کی طرف چلے گئے اور مسئلے کا مستقل حل لندن کے بجائے نیویارک میں تھا‘ ڈیوڈ کیمرون نے فوراً ولیم جوزف بریٹن کو فون کیا اور اسے لندن آنے کی دعوت دے دی‘ یہ ولیم جوزف بریٹن کون ہے‘ ڈیوڈ کیمرون نے اسے لندن کیوں بلایا اور لندن کے نسلی فسادات کب اور کیوں ہوئے‘ ہمیں یہ جاننے کے لیے 2011ء میں جانا ہو گا‘ لندن پولیس نے 4 اگست 2011ء کو 29 برس کے ایک سیاہ فام نوجوان مارک ڈوگن کو ٹوٹن ہام کے علاقے میں گولی مار دی‘ مارک ڈوگن کی لاش برطانیہ کے بدترین فسادات کا باعث بن گئی۔
برطانیہ کے سیاہ فام باشندے باہر نکلے اور انھوں نے لندن‘ برمنگھم‘ ناٹنگھم‘ مانچسٹر‘ لنکولن اور بریسٹول میں آگ لگا دی‘ اربوں روپے کی املاک‘ سرکاری عمارتیں اور گاڑیاں جل کر راکھ ہو گئیں‘ سرکاری نظام مفلوج ہو گیا‘ پولیس غائب ہو گئی اور شہر بلوائیوں کے کنٹرول میں چلے گئے‘ ڈیوڈ کیمرون اس وقت اٹلی میں اپنی فیملی کے ہمراہ دوہفتوں کی چھٹیوں پر تھے‘ یہ فوری طور پر لندن پہنچ گئے‘ یہ فسادات 6 اگست سے 11 اگست 2011ء تک چلتے رہے‘ ان فسادات میں پانچ لوگ ہلاک ‘ 16 سویلین اور 186 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے‘ حالات کنٹرول میں آنے کے بعد حکومت نے سی سی ٹی کیمروں کی مدد سے تین ہزار لوگ گرفتار کیے‘ بسوں کے اندر خصوصی عدالتیں قائم ہوئیں‘ ججوں نے دن رات مقدمات چلا کر ہزاروں مجرموں کو سزا سنا دی۔
فسادات کے دوران تباہ ہونے والی اربوں پاؤنڈ کی پراپرٹی کے کیس بھی نبٹا دیے گئے‘ وزیراعظم نے مقدموں سے فارغ ہونے کے بعد فسادات کا تفصیلی جائزہ لیا‘ ریسرچ کی‘ پتہ چلا ولیم جوزف بریٹن نام کا ایک ریٹائر پولیس آفیسر نیویارک میں رہتا ہے‘ یہ 1990-91ء میں نیویارک کا پولیس چیف جب کہ جنوری 1994ء سے اپریل 1996ء تک نیویارک سٹی پولیس کا کمشنر رہا‘ ‘ ولیم بریٹن سے قبل نیویارک دنیا میں نسلی فسادات اور اسٹریٹ کرائم کا سب سے بڑا گڑھ تھا‘ ولیم بریٹن آیا‘ اس نے نیویارک کی گلیوں میں کام کیا اور ڈیڑھ سال میں نیویارک کو نسلی فسادات اور جرائم سے پاک کر دیا‘ نیویارک میں امن قائم ہو گیا‘ ولیم بریٹن اپریل 1996ء میں ریٹائر ہو گیا لیکن اس کا قائم کردہ امن آج تک برقرار ہے اوراسی ولیم بریٹن کو یکم جنوری 2014ء سے ایک بار پھر کمشنر نیویارک پولیس تعینات کردیاگیا ہے۔
ولیم بریٹن نے نیویارک شہر کے لیے ایک فارمولہ بنایا تھا‘ یہ فارمولہ بریٹن فارمولہ کہلاتا ہے‘ ڈیوڈ کیمرون نے وہ فارمولہ پڑھا اور اسے فوراً فون کر دیا‘ ولیم جوزف بریٹن کو لندن بلا لیا گیا‘ وزیراعظم اسے لندن کا پولیس چیف بنانا چاہتا تھا لیکن ان کے ماتحت ادارے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اجازت نہ دی‘ ہوم ڈیپارٹمنٹ کا کہنا تھا‘ قانون کے مطابق صرف برطانوی شہری پولیس چیف بن سکتا ہے‘ ڈیوڈ کیمرون قانون کے سامنے بے بس ہو گیا‘ برطانوی وزیراعظم نے یقینا اس وقت یہ سوچا ہو گا کاش میں برطانیہ کی سابق کالونی پاکستان کا وزیراعظم ہوتا تو میں ایک خط کے ذریعے قانون بھی بدل دیتا اور چند سیکنڈ میں ولیم جوزف بریٹن کو شہریت بھی عنایت کر دیتا لیکن برطانیہ پاکستان تھا اور نہ ہی ڈیوڈ کیمرون یوسف رضا گیلانی یا میاں نواز شریف چنانچہ وہ ولیم بریٹن کو لندن سٹی کا پولیس چیف نہ بنا سکا تاہم وہ امریکی شہری کو اپنا مشیر بنا سکتا تھا۔
ڈیوڈ کیمرون نے ولیم جوزف بریٹن کواگست 2011ء میں اپنا خصوصی مشیر بنا لیا‘ برطانیہ نے اس کے تجربے سے بھرپور فائدہ اٹھایا‘ ولیم بریٹن نے انھیں ایسی پالیسیاں بنا کر دیں جن کے نتیجے میں برطانیہ کا لاء اینڈ آرڈر مضبوط ہو گیا‘ آج اس واقعے کو چار سال گزر چکے ہیں‘ برطانیہ میں ان چار برسوں میں 2011ء جیسے فسادات دوبارہ نہیں ہوئے‘ آپ آگے بڑھنے سے قبل یہ بھی جان لیجیے‘ برطانیہ میں اس وقت 150 اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں‘ ان میں 12 یونیورسٹیاں سو عظیم یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل ہیں‘ ان تمام یونیورسٹیوں میں لاء اینڈ آرڈر کے ڈیپارٹمنٹس بھی ہیں اور ایکسپرٹس بھی۔ برطانیہ میں اس وقت بھی قانون اور پولیسنگ کے ہزاروں ماہرین موجود ہیں‘ برطانیہ ہر سال دنیا کے ہزاروں پولیس‘ ملٹری‘ پیراملٹری اور لاء آفیسرز کو ٹریننگ بھی دیتا ہے لیکن جب لندن پر برا وقت آیا تو حکومت نے نئے تجربات کے بجائے ایسے شخص کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا جس کے پروفائل میں کامیابی کی ایک کہانی موجود تھی‘ حکومت نے ولیم بریٹن کو مشاورت کی فیس دی اور بریٹن نے اپنے تجربات کی روشنی میں لندن کو چار ماہ میں محفوظ بنا دیا۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا ہم اس وقت ٹیکنو کریٹس کی دنیا میں رہ رہے ہیں‘ آج کی دنیا کے سمجھ دار لوگ اپنے مسئلے حل کرنے کے لیے نئے تجربات کے بجائے تجربہ کار لوگوں کی مہارت سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ آپ کے لیے شاید یہ بات انکشاف ہو گی‘ شریف فیملی کی کاروباری اور سیاسی دونوں کامیابیوں کے پیچھے ایک برطانوی اور ایک جرمن ٹیکنو کریٹ کا ہاتھ تھا‘ نواز شریف کے والد میاں محمد شریف سات بھائی تھے‘ یہ سات بھائی پاکستان بننے سے قبل ریلوے روڈ لاہور پر صرف ایک بھٹی کے مالک تھے‘ 1945ء میں ایک انگریز گاہک نے میاں شریف کو بتایا‘ کراچی میں ایک گورا انجینئر کاسٹ آئرن (دیگی لوہے) کا ماہر ہے‘ آپ لوگ اگر اسے ملازم رکھ لیں تو آپ لوہے کے کاروبار میں آسمان کو چھو لیں گے۔
میاں شریف کو آئیڈیا پسند آیا‘ وہ کراچی گئے‘ انگریز انجینئر کو منہ مانگا معاوضہ دیا‘ انگریز انجینئر لاہور آیا‘ اس نے کاسٹ آئرن کی بھٹی لگوائی اور اتفاق گروپ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کا دوسرا بڑا گروپ بن گیا‘ یہ ٹیکنو کریٹ شریف خاندان کا پہلا محسن تھا‘ شریف فیملی کا دوسرا محسن ایک جرمن سفارت کار تھا‘ وہ سیاسی امور کا ماہر تھا‘ لاہور میں جرمنی کا قونصل جنرل تھا‘ ذوالفقار علی بھٹو نے جب 1972ء میں اتفاق گروپ کو قومیا لیا تو شریف فیملی ایک ہی رات میں عرش سے فرش پر آگئی‘ میاں محمد شریف باہمت انسان تھے‘ انھوں نے حوصلہ نہ ہارا‘ محنت کی اور گروپ کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کر دیا۔
جرمن قونصل جنرل نے اس دور میں میاں شریف کو مشورہ دیا ’’آپ اگر مستقبل میں سیاسی حادثوں سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ کاروبار کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی توجہ دیں‘‘ یہ مشورہ بھی میاں شریف کے دل کو لگا‘ وہ اٹھے‘ اپنے بڑے بیٹے میاں نواز شریف کا ہاتھ پکڑا اور انھیں اصغر خان کی تحریک استقلال میں چھوڑ آئے‘ تحریک استقلال بھٹو صاحب کے دور کی پاکستان تحریک انصاف تھی‘ ہم کہہ سکتے ہیں میاں برادران کی کاروباری کامیابیاں ہوں یا سیاسی معرکہ آرائیاں ان دونوں کے پیچھے ٹیکنو کریٹس ہیں۔
اب سوال یہ ہے ٹیکنو کریٹس اگر اتنے اہم ہوتے ہیں کہ یہ 310 روپے کی ایک عام سی بھٹی کو 15 سال میں ملک کا بڑا صنعتی گروپ اور ایک عام سے کاروباری خاندان کو ایشیا کی کامیاب ترین ’’پولیٹیکل فیملی‘‘ بنا سکتے ہیں اور برطانوی وزیراعظم آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کے نوبل انعام یافتہ ماہرین کو چھوڑ کر ولیم جوزف بریٹن جیسے ٹیکنو کریٹ پولیس آفیسر کو مشیر بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو پھر ہم نندی پور پراجیکٹ‘ ایل این جی اور میٹرو جیسے اربوں روپے کے منصوبوں کے لیے ٹیکنو کریٹس کی خدمات حاصل کیوں نہیں کرتے؟
ہم باہر سے ماہرین اور تجربہ کار لوگوں کو بلا کر انھیں اپنا مشیر کیوں نہیں بناتے؟ دنیا میں نندی پور جیسے ہزاروں پراجیکٹ کے سیکڑوں تجربہ کار ماہرین موجود ہیں‘ آپ صرف افغانستان سے ملائیشیا تک دیکھ لیں‘ آپ کو انٹرنیٹ پر درجنوں ماہرین مل جائیں گے‘ دنیا میں ایل این جی کا سب سے بڑا خریدار جاپان ہے‘ یہ ہر سال 4194 بلین کیوبک فٹ گیس درآمد کرتا ہے‘ جنوبی کوریا 1755 بلین کیوبک فٹ‘ بھارت 724 بلین اور چین 706 بلین کیوبک فٹ گیس درآمد کرتا ہے‘ دنیا کے 19 ممالک ایل این جی برآمد کر رہے ہیں‘ آپ کو ایل این جی برآمد کرنے والے 19 اور درآمد کرنے والے دس ممالک میں ولیم جوزف بریٹن جیسے درجنوں ماہرین مل جائیں گے‘ دنیا میں سو سال سے میٹرو بھی بن رہی ہیں‘ ہمارے سامنے احمد آباد میں تین ملین ڈالر‘ ڈالیان میں ساڑھے چار ملین ڈالر اور استنبول میں میٹرو پر فی کلو میٹر 10 ملین ڈالر خرچ ہوئے جب کہ ہم نے لاہور میں فی کلو میٹر 11 ملین ڈالر اور اسلام آباد میں 20 ملین ڈالر خرچ کیے‘ ہم سستی اور معیاری میٹرو کے لیے غیر ملکی ماہرین کی مدد لے سکتے تھے۔
یہ لوگ چند لاکھ ڈالر لے لیتے اور یہ ہمیں نندی پور میں 58 ارب روپے جھونکنے سے بچا لیتے‘ یہ ہمیں سستی گیس خرید دیتے اور یہ ہمیں حسین داؤد کو روزانہ دو لاکھ 72 ہزار ڈالر کا تاوان دینے سے بھی بچا لیتے‘ آج کے دور میں جب برطانوی وزیراعظم لاء اینڈ آرڈر کے لیے نیویارک کے سابق پولیس چیف کی مدد لیتے ہوئے نہیں شرماتے تو ہم ماہرین سے کیوں شرماتے ہیں‘ جب اتفاق گروپ اور میاں برادران کی سیاست دونوں ٹیکنو کریٹس کے مشوروں کا نتیجہ ہے تو پھر میاں برادران نندی پور‘ ایل این جی‘ میٹرو بس‘ ڈیمز‘ احتساب اور کوئک ریسپانس فورس کے لیے غیر ملکی ماہرین کی مدد کیوں نہیں لیتے؟
یہ لوگ اگر صرف اپنے کاروباری منصوبوں کا جائزہ لے لیں اور یہ سوچ لیں کیا یہ ان منصوبوں کے لیے غیر ملکی کمپنیوں اور ماہرین کی مدد نہیں لیتے؟ کیا یہ اپنے کاروبار کے لیے ٹیکنو کریٹس بھرتی نہیں کرتے؟ اگر جواب ہاں ہو تو پھر یہ لوگ بتائیں‘ یہ نندی پور کے 58 ارب روپے کیپٹن محمد محمود اور میٹرو کے 50 ارب روپے کیپٹن زاہد سعید جیسے ناتجربہ کار لوگوں کے حوالے کیوں کر دیتے ہیں؟ کیا یہ تضاد نہیں‘ آپ نے ذاتی جیب سے عینک بھی خریدنی ہو تو آپ ماہرین کی مدد لیتے ہیں لیکن جب قوم کے سرمائے کا معاملہ آتا ہے تو آپ کھربوں روپے نااہلوں کے حوالے کر دیتے ہیں‘ اپنے معاملے میں اتنی سمجھ داری اور قوم کے معاملے میں اتنی سنگ دلی کیوں؟ آخر کیوں؟
قوم آپ کے جواب کی منتظر ہے۔
کانچ کے برتن
جاوید چوہدری منگل 15 ستمبر 2015

میں شیو کر رہا تھا، میرے باتھ روم کا دروازہ بجا کر بتایا گیا ’’ بچی کی طبیعت زیادہ خراب ہے‘‘ مجھے باہر سے افراتفری اور بھاگ دوڑ کی آوازیں بھی آ رہی تھیں، میں نے شیو درمیان میں چھوڑی، کپڑے تبدیل کیے اور باہر آگیا، بیٹی نیم بے ہوش تھی، میں نے بچی کو اٹھایا، باہر کی طرف دوڑا لیکن اچانک گھر کے سارے فون بجنے لگے، میں نے دوڑتے دوڑتے فون اٹھایا، یہ دوسری بری خبر تھی، میری دوسری بیٹی اسکول میں بے ہوش ہو گئی تھی۔
مجھے بتایا گیا، بیٹی کے پیٹ میں خوفناک درد ہوا، وہ گری اور تڑپنا شروع کر دیا، میں نے ڈرائیور کا پتہ کیا، وہ عموماً بچوں کو اسکول چھوڑ کر گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے، وہ اس وقت اسکول سے دور تھا، میں نے بیٹے کو اٹھایا، اسے اپنی گاڑی دی اور بچی کے اسکول کی طرف دوڑا دیا، اب صورتحال یہ تھی، میری گیارہ سال کی ایک بیٹی درد سے تڑپ تڑپ کر اسکول میں بے ہوش پڑی تھی اور دوسری چار سال کی بچی میرے کندھے پر نیم بے ہوش لیٹی تھی اور میں بے بسی سے ٹہل رہا تھا، میں گھر سے باہر آ گیا، میں جہاں رہتا ہوں وہاں ٹیکسیاں ملنا محال ہے۔
میں نے سوچا میں بچی کو پیدل اسپتال لے جاتا ہوں لیکن کون سے اسپتال؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، میرے ذہن میں میرے ایک دوست کا خیال آیا، میں نے اسے فون کیا، وہ بھی واش روم میں تھا، میں نے اسے ایمرجنسی بتائی، وہ سلیپنگ سوٹ میں ڈرائیو کرتا ہوا پہنچ گیا، ہم بچی کو لے کر اسپتال روانہ ہو گئے، میں نے مختلف اسپتالوں میں فون کرنا شروع کیے لیکن اس دن ڈاکٹرز ہڑتال پر تھے، پمز اور پولی کلینک دونوں میں ڈاکٹر موجود نہیں تھے، پرائیویٹ اسپتالوں میں رابطے شروع کیے۔
میرے گھر کے قرب و جوار میں موجود پرائیویٹ اسپتالوں میں اس وقت کوئی چائلڈ اسپیشلسٹ نہیں تھا، میں رابطے کرتا رہا یہاں تک کہ مجھے شفاء اسپتال سے مثبت جواب مل گیا، ہم شفاء انٹرنیشنل کی طرف چل پڑے، میں نے بیٹے سے رابطہ کیا، اسے ڈاکٹروں کی ہڑتال کے بارے میں بتایا اور بیٹی کو شفاء اسپتال لانے کا مشورہ دیا، ہم زیرو پوائنٹ سے فیض آباد کی طرف مڑے تو وہاں سڑک زیر تعمیر تھی اور سی ڈی اے نے آئی ایٹ کا وہ موڑ بند کر دیا تھا جو شفاء اسپتال جاتا ہے، ہم پھنس گئے، واپس جانے کا راستہ نہیں تھا اور یوٹرن بہت آگے تھا، ہم بہر حال آگے بڑھتے رہے۔
بچی اس دوران مسلسل قے کرتی رہی، ہم پانچ کلو میٹر کا چکر لگا کر واپس اسپتال کے روڈ پر آئے، رش بھی تھا اور اس رش اور افراتفری نے بے تحاشہ وقت ضایع کیا، ہم بمشکل اسپتال کے گیٹ پر پہنچے، گیٹ پر پہنچ کر معلوم ہوا گاڑی اندر لے جانے کے لیے پچاس روپے کی پارکنگ سلپ ضروری ہے اور ہم دونوں افراتفری میں پرس گھر ہی بھول آئے تھے، میں نے اپنے دوست اور گاڑی کو وہیں چھوڑا اور بچی کو اٹھا کر پیدل اندر آ گیا، ایمرجنسی میں بچی کا علاج شروع ہو گیا۔
بیٹا بھی تھوڑی دیر میں دوسری بیٹی کو لے کر اسپتال پہنچ گیا، وہ درد سے تڑپ رہی تھی، پتہ چلا، وہ پہلی کلاس لے رہی تھی تو اسے اپینڈکس کا شدید درد اٹھا، اس نے ٹیچر کو بتایا لیکن ٹیچر نے اسے مشورہ دیا، آپ تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ یہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا، درد شدید تھا، بچی نے سر ڈیسک پر رکھا، آنکھیں بند کیں اور بے ہوش ہو گئی، کلاسیں ہوتی رہیں، ٹیچرز آتی رہیں، جاتی رہیں لیکن بچی ڈیسک پر بے ہوش پڑی رہی، کسی نے اس کا نوٹس تک نہ لیا یہاں تک کہ بریک ہو گئی۔
یہ بریک کے دوران اپنی سیٹ سے نہ اٹھی تو اس کی دو کلاس فیلوز متوجہ ہوئیں، انھوں نے اسے ہلایا جلایا، اس نے آنکھیں کھولیں اور انھیں بتایا ’’ میں شدید بیمار ہوں‘‘ یہ بچیاں اسے اٹھا کر وائس پرنسپل کے آفس لے گئیں لیکن چپڑاسی نے انھیں اندر نہیں جانے دیا، یہ بتاتی رہیں یہ بچی بیمار ہے، ہم وائس پرنسپل سے سلپ لے کر اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہتی ہیں لیکن چپڑاسی نہ مانا، بچی کو چپڑاسی کی کرسی پر بٹھا دیا گیا، معاون بچیاں دائیں بائیں بھاگتی رہیں لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی، اسکول کی ایک آیا بچی کی حالت دیکھ رہی تھی، اس نے بچی کو اٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گئی، ڈاکٹر نے اس کے منہ میں ’’پین کلر‘‘ ٹھونسی اور کلاس کی طرف روانہ کر دیا، بچیاں اسے لے کر کلاس کی طرف روانہ ہوئیں لیکن یہ سیڑھیوں پر گر گئی۔
بچیاں گھر فون کرنے کے لیے دوڑیں، پتہ چلا فون پر کوڈ لگا ہے اور کلرک کوڈ کھولنے کے لیے تیار نہیں، یہ بھاگ کر گیٹ پر گئیں، کسی ڈرائیور سے فون لیا اور یوں ہم تک اطلاع پہنچی، میرا بیٹا بھاگ کر اسکول پہنچا اور بچی کو لے کر اسپتال آ گیا لیکن اس وقت تک اپینڈکس کو خراب ہوئے پانچ گھنٹے گزر چکے تھے۔
ڈاکٹر پریشان تھے، آپریشن کا فیصلہ ہوا، چائلڈ سرجن تلاش کیا گیا، بچی کا آپریشن ہوا، اللہ تعالیٰ نے کرم کیا، بچی کی جان بچ گئی تاہم میں تین دن اسپتال کا چکر لگاتا رہا، میں نے ان تین دنوں میں چند نئی باتیں سیکھیں، میں یہ باتیں بچوں، والدین، اسکولوں کی انتظامیہ، حکومت اور اسپتالوں کی مینجمنٹ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، میرا خیال ہے ہم اگر ذرا سی توجہ دیں تو ہم کم از کم اس نوعیت کے مسائل ضرور حل کرسکتے ہیں۔
ملک کے مختلف اسکولوں میں بچوں کو موبائل فون کے استعمال کی اجازت نہیں، یہ اجازت ہونی بھی نہیں چاہیے کیونکہ اس سے بے راہ روی بھی پھیلتی ہے اور بچوں کی پڑھائی کا ہرج بھی ہوتا ہے لیکن اگر والدین اور اسکول اس پالیسی میں ذرا سی نرمی کر لیں تو بچے ایمرجنسی میں گھر سے رابطہ کر سکیں گے، والدین اور اساتذہ اگر بچوں کو ایسے سستے موبائل فون اسکول لانے کی اجازت دے دیں جو صرف فون کرنے کے کام آئیں، جن میں کیمرہ اور دوسرے ماڈرن فیچرز نہ ہوں اور یہ فون بھی بند ہوں اور بیگ میں ہوں اور بچے یہ فون صرف ایمرجنسی میں استعمال کر سکیں اور فون کے کنکشن والدین کے نام ہوں۔
یہ پوسٹ پیڈ ہوں اور والدین بل دیکھ کر بچوں کے فون کو مانیٹر کر سکیں تو اس سے بچے ایمرجنسی میں والدین سے رابطہ کر سکیں گے، یہ اگر ممکن نہ ہو تو ملک کے تمام شہری اسکولوں میں فوری طور پر ایک ایک پی سی او یا پے فون لگا دیا جائے تا کہ بچے ایمرجنسی میں اپنے گھر رابطہ کر سکیں، حکومت فوری طور پر اسکولوں میں ایک میڈیکل روم کا اضافہ بھی کرائے اور اسکولوں کے لیے ایک ڈاکٹر اور ایک نرس بھی بھرتی کی جائے، اس اقدام سے ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھی نوکریاں ملیں گی اور بچے بھی محفوظ ہو جائیں گے۔
ملک کے تمام بڑے سرکاری اور غیر سرکاری اسکول بچوں کی ہیلتھ انشورنس کرائیں، یہ رقم فیس میں ایڈجسٹ کر لی جائے، اسکول بچوں کو قریب ترین اسپتالوں میں بھی رجسٹر کرائیں، بچوں کا ماہانہ میڈیکل چیک اپ بھی لازم قرار دے دیا جائے، بچوں کی باقاعدہ میڈیکل فائل بنے اور یہ فائل میٹرک کی سند کی طرح پوری زندگی بچوں کے ساتھ رہے، اسکول چھ ماہ بعد ڈاکٹروں کی ٹیم بلائیں، یہ ٹیم اساتذہ کو مختلف بیماریوں اور ان کی علامات کے بارے میں بریفنگ دے تا کہ اساتذہ کو جب کسی بچے میں یہ علامتیں نظر آئیں تو یہ فوراً بچے کے والدین کو بھی اطلاع کریں اور ڈاکٹر کو بھی مطلع کریں۔
اسکول ایک ایک ایمبولینس بھی خریدیں، یہ ایمبولینس ہر وقت اسکول میں رہے اور ورکنگ پوزیشن میں ہو تا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں بچے کو بروقت اسپتال منتقل کیا جا سکے، آپ بے شک والدین سے بعد ازاں ایمبولینس چارجز وصول کر لیں لیکن بچے کو فوری ریلیف ملنا چاہیے، اسکول اگر یہ افورڈ نہیں کر سکتے تو یہ کم از کم کسی ایمبولینس سروس سے ایمرجنسی کا معاہدہ تو کر سکتے ہیں، یہ معاہدہ کریں اور ایمبولینس سروس کا فون نمبر تمام کلاس رومز میں لکھ کر لگا دیں یا بچوں کو لکھوا دیں، بچے ایمرجنسی میں خود ہی ایمبولینس کو کال کر لیں، ایمبولینس کے اخراجات بعد ازاں والدین سے وصول کر لیے جائیں۔
بچوں اور اساتذہ کے لیے فرسٹ ایڈ کی ٹریننگ بھی لازم قرار دے دی جائے، آپ پہلی کلاس کے بچوں کو ابتدائی طبی امداد سکھائیں اور یہ سلسلہ میٹرک تک جاری رکھیں، یہ سلسلہ بچوں کو ذمے دار بھی بنائے گا اور طبی لحاظ سے خود کفیل بھی۔ اسکولوں میں موجودہ صورتحال میں معمولی ایمرجنسی کے بعد بچے اور اساتذہ دونوں ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں، اسکولوں میں پرنسپل، وائس پرنسپل اور پرووائس پرنسپل کے دفاتر کے باہر ایمرجنسی بیل لگا دی جائے۔
بچے کو اگر کوئی ایمرجنسی ہو تو یہ ایمرجنسی گھنٹی بجا کر اسکول انتظامیہ کو اپنی طرف متوجہ کر لے کیونکہ آج کل اسکولوں میں بھی میٹنگز عام ہیں اور بچے ایمرجنسی کے عالم میں بھی ان میٹنگز کے خاتمے کا انتظار کرتے رہتے ہیں، حکومت کو ملک بھر کے پرائیویٹ اسکولوں کے لیے بھی کوئی نہ کوئی ضابطہ اخلاق بنانا چاہیے، حکومت کیمپس کا سائز بھی طے کرے، اسکول کے لیے لازم سہولتوں کی فہرست بھی بنائے اور فیس کا سٹرکچر بھی طے کرے۔
ملک بھر میں اس وقت والدین فیسوں میں اضافے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، آپ یہ آوازیں سن کر کوئی پالیسی کیوں نہیں بناتے؟ میری حکومت سے درخواست ہے ،آپ جب کوئی سڑک بنانے لگیں تو یہ معلوم کر لیں راستے میں کوئی اسپتال یا تعلیمی ادارہ تو نہیں آ رہا، اگر آ رہا ہو تو آپ سڑک بند کرنے سے قبل تعلیمی ادارے اور اسپتال کو متبادل راستہ دیں یا پھر آپ اسپتال اور اسکول کی طرف مڑنے والا حصہ آخر میں بنا لیں، اس سے لوگوں کی تکلیف کم ہو جائے گی۔
میری پرائیویٹ اسپتالوں کی انتظامیہ سے بھی درخواست ہے، آپ ایمرجنسی گیٹ پر پارکنگ فیس چارج نہ کریں کیونکہ بے شمار لوگ ایمرجنسی میں پرس کے بغیر اسپتالوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، یہ لوگ جب ایمرجنسی میں گیٹ پر پہنچتے ہیں تو ان سے پارکنگ فیس طلب کرنا اور انھیں جیبیں ٹٹولنے پر مجبور کرنا زیادتی ہے اور یوں مریض کی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے، ہم نے بدقسمتی سے ملک میں ہیلتھ انشورنس کا کلچر بھی ڈویلپ نہیں کیا، ملک میں ڈاکٹروں، لیبارٹریوں، اسپتالوں اور ادویات کی صورتحال شہریوں کے سامنے ہے، آپ پرائیویٹ اسپتالوں میں چلے جائیں تو آپ کو وہاں بھی وقت اور بستر نہیں ملتا، ملک میں جب یہ حالات ہوں تو حکومت کو ہیلتھ انشورنس لازم قرار دے دینی چاہیے، بالخصوص بچوں کی انشورنس ضروری ہونی چاہیے، والدین سالانہ یا ماہانہ چند ہزار روپے دے کر بچوں کے علاج معالجے کے دکھ سے آزاد ہو سکتے ہیں، حکومت، اسکول اور والدین کو اس پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
بچے والدین کی سب سے بڑی کمزوری ہوتے ہیں، والدین کو انھیں کانچ کے برتنوں کی طرح سنبھالنا چاہیے کیونکہ یہ اگر ایک بار ہاتھ سے پھسل جائیں تو پھر یہ کانچ کی طرح چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں اور یہ اگر ایک بار ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائیں تو پھر دنیا کا کوئی سائنس دان کانچ کے ان ٹکڑوں کو دوبارہ نہیں جوڑ سکتا، آپ کانچ کو کانچ کی طرح سنبھالیں، اسے ٹھوکروں سے بچائیں۔
نسخہ (دوسری بار)
جاوید چوہدری اتوار 13 ستمبر 2015

بابا جی نے تانبے کو سونا بنانے کا فن سیکھ لیا تھا اور ہم یہ فن جاننے کے لیے روز ان کے پاس بیٹھ جاتے تھے،کامران کی بارہ دری کی دیواریں آہستہ آہستہ بھربھرا رہی تھیں،پرندے دیواروں کا چونا چگنے کے لیے صبح سویرے بارہ دری پہنچ جاتے تھے اوررات تک اس اجڑے دیار کی گری چھتوں اور رکوع میں جھکی دیواروں پر پھرتے رہتے تھے۔
بابا رات کے وقت راوی کے اس سنسان ٹاپو پر آ تا تھا،وہ مشرق کے رخ بیٹھ کر آلتی پالتی مارتا تھا اور سورج کی پہلی کرن تک وہاں دم سادھ کر بیٹھا رہتا تھا،فجر کے وقت جوں ہی پرندوں کی چونچیں کھلتی تھیں،وہ ایک لمبا سانس لیتا تھا،ایک ٹانگ پر کھڑا ہوتا تھا،باز کی طرح دونوں بازو کھولتا تھا،دوسری ٹانگ سیدھی کر کے آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف پھیلاتا تھا اور اڑتے ہوئے پرندے کے آسن میں کھڑا ہو جاتا تھا،وہ سورج چڑھنے تک اس آسن میں رہتے تھے اور اس کے بعد سیدھے ہوتے تھے اور چائے کا ایک بڑا مگ پیتے تھے،ہم ان کے سیدھے ہونے سے قبل ان کے لیے چائے بنا دیتے تھے۔
وہ چائے بھی نام کی چائے ہوتی تھی،بابا جی دو گھونٹ پانی میں دو گھونٹ دودھ اور چائے کے چار چمچ پسند کرتے تھے،وہ میٹھے سے نفرت کرتے تھے چنانچہ ہم ان کی چائے میں چینی نہیں ڈالتے تھے،وہ اس کے بعد اپنی پتیلی اٹھاتے،پانی میں اترتے اور شڑاپ شڑاپ کرتے ہوئے جنگل میں غائب ہو جاتے،ہم روز سوچتے بابا جی کیسے جانتے ہیں پانی کس کس جگہ کم ہے اور وہ چل کر دریا پار کر سکتے ہیں،ہم روز سوچتے تھے اور ہمیں اس کا جواب نہیں ملتا تھا،ہم کشتی کھولتے اور چپو چلا کر کنارے پر پہنچ جاتے،ہم بابا جی کے تین شاگرد تھے۔
شاگرد بھی ہم نے خود ہی طے کر لیا تھا،بابا جی نے ہمیں کبھی شاگرد نہیں مانا تھا بلکہ مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا تھا وہ شاید ہمارے وجود ہی سے لاتعلق ہیں،وہ ہم سے دس دس دن بات نہیں کرتے تھے اور اگر کبھی بولنا ضروری ہوتا تھا تو ان کی بات چند لفظوں تک محدود ہوتی تھی،وہ سارا دن راوی کے جنگلوں میں غائب رہتے اور شام کے وقت اپنی گڈری اور میلی کچیلی پتیلی کے ساتھ کامران کی بارہ دری پہنچ جاتے ،ہم تینوں ان کے پہنچنے سے پہلے بارہ دری میں ہوتے تھے۔
بابا جی آتے،ہم پر ایک نگاہ ڈالتے،مشرق کے رخ بیٹھتے اور دم سادھ لیتے،مجھے بابا جی کا پتہ دھرم پورہ کے بابا جی نے دیا تھا،یہ ان کے شاگرد رہے تھے،میں انھیں ڈھونڈتا ڈھونڈتا کامران کی بارہ دری پہنچا اور میں نے انھیں پا لیا مگر وہ میرے وجود ہی سے لاتعلق تھے،بالکل ان دونوں شاگردوں کی طرح جو مجھ سے پہلے ان کے مرید ہوئے اور جنھیں بابا جی کی سیوا کرتے دو سال بیت چکے تھے۔
میں کہانی کو مختصر کرتا ہوں،بابا جی مدراس کے رہنے والے تھے،بچپن میں جوگیوں کے ہتھے چڑھے اور پھر پوری زندگی جوگ میں گزار دی،پچیس تیس سال قبل لاہور آئے اور راوی کے کناروں کو مسکن بنا لیا،وہ سارا دن جنگل میں غائب رہتے اور شام کے وقت کامران کی بارہ دری آ جاتے اور صبح دس بجے تک وہاں رہتے،دھرم پورے والے بابا جی کا کہنا تھا،یہ بابا جی تانبے کو سونا بنانا جانتے ہیں،انھوں نے خود ایک بار تانبے کی ڈلی سونا بنا کر انھیں گفٹ کر دی،میں ان دنوں کیمیا گری کے بارے میں کتابیں پڑھ رہا تھا۔
سائنس کہتی تھی کوئی دھات اپنا جون تبدیل نہیں کرتی مگر کیمیا گری کہتی تھی ہم جس طرح ہوا کو مائع اور مائع کو ٹھوس بنا سکتے ہیں بالکل اسی طرح لوہے کو تانبا اور تانبے کو سونے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور میں ان دنوں اس بات کو سچ سمجھتا تھا اور سچائی کی یہ تلاش مجھے اس باباجی تک لے گئی،بابا دنیا جہاں کی نعمتوں اور ضرورتوں سے مبریٰ تھا،وہ کپڑے روڑی سے نکال کر پہن لیتا تھا،جوتے وہ پہنتا نہیں تھا،وہ کھاتا کیا تھا،ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے،ہم بس اسے کڑوی چائے کا ایک کپ پیتے دیکھتے تھے اور وہ اس کے بعد اپنی پتیلی لے کر جنگل میں غائب ہو جاتا تھا۔
میں کہانی کو مزید مختصر کرتا ہوں،یہ سردی کی سرد رات تھی،میں اس رات بابے کے پاس اکیلا تھا،کامران کی بارہ دری میں بارش ہو رہی تھی،بابا جی بارش میں آسن لگا کر بیٹھے تھے اور میں چھتری تان کر ان کے سر پر کھڑا تھا،بابا جی نے اچانک ایک لمبی ہچکی لی،ان کا سانس اکھڑا اور انھوں نے غصے سے میری طرف دیکھا،میں نے زندگی میں کبھی اتنی خوفناک اور گرم آنکھیں نہیں دیکھیں،میرے پورے جسم میں حرارت دوڑ گئی اور میں سردیوں کی بارش میں پسینے میں شرابور ہو گیا۔
بابا تھوڑی دیر تک میری طرف دیکھتا رہا،اس نے پھر میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر سے چھتری ہٹائی،گیلی زمین سے اٹھا اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا،میں بھی آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا،چھتری بند کی اور ٹیک لگا کر دیوار کے ساتھ بیٹھ گیا،بابے نے لمبا سانس لیا اور بولا ’’ کاکا تم چاہتے کیا ہو‘‘میں نے عرض کیا ’’ کیاآپ کو واقعی سونا بنانا آتا ہے‘‘بابے نے خالی خالی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور ہاں میں سر ہلا کر بولا ’’ ہاں میں نے جوانی میں سیکھا تھا‘‘میں نے عرض کیا ’’کیا آپ مجھے یہ نسخہ سکھا سکتے ہیں‘‘بابے نے غور سے میری طرف دیکھا اور پوچھا ’’ تم سیکھ کر کیا کرو گے‘‘میں نے عرض کیا ’’ میں دولت مند ہو جاؤں گا‘‘بابے نے قہقہہ لگایا،وہ ہنستا رہا،دیر تک ہنستا رہا یہاں تک کہ اس کا دم ٹوٹ گیا اور اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑ گیا۔
وہ کھانستے کھانستے دہرا ہوا اور تقریباً بے حالی کے عالم میں دیر تک اپنے ہی پاؤں پر گرا رہا،وہ پھر کھانستے کھانستے سیدھا ہوا اور پوچھا ’’ تم دولت مند ہو کر کیا کرو گے‘‘میں نے جواب دیا ’’ میں دنیا بھر کی نعمتیں خریدوں گا‘‘اس نے پوچھا ’’نعمتیں خرید کر کیا کرو گے‘‘میں نے جواب دیا ’’میں خوش ہوں گا،مجھے سکون ملے گا‘‘اس نے تڑپ کر میری طرف دیکھا اور کہا ’’گویا تمہیں سونا اور دولت نہیںسکون اور خوشی چاہیے‘‘میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا،اس نے مجھے جھنجوڑا اور پوچھا ’’ کیا تم دراصل سکون اور خوشی کی تلاش میں ہو؟‘‘میں اس وقت نوجوان تھا اور میں دنیا کے ہر نوجوان کی طرح دولت کو خوشی اور سکون سے زیادہ اہمیت دیتا تھا مگر بابے نے مجھے کنفیوز کر دیا تھا اور میں نے اسی کنفیوژن میں ہاں میں سر ہلا دیا۔
بابے نے ایک اور لمبا قہقہہ لگایا اور اس قہقہے کا اختتام بھی کھانسی پر ہوا،وہ دم سنبھالتے ہوئے بولا ’’ کاکا میں تمہیں سونے کی بجائے انسان کو بندہ بنانے کا طریقہ کیوں نہ سکھا دوں‘میں تمہیں دولت مند کی بجائے پرسکون اور خوش رہنے کا گر کیوں نہ سکھا دوں‘‘میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا،وہ بولا ’’ انسان کی خواہشیں جب تک اس کے وجود اور اس کی عمر سے لمبی رہتی ہیں،یہ اس وقت تک انسان رہتا ہے،تم اپنی خواہشوں کو اپنی عمر اور اپنے وجودسے چھوٹا کر لو،تم خوشی بھی پاؤ جاؤ گے اور سکون بھی اور جب خوشی اور سکون پا جاؤ گے تو تم انسان سے بندے بن جاؤ گے‘‘مجھے بابے کی بات سمجھ نہ آئی۔
بابے نے میرے چہرے پر لکھی تشکیک پڑھ لی،وہ بولا ’’ تم قرآن مجید میں پڑھو،اللہ تعالیٰ خواہشوں میں لتھڑے لوگوں کو انسان کہتا ہے اور اپنی محبت میں رنگے خواہشوں سے آزاد لوگوں کو بندہ‘‘بابے نے اس کے بعد کامران کی بارہ دری کی طرف اشارہ کیا اور بولا ’’ اس کو بنانے والا بھی انسان تھا،وہ اپنی عمر سے لمبی اور مضبوط عمارت بنانے کے خبط میں مبتلا تھا،وہ پوری زندگی دولت بھی جمع کرتا رہا مگر اس دولت اور عمارت نے اسے سکون اور خوشی نہ دی۔
خوش میں ہوں،اس دولت مند کی گری پڑی بارہ دری میں برستی بارش میں بے امان بیٹھ کر‘‘میں نے بے صبری سے کہا ’’اور میں بھی‘‘اس نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’نہیں تم نہیں! تم جب تک تانبے کو سونا بنانے کا خبط پالتے رہو گے تم اس وقت تک خوشی سے دور بھٹکتے رہو گے،تم اس وقت تک سکون سے دور رہو گے‘‘بابے نے اس کے بعد زمین سے چھوٹی سی ٹہنی توڑی اور فرش پر رگڑ کر بولا ’’ لو میں تمہیں انسان کو بندہ بنانے کا نسخہ بتاتا ہوں،اپنی خواہشوں کو کبھی اپنے قدموں سے آگے نہ نکلنے دو،جو مل گیا اس پر شکر کرو،جو چھن گیا اس پر افسوس نہ کرو،جو مانگ لے اس کو دے دو،جو بھول جائے اسے بھول جاؤ،دنیا میں بے سامان آئے تھے،بے سامان واپس جاؤ گے۔
سامان جمع نہ کرو،ہجوم سے پرہیز کرو،تنہائی کو ساتھی بناؤ،مفتی ہو تب بھی فتویٰ جاری نہ کرو،جسے خدا ڈھیل دے رہا ہو اس کا کبھی احتساب نہ کرو،بلا ضرورت سچ فساد ہوتا ہے،کوئی پوچھے تو سچ بولو،نہ پوچھے تو چپ رہو،لوگ لذت ہوتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں کا انجام برا ہوتا ہے،زندگی میں جب خوشی اور سکون کم ہو جائے تو سیر پر نکل جاؤ،تمہیں راستے میں سکون بھی ملے گا اور خوشی بھی،دینے میں خوشی ہے،وصول کرنے میں غم،دولت کو روکو گے تو خود بھی رک جاؤ گے،چوروں میں رہو گے تو چور ہو جاؤ گے،سادھوؤں میں بیٹھو گے تو اندر کا سادھو جاگ جائے گا۔
اللہ راضی رہے گا تو جگ راضی رہے گا،وہ ناراض ہو گا تو نعمتوں سے خوشبو اڑ جائے گی،تم جب عزیزوں،رشتے داروں،اولاد اور دوستوں سے چڑنے لگو تو جان لو اللہ تم سے ناراض ہے اور تم جب اپنے دل میں دشمنوں کے لیے رحم محسوس کرنے لگو تو سمجھ لو تمہارا خالق تم سے راضی ہے اور ہجرت کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا‘‘بابے نے ایک لمبی سانس لی،اس نے میری چھتری کھولی،میرے سر پر رکھی اور فرمایا’’ جاؤ تم پر رحمتوں کی یہ چھتری آخری سانس تک رہے گی،بس ایک چیز کا دھیان رکھنا کسی کو خود نہ چھوڑنا،دوسرے کو فیصلے کا موقع دینا،یہ اللہ کی سنت ہے۔
اللہ کبھی اپنی مخلوق کو تنہا نہیں چھوڑتا،مخلوق اللہ کو چھوڑتی ہے اور دھیان رکھنا جو جا رہا ہو اسے جانے دینا مگرجو واپس آ رہا ہو،اس پر کبھی اپنا دروازہ بند نہ کرنا،یہ بھی اللہ کی عادت ہے،اللہ واپس آنے والوں کے لیے ہمیشہ اپنا دروازہ کھلا رکھتا ہے،تم یہ کرتے رہنا،تمہارے دروازے پر میلا لگا رہے گا‘،میں واپس آ گیا اور پھر کبھی کامران کی بارہ دری نہ گیا کیونکہ مجھے انسان سے بندہ بننے کا نسخہ مل گیا تھا۔
نوٹ: میرا یہ کالم 22 ستمبر 2013ء کو روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوا تھا یہ آج کل سوشل میڈیا پر’’کیمیا گر‘‘کے عنوان سے آڈیو،ویڈیو اور تحریری شکل میں ’’نامعلوم مصنف کی نامعلوم تحریر‘‘کی صورت میں وائرل ہے،میں اپنے دوستوں اور قارئین کے اصرار پر اپنا حق ملکیت واپس لینے کے لیے یہ کالم دوبارہ شایع کرنے پر مجبور ہو گیا ہوں،قارئین تصحیح فرما لیں۔
مکہ اور مدینہ نزدیک تھا
جاوید چوہدری جمعـء 11 ستمبر 2015

ملک شام اور شہر دمشق مسلمانوں کے پانچ مقدس ترین شہروں اور ملکوں میں شمار ہوتا ہے، شام انبیاء، صحابہ، اولیاء اور مؤرخین کا ملک ہے، آپ دمشق کی جس گلی میں نکل جائیں، آپ کو وہاں کسی نہ کسی نبی، صحابی، ولی یا مسلم اسکالر کا مزار ملے گا، دمشق اور حلب دونوں شہر مذہبی سیاحت کے عظیم مراکز ہیں، دمشق کی جامع امیہ میں ایک چبوترا ہے، اس کے بارے میں مشہور ہے، حضرت عیسیٰ ؑ کا ظہور اسی چبوترے پر ہو گا۔
اسی مسجد کے ساتھ حضرت یحییٰ علیہ السلام اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے مزارات بھی ہیں، یہ ابن خلدون کا ملک بھی تھا، یہ حضرت ہابیل اور حضرت ذوالکفل علیہ السلام کا ملک بھی تھا اور حضرت بلال ؓ،حضرت خالد بن ولید ؓ ،عمار بن یاسر ؓ ،حضرت حجر بن عدیؓ ، حضرت ابودرداءؓ ، حضرت امیرمعاویہ ؓ ، حضرت بی بی زینب ؓ ،حضرت اویس قرنیؓ ،حضرت ام کلثوم بن علیؓ ،حضرت سکینہ بنت امام حسینؓ ،حضرت رقیہ بنت امام حسینؓ ،حضرت فضا کنیز حضرت فاطمہؓ ،حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ،امام ابن تیمیہؒ اورامام نوائیؒ بھی اسی ملک میں مدفون ہیں، شام کو تین اور اعزازات بھی حاصل ہیں، یہ ملک دنیا کی قدیم ترین آرگنائزڈ سولائزیشنز میں شمار ہوتا ہے۔
دنیا کا 80 فیصد حصہ جب پتھر اور غار کے دور سے گزر رہا تھا شام میں اس وقت باقاعدہ حکومت بھی تھی اور میونسپل کمیٹیوں کا نظام بھی۔ فرعون شام سے مصر گئے تھے اور انھوں نے وہاں ایسا نظام حکومت تشکیل دیا تھا جو آج کے جدید اذہان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے، دمشق اور حلب دنیا کے قدیم ترین شہروں میں بھی شمار ہوتے ہیں، شام کا دوسرا اعزاز اس کا انسانی حسن ہے، شام میں پچھلے چھ ہزار سال سے دنیا کی خوبصورت ترین نسلیں آباد ہیں، مصر کے فرعون، روم کے قیصر، ایران کے شہنشاہ، عرب کے خلیفہ اور ترکی کے عثمانی اپنی بیگمات، اپنی خادماؤں، اپنی کنیزوں اور اپنی آیائیوں کا انتخاب شام سے کرتے تھے، آپ دنیا بھر کے میڈیا پر شامی مہاجرین دیکھ رہے ہیں۔
آپ کو یقینا ان لوگوں کا حسن و جمال مبہوت کر دیتا ہو گا، یہ شام کے غریب اور عام لوگ ہیں، آپ ان عام لوگوں کو سامنے رکھ کر شام کے خاص لوگوں کا تصور کیجیے، آپ کی آنکھیں دیکھنا بھول جائیں گی اور یہ وہ راز ہے جس کی وجہ سے آج تک جس بادشاہ، جس جرنیل اور جس سیاح نے شام میں قدم رکھا وہ وہاں سے واپس نہ جا سکا اور اگر گیا تو اس کا دل دمشق کی کسی گلی کے کسی موڑ پر ہی سسکتا رہ گیا اور تیسرا اعزاز، یہ وہ ملک ہے جس نے عالم اسلام کو وہ لازوال ادارے دیے تھے جن پر ہم آج بھی فخر کرتے ہیں، حضرت عمر فاروقؓ کا پولیس کا محکمہ ہو، ریگولر آرمی کا تصور ہو، ویلفیئر اسٹیٹ کا فارمولہ ہو یا پھر ڈاک کا نظام ہو، یہ تصورات دمشق سے مدینہ پہنچے تھے۔
آپ نے گلیڈی ایٹر اور بین ہر جیسی فلموں میں ایسی گھوڑا گاڑیاں دیکھی ہوں گی جن کی دونوں سائیڈز پر درجنوں تلواریں اور درانتیاں لگی تھیں، یہ گاڑیاں راستے میں آنے والے تمام گھوڑوں اور فوجیوں کا قیمہ بنا دیتی تھیں، یہ گاڑیاں شام کی ایجاد تھیں اور شام وہ واحد ملک تھا جس کی فتح کے لیے نبی اکرم ؐ نے اپنی حیات میں لشکر تیار کیا تھا، یہ لشکر روانہ بھی ہوا لیکن رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد راستے سے واپس آ گیا، حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے خلیفہ کا حلف اٹھایا تو آپ کی پہلی سرکاری مہم اس لشکر کی دوبارہ روانگی تھی، آپؓ نے لشکر کے سالار 17 سالہ غلام زادے اسامہ بن زیدؓ کو گھوڑے پر بٹھایا، اپنا ہاتھ غلام زادے کی رکاب پر رکھا اور مستقبل کے خلفاء راشدین کے ساتھ پیدل چل کر اس لشکر کو مدینہ سے رخصت کیا اور دمشق کو 41 ہجری سے 132 ہجری تک اسلامی دارالسلطنت کی حیثیت بھی حاصل رہی لہٰذا آپ جس زاویے سے بھی دیکھیں آپ شام کو مقدس پائیں گے۔
آپ اب شام کے اردگرد موجود ممالک کو بھی دیکھیے، شام 9 مقدس ترین مسلمان ملکوں کے ہمسائے میں واقع ہے، شام کی سرحدیں ترکی، عراق، اردن، لبنان، مصر، سعودی عرب، یمن، ایران اور عمان سے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ملتی ہیں، ان نو ممالک میں شامی قبائل بھی موجود ہیں اور شامیوں کے ہم ملک اور ہم عقیدہ لوگ بھی۔ ان نو ملکوں میں ہزاروں سال سے رابطے بھی استوار ہیں، نبی اکرم ؐ نے اپنی تجارتی زندگی کا آغاز شام کے تجارتی قافلوں سے کیا تھا، مسلمانوں کے مقدس شہر دمشق اور حلب مسلمانوں کے دوسرے مقدس ترین شہروں مدینہ، مکہ، نجف، قم، استنبول، قونیہ، قاہرہ، جارڈن سٹی، صنعاء، تبوک اور بیروت سے زیادہ دور نہیں ہیں، ان شہروں کے درمیان کوئی سمندر اور بلند و بالا پہاڑ بھی موجود نہیں ہیں۔
آپ اگر دمشق اور حلب سے پیدل نکلیں تو آپ چند دن بعد کسی نہ کسی مقدس شہر میں داخل ہو جائیں گے، ان نو مقدس ممالک میں شام کے ہم مذہب اور ہم مسلک لوگ آباد ہیں، دمشق سے لے کر ازمیر، قم، صنعاء اور قاہرہ تک پانچ وقت اذان ہوتی ہے، پانچ وقت جماعت کھڑی ہوتی ہے، صدقہ اور خیرات بھی دی جاتی ہے، نقاب، حجاب اور اسکارف لیا جاتا ہے، قرآن مجید پڑھا جاتا ہے، حلال گوشت کھایا جاتا ہے اور ایک اللہ اور ایک رسولؐ کو مانا جاتا ہے لیکن جب 2011ء میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے اور شامی خاندان ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں تو یہ لوگ برادر اسلامی ممالک کے بجائے، یہ لوگ مقدس ترین مکہ، مدینہ، قم، نجف، جارڈن اور بیروت کے بجائے اس یورپ کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جہاں حلال گوشت نہیں ملتا، جہاں مسجدیں نہیں ہیں، جہاں چرچ کی گھنٹیاں بجتی ہیں، جہاں اسکارف، نقاب اور حجاب کی اجازت نہیں، جہاں تبلیغ جرم ہے۔
جہاں داڑھی، نماز اور تلاوت کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، جہاں اسکولوں میں سیکولر تعلیم دی جاتی ہے، جہاں بچیاں مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی ہوں آپ انھیں بوائے فرینڈ رکھنے سے نہیں روک سکتے اور جہاں رہنے کے لیے آپ کو انگریزی، فرنچ، جرمن، یونانی اور آسٹرین زبان سیکھنا پڑتی ہے اور جہاں آپ کو ان عیسائی، یہودیوں اور لادین لوگوں کے ساتھ رہنا پڑے گا جو پچھلے 14 سو سال سے عالم اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
آپ یہاں یہ بھی ذہن میں رکھئے گا، شام اور یورپ کے درمیان کوئی زمینی راستہ موجود نہیں، شامیوں کو یورپ پہنچنے کے لیے سیکڑوں میل لمبے سمندر پار کرنا پڑ رہے ہیں، یہ لوگ شام سے ترکی پہنچتے ہیں، استنبول یا ازمیر سے کشتیوں میں بیٹھ کر یونان پہنچتے ہیں یا ہزاروں میل کا سفر طے کر کے مصر سے تیونس اور لیبیا پہنچتے ہیں اور وہاں سے سمندر کا خوفناک سفر طے کر کے اٹلی پہنچتے ہیں یا پھر تیونس سے الجزائر اور مراکش جاتے ہیں اور وہاں سے سمندر میں اتر کر اسپین پہنچتے ہیں، یہ سفر انتہائی خطرناک ہے اور خاندان کے خاندان سمندر میں ڈوب کر مر رہے ہیں۔
یہ درست ہے مہاجرین ترکی، لبنان، اردن، عراق اور مصر میں بھی پناہ گزین ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے ان پانچوں ممالک سے روزانہ سیکڑوں ہزاروں لوگ بھاگ کر یورپ پہنچ رہے ہیں، یورپ پچھلے ماہ سے شامی مہاجرین کا خوفناک ہدف ہے، یونان کے ساحلوں پر ہزاروں کشتیاں اتر چکی ہیں، یہ لوگ یونان اتر کر سنٹرل یورپ کی طرف چل پڑتے ہیں، یونان، بلغاریہ اور رومانیہ مہاجرین کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں، ٹرین سروس، یورپ کو ملانے والی بس سروس اور بڑی شاہراہیں بند کر دی گئی ہیں لیکن شامی مہاجرین ریلوے ٹریک اور سڑکوں پر پیدل چل پڑتے ہیں، یہ پیدل ہنگری پہنچتے ہیں، یہ وہاں سے آسٹریا، جرمنی، فرانس اور برطانیہ پہنچتے ہیں، جرمنی ایک لاکھ سے زائد مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے۔
اس فرانس میں بھی اس وقت 24 ہزار شامی مہاجرین پہنچ چکے ہیں جہاں چند ماہ قبل مسلمانوں نے تعلیمی اداروں میں اسکارف کی اجازت نہ دینے پر شدید احتجاج کیا تھا، برطانیہ بھی شامی مہاجرین کو پناہ دینے پر مجبور ہو چکا ہے جب کہ اسپین اور اٹلی میں موجود پناہ گزین بھی کیمپوں کے دروازے توڑ کر جرمنی اور فرانس کی طرف دوڑ رہے ہیں، یہ لوگ یورپ پہنچنے کے لیے اس قدر بے تاب ہیں کہ یہ ایلان جیسے بچوں تک کی قربانی دے رہے ہیں، کیوں؟ آخر کیوں؟۔
عالم اسلام کو کبھی نہ کبھی مذہبی، سماجی اور نسلی عصبیت کو سائیڈ پر رکھ کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس کیوں کا جواب تلاش کرنا پڑے گا، ہمیں حقائق کو بہرحال ماننا ہو گا اور وہ حقائق یہ ہیں، ملک میں اگر جبر، بدامنی، بے انصافی اور غربت ہو تو لوگ انبیاء، صحابہ، اولیاء اور اسکالرز کے دمشق سے بھی نقل مکانی کر جاتے ہیں، یہ اس مسجد کو بھی چھوڑ جاتے ہیں جہاں حضرت عیسیٰ ؑ اتریں گے یا جہاں دن میں سیکڑوں بار اللہ کی رحمت برستی ہے۔
حقائق یہ ہیں، انسان جب گھر چھوڑتا ہے تو یہ امن اور آزادی کے لیے مقدس ترین شہروں کے قریب سے گزر کر ان ملکوں، ان شہروں کی طرف دوڑ پڑتا ہے جہاں ان کے ایمان، ان کی نسلوں کے ایمان اور ان کی تہذیب کے ایمان تک کی گارنٹی نہیں ہوتی اور حقائق تو یہ ہیں امن، انصاف، عزت، جمہوریت، انسانی حقوق اور ترقی کے برابر مواقعے انسان کو اگر یہ سہولتیں ان ملکوں میں بھی نظر آئیں جن کو یہ صدیوں تک اپنے ایمان، اپنی تہذیب کا دشمن سمجھتا رہا ہو تو یہ سیکڑوں میل پیدل چل کر، کشتیوں میں بیٹھ کر، تیر کر اور اپنے ایلان کی قربانی دے کر بھی دشمن ملکوں میں پہنچ جاتا ہے اور حقائق تو یہ ہیں انسان پرامن زندگی کے لیے اذانوں، مسجدوں، تلاوتوں، حلال گوشت اور حجاب والے ملک چھوڑ کر چرچوں، گھنٹیوں، فحاشی، نیوڈ بیچز، کلبوں، شراب خانوں اور بوائے اینڈ گرلز فرینڈز کے معاشروں میں چلا جاتا ہے اور حقائق تو یہ ہیں انسان کو جب چوائس مل جائے تو یہ مقدس شہروں کے بجائے میونخ، بڈاپسٹ، پیرس اور لندن کا رخ کرتا ہے اور آپ کو اگر اب بھی یقین نہ آئے تو آپ انٹرنیٹ سے جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کا یہ بیان نکال کر فریم کرا لیں اور یہ فریم اپنی میز پر رکھ لیں۔
اینجلا مرکل نے حیرت سے کہا ’’ میں حیران ہوں، جرمنی آنے والے شامی مسلمانوں کو مکہ اور مدینہ نزدیک پڑتا تھا‘‘ آپ اینجلا مرکل کا یہ فقرہ اپنی میز پر رکھ لیں، مجھے یقین ہے، آپ زندگی میں جب بھی کنفیوژ ہوں گے، یہ ایک فقرہ آپ کو دو سکینڈ میں کنفیوژن سے نکال لے گا، آپ کو حقائق جاننے میں دیر نہیں لگے گی۔
سچے اور کھرے لوگ
جاوید چوہدری منگل 8 ستمبر 2015

وہ لوگ بنگال میں بہاری کہلاتے تھے، کیوں کہلاتے تھے؟ اس کی وجہ پٹنہ تھا، وہ لوگ پٹنہ سے کلکتہ آئے تھے، صوبہ اور زبان تبدیل ہو گئی لیکن لہجہ نہ بدل سکا چنانچہ بنگالی بولنے کے باوجود بنگالی انھیں بہاری کہتے تھے، وہ اس بہاری بنگالی خاندان میں 6 جولائی 1935ء کو پیدا ہوئے، وہ خاندان کے سب سے بڑے بچے تھے۔
والد کثیر الاولاد تھے چنانچہ ان کے 11 بہن بھائی تھے،پاکستان بنا تو یہ لوگ کلکتہ سے ڈھاکا شفٹ ہو گئے، ملک اپنا تھا لیکن یہ اپنے ملک میں بنگالی بن گئے، ڈھاکا کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخل ہوئے، 1952ء میں پاکستان ائیرفورس جوائن کی، 1953ء میں کمیشن مل گیا، والد فوج کی نوکری کے خلاف تھے، کیوں خلاف تھے؟ وجہ خاندان کا پس منظر تھا، خاندان میں کسی شخص نے کبھی فوجی ملازمت نہیں کی تھی، والد کی خواہش تھی یہ پڑھیں لکھیں، سی ایس ایس کریں اور اعلیٰ سرکاری عہدہ حاصل کریں۔
وہ فوجی سروس میں جان لینے اور جان دینے کے خلاف تھے لیکن یہ ڈٹ گئے اور یوں ان کا ائیر فورس کا کیریئر شروع ہو گیا، شادی کی عمر ہوئی تو شادی سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا، میرے کندھوں پر گیارہ لوگوں کی ذمے داری ہے، میں جب تک یہ ذمے داری پوری نہ کر لوں میں شادی نہیں کروں گا، 1965ء کی پاک بھارت جنگ شروع ہوئی، بھارت نے 6 ستمبر کو لاہور پر حملہ کر دیا، پاک فضائیہ کو 7 ستمبر کو بھارت پر حملے کا حکم ہوا، وہ اس وقت اسکواڈرن لیڈر تھے اور پی اے ایف سرگودھا میں تعینات تھے، وہ بھی حملے کے لیے روانہ ہوئے، وہ بھارتی سرحد پر پہنچے تو ان کی مڈ بھیڑ بھارت کے پانچ ہنٹر طیاروں سے ہو گئی۔
بھارتی طیارے ان کے ایف 86 سیبر پر پل پڑے، اس حملے نے انھیں جرأت، بہادری، دانش مندی اور مہارت کا آسمان چھونے کا موقع دے دیا، انھوں نے دس سیکنڈ میں بھارت کا پہلا طیارہ گرایا اور پھر صرف تیس سیکنڈ میں بھارت کے باقی چار طیارے بھی مار گرائے، یہ پورا آپریشن صرف 45 سیکنڈ پر محیط تھا، اسکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم نے 45 سیکنڈ میں بھارت کے پانچ طیارے گرائے اور اطمینان سے سرگودھا ائیر بیس پر اتر گئے۔
یہ ورلڈ ریکارڈ تھا،یہ آج بھی ورلڈ ریکارڈ ہے، بنگال کا بیٹا پاکستان کا ہیرو بن چکا تھا، بنگال کا وہ بیٹا آج بھی پاکستان اور پاکستانیوں کا ہیرو ہے لیکن پھر اس ہیرو کے ساتھ کیا ہوا، یہ کہانی ہمارے اجتماعی ضمیر اور ہماری قومی نفسیات کا مکمل اور جامع ڈاکومنٹ ہے، یہ کہانی کیا تھی؟ آپ اس کہانی کی طرف جانے سے قبل اس ہیرو کا وہ نام بھی جان لیں جس سے اسے دنیا یاد کرتی ہے، جی ہاں! وہ ہمارے ایم ایم عالم ہی ہیں، ہمارے اصلی ہیرو۔
ایم ایم عالم نڈر تھے، بے باک تھے، جرأت مند اور کھرے تھے لہٰذا ان کی اڑان روکنا بھی مشکل تھا اور زبان بھی ۔ وہ بڑی سے بڑی بات منہ پر دے مارتے تھے، یہ جرأت مندی آہستہ آہستہ اس قومی ہیرو کو نگل گئی، وہ مشرقی پاکستان کے حالات سے دل برداشتہ تھے،وہ ببانگ دہل کہتے تھے، بنگالیوں کے ساتھ بہتر سلوک نہیں ہو رہا لیکن ان کے خیالات کو لسانیت قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا تھا، وہ 1969ء میں اسٹاف کالج میں تھے لیکن ان کے ’’باغیانہ‘‘ خیالات کی وجہ سے انھیں اسٹاف کالج سے فارغ کر دیا گیا، 1971ء میں پاکستان ٹوٹا تو ایم ایم عالم کا خاندان ڈھاکا میں تھا، ان کے ساتھیوں کا خیال تھا ، ایم ایم عالم ائیر فورس چھوڑ کر بنگلہ دیش چلے جائیں گے لیکن وہ ایک سچے پاکستانی تھے۔
انھوں نے نہ صرف پاکستان چھوڑنے سے انکار کر دیا بلکہ وہ اپنے خاندان کو بھی بنگلہ دیش سے پاکستان لے آئے یوں خاندان نے سو سال میں تین ہجرتوں کے دکھ سہے، پہلی ہجرت پٹنہ سے کلکتہ تھی، دوسری ہجرت کلکتہ سے ڈھاکا تھی اور تیسری ہجرت دوسری ہجرت سے محض 26 برس بعد ایک پاکستان سے دوسرے پاکستان کی طرف تھی،مشرقی پاکستان کے سانحے نے ایم ایم عالم کے ذہن پر دو اثرات مرتب کیے، پہلا اثر ان کی زبان پر ہوا، ان کی زبان کی کڑواہٹ میں اضافہ ہو گیا، وہ پاکستان کے نام پر لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔
دوسرا اثر ان کے ذہن پر ہوا، وہ مذہبی ہو گئے اور وہ اپنا زیادہ وقت دینی کتابوں اور عبادت کو دینے لگے، جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں مارشل لاء لگایا، ایم ایم عالم مارشل لاء کے خلاف تھے، وہ بار بار کہتے تھے، ہماری ان غلطیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا، ہم نے اگر یہ غلطیاں جاری رکھیں تو ہم باقی ماندہ پاکستان بھی کھو دیں گے، وہ جنرل ضیاء الحق کے خلاف تھے، وہ انھیں ایسے ایسے القابات سے نوازتے تھے جو تحریر میں نہیں لائے جا سکتے، خفیہ ادارے ان کی گفتگو ریکارڈ کرتے تھے، 1982ء میں انور شمیم ائیر فورس کے چیف تھے، یہ صدر جنرل ضیاء الحق کے دوست بھی تھے۔
یہ دونوں اردن میں اکٹھے رہے تھے، ائیر مارشل انور شمیم شاندار انسان تھے لیکن وہ اپنی بیگم کے زیر اثر تھے، بیگم صاحبہ پر کرپشن کے الزامات لگ رہے تھے، ایم ایم عالم ائیر فورس کے میس میں ان الزامات کا ببانگ دہل ذکر کرتے تھے، وہ بار بار کہتے تھے، جنرل ضیاء الحق اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ملک کو تباہ کر رہے ہیں، خفیہ ادارے نے یہ گفتگو ٹیپ کر کے چیف آف ائیر اسٹاف کو پہنچا دی، انور شمیم یہ ٹیپ لے کر جنرل ضیاء الحق کے پاس چلے گئے۔
جنرل ضیاء الحق نے ٹیپ سنی اور ایم ایم عالم کو ائیر فورس سے فارغ کرنے کا حکم دے دیا اور یوں پاکستان کے ہیرو اور ائیر فورس کے ہسٹری کے ورلڈ ریکارڈ ہولڈر ایم ایم عالم کو 1982ء میں قبل از وقت ریٹائر کر دیاگیا، وہ اس وقت ائیر کموڈور تھے،ایم ایم عالم کی پنشن سمیت تمام مراعات روک لی گئیں، وہ درویش صفت انسان تھے، دنیا میں ان کا کوئی گھر نہیں تھا، شادی انھوں نے کی نہیں تھی لہٰذا وہ ریٹائرمنٹ کے بعد چک لالہ ائیر بیس کے میس میں مقیم ہو گئے، وہ ایک کمرے تک محدود تھے، کتابیں تھیں، عبادت تھی اور ان کی تلخ باتیں تھیں۔
حکومت کوشش کر کے نوجوان افسروں کو ان سے دور رکھتی تھی لیکن اس کوشش کے باوجود بھی اگر کوئی جوان افسر ان تک پہنچ جاتا تھا تو اس کے کوائف جمع کر لیے جاتے تھے اور بعد ازاں اس پر خصوصی نظر رکھی جاتی تھی چنانچہ نوجوان افسر بھی ان سے پرہیز کرنے لگے، جنرل ضیاء الحق کے بعد ائیر فورس نے انھیں پنشن اور دیگر مراعات دینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے صاف انکار کر دیا، وہ خوددار انسان تھے، وہ دس دس دن فاقہ کاٹ لیتے تھے لیکن کسی سے شکایت نہیں کرتے تھے، مدت بعد ایک ایسا شخص ائیر چیف بن گیا جس نے ان کی کمان میں کام کیا تھا۔
اس نے ان کے تمام دوستوں کو درمیان میں ڈالا، دو درجن لوگوں نے ان کی منت کی اور یوں وہ ریٹائرمنٹ کی طویل مدت بعد صرف پنشن لینے پر رضا مند ہوئے، جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ایم ایم عالم صاحب نے ان پر بھی تنقید شروع کر دی، وہ فوج کے سیاسی کردار اور کرپشن کو ملک کی تباہی کا اصل ذمے دار قرار دیتے تھے، وہ کہتے تھے، جنرل مشرف اور ان کے ساتھی کرپٹ بھی ہیں اور یہ ہوس اقتدار کے شکار بھی ہیں، یہ لوگ ملک کو تباہ کر دیں گے، خفیہ ادارے پھر ایکٹو ہوئے، ایک بار پھر ان کی گفتگو ٹیپ ہوئی، یہ ٹیپ صدر جنرل پرویز مشرف کو پیش کر دی گئی۔
صدر نے ائیر چیف کو طلب کیا، ٹیپ سنائی اور ان سے کہا، چک لالہ حساس علاقہ ہے، یہ شخص ہماری ناک کے نیچے بیٹھ کر ہمارے خلاف گفتگو کر رہا ہے، اس سے بغاوت پھیلنے کا خدشہ ہے، آپ اسے راولپنڈی سے کہیں دور بھجوا دیں، صدر کا حکم تھا چنانچہ ایم ایم عالم صاحب کا سامان باندھا گیا اور انھیں راولپنڈی سے کراچی پہنچا دیا گیا، ان کا اگلا ٹھکانہ فیصل بیس تھا، یہ انتقال تک فیصل بیس میں رہے۔
دسمبر 2012ء میں ان کی طبیعت خراب ہوئی، انھیں نیوی کے اسپتال شفاء میں منتقل کیا گیا، یہ وہاں 18 مارچ 2013ء تک داخل رہے، 18 مارچ کو جب انھوں نے آخری سانس لی تو ان کی شجاعت اور بہادی کے نغمے گانے والوں میں سے کوئی شخص ان کے سرہانے موجود نہیں تھا، وہ پاکستانی تھے، وہ پوری زندگی پاکستان کے لیے لڑتے رہے اور یہ لڑائی لڑتے لڑتے خاموشی سے دنیا سے رخصت ہو گئے۔
آپ ایم ایم عالم کے کردار کی عظمت ملاحظہ کیجیے،اس مجاہد نے پوری زندگی پاکستان کے لیے وقف کر دی، ملک کے لیے دو ہجرتوں کا دکھ سہا، وہ 1971ء میں بنگلہ دیش چلے جاتے تو وہ یقینا بنگلہ ائیر فورس کے چیف ہوتے لیکن انھوں نے پاکستان چھوڑنا گوارہ نہ کیا، وہ پوری زندگی ان لوگوں کے دیے دکھ سہتے رہے جنھوں نے پاکستان کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا، کیا یہ حقیقت نہیں، جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے پاکستان کو افغان وار میں جھونک دیا تھااور اس کے نتیجے میں ملک نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا اور کیا یہ بھی حقیقت نہیں جنرل پرویز مشرف نے امریکا اور یورپ سے اپنی یونیفارم تسلیم کرانے کے لیے ملک کو دہشت گردی کی اس جنگ میں دھکیلاجس کے نتیجے میں 60 ہزار پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔
ملک 80ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے اور پاکستان کا شمار دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں ہو رہا ہے،کیا یہ حقیقت نہیں، ہم نے جنرل مشرف کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے فوجیوں کی اتنی لاشیں اٹھائیں جتنی ہم نے جنگوں میں نہیں اٹھائیں اور کیا یہ بھی حقیقت نہیں جرنیلوں کی ہوس اقتدار اور کرپٹ سیاستدانوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا؟ اگر یہ ساری باتیں درست ہیں تو پھر ایم ایم عالم نے پوری زندگی کیا غلط کہا جس کی ہم انھیں سزا دیتے رہے؟ ہمیں آج 8 ستمبر کے دن یہ ماننا ہوگا، ہم ایک ایسی قوم ہیں جو اپنے ہیروز کے منہ سے بھی اصل سچ سننے کے لیے تیار نہیں، ہمارے ملک میں دو سچ ہیں۔
اصل سچ اور سرکاری سچ اورملک میں ہمیشہ اصل سچ ہارتا اور سرکاری سچ جیتتا ہے اور ہم ایک ایسی قوم ہیں جو قائداعظم کی تصویر نوٹ پر چھاپ دیتی ہے لیکن ان کی کسی بات پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی، ہم علامہ اقبال کو قومی شاعر ڈکلیئر کر دیتے ہیں لیکن ان کی کتابیں شایع کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور ہم ایم ایم عالم کو اپنا ہیرو مانتے ہیں لیکن انھیں پوری زندگی بولنے کی آزادی نہیں دیتے اور ہمیں اس سرزمین پر صرف اور صرف سرکاری سچ چاہیے اور اگر ایم ایم عالم جیسے ہیروز بھی غیر سرکاری سچ بولنے کی گستاخی کر بیٹھیں تو ہم انھیں بھی ریٹائر کرتے، ان کی پنشن روکتے اور انھیں بھی راولپنڈی سے کراچی پھینکتے دیرنہیں لگاتے، ہم کس قدر سچے اور کھرے لوگ ہیں۔
وہ جو دولت کے ہاتھوں خرچ ہو گیا
جاوید چوہدری اتوار 6 ستمبر 2015

ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کا تعلق زبیری خاندان سے تھا،زبیری نبی اکرم ؐ کے فرسٹ کزن حضرت زبیر بن عوامؓ کی نسل سے ہیں،حضرت زبیر بن عوامؓ نبی اکرم ؐ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ بنت عبدالمطلب کے صاحبزادے تھے،آپؓ نے مصر کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا،ہجرت کے 36 ویں برس 656ء میں شہادت پائی اور بصرہ میں کویت اور عراق کے بارڈر پر مدفون ہوئے،یہ قصبہ آج بھی الزبیر کہلاتا ہے۔
آپ کے 12 بیٹے اور 9 بیٹیاں تھیں،تین بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر،حضرت مصعب بن زبیر اور حضرت عروہ بن زبیر کوفہ کے گورنر رہے جب کہ حضرت عروہ بن زبیر کو دنیا کے پہلے مسلم مؤرخ کا اعزاز حاصل ہوا،محمد بن قاسم نے جون 712ء میں سندھ فتح کیا،سندھ کی فتح کے 50 سال بعد زبیری خاندان نے مکہ اور مدینہ سے ہجرت کی،یہ لوگ سندھ پہنچ گئے،سندھ میں انھوں نے دادو میں سکونت اختیار کی،یہ لوگ 400 ہجری تک سندھ میں رہے بعد ازاں نامعلوم وجوہات کی بنا پر سندھ سے ملتان چلے گئے۔
ملتان کے زیادہ تر مشائخ زبیری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں،14 ویں صدی عیسوی میں خاندان کا ایک حصہ ملتان سے دہلی شفٹ ہو گیا،حضرت شیخ سماع الدین زبیری نے اس ہجرت کی قیادت کی تھی،یہ لوگ بعد ازاں دہلی سے لاہور،پانی پت،لکھنو اور اتر پردیش کے علاقے سمبھل میں پھیل گئے،اکبر کے زمانے میں زبیری خاندان کے چند گھرانے میڑھ میں آباد ہو گئے،سر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد میڑھ کے زبیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے،ڈاکٹر صاحب کی جوانی اور بڑھاپے کا زیادہ تر حصہ علی گڑھ میں بسر ہوا،ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا،بیٹے کا نام نواب میاں تھا جب کہ بیٹیاں نواب بیگم،ارشاد فاطمہ اور اعجاز فاطمہ تھیں۔
زبیری خاندان نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور یہ لوگ لاہور،کراچی اور راولپنڈی میں آباد ہو گئے،زبیری اس وقت کراچی،لاہور،راولپنڈی،سعودی عرب،یو اے ای،برطانیہ،امریکا اور کینیڈا میں آباد ہیں،ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کراچی تشریف لے آئے،ان کے صاحبزادے نواب میاں بھارت میں رہ گئے اور یہ وہیں انتقال فرما گئے،ڈاکٹر صاحب کا انتقال دسمبر 1947ء میں لندن میں ہوا۔
ان کی بڑی صاحبزادی نواب بیگم کی شادی ڈاکٹر قیوم پاشا کے ساتھ ہوئی،ڈاکٹر قیوم پاشا وہ شخصیت تھے جنھیں انگریز سرکار نے پیر صاحب پگاڑا (سید شاہ مردان شاہ) اور ان کے چھوٹے بھائی نادر شاہ کا اتالیق مقرر کیا تھا،دوسری صاحبزادی ارشاد فاطمہ کی شادی ایڈمرل یو اے سعید کے ساتھ ہوئی،ایڈمرل سعید جنرل یحییٰ خان کے قریبی دوست تھے،یہ پاکستان میں نیشنل شپنگ کارپوریشن کے بانی بھی تھے،تیسری صاحبزادی ڈاکٹر اعجاز فاطمہ کی شادی ڈاکٹر تجمل حسین کے ساتھ ہوئی،ڈاکٹر تجمل پنجابی تھے۔
یہ ڈاکٹر اعجاز فاطمہ کے کلاس فیلو تھے،یہ دونوں انتہائی نفیس،پڑھے لکھے اور درد دل رکھنے والے لوگ تھے،ان کے چار بچے تھے،دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی ڈاکٹر ہیں،بیٹی کراچی کی مشہور گائنا کالوجسٹ ہیں،دوسری بیٹی ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال کی ایڈمنسٹریٹر ہیں جب کہ ایک بیٹے کا نام ڈاکٹر عاصم حسین ہے اور یہ اس وقت کرپشن کے سنگین الزامات بھگت رہے ہیں۔
ہم اب شجرئہ نسب کو یہاں روک کر کہانی کے تین کرداروں ڈاکٹر ضیاء الدین،ڈاکٹر اعجاز فاطمہ اور ڈاکٹر عاصم حسین کو ڈسکس کرتے ہیں،سر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کمال شخصیت کے مالک تھے،میں آپ کو ڈاکٹر صاحب کا تعلیمی بیک گراؤنڈ گزشتہ کالم ’’آپ نے کیا پایا‘کیا کمایا‘،میں گوش گزار کر چکا ہوں،میں آج ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے تین پہلو سامنے رکھتا ہوں،پاکستان جب ناگزیر ہو گیا تو ڈاکٹر صاحب نے محسوس کیا ہمارے نئے ملک کو بیورو کریٹس کی ضرورت ہو گی جب کہ مسلمانوں میں ڈگری ہولڈر بہت کم ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے اس کا دلچسپ حل نکالا،انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں سپلی مینٹری امتحانات شروع کرا دیئے،پاکستان بننے سے قبل علی گڑھ یونیورسٹی نے تین سپلی مینٹری امتحانات لیے اور ان امتحانات سے ہزاروں مسلمان گریجویٹ نکلے،یہ گریجویٹ بعد ازاں پاکستان کی سول بیورو کریسی کا حصہ بنے،ڈاکٹر صاحب اگر یہ اینی شیٹو نہ لیتے تو نوزائیدہ پاکستان کو کلرک تک نہ ملتے اور یوں یہ ملک جنم لیتے ہی بیورو کریٹک کرائسس کا شکار ہو جاتا،ڈاکٹر صاحب کو اپنی نیند پر بے انتہا کنٹرول تھا،یہ بیٹھے بیٹھے کہتے تھے۔
میں اب ذرا آٹھ منٹ کے لیے سستانے لگا ہوں اور وہ یہ فقرہ کہتے کہتے گہری نیند میں چلے جاتے اور ٹھیک آٹھ منٹ بعد بیدار ہو جاتے،وہ ذہنی طور پر ہمہ وقت مگن رہتے تھے،ان کے بارے میں ایک واقعہ مشہور تھا،وہ ایک دن سونے کے لیے کمرے میں گئے،اپنی چھڑی کو بستر پر لٹا دیا اور خود دروازے کے ساتھ کھڑے ہو کر سو گئے،نیند پوری کر کے بیدار ہوئے تو خود کو دروازے کے ساتھ اور چھڑی کو بستر پر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ڈاکٹر اعجاز فاطمہ بھی اپنے والد کی طرح درد دل رکھنے والی خاتون ہیں۔
میاں بیوی نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ناظم آباد میں اسپتال بنا لیا،یہ اس مریضہ سے فیس نہیں لیتی تھیں جس کا بچہ ڈیلیوری کے دوران فوت ہو جاتا تھا یا جس خاتون کا ’’مس کیرج‘‘ہو جاتا تھا،یہ کہتی تھیں،میرا ضمیر گوارہ نہیں کرتا،میں اس بے چاری سے پیسے لوں جو اپنے بچے کی لاش لے کر جا رہی ہے،یہ دونوں میاں بیوی خدا ترسی میں پورے کراچی میں مشہور تھے،ڈاکٹر عاصم ایسے ماں باپ اور ایسے نانا کی اولاد ہیں۔ یہ خود بھی بے انتہا ذہین اور محنتی تھے،یہ پٹارو کیڈٹ کالج میں جناح گروپ کے کیپٹن تھے۔
یہ بڑے اعزاز کی بات تھی،آصف علی زرداری کو کالج سے نکالنے کا فیصلہ ہوا،ڈاکٹر عاصم نے انھیں بچا لیا لیکن چند دنوں بعد ایک بار پھر زرداری صاحب کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی کا کیس بنا،ڈاکٹر عاصم اس بار انھیں نہ بچا سکے اور زرداری صاحب پٹارو سے فارغ کر دیئے گئے،یوں ڈاکٹر عاصم اور زرداری صاحب کی راہیں جدا ہو گئیں،اس زمانے میں کیڈٹ کالج کے طالب علموں کے لیے لازم تھا،یہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد فوجی سروس جوائن کریں،ڈاکٹر عاصم کو بھی اس پابندی کا سامنا کرنا پڑا،یہ نیوی میں بھرتی ہوئے لیکن جلد ہی بھاگ گئے،انھوں نے بعد ازاں ایم بی بی ایس کیا اور پریکٹس شروع کر دی۔
یہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں سول اسپتال کراچی میں ملازم تھے،غلام اسحاق خان نے اگست 1990ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کر دی،آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم ہوئے اور یہ اکتوبر 1990ء میں گرفتار ہو گئے،یہ گرفتاری کے دوران بیمار ہوئے،سول اسپتال کراچی لے جائے گئے،ڈاکٹر عاصم اس وقت سول اسپتال میں ملازم تھے،دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا،ڈاکٹر عاصم کے کمرے میں اے سی تھا،باقی کمرے اور وارڈز اے سی کے بغیر تھیں،ڈاکٹر عاصم نے آصف علی زرداری کو اپنا اے سی والا آفس دے دیا اور خود گرم کمرے میں شفٹ ہو گئے،یہ مہربانی دوستی کے نئے بندھن کا آغاز ثابت ہوئی اور ڈاکٹر عاصم آہستہ آہستہ آصف علی زرداری کے قریبی دوستوں میں شمار ہونے لگے۔
آصف علی زرداری 2008ء میں پارٹی کے کو چیئرمین بنے،پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور ڈاکٹر عاصم پارٹی کے تمام وزراء اور بیورو کریٹس کے باس بن گئے،آپ ان کے کروفر اور ہٹو بچو کی داستانیں پیپلز پارٹی کے کسی بھی سابق وزیر اور سینئر بیورو کریٹس سے سن سکتے ہیں،میں خود ان کے کروفر کے ایک واقعے کا عینی شاہد ہوں،ہم نے 2012ء میں اسلام آباد میں ایک کانفرنس کرائی،وزیر خزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ اس کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے،میں وزیر خزانہ کے بالکل ساتھ بیٹھا تھا،تقریریں چل رہی تھیں،اچانک وزیر خزانہ کا پی ایس آیا اور ان کے کان میں سرگوشی کی ’’ڈاکٹر عاصم آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں‘‘وزیر خزانہ نے پی ایس سے کہا ’’ آپ انھیں بتا دیں۔
میں کانفرنس میں بیٹھا ہوں،میں فارغ ہو کر کال کرتا ہوں‘‘پی ایس چلا گیا لیکن تھوڑی دیر بعد دوبارہ آ گیا اور سرگوشی کی ’’سر وہ فوراً بات کرنا چاہتے ہیں‘‘وزیر خزانہ نے پی ایس کو گھور کر دیکھا،وہ پیچھے ہٹ گیا،کانفرنس چلتی رہی،تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور ڈاکٹر عاصم اپنے تین چار حواریوں کے ساتھ بنفس نفیس ہال میں داخل ہو گئے،وزیر خزانہ کو اشارہ کیا،وہ کرسی صدارت سے اٹھے اور دونوں کونے میں چلے گئے،ہم آواز تو نہیں سن سکتے تھے لیکن وہاں جو کچھ ہو رہا تھا وہ حرکتوں سے صاف نظر آ رہا تھا،ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ سر جھکا کر کھڑے تھے اور ڈاکٹر عاصم ہاتھ ہلا ہلا کر ان کی طبیعت صاف کر رہے تھے۔
ہم اگر حضرت زبیر بن عوام ؓ سے سر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد تک اور ڈاکٹر اعجاز فاطمہ سے ڈاکٹر عاصم کی زندگی کے پہلے حصے تک اور پھر ڈاکٹر عاصم سے لے کر مشیر ڈاکٹر عاصم تک کا سفر دیکھیں تو تاسف اور افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا،اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر عاصم کو حسب نسب بھی دیا تھا،نام بھی،اعلیٰ تعلیم بھی اور ذہانت بھی لیکن اے سی کمرے کی ایک قربانی نے ان سے یہ سب کچھ چھین لیا،وہ تمام عزت جو خاندان نے حضرت زبیر بن عوامؓ سے لے کر سر ڈاکٹر ضیاء الدین تک کمائی تھی وہ چند بینک اکاؤنٹس،چند ایکڑ زمین اور سائرن بجاتی چند گاڑیوں کے نیچے کچلی گئی۔
میں نے زندگی میں اکثر لوگوں کی صدیوں کی عزت کاغذ کے چند ٹکڑوں کے ہاتھوں پرزے پرزے ہوتے دیکھی اور ڈاکٹر عاصم اس کی بدترین مثال ہیں،دولت بری چیز نہیں،یہ انسان کے سکون اور آرام کی محافظ ہے لیکن غیر ضروری دولت انسان کو اپنا چوکیدار بنا لیتی ہے اور انسان جب دولت کا چوکیدار بن جائے تو یہ دولت کو خرچ نہیں کرتا دولت اسے خرچ کرتی ہے اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کا نواسا اور ڈاکٹر اعجاز فاطمہ کا بیٹا دولت کے ہاتھوں خرچ ہو گیا۔

آپ بھی باپ ہیں
جاوید چوہدری جمعـء 4 ستمبر 2015

فلم شروع ہوئی، دس منٹ بعد تین بزرگ اٹھے اور ہال سے باہر چلے گئے، اگلے دس منٹ میں تین چار اور فیملیز اٹھیں اور وہ بھی باہر چلی گئیں، وقفہ ہوا تو خواتین بھی فلم ادھوری چھوڑ کر گھروں کو روانہ ہو گئیں، ہال میں پیچھے نوجوان مرد حضرات اور میرے جیسے چند کنفیوژڈ لوگ بچ گئے اور تالیاں رہ گئیں، قہقہے رہ گئے اور فحش فقروں اور فحش حرکتوں پر ’’جی اوئے‘‘ کے فقرے رہ گئے، فلم ختم ہوئی تو میں اور میرا دوست گہرے تاسف اور بھاری دل کے ساتھ سینما سے باہر آ گئے۔
یہ پاکستانی فلم ’’کراچی سے لاہور‘‘ تھی، میں نے فلم کی بہت تعریف سنی تھی اور میں اس تعریف سے متاثر ہو کر اپنے دوست کے ساتھ سینما پہنچ گیا، فلم اچھی تھی، اداکاری، کیمرہ ورک، لوکیشنز اور اسٹوری تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ شاندار تھیں اور ساؤنڈ کی کوالٹی بھی اچھی تھی، فلم میں بس ایک خامی تھی اور اس خامی نے اتنی اچھی فلم کا سارا تاثر برباد کر دیا، یہ خامی اس کے فحش مکالمے، ذومعنی فقرے اور چند قابل اعتراض حرکتیں تھیں، فلم کے فحش فقروں کی وجہ سے وہ تمام لوگ جو فیملیز کے ساتھ سینما آئے تھے، وہ شرمندہ بیٹھے تھے، یہ شرمندگی تھوڑی دیر چلی اور اس کے بعد فیملیز، بزرگ اور سمجھ دار لوگوں نے ’’واک آؤٹ‘‘ کرنا شروع کر دیا۔
میرے دوست فلموں کے شیدائی ہیں، یہ بچپن سے فلمیں دیکھ رہے ہیں، یہ پاکستانی فلموں کے گولڈن ٹائم میں قمیض اتار کر دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر سینما کا ٹکٹ حاصل کرتے تھے، انھوں نے اپنی آنکھوں سے خاندان بھر کو سینما میں بیٹھتے اور فلموں کو انجوائے کرتے دیکھا، پھر انھوں نے وہ دور بھی دیکھا جب معزز لوگ سینما کے قریب سے گزرتے ہوئے شرمندہ ہو جاتے تھے، انھوں نے اردو فلموں کو پنجابی میں تبدیل ہوتے اور پھر گنڈاسے کو فلم پر قابض ہوتے بھی دیکھا، یہ اس دور کے بھی گواہ ہیں جب اسٹوڈیوز میں الو بولے اور اداکار، صداکار، کیمرہ مین، لائٹ مین اور ایکسٹرا خون تھوک تھوک کر مرے، جب سینما گھروں کی جگہ شاپنگ سینٹر بنے اور اداکاروں اور اداکاراؤں نے کوٹھیاں بیچ بیچ کر اپنا بڑھاپا کاٹا، میرے یہ دوست تھیٹروں کے زوال کے بھی گواہ ہیں، یہ اکثر لاہور کے ایک تھیٹر کا واقعہ سناتے ہیں، تھیٹر میں ایک بار ایک غیر ملکی خاتون آ گئی۔
لاہوریوں نے خاتون کو تھیٹر شروع ہونے سے پہلے ہی گھور گھور کر بھگا دیا، میرے یہ دوست میری طرح پاکستانی فلم کی واپسی پر خوش تھے، ہم دونوں اکثر چھٹی کے دن فلم دیکھنے چلے جاتے ہیں، ہم جب اس دن باہر نکلے تو میرے دوست نے پیشن گوئی کی ’’ہماری فلم ایک بار پھر فوت ہو جائے گی‘‘ میں نے وجہ پوچھی تو ان کا جواب تھا ’’ہماری پہلی فلم انڈسٹری کو مولا جٹ کھا گیا اور موجودہ فلم انڈسٹری ذومعنی فقروں اور فحش مکالموں کے ہاتھوں قتل ہو جائے گی‘‘ میں نے اپنے دوست سے اتفاق کیا کیونکہ کراچی سے لاہور اچھی بھلی فلم تھی لیکن چند فقروں نے ہال میں موجود فیملیز کو اٹھنے پر مجبور کر دیا، یہ فقرے اگر نہ ہوتے تو بھی فلم ٹھیک ٹھاک تھی لیکن فلم ساز نے زیادہ ناظرین کے لالچ میں فلم میں وہ مسالہ ڈال دیا ۔
جس سے فلمیں تو کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن فلم انڈسٹری تباہ ہو جاتی ہے، پاکستان اور ہندوستان دونوں ’’خاندانی ملک‘‘ ہیں، ہمارے خطے میں آج بھی خاندان مضبوط ہیں، ہم لوگ خواہ کتنے ہی ماڈرن کیوں نہ ہو جائیں، ہم ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی موجودگی میں فحش فقرہ برداشت نہیں کر سکتے، ہماری زندگی میں بیٹے کی موجودگی میں بھی ذومعنی فقرے اور ننگی حرکتوں کی گنجائش نہیں ہوتی چنانچہ بھارت اور پاکستان میں وہ فلمیں اور ڈرامے ناکام ہو جاتے ہیں جن میں ذرا سی بھی فحاشی اور ذومعنی فقرے ہوتے ہیں، بھارتی سینما دنیا کا سب سے بڑا سینما ہے۔
بھارت میں ہر سال آٹھ سو سے لے کر ہزار تک فلمیں بنتی ہیں، بھارتی فلم انڈسٹری ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری سمجھی جاتی ہے، وہاں کھرب پتی بزنس فیملیز سے لے کر انڈر ورلڈ کے ڈان تک فلم میں سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن آپ اتنی بڑی انڈسٹری کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں، آپ انڈیا میں ہر اس فلم کو ناکام دیکھیں گے جس میں فحاشی کا عنصر موجود تھا یا پھر اس میں گالی گلوچ اور ذومعنی فقرے تھے، آپ فحاشی کے ہاتھوں ہیوی کاسٹ فلموں تک کو برباد ہوتا دیکھیں گے، آپ ان اداکاروں اور اداکاراؤں کو بھی تباہی کے گڑھے میں اترتا اور معاشرے میں ذلیل ہوتا دیکھیں گے جنہوں نے تالی اور قہقہہ مروانے کے لیے ایک بار اخلاقیات کے تخت سے فرش پر پاؤں رکھ دیا تھا، پاکستان کی فلم اور تھیٹر بھی اس حقیقت کی بدترین مثال ہیں، ہماری انڈسٹری کو فحاشی، لچر پن، گنڈاسے اور مجرے نے تباہ کر دیا تھا، ہم لوگ فنون لطیفہ میں بھارت سے بہت آگے ہیں۔
آپ خدا کے لیے اور بول جیسی فلمیں دیکھیں، یہ پاکستانی سینما کے زوال کے تیس سال بعد آئیں اور یہ دونوں فلمیں کسی فلم ساز نے نہیں، ٹیلی ویژن کے ایک پروڈیوسر نے بنائی تھیں لیکن ان فلموں نے دنیا کو حیران کر دیا، ہم جب اتنے ٹیلنٹڈ ہیں تو پھر ہمیں فلم کو کامیاب کرنے کے لیے فحاشی کا سہارا لینے کی کیا ضرورت ہے۔
ہمیں فلم میں پٹھان ٹرک ڈرائیور ڈالنے کی کیا مجبوری ہے اور اس کے منہ سے ایسے فقرے ادا کروانے کی کیا حاجت ہے جسے سن کر شریف آدمی کے کان سرخ ہو جائیں اور یہ حرکت صرف ایک فلم میں نہیں ہوئی، میں نے اس نوعیت کے فقرے اور حرکات ’’نامعلوم افراد‘‘ میں بھی دیکھیں، سنیں اور دوسری پاکستانی فلموں میں بھی۔ آج کل ایک اور فلم کا چرچا ہے جس میں بچے کی ’’مسلمانی‘‘ کا لمبا سین ہے اور یہ عمل صرف دکھایا نہیں گیا بلکہ منہ سے بھی اس کی اتنی وضاحت کی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص ماں بہن کے ساتھ بیٹھ کر یہ فلم نہیں دیکھ سکتا، ہمارے فلم ساز فلموں میں ایسے الفاظ اور وہ فقرے بھی کثرت سے ڈال رہے ہیں جو صرف ممبئی میں بولے جاتے ہیں اور بھارت کی اپنی ریاستیں ان فقروں پر اعتراض کر رہی ہیں۔
آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں گے، بھارتی فلم ساز جب اپنی فلمیں مہاراشٹر سے باہر بھجواتے ہیں تو یہ ان سے ممبئی کے ’’سلینگز‘‘ نکال دیتے ہیں لیکن ہم اپنی فلموں میں ابے بھی ڈال رہے ہیں، بیوڑا بھی، پیٹی بھی، کھوکھا بھی اور کھولی بھی۔ کیا یہ غلط نہیں؟ ہمارے فلم ساز شاید بھارتی فلم سازوں کے پریشر میں ہیں اور یہ اس پریشر میں وہ غلطیاں کر رہے ہیں جن کی آج تک بھارتی فلم ساز بھی جرأت نہیں کر سکے، آپ بھارتی فلم بجرنگی بھائی جان اور کراچی سے لاہور دونوں کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھ لیں، آپ کو دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔
یہ فرق صرف سلمان خان یا عائشہ عمر کا فرق نہیں، یہ موضوع اور اسکرین پلے کا فرق بھی ہے، چلیے ہم پاکستانی فلم کا بھارتی فلم سے تقابل نہیں کرتے، ہم بول اور کراچی سے لاہور کا موازنہ کرتے ہیں، بول بھی تو پاکستان ہی میں بنی تھی اور اس کے تمام تکنیک کار بھی پاکستانی تھے، یہ فلم اگر فحاشی، عریانی اور ذومعنی فقروں کے بغیر کامیاب ہو سکتی ہے تو پھر باقی فلمیں کیوں نہیں ہو سکتیں؟ میرے خیال میں پاکستانی فلموں کے تمام اداکاروں، اداکاراؤں، ہدایت کاروں، فلم سازوں اور مکالمہ نویسوں کو حقائق کا خیال رکھنا چاہیے، حکومت اور سنسر بورڈ کو بھی توجہ دینی چاہیے، ہماری فلم انڈسٹری تیس سال کی خاموشی اور زوال کے بعد دوبارہ جنم لے رہی ہے، لوگ بڑی مشکل سے سینماؤں کی طرف آ رہے ہیں۔
یہ اپنے خاندان کو بھی فلم دیکھنے کے لیے لا رہے ہیں، مجھے خطرہ ہے اگر حکومت، سنسر بورڈ اور فلم سازوں نے اس طرف توجہ نہ دی تو خاندان سینماؤں سے واپس چلے جائیں گے اور اسکرین کے سامنے صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو ہر فحش فقرے اور ننگی حرکت پر تالی بجانا، قہقہہ لگانا اور بھنگڑا ڈالنا فرض سمجھتے ہیں اور جس دن یہ ہو گیا، جس دن خواتین اور بزرگ سینما سے اٹھنا شروع ہو گئے۔
وہ دن ہماری فلم اور سینما کا آخری دن ہو گا، میری فلم سازوں سے درخواست ہے آپ جب بھی فلم بنائیں، آپ بھارتی مزاحیہ اداکار جونی واکر کا یہ فقرہ ضرور ذہن میں رکھ لیں ’’میں فلم میں جب بھی کوئی اخلاق سے گرا فقرہ بولنے لگتا ہوں تو مجھے اپنے بچے یاد آ جاتے ہیں اور میں سوچتا ہوں، یہ فقرہ جب میرے بچے سنیں گے تو وہ اپنے باپ کے بارے میں کیا سوچیں گے، یہ خیال آتے ہی میں اپنی زبان دانتوں تلے دبا لیتا ہوں‘‘ آپ لوگ بھی فلم بناتے، فلم لکھتے اور مکالمے بولتے وقت ایک لمحے کے لیے اتنا ضرور سوچ لیا کریں، یہ فلم جب آپ کے بچے یا آپ کے بہن بھائی دیکھیں گے تو یہ آپ کے بارے میں کیا سوچیں گے، مجھے یقین ہے، یہ ایک سوال آپ کے ضمیر کو ہزار سوالوں سے بچا لے گا۔
معذرت: مجھ سے کل کے کالم ’’آپ نے کیا پایا،کیا کمایا‘‘میں ایک غلطی سرزد ہو گئی، ڈاکٹر عاصم حسین سر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کے پوتے نہیں ہیں، یہ ان کے نواسے ہیں، ڈاکٹر عاصم کی والدہ ڈاکٹر اعجاز فاطمہ ڈاکٹر ضیاء الدین کی صاحبزادی اور والد تجمل حسین داماد ہیں، قارئین تصحیح فرما لیں۔
آپ نے کیا پایا،کیا کمایا
جاوید چوہدری جمعرات 3 ستمبر 2015

یہ کہانی ڈاکٹر ضیاء الدین احمد سے شروع ہوتی ہے،درمیان میں کراچی کے ایک لندن بیسڈ بزنس مین آتے ہیں اور پھر یہ کہانی تفتیشی اداروں،عدالتوں اور جیلوں کے پھاٹکوں کی طرف دوڑ پڑتی ہے لیکن جیلوں،عدالتوں،تفتیشی اداروں اور لندن بیسڈ بزنس مین سے پہلے بہرحال ڈاکٹر ضیاء الدین احمد آتے ہیں۔
ہم اگر علی گڑھ یونیورسٹی کو ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ سے نکال دیں تو تاریخ میں آنسوؤں،آہوں اور سینہ کوبیوں کے سوا کچھ نہیں بچتا،برصغیر کے مسلمان اگر آج آزاد ہیں،یہ اگر آج ایک خوش حال اور بے خوف زندگی گزار رہے ہیں تو اس کا نوے فیصد کریڈٹ سرسید احمد خان کو جاتا ہے۔
سرسید احمد خان اگر جھولی پھیلا کر،بازار حسن میں طوائفوں کے سامنے ناچ کراور زمینداروں، جاگیرداروں، نوابوں اور مسلمان تاجروں کی ٹھوڑی پکڑ کر چندہ جمع نہ کرتے،وہ 1875ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد نہ رکھتے تو پاکستان آج بھی مسلمانوں کے خوابوں تک محدود ہوتا اور ہم شودروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہوتے،علی گڑھ یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کی تقدیر میں تبدیلی کا پہلا سنگ میل تھی،یہ پہلی حقیقت تھی،دوسری حقیقت یہ تھی،یہ یونیورسٹی بنائی سرسید نے تھی لیکن اسے چلانے کا اعزاز ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کو حاصل ہوا،ڈاکٹر صاحب 1877ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئے،بارہ سال کی عمر میں علی گڑھ میں داخل ہوئے،بے انتہا ذہین انسان تھے۔
یونیورسٹی نے انھیں بی اے کے بعد ہی لیکچرار بھرتی کر لیا یوں وہ پڑھتے بھی تھے اور پڑھاتے بھی تھے،ڈاکٹر صاحب نے بعد ازاں کلکتہ یونیورسٹی اور احمد آباد یونیورسٹی سے ایم اے کیے،وہ ہندوستان کی تاریخ کے پہلے دیسی باشندے بھی تھے جنھیں کیمبرج یونیورسٹی نے سر آئزک نیوٹن اسکالر شپ دیا،وہ کیمبرج یونیورسٹی کے طالب علم بھی رہے اور انھوں نے جرمنی،فرانس،اٹلی اور جامعۃ الازہر میں بھی تعلیم حاصل کی،وہ تین مختلف ادوار میں علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے،انھیں طویل مدت تک علی گڑھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
وہ یوپی کی صوبائی اسمبلی کے رکن بھی بنے،انھوں نے وفاقی سطح پر بھی الیکشن لڑے،وہ ریاضی دان تھے،انگریزی،اردو،عربی اور فارسی کے عالم تھے،وہ فزکس اور کیمسٹری کے نباض تھے،انھوں نے علی گڑھ میں مسلمانوں کا پہلا میڈیکل کالج بھی قائم کیا اور وہ ایم اے او کالج کے پرنسپل بھی رہے،ملکہ نے ان کی خدمات کے صلے میں انھیں 1938ء میں سر کا خطاب دیا،یہ خطاب کتنا بڑا تھا‘آپ اس کا اندازہ سرسید احمد خان،سر علامہ اقبال اور سر کریم آغا خان سے لگا لیجیے،ان تینوں مشاہیر کو بھی اس خطاب سے نوازا گیا تھا،سر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد دسمبر1947ء کو لندن میں انتقال کر گئے۔
ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے تجمل حسین اور بہو ڈاکٹر اعجاز فاطمہ نے ان کے مشن کا جھنڈا اٹھا لیا،انھوں نے کراچی میں ڈاکٹر ضیاء الدین گروپ آف ہاسپٹلز کی بنیاد رکھی،گروپ میں آج پانچ اسپتال اور ضیاء الدین یونیورسٹی ہے جس کے تحت نو کالجز کام کر رہے ہیں ،پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اور مشیر ڈاکٹر عاصم حسین سر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کے پوتے اور ڈاکٹر تجمل حسین اور ڈاکٹر اعجاز فاطمہ کے صاحبزادے ہیں،ڈاکٹر عاصم حسین کیڈٹ کالج پٹارو کے ان چند طالب علموں میں بھی شمار ہوتے ہیں جو آصف علی زرداری کے کلاس فیلوز یا دوست تھے۔
یہ فوج میں بھرتی ہوئے لیکن جلد ہی فوج چھوڑ کر ڈاؤمیڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا،ڈاکٹر عاصم نے ایم بی بی ایس بھی کیا اور یورپ میں بھی تعلیم حاصل کی،آصف علی زرداری جب عملی سیاست میں آئے تو ڈاکٹر عاصم بھی ان کے ساتھ سیاست میں آ گئے،یہ زرداری صاحب کے ذاتی معالج بھی رہے،پٹرولیم جیسی سونے کی کان کے مشیر بھی،نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے چیئرمین بھی اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے کرتا دھرتا بھی۔ ہم یہ کہانی اب چند لمحوں کے لیے روکتے ہیں اور کراچی کے لندن بیسڈ بزنس مین کی طرف آتے ہیں۔
آج سے دس سال پہلے کراچی کی شاہراہ فیصل پر سرفراز مرچنٹ نام کا فرنیچر کا ایک تاجر ہوتا تھا،یہ ایک عام درمیانے درجے کا بزنس مین تھا،یہ گم نام بھی تھا لیکن پھر اس نے اداکارہ نیلی کے ساتھ شادی کر لی اور یوں اس کا نام اخبارات میں آنے لگا،نیلی کی وجہ سے اس کا کراچی کے ایک ڈان سے جھگڑا ہوا اور یہ ملک سے فرار ہو گیا،یہ دوبئی میں سیٹل ہو گیا،2008ء میں حارث اسٹیل مل اور بینک آف پنجاب کا ایشو سامنے آیا تو اس میں سرفراز مرچنٹ کا نام بھی آ گیا۔
اس پر الزام تھا،اس نے ججوں کے نام پر حارث اسٹیل مل کے مالک شیخ افضل سے دوکروڑ اسی لاکھ روپے لیے،عدالتیں ایکٹو ہوئیں،نیب اور ایف آئی اے آگے بڑھی اور سرفراز مرچنٹ کو انٹرپول کے ذریعے پاکستان لانے کی کوششیں شروع ہوگئیں لیکن کوششیں کامیاب نہ ہوئیں،کیوں؟ کیونکہ ڈاکٹر عاصم سرفراز مرچنٹ کے دوست تھے،سرفراز مرچنٹ اس وقت تک اتنا امیر ہو چکا تھا کہ وہ پارک لین لندن کے انتہائی مہنگے ہوٹل میریٹ میں مسلسل گیارہ سال مقیم رہا،وہ ہوٹل کے سوئٹ میں رہتا تھا،ڈاکٹر عاصم جب بھی لندن جاتے تھے،یہ اسی ہوٹل میں سرفراز مرچنٹ سے ملتے تھے۔
سرفراز مرچنٹ کا دوسرا دوست انیس ایڈووکیٹ تھا،انیس ایڈووکیٹ ایم کیو ایم کے رابطہ کمیٹی کے ممبر رہے ہیں،یہ الطاف حسین کے قریبی ترین دوستوں میں بھی شمار ہوتے ہیں،لندن میں الطاف حسین کے خلاف جتنے مقدمات چل رہے ہیں،ان میں انیس ایڈووکیٹ بھی دوسرے ملزمان محمد انور ،افتخار قریشی،سرفراز احمداور طارق میر کے ساتھ زیر تفتیش ہیں،لندن میں 16 ستمبر 2010ء کو جب ڈاکٹر عمران فاروق قتل ہوئے تو اس دن بھی ڈاکٹر عاصم،انیس ایڈووکیٹ اور سرفراز مرچنٹ نے میریٹ ہوٹل پارک لین میں اکٹھے لنچ کیا۔
لندن پولیس نے جون 2013ء میں الطاف حسین کے گھر اور دفتر میں چھاپہ مارا اور دونوں جگہوں سے پاؤنڈ برآمد ہو گئے،الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بن گیا،کیس بننے کے چند دن بعد سرفراز مرچنٹ نے یہ بیان دے دیا ’’ایم کیو ایم کے سیکریٹریٹ سے برآمد ہونے والی رقم کا ایک بڑا حصہ میرا تھا اور یہ میں نے ڈونیشن دیا تھا‘‘اس بیان کے ساتھ ہی سرفراز مرچنٹ بھی انکوائری کا حصہ بن گیا۔
مرچنٹ نے بعد ازاں ایم کیو ایم کے اکاؤنٹ میں ساڑھے چار لاکھ پاؤنڈ بھی جمع کرائے،اسکاٹ لینڈ یارڈ نے جب مرچنٹ سے اس رقم کے بارے میں پوچھا تو یہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا اور یوں اس کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا،اسکاٹ لینڈ یارڈ مرچنٹ کے انیس ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر عاصم کے ساتھ تعلقات سے بھی آگاہ ہے اور یہ بھی جانتی ہے سرفراز مرچنٹ پابندی کے باوجود جعلی پاسپورٹ پر پاکستان آتا رہا اور اسے آتے اور جاتے وقت خصوصی پروٹوکول بھی دیا جاتا تھا،یہ کراچی میں ڈاکٹر عاصم کا مہمان ہوتا تھا،یہ روزانہ ان کے اسپتال جاتا تھا اور اسپتال کی آخری منزل پر ڈاکٹر عاصم کا دفتر اس کا ٹھکانہ ہوتا تھا،یہ دونوں کاروباری ملاقاتیں بھی اسی جگہ کرتے تھے،اب سوال یہ ہے۔
کیا ڈاکٹر عاصم،سرفراز مرچنٹ اور انیس ایڈووکیٹ تینوں ایک ہی لڑی کے موتی ہیں اور یہ لڑی بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں ہیں،یہ فیصلہ سرے دست ممکن نہیں،کیوں؟ کیونکہ لندن اور کراچی دونوں جگہوں پر بیک وقت تفتیش چل رہی ہے،اس تفتیش کا نتیجہ کہانی کو پوری طرح کھول دے گا تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے اپنے حلقوں میں یہ سرگوشیاں ہیں،پاکستان پیپلز پارٹی کو افہام و تفہیم کی سیاست کی ایک قیمت ادا کرنا پڑتی تھی۔
یہ قیمت بعض اوقات روزانہ،بعض اوقات ہفتہ وار اور بعض اوقات ماہانہ ہوتی تھی اور اس قیمت کا چینل ڈاکٹر عاصم،سرفراز مرچنٹ اور انیس ایڈووکیٹ تھے،یہ سرگوشی بھی عام ہے،لیاری گینگ کے ملزمان نے اعتراف کیا،ہمیں ڈاکٹر عاصم کے اسپتال کی ایمبولینس میں اسلحہ سپلائی کیا جاتا تھا،ڈاکٹر عاصم کے اسپتال میں گینگ وار کے زخمیوں کا علاج بھی ہوتا تھا اور حکیم سعید کے قاتلوں کو بھی اسی اسپتال میں پناہ دی گئی تھی،یہ سرگوشی بھی عام ہے،ڈاکٹر عاصم کا نام سرفراز مرچنٹ نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سامنے لیا اور ان کی گرفتاری کی لیڈ کراچی سے نہیں بلکہ لندن سے آئی تھی اور یہ سرگوشی بھی عام ہے،ڈاکٹر صاحب ایک گھنٹہ دباؤ برداشت نہیں کر سکے اور انھوں نے سب کچھ اگل دیا،ان سرگوشیوں میں کتنا سچ اور کتنی ملاوٹ ہے۔
اس کا فیصلہ وقت کرے گا تاہم ڈاکٹر عاصم کی اس کہانی کے دو پہلو بہت ’’شاکنگ‘‘ہیں،پہلا پہلو پاکستان پیپلز پارٹی کا رد عمل ہے،آصف علی زرداری نے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر طبل جنگ بجا دیا لیکن پارٹی کے دیگر قائدین اور سابق وزراء خوش ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جن کی سیاست کو ڈاکٹر عاصم جیسے پیرا شوٹرز نے تباہ کر دیا تھا،کون نہیں جانتا ڈاکٹر عاصم نے ایک دن میں 19 میڈیکل کالج منظور کرا دیے،کون نہیں جانتا 1500 لوگوں کو غیر قانونی طور پر بھرتی کیا گیا اور کون نہیں جانتا یہ اقتدار کے دنوں میں اس قدر طاقتور تھے کہ یہ فون اٹھا کر کسی بھی وزیر کی بے عزتی کر دیتے تھے چنانچہ آج بے عزتی کروانے والے تمام لوگ اس گرفتاری پر خوش ہیں اور یہ اس کیس کو منطقی نتیجے تک پہنچتا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
دوسرا شاکنگ پہلو دولت کی حرص ہے،آپ نے اربوں روپے کما لیے لیکن وہ رقم آج کہاں ہے؟ یہ دوسرے ملکوں میں پڑی ہے،یہ رقم اب ضبط ہو جائے گی یا پھر آپ کے دوست،عزیز یا رشتے دار کھا جائیں گے،آپ آج خود جیل میں ہیں،خاندان سڑکوں پر رل رہا ہے،مستقبل میں بھی عدالتیں ہوں گی اور وکیل اور مقدمے ہوں گے اور جیل کی کوٹھڑیاں ہوں گی چنانچہ پھر اس ساری بے ایمانی کا کیا فائدہ ہوا؟ آپ نے سر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کا نام بھی رول دیا،ڈاکٹر تجمل حسین اور ڈاکٹر فاطمہ جیسے والدین کو بھی شرمندہ کر دیا،آپ ایک لمحے کے لیے سوچئے،آپ حراست میں ہیں،دوست بھاگ گئے ہیں،دولت باہر پڑی ہے اور سابق کولیگ آپ کی گرفتاری پر خوش ہیں چنانچہ آپ نے کیا پایا،آپ نے کیا کمایا؟ کاش! آپ اپنے آپ اور آپ کے ساتھی آپ کو دیکھ پاتے،کاش یہ اور آپ یہ جان پاتے دنیا میں اقتدار اور دولت سے بڑا کوئی سراب نہیں اور اختیار سے بڑا کوئی بے وفا نہیں۔
ورنہ آپ فارغ ہو جائیں گے
جاوید چوہدری منگل 1 ستمبر 2015

ہماری زندگی میں تین قسم کے رشتے ہوتے ہیں، ہم ان میں سے دو قسم کے رشتوں کو بدل سکتے ہیں، ہمیں دوست پسند نہیں، ہم ان سے قطع تعلق کر کے نئے دوست بنا سکتے ہیں، ہمیں ہمسائے، شہر، معاشرہ، کلاس فیلوز اور کولیگس پسند نہیں ہیں، ہم انھیں بھی چینج کر سکتے ہیں لیکن ہم کچھ بھی کر لیں، ہم خواہ لانگ مارچ کریں، ہم دھرنا دیں، ہم ایک لاکھ موٹر سائیکل سڑک پر لے آئیں یا پھر ہم جوڈیشل کمیشن بنا لیں ،ہم اپنے خونی رشتوں کو نہیں بدل سکتے، ہماری ماں، ہماری ماں، ہمارا والد ہمارا والد، ہماری بہن ہماری بہن اور ہمارے بھائی ہمارے بھائی ہی رہیں گے۔
ہم خون کا رشتہ تبدیل نہیں کر سکیں گے، کیوں؟ کیونکہ یہ رشتہ خون کا ہوتا ہے اور انسان خونی رشتے تبدیل کرنے پر قادر نہیں ہوتا، آپ نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو اپنے خونی رشتوں سے قطع تعلق کرتے دیکھا ہو گا، بھائیوں نے بہن کو چھوڑ دیا ہوگا، بیٹا باپ کو چھوڑ کر چلا گیا ہو گا، ماں نے مرنے تک بیٹے کا منہ نہیں دیکھا ہو گا اور باپ نے اپنے بیٹے یا بیٹی کو عاق کر دیا ہو گا لیکن کیا اس قطع تعلق کے بعد وہ رشتہ ختم ہو گیا؟ نہیں، ہرگز نہیں، باپ اولاد کو عاق کرنے کے باوجود اس کا باپ اور بیٹا عاق ہونے کے باوجود بیٹا رہا، ماں چالیس سال بچوں کو نہیں ملی لیکن وہ اس کے باوجود ان کی ماں رہی، صدر اوباما کا والد شادی کے تین سال بعد ان کی والدہ این ڈنہم کو طلاق دے کرکینیا واپس چلا گیا، صدر اوباما نے اپنے والد کی شکل تک نہیں دیکھی لیکن اس کے باوجود بارک اوباما سینئر صدر اوباما کے والد ہیں اور یہ ہمیشہ رہیں گے۔
صدر اوباما کے والد نے دسمبر 1964ء میں رتھ بیٹرک بیکر سے تیسری شادی کر لی، رتھ بیٹرک سے ان کے دو بچے ہیں، صدر اوباما چاہیں یا نہ چاہیں، یہ بچے بہرحال صدر اوباما کے بہن بھائی ہیں اور صدر اوباما اس رشتے سے انکار نہیں کر سکتے، ہم انسان رشتوں کے اس شکنجے سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے! اب سوال یہ ہے ،ہمارے یہ رشتے بناتا کون ہے؟ ہمارے یہ رشتے ہماری سولائزیشن بناتی ہے، انسانی تہذیب نے ان رشتوں تک پہنچنے کے لیے لاکھوں سال پیدل سفر کیا اور یہ پھر انسان کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوئی، خونی رشتے پتھر کی لکیر ہوتے ہیں اور انسان کو پتھر کی یہ لکیریں چھیڑنی نہیںچاہئیں، انسان کا دوسرا نتیجہ آئین اور تیسرا قانون ہے، ہم لاکھوں کروڑوں سال کے سفر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔
آئین کے بغیر ریاست اور قانون کے بغیر معاشرہ نہیں ہو سکتا، قانون معاشرے کو بناتا ہے اور آئین ریاست کی بنیاد ہے، زمین کا کوئی ٹکڑا اس وقت تک صرف زمین کا ٹکڑا رہے گا، وہ ریاست نہیں کہلائے گا جب تک اس کا کوئی آئین نہیں بن جاتا اور لوگوں کا ہجوم اس وقت تک ہجوم رہے گا، معاشرہ نہیں بنے گا جب تک وہ اپنے لیے قانون نہیں بنا لیتا، پیچھے رہ گیا انصاف! انصاف رشتے، آئین اور قانون تین پائیوں کا تخت ہوتا ہے، دنیا کی جس مملکت میں رشتے، آئین اور قانون نہ ہوں اس مملکت میں انصاف نہیں ہوتا، دنیا کی جس مملکت میں یہ تینوں پائے کمزور ہوں، اس میں انصاف بھی کمزور ہوتا ہے اور جس مملکت میں یہ تین پائے مضبوط ہوں، اس میں انصاف کا عمل، انصاف کا تخت بھی توانا ہوتا ہے۔
آپ مجھے دنیا کا کوئی ایسا ملک دکھائیں جس میں آئین اور قانون نہیں لیکن وہاں انصاف موجود ہے یا آپ مجھے دنیا کا کوئی ایسا ملک دکھا دیں جس میں آئین اور قانون کمزور ہیں لیکن انصاف کا نظام مضبوط ہے، آپ کو 245 ملکوں میں کوئی ایسا ملک نہیں ملے گا، اب سوال یہ ہے رشتوں کو رشتہ، آئین کو آئین اور قانون کو قانونی شکل کیسے ملتی ہے؟ نکاح رشتے کو رشتہ، آئینی ادارے آئین کو آئین اور قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون کو قانون بناتے ہیں، ملک، ریاست یا معاشرے میں نکاح کا نظام جتنا واضح اور ٹھوس ہو گا، رشتے بھی اتنے ہی ٹھوس اور واضح ہوں گے، آئینی ادارے جس قدر صاف، شفاف اور غیر متنازعہ ہوں گے، ملک کا الیکشن کمیشن جتنا معزز، شفاف اور آزاد ہو گا، پارلیمنٹ جتنی خود مختار، طاقتور اور صاف ہو گی، احتساب کے ادارے جس قدر معتبر اور باوقار ہوں گے اور چیف جسٹس، افواج کے سربراہان، صدر اور گورنرز جس قدر اپ رائٹ اور بے داغ ہوں گے۔
ملک کا آئین بھی اتنا ہی صاف، معزز اور قابل احترام ہو گا اور ملک کے قانونی ادارے بھی جتنے مضبوط، بے لچک اور خودمختار ہوں گے، پولیس مجرم کی شکل نہیں جرم دیکھے گی، ایف آئی اے ملزم کا عہدہ نہیں دیکھے گی، جرم دیکھے گی اور احتساب کے اہلکار بھی صرف قاعدے کے مطابق کام کریں گے، حکومتوں کی مصلحت اور آقاؤں کی منشاء کی تلوار نہیں اٹھائیں گے تو قانون بھی مضبوط ہو جائے گا اور جب رشتے، آئینی ادارے اور قانونی محکمے مضبوط ہوں گے تو ملک میں انصاف بھی آ جائے گا، دنیا کی کوئی طاقت اسے آنے سے نہیں روک سکے گی۔
ہمیں یہ ماننا ہو گا، ہمارے ملک کے آئینی اور قانونی ادارے کمزور بھی ہیں اور یہ حکومتوں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے غلام بھی ہیں اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ،ہم جب تک ان اداروں کی اصلاح نہیں کریں گے، ملک میں اس وقت تک حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی، اب سوال یہ ہے ان اداروں کی اصلاح کون کرے گا؟ ملک کے آئینی، قانونی اور سماجی اداروں کی ’’اوورہالنگ‘‘ کس کی ذمے داری ہے اور یہ تمام اصلاحات ہوں گی کہاں؟ یہ اصلاحات بہرحال پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ہوں گی اور یہ ہمارے سیاستدانوں ہی کو کرنی پڑیں گی، دنیا میں دس ہزار سال کی روایات توڑ کر نئی روایات قائم کرنا مشکل لیکن ان کی اصلاح کرنا آسان ہوتا ہے لیکن ہم مدت سے آسان کے بجائے مشکل کام کرنا چاہ رہے ہیں۔
ہم نے پولیس کا ڈیڑھ سو سال پرانا ادارہ توڑ کر نیا بنانے کی کوشش کی، ہم ناکام ہو گئے، ہم نے ڈی سی سسٹم ختم کیا، ہم نیا نہ بنا سکے، ہم اب الیکشن کمیشن کے پیچھے پڑ گئے ہیں، کیا ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے، ہو سکتا ہے ہم اس بار کامیاب ہو جائیں لیکن ہمیں ہتھوڑے چلانے سے قبل موجودہ سسٹم کا جائزہ لے لینا چاہیے، الیکشن کمیشن چار ارکان اور چیف الیکشن کمشنر پر مشتمل ہوتا ہے، اٹھارہویں ترمیم سے قبل چیف الیکشن کمشنر کا تقرر صدر کرتے تھے جب کہ ارکان کا فیصلہ چیف الیکشن کمشنر کی صوابدید پر ہوتا تھا، چیف نشست خالی ہونے پر ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے ججز کی فہرست منگواتے تھے۔
اس میں سے کوئی جج منتخب کرتے تھے، اس کا نام صدر کو بھجوا دیتے تھے اور صدر نوٹیفکیشن جاری کر دیتے تھے، 8 اپریل 2010ء کو اٹھارہویں ترمیم ہوئی اور یہ سسٹم بدل دیا گیا، اب چیف الیکشن کمشنر اور چاروں ارکان کا فیصلہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر کرتے ہیں، یہ اگر کسی نام پر متفق نہ ہوں تو یہ ایشو بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جاتا ہے، کمیٹی میں پارلیمنٹ میں موجود ارکان کی تعداد کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کی نمایندگی ہے، چیئرمین کا فیصلہ ارکان کرتے ہیں، یہ کمیٹی الیکشن کمیشن کے چیف اور ارکان کا فیصلہ کرتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر پانچ سال کے لیے ہوتا ہے، انھیں کمیشن سے فارغ نہیں کیا جا سکتا، حکومت یا کوئی جماعت انھیں فارغ کرنا چاہے تو اس کے صرف دو طریقے ہیں، یہ ارکان خود مستعفی ہو جائیں یا پھر ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں باقاعدہ ریفرنس دائر کیا جائے، یہ کونسل رکن کو فارغ کرنے کے لیے وہی طریقہ اختیار کرے گی جو سپریم کورٹ کے ججوں کو نکالنے کے لیے کیا جاتا ہے، یہ قانونی اور آئینی طریقہ ہے، آپ کچھ بھی کر لیں، آپ دھرنا دے لیں یا بھوک ہڑتال پر چلے جائیں، آئین آئین ہی رہے گا، قانون قانون ہی رہے گا، آپ اسے دھرنے کے ذریعے نہیں بدل سکیں گے، ہم اب یہ فرض کر لیتے ہیں، الیکشن کمیشن کے ارکان عمران خان کے دھرنے سے گھبرا کر مستعفی ہو جاتے ہیں۔
اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس کے بعد ایک بار پھر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید نئے ارکان کا فیصلہ کریں گے، یہ دونوں اگر فیصلہ نہیں کرتے تو فیصلہ پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا اور وہاں پی ٹی آئی کے پاس صرف ایک یا دونشستیں ہوں گی چنانچہ وہاں بھی فیصلہ وہ لوگ کریں گے جنھیں آپ دو سال سے لتاڑ رہے ہیں اور وہ فیصلہ کیا ہوگا اس کا اندازہ آپ آج ہی لگا سکتے ہیں لہٰذا پھر اس ساری جدوجہد کا ایک اور ناکامی کے سوا کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا، آپ پھر اپنے آپ اور اپنے کارکنوں کو نئی مصیبت میں ڈالنے کے بجائے وہ سیدھا اور سادہ طریقہ استعمال کیوں نہیں کرتے جس سے آپ کی آرزو بھی پوری ہو جائے اور سسٹم بھی ٹھیک ہو جائے، پاکستان پیپلز پارٹی اس ایشو پر آپ کی مدد کے لیے تیار ہے۔
شاہ محمود قریشی اور خورشید شاہ کے درمیان ملاقات بھی ہو چکی ہے، آپ قومی اسمبلی میں تحریک پیش کریں اور یہ طریقہ کار بدل دیں، آپ یہ معاملہ اصلاحاتی کمیٹی میں بھی لے جا سکتے ہیں، آپ وہاں الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری اور برخاستگی دونوں کا نیا طریقہ کار وضع کر لیں، ہمارے پاس جب قانونی اور آئینی طریقہ موجود ہے تو ہم اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ عمران خان پورا سال سڑکوں پر رہے، کیا حاصل ہوا؟ فیصلہ بہرحال آئینی جوڈیشل کمیشن اور آئینی ٹریبونل ہی نے کیا چنانچہ یہ دھرنا بھی پچھلے دھرنے کی طرح ناکام ہو جائے گا، اگر ایسا نہ ہوا اور الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان مستعفی ہو گئے تو ملک میں ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو جائے گا، الیکشن کمیشن ٹوٹ جائے گا، بلدیاتی الیکشن اور ضمنی الیکشن دونوں ملتوی ہو جائیں گے اور الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کی تقرری کے لیے سیاسی لڑائی شروع ہو جائے گی۔
حکومت آئین کے دائرے میں رہ کر تقرری کی پابند ہے اور یہ پابندی عمران خان کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی، یہ اپنی مرضی کرانا چاہیں گے، حکومت نے اگر اس وقت ’’انجوائے،، کرنے کا فیصلہ کر لیا تو یہ عمران خان کی بات مان کر پی ٹی آئی کو شادیانے بجانے کا موقع دے دے گی، نئے ارکان منتخب ہوں گے لیکن ان کا انتخاب سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا اور یوں وہ ادارہ جس نے ملک کو طاقتور ترین آئینی ادارے دینے ہیں وہ معطل ہو کر رہ جائے گا اور اگر عمران خان کا مقصد یہ ہے تو پھر یہ مقصدجلد پورا ہو جائے گا اور یہ اگر واقعی ملک کو جعلی الیکشنز اور جعلی اسمبلیوں سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر انھیں آئینی طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
ہمارے پاس جب دروازہ موجود ہے تو پھر ہم کھمبے کے ذریعے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ ہم اپنے ہی گھر کی کھڑکی توڑ کر گھر میں داخل کیوں ہونا چاہتے ہیں؟ میری عمران خان سے درخواست ہے، آپ سسٹم کے اندر رہ کر سسٹم تبدیل کریں، یہ ملک رہنے کے قابل بن جائے گا ورنہ دوسری صورت میں آپ کھمبے سے گر کر فارغ ہو جائیں گے اور یہ نظام اور اس نظام کی بدبو جوں کی توں رہ جائے گی، ملک تبدیلی کے ایک اور موقع سے محروم ہو جائے گا۔
دنیا کی سب سے بڑی حقیقت
جاوید چوہدری اتوار 30 اگست 2015

دربار برآمدے سے شروع ہوتا تھا، یہ ایک وسیع برآمدہ ہے، چھت اونچی، دیواروں پر پچی کاری، جس طرف دیکھیں کوئی نہ کوئی آیت تحریر ہے، چھت لکڑی کی تھی اور کشتی کی طرح تھی، گائیڈ نے بتایا، بادشاہ جب دربار میں داخل ہوتا تھا تو وہ چھت کی طرف دیکھتا تھا اور پھر ہم کلام ہو کر کہتا تھا ’’یاد رکھو تم لوگ کشتیوں کے محتاج تھے۔
کشتیاں اگر تمہیں نہ سنبھالتیں تو تم اس اجنبی دیس تک نہ پہنچ پاتے‘‘ برآمدے کے بعد دربار کا ہال آتا ہے، دربار پرشکوہ تھا، دیواریں اونچی، چاروں اطراف جھروکے اور روشن دان، چھت کی سات تہیں ہیں، یہ سات تہیں سات آسمانوں کو ظاہر کرتی ہیں، چھت کے عین درمیان لکڑی کا چکور پیس لگا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی علامت تھا، چکور ٹکڑے کے چار کونے اللہ کے تخت کے چار پائیوں کو ظاہر کرتے تھے، بادشاہ کا تخت اللہ کے تخت کی اس علامت کے بالکل نیچے ہوتا تھا اور وہ ہر فیصلہ کرنے سے قبل اوپر اللہ کی علامت کو دیکھتا تھا، تخت کے سامنے دربار کا صحن تھا، تخت سے پانی کا تالاب، سرو کی باڑ اور کیبنٹ ہال کا دروازہ دکھائی دیتا تھا، یہ ہال اور اس کا صحن الحمراء کی دوسری خوبصورت عمارت ہے۔
پہلی خوبصورت عمارت بادشاہ کا حرم ہے، یہ عمارت ’’کورٹ آف لائنز‘‘ کہلاتی ہے، اس کی وجہ تسمیہ صحن کے درمیان بارہ شیروں کا فوارہ ہے، عمارت کے عین درمیان سفید سنگ مر مر کا فوارہ ہے، فوارے کے تھال کو بارہ شیروں نے اٹھا رکھا ہے، تمام شیر ایک دوسرے سے مختلف ہیں، یہ شیر 12 برجوں کو ظاہر کرتے ہیں، یہ کہانی بھی مشہور ہے، یہ فوارہ بادشاہ کو کسی یہودی نے گفٹ کیا تھا اور یہ بارہ شیر بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کی علامت ہیں، صحن کے چاروں اطراف چار بڑے چیمبر ہیں، چاروں چیمبرز کے اندر فوارے ہیں۔
ان فواروں کا پانی چھوٹی چھوٹی نالیوں کے ذریعے صحن میں شیروں کے فوارے تک پہنچتا ہے، شیر یہ پانی اٹھا کر اپنے اپنے منہ سے خارج کرتے ہیں، یہ عمل ثابت کرتا تھا، بارہ برج یا بارہ مہینے اپنی توانائی بادشاہ سے حاصل کرتے ہیں، یہ خیال یوں بھی قرین حقیقت ہے کہ اس عمارت کا پہلا کمرہ بادشاہ کا بیڈ روم تھا اور بادشاہ کے بیڈ روم کا فوارہ سب سے پہلے شیروں کو پانی پہنچاتا تھا، بادشاہ کا بیڈ روم تعمیراتی حسن کا شاہکار ہے، بیڈ روم کے عین درمیان فوارہ ہے، فوارے کی دونوں سائیڈوں پر تیس تیس فٹ کے فاصلے پر دو چوکیاں ہیں، بادشاہ کا بستر ان چوکیوں پر لگتا تھا، بادشاہ دائیں چوکی پر سوئے گا یا بائیں چوکی پر بادشاہ یہ فیصلہ بیڈ روم میں داخل ہونے کے بعد خود کرتا تھا، چھت کمال کا بھی نقطہ کمال ہے۔
سو فٹ اونچی چھت پر چونے کے پتھر سے وہ جو، دائرے اور کمانیں بنائی گئیں جو آواز کی قوت بڑھا دیتی ہیں اور یوں بیڈ روم میں قدرتی ساؤنڈ سسٹم بن جاتا ہے، کمرے میں فوارے کا جلترنگ بج رہا تھا، میں نے فوارے کے ساتھ کھڑے ہو کر سرگوشی کی، سرگوشی کی آواز پانی کی ٹپ ٹپ کے ساتھ ملی، یہ دونوں آوازیں چھت سے ٹکرائیں، وہاں سے دیواروں اور فرش پر اتریں، ملٹی پلائی ہوئیں اور گیت بن گئیں، یہ تھا الحمراء کا جادو، وہاں بھدی آوازیں بھی نغمہ بن جاتی ہیں۔
کورٹ آف لائنز میں بادشاہ کے بیڈ روم کے عین سامنے ملکہ کا بیڈ روم تھا، یہ بیڈ روم بھی انسانی صناعی کا نقطہ کمال ہے، ملکہ کی خواب گاہ کی کھڑکیاں باغ میں کھلتی ہیں، ساتھ خادماؤں کے کمرے، کچن اور اسٹیم باتھ تھے، ہر جگہ فوارے اور آبشاریں تھیں، صحن کے دونوں اطراف کنیزوں کے بیڈروم تھے، عمارت میں 126 ستون ہیں، ہر ستون دوسرے ستون سے مختلف ہے اور ہر ستون پر آیات درج ہیں، آپ جس ستون کو بھی دیکھتے ہیں۔
آپ اس کی خوبصورتی، اس کی صناعی میں جذب ہو جاتے ہیں، کورٹ آف لائنز کے ستون مسجد قرطبہ کے ستونوں سے ملتے جلتے ہیں لیکن یہ اس سے زیادہ خوبصورت ہیں، یہ محل عربوں کی جمالیاتی حس کا قبلہ تھا، میں نے زندگی میں ڈیڑھ سو محل دیکھے ہیں لیکن ان میں الحمراء جیسا کوئی دوسرا محل نہیں اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ اس کیلیے غرناطہ کے بادشاہوں جیسی نظریں اور مورش فنکاروں جیسی انگلیاں چاہئیں اور یہ دونوں اب دنیا میں موجود نہیں ہیں، میں فن کے اس قبلے کی زیارت کیلیے تیسری بار غرناطہ آیا، ہر بار اللہ تعالیٰ سے دعا کی، یا باری تعالیٰ میں اس جگہ کی خاموشی کو سننا چاہتا ہوں۔
مجھے کوئی ایسا موقع عطا فرما دے جب میں شیروں کے مجسمے کے پاس اکیلا بیٹھا ہوں اور اس پورے ایوان میں پانی کی ٹپ ٹپ اور ہوا کی سرسراہٹ کے سوا کوئی نہ ہو، میں یہاں اکیلا بیٹھ کر ابو عبداللہ محمد کی اس آخری رات کو محسوس کرنا چاہتا ہوں جو اس نے سقوط غرناطہ سے ایک دن پہلے اس فوارے کے ساتھ بیٹھ کر گزاری تھی، محل سے سسکیوں کی ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں، فوارے کے شیروں کے منہ سے پانی کی بجائے آنسو ٹپک رہے تھے۔
ہوائیں اداس تھیں، آسمان پر چاند تھا لیکن اس دن مغموم تھا، ابو عبداللہ محمد کی ماں نے اپنے کمرے کی کھڑکی کھولی اور سورۃ بقرہ کی تلاوت شروع کر دی، وہ جب انا للہ و انا الیہ راجعون کی آیت پر پہنچی تو اس کی آواز چیخ بن گئی، ابوعبداللہ محمد نے حسرت سے آخری بار پورے محل کو دیکھا، محل کے چپے چپے پر ولا غالب الااللہ (اللہ کے سوا کوئی غالب نہیں) لکھا تھا، یہ فقرہ محل بنانے والوں کے درد دل اور خوف خدا کی نشانی تھی، محل بنانے والوں نے جب محل دیکھا تو اس کے حسن سے مبہوت رہ گئے اور ان کے دل میں تکبر آ گیا لیکن جلد ہی غلطی کا احساس ہو گیا۔
جھرجھری لی اور حکم جاری کر دیا، محل کے چپے چپے پرولا غالب الااللہ لکھ دیا جائے تا کہ میرے سمیت میری نسل کا جو بھی شخص یہ محل دیکھے وہ اس کا حسن پڑھنے سے پہلے یہ فقرہ پڑھے، بادشاہ کا حکم تھا، فوراً تعمیل ہو گئی، محل کے چپے چپے پر ولا غالب الااللہ لکھ دیا گیا، ابوعبداللہ محمد نے آخری بار محل کو دیکھا، اٹھا اور ولا غالب الا للہ پڑھتے پڑھتے اپنے بیڈ روم میں چلا گیا، یہ اندلس کے مسلمان بادشاہوں کی اس محل میں آخری رات تھی، میں شیروں کے اس مجسمے کے ساتھ بیٹھ کر اس آخری رات اور اس آخری رات کی اس آخری صبح کو محسوس کرنا چاہتا ہوں جب غرناطہ کا شاہی خاندان اپنا سامان سمیٹ کر ’’کورٹ آف لائنز‘‘ سے رخصت ہوا، اللہ تعالیٰ نے تین کوششوں میں یہ موقع عنایت نہیں کیا لیکن مجھے یقین ہے، میری یہ کوشش کبھی نہ کبھی ضرور کامیاب ہو گی۔
میں نے ’’کورٹ آف لائنز‘‘ میں پہلی بار زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کو یقین میں بدلتے ہوئے بھی محسوس کیا، وہ حقیقت کیا ہے؟ آپ اس سے قبل قرطبہ اور غرناطہ اور مسجد قرطبہ اور الحمراء اور سقوط غرناطہ کے بعد اسپین کے مسلمانوں کی تاریخ پڑھیں، عیسائیوں نے سقوط کے بعد وعدہ خلافی کی، تیس لاکھ مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا، جلا دیا گیا، جلا وطن کر دیا گیا یا پھر زبردستی عیسائی بنا دیا گیا، مسلمان بچیوں کی باقاعدہ منڈیاں لگائی گئیں، انھیں قحبہ خانوں میں بٹھایا گیا اور ان بازاروں کے نام قرطبہ اور الحمراء رکھے گئے، مسلمانوں کے مکان جلا دیے گئے، مسجدیں چرچ بنا دی گئیں۔
مسجد قرطبہ کا دو تہائی حصہ توڑ کر وہاں چرچ بنایا گیا، الحمراء کو بھی تباہ کر دیا گیا، الحمراء کی شاہی مسجد گرا کر وہاں چارلس پنجم نے اپنا محل بنا لیا، پورے محل پر سفید چونا پھیر دیا گیا، یہ محل طویل عرصے تک خانہ بدوشوں کا مسکن بھی رہا اور یہ اس کی اینٹیں تک نکال کر بیچ گئے، اسپین کی مورش تہذیب پانچ سو سال تک مذہبی، تہذیبی اور نسلی نفرت کا نشانہ رہی لیکن پھر اچانک نفرت محبت میں بدل گئی اور وہ لوگ جو مسجدیں، محل اور گھر جلا اور گرا رہے تھے وہ مسلمانوں کے ان اثاثوں کے محافظ بن گئے، یہ لوگ اب قرطبہ سے لے کر الحمراء تک اور تولیدو سے لے کر غرناطہ کی گلیوں تک مسلمانوں کے ایک ایک نقش کی حفاظت کر رہے ہیں، آج مسجد قرطبہ کا ایک پتھر گرتا ہے تو اسپین کی حکومت دنیا بھر کے ماہرین جمع کر لیتی ہے، غرناطہ میں چار ایسی فیکٹریاں ہیں جو الحمراء کی دیواروں پر لکھی آیات کی ٹائلیں بناتی ہیں۔
یہ ٹائلیں الحمراء میں بھی لگائی جاتی ہیں اور بازار میں بھی فروخت ہوتی ہیں اور یہ لوگ مسجد قرطبہ اور الحمراء میں آیات لکھوانے کیلیے اسلامی دنیا سے وہ خطاط بھی منگواتے ہیں جن کے آباؤ اجداد کو انھوں نے گلیوں میں پھانسیاں دی تھیں، ایسا کیوں؟ اس ’’ایسا کیوں،، کو معیشت کہتے ہیں، دنیا سے ہر سال ایک کروڑ لوگ مسجد قرطبہ اور الحمراء دیکھنے آتے ہیں، یہ لوگ اسپین کی معیشت چلاتے ہیں چنانچہ وہ عیسائی جو پانچ سو سال مسجدیں گراتے اور آیتیں کھرچتے رہے، وہ اب ان مسجدوں، ان آیتوں کے محافظ ہیں، بت کعبے کی حفاظت کر رہے ہیں، میں نے شیروں کے فوارے کے پاس بیٹھ کر محسوس کیا معیشت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے، مذہب اور تعصب سے بھی بڑی حقیقت۔
کاش! ہم مسلمان بھی یہ حقیقت جان لیں۔

ہائے غرناطہ
جاوید چوہدری جمعـء 28 اگست 2015

ہوٹل لاڈرون آگوا کی کھڑکی الحمراء کی طرف کھلتی تھی، کھڑکی سے باہر چھوٹا سا ٹیرس تھا، میں ٹیرس پر کھڑا ہوا تو دریائے دارو کے بہتے پانیوں کی آوازیں آنے لگیں، ٹیرس کے نیچے پتھریلی گلی تھی، گلی کے ایک سرے پر مکان تھے اور دوسرے سرے پر پتھروں کی تین فٹ اونچی حد بندی۔ حد بندی کے آگے دریائے دارو تھا، یہ دریا کبھی بہت بڑا ہوتا تھا، یہ الحمراء کا محافظ بھی تھا لیکن جب مالک نہ رہے، جب بنانے والے رخصت ہو گئے تو دریا بھی سمٹ گیا، یہ اب چھوٹا سا نالہ لئی بن چکا ہے۔
دریا کے دوسرے کنارے سے سبیکا کی وہ پہاڑیاں شروع ہوتی ہیں جن پر الحمراء آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے، سبز پہاڑیوں کے درمیان الحمراء کے برج اور مینار دکھائی دے رہے تھے، میناروں کے نیچے مکانوں اور حویلیوں کا سلسلہ ہے، مکان ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر الحمراء سے دریائے دارو کے کنارے تک آتے ہیں، یہ عمائدین کے گھر اور حویلیاں ہوتی تھیں، سامنے چھوٹی چھوٹی گلیوں کا سلسلہ بھی تھا، رات کے گیارہ بج چکے تھے۔
میں ٹیرس سے اترا اوردریائے دارو کا چھوٹا پل کراس کر کے غرناطہ، قدیم غرناطہ کی گلیوں میں اتر گیا، وہ پہاڑی گلیاں تھیں، نیچے سے اوپر جاتی تھیں، فرش پر چھوٹے چھوٹے پتھر جڑے تھے، دیواریں سرخ اینٹوں اور لائم اسٹون کی تھیں، دروازے بھاری لکڑی کے پھاٹک تھے، مکان باہر سے قدیم لیکن اندر سے جدید ہیں، کوئی شخص مکان کو باہر سے تبدیل نہیں کر سکتا، میرا ہوٹل بھی ایک پرانی حویلی میں قائم تھا، یہ میری زندگی کا پہلا ہوٹل تھا جس کے کمروں کے نمبر نہیں تھے، تمام کمرے مختلف مقامی اور عالمی رائیٹرز کے نام پر تھے، یہ لکھاری ان کمروں میں اقامت پذیر رہ چکے تھے۔
ہوٹل انتظامیہ نے بعد ازاں وہ کمرہ ان سے منسوب کر دیا، ہوٹل کے گاہک کو چابی کے ساتھ اس لکھاری کا پروفائل بھی دیا جاتا ہے جس کے کمرے میں وہ گاہک اب چند دن گزارے گا، قدیم غرناطہ کے گھر اور گلیاں پرانے اسٹائل کی ہیں، آپ جوں ہی ان گلیوں میں داخل ہوتے ہیں، آپ سات سو سال پیچھے اس دور میں چلے جاتے ہیں جب ان گلیوں میں غرناطہ یونیورسٹی کے طالب علم سرپر عمامہ باندھ کر آہستہ آہستہ چلتے تھے اور سرگوشیوں میں بات کرتے تھے، یہ ساری گلیاں اور یہ سارے گھر اب ریستوران، قہوہ خانے اور ہوٹل ہیں اور گاہک ان کے اندر بیٹھ کر گزرے وقت کی چاپ سنتے ہیں۔
غرناطہ کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ قدیم شہر ہے، یہ قصبہ کہلاتا ہے، یہ دریائے دارو سے باہر آباد ہے، اس میں ہزاروں مکانات تھے، غرناطہ کی 95 فیصد آبادی اس حصے میں رہتی تھی، گلیاں تنگ اور طویل تھیں، مکانات تین تین ،چار چار منزلہ تھے، ہر مکان کے اندر صحن تھا، صحن میں فوارہ اور انگور کی بیلیں ضرور ہوتی تھیں، مکانات کے باہر پھولوں کے گملے لٹکائے جاتے تھے، مارکیٹیں بھی تھیں، پولیس اسٹیشن بھی، اصطبل بھی اورصاف پانی کے کنوئیں بھی۔
شہر کے ہر کنوئیں کے ساتھ کچھوؤں کا پنجرہ ہوتا تھا، انتظامیہ صبح شام ان کچھوؤں کو کنوؤں میں اتارتی تھی، کچھوے اگر تیرتے رہتے تو پانی کو محفوظ قرار دے دیا جاتا تھا اور اگر کچھوا مر جاتا تو انتظامیہ کو فوراً معلوم ہو جاتا کسی دہشت گرد یا دشمن نے کنوئیں میں زہر ملا دیا ہے چنانچہ اس کنوئیں کو فوری طور پر بند کر دیا جاتا تھا، قدیم غرناطہ میں مسجدیں بھی تھیں لیکن 1492ء کے بعد ان تمام مسجدوں کو چرچز میں تبدیل کر دیا گیا، یہ آج تک چرچ ہیں، ان پر گھنٹیاں بجتی ہیں لیکن آپ اگر ان کے اندر داخل ہوں تو آپ کو وہاں ان قدیم مسجدوں کی خوشبو آئے گی جن میں طویل عرصے تک اللہ کا ذکر مہکا ہو، شہر کے اس حصے کی گرد فصیل ہوتی تھی، فصیل کے دروازے بھی تھے لیکن یہ فصیل دروازوں سمیت ختم ہو گئی۔
صرف نشان باقی ہیں، غرناطہ کا دوسرا حصہ الحمراء اور اس کے مضافات ہیں، غرناطہ کے پہلے حصے کے آخر میں دریائے دارو بہتا ہے، دریا کے دوسرے کنارے سے سبیکا کی پہاڑیاں شروع ہو جاتی ہیں، دریا کے دوسرے کنارے پر بھی ایک فصیل تھی اور اس فصیل کے اندر سلطنت کے مختلف عمائدین کی رہائش گاہیں تھیں، یہ رہائش گاہیں پہاڑ کے ساتھ ساتھ سیڑھیوں کی شکل میں اوپر جاتی ہیں، ان رہائش گاہوں کے بعد الحمراء کی فصیل تھی، محل اس فصیل کے اندر تھا۔
میں نے غرناطہ میں تین راتیں اور دو دن گزارے، میں اس شہر میں تیسری مرتبہ آیا، میرے دن شہر کے قدیم حصے میں گزرتے تھے، شامیں غاروں میں اور راتیں شہر کی اداس گلیوں میں۔ شہر کے پہلے حصے میں غار ہیں، ان غاروں میں خانہ بدوش رہتے ہیں، یہ لوگ ہزار سال قبل ہندوستان کے علاقے راجستھان سے غرناطہ آئے اور یہیں بس گئے، یہ ختانوں کہلاتے ہیں۔
غرناطہ کے غار اب غار نہیں رہے، یہ ریستوران اور ہوٹل بن چکے ہیں، ان ریستورانوں میں شام کے وقت فلامنکو ڈانس ہوتا ہے، یہ خانہ بدوشوں کا قدیم رقص ہے، اس میں صرف گٹار بجایا جاتا ہے، باقی سارے مراحل لکڑی کا فرش، رقص کرنے والی خواتین کے لکڑی کے جوتے اور ساتھیوں کی تالیاں پورے کرتی ہیں، یہ تالیاں اور ان کی لے ہماری قوالی کی ایکسٹینشن ہے، ختانوں کے گانوں کی لے مرثیوں سے ملتی جلتی ہے۔
یہ لوگ لے کے کلائمیکس پر پہنچ کر باقاعدہ سینے پر ہاتھ بھی مارتے ہیں، یہ خانہ بدوش صرف ان غاروں تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ شہر کے ایک بڑے اور مرکزی حصے پر بھی قابض ہیں، یہ بدمعاش ہیں، ہر قسم کے جرم میں ملوث ہوتے ہیں لیکن پولیس ان پر ہاتھ نہیں ڈالتی، کیوں؟ کیونکہ یہ ریاست سے تگڑے ہیں، ریاست نے ان کے دباؤ میں آ کر انھیں دس کلو گرام تک منشیات رکھنے کی اجازت بھی دے دی ہے،یہ لوگ سرکاری عمارتوں پر بھی قبضہ کر لیتے ہیں، یہ پانی، گیس اور بجلی کے بل بھی ادا نہیں کرتے، یہ لوگ سیاحوں کو بھی لوٹ لیتے ہیں۔
غرناطہ انگوٹھی ہے اور الحمراء اس انگوٹھی کا نگینہ۔ یہ محل انسان کی تعمیراتی صلاحیتوں کی معراج ہے، یہ ایک عظیم انسانی معجزہ ہے، آپ جوں ہی اس عظیم انسانی معجزے کی طرف رخ کرتے ہیں، آپ کی سوئی ہوئی جمالیاتی حسیں انگڑائی لے کر اٹھ جاتی ہیں، الحمراء عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’سرخ قلعہ‘‘ اور یہ سرخ قلعہ چیڑھ کے بلند درختوں اور سرو کی طویل دیواروں کے عین درمیان آباد ہے، محل 740 میٹر طویل اور 205 میٹر چوڑی بنیادوں پر بنایا گیا، محل کے 13 مینار اور برجیاں ہیں، یہ محل 890ء میں بنا، گیارہویں صدی عیسوی میں اس کی تزئین و آرائش ہوئی۔
1333ء میں شاہی محل بنا اور 1492ء تک بادشاہ کی سرکاری رہائش گاہ رہا، مسلمان معماروں اور عیسائی، یہودی آرکی ٹیکٹس میں ایک بڑا فرق تھا، یہودی اور عیسائی اپنا سارا تخلیقی زور پینٹنگز اور مجسموں میں لگا دیتے تھے، یہ برش اور تیشے سے ایسے ماسٹر پیس تخلیق کرتے تھے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی تھی چنانچہ پرانے بادشاہ محل اور چرچ بنواتے وقت اس دور کے عظیم مجسمہ سازوں اور مصوروں کو ہائر کر لیتے تھے، چرچ اور محل کی دیواریں اور چھتیں ان کے حوالے کر دی جاتی تھیں اور وہ لوگ کمال کر دیتے تھے چنانچہ آپ جب بھی یورپی بادشاہوں کے محلات اور قدیم چرچ دیکھتے ہیں تو ان کی دیواریں، چھتیں اور قربان گاہوں کے مجسمے آپ کو مبہوت کر دیتے ہیں۔
آپ ان کے آرٹ اور کلچر کو سلام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اسلام میں مجسمہ سازی اور مصوری کی گنجائش نہیں تھی چنانچہ مسلمان بادشاہوں کے پاس آپشن کم ہوتے تھے، یہ لوگ پھر کیا کرتے تھے؟ یہ کیلی گرافی، پچی کاری، شیشے، ٹائلز، پھولوں اور درختوں کا سہارا لیتے تھے اور آپ کو الحمراء میں یہ سارے عناصر ایک جگہ نظر آتے ہیں، آپ محل میں داخل ہوتے ہیں تو اس کے باغات، باغات میں پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں، چھوٹے چھوٹے فوارے، سرو کی دیواریں، فرش کے چھوٹے چھوٹے چھوٹے پتھر اور درختوں پر چہچہاتے پرندے آپ کے تخیل کو جکڑ لیتے ہیں۔
آپ باغات سے ہوتے ہوئے جوں جوں بادشاہ کی رہائش گاہ کی طرف بڑھتے جاتے ہیں، آپ کے دل پر بادشاہ کا شکوہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ آپ جوں ہی محل کی مرکزی ڈیوڑھی پر پہنچتے ہیں، آپ سر سے ٹوپی یا دستار اتارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، الحمراء کا آغاز ڈیوڑھی سے ہوتا ہے، یہ ایک گلی ہے جس کی دیواریں آسمان کو چھو رہی ہیں، آپ گلی سے ہوتے ہوئے پہلے ہال میں پہنچتے ہیں، ہال کی چھت، دیواریں اور فرش کمال ہے، ہال کی ہیبت آپ کے دل پر دستک دیتی ہے۔
اس ہال کے دو حصے ہیں، درمیانے حصے پر پردہ ہوتا تھا، بادشاہ بعض اوقات پردے کے پیچھے بیٹھ کر مہمانوں کی گفتگو سنتا تھا، اس ہال کے ساتھ نماز کا ایک چھوٹا سا کمرہ تھا، یہ کمرہ آج بھی موجود ہے، ہال کے ساتھ ایک طویل کوریڈور ہے، کوریڈور کی کھڑکیاں باغ کی طرف کھلتی ہیں، یہ کوریڈور ایک بڑے صحن میں کھلتا ہے، صحن کے چار اطراف چار چار منزلہ اونچی دیواریں ہیں، دیواروں کی تیسری منزل پر کھڑکیاں ہیں۔
کھڑکیوں کے پیچھے شہزادیوں اور ملکاؤں کے کمرے تھے، یہ ان کھڑکیوں سے مہمانوں کو دیکھ سکتی تھیں لیکن مہمان انھیں نہیں دیکھ سکتے تھے، یہ کھڑکیاں خصوصی طور پر بنوائی گئی تھیں، صحن کا فرش سفید سنگ مر مر کا ہے اور اس کے چاروں اطراف برآمدے ہیں، برآمدوں کی چھتیں فن کے عظیم پارے ہیں، یہ بادشاہ کے دربار کی پہلی منزل تھی، لوگ اس صحن میں رکتے تھے اور انھیں پھر آگے لے جایا جاتا تھا، اگلے حصے میں الحمراء کا دوسرا خوبصورت ترین صحن ہے، صحن کے عین درمیان پانی کا حوض ہے، حوض کے گرد سرو کی دو دو فٹ اونچی باڑ لگی ہے۔
دونوں سروں پر چابی جیسے دو فوارے ہیں، یہ فوارے حوض میں پانی گراتے ہیں، اس صحن کے چاروں اطراف بھی برآمدے ہیں لیکن یہ برآمدے پچھلے برآمدوں کے مقابلے میں دس گنا خوبصورت اور پرہیبت ہیں، یہ صحن بادشاہ کا دربار تھا، صحن کے ایک طرف یعنی پہلی چابی کے قریب بادشاہ کا کیبنٹ روم تھا، بادشاہ یہاں اپنے مشیروں سے مشورے کرتا تھا اور دوسری چابی کے ساتھ بادشاہ کا دربار تھا اور آپ جوں ہی اس دربار میں داخل ہوتے ہیں، آپ خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اور آپ خواہ کتنے ہی سنگ دل اور سڑیل کیوں نہ ہوں، آپ اپنی زبان کو سبحان اللہ کہنے سے نہیں روک سکتے اور وہاں ہر شخص کی زبان پر سبحان اللہ تھا۔
آہ غرناطہ
جاوید چوہدری جمعرات 27 اگست 2015

سن تھا 1492ء، مہینہ تھا جنوری اور تاریخ تھی دو۔ غرناطہ کی دس سالہ جنگ کا آخری دن آ چکا تھا، آراگون کا بادشاہ فرڈینینڈ اپنی بیگم ازابیلہ کے ساتھ الحمراء کے گیٹ پر پہنچ گیا۔
1492ء تک اسپین میں پانچ ریاستیں تھیں، آراگون، کاسٹیل، پرتگال، نوار اور غرناطہ۔ آج کا اسپین اور پرتگال ان پانچ ریاستوں پر قائم ہیں، مسلمان جبرالٹر سے لے کر میڈرڈ اور قرطبہ سے لے کر فرانس کے صوبے لیون تک قابض تھے، عیسائی بادشاہوں نے بالآخر مسلمانوں کی طاقت توڑنے کے لیے آراگون کے شہزادے فرڈینینڈ کی شادی کاسٹیل کی شہزادی ازابیلہ کے ساتھ کرا دی، فرڈینینڈجنوری 1475ء میں بادشاہ بن گیا اور ازابیلہ ملکہ، دونوں ملکوں کی فوجیں اکٹھی ہو گئیں، عالم اسلام اس وقت بری طرح افراتفری اور طوائف الملوکی کا شکار تھا، مسلمان ،مسلمان کا گلہ کاٹ رہے تھے۔
اسپین کے عیسائی بادشاہوں نے ان حالات کا فائدہ اٹھایا اور یہ ایک ایک کر کے مسلمان علاقوں پر قابض ہوتے گئے، غرناطہ ان کی آخری منزل تھا، عیسائیوں کی مشترکہ فوج نے 1482ء میں غرناطہ پر حملہ کیا، جنگیں شروع ہوئیں اور دس سال تک چلتی رہیں، مسلمان آہستہ آہستہ مار کھاتے رہے یہاں تک کہ 1491ء میں اسپین کے آخری مسلمان فرمانروا ابو عبداللہ محمد کی بادشاہت غرناطہ اور اس کے جادوئی محل الحمراء تک محدود ہو کر رہ گئی، شاہی خاندان قلعے میں محصور ہو کر بیٹھ گیا، غرناطہ پہاڑ کی اترائیوں پر قائم تھا، الحمراء ایک ناقابل شکن قلعے میں محفوظ تھا، قلعے کے گرد پہاڑ کے دامن میں دریا بہتا تھا، یہ دریا آج بھی موجود ہے لیکن یہ اب مسلمانوں کے ہجر میں ایک چھوٹا سا نالہ بن چکا ہے۔
عیسائی فوج نے قلعے کا محاصرہ کر لیا، محاصرہ طول پکڑ گیا، اس دوران مذاکرات شروع ہوئے اور مذاکرات کے آخر میں مسلمانوں کے آخری بادشاہ نے غرناطہ کی سلطنت اور الحمراء دو شرطوں پر عیسائیوں کے حوالے کرنے کا عندیہ دے دیا ’’مجھے، میرے خاندان اور میرے خزانے کو بحفاظت غرناطہ سے نکلنے کی اجازت دے دی جائے اور دوم، قبضے کے بعد غرناطہ کے تمام مسلمانوں کی جان، مال اور ایمان کی گارنٹی دی جائے‘‘ عیسائی بادشاہ اور ملکہ نے یہ دونوں شرائط فوراً مان لیں، ابو عبداللہ محمد نے اپنے آباؤ اجداد کی قبریں کھودیں، ان کی ہڈیاں نکالیں، صندوقوں میں بھریں، خزانہ اکٹھا کیا، خاندان کو ساتھ لیا اور الحمراء کی چابیاں لے کر الحمراء کے گیٹ پر آ گیا، فرڈینینڈ بھی ازابیلہ کے ساتھ گیٹ پر پہنچ گیا اور یہ سن تھا 1492ء، مہینہ تھا جنوری اور تاریخ تھی دو۔
تاریخ کروٹ بدل رہی تھی، ایک ایسا المیہ جنم لے رہا تھا جو آج 523 برس بعد بھی دنیا کے ہر مسلمان کی آنکھ گیلی کر دیتا ہے، دو بادشاہ آمنے سامنے کھڑے ہو گئے، ایک بادشاہ وہ تھا جس کے آباؤ اجداد نے 710ء میں یہ زمین مسلمانوں کے ہاتھوں ہار دی تھی اور دوسرا بادشاہ وہ تھا جس کے اجداد نے اس زمین پر 780ء سال حکومت کی، جس کے سائنس دانوں نے یورپ کو ٹائی، سوپ، صابن، کرسٹل، پیرا شوٹ، اسٹیم باتھ، کٹلری اور انصاف کا تحفہ دیا، جس کے بزرگوں نے الحمراء جیسی ایک ایسی جنت تخلیق کی جو اس سے قبل تخلیق ہوئی اور نہ ہی ہو گی اور جو کافر زمینوں پر اللہ کے نام کا والی تھا، دونوں بادشاہ اپنی اپنی تاریخ کا بوجھ کندھوں پر لاد کر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔
فاتح بادشاہ اونچی جگہ پر تھا اور مفتوح قوم کا ہارا ہوا بادشاہ پست جگہ پر کھڑا تھا، ملکہ ازابیلہ تفاخر کے ساتھ ان کے قریب کھڑی تھی، فاتح بادشاہ نے الحمراء کی چابیوں کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا، ابو عبداللہ محمد نے چابیاں پکڑانے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو 780ء سالوں کے بوجھ نے اس کا ہاتھ لرزا دیا، ہاتھ ہلا اور چابیاں فرڈینینڈ اور ازابیلہ کے قدموں میں گر گئیں، ابو عبداللہ محمد اضطراری طور پر چابیاں اٹھانے کے لیے جھکا لیکن اس کے جھکنے سے پہلے ہی فرڈینینڈ نے اس کا کندھا پکڑ لیا، اسے روکا اور کہا ’’ نہیں بادشاہ نہیں! الحمراء ایسی دولت ہے جس کے لیے ہم تمہارے قدموں میں جھکنے کے لیے تیار ہیں‘‘ اور اس کے ساتھ ہی وہ دونوں جھکے اور ابوعبداللہ محمد کے قدموں سے الحمراء کی چابیاں اٹھا لیں، غرناطہ کی ضلعی حکومت نے اس واقعے کا مجسمہ بنا کر شہر کے قدیم حصے کے شروع میں نصب کر دیا، یہ فوارہ ہے ۔
جس کے اوپر فرڈینینڈ اور ابو عبداللہ محمد کے مجسمے لگے ہیں اور ساتھ ہی شکست کی وہ دستاویز لہرا رہی ہے جس پر مہر لگا کر ابو عبداللہ محمد نے یورپ میں 780ء سالہ مسلمان سلطنت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، ابو عبداللہ محمد الحمراء کی چابیاں سونپ کر اپنے خاندان کے ساتھ غرناطہ سے نکلا، یہ غرناطہ کی وادی سے نکل کر سمندر کی جانب روانہ ہوا، آپ اگر غرناطہ جائیں تو آپ کو یہ شہر وادی میں دکھائی دے گا، غرناطہ ایک ایسی وادی ہے جس کے چاروں اطراف پہاڑ ہیں اور یہ شہر ان پہاڑوں کے پیالے میں واقع ہے، وہ غرناطہ سے نکل کر سستانے کے لیے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر رکا، غرناطہ شہر اس کے سامنے بکھرا ہوا تھا، الحمراء کے مینار اور چوکیاں وہاں سے نظر آ رہی تھیں۔
وہ آخری بار اپنا شہر دیکھ رہا تھا، اس سے برداشت نہ ہوا، اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اس کی جہاں دیدہ ماں پاس کھڑی تھی، ماں نے غصے سے بیٹے کی طرف دیکھا اور وہ تاریخی فقرہ بولا جو آنے والے دنوں میں محاورہ بن گیا، ماں نے کہا ’’ بیٹا جس سلطنت کی تم مردوں کی طرح حفاظت نہیں کر سکے اب اس کے لیے عورتوں کی طرح آنسو نہ بہاؤ‘‘ یہ فقرہ اور یہ جگہ دونوں اب تاریخ کا حصہ ہیں، میں ہفتہ 22 اگست کو اس جگہ پہنچا جہاں ابوعبداللہ محمد کی ماں نے یہ تاریخی فقرہ کہا تھا، اس جگہ اب ایک چھوٹا سا گاؤں آباد ہے، گاؤں کا نام سسپیرو ڈل مورو (Suspiro Dil Moro) ہے۔
اسپینش زبان میں سسپیرو ایسے لمبے سانس کو کہتے ہیں جس میں آہ شامل ہوتی ہے جب کہ مور ان مسلمانوں کو کہا جاتا ہے جو مراکش سے آ کر اسپین پر قابض ہوئے، آپ اس مناسبت سے اس گاؤں کو ’’مسلمانوں کی آہ‘‘ کہہ سکتے ہیں، یہ گاؤں ابوعبداللہ محمد کی آہ کی نسبت سے ’’سسپیرو ڈل مورو‘‘ بن گیا، مسلمانوں کا آخری بادشاہ جہاں بیٹھا تھا وہاں آج کل ایک ریستوران قائم ہے، ریستوران بند تھا لیکن ریستوران کا سوئمنگ پول کھلا تھا اور اس پول میں خواتین اور بچے نہا رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے، اس جگہ سے واقعی غرناطہ دکھائی دیتا تھا لیکن الحمراء اور آہ کے درمیان دو بلند قامت عمارتیں حائل ہو چکی ہیں۔
مجھے وہاں سے الحمراء کے برج نظر نہیں آئے لیکن اس کے باوجود دل کی سرخ دیواروں نے ایک آہ کو جنم دیا اور میں اس آہ کو منہ سے نکلنے سے نہ روک سکا، میرا گلہ نمکین تھا اور پلکیں بھاری تھیں، دنیا کے تمام مسلمان حکمرانوں کو چاہیے وہ اپنی ناشکری قوموں کے لیے لازم قرار دے دیں، یہ لوگ زندگی میں کم از کم ایک بار اس پہاڑی پر ضرور آئیں، یہاں سے غرناطہ دیکھیں اور اس کے بعد دنیا کی اس سفاک حقیقت کو محسوس کریں جو چیخ چیخ کر دنیا کے ہر شخص سے کہہ رہی ہے، لوگ اور قومیں جب کمزور ہوتی ہیں تو ان کے پاس عورتوں کی طرح آنسو بہانے اور ہارے ہوئے مردوں کی طرح آہیں بھرنے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
غرناطہ اور الحمراء کیا ہیں، دنیا کا کوئی شخص انھیں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا، آپ دل اور دماغ کے آخری کونے کی آخری دیواروں کے ساتھ چپکے آخری خیالات کی آخری خوشبو کو لفظوں میں بیان کر سکتے ہیں، آپ برش کے ذریعے ان کا عکس کینوس پر بھی اتار سکتے ہیں اور آپ ان کی دھن بنا کر ہوا کے پروں پر بھی نقش کر سکتے ہیں لیکن الحمراء کیا ہے، غرناطہ کیا ہے؟ آپ ان سوالوں کو دھن کے ذریعے ایکسپلین کر سکتے ہیں۔
انھیں رنگوں کے ذریعے منعکس کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں لفظوں اور حرفوں میں بیان کر سکتے ہیں، یہ ایک ایسی جادونگری ہے جسے آپ صرف آنکھوں سے محسوس کر سکتے ہیں اور آنکھوں ہی میں درج کر سکتے ہیں، یہ ایک ایسا آئینہ ہے جسے دیکھنے کے لیے ایک دوسرا آئینہ چاہیے، یہ عاشق کا وہ درد ہے جسے صرف عاشق ہی محسوس کر سکتے ہیں، یہ مصور کا وہ احساس ہے جسے صرف مصور ہی محسوس کر سکتے ہیں اور یہ ہجر اور فراق کی راتوں میں گندھی ہوئی وہ داستان ہے جسے صرف وہ لوگ محسوس کر سکتے ہیں جن کے نامہ اعمال میں فراق کی 523 کروٹیں درج ہوں۔
آپ جب تک حس جمال کے ساتویں آسمان کو نہیں چھوتے، آپ جب تک حزن و ملال کی آخری آہ تک نہیں پہنچتے اور آپ جب تک ذائقے کی اس آخری حد کو نہیں چوم لیتے جہاں پہنچ کر ذائقہ خوشبو بن جاتا ہے، آپ اس وقت تک غرناطہ اور الحمراء کو نہیں سمجھ سکتے، یہ شہر ایسی دھن ہے جسے انگلیاں نہیں بجاتیں نظریں بجاتی ہیں، یہ ایک ایسی پینٹنگ ہے جو رنگوں اور برش سے تخلیق نہیں ہوتی، یہ آنسوؤں کی سیاہی اور پلکوں کے برش سے دل کے کینوس پر اتاری جاتی ہے اور یہ ایک ایسا نغمہ ہے جس میں لفظ اور آوازیں نہیں ہوتیں خوشبو اور لمس ہوتے ہیں۔
آپ اس شہر اور اس شہر کے محل کو لفظوں میں ایکسپلین کر ہی نہیں سکتے۔
آج کا جبرالٹر
جاوید چوہدری منگل 25 اگست 2015

جبرالٹر براعظم افریقہ اور براعظم یورپ کے عین درمیان واقع ہے، مراکش افریقہ کا ملک ہے اور جبرالٹر یورپ کا پہلا ملک ہے، مراکش کا شہر طنجہ جبرالٹر سے صرف 14 کلو میٹر دور ہے، یہ سفر فیری پر آدھ گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے، جبرالٹر کے پہاڑ سے طنجہ کی روشنیاں نظر آتی ہیں، دنیا کے ستر فیصد بحری جہاز بحیرہ اوقیانوس سے آتے ہیں اور آبنائے جبرالٹر سے گزرکر بحیرہ روم جاتے ہیں اور وہاں سے اسی راستے واپس آتے ہیں، یہ تین اطراف سے پانی میں گھرا ہوا ہے۔
شہر کے دو حصے ہیں، پہاڑ اور زمین۔ پہاڑبھی دو ہیں، ایک زیادہ بلند ہے اور دوسرا نسبتاً کم بلند، دونوں پہاڑوں کے درمیان اونچے درخت اور جھاڑیاں ہیں، یہ جھاڑیاں اور درخت پہاڑوں کو آپس میں ملاتی ہیں، آپ اگر دور سے جبرالٹر کے پہاڑ دیکھیں تو یہ آپ کو بحری جہاز محسوس ہوں گے، زمینی علاقے گرم ساحلوں پر مشتمل ہیں، زمین کا نصف سے زائد حصہ سمندر میں مٹی او رپتھر ڈال کر مصنوعی طور پر بنایا گیا ہے، شہر کی زیادہ تر رہائشی عمارات، دفاتر اور شاپنگ سینٹر اسی مصنوعی زمین پر قائم ہیں، شہر یا ملک کا کل رقبہ چھ کلو میٹر ہے، آپ 45 منٹ میں پورا ملک پیدل گھوم سکتے ہیں۔
ملک پر برطانیہ کا قبضہ ہے، زبان انگریزی اور کرنسی پاؤنڈ اسٹرلنگ ہے، سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں پر یونین جیک لہراتا ہے، جبرالٹر میں داخلے کے لیے برطانیہ کا ویزہ ضروری ہے تاہم آپ اگر یورپی شہریت رکھتے ہیں یا آپ کے پاس اسپین سمیت یورپ کے کسی ملک کا پاسپورٹ موجود ہے تو آپ کو بارڈر پر’’انٹری‘‘ مل سکتی ہے، اسپین کے آخری شہر لالینا میں جبرالٹر میں داخلے کے لیے قطار لگ جاتی ہے، آپ اپنی گاڑی پر بھی ملک میں داخل ہو سکتے ہیں اورگاڑی اسپین میں کھڑی کر کے پیدل بھی اندر جا سکتے ہیں، کل آبادی صرف 32 ہزار ہے جب کہ روزانہ 18 ہزار سیاح ملک میں آتے ہیں، مسلمان سات فیصد اور یہودی تین فیصد ہیں، جبرالٹر میں چار پانچ پاکستانی ڈاکٹر بھی رہتے ہیں۔
مجھے وہاں ڈاکٹر پرویز ملے، یہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہنے والے ہیں، یہ 13 سال سے جبرالٹر میں رہائش پذیر ہیں، ملک کے مشہور ڈاکٹر ہیں، پورا شہر انھیں جانتا ہے، یہ جہاں جاتے ہیں لوگ انھیں جھک کر ملتے ہیں، جبرالٹر میں چھ سو ہندو بھی آباد ہیں، یہ لوگ سندھ سے تعلق رکھتے تھے، یہ لوگ ڈیڑھ سو سال پہلے نواب شاہ، لاڑکانہ اور کراچی سے ممبئی شفٹ ہوئے، ممبئی میں سو سال قبل تین تجارتی کمپنیاں بنیں، یہ کمپنیاں برطانوی راج کے مختلف ملکوں میں کام کرتی تھیں، یہ سندھی ہندو ان کمپنیوں کے ذریعے جبرالٹر پہنچے، کمپنیاں ختم ہو گئیں لیکن یہ اس جادونگری میں بس گئے، یہ تمام لوگ تجارت پیشہ ہیں۔
ملک کی زیادہ تر دکانیں ان کے پاس ہیں، مجھے شہر میں چندو نام کا ایک سندھی ہندو ملا، اس کے بزرگ 1852ء میں جبرالٹر آئے تھے، یہ آج بھی سندھی، ہندی اور اردو بولتا ہے، اس کی ماں کی عمر 82 سال ہے، یہ نواب شاہ سے تعلق رکھتی ہیں، یہ زندگی میں ایک بار نواب شاہ دیکھنا چاہتی ہیں، چندو کو جب پتہ چلا، میں پاکستانی ہوں تو اس نے منت کے انداز میں کہا ’’ آپ میری ماں کو مرنے سے قبل نواب شاہ دکھا سکتے ہیں؟‘‘ میں نے اس سے وعدہ کر لیا، سرحدیں اور سرحدوں کے پیچھے چھپی نفرت کتنی خوفناک ہوتی ہے؟۔
جبرالٹر ’’کرائم فری‘‘ ہے، لوگ دروازے اور گاڑیاں کھلی چھوڑ جاتے ہیں، ملک میں کسی کا پرس گر جائے تو وہ گھوم گھام کر اس تک پہنچ جاتا ہے، جبرالٹر کی تاریخ میں آج تک صرف دو قتل ہوئے، چوری کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں، گورنر ملک کا سربراہ ہے، اس کی تعیناتی ملکہ برطانیہ کرتی ہے، گورنر ہاؤس مین اسٹریٹ میں واقع ہے اور گورنر عام لوگوں کی طرح باہر نکل کر چلتا پھرتا رہتا ہے، جبرالٹر کا ائیر پورٹ دنیا کا حیران کن ہوائی اڈہ ہے۔
ائیرپورٹ کی آدھی لینڈنگ اسٹرپ پانی کے اندر ہے، یہ حصہ سمندر میں پتھر اور مٹی ڈال کر تعمیر کیا گیا، باقی حصہ خشکی پر قائم ہے لیکن ان دونوں کے درمیان ملک کی مرکزی سڑک ہے، یہ سڑک ائیر اسٹرپ کو کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، سڑک پر ہر وقت ٹریفک رواں دواں رہتی ہے، جہاز کی لینڈنگ اور ٹیک آف کے دوران یہ سڑک بند کر دی جاتی ہے، جہاز اترتا یا ٹیک آف کرتا ہے اور پھر سڑک دوبارہ ٹریفک کے لیے کھول دی جاتی ہے، جہاز کی لینڈنگ کے لیے خصوصی مہارت درکار ہوتی ہے کیونکہ ایک سیکنڈ کی غلطی سے جہاز سیدھا پانی میں جا سکتا ہے۔
جبرالٹر کے لوگ صلح جو اور مہذب ہیں، یہ رک کر ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے ہیں، کوئی بیمار ہو جائے یا کسی کی شادی ہو تو پورے ملک کو معلوم ہوتا ہے، ملک کے دو بڑے سورس آف انکم ہیں، سیاحت اور آن لائن جواء۔ ملک کی نصف آبادی سے زیادہ سیاح روزانہ یہاں آتے ہیں، یہ سیاح ملک کی معیشت چلا رہے ہیں، حکومت نے آن لائن جوئے کی سہولت بھی دے رکھی ہے چنانچہ دنیا کی تمام بڑی ’’آن لائن گیمبلنگ ویب سائٹس،، جبرالٹر میں قائم ہیں، تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ فری ہے، بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دیے جاتے ہیں، بچے ان وظائف کے ذریعے برطانیہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں، حکومت ان طالب علموں کو رہائش اور ہوائی ٹکٹ تک دیتی ہے،عوام کے لیے علاج مفت ہے۔
ملک کے اندر ٹرانسپورٹ بھی فری ہے، آپ کسی بھی جگہ بس میں سوار ہو جائیں اور جہاں چاہیں اتر جائیں۔ میں نے بڑی جدوجہد کے بعد وہ جگہ تلاش کی جہاں طارق بن زیاد اترا تھا اور اس نے اپنی کشتیاں جلائی تھیں، یہ ایک چھوٹا سا ساحلی علاقہ ہے، آج کل وہاں رہائشی ایریا ہے، میں گھروں کے صحنوں سے ہوتا ہوا بالآخر اس مقام تک پہنچ گیا جہاں طارق بن زیاد نے 5 اپریل 710ء کو قدم رکھا تھا، اسلام کے اس عظیم مجاہد نے اپنی کشتیاں بھی یہیں جلائیں تھیں، میں چند لمحے وہاں اداس کھڑا رہا، طارق بن زیاد نے وہاں ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنائی تھی لیکن وہ مسجد ختم ہو چکی ہے تاہم سعودی عرب نے وہاں سفید رنگ کی ایک خوبصورت سی مسجد تعمیر کر دی ہے، یہ مسجد ساحل اور جبرالٹر کی سبز پہاڑیوں کے درمیان واقع ہے اور یہ ماحول کو خوبصورت بھی بناتی ہے اور وہاں تقدس کے سگنل بھی پھیلاتی ہے، میں بڑی دیر اس ماحول کا حصہ بنا رہا۔
جبرالٹر کی اصل اٹریکشن اس کی دونوں پہاڑیاں ہیں، یہ چونے کے پتھر کی پہاڑیاں ہیں، پہاڑیوں پر دیکھنے کی چار چیزیں ہیں، پہلی چیز اس کے غار ہیں، پہاڑ کے اندر 52 کلو میٹر لمبے 140 غار ہیں، یہ غار جبرالٹر کی چھاؤنیاں ہیں، غار میں گولہ بارود بھی ہے اور فوجی جوانوں کی رہائش گاہیں بھی۔ غاروں کا فوجی استعمال 1779ء سے 1783ء کے درمیان شروع ہوا، اس دور میں یورپ کے بڑے ملکوں نے جبرالٹر پر قبضے کے لیے اس کا محاصرہ کر لیا، دشمنوں کی 33 ہزاز فوج نے جزیرے کو گھیر لیا، ملک کی آبادی سات ہزار تھی، یہ لوگ پہاڑوں پر چڑھ گئے، پہاڑوں کے اندر پہلے سے غار موجود تھے۔
جبرالٹر کے لوگوں نے ان پہاڑوں کو وسیع کیا، ان کے دھانوں پر توپیں لگائیں اور وہاں سے دشمنوں پر گولہ بار ی شروع کر دی، یہ ایک حیران کن تکنیک تھی، دشمن نے چار سال محاصرہ کیے رکھا لیکن وہ کوشش کے باوجود جبرالٹر پر قبضہ نہ کر سکا، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے یہ غار جبرالٹر کا پینٹا گان ہیں، پہاڑوں میں دیکھنے والی دوسری چیز اس کی سو سو ٹن کی دوبڑی توپیں ہیں، یہ توپیں دونوں پہاڑوں پر نصب ہیں، ایک توپ کا رخ مراکش کی طرف ہے اور دوسری اسپین کو فوکس کیے ہوئے ہے، یہ توپیں دس کلو میٹر تک مار کر سکتی ہیں اور یہ ملک کا سب سے بڑا دفاع ہیں۔
تیسری چیز بندر ہیں، پہاڑ پر افریقہ کے دم کٹے بندر ہیں، یہ بندر مراکش سے جبرالٹر کیسے آئے؟ لوگ اس کے دو جواب دیتے ہیں، لوگوں کا خیال ہے سمندر کے نیچے ایک طویل ٹنل موجود ہے، زمانہ قدیم میں بندر اور انسان اس ٹنل کے ذریعے مراکش سے جبرالٹر آئے تھے لیکن یہ جواز سائنسی لحاظ سے ثابت نہیں ہو پا رہا، دوسرے جواب کے مطابق یہ بندر پہلی یا دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی فوجیوں کی تفریح کے لیے یہاں لائے گئے ، یہ بعد ازاں جنگل میں چھوڑ دیے گئے اور یہ اب قبیلہ بن کر زندگی گزار رہے ہیں، میں نے پہاڑ پر چڑھ کر یہ بندر دیکھے، بندر بھی مجھے دیر تک دیکھتے رہے، یہ شاید مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے، پہاڑوں کی چوتھی اہم چیز اس کا مسلمان قلعہ ہے۔
طارق بن زیاد نے اپنے زمانے میں سمندر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پہاڑ کی اترائی پر چھوٹا سا قلعہ بنایا تھا، وہ قلعہ وقت کے ہاتھوں ختم ہوگیا، چودہویں صدی عیسوی کے مراکشی حکمرانوں نے بعد ازاں انھی بنیادوں پر نیا قلعہ تعمیر کیا، یہ قلعہ آج تک قائم ہے اور یہ مورش قلعہ کہلاتا ہے، اسپین کے لوگ مسلمانوں کو مراکش کی نسبت سے موریا یا مورش کہتے تھے، پہاڑ کے شروع میں یونانی خدا ہرکولیس کا ایک ستون بھی ایستادہ ہے۔
ہمارے گائیڈ نے بتایا، اس نوعیت کا دوسرا ستون طنجہ میں ہے، یہ دونوں ستون دو مختلف تہذیبوں اور ان تہذیبوں کے درمیان موجود سمند ر کا اظہار ہیں، جبرالٹر میں پورے یورپ کے مقابلے میں پٹرول سستا ہے، حکومت نے حکمت عملی کے تحت پٹرول سستا کیا، پٹرول سستا ہونے کی وجہ سے بحری جہاز جبرالٹر سے روزانہ لاکھوں ٹن پٹرول خریدتے ہیں، حکومت پٹرول سے کوئی منافع نہیں کماتی لیکن یہ جہازوں کی پارکنگ فیس اور محصول کی مد میںاربوں روپے سالانہ کما لیتے ہیں اور یہ رقم بعد ازاں عوام کی بہبود پر خرچ ہوتی ہے۔
جبرالٹر اور غرناطہ کے اس سفر کے دوران میرے دوستوں کی فہرست میں ایک اچھا اضافہ ہوا، غرناطہ میں ایک پاکستانی نوجوان کاروبار کرتے ہیں، یہ سہیل مقصود ہیں، گجرات کے رہنے والے ہیں، یہ یورپ کے مختلف ملکوں میں دھکے کھاتے ہوئے غرناطہ پہنچے، آج سے چار سال قبل ایک چھوٹی سی دکان شروع کی، اللہ نے کرم فرمایا، یہ دکان، دکانیں ہوئیں اور پھر یہ کیش اینڈ کیری میں تبدیل ہو گئیں، یہ مثبت ذہن کے ان تھک انسان ہیں، یہ اپنے دو بھائیوں ساجد اور ماجد کے ساتھ غرناطہ میں رہتے ہیں، یہ تینوں بھائی دن رات کام کرتے ہیں اور پاکستان کو یاد کرتے ہیں۔
غرناطہ جیسے دور دراز شہر میں کسی پاکستانی سے ملاقات خوشی کی بات تھی، سہیل مقصود کے سادہ پن نے میرا دل موہ لیا،ملک سے باہر آباد پاکستانی نوجوان سہیل مقصود جیسے لوگوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، غرناطہ اور جبرالٹر کے اس سفر میں سہیل مقصود جیسے شخص کا ملنا نعمت سے کم نہیں تھا، سچ ہے دوست بھی رزق کی طرح ہوتے ہیں، یہ آپ اور آپ ان سے مل کر ہی رہتے ہیں مگر سہیل صاحب کا ملنا اپنی جگہ لیکن جبرالٹر میں مسلمانوں کے زوال کی داستان اور اس کی اداسی دوسری جگہ۔ یہ اداسی اب پوری زندگی سانس کی طرح وجود میں دوڑتی بھاگتی رہے گی۔
جبرالٹر سے
جاوید چوہدری اتوار 23 اگست 2015

اور میں پھر طارق بن زیاد کے شہر میں داخل ہو گیا، جبرالٹر میرے سامنے تھا، دور دور تک تاحد نظر سمندر کا نیلگوں پانی تھا، پانی کے درمیان خشکی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا، خشکی کے اس چھوٹے سے ٹکڑے پر پہاڑیاں تھیں اور ان پہاڑیوں پر موسیٰ بن نصیر کے اس غلام زادے کے قدموں کے نشان تھے جنھیں اس کی زندگی میں بھی مٹانے کی کوشش کی گئی، اس کی موت کے بعد بھی اور پھر تاریخ کے قبرستان میں دفن ہونے کے بعد بھی لیکن اللہ جب کسی کو عزت دیتا ہے تو پھر پوری دنیا مل کر بھی اس کا نام گہنا نہیں سکتی اور طارق بن زیاد اس سچائی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت تھا، ثبوت ہے اور ثبوت رہے گا، آپ اگر اسپین میں سفر کریں، اندلس کی اس سلطنت میں داخل ہوں جس کی بنیاد مسلمانوں نے 710ء میں رکھی تھی، جس میں مسلمانوں نے قرطبہ، غرناطہ، اشبیلیہ اور طلیطہ جیسے شہر آباد کیے اور جہاں سے مسلمانوں نے آدھا فرانس فتح کر لیا۔
آپ اس گم گشتہ اندلس میں سفر کرتے ہوئے مراکش کی طرف چلیں، آپ غرناطہ سے ہوتے ہوئے لالینا پہنچیں، لالینا میں اسپین ختم ہو جائے گا تو آپ کو سمندر کے پانیوں میں خشکی کا ایک ٹکڑا ڈولتا ہوا نظر آئے گا، یہ ٹکڑا وہ زمین ہے جسے عربوں نے طارق بن زیاد کے نام سے منسوب کیا، اسے جبل طارق کا نام دیا، یورپ میں مسلمانوں کی سلطنت سات سو سال کا سفر طے کر کے ختم ہوئی، جب اندلس کا آخری مسلمان بھی وہاں سے رخصت ہو گیا اور جبل طارق پر بھی عیسائی جھنڈا لہرا دیا گیا تو ہسپانیہ کے لوگوں نے جبل طارق کو جبرالٹر بنا دیا، نام بدل گیا لیکن تاریخ آج بھی اسے جبل طارق ہی کہتی ہے اور یہ آخری سانس تک یہی کہتی رہے گی کیونکہ یہ اعزاز اللہ نے اس بربر زادے کو بخشا تھا اور قدرت کے بخشے اعزازوں کی کوئی ایکسپائری ڈیٹ نہیں ہوا کرتی۔
طارق بن زیاد کون تھا؟ یہ ہمیں ہمارے پنجابی استادوں نے تیسری جماعت میں پڑھا دیا تھا، وہ کہاں سے آیا، اس نے کہاں اور کیوں اپنی کشتیاں جلائیں، وہ کس جرات مندی سے لڑا اور اس نے آخر میں کیا کامیابی حاصل کی؟ یہ داستان بھی بچپن ہی میں ہمارے ذہنوں میں بھر دی گئی تھی، ہم قرطبہ کا قاضی، غرناطہ کے آخری مسلمان حکمران ابو عبداللہ محمد اور مسجد قرطبہ کی داستانیں پڑھ پڑھ کر جوان ہوئے ہیں، رہی سہی کسر مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں نے پوری کر دی، مستنصر صاحب صرف لکھاری، افسانہ نویس یا سفر نامہ نگار نہیں ہیں، یہ پاکستان کی تین نسلوں کے محسن بھی ہیں، انھوں نے ملک میں سفر کا شوق بھی پیدا کیا اور لوگوں کو دنیا دیکھنے کا جذبہ بھی عنایت کیا، میں مستنصر صاحب کے قدموں پر قدم رکھتا ہوا تیسری بار اندلس پہنچا ہوں، پہلے دو سفر ادھورے تھے، میں نے ان سفروں میں قرطبہ بھی دیکھا اور غرناطہ بھی۔ میں رات کے آخری پہر میں قرطبہ کی گلیوں میں بھی پھرا اور میں نے الحمراء کے شیروں والے فوارے کے ساتھ تصویر بھی بنائی لیکن دو حسرتیں رہ گئیں۔
الحمراء کے سامنے قدیم ہوٹل ہیں، ان کی کھڑکیوں سے الحمراء نظر آتا ہے، میں ان میں سے کسی ہوٹل کی کھڑکی سے الحمراء کی شام دیکھنا چاہتا تھا لیکن مجھے دونوں مرتبہ ہوٹل میں کمرہ نہ ملا، میں اس بار پاکستان ہی سے بندوبست کر کے غرناطہ پہنچا، دوسرا میں زندگی میں کم از کم ایک بار طارق بن زیاد کا شہر جبرالٹر بھی دیکھنا چاہتا تھا، میں اس زمین کو ہاتھ لگانا چاہتا تھا، میں اس پر سجدہ ریز ہونا چاہتا تھا جس پر پہنچ کر طارق بن زیاد نے عصر کی نماز ادا کی، اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعا کی، اپنے جہازوں (کشتیوں) کو آگ لگائی اور پھر اپنے مٹھی بھر لشکر سے مخاطب ہوا، آپ کے آگے دشمن اور پیچھے سمندر ہے، فیصلہ تم نے کرنا ہے، تم نے لڑ کر جیت کر زندہ رہنا ہے یا پھر سمندر میں ڈوب کر جان دینی ہے، جوانوں نے یک آواز ہو کر جواب دیا، ہم جئیں یا مریں، ہم لڑیں گے، ہم لڑیں گے اور پھر یورپ میں پہلی مسلمان ریاست نے جبرالٹر میں آنکھ کھولی، میں جبرالٹر کو دیکھنے کی حسرت میں جمعہ کی دوپہر جبرالٹر پہنچ گیا، پورا شہر، پورا ملک سامنے بکھرا تھا۔
وہ بنو امیہ کا دور تھا، ولید بن مالک مسلمانوں کا خلیفہ تھا، دمشق اسلامی ریاست کا دارالحکومت تھا، موسیٰ بن نصیر افریقہ کا والی تھا، ابراہیم بن یوسف موسیٰ کا خادم تھا، ابراہیم نے زندگی کے ہر اس موڑ پر اپنے آقا کا ساتھ دیا جہاں سارے ساتھی ساتھ چھوڑ گئے، ابراہیم نے دوبار موسیٰ کی جان بھی بچائی، موسیٰ نے اس وفاداری کے بدلے ابراہیم کو اپنا منہ بولا بھائی اور نائب قرار دے دیا، ابراہیم ایک جنگ میں شہید ہو گیا، ابراہیم کی بیوہ نے اپنے ننھے بیٹے طارق کا ہاتھ پکڑا اور موسیٰ کے محل پہنچ گئی، موسیٰ نے طارق کے سر پر ہاتھ رکھ دیا، یوں طارق بن زیاد موسیٰ بن نصیر کی سرپرستی میں آ گیا، وہ ایک پیدائشی جرنیل تھا، سپہ گری اس کے خون میں شامل تھی، وہ تلوار کے ساتھ اس طرح کھیلتا تھا جس طرح پرندے ہواؤں سے کھیلتے ہیں، وہ بلا کا ذہین بھی تھا، ایمان اور شجاعت بھی اس پر فدا تھی، وہ جوان ہوا تو موسیٰ بن نصیر نے اسے طنجہ کا گورنر بنا دیا، یہ شہر آج کل مراکش کا حصہ ہے، سمندر کے پانی اسپین اور طنجہ کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں، دونوں ملکوں میں 14 کلو میٹر کا فاصلہ ہے لیکن سماجی مسافت بہت طویل ہے، مراکش افریقہ میں ہے اور اسپین یورپ میں۔
طارق بن زیاد نے شہر کا نظم و نسق سنبھال لیا، اسپین میں اس وقت راڈرک کی حکومت تھی، یہ گاتھ قوم کا بادشاہ تھا، ظالم بھی تھا، لالچی بھی اور بے راہرو بھی۔ اس دور میں مختلف علاقوں کے والی اپنے بچوں کو شاہی آداب سکھانے کے لیے بادشاہوں کے محلات اور درباروں میں بھجوایا کرتے تھے، کاؤنٹ جولین شاہ راڈرک کا ایک والی تھا، اس کی بیٹی ’’فلورنڈا‘‘ دربار سے وابستہ تھی، وہ بے انتہا خوبصورت تھی، بادشاہ اس کی خوبصورتی دیکھ کر بھٹک گیا، اس نے اسے محل میں بلایا اور بے آبرو کر دیا، بیٹی نے باپ کو اطلاع دے دی، باپ بیٹی کو لینے محل پہنچ گیا، شاہ کے سامنے حاضر ہوا اور اپنی کسی حرکت سے یہ ظاہر نہ ہونے دیا وہ بیٹی پر گزری قیامت سے واقف ہے، اس نے چھٹیاں گزارنے کے بہانے بیٹی کو ساتھ لیا اور گھر روانہ ہو گیا، وہ جب آخری ملاقات کے لیے بادشاہ کے پاس گیا تو بادشاہ نے اس سے کہا ’’ جولین تم اس بار ہمارے لیے کوئی تحفہ نہیں لائے‘‘ جولین نے ادب سے جھک کر عرض کیا ’’حضور میں اگلی بار آپ کو ایسا تحفہ دوں گا، لوگ صدیوں تک اسے یاد رکھیں گے‘‘ جولین اس کے بعد سیدھا موسیٰ بن نصیر کے پاس حاضر ہوا اور اسے اسپین پر حملے کی ترغیب دی۔
وہ یورپ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن جولین کی ترغیبات بھی تگڑی تھیں اور اس کی کہانی بھی افسوس ناک چنانچہ موسیٰ بن نصیر نے اپنے دو جرنیلوں طارق بن زیاد اور طریف بن مالک کو سات سات ہزار جوانوں کے دو لشکر بنا کر دیے اور انھیں جولین کے ساتھ اسپین روانہ کر دیا، یہ دونوں جرنیل صرف ریکی کے لیے آئے تھے لیکن وہ اسپین کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی شوق جہاد کے ایسے جنون میں مبتلا ہوئے کہ وہ اس وقت تک واپس نہیں لوٹے جب تک اسپین کے تمام بڑے شہر ان کے قدموں میں نہیں آ گئے، طریف بن مالک اسپین کے جس ساحل پر اترا وہاں اس کے نام سے ایک شہر آباد ہوا، یہ شہر آج بھی طریفا کے نام سے موجود ہے، یہ ایک جدید شہر ہے، لوگ اسے طریفا پکارتے اور طریفا لکھتے ہیں لیکن یہ شہر کس نے آباد کیا، کیسے آباد کیا اور کیوں آباد کیا؟ زیادہ تر لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں، طارق بن زیاد 5 اپریل 710ء کو جبرالٹر میں اترا اور جہازوں کو آگ لگائی، اس کے پاس کل سات ہزار جوان تھے، اکثریت اس کے اپنے قبیلے بربر سے تعلق رکھتی تھی، راڈرک چالیس ہزار فوج لے کر آیا، مقابلہ ہوا، راڈرک کو شکست ہوئی اور وہ میدان سے فرار ہو گیا۔
طارق بن زیاد جبرالٹر کا قبضہ لینے کے بعد اسپین میں اتر گیا، 19 جولائی 711ء کو وادی لکا میں بڑا معرکہ ہوا، راڈرک یہ جنگ بھی ہار گیا اور یوں اندلس پر عملاً مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا، اسلامی لشکر نے اس کے بعد طلیطہ پر بھی قبضہ کر لیا، یہ شہر آج بھی قائم ہے اور ٹولیدو کہلاتا ہے، طارق بن زیاد کی فتوحات کی خبریں جب افریقہ پہنچیں تو موسیٰ بن نصیر کے دل میں طارق کے لیے رشک کا جذبہ پیدا ہو گیا، اس نے طارق کو مزید فتوحات سے روک دیا، اپنی سلطنت اپنے بیٹے عبداللہ بن موسیٰ کے حوالے کی اور 18 ہزار جوان لے کر خود بھی اسپین پہنچ گیا، یہ جس مقام سے اندلس پہنچا، وہ بعد ازاں جبل موسیٰ کہلایا لیکن یہ جبرالٹر کی طرح مشہور نہ ہو سکا، موسیٰ اسلامی لشکر کو قرطبہ تک لے گیا، خلیفہ بن ولید بن مالک ایک ’’سیلف سینٹرڈ‘‘ بادشاہ تھا، وہ اپنے علاوہ کسی کو کامیاب اور کامران نہیں دیکھ سکتا تھا۔
اس نے طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کی فتوحات کی خبریں سنیں تو اس نے دونوں کو دمشق طلب کر لیا، موسیٰ نے قرطبہ کا چارج اپنے بیٹے عبداللہ کے حوالے کیا اور طارق کو لے کر دمشق پہنچ گیا، بادشاہ نے دونوں کو معزول کیا اور ان کا احتساب شروع کر دیا یہاں سے اسلامی تاریخ کے دو عظیم جرنیلوں کا زوال شروع ہو گیا اور یہ دونوں گم نامی کے اندھیروں میں اتر گئے، طارق بن زیاد 720ء میں فوت ہوا، اس وقت اس کی عمر محض 39 سال تھی، وہ کیسے مرا، اس کے جنازے میں کتنے لوگ تھے اور وہ کہاں دفن ہوا تاریخ کے پاس کوئی جواب نہیں تاہم تاریخ اتنا جانتی ہے مسلمانوں کو آج تک جتنا نقصان مسلمانوں نے پہنچایا، اتنا نقصان کوئی دوسرا نہیں پہنچا سکا اور طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر اس حقیقت کی بہت بڑی مثال ہیں۔
طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر تاریخ کے گم نام صحراؤں میں گم ہو گئے لیکن اسپین آج بھی زندہ ہے، زندگی جبرالٹر میں بھی زندہ ہے اور جب تک جبرالٹر اور اسپین دونوں موجود ہیں دنیا کا کوئی شخص طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر سے ان کا نام اور کارنامہ نہیں چھین سکتا، طارق اور موسیٰ کے زوال کے بعد اندلس کی سلطنت کو جھٹکا لگا، فتوحات کا سلسلہ رک گیا، موسیٰ بن نصیر کا بیٹا عبداللہ بن نصیر قرطبہ میں قتل کر دیا گیا لیکن یہ افراتفری عارضی تھی کیونکہ 788ء میں اموی شہزادے عبداللہ اول نے قرطبہ میں پہلی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، مسلمان آگے بڑھے اور اسلامی سلطنت شمالی اسپین کے علاقے استوریاس اور فرانس کے وسط تورز تک پھیل گئی۔
یہ اسلامی سلطنت 1460ء تک قائم رہی، اس دوران یورپ کے عیسائی اکھٹے ہوئے، 1072ء میں اندلس پر حملے شروع ہوئے، 1212ء میں عیسائیوں نے طولوسہ فتح کر لیا، 1236ء میں قرطبہ سے اسلامی پرچم اتر گیا، 1250ء میں ٹولیدو اور اشبیلیہ بھی چلا گیا اور جنوری 1492ء میں غرناطہ کی چابیاں بھی فرڈینینڈ اور ازابیلا کو مل گئیں، اندلس کے 30 لاکھ مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا، زندہ جلا دیا گیا یا پھر عیسائی بنا لیا گیا لیکن یہ بعد کی کہانیاں ہیں، میں آج جبل طارق میں تھا جسے دنیا جبرالٹر کہتی ہے، جہاں آج سے 1300 سال قبل ایک بربر زادے نے قدم رکھا، اذان دی اور اس زمین کو مسلمان بنا لیا اور جبرالٹر، آج کا جبرالٹر کھلی کتاب کی طرح میرے سامنے کھلا پڑا تھا۔
میاں صاحب بھی پانچ سال پورے کریں گے
جاوید چوہدری جمعرات 20 اگست 2015

جنرل احمد شجاع پاشا آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی ہیں، یہ 2012ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد ’’یو اے ای‘‘ چلے گئے تھے، وہاں انھوں نے ملازمت اختیار کر لی، یہ پچھلے سال مارچ میں پاکستان آئے تو میری ایک ریستوران میں لنچ پر ان سے ملاقات ہوئی، یہ طویل ملاقات تھی جس میں انھوں نے ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد آپریشن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات پر بے شمار واقعات شیئر کیے، جنرل پاشا نے انکشاف کیا’’ صدر آصف علی زرداری مجھے اور جنرل کیانی کو جب بھی ملاقات کے لیے بلواتے تھے، ہم میٹنگ کے دوران خاموش رہتے تھے، یہ میری اور جنرل کیانی کی انڈرسٹینڈنگ تھی۔
ہم صدر کے سامنے منہ نہیں کھولیں گے، وہ بولتے رہیں، وہ جو چاہیں کہیں مگر ہم ناں کریں گے اور نہ ہی ہاں اور یہ تمام ملاقاتوں کے دوران ہوتا رہا،صدر بول بول کر تھک جاتے تھے لیکن ہم خاموش بیٹھے رہتے تھے یہاں تک کہ ملاقات ختم ہو جاتی تھی اور ہم سلام کر کے واپس آ جاتے تھے۔ جنرل پاشا نے انکشاف کیا ’’ایم کیو ایم دو بار پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحاد سے نکلی، میں دونوں بار اسے منا کر واپس لایا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کو یہ ٹاسک کس نے دیا تھا‘‘ جنرل پاشا کا جواب تھا ’’ مجھے یہ ٹاسک صدر آصف علی زرداری نے دیا تھا‘‘ جنرل پاشا نے یہ انکشاف بھی کیا ’’ 2011ء میں اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کے مدرسے پر طالبان نے قبضہ کر لیا تھا۔
مولانا کے ایک ملازم استاد کا حکیم اللہ محسود سے تعلق تھا، وہ گیارہ طالبان کو لے کر مدرسے میں آیا اور طالبان عمارت پر قابض ہوگئے ،ہم نے مولانا سمیع الحق کی مدد کی، قابض استاد مارا گیا اور یوں مولانا سمیع الحق اپنے مدرسے میں داخل ہوئے‘‘ جنرل پاشا نے انکشاف کیا’’ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا فیصلہ صدر آصف علی زرداری نے کیا تھا، وہ ریمنڈ ڈیوس کو جلد سے جلد چھوڑنا چاہتے تھے،ہماری میٹنگ میں صدر، وزیراعظم، وزیر داخلہ، آرمی چیف اور میں شامل تھا، یہ معاملہ رحمن ملک اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے تھے لیکن صدر نے انھیں جھاڑ پلا دی اور پھر جنرل کیانی اور مجھے کہا، آپ ہماری جان چھڑا دیں، میٹنگ میں فیصلہ ہوا، ہم لواحقین کو خون بہا دیں گے اور پھر ریمنڈ ڈیوس کو جہاز پر بٹھا دیں گے۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اسی وقت خون بہا کی رقم ریلیز کر دی، ہم نے یہ رقم لواحقین میں تقسیم کر دی، یہ فیصلہ بھی ہوا وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ملک سے باہر چلے جائیں گے، وہ اس معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے ، یہ فیصلہ بھی ہوا صدر آصف علی زرداری پریس ریلیز میں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی ذمے داری اٹھائیں گے، جنرل پاشا نے انکشاف کیا ’’ ہم اگر ریمنڈ ڈیوس کو رہا نہ کرتے تو وہ جیل میں مارا جاتا کیونکہ جیل میں اس کی نگرانی کرنے والے ملازمین نے وردی پر ختم نبوت کے بیج لگا رکھے تھے اور وہ لوگ کہتے تھے۔
یہ وردی اتر سکتی ہے لیکن یہ بیج نہیں اتر سکتے‘‘ جنرل پاشا نے انکشاف کیا’’16 مارچ 2011ء کو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے دن میاں شہباز شریف لندن چلے گئے جب کہ میاں نواز شریف پہلے سے لندن میں تھے، ہم نے امریکا کے سفیر کیمرون منٹر کو لاہور بھجوا دیا، وہ سارا دن ایس ایم ایس کے ذریعے ہمارے ساتھ رابطے میں رہے‘‘ جنرل پاشا نے انکشاف کیا’’ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں چیف جسٹس نے بھی ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا، وہ اگر تعاون نہ کرتے تو ہم ریمنڈ ڈیوس کو رہا نہیں کرا سکتے تھے‘‘ جنرل پاشا نے بتایا ’’ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ جوں ہی مکمل ہوا ۔
پنجاب حکومت نے یہ خبر لیک کر دی، پنجاب حکومت کا خیال تھا، یہ ایشو وفاقی حکومت کے گلے پڑ جائے گا لیکن پاکستان مسلم لیگ ن الٹا اس خبر کی زد میں آ گئی اور میڈیا نے انھیں رگیدنا شروع کر دیا، میں نے اگلے دن صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کیا، ان کو وعدہ یاد کرایا اور عرض کیا، آپ اب حسب وعدہ پریس ریلیز جاری کر کے یہ ذمے داری اٹھالیں لیکن صدر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا، جنرل صاحب یہ ایشو پنجاب حکومت کے کھاتے میں جا رہا ہے تو جانے دیں۔
ہمیں یہ گند اپنی جھولی میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘۔جنرل پاشا نے اس کے بعد میری طرف دیکھا اور کہا ’’آپ لوگ اس کے باوجود مجھ جیسے لوگوں کو طعنہ دیتے ہیں، ہم ملک کے منتخب نمایندوں کا احترام نہیں کرتے، کیا مجھے ان کا احترام کرنا چاہیے؟‘‘۔ میں خاموش رہا۔جنرل پاشا نے اس کے علاوہ بھی بے شمار انکشافات کیے لیکن میں نے ان سے وعدہ کیا تھا، میں یہ باتیں تحریر میں نہیں لاؤں گا چنانچہ سر دست میں آپ کو ان انکشافات میں شریک نہیں کر سکتا لیکن اگر وقت اور زندگی نے اجازت دی تو انشاء اللہ مستقبل میں یہ تمام باتیں بھی سامنے آئیں گی ، ان باتوں کا ایک حصہ عمران خان سے متعلق بھی تھا۔
مجھے ان تمام انکشافات کے دوران جنرل پاشا کے ایک اعتراف نے زیادہ متاثر کیا، جنرل پاشا کا کہنا تھا ’’میں نے ایک دن جنرل کیانی سے کہا، سر ہمیں بہرحال یہ ماننا پڑے گا، ہم نے پیپلز پارٹی کے لوگوں کو کام نہیں کرنے دیا‘‘جنرل پاشا نے جب یہ اعتراف کیا تو میں دیر تک ان کی طرف دیکھتا رہا کیونکہ یہ وہ حقیقت ہے جس سے آج ملک کے زیادہ تر سمجھ دار لوگ واقف ہو چکے ہیں لیکن میں اس کا ذمے دار جرنیلوں کو نہیں سمجھتا، میری نظر میں اس کے ذمے دار ہم عام لوگ ہیں، ہم لوگ غلام جینز کے مالک ہیں، آپ تاریخ پڑھیں آپ کو اس میں دو قسم کے لوگ ملیں گے۔
ایک، وہ لوگ جو درہ خیبر پار کر کے پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتے تھے، دلی پہنچتے تھے اور چند گھوڑوں اور چند تلواروں کے زور پر کروڑوں لوگوں کو غلام بنا لیتے تھے اور دوسرے وہ لوگ تھے جو ہزار سال تک ہر گھوڑے اور ہر تلوار کو اپنا آقا مانتے رہے،دوسری قسم کے لوگ اکثریت میں تھے، ہم صدیوں تک غلام رہے، صدیوں کی یہ غلامی ہمارے جینز کا حصہ بن گئی، ہم غلام ابن غلام ہیں ، ہم کہنے کو 1947ء میں آزاد ہو گئے لیکن ہم آزاد ہونے کے باوجود ہر چند برس بعد ایک آقا، ایک آمر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں، آپ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک پاکستان میں آمریت کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے۔
آپ کو ہم پاکستانی ہر آمر کے قدموں میں پھول رکھتے نظر آئیں گے، ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ہم لوگ اپنی عزت نہیں کرتے چنانچہ ہم اپنے ووٹ، اپنی چوائس کے بھی خلاف ہیں، ہم لوگ جنھیں منتخب کرتے ہیں، ہم انھیں گالی ضرور دیتے ہیں، ہم اپنے محبوب آمروں کو بھی اس وقت تک برداشت کرتے ہیں جب تک وہ آمر رہتے ہیں، وہ جوں ہی ہمارے ووٹ کے لیے ہم سے رجوع کرتے ہیں، ہم انھیں بھی نکال پھینکتے ہیں،ہم پھر جمہوری لیڈروں کو واپس لاتے ہیں اور پھر چند ماہ بعد ’’قدم بڑھاؤ جرنیل، ہم تمہارے ساتھ ہیں،، کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا امریکا اور فوج اس ملک کی سب سے بڑی حقیقتیں ہیں، ہم امریکا اور فوج کے بغیر یہ ملک نہیں چلا سکتے، امریکا آج ہماری امداد بند کر دے، ہم لیٹ جائیں گے اور فوج آج سول حکومت کا ساتھ دینا چھوڑ دے، ہمارے لیڈر جنازے اٹھا اٹھا کر تھک جائیں گے، ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا، آپ فوج کو ناراض کر کے سسٹم نہیں چلا سکتے خواہ آپ کے پاس ایوان میں دوتہائی اکثریت ہی کیوں نہ ہو اور آپ کو یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی آصف علی زرداری میں سیکڑوں ہزاروں خامیاں ہو سکتی ہیں، ان کے دور میں درجنوں خرابیاں بھی تھیں لیکن ان کو یہ کریڈٹ بہرحال دینا پڑے گا۔
انھوں نے ان انتہائی نامساعد حالات میں جب میڈیا بھی ان کے خلاف تھا، میاں نواز شریف بھی سیاہ ٹائی لگا کر ان کو غدار ثابت کرنے کے لیے سپریم کورٹ چلے جاتے تھے، جب جنرل کیانی اور جنرل پاشا بھی ان کے سامنے خاموش بیٹھے رہتے تھے،جب ان کی پارٹی بھی ملک کو لوٹ رہی تھی اورجب خاندان کے بے شمار ایشو بھی مینڈکوں کی طرح پھدک کر باہر نکلتے رہتے تھے، زرداری صاحب نے ان حالات میں نہ صرف پانچ سال پورے کیے بلکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب اسپیکر نے دوسرے منتخب اسپیکر، ایک منتخب وزیراعظم نے دوسرے منتخب وزیراعظم اور ایک منتخب صدر نے دوسرے منتخب صدر کو اقتدار بھی منتقل کیا،آصف علی زرداری نے افہام و تفہیم کی اس سیاست میں اپنی پارٹی تک قربان کر دی، یہ وفاق سے سندھ اور سندھ سے لاڑکانہ کے لیڈر بن گئے لیکن یہ جمہوریت کو بچانے اور سسٹم کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہو گئے۔
میاں نواز شریف بھی دھرنے کے بعداب ان زمینی حقائق سے واقف ہو چکے ہیں، یہ بھی اب آصف علی زرداری بن چکے ہیں، آصف علی زرداری ثانی کیونکہ یہ بھی اب پانچ سال پورے کرنے کے ٹریک پر آگئے ہیں،آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ استعفے واپس لینے کے لیے عمران خان کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتے میاں نواز شریف کو دیکھ لیجیے، آپ ایم کیو ایم کی منتیں کرتے میاں نواز شریف کو بھی دیکھ لیجیے اور آپ مشاہد اللہ خان سے استعفیٰ لیتے میاں نواز شریف کو بھی دیکھ لیجیے، آپ کو اگر پھر بھی یقین نہ آئے تو آپ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی حلف برداری کی تقریب کی روداد نکال کر پڑھ لیجیے۔
وہاں صدر، وزیراعظم اور چیف جسٹس کی موجودگی میں جنرل راحیل شریف کے نعرے لگے اور نعرے لگانے والوں نے صدر کی پرواہ کی، وزیراعظم کی اور نہ ہی چیف جسٹس کی،آپ یہ دیکھئے اور اس کے بعد فیصلہ کیجیے کیا میاں نواز شریف نے بھی آصف علی زرداری کی طرح پانچ سال پورے کرنے کا فیصلہ نہیں کرلیا،جی ہاں! میاں صاحب بھی فیصلہ کر چکے ہیں اور یہ بھی زرداری صاحب کی طرح کامیاب ہو جائیں گے۔
جنرل صاحب وہ پاکستان نہ دیکھ سکے
جاوید چوہدری منگل 18 اگست 2015
جنرل حمید گل سے پہلی ملاقات 1994ء میں ہوئی اور آخری 2015ء کے مئی میں۔ ملک کے ممتاز کالم نگار ہارون الرشید کا جنرل صاحب سے قریبی تعلق تھا، یہ جنرل صاحب کو کھینچ کر راولپنڈی پریس کلب لے آئے، یہ ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل صاحب کی پہلی عوامی تقریب تھی، پریس کلب میں بیس بائیس صحافی تھے، میں اس وقت جونیئر صحافی تھا، اخبار میں سب ایڈیٹر تھا، ہارون الرشید مجھے بھی ساتھ لے گئے۔
افغانستان کا جہاد ختم ہو چکا تھا، مجاہدین روس سے فارغ ہو کر اب ایک دوسرے کی کھوپڑیوں کے مینار بنا رہے تھے اور طالبان کا انقلاب آہستہ آہستہ قندہار میں سر اٹھا رہا تھا، افغانستان کے جہاد نے ملک میں علماء کرام، مولوی حضرات، کالم نگاروں اور فوجیوں کا ایک لشکر پیدا کیا تھا، یہ لوگ افغان وار کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز سمجھتے تھے، ان کا خیال تھا مجاہدین پہلے روس کو شکست دیں گے، پھر کشمیر آزاد کرانے کے لیے غزوہ ہند شروع کریں گے، پھر مسلم امہ کو اکٹھا کریں گے اور پھر پوری دنیا میں اسلامی پرچم لہرا دیں گے، یہ لوگ اپنے خیالات میں جذباتی تھے اور یہ عموماً جذبات کی رو میں وہ بنیادی حقائق بھی فراموش کر بیٹھتے تھے جنھوں نے 1990ء میں دنیا کی شکل بدل دی، مثلاً یہ بھول جاتے تھے سوویت یونین کی 80 فیصد آبادی عیسائی ہے اور امریکی اور یورپی عیسائی روس کے عیسائیوں سے نظریاتی جنگ نہیں لڑ رہے، یہ معیشت کی جنگ ہے اور جب بھی معیشت کی یہ جنگ نظریات میں تبدیل ہوگی، امریکی عیسائی اپنے روسی بھائی کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا اور روسی عیسائی امریکی عیسائی کے کندھے سے کندھا جوڑ لے گا اور دنیا نے آٹھ برس بعد یہ منظر دیکھا۔
افغانستان کے طالبان نے جب سابق جہاد کو مسلمان عیسائی جنگ میں تبدیل کیا تو روس نے امریکا اور نیٹو کو بھرپور سپورٹ دی، یہ لوگ یہ بھی بھول گئے کسی شخص کو رائفل پکڑانا آسان لیکن اس کے ہاتھ سے رائفل واپس لینا مشکل ہوتا ہے، پاکستان نے امریکا سے اسلحہ لے کر افغانوں کو دے تو دیا لیکن ان لوگوں سے یہ اسلحہ واپس کون لے گا؟ یہ کسی نے نہیں سوچا چنانچہ افغان وار کے بعد امریکی اسلحے نے افغانستان کو بھی تباہ کیا، پاکستان کو بھی زخمی کیا، سینٹرل ایشیا کو بھی برباد کیا اور عربوں کو بھی پریشان رکھا، یہ لوگ یہ بھی بھول گئے افغانستان کی جنگ جب ختم ہو گی تو وہ دس لاکھ مجاہدین کہاں جائیں گے جنھیں بندوق چلانے اور جنگلوں اور صحراؤں میں بھٹکنے کے سوا کچھ نہیں آتا، یہ لوگ یہ بھی فراموش کر بیٹھے تھے اس جنگ نے کبھی نہ کبھی ختم ہونا ہے اور یہ لوگ یہ بھی بھول گئے اگر یہ جنگ ختم ہو گئی یا افغان وار کے کپتان اور ’’آرکی ٹیکٹ،، جنرل ضیاء الحق شہید ہو گئے تو پاکستان کی صورتحال کیا ہو گی اور پھر یہی ہوا۔
جنرل ضیاء الحق 19 جرنیلوں کے ساتھ17 اگست 1988ء کو شہید ہو گئے اور پسماندگان میں وہ صحافی اور دانشور بھی چھوڑ گئے جو آج بھی جلال آباد کے بارڈر پر کھڑے ہو کر انقلاب کا راستہ دیکھ رہے ہیں، جنرل ضیاء کے حادثے اور شہادت کے وقت جنرل حمید گل آئی ایس آئی کے ڈی جی تھے، جنرل ضیاء الحق کے حادثے کی انکوائری ان پر پڑ گئی، جنرل صاحب نے دن رات ایک کر دیے اور یہ ان سرکاری، غیر سرکاری اور سیاسی مجرموں تک پہنچ گئے جو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سانحے کے ذمے دار تھے لیکن جنرل حمید گل کو بھی رپورٹ مرتب ہونے سے قبل آئی ایس آئی سے فارغ کر دیا گیا اور وہ تمام میجر، کرنل اور بریگیڈیئرز بھی ٹرانسفر کر دیے گئے جو اس رپورٹ پر کام کر رہے تھے، کیوں؟
جنرل حمید گل نے پوری زندگی اس کیوں کا جواب نہیں دیا، وہ جنرل ضیاء الحق کے قاتلوں کے پاکستانی ہینڈلرز کا نام بھی دل میں لے کر اس مٹی میں دفن ہو گئے جس میں جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھی اتر گئے تھے، تاہم وہ یہ ضرور بتایا کرتے تھے ’’جنرل اسلم بیگ نے جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے بعد مجھے پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا حکم دیا اور میں نے اس حکم کی بجاآوری میں نو سیاسی جماعتوں کو اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے جھنڈے تلے اکٹھا کر دیا، ہم غلام مصطفی جتوئی کو وزیراعظم بنانا چاہتے تھے، ہمیں بے نظیر بھٹو کسی قیمت پر قابل قبول نہیں تھیں لیکن بے نظیر بھٹو کامیاب ہو گئیں، ہمارے گھوڑے ناکام ہو گئے لیکن ہم نے ہار نہ مانی، ہم نے میاں نواز شریف کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بنا دیا اور اس نے محترمہ کو آرام سے حکومت نہ کرنے دی‘‘۔ یہ بہت بعد کی باتیں ہیں، ہم ابھی 1994ء میں ہیں۔
جنرل حمید گل 1994ء میں راولپنڈی پریس کلب آئے، وہ صحافیوں کو تحریک طالبان کے بارے میں اپنی رائے دینا چاہتے تھے، ان کا خیال تھا تحریک طالبان کو پاکستان اور امریکا دونوں کی سپورٹ حاصل ہے اور یہ لوگ بہت جلد پورے افغانستان پر قابض ہو جائیں گے، ان کا خیال تھا یہ گیس پائپ لائن، افغانستان کی معدنیات اور ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا امریکی منصوبہ ہے اور یہ منصوبہ ایک بار پھر خطے کو جنگ میں دھکیل دے گا، مجھے ان کے خیالات سن کر محسوس ہوا وہ طالبان کے حامی نہیں ہیں، شاید اس کی وجہ امریکا اور جنرل نصیر اللہ بابر تھے، جنرل حمید گل امریکا کی طرف سے اچانک جنگ بندی، افغانوں اور پاکستان کو بے مراد چھوڑنے اور افغان جنگ میں شریک پاکستانی اور افغان کمانڈروں کے لیے دروازے بند کرنے پر امریکا سے ناخوش تھے، وہ جنرل نصیر اللہ بابر کے کردار پر بھی ناراض تھے، میں اس وقت کیونکہ ایک عام، جونیئر اور گم نام صحافی تھا چنانچہ اس دن میرا ان سے تعارف نہ ہو سکا۔
جنرل صاحب سے پہلی باقاعدہ ملاقات 1997ء میں ہوئی، مجھے صدیق راعی صاحب انکل نسیم انور بیگ کے گھر لے گئے، انکل ایک شاندار صوفی منش انسان تھے، انکل نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنی میز پر بٹھا لیا، انکل نسیم انور بیگ نے زندگی کا بڑا حصہ پیرس میں گزارا تھا، وہ یونیسکو میں ملازم تھے، وہ بے اولاد تھے، آنٹی اختر کا انتقال ہو چکا تھا، وہ شام کو گھر پر محفل لگاتے تھے، اسلام آباد کی کریم انکل کے گھر آتی تھی اور وہاں رات گئے تک گفتگو چلتی تھی، انکل نے مجھے روز کا مہمان بنا لیا، میں نے 1997ء میں انکل نسیم بیگ پر کالم لکھا، مجھے اس کالم پر پہلی بار جنرل حمید گل کا فون آیا، وہ انکل سے ملنا چاہتے تھے، میں انھیں بیگ صاحب کے گھر لے گیا اور یوں ان کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، یہ سلسلہ مئی 2015ء تک جاری رہا، جنرل حمید گل میں بے شمار خوبیاں تھیں، خامیاں صرف دو تھیں، ان کی پہلی خامی میڈیا میں زندہ رہنے کی کوشش تھی، وہ میڈیا میں ’’ان‘‘ رہنا چاہتے تھے، میڈیا کی اپنی مجبوریاں ہیں، یہ صرف منفی چیزیں بیچتا ہے چنانچہ جنرل صاحب اکثر اوقات میڈیا کی مجبوریوں کے ہاتھوں شکست کھا جاتے تھے، ان کی دوسری خامی ان کا مخصوص نقطہ نظر تھا۔
وہ دنیا کے ہر ایشو کو ہندو، مسلمان، عیسائی اور یہودی کے پس منظر میں دیکھتے تھے جب کہ دنیا 2000ء اور 2010ء میں مکمل تبدیل ہو چکی تھی، دنیا اب اپنے دائیں بائیں موجود اقوام کو ہنر، صلاحیت، معیشت، قانون اور انسانی حقوق کی نظر سے دیکھتی ہے، روس 1990ء تک امریکا کا سب سے بڑا دشمن تھا لیکن 2000ء میں یہ امریکا کا سب سے بڑا دوست تھا، امریکا 1995ء تک چین کو خطرناک ترین ملک سمجھتا تھا لیکن چین 2010ء میں امریکا کا سب سے بڑا معاشی اتحادی تھا، سعودی عرب اور عراق دونوں کی رگوں میں عرب خون ہے لیکن سعودی عرب نے امریکا کی مدد سے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، سعودی عرب کی تہذیب کی جڑیں یمن میں گڑی ہیں لیکن سعودی عرب نے 2015ء میں یمن کے خلاف پوری دنیا سے فوجی مدد مانگ لی، یہ کیا ہے؟ یہ بدلتی ہوئی دنیا کے نئے رنگ ہیں لیکن جنرل صاحب یہ رنگ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیںتھے، ان دو فکری خامیوں کے علاوہ جنرل صاحب میں خوبیاں ہی خوبیاں تھیں، وہ ایک مکمل پنجابی بزرگ تھے۔
اللہ تعالیٰ نے جب انھیں استطاعت دی تو انھوں نے اپنے گاؤں کے تمام غریب لوگوں کو پکے گھر بنوا کر دیے، سادہ طبیعت کے انسان تھے، بے باک بھی تھے، جھوٹ نہیں بولتے تھے، وقت کے پابند تھے، شہد بہت استعمال کرتے تھے، وہ بتایا کرتے تھے، میں ہر سال ایک من شہد خریدتا ہوں، اپنے خاندان کو بھی کھلاتا ہوں اور دوستوں اور رشتے داروں کو بھی بھجواتا ہوں، ساگ بہت پسند تھا، واک اور ایکسرسائز بھی کرتے تھے، پچھلے چار پانچ سال سے بیڈروم کے اندر ہی ایکسرسائز کر لیا کرتے تھے، بیگم سے بے انتہا محبت تھی، پوری زندگی جہاں گئے بیگم کو ساتھ لے کر گئے، کتابیں پڑھتے تھے، مارکیٹ میں آنے والی تمام نئی کتابیں خریدتے، پڑھتے اور ان کے حوالے دیتے، پاکستان سے عشق تھا، کشمیر کو ہر حال میں آزاد دیکھنا چاہتے تھے، حافظ سعید کا بہت احترام کرتے تھے، روزانہ 10 اخبار پڑھتے تھے، ٹیلی ویژن بھی دیکھتے تھے، کھیتی باڑی سے دلچسپی تھی، سیالکوٹ میں چالیس سال قبل زمین خریدی، بیٹا آج کل اس میں کاشت کاری کرتا ہے، یہ کاشت کاری واحد انکم تھی، چھوٹے بیٹے کو سیاست میں دلچسپی ہے، جنرل صاحب کو بیٹے کا یہ شوق پسند نہیں تھا، میاں برادران سے میاں شریف کے دور سے بہت اچھے تعلقات تھے۔
میاں نواز شریف سے خوش نہیں تھے، میاں شہباز شریف کو بہت پسند کرتے تھے، جنرل پرویز مشرف کو شروع میں پسند کرتے تھے لیکن پھر ان سے اتنے نالاں ہو گئے کہ یونیفارم پہن کر ججز تحریک میں شریک ہو گئے، آخری سانس تک متحرک رہے، ریٹائرڈ فوجیوں کی ایکس سروس مین سوسائٹی بنائی، یہ سوسائٹی اکثر اوقات اجلاس کرتی تھی، جنرل صاحب ان اجلاسوں میں ملکی معاملات پر بے دھڑک رائے دیتے تھے، حکومت نے جن انکشافات کی بنیاد پر مشاہد اللہ کی گوشمالی کی اور ان سے ان کی وزارت واپس لے لی، یہ تمام انکشافات جنرل حمید گل نے آج سے چار ماہ قبل میرے سامنے کیے، یہ ایشو ایکس سروس مین سوسائٹی میں بھی اٹھایا گیا، جنرل صاحب چاہتے تھے ’’یہ انکشافات تحقیق طلب ہیں اور ان کے لیے باقاعدہ کمیشن بننا چاہیے‘‘ جنرل صاحب نے جب یہ ساری داستان سنائی تو میں نے ان سے کہا ’’ سر یہ اس آئی جے آئی کی ایکسٹینشن نہیں جس کی بنیاد آپ نے رکھی تھی‘‘ وہ میرے ریمارکس پر خلاف معمول ہنس پڑے، وہ مجھے کئی بار مری بھی لے کر گئے، مری میں ان کی چالیس پچاس کنال زمین ہے، اس پر انھوں نے چھوٹا سا گھر بنا رکھا ہے، جنرل صاحب کو پھولوں اور پودوں کا شوق تھا چنانچہ انھوں نے وہاں سیکڑوں قسم کے پودے لگا رکھے ہیں۔
جنرل حمید گل ایک مکمل شخصیت تھے، ایکٹو، مہربان، دانشور اور مثبت۔ وہ غصے میں بھی آتے تھے لیکن بہت جلد ٹھنڈے ہو جاتے تھے، غصہ دل میں نہیں رکھتے تھے، جنرل راحیل شریف کو سچا سپاہی سمجھتے تھے اور کہا کرتے تھے ’’ یہ پاکستان کو مذہبی اور سیاسی دونوں قسم کے دہشت گردوں سے آزاد کرا دے گا، کاش میں وہ پاکستان دیکھ سکوں‘‘۔
افسوس! جنرل صاحب وہ پاکستان نہ دیکھ سکے، وہ ہفتے کی رات دس بجے ہم سے جدا ہو گئے، ہم سب کو یتیم کر گئے۔
دعائیں رائیگاں نہیں جاتیں
جاوید چوہدری اتوار 16 اگست 2015

میں نے ان سے ایک سوال پوچھا ’’اللہ تعالیٰ سے بات منوانے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟‘‘ وہ مسکرائے‘ قبلہ رو ہوئے‘ پاؤں لپیٹے‘ رانیں تہہ کیں‘ اپنے جسم کا سارا بوجھ رانوں پر شفٹ کیا اور مجھ سے پوچھا ’’تمہیں اللہ سے کیا چاہیے؟‘‘ ہم دونوں اس وقت جنگل میں بیٹھے تھے‘ حبس اور گرمی کا موسم تھا‘ سانس تک لینا مشکل تھا‘ میں نے اوپر دیکھا‘ اوپر درختوں کے پتے تھے اور پتوں سے پرے گرم‘ پگھلتا ہوا سورج تھا‘ میں نے مسکرا کر عرض کیا ’’ اگر بادل آ جائیں‘ ذرا سی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں تو موسم اچھا ہو جائے گا‘‘ وہ ہنسے اور آہستہ سے بولے ’’لو دیکھو‘‘ وہ اس کے بعد بیٹھے بیٹھے رکوع میں جھکے اور پنجابی زبان میں دعا کرنے لگے ’’اللہ جی! کاکے کی دعا قبول کر لے‘ اللہ جی! ہماری سن لے‘‘ وہ دعا کرتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے‘ پہلے ان کی پلکیں گیلی ہوئیں‘ پھر ان کے منہ سے سسکیوں کی آوازیں آئیں اور پھر ان کی آنکھیں چھم چھم برسنے لگیں‘ وہ بری طرح رو رہے تھے۔
میں ان کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو روتے دیکھا لیکن ان کا رونا عجیب تھا‘ وہ ایک خاص ردھم میں رو رہے تھے‘ منہ سے سسکی نکلتی تھی‘ پھر آنکھیں برستیں تھیں اور پھر ’’اللہ جی! ہماری سن لے‘‘ کا راگ الاپ بنتا تھا‘ میں پریشانی‘ استعجاب اور خوف کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ انھیں دیکھ رہا تھا‘ وہ دعا کرتے جاتے تھے‘ روتے جاتے تھے اور سسکیاں بھرتے جاتے تھے‘ میں نے پھر وہاں ایک عجیب منظر دیکھا‘ مجھے ہوا ٹھنڈی ہوتی ہوئی محسوس ہوئی‘ آسمان پر اسی طرح گرم سورج چمک رہا تھا لیکن جنگل کی ہوا میں خنکی بڑھتی جا رہی تھی‘ میری پیشانی‘ سر اور گردن کا پسینہ خشک ہو گیا‘ میرے سینے اور کمر پر رینگتے ہوئے قطرے بھی غائب ہو گئے‘ میں ٹھنڈی ہوا کو محسوس کر رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا‘ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پتوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ شاخیں ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے لگیں‘ پودے ہوا کی موسیقی پر ناچنے لگے اور پھر بادل کا ایک ٹکڑا کہیں سے آیا اور سورج اور ہمارے سر کے درمیان تن کر ٹھہر گیا‘ وہ رکے‘ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور شکر ادا کرنے لگے۔
وہ دیر تک ’’اللہ جی! آپ کا بہت شکر ہے‘ اللہ جی! آپ کی بہت مہربانی ہے‘‘ کہتے رہے‘ وہ دعا سے فارغ ہوئے‘ ذرا سا اوپر اٹھے‘ ٹانگیں سیدھی کیں اور منہ میری طرف کر کے بیٹھ گئے‘ ان کی سفید داڑھی آنسوؤں سے تر تھی‘ انھوں نے کندھے سے رومال اتارا‘ داڑھی خشک کی اور پھر بولے ’’ دیکھ لو! اللہ نے اپنے دونوں بندوں کی بات مان لی‘‘ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا‘ چوما اور پھر عرض کیا ’’باباجی لیکن اللہ سے بات منوانے کا فارمولہ کیا ہے‘ اللہ کب‘ کیسے اور کیا کیا مانتا ہے؟‘‘ وہ مسکرائے‘ شہادت کی دونوں انگلیاں آنکھوں پر رکھیں اور پھر بولے ’’ یہ دو آنکھیں فارمولہ ہیں‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ’’میں نے یہ فارمولہ اپنی ماں سے سیکھا‘ میں بچپن میں جب بھی اپنی سے کوئی بات منوانا چاہتا تھا تو میں رونے لگتا تھا‘ ماں سے میرا رونا برداشت نہیں ہوتا تھا‘ وہ تڑپ اٹھتی تھی‘ وہ مجھے گود میں بھی اٹھا لیتی تھی‘ مجھے چومتی بھی تھی‘ میری آنکھیں بھی صاف کرتی تھی اور میری خواہش‘ میری ضرورت بھی پوری کرتی تھی۔
میں ماں کی اس کمزوری کا جی بھر کر فائدہ اٹھاتا تھا‘ میں رو رو کر اس سے اپنی پسند کے کھانے بھی بنواتا تھا‘ اس سے نئے کپڑے اور نئے جوتے بھی لیتا تھا اور کھیلنے کے لیے گھر سے باہر بھی جاتا تھا‘‘ وہ رکے اور پھر آہستہ سے بولے ’’میں نے جب مولوی صاحب سے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا تو مولوی صاحب نے ایک دن فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ انسان سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے‘ یہ فقرہ سیدھا میرے دل میں لگا اور میں نے سوچا‘ میں رو کر اپنی ایک ماں سے سب کچھ منوا لیتا ہوں‘ اللہ اگر مجھ سے ستر ماؤں جتنی محبت کرتا ہے تو پھر میں رو رو کر اس سے کیا کیا نہیں منوا سکتا‘‘ وہ رکے اور بولے ’’ بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے‘ میں روتا ہوں‘ اللہ کی ذات میں ستر ماؤں کی محبت جگاتا ہوں اور میری ہر خواہش‘ میری ہر دعا قبول ہو جاتی ہے‘‘۔
ہمارے اوپر بادل کا خیمہ تنا تھا‘ جنگل کی ہوا میں خنکی تھی اور وہ اس وسیع پس منظر میں پھولوں کی خوشبودار جھاڑی بن کر بیٹھے تھے‘ میں نے پوچھا ’’حضور ہم زندگی بھر دعائیں کرتے ہیں‘ ہم میں سے اکثر لوگ رو رو کر بھی دعائیں کرتے ہیں لیکن یہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں‘ یہ منظور نہیں ہوتیں‘‘ وہ مسکرائے اور آہستہ سے بولے ’’ یہ ہو نہیں سکتا‘ بندہ ہو‘ وہ رو رو کر دعا کرے اور ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا خدا اس کی یہ دعا قبول نہ کرے‘ یہ ممکن نہیں‘ میرے بچے! یہ ہو ہی نہیں سکتا‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کی بات بجا حضور لیکن میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو دعا کے باوجود محروم دیکھا‘‘ وہ ہنسے‘ ان کی ہنسی پتوں کی تالیوں کے ساتھ مل کر راگ بن گئی‘ وہ بولے ’’اللہ کی نظر میں دعائیں تین قسم کی ہوتی ہیں‘ دعاؤں کی پہلی قسم وہ ہوتی ہے جس میں اللہ کو نظام قدرت میں کوئی تبدیلی نہیں کرنی پڑتی‘ میں بیمار ہوں‘ اللہ شفاء دیدے‘ میں بھوکا اور پیاسا ہوں‘ اللہ تعالیٰ میرے لیے پانی اور کھانے کا بندوبست کر دے‘ میرا کوئی پیارا بچھڑ گیا‘ اللہ اسے مجھ سے ملا دے‘ لوگ مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مجھے حاسدوں سے محفوظ کر دے‘ میں ترقی کرنا چاہتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ میری پروموشن کے راستے کی رکاوٹیں ہٹا دے اور لوگ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں‘ یہ مجھ سے مال و دولت‘ گھر بار اور جائیداد چھیننا چاہتے ہیں‘ اللہ مجھے بچا لے‘ یہ وہ تمام دعائیں ہیں جنھیں قبول کرتے وقت اللہ تعالیٰ کو نظام کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں کرنی پڑتی‘ ہم ساڑھے چار ہزار بیماریاں لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ ان تمام بیماریوں کا علاج ہمارے اندر موجود ہے‘ اللہ تعالیٰ ہماری دعا سنتا ہے‘ شفاء کے جراثیم ایکٹو ہوتے ہیں اور یہ بیماری کے جراثیم کو نگل جاتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ہماری دعا سن کر ہمارے حاسدوں‘ ہمارے دشمنوں اور ہمارے باسز کے دل میں ہمارے لیے رحم کا جذبہ بھی پیدا کر دیتا ہے اور یوں ہم دنیاوی نقصان سے بھی بچ جاتے ہیں‘‘ وہ رکے‘ اوپر دیکھا اور بادل کی طرف اشارہ کر کے بولے ’’یہ بادل نظام کائنات کا حصہ ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اسے چند میل ادھر کھسکا دیا‘ ہمارا کام بھی ہو گیا اور اللہ کو نظام کائنات میں بھی کوئی ترمیم‘ کوئی تبدیلی نہیں کرنی پڑی لیکن میں اگر اللہ تعالیٰ سے کہوں یا باری تعالیٰ آپ دنیا سے بادل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں یا دنیا کے سارے کوے مر جائیں تو اللہ تعالیٰ شاید یہ دعا قبول نہ کرے۔
خواہ میں کتنا ہی رو لوں‘ کتنا ہی گڑگڑا لوں یا میری جگہ کوئی ولی یا کوئی پیغمبر ہی کیوں نہ ہو‘ کیوں؟ کیونکہ اس کے لیے کائنات کا وہ سارا نظام تبدیل کرنا پڑے گا جس سے اربوں جانداروں کی زندگی منسلک ہے اور اللہ تعالیٰ کسی کے لیے یہ سسٹم تبدیل نہیں کرتا‘‘ وہ رکے اور دوبارہ بولے ’’دعاؤں کی دوسری قسم مالی اور سماجی عروج سے متعلق ہوتی ہے‘ ہم میں سے بعض نادار اور غریب لوگ سیٹھ‘ نواب یا زمیندار بننے کی دعا کرتے ہیں‘ ہم میں کچھ لوگ بادشاہ‘ وزیر‘ وزیر اعظم یا صدر بننے کی دعا کرتے ہیں‘ یہ لوگ پوری زندگی یہ دعا کرتے رہتے ہیں لیکن یہ سیٹھ‘ نواب‘ زمیندار‘ صدر‘ وزیر اعظم‘ وزیر اور بادشاہ نہیں بنتے‘‘۔ وہ رکے اور بولے ’’ کیا ان کی دعائیں رائیگاں چلی گئیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’شاید‘‘۔ وہ بولے ’’ نہیں‘ اس نوعیت کی دعائیں کرنے والے لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں‘ ایک‘ وہ جو دعا میں سیریس نہیں ہوتے‘ جو اس خلوص کے ساتھ دعا نہیں کرتے جس سے ان کی آنکھیں برسات بن جائیں اور سانسیں ہچکیاں اور دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی دعا کے ایک ایک حرف کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں‘ جن کے آنسو اور سسکیاں پہلے نکلتی ہیں اور حرف بعد میں‘ پہلے لوگوں کی دعائیں عموماً ضایع ہو جاتی ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ اس طرح نہیں مانگتے جس طرح بچہ ماں سے مانگتا ہے جب کہ دوسرے لوگوں کی دعائیں قبول ہو جاتی ہیں لیکن ان دعاؤں کا اثر ان کی زندگی میں نہیں‘ ان کے بچوں اور پوتوں کی حیات میں نظر آتا ہے۔
آپ کبھی تحقیق کر کے دیکھ لیں‘ خوش حالی کی دعا کرنے والے لوگوں کے بچے یا پوتے ضرور سیٹھ بن جاتے ہیں‘ وزیر‘ وزیر اعظم‘ صدر یا آرمی چیف بننے والے لوگوں کے نیک والدین عمر بھر ان عہدوں کی دعا کرتے رہے تھے‘ کارخانوں‘ زمینوں‘ کمپنیوں‘ کوٹھیوں‘ کاروں اور جہازوں کی دعا کرنے والے لوگ جب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو ان کے بچے یا پوتے ان ساری نعمتوں کے مالک تھے‘ یہ کیا ہے؟ یہ وہ ساری دعائیں ہیں جو لوگ کرتے رہے‘ اللہ نے سن لیں اور ان کا ثمر ان کی اولاد کے کھاتے میں لکھ دیا چنانچہ بزرگ کہتے ہیں‘ آپ جب بھی اللہ سے اپنے لیے کچھ مانگیں‘ آپ اس میں اپنی اولاد کو ضرور شامل کریں کیونکہ ہماری 80 فیصد دعاؤں کا نتیجہ ہماری اولاد میں ظاہر ہوتا ہے‘‘۔
وہ رکے اور پھر بولے ’’ ہماری تیسری قسم کی دعائیں عزت‘ شہرت اور نیک نامی سے متعلق ہوتی ہیں‘ آپ جب بھی رو کر یہ دعا کریں گے‘ اللہ تعالیٰ یہ بھی قبول کر لے گا لیکن ان کا نتیجہ بھی دوسری یا تیسری نسل میں ظاہر ہوتا ہے‘ آپ دنیا کے تمام نامور‘ مشہور اور معروف لوگوں کا پروفائل نکال لو‘ آپ کو اس کا والد یا والدہ یا دادا‘ دادی یا پھر نانا‘ نانی پرہیز گار اور متقی ملیں گے‘ آپ تحقیق کرنا‘ آپ کو یہ جانتے دیر نہیں لگے گی‘ ان کے بزرگ اللہ سے نیک نامی‘ شہرت اور عزت کی دعا کرتے تھے اور یہ وہ دعا تھی جس نے بعد ازاں نیوٹن کو نیوٹن‘ شیکسپیئر کو شیکسپیئر‘ آئن سٹائن کو آئن سٹائن اور مدر ٹریسا کو مدر ٹریسا بنایا‘‘ وہ رکے اور پھر ہنس کر بولے ’’ دعا کبھی ضایع نہیں ہوتی‘ یہ ضرور قبول ہوتی ہے لیکن مانگنے والے پر لازم ہوتا ہے یہ بچہ بن کر مانگے‘ یہ اس طرح مانگے جس طرح تین چار سال کا بچہ اپنی ماں سے مانگتا ہے‘ آپ نے اگر اللہ تعالیٰ میں موجود ستر ماؤں کا جذبہ جگا لیا تو پھر دنیا کی کوئی طاقت‘ کوئی رکاوٹ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو نہیں روک سکے گی‘‘ وہ رکے تو بارش شروع ہو گئی‘ ہم اٹھے‘ ہم نے اپنی دری جھاڑی‘ تہہ کی اور جنگل سے باہر آ گئے‘ ہم گاڑی تک پہنچتے پہنچتے بری طرح بھیگ چکے تھے‘ اللہ تعالیٰ کی رحمت تاحد نظر برس رہی تھی۔
دولت کے ہاتھوں قتل ہونے والے لوگ
جاوید چوہدری جمعرات 13 اگست 2015

فائرنگ کی آواز آئی،لوگ دوڑ کر ڈیرے پر پہنچے،راؤ اقبال خان خون میں لت پت پڑے تھے،ان کا چھوٹا بیٹا راؤ اطہر چند گز کے فاصلے پر پڑا تھا جب کہ دوسرا بیٹا راؤ اظہر ہذیانی کیفیت میں دہلیز پر بیٹھا تھا،لوگوں نے راؤ اطہر کی نبض ٹٹول کر دیکھی،وہ فوت ہو چکا تھا،راؤ اقبال کی ناک پر ہاتھ رکھا گیا،ان کے پھیپھڑوں میں ابھی زندگی باقی تھی،لوگ انھیں اٹھا کر اسپتال کی طرف دوڑ پڑے لیکن راؤ اقبال کی زندگی کو بھی بجھتے دیر نہ لگی۔
یہ راؤ اقبال کون تھے اور ان کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ ایک تکلیف دہ کہانی ہے،یہ تکلیف دہ کہانی کسی ایک شخص یا کسی ایک خاندان کی کہانی نہیں،یہ پاکستان کے بے شمار خاندانوں،بے شمار گھرانوں اور بے شمار راؤ اقبالوں کی کہانی ہے،آپ جب یہ کہانی سنیں گے تو آپ کو اس کہانی کے کردار اپنے دائیں بائیں چلتے پھرتے نظر آئیں گے،کیوں؟ کیونکہ یہ دراصل ہمارے سماج کی داستان ہے،اس سماج کی داستان جس نے تمام پرانی روایتیں،سارا پرانا سسٹم توڑ دیا لیکن نیا سسٹم اور نئی روایتیں قائم نہیں کیں چنانچہ بے شمار لوگ راؤ اقبال کی طرح زندگی کی سرحد عبور کر گئے اور باقی خوفناک انجام سے خوف زدہ ہیں،راؤ اقبال پیر محل کے رہنے والے تھے،گ ب 670/11 ان کا گاؤں تھا،یہ نیک،متحرک اور شریف انسان تھے،یہ خوش حال بھی تھے،یہ 1990ء میں پنجاب اسمبلی کے رکن بھی رہے،راؤ صاحب کے چار بیٹے تھے،بڑا بیٹا جوانی میں انتقال کر گیا،دوسرا بیٹا راؤ قمر اقبال ’’ پی ایس او‘،میں جاب کرتا ہے،تیسرا بیٹا راؤ اظہر اقبال یونین کونسل کا نائب ناظم رہا اور چوتھا بیٹا راؤ اطہر بھی سیاست میں تھا،یہ بھی یونین کونسل کا ناظم رہا،راؤ صاحب زمین،جائیداد اور پٹرول پمپس کے مالک تھے،ڈیرہ بھی چلتا تھا اور خاندان بھی علاقے میں معتبر تھا لیکن پھر بدقسمتی نے ان کے دروازے پر دستک دے دی،ان کا تیسرا بیٹا راؤ اظہر نشے کا عادی ہو گیا۔
لوگ راؤ اظہر کو لالہ کہتے تھے،لالہ نشے کے ٹیکے لگانے لگا اور آہستہ آہستہ ذہنی اور اخلاقی طور پر تباہ ہو گیا،نشہ صرف ایک شخص کو تباہ نہیں کرتا،یہ ہمارے خطے،ہمارے معاشرے میں پورے خاندان کو برباد کر دیتا ہے،ہم ’’جوائنٹ فیملی سسٹم‘‘میں رہتے ہیں،یہ دنیا کا بہترین سسٹم تھا لیکن ہماری زندگیوں میں آنے والی مغربیت نے یہ سسٹم تباہ کر دیا،ہم اگر پچھلے دس بیس برسوں میں سنگل فیملی سسٹم کی طرف چلے جاتے تو شاید ہم بچ جاتے لیکن بدقسمتی سے ہم اس سسٹم کو پسند نہیں کرتے لہٰذا صورتحال یہ ہے،جوائنٹ فیملی سسٹم ختم ہو چکا ہے اور سنگل فیملی سسٹم میں ہم جانا نہیں چاہتے چنانچہ اس کنفیوژن کا نتیجہ راؤ اقبال جیسی ٹریجڈی کی شکل میں نکل رہا ہے،لالہ (راؤ اظہر) نشے کا عادی ہو گیا،نشہ انسان کو حیوان بنا دیتا ہے،لالہ بھی حیوان بن گیا اور وہ والد سے اپنے حصے کی زمین جائیداد کا مطالبہ کرنے لگا،راؤ صاحب کی عمر 80 سال ہو چکی تھی،وہ اپنی نظروں کے سامنے اس زمین جائیداد کو تباہ ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے جو انھوں نے تنکا تنکا جمع کی چنانچہ انھوں نے صاف انکار کر دیا،ان کا چھوٹا بیٹا راؤ اطہر لائق تھا،والد نے اپنا کاروبار اسے سونپ دیا،وہ کام کرتا تھا لیکن لالہ کا مطالبہ بڑھتا چلا جا رہا تھا،والد نے اس کا ایک دلچسپ حل نکالا،لالہ کے دو بیٹے ہیں،یہ دونوں بیٹے ابھی چھوٹے ہیں۔
والد نے بیٹے (لالہ) کو پیش کش کی ’’میں تمہارا حصہ تمہارے دونوں بیٹوں کے نام کر دیتا ہوں‘،یہ ایک اچھی آفر تھی لیکن بیٹا نہ مانا،وہ اپنا حصہ اپنے والد کی زندگی میں لینا چاہتا تھا اور خود وصول کرنا چاہتا تھا،یہ کشمکش چلتی رہی یہاں تک کہ سوموار 10 اگست کی رات آ گئی،راؤ اقبال اپنے بیٹے راؤ اطہر کے ساتھ ڈیرے پر بیٹھے تھے،لالہ آیا،اس نے پہلے اپنے بھائی راؤ اطہر کی کنپٹی پر دو گولیاں ماریں اور اس کے بعد باپ پر فائرنگ کر دی،راؤ اقبال کو پیٹ،ٹانگ اور کندھے میں تین گولیاں لگیں،راؤ صاحب شدید زخمی ہو گئے جب کہ بیٹا اطہر موقع پر جاں بحق ہو گیا،لالہ نے یہ کارروائی کی اور اپنے کمرے میں گھس کر سو گیا،لوگ آئے،پولیس آئی تو لالہ نے کہانی گھڑی،والد اور مقتول بیٹے راؤ اطہر میں جائیداد کا جھگڑا ہوا،راؤ اطہر خودکشی کرنے لگا،باپ نے اس سے پستول چھیننے کی کوشش کی،گولی چل گئی،والد زخمی ہو گیا‘بیٹے نے جب باپ کو خون میں لت پت دیکھا تو اس نے خود کو گولی مار لی۔
پولیس نے تفتیش شروع کی تو پتہ چلا مقتول اطہر دائیں ہاتھ سے کام کرتا تھا لیکن گولیاں سر میں بائیں جانب لگی ہیں،سر میں گولیوں کے دو نشان بھی تھے اور یہ ممکن نہیں ہوتا کوئی انسان دائیں ہاتھ سے اپنی بائیں کنپٹی پر پستول رکھے اور گولی چلا دے اور دوسرا خودکشی کے دوران کوئی شخص اپنی کنپٹی پر دو گولیاں نہیں چلا سکتا،راؤ اقبال کو بھی تین گولیاں لگی تھیں،راؤ صاحب اگر پستول چھیننے کی کوشش میں زخمی ہوتے تو صرف ایک گولی چلنی چاہیے تھی،تین گولیاں کیسے چل گئیں اور یہ راؤ صاحب کے جسم پر تین مختلف مقامات پر کیسے لگ گئیں لہٰذا کیس کلیئر تھا،راؤ صاحب اور ان کے بیٹے کو قتل کیا گیا تھا،پولیس نے تدفین کے بعد لالہ کو گرفتار کر لیا،تفتیش ہوئی تو لالہ نے اعتراف جرم کر لیا،پستول برآمد ہو گیا،مقتول بھائی راؤ اطہر کا پرس بھی قاتل بھائی کے کمرے سے نکلا،پولیس نے جب قاتل کے کمرے کی تلاشی لی تو وہاں سے نشے کے 29 ٹیکے بھی برآمد ہوئے۔
آپ اب راؤ اقبال خان کی کہانی کا تجزیہ کیجیے،راؤ صاحب پوری زندگی سیاسی اور سماجی ساکھ بناتے رہے،یہ زمین،جائیداد اور کاروبار میں بھی اضافہ کرتے رہے،انھوں نے زندگی میں کروڑوں روپے کا انبار لگا لیا لیکن انجام کیا ہوا؟ بڑا بیٹا جوانی میں جاں بحق ہو گیا،تیسرے بیٹے نے چوتھے بیٹے اور باپ دونوں کو قتل کر دیا،گرفتار ہوا اور یہ اب پھانسی چڑھ جائے گا،پیچھے کیا بچا،ایک بیٹا جو شاید اب اتنے حادثوں کے بعد،اپنے باپ،اپنے بھائی کی لاشیں دیکھنے کے بعد اور اپنے ہی بھائی کو والد اور بھائی کے قاتل کے روپ میں دیکھنے کے بعد اپنا ذہنی توازن برقرار نہ رکھ سکے اور وہ جائیداد،وہ زمین اور وہ بینک بیلنس بچ گیا جسے بچاتے بچاتے راؤ صاحب اپنی زندگی اور اپنے خاندان دونوں سے محروم ہو گئے،یہ کتنی خوفناک ٹریجڈی ہے! آپ اگر اس ٹریجڈی کو عینک بنا کر اپنے اردگرد دیکھیں گے تو آپ کو معاشرے میں بے شمار راؤ اقبال خان نظر آئیں گے،یہ بے چارے عمر بھر پیسہ پیسہ جوڑ کر تاج محل بناتے ہیں لیکن پھر اسی تاج محل کی دہلیز پر ان اپنوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں جن کے لیے وہ اپنی ہر خواہش قربان کرتے رہے،ان بے چاروں کو کس جرم کی سزا ملتی ہے؟
ان لوگوں کے تین جرم ہوتے ہیں،ان کا پہلا جرم ضرورت سے زائد دولت ہوتی ہے،یہ خاندان کے لیے اتنی دولت جمع کر لیتے ہیں کہ ان کے بچے اپنے اندر کوئی ہنر پیدا نہیں کرتے،یہ بچپن سے اپنے آپ کو یہ یقین دلا بیٹھتے ہیں،ہمارے والد کو اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے،ہمیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے،یہ فلسفہ،یہ فارمولہ بچوں کی تیس سال کی عمر تک چلتا ہے لیکن یہ جوں ہی تیس سال کی لکیر پر قدم رکھتے ہیں،خاندان میں بٹوارے کی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں اور یہ آوازیں دولت،سکون اور اتفاق تینوں کو نگلنے لگتی ہیں،دوسرا جرم بچوں کی تربیت ہے،راؤ اقبال جیسے لوگ محنت اور جدوجہد کے دوران بچوں کی اخلاقی،نفسیاتی اور ذہنی تربیت پر توجہ نہیں دے پاتے چنانچہ بچے خراب ہو جاتے ہیں،آپ کبھی خاندانوں کے عروج اور زوال کی داستانیں پڑھیں،آپ کو وہاں ایک کا ہندسہ ملے گا،کوئی ایک شخص اٹھتا ہے اور پورے خاندان کا مقدر بدل کر رکھ دیتا ہے اور پھر خاندان میں لالہ جیسا کوئی ایک بیٹا،کوئی ایک سالہ،کوئی ایک بہنوئی اور کوئی ایک بھانجا پیدا ہوتا ہے اور پورے خاندان کو تباہ کر دیتا ہے اور راؤ اقبال جیسے لوگوں کا تیسرا جرم ان کی طویل العمری ہے۔
یہ لوگ اگر ساٹھ باسٹھ سال کی عمر میں فوت ہو جائیں تو بھی خاندان بچ جاتے ہیں،بچوں کو حصے مل جاتے ہیں اور یہ اچھی یا بری اپنی اپنی زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں،پرانے زمانوں میں ہر وہ بادشاہ اپنے ولی عہد کے ہاتھوں مارا گیا جس سے طویل العمری کا جرم سرزد ہوا،آپ بادشاہوں کے پروفائل نکالیے،آپ کو نوے فیصد بادشاہ ساٹھ باسٹھ سال کی عمر میں مرتے نظر آئیں گے،کیوں؟ کیونکہ یہ ولی عہدوں کی مہربانی ہوتی تھی،وہ والد محترم کو زہر دے دیتے تھے یا پھر کسی جنگ میں مروا دیتے تھے اور بادشاہ اگر اس کے باوجود زندہ رہتے تھے تو پھر یہ بے چارے شاہ جہاں کی طرح اپنی آخری عمر اپنے بیٹے کی قید میں گزارتے تھے،راؤ اقبال خان بھی شاہ جہاں تھے،یہ بیٹے کو اسی سال کی عمر تک صحت مند اور چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے اور بیٹا یہ برداشت نہ کر سکا اور بیٹا بھی وہ جو نشے کا عادی تھا،جسے کوئی کام نہیں آتا تھا اور جس کی زندگی کا واحد مقصد والد کی دولت ہتھیانا تھا،راؤ اقبال اور ان کے خاندان کو ان کی یہ تین غلطیاں نگل گئیں۔
آپ بھی اگر راؤ اقبال خان ہیں یا آپ راؤ اقبال کی طرح ترقی کرنا چاہتے ہیں تو آپ تین باتیں پلے باندھ لیں،آپ اپنے کسی بیٹے کو غیر تعلیم یافتہ اور بے ہنر نہ رہنے دیں،انھیں ہنر مند بنائیں اور یہ جوں ہی جوان ہوں آپ انھیں ملازمت کروائیں،یہ لوگ خواہ پانچ چھ برس بعد ملازمت چھوڑ دیں لیکن انھیں ملازمت ضرور کرنی چاہیے کیونکہ ملازمت انسان کو انسان بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے،یورپ اور امریکا کے تمام بزنس مین اور سیاسی خاندان اپنے بچوں کو ملازمت ضرور کرواتے ہیں،یہ انھیں ہنر بھی سکھاتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم بھی دلاتے ہیں،دو،آپ کا بچہ اگر کسی نفسیاتی یا اخلاقی بیماری کا شکار ہو گیا ہے،یہ نشے کا عادی ہے تو آپ وقت یا شادی کو اس کا علاج نہ سمجھیں،آپ فوری طور پر اس کا طبی علاج کروائیں کیونکہ آپ نے اگر اپنے کسی بیٹے کو وقت یا حالات پر چھوڑ دیا تو پھر وہ کسی بھی وقت آپ اور آپ کے خاندان کے لیے لالہ بن جائے گا اور آخری مشورہ،آپ اگر صحت مند ہیں اور طویل عمر پانا چاہتے ہیں تو آپ ساٹھ سال کی عمر میں اپنے تمام بچوں کو ان کا حصہ دے دیں،آپ اپنے پاس صرف اتنی دولت رکھیں جس سے آپ کا بڑھاپا عزت کے ساتھ گزر سکے کیونکہ آپ اگر دولت کو سینے سے لگائے رکھیں گے تو پھر آپ کے راؤ اقبال بننے کے چانسز بڑھتے جائیں گے،میں نے زندگی میں آج تک کسی شخص کو غربت اور بھوک سے مرتے نہیں دیکھا لیکن میں اب تک راؤ اقبال جیسے ایسے درجنوں لوگ دیکھ چکا ہوں جو اپنی ہی دولت کے ہاتھوں قتل ہو گئے،جو اپنی خوش حالی کی گولی کا شکار ہو گئے۔
کل کا مورخ
جاوید چوہدری منگل 11 اگست 2015

میرے ایک دوست کے ساتھ اسلام آباد میں خوفناک واردات ہوئی، ان کی بیٹی اپنی بچی کو اسکول سے ’’پک‘‘ کرنے گئی، یہ گاڑی پر واپس آئی، دو موٹر سائیکل سوار اس کا پیچھا کر رہے تھے، یہ جوں ہی گھر کے سامنے پہنچی، موٹر سائیکل سوار اترے، موٹر سائیکل سڑک پر چھوڑی اور گاڑی کو گھیر لیا، ایک نوجوان گاڑی کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا، دوسرے نے ڈرائیونگ سیٹ والا دروازہ کھولا، خاتون کو پستول دکھایا اور اس کی کلائی سے چوڑیاں اتارنے لگا، خاتون نے اسے روکا، اپنی چوڑیاں خود اتاریں اور نوجوان کے حوالے کر دیں۔
وہ دونوں اطمینان سے موٹر سائیکل پر بیٹھے اور غائب ہو گئے، گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں، یہ ساری واردات کیمروں میں ریکارڈ ہو گئی، کیمرے میں موٹر سائیکل بھی دکھائی دے رہی ہے، لوٹنے والے نوجوان بھی، ان کے چہرے بھی، گلی سے گزرتے ہوئے لوگ بھی اور لوٹنے والے جس طرف سے آئے اور جس طرف نکل گئے یہ سب بھی، پولیس کو رپورٹ کر دی گئی، سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دے دی گئی لیکن ہفتہ گزرنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی، یہ اسلام آباد کی صورتحال ہے، اس اسلام آباد کی جس کی آبادی بمشکل 12 لاکھ، رقبہ چند کلومیٹر ہے اور ان چند کلومیٹر میں 19 تھانے ہیں، یہ وفاقی دارالحکومت بھی ہے، پوری وفاقی حکومت، پوری پارلیمنٹ اور تین افواج کے ہیڈ کوارٹرز بھی اسلام آباد میں ہیں لیکن شہر کی حالت یہ ہے ۔
شہریوں کو ان کے گھروں کے گیٹ پر لوٹ لیا جاتا ہے، ڈاکو موٹر سائیکل پر آتے ہیں اور واردات کے بعد موٹر سائیکل پر فرار ہو جاتے ہیں، یہ وفاقی دارالحکومت اور ملک کا محفوظ ترین شہر ہے، آپ کراچی اور لاہور کا اندازہ خود لگا لیجیے، کراچی میں چند دن قبل ملک کے نامور صحافی اور اینکر پرسن جنید سلیم کے بھائی کو صرف موبائل فون کے لیے گولی مار دی گئی،یہ اسپتال میں جانبر نہ ہو سکے، مرحوم ان چند لوگوں میں شمار ہوتے تھے جو ظلم سہنے کے بجائے ظالم کے ساتھ مزاحمت کے قائل تھے چنانچہ انھوں نے مزاحمت کی، دو گولیاں کھائیں اور ڈاکو فون اور خون دونوں لے گئے۔
قصور کا انتہائی خوفناک اور ننگ انسانیت واقعہ بھی آپ کے سامنے ہے، ایک گینگ پچھلے تین چار برسوں سے بچوں کے ساتھ زیادتی کر رہا تھا، ان کی فلمیں بنا رہا تھا اور یہ فلمیں دکھا کر بچوں اور والدین کو بلیک میل کر رہا تھا، اس اسکینڈل نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی گڈ گورننس کے تمام دعوے مٹی میں ملا دیے، یہ انتہائی افسوس ناک اسکینڈل ہے، یہ پوری دنیا میں پاکستان کی بے عزتی اور جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے لیکن ملک کے متحرک ترین وزیراعلیٰ ابھی تک تفتیش مکمل نہیں کرا پائے، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور سیالکوٹ میں راہ زنی، ڈاکہ زنی اور چوری کی وارداتیں بھی عام ہیں۔
راولپنڈی میں 9 جنوری 2014ء کو ایکسپریس ٹی وی کے نان لینئر ایڈیٹر ہارون احمد کو موبائل فون کے لیے گولی مار دی گئی تھی، آپ المیہ ملاحظہ کریں، ڈاکوؤں نے وہ موبائل بعد ازاں تین سو روپے میں فروخت کیا تھا یعنی انسانی جان کی قیمت صرف تین سو روپے ہے اور اتوار کو مسلم لیگ ن کے ایم این اے اسد الرحمن کو بھی لوٹ لیا گیا، ڈاکو باقاعدہ سڑک روک کر گاڑیاں لوٹ رہے تھے، ایم این اے بھی لٹنے والوں میں پھنس گئے، انھوں نے جان بچانے کے لیے نہ صرف اپنا نام اور شناخت خفیہ رکھی بلکہ رقم اور موبائل بھی ڈاکوؤں کے حوالے کر دیا۔
یہ ملک کی صورتحال ہے، ڈاکو لوٹ رہے ہیں، شہریوں کو موبائل فون کے لیے گولیاں ماری جا رہی ہیں، ایم این اے لٹ رہے ہیں اور ایڈیشنل سیشن ججوں کو گھروں میں داخل ہو کر قتل کیا جا رہا ہے لیکن حکومت اپنی معاشی کامیابیوں کے ڈھول پیٹ رہی ہے، یہ بلوم برگ، فوربس اور اکانومسٹ کے حوالے دے دے کر اعلان کر رہی ہے، آپ دیکھیں، ہم نے کتنی ترقی کی، یہ درست ہے ملک کی معاشی حالت میں بہتری آ رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر کی سطح کو چھو رہے ہیں، سرمایہ کاری بھی ہو رہی ہے، چین بھی کھربوں روپے کے منصوبے لگا رہا ہے، دہشت گردی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
لوڈ شیڈنگ کے خاتمے پر بھی کام ہو رہا ہے اور میٹرو بس سروسز بھی شروع ہو چکی ہیں لیکن ملک میں عام شہریوں کی صورتحال کیا ہے؟ کیا کسی نے سوچا؟ کیا کسی نے ان کے تحفظ کے لیے بھی کوئی پالیسی بنائی؟ اگر نہیں تو وہ حکومت کب آئے گی جو عام آدمی کے لیے سوچے گی، جو عام شہری کے لیے پالیسی بنائے گی؟ یہ وہ سوال ہیں جو ملک کا ہر شخص ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے۔
حکومت زیادہ نہیں تو یہ چند ایسی پالیسیاں ضرور بنا سکتی ہے جس سے شہریوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہو جائے، مثلاً حکومت گھروں میں سی سی ٹی وی کیمرے لازمی قرار دے دے، یہ کیمرے تمام گھروں، تمام گلیوں اور تمام سڑکوں کو ’’کور‘‘ کریں اور یہ آخر میں سینٹرل کنٹرول سسٹم میں مل جائیں، پولیس ان کیمروں کے ذریعے آسانی سے ملزموں تک پہنچ جائے گی، یہ کیمرے اپنی مدد آپ کے تحت لگائے جائیں، حکومت صرف سنٹرل کنٹرول سسٹم بنائے اور یہ سسٹم روز ان کیمروں کے ذریعے پورے شہر کا جائزہ لے، شہروں کے مرکزی علاقوں میں اس اینگل سے کیمرے لگائے جائیں جس سے تمام گاڑیوں کی نمبر پلیٹس پڑھی جا سکیں، ملک میں اس وقت جتنے کیمرے ہیں، ان سے صرف گاڑیاں اور لوگ دیکھے جا سکتے ہیں۔
آپ چہرے اور نمبر دونوں کی شناخت نہیں کر سکتے، حکومت اگر چوکوں اور چوراہوں پر ’’لو اینگل‘‘ کے کیمرے لگا دے گی تو بڑی آسانی سے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو ’’ٹریک‘‘ کیا جا سکے گا، حکومت اگر اسی طرح زیورات اور موبائل فون کی خریدو فروخت کو سخت کر دے تو بھی وارداتوں میں کمی آ جائے گی، ملک کا کوئی سونار اس وقت تک کوئی زیور یا سونا نہ خریدے جب تک بیچنے والا سونے یا زیور کی خریداری کی رسید نہ دکھائے، خریداروں اور بیچنے والوں کے شناختی کارڈ اور خفیہ کیمروں کے ذریعے تصاویر کا ریکارڈ بھی رکھا جائے اور وہ سونار جو ان قوانین کی خلاف ورزی کرے۔
حکومت اس کے لیے کڑی سزا طے کرے، ملک کی تین بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے اپنے مکینوں کی انشورنس کرا رکھی ہیں، حکومت بھی ہاؤس انشورنس کو لازمی قرار دے دے، گاڑیوں، گھروں، دکانوں، زیورات، لیپ ٹاپ اور پچاس ہزار روپے سے زیادہ قیمتی اشیاء کی انشورنس بھی لازمی قرار دے دی جائے، موبائل کی انشورنس کی ذمے داری موبائل فون کمپنیوں پر ڈالی جائے، یہ کمپنیاں سم جاری کرتے وقت انشورنس کی سہولت دیں اور انشورنس کی رقم صارف کے بل سے کاٹ لیں، اس انتظام کے بعد کوئی صارف ڈاکوؤں سے مزاحمت نہیں کرے گا اور یوں لوگوں کی جانیں بچ جائیں گی۔
زیورات اور قیمتی اشیاء کی انشورنس سے شہریوں کا مورال بھی ڈاؤن نہیں ہو گا اور انشورنس کمپنیاں بھی ایسے سسٹم متعارف کرانے پر مجبور ہو جائیں گی جن کے ذریعے چوریاں اور ڈاکے روکے جا سکیں گے، ملک کی آبادی زیادہ ہے اور پولیس فورس کم، حکومت پولیس کو صرف جرائم کے سدباب پر لگائے اور لاء اینڈ آرڈر کی ذمے داری فوج کو سونپ دے، اس سے پولیس پر دباؤ کم ہو جائے گا اور یہ جرائم کے خلاف یک سو ہو سکے گی، حکومت تفتیش کے لیے عارضی طور پر ریٹائرڈ پولیس افسروں کو بھی دوبارہ بھرتی کر سکتی ہے، ان لوگوں کو فی کیس کے لحاظ سے ’’پے منٹ‘‘ کی جائے، ملک میں یورپ اور امریکا کی طرح ’’پرائیویٹ انویسٹی گیشن کمپنیاں‘‘ بھی بنائی جا سکتی ہیں، یہ کمپنیاں تفتیش کریں، ملزموں اور مجرموں تک پہنچیں اور پھر کیس پولیس کے حوالے کر دیں۔
یہ حکومت کے کام ہیں لیکن ہم عوام کو بھی چند حقائق سمجھنا ہوں گے، یہ بیس کروڑ لوگوں کا ایسا ملک ہے جس کی دو تہائی آبادی بے کار اور بیمار ہے، بیس کروڑ لوگوں کے ملک میں صرف دس لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں گویا 19 کروڑ 90 لاکھ لوگوں کا بوجھ دس لاکھ لوگوں نے اٹھا رکھا ہے، ملک سے تیل، سونا اور یورینیم نہیں نکل رہی کہ ریاست 19 کروڑ لوگوں کو گھر بٹھا کر روٹی، پانی، سڑک، اسپتال، اسکول اور تحفظ فراہم کر دے، ہماری کل ایکسپورٹس قریباً30 ارب ڈالر اور امپورٹس 45 ارب ڈالر ہیں، گویا ہم کچھ پیدا کر رہے ہیں، کچھ بنا رہے ہیں اور نہ ہی لوگ ٹیکس دے رہے ہیں چنانچہ پھر ریاست کیسے چلے گی؟ ریاست کو ظاہر ہے تعلیم، اسپتال، پولیس، عدالت، سڑک اور صاف پانی کے لیے سرمایہ چاہیے۔
یہ سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ دنیا کے تمام جدید ممالک میں لوگ ٹیکس کی شکل میں ریاست کے ساتھ کمیٹی ڈالتے ہیں، یہ اپنی آمدنی کا تیس، چالیس اور پچاس فیصد حصہ ریاست کو دے دیتے ہیں، ریاست یہ رقم لے کر انھیں اسپتال، اسکول، پولیس، انصاف، صاف پانی اور سڑکیں دیتی ہے، یہ لوگ مکان اور گاڑیاں کھلی چھوڑ کر سو جاتے ہیں، یہ پہاڑوں کی چوٹیوں، جنگلوں اور صحراؤں میں بھی خود کو محفوظ سمجھتے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں ہم یہ ’’کمیٹی‘‘ نہیں ڈالتے، ہم میں سے صرف دس لاکھ لوگ زبردستی یا بزدلی کی وجہ سے ٹیکس دیتے ہیں چنانچہ پھر ہمیں تعلیم، صحت، صاف پانی، پولیس، انصاف اور سیکیورٹی خریدنی پڑتی ہے اور اس خریدوفروخت کے دوران ہم میں سے اکثر لوگ اپنا پورا اثاثہ کھو بیٹھتے ہیں اور باقی اثاثے کے ساتھ ساتھ اپنی جان سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔
ہم لوگ اگر کسی دن میز پر بیٹھیں، کاغذ اور قلم لیں اور حساب لگانا شروع کریں، ہم نے سال میں بچوں کی تعلیم پر کتنا سرمایہ خرچ کیا، ہم نے ڈاکٹروں اور کیمسٹوں کو کتنے پیسے دیے، ہم روز کن گندی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور گلیوں سے گزر کر گھر آتے ہیں، ہم ہر سال کتنے پیسوں کا منرل واٹر پی جاتے ہیں، ہمارا سیوریج سسٹم سال میں کتنی بار بند ہوتا ہے، ہم پولیس کو بلانے، ایف آئی آر کٹوانے اور جعلی درخواستوں سے بچنے کے لیے سال میں کتنے روپے برباد کرتے ہیں، ہمارے مقدمے کتنے سالوں سے عدالتوں میں زیر التواء ہیں، ہم اب تک وکیلوں اور عدالتی اہلکاروں کو کتنی فیس دے چکے ہیں۔
ہمارے گھروں اور دفتروں میں کتنی بار چوریاں ہوئیں اور ہم گھروں کو محفوظ رکھنے کے لیے چوکیداروں، گارڈز اور سیکیورٹی ایجنسیوں کو ہر سال کتنی رقم دیتے ہیں تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، یہ رقم ہمارے ٹیکس سے تین گنا ہو گی، اب سوال یہ ہے، ہم ٹیکس دے کر اپنے آپ کو ان تمام چھوٹے خرچوں سے آزاد کیوں نہیں کرا لیتے، ہم اپنے آپ کو خوف اور اندیشوں کی شکار اس بیمار زندگی سے کیوں نہیں نکال لیتے؟ آپ جان لیں، آپ اگر کمیٹی نہیں ڈالیں گے تو آپ کو ہر وہ سہولت خریدنی پڑے گی جس کی ذمے داری جدید دنیا میں ریاستیں اٹھاتی ہیں چنانچہ پاکستان میں حکومتوں کو بھی اپنی ذمے داریاں نبھانی ہوں گی اور ہم سب کو بھی ہوش مندی سے کام لینا ہو گا ورنہ کل کا مورخ ہمیں ہماری حکومتوں، ہمارے سیاستدانوں اور ہمارے بیوروکریٹس سے زیادہ سفاک اور زیادہ بڑا مجرم لکھے گا۔

سی ایم لطیف جیسے لوگ
جاوید چوہدری اتوار 9 اگست 2015

والد نے ان کا نام محمد لطیف رکھا، وہ بڑے ہو کر چوہدری محمد لطیف ہو گئے لیکن دنیا انھیں ’’سی ایم لطیف‘‘ کے نام سے جانتی تھی، وہ پاکستان کے پہلے وژنری انڈسٹریلسٹ تھے اور انڈسٹریلسٹ بھی ایسے کہ چین کے وزیراعظم چو این لائی، شام کے بادشاہ حافظ الاسد اور تھائی لینڈ کے بادشاہ ان کی فیکٹری دیکھنے کے لیے لاہور آتے تھے۔
چو این لائی ان کی فیکٹری، ان کے بزنس ماڈل اور ان کے انتظامی اصولوں کے باقاعدہ نقشے بنوا کر چین لے کر گئے اور وہاں اس ماڈل پر فیکٹریاں لگوائیں، سی ایم لطیف کی مہارت سے شام، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور جرمنی تک نے فائدہ اٹھایا، وہ حقیقتاً ایک وژنری بزنس مین تھے، وہ مشرقی پنجاب کی تحصیل بٹالہ میں پیدا ہوئے، والد مہر میران بخش اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے لیکن وہ لطیف صاحب کے بچپن میں فوت ہو گئے، لطیف صاحب نے والد کی خواہش کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کی، یہ 1930 میں مکینیکل انجینئر بنے ۔انھوں نے دو کمروں اور ایک ورانڈے میں اپنی پہلی مل لگائی۔
یہ صابن بناتے تھے، ان کے چھوٹے بھائی محمد صدیق چوہدری بھی ان کے ساتھ تھے، صدیق صاحب نے بعد ازاں نیوی جوائن کی اور یہ قیام پاکستان کے بعد 1953سے 1959 تک پاکستان نیوی کے پہلے مسلمان اور مقامی کمانڈر انچیف رہے، لطیف اور صدیق دونوں نے دن رات کام کیا اور ان کی فیکٹری چل پڑی، یہ ہندو اکثریتی علاقے میں مسلمانوں کی پہلی انڈسٹری تھی، یہ صابن فیکٹری کے بعد لوہے کے کاروبار میں داخل ہوئے اور علاقے میں چھا گئے۔
پاکستان بنا تو ان کے پاس دو آپشن تھے، یہ اپنے کاروبار کے ساتھ ہندوستان میں رہ جاتے یا یہ کاروبار کی قربانی دے کر پاکستان آ جاتے، سی ایم لطیف نے دوسرا آپشن پسند کیا، یہ بٹالہ سے لاہور آ گئے، آزادی نے سی ایم لطیف کا سب کچھ لے لیا، یہ بٹالہ سے خالی ہاتھ نکلے اور خالی ہاتھ لاہور پہنچے۔سی ایم لطیف بہرحال پاکستان آئے اور 1947میں نئے سرے سے کاروبار شروع کر دیا، انھوں نے لاہور میں بٹالہ انجینئرنگ کمپنی کے نام سے ادارہ بنایا، یہ ادارہ آنے والے دنوں میں ’’بیکو‘‘ کے نام سے مشہور ہوا، بیکو نے پاکستان میں صنعت کاری کی بنیاد رکھی۔
ملک کے نئے صنعت کاروں میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے والد میاں شریف بھی شامل تھے، میاں شریف سات بھائی تھے، یہ لوگ امرتسر کے مضافات میں ایک چھوٹے سے گاؤں ’’جاتی امرا‘‘ کے رہنے والے تھے، میاں شریف کے والد میاں رمضان حکیم تھے، یہ سکھوں کے گاؤں میں اکیلا مسلمان گھرانہ تھا، میاں برکت خاندان کے سب سے بڑے بیٹے تھے، یہ میاں رمضان کی پہلی بیگم کی اولاد تھے، یہ بیگم فوت ہو گئی، میاں رمضان نے دوسری شادی کی، دوسری بیگم سے چھ بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی، میاں برکت اور میاں شفیع سے گھر کی غربت دیکھی نہ گئی۔
یہ دونوں جاتی امرا سے نکلے، لاہور آئے اور ریلوے روڈ پر لوہے کی ایک بھٹی پر نوکری کر لی، یہ دونوں بھائی سارا دن لوہا کوٹتے تھے، شام کو انھیں ایک روپیہ ملتا تھا، خاندان نے میاں شریف کو اسکول داخل کرا دیا، میاں شریف نے جاتی امرا سے چار کلو میٹر دور ’’نیویں سرلی‘‘ سے پرائمری تک تعلیم حاصل کی، لاہور آئے اور بھائیوں کے ساتھ مزدوری شروع کر دی، یہ صبح مسلم ہائی اسکول رام گلی جاتے تھے اور شام کو لوہا کوٹتے تھے، یہ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخل ہو گئے، غربت اور تعلیم کا شوق دونوں اتنے زیادہ تھے کہ یہ کالج میں ’’فیس معافی‘‘ کی درخواست دینے پر مجبور ہو گئے اور اساتذہ نے ان کے سخت ہاتھ دیکھ کر انھیں ’’ہوم ورک‘‘ سے معافی دے دی، میاں شریف نے مزدوری کر کے پیسے جمع کیے۔
حاجی فیروز دین سے 310 میں بھٹی خریدی، چچا سے پانچ سو روپے ادھار لیے اور اپنا کام شروع کر دیا، کام چل پڑا تو بھائی بھی ساتھ شامل ہو گئے، 1945 میں ایک انگریز گاہک نے کراچی کے ایک ایسے انگریز کا ذکر کیا جو لوہے کے اسکریپ سے کاسٹ آئرن (دیگی لوہا) بنانے کا ماہر تھا، میاں شریف کراچی پہنچے، انگریز سے ملے اور اسے اس کے منہ مانگے معاوضے پر ملازم رکھ لیا، وہ انگریز لاہور آیا اور ہاتھوں سے لوہا کوٹنے والے بھائی ملک کے بڑے صنعت کار اور لوہا پگھلانے والی بھٹی ’’اتفاق گروپ‘‘ بن گئی، 1960 تک لوہے کے کاروبار میں دو بڑے گروپ تھے، بیکو اور اتفاق۔ سی ایم لطیف زیادہ پڑھے لکھے اور زیادہ منظم تھے چنانچہ ان کا گروپ پہلے نمبر پر تھا جب کہ اتفاق گروپ دوسرے نمبر پر آتا تھا۔
سی ایم لطیف نے ملک میں بے شمار نئی چیزیں متعارف کرائیں، یہ سائیکل سے لے کر جہازوں کے پرزے تک بناتے تھے، بیکو گروپ یورپ سے لے کر چین اور جاپان تک مشہور تھا، پھر یہ دونوں گروپ سیاسی شب خون کا شکار ہو گئے، ذوالفقار علی بھٹو نے 1970میں الیکشن لڑا، علامہ اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال ان کے مد مقابل تھے، میاں شریف جاوید اقبال کے مدد گار تھے، سی ایم لطیف نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کو فنڈ دینے سے انکار کر دیا، 1971میں پاکستان ٹوٹ گیا اور ذوالفقار علی بھٹو موجودہ پاکستان کے صدر بن گئے، بھٹو نے 1972 میں ملک کے تما م صنعتی گروپ قومیا لیے، یوں ملک بھر کے تمام بڑے صنعت کار فٹ پاتھ پر آ گئے، ان میں میاں شریف اور سی ایم لطیف بھی شامل تھے۔
میاں شریف کے پاس اردو بازار کے ایک بند برف خانے اور ایک کار کے سوا کچھ نہیں تھا، سات بھائیوں کے گھروں سے پیسے اور زیورات جمع کیے گئے، بیچے گئے تو صرف نوے ہزار روپے اکٹھے ہوئے، سی ایم لطیف کی صورت حال زیادہ ابتر تھی، آپ تصور کیجیے، ایک شخص جس نے 1932 میں بٹالہ میں کام شروع کیا اور وہ جب وہاں سیٹھ بنا تو اس کا سارا اثاثہ آزادی نے لوٹ لیا، وہ لٹا پٹا پاکستان آیا، اس نے دوبارہ کام شروع کیا، لیکن پھر ایک رات اس کا سارا اثاثہ اس ملک نے چھین لیا ۔
جس کے لیے اس نے 1947 میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا، آپ تصور کیجیے، اس شخص کی ذہنی صورتحال کیا ہو گی؟ میاں شریف اور سی ایم لطیف دونوں اس صورتحال کا شکار ہو گئے، میاں شریف نے ہار نہ مانی، انھوں نے اردو بازار کے برف خانے سے دوبارہ کاروبار شروع کیا، گرینڈ لائیز بینک کے منیجر نے ان پر اعتبار کیا۔
انھیں قرضہ دے دیا اور یوں یہ دوبارہ قدموں پر کھڑے ہو گئے لیکن سی ایم لطیف حوصلہ ہار گئے، وہ پاکستان سے نقل مکانی کر گئے، وہ جرمنی گئے اور وہاں ایک چھوٹے سے گاؤں میں زندگی گزار دی، انھوں نے دوبارہ کوئی کمپنی بنائی، کوئی کاروبار کیا، ان کا انتقال 2004میں 97 سال کی عمر میں ہوا، جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں انھیں بیکو واپس لینے کی درخواست کی لیکن سی ایم لطیف نے معذرت کر لی۔
1972ء میں جب بھٹو نے سی ایم لطیف سے بیکو چھینی تھی، اس وقت اس فیکٹری میں چھ ہزار ملازمین تھے اور یہ اربوں روپے سالانہ کا کاروبار کرتی تھی لیکن یہ فیکٹری بعد ازاں زوال کا قبرستان بن گئی، حکومت نے اس کا نام بیکو سے پیکو کر دیا تھا، پیکو نے 1998تک 761 ارب روپے کا نقصان کیا، بیکو کا ہیڈ آفس بادامی باغ میں تھا، یہ علاقہ کبھی پاکستانی صنعت کا لالہ زار ہوتا تھا اور دنیا بھر سے آنے والے سربراہان مملکت کو پاکستان کی ترقی دکھانے کے لیے خصوصی طور پر بادامی باغ لایا جاتا تھا لیکن حکومت کی ایک غلط پالیسی اور ہماری سماجی نفسیات میں موجود حسد اور خودکشی کے جذبے نے اس لالہ زار کو صنعت کا قبرستان بنا دیا اور لوگ نہ صرف بیکو کی اینٹیں تک اکھاڑ کر لے گئے بلکہ انھوں نے بنیادوں اور چھتوں کا سریا تک نکال کر بیچ دیا اور یوں پاکستان کا سب سے بڑا وژنری صنعت کار اور ملک کی وہ صنعت جس نے جاپان اور چین کو صنعت کاری کا درس دیا تھا، وہ تاریخ کا سیاہ باب بن گئی۔
آج حالت یہ ہے، وہ لوگ جن کے لیڈر پاکستان سے صنعت کاری کے نقشے حاصل کرتے تھے، وہ لوگ سی ایم لطیف کے ملک کو بلڈوزر سے لے کر ٹریکٹر اور ٹونٹی سے لے کر ہتھوڑی تک بیچتے ہیں اور سی ایم لطیف کی قوم یہ ساراسامان خرید کر پاک چین دوستی زندہ باد کے نعرے لگاتی ہے ۔
ہم کیا لوگ ہیں، ہم 1972میں ملک کو کاروبار اور صنعت کاقبرستان بنانے والوں کی برسیاں مناتے ہیں لیکن ہمیں سی ایم لطیف جیسے لوگوں کی قبروں کا نشان معلوم ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہے یہ زندگی کی آخری سانس تک پاکستان کو کس نظر سے دیکھتے رہے۔یہ المیہ اگر صرف یہاں تک رہتا تو شاید ہم سنبھل جاتے،شاید ہمارا ڈھلوان پر سفر رک جاتا لیکن ہم نے اب ڈھلوان پر گریس بھی لگانا شروع کر دی ہے،ہم بیس کروڑ لوگوں کی قوم ہیں لیکن ارب پتی صرف دو ہیں ۔
میاں منشاء اور ملک ریاض۔ یہ دونوں بھی سی ایم لطیف جیسی کہانیاں ہیں ، یہ دونوں بھی آج کل سی ایم لطیف کی طرح اپنی قوم، اپنے لوگوں سے پوچھ رہے ہیں ’’ہمارا قصور کیا ہے ؟ کیا ہم ملک میں کام نہ کرتے ،ہم ترقی نہ کرتے ؟کیا کام کرنا، کیا ترقی کرنا جرم ہے؟‘‘یہ پوچھ رہے ہیں’’ہم آج بھی ملک میں ہیں، ہم آج بھی دس، پندرہ، بیس لاکھ لوگوں کو روزگار دے رہے ہیں، ہم آج بھی کام کر رہے ہیں ، کیا ہم کام چھوڑ دیں، کیاہم بھی سیاستدانوں ،بیوروکریٹس اور جرنیلوں کی طرح دوبئی ،لندن اور نیویارک میں بیٹھ جائیں ،کیا ہم بھی ایان علی بن جائیں ،کیا ہم بھی اپنا پیسہ لیں اور ملک سے روانہ ہو جائیں؟‘‘لیکن کوئی شخص ان کے سوالوں کا جواب نہیں دے رہا، ملک ریاض نے چند دن قبل ایک ویڈیو ریلیز کی، اس ویڈیو میں ایک ریٹائرڈکرنل ملک ریاض سے پانچ کروڑ روپے لے رہا تھا، یہ شخص عدالتوں میں درخواستیں دیتا ہے اور پھر درخواستیں واپس لینے کا وعدہ کرکے پیسے بٹورتا ہے۔
یہ ویڈیو22جولائی کو ریلیز ہوئی لیکن آج تک کسی ادارے ،کسی محکمے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی،یہ بلیک میلر آج بھی ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں میں ملک ریاض کے خلاف مدعی ہے، ہم اتنے بے حس کیوں ہیں ، ہم اس ملک میں کام کرنے والے لوگوں کو سی ایم لطیف کی طرح دوسرے ملکوں میں کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہماری نظروںمیں کام کرنے والا ہر شخص برا اور پرفارم کرنے والا ہر شخص مجرم کیوں ہے ؟یہ لوگ برے ہونگے،یہ مجرم بھی ہوں گے لیکن آپ ان کا جرم، ان کی برائی تو بتائیں اور اگر یہ برائی ،یہ جرم ثابت ہو جائے تو آپ انھیں سزا بھی دیں مگر انھیں ذلیل کرنا تو بند کر دیں، انھیں بلیک میلروں سے بچالیں۔
مجھے اکثر اوقات محسوس ہوتا ہے، ہم اس ملک میں کام کرنے والوں اور ترقی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے ، وہ لوگ جو ریاست کے داماد بن کر پوری زندگی گزار دیتے ہیں، وہ ہمارے ہیرو ہوتے ہیں اور جو لوگ ملک بھر کے پیاسوں کے لیے کنوئیں کھودتے ہیں ،ہم جب تک سی ایم لطیف کی طرح انھیں کنوئیں میں نہ پھینک دیں، ہمیں اس وقت تک تسلی نہیں ہوتی، ہم محسنوں کو ذلیل کرنے والے لوگ ہیں، ہم نے اس ملک میں ملک بنانے والوں کو بخشا ، ملک بچانے والوں کو بخشا اور نہ ہی ملک سنوارنے والوں کو بخشا، ہم نے صرف ملک توڑنے والوں کو سلام کیا۔
جو ریاست اپنے جج کو نہ بچا سکے
جاوید چوہدری جمعـء 7 اگست 2015

طاہر خان نیازی بدھ 5 اگست 2015ء دن دو بجے تک راولپنڈی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھے، عدالتوں میں اگست کے مہینے میں سالانہ تعطیلات ہوتی ہیں، یہ بھی دوسرے ججز کی طرح چھٹی پر تھے، یہ راولپنڈی میں سیٹلائٹ ٹاؤن کے سی بلاک میں رہائش پذیر تھے، پونے دو بجے ان کے گھر میں تین مسلح لوگ داخل ہوئے، جج صاحب کو پہچانا، ان کی پسلی پر سیون ایم ایم کی رائفل رکھی اور گولی چلا دی، گولی پسلی میں پیوست ہوئی اور گھٹنے سے باہر نکل گئی۔
اسلحے سے واقف لوگ جانتے ہیں، سیون ایم ایم کی گولی جسم میں داخل ہو کر گھومتی ہے اور اس کے راستے میں جسم کا جو عضو آتا ہے، یہ اسے قیمہ بنا کر آگے چلی جاتی ہے، گولی نے نیازی صاحب کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا، ان کے جسم کے تمام ’’کور آرگنز‘‘ اڑ گئے، یہ گرے اور تڑپنے لگے، قاتل موٹر سائیکل پر بیٹھے اور فرار ہو گئے، یہ سیدھی سادی ٹارگٹ کلنگ تھی، کیوں؟ کیونکہ نیازی صاحب کا گھر بند گلی کے آخری سرے پر ہے۔
ڈاکو عموماً ایسے گھروں میں ڈاکے نہیں ڈالتے کیونکہ اس میں ان کے گھیرے جانے، پھنسنے اور پکڑے جانے کا خطرہ ہوتا ہے، ڈاکو ڈاکے کے دوران سیون ایم ایم رائفل بھی استعمال نہیں کرتے کیونکہ یہ رائفل اٹھانا، لانا اور گھر میں تنگ جگہ پر کھڑے ہو کر چلانا مشکل ہوتی ہے اور تین ڈاکو عموماً ڈکیتی سے پہلے ریکی کرتے ہیں، یہ ریکی کرتے تو یہ جان لیتے ،یہ گھر سیشن جج کا ہے اور ڈاکو عموماً ججوں کے گھروں میں بھی ڈاکے کا رسک نہیں لیتے کیونکہ سیشن ججوں کے پاس سیکیورٹی بھی ہوتی ہے اور پولیس بھی ان کے خلاف ہونے والے جرائم میں ایکٹو ہو جاتی ہے چنانچہ آپ جس بھی زاویئے سے دیکھیں، آپ کو یہ واردات ٹارگٹ کلنگ دکھائی دے گی، اب سوال یہ ہے، طاہر خان نیازی کو کس نے اور کیوں قتل کیا؟ ہم اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے طاہر خان نیازی کا پروفائل دیکھتے ہیں۔
نیازی راولپنڈی کے رہائشی تھے، اسی شہر میں تعلیم حاصل کی، اسی شہر میں وکالت کی پریکٹس کی اور پھر اسی شہر میں 1998ء میں سول جج ہو گئے، جج عموماً اپنے شہر میں پوسٹنگ پسند نہیں کرتے، کیوں؟ کیونکہ اپنے شہر میں ان کی برادری اور دوست احباب ہوتے ہیں اور یہ لوگ نہ نہ کرتے بھی انصاف کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں لیکن طاہر خان نیازی مختلف انسان تھے، یہ جی بھر کر ایماندار اور افسانوی حد تک بہادر انسان تھے، یہ ہمیشہ اپنے شہر میں رہے اور انصاف کے معاملے میں کسی کی سفارش سنی اور نہ ہی کبھی دباؤ میں آئے، یہ سیکیورٹی کا خیال بھی نہیں رکھتے تھے۔
دبنگ آدمی تھے، کھلے عام پھرتے تھے اور کسی ترغیب میں نہیں آتے تھے، گھر ذاتی تھا اور یہ اس ذاتی گھر میں رہتے تھے، یہ ان چند ججوں میں بھی شمار ہوتے تھے جن کا احترام جج کمیونٹی بھی کرتی تھی اور وکلاء بھی۔ یہ ان کے احترام کی دلیل ہے کہ ان کے قتل کے بعد بار نے تین دن کی ہڑتال کر دی اور وکلاء مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے طاہر خان نیازی کو کس نے قتل کیا اور کیوں قتل کیاگیا؟ آپ یہ سوال طاہر خان نیازی کے اسٹاف، ان کے کولیگ ججوں اور راولپنڈی کے نامور وکلاء سے پوچھ لیں، آپ کو فوراً قاتل کا نام معلوم ہو جائے گا، کیوں؟ کیونکہ طاہر خان نیازی نے بھری عدالت میں بتایا تھا ’’ مجھے فلاں سائیڈ سے دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن میں پیچھے نہیں ہٹوں گا، جان اللہ کی امانت ہے، ڈرنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔ آپ ان کے ریڈر سے پوچھ لیں، آپ ان کے جونیئر ساتھیوں سے پوچھ لیں یا پھر ان کے خاندان کے لوگوں سے پوچھ لیں، ریاست کو معاملے کی تہہ تک جاتے دیر نہیں لگے گی۔
طاہر خان نیازی کی کسی شخص کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی، یہ واردات ڈکیتی بھی نہیں تھی، یہ فرقہ وارانہ ایشو بھی نہیں تھا لہٰذا پھر نیازی صاحب کو کیوں قتل کیا گیا؟ بات یقینا ان کے کورٹ روم میں جائے گی اور ریاست جس دن ان کے کورٹ روم کو تفتیش کا حصہ بنائے گی، یہ قاتل تک پہنچ جائے گی! نیازی صاحب کا قاتل کون تھا؟ میں ریاست کو ان کا قاتل سمجھتا ہوں، کیوں؟ کیونکہ لوگ ریاست کے سامنے دس سال سے قتل ہو رہے ہیں، کیا دس برسوں میں فوجی اداروں پر حملے نہیں ہوئے، کیا جی ایچ کیو پر حملہ نہیں ہوا، کیا مہران بیس اور کامرہ ائیر بیس کو نشانہ نہیں بنایا گیا، کیا آئی ایس آئی۔
آئی بی اور اسپیشل برانچ کے دفتروں کو نہیں اڑایا گیا، کیا ایف سی اور رینجرز کے ٹریننگ سینٹروں اور قافلوں پر حملے نہیں ہوئے، کیا حاضر سروس جرنیل خودکش حملوں میں شہید نہیں ہوئے، کیا پولیس کے ٹریننگ سینٹروں، تھانوں اور گاڑیوں کو نہیں اڑایا گیا اور کیا سیاستدانوں کو خودکش حملوں میں شہید نہیں کیا گیا؟ ہمیں یہ ماننا پڑے گا یہ دس سال ہماری تاریخ کے سیاہ ترین دن تھے اور ان سیاہ ترین دنوں میں مسجدیں بچیں، امام بار گاہ، جلوس، اجتماعات، پولیس، فوج، سیاستدان اور نہ ہی وکلاء اور جج بچے اور ہماری تاریخ کے ان دس برسوں نے ملک میں ہر اس شخص کو یہ پیغام دیا۔
جس کے ہاتھ میں پستول یا رائفل تھی ’’ تم ملک میں کسی بھی ادارے یا شخصیت کو گولی مار دو، ملک کا کوئی ادارہ، کوئی شخص تمہارا ہاتھ نہیں روکے گا، تمہیں گرفتار بھی نہیں کیا جائے گا اور اگر تمہیں گرفتار کر لیا گیا تو ملک کا کوئی جج تمہیں سزا سنانے کی جرأت نہیں کرے گا اور اگر کسی طاہر خان نیازی جیسے جج نے یہ جرأت کر بھی لی تو بھی ریاست تمہیں پھانسی چڑھانے کی ہمت نہیں کرے گی‘‘۔ یہ پیغام دس برسوں میں ملک کے ہر اس شخص تک پہنچا جس کے پاس پستول تھی، جو کسی نہ کسی مافیا کا حصہ تھا، جو بے روزگار تھا یا جس کا کسی فرقے کے ساتھ تعلق تھا اور وہ فرقہ دوسرے فرقے کے لوگوں کو قتل کرنا عبادت سمجھتا تھا، یہ پیغام روز دیا جاتا تھا اور روز سنا جاتا تھا لیکن ریاست کیا کرتی تھی؟
ریاست خاموشی سے تماشہ دیکھتی تھی، آپ ریاست کی کمزوری ملاحظہ کیجیے، ملک اسحاق پندرہ سال جیلوں اور عدالتوں میں رہا مگر وکلاء، جج اور ریاست اس پر کوئی جرم ثابت نہیں کر سکی، اس دوران 72 ججوں اور گواہوں نے پیش ہونے اور کیس سننے سے انکار کیا، ملک اسحاق کو جس بھی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا، اس عدالت کا جج چھٹی لے لیتا تھا، نوکری چھوڑ دیتا تھا یا پھر مقدمہ سننے سے معذرت کر لیتا تھا، یہ شخص اس قدر اہم اور مضبوط تھا کہ 10 اکتوبر 2009ء میں جب جی ایچ کیو پر حملہ ہوا تو ہماری ریاست ملک اسحاق کو خصوصی طیارے پر راولپنڈی لانے پر مجبور ہو گئی، ملک اسحاق نے حملہ آوروں کے ساتھ مذاکرات کیے اور یوں حملہ آور جی ایچ کیو سے پیچھے ہٹے۔
ہماری ریاست کس قدر مضبوط ہے، آپ اس کا اندازہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل سے لگا لیجیے، یہ درست تھا سلمان تاثیر کے رویئے بھی ٹھیک نہیں تھے، وہ بھی بولتے، اٹھتے اور چلتے پھرتے اپنی عمر اور عہدے دونوں کا خیال نہیں رکھتے تھے لیکن وہ اس کے باوجود ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر تھے۔
وہ ریاست کی عزت اور توقیر کی علامت تھے مگر ریاست اپنی توقیر، اپنی عزت کو قتل ہونے سے بچا سکی اور نہ ہی آج تک اس کے قاتل کو سزا دے سکی، سلمان تاثیر کا قاتل واردات کے بعد معتبر ہستی بن گیا، ریاست خاموش رہی، ریاست جب اس بے نظیر بھٹو کو نہ بچا سکے جو ملک کی دو بار وزیراعظم رہیں اور جو شہید ہونے تک ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی قائد بھی تھیں اور ریاست جب محترمہ کے قتل کے بعد اس کے قاتلوں کو گرفتار کر سکے اور نہ ہی انھیں سزا دے سکے اور ریاست کو جب یہ علم نہ ہو دنیا کا مطلوب ترین شخص اسامہ بن لادن کس راستے سے ہوتا ہوا ایبٹ آباد پہنچا اور وہ سات آٹھ برس چھاؤنی ایریا میں پناہ گزین رہا اور ریاست کو جب دو مئی 2011ء کو امریکی ہیلی کاپٹروں کا علم نہ ہو سکے اور جب علم ہو اور اس نالائقی پر تحقیقاتی کمیشن بن جائے اور پھر اس کمیشن کی رپورٹ سامنے آئے اور نہ ہی رپورٹ میں موجود ذمے داروں کو سزا ہوا اور ریاست میں جب بنوں اورڈی آئی خان کی جیلیں ٹوٹ جائیں اور طالبان بنوں جیل سے 383 اور ڈی آئی خان کی جیل سے 248 ملزموں کو چھڑا لے جائیں اور ریاست ان لوگوں کو آنے سے روک سکے اور نہ ہی جانے سے اور جب غیر ملکی نشریاتی ادارے یہ دعویٰ کر دیں ملا عمر کراچی کے ایک اسپتال میں فوت ہوئے تھے تو پھر ریاست کا کیا بھرم رہ جائے گا۔
اس کا کیا امیج رہے گا اور اگر اس امیج کے بعد بھی کوئی شخص طاہر خان نیازی کو گھر میں گھس کر گولی نہیں مارتا تو کیا وہ شخص بے وقوف نہیں ہوگا؟ کیا وہ دنیا کا بزدل ترین شخص نہیں ہوگا؟ میں اس ریاست، اس پوری حکومت اور اس پورے نظام کو طاہر خان نیازی کا قاتل سمجھتا ہوں، کیوں؟ کیونکہ جو ریاست اپنے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو نہ بچا سکے، جو ریاست اپنے ججوں کے قاتلوں کو گرفتار نہ کر سکے۔
اس ریاست کو قاتل ڈکلیئر ہونا چاہیے! کیا میرا دعویٰ غلط ہے؟ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے، کیا طاہر خان نیازی عین اس دن قتل نہیں ہوئے جس دن سپریم کورٹ نے اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم کی تصدیق کی، جس دن سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک میں ملٹری کورٹس کو جائز قرار دے دیا تھا اور کیا یہ قتل یہ ثابت نہیں کرتا ہمارے ملک میں قانون شکن دندناتے پھر رہے ہیں اور ہم خواہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف کتنے ہی اتحاد قائم کر لیں ہم ان کا حوصلہ نہیں توڑ سکیں گے۔
ملک میں 21 ویں ترمیم منظور کرنے والو اور اس ترمیم کی تصدیق کرنے والو! آپ اپنے دروازے کھول کر دیکھو، آپ کی دہلیز پر طاہر خان نیازی کی لاش پڑی ہے، آپ یہ لاش دیکھیں، آپ اس لاش کے ماتھے پر لکھی تحریر پڑھیں، کیا یہ لاش آپ سے یہ نہیں کہہ رہی ،جو ریاست اپنے جج کی حفاظت نہ کر سکے۔
جو ریاست اپنے جج کو انصاف نہ دے سکے، اس ریاست کو ریاست کہلانے کا کوئی حق نہیں ہوتا، خواہ اس ریاست کے گلے میں ترامیم کے کتنے ہی ہار اور اس کے سر پر متفقہ فیصلوں کے کتنے ہی تاج کیوں نہ ہوں، یہ لاش وزیراعظم اور چیف جسٹس سے کہہ رہی ہے، آپ اگر ججوں کی حفاظت نہیں کر سکتے تو آپ ان سے انصاف کی توقع کیوں کرتے ہیں؟ کیا چیف جسٹس، کیا وزیراعظم انصاف کی اس لاش کو جواب دیں گے؟ اگر آپ زندہ ہیں، اگر اس ریاست کی رگوں میں جان باقی ہے تو پھر اسے طاہر خان نیازی کی عدالت میں پیش ہو کر اس سوال کا جواب دینا ہو گا۔