جاوید چوہدری

کیلا بھی سوچنے کے عمل کو تیز کرتا ہے
جاوید چوہدری جمعرات 26 مارچ 2015

مریض نے لمبی سانس لی، کمرے میں موجود لوگوں کی طرف غور سے دیکھا، مسکرایا، ہاتھ ہلایا، ہچکی لی اور ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں، اگلے دن دنیا بھر کے اخبارات میں خبر شایع ہوئی ’’سنگا پور کے بانی وزیراعظم لی کو آن یو 23 مارچ کو 91 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے‘‘۔
لی کو آن یو اور سنگا پور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں، ہم جب تک لی کو آن یو کا نام نہ لیں اس وقت تک سنگا پور مکمل نہیں ہوتا اور ہم جب تک سنگا پور کو تسلیم نہ کریں اس وقت تک لی کو آن یو مکمل نہیں ہوتے، یہ دونوں جڑواں بھائی ہیں، سنگاپور 640 مربع کلومیٹر کا ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا، یہ انیسویں صدی تک ہولناک جنگل تھا،جنگل میں خونخوار درندوں، شیروں اور مگرمچھوں کا راج تھا،1965ء تک جزیرے میں خطے کی سب سے بڑی دلدل بھی تھی، یہ بحری قزاقوں کا اپنا مسکن بھی تھا، دنیا کا کوئی شخص اس جزیرے کی طرف رخ نہیں کرتا تھا۔
انیسویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ جزیرہ خرید لیا، پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے اسے بحری اڈہ بنالیا،یہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے قبضے میں چلا گیا۔ سنگاپور 1963ء میں ملائشیا کو واپس مل گیا لیکن 1965ء میں ملائشیا نے اسے بوجھ سمجھ کر سر سے اتاردیا،سنگاپور کو آزادی دے دی گئی،لی کو آن یو اس وقت سنگاپور کے وزیراعظم تھے، وہ پہلی بار 1959ء میں وزیراعظم منتخب ہوئے تھے، وہ آزاد سنگاپور کے پہلے وزیراعظم بنے، لی کو آن یو نے اس بدبودار جزیرے کو دنیا کا شاندار ملک بنانے کا فیصلہ کیا، پورے ملک سے ایماندار لوگوں کو چن کر جج بنایاگیا۔
ان ججوں کو مکمل خود مختاری دی گئی، یہ جج صدر اور وزیراعظم سے لے کر چپڑاسی تک تمام سرکاری اہلکاروں کو کسی بھی وقت عدالت میں طلب کر سکتے تھے اور ان کی کھلے عام گوشمالی ہوتی تھی، لی کو آن یو نے انصاف کے بعد سنگاپور کے خوشحال طبقے سے انتہائی پڑھے لکھے، مہذب اور ایماندار لوگ چنے اور انھیں اپنی کابینہ میں شامل کرلیا، کابینہ کے لیے احتساب کا ایک کڑا نظام تشکیل دیاگیا ،اس نظام سے کوئی شخص مبرا نہیں تھا، اس کے بعد پوری دنیا میں بکھرے سنگاپور کے پڑھے لکھے اور ہنرمند نوجوانوں سے رابطہ کیا گیا، نوجوانوں کو بھاری معاوضے پر سرکاری ملازمتوں کی پیش کش ہو ئی۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی سنگاپور دنیا کا واحد ملک تھا جس میں سرکاری ملازموں کی تنخواہیں کارپوریٹ سیکٹر کے برابر رکھی گئیں،سنگا پور میں اگر ایک ایم بی اے نوجوان کو پرائیویٹ بینک دو لاکھ روپے تنخواہ دیتا تھا تو حکومت بھی اس کوالیفکیشن کے نوجوان کو دو لاکھ روپے تنخواہ دیتی تھی۔
لی کو آن یو نے سنگاپور کے قانون کو دنیا کا سخت ترین قانون بنا دیا تھا مثلاً سنگاپور میں کسی دیوار یا عوامی جگہ پر گالی لکھنے کی سزا موت تھی اور سنگاپور میں اگر کوئی وزیر یا مشیر کرپشن میں ملوث پایا جاتا تھا تو لی کو آن یو اسے خود کشی یا احتساب میں سے ایک آپشن کے انتخاب کا موقع دیتے تھے، وزراء عموماً اس لمحے خودکشی کو ترجیح دیتے تھے، لی کو آن یو کی اصلاحات کے نتیجے میں صرف تیس برسوں میں سنگاپور دنیا کا نواں امیر ترین ملک بن گیا، لی کو آن یو تیس برس بعد 1990ء میں مستعفی ہو گئے اور انھوں نے اپنے لیے نگران کا کردار منتخب کرلیا۔
میاں نواز شریف 1999ء میں سنگاپور کے دورے پر گئے، نواز شریف نے سرکاری مصروفیات کے بعد لی کو آن یو سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، وہ لی کو آن یو سے لیڈر شپ اور ترقی کی ’’ٹپس‘‘ لینا چاہتے تھے، سنگاپور کے وزیراعظم نے لی کو آن یو کے ساتھ ان کی ملاقات طے کردی، نواز شریف نے چند لوگوں کا انتخاب کیا اور اس شام لی کو آن یو کے پاس حاضر ہوگئے۔
یہ ملاقات سنگاپور کے وزیراعظم ہاؤس میں ہوئی، گفتگو کے آغاز میں لی کو آن یو نے انکشاف کیا وہ مختلف حیثیتوں سے 8 مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں لہٰذا وہ پاکستان کے جغرافیے، رسم و رواج اور لوگوں سے پوری طرح واقف ہیں، نواز شریف نے بڑے ادب سے ان سے پوچھا ’’کیا آپ اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں پاکستان کبھی سنگا پور بن جائے گا‘‘ لی کو آن نے ذرا دیر سوچا اور انکار میں سر ہلادیا، ان کا رد عمل، سفاک، کھرا اور غیر سفارتی تھا، حاضرین پریشان ہوگئے ، لی کو آن یو ذرا دیرخاموش رہے اور پھر بولے’’اس کی تین وجوہات ہیں‘‘ وہ رکے اور پھر بولے ’’ پہلی وجہ آئیڈیالوجی ہے۔
آپ لوگوں اور ہم میں ایک بنیادی فرق ہے، آپ اس دنیا کو عارضی سمجھتے ہیں، آپ کا خیال ہے آپ کی اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوگی چنانچہ آپ لوگ اس عارضی دنیا پر توجہ نہیں دیتے، آپ سڑک، عمارت، سیوریج سسٹم ، ٹریفک اور قانون کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جب کہ ہم لوگ اس دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہیں لہٰذا ہم اس دنیا کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنا رہے ہیں‘‘ وہ رکے اور ذرا دیر بعد بولے ’’آپ خود فیصلہ کیجیے جو لوگ اس دنیا پر یقین نہ رکھتے ہوں ۔
وہ اسے خوبصورت کیوں بنائیں گے؟ دوسری وجہ، آپ لوگوں کی زندگی کے بارے میں اپروچ درست نہیں، میں پیشے کے لحاظ سے وکیل ہوں، ہندوستان کی تقسیم سے پہلے میں اس علاقے میں پریکٹس کرتا تھا، میرے موکل کلکتہ سے کراچی تک ہوتے تھے، میں نے ان دنوں ہندو اور مسلمان کی نفسیات کو بڑے قریب سے دیکھا،میرے پاس جب کوئی ہندو کلائنٹ آتا تھا اور میں کیس کے جائزے کے بعد اسے بتاتا تھا تمہارے کیس میں جان نہیں ، تم اگر عدالت میں گئے تو کیس ہار جاؤ گے تو وہ میرا شکریہ ادا کرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا۔
آپ مہربانی فرما کر میری دوسری پارٹی سے صلح کرا دیں، میں اس کی صلح کرا دیتا تھا اور یوں مسئلہ ختم ہو جاتا تھا جب کہ اس کے مقابلے میں جب کوئی مسلمان کلائنٹ میرے پاس آتا تھا اور میں اسے صلح کا مشورہ دیتا تھا تو اس کا جواب بڑا دلچسپ ہوتا تھا، وہ کہتا تھا وکیل صاحب آپ کیس دائر کریں میں پوری زندگی مقدمہ لڑوں گا۔
میرے بعد میرے بچے لڑیں گے اور اس کے بعد ان کے بچے لڑیں گے،، لی کو آن یو رکے اور مسکرا کر بولے ’’میرا تجربہ ہے جوقومیں اپنی نسلوں کو ورثے میں مقدمے اور مسئلے دیتی ہوں وہ قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں اور تیسری اورآخری وجہ فوجی آمریت ہے، آپ کے ملک میں فوج مضبوط اور سیاست دان کمزور ہیں اور مجھے پوری دنیا میں آج تک کوئی ایسا ملک نہیں ملا جس نے فوجی آمریت میں رہ کر ترقی کی ہو‘‘
یہ لی کو آن یو کا وژن تھا، وہ ہر معاملے میں اتنے ہی کلیئر تھے، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو لی کو آن یو نے سنگاپور میں چیونگم چبانے پر پابندی لگا دی تھی، یہ پابندی ’’لٹرنگ لاء‘‘کا حصہ تھی، اس قانون کے تحت سنگا پور میں چیونگم چبانا، کھلی جگہ پر تھوکنا اورواش روم کے استعمال کے بعد فلش نہ کرنا قانوناً جرم تھا ۔
یہ آج بھی جرم ہے، تھوکنا اور فلش نہ کرنا کئی ممالک میں جرم ہے لیکن جہاں تک چیونگم کا معاملہ ہے اس لحاظ سے سنگاپور دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ببل گم پر پابندی ہے، ملک میں چیونگم بیچنے والے کو دو ہزار 9سو 40ڈالر جرمانہ اور دو سال قید کی سزا ملتی ہے جب کہ چیونگم چبانے والے شخص کو پہلی بار پانچ سو ڈالر، دوسری بار ہزار ڈالر اور تیسری بار دو ہزار ڈالرز جرمانہ کیا جاتا ہے،یہ پابندی اور یہ سزا جس قدر حیران کن ہے اس پابندی کی بیک گراؤنڈ بھی اتنی ہی دلچسپ ہے۔
سنگا پور کی حکومت نے 1983ء میں عوام کو سرکاری فلیٹس بنا کر دینا شروع کیے ، سنگاپور اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جس کے 91فیصد لوگ ذاتی فلیٹس کے مالک ہیں، یہ تمام فلیٹس حکومت نے بنا کر دیے،سنگا پور میں سرکاری ٹرانسپورٹ کا سسٹم بھی 1983ء میں شروع ہوا،عوام کے لیے فلیٹس اور ٹرانسپورٹ کا سسٹم بنا تو لوگ سرکاری بسوں اور فلیٹس میں چیونگم پھینک جاتے تھے، اس سے بسوں کی سیٹیں، ہینڈل، لاکس اور فرش خراب ہو جاتے تھے جب کہ فلیٹس کے دروازے اور کمپلیکس کی لفٹس بھی چیونگم کی وجہ سے پھنس جاتی تھیں۔
سنگاپور نے 1987ء میں پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے میٹرو ریلوے بھی شروع کی، میٹرو میں بھی چیونگم نے گندگی اور مسائل پیدا کرنا شروع کر دیے، لوگ ٹرین کے لاک میں چیونگم پھنسا دیتے تھے جس کی وجہ سے دروازے لاک ہو جاتے تھے اور یوں ٹرینوں کا شیڈول خراب ہوتا تھا چنانچہ حکومت نے چیونگم پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا،چیونگم پر پابندی کی تجویز 1991ء میں سنگا پور کی پارلیمنٹ میں پیش ہوئی،پارلیمنٹ میں اس پر پورا سال بحث ہوئی، پارلیمنٹ نے1992ء میں اسے قانون کی شکل دے دی جس کے بعد سنگا پور میں چیونگم استعمال کرنا اور بیچنا دونوں جرم ہو گئے۔
اس قانون کے حیران کن نتائج برآمد ہوئے، سنگا پور دو سال میں دنیا کا صاف ترین ملک کہلانے لگا، آپ کو یہ جان کریقینا حیرت ہو گی سنگا پور میں 1992ء سے کوئی شخص، خواہ اس کا تعلق سنگا پور سے ہو یا یہ غیر ملکی مہمان ہو اسے اس قانون سے استثنیٰ حاصل نہیں۔ پولیس چیونگم چبانے والے ہر شخص کو پکڑ لیتی ہے، آپ اس معاملے میں سنگا پور حکومت کی حساسیت ملاحظہ کیجیے، سنگاپور میں اکتوبر 2009ء میں انٹر پول کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس کا فیصلہ ہوا توسنگاپور حکومت نے 186 ممالک کی حکومتوں کو خط لکھ دیاتھا ’’سنگا پور میں چیونگم پر پابندی ہے۔
لہٰذا کوئی مندوب چیونگم لے کر سنگا پور میں داخل نہ ہو،، سنگاپور حکومت کا یہ خط محض دھمکی یا وارننگ نہیں تھی بلکہ حکومت نے ائیرپورٹ پر 186 مہمانوں کے سامان کی تلاشی بھی لی ، سنگاپور میں 1992ء سے2015ء تک بے شمار لوگ چیونگم استعمال کرتے ہوئے پکڑے گئے، ان میں امریکا اور یورپ کے وزراء تک شامل تھے، سنگاپور کی حکومت نے نہ صرف ان لوگوں کو جرمانہ کیا بلکہ ان سے جرمانہ وصول بھی کیا۔سنگاپور کی حکومت اس قانون کے معاملے میں کس قدر سخت ہے آپ اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجیے، 1992ء میں جب یہ قانون بن رہا تھا تو یورپ اور امریکا نے اسے انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قراردے دیا۔
بی بی سی نے اس قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’چیونگم پر پابندی تخلیق کاروں کے ساتھ زیادتی ہے، تخلیق کار عموماً تخلیقی کاموں کے دوران چیونگم چباتے ہیں اور اس پابندی سے سنگاپور کے تخلیق کاروں کی تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہوں گی، ان لوگوں کو سوچنے میں دقت ہوگی‘‘۔ بی بی سی کا یہ تبصرہ جب وزیراعظم لی کوآن یو تک پہنچا تو انھوں نے اس کا بڑاخوبصورت جواب دیا، وزیراعظم لی کو آن یو نے کہا ’’جو شخص چیونگم کے بغیر نہیں سوچ سکتا اسے چاہیے وہ کیلا ٹرائی کرے کیونکہ کیلا بھی سوچنے کے عمل کو تیز کرتا ہے‘‘۔
یہ تھے لی کو آن یو! کاش اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایک ایسا لیڈر عطا کر دے، ایک ایسا لیڈر جو قانون کو قانون بھی سمجھتا ہو اور اسے سپریم بھی قرار دیتا ہو۔
کنفیوژن
جاوید چوہدری اتوار 15 مارچ 2015

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چار سو طلائی سکے ملے‘ یہ سکے کل اثاثہ تھے لیکن جب اسے اثاثے کا احساس ہوا تو اس وقت تک 86 ہزار چار سو سکے ضایع ہو چکے تھے اور چار لاکھ 32 ہزار باقی تھے‘ اس نے فیصلہ کیا وہ باقی سکے محفوظ رکھے گا مگر سوال یہ تھا وہ یہ سکے کہاں محفوظ رکھ سکتا ہے؟ مولوی صاحب نے مشورہ دیا آپ یہ سکے مسجد کے صحن میں دفن کر دیں‘ یہ محفوظ بھی رہیں گے‘ یہ آپ کے مرنے کے بعد بھی آپ اور آپ کی آل اولاد کے کام آئیں گے۔
بات اس کے دل کو لگی‘ اس نے مسجد کے صحن میں گڑھا کھودا اور سونے کے 43 ہزار 2 سو سکے اس گڑھے میں دبا دیے‘ وہ اس اچھی سرمایہ کاری پر خوش تھا لیکن یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی‘ وہ چند دن بعد مضطرب ہو گیا‘ محلے کی دوسری مسجدوں اور اماموں نے اسے یقین دلا دیا تم نے غلط مسجد کا انتخاب کیا‘ تمہارا سرمایہ ضایع ہو جائے گا‘ تم اس مسجد کو خیر باد کہو اور باقی سرمایہ ہمارے مدرسے‘ ہماری مسجد میں دفن کر دو‘ تمہاری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی‘ وہ کنفیوژ ہو گیا‘ اس نے اس کنفیوژن میں ایک دن اپنی صندوقچی نکالی اور سر پیٹ لیا‘ اس کی صندوقچی واقعی خالی تھی۔
اس کے سونے کے 43 ہزار دو سو سکے غائب ہو چکے تھے‘ وہ خالی صندوقچی لے کر بھاگا اور سیدھا بازار چلا گیا‘ اس نے اب باقی سرمایہ بازار کے مہاجنوں کے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا‘ یہ مہاجن سرمایہ لیتے تھے‘ پانچ سال اپنے پاس رکھتے تھے اور پانچ سال بعد اصل زر کے ساتھ سود کی قسطیں ادا کرنے لگتے تھے‘ یہ اچھی اور محفوظ سرمایہ کاری تھی‘ آپ پیسہ لگائیں اور پانچ سال بعد پیسہ ریٹرن کے ساتھ واپس لینا شروع کر دیں۔
اس نے اپنے 43 ہزار دو سو سکے بازار کے مہاجنوں کے پاس رکھوا دیے‘ وہ روز مہاجن کے پاس جاتا سارا دن اس کے پاس بیٹھا رہتا‘ سرمائے کے محفوظ ہونے کا یقین کرتا اور شام کو واپس آ جاتا‘ یہ روٹین پانچ سال جاری رہی‘ وہ اب مطمئن تھا‘ پانچ سال پورے ہو ئے‘ وہ مہاجن کے پاس گیا اور سرمائے کی واپسی کا مطالبہ کر دیا‘ مہاجن نے افسوس سے جواب دیا ’’بھائی آپ کا سرمایہ محفوظ ہے لیکن بازار مندی کا شکار ہے‘ ہم آپ کو فوری طور پر روپیہ واپس نہیں کر سکتے‘ آپ کو انتظار کرنا پڑے گا‘‘۔
اس کے دل کو دھچکا لگا‘ وہ پریشان ہو گیا لیکن مایوس نہ ہوا‘ اس نے سرمائے کی واپسی کے لیے مہاجن کی دکان کے پھیرے لگانا شروع کر دیے‘ وہ روز صبح آتا اور شام کو نا کام واپس چلا جاتا‘ یہ سلسلہ پانچ سال جاری رہا‘ مہاجن کے پاس اس کے 43 ہزار دو سو سکے پڑے تھے جب کہ اس نے 43 ہزار دو سو سکے مہاجن کے دفتر آنے اور واپس جانے میں صرف کر دیے‘ آخر آنے جانے میں کرایہ بھی خرچ ہوتا ہے‘ انسان کو کھانا پینا بھی پڑتا ہے اور چائے پانی کا خرچہ بھی ہوتا ہے‘ اس نے ایک دن بیٹھ کر حساب کیا تو پتہ چلا وہ اب تک کل دو لاکھ سولہ ہزار طلائی سکے ضایع کر چکا ہے۔
وہ کف افسوس ملنے لگا لیکن پھر اسے محسوس ہوا وہ نقصان کے باوجود ابھی دیوالیہ نہیں ہوا‘ وہ اب بھی تین لاکھ‘ دو ہزار‘ چار سو سکوں کا مالک ہے‘ یہ اگر اچھی سرمایہ کاری کرے تو اس کا باقی سرمایہ بھی محفوظ ہو جائے گا اور اس کا نقصان بھی پورا ہو جائے گا‘ وہ اٹھا‘ نقصان کا سیاپا بند کیا اور محفوظ سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے لگا‘ وہ تلاش کرتا رہا‘ تلاش کرتا رہا یہاں تک کہ اسے معلوم ہوا شہر میں نیا مال کھلا ہے‘ مال میں سرمایہ کاری کی مشینیں ملتی ہیں آپ مشین میں ایک سکہ ڈالتے ہیں اور یہ مشین دو دو‘ تین تین اور چار چار سکے بنا کر باہر نکال دیتی ہے اور یوں آپ تھوڑا سرمایہ لگا کر رئیس ہو جاتے ہیں۔
وہ مال میں چلا گیا‘ مال میں واقعی مشینیں موجود تھیں‘ اس نے ایک خوبصورت اور نازک مشین خرید لی‘ مشین پر لکھا تھا ’’آپ روزانہ صرف 24 سکے ڈال سکتے ہیں‘ آپ کو 25 واں سکہ ڈالنے کے لیے اگلے دن کا انتظار کرنا ہو گا‘‘ وہ خوش ہو گیا کیونکہ یہ مشین دن میں صرف 24 سکے کھاتی تھی اور یہ سرمایہ کاری اسے سوٹ کرتی تھی‘ اس نے بسم اللہ پڑھ کر مشین میں سکہ ڈالا اور چار سکے نکلنے کا انتظار کرنے لگا‘ مشین سے چار سکے نہ نکلے‘ اس نے اگلا سکہ ڈالا وہ سکہ بھی ضایع ہو گیا‘ وہ تین دن تک مشین میں سکے ڈالتا رہا لیکن مشین سے سکے نہ نکلے‘ وہ دکاندار کے پاس چلا گیا‘ دکاندار نے شکایت سنی اور مسکرا کر جواب دیا ’’جناب آ پ بے صبرے نہ ہوں‘ مشین سے سکے ضرور نکلیں گے‘ میں خود یہ مشین استعمال کر رہا ہوں۔
مجھے شروع میں چھ مہینے انتظار کرنا پڑا لیکن بالآخر مشین سے سکے نکلے‘ آپ تاولے نہ ہوں‘ آپ ضرور کامیاب ہوں گے‘‘ وہ دکاندار کی بات پر یقین نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن دوسرے گاہکوں نے بھی دکاندار کی تائید کر دی‘ ان سب کا کہنا تھا ’’مشین بالآخر کام کرتی ہے‘‘ وہ گھر واپس آ گیا اور دوبارہ مشین میں سکے ڈالنا شروع کر دیے‘ وہ سکے ڈالتا رہا‘ سکے ڈالتا رہا لیکن مشین سے سکے نہ نکلے‘ اس نے ایک دن حساب کیا تو پتہ چلا وہ اب تک مشین میں 86 ہزار 4 سو سکے ڈال چکا ہے اور اس کی وراثت اب دو لاکھ سولہ ہزار سکے رہ گئی ہے۔
وہ سخت پریشان ہو گیا اور مختلف ماہرین سے مشورے کرنے لگا‘ ماہرین نے اسے مشورہ دیا ’’تم مشین تبدیل کر لو‘ دکان میں اور بھی مشینیں موجود ہیں‘ تم ان پر ٹرائی کیوں نہیں کرتے‘‘ وہ بھاگتا ہوا دکان پر گیا اور ایک اور مشین خرید لی‘ یہ مشین جدید بھی تھی‘ ہلکی بھی اور گارنٹی یافتہ بھی۔ اس نے لمبا سانس لیا اور نئی مشین میں سکے ڈالنا شروع کر دیے لیکن نتیجہ وہی نکلا‘ یہ مشین بھی اس کے سکے کھا گئی‘ وہ تیسری بار دکان پر گیا‘ ایک اور مشین خرید لایا‘ وہ اس مشین کے بارے میں بھی مطمئن تھا‘ وہ کیوں مطمئن نہ ہوتا‘ پورا ملک اس مشین کی تعریفیں کر رہا تھا‘ اس نے اس مشین میں بھی سکے ڈالے لیکن شاید اس کی قسمت خراب تھی‘ یہ مشین بھی اس کے سکے کھا گئی‘ وہ اب شدید مالیاتی بحران کا شکار ہو گیا‘ وہ اب دیوالیہ ہونے کے قریب تھا‘ وہ پریشان تھا‘ پریشانی کے عالم میں اسے کسی نے بتایا ’’ سرمایہ کاری کا بہترین طریقہ بہرحال مسجد کا صحن ہی تھا‘ تم اگر مسجد میں دفن خزانے کے سرہانے بیٹھے رہتے تو آج تم سے زیاد مطمئن اور امیر شخص کوئی نہ ہوتا‘‘ اس نے کف افسوس ملا اور باقی سکے لے کر دوبارہ مسجد چلا گیا‘ امام صاحب نے دل کھول کر اس کی مذمت کی لیکن پھر اسے صحن میں باقی وراثت دفن کرنے کی اجازت دے دی‘ اس نے تھیلی کے سارے سکے مسجد کے صحن میں دفن کر دیے‘ اس بار اسے یقین تھا اس کی یہ سرمایہ کاری ضایع نہیں ہو گی لیکن یہ یقین بھی غلط ثابت ہوا‘ وہ دوبارہ اسی مخمصے کا شکار ہو گیا ’’کیا میں نے درست مسجد کا انتخاب کیا ‘‘ اس کا مخمصہ درست تھا کیونکہ اس کی مسجد کے گرد درجنوں مسجدیں تھیں اور ان تمام مسجدوں سے روزانہ زیادہ منافع کے اعلانات ہوتے تھے‘ لوگ اسے اس کی مسجد کے بارے میں شکوک و شبہات میں بھی مبتلا کرتے رہتے تھے‘ وہ پریشان تھا لیکن اس کے پاس اب کوئی آپشن نہیں تھا‘ وہ اپنا سارا سرمایہ مسجد میں دفن کر چکا تھا مگر پھر اس نے ایک دن اپنا سرمایہ چیک کرنے کا فیصلہ کیا‘ وہ صحن میں گیا‘ بھاوڑا اٹھایا‘ اپنا خزانہ نکالا‘ صندوقچی کا دروازہ کھولا اور اس کے دل کو خوفناک دھچکا لگا‘ یہ صندوقچی بھی خالی تھی‘ اس کی ساری وراثت ضایع ہو چکی تھی‘ اس نے صندوقچی باہر رکھی اور گڑھے میں چھلانگ لگا دی‘ وہ مسجد کے صحن میں دفن ہو گیا۔
وہ شخص کون تھا؟ وہ شخص کوئی اور نہیں تھا‘ وہ آپ اور میں ہیں‘ ہمیں ساٹھ سال کی عملی زندگی ملتی ہے‘ یہ ساٹھ سال ایک ایک گھنٹے پر محیط ہوتے ہیں‘ ہم اگر ہر گھنٹے کو سونے کا ایک سکہ سمجھ لیں تو ہمارے پاس روزانہ 24 سکے ہوتے ہیں‘ ہم ان 24 سکوں کو مہینے کے تیس دنوں اور ان تیس دنوں کو سال کے بارہ ماہ اور ان سالوں کو 60 سال سے ضرب دیں تو پانچ لاکھ‘ 16 ہزار چار سو سکے ہماری کل وراثت بنتے ہیں‘ یہ سکے ہمارا کل اثاثہ ہوتے ہیں۔
ہم یہ اثاثہ زندگی اور بعداز مرگ زندگی پر خرچ کرتے ہیں‘ یہ سرمایہ ہماری کل سرمایہ کاری ہوتی ہے مگر ہم بدقسمتی سے یہ سارے سکے کنفیوژن کی نذر کر دیتے ہیں‘ ہمیں زندگی کے ابتدائی دس برسوں تک وقت کی قیمت کا احساس نہیں ہوتا‘ یوں ہمارے 86 ہزار 4 سو سکے ضایع ہو جاتے ہیں‘ ہمیں جب وقت کا احساس ہوتا ہے تو ہم دینی اور دنیاوی تعلیم میں کنفیوژ ہو جاتے ہیں‘ ہم پانچ سال مدرسے اور پانچ سال کالج میں ضایع کرتے ہیں‘ ہم وہاں سے بھاگ کر جاب میں پناہ لیتے ہیں‘ ہم وہاں بھی خالی ہاتھ رہتے ہیں‘ ہم پھر سکے کھانے والی مشینیں خریدنے لگتے ہیں‘ ایک مشین فیملی ہوتی ہے۔
ہمیں لوگ بتاتے ہیں آپ مشین میں ایک سکہ ڈالو گے تو یہ مشین تین چار سکے نکالے گی‘ ہم سکے ڈالتے جاتے ہیں‘ مشین سکے کھاتی جاتی ہے مگر ریٹرن میں کچھ نہیں نکلتا‘ ہم پھر مصروفیت کی مشین لے آتے ہیں‘ ہم اپنے دن رات اپنے کام‘ اپنے مشن کو دینے لگتے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں ہماری مشین ایک کے بدلے تین چار سکے نکالے گی لیکن یہ مشین بھی ہمارے سکے کھا جاتی ہے‘ ہم پھر معاشرے‘ دوستوں اور نظام کی مشین لے آتے ہیں لیکن یہ مشینیں بھی ہمارے سکے کھا جاتی ہیں ۔
یہاں تک کہ ہم بیزار اور مایوس ہو کر عمر عزیز کا باقی حصہ مذہب کو دے دیتے ہیں مگر ہم وہاں بھی کنفیوژ ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین نہیں ہوتا ہم جس مذہب‘ جس فرقے اور جس امام کو مان رہے ہیں وہ ٹھیک ہے یا غلط اور یوں ہم عمر عزیز کا آخری سکہ بھی ضایع کر دیتے ہیں‘ آپ اگر کسی دن میری طرح دھوپ یا سائے میں بیٹھ کر زندگی کے بارے میں غور کریں تو آپ کو بھی یقین آ جائے گا انسان کا سب سے بڑا مسئلہ کنفیوژن ہے اور یہ بیچارہ یہ مسئلہ حل کرتا کرتا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے‘ یہ اس زندگی میں کوئی ایسی مشین تلاش نہیں کر پاتا جو اس کے سکے دوگنے کر دے‘ زندگی رائیگاں ہے اور یہ رائیگاں ہی چلی جاتی ہے۔
ہیومن کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی
جاوید چوہدری جمعـء 13 مارچ 2015

ہم فرض کر لیتے ہیں حکومت کے سارے منصوبے مکمل ہو گئے، 32 ارب ڈالر سے کاشغر گوادر روٹس بن گئے، کراچی لاہور موٹروے بھی مکمل ہو گیا، تھرکول کا منصوبہ بھی تکمیل کو پہنچ گیا، ملک میں اب فرنس آئل کے بجائے کوئلے سے بجلی بھی بن رہی ہے، ملک میں تین نئے ڈیم بھی بن گئے۔
بھاشا ڈیم بھی بن گیا، داسو ڈیم بھی بن گیا اور نیلم جہلم پاور پراجیکٹ بھی مکمل ہو گیا، ہمارا ریلوے بھی جدید ہو گیا، ہم نے اسلام آباد مظفرآباد ریلوے لائین بھی بچھا لی اور اس پر ٹرینیں بھی چلنے لگیں، ہم نے پی آئی اے کو بھی ٹھیک کر لیا ٗ ملک میں اب 200 لوکل اور تین سو انٹر نیشنل فلائٹس روزانہ چلتی ہیں، پاکستان کے 8 بڑے شہروں میں میٹرو بسیں بھی شروع ہو چکی ہیں اور ان بسوں پر روزانہ دس لاکھ لوگ بھی سفر کرتے ہیں۔
ملک میں دس آئی ٹی پارکس بھی بن چکے ہیں اور ان آئی ٹی پارکس میں چار ہزار کمپنیاں بھی کام کر رہی ہیں اور ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں ملک میں ایل این جی بھی پہنچ چکی ہے، یہ گیس نیشنل ٹرانسمیشن لائن میں بھی آ چکی ہے اور ملک میں اب گیس کا بھی کوئی بحران نہیں ، ہم یہ فرض کر لیتے ہیں لیکن فرض کرنے کے باوجود یہ بنیادی سوال اپنی جگہ قائم رہے گا ’’یہ تمام سہولتیں استعمال کون کرے گا‘‘۔ یہ گیس کس نے استعمال کرنی ہے، آئی ٹی پارکس کے اردگرد کون لوگ آ باد ہوں گے، میٹرو بس میں سفر کون کرے گا، پاکستان کی لوکل اور انٹر نیشنل فلائٹس میں ٹریول کون کرے گا۔
اسلام آباد مظفرآباد ٹرین میں کون بیٹھے گا، بجلی کون استعمال کرے گا، کراچی سے لاہور تک موٹروے کے مسافر کون ہوں گے اور کاشغر گوادر روٹس کے اردگرد کون لوگ آباد ہوں گے؟ کیا یہ لوگ پاکستانی نہیں ہوں گے؟ اور کیا یہ محمد بشیر، رشید عباسی، میاں عظیم، رستم خان اور جان بگٹی نہیں ہوں گے؟ اگر ہاں تو کیا پھر مستقبل کے پاکستان میں کمزور ٹائر والی گاڑیاں، دھواں چھوڑنے والی ویگنیں، ٹوٹتے ہوئے ٹائی راڈ کے ٹرک اور ہکوں کے بغیر ٹرالرز موٹرویز پر نہیں آئیں گے؟ کیا موٹرویز پر اسکول کے بچوں کی بسیں نہیں الٹیں گی، کیا ان بسوں میں آگ نہیں لگے گی، کیا ان سڑکوں پر آئل ٹینکر نہیں پھسلیں گے۔
کیا سڑک پر آگ نہیں لگے اور کیا آگ سو سو لوگوں کو جلا کر راکھ نہیں بنا ئے گی، کیا مستقبل کے ریلوے پھاٹکوں پر بچوں کی وینیں نہیں پھنسیں گی اور ٹرینیں چالیس چالیس معصوم بچوں کے جسم پٹڑیوں پر نہیں مل دیں گی، کیا ہماری لوکل اور انٹرنیشنل فلائٹس کے واش رومز چوک نہیں ہوں گے، کیا لوگ جہازوں کی سیٹوں پر پاؤں رکھ کر نہیں بیٹھیں گے، کیا سامان مسافروں کے سروں پر نہیں گرے گا، کیا مسافر جہازوں میں کھانے، سیٹ چھوٹی ہونے اور تین تین بکسے اندر لے جانے کے ایشو پر عملے سے بدتمیزی نہیں کریں گے، کیا پابندی کے باوجود جہاز میں سگریٹ پینے کی کوشش نہیں کی جائے گی اور کیا پائلٹ مسافروں کو جہازوں میں چھوڑ کر ہڑتال پر نہیں چلے جائیں گے؟ کیا لوگ آئی ٹی پارکس کے لانوں میں بھینس، بکریاں اور گائے نہیں چَرائیں گے۔
کیا لوگ پارکس کی بجلی، گیس اور پانی کی لائین نہیں کاٹیں گے اور کیا کچی آبادی کے بچے آئی ٹی پارک کے گیٹس کے سامنے کرکٹ نہیں کھیلیں گے اور کیا ان پارکس کا عملہ کام کے دنوں میں ہڑتال نہیں کرے گا، کیا مستقبل کے پاکستان میں گیس کے چولہے نہیں پھٹیں گے، کیا گیس کی پائپ لائینز نہیں توڑی جائیں گی، کیا لوگ پابندی کے باوجود گیس پر جنریٹر نہیں چلائیں گے، کیا میٹرو بسوں کی سیٹیں نہیں پھاڑی جائیں گی، دروازوں میں چیونگم نہیں پھنسائی جائے گی اور شیشوں پر نام نہیں لکھے جائیں گے۔
کیا بجلی چوری نہیں ہو گی، کیا کنڈے نہیں لگائے جائیں گے، کیا گھروں میں سو سو بلب نہیں جلائے جائیں گے ٗ کیا پانی ضایع نہیں کیا جائے گا اور کیا شہروں اور قصبوں کے مافیاز گوادر کاشغر روٹ بند نہیں کریں گے، کیا کنٹینرز کو آگ نہیں لگائی جائے گی اور کیا چینی ڈرائیوروں کو اغوا نہیں کیا جائے گا؟۔ اگر ان تمام سوالوں کا جواب ہاں ہے تو پھر ملک کے تمام لوگوں کو کون ٹھیک کرے گا، عوام کی کردار سازی کس کا کام ہے، ملک میں معاشرتی تبدیلی کون لائے گا اور عوام پر کون توجہ دے گا؟۔
یہ درست ہے ملکوں میں انفراسٹرکچر ضروری ہوتا ہے، موٹرویز، ہائی ویز، پبلک ٹرانسپورٹ، ائیر لائینز، ڈیمز، پائپ لائینز اور میٹروز ضروری ہوتی ہیں، یہ منصوبے ترقی کے استعارے ہیں اور ملک کے کسی شخص کو ترقی کے ان استعاروں کے سامنے بند نہیں باندھنا چاہیے، مغل بادشاہ قحط اور بے روزگاری کے زمانوں میں ملک بھر میں خندقیں کھدوانا شروع کر دیتے تھے۔
امریکاکے دو بڑے واقعات نے امریکا کو سپر پاور بنا دیا، ایک وہ وقت جب پورے امریکا کو ریلوے لائین کے ذریعے جوڑا گیا اور دوسرا وہ وقت جب امریکا کی پچاس ریاستوں کو روڈ نیٹ ورکس کے ذریعے آپس میں ملایا گیا اور یہ بھی درست ہے دنیا کا کوئی ملک اس وقت تک ترقی یافتہ نہیں ہوتا جب تک وہ بجلی، گیس اور پانی میں خود کفیل نہ ہو جائے، جب تک پورا ملک روڈ نیٹ ورک کے ذریعے آپس میں نہ مل جائے اور جب تک اس کے ہر شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ موجود نہ ہو جس کی آبادی پانچ لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ بھی درست ہے ملکوں میں ترقیاتی کاموں کے بغیر معیشت چلانا مشکل ہوتا ہے۔
معاشروں میں ترقیاتی سرگرمیوں کے بغیر معاشی پہیہ حرکت میں نہیں آتا لیکن ان تمام حقیقتوں کے باوجود یہ حقیقت بھی حقیقت ہے یہ ساری سہولتیں بالآخر عوام استعمال کرتے ہیں ، عوام ریاستوں کے سارے اثاثوں کے امین بھی ہوتے ہیں اور پاکستان میں بدقسمتی سے آج تک کسی حکومت نے عوام کی سماجی، معاشی، ذہنی، نفسیاتی اور تہذیبی حالت پر توجہ نہیں دی، ہم نے آج تک ان لوگوں کی ڈویلپمنٹ پر کام نہیں کیا جنہوں نے یہ سارا انفراسٹرکچر استعمال کرنا ہے، جو ترقی کے ان تمام ثمرات کے امین ہوں گے۔
ہم نے ملک میں آج تک کوئی ایسا ادارہ نہیں بنایا جو عوام کو تہذیب اور شائستگی سکھائے، عوام کو بولنے، سلام کرنے، بیٹھنے، اٹھنے اور گلیوں سڑکوں میں پیدل چلنے کی تربیت دے،ملک کے 95 فیصد لوگ اونچی آواز میں بات کرتے ہیں، آپ ملک کے کسی حصے میں چلے جائیں آپ کو وہاں شور ضرور ملے گا، لوگ مساجد تک میں اونچی آواز میں بولتے ہیں، لوگ وضو کے دوران اتنی اونچی آواز میں گلا اور ناک صاف کرتے ہیں کہ آواز امام صاحب تک پہنچتی ہے، آپ کسی مسجد کی دہلیز پر قدم رکھیں، آپ کو وہاں کیچڑ اور گرد ضرور ملے گی، وضو خانوں اور استنجہ خانوں میں بو اور غلاظت بھی ہو گی۔
لوگ مسجدوں میں صفیں پھلانگتے ہیں، قطار کا پورے ملک میں کوئی رواج نہیں، آپ ائیرپورٹس لاؤنجز میں چلے جائیں آپ کو ہر جگہ سستی، بے زاری اور نحوست ملے گی، ہم ڈھیلے ترین اہلکار کو امیگریشن کاؤنٹر پر بٹھا دیں گے اور وہ سیکڑوں مسافروں کو سامنے کھڑا کر کے کان صاف کرے گا، ملک میں موبائل کنکشنز کی تعداد بارہ کروڑ ہے لیکن موبائل استعمال کرنے کا طریقہ ایک لاکھ لوگوں کو بھی نہیں آتا، لوگ لوگوں کے درمیان بیٹھ کر اونچی آواز میں موبائل پر بات کرتے ہیں، فون جنازوں اور نمازوں کے دوران بھی آن ہوتے ہیں، آپ کسی سرکاری اور غیر سرکاری دفتر میں چلے جائیں۔
آپ کو واش روم گندہ اور گیلا ملے گا، لوگ آج بھی کموڈ پر پاؤں کے بل بیٹھتے ہیں، ایک شخص آئے گا اور یہ دیکھے بغیر کہ آپ کھانا کھا رہے ہیں، وہ دس لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملائے گا، لوگ دوسروں کے ہاتھوں میں گیلے اور گندے ہاتھ دے دیتے ہیں، ہم جب تک اختلاف نہ کر لیں، ہمیں آرام نہیں آتا، ہم بدتمیزی کو بہادری اور جرأت سمجھتے ہیں، ملک میں بیس کروڑ لوگ ہیں مگر اخبارات کی کاپیاں صرف 20 لاکھ چھپتی ہیں، کتابوں کا ایڈیشن پانچ سو اور ہزار سے زیادہ نہیں ہوتا، آپ اپنے گھر کی کھڑکی کھولیں یا بازار میں چلے جائیں آپ کے کان میں سب سے پہلے گالی پڑے گی کیونکہ گالی دینا ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔
ملک میں پچاس لاکھ گاڑیاں ہیں، یہ پچاس لاکھ گاڑیاں دن بھر ہارن بجاتی ہیں، ہم آج تک عوام کو ٹریفک رولز کی پابندی نہیں سکھا سکے، لوگ کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ سے سڑک پار کر جاتے ہیں اور کوئی انھیں روک نہیں سکتا، لوگ اہلیت کے بجائے ڈگریوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، لوگ آج بھی سرکاری املاک کو جلانا، سرکاری دفتروں پر حملہ کرنا، پٹڑی اکھاڑنا، سڑک توڑنا، کھمبے گرانا اور سگنل خراب کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، لوگ آج بھی کاروباری لوگوں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو چور سمجھتے ہیں۔
لوگ دو، دو ارب روپے کی فیکٹری لگاتے ہیں لیکن سرکاری اہلکار دس ہزار روپے کی رشوت کے لیے یہ فیکٹری بند کر دیتے ہیں، وہ ورکر جس کا چولہا دفتر اور فیکٹری سے جلتا ہے وہ اپنے ہاتھ سے مشین خراب کر دے گا، ڈاکٹر کمیشن کے چکر میں مریض کو جعلی دوا تجویز کر دے گا، سرجن پیسوں کے لیے تندرست مریض کا پیٹ کھول دے گا، حکیم دواؤں میں سٹیرائیڈز ڈال دیں گے، انجینئرز چند لاکھ روپوں کے لیے پل میں سریا کم کر دے گا اور سڑک کی تارکول کھا جائے گا، ڈیم بنانے والی کمپنیاں کک بیکس کے چکر میں کمزور بند بنائیں گی، لوگ بجلی کے تار چوری کر لیں گے، مسافر سیٹیں پھاڑ دیں گے اور ٹرینوں اور بسوں کے شیشوں پر اپنا نام لکھ دیں گے، لوگ مسجدوں کی ٹوٹیاں اور پنکھے اتار کر لے جائیں گے۔
اسکولوں میں گدھے اور بھینس باندھ دی جائیں گی، استاد تنخواہ لے لیں گے لیکن پڑھانے نہیں آئیں گے، امتحانات لینے والے پیسے لے کر نقل کرائیں گے، نقل کرنے والے ڈاکٹر بنیں گے اور یہ ڈاکٹر بعد ازاں نقل کرانے والوں کے گردے نکال کر بیچ دیں گے، دوائیں بنانے والے دواؤں میں جعلی پاؤڈر ڈالیں گے، گوشت بیچنے والے مردار جانوروں کا گوشت بیچیں گے اور خوراک کا کاروبار کرنے والے خوراک میں ملاوٹ کریں گے، نوجوان نقل کو کامیابی قرار دیں گے اور معمار بنیادوں کے پیسے بچا کر عمارت کے ماتھے پر ٹائلیں لگا دیں گے اور ٹرکوں کے مالکان دس ہزار روپے بچانے کے لیے ایک کروڑ روپے کا ٹرک نالائق ڈرائیور کے حوالے کر دیں گے! یہ کیا ہے؟ یہ اس قوم کی عادتیں ہیں جو 32 ارب ڈالر کے گوادر کاشغر روٹ کے گرد آباد ہو گی۔
جس نے 331 ارب روپے کے لاہور کراچی موٹر وے پر سفر کرنا ہے اور جو چند ماہ بعد میٹرو بسوں میں بیٹھے گی اور جس کے لیے اربوں ڈالر کے تھرکول اور ڈیمز کے منصوبے بن رہے ہیں، کیا یہ قوم ان منصوبوں کی حفاظت کر سکے گی؟ کیا یہ ان منصوبوں کی چوکیداری کر سکے گی؟ آپ کا جواب یقینا ناں ہو گا، پھر سوال پیدا ہوتا ہے قوم کو قوم بنانے کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے! یہ کام کون کرے گا؟
وزیراعظم صاحب آپ جہاں کھربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے بنا رہے ہیں آپ وہاں چند ارب روپے لگا کر ’’ہیومن کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘‘ بھی بنا دیں، یہ اتھارٹی قوم کو قوم بنانے کا کام سنبھالے، یہ قوم کی کردار سازی کرے ورنہ دوسری صورت میں ریاست ترقیاتی منصوبے بناتی رہے گی اور قوم ان منصوبوں کو پاکستان ریلوے اور واپڈا بناتی رہے گی اور یوں آخر میں ہم وہیں کھڑے ہوں گے جہاں سے ہم چلے تھے، ہم دائروں سے باہر نہیں آ سکیں گے۔

لیکن یہ اتحاد عوام کے لیے کیوں نہیں ہوتا
جاوید چوہدری جمعرات 12 مارچ 2015

لیکن آپ یہ بھی تو کر سکتے ہیں‘ یہ درست ہے‘ آپ چاہتے تو بلوچستان میں اپنی حکومت بنا سکتے تھے‘ آپ کے پاس بلوچستان میں 22 ایم پی ایز ہیں‘ آپ مولانا فضل الرحمن کے آٹھ ایم پی ایز کو ساتھ ملاتے‘ آپ ان میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے14 اور اے این پی کا ایک رکن ملا لیتے تو آپ بلوچستان میں مضبوط اور شاندار حکومت بنا سکتے تھے مگر آپ نے بلوچستان میں سیاسی طالع آزمائی کے بجائے بلوچوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا اور آپ نے وہاں غیر متنازعہ‘ شفاف اور مہذب سیاستدان ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ اور محمود خان اچکزئی کے بھائی محمد خان اچکزئی کو گورنر بنا دیا اور یوں تاریخ میں پہلی بار بلوچستان میں اصلی‘ کھری اور غیر متنازعہ قیادت سامنے آئی‘ یہ آپ کی سیاسی بالغ نظری اور افہام و تفہیم کی سیاست تھی۔
ہم اس کی قدر کرتے ہیں لیکن افہام و تفہیم کی ایک اور تجویز بھی ہے‘ آپ یہ بھی تو کر سکتے ہیں! وزیراعظم صاحب یہ درست ہے آپ چاہتے تو عمران خان خیبر پختونخواہ میں حکومت نہیں بنا سکتے تھے‘ آپ کے پاس وہاں 17 ایم پی ایز ہیں‘ آپ ان میں مولانا فضل الرحمن کے 17 ‘ آفتاب خان شیر پاؤ کے 10 ‘ پاکستان پیپلزپارٹی کے 5 ‘ عوامی جمہوری اتحاد کے 5 ‘ اے این پی کے 5‘ جماعت اسلامی کے 8 اور دو آزاد ارکان شامل کر لیتے تو خیبر پختونخواہ میں مضبوط حکومت بنا لیتے اور یوں عمران خان کو سرکاری ہیلی کاپٹروں کی سہولت حاصل ہوتی‘ پروٹوکول ملتا اور نہ ہی سیکیورٹی لیکن آپ نے کے پی کے میں عمران خان کا مینڈیٹ بھی تسلیم کر لیا‘ آپ نے وہاں پرویز خٹک کی حکومت بننے دی ۔
آپ نے دھرنوں کے درمیان بھی پرویز خٹک کی حکومت نہیں گرنے دی‘ یہ بھی آپ کی بالغ نظری اور افہام و تفہیم کی سیاست تھی‘ ہم اس کی قدر کرتے ہیں لیکن افہام و تفہیم کی ایک اور تجویز بھی ہے‘ آپ یہ بھی تو کر سکتے ہیں‘ وزیراعظم صاحب یہ بھی درست ہے‘ آپ نے 5 جون 2013ء کو اقتدار سنبھالا‘ آزاد کشمیر میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی‘ آپ کو آزاد کشمیر میں عدم اعتماد کرنے اور وہاں اپنی حکومت لانے کا مشورہ دیا گیا‘ مظفر آباد میں سیاسی جوڑ توڑ بھی شروع ہوا لیکن عین وقت پر خورشید شاہ نے خواجہ آصف سے رابطہ کیا‘ اپوزیشن لیڈر نے آپ کو سمجھایا اور آپ نے نہ صرف آزاد کشمیر میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کو تسلیم کر لیا بلکہ یہ حکومت آج تک قائم بھی ہے۔
یہ بھی آپ کی بالغ نظری اور افہام و تفہیم کی سیاست تھی‘ ہم اس کی قدر بھی کرتے ہیں لیکن افہام و تفہیم کی ایک اور تجویز بھی ہے‘ آپ یہ بھی تو کر سکتے ہیں‘ وزیراعظم صاحب یہ درست ہے آپ نے گلگت بلتستان میں بھی پاکستان پیپلزپارٹی کا وزیراعلیٰ اور گورنر برداشت کیا‘ آپ نے 31 جنوری 2014ء کوسندھ میں تھرکول بجلی منصوبے کا افتتاح کیا ‘ آپ سابق صدر آصف علی زرداری کو وہاں ساتھ لے گئے اور آپ نے 9 مارچ کو ملتان کے جدید ائیر پورٹ کا افتتاح کیا تو آپ نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا ہاتھ پکڑا اور انھیں بھی ساتھ اسٹیج پر لے کر گئے‘ یہ بھی آپ کی بالغ نظری اور افہام وتفہیم کی سیاست تھی اور ہم اس کی قدر بھی کرتے ہیں لیکن افہام و تفہیم کی ایک اور تجویز بھی ہے‘ آپ یہ بھی تو کر سکتے ہیں۔
یہ درست ہے آپ نے ملک میں آل پارٹیز کانفرنس کا کلچر بھی متعارف کرایا‘ آپ سیاسی بحرانوں میں سیاسی قیادت کو ساتھ لے کر بھی چلتے ہیں‘ آپ نے عمران خان کے دھرنے کے مقابلے کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کیا اور ملک کی سیاسی قیادت نے مل کر سیاسی نظام بچا لیا‘ یہ بھی آپ کی بالغ نظری اور سیاسی افہام و تفہیم کی سیاست تھی اور ہم اس کی قدر بھی کرتے ہیں لیکن افہام و تفہیم کی ایک اور تجویز بھی ہے‘ آپ یہ بھی تو کر سکتے ہیں۔
وزیراعظم صاحب ! آپ قوم کے ساٹھ سال سے سلگتے دیرینہ ایشوز پر بھی تو سیاسی قیادت کو اکٹھا کر سکتے ہیں مگر آپ نے آج تک افہام وتفہیم کی یہ سیاست نہیں کی‘ کیوں؟ کیا آپ کو یہ معلوم نہیں پاکستان میں صدر ہوں‘ وزیراعظم ہوں‘ چیف جسٹس ہوں یا پھر عمران خان ہوں کسی شخص کو انصاف نہیں ملتا‘ ملک میں جج کم ہیں اور مقدمے زیادہ ‘ جیلیں کم ہیں اور مجرم زیادہ ‘ لوگ چوری کا مقدمہ لے کر عدالت جاتے ہیں اور مقدمہ لڑتے لڑتے سارا ترکہ کھو بیٹھتے ہیں‘ ملک میں خواتین جوانی میں خلع کی درخواست دیتی ہیں اور بڑھاپے میں طلاق پاتی ہیں‘ ملک میں انصاف نہیں ملتا‘ خریدنا پڑتا ہے۔
کیا آپ یہ جانتے ہیں ملک پولیس گردی کا شکار ہے‘ پولیس عام شہریوں کے ساتھ مفتوحہ علاقوں کے غلاموں جیسا سلوک کرتی ہے‘ پولیس مقابلے عام ہیں‘ پولیس رشوت کے بغیر ایف آئی آر نہیں کاٹتی‘ پولیس کے سامنے لوگوں کو اینٹیں مار مار کر قتل کر دیا جاتا ہے‘ تھانے بکتے ہیں‘ مجرموں کو پولیس میں بھرتی کیا جاتا ہے‘ ایم پی ایز اور ایم این ایز اپنے علاقوں میں ایس پی تک اپنے لگواتے ہیں اور پولیس کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت گولی مار دیتی ہے‘ کیا آپ یہ نہیں جانتے ملک میں ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان باقاعدہ پیشہ بن چکا ہے‘ کراچی سے پشاور تک باقاعدہ مافیاز ہیں۔
یہ مافیاز روزانہ سیکڑوں لوگوں کو اغواء کرتے ہیں‘ ان سے کروڑوں اربوں روپے وصول کرتے ہیں اور ریاست جانتے بوجھتے خاموش رہتی ہے‘ کیا آپ یہ نہیں جانتے ملک میں کرپشن ریاستی رگوں کا حصہ بن چکی ہے‘ عوام ملک میں رشوت کے بغیر کوئی جائز کام نہیں کروا سکتے‘ سرکاری اہلکار مسجدوں‘ درگاہوں اور قبرستانوں تک سے رشوت وصول کرتے ہیں‘ کیا آپ یہ نہیں جانتے ہمارا معیار تعلیم انتہائی پست ہے‘ ہم ڈگری کو تعلیم قرار دیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں میٹرک پاس طالب علم اہلیت میں ایم اے سے بہتر ہوتے ہیں‘ ہماری یونیورسٹیاں تعلیمی ادارے نہیں ہیں‘ یہ ڈگریاں شایع کرنے والے پرنٹنگ پریس ہیں‘ کیا آپ یہ نہیں جانتے ملک میں کسی شہری کو صحت کی سہولت حاصل نہیں‘ ریاست اسپتالوں پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے لیکن یہ اسپتال کسی شخص کو علاج کی پوری سہولت فراہم نہیں کر پاتے‘ کیا آپ یہ نہیں جانتے دنیا پولیو کی وجہ سے پاکستانیوں پر سفری پابندیاں عائد کر رہی ہے‘ ملک میں دل کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے‘ ہم ہیپا ٹائٹس‘ گردوں کی بیماریوں‘ ٹی بی اور شوگر میں دنیا کے اولین ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں آبادی کنٹرول کرنے کا کوئی میکنزم نہیں‘ ہمارے ملک میں کوئی ایک ایسا شہر نہیں جس میں پینے کا صاف پانی ملتا ہو‘ ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتے ہیں جہاں رات بارہ بجے تک مارکیٹیں کھلی رہتی ہیں‘ ہماری تجارتی پالیسی فرسودہ ہے‘ ہمارے ملک میں ادویات کی تیاری کا کوئی نظام موجود نہیں‘ ہمارے ریاستی ادارے کام نہیں کرتے‘ ہمارے ملک میں ڈیڑھ سو سال پرانا دفتری نظام چل رہا ہے‘ ریاست لوگوں کو کام کرنے کی عادت نہیں ڈال پائی‘ ملک میں اسپورٹس اور گراؤنڈز نہیں ہیں‘ ہم مذہبی شدت پسندی کا شکار ہیں‘ ہمارے ملک میں کوئی شخص کسی بھی وقت کسی کو بھی کافر قرار دے سکتا ہے‘ آپ مسجد کے نام پر کسی بھی سرکاری جگہ پر قبضہ کر سکتے ہیں اور ہمارے ملک میں کتاب کا کلچر نہیں‘ ہمارے ملک میں پروفیسر حضرات بھی کتابیں نہیں پڑھتے اور کیا آپ یہ بھی نہیں جانتے ہم ایک گندی قوم ہیں‘ ہم درخت کاٹ کر چولہوں میں جلا دیتے ہیں۔
ہم گھر کا کوڑا سڑک پر پھینک دیتے ہیں‘ قومی اسمبلی کے واش رومز میں بھی صابن نہیں ہوتا‘ ملک میں خوراک اور ادویات کو خالص رکھنے کا کوئی بندوبست نہیں‘ ہمارے ملک میں لوگ مردار جانوروں کا گوشت بیچ رہے ہیں‘ کھانے پینے کی اشیاء میں کپڑے رنگنے کے رنگ ڈالے جاتے ہیں‘ ہم آج 2015ء میں بھی الیکشنوں میں دھاندلی کراتے ہیں‘ ہماری سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتیں کم اور مفاد پرستوں کے ٹولے زیادہ ہیں‘ ہمارے ملک میں سیاستدانوں کی گرومنگ کا کوئی ادارہ نہیں‘ ہمارے ملک میں طاقتور لوگ قانون بھی ہیں اور عدالت بھی‘ ہم نے آج تک ملک میں خشک سالی اور سیلاب سے بچنے کا کوئی نظام نہیں بنایا‘ ہم سردیوں اور گرمیوں میں پانی کی کمی سے مرتے ہیں اور برسات میں سیلابوں میں غوطے کھاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ٹیکس جمع کرنے کا کوئی مضبوط نظام نہیں‘ 20 کروڑ لوگوں کے ملک میں 10 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں‘ آپ ملک میں جتنے مضبوط اور طاقتور ہوتے جاتے ہیں‘ آپ کا ٹیکس اتنا ہی مختصر ہوتا جاتا ہے‘ کیا آپ نہیں جانتے ملک میں اندھوں کو بھی ڈرائیونگ لائسنس مل جاتے ہیں‘ ہم روڈ ایکسیڈنٹس میں پوری دنیا میں پہلے پانچ نمبروں میں شمار ہوتے ہیں اور کیا آپ یہ نہیں جانتے پاکستان غیر قانونی اسلحہ کا ڈپو بن چکا ہے‘ ملک میں توپ اور راکٹ لانچر تک مل جاتے ہیں۔
وزیراعظم صاحب آپ اگر یہ حقائق جانتے ہیں تو پھر آپ نے ان عوامی مسائل کے حل کے لیے آج تک بالغ نظری اور سیاسی افہام تفہیم سے کام کیوں نہیں لیا؟ آپ نے ان مسائل کے حل کے لیے کوئی اے پی سی کیوں نہیں بلائی؟ آپ نے ان مسائل کے مستقل حل کے لیے آج تک سیاسی قیادت کو اکٹھا کیوں نہیں کیا؟آپ کو جب سینیٹ کے چیئرمین کی ضرورت پڑتی ہے تو آپ 17 سال بعد میاں شہباز شریف کے ذریعے الطاف حسین سے رابطہ کر لیتے ہیں‘ آپ پرویز رشید اور خواجہ سعد رفیق کا وفد بنا کر چوہدری شجاعت حسین کے گھر بھجوا دیتے ہیں‘ آپ آصف علی زرداری اور عمران خان سے بھی کانٹیکٹ کر لیتے ہیں اور آپ بلوچستان‘ سندھ‘ کے پی کے اور پنجاب کے ناراض سیاسی گروپوں کو بھی فون کر لیتے ہیں لیکن جب عوام کی باری آتی ہے۔
عوامی مسائل کا سوال اٹھتا ہے تو آپ کو اے پی سی یاد آتی ہے اور نہ ہی آپ کسی سیاسی فریق سے رابطے کرتے ہیں‘ وزیراعظم صاحب قوم اگر آپ کی بالغ نظری اور افہام و تفہیم کی سیاست کا اعتراف کرتی ہے تو پھر آپ کو یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی‘ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر فوج چاہے تو عمران کا دھرنا ختم ہوجاتا ہے ‘پاکستان کی ناراض سیاسی قیادت اکٹھی ہو جاتی ہے اور ایک ہی دن میں 21 ویں ترمیم بھی پاس ہو جاتی ہے اور اگر سیاسی قائدین کے مفادات کا مسئلہ ہو تو میاں شہباز شریف الطاف حسین کو فون بھی کر لیتے ہیں اور حکومتی وفد چوہدری شجاعت کے گھر بھی چلا جاتا ہے لیکن جب عوام کا ایشو آتا ہے تو سیاسی قیادت آپس میں ملتی ہے۔
اے پی سی ہوتی ہے‘ پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی آئینی ترمیم ‘ کیوں؟وزیراعظم صاحب کیوں؟ آپ کی سیاسی بالغ نظری اور افہام و تفہیم کی سیاست صرف اپنی اور اپنے سیاستدان بھائیوں تک کیوں محدود ہے؟ عوام اس میں کیوں نہیں آتے؟ آپ ایک لمحے کے لیے ضرور سوچئے گا۔
مس مینجمنٹ
جاوید چوہدری منگل 10 مارچ 2015

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہیڈ کوچ وقار یونس اور وکٹ کیپر سرفراز احمد کا ایشو آج کل بچے بچے کی زبان پر ہے، سرفراز احمد ٹیلنٹڈ کرکٹر ہیں، یہ2006ء سے پرفارم کر رہے ہیں۔
وقار یونس کا بیک گرائونڈ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، اکمل برادرز کی مشکوک سرگرمیاں ہوں یا سٹے بازوں کے ساتھ مبینہ رابطے کی خبریں ہوں وقار یونس مختلف اوقات میں خبروں میں رہے، قوم جسٹس قیوم کی انکوائری رپورٹ کو بھی نہیں بھولی، یہ رپورٹ 2000ء میں سامنے آئی اور سلیم ملک پر میچ فکسنگ کے جرم میں پابندی لگی جب کہ وسیم اکرم، مشتاق احمد اور آج کے ہیڈ کوچ وقار یونس کوجرمانہ ہوا۔
یہ بات بھی پوشیدہ نہیں وقار یونس کو نجم سیٹھی پی سی بی میں لے کر آئے، یہ دوبئی سے پاکستان آئے، لاہور میں نجم سیٹھی سے ملاقات ہوئی، یہ اپنی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز پر ہیڈ کوچ بنے، وقار یونس کو ٹیم سلیکشن میں رول دیا گیا، تنخواہ (سولہ ہزار ڈالر ماہانہ) بھی مرضی کے مطابق ملی، سالانہ ٹریول الائونس (25 ہزار ڈالر) بھی حسب منشا ملا اور باقی سہولتیں بھی جو مانگیں وہ دے دی گئیں۔
یہ بات بھی پوشیدہ نہیں چیف سلیکٹر معین خان بھی نجم سیٹھی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بات بھی اب چھپی نہیں رہی چیئرمین شہریار خان اور نجم سیٹھی میں اختلافات ہیں، شہریار خان نے کیسینو میں ڈنر کے ایشو پر معین خان کو پاکستان واپس بلا لیااور نجم سیٹھی چیئرمین کے اس حکم پر خوش نہیں ہیں چنانچہ سرد جنگ انتہا کو چھو رہی ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ میں سیاسی مداخلت بھی اب ڈھکی چھپی بات نہیں، یہ بورڈ 1948ء میں بنا،صدر پاکستان شروع سے بورڈ کے پیٹرن ان چیف چلے آ رہے ہیں لیکن نجم سیٹھی نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو نئی راہ دکھائی، حکومت نے قواعد میں تبدیلی کی اور میاں نواز شریف اکتوبر2013ء کو بورڈ کے پیٹرن ان چیف بن گئے۔
یوں بورڈ کی زیادہ تر پاورز وزیراعظم ہائوس شفٹ ہو گئیں اورنجم سیٹھی اور ذکاء اشرف کے درمیان کھینچا تانی بھی قوم کے حافظے میں ابھی تازہ ہے، یہ تمام حقائق کیا ثابت کرتے ہیں؟ یہ حقائق ثابت کرتے ہیں ہمارا کرکٹ بورڈ بھی اسی طرح چل رہا ہے جس طرح ہماری پی آئی اے، ریلوے، واپڈا، اسٹیل مل اور پارلیمنٹ چل رہی ہے، ہم ہر فیلڈ میں شیروں کا ایک لشکر بناتے ہیں، ہم لشکر کو پالتے پوستے ہیں اور یہ لشکر جب مقابلے کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو ہم اس کی سربراہی کسی لنگڑے گھوڑے کے حوالے کر دیتے ہیں اور یوں ہمارے شیر بکروں کی ٹکروں سے زخمی ہو جاتے ہیں اور دنیا ہماری حالت پر قہقہے لگاتی ہے۔
یہ ہماری قومی عادت بن چکی ہے، میں دعوے سے کہتا ہوں ہم اگر ملک میں کرکٹ، میوزک اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نہیں چلا سکتے تو پھرہم یہ ملک نہیں چلا سکتے، کیوں؟ کیونکہ قدرت نے ہمارے ملک کو انفارمیشن ٹیکنالوجی، موسیقی اور کرکٹ میں بے انتہا نواز رکھا ہے، ہمارے بچے پیدائشی سافٹ ویئر انجینئر ہوتے ہیں، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ موبائل فون لیجیے، ملک کے کسی گاؤں میں جائیے اور یہ فون گاؤں کے سات آٹھ سال کے کسی بچے کے حوالے کر دیجیے، آپ شام کو بچے کا انٹرویو کیجیے۔
وہ بچہ آپ کو موبائل فون کے تمام فیچرز بتا دے گا، ہم ترقی پذیر ملکوں میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والی قوم ہیں، ہمارے 70 فیصد نوجوانوں کے ای میل ایڈریس ہیں اور85 فیصد جوان موبائل فون بھی استعمال کرتے ہیں اور موبائل ایپلی کیشنز اور سوشل میڈیا بھی۔ کمپیوٹر کا پہلا وائرس لاہور کے ایک نوجوان نے ایجاد کیا تھا۔
ہم جس نوجوان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لیے ملک سے باہر بھجواتے ہیں، وہ واپس نہیں آتا، یورپ اور امریکا کے ادارے اسے بھاری تنخواہ پر نوکریاں دے دیتے ہیں، ہمارے خطے میں موسیقی کے جراثیم بھی بہتات میں پائے جاتے ہیں، میوزک کی مارکیٹ بھارت ہے لیکن ٹیلنٹ پاکستان میں پیدا ہوتا ہے۔
دنیا آج تک وجہ دریافت نہیں کر سکی، ہمارے نوجوان گلوکار اٹھتے ہیں اور بھارت کا پورا میدان مار کر واپس آ جاتے ہیں، آپ بڑے غلام علی خان سے لے کر عاطف اسلم تک پاکستان کی موسیقی کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے، آپ حیران ہو جائیں گے اور ہم کرکٹ میں بھی اسی طرح مالا مال ہیں، ہم نے کرکٹ میں درجنوں ریکارڈ ہولڈرز پیدا کیے، ہمارے دشمن ہماری پوری ٹیم کو تباہ کر دیتے ہیں لیکن چند ماہ میں نیا شاہکار سامنے آ جاتا ہے اور یہ شاہکار بھی دنیا کو حیران کر دیتا ہے لیکن ہم اس ٹیلنٹ کے باوجود کرکٹ کے میدان میں بھی اسی طرح بدنصیب ہیں جس طرح ہم موسیقی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں مار کھا رہے ہیں۔
ہم اپنے گلو کاروں کو ’’میراثی‘‘ کا خطاب دیتے ہیں لیکن یہ لوگ جب سرحد پار کرتے ہیں تو لاکھوں، کروڑوں لوگ ان کے چرن چھوتے ہیں، ہم اپنے آئی ٹی اسپیشلسٹ کو نوکری نہیں دیتے مگر دنیا ان لوگوں کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہے، میں ایسے درجنوں نوجوانوں کو جانتا ہوں جو ملک میں نوکری کے لیے مارے مارے پھرتے رہے لیکن جب باہر کی کمپنیوں کو ان کے ٹیلنٹ کا علم ہوا تو یہ کمپنیاں انھیں ان کے گھروں میں بٹھا کر دس دس ہزار ڈالر ماہانہ دے رہی ہیں، میں ایسے بچوں کو بھی جانتا ہوں جو انٹرنیٹ پر برانڈ بناتے ہیں اور یہ بعد ازاں یہ برانڈ سال چھ مہینے میں فروخت کر کے ایک دو کروڑ روپے کما لیتے ہیں۔
ہم ان بچوں کی قدر کیوں نہیں کرتے اور دنیا ہمارے بچوں کو عزت اور رزق کیوں دیتی ہے؟ آپ جب اس سوال کا جواب تلاش کریں گے تو آپ کو ملک میں کرکٹ کے زوال کی وجہ بھی معلوم ہو جائے گی اور یہ وجہ یقینا میرٹ اور وژن ہو گا، ہم لوگ بنیادی طور پر ’’وژن لیس‘‘ ہیں، ہم گلوبل وژن کے مطابق زندگی نہیں گزار رہے، ہم ڈاکٹر کو دکان پر بٹھا دیتے ہیں، انجینئر کو عمرے اور حج کرانے کی ذمے داری دے دیتے ہیں، مولوی سے فارن پالیسی بنواتے ہیں، بزنس مین کو اسکول چلانے کا ٹاسک دے دیتے ہیں، استاد کو الیکشن کرانے پر لگا دیتے ہیں، ججوں سے دھاندلی کمیشن بنواتے ہیں، فوج کو میٹر ریڈنگ پر لگا دیتے ہیں۔
رینجرز سے پولیس کا کام لیتے ہیں اور پولیس کو وی آئی پیز کی سیکیورٹی کی ذمے داری دے دیتے ہیں اور آخرمیں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، ہم ترقی کیوں نہیں کر رہے؟ بھائی صاحب! شہریار خان سفارت کار ہیں، یہ 1960 ء میں فارن سروس میں آئے اور 1994ء میں ریٹائر ہوئے، یہ 34 سال سفارت کار رہے۔ آپ نے انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا دیا۔ نجم سیٹھی صحافی اور بزنس مین ہیں، یہ پوری زندگی کتابیں چھاپتے اور کالم لکھتے رہے، یہ 2009ء میں اینکرپرسن بھی بن گئے لیکن حکومت نے انھیں 24 جون 2013ء کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین لگا دیا، کیوں؟ کیا یہ کرکٹر ہیں ؟ ہرگز نہیں، کرکٹ میں نجم سیٹھی اور میں دونوں برابر ہیں، میں کرکٹ کے بارے میں صرف اتنا جانتا ہوں۔
ٹیم میں گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں، بارھواں کھلاڑی باہر بیٹھ کر کسی کرکٹر کے بیمار ہونے کا انتظار کرتا ہے اور دونوں ٹیموں کے پاس گیند ایک ہی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ، نجم سیٹھی صاحب کی معلومات بھی اس سے زیادہ نہیں ہوں گی مگر یہ بھی چیئرمین بنا دیے گئے، ان سے قبل ذکاء اشرف کو یہ ذمے داری سونپی گئی، یہ بزنس مین اور زمیندار ہیں، شوگر مل کے مالک ہیں اور گنا اور گندم اگاتے ہیں، پوری زندگی کرکٹ کو صرف ٹیلی ویژن پر دیکھا مگر انھیں بھی چیئرمین کا عہدہ دے دیا گیا۔
آپ کرکٹ بورڈ کے تمام سابق چیئرمینوں کے پروفائل نکال کر دیکھئے آپ حیران رہ جائیں گے پاکستان کرکٹ بورڈ ایک ایسا بدقسمت ادارہ ہے جس کی چیئرمینی ڈاکٹروں کو بھی نصیب ہوئی، بزنس مینوں کو بھی، ججوں کو بھی، بیوروکریٹس کو بھی، جرنیلوں کو بھی، سفارت کاروں کو بھی، سیاستدانوں کو بھی اور صحافیوں کو بھی۔ یہ عہدہ اگر نصیب نہیں ہوا تو کرکٹروں کو نصیب نہیں ہوا چنانچہ ہماری کرکٹ حیران کن ٹیلنٹ کے باوجود عالمی نوحہ بن کر رہ گئی، دنیا آج ہم پر ترس بھری نظریں ڈالتی ہے اور پھر قہقہے لگاتی ہے۔
آپ میاں نواز شریف کی سوچ ملاحظہ کیجیے، ملک چل نہیں رہا، پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ جا ری ہے، پنجاب اسمبلی کے 11 مسلم لیگی ارکان نے ندیم افضل چن کو ووٹ دے دیے، بجلی پوری نہیں ہو رہی، دہشت گردی رک نہیں رہی، مہنگائی قابو میں نہیں آ رہی، حکومت عمران خان سے نبٹ نہیں پا رہی، حکومت سے سینیٹ کا الیکشن ہوتا نہیں، ملک سے پٹرول غائب ہو جاتا ہے۔
ہم کراچی سنبھال نہیں پا رہے اور وزیراعظم کے پاس سینیٹ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی فرصت نہیں ہوتی لیکن وزیراعظم پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن ان چیف بھی ہیں، ہمارے ہردل عزیز وزیراعظم یہ اختیار بھی صدر مملکت کو نہیں دینا چاہتے، یہ کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف کا موڑھا بھی اپنی کرسی کے نیچے چھپا کر بیٹھے ہیں چنانچہ پھر اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو اس وقت نکل رہا ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ سیاستوں، سٹے بازیوں اور اقرباء پروری کا گڑھ بن چکا ہے۔
بورڈ میں انا کے جھنڈے لہرا رہے ہیں، وقار یونس سرفراز احمد کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، یہ چار میچوں میں انھیں کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے، ٹیم جب مجبور ہو جاتی ہے تو سرفراز احمد کو ذلیل کرنے کے لیے اوپنر بھجوا دیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کرم کرتا ہے اور وہ سرفراز احمد جنھیں چار میچوں میں ڈریسنگ روم سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی وہ کمال کر دیتے ہیں اور صحافی جب وقار یونس سے سرفراز احمد کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو وقار یونس اس جائز سوال کو ’’اسٹوپڈ‘‘ قرار دے دیتے ہیں، وزیراعظم صاحب کو جاگنا ہو گا، یہ کرکٹ کو فوری طور پر ہاکی کی جگہ قومی کھیل قرار دے دیں۔
چیئرمین کا عہدہ ختم کر دیں، بارہ رکنی بورڈ بنائیں، بورڈ میں صرف قومی سطح کے کرکٹرز کو شامل کیا جائے، یہ لوگ بھی شفاف عمل کے ذریعے منتخب ہوں، کرکٹ کو ڈسٹرکٹ لیول سے شروع کیا جائے، ڈسٹرکٹ کرکٹ بورڈز بنائیں، کھلاڑی وہاں سے سلیکٹ ہو کر صوبوں کی ٹیموں میں آئیں، چاروں صوبوں کی کرکٹ ٹیمیں بنائیں، یہ ٹیمیں سارا سال ایک دوسرے کے ساتھ میچ کھیلیں، تین نیشنل ٹیمیں بنائیں، یہ ٹیمیں انٹرنیشنل مقابلوں میں جائیں، تینوں ٹیموں کے بہترین کھلاڑیوں سے ورلڈ کپ کے لیے ٹیم تیار کی جائے۔
یہ ٹیم پورا سال پریکٹس کرے اور کھلاڑیوں کو بول چال، بی ہیو کرنے، انٹرنیشنل قوانین اور سٹے بازی کے برے اثرات کے بارے میں تعلیم بھی دی جائے، ہم نے اگر یہ نہ کیا تو ہم زوال کی تاریخ بن کر رہ جائیں گے،ملک میں کرکٹ ختم ہو جائے اور صرف پیٹرن ان چیف رہ جائیں گے۔
کہیں پھر ضرورت نہ پڑ جائے
جاوید چوہدری منگل 24 مارچ 2015

وہ تقریباً میرے گلے پڑ گیا، وہ بار بار پوچھ رہا تھا ’’آپ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کی حمایت کیوں نہیں کر رہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’بیٹا میں نے آج تک آپریشن کی مخالفت میں ایک لفظ نہیں بولا‘‘ وہ چیخا ’’لیکن آپ حمایت بھی نہیں کر رہے‘‘ میں نے نوجوان کو بٹھایا، کافی کا آرڈرکیا اور اس سے پوچھا ’’بیٹا آپ کی عمر کتنی ہے‘‘ وہ غصے میں تھا، اس کی آواز شدت جذبات سے تھرتھرا رہی تھی، میں نے پانی کی بوتل کھولی اور اس کے ہاتھ میں پکڑا دی، وہ ایک سانس میں پوری بوتل پی گیا، اس نے پانی پینے کے بعد لمبا سانس لیا اور ٹھہر ٹھہر کر بولا ’’میں اس سال 25 برس کا ہو جاؤں گا‘‘ میں نے آہستہ سے عرض کیا’’ بیٹا میں بھی جوانی میں معلومات، جذبے اور علم کو تجربے سے زیادہ اہمیت دیتا تھا لیکن پھر وقت نے سمجھایا تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا، آپ ہزار کتابیں پڑھ لیں۔
آپ انٹرنیٹ کے کیڑے بن جائیں مگر تجربے کا ایک دن ان تمام کتابوں پر بھاری ہوتا ہے، میں اس سے قبل کراچی کے تین آپریشن دیکھ چکا ہوں چنانچہ میرا دل گھبراتا ہے‘‘ وہ نوجوان خاموشی سے میری طرف دیکھنے لگا، میں نے پچھلے دس برسوں میں معاشرے میں جو تین بڑی تبدیلیاں دیکھیں، ان میں ایک تبدیلی غصہ بھی ہے، ہمارے اردگرد موجود لوگ غصے سے بھرے ہوئے ہیں، یہ پورا دن پھٹنا چاہتے ہیں اور آپ اگر کسی شخص کو سمجھانے کی غلطی کر بیٹھیں تو وہ آپ کا گریبان پھاڑ دیتا ہے، لوگ دوسروں سے بلاوجہ ناراض رہتے ہیں، یہ ناراضگی، یہ غصہ معاشرے کو نا قابل رہائش بنا رہا ہے، آپ کے لیے باہر نکلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، میں روز ہزاروں گالیاں پڑھتا اور سنتا ہوں، مجھے آج تک کسی ایک گالی کی وجہ سمجھ نہیں آئی؟۔ کیا مجھے گالیوں سے بچنے کے لیے لوگوں کی خواہشوں کے مطابق لکھنا اور بولنا چاہیے؟
میں اکثر اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں اور پھر سوچتا ہوں ’’میں کس کس کی خواہش پوری کروں گا؟‘‘ اور جس دن سوچنے، بولنے اور لکھنے والے حقائق کے بجائے عوامی خواہشات کے تابع ہو جائیں، کیا اس دن لکھنے، بولنے اور سوچنے والے لوگوں کو کام کرنا چاہیے؟ کیا اس دن کے بعد معاشرہ آگے بڑھ سکے گا؟ مجھے ہمیشہ اس کا جواب ناں میں ملتا ہے چنانچہ میں گالیوں اور لوگوں کے غصے کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتا ہوں، میں لوگوں کے غصے اور بدتمیزی کے باوجود روزانہ باہر بھی نکلتا ہوں،میں شہر کے مختلف بک اسٹورز میں جاتا ہوں، سی ڈیز اور فلموں کی دکانوں پر جاتا ہوں اور کافی شاپس اور چائے خانوں کا چکر لگاتا ہوں اورمجھے ان چکروں کے دوران کوئی نہ کوئی جذباتی نوجوان بھی ٹکر جاتا ہے۔
وہ نوجوان بھی ان نوجوانوں میں شمار ہوتا تھا جوروز کسی نہ کسی کے گلے پڑنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں، یہ نوجوان سوشل میڈیا جنریشن ہیں، یہ صرف لائیک کرنا جانتے ہیں یا پھر ڈس لائیک، یہ میاں نواز شریف کے نعرے بھی لگاتے ہیں اور عمران خان کے دھرنے میں بھی شامل ہوتے ہیں، یہ فیس بک اورٹویٹر کے ایک اسٹیٹس سے رائے بناتے ہیں اور دوسرے اسٹیٹس سے رائے کی پوری عمارت زمین بوس کر دیتے ہیں، میں ان نوجوانوں کے ہاتھوں مار کھا کھا کر سمجھدار ہو چکا ہوں چنانچہ میں انھیں دور سے پہچان لیتا ہوں اور اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیتا ہوں، وہ نوجوان بھی غصے میں تھا۔
میں نے عرض کیا ’’بیٹا کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن حال ہے، اس حال کا یقینا کوئی نہ کوئی مستقبل بھی ہو گا لیکن ہمیں مستقبل کی طرف جانے سے قبل اس کا ماضی بھی دیکھنا چاہیے، ہم جب بھی ماضی کی تلاشی لیں گے، ہمارا آپریشن پر اعتماد ڈانواں ڈول ہو جائے گا‘‘ میں خاموش ہو گیا، نوجوان نے پوچھا ’’مثلاً‘‘ میں نے عرض کیا ’’مثلاً آپ 1992ء کے آپریشن کو دیکھو، جنرل آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف تھے، وہ کراچی کو دہشت گردوں، بھتہ مافیا اور ٹارگٹ کلرز سے آزاد کرانا چاہتے تھے، فوج نے کراچی میں آپریشن شروع کر دیا، وہ خوفناک آپریشن تھا، فوج کراچی کے نو گو ایریاز میں داخل ہو گئی، ٹارچر سیل کھول دیے گئے، قاتل گرفتار کر لیے گئے یا مار دیے گئے۔
میڈیا نے آپریشن کا بھرپور ساتھ دیا، ایم کیو ایم کی ساری قیادت ملک سے باہر چلی گئی،کراچی کے حالات نارمل ہو گئے، یہ آپریشن کامیابی کے قریب تھا کہ صدر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے اور صدر کو مختلف سیاسی گروپوں کی ضرورت پڑ گئی، صدر افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر بھی تھے، صدر نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن رکوایا اور ایوان صدر کے دروازے ایم کیو ایم پر کھول دیے، یوں پہلا آپریشن نہ صرف سیاسی مصلحت کا شکار ہو گیا بلکہ اس کی ناکامی کے بعد کراچی کی دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی عسکری ونگ بنا لیے، وہ لوگ بھی آہستہ آہستہ ما ردیے گئے جنہوں نے 1992ء کے آپریشن کی حمایت کی تھی،، میں نے سانس لیا اور دوبارہ عرض کیا ’’کراچی میں دوسرا آپریشن 1995-96ء میں جنرل نصیر اللہ بابر نے کیا، کراچی میں نصیر اللہ بابر، ڈاکٹر شعیب سڈل اور مسعود شریف کا ٹرائیکا بنا، کراچی کلین ہونے لگا۔
1996ء میں بھی ٹارچر سیل ختم ہوئے، نو گو ایریاز کھولے گئے، ٹارگٹ کلرز گرفتار ہوئے اور بھتہ اور قبضہ مافیاز کو عدالتوں میں پیش کیا گیا، یہ آپریشن بھی کامیاب چل رہا تھا لیکن پھر محترمہ بے نظیر بھٹو اور صدر فاروق لغاری کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے اور صدر کو سیاسی حمایت کی ضرورت پڑ گئی چنانچہ صدر فاروق لغاری نے کراچی آپریشن رکوایا اور ایم کیو ایم پر ایوان صدر کے دروازے کھول دیے یوں 1996ء کے آپریشن کے بھی وہی نتائج نکلے جو 1992ء میں نکلے تھے، 1996ء کے آپریشن کے بعد کراچی کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اسلحے کے انبار لگا دیے، شہر چار حصوں میں تقسیم ہو گیا، ایک ڈیفنس، دوسرا مہاجر، تیسرا پشتون علاقہ اور چوتھا مذہبی جماعتوں کا علاقہ۔ کراچی مزید خراب ہو گیا، کراچی میں تیسرا آپریشن 1998ء میں شروع ہوا، وہ ٹارگٹ کلنگ کا دور تھا، حکیم سعید جیسی شخصیت کو شہید کر دیا گیا۔
کے ای ایس ای سی کے چیئرمین شاہد حامد کو مار دیا گیا اور شہر کے چوٹی کے بزنس مینوں، سرمایہ کاروں اور زمینداروں کو دھمکیوں بھرے خطوط ملنے لگے، میاں نواز شریف کی حکومت تھی، حکومت نے اگست 1998ء کو کراچی میں آپریشن شروع کر دیا، وہ آپریشن بھی کامیاب چل رہا تھا لیکن پھر 1999ء میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کے تعلقات خراب ہو گئے، پھر جنرل پرویز مشرف کو بھی ایم کیو ایم کی ضرورت پڑ گئی، 12 اکتوبر 1999ء کو میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی اور اس کے ساتھ ہی کراچی آپریشن بھی رک گیا، یوں تیسرا آپریشن بھی حالات کو مزید گھمبیر بنا گیااور کراچی میدان جنگ بن گیا، جنرل پرویز مشرف کی لبرل پالیسیوں نے طالبان کو کراچی کا راستہ دکھا دیا، کراچی میں مذہبی عسکری جماعتوں نے جڑ پکڑی اورکراچی طالبان کا دوسرا شمالی وزیرستان بن گیا‘‘۔
میں خاموش ہو گیا، نوجوان نے کرسی پر پہلو بدلا اور بولا ’’آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’ 2008ء میں آصف علی زرداری کی حکومت آئی، زرداری صاحب کو بھی ایم کیو ایم کی ضرورت تھی چنانچہ انھوں نے این آر او کے ذریعے تمام مقدمے ختم کرا دیے، یہ اپنے قدموں پر چل کر نائین زیرو بھی گئے اور انھوں نے ایم کیو ایم کی وزارتیں بھی بحال رکھیں، 2013ء میں میاں نواز شریف نے حکومت بنائی۔
میاں صاحب کو مارچ 2015ء میں سینیٹ کے الیکشنز میں ایم کیو ایم کی ضرورت پڑ گئی چنانچہ وہ میاں نواز شریف جس نے7 جولائی 2007ء کو لندن میں آل پارٹیز کانفرنس کے دوران یہ قرار داد پاس کرائی تھی ’’کوئی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ انتخابی اتحاد کرے گی اور نہ اسے حکومت میں شامل کیا جائے گا‘‘ اسی میاں نواز شریف نے 17 سال بعد9 مارچ کو میاں شہباز شریف کے ذریعے الطاف حسین سے رابطہ کیا اور ماضی کے تمام گلے شکوے ختم کر دیے لہٰذا مجھے خطرہ ہے کہیں کراچی کے اس آپریشن کے خاتمے سے پہلے بھی کسی کو ایم کیو ایم کی ضرورت نہ پڑ جائے، یہ وجہ ہے میرا دل گھبراتا ہے، میں خاموش ہو گیا، نوجوان نے مجھے گھور کر دیکھا، قہقہہ لگایا، اٹھا اور یہ کہہ کر چلا گیا ’’آپ نے بہت اچھا فلسفہ بے شرمی پیش کیا ہے‘‘۔

کاش ہمارے بادشاہ بھی
جاوید چوہدری اتوار 8 مارچ 2015

میں اورخان غازی کے مقبرے میں داخل ہوا، فاتحہ پڑھی اور دائیں بائیں اور پائنتی کی قبروں کے کتبے پڑھنے لگا اور میں پھر دو قبروں کے بعد اس قبرتک پہنچ گیا میں جس کی تلاش میں چھ مرتبہ ترکی گیا، دو مرتبہ بورسا پہنچنے کی کوشش کی، ناکام ہوا، تیسری بار بورسا پہنچا، خلافت عثمانیہ کے بانیان کے مقبروں تک پہنچا اور بالآخر اس قبر تک پہنچ گیا، وہ بایزید یلدرم کی قبر تھی، یلدرم خلافت عثمانیہ کا چوتھا خلیفہ تھا، بہادر تھا، سمجھ دار تھا لیکن تکبر کا شکار ہوا اور یہ تکبر اس کے زوال ، اس کی موت کا باعث بن گیا۔
یلدرم کی کہانی امیر تیمور نے اپنی بائیو گرافی میں بڑی تفصیل سے لکھی، میں یہ کتاب تیرہ مرتبہ پڑھ چکا ہوں، میں نے آخری مرتبہ سینٹرل ایشیا، مڈل ایسٹ،برصغیر، مشرقی یورپ اور روس کے نقشے سامنے رکھے۔ ’’گوگل ارتھ‘‘ کھولا اور تیمور کی کتاب پڑھنا شروع کر دی، میں کتاب پڑھتا جاتا تھا اور وہ تمام مقامات، شہر، دریا اور پہاڑ تلاش کرتا جاتا تھا جن کا تذکرہ تیمور نے اپنی بائیو گرافی میں کیا، تیمور کے زمانے کے زیادہ تر شہر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں یا ان کے نام تبدیل ہو چکے ہیں یا پھر یہ وقت کی بے رحم لہروں کا نشانہ بن کر اپنی آن بان کھو بیٹھے ہیں تاہم درجن بھر شہر آج بھی قائم ہیں۔
پاکستان میں کوئٹہ اور ملتان اور بھارت میں دلی موجود ہیں تاہم دلی کے مضافات کے دو شہر لونی اور جومبہ اب دلی شہر کا حصہ بن چکے ہیں، تیمور کے دور کا شیراز، گیلانی، تبریز، اصفہان، سمر قند، بخارہ، بغداد، دمشق، حلب اور ہرات آج بھی اسی نام سے قائم ہیں، افغانستان میں غور نام کا ایک ملک تھا، یہ کابل تک وسیع تھا، ہندوستان کے غوری سلطان اسی ملک سے تعلق رکھتے تھے، یہ ختم ہو چکا ہے تاہم اس کا ایک حصہ اب کابل میں شامل ہے۔
شہر سکندر اب قندہار بن چکا ہے، بیزان تیوم اب استنبول ہے، جارجیا، آرمینیا اور آذر بائیجان کی جگہ ایک طویل ملک ہوتا تھا قچاق۔ یہ ملک اب ختم ہو گیا، دریاوالگا کا نام طرخان تھا، دریا کے گرد آباد شہر ختم ہو گئے، نیا ملک قزاقستان بنا، لہرستان کا ملک بھی ختم ہو گیا، خراسان کا ملک تین ملکوں میں تقسیم ہو گیا اور شہر تاریخ کے صفحوں میں گم ہو گئے، تیمور سو محلات کا مالک تھا، سمر قند میں اس کے اٹھارہ محل تھے، کیش (یہ شہر اب شہر سبز کہلاتا ہے) میں بیس، بغداد میں پندرہ، اصفہان میں بارہ اور شیراز میں سات محل تھے، یہ سارے محلات پیوند خاک ہو گئے۔
امیر تیمور کی سلطنت تین براعظموں تک پھیلی تھی لیکن آج صرف چھ سو سال بعد دنیا میں تیمور کی قبر اور ایک کتاب کے سوا کچھ نہیں بچا، اس کی ہر کامیابی ریت کے نقش کی طرح دنیا سے غائب ہو چکی ہے، دنیا کے ہر متکبر سیاستدان،ہر بے مہار حکمران اور ناگزیر ڈان کو زندگی میں ایک بار امیر تیمور کی بائیو گرافی ضرور پڑھنی چاہیے، اسے امیر تیمور کی قبر پر بھی جانا چاہیے اور اگر ہو سکے تو اسے امیر تیمور کی گم شدہ ریاست کی سیر بھی کرنی چاہیے، مجھے یقین ہے اس شخص کو دنیا کی بے ثباتی کا یقین آ جائے گا لیکن تیمور، تیمور کی گم شدہ ریاست اور تیمور کی حسرتیں ہمارا مقصد نہیں، ہمارا مقصد بایزیدیلدرم اور امیر تیمور کی جنگ ہے۔
بایزید 1389ء میں عثمانی خلافت کا بادشاہ بنا، سلطنت کی حدیں دور دور تک پھیلی تھیں، امیر تیمور عثمانیوں کو چھیڑنا نہیں چاہتا تھا، یہ ہمیشہ ترکی کی سرحدوں کے قریب سے چپ چاپ گزر جاتا تھا لیکن یہ جب حلب اور دمشق پہنچا تو اسے حلب اور دمشق کے علماء نے بتایا ’’ دنیا کی اصل دولت تو ترک اور استنبول کے عیسائی حکمرانوں کے پاس ہے‘‘ تو امیر تیمور لالچ میں آ گیا، اس نے ترکی فتح کرنے کا فیصلہ کر لیا، امیر تیمور اس وقت تک دنیا کا نامور فاتح بن چکا تھا، وہ دمشق سے واپس جانے لگا تو اس نے انگوریہ کی راہ لے لی۔
انگوریہ انقرہ کا پرانا نام تھا اور یہ اس وقت تک ترک سلطنت کا دارالحکومت تھا، تیمور نے قونیہ فتح کیا اور دریائے قزل ایرماق کے ساتھ ساتھ انگوریہ کی طرف سفر شروع کر دیا، وہ انگوریہ کے مضافات میں پہنچا تو بایزید یلدرم فوج لے کر پہنچ گیا، تیمور اور بایزید افہام و تفہیم کے ساتھ معاملات طے کر سکتے تھے لیکن بایزید کے تکبر نے معاملہ بگاڑ دیا، بایزید نے تیمور کو خط لکھا اور خط میں اسے برا بھلا کہہ دیا، تیمور مزید بگڑ گیا، جنگ شروع ہوئی، ترکوں کی فوج تکنیک میں تیموری فوج سے زیادہ مضبوط تھی، ان کے پاس ایسی گھوڑا گاڑیاں تھیں جن کے پہیوں پر تلوار نما درانتیاں لگی تھیں۔
یہ درانتیاں راستے میں آنے والے سپاہیوں اور گھوڑوں کو کاٹ ڈالتی تھیں، آپ کو یہ گاڑیاں بن ہر اور گلیڈی ایٹر جیسی فلموں میں اکثر نظر آتی ہیں، تیمور کے لیے یہ گاڑیاں نئی تھیں چنانچہ تیموری فوج کو بھاری نقصان ہوا، تیمور نے اس وقت تک بارود کا استعمال سیکھ لیا تھا، یہ لوگ مٹی کے کوزوں میں بارود بھر کر دستی بم بناتے تھے، یہ بم کو رسی سے باندھتے، فلیتے کو آگ لگاتے، کوزے کو سر پر گھماتے اور دشمن کی فوج میں پھینک دیتے، بم پھٹتا اور زد میں آنے والوں کو اڑا دیتا، ترک فوج کے لیے یہ بم نئے تھے چنانچہ خوفناک جنگ ہوئی، تیمور کو بھاری نقصان پہنچا لیکن یہ جنگ جیت گیا، بایزید یلدرم اپنے بیٹوں سمیت گرفتارہو گیا، ترکوں کی فوج میں تاتاری، قمیش اور کرد سپاہی تھے۔
یہ سپاہی سلطان کی گرفتاری کے باوجود لڑتے رہے، یہ تمام سپاہی مر گئے مگر انھوں نے ہتھیار نہ ڈالے، سپاہیوں کی شجاعت اور بہادری نے تیمور کو حیران کر دیا، جنگ کے بعد تیمور میدان جنگ میں گیا، ترک سپاہیوں کی لاشیں دیکھیں، سپاہی مر چکے تھے لیکن ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں، تیمور نے بایزیدیلدرم کو بلایا اور حیران ہو کر اس سے پوچھا ’’یلدرم تم بہت بے وقوف ہو، تمہارے پاس ایسے شاندار سپاہی تھے مگر تم نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا، تمہیں چاہیے تھا تم ایسے ثابت قدم دلیروں کی ایک ایسی فوج بناتے جس کی موجودگی میں کوئی تمہیں فتح نہ کر سکتا، تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟‘‘ شکست خوردہ یلدرم نے کف افسوس ملا اور تیمور سے کہا’’یا امیر انسان کو نعمت کی قدر اس وقت ہوتی ہے جب یہ اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
یہ دلیر لوگ واقعی نعمت تھے، افسوس میں اس نعمت سے فائدہ نہ اٹھا سکا‘‘ امیر تیمور عجیب و غریب شخص تھا، وہ اپنے مفتوحہ علاقوں کے شاہی خاندان کے چیدہ چیدہ لوگوں کو زر ضمانت بنا کر اپنے پاس رکھ لیتا تھا، یہ لوگ اپنے مقامی لباس میں اس کے دربار میں بیٹھتے تھے، تیمور ان لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا، تیمور نے بایزید یلدرم اور اس کے بیٹوں کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا، یہ یلدرم کو عزت دیتا تھا لیکن ترکی جیسی سلطنت کی بادشاہت اور پھر امیر تیمور کے دربار کا ایک مہرہ بننا، یلدرم کے لیے زندگی اذیت بن گئی۔
وہ روز اپنی کھوئی ہوئی سلطنت کو یاد کرتا، انگوریہ کو یاد کرتا، قونیہ کے درویشوں کا رقص یاد کرتا اور اپنے دربار کی شان و شوکت کو یاد کرتا اور پھر اپنی فوج کی شجاعت کو یاد کرتا اور پھر اپنی بے وقوفیوں اور حماقتوں کو یاد کرتا اور پھر دیر تک غمناک ہو کر بیٹھا رہتا، عثمانی خلافت کا بوجھ اسے آہستہ آہستہ کھوکھلا کر گیا، امیر تیمور آذربائیجان کی مہم کے لیے روانہ ہوا تو وہ بایزید یلدرم کو بھی ساتھ لے گیا، یلدرم غلام کی طرح تیمور کے ساتھ ساتھ چلتا تھا، یہ ذلت اس سے برداشت نہ ہو سکی چنانچہ وہ دیار بکر کے مقام پر شدید بیمار ہو گیا، تیمور کو اس پر ترس آگیا، اس نے اسے علاج کے لیے دیار بکر میں قیام کی اجازت دے دی، تیمور کا سفر جاری تھا کہ اسے یلدرم کا خط موصول ہوا، یلدرم نے خط میں لکھا ’’یا امیر طویل زمانوں کی روایت ہے، بادشاہوں کو اسیری مار دیتی ہے، میں تمہارا قیدی ہوں، مجھے یقین ہے مجھے یہ قید مار دے گی۔
ایک مرتا ہوا بادشاہ زندہ بادشاہ سے درخواست کرتاہے، آپ میری موت کے بعد میرے بیٹے سلطان محمد کو عثمانی خلافت کا بادشاہ بنا دیں تاکہ ہماری خلافت کا چراغ جلتا رہے، میں تمہیں یقین دلاتا ہوں میرا بیٹا تمہارا وفادار رہے گا، یہ کبھی تمہارے سامنے سر نہیں اٹھائے گا‘‘ تیمور کو ترس آگیا، اس نے اسی وقت یلدرم کے بیٹے کو ترکی کا سلطان بنا دیا، یہ خبر یلدرم تک پہنچی تو اس نے کلمہ پڑھا اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، یلدرم کی موت کے بعد تیمور کو اس کا دوسرا خط ملا، یلدرم نے تیمور سے درخواست کی۔
آپ اگر مہربانی فرمائیں تو آپ میری لاش کو بورسا میں میرے خاندان کے قبرستان میں تدفین کی اجازت دیں، تیمور نے یلدرم کی یہ درخواست بھی منظور کر لی چنانچہ یلدرم کی لاش دیار بکر سے بورسا لائی گئی اور اسے بورسا میں اور خان غازی کی پائنتی میں دفن کر دیا گیا۔
میں نے بایزید یلدرم کی داستان امیر تیمور کی بائیوگرافی میں پڑھی تھی، میں اس کی قبر پر جانا چاہتا تھا، مجھے فروری کے شروع میں یہ موقع مل گیا، میں اورخان غازی کے مقبرے میں داخل ہوا، اورخان کی قبر پر کھڑا ہو کر فاتحہ پڑھی اور قبروں کے کتبے پڑھتے پڑھتے بایزید یلدرم کی قبر تک جا پہنچا، ترک اپنے بادشاہوں کی قبروں پر پگڑیاں باندھتے ہیں، یہ پگڑیاں بادشاہت کی نشانی ہوتی ہیں، آپ جوں ہی کسی مقبرے میں داخل ہوتے ہیں۔
آپ کو جس قبر پر پگڑی نظر آئے آپ سمجھ جائیں یہ ترک بادشاہ کی قبر ہے، یلدرم کی قبر پر بھی پگڑی تھی لیکن پگڑی کے باوجود یلدرم کی قبر سے مظلومیت کی ہوا آتی تھی، قبریں اگر تاسف کا اظہار کر سکتی ہیں تو یلدرم کی قبر اس وقت کف تاسف مل رہی تھی، میں قبر کے قریب کھڑا ہو کر دکھی ہو گیا، میں نے گیلی آنکھوں سے فاتحہ پڑھی اور مقبرے سے باہر آگیا، مقبرہ بلندی پر واقع ہے، بورسا کا آدھا شہر مقبرے کے نیچے دور دور تک بکھرا ہوا ہے،خنک ہوائیں مقبرے سے ہو کر شہر کی چھتوں پر اتر رہی تھیں، دور بحیرہ مرمرا کی لہریں اٹھتی تھیں ، گرتی تھیں اور خنک ہواؤں سے گلے ملتی تھیں ۔
اس سارے پس منظر میں بایزید یلدرم کی اداس قبر دنیا بھر کے حکمرانوں کو یہ پیغام دے رہی تھی،بادشاہ اگر نالائق ہوں، کوتاہ فہم ہوں اور متکبر ہوں تو ان کو قبریں بھی خیرات میں نصیب ہوتی ہیں، امیر تیمور کو اگر یلدرم پر ترس نہ آتا اور وہ بیمار سلطان کی دونوں خواہشیں نہ مانتا تو عثمانی خلافت 1400ء میں دم توڑ دیتی اور وہ اگر غلام بادشاہ کی لاش کو بورسا لے جانے کی اجازت بھی نہ دیتا تو یلدرم جیسا بادشاہ کسی نامعلوم مقام پر دفن کر دیا جاتا اور آج اس کی قبر ہوتی اور نہ ہی اس قبر پر پگڑی ، یہ سب ایک بادشاہ کی مہربانی تھی۔
کاش ہمارے بادشاہ بایزید یلدرم کا یہ فقرہ سمجھ جائیں ’’ یا امیرانسان کو نعمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ ہاتھ سے نکل جاتی ہے‘‘ کاش ہمارے حکمران جان لیں نعمتیں ان کے ہاتھ سے بھی پھسل رہی ہیں، یہ بھی اب انجام سے زیادہ دور نہیں ہیں۔
خواب اور حقیقتیں
جاوید چوہدری جمعرات 5 مارچ 2015

خوابوں اور حقیقتوں میں بڑا فرق ہوتا ہے اور عمران خان کو بہرحال خوابوں کی دنیا سے باہر آنا ہو گا‘ میں خوابوں اور حقیقتوں کی طرف آنے سے قبل ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں‘ عمران خان مستقبل کے روشن پاکستان کے لیے بہت ضروری ہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن بدقسمتی سے ایکسپوز ہو گئی ہیں‘ یہ عوامی توقعات کے مطابق ڈیلیور نہیں کر سکیں۔
یہ دونوں پارٹیاں مستقبل میں مزید کمزور ہوں گی اور یہ اس وقت تک کمزور ہوتی رہیں گی جب تک یہ ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی کی طرح اپنی ازسر نو تعمیر نہیں کرتیں‘ یہ لوگ جب تک پارٹی کی نسوں میں نیا اور اہل خون نہیں لاتے‘ یہ لوگ جب تک اہلیت کو وفاداری کی جگہ نہیں دیتے اور پارٹیوں کی پالیسی میں یہ شفٹ اتنی جلدی نہیں آ سکے گی چنانچہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کے آج اور کل کے درمیان خوفناک ویکیوم موجود ہے‘ یہ ویکیوم عمران خان کو پُر کرنا چاہیے۔
عمران خان کو ویکیوم کیوں پُر کرنا چاہیے اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ‘ عمران خان لبرل مسلمان ہیں‘ یہ مذہبی شدت پسندی کے ہاتھوں مرتے ملک کو سہارا دے سکتے ہیں اور دو اگر عمران خان درمیان سے ہٹ گئے تو پاکستان کا یہ ویکیوم طالبان یا داعش پُر کرے گی اور وہ لوگ ملک کے لیے کتنے خوفناک ثابت ہوں گے آپ اس کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں لہٰذا عمران خان کا قائم رہنا اور آگے بڑھنا ملک کے لیے بہت ضروری ہے لیکن آگے بڑھنے سے قبل عمران خان کو خوابوں کی دھند سے نکل کر حقیقتوں کی روشنی میں آنا ہو گا‘ یہ جتنی جلد حقیقتوں کا ادراک کر لیں گے یہ ان کے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا ورنہ دوسری صورت میں عمران خان اور ملک دونوں کا مستقبل اندھیروں کی نذر ہو جائے گا۔
ہم اب آگے بڑھنے سے قبل ماضی کے چند خوابوں اور ان سے جڑی چند حقیقتوں کا تجزیہ کرتے ہیں‘ مثلاً خواب یہ تھا عمران خان 14 اگست 2014ء کو لاہور سے نکلیں گے‘ لاہور کے دس لاکھ لوگ ان کے ہمراہ ہوں گے‘ یہ قافلہ مریدکے پہنچے گا اور حکومت ختم ہو جائے گی لیکن حقیقت مختلف تھی‘ حقیقت یہ تھی عمران خان کے ساتھ دس لاکھ لوگ نہیں نکلے‘ ایک لاکھ موٹر سائیکل بھی نظر نہیں آئے‘ خواب یہ تھا عمران خان اور علامہ طاہر القادری پارلیمنٹ ہاؤس‘ وزیراعظم ہاؤس اور پی ٹی وی پر یلغار کریں گے‘ آرمی چیف جنرل راحیل شریف دو کور کمانڈرز کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس جائیں گے۔
وزیراعظم سے استعفیٰ لیں گے‘ عبوری حکومت بنائیں گے‘ نئے الیکشن ہوں گے‘ عمران خان وزیراعظم بنیں گے اور علامہ طاہر القادری کو صدر بنا دیا جائے گا لیکن حقیقت مختلف تھی‘ وزیراعظم ہاؤس‘ پارلیمنٹ ہاؤس اور پی ٹی وی پر یلغار ضرورہوئی‘ ایوان صدر اور پارلیمنٹ کے گیٹ بھی ٹوٹے‘ پی ٹی وی پر قبضہ بھی ہوا لیکن آرمی چیف نے وزیراعظم سے استعفیٰ لیا اور نہ ہی حکومت گئی‘یہ درست ہے ملک میں اسٹیبلشمنٹ بہت مضبوط ہے لیکن اس بار سیاسی جماعتیں ڈٹ گئیں‘ یہ اختلافات کے باوجود پارلیمنٹ میں اکٹھی ہوئیں اور یوں دھرنا ناکام ہو گیا۔
خواب تھا علامہ طاہر القادری اور عمران خان حکومت جانے تک ریڈ زون میں قیام کریں گے لیکن علامہ طاہر القادری 21 اکتوبر 2014ء کو اسلام آباد سے رخصت ہو گئے اور عمران خان نے 17 دسمبر2014ء کو دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا‘ خواب تو یہ تھا عمران خان سول نافرمانی کا اعلان کریں گے اور ملک کے اٹھارہ کروڑ لوگ ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے‘ خواب تو یہ تھا عمران خان عوام کو پورا ملک بند کرنے کا حکم دیں گے اور خیبر سے لے کر کراچی تک پورا ملک جام ہو جائے گا‘ خواب تو یہ تھا عمران خان عوام سے اپیل کریں گے ہنڈی کے ذریعے رقم بھجوائیں اور باہر سے سرمایہ آنا بند ہو جائے گا۔
خان صاحب بجلی کے بل پھاڑیں گے اور عوام بجلی کے بل دینا بند کر دیں گے‘خان صاحب عوام کو ٹیکس نہ دینے کا حکم دیں گے اور لوگ ٹیکس دینا بند کر دیں گے‘ یہ میڈیا کے بائیکاٹ کا اعلان کریں گے اور لوگ اخبار خریدنا اور ٹیلی ویژن چینلز دیکھنا بند کر دیں گے‘ یہ گو نواز گو اور گو زرداری گو کے نعرے لگائیں گے‘ اٹھارہ کروڑ لوگ ہم آواز ہو جائیں گے اور ملک کی ساری سیاسی قیادت کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے‘ یہ اعلان کریں گے ہم حکومت چلانا مشکل بنا دیں گے اور حکومت چلانا واقعی مشکل ہو جائے گا اور یہ پارلیمنٹ کو چور اور ڈاکوؤں کا ٹھکانہ کہیں گے۔
پارلیمنٹ کو جعلی قرار دیں گے اور عوام جعلی نمایندوں‘ چوروں اور ڈاکوؤں کو گھسیٹ کر باہر نکال دیں گے لیکن حقیقت خوابوں سے مختلف نکلی‘ ملک بند ہوا‘ عوام نے ہنڈی کا حکم مانا‘ قومی بینکوں سے سرمایہ نکالا‘ ٹیکس دینے سے انکار کیا‘ بجلی کے کنکشن کٹوائے‘ اخبارات اور چینلز کا بائیکاٹ کیا‘ لمبے عرصے کے لیے گو نواز گو اور گو زرداری گو کے نعرے لگائے‘ حکومت چلنی مشکل ہوئی اور نہ عوام نے جعلی نمایندوں کو گریبانوں سے پکڑ کر باہر گھسیٹا‘ یہ سارے خواب ٹوٹ گئے‘ خواب تھا ملک بدل جائے گا‘ ملک میں سونامی آ جائے لیکن حقیقت یہ ہے عمران خان اپنا ہر وہ فیصلہ‘ اپنا ہر وہ اعلان واپس لینے پر مجبور ہوئے جو انھوں نے کنٹینر‘ ریڈ زون اور پریس کانفرنس میں کیا تھا‘ آپ اعلانات کی فہرست نکال کر دیکھ لیجیے۔
آپ کو میری بات کا یقین آ جائے گا‘ کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا ’’ میں نواز شریف کا استعفیٰ لیے بغیر واپس نہیں جاؤں گا‘‘ کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا ’’ میں بجلی کا بل جمع نہیں کراؤں گا‘‘ کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا ’’ میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا‘‘ کیا یہ اعلان نہیں ہوا ’’ میں ملٹری آپریشن کی حمایت نہیں کروں گا‘‘ کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا ’’ ہم نوے دنوں میں کرپشن ختم کریں گے اور بلدیاتی الیکشن کرائیں گے‘‘ اور کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا ’’نواز شریف کے استعفے تک مذاکرات نہیں کریں گے‘‘ لیکن ان اعلانات کا کیا نتیجہ نکلا؟ آپ کوئی ایک دعویٰ بتائیے جو پورا ہوا ہو‘ آپ کوئی ایک وعدہ بتائیے جومونڈے چڑھا ہو؟ حقیقت تو یہ ہے۔
آپ 17 دسمبرکو پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس اور 24 دسمبر کو اسلام آباد میں پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں اس میاں نواز شریف کے ساتھ بیٹھے جسے آپ صدی کا سب سے بڑا کرپٹ کہتے تھے اور آپ نے اس میاں نواز شریف کی تعریف کی جسے آپ چار ماہ برا بھلا کہتے رہے‘ حقیقت تو یہ ہے آپ نے اس پارلیمنٹ کی 21 ویں ترمیم کی بھرپور حمایت کی جسے آپ جعلی قرار دیتے تھے اور آپ نے اسی جعلی پارلیمنٹ کو 22 ویں ترمیم پاس کرنے کی ترغیب بھی دی جسے آپ اور آپ کے اتحادی گرا دینا چاہتے تھے‘ آگ لگا دینا چاہتے تھے‘ حقیقت تو یہ ہے آپ نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے لیکن آپ اسی قومی اسمبلی کے بالائی ایوان سینیٹ کا الیکشن لڑ رہے ہیں‘ آپ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں کو جعلی قرار دیتے ہیں لیکن آپ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے الیکشنوں میں اپنے امیدوار کھڑے کر رہے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے آپ اگر میاں نواز شریف‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف کی مخالفت سے نہ گھبراتے تو آپ 22 ویں ترمیم کے لیے اپنے ایم این ایز کو قومی اسمبلی میں بھجوا دیتے اور ’’اوئے نوازشریف‘‘ کے ساتھ مل کر 22 ویں ترمیم پاس کرا دیتے‘ حقیقت تو یہ ہے آپ نے سینیٹ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے یکم مارچ کو اسی آصف علی زرداری کو فون کیا جسے آپ ملک دشمن قرار دیتے تھے‘ حقیقت تو یہ ہے آپ نے سات لوگوں کو سینیٹ کے ٹکٹ دیے اور ان میں سے چار امیدوار انتہائی امیر اور با اثر ہیں‘ آپ کو پورے خیبر پختونخواہ میں کوئی ایسا امیدوار نہیں ملا جو پڑھا لکھا‘ ذہین اور ایماندار ہو مگر غریب ہو‘ آپ کو ذہانت‘ امانت اور تعلیم بھی ارب پتی لیاقت ترکئی‘ ارب پتی محسن عزیز اور بااثر چیف سیکریٹری کی بیگم میں نظر آئی۔
حقیقت تو یہ ہے آپ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی سیاسی بادشاہت کے خلاف ہیں لیکن آپ نے اپنی جماعت کے اندر خوفناک بادشاہت قائم کر رکھی ہے‘ آپ اختلاف رائے پر اپنے صدر جاوید ہاشمی تک کو فارغ کر دیتے ہیں‘ آپ پندرہ کروڑ روپے آفر کرنے والے کا نام تک نہیں بتاتے لیکن آزاد امیدوار کو سپورٹ کرنے والے جاوید نسیم کو پارٹی سے فارغ کر دیتے ہیں‘ حقیقت تو یہ ہے آپ دوسری جماعتوں کے لوگوں کو درباری اور لوٹے قرار دیتے ہیں لیکن آپ آزاد کشمیر میں الیکشن لڑنے کے لیے بیرسٹر سلطان محمود جیسے ان لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کر لیتے ہیں جو چھ مرتبہ پارٹی تبدیل کر چکے ہیں اور حقیقت تو یہ ہے آپ بہت جلد ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ملاقات کریں گے۔
مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بھی کھانا کھائیں گے اور آپ بالآخر قومی اسمبلی میں بھی چلے جائیں گے کیونکہ قومی اسمبلی ہو‘ مولانا فضل الرحمن ہوں یا ایم کیو ایم ہو یہ بہرحال سیاسی حقیقتیں ہیں اور کوئی سیاسی جماعت زیادہ دیر تک ان سیاسی حقیقتوں سے دور نہیں رہ سکتی آپ کو بالآخر ان تین حقیقتوں کو بھی اسی طرح تسلیم کرنا پڑے گا جس طرح آپ 14 اگست سے یکم مارچ تک باقی حقیقتیں مانتے آ رہے ہیں اور آخری حقیقت !اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو ملک میں صاف اور شفاف الیکشن کا سسٹم بنانے کا موقع دیا تھا‘ یہ اگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ جاتے تو ملک میں الیکشن اصلاحات بھی ہو جاتیں‘ الیکشن کمیشن بھی آزاد ہو جاتا‘ نئی ووٹر لسٹیں بن جاتیں اور ملک میں بائیو میٹرک سسٹم بھی لگ جاتا لیکن خان صاحب نے یہ موقع بھی ضایع کر دیا چنانچہ مجھے خدشہ ہے ہمارے اگلے الیکشن بھی پچھلے الیکشنوں کی طرح کمزور‘ دھاندلی زدہ اور غلط ہوں گے۔
میں تسلیم کرتا ہوں عمران خان ملک کے لیے ضروری ہیں‘ یہ نہ رہے تو ملک داعش کے قبضے میں چلا جائے گا‘ میں یہ بھی مانتا ہوں عمران خان کے مطالبات درست ہیں‘ ہمارے ملکی نظام میں واقعی خرابیاں ہیں اور ہم اگر ملک چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں یہ خرابیاں دور کرنا ہوں گی‘ میں یہ بھی مانتا ہوں حکومت میں ملکی مسائل سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں‘ حکومت آج بھی اہل لوگوں کی ٹیم بنانے کے بجائے وفاداروں کا لشکر جمع کر رہی ہے اور میں یہ بھی مانتا ہوں حکومت کو جوڈیشل کمیشن بنانا چاہیے۔
ہم جب تک ماضی کا گند صاف نہیں کریں گے‘ ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے لیکن مجھے اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کے طریقہ کار پر کل بھی اعتراض تھا‘ آج بھی اعتراض ہے اور اس دن تک اعتراض رہے گا جب تک یہ طریقہ کار نہیں بدلتے‘ یہ اپنی غلطیاں نہیں مانتے‘ یہ قومی اسمبلی میں نہیں آتے‘یہ اصلاحات نہیں کرتے‘ خان صاحب کو ایوان میں آنا چاہیے اور ایوان کے اندر سے تبدیلی لانی چاہیے‘ عمران خان کو ماننا ہو گا یہ سڑکوں کے ذریعے ملک کو تباہ تو کر سکتے ہیں لیکن تبدیل نہیں کر سکتے۔

عمران خان کی ناتجربہ کاری
جاوید چوہدری منگل 3 مارچ 2015

عربی ساربان نے پوچھا ’’تمہارے پاس کتنے اونٹ ہیں،، اجنبی نے مسکرا کر جواب دیا ’’میں سادہ سا ریاضی دان ہوں، میرا علم بتاتا ہے آپ جب تک دوسرے پلڑے میں وزن برابر نہیں کرتے آپ کا توازن مکمل نہیں ہوتا،میرے پاس کوئی اونٹ نہیں،،۔
ساربان نے برا سا منہ بنایا اور کجاوے سے وزن اتارنا شروع کر دیا، ریاضی دان نے گھبرا کر پوچھا ’’ تم یہ کیا کر رہے ہو،، ساربان نے عربی کی ایک کہاوت پڑھی، جس کا مفہوم تھا ’’ تم جب بھی مشورہ کرو، تجربہ کار سے کرو، عقل مند سے نہ کرو،، اور اس کے بعد بولا ’’ تم خواہ کتنے ہی بڑے ریاضی دان کیوں نہ ہو جاؤ، تمہارا اونٹوں کے بارے میں تجربہ صفر ہے اور میں ناتجربہ کار کے ہاتھوں برباد نہیں ہونا چاہتا،، ریاضی دان اپنا سا منہ لے کر رہ گیا، یہ کیا تھا؟ یہ عربوں کی ایک چھوٹی سی داستان تھی،داستان کے مطابق عرب ساربان اونٹ پر وزن لاد رہا تھا۔
اس نے سارا وزن کجاوے کی ایک سائیڈ پر لاد دیا، اونٹ کو اٹھایا تو اونٹ نے اٹھنے سے انکار کر دیا، ریاضی دان یہ منظر دیکھ رہا تھا، ریاضی دان نے ساربان کو مشورہ دیا ’’تم کجاوے سے آدھا وزن نکال کر دوسرے حصے میں ڈال دو، کجاوے میں توازن قائم ہو جائے گا اور اونٹ آسانی سے کھڑا ہو جائے گا،،۔
ساربان نے بات مان لی، ایک سائیڈ سے آدھا وزن اتار کر دوسری سائیڈ میں ڈال دیا ، توازن قائم ہو گیا، اونٹ کھڑا ہو گیا، ساربان نے خوش ہو کر ریاضی دان سے پوچھا ’’ تمہارے پاس کتنے اونٹ ہیں،، ریاضی دان نے جواب دیا ’’میں سادہ سا ریاضی دان ہوں، میرے پاس کوئی اونٹ نہیں،، ساربان نے غصے سے ماتھے پر ہاتھ مارا، اونٹ نیچے بٹھایا، وزن اتار کر دوبارہ پہلے کجاوے میں ڈال دیا اور بولا ’’ میں ناتجربہ کار کے ہاتھوں برباد نہیں ہوناچاہتا،، آپ کو یہ عرب یقینا بے وقوف محسوس ہو گا لیکن عرب لوگ ہزاروں برس سے تجربے کو عقل پر فوقیت دیتے آ رہے ہیں، یہ جب بھی مشورہ کرتے ہیں، یہ عقل مند کے بجائے تجربہ کار سے کرتے ہیں۔
یہ طریقہ کار عربوں کے جینز کا حصہ بن چکا ہے۔ تجربہ دنیا کی اتنی بڑی حقیقت ہوتا ہے، آپ کتنے ہی عقل مند کیوں نہ ہو جائیں، آپ بہر حال تجربہ کار لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ کسی دن دنیا کے کامیاب لوگوں پر تحقیق کریں، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے یہ لوگ ہمیشہ تجربہ کار لوگوں کو اپنا مشیر بناتے ہیں، آپ دنیا کے کامیاب حکمرانوں کے پروفائل بھی نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو ان کے گرد بھی سفید بالوں والے تجربہ کار لوگ نظر آئیں گے اور آپ دنیا کے بڑے دانشوروں، سائنس دانوں، پروفیسروں اور فلاسفروں کے پروفائل بھی نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو ان کی کنپٹیاں بھی سفید دکھائی دیں گی۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے ، آپ کو انبیاء کی اس فہرست میں بھی بہت کم جوان نبی نظر آئیں گے، آپ نوے فیصد انبیاء پر اس وقت وحی اترتے دیکھیں گے جب وہ تین چوتھائی زندگی گزار چکے تھے اور ان کی کنپٹیاں اور داڑھیاں سفید ہو چکی تھیں، ایسا کیوں ہے؟ یہ اللہ کی طرف سے تجربے کا اعتراف ہے، قدرت بھی وحی نازل کرنے سے قبل نبی کے تجربہ کار ہونے کا انتظار کرتی تھی، تجربہ انسان کو پختہ بناتا ہے۔
یہ انسان کے اعتماد میں بھی اضافہ کرتا ہے اور یہ اس کی عقل کو بھی سلیم کرتا ہے، آپ کو زندگی میں زیادہ تر عقل مند لوگ غلطیاں کرتے دکھائی دیں گے جب کہ آپ تجربہ کار لوگوں کو ہمیشہ اطمینان سے بیٹھا دیکھیں گے، یہ آپ کو چھلانگیں لگاتے نظر نہیں آئیں گے، کیوں؟ کیونکہ تجربہ انسان کے اندر استحکام پیدا کرتا ہے!
عمران خان اور میاں نواز شریف میں بھی تجربے کا فرق ہے، عمران خان عقل، مقبولیت، اعتماد اور ایکسپوژر میں میاں نواز شریف سے بہت آگے ہیں، یہ 35 برس سے لائم لائیٹ میں ہیں، دنیا کا کوئی بڑا ٹیلی ویژن، اخبار اور میگزین نہیں جس نے عمران خان کا انٹرویو نہ کیا ہو، دنیا کا کوئی بڑا لیڈر اور بڑا فورم نہیں جہاں عمران خان نہیں پہنچے، عمران خان کا نام 31برس سے پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ہے۔
یہ عقل مند بھی ہیں، یہ مقبول بھی ہیں اور یہ آکسفورڈین لہجے میں انگریزی بھی بولتے ہیں جب کہ میاں نواز شریف ان کے مقابلے میں عام سے انسان ہیں، یہ انگریزی نہیں جانتے، یہ شرمیلے بھی ہیں، یہ عوام میں بھی زیادہ پاپولر نہیں ہیں اور یہ چاکلیٹی شخصیت بھی نہیں رکھتے لیکن ان تمام کمیوں کے باوجود میاں نواز شریف کامیاب اور عمران خان ناکام ہوئے، کیوں؟ کیونکہ نواز شریف عمران خان کے مقابلے میں زیادہ تجربہ کار ہیں، یہ 1984ء سے جوڑ توڑ کی سیاست کا حصہ ہیں یہ،سیاسی تجربہ میاں نواز شریف کی سیاست کا اصل جوہر ہے اور عمران خان اس جوہر سے خالی ہیں۔
عمران خان نے 2014ء میں ملکی تاریخ کی سب سے بڑی تحریک چلائی، یہ تحریک مکمل طورپر ناکام رہی ، کیوں؟ عمران خان کی ناتجربہ کاری اس ناکامی کی وجہ تھی ! میاں نواز شریف اگست 2014ء میں پہاڑ کے آخری سرے پر کھڑے تھے لیکن یہ گرنے سے صاف بچ گئے ، کیوں؟ صرف اپنے سیاسی تجربے کی وجہ سے ! آپ ماضی میں جا کر دیکھیں، آپ کو معلوم ہو گا عمران خان نے سیاسی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اگست میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے خلاف کر لیا تھا، خان صاحب سیاست کا بنیادی نقطہ بھول گئے تھے کہ آپ جب تک دشمن کے دشمن کو اپنا دوست نہیں بناتے، آپ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتے،آصف علی زرداری ،مولانا فضل الرحمان،اسفند یار ولی اور الطاف حسین میاں نوازکے سیاسی مخالف تھے۔
عمران خان اگر ان میں سے کسی ایک بڑے حریف کو اپنے ساتھ ملالیتے تو میاں نواز شریف کی حکومت فارغ ہوجاتی مگر عمران خان نے اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ان تمام طاقتوں کو دھکیل کر میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑا کر دیا، میاں نواز شریف تجربہ کار تھے،انھوںنے بقائے باہمی کے تحت تمام سیاسی مخالفین کو اپنے ساتھ شامل کر لیا، یہ سب اکٹھے ہوئے اور یہ لوگ جیت گئے اور عمران خان ہار گئے۔
آپ میاں نواز شریف کی تجربہ کاری کا ایک اور ثبوت بھی ملاحظہ کیجیے ،میاں نواز شریف 16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد خود پشاور چلے گئے جب کہ عمران خان کو آرمی قیادت کے حکم پر پشاور جانا اور دھرنے کے خاتمے کا اعلان کرنا پڑا، عمران خان شاہ محمود قریشی کو پشاور بھجوانا چاہتے تھے لیکن پھر انھیں ایک سخت فون آیا اور یہ نہ صرف بقلم خود پشاور جانے پر مجبور ہوئے بلکہ انھوں نے اسی میاں نواز شریف کی اے پی سی میں بھی شرکت کی جسے یہ اوئے نوازشریف کہتے تھے، خان صاحب کو اس پارلیمنٹ کی21ویں ترمیم کی حمایت بھی کرنا پڑ گئی جسے یہ جعلی پارلیمنٹ کہتے تھے۔
عمران خان کو اگر ذرا سا سیاسی تجربہ ہوتا تو یہ 21ویں ترمیم پر ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت قومی اسمبلی چلے جاتے لیکن یہ اپنی غلطی پر ڈٹے رہے اور یوں یہ پیاز اور جوتے دونوں کھاتے رہے، عمران خان کو اگر ذرا سا سیاسی تجربہ ہوتا تو یہ سینیٹ کے الیکشن کو ذہن میں رکھ کر بھی 21ویں ترمیم کی منظوری کے دن قومی اسمبلی چلے جاتے تو ان کی عزت رہ جاتی اور یہ اگر اس دن نہیں گئے تو پھر انھیں سینیٹ کے الیکشن میں امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ عمران خان نے جس دن سینیٹ کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا پاکستان مسلم لیگ ن کے وزراء نے اس دن ایک دوسرے کو مبارک باد دی، کیوں؟ کیونکہ سینیٹ میںاپنے امیدوار کھڑا کرنے کا مطلب تھا ۔
عمران خان نے اس پارلیمنٹ کے وجود کو بھی تسلیم کر لیا جسے یہ جعلی کہتے تھے اورانھوں نے ان تمام لیڈرز کو بھی مان لیا جنھیں یہ جعلی ،لٹیرے اور ڈاکو کہتے تھے، میاں نواز شریف اس دن سمجھ گئے عمران خان اب خود کو پارلیمنٹ سے باہر نہیں رکھ سکیں گے ، آپ عمران کی ناتجربہ کاری ملاحظہ کیجیے ، عمران خان نے دو فروری کو سینیٹ کے الیکشن اوپن بیلٹنگ سے کرانے کا مطالبہ کر دیا، یہ سیدھا سادا کیچ تھا ، میاں نواز شریف نے یہ کیچ فوراً پکڑ لیا، ہم عمران خان کے مطالبے کو کیچ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اس کی دو وجوہات ہیں،ایک، میاں نواز شریف جانتے تھے حکومت اگر 22ویں ترمیم تیار کرتی ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی ،جے یو آئی ف اور اے این پی اس ترمیم کی حمایت نہیں کریں گی،کیوں؟ کیونکہ آصف علی زرداری رحمان ملک کو سینیٹ کا چیئرمین بنانا چاہتے ہیں ۔
زرداری صاحب کو رحمان ملک کے لیے ووٹ چاہئیں، یہ ووٹ جے یو آئی اور اے این پی دے گی اور اے این پی اور جے یو آئی ف کو رحمن ملک کے لیے سینیٹ میں نئے سینیٹر چاہئیں، یہ سینیٹر کہاں سے آئیں گے؟ یہ سینیٹر سرمائے سے آئیں گے، رئیس اور امیر امیدوار ایم پی ایز کے ووٹ خریدیں گے، یہ رئیس امیدوار سینیٹر بنیں گے اور یہ سینیٹر بعد ازاں رحمان ملک کو ووٹ دے کر چیئرمین بنائیں گے، اب سوال یہ ہے یہ سینیٹر کس پارٹی کے ایم پی اے خریدیں گے، یہ لوگ پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے ایم پی ایز کو خریدیں گے چنانچہ ہارس ٹریڈنگ سے پی ٹی آئی اورپاکستان مسلم لیگ ن دونوں براہ راست متاثر ہوتی ہیں، پی ٹی آئی کو ہارس ٹریڈنگ سے زیادہ خطرہ ہو گا، کیوں؟ کیونکہ اس کے ایم پی اے زیادہ کمزور اور نالاں ہیں، دوسری وجہ عمران خان کے امیدوار تھے، میاں نواز شریف جانتے تھے۔
عمران خان کے ایک امیدوار نے ٹکٹ کے وعدے پر شوکت خانم کینسراسپتال کو 60کروڑ روپے ڈونیشن دیا، عمران خان ہر حال میں اس امیدوار کو جتوانا چاہتے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے ایم پی ایز اس امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں،اب صورتحال یہ ہے، عمران خان اپنے اس امیدوار اور ان دوسرے امیدواروں جن میں چیف سیکریٹری کی اہلیہ سبینہ عابد شامل ہیں یہ انھیں اس وقت تک نہیں جتوا سکتے جب تک یہ 22 ویں ترمیم نہیں کروا لیتے، آئین میں جب تک سینیٹ کے الیکشن کے لیے اوپن بیلٹنگ نہیں ہوتی اور سیاسی لیڈر شپ کو ’’ غلط‘‘ ووٹ پول کرنے والوں کو اسمبلی سے فارغ کرنے کا اختیار نہیں مل جاتا ،آپ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے، پاکستان پیپلز پارٹی ،جے یو آئی ف اور اے این پی نے 22ویں ترمیم کی مخالفت کردی۔
عمران خان یہ ترمیم کرانا چاہتے ہیں ، حکومت عمران خان کا مطالبہ مان کر ترمیم کا مسودہ تیار کر چکی ہے لہٰذا عمران خان کے پاس اب صرف دو آپشن بچے ہیں، یہ اپنے سینیٹرز کی قربانی دے دیں، یہ60 کروڑ کے سینیٹر کو ہارنے دیں، یا پھر یہ اپنے 35ایم این ایز کو ’’جعلی‘‘ قومی اسمبلی میں بھجوا کر میاں نواز شریف کی تیار کردہ 22ویںترمیم کے حق میں ووٹ دے دیں اور اگر عمران خان قومی اسمبلی میں چلے جاتے ہیں تو یہ ان کی آخری ہارہو گی، یہ اس کے بعد سیاسی لیڈر تو رہ جائیں گے لیکن پھر ان میں اور زرداری صاحب اور نواز شریف میں کوئی فرق نہیں رہے گا، انقلاب ختم ہو جائے گا اور خان پیچھے رہ جائے گا۔
’’میں مائیک ٹائی سن تو نہیں بن رہا‘‘
جاوید چوہدری اتوار 1 مارچ 2015

مائیک ٹائی سن تازہ ترین مثال ہے، یہ زندگی کے پہلے حصے میں عروج پر پہنچا، دوسرے حصے کے آخر میں دیوالیہ ہوا اور یہ اب تیسرے اور چوتھے حصے میں عبرت ناک زندگی گزارے گا، یہ فٹ پاتھوں پر ایڑھیاں رگڑے گا، شراب اور کوکین کے نشے میں پارکوں میں راتیں گزارے گا اور چوری اور دنگوں کے الزام میں بار بار جیل جائے گا، یہ ہو گا مستقبل کا مائیک ٹائی سن! لیکن ٹھہریئے میں پہلے آپ کو مائیک ٹائی سن اور اس کی وہ غلطیاں بتاتا چلوں جن کی بدولت یہ اس انجام تک پہنچا۔
مائیک ٹائی سن کی کہانی فلمی ہے، یہ نیویارک کے علاقے بروک لین میں پیدا ہوا، باپ پرسل ٹائی سن بے حس انسان تھا، وہ مائیک ٹائی سن، اس کے بھائی اور اس کی بہن کو چھوڑ کر چلا گیا، ماں کرک پیٹرک کو گھر لے آئی، یہ باپ بن کر گھر رہتا رہا، نیا باپ بھی پرانے باپ کی طرح گھر سے بھاگ گیا، مائیک کا بچپن غربت ،لڑائی جھگڑوں ،چوری چکاری،چھینا جھپٹی ،دنگا فساد اور منشیات فروشی میں گزرا، وہ تیرہ سال کی عمر تک 38بار پکڑا گیا،تھانے اور جیل گیا، وہ سولہ سال کا تھا ،ماں کا انتقال ہو گیا۔
دنیا میں اب بس اس کا بھائی تھا، بہن تھی اور ان دونوں کی ذمے داریاں تھیں، وہ جیل جاتا رہا، باہر آتا رہا، مائیک ٹائی سن کو آنے جانے کے اس عمل کے دوران بوبی سلیوٹ (Boby Slewat) مل گیا، بوبی جیل کونسلر تھا ، وہ قیدی بچوں کی نفسیات پر کام کرتا تھا، بوبی نے مائیک ٹائی سن کا ٹیلنٹ بھانپ لیا، وہ اسے قید خانے سے سیدھا رنگ میں لے گیا، مائیک ٹائی سن نے باکسنگ کے گلوز پہنے اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، قدرت نے اس کے مکے میں چٹانی طاقت رکھی تھی، دنیا میں باکسنگ کے تین بڑے ٹائٹل ہیں، ورلڈ باکسنگ کونسل (WBC)، ورلڈ باکسنگ ایسوسی ایشن (W.B.A)اور انٹرنیشنل باکسنگ فیڈریشن (I.B.F)،مائیک ٹائی سن دنیا کا واحد باکسر تھا جس نے یہ تینوں ٹائٹل 20سال 4ماہ اور22دن کی عمر میں حاصل کر لیے۔ یہ ورلڈ ریکارڈ تھا اور یہ آج تک قائم ہے۔
مائیک ٹائی سن باکسنگ کے 58مقابلوں میں شریک ہوا، اس نے 50مقابلے جیتے ،وہ صرف 6مقابلے ہارا، دو مقابلے کالعدم ہوئے اور اس نے 44مقابلوں میں حریف کو ناک آؤٹ کیا، ٹائی سن اتنا شاندار باکسر تھا کہ اس نے شروع کے19 مقابلے ناک آؤٹ سے جیتے ،مائیک نے ان19میں سے 12مقابلوں میں مخالف کو پہلے راؤنڈ میں ناک آؤٹ کر دیا۔ اس نے 1988ء میں 22سال کی عمر میں مائیکل سپنکس کو دو سیکنڈ میں ناک آؤٹ کر کے لائیسنل چیمپئن کا اعزاز حاصل کر لیا اور اس نے 9بار ورلڈ ہیوی ویٹ ٹائٹل کا دفاع بھی کیا۔
مائیک ٹائی سن کوقدرت نے ہر لحاظ سے نواز رکھا تھا، شہرت ،عزت اور دولت اس پر چاروں طرف سے برس رہی تھی لیکن پھر وہ ہوا جو عموماً دولت ، عزت اور شہرت پانے والوں کے ساتھ ہوتا ہے،اس نے دولت، عزت اور شہرت کو ٹھڈے مارنا شروع کر دیے یہاں تک کہ وہ اس انجام تک پہنچ گیا، ٹائی سن پر پہلا الزام 19جولائی 1991ء کو لگا ، اس نے انڈیانا میں نشے میں دھت ہو کر 18سال کی ایک لڑکی ڈسیری واشنگٹن کی عزت لوٹ لی ،وہ گرفتار ہوا، اور اسے چھ سال سزا ہو گئی ،وہ 26مارچ 1995ء کو رہا ہوا۔
دوبارہ باکسنگ کی فیلڈ میں آیا اور کامیابی کے جھنڈے گاڑ نے لگا لیکن کامیابی کے یہ جھنڈے عارضی ثابت ہوئے، وہ شراب، کوکین اور چرس کاعادی ہو گیا، اللہ نے اسے دولت سے بھی نواز رکھا تھا ، مائیک ٹائی سن نے 20سال کے کیریئر میں400ملین ڈالر کمائے، اس نے 2000ء میں ایک سال میں66ملین ڈالر کمائے، یہ رقم پاکستان روپوں میں پونے سات ارب بنتی ہے لیکن ٹائی سن عزت کی طرح دولت کو بھی نہ سنبھال سکا، وہ دونوں ہاتھوں سے دولت لٹانے لگا، ساؤتھنگٹن میں محل بنا لیا، ذاتی ملازمین کی تعداد 200تک پہنچ گئی، یہ لوگ باڈی گارڈ، شوفر، شیف اور مالی تھے۔
مائیک نے 45لاکھ ڈالر کی گاڑیاں اور موٹر سائیکل خریدلیے،34لاکھ ڈالر کے کپڑے اور زیور خریدے ،78لاکھ ڈالر ہوٹلوں،ریستورانوں، شرب خانوں اور جواء خانوں میں اڑا دیے، بیوی کو 20لاکھ ڈالر کا باتھ ٹب لگوا دیا، 10لاکھ ڈالر سالگرہ پارٹی پر خرچ کر دیے،موبائل فون کا بل 2لاکھ31ہزار ڈالر بن گیااور ڈیڑھ لاکھ ڈالر کے دو بنگالی چیتے خریدے اور چیتوں کے ٹرینرز کو ایک لاکھ 25ہزار ڈالر دیے، فضول خرچی نے رنگ دکھایا اور وہ 2004ء میں 39برس کی عمر میں 38ملین ڈالر کا مقروض ہو گیا، وہ دیوالیہ ہو گیا، وہ دولت سے فارغ ہوا تو وہ شہرت کو ٹھڈے مارنے لگا۔
وہ2006ء میں کوکین کے جرم میں گرفتار ہوا، 24 گھنٹے جیل میں رہا، 2009ء میں لاس اینجلس ائیر پورٹ پر فوٹو گرافرز سے لڑ پڑا، میڈیا سکینڈل بن گیا، شادیاں کیں، ناکام ہوئیں،گرل فرینڈز بنائیں، وہ لوٹ کر چلی گئیں، دوست ناراض ہو گئے، رشتے دار روتے روتے زندگی سے نکل گئے، یہاں تک کہ مائیک ٹائی سن آج کے حالات تک پہنچ گیا، یہ آج کل دنیا میں عبرت کا نشان بن کر پھر رہا ہے، یہ بے گھر ہے، یہ کبھی اس فٹ پاتھ پر گرتا ہے اور کبھی اس سڑک پر جا لیٹتا ہے، لوگ آج اسے ادھار تک دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، یہ مانگ کر کھانا کھاتا ہے، نشے کا عادی ہے، نشے کے لیے ہاتھ تک پھیلا لیتا ہے۔
یہ کیمروں سے چھپتا رہتا ہے اور اگر کوئی ٹیلی ویژن چینل اسے تلاش کر لے تو یہ ناظرین کو اپنی عروج و زوال کی کہانی سنانے لگتا ہے، وہ مائیک ٹائی سن جو دس سال پہلے تک دنیا کا ہیرو تھا، لوگ جس سے ہاتھ ملانا، جس کے ساتھ تصویر کھینچوانا اعزاز سمجھتے تھے، وہ ٹائی سن آج دنیا بھر کی بے چارگی کا ہدف ہے، لوگ ٹائی سن کو دیکھتے ہیں، کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور آگے چل پڑتے ہیں، ٹائی سن کی عمر اس وقت 49 سال ہے، یہ نو سال سے زوال کا شکار ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے چار موسم بنائے ہیں، بہار، گرمی، خزاں اور سردی۔ بہار میں کائنات کھل اٹھتی ہے، نئی کو نپلیں پھوٹتی ہیں، پھول نکلتے ہیں اور پھل لگتے ہیں، گرمی آتی ہے تو فصلیں پکتی ہیں، پھلوں میں رس پڑتا ہے، فصلیں کٹنے کے لیے تیار ہوتی ہیں اور درختوں کے پتے ہوا اور سایہ دیتے ہیں، خزاں کے موسم میں ہر چیز مرجھا جاتی ہے، گھاس سوکھ جاتی ہے، پتے گر جاتے ہیں، شاخیں جھک جاتی ہیں، پھول غائب ہو جاتے ہیں، پانی کم ہو جاتا ہے اور چوتھا موسم سردی کا ہوتا ہے، سردی کے موسم میں پالے پڑتے ہیں، کہرازمین کو ڈھانپ لیتا ہے اور برفیں زندگی کو منجمد کر دیتی ہیں۔
ہم انسان ہزاروں سال سے بہار اور گرمی میں کاشت کرتے، گرمی اور خزاں میں کاٹتے اور جمع کرتے اور سردی کے موسم میں گھر بیٹھ کر کھاتے اور آرام کرتے آ رہے ہیں، یہ لاکھوں، کروڑوں اور اربوں سال سے زندگی کا وطیرہ ہے، ہماری سماجی زندگی بھی ان چار موسموں میں تقسیم ہے، ہماری زندگی میں بہار آتی ہے یعنی ہم پیدا ہوتے ہیں، پرورش پاتے ہیں اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں، ہماری زندگی میں پھر گرمی کا موسم آتا ہے، ہم کاشت ہوتے ہیں، ہم پکتے ہیں، ہم پھل بنتے ہیں، ہم میں رس پڑتا ہے، ہم میں حدت، گرمی اور چمک پیدا ہوتی ہے، پھر ہماری زندگی میں خزاں آ جاتی ہے۔
ہمارے جسم کی توانائی، ہمارے بدن کی خوبصورتی اور ہمارے جسم کے کارآمد اعضاء ایک ایک کر کے جھڑنے لگتے ہیں، سر بالوں سے ننگا ہونے لگتا ہے، جبڑے سے دانت اکھڑنے لگتے ہیں، یادداشت کی چولیں نکل جاتی ہیں، گھٹنوں، پیروں، پنجوں، انگلیوں، کندھوں اور کولہوں میں درد شروع ہو جاتا ہے، کمر کی ہڈی بوجھ نہیں اٹھاتی، گردن ہلنے لگتی ہے، معدے کی کارکردگی 20 فیصد رہ جاتی ہے، دل کمزور ہو جاتا ہے، مثانے کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے، جگر اور گردے اجنبی ہونے لگتے ہیں اور ہماری بینائی اور قوت سماعت یہ دونوں بھی دھوکادینے لگتی ہیں اور پھر آخری موسم آجاتا ہے۔
ہمارے اردگرد موجود زندگی منجمد ہو جاتی ہے، ہمارے تعلقات، ہمارے رشتے، ہمارے پیشے، ہماری فلاسفی، ہماری پسند نا پسنداور ہمارے تمام اعزازات منجمد ہو جاتے ہیں، یہ ہماری زندگی کا آخری موسم ہو تا ہے، یہ موسم جب ٹوٹتا ہے اور ہماری کھڑکیوں پر چڑیاں بولتی ہیں اور ہمارے لان میں کونپلیں پھوٹتی ہیں تو ہم وہاں نہیں ہوتے، نئی بہار اپنے ساتھ نئے لوگ لے کر طلوع ہوتی ہے، ہم قبر بن جاتے ہیں اور ہماری قبر کے گرد زندگی کا نیا سائیکل شروع ہو جاتا ہے اور پھر یہ قبریں بھی کتنی دیر قائم رہتی ہیں؟ صرف دو نسلوں تک !دنیا میں صرف نصف فیصد لوگ اپنے پر دادا کی قبر جانتے ہیں۔
باقی ننانوے اعشاریہ 50 فیصد لوگ باپ اور دادا کے بعد اپنے تمام بزرگوں کے نام اور قبریں بھول جاتے ہیں، قبریں مردے کھاتی ہیں، زمینیں قبروں کو کھا جاتی ہیں اور زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیاں، سیلاب اور نئی سڑکیں نگل جاتی ہیں اور بس یہ ہے زندگی، یہ ہے لائف !ہمیں جان لینا چاہیے۔ ہماری زندگی کے دو موسم بہت سخت ہوتے ہیں، خزاں اور سردی کا موسم۔ یہ موسم ہر کامیاب شخص کے لیے اذیت ناک ہوتے ہیں، یہ دونوں موسم شہریت، عزت، ناموری اور دولت کے پتے جھاڑ دیتے ہیں اور انسان بے بس اور اکیلا رہ جاتا ہے، سوال یہ ہے ہم ان دو موسموں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں، ہم ان دو موسموں کا مقابلہ اپنی جمع پونجی سے کر سکتے ہیں، ہمیں اللہ تعالیٰ بہار اور گرمی میں جو عنایت کرتا ہے، ہمیں اس کا 25 فیصد محفوظ رکھنا چاہیے۔
آپ ہر صورت اپنی شہرت، اپنی عزت، اپنی دولت ، اپنے تعلقات ، اپنے رشتوں، اپنی صحت اور اپنی نیک نامی کا 25 فیصد حصہ بچا کر رکھیں، آپ اس 25 فیصد کی سرمایہ کاری بھی کریں، آپ اپنی شہرت، عزت اور نیک نامی کا 25 فیصد حصہ ویلفیئر کے ایسے منصوبوں میں لگائیں جو کم از کم 50 سال چلتے رہیں۔
یہ منصوبے بڑھاپے میں بھی آپ کو نیک نام، با عزت اور مشہور رکھیں گے، آپ اپنے 25 فیصد تعلقات اور رشتوں کو آخری سانس تک نبھانے کا فیصلہ کر لیں، یہ 25 فیصد تعلقات اور رشتے آپ کو آخر تک اکیلا نہیں ہونے دیں گے آپ بہار اور گرمی کے موسم میں ایکسرسائز کی عادت ڈالیں، یہ عادت آپ کو بڑھاپے میں بستر پر نہیں گرنے دے گی اور آپ اپنی کمائی کا 25 فیصد حصہ بھی بچا کر رکھیں، یہ 25 فیصد آپ کو آخری عمر میں محتاجی سے بچائے گا۔
یہ وہ فارمولا تھا جس سے مائیک ٹائی سن واقف نہیں تھا چنانچہ دنیا کے کامیاب ترین اور مقبول ترین باکسر نے اپنی ساری موم بیتاں 40 سال کی عمر تک جلا دیں اور یہ آج عبرت کا نشان بن کر امریکا میں ذلیل ہو رہا ہے، آپ انٹرنیٹ سے مائیک ٹائی سن کی تازہ ترین ویڈیو ڈاؤن لوڈ کریں،یہ ویڈیو اپنے موبائل میں سیو کریں اور یہ روز دیکھیں اور اپنے آپ سے روز یہ سوال کریں’’ میں مائیک ٹائی سن تو نہیں بن رہا‘‘۔مجھے یقین ہے یہ سوال آپ کو ٹائی سن بننے سے بچائے گا۔

روٹ بہرحال بنے گا
جاوید چوہدری جمعـء 27 فروری 2015

یہ آخری موقع ہے، ہم نے اگر یہ موقع بھی کھو دیا تو ہم بحیثیت ریاست ماضی کا قصہ بن جائیں گے، قدرت نے ہمیں آخری موقع سے قبل تین مواقع دیے تھے مگر ہم نے قدرت کی مہربانی سے فائدہ نہیں اٹھایا،وہ مواقع کیا تھے، ہم آخری موقع کی طرف جانے سے قبل ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
ہمیں پہلا موقع صدر ایوب خان کے دور میں ملا، ایوب خان کے دور میں سوویت یونین اور امریکا دو سپر پاور تھیں اور برصغیر اس وقت دونوں سپر پاورز کا میدان جنگ تھا، خطے میں تین بڑی طاقتیں تھیں، چین، بھارت اور پاکستان۔ بھارت سوویت یونین کا اتحادی بن گیا، چین سوشلسٹ ملک تھا، یہ نظریاتی لحاظ سے روس کے قریب اور امریکا سے دور تھا، پاکستان غیر جانبدار تھا چنانچہ امریکا کے پاس پاکستان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا، امریکا نے پاکستان کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔
ایوب خان نے یہ ہاتھ تھام لیا، ہم پر ترقی کے دروازے کھل گئے، پاکستان ساٹھ کی دہائی میں ایشیا میں ترقی کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا، ہمارے ملک میں ڈیم بنے، سڑکیں، پل اور نہریں بنیں، ہم نے ایشیا میں بجلی سے چلنے والی پہلی ٹرین چلائی، کراچی میں زیر زمین میٹرو کے لیے کھدائی ہوئی، پاکستان خطے میں فیملی پلاننگ شروع کرنے والا پہلا ملک تھا، ملک میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنیں، صنعتی یونٹس لگے، ٹیلی ویژن شروع ہوا۔
پی آئی اے ایشیا کی سب سے بڑی ائیر لائین بنی، ہم نے نئے بینک بھی بنائے، اسلام آباد کے نام سے ایشیا کا جدید ترین شہر بھی آباد کیا اور ہماری مرچنٹ نیوی دنیا کی تمام بڑی بندرگاہوں پر بھی دستک دینے لگی، ترقی کا یہ سفر جاری رہتا تو پاکستان 1980ء تک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتا لیکن پھر ہم نے ترقی کا میدان چھوڑ کر سیاست کی غلیظ نالی میں چھلانگ لگا دی، ہمارا ملک بھی ٹوٹ گیا، ہم دنیا بھر کی نظر میں بھی مشکوک ہو گئے اور ہماری ترقی کو ریورس گیئر بھی لگ گیا، بھٹو صاحب نے ایوب خان سے بدلہ لینے کے لیے پوری قومی پالیسی بدل دی، ہم امریکا سے روس چلے گئے۔
ملک میں اسلامی سوشلزم آیا اور پرائیویٹ ادارے قومیا لیے گئے، ہماری پالیسی کی اس شفٹ نے امریکا اور یورپی اتحادیوں کو پریشان کر دیا اور یہ پاکستان کا متبادل تلاش کرنے لگے، امریکا نے ہم سے مایوس ہو کر اپنے دروازے متحدہ عرب امارات اور ایران پر کھول دیے، امریکا نے انڈیا کے ساتھ بھی اپنے تعلقات ٹھیک کر لیے اور یہ چین کے ساتھ بھی فاصلے کم کرنے لگا۔
ہم 1970ء تک خطے میں امریکا کے واحد اتحادی تھے لیکن 1972ء کے بعد متحدہ عرب امارات، بھارت اور چین بھی امریکا کی میز پر آگئے اور ایران بھی امریکا کا ’’بڈی،، بن گیا جب کہ ہم باہر دہلیز کی طرف دھکیلے جانے لگے یوں ہم نے 1960ء اور 1970ء کی دہائی کا پہلا موقع ضایع کر دیا۔
ہمیں دوسرا موقع افغان روس جنگ کی صورت میں ملا، امریکا کے پاس 1980ء میں پاکستان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا، چین اور بھارت روس کے اتحادی تھے، ایران میں انقلاب آ چکا تھا اور سعودی عرب اور یو اے ای کے پاس فوج نہیں تھی چنانچہ ہم واحد ملک تھے جو اس نازک گھڑی میں امریکا کی مدد کر سکتے تھے لہٰذا ہم 1980ء میں اپنے سارے قرضے بھی معاف کرا سکتے تھے۔
پاکستان کو سنگا پور، تائیوان اور کوریا کی طرح سرمایہ کار ملک بھی بنا سکتے تھے اور امریکا سے ملک بھر میں جدید انفرا سٹرکچر بھی بچھوا سکتے تھے لیکن ہم نے جنرل ضیاء الحق کو یونیفارم میں صدر قبول کرانے کے سوا کچھ نہ کیا، ہم نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ملک کو بارود، افغان مہاجرین، بم دھماکوں، ہیروئن اور قرضوں کی دلدل بنا دیا،ہمارے معاشرے کی جڑیں تک کھوکھلی ہو گئیں، ہم نے دوسرا موقع بھی کھو دیا۔
ہمیں تیسرا موقع نائین الیون کے بعد ملا تھا، امریکا ہر حال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا چاہتا تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روس، چین، بھارت، ترکی، سعودی عرب اور یو اے ای ہمارے خطے کے تمام ممالک امریکا کے ساتھی تھے، ایران بھی طالبان حکومت کے خلاف تھا چنانچہ یہ بھی امریکا کے خلاف ہونے کے باوجود طالبان کے معاملے میں امریکا کے ساتھ تھا لیکن ان تمام اتحادیوں کے باوجود امریکا پاکستان کے بغیر یہ جنگ نہیں لڑ سکتا تھا، ہم اگر اس وقت عقل سے کام لیتے تو ہم اپنے ملک کا مقدر بدل سکتے تھے۔
ہم قرضے معاف کراتے، ملک میں صنعتی یونٹس لگواتے، پاکستان کو عالمی منڈی بناتے اور غربت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باہر آ جاتے لیکن افسوس اس بار جنرل پرویز مشرف نے خود کو یونیفارم میں صدر منوا کر تیسرا موقع بھی ضایع کر دیا، ہم امریکا اور طالبان دونوں کو خوش رکھنے کے چکر میں تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے، آج افغانستان میں امن ہو رہا ہے اور پاکستان عالمی دہشت گردوں کا میدان جنگ بن گیا ہے، ہم بارہ سال سے مر رہے ہیں لیکن امریکا سے فائدہ چین، بھارت، سعودی عرب، یو اے ای اور سینٹرل ایشیا کے ممالک اٹھا رہے ہیں۔
دنیا میں 60ء اور 70ء کی دہائیاں صنعتی انقلاب کا دور تھا، ہم نے وہ دور ضایع کر دیا، 1980ء کی دہائی سرمایہ کاری کا دور تھا، ہم نے وہ بھی ضایع کر دیا اور 2000ء سے 2010ء تک سروسز کے شعبے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور تھا، ہم نے یہ تینوں مواقع، یہ تینوں دور ضایع کر دیے، ہمارے پاس اب چوتھا اور آخری موقع بچا ہے، ہم نے اگر یہ بھی ضایع کر دیا تو ہم واقعی تاریخ کی اندھی گلیوں میں گم ہو جائیں گے، یہ آخری موقع کیا ہے؟ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو پاکستان کی تازہ جغرافیائی پوزیشن سمجھانا چاہتا ہوں۔
پاکستان اس وقت تین اہم معاشی طاقتوں کے درمیان موجود ہے، ہمارے ایک طرف قدرتی وسائل سے مالامال سینٹرل ایشیا ہے، یہ خطہ تیل، گیس، معدنیات، پانی اور بجلی سے مالا مال ہے، سینٹرل ایشیا کے ممالک اپنے قدرتی وسائل فروخت کرنا چاہتے ہیں، یورپ 1980ء سے خام مال کے بجائے تیار شدہ مصنوعات خرید رہا ہے۔
یہ تیل، گیس، بجلی اور معدنیات کا خریدار نہیں رہا، دنیا میں اس وقت قدرتی وسائل کے تین بڑے خریدار ہیں، چین، امریکا اور بھارت۔ پاکستان چین ، بھارت اور سینٹرل ایشیا کے درمیان واقع ہے چنانچہ پائپ لائین بنے ، بجلی کے کھمبے لگیں یا پھر سڑک بنے ہم درمیان میں ہوں گے،دوم، چین اور بھارت دنیا کی دو بڑی صنعتی طاقتیں ہیں، سینٹرل ایشیا، مڈل ایسٹ، یورپ اور امریکا ان دونوں طاقتوں کی منڈیاں ہیں، چین دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔
یہ ہر سال شنگھائی پورٹ سے 466 بلین ڈالر کا سامان ایکسپورٹ کرتاہے، چین کی یہ پورٹ سینٹرل ایشیا، مڈل ایسٹ اور یورپ سے بہت دور ہے، چین کے بحری جہاز7ہزار چار سو دو کلو میٹر سفر کر کے مڈل ایسٹ، سینٹرل ایشیا اور یورپ پہنچتے ہیں،چین یہ فاصلہ کم کرنا چاہتا ہے اور پاکستان چین کی مدد کر سکتا ہے، بھارت بھی سینٹرل ایشیا کو اپنی مارکیٹ بنانا چاہتا ہے ،یہ پاکستان سے گزر کر افغانستان، ایران اور سینٹرل ایشیا جانا چاہتا ہے۔
چین نے 1980ء کی دہائی میں گوادر کاشغر روٹ تیار کیا، چین کا منصوبہ تھا یہ گوادر پورٹ تیار کرے، کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائین اور سڑک بنائے، کاشغر کو ملک کی سب سے بڑی ڈرائی پورٹ بنائے، چینی مصنوعات کاشغر آئیں، وہاں سے گوادر پہنچیں اور گوادر سے دنیا بھر کی منڈیوں میں پہنچا دی جائیں، کاشغر سے گوادر تک روٹ پر 32 ارب ڈالر خرچ ہوں گے، چین یہ سرمایہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہے، چینی صدر پاکستان آئیں گے، گوادر کاشغرمعاہدے پر دستخط ہوں گے اور کام شروع ہو جائے گا لیکن چینی صدر کے دورے سے قبل پاکستان میں چند نئے ایشوز سامنے آ رہے ہیں۔
چین اور پاکستان نے گوادر کاشغر کے لیے تین روٹس تیار کیے ہیں، مشرقی، مغربی اور متبادل روٹ، مشرقی روٹ میں سڑک گوادر سے گڈانی، خضدار، رتو ڈیرو، سکھر، ملتان، لاہور، اسلام آباد، حویلیاں اور حویلیاں سے کاشغر پہنچے گی، یہ روٹ پاکستان کے چاروں صوبوں سے گزرے گا، مغربی روٹ گوادر، آواران، رتو ڈیرو، نصیر آباد، ڈیرہ بگٹی، ڈی جی خان، ڈی آئی خان، سوات اور گلگت سے ہوتا ہوا کاشغر جائے گاجب کہ تیسرا متبادل روٹ گوادر، تربت، پنجگور، قلات، کوئٹہ، ڈی آئی خان، سوات اور گلگت سے کاشغر پہنچے گا، چین کو خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے حالات پر یقین نہیں، چین کا خیال ہے یہ اگر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے سڑک گزارتا ہے تو قافلے بھی لوٹ لیے جائیں گے۔
چینی لوگ بھی اغواء ہوں گے اور یہ سڑکیں بھی بلاک ہوتی رہیں گی یوں یہ وقت پر ڈلیوری نہیں دے سکے گا، چین کا یہ خدشہ غلط نہیں کیونکہ بلوچستان میں چینی انجینئرز کے اغواء اور قتل کی بے شمار وارداتیں ہو چکی ہیں،چین شروع میں وہ مشرقی روٹ بنانا چاہتا ہے جو سندھ اور پنجاب سے ہوکر کاشغر پہنچے گا لیکن بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی سیاسی قیادت کو یہ سودا منظور نہیں، اسفند یار ولی نے مشرقی روٹ کو ’’نیا کالا باغ‘‘ بنانے کی دھمکی دے دی جب کہ بلوچ لیڈر گوادر کو اپنی ملکیت قرار دے رہے ہیں، چینی حکام اس صورت حال کو خوف بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
دنیا میں راہ داریوں کا دور ہے اور ہم چین، بھارت اور سینٹرل ایشیا کے درمیان ’’چونگی ریاست‘‘ یا ٹول پلازہ بن کر اربوں ڈالر سالانہ کما سکتے ہیں، یہ روٹ ہمارے ملک میں ہزاروں گودام بھی بنوائے گا، نئی فیکٹریاں اور انڈسٹریاں بھی لگوائے گا، لاکھوں نئی نوکریاں بھی پیدا کرے گا اور ہمارے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بھی بہتر بنائے گا لیکن ہم نے اگر یہ موقع بھی کھو دیا تو پھر دنیا کے پاس یہ آپشن بچے گا، یہ پاکستان کو ’’مائینس‘‘ کر کے نیا روٹ بنائے، چین تاجکستان، افغانستان اور ایران سے سڑک گزارے اور بھارت بلوچستان کی افراتفری میں سرمایہ کاری کرے۔
پاکستان ٹوٹ جائے، بھارت سندھ اور بلوچستان نئی ریاستوں کے ساتھ معاہدہ کرے، بھارت سندھ اور بلوچستان روٹ بنائے اور چین تاجکستان اور افغانستان سے ہوتا ہوا ایران پہنچے اور یہ وہاں آپس میں مل جائیں، یہ روٹ بہر حال بن کر رہے گا کیونکہ یہ سینٹرل ایشیا، چین اور بھارت تینوں کی معاشی بقا کے لیے ضروری ہے۔
ہم نے اب یہ فیصلہ کرنا ہے، یہ روٹ موجودہ پاکستان سے گزرے گا یا پھر اس نئے پاکستان سے گزرے گا جو چار چھوٹی چھوٹی آزاد ریاستوں میں تقسیم ہو چکا ہو گا، ہم وفاق کو بچا لیں یا وفاق کو توڑ دیں، ہمارے پاس اب صرف ایک آپشن باقی ہے اور اگر خدانخواستہ یہ ہو گیا تو ہم اس سلوک کو ’’ڈیزرو،، کریں گے کیونکہ جو قوم ہر موقع ضایع کر دے، جو قوم ترقی کے خلاف ہو وہ قدرت کی نظر میں ٹوٹنا اور ذلیل ہونا ڈیزرو کرتی ہے۔
15 مارچ
جاوید چوہدری جمعرات 19 مارچ 2015

میں ایلومینیم کے فریم میں شیشے لگاتا ہوں،میں قصور کا رہنے والا ہوں،میں روزی روٹی کی تلاش میں لاہور آ گیا،لاہور میں میرے دو کام تھے،میں شام تک کام کرتا تھا اور شام کے بعد تبلیغ میں مصروف ہو جاتا تھا،میں یوحنا آباد کے قریب رہتا تھا،میری دکان بھی مسیحی بھائیوں کی بستی کے قریب تھی،میں اتوار 15 مارچ کی صبح یوحنا آباد چلا گیا۔
میں اکثر اوقات اس آبادی میں چلا جاتا تھا،میرے وہاں جاننے والے بھی تھے اور دوست بھی،میں 15 مارچ کو کیتھولک چرچ کے قریب تھا،اچانک خوفناک دھماکا ہوا،پور ا علاقہ لرز گیا،شیشے ٹوٹ گئے،چھتیں گر گئیں،سائن بورڈ اکھڑ گئے،دکانوں کے سائبان جوڑوں سے نکل گئے،میرے کان بند ہو گئے،میں کانوں میں انگلیاں ڈال کر سر کو بار بار جھٹکے دینے لگا لیکن مجھے پانچ منٹ تک کچھ سنائی نہ دیا،میں نے کان کے پردے ہلکے کرنے کے لیے ایک پاؤں پر اچھلنا شروع کر دیا۔
میرا ایک کان کھل گیا،اب میری آنکھ جو دیکھتی تھی وہ مجھے بھی سنائی دیتا تھا،میں نے لوگوں کو دھائی دیتے،سیاپا کرتے،چیختے چلاتے دیکھا،لوگ دیوانہ وار بھاگ رہے تھے،میں بھی بھاگ کھڑا ہوا لیکن مجھے افراتفری میں سمت کا اندازہ نہ ہوا اور میں یوحنا آباد سے باہر نکلنے کے بجائے مزید اندرچلا گیا اور میں کیتھولک چرچ کے سامنے پہنچ گیا،چرچ کے باہر انسانی جسموں کے چیتھڑے پڑے تھے۔
میں نے انسانی آنتیں بجلی کی تاروں پر لٹکی دیکھیں،دیواروں پر انسانی آنکھیں چپکی ہوئی تھیں اور سڑک پر دور دور تک خون کے چھینٹے اور انسانی کھوپڑیوں کی چربی پھیلی تھی،فضا میں خون،جلے ہوئے گوشت اور بارود کی بو تھی،میں ٹھٹھک کر رک گیا اور بے بسی کے عالم میں دائیں بائیں دیکھنے لگا،میں پتھرا چکا تھا،میرے پاؤں زمین پر جم گئے تھے،آنکھیں پتلیوں سے باہر تھیں اور سانس بے قابو ہو رہی تھی،میں پتھر کی طرح چرچ کے سامنے کھڑا تھا۔
اچانک میری کمر سے کوئی سخت چیز ٹکرائی،میں گھبرا کر پیچھے مڑا،میرے سامنے دو نوجوان کھڑے تھے،دونوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے،وہ دونوں مجھے گالیاں دے رہے تھے،دہشت گرد،دہشتگرد کے نعرے لگا رہے تھے اور مجھ پر ڈنڈے برسا رہے تھے،میں نے ڈنڈوں سے بچنے کی کوشش کی،میں نے اچانک ’’ دہشت گرد پکڑ لیا،دہشت گرد پکڑ لیا‘،کی آوازیں سنیں،میں نے ’’ مولوی کو پکڑو،وہ مولوی دہشت گرد ہے‘‘کی آوازیں بھی سنیں،وہاں پچاس ساٹھ نوجوان جمع ہوئے اور مجھے مارنا شروع کر دیا۔
میں نے بھاگنے کی کوشش کی مگر ہجوم زیادہ تھا اور میری توانائی کم،میں سڑک پر گر گیا،مجھ پر چاروں طرف سے ڈنڈے برس رہے تھے،میں نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنا چہرہ بازوؤں میں چھپا لیا،میں درد سے دہرا بھی ہو چکا تھا،میرے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی،مجھے بس اتنا محسوس ہورہا تھا میرے پورے جسم پر لاٹھیاں برس رہی ہیں‘ انسان جب موت کے قریب پہنچتا ہے تو اس کے کان بھی حساس ہو جاتے ہیں،ہم جو آوازیں عام حالت میں نہیں سن پاتے موت کے قریب پہنچ کر ہم وہ آوازیں بھی سننے لگتے ہیں،میں نے محسوس کیا جب انسان کی ٹانگ کی ہڈیاں ٹوٹتی ہیں تو اسے سب سے زیادہ درد ہوتا ہے۔
مجھے اس وقت محسوس ہوا آپ زندگی میں جن لوگوں سے نفرت کرتے ہیں وہ موت کے قریب پہنچ کر آپ کو زیادہ یاد آتے ہیں،آپ کو موت کے قریب پہنچ کر اپنا بچپن بھی یاد آتا ہے،آپ کے دماغ میں ایک فلم سی چلتی ہے اور آپ بچپن سے لے کر جوانی تک اپنی پوری زندگی کو چند لمحوں میں دیکھ لیتے ہیں اور مجھے محسوس ہوا جب آپ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹتی ہے تو آپ تمام دکھوں،تمام دردوں سے آزاد ہو جاتے ہیں،آپ کی ساری تکلیف ختم ہو جاتی ہے۔
میں نے شروع میں اپنی ٹانگوں کو کرچی کرچی ہوتے محسوس کیا،پھر میری پسلیاں ٹوٹیں،میں نے پسلیوں کی نوکوں کو اپنے دل،اپنے پھیپھڑوں اور اپنے جگر میں اترتے بھی محسوس کیا،پھر میری ناف پھٹی اور ناف سے انتڑیاں نکل کر باہر آ گئیں،ہجوم نے میری انتڑیوں کو ڈنڈے پر لپیٹنا شروع کر دیا،وہ انتڑیاں ڈنڈے پر لپیٹتے جاتے تھے اور میرا پیٹ خالی ہوتا جاتا تھا ،لوگوں نے پھر مجھے الٹا کیا اور پھر میری کمر پر درجنوں ڈنڈے گرے اور میری ریڑھ کی ہڈی چار جگہوں سے ٹوٹ گئی،میں درد اور تکلیف سے آزاد ہو گیا،مجھے ہجوم مارتا جا رہا تھا،مجھے اچانک کھانسی کا دورہ پڑا۔
میں نے کھانسنے کی کوشش کی لیکن میرے پھیپھڑے پھٹ چکے تھے،میرے گلے سے خون ٹپک رہا تھا،میں نے سانس کھینچی،سانس کھنچ گئی لیکن سانس واپس نہ جا سکی،میرا زخمی بدن کانپا،میرے ایک ایک انگ میں بجلی سی تڑپی اور میری روح نکل گئی،میں مر چکا تھا۔ مجھے مرنے کے بعد دو تجربے ہوئے،میرا کٹا پھٹا اور ننگا جسم سڑک پر پڑا تھا،لوگ میرے جسم پر ڈنڈے برسا رہے تھے لیکن میں اپنے جسم سے تین گز کے فاصلے پر فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا،میں دو لوگ بن چکا تھا،ایک وہ جسے لوگ توڑ رہے تھے اور ایک وہ جو ہر قسم کی تکلیف سے دور،چپ چاپ فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا۔
میں جو زخمی تھا وہ لوگوں کو نظر آ رہا تھا اور میں جو ہر دکھ،ہر تکلیف سے آزاد تھا،وہ سب کو دیکھ رہا تھا لیکن اسے کوئی نہیں دیکھ پا رہا تھا،میں نے فٹ پاتھ پر بیٹھے بیٹھے لوگوں کو اپنی لاش پر ڈنڈے برساتے دیکھا،میں نے لوگوں کو اپنی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹتے دیکھا،یہ مجھے پاؤں سے پکڑ کر کبھی ادھر گھسیٹتے تھے اور کبھی ادھر لے جاتے تھے،یہ میری لاش کو ٹھڈے بھی مار رہے تھے،یہ مجھے گھسیٹتے گھسیٹتے فیروز پور روڈ پر لے آئے۔
میں بھی فٹ پاتھ سے اٹھا اور آہستہ آہستہ ان کے پیچھے چل پڑا،میں اور میری لاش ہم اب فیروز پور روڈ پر تھے،ہجوم میں اضافہ ہو چکا تھا،یہ لوگ دہشت گرد،دہشت گرد اور ظالمو جواب دو،خون کا حساب دو کے نعرے لگا رہے تھے،یہ مجھے سڑک کے عین درمیان لے کر آئے،ایک بندہ دوڑتا ہوا آیا،اس کے ہاتھ میں تیل کا ڈبہ تھا،اس نے لوگوں کو پیچھے ہٹایا اور میرے اوپر تیل چھڑکا،میں پاؤں سے سر تک تیل میں بھیگ گیا،دوسرے نے ماچس نکالی،تیلی جلائی ’’پھپ‘‘کی آواز آئی اور اس نے تیلی میرے اوپر گرا دی،’’ٹھس‘‘کی آواز آئی اور میری لاش نے آگ پکڑ لی،شعلے دس دس فٹ اونچے تھے،فضا میں تیل،انسانی گوشت اور دھوئیں کی بو پھیل گئی،لوگوں نے بو سے بچنے کے لیے ناک پر ہاتھ رکھ لیے،میں جل رہا تھا اور لوگ نعرے لگا رہے تھے۔
وہ خون کا حساب مانگ رہے تھے،وہ ظالمو کو للکار رہے تھے،وہ گالیاں دے رہے تھے،وہ حکومت کے خلاف بھی نعرے لگا رہے،وہ جنگلے بھی توڑ رہے تھے،وہ ڈنڈے بھی لہرا رہے تھے،لوگ ڈنڈوں سے میری لاش کو دائیں بائیں بھی کر رہے تھے،وہ میری لاش پر تیل بھی ڈالتے جا رہے تھے اور وہ مجھے پتھر بھی مارتے جا رہے تھے اور میں میٹرو بس کے جنگلے کے ساتھ بیٹھ کر اپنی لاش کو جلتا،لوگوں کو جلاتا اور نعرے لگاتا دیکھ رہا تھا،لوگ میری لاش کی دھڑا دھڑ تصویریں اور فلمیں بھی بنا رہے تھے،یہ مختلف زاویوں سے،کبھی آگے ہو کر اور کبھی پیچھے ہٹ کر میری فلم بناتے تھے،یہ میری لاش پر جھک کر بھی تصویریں بناتے تھے،میں یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
’’یہ کیوں ہو رہا ہے‘‘میں باربار اپنے آپ سے پوچھتا تھا لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملتا تھا،میں جلتے جلتے کوئلہ ہو گیا،میرا وجود کوئلے کی طرح سیاہ ہو گیا،مجھے اس وقت ایک نیا تجربہ ہوا،مجھے معلوم ہوا انسان کی لاش جلنے کے بعد بے وزن ہو جاتی ہے،آپ کا وزن سو کلو گرام ہے اور آپ اگر خدانخواستہ جل گئے ہیں تو آپ کا وزن دس بارہ کلو گرام رہ جائے گا،انسان میں شاید پانی اور چربی بھاری ہوتی ہے،یہ جب جل کر ہوا میں اڑجاتی ہیں تو پیچھے صرف پنجر رہ جاتا ہے اور یہ بے وزن ہوتا ہے۔
میں جب جل جل کر بجھ گیا تو لمبے بالوں والے ایک نوجوان نے مجھے ڈنڈے کے ساتھ سیدھا کیا اور مجھے ڈنڈے کے سرے کے ساتھ گھسیٹتا ہوا میٹرو کے جنگلے تک لے آیا،اس نے مجھے میٹرو کے جنگلے کے ساتھ لگا دیا،میں اب جنگلے کے ساتھ چپکا ہوا تھا،وہ نوجوان میری جنگلے کے ساتھ چپکی لاش کو بھی ڈنڈے ماررہا تھا اور میں جنگلے کے ساتھ بیٹھ کر یہ منظر دیکھتا رہا۔
میں صرف آپ کو خوش قسمت اور خود کو بد قسمت سمجھتا ہوں کیونکہ 15 مارچ کو اگر آپ میری جگہ ہوتے تو شاید آپ کے ساتھ بھی یہی ہوتا‘آپ یاد رکھیں،پاکستان میں صرف آپ نہیں ہیں،یہاں ایک محروم طبقہ بھی ہے،یہ لوگ پیدا ہوتے ہی جبر کی چکی میں پسنے لگتے ہیں،ملک میں کچھ بھی ہو جائے،کوئی بھی اچھی یا بری تبدیلی آئے یہ طبقہ براہ راست متاثر ہوتا ہے،سیلاب آئے تو صرف ان کے گھر بہتے ہیں،زلزلہ آئے تو صرف ان کے گھر گرتے ہیں۔
،بجلی،گیس اور پانی جائے تو صرف ان کے گھروں سے جاتی ہے،سڑکیں بنیں تو ان کے گھروں،ان کی دکانوں پر بنتی ہیں،میٹروبس شروع ہو تو صرف ان کی جائیدادیں سرکار کے قبضے میں آتی ہیں،فتح کے جشن ہوں تو ان کے گھروں پر حملے ہوتے ہیں،شکست ہو جائے تو بھی صرف یہ لوگ مارے جاتے ہیں اور دہشت گردی ہو تو بھی صرف یہ لوگ نشانہ بنتے ہیں،حالات کی اس چکی نے ان کی رگوں میں نفرت بھر دی ہے اور انھیں اب جہاں اپنی نفرت کے اظہار کا موقع ملتا ہے یہ پیچھے نہیں ہٹتے،یہ ملک کے محروم لوگ ہیں،محرومی ان کی قومیت بھی ہے۔
ان کی زبان بھی،ان کا فرقہ بھی اور ان کا مذہب بھی،یہ کبھی مسلمان بن کر کوٹ رادھا کشن میں شہزاد مسیح اورشمع بی بی کو بھٹے میں ڈال کر جلا دیتے ہیں،یہ کبھی جوزف کالونی میں ڈیڑھ سو گھر جلا دیتے ہیں،یہ کبھی عیسائی بن کر یوحنا آباد میں نعیم اور بابر نعمان کو راکھ بنا دیتے ہیں،یہ مذہب،فرقے اور نسل سے بالا تر لوگ ہیں،یہ صرف محروم ہیں،میں بھی محروم تھا اور مجھے مارنے والے بھی محروم لوگ تھے،آپ جب تک ان لوگوں کی محرومی کا کوئی حل نہیں نکالیں گے اس وقت تک ہمارے جیسے لوگ قتل بھی ہوتے رہیں گے اور ہماری لاشوں کی بے حرمتی بھی ہوتی رہے گی،میں بدقسمت تھا،میں بد قسمتی کی موت مارا گیا اور آپ خوش قسمت ہیں آپ آج بھی دھوپ میں بیٹھ کر ناشتہ کر رہے ہیں۔
میں بس آپ لوگوں سے صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں،صرف ایک سوال،آپ نے کبھی ملک میں سنا کسی شخص نے کسی کتے،بلی یا بکری کو ڈنڈے مار مار کر مار دیا اور پھر اس کی لاش کو تیل چھڑک کر آگ لگائی ہو اور پھر اس لاش کو جنگلے کے ساتھ لٹکا دیا ہو،آپ نے یہ خبر کبھی سنی یا پڑھی نہیں ہو گی لیکن آپ نے پاکستان مین زندہ لوگوں کو سڑکوں پر ڈنڈے مار کر قتل کرنے،لاشوں کو آگ لگانے اور سوختہ لاشوں کو لٹکانے کے درجن بھر واقعات سنے ہوں گے،مجھے صرف یہ جواب دیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انسان بلی اور بکری سے سستا کیوں ہے؟ یہاں بلیاں محفوظ اور انسان غیر محفوظ کیوں ہیں؟ آپ جیسے خوش قسمت لوگوں سے میرا بس یہ سوال ہے۔
رانا بھگوان داس
جاوید چوہدری جمعرات 26 فروری 2015

’’میں بھگوان بول رہا ہوں‘‘ آواز گھمبیر تھی‘ میں چند لمحوں کے لیے سکتے میں آ گیا‘ وہ میری خاموشی سمجھ گئے‘ فون سے لمبے سانس کی آواز آئی اور پھر بولے ’’ جاوید صاحب آپ شاید پریشان ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’جناب جب کسی مسلمان کو بھگوان کا فون آئے گا تو کیا وہ پریشان نہیں ہو گا‘‘ دوسری طرف طویل قہقہہ بلند ہوا اور اس کے ساتھ ہی رانا بھگوان داس سے ایک دائمی تعلق پیدا ہو گیا۔
رانا بھگوان داس 2000 ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے‘ وہ اسلام آباد شفٹ ہوئے اورچند دن بعد مجھے فون کر دیا‘ وہ ملاقات کے لیے آنا چاہتے تھے‘ میں نے عرض کیا ’’میں آپ کے پاس خود حاضر ہوں گا‘‘ وہ نہ مانے‘ وہ مسلسل اصرار کرتے رہے مگر میں ضد میں آ گیا چنانچہ رانا صاحب نے رات کھانے پر بلا لیا‘ محی الدین وانی اس وقت اسلام آباد میں اے سی تھے‘ یہ سکھر میں رانا بھگوان داس سے متعارف ہوئے تھے‘ رانا صاحب سندھ ہائی کورٹ کے جج تھے‘ یہ سکھر بینچ کا حصہ تھے اور یہ اکثر کیسوں کی سماعت کے لیے سکھر جاتے رہتے تھے ۔
محی الدین وانی اسلام آباد سے قبل سکھر میں اے سی تعینات رہے‘ یہ مختلف مقدموں میں رانا بھگوان داس کی عدالت میں حاضر ہوتے رہتے تھے‘ یہ حاضریاں دوستی میں تبدیل ہو گئیں‘ محی الدین وانی میرے بھی دوست تھے‘ یہ دفتر سے سیدھے میرے پاس آ جاتے تھے اور ہم لمبی واک کے لیے راول ڈیم چلے جاتے تھے‘ میں نے وانی صاحب کو رانا صاحب کے فون کے بارے میں بتایا‘ وانی نے انکشاف کیا ’’رانا صاحب کو آپ کا فون نمبر میں نے دیا تھا‘‘ ہم واک کے بعد رانا صاحب کے گھر چلے گئے۔رانا صاحب سے ملاقات ہوئی اور وہ ملاقات دوستی میں بدل گئی اور یہ دوستی 23 فروری کو رانا صاحب کے انتقال تک جاری رہی‘ رانا صاحب کے ساتھ دوستی کی تین وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ رانا بھگوان داس کی سادگی تھی‘ میں نے زندگی میں ان سے زیادہ سادہ شخص نہیں دیکھا‘ وہ درمیانے درجے کے سادہ کپڑے پہنتے تھے‘ جوتوں کے تلوے گھسے ہوتے تھے‘ کراچی سے نمکو اور پاپڑ لے کر آتے تھے اور یہ پاپڑ اور نمکو ہر ملاقاتی کو پیش کیے جاتے تھے۔
وہ ڈرائنگ روم میں آ کر خود اے سی چلاتے تھے اور اٹھتے وقت اپنے ہاتھ سے اے سی کا سوئچ آف کرتے تھے‘ فالتو بتیاں بجھاتے تھے‘ کھانا انتہائی سادہ بلکہ بے ذائقہ کھاتے تھے‘ ہندو تھے لیکن دوسروں کے نماز روزے کا بہت خیال رکھتے تھے‘ اسٹاف کو نماز کے وقت تکلیف نہیں دیتے تھے‘ گھر میں لیمن گراس اگاتے تھے اور اس لیمن گراس کا قہوہ بنا کر خود بھی پیتے تھے اور دوسروں کو بھی پلاتے تھے اور اپنی تنخواہ کو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے کافی سمجھتے تھے‘ ہماری دوستی کی دوسری وجہ رانا صاحب کی ایمانداری اور بہادری تھی‘ یہ دیانتدار بھی تھے اور بے خوف بھی۔
آپ انھیں خرید سکتے تھے اور نہ ہی دبا سکتے تھے‘وہ سفارش سنتے ضرور تھے مگر سننے کے بعد قہقہہ لگاتے تھے اور سفارش مسترد کر دیتے تھے‘ میں چار بڑی سفارشوں کا عینی شاہد ہوں‘ جنرل پرویز مشرف نے 9 مارچ 2007ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کر دیا‘ رانا بھگوان داس چوہدری صاحب کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج تھے‘ یہ چوہدری صاحب کے بعد قائم مقام چیف جسٹس یا چیف جسٹس تھے مگر یہ اس وقت بھارت میں چھٹیوں پر تھے۔رانا صاحب کی غیر موجودگی میں جسٹس جاوید اقبال قائم مقام چیف جسٹس بن گئے‘ جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز نے افتخار محمد چوہدری کو ہٹانے کے لیے جان بوجھ کر ایسے وقت کا انتخاب کیا تھا جب رانا بھگوان داس ملک میں نہیں تھے‘ حکومت جانتی تھی اگر رانا صاحب چیف جسٹس بن گئے تو یہ حکومتی فیصلوں کی توثیق نہیں کریں گے چنانچہ چوہدری صاحب کو عین اس وقت ہٹایا گیا جب رانا صاحب ملک میں نہیں تھے۔
حکومت چاہتی تھی رانا صاحب اپنی چھٹیوں میں توسیع کر لیں‘ یہ اس وقت تک پاکستان نہ آئیں جب تک جوڈیشل کمیشن افتخار محمد چوہدری کے خلاف فیصلہ نہیں دے دیتا‘ حکومت کے اس وقت کے دو سینئر عہدیدار میرے پاس آئے اور میرے ذریعے بھارت میں رانا بھگوان داس سے ٹیلی فون پر بات کی‘میں نے فون ملایا‘ رانا صاحب کو سلام کیا اور فون اس سینئر عہدیدار کے ہاتھ میں پکڑا دیا‘ عہدیدار نے رانا صاحب سے درخواست کی ’’ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔
ہم آپ کو کنٹروورسی سے بچانا چاہتے ہیں‘ ہمارا مشورہ ہے آپ اپنی چھٹیوں میں توسیع کر لیں‘‘ رانا صاحب نے قہقہہ لگایا اور صاف انکار کر دیا‘ ان کا کہنا تھا’’ میں اپنے شیڈول کے مطابق پاکستان آؤں گا‘ نہ ایک دن پہلے اور نہ ایک دن بعد اور آپ لوگ مجھے دوبارہ فون بھی نہ کیجیے گا‘‘ رانا صاحب نے اس کے بعد فون بند کر دیا‘ یہ پیغام رانا صاحب کو بعد ازاں بھارت میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے بھی دیا گیا‘ فوج کے تین اعلیٰ عہدیدار کراچی میں رانا صاحب کے گھر بھی گئے‘ وہاں رانا صاحب کی ان کی اہلیہ‘ صاحبزادی اور بھائی سے بات کرائی گئی۔
خاندان نے بھی انھیں پاکستان آنے سے روکا لیکن یہ نہ مانے اور 23 مارچ کو پاکستان پہنچ گئے‘24 مارچ کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا اور وہ کارنامہ سرانجام دیا جو آج تاریخ کا حصہ بن چکا ہے‘ دوسرا واقعہ ڈی جی آئی ایس آئی کا فون تھا‘ لیفٹیننٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی مارچ 2007ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘ میں رانا بھگوان داس کے ساتھ بیٹھا تھا‘ جنرل کیانی کا فون آ گیا لیکن رانا صاحب نے فون سننے سے انکار کر دیا‘ سپریم کورٹ کا اسٹاف رانا صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا‘ یہ لوگ اصرار کر رہے تھے۔آپ اپنی مرضی کریں لیکن آپ بس فون سن لیں لیکن رانا صاحب کا جواب تھا ’’ میں فون کیوں سنوں‘ اگر کوئی سرکاری معاملہ ہے تو ڈی جی رجسٹرار سے رابطہ کرے اور اگر معاملہ غیر سرکاری ہے تو چیف جسٹس کو کسی سرکاری عہدیدار کا غیر سرکاری فون نہیں سننا چاہیے‘‘ یہ سلسلہ گھنٹہ بھر چلتا رہا یہاں تک کہ جنرل کیانی کا اسٹاف آفیسر بھی وہاں پہنچ گیا مگر رانا صاحب نہ مانے‘ وہ اٹھے اور سونے کے لیے بیڈروم میں چلے گئے۔
آپ تیسرا واقعہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ حکومت چاہتی تھی رانا بھگوان داس افتخار محمد چوہدری کی معطلی کا جائزہ لینے کے لیے بینچ نہ بنائیں‘ رانا صاحب کے ایک استاد کو سندھ سے اسلام آباد لایا گیا‘ استاد رانا صاحب کے گھر تشریف لائے‘ شاگرد نے استاد کو کھانا کھلایا‘ اطمینان سے پوری بات سنی‘ جھک کر دروازے پر رخصت کیا‘ واپس آئے اور اسی وقت 13 رکنی فل کورٹ بینچ بنا دیا‘ وہ استاد کی سفارش بھی ٹال گئے اور چوتھا واقعہ سپریم کورٹ کے دو جج میاں نواز شریف کیس کے بینچ کا حصہ بننا چاہتے تھے۔
دونوں ججوں نے پورا زور لگایا مگر رانا صاحب نے انکار کر دیا اور یہ بھی ذہن میں رکھیں وہ میاں برادران بالخصوص میاں شہباز شریف کو بہت پسند کرتے تھے‘ وہ دل سے چاہتے تھے میاں شہباز شریف ملک میں واپس آئیں اور وزیراعظم بنیں لیکن اپنی پسندیدگی کے باوجود ان ججوں کو بینچ کا حصہ نہیں بننے دیا جو میاں برادران کے لیے سافٹ کارنر رکھتے تھے‘ وہ جج بعد ازاں افتخار محمد چوہدری کے منظور نظر بنے اور وہ ان تمام بینچوں کا حصہ رہے جنہوں نے بڑے سیاسی فیصلے کیے۔
میرے رانا بھگوان داس سے تعلق کی چوتھی وجہ ان کی سفر کی شدید خواہش تھی‘ وہ ذہنی لحاظ سے سیاح تھے لیکن قدرت نے انھیں سفر کے زیادہ مواقع نہیں دیے‘ وہ زندگی بھر سماجی‘ خاندانی اور ملازمتی ایشوز میں الجھے رہے لہٰذا وہ اتنے سفر نہیں کر سکے جتنے وہ کرنا چاہتے تھے‘ میں اس معاملے میں خوش نصیب ہوں میں مجبوریوں کے باوجود چل پڑتا ہوں‘ رانا صاحب کو میری یہ بے وقوفی اچھی لگتی تھی‘ وہ مجھے بلاتے تھے۔
ملکوں کے نام لیتے تھے اور میں انھیں ان ملکوں اور شہروں کے قصے سناتا تھا‘ وہ خوش ہو جاتے تھے‘ ہمیں ایک بار اکٹھے سفر کرنے کا موقع بھی ملا‘ میں انھیں پیرس‘ میلان‘ قرطبہ اور غرناطہ لے کر گیا‘ وہ سفر یاد گار تھا‘ رانا صاحب ہر منظر‘ ہر چیز کو بچوں جیسی حیرت سے دیکھتے تھے‘ ہم قرطبہ کی مسجد میں گئے تو رانا صاحب نے میرے کان میں سرگوشی کی ’’آپ ستون کے پیچھے چھپ کر دو نفل پڑھ لو‘‘ میں نے جواب دیا ’’جناب بھگوان صاحب یہ مسجد نہیں یہ میوزیم ہے‘ یہاں نماز پڑھنا جرم ہے‘‘ وہ ہنسے اور سرگوشی میں کہا ’’ دنیا کی کوئی مسجد ایک بار مسجد بن جائے تو وہ قیامت تک مسجد رہتی ہے۔
میں پولیس والوں پر نظر رکھتا ہوں‘ آپ نفل پڑھ لو‘‘ میں نے بہانہ بنایا ’’ میرا وضو نہیں‘‘کہا ’’ بھاگ کر واش روم جاؤ اور وضو کر آؤ‘‘ میں بھاگ کر واش روم گیا‘ چھپ کر وضو کیا اور مسجد میں واپس آ گیا‘ مسجد میں چاروں اطراف کیمرے لگے تھے‘ میں ایک ستون کے پیچھے کھڑا ہوا‘ جوتے اتارے اور نماز شروع کر دی‘ رانا صاحب نے میری حفاظت کی ذمے داری اٹھا لی‘ میں نماز کے دوران یہ سوچتا رہا ’’ یہ کیسا بھگوان ہے جو ایک بھٹکے ہوئے مسلمان کو متروک مسجد میں سجدہ یاد کرا رہا ہے‘‘ میں نے سلام پھیرا‘ رانا صاحب کی طرف دیکھا‘ وہ مسکرا رہے تھے۔
میں نے عرض کیا ’’ جناب آپ کیسے بھگوان ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ بھگوان اگر دوست ہوں تو بڑے فائدے ہوتے ہیں‘‘۔میاں نواز شریف رانا بھگوان داس کو صدر بنانا چاہتے تھے‘ میاں صاحب نے اپنی اس خواہش کا اظہار سینیٹر پرویز رشید سے بھی کیا تھا‘ میاں صاحب آئین کی وجہ سے یہ نیک کام نہ کر سکے‘ہمارا آئین کسی غیر مسلم کو وزیراعظم اور صدر بنانے کی اجازت نہیں دیتا‘ ہمیں یہ آئین بدلنا ہو گا‘ ہمیں پاکستان کے ہر شہری کو مذہب‘ فرقے اور نسل سے بالاتر ہو کر یکساں مواقع دینا ہوں گے‘ ہم نے اگر یہ نہ کیا تو پاکستان رانا بھگوان داس جیسے بے شمار ایسے پاکستانیوں سے محروم ہو رہ جائے گا جو دیانتداری‘ محنت اور بہادری میں نوے فیصد مسلمانوں سے بہتر ہیں۔
آپ کو شاید یاد ہو گا رانا بھگوان داس جب 2007ء میں بھارت میں تھے تو سوشل میڈیا پر اس وقت یہ فقرہ گردش کر رہا تھا ’’ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے اٹھارہ کروڑ مسلمان آج انصاف کے لیے بھگوان کا انتظار کر رہے ہیں‘‘ یہ فقرہ رانا صاحب کی شخصیت اور خدمات دونوں کے لیے شاندار ٹریبیوٹ تھا‘ وہ واقعی ملک میں انصاف‘ میرٹ اورحق گوئی کے بھگوان تھے۔رانا بھگوان داس 23 فروری2015ء کو کراچی میں آنجہانی ہو گئے مگر ان کی خدمات ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
میری سپریم کورٹ کی انتظامیہ سے درخواست ہے آپ سپریم کورٹ کے ہر جج کے کمرے میں رانا بھگوان داس کی تصویر لگوا دیں تاکہ ہمارے جج جب بھی دباؤ یا ترغیب میں آنے لگیں تو یہ ایک رانا صاحب کی تصویر دیکھیں اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں ’’بھگوان داس اپنے بھگوان کے سامنے سرخرو ہو گئے لیکن میں اپنے اللہ کو کیا منہ دکھاؤں گا‘‘۔ مجھے یقین ہے یہ سوال ہمارے مسلمان ججوں کو بھگوان بنا دے گا‘ رانا بھگوان داس۔
کاش کوثر شاہدہ نے کیلنڈر دیکھا ہوتا
جاوید چوہدری منگل 24 فروری 2015

اسلام آباد میں ہفتے20 فروری کی صبح ایک ایسا لرزہ خیز واقعہ پیش آیا جس نے ہر صاحب دل کو دہلا کر رکھ دیا، سیکٹر جی سکس تھری آبپارہ کے ایک مکان میں محمد فاروق خٹک خاندان کے ساتھ رہتے تھے، یہ پٹرولیم کی کمپنی میں ملازم تھے، خٹک صاحب کی عمر 42 سال جب کہ ان کی بیوی کوثر شاہدہ 35 برس کی تھیں، میاں بیوی کے چار بچے تھے، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا، بیٹے کا نام رافع عمر گیارہ سال، بیٹی عزا عمر 8 سال، راحیلہ عمر سات سال اور رانیہ عمر پانچ سال، میاں بیوی کے آپس میں تعلقات ٹھیک نہیں تھے اور لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔
ہفتے کی صبح خاوند نے بچوں کو لیک ویو پارک کی سیر کے لیے تیار کیا، بچے تیار ہو کر ناشتے کی میز پر بیٹھ گئے مگر میاں بیوی کے درمیان اچانک لڑائی شروع ہو گئی، بیوی کا کہنا تھا خاوند بچوں کو سیر کے بہانے ماں سے دور کر رہا ہے، یہ بچے جب ماں سے دور ہو جائیں گے تو فاروق خٹک بیوی کو طلاق دے دے گا جب کہ خاوند کا کہنا تھا ’’میں بچوں کو صرف سیر کے لیے باہر لے جانا چاہتا ہوں،، یہ بات چلتے چلتے بڑھ گئی یہاں تک کہ بیوی کوثر شاہدہ طیش میں آ گئی، وہ اندر گئی، پستول نکالا، باہر آئی اور خاوند کو گولی مار دی، خاوند گر کر مر گیا۔
بیوی نے اس کے بعد اپنے بیٹے رافع کو گولی ماری، پھر ایک ایک کر کے تینوں بیٹیوں کو گولی ماردی، یہ پانچوں فرش پر گر گئے تو کوثر شاہدہ نے پستول کنپٹی پر رکھا، کلمہ پڑھا اور خود کو بھی گولی مار لی، یہ بھی گری اور مر گئی، فائرنگ کی آواز سن کر محلے کے لوگ اکٹھے ہوئے، مکان کے اندر داخل ہوئے، فرش پر محمد فاروق خٹک، تین بچیوں اور کوثر شاہدہ کی لاشیں پڑی تھیں جب کہ بیٹا رافع زخمی تھا، رافع کے بازو پر گولی لگی تھی، بیٹے نے گولی لگنے کے بعد ماں کے سامنے مرنے کی ایکٹنگ کی، ماں نے اسے مردہ سمجھ کر دوسری گولی نہیں چلائی یوں بیٹا رافع بچ گیا۔
یہ واقعہ ہفتے اور اتوار کے دن ٹاک آف دی ٹاؤن تھا، یہ واقعہ جس نے بھی سنا اس کا دل دہل کر رہ گیا، آپ خود اندازہ لگائیے، آپ اگر والدین ہیں ، آپ کی چھوٹی معصوم بچیاں ہیں، آپ گیارہ سال کے بیٹے کے والدین بھی ہیں اور آپ یہ واقعہ سنتے ہیں تو کیا یہ آپ کو متاثر نہیں کرے گا؟ آپ یقینا اضطراب کا شکار ہو جائیں گے، آپ یقین کریں مجھے ہفتے اور اتوار کی رات نیند نہیں آئی، میں اضطراب میں کبھی اندر بیٹھتا تھا اور کبھی لان میں ٹہلنے لگتا تھا، میں لمبی واک کے لیے بھی نکل گیا، میں تین گھنٹے واک کرتا رہا لیکن اس کے باوجود اضطراب ختم نہ ہوا، آپ لوگ بھی صاحب اولاد ہیں۔
آپ اپنی اولاد کے چہرے دماغ میں لائیں اور اس کے بعد خود سے سوال کریں، کیا کوئی ماں یا کوئی باپ اتنا سنگدل ہو سکتا ہے؟ آپ کا جواب یقینا نہیں میں ہو گا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، انسان جذباتی جانور ہے، یہ جذبات میں ایسے ایسے خوفناک کام کر جاتا ہے جن کا جانور بھی تصور نہیں کر سکتے، انسان میں نفرت اور محبت دو تیزابی جذبے ہیں ، یہ جذبے اگر کنٹرول میں رہیں تو انسان کی کامیابی کی ضمانت بن جاتے ہیں، انسان نے آج تک جتنی ترقی کی اس کی بنیاد نفرت کا جذبہ تھا یا پھر محبت کا لیکن یہ جذبے جب آؤٹ آف کنٹرول ہوتے ہیں تو یہ تابکار ہو جاتے ہیں اور یہ پھر ہر چیز جلا کر راکھ بنا دیتے ہیں، ہم اگر اطمینان سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں نفرت اور محبت دونوں جذبوں کو ’’ہینڈل،، کرنا سیکھنا چاہیے۔
ہم ان دوجذبوں کو ہینڈل کرنا سیکھ جائیں تو ہماری زندگی کے زیادہ تر مسائل ختم ہو جائیں اور فاروق خٹک اور کوثر شاہدہ بھی نفرت کو ہینڈل نہ کر سکے چنانچہ خاندان سمیت مارے گئے، محمد فاروق خٹک اور کوثر شاہدہ کا دوسرا مسئلہ بے جوڑ شادی تھی، ہمارے ملک میں شادی کا نظام درست نہیں، ہمارا معاشرہ سیکڑوں برس سے حیاء اور مشرقی روایات کی تلوار سے لاکھوں کروڑوں خاندانوں کو ذبح کر رہا ہے، ہم آج بھی شادی کے لیے بچیوں کی رضا مندی ضروری نہیں سمجھتے، شادی سے قبل لڑکی اور لڑکے کی ملاقات بعید از قیاس ہے، ہماری یہ روایات ملک میں بے جوڑ شادیوں کا لشکر پیدا کر رہی ہیں، لوگوں کی عائلی زندگی بے سکونی کا شکار ہے، ہم بے جوڑ شادیوں کی حماقت کو مشرقی روایات بھی کہتے ہیں اور اسلام بھی سمجھتے ہیں، یہ جواز غلط ہے، اسلام میں تو عورت مرد کا رشتہ مانگ سکتی ہے، آپ حضرت خدیجہ ؓ کے نبی اکرمؐ ساتھ نکاح کی تفصیل پڑھ لیجیے۔
آپ کو اسلام میں شادی کا پورا تصور سمجھ آ جائے گا، آپ اس کے بعد ترکی سے لے کر مراکش تک پوری اسلامی دنیا کا جائزہ لے لیجیے، آپ کو دنیا کے کسی اسلامی ملک میں پاکستان جیسی ’’اسلامی روایات‘‘ نہیں ملیں گی، ہم جن کو اسلامی روایات سمجھ رہے ہیں، یہ برصغیر کے ہندو راجپوتوں کی رسمیں تھیں، راجپوت راجپوتوں میں شادی کرتے تھے، لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کا منہ نہیں دیکھتے تھے اور یہ ڈولی پر جاتی تھی اور سسرال سے اس کی صرف لاش واپس آتی تھی، بھارت میں آج بھی ایسے راجپوت گھرانے موجود ہیں جن میں بیویاں پوری زندگی خاوند کے سامنے گھونگھٹ نکالتی ہیں اورآخری سانس تک خاوند سے مخاطب نہیں ہوتیں، اسلام اس سے بالکل مختلف مذہب ہے۔
یہ بیوی کو خاوند سے زیادہ حقوق دیتا ہے چنانچہ ہم اگر اپنے خاندانوں کو اسلام آباد جیسے واقعات سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں رشتے داریوں کی روایات تبدیل کرنا ہوں گی، ہمیں لڑکے اور لڑکی کو اتنی لبرٹی دینا ہو گی کہ یہ ایک دوسرے کو دیکھ کر فیصلہ کر سکیں’’ کیا ہم ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں؟،، ہم لوگ طلاق کو بھی برا سمجھتے ہیں، طلاق بری چیز ہے بھی لیکن کیا یہ قتل اور خودکشی سے زیادہ بری ہے؟ یقینا نہیں لہٰذا ہم لوگوں اور ہمارے والدین کو طلاق میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، ہم جب دیکھیں ہم بے جوڑ رشتے میں پھنس گئے ہیں تو پھر ہمیں فوراً علیحدگی کا آپشن اختیار کرنا چاہیے، ہمیں وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے ، طلاق میں تاخیر عموماً اسلام آباد جیسے واقعات کا باعث بنتی ہے، آپ زندگی میں بے شمار ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جنہوں نے شادی کے ایک آدھ سال بعد طلاق لے لی اور یہ لوگ اس کے بعد نئی شادی کر کے’’سیٹل لائف ،، گزارنے لگے جب کہ ان کے مقا بلے میں وہ لوگ جو یہ سمجھتے رہے ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات ٹھیک کر لیں گے، وہ پوری زندگی اذیت کا شکار بھی رہے اور ان میں سے اکثر لوگ خودکشی پر بھی مجبور ہو گئے۔
ہم ہمیشہ یورپ اور امریکا میں طلاق کی بڑھتی شرح کا مذاق اڑاتے ہیں مگر ہم نے کبھی یورپ کی طلاق کو اسلام آباد جیسے واقعات کے تناظر میں نہیں دیکھا، وہ لوگ بھی اگر ہماری طرح طلاق کی شرح کم کرتے رہتے تو وہ بھی کوثر شاہدہ کی طرح بچوں کو گولی مارنے پر مجبور ہو جاتے، یورپ کے لوگ سمجھ دار ہیں، یہ خودکشی نہیں کرتے، یہ طلاق دے اور لے کر الگ ہو جاتے ہیں، ہمارے ملک میں عائلی جھگڑوں کی بڑی وجہ بچے بھی ہیں، ہم لوگ فیملی ایڈجسٹمنٹ سے پہلے بچے پیدا کر لیتے ہیں چنانچہ میاں بیوی جب اس نتیجے پر پہنچتے ہیں ہم ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتے تو یہ دو بچوں کے ماں باپ ہوتے ہیں یوں خاندان میں نئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، طلاق ہو جائے تو بچوں کی ملکیت اور نان نفقہ ایشو بن جاتا ہے۔
عورت بچوں کے ساتھ دوسری شادی نہیں کر سکتی،یہ اگر کر لے تو بچوں کی پرورش مسئلہ بن جاتی ہے، باپ بچے لے آئے تو دوسری ماں پرانے بچوں کو قبول نہیں کرتی یوں بچے اور ماں باپ دونوں مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، ہمیں اپنے جوان بچوں کو یہ سمجھانا ہو گا یہ شادی کے کم از کم دو سال تک بچوں سے پرہیز کریں، یہ جب تک ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں ہوتے، یہ بچے کو اپنے سلگتے اور غیر یقینی ماحول سے باہر رکھیں،یہ تھیوری پرانی ہو چکی ہے بچے فیملی لائف کا بانڈ ہو تے ہیں، آج کل بچوں کی وجہ سے خاندان زیادہ ٹوٹ رہے ہیں۔ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی۔
مجھے آج سے بیس سال قبل کسی نے کہا تھا، آپ جب بھی کسی مسئلے کا شکار ہوں، آپ کیلنڈر سامنے رکھیں ،اس دن کی تاریخ پر انگلی رکھیں ، اگلے دن کا ہندسہ دیکھیں اور اپنے آپ سے کہیں، آج کے دن کے بعد کل کا دن بھی آئے گا اور ہو سکتا ہے کل کا دن آج کے دن سے بہتر ہو، میں نے یہ مشورہ مان لیا، میں ہمیشہ میز پر کیلنڈر رکھتا ہوں اور میں جب بھی کسی کنفیوژن کا شکار ہوتا ہوں، میں آج کی تاریخ پر انگلی رکھ کر اگلا دن دیکھتا ہوں اور میرے دماغ میں اس الجھن کا حل آ جاتا ہے، یہ زندگی گزارنے کا آزمودہ منتر ہے، آپ بھی جب کسی کنفیوژن کا شکار ہوں تو آپ بھی یہ کر کے دیکھیں ،آپ کو بھی مسئلے کا حل مل جائے گا۔محمد فاروق خٹک اور کوثر شاہدہ کو شادی سے قبل ایک دوسرے کی فطرت کو سمجھنا چاہیے تھا۔
یہ ممکن نہیں تھا تو ان لوگوں کو شادی کے کچھ عرصے بعد ایک دوسرے سے الگ ہو جانا چاہیے تھا، یہ بھی ممکن نہیں تھا تو یہ لوگ بچوں سے پرہیز کرتے یا پھر کم بچے پیدا کرتے اور یہ بھی اگر ممکن نہیں تھا تو پھر ان لوگوں کو ایک بار، صرف ایک بار کیلنڈر دیکھ لینا چاہیے تھا، ان کو چاہیے تھا، یہ دیکھ لیتے کیلنڈر 20 فروری 2015کو رک نہیں جاتا، یہ آگے بھی چل رہا ہے اور ہم زندگی کو 20 فروری پر کیوں ختم کر رہے ہیں؟۔
مجھے یقین ہے کوثر شاہدہ اگر ایک بارکیلنڈر دیکھ لیتی تو یہ بچوں اور خاوند کو قتل کرتی اور نہ ہی خود کشی کرتی اور مسائل سے نکلنے کا آخری طریقہ، ہجرت عائلی، کاروباری اور سماجی زندگی کے تمام مسائل کا شاندار حل ہوتی ہے، آپ زندگی میں جب بھی پھنس جائیں اور آپ کو نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملے توآپ خود کو صفر پر لے جائیں، آپ سمجھیں آپ فوت ہو چکے ہیں، آپ فوت شدہ انسان سے ایک نیا انسان پیدا کریں، شہر اور ملک بدلیں اور نئی زندگی شروع کر دیں۔آپ کو زندگی نیا راستے دکھا دے گی۔
پاکستان کے اتاترک کا انتظار
جاوید چوہدری اتوار 22 فروری 2015

آپ اگر پاکستان کے مستقبل کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو آپ صرف ایک بار ماضی کے ترکی کا مطالعہ کر لیجیے، آپ چند لمحوں میں کل کے پاکستان تک پہنچ جائیں گے۔
خلافت عثمانیہ نے ایک اتفاق سے جنم لیا،1270ء میں ترکوں کا ایک قبیلہ شام جا رہا تھا، قبیلے کا سردار ارطغرل تھا، یہ لوگ انگورہ (انقرہ) کے قریب پہنچے تو شہر کے مضافات میں جنگ ہو رہی تھی، یہ لوگ جنگ دیکھنے لگے، ارطغرل خدا ترس سردار تھا، اس نے جنگ میں ایک فریق کو ہارتے دیکھا تو وہ ہارتے لشکر کی مدد کے لیے میدان میں کود گیا، ترک سپاہی مظلوم لشکر کے لیے غیبی امداد ثابت ہوئے اور چند گھنٹوں میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، ہارنے والے جیت گئے اور جیتنے والے ہار گئے، ارطغرل کو جنگ کے بعد معلوم ہوا، اس نے تاتاریوں کے خلاف سلجوق بادشاہ سلطان علاؤ الدین کی مدد کی، سلطان علاؤ الدین احسان مند ہوا۔
اس نے دریائے سقاریہ کی بائیں جانب کا سارا علاقہ ارطغرل کو عنایت کر دیا، یہ علاقہ بعد ازاں صغوط کہلایا، ارطغرل پوری زندگی سلطان علاؤالدین کا وفادار رہا، عثمان غازی ارطغرل کا بیٹا تھا، یہ 1288ء کو ارطغرل کے انتقال کے بعد صغوط کا حکمران بن گیا، یہ بھی والد کی طرح سلجوقوں کا وفادار رہا، سلطان علاؤالدین 1300ء میں تاتاریوں کے ہاتھوں مارا گیا، سلجوق سلطنت ختم ہو گئی، عثمان غازی نے خودمختاری کا اعلان کر دیا، 1326ء میں بورسا شہر فتح کیا، چنار کے درخت کے نیچے بیٹھا اور خلافت عثمانیہ کی بنیاد رکھ دی، یہ خلافت 1326ء سے 1922ء تک 596 سال قائم رہی، خلافت عثمانیہ نے 37 سلطان پیدا کیے، خلافت عثمانیہ تاریخ کی شاندار ترین خلافت تھی۔
اس خلافت نے جہاں اسلامی دنیا کو بہت کچھ دیا وہاں اس نے 596 سال کے اقتدار کے دوران مذہبی رہنماؤں کی ایک منفی کلاس بھی پیدا کر دی، یہ بے لچک اور شدت پسند مُلا تھے، یہ ترقی، تبدیلی اور سائنس کو گناہ سمجھتے تھے، یہ لوگ آہستہ آہستہ خلافت میں جڑیں پکڑ گئے اور پھر ایک ایسا وقت آیا جب پوری سلطنت ان علماء کرام کے رحم و کرم پر چلی گئی، یہ لوگ کیوں پیدا ہوئے؟ اس کی واحد وجہ ترک سلطانوں کی مذہب پسندی تھی، ترک سلطان اسلام کی محبت سے سرشار تھے، آپ ان کی اسلام سے محبت کے تین واقعات ملاحظہ کیجیے، خلافت عثمانیہ 1326ء کو قائم ہوئی، سلطان سلیم اول نے 1516ء کو شام فتح کیا، شریف مکہ دمشق آیا اور سلطان کو خانہ کعبہ کی کنجیاں پیش کر دیں۔
جمعہ کا دن تھا، دمشق کی مسجد امیہ کے منبر سے سلطان سلیم کے لیے ’’صاحب الحرمین شریفین،، کا خطاب نشر ہوا، سلطان تڑپ کر اٹھا اور کہا ’’ میں کون ہوتا ہوں حرمین کا صاحب کہلانے والا، میں خادم ہوں، مجھے خادم کہا جائے،، امام نے فقرہ درست کیا اور سلطان سلیم کو ’’خادم الحرمین شریفین،، کا خطاب دے دیا، یہ خطاب آج تک دنیا میں رائج ہے، دوسرا واقعہ بھی سلطان سلیم ہی سے متعلق تھا، سلطان نے 1517ء میں مصر فتح کیا، عباسی بادشاہ سلیم عباسی استنبول آیا اور سلطان سلیم کو نبی اکرمؐ کی تلوار مبارک پیش کر دی، ترک سلطنت کو قائم ہوئے 191 سال گزر چکے تھے لیکن ترک سلطان غازی کہلاتے تھے۔
ترکوں نے نبی اکرمؐ کی تلوار ملنے کے بعد خود کو سلطان اور خلیفہ کہلانا شروع کر دیا، تیسرا واقعہ، سلطان سلیمان عالی شان ترکوں کا سب سے بڑا سلطان تھا، یہ سلطان روزانہ اپنے ہاتھ سے قرآن مجید تحریر کیا کرتا تھا، سلطان سلیمان نے زندگی میں آٹھ قرآن مجید تحریر کیے، یہ نسخے آج بھی سلطان کے مقبرے سلیمانیہ میں موجود ہیں، سلطان سلیمان نے کعبہ کی از سر نو تعمیر بھی کرائی اور امام ابوحنیفہ اور مولانا روم کا مزار بھی بنوایا، ترکوں کی اسلام سے اس محبت کا مذہبی طبقوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا، یہ مضبوط ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ یہ خلیفہ سے زیادہ تگڑے ہو گئے، یہ لوگ کس قدر مضبوط تھے؟ آپ ملاحظہ کیجیے۔
دنیا میں 1377ء میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا، سلطان مراد سوم نے 1587ء میں ترکی میں پہلا چھاپہ خانہ لگایا، شیخ الاسلام نے پرنٹنگ پریس کے خلاف فتویٰ دے دیا، بادشاہ نے منت سماجت کی تو شیخ الاسلام نے چھاپہ خانہ میں صرف یہودی اور عیسائی لٹریچر چھاپنے کی اجازت دی، شیخ الاسلام کا کہنا تھا’’ یہ شیطانی مشین ہے، ہم اس مشین پر قرآن مجید اور احادیث چھاپنے کی اجازت نہیں دے سکتے،، یہ فتویٰ 1727ء تک 140 سال قائم دائم رہا، 1727ء میں سلطان احمد سوم کے دور میں محمد سعید نام کے ایک دانشور نے ترکش پرنٹنگ پریس سے ’’اصول الحکم فی نظام الامم،، کے عنوان سے عربی کی ایک کتاب شایع کرا دی، یہ ’’توہین،، علماء کرام کے لیے ناقابل برداشت تھی، کفر کے فتوے جاری ہوئے، ملک بھر میں ہنگامہ ہوا، سلطان احمد سوئم کو برطرف کر دیا گیا۔
وزیراعظم محمد ابراہیم اور نیول چیف مصطفیٰ پاشا کو ہلاک کر دیا گیا اور کتاب شایع کرنے والا محمد سعید اور اس کا والد محمد فیض جلیبی قبرص بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ سلطان سلیم سوئم 28 واں سلطان تھا، سلطان سلیم فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی غلطی کر بیٹھا، پرانی فوج نے علماء کرام کے ساتھ اتحاد بنا یا اور سلطان سلیم سوم کو قتل کر دیا، سلطان محمود دوم ترکی کا 30 واں سلطان تھا، سلطان نے ترکی میں جدید طب اور سرجری کی بنیاد رکھ دی اور مقامی سرجنوں کی تربیت کے لیے یورپ سے سرجن اور ڈاکٹر منگوا لیے، علماء کرام اس توہین پر بپھر گئے اور سرجری کو غیر اسلامی قرار دے دیا، چیچک کی ویکسین ایجاد ہوئی، سلطان نے بچوں کو چیچک سے بچاؤ کے ٹیکے لگانا شروع کر دیے تو علماء نے اس ٹیکے کو کافرانہ عمل اور قدرت کے معاملات میں رکاوٹ قرار دے دیا۔
سلطان محمود دوم نے ملک میں اسٹیم انجن سے چلنے والی کشتیاں اور پتلون اور کوٹ متعارف کرائے، دارالتراجم اور ملک کے پہلے اخبار تقویم وقایع کی بنیاد رکھی، اس کے خلاف بھی پورے ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے، سلطان عبدالحمید نے ملک میں سیکولر عدالتیں، مدارس کی جگہ اسکول، استنبول یونیورسٹی اور غیر مسلموں کو برابری کے حقوق دینا شروع کیے تو وہ بھی مذہبی طبقے کے ہاتھوں یرغمال بن گئے، 1860ء سے 1870ء میں جب انگریز ہندوستان کو تاج برطانیہ کا باقاعدہ حصہ بنا رہے تھے، ترک علماء کرام عین اس وقت لغت سے حریت، وطن، آئین اور جمہوریت جیسے الفاظ نکلوانے کے لیے سلطان پر دباؤ ڈال رہے تھے اور سلطان نے یہ الفاظ لغت سے خارج بھی کر ائے، دنیا میں جنگ اول شروع ہوئی تو ترکی میں حالات یہ تھے۔
سلطان نااہل تھے، بیورو کریسی کرپٹ تھی، معاشرہ بے حس تھا اور علماء کرام نفاق کا شکار تھے، یورپ ترک سلطنت کو آپس میں تقسیم کر رہا تھا جب کہ مولوی حضرات ایک دوسرے کو کافر قرار دینے میں مصروف تھے، مسجدوں کے اندر لڑائی ہوتی تھی اور ایک مکتبہ فکر کے طالب علم دوسرے مکتبہ فکر کے طالب علم سے ہاتھ تک نہیں ملاتے تھے اور ایک مکتبہ فکر کے لوگ دوسرے مکتبہ فکر کے اشاعت گھر سے شایع ہونے والا قرآن مجید تک نہیں خریدتے تھے۔
یہ سلسلہ چل رہا تھا، اس سلسلے کے دوران اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا کا ظہور ہوا، مصطفیٰ کمال پاشا یونان کے علاقے سیلونیکا میں پیدا ہوئے، یہ مدرسے کے طالب علم رہے تھے، یہ فوج میں بھی رہے، بیوروکریسی کو بھی قریب سے دیکھا اور یہ آخر میں سلطان کے محل اور شبینہ سرگرمیوں سے بھی آگاہ ہو گئے، کمال اتاترک کے پاس اس وقت دو آپشن تھے، یہ سسٹم کو جوں کا توں چلنے دیتے، ترک خلافت ختم ہو جاتی، یورپ ترکی کو آپس میں تقسیم کر لیتا، علماء کرام اسلامی ملکوں میں نقل مکانی کر جاتے اور بیورو کریٹس اپنا مال و متاع لے کر یورپ کے مختلف شہروں کی طرف نکل جاتے یا پھراتاترک ترکی کو بچا لیتے، کمال اتاترک جانتے تھے، ہم نے اگر ترکی کو بچانا ہے تو پھر ہمیں خلافت، سسٹم کی قربانی دینا ہو گی۔
وہ یہ بھی سمجھ گئے تھے یورپ کی معاشرتی اپروچ اور ترقی کا وژن درست ہے اور ہم نے اگر پرسکون معاشرہ بنانا ہے تو پھر ہمیں ملک میں یورپ جیسی اصلاحات کرنا ہوں گی، ہمیں معاشرے کو کھولنا ہو گا، ملک میں تعلیم، سائنس، صنعت اور انصاف کا جدید ترین نظام نافذ کرنا ہو گا، اتاترک آگے بڑھے، فوج کو منظم کیا، قوم کو یورپی طالع آزماؤں کے خلاف کھڑا کر دیا اور یورپی حملہ آور پسپا ہو گئے، ترکی بچ بھی گیا اور آزاد بھی ہو گیا، اتاترک نے 23 اپریل 1920ء کو نئے ترکی کی بنیاد رکھی، خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا، سیکولر جمہوری ترکی بنایا، ترک آئین سے مذہب کی شق خارج کی، ترکی زبان کا رسم الخط عربی سے انگریزی کیا، ترکی کو قومی زبان بنایا، عورتوں کا پردہ ختم کر دیا، مدارس بند کر دیے۔
مذہبی تعلیم پر پابندی لگا دی، اسلامی لباس کو غیر قانونی قرار دے دیا، ہجری کیلنڈر ختم کیا، عیسوی تقویم شروع کرائی، ملک کی تمام مساجد حکومتی کنٹرول میں لے لیں، مذہبی کتب کی اشاعت بند کرا دی اور علماء کرام کے خطبوں اور فتوؤں پر پابندی لگا دی اور یوں وہ ترکی جو ہزار سال سے اسلام کا دارالحکومت چلا آ رہا تھا اسے سیکولر بنا دیا گیا، اتاترک کا خیال تھا ترکی کے لوگ مذہبی ہیں۔
یہ میری اصلاحات آسانی سے قبول نہیں کریں گے لیکن یہ خدشہ غلط ثابت ہوا، عوام نااہل حکمرانوں، کرپٹ بیورو کریسی اور متشدد علماء کرام سے اس قدر تنگ تھے کہ انھوں نے نہ صرف اتاترک کی اصلاحات کو خوش آمدید کہا بلکہ سکھ کا سانس بھی لیا، ترکی میں فوج 2005ء تک بااختیار رہی، مذہب ریاست کے کنٹرول میں رہا، کنٹرول کے ان 85 برسوں نے ترکی کو اسلامی دنیا کا لیڈر بنا دیا، ترکی اگر یورپی یونین میں شامل ہو گیا تو یہ اس فہرست کا واحد اسلامی ملک ہو گا، یہ کیا ہے؟ یہ سب اتاترک کے بے لچک فیصلوں کا کمال ہے۔
آپ ترکی کے اس ماضی اور پاکستان کے موجودہ حالات کو میز پر رکھئے اور اس کے بعد اپنے آپ سے پوچھئے، ہم نے اللہ کے نام پر مسجدوں اور امام بارگاہوں میں لاشوں کی گنتی بند نہ کی، ہمارے حکمران اگر عوامی نمایندے نہ بنے اور ملک میں اگر ریاستی کرپشن اسی طرح جاری رہی تو ہمارے ملک میں ایسا وقت نہیں آ جائے گا جب ملک میں مذہبی طبقے پر پابندی لگ جائے گی، سیاست جرم بن جائے گی اور حکمران جلاوطن کر دیے جائیں گے، آپ موجودہ حالات کو دیکھئے اور پھر سوچئے کیا ہمارا ملک بھی کسی اتاترک کا انتظار نہیں کر رہا۔

یہ بہادری نہیں، نااہلی اور بے حسی ہے

جاوید چوہدری جمعـء 20 فروری 2015

ہم دعویٰ کرتے ہیں ہم بہادر قوم ہیں‘ ہم 60 ہزار لوگوں کی قربانی کے باوجود پیروں پر کھڑے ہیں‘ ہماری سماجی زندگی میں کوئی رخنا نہیں پڑا‘ ہمارے ملک میں روز بم دھماکے ہوتے ہیں‘ ہمارے گرد روزانہ لاشیں ہوتی ہیں لیکن ہمارے ریستوران آبادرہتے ہیں‘ ہمارے پارکس میں چہل پہل ہوتی ہے اور ہمارے شاپنگ سینٹر‘ ہمارے مینا بازار اور ہمارے دفتر بھی کھلے رہتے ہیں‘ ہم اس قدر بہادر قوم ہیں کہ ہمارے ٹیلی ویژن چینلز خودکش حملے کی بریکنگ نیوز دیتے ہیں‘ یہ ہمیں ایمبولینسز‘ فائر بریگیڈز اور پولیس وینز کے سائرن سناتے ہیں اور ٹھیک ایک گھنٹے بعد یہ ہمیں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی نئی فلموں کے ٹریلر‘ رنگ گورا کرنے والی کریموں اور نئے موبائل فونوں کے اشتہارات دکھا رہے ہوتے ہیں اور ہم عوام بھی ایک گھنٹے بعدخودکش حملے میں مرنے والوں کو بھول چکے ہوتے ہیں۔
ہم اپنے اس رویئے کو بہادری کہتے ہیں اور اپنی اس بہادری کے ساٹھ ہزار نمونے دکھا کر دنیا سے مطالبہ کرتے ہیں، آپ ہمیں دنیا کی بہادر ترین قوم کا خطاب دیں‘ دنیا ہمارے اس رویئے پر چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجاتی ہے اور چپ چاپ ہمارے قریب سے گزر جاتی ہے‘ کیوں؟ کیونکہ دنیا کی نظر میں یہ بہادری نہیں‘ یہ نااہلی اور بے حسی ہے‘ ہمیں بہرحال یہ ماننا پڑے گا ہم نے 35 برسوں میںعالمی سطح پر خود کو بے حس‘ نااہل اور لالچی ثابت کرنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کیا‘ آپ افغان وار سے دہشت گردی کی موجودہ جنگ تک پوری تایخ کا تنقیدی جائزہ لے لیجیے‘آپ تاریخ کے ہر موڑ پر خود کو لالچی پائیں گے‘ مثلاً کیا ہم نے مونگ پھلی کے چند دانوں کے لیے خود کو افغان وار کے دوزخ میں نہیں جھونکا؟ مثلاًکیا ہم نے امریکا کو خوش کرنے کے لیے افغانستان میں طالبان حکومت کی پشت پناہی نہیں کی۔
مثلاً کیا ہم دنیا میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک نہیں تھے اور کیا پھر ہم طالبان حکومت سے ٹکرانے والا پہلا ملک نہیں بنے؟ مثلاً کیا ہم ڈالروں کے لیے دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائین اسٹیٹ نہیں بنے؟ مثلاً کیا ہم نے امریکا کو متاثر کرنے کے لیے لال مسجد میں آپریشن کر کے تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد نہیں رکھی‘ یہ سب کیا تھا‘ کیا یہ چند ارب ڈالروں کا لالچ نہیں تھا جس نے ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا؟ آج ہماری حالت یہ ہے‘ ہمارے وزیراعظم یا صدر کسی ملک کے دورے پر جاتے ہیں تو یہ وہاں امداد کی جھولی پھیلا دیتے ہیں اور دنیا کا کوئی حکمران جب ہمارے ملک میں آ تا ہے تو ہم اس کے سامنے ’’وار اینڈ ٹیرر‘‘ آئی ڈی پیز اور سیلاب زدگان کا کشکول رکھ دیتے ہیں اور وہ ہمارے کشکول میں زکوٰۃ کے چند سکے ڈال دیتا ہے‘ہمیں ماننا ہو گا ہم اپنی 35 برس کی اس پالیسی کے صدقے دنیا میں لالچی اور بھکاری اسٹیبلش ہو چکے ہیں۔
ہم اب قومی بے حسی کی طرف آتے ہیں‘ ہم حکومتی اور عوامی دونوں سطحوں پر بے حس ہیں‘ حکومت کو دیکھئے‘ یہ 21 ویں ترمیم‘ ایپکس کمیٹیوں اور اسپیشل فورس کے انڈوں سے بچے نکلنے کا انتظار کر رہی ہے‘ ہمارے حکمران شہداء کے گھروں تک جانا پسند نہیں کرتے‘ شکار پور میں 30 جنوری کو جمعہ کی نماز کے دوران 70 لوگ شہید ہوئے اورپشاور میں 13 فروری کو 22 لوگ شہید ہو گئے لیکن میاں نواز شریف ‘ آصف علی زرداری اور عمران خان کسی نے وہاں جانا اور تعزیت کرنا گوارہ نہ کیا‘ لاہور میں 17فروری کو پولیس لائین کے سامنے خود کش حملہ ہوا لیکن وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اسلام آباد میں ترک وزیراعظم کو گارڈ آف آنر پیش کر رہے تھے۔
ترک وزیراعظم کی مہمان نوازی اپنی جگہ لیکن سوگ بھی تو ضروری تھا‘وہ کون منائے گا؟ وزیراعظم کم از کم اپنی پریس کانفرنس ہی میں لاہور کے شہداء کا ذکر کر دیتے‘ یہ آدھ گھنٹے کے لیے لاہور چلے جاتے یا پھر وزیراعلیٰ اپنی اگلی میٹنگ پولیس لائین میں رکھ لیتے تو کیا فرق پڑ جاتا؟ حکومت کو کیا نقصان ہوتا؟ اور ہمارے وزیر داخلہ کہاں ہیں؟ یہ امریکا میں پاکستانیوں کی بہادری کے قصے سنا رہے ہیں اور ہماری کابینہ نے کیا کیا؟ یہ بھی آج تک دہشت گردی کے خلاف باہر نہیں نکلی‘ یہ لوگ ’’ہم خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے‘ ہم دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘ جیسے کھوکھلے اور ٹھنڈے لفظوں کو اپنی پرفارمنس سمجھ رہے ہیں‘ وزیراعظم صاحب ایپکس کمیٹیوں کے اجلاس کو قوم سے خطاب میں تبدیل کرتے ہیں اور گھسے پٹے فقرے بول کر گھر چلے جاتے ہیں۔
یہ ہے ہماری دہشت گردی کے خلاف حکومتی پالیسی۔ آپ عوام کی بے حسی بھی ملاحظہ کیجیے‘ یہ لاش اٹھاتے ہیں‘ دفن کرتے ہیں اور امدادی چیک کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں اور پھر شکوہ کرتے ہیں‘ ہم دہشت گردی کے عذاب سے باہر نہیں آ رہے‘ کوئی انھیں بتائے بے حس قومیں عذابوں سے باہر نہیں آیا کرتیں۔ آپ اب نااہلی بھی ملاحظہ کیجیے‘ ہم پانچ برس سے حالت جنگ میں ہیں‘ ملک میں پہلا بم دھماکا جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوا تھا‘ ملک میں پہلا خود کش حملہ 19 نومبر 1995ء کو مصری سفارتخانے کے سامنے ہوااور ہم دس سال سے جنگ کے خطرناک فیز میں بھی ہیں۔
ہم نے ان دس برسوں میں جی ایچ کیو‘مہران ائیر بیس‘ کامرہ ائیر بیس‘سانحہ ایبٹ آباد‘ مناواں پولیس اکیڈمی اورمیریٹ ہوٹل اسلام آباد کے حملے بھی بھگتے اور اپنی مساجد‘ اسکول‘ امام بارگاہوں اور مذہبی اجتماعات کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنتے دیکھا‘ ہم نے ان دس برسوں میں 60 ہزار لاشیں اٹھائیں مگر حکومت آج تک عوام کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے کوئی ضابطہ نہیں بنا سکی‘ ہم آج تک عوام کو یہ نہیں بتا سکے، ہم غیر معمولی حالات کا شکار ہیں اور عوام جب تک ریاست کا ساتھ نہیں دیں گے، ہم اس وقت تک یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے‘ ہم نے آج تک مساجد‘ امام بار گاہوں‘ اسکولوں‘ شاپنگ سینٹروں‘ بازاروں اور سرکاری عمارتوں کی حفاظت کے لیے کوئی ضابطہ نہیں بنایا‘ ہم کم از کم عمارتوں کے داخلے اور خروج کے راستے ہی الگ کر دیتے‘ ہم شہروں میں داخلے کے پوائنٹ ہی طے کر دیتے اور ہم ان پوائنٹس پر کیمرے ہی لگا دیتے‘ ہم تاجر برادری اور عام شہریوں سے درخواست کردیتے یہ لوگ مل کر دس دس‘ بیس بیس کیمرے لگا دیتے اور ہم ایک سینٹرل آفس بناتے اور ان تمام کیمروں کی فیڈ اس آفس میں لے لیتے تو شہروں کی نگرانی کا مسئلہ حل ہو جاتا! ہم رضا کاروں کی محلہ کمیٹیاں ہی بنالیتے۔
یہ کمیٹیاں اپنے اپنے علاقوں پر نظر بھی رکھتیں اور محلے کو سیکیورٹی بھی فراہم کرتیں‘ ہم مخیر حضرات کی مدد سے مساجد اور امام بارگاہوں کے گیٹ ہی تبدیل کرا دیتے اور ہم اسٹوڈنٹس کی اسپیشل فورس بنا کر پورے ملک کو محفوظ بنا لیتے لیکن ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہے‘ہم آسمان سے فرشتوں کے اترنے کا انتظار کرتے رہے‘ کیا یہ نااہلی نہیں؟ اگر ہے تو اس کا ذمے دار کون ہے؟ آپ حکومت کو چھوڑ دیجیے‘ آپ اس عوام کی نااہلی بھی ملاحظہ کیجیے‘ جو اس ملک میں روز جنازے اٹھاتے ہیں‘ عوام 60 ہزار لاشیں اٹھا چکے ہیں لیکن انھوں نے آج تک قبرستان آباد کرنے کے سواکچھ نہیں کیا؟ کیا ہم عوام یہ نہیں جانتے ہمارے ملک میں دس سال سے بازار‘ سرکاری عمارتیں‘ اسکول‘ امام بارگاہ‘ مذہبی اجتماعات‘ اسپتال اور مساجد دہشت گردوں کی ٹارگٹ ہیں؟ اگرہم جانتے ہیں تو پھر ہم نے ان کی حفاظت کے لیے کیا کیا؟ کیا ہم لوگ حالات معمول پر آنے تک شاپنگ بند نہیں کر سکتے اوراگر شاپنگ ضروری ہو تو پھر ہم پورا خاندان ساتھ لے جانے کے بجائے ایک آدھ شخص کو بازار نہیں بھجوا سکتے؟ ہم نے اپنے بچوں کے اسکولوں کی حفاظت کے لیے کیا کیا؟ کیا ہم نے اسکول کی انتظامیہ سے ملاقات کی۔
کیا ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت اسکول کا گیٹ اور دیواریں بلند کرائیں‘کیا ہم نے اسکول میں داخلے اور خروج کے راستے تبدیل کرائے‘کیا ہم نے بچوں کو یہ ٹریننگ دی اسکول پر حملہ ہو جائے توآپ نے کہاں چھپنا ہے‘ آپ نے کس سائیڈ سے باہر نکلنا ہے؟ کیا ہم دس دس والدین روزانہ اسکول کی حفاظت کی ذمے داری نہیں سنبھال سکتے؟ کیا ہم ایسا بندوبست نہیں کر سکتے‘ ہمارے بچے اکٹھے اسکول پہنچنے کے بجائے آدھ‘ آدھ گھنٹے کی تاخیر سے آئیں تا کہ گیٹ پر رش نہ ہو‘کیا ہم ہنگامی حالات میں ’’ ای کلاسز‘‘ شروع نہیں کر سکتے ‘ بچے گھروں میں رہیں اور استاد انٹرنیٹ اور کیمرے کے ذریعے بچوں کو تعلیم دے دیں‘ کیا ہم ہنگامی حالات کی وجہ سے گھروں اور دفاتر میں نماز ادا نہیں کر سکتے‘ کیا ہم عارضی طور پر مذہبی اجتماعات پر پابندی نہیں لگا سکتے؟ کیا ہم اپنے علماء کرام سے درخواست نہیں کر سکتے جناب آپ انسانی جانیں بچانے کے لیے اجتماعات پر پابندی لگا دیں۔
کیا ہم مساجد کی حفاظت کا بندوبست نہیں کر سکتے‘کیا ہم عارضی طور پر مساجد اور امام بارگاہوں کی نچلی منازل خالی کر کے بالائی منزل پر جماعت کا اہتمام نہیں کر سکتے‘کیا ہم جماعت سے قبل مسجد کا گیٹ بند نہیں کرا سکتے‘کیا ہم دو جماعتوں کا اہتمام نہیں کر سکتے‘ ایک جماعت نماز پڑھے اور دوسری جماعت نمازیوں کی حفاظت کرے‘ یہ اہتمام اگر صحابہ کرامؓ کر سکتے تھے تو کیا ہم نہیں کر سکتے اور ہم کمزور عمارتوں اور چھوٹے گیٹس کی مساجد کی جماعتوں کو عارضی طور پر مضبوط اور بڑی مساجد میں شفٹ نہیں کر سکتے؟ ہم اپنی جانوں کی حفاظت خود کیوں نہیں کرتے؟ کیا ہم بھی اتنے ہی نااہل نہیں ہیں جنتی ہماری حکومت اور ہمارے ریاستی ادارے ہیں؟۔
ہم جب تک یہ نہیں مانیں گے‘ یہ60 ہزار لاشیں ہماری بہادری نہیں یہ ہماری بے حسی اور نااہلی ہیں‘ ہم اس وقت تک یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے‘ ہمیں ماننا ہو گا بے حسی اور نااہلی کے اس پرچم تلے ہم سب ایک ہیں‘ میاں نواز شریف اور ہم میں کوئی فرق نہیں اور دنیا میں نااہل‘ بے حس اور لالچی قوموں کے ساتھ یہی ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے‘ ہم میں سے چند مرتے ہیں اور باقی انھیں بھول جاتے ہیں اور بس۔
قوم نے میاں صاحب آپ کو
جاوید چوہدری جمعرات 19 فروری 2015

وہ دونوں گزر گئے اور ڈی آئی جی صاحب بچ گئے۔رانا یوسف گزرنے والوں میں شامل تھا‘ یہ سب انسپکٹر تھا‘ تھانہ شاہدرہ کی چوکی بیگم کوٹ میں تعینات تھا‘ معطل ہوا‘ پولیس لائین بھجوا دیا گیا‘ یہ 17 فروری کو پہلے دن نوکری پر پہنچا‘ قلعہ گوجر سنگھ پولیس لائین کے سامنے خود کش حملہ ہوا اور رانا یوسف زندگی کی سرحد پار کرگیا‘ وہ چلا گیا لیکن اس کی چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا پیچھے رہ گیا‘ محمد وقار دوسرا شکار تھا‘ یہ الیکٹریشن تھا‘ یہ اپنے بیٹے حسیب کو ملازمت دلانے پولیس لائین آیا‘ یہ باہر نکلا تو خودکش حملہ ہو گیا‘ محمد وقار بھی اپنی تمام ناآسودہ آرزوؤں کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گیا‘ یہ بھی چار بیٹیاں‘ دو بیٹے اور ایک مرلے کا مکان پیچھے چھوڑ گیا۔
ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف بھی ٹارگٹ ہو سکتے تھے‘ یہ میٹنگ کے لیے قلعہ گوجر سنگھ آئے‘ میٹنگ ختم ہوئی‘ یہ لائین سے نکلنے لگے تو اچانک رکے اور ایس پی ہیڈ کوارٹر کو ہدایات دینے لگے‘ یہ ایک منٹ کی تاخیر ان کی خوش نصیبی ثابت ہوئی‘ ان کے باہر نکلنے سے قبل خودکش حملہ ہو گیا‘ ڈاکٹر حیدر اشرف اگر ایک منٹ پہلے باہر آ جاتے تو یہ بھی بدنصیبوں میں شامل ہوتے لیکن یہ بچ گئے۔
ہم روزانہ 160 مرتبہ موت کے قریب سے گزرتے ہیں‘ ہم گاڑی میں سفر کرتے ہیں تو ہمارے دائیں بائیں آگے پیچھے موت بھی رواں دواں ہوتی ہے‘ ہمارے دائیں بائیں موجود گاڑیاں کسی بھی وقت ہم سے ٹکرا سکتی ہیں‘ آپ ایک لمحے کے لیے سوچئے دائیں جانب چلنے والی گاڑی‘ ہمارے پیچھے موجود گاڑی یا ہمارے آگے رواں دواں ٹرک کے ڈرائیور کو چھینک آ جائے‘ ڈرائیور کے دماغ کا الیکٹرک سرکٹ شارٹ ہو جائے‘ یہ اچانک دل پر دباؤ محسوس کرے یا پھر یہ اچانک خودکش حملہ آور بننے کا فیصلہ کر لے تو ہمارا کیا بنے گا؟ ہم جس سڑک پر چل رہے ہیں‘ یہ اچانک بیٹھ جائے‘ ہم جس پل سے گزر رہے ہیں‘ یہ ٹوٹ جائے‘ ہماری گاڑی پر بجلی کا کھمبا گر جائے‘ ہمیں چھینک آ جائے یا ہمارے ڈرائیور کو دوران ڈرائیونگ ہارٹ اٹیک ہو جائے‘ ہم جس عمارت میں بیٹھے ہیں وہ نیچے آ جائے‘ دفتر کی چھت گر جائے‘ ہم اپنے بیڈ پر آرام سے سو رہے ہوں‘ زلزلہ آئے اور ہمارا مکان ہمارا مقبرہ بن جائے۔
ہماری سانس کی نالی میں پانی پھنس جائے‘ ہماری خوراک میں وائرس آ جائے اور ہم قے کرتے کرتے دنیا سے گزر جائیں‘ ہم تمام انسان ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ یہ بیماریاں کسی بھی وقت ’’ایکٹویٹ‘‘ ہو سکتی ہیں‘ ہمارا پتہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے‘ ہمارے گردے‘ ہمارے پھیپھڑے‘ ہمارا دماغ‘ ہمارا دل اور ہمارا اعصابی نظام کسی بھی وقت جواب دے سکتا ہے‘ ہماری سانس کسی بھی وقت رک سکتی ہے اور کچھ بھی نہ ہو تو ہم کسی بھی وقت‘ کسی بھی خودکش حملہ آور کا نشانہ بن سکتے ہیں‘ بالکل اس طرح جس طرح سب انسپکٹر رانا یوسف اور الیکٹریشن محمد وقار بن گئے یا پھر راہ گیر محمد عباس بن گیا یا پھر کانسٹیبل احمد بن گیا یا پھر وہ نامعلوم شخص بن گیا جو 17 فروری 2015ء کو قلعہ گوجر سنگھ پولیس لائین کے سامنے سے گزر رہا تھا‘ خودکش حملہ ہوا اور وہ بھی جان سے گزر گیا اور ریاست دو دن گزرنے کے باوجود اس بے گناہ کا نام تک معلوم نہ کر سکی‘ یہ کون تھا‘ وہ کہاں سے آیا اور وہ کیوں مر گیا‘ کوئی نہیں جانتا‘ موت روزانہ ڈاکٹر حیدر اشرف‘ محمد وقار اور رانا یوسف کی طرح 160 مرتبہ ہمارے قریب سے گزرتی ہے۔
ہم میں سے کچھ لوگ روزانہ محمد وقار اور رانا یوسف بن جاتے ہیں اور کچھ ڈاکٹر حیدر اشرف۔ ہم میں سے کچھ لوگ حیدر اشرف کیوں بنتے ہیں؟ اس لیے کہ موت ان پر توجہ نہیں دیتی اور یہ روزانہ بچ کر گھر واپس آ جاتے ہیں‘ ہم روز اپنے بستر پر سوتے ہیں اور صبح صحیح سلامت اٹھ جاتے ہیں اور یہ بھی بھول جاتے ہیں ہمارے اوپر پوری رات موت منڈلاتی رہی ‘ ہم روز یہ بھی بھول جاتے ہیں‘ ہم میں اور محمد وقار اور سب انسپکٹر رانا یوسف میں کوئی فرق نہیں تھا‘ وہ بھی ہماری طرح گوشت پوست کے انسان تھے اور ہم بھی ان کی طرح عام‘ کمزور‘ بے بس اور لا چارے لوگ ہیں‘ بس ان میں اور ہم میں صرف ایک فرق تھا‘ وہ آج نشانہ بن گئے اور ہم شاید کل‘ پرسوں یا اس سے اگلے دن اپنے دائیں بائیں گزرنے والی موت کا نشانہ بن جائیں گے‘ دنیا میں روزانہ ڈیڑھ لاکھ لوگ زندگی کی سرحد عبور کرتے ہیں‘ ان ڈیڑھ لاکھ لوگوں میں ایک چوتھائی لوگ اہم‘ اہم ترین اور ناگزیر ہوتے ہیں‘ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود کو زندگی کی آنکھ سمجھتے ہیں‘ جو یہ کہتے ہیں ہم جس دن بجھ جائیں گے دنیا میں اس دن سارے منظر بیوہ ہو جائیں گے۔
ہمارے بعد سورج تو نکلے گا لیکن اس کی روشنی سے رنگ غائب ہو جائیں گے‘ پھول تو کھلیں گے لیکن پھولوں میں رنگ اور خوشبو نہیں ہو گی‘ فصلیں بھی اگیں گی‘ درخت بھی زمین سے بلند ہوں گے مگر فصلوں سے غذائیت اور درختوں سے پھل اور پتوں سے سائے رخصت ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوتا‘ یہ لوگ بھی محمد وقار اور رانا محمد یوسف کی طرح دنیا سے چپ چاپ رخصت ہو جاتے ہیں اور وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف دھنیں بجا کر ترکی کے وزیراعظم کا استقبال کرتے ہیں‘ محمد وقار اور رانا یوسف کی بیٹیاں بال کھول کر بین کرتی ہیں اور حکومت جھک کر اپنے ترک بھائی کا شکریہ ادا کرتی ہے‘ دنیا میں کچھ نہیں بدلتا‘ بس ہم دنیا میں نہیں رہتے اور یہ اس بے مہر‘ بے مروت اور بے وفا گولے کی وہ حقیقت ہے جسے ہم سب روزانہ فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ ہم جسے روز آنکھ بند کر کے مسترد کر دیتے ہیں۔
وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف یہ دونوں ترکی کی محبت میں گرفتار ہیں‘ یہ محبت جائز بھی ہے کیونکہ ترکی قابل محبت ملک ہے لیکن میری میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف دونوں سے درخواست ہے آپ جب بھی استنبول جائیں‘ آپ شہر کے مزارات کا دورہ ضرور کریں‘ یہ شہر ترک سلطانوں کا قبرستان ہیں‘ استنبول شہر میں 30 ترک بادشاہ دفن ہیں اور یہ وہ لوگ تھے جن کی سلطنت چین سے لے کر مراکش تک اور کابل سے لے کر ویانا تک پھیلی تھی‘ یہ تین براعظموں کے سلطان تھے‘ ان میں وہ سلطان بھی شامل تھا جسے تاریخ میں پہلی بار خادم الحرمین الشریفین کا خطاب دیا گیا اور وہ سلطان محمد فاتح بھی جنھیں نبی اکرم ؐ نے جنت کی بشارت دی اور وہ سلطان سلیمان بھی جو سلطان دی گریٹ کہلایا اور آپ کے پاس اگر وقت ہو تو آپ استنبول سے بورسا چلے جائیں‘ آپ انا طولیہ‘ انقرہ اور قونیہ کا چکر لگا لیں اور آپ وہاں مدفون سلطانوں اور بادشاہوں کے مقبرے بھی دیکھ لیں ‘ آپ اگر امیر تیمور کے ازبکستان اور مغل بادشاہوں کے انڈیا میں بھی جھانک لیں اور آپ ہندو سرزمین پر مدفون 33 مغل بادشاہوں کے مقابر کو بھی ایک لمحے کے لیے دیکھ لیں تو آپ کو دنیا کی حقیقت سمجھ آ جائے گی۔
ترک سلطان اقتدار کو شراکت سے بچانے کے لیے اپنے بھائیوں کے سر اتار دیا کرتے تھے‘ مغل بادشاہ حکومت کے دعوے داروں کو قلعوں میں پھینک دیتے تھے‘ قیدی شہزادوں کو روزانہ دس پیالے بھنگ پینے پر مجبور کرتے تھے اور وہ بے چارے نشے میں دھت پڑے پڑے زندگی کی سرحد پار کر جاتے تھے مگر پھر وہ سلطنتیں کہاں گئیں‘ وہ بادشاہ کہاں گئے‘ ان کے صاحبزادے‘ ان کے صاحبزادوں کا تکبر‘ ان کے وہ محلات جن کے لیے دریاؤں کے راستے بدل دیے جاتے تھے‘ پہاڑ کاٹ دیے جاتے تھے اور وہ باغات جن کو روشنی اور منظر دینے کے لیے پورے پورے شہر جلاوطن کر دیے جاتے تھے اور ان کے وہ خزانے جن میں کوہ نور بھی ہوتا تھا اور تخت طاؤس بھی‘ وہ سب کہاں چلے گئے‘ یہ دنیا عجیب جگہ ہے اس میں سکندر ہوں‘ دارا ہوں‘ تیمور ہوں‘ سلیمان عالی شان ہوں یا پھر ہٹلر اور میسولینی ہوں یہ تمام لوگ دنیا سے خالی ہاتھ واپس چلے جاتے ہیں اور ہم نے بھی کسی دن محمد وقار اور سب انسپکٹر رانا یوسف کی طرح اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے‘کب رخصت ہونا ہے؟
یہ فیصلہ موت کے ان 160 بہانوں میں سے کوئی ایک بہانہ کرے گا جو روزانہ ہمارے اردگرد سے گزرتے ہیں اور ہم گردن اکڑا کر ان کے قریب سے گزر جاتے ہیں‘ دنیا سے اگر حاکم علی زرداری چلے گئے‘ میاں شریف اور میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی عباس شریف چلے گئے اور عمران خان کے والد اکرام اللہ خان نیازی اور والدہ شوکت خانم چلی گئیں اور خان عبدالولی خان اور خان باچا خان چلے گئے اور مفتی محمود جیسے متقی اور پرہیز گار چلے گئے تو کیا مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار ولی‘ میاں شہبا زشریف‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری ہمیشہ اس دنیا میں رہیں گے‘ یہ کبھی محمد وقار اور سب انسپکٹر رانا یوسف نہیں بنیں گے؟ کیا کبھی ان کی نماز جنازہ نہیں ہو گی‘ کیا یہ کبھی تدفین کے عمل سے نہیں گزریں گے؟ یقینا یہ بھی محمد وقار او رانا یوسف بنیں گے لیکن رانا یوسف اور محمد وقار اور ان میں ایک فرق ہمیشہ رہے گا۔
اللہ تعالیٰ شاید محمد وقار اور رانا یوسف کی معافی قبول کر لے لیکن یہ لوگ شاید بار گاہ خدا وندی میں معافی کے حق دار نہ ٹھہریں‘ کیوں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محمد وقار اور رانا یوسف کو اختیار اور اقتدار نہیں دیا تھا‘ یہ ایک مرلے کے گھر میں رہنے والے وہ بے بس لوگ تھے جنھیں پوری زندگی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوا جب کہ اللہ تعالیٰ نے میاں برادران‘ عمران خان‘ آصف علی زرداری اور ان جیسے تمام اقتدار اعلی خانوں کو اقتدار اور اختیار سے نواز رکھا تھا‘ یہ محمد وقار اور رانا یوسف کی بیواؤں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم ہونے سے بچا سکتے تھے‘ یہ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے 60 ہزار لوگوں کی جان بچا سکتے تھے لیکن یہ خاموش بھی رہے اور ان کی کارکردگی دوروں‘ ملاقاتوں‘ میٹنگز اور بیانات تک محدود بھی رہی‘ یہ لوگ زندگی بھر کوٹ سے گرد جھاڑنے کو کارکردگی اور لواحقین کے لیے پانچ لاکھ روپے امداد کو پرفارمنس کہتے رہے‘ یہ لوگ اس غفلت پر کبھی معافی کے دروازے سے نہیں گزر سکیں گے۔
میاں صاحب! دنیا میں مرنے والے لوگ بہادر نہیں ہوتے‘ مرنے والوں کو بچاتے بچاتے مرنے والے بہادر ہوتے ہیں مگر ہم نے دہشت گردوں کا نشانہ بننے کو بہادری سمجھ لیا ہے‘ ہم دعویٰ کرتے ہیں ہم ساٹھ ہزار جانوں کی قربانی دے کر بھی زندہ ہیں‘ کیا ہمارے پاس ساٹھ ہزار قربانیوں کے بعد زندہ رہنے کے علاوہ کوئی آپشن تھا؟ افریقہ میں گیارہ ایسے ممالک ہیں جہاں ایک کروڑ سے زائد لوگ جنگوں کی نذر ہو چکے ہیں‘ اگر لاشیں بہادری کا معیار ہوتیں تو پھر وہ لوگ‘ وہ قومیں اور ان قوموں کی لیڈر شپ ہم سے زیادہ بہادر‘ ہم سے زیادہ جرأت مند ہے‘ مرنا بہادری نہیں ہوتا‘ مرنے سے بچنا اور دوسروں کو بچانا بہادری ہوتا ہے۔
امریکا میں 2001ء میں نائین الیون ہوا‘ اس نائین الیون میں دو ہزار نو سو چھیانوے امریکی مارے گئے لیکن امریکا نے اس کے بعد دوسرا نائین الیون نہیں ہونے دیا‘ یہ بہادری ہوتی ہے! وہ لوگ بہادر ہیں ہم نہیں‘ چرچل سے دوسری جنگ میں فوجی نے کہا تھا ’’ ہم مرنے کے لیے تیار ہیں‘‘ چرچل نے غصے سے جواب دیا ’’ میں تمہیں مرنے کے لیے جنگ پر نہیں بھیج رہا‘ مارنے کے لیے بھیج رہا ہوں‘‘ قوم نے میاں صاحب آپ کو مذمتی بیانات جاری کرنے اور شہداء کے لیے امدادی پیکیج جاری کرنے کے لیے وزیراعظم نہیں بنایا‘ قوم نے آپ کو مسائل حل کرنے کے لیے ایوان اقتدار میں بھیجا تھا‘ آپ محمد وقار اور رانا یوسف بننے سے پہلے قوم کو بچا لیجیے ورنہ آپ سلطان محمد فاتح اور سلطان سلیمان عالی شان سے بڑے حکمران نہیں ہیں۔

جگنو کی مسکراہٹ
جاوید چوہدری منگل 17 فروری 2015

میں نے اتوار کے دن جس کو بھی فون کیا ، وہ پاکستانی ٹیم کی ہار پر دل برداشتہ ہو کر سو چکا تھا، اتوار کا دن تھا، لوگ چھٹی کے دن دیر سے جاگتے ہیں لیکن میچ کیونکہ صبح ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوا لہٰذا دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں کو جلدی جاگنا پڑ گیا، میچ شروع ہوااور بھارتی بیٹسمینوں نے ہمارے باؤلرز کو دھونا شروع کر دیا، محمد عرفان نے 58 رنز دے دیے، یاسر شاہ آیا، 60 سکور دے کر گیا اورشاہد آفریدی نے 50 اوروہاب ریاض نے 49 رنز دے دیے، بھارت نے 300 سکور کر لیا، پاکستانی قوم کو پہلے ہاف میں اپنی شکست کا اندازہ ہو گیا مگر ہم کیونکہ معجزوں پر یقین رکھتے ہیں، چنانچہ ہم نے اتوار کو بھی معجزے کا انتظار شروع کر دیا۔
ہم میچ دیکھتے تھے، تسبیح رولتے تھے، یااللہ تیرا ہی آسرا، یاپروردگار اپنے پیارے حبیب کے صدقے ہمیں فتح یاب فرما دے اور یا علی مدد کے نعرے لگاتے تھے اور کافر بالرز کے ہاتھوں اہل ایمان کی وکٹیں اڑتے دیکھتے تھے اور اگلے بیٹسمین کو محمود غزنوی بنا کر معجزوں کی تمام امیدیں اس سے وابستہ کر لیتے تھے، یہ سلسلہ ساڑھے تین گھنٹے تک جار رہا لیکن معجزہ نہ ہوا، کرکٹ کرکٹ ہی ثابت ہوئی، ہم ہار گئے اور ہم سے بہتر ٹیم جیت گئی، قوم کا حوصلہ ٹوٹ گیا اور لوگ غم منانے کے لیے رضائیوں میں گھس گئے، نادان قومیں خوشی ہو یا غم سو کر مناتی ہیں اور اتوار کا دن ہم سب نے اسی طرح گزارا، قوم شام کے وقت جاگی تو اس نے کرکٹ ٹیم کو لعن طعن شروع کر دی، ہمارے تمام ٹیلی ویژن چینلز، ہمارا سارا سوشل میڈیا اور ہماری تمام محفلیں تین دن سے اسی لعن طعن میں مصروف ہیں۔
ہماری کرکٹ ٹیم نے زیادتی کی، ہمارے کھلاڑیوں کو قوم کو مایوس نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن سوال یہ ہے کیا یہ ظلم صرف ہماری کرکٹ ٹیم نے کیا؟ کیا ہم باقی تمام شعبوں کے ورلڈ کپ جیت چکے ہیں؟ کیا ہماری معاشی ٹیم نے ملک کو کشکول سے آزاد کر دیا، کیا ہماری بجلی کی ٹیم نے لوڈ شیڈنگ کا ورلڈ کپ جیت لیا، کیا ہماری گیس کی ٹیم نے قوم کو سردیوں میں سرخرو کر دیا، کیا پٹرول کی ٹیم نے ملک کو پٹرولیم کرائسس سے نکال لیا، کیا پولیس کی ٹیم نے ملک میں لاء اینڈ آرڈر مضبوط کر دیا، کیا انصاف کی ٹیم نے بے انصافی کے خلاف میچ جیت لیا، کیا ہماری خارجہ پالیسی کی ٹیم نے سفارت کاری کے ورلڈ کپ جیت لیے، کیا ہماری پانی کی ٹیم نے ملک میں پانی کے مسائل کو شکست دے دی۔
کیا ہماری دہشت گردی کی ٹیم نے لاشیں گرانے والوں کو ہرا دیا، کیا ہماری بیورو کریسی کی ٹیم نے ریڈ ٹیپ ازم کو شکست دے دی، کیا ہم نے’’ کم بچے پیدا کریں‘‘ کا میدان مار لیا، کیا ہم نے ملک میں جعلی ادویات کی جنگ جیت لی، کیا ہم نے پولیو ویکسین کے خلاف جاری مذہبی جنگ کا مقابلہ کر لیا، کیا ہم لاؤڈ اسپیکر، نفرت آمیز تقریروں اور مذہبی شدت پر مبنی لٹریچر کے خلاف کامیاب ہو گئے، کیا ہم نے ملک میں جاری شیعہ سنی لڑائی ختم کرا دی، کیا ہم نے ملک میں ڈاکٹروں، سرجنوں اور نرسوں کی جان بچا لی، کیا ہم نے ملک میں ڈاکوؤں، چوروں اور نوسر بازوں کا مقابلہ کر لیا اور کیا ہم نے جیلوں میں قید سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی دے لی؟ نہیں ہر گز نہیں، ہماری تمام قومی ٹیمیں اس طرح شرمندہ ہیں جس طرح ہماری کرکٹ ٹیم اور یہ شرمندگی قومی ہے! قوموں میں جزیرے نہیں ہوتے، یہ مکمل ہوتی ہیں، ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ، ذمے دار یا غیر ذمے دار ۔
آپ دنیا کا نقشہ سامنے بچھائیے اور دنیا کو غور سے دیکھئے، آپ دیکھیں گے، دنیا کی تمام ترقی یافتہ اقوام زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی یافتہ ہیں، امریکا اگر فوجی لحاظ سے سپر پاور ہے تو یہ معیشت، سفارت کاری، تعلیم، ریسرچ، انصاف، فلم، میوزک اور کتاب بینی میں بھی سپر پاور ہے، یہ ہوا بازی، اسپورٹس، سیاست، کلچر، تعمیرات اور صفائی میں بھی دنیا میں ،،نمبر ون،، ہے اور یورپ اگر ’’اسٹیبل لیونگ‘‘ میں ہے تو یہ دنیا کے تمام شعبوں میں ،،اسٹیبل،، ہے، یہ آپ کو فوج، پولیس، عدلیہ، یونیورسٹی، اسپورٹس، فلم، میوزک، فیشن، کتاب اور سیاست غرض زندگی کے تمام شعبوں میں اسٹیبل دکھائی دے گا، چین اگر دنیا میں آگے بڑھ رہا ہے تو یہ آپ کو زندگی کے تمام شعبوں میں آگے بڑھتا دکھائی دے گا۔
آپ اگر چین کو صنعتی میدان میں تیزی سے آگے دوڑتا دیکھتے ہیں تو آپ کو یہ میوزک، فلم، کتاب، اسپورٹس، لاء اینڈ آرڈر، انصاف، تعلیم، تحقیق اور سیاست میں بھی سرپٹ بھاگتا دکھائی دے گا اور آپ اگر کسی ملک کو سیاسی لحاظ سے پسماندہ دیکھتے ہیں تو آپ کو وہ ملک فوجی، ثقافتی، تعلیمی، صنعتی، سماجی اور ادبی لحاظ سے بھی پسماندہ ملے گا، آپ کو وہ اسپورٹس کے شعبے میں بھی مار کھاتا نظر آئے گا، ترقی ہو یا پسماندگی یہ دونوں گلدستے کی طرح ہوتی ہیں، ترقی کے گلدستے کے تمام پھول تازہ، خوبصورت اور خوشبودار ہوتے ہیں جب کہ پسماندگی کے گلدستے کے تمام پھول باسی، بدبودار اور بے رنگ ہوتے ہیں اور اگر خوش قسمتی سے کبھی پسماندگی کے گلدستے میں کوئی خوبصورت، خوشبودار اور تازہ پھول آ بھی جائے تو بھی وہ زیادہ دیر تک گلدستے میں رہ نہیں سکتا، ترقی کا کوئی نہ کوئی ہاتھ بہت جلد اس تازہ پھول کو اچک لیتا ہے۔ ہم من حیث القوم مار کھا رہے ہیں۔
آپ آنکھ کھول کر دیکھیں گے تو آپ کو یہ مار ملک کے ہر شعبے میں نظر آئے گی، آپ کو پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل، واپڈا اور واسا بھی اس بحران کا شکار ملے گا جس بحران کا شکار ہماری کرکٹ ٹیم تھی، یہ تمام محکمے بھی میچ میں اسی طرح آؤٹ ہوتے ہیں جس طرح اتوار کو یونس خان، صہیب مقصود اورعمر اکمل آؤٹ ہوئے اور یہ محکمے اگر کبھی عمران خان کی طرح ورلڈ کپ جیت بھی لیں توپھر ہماری ٹیم کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو 1992ء کے بعد ہماری ٹیم کے ساتھ ہوتا آ رہا ہے، ہم ٹیم بناتے ہیں، ہم اس ٹیم سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں اور پھر ہماری امیدیں پانی کے بلبلے کی طرح ہوا میں پھٹ جاتی ہیں، ہم دوبارہ پرانی پوزیشن پر آ جاتے ہیں۔
میں کل سے سن رہا ہوں، ہمارا کرکٹ بورڈ ٹھیک نہیں، یہ لوگ نااہل بھی ہیں، کرپٹ بھی اور نالائق بھی، یہ الزام درست ہوگالیکن کیا ہم باقی شعبوں میں لائق، ایماندار اور اہل ثابت ہو رہے ہیں، ہم اگر زندگی کے باقی شعبوں میں نالائق، کرپٹ اور نااہل ہیں تو پھر ہم کرکٹ میں لائق، ایماندار اور اہل کیسے ہو سکتے ہیں، ہماری رگوں میں اگر گندہ خون ہو گا تو پھر ہم کیسے توقع رکھ سکتے ہیں، ہمارے کان خراب ہو جائیں لیکن ہماری ناک اور پلکیں خوبصورت رہیں، کیا یہ ممکن ہے؟ یہ ممکن نہیں جناب!۔
ہمارا المیہ کیا ہے؟ ہمارے دو بڑے المیے ہیں، ہمارا پہلا المیہ ترقیاتی کام ہیں، یورپ، امریکا اور مشرق بعید کے ترقی یافتہ ممالک نے آج سے ستر سال قبل تمام ترقیاتی کام مکمل کر لیے تھے، ترقی یافتہ قوموں کو جتنے ڈیم، ریل کی پٹڑیاں، بجلی کے منصوبے، اسٹیل ملیں، ائیر لائینز، ائیر پورٹس، سڑکیں، پل، پارکس، اسٹیڈیم اور اسکول چاہیے تھے، انھوں نے بنا لیے، یہ اب اپنے بجٹ کا آدھے سے زیادہ حصہ سماجی ترقی پر لگاتی ہیں، یہ انصاف، تعلیم، اسپورٹس، فلم، میوزک، بچوں کی بہبود، ماحولیاتی آلودگی، صنعت اور کاروبار پر سرمایہ کاری کررہی ہیں جب کہ ہم ابھی تک ترقیاتی کاموں سے فارغ نہیں ہوئے، ہم نے ابھی ڈیم، ائیرپورٹس، سڑکیں، نہریں، پل، ریل کی پٹڑیاں، اسٹیل ملیں، پبلک ٹرانسپورٹ کا سسٹم، پانی کا نظام، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنانی ہیں چنانچہ ہمارے بجٹ کا زیادہ تر حصہ ان سرگرمیوں پر خرچ ہو جاتا ہے، ہمارے پاس قوم کو بنانے، سمجھانے اور سنوارنے کے لیے رقم ہی نہیں بچتی، ہم سماجی بہبود پر سرمایہ خرچ نہیں کر پاتے، ہم لوگوں کو یہ نہیں سمجھا پاتے ہاتھ دھونا، ایکسرسائز کرنا، لائین بنانا، پانی ابال کر پینا اور کتابیں پڑھنا کیوں ضروری ہوتا ہے چنانچہ ہم سماجی لحاظ سے ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں لوگوں کو بولنے تک کی تمیز نہیں، ہم اختلاف کرتے ہوئے لڑ پڑتے ہیں اور لڑتے لڑتے ہنس پڑتے ہیں، ہم اکیسویں صدی میں بھی سڑکوں پر کاغذ، شاپنگ بیگز اور چھلکے پھینکتے ہیں ، ہماری مسجدوں تک میں صفائی نہیں ہوتی، کیوں؟ کیونکہ ہم اپنا زیادہ تر وقت اور سرمایہ ترقیاتی کاموں پر خرچ کر رہے ہیں، ہمارے پاس سماجی ترقی اور انسانی وسائل کے لیے وقت اور سرمایہ نہیں بچتا چنانچہ ہمارے لوگ پیچھے رہ گئے ہیں اور ہمارا دوسرا المیہ ترقی سے نفرت ہے، ہم آج بھی ترقی سے نفرت کرتے ہیں، آپ اپوزیشن کے تمام بیانات نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو یہ لوگ ترقیاتی کاموں کی مخالفت کرتے نظر آئیں گے، یہ لوگ آپ کو میٹرو بس سروس، موٹروے، ڈیمز، دانش اسکولوں اور بجلی کے منصوبوں پر تلواریں لہراتے نظر آئیں گے، آپ کو عام لوگوں میں بھی یہ رویہ نظر آئے گا، یہ آج کے دور میں بھی فیکٹریوں، شاپنگ سینٹروں، دکانوں، زمین اور ہاؤسنگ اسکیموں کے مالکان کو گالی دیں گے، یہ ٹیکس دینے والوں کو برا کہیں گے، ہمارے لوگ فیکٹریاں، دکانیں، اسکول، یونیورسٹیاں اور سڑکیں بند کرنا کارنامہ سمجھتے ہیں۔
یہ واپڈا اور گیس کے دفاتر اور پٹرول پمپوں کو آگ لگانے کا بہانہ تلاش کرتے رہتے ہیں، حکومت سڑک بناتی ہے اور یہ کبھی بجلی کی تار بچھانے، کبھی گیس کا پائپ گزارنے اور کبھی سیوریج کی لائین بچھانے کے لیے وہ سڑک توڑ دیتے ہیں اور باقی زندگی سڑک پر ٹھڈے کھاتے گزار تے ہیں چنانچہ جو قوم 21 ویں صدی میں ترقی کے خلاف ہو وہ قوم خاک ترقی کرے گی؟ ہمیں یہ دونوں المیے دور کرنا ہوں گے، ہم جتنی جلد ترقیاتی کام مکمل کر لیں گے ہمیں اتنی ہی جلدی سماجی ترقی کے لیے وسائل اور وقت مل جائے گا اور ہم جتنی جلد ترقی سے محبت شروع کر دیں گے، ہم اتنا جلد ،، کمفرٹ ایبل لیونگ،، میں آ جائیں گے، ہم اتنی ہی جلد مسائل سے باہر آ جائیں گے۔
ہم جب تک پوری قوم کو نہیں بدلتے ہمیں اس وقت تک اپنی کرکٹ ٹیم سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ یہ امیدیں اگر پوری بھی ہو گئیں تو بھی یہ اندھیرے میں جگنوں کی مسکراہٹ سے زیادہ چمک نہیں دے سکیں گے، امید کا شعلہ اٹھے گا، پھڑپھڑائے گا اور پھر بجھ جائے گا، کیوں؟ کیونکہ قومیں مکمل ہوتی ہیں ان میں جزیرے نہیں ہوتے۔
’’ملک کے ایک سابق صدر انتقال کر گئے‘‘
جاوید چوہدری اتوار 15 فروری 2015

فیلڈ مارشل ایوب خان پاکستان کے پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے، انھوں نے 27 اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء لگایا، سکندر مرزا صدر پاکستان تھے، ایوب خان نے سکندر مرزا کو معزول کرنے کا فیصلہ کیا، میجر جنرل یحییٰ خان اور میجر جنرل عبدالحمید نے استعفیٰ تیار کیا، میجر جنرل عبدالمجید ملک نے یہ استعفیٰ ٹائپ کیا اور جنرل اعظم خان، جنرل ڈبلیو اے برکی اور جنرل کے ایم شیخ یہ استعفیٰ لے کر ایوان صدر پہنچ گئے۔
سکندر مرزا کا استعفیٰ ٹائپ کرنیوالے جنرل عبدالمجید ملک فوج سے ریٹائر ہوئے، سیاست میں آئے، پاکستان مسلم لیگ، جونیجو لیگ، ن لیگ اور ق لیگ سے ہوتے ہوئے آج کل خاموش زندگی گزار رہے ہیں، سکندر مرزا نے استعفے پر دستخط کر دیئے اوریوں ملک میں مارشل لاؤں کا دھانہ کھل گیا، جنرل ایوب خان اکتوبر 1958ء سے مارچ 1969ء تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔
ہم اگر پاکستان کی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیں تو ہمیں ماننا پڑیگا ایوب خان کا دور اچھائیوں اور برائیوں کا عظیم مرکب تھا، برائیوں میں مارشل لاؤں کا آغاز، پاکستان کا امریکا کی طرف یک طرفہ جھکاؤ، مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جراثیم ، ریاست کا ویلفیئر کی بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ بن جانا اور ملک میں ابن الوقت سیاستدانوں کی نرسری جیسے کارنامے شامل ہیں جب کہ اچھائیوں میں انفرا سٹرکچر، اداروں کا آغاز اور پاکستان کی عالمی پذیرائی جیسے کارنامے شامل ہیں، ہم ملک میں جب بھی ترقیاتی کاموں کی تاریخ لکھیں گے ہمیں ایوب خان کی خدمات کا اعتراف کرنا پڑے گا، پاکستان میں بجلی ہو، گیس ہو، سڑکیں ہوں، پل ہوں، ڈیمز ہوں، دریا اور نہریں ہوں، ریلوے ہو، پی آئی اے ہو، تعلیمی نظام ہو، ٹیلی فون ہو یا پھر ٹیلی ویژن ہو آپ ایوب خان کی خدمات اور وژن کو سلام پیش کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔
گوہر ایوب فیلڈ مارشل ایوب خان کے صاحبزادے ہیں، یہ فوج میں کیپٹن تھے، ایوب خان کے حکم پر گوہر ایوب کو صدر کا اے ڈی سی بنا دیا گیا، یہ تین سال صدر کے اے ڈی سی رہے، گوہر ایوب نے بعد ازاں فوج سے استعفیٰ دیا، کاروبار شروع کیا، سیاست میں آئے اور ملکی تاریخ کے مختلف ادوار میں رکن قومی اسمبلی، اسپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر رہے، یہ میاں نواز شریف کے سابق دور میں وزیر خارجہ اور پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر بھی رہے، یہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان مسلم لیگ ق میں چلے گئے، گوہر ایوب کے صاحبزادے عمر ایوب شوکت عزیز کی کابینہ میں خزانہ کے وزیر مملکت بھی رہے، یہ دونوں باپ بیٹا آج کل دوبارہ پاکستان مسلم لیگ ن میں ہیں۔
گوہر ایوب نے چند برس قبل اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب شائع کرائی، میں نے کل یہ کتاب ختم کی، یہ سیاسی معلومات کا خزانہ ہے، آپ ایوان اقتدار میں پرورش پانے والی سازشیں بھی دیکھتے ہیں اور بڑے بڑے لیڈروں کے اصل چہرے بھی، کتاب میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جن پر ہم مہینوں بات کر سکتے ہیں لیکن مجھے ایوب خان کے ذاتی کردار کے حوالے نے زیادہ متاثر کیا، یہ واقعات ماضی کے حکمرانوں کے ذاتی کردار کی اس عظمت کا اظہار ہیں جو آج کے حکمرانوں میں مفقود ہے، آپ ایوب خان کی زندگی کے واقعات ملاحظہ کیجیے اور اس کے بعد موجودہ حکمرانوں کی ذات دیکھئے۔
آپ کو زمین آسمان کا فرق محسوس ہوگا مثلاً ایوب خان نے جب سکندر مرزا کو معزول کر کے لندن جلاوطن کیا تو بیگم اصفہانی نے سکندر مرزا اور ناہید مرزا کو رخصت کرنے کے لیے ائیر پورٹ جانے کی اجازت مانگی، ایوب خان نے نہ صرف انھیں اجازت دے دی بلکہ انھیں یہ پیش کش کی ،،آپ اگر ان کے ساتھ لندن تک جانا چاہیں تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں،، ایوب خان نے سکندر مرزا کے لیے دو پنشن شروع کرا دیں، ایک ملازمت کی پنشن اور دوسری صدارت کی پنشن، ایوب خان نے سکندر مرزا کے صاحبزادے ہمایوں مرزا کو فون کر کے کہا ،،آپ کے والد میرے بہت اچھے دوست ہیں۔
وہ جلاوطن ہوئے ہیں لیکن آپ اور آپ کے خاندان کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی،، ایوب خان نے سکندر مرزا کی کابینہ کے کسی وزیر کو برطرف نہیں کیا، پرانی کابینہ نئے صدر کے ساتھ کام کرتی رہی، سابق صدر کے ملٹری سیکریٹری، اے ڈی سی اور پرنسپل سیکریٹری بھی برقرار رہے، ایوان صدر کا باورچی تک نوکری پر قائم رہا، سکندر مرزا متوسط قامت کے مالک تھے جب کہ ایوب خان لمبے تھے، ایوب خان سکندر مرزا کے بیڈ پر نہیں آتے تھے لیکن نئے صدر نے پرانے صدر کا بیڈ تبدیل کرنے کی بجائے بیڈ کا فٹ بورڈ ہٹا یا، دوکشن سٹول لگائے اور وہ اس چھوٹے بیڈ پر سوتے رہے، صدر نے سیاستدانوں کو ،،ایبڈو،، جیسے قانون کے ذریعے ڈس کوالی فائی کر دیا، ایبڈو کی وجہ سے ملک کے بڑے بڑے سیاستدان سیاست سے فارغ ہو گئے لیکن ایوب خان بعدازاں ان سیاستدانوں سے ملاقات کرتے رہے۔
یہ ان کی خوشی غمی کی تقریبات میں بھی شریک ہوتے تھے، یہ مری میں ممتاز دولتانہ کے خاندان سے بھی ملتے تھے اور پولیس نے جب خان عبدالقیوم خان کو ریلی نکالنے پر گرفتار کر لیا تو خان صاحب نے صدر کو خط لکھا ،،آپ ملک سے باہر جا رہے ہیں، پولیس آپ کی غیر موجودگی میں میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گی،،۔ ایوب خان کو یہ خط ائیرپورٹ پر ملا، صدر نے جہاز پر سوار ہونے سے قبل خان عبدالقیوم خان کی رہائی کا حکم جاری کر دیا، ایوب خان سادہ کھانا کھاتے تھے، وہ گلاس میں صرف اتنا پانی ڈالتے تھے جتنا انھوں نے پینا ہوتا تھا، وہ رات کو اٹھ کر ایوان صدر کی بتیاں بجھاتے تھے، وہ جنرل تھے تو سائیکل پر دفتر چلے جاتے تھے، صدر بنے تو ریل کے ذریعے سفر کرنے لگے، پورے عہد صدارت میں پرانی کار استعمال کی،اسٹاف کو نئی کار نہیں خریدنے دی، وہ رات کو مری روڈ پر ڈرائیونگ کرتے تھے، راستے میں کوئی بوڑھا نظر آ جاتا تو اسے اسٹاف کار میں بٹھا لیتے تھے، وہ صرف ضرورت کی چیز خریدتے تھے، پیسہ ضایع نہیں ہونے دیتے تھے۔
گوہر ایوب اپنی اہلیہ کے ساتھ ایوان صدر جاتے تھے، صدر بیٹے اور بہو کو کھانا کھلاتے تھے لیکن کھانے کے بعد ڈنر کا بل آتا تھا اور بیٹا اور بہو اپنے کھانے کا بل ادا کر کے واپس جاتے تھے، صدر بھی ایوان صدر میں اپنے کھانے، چائے اور مشروبات کا بل ادا کرتے تھے، صدر ایوب خان کا گاؤںریحانہ تھا، یہ گاؤں ہری پور کے مضافات میں ہے، صدر نے وہاں اپنا ذاتی گھر تعمیر کرایا، گھر میں پانی کا کنکشن نہیں تھا، پانی گدھوں پر لاد کر لایا جاتا تھا، ریحانہ کے گھر میں صدر ایوب کے انتقال تک ٹیلی فون نہیں تھا، صدر کبھی ہیلی کاپٹر پر گاؤں یا ہری پور نہیں گئے، صدر کے انتقال پر دس جنرل دو ہیلی کاپٹروں پر ریحانہ پہنچے تو گاؤں کے لوگوں نے زندگی میں پہلی بار ہیلی کاپٹر دیکھے، وہ اپنی پرانی ٹوپیاں ضایع نہیں کرتے تھے، وہ ٹوپیاں کیپ میکر کے پاس بھجوا کر ان کا اسٹائل تبدیل کرا لیا کرتے تھے۔
وہ ذاتی پین استعمال کرتے تھے، پین کی نب ٹوٹ جاتی تھی تو وہ نئی نب لگوا لیتے تھے لیکن نیا پین نہیں خریدتے تھے، ایوب خان نے اپنے صاحبزادوں اختر ایوب اور گوہر ایوب کی اکٹھی شادیاں کیں، گوہر ایوب کی بارات پشاور گئی، بارات میں صرف خاندان کے چند لوگ شامل ہوئے، ولیمہ دونوں بیٹوں کا اکٹھا ہوا جس میں صرف اڑھائی سو لوگ شریک ہوئے، ایوب خان کی کابینہ نے گوہر ایوب اور اختر ایوب دونوں کو چاندی کا ایک ایک ٹی سیٹ دیا، یہ تحفہ پوری کابینہ کی طرف سے تھا، بیگم بھٹو نے گوہر ایوب کو ذوالفقار علی بھٹو کا سگریٹ کیس اور اپنا ذاتی سونے کابریسلٹ دیا، گوہر ایوب نے یہ دونوں تحائف بعد ازاں بے نظیر بھٹو کو اس وقت واپس دے دیئے جب وہ 1988ء میں وزیراعظم بنیں، ایوب خان کے سات بچے تھے لیکن وہ لوگوں کو ہمیشہ کہتے تھے آپ اپنا خاندان چھوٹا رکھیں، لوگ مسکراتے تھے تو وہ ہنس کر کہتے تھے ،، میں جو کہہ رہا ہوں، وہ کرو، میں نے جو کیا آپ اس کی تقلید نہ کرو،،۔
گوہرایوب نے اپنی کتاب میں چین کے بانی ماؤزے تنگ اور وزیراعظم چو این لائی سے اپنی ملاقاتوں کا احوال بھی لکھا، یہ چین گئے تو یورپی میڈیا اس وقت چین کی قیادت پر سخت نکتہ چینی کر رہا تھا، گوہر ایوب نے ماؤ کی توجہ اس نکتہ چینی پر مبذول کرائی، ماؤ نے مسکرا کر چو این لائی کی طرف دیکھا اور جواب دیا ،، چو این لائی غیر ملکی میڈیا کی نکتہ چینی پر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے ہمارے اقدامات سے بیرونی طاقتوں کو تکلیف ہو رہی ہے،، ماؤ کا کہنا تھا ،، غیر ملکی میڈیا ہماری تعریف شروع کر دے تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں اور میں چو این لائی سے پوچھتا ہوں ہم نے کون سی ایسی غلطی کر دی جس کی وجہ سے دنیا چین سے خوش ہو رہی ہے،،۔ گوہر ایوب نے ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا، انھوں نے لکھا ،، ستمبر 1968ء کو کراچی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس اے این ترین نے مجھے بتایا، ملک میں فوجی مداخلت کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
میں نے ترین کی والد صاحب سے ملاقات کرا دی، ملاقات کے بعد والد نے مجھ سے پوچھا، کیا ترین کے خدشات درست ہیں، میں نے جواب دیا، ہاں اور ہمیں صورت حال کا بغور مشاہدہ کرنا چاہیے، ایوب خان نے ہنس کر کہا، تم جنرل ہیڈ کوارٹر میں کام کر چکے ہو، تمہیں معلوم ہونا چاہیے پاک فوج کا کمانڈر انچیف جب اقتدار سنبھالنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر اسے صرف اللہ تعالیٰ ہی روک سکتا ہے،، ملک میں جب ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو چند لوگ صدر کے پاس آئے اور مشورہ دیا، آپ ملک میں ریفرنڈم کرا دیں، ایوب خان نے جواب دیا ،، باہر سڑکوں پر جو کچھ ہو رہا ہے۔
کیا یہ ریفرنڈم نہیں،، ایوب خان کو مشورہ دیا گیا ،، ملک میں اگر پانچ ہزار لوگ مار دیئے جائیں تو حالات قابو میں آ جائیں گے،، ایوب خان نے جواب دیا ،، میں پچاس مرغیاں نہیں مار سکتا آپ لوگ مجھے پانچ ہزار بے گناہ لوگوں کو قتل کر نے کا مشورہ دے رہے ہیں،، گوہر ایوب نے والد کے انتقال کا واقعہ بھی تحریر کیا، ایوب خان کا اردلی 20 اپریل 1974ء کو دن ایک بجے ان کے کمرے میں گیا تو اس نے دیکھا ایوب خان دو چھوٹے اور ایک لمبا گول تکیہ سر کے نیچے رکھ کر سوئے ہوئے ہیں۔
جنرل کے دونوں ہاتھ پہلوؤں میں ہیں اور سرہانے ریڈیو بج رہا ہے، اردلی نے جگانے کی کوشش کی تو پتہ چلا ایوب خان نیند کے دوران ہی انتقال کر گئے ہیں، گوہر ایوب نے انکشاف کیا، ایوب خان کے انتقال کے وقت ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی، بھٹوجنازے میں شریک نہیں ہوئے، ایوب خان کے انتقال کی شام پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان پر بس اتنی خبر نشر ہوئی ،،ملک کے ایک سابق صدر وفات پا گئے،، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان نے ایوب خان کا نام تک لینا گوارہ نہیں کیا تھا۔

تاریخ کی مہک سے معطر بورسا
جاوید چوہدری جمعرات 12 فروری 2015

بورسا استنبول سے تین گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے، یہ خلافت عثمانیہ کا اولین دارالحکومت تھا، شہر میں خلافت کے بانی عثمان غازی اور ان کے صاحبزادے اورخان غازی کے مزارات، ترکوں کا قدیم قلعہ، حضرت خضر ؑ سے منسوب مسجد اور چنار کا وہ چھ سو سال پرانا درخت آج بھی موجود ہے جس کے نیچے خلافت عثمانیہ کا آغاز ہوا تھا اور جس درخت کے بارے میں مشہور تھا سلطان عثمان نے یہ درخت خواب میں دیکھا، یہ وہاں پہنچے اور پھر دنیا کی کوئی طاقت ترکوں کا راستہ نہ روک سکی۔
ہم ہفتے کی دوپہر بورسا پہنچ گئے، بورسا جانے کے دو طریقے ہیں، آپ سڑک کے ذریعے وہاں پہنچ جائیں یا پھر آپ استنبول سے فیری لیں اور بحیرہ مرمرا میں پونے دو گھنٹے سفر کرتے ہوئے بورسا پہنچ جائیں، ہم نے فیری کے ذریعے بورسا جانے کا فیصلہ کیا، استنبول سے چار منزلہ بحری جہاز چلتے ہیں، جہاز کی نچلی دو منازل میں گاڑیاں پارک ہوتی ہیں، تیسری منزل میں ہزار کے قریب مسافر بیٹھتے ہیں اور چوتھی منزل بزنس کلاس ہے، ہم اپنی گاڑی میں فیری تک پہنچے، گاڑی جہاز میں پارک کی اور بالائی منزل پر بیٹھ گئے۔
صبح کے وقت فیری کے ذریعے استنبول سے رخصت ہونا بھی ایک تجربہ تھا، ہمیں ساحل پر استنبول کی نیلی مسجدوں کے مینار، قطار اندر قطار عمارتیں،یورپ اور ایشیا کو ملانے والے دونوں پل اور باسفورس اور گولڈن ہارن میں کھڑی کشتیاں اور چھوٹے جہاز دکھائی دے رہے تھے، ہماری فیری روانہ ہوئی تو استنبول آہستہ آہستہ بحیرہ مرمرا کی لہروں میں گھلتا چلا گیا اور آدھ گھنٹے بعد وہاں سمندر کی تڑپتی مچلتی لہریں تھیں، دور دور تک پھیلا بکھرا آسمان تھا، چھوٹے چھوٹے جزیرے تھے، سمندری پرندے تھے اور بس،، فیری نے ہمیں پونے دو گھنٹے میں بورسا پہنچا دیا۔
بورسا ترکی کا چوتھا بڑا شہر ہے، آبادی 20 لاکھ ہے، شہر ہمارے فیصل آباد کی طرح ٹیکسٹائل سے وابستہ ہے، شہر کے تین حصے ہیں، ایک حصہ پہاڑیوں پر مشتمل ہے، حکومت نے بورسا کی پہاڑیوں کو جدید ترین کیبل کار سے منسلک کر دیا ہے، آپ کیبل کار کے مین اسٹیشن پر پہنچتے ہیں اور کیبل کار آپ کو گھنے جنگلوں سے گزار کر پہاڑ کی انتہائی چوٹیوں تک لے جاتی ہے، ہم بھی کیبل کار کے ذریعے بورسا کے پہاڑی سلسلے تک پہنچ گئے، پہاڑوں پر برف باری جاری تھی، آخری پوائنٹ پر سکینگ کا میدان بھی تھا اور سنو بائیکس کا ٹریک بھی۔ راستے میں گھنے جنگل بھی تھے اور برفیلی ندیاں اور منجمد جھیلیں بھی، ہم آخری مقام پر پہنچے تو وہاں ہر چیز منجمد تھی، سکینگ کے میدان میں سکینگ ہو رہی تھی اورسنو بائیکس کے ٹریک پر بائیکس چل رہی تھیں۔
ہم اسلامی ملک میں ونٹر گیمز دیکھ کر حیران ہو گئے، لوگ وہاں سکینگ بھی کر رہے ہیں، خواتین اور مرد سنو بائیکس پر بیٹھ کر برف میں موٹر سائیکل بھی چلا رہے تھے اور ان کا اسلام بھی خطرے میں نہیں پڑ رہا تھا، ہم پریشان ہو گئے، بورسا کے پہاڑ، پہاڑوں پر برف، برف میں سنو بائیکس کی سواری، شدید سردی اور برف کی نرم بوندیں،یہ ساری چیزیں چند سیکنڈ میں تصویر بنیں اور یہ تصویر میرے حافظے کے البم میں چسپاں ہو گئی، ترکوں کا چھ سو سال پرانا چنار ہماری اگلی منزل تھا، یہ چنار شہر کے دوسرے حصے میں پہاڑی پر تھا، درخت طویل آکٹوپس کی طرح چاروں اطراف پھیلا تھا، یہ درخت دنیا کے زندہ مزارات میں شمار ہوتا ہے، درخت کا قطر تین میٹر ، اونچائی 35 میٹر اور پھیلاؤ 920 میٹر ہے، میں نے زندگی میں اتنا پھیلا ہوا درخت نہیں دیکھا، آپ درخت کے نیچے ہزار لوگوں کو آباد کر سکتے ہیں۔
خزاں کی وجہ سے درخت پر پتے نہیں تھے اور یہ تنوں، شاخوں اور ٹنڈ منڈ ٹہنیوں کا ایک طویل جال محسوس ہوتا تھا، سلطان عثمان نے1300ء میں ایک عجیب خواب دیکھا، ترک سلطنت کے بانی نے دیکھا، اس کی ناف سے ایک درخت نکلا اور پوری دنیا میں پھیل گیا، سلطان نے تعبیر پوچھی، بتایا گیا یہ خواب آپ کی طویل سلطنت کی بشارت ہے، سلطان نکل کھڑا ہوا ، سلطان نے 1326ء میں بورسا فتح کیا، چنار کے اس درخت کی گھنی چھاؤں میں بیٹھا اور دنیا کی اس عظیم سلطنت کی بنیاد رکھ دی جس کا ایک سرا ایشیا میں تھا، دوسرا افریقہ میں اور تیسرا یورپ میں، دنیا میں آج تک ہزاروں سلطنتیں بنیں، ہزاروں سلطنتیں پیوند خاک بھی ہوئیں لیکن ترک خلافت کی دنیا کی تاریخ میں دوسری نظیر نہیں ملتی، یہ لوگ صرف گھوڑوں اور تلواروں کے دھنی نہیں تھے ، یہ آرٹ، کلچر، ادب، دستر خوان، لباس اور حماموں کے امام بھی تھے۔
ترک جو خطہ فتح کرتے تھے وہ خطہ بعد ازاں ثقافت کا مرکز بن جاتا تھا، آپ خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو وہاں ترکوں کی عقیدت کے ایسے مظہر ملیں گے جو آپ کی پلکیں گیلی کر دیں گے، سلطان عبدالمجید اول نے مسجد نبویؐ کی توسیع کا کام کیا، توسیع کے لیے ترکوں نے پوری اسلامی دنیا سے اعلیٰ ترین معمار اکٹھے کیے،معماروں کو ترکی کے شاندار اور خوبصورت ترین حصے میں آباد کیا، دنیا جہاں کی مراعات دیں، معماروں کے بیٹے پیدا ہوئے تو ان تمام بیٹوں کو حافظ قرآن بنایا اور بزرگ معماروںسے درخواست کی، آپ ان حافظ قرآن بیٹوں کو اپنا فن سکھائیں۔
یہ بچے جب فن اور قرات دونوں میں یکتا ہو گئے تو سلطان انھیں مدینہ منورہ لے گئے اور مسجد نبویؐ کی توسیع کا فریضہ سونپ دیا، بارگاہ رسالتؐ کی توسیع کے بس تین اصول تھے، یہ تمام معمار چوبیس گھنٹے وضو میں رہیں گے، ہر لمحہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے اور مسجد کی حدود میں کوئی چیز کسی دوسری چیز کے ساتھ ٹکرائیں گے نہیں، پتھر کا کوئی ٹکڑا اگر چھیلنا، تراشنا یا توڑنا پڑتا تھا تو وہ لوگ یہ ٹکڑا مدینہ منورہ سے چھ کلو میٹر باہر لے جاتے ، وہ ٹکڑا وہاں تراشہ جاتا اور پھر دوبارہ مسجد نبویؐ میں لا کر مقررہ جگہ پر نصب کر دیا جاتا ، یہ اہتمام صرف سماعت رسولؐ کو غیر ضروری آوازوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔
ترک سلطان کمال لوگ تھے، یہ لڑتے تھے تو کمال کر دیتے تھے، امن میں آتے تو بھی کمال کر دیتے تھے، سلطنت عثمانیہ کے ساتویں حکمران سلطان محمد نے 1453ء میں استنبول فتح کر کے بھی کمال کر دیا، یہ شہر ویٹی کن سٹی کے بعد عیسائیوں کا مقدس ترین شہر تھا، آیا صوفیہ عیسائیوں کا دوسرا مقدس چرچ تھا،استنبول قسطنطنیہ کہلاتا تھا اور قسطنطنیہ ہزار سال تک ناقابل تسخیر رہا، شہر کے دفاع کی بڑی وجہ اس کا جغرافیہ تھا، یہ شہر دو سمندروں کے درمیان پہاڑ کی چوٹی پر آباد تھا، شہر تک پہنچنے کا واحد راستہ باسفورس اور باسفورس کے پانیوں سے نکلا ہوا گولڈن ہارن تھا، گولڈن ہارن پانی کی ساڑھے سات کلو میٹر لمبی باریک پٹی ہے، یہ پٹی بلندی سے سینگ کی طرح دکھائی دیتی ہے اور اس وجہ سے گولڈن ہارن کہلاتی ہے، استنبول کے بازنطینی حکمرانوں نے گولڈن ہارن میں لوہے کی مضبوط زنجیر بچھا رکھی تھی، یہ لوگ زنجیر کھینچ دیتے تھے، جہاز رک جاتے تھے اور یہ بعدازاں گولڈن ہارن میں آتش گیر مواد ڈال کر پانی کو آگ لگا دیتے تھے۔
جہاز جل کر راکھ ہو جاتے تھے،ترک یہ شہر فتح کرنا چاہتے تھے، کیوں کرنا چاہتے تھے اس کی وجہ حدیث مبارکہ تھی، نبی اکرمﷺ نے فرمایا تھا، میری امت کا جو شخص قسطنطنیہ فتح کرے گا وہ جنتی ہو گا ، ترک یہ سعادت حاصل کرنا چاہتے تھے، سلطان محمدفروری 1451ء میں19سال کی عمر میں خلیفہ بنا تو ترک سلطانوں کی یہ خواہش اسے ورثے میں مل گئی، اس نے 1453ء میں استنبول کا محاصرہ کیا اور دنیا کی تاریخ میں عجیب کمال کر دیا، سلطان محمد نے ہزاروں درخت کٹوائے، درختوں کے تختے بنائے، تختوں پر جانوروں کی چربی چڑھائی، بحری جہاز تختوں پر رکھے، ہزاروں لوگوں نے یہ جہاز کھینچے، دھکیلے اور سلطان محمد بحری جہازوں کو پہاڑ کے اوپر سے دھکیل کر سمندر تک لے آئے، استنبول کے لوگ اگلی صبح جاگے تو وہ گولڈن ہارن میں جہاز دیکھ کر حیران رہ گئے۔
سلطان نے29مئی 1453ء کو شہر کو فتح کیا اور تاریخ میں سلطان محمد فاتح بن گیا، استنبول میں آج بھی سلطان فاتح اور ان کی ملکہ گل بہار کا مزار موجود ہے، ترکوں نے ایک کمال مسجد مزار کا کمبی نیشن بنا کر بھی کیا ، ترک سلطان زندگی میں ایک شاندار مسجد بنواتے تھے، مسجد کی دیوار کے ساتھ اپنا مزار اور اپنے خاندان کا خصوصی قبرستان بنواتے تھے اور انتقال کے بعد مزار میں دفن ہو جاتے تھے، مساجد اللہ کے گھر ہوتی ہیں،یہ ہمیشہ قائم رہتی ہیں اور اللہ کے گھروں کے استحکام کی وجہ سے ترک سلطانوں کے مزارات بھی آج تک سلامت ہیں، سلطان فاتح کا مزار بھی فاتح مسجد کے ساتھ واقع ہے ، میں جب بھی استنبول جاتا ہوں میں اس جنتی سلطان کی قبر پرحاضر ہوتا ہوں۔
ہم بزرگ چنار کے بعد عثمان غازی اور ان کے صاحبزادے اور خان غازی کے مزاروں پر گئے، یہ مزارات قائم ہیں لیکن یہ شکوہ میں استنبول کے مزارات سے بہت پیچھے ہیں، اس کی وجہ مسجدہے، سلطان عثمان اور سلطان اورخان کے مزارات صرف مزارات پر مسجد کے میناروں اور گنبدوں کا سایہ نہیں تھا چنانچہ وہاں ایک ویرانی اور ایک اداسی تھی، عثمان غازی کے بعد اگلی منزل بورسا کی قدیم مسجد تھی، یہ مسجد 1399ء میں بنی، یہ مسجد چھ سو 16سال سے قائم اور آباد ہے، بورسا کے لوگوںکا خیال ہے حضرت خضر ؑ اس مسجد میں نماز کے لیے آتے ہیں، حضرت خضرؑ کی ایک نشانی ان کے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا ہے، آپؑ کے انگوٹھے میں ہڈی نہیں تھی، یہ ربڑ جیسا نرم اورلچکیلا انگوٹھا تھا چنانچہ بورسا کے لوگ نماز کے بعد مسجد میں موجود اجنبیوں سے ہاتھ ملاتے ہیں، یہ لوگ ہماری طرح پنجہ ملانے کے بجائے ہتھیلی سے دوسرے شخص کا انگوٹھا پکڑتے ہیں اور انگوٹھے میں ہڈی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ لوگ ہاتھ ملاتے ہوئے حضرت خضرؑ کو تلاش کرتے ہیں، یہ تلاش بھی چھ سو سال سے جاری ہے اور شاید آنے والے چھ سو سال تک جاری رہے گی۔
بورسا کی شام سرخ بھی تھی، خنک بھی اور اس کے بطن سے تاریخ کی خوشبو بھی اٹھ رہی تھی، ہم شہر سے نکلے تو شہر کے درودیوار سے مغرب کی اذان ٹکرا رہی تھی، اللہ اکبر، اللہ اکبر، میں نے ایک لمبا اور ٹھنڈا سانس لیا، اور اپنے تڑپتے دل کو سمجھایا، دنیا میں صرف اللہ کا نام اور اللہ کے نام پر قائم ادارے سلامت رہتے ہیں، باقی سلطان ہوں یا سلطنتیں سب فنا ہو جاتے ہیں۔
ترک میڈیا
جاوید چوہدری بدھ 11 فروری 2015

ہم دو دن استنبول کے میڈیا ہاؤسز میں پھرتے رہے‘ استنبول کے صحافیوں نے جمعرات کی دوپہر پاکستانی وفد کو لنچ دے رکھا تھا۔ ’’میڈیا لاگ‘‘ استنبول کے صحافیوں کی مؤثر تنظیم ہے‘ میڈیا لاگ کا سینٹر باسفورس کے کنارے خوبصورت ولا میں قائم ہے‘ یہ محل جیسی انتہائی خوبصورت عمارت ہے‘ سینٹر کی پشت باسفورس کی طرف کھلتی ہے‘ بلیک سائیڈ پر لکڑی کا ڈیک بنا ہے‘ آپ ڈیک پر کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کو باسفورس اور باسفورس کے دوسرے کنارے پر استنبول کا ایشیائی حصہ نظر آتا ہے۔
شہر کا پرانا پل میڈیا لاگ کے سینٹر سے چند گز کے فاصلے پر ہے‘ آپ کو سینٹر کے صحن اور ڈیک سے پل اور پل کی لائٹس نظر آتی ہیں‘ لان میں شیشے کا ڈائننگ ہال ہے‘ آپ ڈائننگ ہال سے چاروں اطراف کے مناظر دیکھتے ہیں‘ یہ سینٹر جمالیاتی ذوق کا اعلیٰ نمونہ ہے‘ پاکستان میں اس نوعیت کا کوئی سینٹر‘ کوئی عمارت نہیں‘ ہم وہاں پہنچے تو زمان اخبار اور ثمن یولا گروپ سے وابستہ کالم نگار اور یونیورسٹی کے دو پروفیسر ہمارے منتظر تھے‘ یہ لوگ ہمیں دیکھتے ہی پھٹ پڑے ’’ ہم پر یہ ظلم ہو رہا ہے‘ ہم پر وہ ظلم ہو رہا ہے‘‘ ان کا کہنا تھا‘ طیب اردگان ترکی میں دوبارہ خلافت عثمانیہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔
یہ یہاں شدت پسند اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں‘ یہ صحافیوں کو گرفتار کر رہے ہیں‘ میڈیا گروپس خریدے جا رہے ہیں اور مالکان پر دباؤ ڈال کر صحافیوں کو بے روزگار کیا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ‘ ہم نے انھیں بتایا پاکستان میں میڈیا پارلیمنٹ‘ حکومت‘ عدلیہ اور فوج سے زیادہ مضبوط ہے‘ صحافی کسی بھی وقت ‘کسی بھی اسکرین پر کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور کوئی ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکتا ‘ وہ لوگ دانت رگڑ کر رہ گئے‘ ہم نے انھیں بتایا ہمارے ملک میں صحافیوں کی گرفتاری کے صرف چند واقعات ہوئے ہیں ۔
تاہم شہادتیں زیادہ ہیں‘14برسوں میں 100 سے زائدصحافی شہید ہوئے ہیں ‘ یہ لوگ مزید حیران ہو گئے کیونکہ ان کے پاس میڈیا پر ظلم کی بے شمار خوفناک کہانیاں تھیں‘ ہم نے ان کی کہانیاں سن کر اللہ کا شکر ادا کیا‘ہمارا میڈیا تمام تر ریاستی دباؤ کے باوجود ترکی کے مقابلے میں آزاد ہے‘ ہم جو چاہتے ہیں ہم اس کا نوے فیصد لکھ لیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں اس کا 95 فیصد بول لیتے ہیں جب کہ دوسرے ممالک میں یہ ممکن نہیں‘ ترک صحافیوں کے ساتھ انٹرایکشن نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔
ثمن یولو ہماری دوسری منزل تھی‘ یہ ترکی کا تیسرا بڑا میڈیا گروپ ہے‘ یہ گروپ 14 ٹیلی ویژن چینلز اور 6 ریڈیوز کا مالک ہے‘ ہم ثمن یولو کی عمارت میں داخل ہوئے تو عمارت کی خوبصورتی‘ صفائی اور جدت نے حیران کر دیا‘ عمارت میں سفارتخانوں جیسا سیکیورٹی سسٹم تھا‘ سیکیورٹی واک تھرو گیٹ تھا‘ سامان کی پڑتال کے لیے سکینر تھا اور دروازے کارڈ کے ذریعے کھلتے تھے‘ اسٹوڈیو انتہائی خوبصورت‘ جدید اور صاف ستھرے تھے‘ ہم اسٹوڈیوز کی کوالٹی‘ کیمرے اور پینل دیکھ کر حیران رہ گئے‘ ہم نے تین اسٹوڈیو دیکھے‘ تینوں برطانیہ‘ امریکا اور یورپ کے عالمی میڈیا ہاؤسز کا مقابلہ کرتے تھے۔
اسٹاف پڑھا لکھا‘ مہذب اور تمیزدار تھا‘ لوگ صاف ستھرا لباس پہن کر دفتر آئے تھے‘ خواتین کی تعداد زیادہ تھی‘ کوریڈور صاف ستھرے اور فرنیچر نیا اور آرام دہ تھا‘ صفائی اور مینٹیننس کے لیے باقاعدہ ہاؤس کیپنگ کا ڈیپارٹمنٹ تھا‘ ہمیں ڈنر کے لیے چینل کے کیفے ٹیریا میں لے جایا گیا‘ کیفے ٹیریا فوراسٹار ریستوران جیسا تھا‘ سیلف سروس تھی‘ کھانے کا معیار اعلیٰ تھا اور میڈیا ہاؤس کے صدر سے لے کر چپڑاسی تک تمام لوگ کیفے ٹیریا میں کھانا کھاتے تھے۔
ثمن یولو کے صدر جیل میں تھے‘ ڈپٹی صدر معاملات چلا رہے تھے‘ یہ کیفے ٹیریا میں ہمارے ساتھ تھے‘ میری زندگی کا آدھا حصہ پاکستانی میڈیا میں گزرا لیکن مجھے پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ نہیں ملا جو صفائی‘ خوبصورتی‘ تکنیکی معیار اور ڈسپلن میں ثمن یولو کا مقابلہ کرتا ہو‘ ہماری میڈیا مینجمنٹ کو ترکی جا کر میڈیا ہاؤسز کے دفاتر دیکھنے چاہئیں اور پاکستان میں بھی اس معیار کے دفاتر اور اسٹوڈیو تعمیر کرانے چاہئیں۔
ہم لوگ ثمن یولو کے ہیڈ کوارٹر‘ اسٹوڈیوز اور سسٹم پر حیران تھے لیکن ہمیں اگلے دن زمان گروپ کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا‘ زمان گروپ کی عمارت نے ہمیں سکتے کا شکار بنا دیا‘ آپ پاکستان کی تمام بہترین اور خوبصورت عمارتوں کو ذہن میں لائیے‘ آپ اسلام آباد کے سینٹورس مال کو ذہن میں لائیے‘ لاہور کے ارفع کریم ٹاور کو سامنے رکھئے اور کراچی کے فورم شاپنگ مال کو ذہن میں لائیے اور آپ اس کے بعد زمان گروپ کا دفتر دیکھئے‘ آپ کو یہ تینوں عمارتیں زمان میڈیا گروپ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے ہیچ محسوس ہوں گی‘ وہ عمارت عمارت نہیں حسن‘ جدت اور دلآویزی کی جادوگری تھی‘ آپ عمارت کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھیں‘ آٹھ دس منزل کی طویل اور جدید عمارت آپ کے سامنے ہو گی‘ آپ عمارت کے اندر داخل ہوں تو عمارت کی وسعت‘ اونچائی‘ جدت‘ صفائی اور تعمیراتی حسن آپ کا دل کھینچ لے گا‘ عمارت تین اطراف سے شیشوں سے بنی ہے۔
عمارت میں دائیں‘ بائیں اور چھت سے قدرتی روشنی اندر آتی ہے‘ قدرتی روشنی کی وجہ سے عمارت میں دن کے وقت لائیٹس جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی‘ آپ عمارت کے درمیان کھڑے ہو کر تمام کمروں‘ ہالز اور نیوز روم دیکھ سکتے ہیں‘ سیکیورٹی جدید اور ائیر پورٹس جیسی تھی‘ اخبار کا پرنٹنگ پریس بھی جدید اور صاف ستھرا تھا‘ ہم اگر اپنے پرنٹنگ پریس دیکھیں تو ہمیں ان میں گند‘ افراتفری اورسیاہی کے دھبے نظر آتے ہیں جب کہ آپ زمان کے پرنٹنگ پریس میں بیٹھ کر باقاعدہ پکنک منا سکتے ہیں‘ میں نے زندگی میں تین شاندار بورڈ روم دیکھے ہیں‘ ان تینوں میں سے ایک زمان اخبار کا بورڈ روم تھا‘ زمان گروپ دو اخبار اور ایک میگزین شایع کرتا ہے‘ زمان اخبار کی سرکولیشن دس لاکھ کاپیاں روزانہ ہے‘ یہ سرکولیشن کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا اخبار ہے لیکن یہ اخبار بھی آج کل حکومت کے زیر عتاب ہے۔
ایڈیٹر کو مقدمات کا سامنا ہے‘ یہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے‘ عتاب کا یہ خوف سایہ بن کر ملازمین کے چہروں سے چپکا ہوا تھا‘ میری پاکستان کے اخبار مالکان سے درخواست ہے‘ آپ جب بھی استنبول جائیں آپ زمان گروپ کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ ضرور کریں‘ زمان کے سسٹم دیکھیں اور اس کے بعد پاکستان میں بھی ایسی عمارت اور ایسے سسٹم بنانے کی کوشش کریں‘ دنیا جہاں سے صحافی پاکستان آتے ہیں اور یہ لوگ ہماری عمارتیں اور اشاعتی نظام دیکھ کر مایوس واپس جاتے ہیں۔ ہمارے میڈیا مالکان کو اپنے ترکی بھائیوں سے سیکھنا چاہیے۔
ہم نے زمان میڈیا گروپ میں تین صحافتی جدتیں دیکھیں‘ ترکی میں اخبارات مالکان نے سرکولیشن کی دو کمپنیاں بنا رکھی ہیں‘ یہ دونوں کمپنیاں خودمختار ہیں‘ یہ ملک کے طول و عرض میں اخبارات اور میگزین پہنچانے کی ذمے دار ہیں‘ یہ کمپنیاں ملک کے مختلف حصوں سے اخبارات اور میگزین کے بنڈل اٹھاتی ہیں اور صبح سے پہلے دوسرے شہروں تک پہنچا دیتی ہیں‘ ملک کے تمام شہروں میں ان کے ڈسٹری بیوٹرز اور ہاکرز ہیں‘ یہ ڈسٹری بیوٹرز اور ہاکرز گھر‘ گھر اخبارات پہنچاتے ہیں‘ ان دوکمپنیوں کی وجہ سے میڈیا مالکان صرف اخبارات شایع کرتے ہیں۔ یہ اخبار کی تقسیم اور سرکولیشن کے مسائل سے آزاد ہیں‘ ہمارے مالکان ترکی کے اس تجربے سے سیکھ سکتے ہیں‘ ہمیں بھی ملک میں سرکولیشن ایجنسیاں بنانی چاہئیں‘ دو‘ زمان گروپ نے اپنے رپورٹرز رکھنے کے بجائے الگ نیوز ایجنسی بنا رکھی ہے۔
ایجنسی کا نام ’’ جہان نیوز ایجنسی‘‘ ہے‘ یہ نیوز ایجنسی زمان گروپ کی عمارت کے اندر قائم ہے تاہم یہ الگ کمپنی ہے‘ اخبار کے رپورٹر اس ایجنسی کے ملازمین ہیں‘ جہان نیوز ایجنسی اپنے رپورٹرز کے ذریعے خبریں جمع کرتی ہے‘ یہ خبریں تیار ہوتی ہیں اور یہ نیوز زمان کے اخبارات کے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے میڈیا گروپس کو بھی فروخت کر دی جاتی ہیں‘ یہ اچھا انتظام ہے‘ اس انتظام کے ذریعے اخبار رپورٹرز اور سب ایڈیٹرز کے بوجھ سے بھی آزاد ہو گیا‘ ایک متبادل اور نیا ادارہ بھی بن گیا اور میڈیا انڈسٹری کو بھی فائدہ ہو گیا‘ ہمارا میڈیا بھی ’’نیوز ایجنسی‘‘ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
یہ بھی نیوز ایجنسیاں بنائیں‘ اپنی ضرورت کے لیے خبریں حاصل کریں اور باقی خبریں انڈسٹری کو دے دیں‘اس سے نئے ادارے بھی بنیں گے اور اخبارات غیر ضروری بوجھ سے بھی آزاد ہو جائیں گے اور تین ہم نے ’’جہان نیوز ایجنسی‘‘ میں پرائیویٹ نیوز چینلز کے لیے نیوز پیکیج تیار ہوتے بھی دیکھے‘ نیوز ایجنسی کے کیمرہ مین اور رپورٹرز خبریں ریکارڈ کرتے ہیں‘ ایجنسی کے اندر چھوٹا سا ’’ اوپن اسٹوڈیو‘‘ ہے‘ یہ اس اسٹوڈیو میں نیوز پیکیج تیار کرتے ہیں اور یہ نیوز پیکیج بعد ازاں نیوز چینلز کوفروخت کر دیے جاتے ہیں‘ یہ بنیادی طور پر نیوز چینلز کے لیے ویڈیو سروس ہے‘ یہ تجربہ بھی اچھا ہے‘ ہمارے چینلز کو ہر وقت ’’نیوز کانٹینٹ‘‘ کا ایشو رہتا ہے‘ ہماری نیوز ایجنسیاں بھی اگر نیوز چینلز کو نیوز پیکیجز فراہم کرنا شروع کر دیں تو اس سے بھی مارکیٹ اور میڈیا دونوں میں وسعت آئے گی۔
ترک میڈیا کی ایک اور کامیابی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری ہے‘ ترکی نے دس سال قبل مسلم انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی بنیاد رکھی‘ ترک حکومت نے اندازہ لگایا‘ ہالی ووڈ اور یورپی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری نے پوری دنیا کی مارکیٹ گھیر رکھی ہے‘ یہ انڈسٹری مسلم روایات سے آگاہ نہیں ‘اسلامی ممالک مغربی میڈیا سے خوش نہیں ہیں چنانچہ ہم اگر ترکی میں اسلامی ہالی ووڈ قائم کرلیں تو یہ ہالی ووڈ چند برسوں میں پورے عالم اسلام میں مارکیٹ بنا لے گی لہٰذا حکومت نے سپورٹ کیا‘ بینکوں نے سرمایہ کاری کی‘ میڈیا گروپوں نے جوائنٹ وینچر کیے اور ترکی ڈرامہ چند برسوں میں پوری اسلامی دنیا تک پہنچ گیا‘ ترکی ڈرامے اور سیریلز اب غیر مسلم مارکیٹ پر بھی دستک دے رہے ہیں۔
ہمارے میڈیا مالکان بھی اس تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ یہ ایران‘ افغانستان‘ بھارت‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش کو ذہن میں رکھ کر معیاری اور مہنگی سیریلز تیار کریں‘ ملک کے اندر بھی نشر کریں اور دوسرے ممالک کو بھی ایکسپورٹ کریں‘اس سے ملک کی ڈوبتی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو بھی سہارا ملے گا‘ میڈیا مالکان کے ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا اور ملک کی نیک نامی بھی بڑھے گی۔
دنیا جانتی ہے ہم 35 سال سے حالت جنگ میں ہیں اورجنگیں فلم اور ڈرامے کا بہترین موضوع ہوتی ہیں‘آپ جنگ عظیم دوم کی مثال لیجیے‘ جنگ عظیم دوم کو ختم ہوئے 70 سال ہو چکے ہیں لیکن ہالی ووڈ آج بھی جنگ عظیم اول اور دوم کے بارے میں فلمیں بنا رہی ہے‘کیوں؟ کیونکہ جنگیں صدیوں تک نئے موضوعات کی پیدائش کا ذریعہ رہتی ہیں چنانچہ ہم اپنی جنگ سے ڈرامے اور فلمیں کیوں نہیں نکالتے‘ ہم اپنے اچھوتے موضوعات سے دنیا کو متاثر کیوں نہیں کرتے؟ ہماری جنگ کو اگر ہالی ووڈ بیچ سکتی ہے تو پھر ہم اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے‘میرا مشورہ ہے حکومت‘ سرمایہ کار اداروں اور میڈیا مالکان کو اکٹھا بیٹھ کر ترکی کے اس تجربے سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے‘ دنیا کے 58 اسلامی ممالک ہماری انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے گاہک بن سکتے ہیں۔

میرا سلطان
جاوید چوہدری منگل 10 فروری 2015

سلطان سلیمان دنیا کے ان تین بڑے حکمرانوں میں شمار ہوتے تھے جنھیں گریٹ کہلانے کا اعزاز حاصل ہوا، پہلا حکمران سکندر تھا، دوسرا تیمور تھا اور تیسرا سلطان سلیمان۔ وہ مشرقی یورپ اور ایشیا کے بڑے علاقے فتح کر کے سلیمان دی عالی شان بن گئے، وہ 30 ستمبر 1520ء کو خلافت عثمانہ کے خلیفہ بنے، سلطان کہلائے اور 46 سال تک سلطان رہے، وہ 15 سال کی عمر میں گھوڑے پر بیٹھے اور پوری زندگی لڑتے گزار ی، سلطان سلیمان کا انتقال 1566ء میں دوران جنگ ہوا۔
ان کے جسم کے اندرونی اعضاء ہنگری کے شمالی علاقے سی گتوار میں دفن کر دیے گئے جب کہ لاش واپس لا کر استنبول میں دفن کی گئی، آج سلطان سلیمان کے مزار پر خوبصورت اور وسیع مسجد تعمیر ہے، یہ مسجد سلیمانیہ کہلاتی ہے، آپ باسفورس سے سلیمانیہ مسجد کے مینار دیکھ سکتے ہیں، سلطان سلیمان کو پاکستان میں چند سال پہلے تک صرف تاریخ کے طالب علم جانتے تھے یا پھر وہ لوگ جنھیں استنبول آنے اور تاریخ میں جھانکنے کا موقع ملا لیکن پھر پاکستان کے پرائیویٹ چینلز نے سلطان سلیمان پر بننے والی ترکش سیریل میرا سلطان نشر کرنا شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے ہر گھر کا حصہ بن گئی، یہ ڈرامہ 139 قسطوں پر مشتمل تھا اور دنیا کی مہنگی ترین سیریلز میں شمار ہوتاتھا، یہ ڈب ہو کر دنیا کے 15 ممالک میں دکھایا گیا، یہ تاریخ کا کمرشل نوحہ ہے، سلطان سلیمان عظیم حکمران تھے۔
وہ دنیا کے عظیم فاتح بھی تھے، منتظم بھی، منصف بھی اور عسکری موجد بھی، وہ اپنی قانون پسندی اور انصاف کی وجہ سے سلیمان قانونی کہلاتے تھے لیکن ڈرامہ سیریل میں اس سلیمان قانونی کو ایک ایسا بادشاہ بنا کر پیش کیا گیا جس کی زندگی کا زیادہ تر حصہ حرم سرا میں کنیزوں سے کھیلتے، ملکاؤں کی زلفیں سیدھی کرتے اور غلام گردشوں کی سازشیں بھگتتے گزرا جب کہ حقیقت بالکل مختلف تھی، سیریل میں دکھائے جانے والے سلطان سلیمان اور حقیقی سلطان سلیمان میں زمین آسمان کا فرق تھا، اصل سلطان بے چارہ پوری زندگی گھوڑے کی پیٹھ سے نہیں اترا جب کہ ٹی وی سیریل میں دکھائے جانے والے سلطان نے حرم سرا سے باہر قدم نہیں رکھا چنانچہ یہ سیریل بنیادی طور پر کمرشل ازم کا وہ نوحہ تھی جو بتاتی رہی تاریخ جب بکنے پر آتی ہے توسوداگر ماضی کے ہیروز کے بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے چاکلیٹ کے خوبصورت ریپرز میں لپیٹتے ہیں اوربیچ دیتے ہیں اور سلطان سلیمان بے چارے کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔
میں اپنے تین ساتھیوں اور دو ترک بھائیوں کے ساتھ ’’میرا سلطان‘‘ کے تعاقب میں جمعرات کی صبح استنبول پہنچ گیا، فریحہ ادریس ’’وقت ٹیلی ویژن‘‘ پر سیاسی شو کرتی ہیں، فواد چوہدری قانون اور سیاست کے میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ کر اب میڈیا میں آ چکے ہیں، میں ان دونوں کے ساتھ ترکی گیا، بھائی ترگت اور بھائی صوات کئی برسوں سے پاکستان میں مقیم ہیں، بھائی صوات کی بیگم پاکستانی ہیں، یہ دونوں ترک دوست پاکستان میں ’’پاک ترک اسکول‘‘ چلا رہے ہیں، پاکستان کے دس شہروں میں 24 پاک ترک اسکول ہیں، لاہور میں اب پاک ترک یونیورسٹی بنانے کا منصوبہ بھی بن رہا ہے، میں دونوں ترک بھائیوں کو دو برسوں سے جانتا ہوں، یہ دونوں ہمارے ساتھ استنبول گئے، استنبول جانے کا مقصد ترک میڈیا کی گروتھ اور ڈرامہ انڈسٹری کا مشاہدہ تھا، ترک میڈیا پاکستانی میڈیا سے مختلف ہے۔
ہمارے ملک میں نیوز چینلز کو بہت اہمیت حاصل ہے جب کہ ترکی میں ڈرامہ چینلز کو کئی گنا زیادہ قدر دی جاتی ہے، ترکی میں 350 ٹی وی چینلز ہیں، ریڈیوز کی تعداد 1030 ہے، ملک سے پچاس بڑے اخبارات نکلتے ہیں، ٹیلی ویژن چینلز 24 گھنٹے ڈرامے اور سیریل چلاتے ہیں اور درمیان میں تھوڑی دیر کے لیے خبریں اور سیاسی ٹاک شوز نشر کیے جاتے ہیں، ترکی میں ہر ہفتے 40 ڈرامے یا اقساط ریکارڈ کی جاتی ہیں، یہ ڈرامے زیادہ تر استنبول میں شوٹ ہوتے ہیں، اس کی وجہ استنبول کی جغرافیائی اور زمینی خوبصورتی ہے، یہ شہر قدرت کا خوبصورت سیٹ ہے، آپ شہر کے کسی کونے میں کیمرہ لگائیں اور آپ کو دل کش بیک گراؤنڈ مل جائے گی، یہ شہر محلات کا شہر بھی کہلاتا ہے، آپ کو شہر میں سیکڑوں محل مل جاتے ہیں، آپ یہ محلات بھی کرائے پر حاصل کر سکتے ہیں، یہ شہر جزیروں، قدیم درسگاہوں، مسجدوں اور پرانے بازاروں کا شہر بھی ہے چنانچہ آپ اگر استنبول شہر میں نکلیں تو آپ کو جگہ جگہ کیمرے لگے اور کسی نہ کسی مقبول سیریل کی شوٹنگ ہوتی نظر آتی ہے۔
ترکش سیریلز مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور مشرق بعید میں بھی دیکھی جاتی ہیں، ڈراموں کی عالمی مقبولیت کی وجہ سے ترکی میں اداکاروں، اداکاراؤں اور ٹیکنیکل اسٹاف کی مانگ میں اضافہ ہو چکا ہے، یہاں ڈرامے کی ایک ایک قسط اڑھائی سے دس کروڑ روپے میں بنتی ہے، میرا سلطان کی بعض قسطیں پچاس پچاس کروڑ روپے میں تیار ہوئیں، یہ اس لحاظ سے مہنگی ترین سیریل تھی، میڈیا ڈراموں کی کاسٹ پوری کرنے کے لیے ،،جوائنٹ وینچر،، بھی کرتا ہے، تین چار چینلز مل کر ڈرامہ بناتے ہیں اور پھر مشترکہ اشتہارات کے ساتھ یہ ڈرامے اپنے اپنے چینلز پر چلاتے ہیں، ترکی میں میڈیا ایک بڑی اور مرکزی انڈسٹری تھا لیکن یہ اب شفٹ ہو رہا ہے، میڈیا مالکان اب پاکستان کی طرح ڈرامہ چینلز کے ساتھ نیوز چینلز کو بھی فوقیت دینا چاہتے ہیں، یہ اب نیوز چینلز کی حورم سلطانیں ، سلطان سلیمان اور ابراہیم پاشا بھی تخلیق کرنا چاہتے ہیں، کیوں؟ اس کی وجہ بہت دلچسپ ہے۔
میڈیا مالکان ماضی میں ڈراموں کے ذریعے سرمایہ کماتے رہے، یہ میرا سلطان، عشق ممنوع اور معصومہ جیسے سیریلز کے ذریعے ارب پتی بن گئے لیکن یہ دولت کمانے کے اس عمل کے دوران سیاسی لحاظ سے بے دانت اور بے ڈنگ ہو گئے، یہ پیسہ کماتے رہے اور حکومت مضبوط ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ طیب اردگان نے میڈیا مالکان پر بھی ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا، ملک کے زیادہ تر میڈیا مالکان شروع میں طیب اردگان کے دوست تھے، یہ طیب اردگان کی جماعت کو سپورٹ بھی کرتے رہے، طیب اردگان اقتدار میں آئے تو یہ لوگ دونوں ہاتھوں سے سرمایہ سمیٹنے لگے، اردگان اس دوران معاشرے کی ریفارم میں مصروف رہے، یہ گیارہ برسوں میں انتہائی طاقتور ہو گئے اور یہ اب اسی خبط کا شکار ہو گئے ہیں جس میں اسلامی دنیا کے زیادہ تر حکمران ہوتے ہیں اور اپنی اور اپنی ریاست دونوں کی مت مار لیتے ہیں، طیب اردگان انتہائی وژنری، محنتی اور شاندار انسان ہیں، یہ استنبول کے میئر کی حیثیت سے اٹھے اور یورپ کے مرد بیمار کو دنیا کی 20 بڑی طاقتوں میں شامل کر دیا۔
یہ ترکی میں پرفارمنس، لاء اینڈ آرڈر اور معیشت کے ’’اتاترک‘‘ بھی ہیں، یہ ملک کو صفر سے نوے درجے تک لے آئے لیکن دنیا میں صرف پرفارم کرنا اتنا کمال نہیں ہوتا جتنا بڑا کمال پرفارم کرنے والی ٹیم بنانا ہوتا ہے اور ہمارے مسلمان حکمران ٹیم بنانے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں، یہ خود کو میرا سلطان بنانے میں جت جاتے ہیں اور آخر میں یہ اور ان کا ملک دونوں تباہ ہو جاتے ہیں، طیب اردگان کے ساتھ بھی یہ ہو رہا ہے، یہ اب خود کو ناگزیر سمجھنے لگے ہیں، یہ تین بار ترکی کے وزیراعظم رہے اور یہ 28 اگست 2014 ء کو صدر بن گئے، احمد داؤد اوغلو کو وزیراعظم بنا دیا گیا، یہ نام کے وزیراعظم ہیں ، حکومت کے اصل تر اختیارات طیب اردگان کے پاس ہیں اور طیب اردگان ترکی کے میرا سلطان بن رہے ہیں، یہ اس وقت اسمبلی میں 327 نشستیں رکھتے ہیں، یہ اگلے الیکشن میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ اگر کامیاب ہو گئے تو یہ آئین میں بنیادی تبدیلیاں کرکے ملک میں صدارتی طرز حکومت لے آئیں گے،یہ آل ان آل ہو جائیں گے، میڈیا اور کاروباری طبقہ طیب اردگان کو ،، میرا سلطان،، نہیں دیکھنا چاہتا چنانچہ میڈیا اور طیب اردگان کے درمیان کھچاؤ پیدا ہو چکا ہے، حکومت مضبوط اور میڈیا کمزور ہے، اس کی وجہ سیریل ہیں، ڈرامے نے میڈیا کو ارب پتی تو بنا دیا لیکن مالکان سیاسی اثر و رسوخ سے محروم ہو گئے، عوام ترکی میں خبریں اور سیاسی گفتگو کے بجائے ڈرامے کی لت میں مبتلا ہو چکے ہیں، مالکان اب یہ ٹرینڈ بدلنا چاہتے ہیں لیکن یہ شاید اب ممکن نہ ہو، طیب اردگان میڈیا مالکان اور عوام کی کمزوری سے واقف ہیں لہٰذا انھوں نے میڈیا پر ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا، یہ اپنے کاروباری دوستوں کو لے کر آگے بڑھے، سرمایہ جمع کیا اور دوستوں نے میڈیا گروپ خریدنا شروع کر دیے، یہ لوگ اب تک ترکی کا ساٹھ فیصد میڈیا خرید چکے ہیں، باقی چالیس فیصد میں ملک کے دو بڑے میڈیا گروپ زمان اور ثمن یولو شامل ہیں، ثمن یولوگروپ 14 ٹیلی ویژن چینلز اور 6 ریڈیوز کا مالک ہے۔
یہ گروپ چھ زبانوں میں پروگرام نشر کرتا ہے، حکومت نے 63 دن قبل ثمن یولو کے سی ای او ہدایت کروچا کو گرفتار کر لیا، ان پر 2007ء میں نشر ہونے والے ایک ڈرامے کے دو ڈائیلاگ کو بنیاد بنا کر مقدمہ درج کر دیا گیا، یہ اس وقت جیل میں ہیں، زمان میڈیا گروپ ہے، ترکی کا سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار زمان اور انگریزی روزنامہ ڈیلی زمان شایع کرتا ہے، حکومت نے اس کے چیف ایڈیٹر کو بھی گرفتار کر لیا، تاہم 80 گھنٹے کی تفتیش کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا لیکن یہ ملک سے باہر نہیں جا سکتا، ان دو گرفتاریوں نے ترکی کے میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا، ترکی میں اس دوران بینک ایشیا پر بھی حکومت کا قبضہ ہو گیا، یہ ترکی کا دوسرا بڑا بینک ہے۔
بینک کے شیئرز 175 کاروباری لوگوں کے پاس ہیں، ان شیئر ہولڈرز میں سے چند لوگ ملک کے تین بڑے میڈیا گروپس کے مالک بھی ہیں یوں حکومت کے صرف ایک قدم سے میڈیا، بینکنگ انڈسٹری اور کاروباری خاندان تینوں گرم پانیوں میں جا گرے، ترکی کے میڈیا مالکان اب اپنے چینلز کو تیزی سے پاکستان جیسے نیوز چینلز میں تبدیل کر رہے ہیں لیکن ترک مالکان لیٹ ہو چکے ہیں کیونکہ عوام اب خبروں اور سیاسی پروگراموں کے بجائے حورم سلطان میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، یہ اب سیاسی پروگرام نہیں دیکھنا چاہتے۔
ترک میڈیا اس وقت دباؤ میں ہے، حکومت ، میڈیا مالکان اور ان کے کاروباری سپورٹرز میں جنگ چھڑ چکی ہے، مجھے استنبول میں گھومتے ہوئے جنگ کی شدت کا اندازہ ہوا،یہ جنگ طویل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ سو سال بعد ایک اسلامی ملک ترقی یافتہ دنیا میں داخل ہوا، یہ ملک اگر برباد ہو گیا تو اس کا اثر پورے عالم اسلام پر ہو گا، ہم سب متاثر ہوں گے چنانچہ اردگان اور ترک میڈیا دونوں کو وقت کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے، داعش ترکی کی سرحدوں پر کھڑی ہے، ترک حکومت کی ایک غلطی ترکی کو شام اور عراق بنا دے گی، اللہ نہ کرے ایسا ہو کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو پورا عالم اسلام آگ اور خون میں نہا جائے گا اور اس کے بعد کوئی سلطان بچے گا، کوئی میرا سلطان اور نہ ہی کوئی تیرا سلطان، پوری اسلامی دنیا برباد ہو جائے گی، اللہ تعالیٰ ہمیں اس برے وقت سے بچائے۔

کاش کوئی یہ تین لاکھ اینٹیں خرید لے
جاوید چوہدری جمعرات 5 فروری 2015

ڈاکٹر امجد ثاقب اور گوتلب ولیم لیٹنرکے خواب ایک جیسے ہیں۔
گوتلب لیٹنر ہنگری کا رہنے والا تھا، بوڈا پسٹ اس کا شہر تھا، وہ یہودی تھا، والدین جرمنی سے ہنگری آباد ہوئے، اللہ تعالیٰ نے اسے زبانیں سیکھنے کا ملکہ دے رکھا تھا، وہ جو لفظ سنتا تھا، اسے حفظ کر لیتا تھا، وہ لہجوں کی نقالی کا بھی ماسٹر تھا، عربی بولتا تو اس کا لہجہ عربی ہوتا تھا، فرنچ کو فرنچ لہجے میں بولتا تھا، جرمن زبان پیدائشی جرمنوں کے لہجے میں بولتا تھا اور انگریزی! وہ انگریزی انگریزوں کی طرح بولتا تھا، وہ نو سال کی عمر میں یورپ کی تقریباً تمام بڑی زبانیں بول لیتا تھا، ہنگری 158 سال ترکوں کی کالونی رہا، آج بھی آپ کو ہنگری کی زبان میں ترک لفظ مل جاتے ہیں، گوتلب لیٹنر نے جوانی میں ترکی زبان اور ثقافت سیکھنا شروع کی۔
وہ ترکی بھی گیا، لیٹنر نے اسلامی تاریخ، قرآن مجید اور نبی اکرم ؐ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیا تو یہ مسلمانوں اور اسلام دونوں سے متاثر ہو گیا، ترکی زبان کے بعد اس نے عربی سیکھی اور یہ اس کے بعد مسلمان ہو گیا، بس اس نے اسلام قبول نہ کیا، یہ یہودی رہ کر مسلمان تھا، یہ بوڈا پسٹ سے برطانیہ گیا، کنگز کالج جوائن کیا، اورینٹل سیکشن کا پروفیسر اور ڈین بنا دیا گیا، لیٹنر نے اس دور میں لندن میں مسلمان طالب علموں کے لیے ایک پرائیویٹ ہاسٹل بنایا، یہ ہاسٹل ،،مسلمان ہاسٹل،، کہلاتا تھا۔
لیٹنر نے ہاسٹل میں بھوپال کی ایک شہزادی کے عطیے سے شاندار مسجد بھی بنائی، یہ لندن کی دوسری مسجد تھی، لیٹنر اس وقت تک یورپ میں مشرقی علوم، اسلام اور اسلامی ثقافت کا ماہرا سٹیبلش ہو چکا تھا، انگریز نے 1849 میں پنجاب فتح کیا، 1858 میں لاہور میں گورنمنٹ کالج کی بنیاد رکھی، یہ کالج پنجاب کے امراء، جاگیر داروں اور رئوسا کے لیے بنایا گیا تھا، انگریز بنیادی طور پر پنجاب میں ایک ایسی رولنگ کلاس پیدا کرنا چاہتا تھا جو پنجابی ہو لیکن اس کے خیالات مغربی ہوں اور یہ مستقبل میں انگریزوں کے ساتھ مل کر پنجاب پر حکمرانی کرے۔
1864 میں جب کالج کی تعمیر مکمل ہوگئی تو انگریزوں کو ایک ایسے پرنسپل کی ضرورت تھی جو مشرقی علوم بالخصوص مسلم کلچر سے بھی واقف ہو، مقامی زبان بھی جانتا ہو اور وہ انگریز بھی ہو، انگریز سرکار نے پرنسپل کی پوسٹ کے لیے لندن میں اشتہار دے دیا، یہ اشتہار گوتلب لیٹنر کی نظر سے گزرا، اس نے درخواست لکھی اور لندن میں انڈین آفس چلا گیا، انٹرویو ہوا اور وہ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل کے لیے منتخب کر لیا گیا، یہ انتخاب آگے چل کر ہندوستان کے مسلمانوں بالخصوص پنجابی مسلمانوں کے لیے خوش قسمتی ثابت ہوا۔
گوتلب لیٹنر1864 میں لاہور آیا اور آتے ہی اس نے دو کمال کیے،گورنمنٹ کالج امراء کے بچوں کے لیے بنا تھا لیکن لیٹنر نے یہ تفریق ختم کر دی، اس نے امراء کے کالج کو پورے پنجاب کا کالج بنا دیا، دوسرا اس نے کالج میں آرٹس کے ساتھ ساتھ سائنس کے مضامین بھی شروع کرا دیے، یوں پنجاب کے طالب علموں کو سائنس پڑھنے کا موقع ملا، لیٹنر نے ہندوستان بھر سے مسلمان عالم جمع کیے اور یہ انھیں گورنمنٹ کالج لے آیا، مولوی محمد حسین آزاد جیسے عالم اور نثر نگار لیٹنر کے معاون تھے،لیٹنر نے عربی گرائمر، اسلامی تاریخ اور انگریزی کتابوں کے تراجم کا سلسلہ بھی شروع کرایا، اس نے انگریزی ڈرامے کو اردو میں بھی متعارف کرایا۔
لیٹنرنے لاہور سے سول اینڈ ملٹری گزٹ جیسا اخبار بھی شروع کرایا، یہ 91 سال چلتا رہا، لیٹنر کو لاہور میں یونیورسٹی کی کمی محسوس ہوتی تھی، وہ لاہور میں یورپ کے معیار کی یونیورسٹی بنانا چاہتا تھا، وہ آئیڈیا لے کر گورنر کے پاس گیا مگر انگریزوں کو لاہور میں یونیورسٹی قائم کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا، لیٹنرمضبوط اعصاب کا ایک ایسا شخص تھا جو جب کوئی بات ٹھان لیتا تھا تو وہ بات پوری ضرور ہوتی تھی، لیٹنر نے لاہور میں یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا چنانچہ اس نے انگریز سرکاری سے مایوس ہو کر عام آدمی کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔
لیٹنر نے پہلے لاہور، پھر پنجاب اور اس کے بعد برطانیہ کے مخیر حضرات کے سامنے جھولی پھیلانا شروع کر دی، دیکھتے ہی دیکھتے 35 ہزار پائونڈ جمع ہو گئے، گوتلب لیٹنر نے ان 35 ہزار پائونڈز سے پرانی انارکلی لاہور کے ساتھ گورنمنٹ کالج کی بغل میں پنجاب یونیورسٹی کی بنیاد رکھ دی، یہ اس کا رجسٹرار بن گیا، یہ یونیورسٹی پنجاب میں ایک انقلاب تھی، اس نے پورے ہندوستان کا مزاج بدل دیا، لیٹنر یونیورسٹی بنانے کے بعد پنجاب میں اسکول قائم کرنے میں جت گیا، اس نے صوبے کے تمام شہروں اور قصبوں میں سرکاری اسکول قائم کیے اور کمال کر دیا۔
تاریخ کا یہ عجیب و غریب کردار تاریخ میں گم ہو گیا لیکن اس کے قائم کردہ اسکول آج بھی قائم ہیں، لیٹنر کی بنائی یونیورسٹی بھی 133 سال گزرنے کے باوجود سلامت ہے، یہ آج بھی ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے، آپ لاہور جائیں، پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس کے سامنے کھڑے ہوں اور ایک لمحے کے لیے سوچیں، آج سے ڈیڑھ سو سال قبل ہنگری سے ایک یہودی استاد یہاں آیا اور پورے خطے کا مقدر بدل کر چلا گیا، مجھے یقین ہے آپ بھی تاریخ کے اس گمنام کردار کو سلام پیش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب بھی گوتلب لیٹنر جیسا خواب لے کر گھر سے نکل کھڑے ہوئے ہیں، ڈاکٹر صاحب میڈیکل ڈاکٹر تھے، سی ایس ایس کیا، ڈی ایم جی میں آئے، پنجاب کے مختلف حصوں میں کام کرتے رہے، ڈاکٹر صاحب نے 2001میں دس ہزار روپے سے اخوت کے نام سے قرض حسنہ کی اسکیم شروع کی، یہ اسکیم آگے چل کر سماجی انقلاب ثابت ہوئی، دس ہزار روپے سے شروع ہونے والا ادارہ آج بارہ ارب روپے کا مالک بن چکا ہے،ساڑھے سات لاکھ گھرانے پچاس ارب سے زیادہ کی دولت کما چکے ہیں، اخوت کی اڑھائی سو شہروں میں ساڑھے تین سو برانچیں ہیں۔
یہ تنظیم آج تک آٹھ لاکھ خاندانوں کو قرض حسنہ دے چکی ہے، یہ لوگ غریبوں کو دس سے 25 ہزار روپے قرضہ دیتے ہیں اور لوگ اس معمولی رقم کی برکت سے اپنے پائوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں، اخوت نے قرض حسنہ کے ساتھ ساتھ کلاتھ بینک بھی بنا لیا، یہ لوگ عام لوگوں سے ان کی ضرورت سے زائد کپڑے جمع کرتے ہیں اور یہ کپڑے بعد ازاں ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیے جاتے ہیں، یہ ہیلتھ سروسز میں بھی کام کر رہے ہیں اور یہ اب خواجہ سرائوں کی بحالی کا کام بھی کر رہے ہیں، اخوت حقیقتاً ایک انقلاب ہے اور ڈاکٹر امجد ثاقب اس کے بانی ہیں۔
یہ اپنی زندگی اخوت کے لیے وقف کر چکے ہیں، نوکری کو خیر باد کہہ چکے ہیں اور یہ اب دن رات اخوت کا کام کرتے ہیں، ڈاکٹر امجد ثاقب بیس سال قبل امریکی ریاست نیویارک کے قصبے ’’مونٹی چیلو‘‘ گئے، مونٹی چیلو امریکا کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن کی قیام گاہ تھی، جیفرسن نے امریکا کی مشہور یونیورسٹی ’’ یونیورسٹی آف ورجینیا‘‘ کی بنیاد رکھی، مونٹی چیلو میں ایک کتبہ تھا جس پر تھامس جیفرسن کا ایک خوبصورت قول درج تھا، تھامس جیفرسن نے کہا ’’میں امریکا کا صدر رہا لیکن میری شدید خواہش ہے میں امریکی صدر کے بجائے امریکا کی ایک شاندار یونیورسٹی کے بانی کی حیثیت سے پہچانا جائوں‘‘ یہ قول ڈاکٹر امجد ثاقب کے دل پر نقش ہو گیا چنانچہ انھوں نے اس دن گوتلب لیٹنر کی طرح پاکستان میں یونیورسٹی قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
یہ چند سال قبل چیف سیکریٹری پنجاب ناصر کھوسہ سے ملے، کھوسہ صاحب کو آئیڈیا پسند آیا، یہ اس آئیڈیا کو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے پاس لے گئے، وزیراعلیٰ یہ پرپوزل کابینہ میں لے گئے اور کابینہ نے یونیورسٹی کی منظوری دے دی، یونیورسٹی کی منظوری کے بعد زمین کا ایشو تھا، ڈاکٹر صاحب نے لاہور کے قریب ضلع قصور میں 16 ایکڑ زمین کا بندوبست کر لیا، زمین کے حصول میں پاکستان کے لوگوں نے ان کی مدد کی، زمین مل گئی تو یونیورسٹی بنانے کے لیے بنیادی سرمائے کا ایشو کھڑا ہوگیا۔
یونیورسٹی کے لیے شروع میں 30 کروڑ روپے درکار ہیں، یہ خطیر رقم ہے، ڈاکٹر صاحب کے لیے 30 کروڑ روپے جمع کرنا مشکل تھا، دوستوں سے مشورہ ہوا تو دوستوں نے عجیب حل نکالا، دوستوں نے تجویز دی ہم اگر 30 کروڑ روپے کو ایک ہزار سے تقسیم کریں تو یہ تین لاکھ بنیں گے، ہم اگر تین لاکھ کی اس فگر کو تین لاکھ اینٹیں سمجھ لیں اور ہر اینٹ کی قیمت ایک ہزار روپے طے کر دیں اور اس کے بعد مخیر حضرات سے درخواست کریں آپ ایک ہزار روپے ادا کر کے پنجاب کی شاندار ترین یونیورسٹی میں ایک اینٹ لگا دیں تو اس سے 30 کروڑ روپے بھی جمع ہو جائیں گے اور کار خیر میں تین لاکھ لوگ بھی شریک ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر صاحب آج کل یہ تین لاکھ اینٹیں بیچ رہے ہیں، میں نے ڈاکٹر صاحب کے منہ سے یہ آئیڈیا سنا تو میں ان کی ذہانت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا، یہ واقعی انقلابی آئیڈیا ہے، میری ملک میں کارخیر کرنے والے تمام حضرات سے درخواست ہے آپ بھی جب کوئی منصوبہ بنائیں تو آپ ڈاکٹر صاحب کی طرح منصوبے کو اینٹوں میں تقسیم کریں، فی اینٹ قیمت طے کریں، مخیر حضرات کو یہ اینٹیں خریدنے کی ترغیب دیں اور یوں آپ کا منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔
میرا عمران خان کو بھی مشورہ ہے آپ بھی پشاور کے شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے یہ تکنیک استعمال کریں، آپ کو بھی ایک ارب روپے جمع کرتے دیر نہیں لگے گی اور میری ملک کے مخیر حضرات سے بھی درخواست ہے آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے کروڑوں، اربوں روپے سے نواز رکھا ہے، یہ دولت آپ کی آنکھ بند ہوتے ہی آپ کی نہیں رہے گی، آپ کی قبر کی مٹی ابھی خشک نہیں ہو گی کہ لوگ آپ کی گاڑیاں، آپ کے گھر، آپ کی فیکٹریاں اور آپ کے بینک بیلنس آپس میں تقسیم کر لیں گے، لوگ آپ کی قبر تک کو فراموش کر دیں گے۔
آپ اگر اس انجام سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ چند دن کے لیے تھامس جیفرسن بن جائیں، آپ اپنی دولت کے ایک حصے کی قربانی دے کر ’’اخوت یونیورسٹی‘‘ کی اینٹیں خرید لیں، آپ کا نام آپ کے بعد بھی زندہ رہے گا، آپ بھی یونیورسٹی کے بانیوں میں شامل ہو جائیں گے، مجھے یقین ہے آپ میں ایسے سیکڑوں لوگ موجود ہیں جو تن تنہا یہ تین لاکھ اینٹیں خرید سکتے ہیں، کاش ایسے لوگوں میں سے کوئی ایک آگے آ جائے، کوئی ایک شخص پاکستان کا گوتلب لیٹنر بن جائے، کوئی ایک تھامس جیفرسن بن جائے، کاش ایسا ہو جائے۔
مری کی برفباری میں
جاوید چوہدری منگل 3 فروری 2015

اتوار کی صبح مری میں برفباری شروع ہو گئی، آسمان سے برف کے گالے زمین پر اتر رہے تھے، ہوٹل کی کھڑکی وادی کی طرف کھلتی تھی، درخت سفید ہو چکے تھے، سڑک پر دور دور تک سفیدی بچھی تھی، گاڑیاں برف میں دفن ہو چکی تھیں، مکانوں کی چھتیں سفید تھیں، درختوں کی شاخوں سے برف کے دھاگے لٹک رہے تھے، تاحد نظر سفیدی ہی سفیدی تھی، برفباری دنیا کے خوبصورت ترین مناظر میں شمار ہوتی ہے۔
برف سے قبل فضا میں ایک مقدس سکوت طاری ہو جاتا ہے، کائنات رک سی جاتی ہے، ٹھہراؤ کے اس عالم میں آسمان سے سفید دودھیا روشنی اترتی ہے، آپ کو اس لمحے پوری کائنات دودھیا محسوس ہوتی ہے اور پھر کائنات انگڑائی لیتی ہے اور آسمان سے سفید روئی الہام بن کر زمین پر نازل ہونے لگتی ہے، آسمان سے اترتی برف اسٹریٹ لائیٹس کی روشنی میں پریوں کے پر محسوس ہوتی ہے، آپ کو اگر برف باری کے دوران صبح صادق کا منظر نصیب ہو تو آپ اللہ کا لاکھ شکر ادا کیجیے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ منظر اپنے پسندیدہ بندوں کو عنایت کرتا ہے، صبح کی روشنی، آسمان سے اترتی برف، سبز درخت اور پہاڑوں کی چوٹیاں یہ چار عناصر مل کر کائنات کو وسیع پینٹنگ بنا دیتے ہیں۔
آپ خود کو نظر کے آخری سرے تک پھیلی پینٹنگ کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں اور اتوار کی صبح تاحد نظر یہ پینٹنگ تھی اور میں اس پینٹنگ کے سرے پر نقطہ بن کر کھڑا تھا، آسمان سے برف کا الہام اتر رہا تھا، درخت برف کا کفن پہن کر خاموش کھڑے تھے، سڑک پر نرم برف کا سفید قالین بچھا تھا، فضا میں مقدس سکوت تھا اور صبح کی نرم سفید روشنی دائیں بائیں ہلکورے لیتی دھند کے ساتھ دست و گریباں تھی، میرے دائیں ہاتھ چرچ کی سو سال پرانی عمارت تھی اور بائیں ہاتھ چھوٹی سی مسجد اور سفید سڑک پر پاؤں کے تازہ نشان اور میں نشانوں کے درمیان بت بن کر کھڑا تھا، میرے اوپر برف برس رہی تھی۔
میں خود کو اس وقت ’’سنومین‘‘ محسوس کر رہا تھا، میری چھوٹی بیٹی برف کے گولے بنا کر میرے اوپر پھینک رہی تھی، وہ باریک آواز میں قہقہے بھی لگا رہی تھی، یہ قہقہے اور برف کے یہ چھوٹے چھوٹے گولے کائنات کی اس وسیع پینٹنگ کے واحد متحرک عناصر تھے، باقی ہر چیز منجمد، ہر منظر ساکن تھا، ایک سکوت تھا جو سڑک سے درختوں اور آسمان سے میرے وجود تک پھیلا تھا اور میں اس سکوت، اس سکتے کا ایک حصہ بن کر سڑک کے عین درمیان کھڑا تھا، سارا مری شہر اس وقت کھڑکیوں اور بالکونیوں میں کھڑا تھا۔
آپ راولپنڈی اور اسلام آباد سے ایک گھنٹے میں مری پہنچ جاتے ہیں، یہ قربت مری کے لیے عذاب سے کم نہیں،ملک میں عید ہو، دو تین چھٹیاں اکٹھی آ جائیں، بارش ہو جائے، راولپنڈی اسلام آباد میں گرمی پڑ جائے، دھرنا ہو جائے یا پھر برف باری کا امکان ہو ، مری ’’چوک‘‘ ہو جاتا ہے، مری میں کُل تین ہزار گاڑیاں کھڑی کرنے کی گنجائش ہے مگر یہاں اکثر اوقات چالیس چالیس ہزار گاڑیاں آ جاتی ہیں، شہر میں کل 220 ہوٹل ہیں، کُل چار ہزار لوگ ٹھہر سکتے ہیں مگر ہوٹلوں کی گنجائش سے دس گنا لوگ پہنچ جاتے ہیں، ہم نے آج تک اس صورتحال سے نبٹنے کے لیے کوئی سسٹم نہیں بنایا، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے مری میں اپنے گھر بنا رکھے ہیں ۔
یہ مہینے میں دس بارہ دن مری میں بھی گزارتے ہیں لیکن حکمرانوں کے اس قیام کا مری کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا،سیاحوں کو مری میں گند بھی نظر آتا ہے، بے ہنگم ہجوم بھی اور بے ترتیب ٹریفک بھی لیکن ہم اس کے باوجود مری انتظامیہ کی تعریف نہ کریں تو یہ زیادتی ہو گی، آپ پاکستان کے کسی ایسے شہر کو ایک دن کے لیے کنٹرول کر کے دکھا دیجیے جس میں گنجائش سے دس گنا زیادہ لوگ اور بیس گنا زیادہ گاڑیاں آ جاتی ہوں، مری میں ہر ہفتے یہ صورتحال ہوتی ہے، مری کے ٹریفک وارڈن بہت مستعد اور ’’سیلف لیس‘‘ ہیں، میں ہفتے کی شام مری پہنچا، اتوار کی صبح ،،سنو فال،، شروع ہوئی، میں سنو فالنگ کے دوران سڑک پر تھا، میں نے ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو سڑکوں پر دیکھا، میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا، یہ بے چارے برف میں ہونڈا 125 اور 250 چلا رہے تھے۔
یہ عام پولیس یونیفارم میں ملبوس تھے، جسم پر کوٹ، گرم ٹوپی اور برف میں استعمال ہونے والے بوٹ بھی نہیں تھے، برف پر ہونڈا 125 اور 250 چلانا خطرناک ہوتا ہے، میں نے ان کو برف میں موٹر سائیکل چلاتے دیکھا تو میں نے ایک ٹریفک وارڈن کو روک کر پوچھا ’’آپ لوگوں کے پاس سنو ڈریس نہیں ہیں‘‘ وہ بے چارہ پریشان ہو گیا، میں نے اسے یقین دلایا‘‘ میں آپ کی نوکری کی ذمے داری لیتا ہوں، آپ سچ بولیں‘‘ وہ بے چارہ پھٹ پڑا، معلوم ہوا مری میں سو ٹریفک وارڈنز ہیں، حکومت نے انھیں سنو ڈریس، سنو کیپ، سنو کورٹس اور سنو بوٹس فراہم نہیں کیے، مری کے ٹریفک وارڈنز کو سنو بائیکس، فوربائی فور جیپیں اور کرینیں بھی درکار ہیں لیکن حکومت نے آج تک انھیں یہ فراہم نہیں کیں، یہ لوگ ہوٹلوں میں رہتے ہیں، سرکاری رہائش گاہ دستیاب نہیں ہے۔
کھانے کا بندوبست نہیں، یہ لوگ ہارڈ ایریا (مشکل علاقوں) میں کام کرتے ہیں لیکن انھیں ہارڈ ایریاز الاؤنس نہیں ملتا، یہ صبح نو بجے سے رات بارہ بجے تک پندرہ پندرہ گھنٹے کام کرتے ہیں، برف میں چلتے ہیں، برف میں رہتے ہیں اور لوگوں کی گالیاں کھاتے ہیں،، میں نے اس سے پوچھا ’’کیا حکومت آپ کے مسائل سے آگاہ ہے‘‘۔ جواب دیا ’’ برف باری سے پہلے حمزہ شہباز نے مری میں میٹنگ بلائی، میٹنگ میں20 اعلیٰ عہدیدار بھی شریک تھے۔
میٹنگ میں فیصلہ ہوا، مری کے ٹریفک وارڈنز کو برف باری سے قبل تمام ضروری آلات اور لباس فراہم کر دیے جائیں گے، فنڈز ریلیز کرنے کا حکم جاری ہو گیا لیکن سامان نہیں ملا، حمزہ شہباز نے ٹریفک وارڈنز کو چھ ہزار روپے فی کس ہارڈ ایریاز الاؤنس دینے کا اعلان بھی کیا مگر یہ اعلان بھی آج تک عملی جامہ نہیں پہن سکا چنانچہ یہ لوگ منفی درجہ حرارت میں برف میں کام کر رہے ہیں، یہ موٹر سائیکلوں پر کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی ادھر‘‘ میں اس ہمت اور اس فرض شناسی پر انھیں سلام پیش کرنے پر مجبور ہو گیا۔
میری وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے درخواست ہے، آپ چند لمحوں کے لیے اپنے گھر سے باہر بھی جھانک کر دیکھئے، آپ کو ایسکارٹ کرنے اورآپ کے گھر کی حفاظت کرنے والے لوگ واقعی مشکل میں ہیں، آپ شاید بھول گئے ہیں، 27 جنوری کو ایک ٹریفک وارڈن آپ کے گیٹ کے سامنے سڑک پر گر گیا، اس بیچارے کا سانس بند ہو گیا، وہ نا مناسب کپڑوں میں گھنٹوں سے برف میں کھڑا تھا، اس نے اگر گرم ٹوپی، گلے میں مفلر اور بدن پر گرم کوٹ پہنا ہوتا اور اس نے گرم بوٹ پہنے ہوتے تو یہ بیچارہ اس صورتحال کا شکار نہ ہوتا، اللہ نے کرم کیا ،وزیراعظم ہاؤس کی ایمبولینس اس وقت وہاں موجود تھی چنانچہ ڈاکٹروں نے ٹریفک وارڈن کو آکسیجن دے کر بحال کر دیا ورنہ دوسری صورت میں بیچارے کی جان چلی جاتی، مری کے تمام وارڈن اس وقت اسی صورتحال کا شکار ہیں چنانچہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ مہربانی فرمائیں، فنڈ ریلیز ہو چکے ہیں آپ فوری طور پر ان لوگوں کو سنوبائیکس اور سنو ڈریس فراہم کر دیں تاکہ یہ زندہ حالت میں ڈیوٹی ادا کر سکیں۔
مری کے نوجوان اے سی طاہر فاروق بھی تعریف کے لائق ہیں، میں نے ان کو بھی سڑکوں پر انتظامات کی نگرانی کرتے دیکھا، ہم ذہنی طور پر گندے لوگ ہیں، ہم جگہ جگہ کچرا پھینک کر اپنی گندی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، مری میں برف میں کچرا پڑا تھا ، طاہر فاروق یہ کچرا اٹھوا رہے تھے، یہ ٹریفک کی نگرانی بھی کر رہے تھے، مری کا جی پی او برٹش دور سے شہر میں گھنٹہ گھر کی حیثیت رکھتا ہے، ہم میں سے شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس نے بچپن یا جوانی میں مری کے جی پی او کے سامنے تصویر نہ بنوائی ہو، یہ عمارت برسوں قبل سو سال پورے کر چکی تھی اور انہدام کا شکار تھی، یہ عمارت پرانے اسٹائل میں دوبارہ بن رہی ہے، میں نے عمارت کے اندر گھس کر کام دیکھا، کام بہت اچھا ہو رہا تھا، یہ عمارت انور گوندل نام کے ڈیویلپر بنا رہے ہیں۔
میں نے چوکیدار سے ان کا نمبر لیا اور اسلام آباد پہنچ کر ان کو تعریفی فون کیا، مری کا حلیہ بہتر ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود ابھی بہت گنجائش باقی ہے، مری میں نئے ہوٹل بننے چاہئیں، یہ شہر ٹریفک فری بھی ہونا چاہیے، گاڑیاں ایکسپریس وے کے آخر میں پارک ہونی چاہئیں اور سیاحوں کو شٹل سروس کے ذریعے شہر تک پہنچنا چاہیے، صفائی پر مزید توجہ کی ضرورت ہے، شہر میں ہیٹنگ کا مناسب بندوبست نہیں، بھکاریوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے، ویو پوائنٹس بھی کم ہیں، حکومت اگر چند جگہوں پر معلق پل بنادے، یہ پل لوہے کی تاروں کے ذریعے فضا میں معلق ہوں تو لوگ زیادہ انجوائے کر سکتے ہیں، مری میں سردیوں کی اسپورٹس کا بندوبست بھی ہونا چاہیے، گورنر ہاؤس کی پشت پرا سکینگ گراؤنڈ بنایا جا سکتا ہے، یہ گراؤنڈ مری کی لُک میں اضافہ کر دے گا لیکن یہ شاید دہشت گردیوں جیسے ایشوز میں پھنسی حکومتوں کے لیے ممکن نہ ہو!
مری تھا، آسمان سے برستی برف تھی اور تاحد نظر پھیلی سفید پینٹنگ تھی اور میں اس سفید پینٹنگ میں ایک نقطہ بن کر کھڑا تھا اور میری بیٹی میرے اوپر برف کے گولے پھینک رہی تھی اور باریک آواز میں قہقہے لگا رہی تھی، زندگی ٹھہر سی گئی، ہوا میں تیرتے پرندوں کے پروں کی طرح ٹھہر سی گئی۔
سچ کا قحط
جاوید چوہدری جمعرات 29 جنوری 2015

آپ پہلے صدر بارک حسین اوباما کا ماضی ملاحظہ کیجیے،صدر اوباما کے والدبارک حسین اوباما سینئرکینیا کے گاؤں کوگیلو سے تعلق رکھتے تھے،یہ 1959ء میں تعلیم کے لیے یونیورسٹی آف ہوائی آئے،یہ ہوائی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اور شام کے وقت ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں برتن دھوتے تھے،یہ 1964ء تک امریکا میں رہے،یہ اوباما سینئر کی جدوجہد کے پانچ سال تھے،اوباما کے والد کبھی یہاں رہتے تھے اور کبھی وہاں،اوباما سینئر نے 2 فروری 1961ء کو اوباما جونیئر کی والدہ این ڈنہم سے شادی کر لی،والدہ مختلف دفتروں میں کام کرتی تھی اور اوباما سینئر کی زندگی چلتی تھی۔
یہ شادی نہ چل سکی،اوباما سینئر نے مارچ 1964ء میں این ڈنہم کو طلاق دی اور اس کی گود میں تین سال کا اوباما چھوڑ کر کینیا چلے گئے،سفید فام این ڈنہم کو سیاہ فام بارک حسین اوباما کو پالنا پڑ گیا،خاتون باہمت تھی،یہ کام بھی کرتی رہی اور بچہ بھی پالتی رہی‘این ڈنہم نے 1965ء میں لولو سوئیترو سے دوسری شادی کر لی اور اوباما جونیئر کے ساتھ شفٹ ہو گئی،یوں اوباما سوتیلے والد کے گھر پروان چڑھنے لگے،این ڈنہم کی یہ شادی بھی نہ چل سکی اور یہ نومبر1980ء میں دو بچوں کے ساتھ لولو سوئیترو سے الگ ہو گئیں،بارک حسین اوباما جوان ہوئے تو خوفناک جدوجہد کا سلسلہ شروع ہو گیا،یہ 1985 ء سے 1988ء تک کمیونٹی آرگنائزر بھی رہے۔
وکالت بھی کی اور پڑھاتے بھی رہے،اوباما نے 1996ء میں سیاست میں قدم رکھا،دن رات محنت کی،اپنے ہینڈ بل خود تقسیم کیے،اپنے پوسٹرز خود لگائے،بیس بیس میل پیدل سفر کیا،گرمیوں،سردیوں اور بارشوں میں کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ یہ کوششیں بار آور ہوئیں اور بارک حسین اوباما 20 جنوری 2009ء کودنیا کی واحد سپر پاور کے صدر بن گئے،یہ امریکا کی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جن کی رگوں میں مسلمان کا خون ہے،یہ مسلمان نام رکھنے والے بھی پہلے صدر ہیں اور یہ امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر بھی ہیں،یہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق بھی رکھتے ہیں۔
بارک حسین اوباما امریکی نظام،امریکی جمہوریت کا حسن ہیں،یہ ثابت کرتے ہیں،آپ اگر باصلاحیت ہیں،محنتی ہیں،پڑھے لکھے،ایماندار اور وژنری ہیں اور آپ میں اگر ڈیلیور کرنے کی صلاحیت ہے تو آپ امریکا کے صدر بھی بن سکتے ہیں اور آپ کا رنگ،آپ کا خون،آپ کی محرومی اور آپ کی کلاس آپ کی ترقی کے راستے میں حائل نہیں ہوتی،صدر اوباما اپنی جمہوریت،اپنے نظام کا یہ ناقابل تردید ثبوت لے کر 25 جنوری2015ء کو بھارت پہنچے اور بھارت میں ان کا استقبال کس نے کیا ؟ بھارت میں ان کا استقبال چائے بیچنے والے نریندر مودی نے کیا۔
نریندر مودی کا تعلق گجرات کے وید نگر کے غریب خاندان سے تھا،والد ریلوے اسٹیشن پر چائے کا کھوکھا چلاتا تھا،خاندان 8 افراد پر مشتمل تھا،والدہ بھی لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھتی تھی ،نریندر مودی نے چھ سال کی عمر میں والد کے کھوکھے پر چائے بیچنا شروع کی،یہ چائے کے گندے کپ اٹھا کر ’’چائے گرم،چائے گرم‘،کے نعرے لگاتے تھے‘یہ 17 سال کی عمر میں گھر سے بھاگے اور ہمالیہ چلے گئے‘یہ 21 سال کی عمر میں ہندو انتہا پسند جماعت آر ایس ایس میں شامل ہو گئے،یہ دو سال تک انڈر گراؤنڈ رہے،یہ اس دوران آر ایس ایس کے دفتر میں سوتے تھے،یہ دفتر میں جھاڑو بھی لگاتے تھے اور کرسیاں اور میزیں بھی سیدھی کرتے تھے اور دفتر میں آنے والوں کو چائے اور کھانا بھی پکا کر کھلاتے تھے،پارٹی نے 1988ء میں انھیں گجرات کا آرگنائزنگ سیکریٹری بنا دیا۔
یہاں سے ایک نئے نریندر مودی کا آغاز ہوا،نریندر مودی 2001ء سے 2014ء تک 13 برس گجرات کے وزیراعلیٰ رہے‘مودی نے گجرات میں کمال کر دیا،مودی نے ملک کے پسماندہ ترین صوبے کو ملک کا ترقی یافتہ ترین صوبہ بنا دیا،ان 13برسوں کے دوران مودی پر مسلمانوں کے خلاف فسادات کے الزام بھی لگے،یہ فسادی بھی کہلائے،متعصب ہندو بھی،شدت پسند بھی اور منافق بھی۔ امریکا نے 2005ء میں ان پر امریکا میں داخلے پر پابندی بھی لگا دی،یہ زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں،انگریزی سمجھتے ہیں لیکن بولنے میں دقت ہوتی ہے،زندگی میں کبھی برانڈڈ سوٹ نہیں پہنا،ان کا کوئی گھر نہیں تھا۔
چند برس قبل330 مربع میٹر کا گھر بنایا،اثاثوں کی مالیت سوا کروڑ ہے،نریندر کا ایک بھائی لیدر فیکٹری میں کام کرتا تھا،دوسرا بھائی گجرات حکومت کے محکمہ اطلاعات میں معمولی افسر ہے،فیملی کا کوئی فرد 13 سال چیف منسٹر ہاؤس میں داخل ہو سکا اور نہ ہی اب وزیراعظم ہاؤس آ سکتا ہے،پاؤں میں کھردرے چمڑے کی چپل پہنتے ہیں،ساگ بھات کھاتے ہیں اور بیرونی سفر نہ ہونے کے برابر ہیں،یہ نریندر مودی 26مئی 2014ء کو 282 سیٹوں کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیراعظم بن گئے،یہ اس وقت دنیا کے مقبول ترین لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں،اس چائے بیچنے والے نریندر مودی نے 25 جنوری کو برتن دھونے والے کے بیٹے صدر اوباما کا دہلی میں استقبال کیا۔
آپ اب صدر اوباما اور وزیراعظم نریندر مودی کے بیک گراؤنڈ کو ذہن میں رکھتے ہوئے امریکا اور بھارت کے تعلقات کی نئی شروعات دیکھیے،آپ صدر اوباما کے25 جنوری سے 27 سے جنوری تک بھارت کے دورے کو دیکھیے،آپ سیاست کا ایک نیا زاویہ دیکھیں گے،یہ بڑی طاقتوں کے سربراہان کی میٹنگ کے ساتھ ساتھ سیاہ فام مسلمان باورچی کے بیٹے کی چائے بیچنے والے مسکین بھارتی سے ملاقات بھی تھی،یہ ایک کامیاب نظام کا دوسرے کامیاب نظام کا دورہ بھی تھا اور یہ ایک ان تھک جدوجہد کی دوسری ان تھک جدوجہد کی زیارت بھی تھی،صدراوباما نریندر مودی کو ڈیزرو کرتے تھے اور نریندر مودی اوباما کو ڈیزرو کرتے تھے۔
امریکا بھارت کو ڈیزرو کرتا تھا اور بھارت امریکا کوجب کہ ان کے مقابلے میں ہمارے لیڈر اوباما کو ڈیزرو کرتے ہیں اور نہ ہی ہم پاکستانی امریکا کو۔ ہم ایک کھوکھلی،منافق قوم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نظام کے مطابق کھوکھلی قوموں کو ایسے ہی لیڈر ملتے ہیں جیسے ہمیں نصیب ہوئے،آپ 20 کروڑ لوگوں کے اس ملک میں نریندر مودی اور بارک حسین اوباما جیسا کوئی ایک لیڈر دکھا دیجیے،آپ دل پر ہاتھ رکھ کر ایک بار،ہاں صرف ایک بار یہ حلف دے دیجیے ہمارے ملک میں چائے بیچنے والا کوئی نواز،میاں نواز شریف کے عہدے تک پہنچ سکتا ہے اور کسی آصف باورچی کا بیٹا صرف محنت،صلاحیت اور وژن کی بنیاد پر بلاول کے عہدے پر فائز ہو سکتا ہے۔
میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا،ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں فیکٹریوں اور سیاسی جماعتوں میں کوئی فرق نہیں،جس میں سیاسی جماعتوں کی قیادت وراثت میں منتقل ہوتی ہے،جس میں میاں نواز شریف کو گیارہ کروڑ لوگوں کے صوبے میں اپنے بھائی کے سوا کوئی وزیراعلیٰ نہیں ملتا،جس میں نوجوانوں کو قرضے بھی دینا ہوں تو لون اسکیم کی سربراہی وزیراعظم کی صاحبزادی کو ملتی ہے اور جس میں بڑے عہدوں کے لیے بٹ،خواجہ،میاں اور پنجابی ہونا ضروری ہوتاہے اور جس میں پارٹیاں جمہوریت کے بجائے بنانے والوں کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔
جس میں مسلم لیگ صرف مسلم لیگ نہیں ہوتی ن لیگ ہوتی ہے اور پیپلزپارٹی صرف پیپلز پارٹی نہیں ہوتی آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی ہوتی ہے اور جمعیت علماء اسلام صرف جے یو آئی نہیں ہوتی جے یو آئی فضل الرحمن ہوتی ہے اور جس میں عمران خان جیسے انقلابی بھی اپنے دائیں بائیں شاہ محمود قریشی اور جہانگیرترین کو بٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور جس میں صرف جہاز کا مالک ہونے کی وجہ سے جہانگیر ترین کو پارٹی کا سیکریٹری جنرل بنا دیا جاتا ہے اور جس میں میاں نوازشریف کی نظر میں ذاتی وفاداری سب سے بڑی اہلیت ہوتی ہے اور جس میں آصف علی زرداری کو پوری پارٹی میں بلاول زرداری کے سوا کوئی اہل قائد نہیں ملتااور جس میں اے این پی باچا خاندان،جے یو آئی مولانا فضل الرحمٰن خاندان اور پاکستان مسلم لیگ ق چوہدری خاندان کی ملکیت ہوتی ہے،ایسے ملک باورچی کے بیٹے اوباما اور چائے بیچنے والے کے بیٹے مودی کی دوستی کو ڈیزرو نہیں کرتے۔
آپ دور نہ جائیے آپ گورنر پنجاب چوہدری سرور کے واقعے کو لے لیجیے‘آپ چوہدری سرور اور میاں نواز شریف،آصف علی زرداری اور عمران خان کا پروفائل نکال کر دیکھ لیجیے ‘چوہدری سرور پاکستان سے برطانیہ گئے،کندھے پر بوریاں اٹھا کر بزنس اسٹارٹ کیا اور گوروں کے حلقے سے برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر بنے،یہ برطانوی تاریخ کے پہلے مسلمان اور پاکستانی رکن پارلیمنٹ تھے آصف علی زرداری ہوں،میاں نوازشریف ہوں یا پھر عمران خان ہوں کیا ملک کے کسی لیڈر میں اتنی اہلیت ہے کہ یہ برطانیہ جائے اور برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر بنے لیکن چوہدری سرور نے یہ کیا،یہ 13 سال برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر رہے! یہ 2013ء میں پاکستان آئے،برطانوی شہریت چھوڑی اور پنجاب کے گورنر بنادیے گئے،یہ کل گورنری سے مستعفی ہو گئے۔
یہ گورنری سے کیوں مستعفی ہوئے؟ یہ کام کرنا چاہتے تھے لیکن ہمارے ملک میں صلاحیت اور جذبہ دونوں نا اہلیت ہیں،یہ ڈس کوالی فکیشن ہیں اور چوہدری سروراس ڈس کوالی فکیشن کا نشانہ بن گئے،آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے اگر پاکستان کا کوئی شہری فائیو اسٹار ریٹائرمنٹ گزارنا چاہے تو کیا ملک میں گورنر پنجاب سے بہتر کوئی عہدہ موجود ہے؟ آپ کے پاس ملک کا سب سے بڑا گورنر ہاؤس ہے،گاڑیوں کا قافلہ ہے،آپ سرکاری جہاز بھی استعمال کر سکتے ہیں اور آپ گرمیوں میں مری کا موسم بھی انجوائے کر سکتے ہیں،پھر چوہدری سرور نے یہ عہدہ کیوں چھوڑا؟ـ کیونکہ یہ پاکستان میں آرام کرنے نہیں،کام کرنے آئے تھے اور ہمارے ملک میں ہر چیز کی گنجائش موجود ہے بس کام کی گنجائش نہیں اور چوہدری سرور اس عدم گنجائش کا نشانہ بن گئے۔
چوہدری سرور نے کل رخصت ہوتے وقت کہا تھا ’’پاکستان میں سچ کا قحط ہے‘،یہ وہ سچ ہے جس کا آج تک ہمارا کوئی لیڈر سامنا نہیں کر سکااور ہم جب تک اس سچ کا سامنا نہیں کریں گے ہم اس وقت تک اوباما اور مودی جیسے لیڈروں کو ڈیزرو نہیں کریں گے،امریکا اور چین کے سربراہان ہمارے اوپر سے گزر کر بھارت جاتے رہیں گے اور ہم صرف احتجاج کرتے اور روتے پیٹتے رہیں گے۔
ماما جی پالیسی
جاوید چوہدری جمعرات 29 جنوری 2015

ایک خواجہ سراکسی پہلوان سے لڑ پڑا‘ لڑائی کے دوران خواجہ سرا نے پہلوان کو دھمکی دی ’’میں تمہارے ساتھ خوفناک سلوک کروں گا‘‘ پہلوان نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’تم خواجہ سرا ہو‘ تم میرے ساتھ خوفناک سلوک کیسے کرو گے‘‘ خواجہ سرا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا‘ وہ رکا‘ تھوڑا سا شرمایا اور پھر ہتھیلی پر ہتھیلی رگڑ کر بولا ’’ قریبی شہر میں میرے ماما جی رہتے ہیں‘ وہ ساڑھے چھ فٹ کے کڑیل جوان ہیں‘ میں انھیں بلاؤں گا‘ وہ تمہارے ساتھ خوفناک سلوک کریں گے‘‘ پہلوان نے قہقہہ لگایا‘ خواجہ سرا کی گردن پر مکا مارا‘ خواجہ سرا نالی میں گر گیا اور پہلوان سائیکل پر بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔
آپ یہ لطیفہ ملاحظہ کیجیے اور اس کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیجیے‘ مجھے یقین ہے آپ خود کو وہ خواجہ سرا محسوس کریں گے جسے گالی دینے کے لیے بھی ماماجی کی ضرورت پڑتی ہے‘ آپ کو محسوس ہو گا‘ ہماری خارجہ پالیسی ‘خارجہ پالیسی نہیں ‘ ماما جی پالیسی ہے‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ ملک کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے ‘ ہمارے ملک میں تیل کا بحران ہو جائے تو یہ بحران سعودی عرب والے ماماجی حل کریں گے‘ ہماری وزارت خزانہ کو ملک چلانے کے لیے ڈالر چاہئیں‘ یہ ڈالر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک والے ماماجی دیں گے۔
ہمارے ملک میں زلزلہ آجائے‘ سیلاب آ جائے اور خشک سالی ہوجائے‘ یہ مسئلے ترکی‘ بحرین اور یو اے ای والے ماما جی حل کریں گے‘ فوج کو اسلحہ چاہیے‘ ہم نے دہشت گردوں سے لڑنا ہے اور مسئلہ کشمیر حل کرنا ہے‘ یہ مسائل امریکا والے ماماجی حل کریں گے اور ملک کو بھارت اور امریکا سے بچانا ہے‘ ہمارا یہ مسئلہ چین والے ماما جی حل کریں گے‘ ہمارے ماماجی صرف سرحدوں سے باہر نہیں ہیں‘ ہم نے اپنی سہولت کے لیے لوکل ماماجی کا بندوبست بھی کر رکھا ہے‘ بھارت افغانستان میں اپنا اثر ورسوخ بڑھا رہا ہے‘ یہ مسئلہ حقانی ماماجی حل کریں گے‘ مقبوضہ کشمیر میں ہمارے مفادات کا خیال سعید ماماجی رکھیں گے۔
کراچی میں ٹارگٹ کلرز سے طالبان ماماجی نبٹیں گے‘ کوئٹہ اور پارا چنار کا مسئلہ جھنگ کے ماماجی حل کریں گے اور جھنگ کے ماما جی کا مقابلہ گلگت کے ماماجی کریں گے اور مہاجر ماما جی سے سندھی ماماجی نبٹیں گے اور سندھی ماماجی سے مہاجر ماماجی جنگ کریں گے‘ فوجی ماماجی سے جمہوری ماماجی لڑیں گے اور جمہوری ماما سے لڑائی بلے والے ماماجی کریں گے اور بلے والے ماماجی سے جوڈیشل ماماجی لڑیں گے اور جوڈیشل ماما جی سے میڈیا ماماجی نبٹے گا‘ یہ ہے ہماری کل ریاست‘ ماماجی‘ ماماجی اور بس ماماجی‘ بھانجے کیا کریں گے‘بھانجے صرف ہتھیلی رگڑیں گے۔
آپ کو میری بات عجیب محسوس ہو گی لیکن بدقسمتی سے یہ حقیقت ہے ہم اس ملک کو ماما جی پالیسی کے ذریعے چلانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ آپ ملک کی پوری تاریخ سامنے بچھا کر بیٹھ جائیے‘ آپ کو پاکستان کی تاریخ میں ماماجی کے سوا کچھ نہیں ملے گا‘ کیا ہم نے 1965ء کی جنگ خود نہیں چھیڑی تھی؟ کیا آپریشن جبرالٹر ذوالفقار علی بھٹو اور میجر جنرل اختر حسین ملک کا مشترکہ کارنامہ نہیں تھا اور کیا یہ لوگ اس آپریشن کے ذریعے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت کمزور نہیں کرنا چاہتے تھے‘ کیا بھٹو نے برسوں بعد لندن میں سکندر مرزا کے سامنے یہ اعتراف نہیں کیا تھا ’’ ہم اگر انڈیا سے جنگ نہ چھیڑتے تو ایوب خان کبھی نہ جاتے‘‘ کیا یہ حقیقت نہیں۔
یہ سازش جب پاک بھارت جنگ بن گئی تو ہم جنگ سے جان چھڑانے کے لیے امریکی ماما جی اور چینی ماما جی کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے‘ کیا ایوب خان نے چین سے مدد مانگنے کے لیے بیجنگ کا خفیہ دورہ نہیں کیا اور چینی ماما جی نے پاکستان سے یہ نہیں کہا تھا ’’ ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن آپ پہلے ہمیں یہ یقین دلائیں آپ جنگ میں واقعی سیریس ہیں‘‘ مگر ہم نے چین کو یقین دلانے کے بجائے بھارت کے ساتھ صلح کر لی‘کیا یہ حقیقت نہیں دنیا ہمیں 1970ء میں سمجھاتی رہی‘ مشرقی پاکستان سیاسی معاملہ ہے‘ آپ اسے سیاسی طریقے سے سلجھائیں‘ آپ ڈھاکا میں فوج کشی نہ کریں لیکن یحییٰ خان نے خود کو صدر بنانے کے لیے مشرقی پاکستان کو جنگ میں جھونک دیا‘ ہمارے جوان‘ ہمارے شہری مرتے رہے اور جرنیل شراب پی کر فرش پر گرتا رہا‘ ہم اس جنگ میں بھی امریکی اور چینی ماما جی کی طرف دیکھتے رہے۔
امریکی ماما جی بحری بیڑا تیار کرتے رہے اور چینی ماما جی نے ذوالفقار علی بھٹو کو جواب دیا ’’ آپ بھارت سے صلح کر لیں‘ آپ یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے‘‘ کیا یہ حقیقت نہیں چواین لائی نے بھٹو صاحب سے کہا تھا ’’ آپ اگر صلح کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کی مدد کے لیے بھارتی سرحدوں پر دباؤ بڑھا دیں گے’’ لیکن ہم نے صلح کی پیشکش کو چینی ماما جی کی طرف سے جنگی امداد سمجھا اور جب بھارت کی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل ہوئیں تو ہمارے فوجی بھارتی فوجیوں کو چینی فوجی سمجھ کر ان کے استقبال کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور گرفتار کر لیے گئے‘ کیا ہم نے جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کے لیے افغان جنگ نہیں لڑی تھی اور ہم اس جنگ کے دوران امریکی ماما جی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے نہیں رہے تھے اور جب یہ جنگ ختم ہوئی اور ملک 50 لاکھ افغان مہاجرین‘ کلاشنکوفوں اور ہیروئین کی منڈی بن گیا تو کیا ہم بے چارگی سے امریکی ماماجی کا انتظار نہیں کرتے رہے؟
کیا ہم نے کارگل کی جنگ خود نہیں چھیڑی تھی اور ہم جب کارگل میں پھنس گئے تو کیا ہم نے امریکی ماماجی کی مدد نہیں لی تھی اور امریکی ماماجی جب ہماری مدد کر چکے تو کیا ہم نے جنرل مشرف کو بچانے کے لیے میاں نواز شریف کی حکومت ختم نہیں کر دی تھی؟ کیا ہم نے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے لیے دہشت گردی کی جنگ میں حصہ نہیں لیا اور کیا ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی اور یورپی ماماجی سے امداد نہیں اینٹھتے رہے؟ کیا ہم طالبان لیڈر پکڑ کر گوانتاناموبے نہیں بھجواتے رہے اور ماماجی سے ڈالر وصول نہیں کرتے رہے؟ کیا بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے امریکی‘ برطانوی اور سعودی ماماجی سے مدد نہیں لی۔
کیا این آر او متحدہ عرب امارات کے ماماجی نے نہیں کرایا تھا‘ کیا جنرل پرویز مشرف سے استعفیٰ امریکی‘ سعودی اور یو اے ای کے ماماجی نے نہیں لے کر دیا تھا؟ کیا آصف علی زرداری امریکی ماماجی کی ضمانت پر صدر نہیں بنے تھے؟ کیا ہم طالبان سے نبٹنے کے لیے امریکی اور یورپی ماماجی کی مدد نہیں لیتے رہے؟ کیا ہم نے امریکی ماماجی کو افغانستان میں الجھانے کے لیے گڈ طالبان ماماجی نہیں پالے؟ کیا ہم نے امریکی ماماجی کو ڈرون اڑانے اور چلانے کی غیرسرکاری اجازت نہیں دے رکھی؟ کیا ہم اپنی بقا کے لیے اب امریکی اور چینی ماماجی کو لڑانے کی کوشش نہیں کر رہے؟
کیا ہم امریکی ماماجی کو پریشان کرنے کے لیے روسی ماماجی سے تعلقات نہیں بڑھا رہے اور کیا ہم مشرق وسطیٰ میں شیعہ سنی لڑائی کا فائدہ اٹھانے کے لیے سعودی اور بحرینی ماماجی کی مدد نہیں کر رہے؟ کیا ہم نے انھیں فوجی بھرتی کرنے کی غیر سرکاری اجازت نہیں دے رکھی اور کیا یہ حقیقت نہیں، ہماری اس 68 سال کی ماماجی پالیسی کے باعث دنیا اب ہم پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں‘ یہ ہمیں اب امداد دینے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی ہمارے لیے تجارت کے دروازے کھولنے کے لیے رضا مند‘ کیا ہم ملک کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر اکیلے نہیں ہیں؟
آپ کو میری بات عجیب محسوس ہو گی لیکن بدقسمتی سے یہ حقیقت ہے‘ دنیا میں ہمارے تین بڑے دوست تھے‘ چین‘ امریکا اور سعودی عرب‘ پاکستان اگر آج تمام تر بحرانوں کے باوجود سلامت ہے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت کے بعد ان تین ممالک کی مہربانی تھی‘ چین ہمارا حقیقی دوست تھا‘ امریکا نے پاکستان کو آج تک سب سے زیادہ امداد دی ہے اور سعودی عرب اس وقت بھی ہمارے ساتھ کھڑا رہا جب پوری دنیا نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا تھا لیکن ہم اپنی ماما جی پالیسی کی وجہ سے ان تینوں دوستوں کا دل توڑتے رہے‘ وقت آگے چلتا رہا جب کہ ہم آج تک خواجہ سرا کے ماماجی کا انتظار کر رہے ہیں۔
آپ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو دیکھئے اور اس کے بعد چین‘ امریکا اور سعودی عرب کے رویئے میں تبدیلیاں دیکھئے‘آپ کو پوری بات سمجھ آ جائے گی‘ چین ہمارا دوست تھا‘ ہم نے چین کے ساتھ اس وقت دوستی کی پینگ بڑھائی جب دنیا کا کوئی ملک چین کے لیے اپنا دروازہ کھولنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن چین کے صدر ژی جن پنگ پاکستان کا دورہ منسوخ کر کے 17ستمبر 2014ء کو بھارت چلے گئے‘ یہ تین دن بھارت رہے اور انھوں نے وہاں 20 ارب ڈالر کے معاہدے کیے‘ ہم 65 برسوں سے امریکا کے دوست چلے آ رہے ہیں‘ ہم نے امریکا کے لیے سوویت یونین کے ساتھ جنگ تک لڑی لیکن امریکی صدر بارک اوباما 25 جنوری کو بھارت چلے گئے۔
اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان سول جوہری معاہدہ بھی ہو گیا اور امریکا نے بھارت کو افغانستان میں اپنا بااعتماد ساتھی بھی ڈکلیئر کر دیا‘ اوباما اپنے دائمی دوست پاکستان نہیں آئے‘ یہ 1992ء تک اپنے دشمن رہنے والے بھارت چلے گئے‘ اوباما نے اس نریندر مودی کو بھی گلے لگا لیا جس پر امریکا نے مارچ 2005ء میں امریکا آنے پر پابندی لگا دی تھی اور آپ سعودی عرب میں کام کرنے والے بھارتی شہریوں اور پاکستانیوں کا ڈیٹا بھی نکال کر دیکھ لیجیے‘ آپ حیران رہ جائیں گے‘ سعودی عرب کی کمپنیاں پاکستانیوں پر بھارتی شہریوں کو فوقیت دیتی ہیں‘ سعودی عرب بھارت میں دھڑا دھڑ سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔
یہ حقائق کیا ثابت کرتے ہیں؟ یہ ثابت نہیں کرتے ؟ دنیا میں ماماجی پالیسی کا دور ختم ہو چکا ہے‘ دنیا میں اب کوئی ملک خود بحران پیدا کر کے ماماجی کا انتظار نہیں کرسکتا چنانچہ ہم اب اگر باعزت طریقے سے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں فوری طور پر تین کام کرنا ہوں گے‘ ہمیںبحرانوں کی فیکٹری بند کرنا ہو گی‘ہمیں اپنے قدموں پر بھی کھڑا ہونا ہو گا اور ہمیں ماماجی کا انتظار بھی ترک کرنا ہوگا۔ہم نے اگر فوری طور پر یہ تینوں کام نہ کیے تو ماماجی بچ جائیں گے لیکن بھانجے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔

لاہور لاہور ہے
جاوید چوہدری اتوار 25 جنوری 2015

www.facebook.com/javed.chaudhry
دنیا کے ہر شہر کی ایک فیلنگ، ایک تاثر ہوتا ہے، آپ پیرس جائیں، آپ کو یہ شہر کلچر، آرٹ اور سلیقے کی فیلنگ دے گا، آپ لندن چلے جائیں، آپ کو یہ شہر مادہ پرستی اور مصروفیت کی فیلنگ دے گا، آپ میلان جائیں، آپ کو وہاں فیشن کی فیلنگ آئے گی، آپ انٹر لاکن جائیں، آپ کو وہاں سکون، شانتی اور خوشی کا احساس ملے گا، آپ نیویارک چلے جائیں، آپ کو وہ شہر جلدی، افراتفری، ہنگامہ اور بھاگ دوڑ کی فیلنگ دے گا اور آپ استنبول چلے جائیں، آپ کو یہ شہر تاریخ کی دقیق کتاب محسوس ہو گا، آپ لاہور آ جائیں،آپ لاہور کے اندرون شہر میں داخل ہو جائیں۔
یہ شہر آپ کو عبرت کی فیلنگ دے گا، آپ کو اس کی گلیوں، اس کے کوچوں اور اس کے چوکوں میں عبرت لٹکی نظر آئے گی، لاہور کی اندرونی گلیاں قبرستان ہیں، تاریخ کا قبرستان، تہذیب کا قبرستان، معاشرت کا قبرستان، زبان کا قبرستان، مذاہب کا قبرستان اور بادشاہوں کے غرور کا قبرستان، آپ وال سٹی کی کسی گلی میں نکل جائیں، آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی قبر ملے گی، آپ کو اپنے راستے میں دنیا کی بے ثباتی، اقتدار اور اختیار کی بے وفائی، رشتوں کی مفاد پرستی اور وقت کی بے مہری کی کوئی نہ کوئی لاش ملے گی، آپ کتنے ہی با اختیار کیوں نہ ہوں، آپ کتنے صاحب ثروت اور مشہور شخصیت کیوں نہ ہوں، آپ اندرون لاہور چلے جائیں، آپ کو آدھ گھنٹے میں اپنی اوقات کا اندازہ ہو جائے گا، یہ شہر ہندومت کے بانی رام کے بیٹے لاہو نے آباد کیا لیکن رام، لاہو اور ان کا مذہب تینوں شہر میں قبر بن گئے۔
لاہور شہر میں ہزار کے قریب ٹمپل، مندر اور دھرم شالے تھے، یہ تمام قبریں بن گئے، آپ کو شہر میں کوئی زندہ ٹمپل ، کوئی زندہ مندر نہیں ملتا، یہ شہر سکھ مت کا قبلہ اور واحد راج دھانی تھا، یہ گروؤں کا شہر تھا لیکن آج شہر میں کوئی گرو بچا، کوئی راج دھانی اور نہ ہی کوئی زندہ گردوارہ، شہر میں سکھوں کے اقتدار کی صرف ایک نشانی باقی ہے اور وہ بھی راجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی، یہ محمود غزنوی اور ایاز کا شہر تھا، محمود غزنوی چلا گیا جب کہ ایاز ہزار سال سے قبر بن کر شہر میں پڑا ہے، خاندان غلاماں کے عظیم بادشاہ قطب الدین ایبک کا قطب مینار دلی رہ گیا، قبر لاہور میں بس گئی، اکبر اس شہر کا محسن تھا، وہ 20 سال لاہور سے ہندوستان پر حکومت کرتا رہا، لاہور نے اکبر کے راج کو بھی قبر بنا دیا، آپ کو اقتدار اکبری کی لاش شہر کی ہر گلی میں ملے گی، جہانگیر کی پہلی محبت انارکلی لاہور آئی، دیوار میں قبر بنا دی گئی، جہانگیر لاہور کی محبت کا شکار ہوا، قبر بن کر لاہور میں رہ گیا۔
نور جہاں لاہور کے دام الفت میں پھنسی اور بے چراغ قبر بن کر رہ گئی، وزیر خان آیا، قبر بنا اور غائب ہو گیا، صرف مسجد، حمام اور بارہ دری بچ گئی، انگریز آئے اور یادوں کی قبر بن کر تاریخ میں جذب ہو گئے، آج لاہور میں انگریزوں کے نام کی صرف 21 سڑکیں باقی ہیں، آپ اندرون لاہور جائیں، رنگ محل کے سامنے کھڑے ہوں، یہ محل کبھی دو کلومیٹر طویل اور عریض ہوتا تھا، آج اس کا صرف دس فیصد حصہ باقی ہے،لاہور میں ایاز، ایبک، اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں، اورنگ زیب، رنجیت سنگھ اور ایچی سن یہ سب آئے اور چلے گئے، وزیرخان بھی چلا گیا، بھکاری خان بھی رخصت ہو گیا، فقیر بھی چلے گئے، سلطان ٹھیکیدار بھی چلا گیا اور میاں صلاح الدین نے بھی چھٹی لے لی، پیچھے گلیوں میں صرف عبرت اور وقت کی بے ثباتی رہ گئی، آپ بھی آئیے، لاہور دیکھئے اور لاہور کی بادشاہی مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ سے پوچھئے ،، کیا میں ان رخصت ہونے والے لوگوں سے زیادہ مضبوط، زیادہ تگڑا ہوں،، جواب اگر نفی میں آئے تو سوچئے ،،پھر میری قبر کتنی دیر زندہ رہے گی،، آپ اپنے وجود کو وقت کے صفحے پر کتنی دیر سلامت رکھ لیں گے، آئیے، لاہور آئیے اور اپنی اصل اوقات سے ملاقات کیجیے۔
پنجاب بالخصوص لاہور ہزاروں سال تک تہذیبوں کی گزرگاہ رہا، لاہور میں تہذیبوں، معاشرتوں اور مذاہب کے ہزاروں قافلے اترے، ان قافلوں نے پنجاب میں وژن اور برداشت دونوں پیدا کر دیں، پنجاب کے لوگ لبرل ہیں، یہ سب کو قبول کر لیتے ہیں،یہ سب کو برداشت کرلیتے ہیں، آپ کو لاہور کا مسلمان پورے ہندوستان کے مسلمانوں سے نرم ملے گا، یہ زیادہ سخت گیر نہیں ہو گا، لاہور اور پنجاب کے ہندو بھی ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے ہندوؤں کے مقابلے میں کم توہم پرست ہیں، آپ ہندوستان کے مذاہب کی تاریخ بھی نکال کر دیکھ لیجیے، ہندوستان کے تمام ماڈرن مذاہب کی پیدائش پنجاب میں ہوئی، آپ بابا نانک کو دیکھ لیں۔
آپ روحانی سلسلوں کو دیکھ لیجیے اور ماڈرن تحریکوں کی تاریخ بھی دیکھ لیجیے، آپ کو لاہور مرکز میں ملے گا، آپ کو آج کے پاکستان میں بھی پورے ملک سے پنجابیوں کی لاشیں پنجاب آتی نظر آئیں گی لیکن پنجاب نے آج تک کسی صوبے کو کوئی لاش نہیں بھجوائی، پنجابی سیکڑوں سال سے سندھ، بلوچستان اور پختونخوا میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن پنجاب میں آباد بلوچ، سندھی اور پشتون ہر لحاظ سے محفوظ ہیں، لاہور ہزاروں سال سے فنون لطیفہ کا دارالخلافہ بھی رہا، آپ کو شہر میں مصوری کی تاریخ بھی ملے گی اور مجسمہ سازوں، شاعروں، ادیبوں، موسیقاروں، رقاصاؤں اور قصہ خوانوں کے آثار بھی۔
دنیا کی شاید ہی کوئی تہذیب ہو گی جو لاہور نہ پہنچی ہو اور اس نے یہاں سیکڑوں سال قیام نہ کیا ہو، دنیا کے ساتھ اس انٹرایکشن نے لاہور اور پنجاب میں برداشت پیدا کر دی، آپ کو اندرون لاہور اس برداشت اور اس کھلے پن کی فیلنگ بھی ہوتی ہے،ہمارا پورا ملک اس وقت فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے لیکن آپ کو اندرون لاہور آج بھی مذہبی رواداری اور برداشت ملے گی، آپ کو یہ شہر مذہبی رواداری کی فیلنگ بھی دے گا، یہ کمال شہر ہے، بس اس میں چند خرابیاں ہیں، ہم اگر یہ خرابیاں دور کر دیں تو یہ خطے کا بڑا سیاحتی مرکز بن جائے گا، اندرون لاہور گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، کنکریٹ اور لوہے کے بدوضع دروازے اور شٹرز نے دنیا کے خوبصورت مقبرے کو بدصورت بنا دیا ہے، آپ کو وہاں گلیوں میں کلچر کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے۔
کامران لاشاری بہت محنت کر رہے ہیں، یہ محلہ کمیٹیاں بھی بنا چکے ہیں، محلوں میں سرکاری سینیٹری ورکر بھی نظر آتے ہیں، پرانی عمارتیں گرانے پر بھی پابندی ہے اور تاریخی عمارات اور مقبروں کی تزئین و آرائش کا کام بھی جاری ہے لیکن ہم جب تک لوگوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں کریں گے، ہم جب تک ان کا قلب نہیں بدلیں گے ،یہ تمام کوششیں اس وقت تک بے کار رہیں گی،میں یہاں ازبکستان کی مثال دوں گا، سمر قند اور بخارہ لاہور کے کزن ہیں، ازبک حکومت نے یہ دونوں شہر پوری دنیا کے لیے سیاحتی مرکز بنا دیے، شہر کی تمام قدیم مساجد، مدرسے، مقبرے، حمام اور ریستوران دوبارہ زندہ کر دیے گئے ، وزیراعلیٰ پنجاب اور کامران لاشاری سمر قند اور بخارہ کا چکر لگا لیں اور پھر سیاحتی نقطہ نظر سے اندرون لاہور کی تعمیر نو کریں تو کمال ہو جائے گا، بخارہ شہر میں مدارس کو ہوٹل بنا دیا گیا ہے، میں خود ایک مدرسہ ہوٹل میں رہا، وہ رات میری زندگی کی یادگار ترین رات تھی، آپ بھی پرانی حویلیوں کو ہوٹل بنا دیں، اندرون لاہور کی تمام دکانوں کو قدیم گیٹ اپ دیں۔
لوگوں کو پرانے لباس پہنائیں، قصہ خوانوں اور قوالوں کا بندوبست کریں، قدیم لاہور کو ملک کے اندر اور باہر ایڈورٹائز کریں، سیاحت بڑھائیں تا کہ لوگوں کو خوشی مل سکے، حکومت اگر دلی دروازے سے مسجد وزیر خان تک شاہی گزر گاہ کو بیٹھک ڈکلیئر کر دے، سڑک کے دونوں اطراف دکانوں کو چائے خانوں، کافی شاپس، لسی گھر اور شربت کی دکانوں میں تبدیل کر دیا جائے تو پورا لاہور شام کے وقت یہاں امڈ آئے گا، لوگ رات گئے تک یہاں بیٹھیں گے، اندرون لاہور قصہ خوانوں کی حویلی بھی ہونی چاہیے، اس حویلی میں لاہور کے قدیم لباس میں بھانڈ اور قصہ خوان موجود ہونے چاہئیں، یہ قصہ خوان ماضی کے قصے سنائیں اور بھانڈ لاہوری جگتیں کرائیں، میں نے ایک مرتبہ قرطبہ شہر کا ،،نائیٹ،، ٹور،، لیا، یہ ٹور مشعل کی روشنی میں قرطبہ کی قدیم گلیوں کی سیر پر مشتمل تھا، کامران لاشاری کو بھی نائیٹ ٹورز شروع کرانے چاہئیں، آپ سیاحوں کو مشعل اٹھا کر شہر کی پرانی گلیوں میں لے جائیں، لاہور مقبروں اور مزاروں کا شہر ہے۔
شہر میں مقبروں کا بھی گائیڈڈ ٹور ہونا چاہیے، گائیڈ سیاحوں کو تمام مزارات اور مقبروں کا ٹور کرائیں، لاہور شہر میں سیکڑوں مندر، گوردوارے اور مساجد تھیں، یہ ختم ہو چکے ہیں یا پھر لوگ ان پر قابض ہیں، آپ یہ بھی آباد کرائیں اور ان کا ٹور بھی کرایا جائے، لاہور میں انگریز دور تک پالکیاں ہوتی تھیں، خواتین ان پالکیوں میں ایک محلے سے دوسرے محلے جاتی تھیں، یہ پالکیاں بھی سیاحتی ذریعہ بن سکتی ہیں، حکومت تیس چالیس پالکیاں بنوائے اور اندرون شہر پالکی ٹور شروع کرا دے اور پنجاب حکومت اپنی نگرانی میں بسنت کا تہوار بھی شروع کرائے، بسنت کے لیے علاقے مختص کر دیے جائیں، بسنت ان مخصوص علاقوں میں منائی جائے، دھاتی ڈور اور ہوائی فائرنگ پر پابندی ہو اور آخری تجویز، کامران لاشاری شاہی حمام کی تزئین و آرائش کر رہے ہیں، یہ حمام فنکشنل بھی ہونا چاہیے، میں نے بخارہ میں قدیم حمام دیکھے، یہ حمام آج بھی کارآمد ہیں، آپ حمام کو کارآمد بنائیں تا کہ لوگ صرف سیر نہ کریں، یہ حمام میں بیٹھ کر تاریخ کو بھی محسوس کریں۔
لاہور، لاہور کیوں ہے؟ آپ کو اس سوال کا جواب اس وقت تک نہیں مل سکتا آپ جب تک قدیم لاہور میں چند گھنٹے نہیں گزارتے، میں ٹور سے قبل لاہور کو صرف ایک شہر سمجھتا تھا لیکن میں جب اندرون شہر کی گلیوں میں اترا تو زندگی میں پہلی بار یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ’’لاہور، لاہوراے‘‘ اور پاکستان کا کوئی شہر لاہور کی ہمسری نہیں کر سکتا‘‘۔

اور ہاں باقی سب بلبلہ ہے
جاوید چوہدری جمعـء 23 جنوری 2015

ہمارے گائیڈ جاوید صاحب اندرون لاہور کی دائی ہیں، یہ کئی نسلوں سے وال سٹی کے باسی ہیں، یہ علاقہ سیکڑوں سال فن موسیقی کا گڑھ رہا، ہندوستان کے موسیقی کے تمام بڑے گھرانے اندرون لاہور رہتے تھے، لاہور کی ہیرا منڈی آج ملک میں بدنام ہے لیکن یہ کبھی فن موسیقی کی آکسفورڈ ہوتی تھی، ہندوستان کے زیادہ تر مغنی اور مغنیات یہاں سے نکلتی تھیں، ہیرا منڈی کی گلیوں میں سریلے لوگ رہتے تھے۔
گھروں سے طبلوں، سارنگیوں اور ہارمونیم کی آوازیں آتی تھیں، گلیوں میں سر پیدا ہوتے اور تانیں جوان ہوتی تھیں، ہندوستان کے رئیس خاندانوں کے چشم و چراغ شغل موسیقی کے لیے یہاں آتے تھے، یہ بازار راجہ رنجیت سنگھ کے صاحبزادے ہیرا سنگھ نے آباد کیا اور یہ بعد ازاں اس کے نام سے ،،ہیرا منڈی،، کہلایا، یہ بازار، بازار سے منڈی کیسا بنا؟ شاید اکبری منڈی کی وجہ سے بنا! سکھوں کی حکومت آئی تو سکھوں نے اکبر اعظم کے بنوائے بازار کو اکبری منڈی بنا دیا، مسلمانوں نے شاید انتقام لیتے ہوئے ہیرا سنگھ کے بازار کو ہیرا منڈی مشہور کر دیا، ہیرا منڈی کی بغلی گلیوں میں موسیقی کے آلات کی بہت بڑی مارکیٹ ہوتی تھی، یہ مارکیٹ ختم ہو چکی ہے۔
تاہم آلات موسیقی کی چند دکانیں اور چند ورک شاپس آج بھی موجود ہیں، دلی گیٹ کے باہر بینڈ باجوں کے دفاتر اور کھولیاں بھی موجود ہیں، آپ نے پرانی شادیوں اور پرانی فلموں میں پیتل کے بڑے بڑے آلات موسیقی اور رنگ برنگی وردیوں میں ملبوس بینڈ ماسٹر دیکھے ہوں گے، یہ لوگ لاہور میں دلی گیٹ کے باہر رہتے تھے، یہ فن اور اس فن سے وابستہ فنکار ختم ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ابھی بینڈ باجوں کے چند دستے موجود ہیں اور یہ دستے آپ کو دلی گیٹ کے باہر نظر آتے ہیں، جاوید صاحب کا تعلق فنکار گھرانے سے تھا لیکن جب موسیقی مذاق اور ہیرا منڈی گالی بن گئی تو جاوید صاحب نے فن سیکھنے کے بجائے گائیڈ بننے کا فیصلہ کر لیا، یہ بہت اچھے گائیڈ ہیں، انگریزی، اردو اور پنجابی تینوں زبانیں روانی سے بولتے ہیں۔
یہ علاقے کی ایک ایک گلی، ایک ایک مکان اور ایک ایک مکین سے بھی واقف ہیں چنانچہ یہ بور نہیں ہونے دیتے، جاوید صاحب ہمیں سنہری مسجد لے گئے، یہ مسجد اندرون لاہور کے ماتھے کا جھومر ہے، یہ مسجد نواب سید بھکاری خان نے 1753ء میں بنوائی تھی، یہ بلند ٹیلے پر واقع ہے، مسجد کے گنبدوں پر سونے کا پانی چڑھا ہے، یہ سورج کی روشنی میں چمکتے ہیں تو دل میں اتر جاتے ہیں، بنانے والوں نے کمال کر دیا تھا لیکن ہم مسجد کو سنبھال نہیں سکے، مسجد کے باہر گندگی کے ڈھیر لگے تھے، یہ ڈھیر ہمارے گندے باطن کی نشانی ہیں۔ سنہری مسجد کی پشت پر سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو کا باؤلی باغ ہے، آپ مسجد سے باغ میں نہیں جا سکتے۔
آپ کو باغ تک جانے کے لیے رنگ محل آنا پڑتا ہے، رنگ محل کی بنیاد شاہ جہاں کے وزیراعظم نواب سعد اللہ خان نے رکھی لیکن یہ مکمل اس کے صاحبزادے میاں خان کے عہد میں ہوا، میاں خان لاہور کا گورنر تھا، یہ محل دو مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا تھا، انگریزوں نے رنگ محل کو مشن اسکول میں تبدیل کر دیا، رنگ محل کے سامنے سڑک کی دوسری جانب محمود غزنوی کے خادم خاص اور لاہور کے گورنر ایاز کا مقبرہ ہے، علامہ اقبال نے ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘‘ لکھ کر ملک احمد ایاز کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا، یہ مقبرہ ہزار سال سے قائم ہے، مقبرے کے گرد باغ تھا ۔
باغ غائب ہو گیا تاہم ایک مسجد رہ گئی، آپ ایاز کے مقبرے سے ذرا سا آگے بڑھیں تو دکانوں کے درمیان دو فٹ چوڑی گلی ملتی ہے، گلی میں داخل ہوتے ہیں تو آپ حیران رہ جاتے ہیں، آپ کے سامنے ایک قدیم باغ آ جاتا ہے، یہ باغ باؤلی باغ کہلاتا ہے، یہ باغ گرو ارجن دیو سے منسوب ہے، باغ سنہری مسجد سے متصل ہے مگر آپ باغ سے مسجد میں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ دونوں کے درمیان بارہ فٹ اونچی دیوار حائل ہے، باغ میں دو تین سو سال پرانے درخت آج بھی موجود ہیں۔ہم باؤلی باغ سے آگے چل پڑے، راستے میں دو اہم عمارتیں آئیں، پہلی عمارت پانی کا تالاب تھا، یہ عمارت پنجاب کے انگریز گورنر ایچی سن نے 1883-84ء میں بنائی تھی، یہ بنیادی طور پر لاہور کے لیے واٹر سپلائی اسکیم تھی، یہ عمارت ستونوں پر کھڑی ہے، ستونوں کے اوپر لوہے کے چار بڑے واٹر ٹینک ہیں۔
ہر ٹینک میں اڑھائی لاکھ گیلن پانی آتا ہے، یہ پانی مینار پاکستان کے پارک سے ٹیوب ویلوں سے نکالا جاتا ہے،پائپوں کے ذریعے ٹینکوں میں لایا جاتا ہے اور پورے اندرون لاہور کو سپلائی کیا جاتا ہے، آپ 130 سال سے قائم اس نظام کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں، انگریز نے ٹینکوں میں موجود پانی کی سطح جانچنے کے لیے سسٹم بنایا تھا، یہ سسٹم آج تک قائم ہے اور آپ یہ سسٹم دیکھ کر بھی حیران رہ جاتے ہیں، دوسری عمارت میاں صلی کی حویلی ہے۔
یہ حویلی علامہ اقبال کے داماد میاں صلاح الدین کی ملکیت تھی، یہ آج کل علامہ اقبال کے نواسے میاں یوسف صلاح الدین کی زیر نگرانی ہے، یہ تین سو سال پرانی حویلی ہے، یہ لاہور کی کلچرل ہسٹری بھی ہے، آپ کو حویلی کی دیواروں، جھروکوں، صحنوں اور قدیم کمروں میں تاریخ کی آہٹیں سنائی دیتی ہیں، یہ حویلی آپ کا دامن دل پکڑ کر بیٹھ جاتی ہے، میں حویلی میں داخل ہوا تو میں دیواروں سے لپٹی بیلوں میں پھنس کر رہ گیا، میں آج تک وہاں پھنسا ہوا ہوں اور شاید پوری زندگی وہیں پھنسا رہوں گا۔
سلطان ٹھیکیدار اندرون لاہور کا ایک تاریخی کردار تھا، یہ انگریز دور میں ابھر کر سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب کے بڑے رئیسوں میں شمار ہونے لگا، یہ ٹھیکیدار تھا، یہ لاہور کی پرانی گلیوں اور حویلیوں سے چھوٹی اینٹیں نکال کر انگریزوں کو سپلائی کرتا تھا، انگریز نے 1849ء میں سکھوں سے پنجاب کا قبضہ لیا، قبضہ لینے کی تقریب شاہی قلعے کے شیش محل میں منعقد ہوئی، سلطان ٹھیکیدار بھی اس تقریب میں موجود تھا، انگریز نے لاہور پر قابض رہنے کے لیے دو چھاؤنیاں بنائیں، ایک چھاؤنی حضرت میاں میر کے مزار کے قریب بنائی گئی، یہ علاقہ آج کینٹ صدر کہلاتا ہے اور دوسری چھاؤنی انارکلی میں قائم کی گئی، انگریز نے دونوں چھاؤنیوں کو ملانے کے لیے سڑک بنائی، یہ سڑک 1851ء میں بنائی گئی اور یہ لندن کی اسٹریٹ پال مال کے نام سے منسوب کی گئی۔
پال مال آہستہ آہستہ مال روڈ بن گئی، لاہور کے لوگ اسے بلند و بالا گھنے درختوں کی وجہ سے ٹھنڈی سڑک بھی کہتے ہیں، سلطان ٹھیکیدار کو کینٹ صدر میں سرکاری عمارتیں بنانے کے ٹھیکے ملنے لگے، یہ کمال بددیانت شخص تھا، اس نے لاہور کے محلات، مقبرے، مساجد اور پرانی حویلیاں گرائیں اور اینٹیں نکال کر کینٹ تعمیر کر دیا، لاہور میں 1860ء میں ہندوستان کا سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن بنا، یہ قلعہ نما ریلوے اسٹیشن بھی سلطان ٹھیکیدار نے بنایا، سلطان نے پرانے لاہور میں سلطان سرائے بھی بنائی، یہ اس زمانے کا رئیس ترین شخص تھا لیکن پھر اس پر زوال آگیا، یہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہوا اور عبرت ناک موت مرا، سلطان نے شاہی گزر گاہ پر اپنی حویلی بھی بنائی تھی، یہ حویلی بھی نابغہ تھی، سلطان نے حویلی کی چھت پر شیش محل بھی بنوایا، یہ لاہور کا واحد پرائیویٹ شیش محل تھا۔
وہ اس کمرے میں رقص و سرود کی محفلیں برپا کرتا تھا، ہم یہ حویلی اور یہ شیش محل بھی دیکھنا چاہتے تھے لیکن حویلی بند تھی، اندرون لاہور میں فقیر میوزیم بھی ہے، یہ میوزیم لاہور کے مشہور فقیر خاندان کی ملکیت ہے، یہ خاندان راجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ تھا، یہ لوگ اپنے زمانے کے کنگ میکر تھے، یہ خاندان آج بھی اندرون لاہور موجود ہے، یہ ذاتی عجائب گھر کے مالک ہیں، ہم یہ عجائب گھر بھی نہ دیکھ سکے، لاہور میں اس وقت انگریزوں کی بنائی 21 سڑکیں موجود ہیں، یہ سڑکیں بدستور انگریزوں کے نام سے منسوب ہیں، ہمیں یہ نام بدلنے بھی نہیں چاہئیں کیونکہ یہ تاریخ ہیں اور تاریخ اپنے اصل ناموں کے ساتھ زندہ رہے تو ہی اچھی لگتی ہے۔
ہمارے سفر کی آخری منزل فوڈ اسٹریٹ تھی، یہ فوڈ اسٹریٹ شاہی قلعے کی دیوار کے ساتھ روشنائی دروازے کے سامنے قائم ہے، مغل بادشاہ روشنائی دروازے کے ذریعے اندرون لاہور داخل ہوتے تھے، یہ دروازہ چراغوں کی وجہ سے روشنائی کہلاتا تھا کیونکہ حکومت ہر شام یہاں سیکڑوں ہزاروں چراغ روشن کروا دیتی تھی، روشنائی دروازے کے اندر شاہی محلہ تھا، شاہی محلے میں اپنے زمانے کی نامور گلوکارائیں اور رقاصائیں ہوتی تھیں، یہ گانے والیاں شاہی وقت کے ساتھ ہی تاریخ میں غروب ہو گئیں لیکن ان کی حویلیاں، مکان اور کوٹھے آج بھی سلامت ہیں، یہ حویلیاں اور کوٹھے اب ریستوران بن چکے ہیں، یہ سلسلہ کو کو نام کے ایک مصور نے شروع کیا، یہ طوائف زادہ تھا، سارا بچپن شاہی محلے اور ہیرا منڈی میں گزرا، جوان ہو کر مصور بن گیا تو اس نے یہاں پہلا ریستوران کھولا، یہ ریستوران کامیاب ہو گیا۔
آج یہ پورا علاقہ فوڈ اسٹریٹ بن چکا ہے، ہم فوڈ اسٹریٹ کے فورٹ ویو ہوٹل کی چھت پر چلے گئے، چھت پر وقت ٹھہرا ہوا تھا، ہمارے سامنے روشنائی گیٹ تھا اور گیٹ سے آگے شاہی قلعہ تھا، شاہی قلعے میں تاریخ کبھی قہقہہ لگاتی تھی، کبھی بین کرتی تھی، کبھی اٹھ کر ناچنے لگتی تھی، کبھی چیختی تھی اور کبھی سرگوشیاں کرنے لگتی تھی، ہمارے سامنے حضوری باغ تھا، بارہ دری کی خاموش سفید عمارت تھی، راجہ رنجیت سنگھ کی سفید موڑھی تھی اور ہماری نظر وہاں سے پھسلتی ہوئی بادشاہی مسجد کے میناروں اور گنبدوں پر آ کر رک جاتی تھی اور ان گنبدوں کے بعد تاریخ کے اندھیرے میں سانس لیتا ہوا لاہور تھا اور اس کی بلند چھتیں اور بھربھری حویلیاں تھیں اور اس کی ٹھنڈی پرانی گلیاں تھیں اور ان گلیوں میں تھکے قدموں سے چلتا ہوا وقت تھا اور وقت کے اندر دور اندر گئے زمانوں کی باس تھی اور ہم چھت پر کھڑے ہو کر گئے زمانوں کی وہ باس محسوس کر رہے تھے۔
مسجد کے مینار جاگے اور وقت کی اس وسیع پینٹنگ میں ظہر کی اذان گونجنے لگی،طلسم ٹوٹ گیا، میں نے جھرجھری سی لی اور اپنا سارا دھیان اذان کے الفاظ پر لگا دیا، موذن دنیا کو بتا رہا تھا، دنیا میں صرف اللہ کا نام دائمی ہے، باقی سب بلبلہ ہے، اکبر بھی، رنجیت سنگھ بھی اور ایچی سن بھی، یہ سب بلبلے ہیں، یہ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، پیچھے صرف اللہ کا نام رہ جاتا ہے اور سلطان ٹھیکیدار کی حویلیاں رہ جاتی ہیں اور وزیر خان کے حمام رہ جاتے ہیں اور ایازوں کے مقبرے رہ جاتے ہیں اور ان مقبروں، ان حماموں اور ان حویلیوں کے فرشوں سے لپٹی ہوئی عبرت رہ جاتی ہے اور اس عبرت پر بعد ازاں ہم جیسے حقیر سیاحوں کے گندے جوتے اور لرزتے کانپتے قدم رہ جاتے ہیں۔
ہم انسان کتنے بدنصیب ہیں، ہم جانتے ہیں لیکن مانتے نہیں ہیں اور اگر مانتے ہیں تو پھر ہم جانتے نہیں ہیں، انسانی تہذیب کے ہر دور میں ماننے یا جاننے میں سے کسی ایک چیز کی کمی بہر حال رہتی ہے۔

اندرون لاہور میں ایک دن
جاوید چوہدری بدھ 21 جنوری 2015

میں لاہور کی محبت میں گرفتار ہوں‘ میری جوانی لاہور میں گزری‘ میں ایف ایس سی میں فیل ہونے کے بعد بھاگ کر لاہور چلا گیا‘ لاہور میں میرے تین کام ہوتے تھے‘ میں اپرمال سے پیدل چلتا ہوا روز حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر حاضری دیتا تھا‘ ہومیو پیتھی پڑھتا تھا اور لائبریریوں میں پرانی بوسیدہ کتابیں تلاش کرتا تھا‘ میں نے لاہور میں ایف اے کیا‘ ایف سی کالج میں بی اے کا طالب علم رہا اور پنجاب یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرتا رہا (مکمل نہیں کر سکا)‘بہاولپور سے صحافت میں ایم اے کیا۔
لاہور واپس آیا اور نوائے وقت سے صحافت شروع کر دی یوں میری عمر کا بڑا حصہ لاہور میں بسر ہوا لیکن میں اس کے باوجود لاہور کو سیاح کی نظر سے نہ دیکھ سکا‘ میں نے جب دنیا دیکھنے کی خواہش میں ملکوں ملکوں پھرنا شروع کیا تو مجھے دنیا کے ہر پرانے شہر میں لاہور یاد آیا اور میں بے اختیار اس شہر کی گلیوں‘ قلعوں اور محلوں کا لاہور سے تقابل شروع کر دیتا تھا اور پھر یہ سوچ کر شرمندہ ہو جاتا ’’ میں ہزاروں میل دور آگیا لیکن میں نے کبھی لاہور نہیں دیکھا‘‘۔
میں نے گزشتہ اتوار یہ خفت مٹانے کا فیصلہ کیا‘ کامران لاشاری جیسے جادوگر ’’وال سٹی پراجیکٹ‘‘ کے سربراہ ہیں‘ پاکستان میں کامران لاشاری جیسا وژنری‘ فن دوست اور عملی بیورو کریٹ شاید ہی کوئی دوسرا ہو‘ یہ شخص جہاں جاتا ہے وہاں اپنے دائمی نقش چھوڑ کر آتا ہے‘ میں نے لاشاری صاحب سے رابطہ کیا اور لاشاری صاحب نے مجھے ٹوریسٹ گائیڈ دے دیا‘ جاوید صاحب وال سٹی پراجیکٹ میں سینٹر ٹورازم آفیسر ہیں‘ یہ خود کئی نسلوں سے پرانے لاہور کے باسی چلے آ رہے ہیں لہٰذا یہ اندرون لاہور کی انچ انچ سے واقف ہیں‘ میں اور قاسم علی شاہ سیاح کی حیثیت سے جاوید صاحب کی معیت میں اندرون لاہور میں داخل ہو گئے۔
ہم نے اپنا سفر دلی دروازے سے شروع کیا‘ لاہور کا قلعہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے 1584ء میں تعمیر کرایا‘ اکبر نے قلعہ کے ساتھ ساتھ شہر کی حفاظت کے لیے 9 میٹر بلند دیوار بھی بنوائی‘ لاہور انگریز کے دور تک اس دیوار کے اندر تک محدود تھا‘ لاہور کی اسی فیصد آبادی دیوار کے اندر رہتی تھی‘ دیوار میں بارہ دروازے تھے‘ یہ بارہ دروازے لاہور میں داخلے اور خروج کا ذریعہ ہوتے تھے‘ بارہ میں سے چھ دروازے قائم ہیں‘ باقی دروازے وقت کے بہتے دریا کی نذر ہو چکے ہیں‘ دلی دروازہ آج بھی اپنی آن‘ شان اور بان کے ساتھ قائم ہے۔
یہ ایک دو منزلہ وسیع ڈیوڑھی ہے‘ انگریز کے دور میں نچلی منزل میں کوتوالی (تھانہ) تھی جب کہ بالائی منزل میں مجسٹریٹ کی عدالت اور رہائش گاہ تھی‘ لاہور کے زیادہ تر مقدمے اس ڈیوڑھی میں نبٹا دیے جاتے تھے‘ دلی دروازے کی بالائی منزل پر آج کل بچیوں کا اسکول قائم ہے‘ اکبر نے دلی دروازے کے ساتھ مصالحہ جات اور اناج کی منڈی بھی آباد کرائی‘ یہ منڈی آج 430 سال بعد بھی قائم ہے‘ یہ اکبری منڈی کہلاتی ہے اور یہ برصغیر کی مصالحہ جات کی سب سے بڑی منڈی ہے‘ دلی دروازے سے شاہی گزر گاہ شروع ہوتی ہے‘ یہ بادشاہوں‘ شہزادوں اور شہزادیوں کی گزرگاہ تھی‘ گلی کے دونوں اطراف مغل دربار سے وابستہ امراء اور روساء کے محلات اور حویلیاں ہوتی تھیں‘ حویلیوں کے آثار آج تک موجود ہیں‘ کامران لاشاری نے گلی۔
محلات اور مکانات کی تزئین و آرائش کرا دی ہے‘ آپ جوں ہی گلی میں قدم رکھتے ہیں‘ آپ پانچ سو سال پیچھے چلے جاتے ہیں اور آپ کو اپنے دائیں بائیں گھوڑے ہنہناتے‘ ہاتھی چنگاڑتے اور پازیبیں بجتی سنائی دیتی ہیں‘ یہ گلی‘ یہ دروازہ شاہ جہاں کے درویش صفت شہزادے داراشکوہ کو بھی بہت پسند تھا‘ وہ روز فجر کے وقت اسی دروازے سے نکل کر حضرت میاں میرؒ کی درگاہ تک پیدل جاتا تھا‘ داراشکوہ نے گجرات کاٹھیا واڑ سے سرخ پتھر منگوایا اور یہ پتھر شاہی گزر گاہ سے حضرت میاں میرؒ کی درگاہ تک سارے راستے میں لگوا دیا‘ یہ راستہ پانچ کلومیٹر طویل تھا‘ اورنگ زیب عالمگیر نے شہزادہ داراشکوہ کو30 اگست 1659ء میں قتل کرا دیا۔
لاہور کے لوگ شہزادے سے محبت کرتے تھے‘ یہ لوگ سوگ میں چلے گئے‘ بادشاہ نے دارا شکوہ کی زمین جائیداد نیلام کی‘ شاہی گزرگاہ سے حضرت میاں میرؒ تک سرخ پتھر اکھاڑہ اور داراشکوہ کی دولت اور راستے کے سرخ پتھر سے لاہور کے شاہی قلعے کے سامنے 1674ء میں مسجد اورنگ زیب بنوا دی‘ یہ مسجد آج تک قائم ہے اور لاہور کی شاہی مسجد کہلاتی ہے لیکن یہ بعد کی باتیں ہیں‘ ہم نے ابھی پچھلے زمانے کھوجنے ہیں۔
اکبر اعظم لاہور کا آرکیٹیکٹ تھا‘ اس نے لاہور میں قیام کے دوران شاہی قلعہ بھی بنوایا‘ لاہور کے گرد دیوار بھی تعمیر کروائی اور لاہور کے مضافات میں نئی بستیاں بھی آباد کیں‘ اکبر نے قلعے سے چار کلومیٹر دور دھرم پورہ اور خیر پورہ دو نئی آبادیوں کی بنیاد رکھی‘ دھرم پورہ میں ہندو آباد تھے جب کہ خیر پورہ میں یہودی‘ پارسی اور مسلمان آباد کیے گئے‘ خیر پورہ میں پارسیوں کا آتش کدہ بھی بنوایا گیا‘ اکبر کے نورتنوں میں شامل ابوالفصل آتش کدہ کا نگران تھا‘ اکبر کا رتن ٹورڈرمل بھی لاہور میں رہتا تھا‘ یہ لاہور ہی میں مرا اور کسی گم نام قبر میں دفن ہو گیا‘ ٹورڈرمل نے ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار زمین کی تقسیم اور ریکارڈ کا بندوبست کیا۔
یہ پٹوار سسٹم کا بانی تھا‘ ٹورڈرمل لاہور میں کہاں دفن ہے کوئی نہیں جانتا‘ کاش حکومت ٹورڈرمل کی قبر تلاش کر لے‘ ہم دلی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو بائیں جانب طویل و عریض عمارت نظر آئی‘ یہ لاہور کا شاہی حمام تھا‘ یہ ہندوستان میں اس نوعیت کا سب سے بڑا حمام تھا‘ کامران لاشاری آج کل شاہی حمام کی بحالی میں مصروف ہیں‘ ہم عمارت میں داخل ہوئے تو عمارت کی خوبصورتی نے دل کھینچ لیا‘ یہ 21 کمروں کی طویل عمارت تھی‘ عمارت میں گرم پانی اور بھاپ کا زیر زمین نظام تھا‘ تین بھٹیاں تھیں‘ بھٹیوں میں لکڑیاں جلائی جاتی تھیں‘ گرم ہوا عمارت کے نیچے موجود درجنوں سرنگوں سے گزرتی ہوئی‘ بھاپ اڑاتی ہوئی حماموں تک پہنچتی تھی اور نرم اور گداز بدنوں میں حرارت بھر دیتی تھی‘ کمروں میں قدرتی روشنی کے لیے چھتوں پر روشن دان بنائے گئے تھے۔
حمام کے اندر ٹھنڈے پانی کی آبشاریں اور فوارے بھی تھے جب کہ بھاپ کی ترسیل کا نظام بھی موجود تھا‘ دیواروں پر پچی کاری اور تصویریں تھیں‘ یہ حمام شاہ جہاں کے دور میں وزیر خان نے بنوایا تھا‘ وزیر خان جہانگیر اور شاہ جہاں دونوں کا منظور نظر تھا‘ چنیوٹ کا رہنے والا تھا‘ نام علاؤ الدین وزیر خان تھا‘ پیشے کا حکیم تھا‘ ملکہ نورجہاں کے پاؤں میں پھوڑا نکل آیا‘ ملکہ کا علاج کیا‘ بادشاہ کا قرب پایا اور لاہور کا گورنر بنا‘ شاہ جہاں نے بھی نوازشات کا سلسلہ جاری رکھا‘ وزیر آباد شہر بھی وزیر خان ہی سے منسوب ہے‘ وزیر خان نے لاہور شہر کو تین تحفے دیے‘ شاہی حمام‘ یہ کبھی لاہور کے رؤساء اور شاہی مہمانوں کی تفریح گاہ ہوتا تھا۔
حمام میں چند کمرے خواتین کے لیے مخصوص تھے‘ چند مرد حضرات کے لیے اور چند مشترکہ۔ آپ حمام سے قدیم لاہور کے لبرل ازم کا اندازہ لگا سکتے ہیں‘ وزیر خان کا دوسرا تحفہ مسجد وزیر خان تھا‘ یہ مسجد دلی دروازے سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے‘ یہ 1634ء میں بنی اور یہ کمال مسجد ہے‘ وزیر خان نے مسجد کے لیے چین سے پچی کاری کے ماہر لاہور بلوائے تھے‘ مسجد کے صحن میں پانی کا تالاب آج بھی موجود ہے‘ ڈیوڑھی میں کاتبوں کی درجنوں دکانیں ہوتی تھیں‘ یہ دکانیں بھی قائم ہیں‘ مسجد کے صحن میں درویشوں‘ مسافروں اور طلبہ کے حجرے بھی تھے۔
یہ حجرے آج بھی موجود ہیں‘ مسجد وزیر خان سمر قند اور بخارا کی قدیم مسجدوں اور مدارس کا پوری طرح مقابلہ کرتی ہے اور وزیر خان کا تیسرا تحفہ وزیر خان کی بارہ دری تھا‘ یہ بارہ دری عجائب گھر کی پشت پر پبلک لائبریری کے ساتھ موجود ہے اور غالباً وزیر خان کی قبر بھی اسی بارہ دری میں کسی جگہ موجود ہے‘ مجھے مسجد وزیر خان کے سامنے پانی کا قدیم کنواں نظر آیا‘ یہ کنواں بھی وزیر خان نے کھدوایا تھا اور یہ تین سو سال تک علاقے کے لوگوں کی پیاس بجھاتا رہا‘ کنوئیں کے بالکل سامنے پکوڑوں کی دکان تھی‘ مجھے لوگوں نے بتایا یہ دکان پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما جہانگیر بدر کی ملکیت تھی‘ جہانگیر بدر اور ان کے والد نے اس دکان سے اپنا کیریئر شروع کیا تھا‘ مسجد وزیرخان سے پہلے دنیا کی تنگ ترین گلی تھی‘ یہ گلی کوچہ غبارچیاں کہلاتی ہے۔
گلی کی وجہ تسمیہ کسی کو معلوم نہیں‘ شاید یہاں غبارے بیچنے والے رہتے ہوں گے اور ان کی وجہ سے گلی کا نام کوچہ غبارچیاں پڑ گیا ‘میں نے زندگی میں اتنی پتلی گلی نہیں دیکھی‘ گلی کے دونوں اطراف تین تین‘ چار چار منزلہ مکان ہیں اور مکانوں کے درمیان اتنی پتلی گلی ہے جس سے بمشکل ایک دبلا پتلا شخص گزر سکتا ہے‘ آپ کا وزن اگر سو کلو گرام سے زیادہ ہے تو آپ لازماً اس گلی میں پھنس جائیں گے‘ یہ گلی شاید ماضی میں حملہ آوروں کو پھانسنے اور پھانس کر مارنے کے کام آتی ہو گی‘ گلی کے ایک سرے پر حویلی الف شاہ ہے‘ حویلی میں اہل تشیع کی زیارت اور تین سو سال پرانا درخت ہے‘ درخت کے بارے میں مشہور ہے۔
اگر کنواری لڑکیاں نوچندی جمعرات کو حویلی میں آکر اس درخت پر سندور لگائیں اور دھاگہ باندھیںتو ان کی شادی ہو جاتی ہے‘ یہ رسم تین سو سال سے جاری ہے‘ میں نے درخت پر دھاگے اور سندور دونوں دیکھے‘ کوچہ غبارچیاں کی بغل میں جہانگیر نام کے ایک بزرگ رہتے ہیں‘ یہ 84 سال کے ’’جوان‘‘ لاہوری ہیں‘ یہ چار منزلہ پرانے مکان میں رہتے ہیں اور سیاحوں کو اپنی جوانی کے قصے اور شعر سنانا ان کا مشغلہ ہے۔
سنہری مسجد اندرون لاہور کے ماتھے کا جھومر ہے لیکن میں اس جھومر کے بارے میں آپ کو کل بتاؤں گا۔
استعفیٰ لیں یاپھر استعفیٰ دینے کے لیے تیار ہو جائیں
جاوید چوہدری پير 19 جنوری 2015

حکومت کو اپنی نالائقی بہرحال ماننا ہو گی، آپ پوری دنیا پر نظر دوڑائیں، آپ جاپان سے لے کر روس تک، چین سے لے کر روانڈا تک، آسٹریلیا سے لے کر چلی تک اور وینزویلا سے لے کر سعودی عرب تک پوری دنیا پر نظر دوڑائیں آپ کو دنیا کے کسی ملک میں پٹرول کیلیے قطاریں نظر نہیں آئیں گی، آپ افریقہ کے جنگ زدہ ممالک میں بھی چلے جائیں آپ کو وہاں بھی پٹرول پمپ کھلے ملیں گے لیکن آپ کو پاکستان جیسی نیو کلیئر اسٹیٹ میں پٹرول پمپوں کے سامنے لمبی قطاریں نظر آ ئیں گی، آپ لاہور، راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد اور پشاور چلے جائیں آپ کو وہاں ہزاروں لوگ پٹرول پمپوں پر بوتلیں اٹھا کر کھڑے نظر آئیں گے۔
آپ کو گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی میلوں لمبی قطاریں بھی ملیں گی اور آپ شہروں کی سڑکیں اور گلیاں بھی سنسان دیکھیں گے، یہ کیا ہے؟ کیا یہ حکومت کی نالائقی، حکمرانوں کی بے حسی اور ریاستی سسٹم کا خاتمہ نہیں؟ پٹرول کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ بحران کیوں پیدا ہوا؟ اس بحران کی پہلی وجہ حکومت کی نالائقی تھی، کیسے؟ آئیے جائزہ لیتے ہیں،ہم پاکستان میں تیل درآمد کرنے والے اداروں کو تین گروپوں میں تقسیم کر سکتے ہیں، پی ایس او (پاکستان اسٹیٹ آئل)، یہ گروپ ملکی ضرورت کا 60فیصد پٹرول درآمد کرتا ہے، دوسرے گروپ میں شیل، اٹک پٹرولیم اور ٹوٹل جیسے بڑے ادارے شامل ہیں، یہ گروپ ملکی ضرورت کا 30 فیصد پٹرول درآمد کرتا ہے، تیسرے گروپ میں دس چھوٹے ادارے شامل ہیں، ان میں اسکر، ایڈمور، باقری، او ٹی سی ایل، پاس کول، بائیکو پاکستان،شیوران پاکستان اور ٹوٹل پارکو شامل ہیں، یہ دس کمپنیاں چھ سے سات فیصد تیل درآمد کرتی ہیں، پی ایس او عالمی مارکیٹ سے ہر مہینے تیل کے چار جہاز منگواتا ہے۔
ہر جہاز میں 65 ہزار میٹرک ٹن پٹرول ہوتا ہے، پی ایس او کُل 260 ہزار میٹرک ٹن پٹرول ہر مہینے خریدتا ہے، تیل کا ایک جہاز ہر ہفتے کراچی پہنچتا ہے، ملک میں ہزاروں کی تعداد میں پٹرول پمپس ہیں، تینوں گروپ پٹرول پمپس کو روزانہ 12 ہزار ٹن پٹرول فراہم کرتے ہیں، پی ایس او روزانہ نو ہزار ٹن پٹرول پہنچاتی ہے، پی ایس او پٹرول خریدنے کیلیے ایل سی کھولتا ہے، ملک میں کام کرنے والے بینکوں نے ایل سی کیلیے پی ایس او کو کریڈٹ لائین دے رکھی ہے، بینک ایل سی کھول دیتے ہیں، پی ایس او پٹرول خرید لیتا ہے، یہ پٹرول پی آئی اے اور ریلوے سمیت مختلف اداروں اور پٹرول پمپس کو فراہم کر دیا جاتا ہے، یہ ادارے ادائیگیاں کرتے ہیں،رقم جمع ہوتی ہے اور پی ایس او یہ رقم بینکوں کو واپس کر دیتی ہے۔
یہ سلسلہ دہائیوں سے چل رہا ہے لیکن پھر 1990ء کی دہائی میں ملک میں فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے لگ گئے، یہ کارخانے پی ایس او سے فرنس آئل خریدتے، بجلی بناتے، یہ بجلی واپڈا کو فروخت کرتے، واپڈا یہ بجلی صارفین کو دیتا، بل وصول کرتا، رقم پی ایس او کو ادا کی جاتی اور پی ایس او یہ رقم بینکوں کو لوٹا دیتا لیکن حکومت کیونکہ بجلی پر سبسڈی دے رہی تھی، یہ مہنگی بجلی خرید کر عوام کو سستی بیچ رہی تھی، بجلی چوری بھی ہوتی تھی اور سرکاری ادارے بل بھی نہیں دیتے تھے چنانچہ حکومت ہر سال گردشی قرضوں میں پھنس جاتی ہے، یہ فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو ’’پے منٹ‘‘ نہیں کر سکتی تھی، پے منٹ کی کمی کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے والے ادارے فرنس آئل نہیں خرید سکتے تھے، یوں بجلی کی پیداوار میں کمی آ جاتی تھی اور لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہو جاتا تھا (یہ آج بھی ہوتا ہے)، لوگ سڑکوں پر آ جاتے تھے اور حکومت دباؤ میں آ جاتی تھی۔
حکومت کو ماضی میں چاہیے تھا یہ بجلی کے نظام کو خودمختار بنا دیتی، یہ مسئلے کا کوئی ٹھوس حل تلاش کرتی لیکن ہماری حکومتیں ’’ڈنگ ٹپاؤ پالیسی‘‘ کی قائل ہیں، یہ مسئلے کا مستقل حل تلاش نہیں کرتیں، حکومت نے اس مسئلے میں بھی ڈنگ ٹپاؤ گیئر لگا دیا، حکومت نے پی ایس او کو حکم دیا، آپ آئی پی پیز کو فرنس آئل دیتے رہیں اور بل ہمارے ساتھ ایڈجسٹ کر لیا کریں، پی ایس او حکومتی ادارہ ہے، یہ انکار نہ کر سکا اور پھر یوں مسئلہ مزید الجھ گیا، پی ایس او فرنس آئل آئی پی پیز کو دیتا تھا اور بل کیلیے پانی اور بجلی کی وزارت، پٹرولیم منسٹری اور وزارت خزانہ کے پیچھے خوار ہوتا رہتا تھا، گردشی قرضے بڑھتے جاتے تھے اور پی ایس او ڈیفالٹ کے قریب پہنچتا رہتا، حکومت پی ایس او کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلیے بینکوں کا بازو مروڑ دیتی تھی، یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہے۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق واپڈا نے پی ایس او کے 99 ارب 30 کروڑ روپے، حبکو نے 58 ارب روپے، کیپکو نے 13 ارب 60 کروڑ، کے ای ایس سی ای نے 3 ارب 80 کروڑ، پی آئی اے نے 14 ارب روپے، پاکستان ریلوے نے 83 کروڑ، این ایل سی نے 78 کروڑ اور او جی ڈی سی ایل نے 10 کروڑ روپے ادا کرنے ہیں، پی ایس او کی کل ادائیگیاں 225 ارب روپے ہیں، پی ایس او ان ادائیگیوں کیلیے واپڈا، پٹرولیم اور خزانے کی وزارت کو لکھتا رہا لیکن کسی وزارت نے ان خطوط کو سنجیدہ نہ لیا، یہ ان وارننگ کو معمول کی کارروائی سمجھتے رہے یہاں تک کہ ملک میں پٹرول کا بحران پیدا ہو گیا۔
پاکستان میں آئل کمپنیاں 18 دن کا اسٹاک رکھنے کی پابند ہیں، یہ اسٹاک ایمرجنسی سے نبٹنے کیلیے ضروری ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اسٹاک نہ رکھے گئے، کیوں؟ اس کی وجوہات بھی بہت دلچسپ ہیں، امریکا میں 2010ء میں شیل گیس آئی، یہ گیس ٹیکنالوجی کی مرہون منت ہے، شیل گیس کی وجہ سے امریکا کے تیل کے ذخائر دگنے ہو گئے، امریکا اس وقت دنیا میں تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، شیل گیس کے بعد یہ تیل میں دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ بن جائے گا، امریکا کی یہ کاروباری کامیابی تیل برآمد کرنے والے ممالک کیلیے قابل قبول نہیں، روس دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ تیل پیدا کر رہا ہے، اس نے تیل پیدا کرنے والے عرب ملکوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا اور ان ملکوں نے تیل کی قیمتیں گرانا شروع کر دیں، یہ ملک تیل کی قیمت اتنی گرا دینا چاہتے ہیں کہ امریکا کیلیے تیل نکالنا اور مارکیٹ کرنا مشکل ہو جائے، مقابلے کی اس دوڑ میں تیل کی قیمت 115 ڈالر فی بیرل سے 47 ڈالر فی بیرل ہو گئی۔
ہمارے ملک میں تیل کا 40 فیصد حصہ پرائیویٹ کمپنیاں درآمد کرتی ہیں، ان کمپنیوں نے تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے تیل کی خریداری بند کر دی اور اسٹاک میں موجود تیل مارکیٹ کو فراہم کرنا شروع کر دیا، ہمارا سرکاری نظام اس قدر فرسودہ ہو چکا ہے کہ حکومت کو خبر ہی نہیں ہوئی، ہمارے آئل اسٹاک ختم ہو چکے ہیں اور ملک میں تیل کا بحران سر اٹھا رہا ہے، دوسری طرف پی ایس او کی کریڈٹ لائین ختم ہو گئی، ایل سی ڈیفالٹ کر گئیں اور آئل کمپنیوں نے اسے پٹرول دینے سے انکار کر دیا، پی ایس او حکومت کو لکھتا رہا اور حکومت اسے معمول کی کاروائی سمجھتی رہی یہاں تک کہ وہ پی ایس او جو تیل کے چار جہاز خریدتا تھا وہ جنوری میں صرف ایک جہاز خرید سکا اور یوں دنیا کی ساتویں جوہری طاقت21ویں صدی میں پٹرول کے بحران کا شکار ہو گئی، ہمارے پٹرول پمپس پر لائنیں لگ گئیں۔
میں آپ کو یہاں ایک اور حقیقت بھی بتاتا چلوں، ہمارے ملک میں چالیس لاکھ گاڑیاں سی این جی پر چلتی ہیں، حکومت نے نومبر 2014ء میں پنجاب میں سی این جی بند کر دی، سی این جی کی بندش کے بعد پنجاب کی تیس لاکھ گاڑیاں پٹرول پر چلی گئیں یوں پٹرول کی مانگ میں 27 فیصد اضافہ ہو گیا، حکومت کے کسی ادارے نے سی این جی بند کرنے سے پہلے اس حقیقت کا ادراک نہ کیا، حکومت نے تیل امپورٹ کرنے والے اداروں کو درآمد بڑھانے کا حکم بھی نہیں دیا، دوسرا بڑا مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب 15 جنوری کو پٹرول کے بحران کی خبریں گردش کرنے لگیں اور لوگوں نے گاڑیوں میں زیادہ پٹرول بھروانا اور تیل اسٹاک کرنا شروع کر دیا اور یوں بحران گھمبیر ہو گیا، یہ سارا معاملہ بے حسی، نالائقی اور سسٹم کی خرابی کا غماض ہے، حکومت کو اپنی بے حسی اور نالائقی کا اعتراف کرنا چاہیے اور فوری طور پر تین وزراء سے استعفیٰ لینا چاہیے۔
خدا کی پناہ یہ کیسا ملک ہے جس میں کبھی آٹا غائب ہو جاتا ہے، کبھی پانی، کبھی بجلی، کبھی گیس اور کبھی پٹرول! عوام کسی دن سکون کا سانس نہیں لے سکتے، آپ حکومت کو تلاش کریں تو یہ دہلیز سے لے کر ائیر پورٹ تک آپ کو کسی جگہ نظر نہیں آتی، وزیراعظم ملک سے جاتے ہیں تو پوری ریاست چھٹی پر چلی جاتی ہے، میاں نوازشریف وزیراعظم کم اور فائر بریگیڈ زیادہ نظر آتے ہیں، یہ کبھی یہاں آگ بجھاتے ہیں اور کبھی وہاں، کیا وزیراعظم پانچ سال تک فائر بریگیڈ ہی رہیں گے؟ میرا خیال ہے ہاں کیونکہ پوری حکومت جب رشتے داروں، عزیزوں، دوستوں اور وفاداروں پر مبنی ہو گی تو پھر احتساب کیسے ممکن ہوگا؟ ملک میں خواہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو جائے اور اس میں خواہ 18 لوگ مارے جائیں یا ملک سے بجلی، گیس اور پٹرول ختم ہو جائے یا پھر دہشت گردی ختم نہ ہو سکے آپ کسی عہدیدار کو اس کی پوزیشن سے ہٹا نہیں سکیں گے، آپ کسی کا دل نہیں توڑسکیں گے اور یہ وہ مسئلہ ہے جس کے میاں نوازشریف شکار چلے آرہے ہیں۔
مجھے اندیشہ ہے میاں صاحب نے اگر نالائقوں کی قربانی شروع نہ کی تو یہ بہت جلد خود قربان ہو جائیں گے کیونکہ عوام اب زیادہ دیر تک نالائقی اور بے حسی برداشت نہیں کر سکتے، پانی سروں سے اوپر جا چکا ہے، لوگ اب ڈوب رہے ہیں۔
نئے سیارے دریافت کرنا ہوں گے
جاوید چوہدری اتوار 18 جنوری 2015

دنیا کے پاس اب دو آپشن ہیں، ہم لوگ زمین جیسے پانچ نئے سیارے دریافت کر لیں اور دنیا کے مختلف مذاہب، نسلیں اور گروہ ان پر شفٹ ہو جائیں، ایک سیارہ عیسائیوں کا ہو، دنیا بھر کے عیسائی بیت اللحم، ویٹی کن سٹی اور بائبل کے ساتھ وہاں منتقل ہو جائیں، وہ سیارہ عیسائی زمین کہلائے اور دوسرے مذہب اور نسل کے لوگ وہاں نہ جا سکیں، یہ لوگ وہاں اپنی مرضی کی دنیا آباد کر لیں، جس کے چاہیں کارٹون بنائیں، جس کے خلاف چاہیں فلم تیار کر لیں اور جس کی چاہیں توہین کر دیں۔
اپنی مرضی کی زندگی بسر کریں اور کسی کو ان پر کوئی اعتراض نہ ہو، ایک سیارہ یہودیوں کو الاٹ ہو جائے، یہ لوگ بھی اپنی دیوار گریہ اور ہیکل سلمانی اٹھائیں اور اس سیارے کو اسرائیل ڈکلیئر کر کے وہاں آباد ہو جائیں ا ور کوئی ان کی ریاست، ان کے طرز عمل پر اعتراض نہ کرے، ایک سیارہ ہندوؤں کو مل جائے، یہ بھی اپنے دیوی دیوتاؤں کو اٹھائیں، اپنے مندر لیں، اپنے ترشول، اپنے دھاگے اور اپنی گنگا سمیٹیں اور وہاں چلے جائیں، یہ لوگ وہاںجتنے چاہیں نعرے لگائیں، یہ وہاں جتنی چاہیں دھمکیاں دیں، کوئی شخص کوئی قوم اعتراض نہیں کرے گی اور ایک سیارہ مسلمان بھی آباد کر لیں۔
یہ بھی اپنا خانہ کعبہ، اپنا قرآن مجید اور اپنی مسجدیں اٹھائیں اور اس سیارے پر آباد ہو جائیں اور یہ وہاں جتنے چاہیں القاعدہ اور داعش بنا لیں، جتنے چاہیں جلوس، اجتماعات اور ریلیاں نکال لیں اور ایک سیارہ بدھ مت بھی آباد کر لیں، یہ بھی اس کو اپنا تبت ڈکلیئر کر دیں، یہ وہاں اپنے لاما دریافت کریں اور اپنی مرضی سے زندگی گزار لیں اور ہم اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر ہم دنیا کو پانچ حصوں میں تقسیم کر لیں، ہم دنیا بھر کے عیسائیوں کو یورپ تک محدود کر دیں، یہودیوں کو ،،ڈیڈسی،، اور مسلمان مشرق وسطیٰ تک محدود ہو جائیں، ہندوؤں کو برصغیر دے دیں اور بدھ مت مشرق بعید تک محدود ہو جائیں۔
ہم ان پانچ حصوں کے گرد بیس ہزار فٹ اونچی دیواریں بنائیں تاکہ کسی حصے کا کوئی باسی دوسرے حصے میں جھانک تک نہ سکے، ہم سب کے سمندر ہم سب کے دریا، ہوائیں ،پانی، کمیونی کیشن کے ذرائع، سورج اور چاند تک اپنے اپنے ہوں، ہم ایک دوسرے کی شکل تک نہ دیکھیں اور اپنے اپنے حصے میں اپنی اپنی مرضی کی زندگی گزارتے رہیں، ہم سب اپنے اپنے دائروں، اپنے اپنے حلقوں میں رہ کر زندگی گزارتے چلے جائیں یہاں تک کے زمین آخری سانس لے یا کائنات ٹوٹ کر بکھر جائے۔
ہم اگر یہ نہیں کرتے تو پھر ہمارے پاس دوسرا آپشن بچتا ہے، ہم ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں، ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھ لیں، ہم ایک دوسرے کی ذہنی، نفسیاتی، جذباتی، تقافتی اور معاشرتی مجبوریاں سمجھیں، ہم اہل مغرب کو اہل مغرب، اہل مشرق کو اہل مشرق، عیسائیوں کو عیسائی، یہودیوں کو یہودی، ہندوؤں کو ہندو اور مسلمانوں کو مسلمان مان لیں، ہم غریب اور امیر اور جاہل اور پڑھے لکھے کی تقسیم کو بھی تسلیم کر لیں، ہم آرٹ کو آرٹ اور سائنس کو سائنس، مذہب کو مذہب اور روحانیت کو روحانیت مان لیں، ہم یہ بھی مان لیں یورپ کے لوگ یورپ کی طرح زندگی گزاریں گے، مشرق کے لوگ مشرقیت کے ساتھ رہیں گے، عیسائی ،عیسائی عقیدے کے ساتھ سانس لیں گے اور یہودی، یہودی، بودھ، بودھ، ہندو، ہندو اور مسلمان مسلمانوں کی طرح حیات کا سفر طے کریں گے۔
دنیا میں برقعہ پوش بھی رہیں گی اور اسکرٹ والیاں بھی، لوگ شراب بھی پئیں گے، سور بھی کھائیں گے اور حلال اور حرام کی تمیز کرنے والے بھی یہیں آباد رہیں گے، لوگ کلیسا بھی جائیں گے، سینا گوگا بھی، مندر بھی، پاٹ شالا بھی اور مسجد بھی، لوگ غربت کی دوہائی بھی دیں گے اور امیر غریبوں کو روٹی کی جگہ کیک کھانے کے مشورے بھی دیں گے، دنیا میں گدھا گاڑیاں بھی چلیں گی اور لوگ فراری بھی خریدیں گے، لوگ بسوں کے ساتھ لٹک کر بھی سفر کریں گے اور لوگ ذاتی جہازوں میں بھی اڑیں گے، دنیا میں ڈالر بھی رہے گا، پاؤنڈ بھی، یورو بھی اور روپیہ بھی اور دنیا میں ویٹی کن سٹی بھی، ہیکل سیلمانی بھی اور خانہ کعبہ بھی موجود رہیں گے، ہمیں ماننا ہو گا، دنیا میں لوگ انگریزی بھی بولیں گے۔
فرنچ بھی، چینی بھی اور عربی بھی، دنیا میں فادر بھی ہوں گے اور پنڈت بھی، ربی بھی، مولوی بھی اور لبرل فاشسٹ بھی اور پھر دنیا میں آجر بھی ہوں گے، اجیر بھی، کیمونسٹ بھی، سرمایہ کار بھی اور قاتل بھی اور مقتول بھی، دنیا میں بھگوان کی آوازیں بھی آئیں گی، فادر،مادر اور چائلڈ کی صدا بھی اور اللہ اکبر بھی اور دنیا میں کالے بھی ہوں گے، زرد بھی، سرخ بھی، سفید بھی اور براؤن بھی اور پھر ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ہم جب اکھٹے رہیں گے تو پھر ہم میں اختلاف بھی ہو گا، ہم سب اپنے اپنے عقیدے کو سچا اور دوسرے کے عقائد کو جھوٹا بھی کہیں گے، ہم اپنی عبادت کو مقدس اور دوسروں کے سجدوں کو کفر بھی کہیں گے، ہم میں سے کچھ لوگ سبزی کھائیں گے، کچھ کوشر، کچھ حلال اور کچھ سب کچھ، ہماری میز پر بیٹھ کر ایک شخص شراب پیئے گا اور دوسرا کوکاکولا اور تیسرا لسی، ہم میں سے کچھ لوگ موسیقی اور رقص کو حرام بھی قرار دیں گے اور کچھ اعضاء کی شاعری اور تہذیب اور کچھ لوگ فلموں، تھیٹر اور اسٹیج ڈراموں کو فحاشی بھی قرار دیں گے اور کچھ اسے سماجی عبادت بھی کہیں گے۔
ہم اگر ایک دوسرے کے وجود کو مان لیتے ہیں، ہم اگر یہ تسلیم کر لیتے ہیں، ہم مختلف رنگوں، نسلوں، زبانوں، مذہبوں اور ثقافتوں کے لوگوں نے اس کرہ ارض پر رہنا ہے تو پھر دنیا کے ہر چارلی کو یہ بھی ماننا ہو گا ہم 18 لوگ جسے آرٹ اور ہم جسے آزادی اظہار رائے سمجھتے ہیں اسے دنیا کے ایک ارب 70 کروڑ مسلمان توہین گردانتے ہیں اور یہ اس توہین پرجان دے بھی سکتے ہیں اور جان لے بھی سکتے ہیں اور ہم نے اگر اب اسی دنیا میں دوسری نسلوں اور دوسرے مذہب کے لوگوں کے ساتھ رہنا ہے تو پھر دنیا کے تمام شریف کوشی اور سعید کوشیوں کو بھی یہ سمجھنا ہو گا حملوں سے مسئلے حل نہیں ہوتے، حملوں سے مسئلے بڑھ جاتے ہیں، ہمیں یہ ماننا ہو گا چارلی ایبڈو 7 جنوری سے قبل ایک مرتا ہوا کمزور ہفت روزہ تھا۔ اس کی سرکولیشن کبھی پچاس ہزار سے اوپر نہیں گئی۔
سنجیدہ لوگ اس ہفت روزہ کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن اخبار پر حملے کے بعد چارلی ایبڈو نے گستاخانہ خاکے 30 لاکھ کی تعداد میں شائع کیے، یہ اب مزید 50 لاکھ کاپیاں شائع کر رہا ہے، یہ میگزین7 جنوری تک صرف پیرس کے ایک محلے تک محدود تھا، لوگ یہ میگزین دیکھتے تھے اور ڈسٹ بین میں پھینک دیتے تھے لیکن 7 جنوری کے واقعے کے بعد یہ نہ صرف بین الاقوامی اخبار بن گیا بلکہ پوری مغربی دنیا، پورے وسائل کے ساتھ اس کے ساتھ کھڑی ہو گئی، دنیا بھر کے اخبارات ، ٹیلی ویژن چینلز اور ویب سائیٹس چارلی ایبڈو سے اظہار یکجہتی کے لیے وہ خاکے روزانہ شائع کر رہی ہیں، یورپ، امریکا اور مشرق بعید میں مسلمانوں کے لیے آزادانہ نقل و حرکت مشکل بن چکی ہے، فرانس میں مسلمانوں پر 80 حملے ہو چکے ہیں، لوگ اب مارکیٹس، اسکول اور مسجدوں میں جاتے ہوئے ڈرتے ہیں، اسلامی دنیا اور مغربی دنیا کے درمیان ٹینشن میں بھی اضافہ ہو گیا اور یہ صورتحال اگر کنٹرول نہ ہوئی تو دنیا میں کسی بھی وقت تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے گی۔
ہمیں یہ ماننا ہو گا ہمارے حملے، ہماری گولیاں مسئلے ختم نہیں کررہیں، یہ مسائل میں اضافہ کر رہی ہیں اور ہم نے اگر اکھٹے رہنا ہے تو پھر اقوام متحدہ، یورپی یونین، جی 20 اور او آئی سی کو بھی آزادی اظہار رائے کے نئے پیرا میٹر بنانے ہوں گے، دنیا کے بڑے فورمز کو مذہب، عقائد اور رسومات کو آزادی رائے کے دائرے سے باہر نکالنا ہو گا، دنیا کو فیصلہ کرنا ہو گا، دنیا میں کسی جگہ کسی پیغمبر، کسی مذہب کے بانی اور کسی عبادت کے خلاف فلم بنے گی اور نہ ہی کارٹون۔ دنیا بھر کے مصنفین بھی لکھتے وقت احتیاط سے کام لیں گے، دنیا کو مذہبی حقوق کو انسانی حقوق کی فہرست میں شامل کرنا ہو گا اور دنیا میں جس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزی جرم ہے بالکل اسی طرح مذہبی توہین بھی جرم ہو گی، دنیا کو اسلحے پر بھی پابندی لگانی ہو گی۔
اقوام متحدہ پوری دنیا کو حکم دے یہ پانچ سال کے اندر اندر اپنے شہروں کو اسلحے سے پاک کرے، دنیا کے کسی شہری کے پاس اسلحہ نہیں ہونا چاہیے، اسلحہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں، پولیس اور فوج تک محدود ہونا چاہیے، دنیا کو تبلیغ کا نظام بھی وضع کرنا ہو گا، دنیا کے تمام مذاہب اپنے تبلیغ گھر بنائیں، جس شخص کو اس مذہب کے بارے میں جاننے کی خواہش ہو، وہ اس تبلیغ گھر میں پہنچ جائے اور وہ مذہب سیکھ لے، تبلیغی مشنوں پر پابندی ہونی چاہیے، دنیا یہ فیصلہ بھی کرے، پبلک میڈیا یعنی اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر کسی مذہب کے خلاف گفتگو نہیں ہو گی، سوشل میڈیاکے رولز بھی تبدیل کیے جائیں، متنازعہ مذہبی ویب سائیٹس پر پابندی ہونی چاہیے اور آخری بات اقوام متحدہ کو بین المذاہب رابطے کے لیے فنڈ تشکیل دینا چاہیے۔
یہ مختلف مذاہب کے لوگوں کو دوسرے مذاہب کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے بھیجوائیں، عیسائی، یہودی اور ہندو عالم مسلمان عالموں سے ملاقات کریں اور مسلم اسکالرز دوسرے ملکوں میں جا کر ان کے علماء سے ملاقاتیں کریں، یہ رابطے اختلافات کم کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے، ہم میں سے کتنے لوگ ہوں گے جنھوں نے ویٹی کن سٹی دیکھا ہو گا اور کتنے عیسائی عالم ہوں گے جنھوں نے قمریونیورسٹی، جامعہ الازہر اور مدینہ یونیورسٹی کا دورہ کیا، ہم میں سے سینا گوگا اور مندروں میں جانے والے مسلمانوں کی تعداد بھی انتہائی کم ہو گی، یہ بیریئر بھی ٹوٹنا چاہیے، ہمارے درمیان انٹرایکشن ہو گا تو غلط فہمیوں اور نفرتوں کی دیواریں گریں گی۔
دنیا کو ایک دوسرے کے عقائد کے بارے میں بھی زیادہ سے زیادہ معلومات ہونی چاہئیں، ہم اگر ایک دوسرے کے عقائد، مذہبی رسومات اور مذہبی شخصیات کے بارے میں جانتے ہوں گے تو ہم توہین سے بھی پرہیز کریں گے اور یوں دوسرے مذاہب کی دل آزاری نہیں ہو گی، مجھ سے ڈیلفی کے ایک پادری نے پوچھا ،،تم مسلمان ہمارے نبی کو کیوں نہیں مانتے،، میں نے جواب دیا ،،حضرت عیسیٰ ؑکی نبوت کو تسلیم کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے، ہم جب تک انبیاء کرام کو تسلیم نہ کریں، ہم مسلمان ہی نہیں ہو سکتے،، وہ میرا جواب سن کر حیران رہ گیا، کیوں؟ کیونکہ اسے بتایا گیا تھا مسلمان حضرت عیسیٰ ؑکونبی نہیں مانتے، عیسائی اس لیے مسلمانوں کے خلاف ہیں، ہمارے درمیان رابطے بڑھیں گے تو یہ غلط فہمیاں بھی ختم ہو جائیں گی۔
ہم نے دنیا کو پرامن بنانے کے لیے یہ اقدام نہ کیے تو دنیا رہنے کے قابل نہیں رہے گی اور وہ مذہب جو انسان کو پرامن رکھنے کے لیے دنیا میں آئے تھے وہ انسان کے خاتمے کا ذریعہ بن جائیں گے یا پھر ہر مذہب کو اپنے لیے نیا سیارہ دریافت کرنا پڑے گا۔

اصل خودکش حملہ آور
جاوید چوہدری جمعرات 15 جنوری 2015

ڈاکٹر خالد جمیل ایک باہمت انسان ہیں،آپ اگر کوشش،حوصلہ اور ہمت سیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کے لیے ڈاکٹر خالد جمیل کی مثال کافی ہو گی،ڈاکٹر صاحب جوانی میں نٹ کھٹ،متحرک اور شرارتی تھے،یہ زندگی سے بھرپور جوان بھی تھے لیکن پھر ایک حادثہ ہوا اور ان کی زندگی کا سارا پیٹرن تبدیل ہو گیا،یہ لاہور میں ایم بی بی ایس کے طالب علم تھے،ان کے دوست انھیں زبردستی گاڑی میں بٹھا کر راولپنڈی روانہ ہو گئے،گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا،ان کی ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر آیا اور یہ مکمل طور پر معذور ہو گئے۔
دنیا میں اس قسم کے مریض دوبارہ قدموں پر کھڑے نہیں ہوتے لیکن ڈاکٹر خالد جمیل نے ہمت نہ ہاری،یہ بستر پر لیٹ کر اپنے پاؤں کا انگوٹھا ہلانے کی کوشش کرتے رہے،یہ اپنی کوشش میں اتنے مستقل مزاج اور قطعی تھے کہ ایک دن ان کے انگوٹھے میں واقعی جنبش پیدا ہو گئی اور یوں یہ آہستہ آہستہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے،ڈاکٹر صاحب نے اس کے بعد اپنی تعلیم بھی مکمل کی،پریکٹس بھی شروع کی اور لوگوں کو زندگی اور صحت کی نعمت پر تبلیغ بھی کرنے لگے،آج بھی انھیں چلنے میں مشکل پیش آتی ہے لیکن یہ اس مشکل کے باوجود چلتے ہیں،میں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات سے محروم ہوں مگر میں نے ان کی کتاب ’،تیسرا جنم‘،پڑھی اور میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
کتاب میں ڈاکٹر خالد جمیل نے بے شمار مفید مشورے دیے لیکن ایک مشورہ میرے حافظے کا حصہ بن گیا،ڈاکٹر صاحب نے بتایا،لوگ ٹریفک حادثوں کے دوران اتنے متاثر نہیں ہوتے جتنے یہ ریسکیو کے دوران زخمی ہو جاتے ہیں،ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا،روڈ ایکسیڈنٹ میں زیادہ تر لوگوں کی ریڑھ کی ہڈی فریکچر ہوتی ہے،ان زخمیوں کو جب گاڑی سے نکالا جاتا ہے تو کھینچنے کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی مکمل طور پر ٹوٹ جاتی ہے اور یوں یہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا مشورہ تھا ایکسیڈنٹ کے بعد عام لوگوں کو زخمیوں کو گاڑیوں سے نہیں نکالنا چاہیے،ایمبولینس یا ڈاکٹر کا انتظار کرنا چاہیے اور اگر زخمی کو نکالنا ضروری ہو تو اسے آڑھا ترچھا کر کے نہ اٹھائیں،زخمی کی کمر پر بیلٹ باندھیں اور اسے سیدھا اٹھائیں اور سیدھا لٹا دیں،یہ مشورہ میرے لیے ’’ٹپ‘،تھا،میں اب تک بے شمار لوگوں کو ڈاکٹر خالد جمیل کے حوالے سے یہ ’’ٹپ‘‘دے چکا ہوں لیکن یہ ٹپ اور ڈاکٹر خالد جمیل کی جدوجہد ہمارا موضوع نہیں،ہمارا موضوع پاکستان میں ہونے والے حادثے ہیں۔
ہم ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں،یہ درست ہے،دہشت گردی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ہم جب تک اس عفریت سے جان نہیں چھڑائیں گے ہم ملک میں امن،انصاف اور خوشحالی قائم نہیں کر سکیں گے لیکن اگر ملک کا کوئی ادارہ ٹھوس بنیادوں پر ٹریفک حادثوں اور دہشت گردی کے ہاتھوں مرنے والوں کا ڈیٹا جمع کرے تو قوم یہ جان کر حیران رہ جائے گی ہمارے ملک میں حادثوں میں مرنے والوں کی تعداد دہشتگردی کا نشانہ بننے والے لوگوں سے زیادہ ہے،پاکستان حادثوں کی عالمی فہرست میں دوسرے نمبر پر، جب کہ ہم دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہیں،ہمارے ملک میں سالانہ 4 سے پانچ ہزار لوگ حادثوں میں جان سے گزر جاتے ہیں۔
زخمیوں کی تعداد تین گنا زیادہ ہوتی ہے،ہم اگر درد دل سے دیکھیں تو یہ زخمی ہلاک ہونے والوں کے مقابلے میں زیادہ اذیت سے گزرتے ہیں،ہمارے ملک میں ریاست زخمیوں اور معذوروں کو کوئی ریلیف نہیں دیتی،یہ لوگ باقی زندگی خاندان پر بوجھ بنے رہتے ہیں،یہ بے چارے سسک سسک کر زندگی گزارتے ہیں،آپ کسی دن کوئی اخبار اٹھائیے اور مارکر کے ساتھ اس اخبار میں حادثوں کی خبروں کو سرکل کرنا شروع کیجیے،آپ یقین کیجیے آپ کے اخبار پر سرکل ہی سرکل ہوں گے اور یہ اس دن ہونے والے حادثوں کی صرف دس فیصد خبریں ہوں گی کیونکہ اخبارات تک صرف دس فیصد خبریں پہنچتی ہیں،نوے فیصد خبریں سڑک،اسپتال اور قبرستان تک محدود ہو کر رہ جاتی ہیں،ہمارے ملک میں کئی برسوں سے ہر ہفتے کوئی ایسا حادثہ پیش آتا ہے جس میں پچاس ساٹھ معصوم لوگ مارے جاتے ہیں۔
دنیا کے دوسرے ممالک میں اتنے بڑے بڑے حادثوں کے بعد حکومتیں بدل جاتی ہیں جب کہ ہمارے ملک میں مجرموں کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی،آپ ریکارڈ نکال کر دیکھ لیجیے آپ کو پاکستان میں کسی ایکسیڈنٹ کے بعد کوئی موٹر ساز ادارہ،کوئی ٹرانسپورٹ کمپنی بند ہوتی نظر نہیں آئے گی،آپ حادثے کا موجب بننے والے کسی شخص کو عدالت سے سزا پاتے بھی نہیں دیکھیں گے،کیوں؟ کیونکہ ہماری حکومتیں،ہماری ریاست بے حس ہے،ہم آج بھی حادثے کو امر ربی اور مرنے اور زخمی ہونے والے کا نصیب سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں،سوال یہ ہے کیا یورپ،امریکا اور جاپان میں کوئی دوسرا خدا ہے؟ وہاں حادثوں میں اتنے لوگ کیوں نہیں مرتے؟ بات سیدھی ہے،دنیا حادثے کو دہشت گردی سے زیادہ اہمیت دیتی ہے،آپ دنیا کے کسی ماڈرن ملک میں لائسنس اور ٹریننگ کے بغیر گاڑی نہیں چلا سکتے۔
وہ معاشرے گاڑیوں کی مینٹی ننس،انشورنس اور کوالٹی پر کبھی کمپرومائز نہیں کرتے،یورپ میں سردیوں کے ٹائر تک مختلف ہوتے ہیں اور آپ جب تک یہ ٹائر نہیں تبدیل کرتے آپ اس وقت تک برف باری کے علاقوں میں داخل نہیں ہو سکتے،جنرل موٹرز نے 2005ء سے 2014ء تک دنیا بھر سے اپنی 48 لاکھ گاڑیاں واپس منگوائیں،کیوں؟ کیونکہ گاڑی میں اگنیشن کا معمولی سا نقص تھا‘،یہ نقص نکلا تو کمپنی کو 48 لاکھ گاڑیاں واپس منگوانی پڑ گئیں،کمپنی مینٹننس پر اب تک 5 ارب ڈالر خرچ کر چکی ہے جب کہ کمپنی کے خلاف10 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ بھی ہو چکا ہے لیکن کمپنی یہ نقصان برداشت کر رہی ہے،کیوں؟ کیونکہ یورپ کا کوئی ملک جنرل موٹرز کی گاڑی کلیئر نہیں کر رہا،دنیا کے بے شمار ممالک میں دس سال پرانی گاڑی پر پابندی ہے جب کہ پاکستان میں آپ کوئی بھی گاڑی،کسی بھی وقت،ٹریننگ اور لائسنس کے بغیر سڑک پر لے آتے ہیں اور درجنوں لوگوں کے لیے خودکش حملہ آور بن جاتے ہیں۔
یورپ میں گاڑی میں آگ بجھانے کے آلات،ٹارچ،اندھیرے میں چمکنے والی جیکٹ اور دور سے نظر آنے والا اسٹینڈ لازم ہوتا ہے،آپ سڑک پر ٹائر بدلنا چاہتے ہیں تو آپ پہلے سڑک پر اسٹینڈ کھڑا کریں گے،یہ اسٹینڈ دور سے آنے والی گاڑیوں کو آگاہ کرتا ہے آپ کے راستے میں خراب گاڑی کھڑی ہے،آپ اس کے بعد دور سے نظر آنے والی جیکٹ پہنتے ہیں تا کہ آپ دوسرے ڈرائیوروں کو نظر آ سکیں،یورپ میں بڑے ٹرکوں،ٹرالرز اور آئل ٹینکرز کے لیے خصوصی حفاظتی انتظامات کیے جاتے ہیں،پولیس جب تک ان انتظامات سے مطمئن نہ ہو جائے یہ گاڑیاں سڑک پر نہیں آتیں لیکن آپ پاکستان میں خواہ کھلے ٹینکر میں پٹرول بھر کر سڑک پر آ جائیں آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔
آپ چالیس سال پرانی گاڑی لے کر بھی موٹروے پر آ سکتے ہیں،آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا،میں حکومت کو چیلنج کرتا ہوں یہ ملک کی کسی سڑک پر کوئی مسافر بس یا وین روک کر چیک کر لے حکومت کو اس میں آگ بجھانے والے آلات سے لے کر فرسٹ ایڈ تک کوئی حفاظتی بندوبست نہیں ملے گا،آپ کسی ٹینکر کو چیک کر لیں آپ اسے القاعدہ سے زیادہ خطرناک پائیں گے،آپ کو ہائی ویز پر اسپتال،ایمبولینس اور فائر بریگیڈ بھی نہیں ملتا،انگریز کے دور میں فائربریگیڈ،ایمبولینس اور اسپتال ہمیشہ مین روڈ پر بنائے جاتے تھے،یہ 24 گھنٹے آپریشنل بھی ہوتے تھے لیکن آج آپ کو یہ آپریشنل ملتے ہیں اور نہ ہی ’’مین روڈ‘،پر۔ ہمارے ملک میں کتنی گاڑیاں ہیں؟ ریاست کو معلوم نہیں،گاڑیوں کی مینٹی ننس کیسی ہے؟ ریاست کو یہ بھی معلوم نہیں اور کیا گاڑیاں چلانے والوں کے پاس لائسنس بھی ہیں ہمیں یہ بھی معلوم نہیں چنانچہ ہم میں کون،کب اور کہاں اور کس گاڑی کی زد میں آ جائے ہم نہیں جانتے۔
آپ المیہ دیکھئے 10 جنوری کو کراچی میں نیشنل ہائی وے لنک روڈ پر مسافر کوچ اور آئل ٹینکر میں تصادم ہوا ،70 لوگ زندہ جل کر مر گئے،مرنے والوں میں 8 افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا،آج اس واقعے کو صرف پانچ دن گزرے ہیں لیکن ریاست اور قوم حادثے کو مکمل طور پر بھول چکی،ملک میں کسی ادارے،کسی شخصیت نے سنجیدگی سے اس کا نوٹس نہیں لیا،یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا،آپ لاہور انارکلی میں 29 دسمبر کی آتشزدگی کو دیکھ لیجیے اس واقعے میں 13 افراد زندہ جل گئے،گیارہ نومبر 2014ء کو خیر پور میں بس اور کوئلے سے بھرے ٹرک میں تصادم ہوا 62 لوگ جاں بحق ہو گئے،20 اپریل کو سکھر کے قریب مسافر بس اور ٹرالر تصادم میں 45 لوگ مارے گئے‘22 مارچ کو حب میں مسافر بس اور آئل ٹینکر میں تصادم ہوا 40 لوگ مر گئے۔
15 جنوری کو نوابشاہ میں ڈمپر اور اسکول وین میں تصادم ہوا 22 بچے جاں بحق ہو گئے۔ 16 مارچ 2013ء کوہستان میں کوسٹر کھائی میں گر گئی،کرنل سمیت 23 جوان مارے گئے،11 ستمبر 2012ء کو کراچی کی فیکٹری میں258 لوگ جل کر مر گئے اور26 ستمبر 2011ء کو موٹر وے سالٹ رینج پر بس کھائی میں جاگری، اسکول کے 36 معصوم بچے جاں بحق ہو گئے،ہم اگر ریلوے کراسنگ کو بھی ان حادثوں میں شامل کر لیں تو آپ کو ملک کا ہر شہر خون سے رنگین ملے گا۔ آپ یقین کیجیے ہماری گاڑیاں،ہماری سٹرکیں اور ہمارے ڈرائیور دنیا کے سب سے بڑے خود کش حملہ آور ہیں،ہم طالبان سے بچنے کے لیے آئین میں ترمیم کر لیتے ہیں لیکن ہمیں وہ خود کش حملہ آور نظر نہیں آتے جو روز سڑکوں پر نکلتے ہیں اور بریک فیل ہونے کا بہانہ بنا کر پچاس پچاس لوگوں کو زندگی کی سرحد پار کرا دیتے ہیں۔
ہم ان کی طرف آنکھ اٹھا کر کیوں نہیں دیکھتے؟ ریاست ان خودکش حملہ آوروں کے لیے کوئی پالیسی کیوں نہیں بناتی؟ ہمیں اس کے لیے تو کسی اے پی سی،کسی قومی اتفاق رائے اور کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں،وزیر اعظم صاحب ایک میٹنگ کریں اور اعلان کر دیں ملک میں آج کے بعد ٹریفک اور روڈ سیفٹی کے تمام قوانین پر عمل ہو گا اور ہم اور ہمارے بچوں کی جانیں بچ جائیں گی لیکن آپ شاید اس کام کے لیے بھی آرمی چیف کے احکامات کا انتظار کر رہے ہیں،آپ اس کے لیے بھی کسی ضرب عضب کے منتظر ہیں۔
میاں صاحب کے ساتھ بھی یہی ہو گا
جاوید چوہدری بدھ 14 جنوری 2015

’’ہمارے بچے شہید ہو گئے اور آپ نے شادی کر لی‘‘ خاتون رو رہی تھی‘ گریہ و زاری کر رہی تھی‘ دہائی دے رہی تھی اور عمران خان گنگ کھڑے تھے‘ یہ منظر یقینا آپ نے بھی دیکھا ہو گا‘ کل ٹیلی ویژن اسکرینوں نے ایسے بے شمار مناظر پیش کیے‘ ہر منظر رو رہا تھا‘ ہر کلپ چیخ رہا تھا اور ہر پیکیج میں آہیں‘ سسکیاں اور دہائیاں تھیں۔
عمران خان بدھ 14 جنوری کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے دورے پر گئے‘ خان صاحب کی دوسری بیگم بھی ان کے ساتھ تھیں‘ یہ لوگ اسکول کے سامنے پہنچے تو شہید بچوں کے لواحقین سڑک پر لیٹ گئے‘ عمران خان کا قافلہ رک گیا‘ لوگ ’’گو عمران گو‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے‘ پولیس نے لوگوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی مگر لوگ قابو نہ آئے‘ عمران خان گاڑی سے باہر آئے تو لوگوں نے انھیں بھی گھیر لیا‘ جہانگیر ترین اپنے قائد کے ساتھ کھڑے رہے لیکن جب انھوں نے لوگوں کو اشتعال میں دیکھا تو یہ واپس بلٹ پروف گاڑی میں چلے گئے‘ وزیراعلیٰ پرویز خٹک گاڑی کی چھت کھول کر بحران حل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہو سکے۔
پولیس‘ سول انتظامیہ اور ایف سی کے جوانوں نے بھی ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی بے بس ہو گئے‘ عمران خان کو بڑی مشکل سے اسکول کے اندر پہنچایا گیا‘ سوال یہ ہے لوگ احتجاج کیوں کر رہے تھے‘ لوگ اپنے محبوب قائد کو برا بھلا کیوں کہہ رہے تھے؟ اس کیوں کا تجزیہ بہت ضروری ہے‘ دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر 16 دسمبر 2014ء کو حملہ کیا‘ حملے میں 145 لوگ شہید ہوگئے جن میں 132 بچے شامل تھے‘ 65 زخمی بچے مجروح چہروں کے ساتھ آج بھی ریاست کا راستہ دیکھ رہے ہیں‘ صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت کسی نے ان 65 بچوں کی کاسمیٹک سرجری کا بندوبست نہیں کیا‘ یہ پاکستان کی تاریخ کا خوفناک ترین جب کہ دنیا کا اس نوعیت کا دوسرا بڑا واقعہ تھا‘ پوری دنیا اس بربریت پر سوگ میں چلی گئی‘ قوم بھی پوری بہادری کے باوجود ابھی تک صدمے سے باہر نہیں آئی‘ لوگ آج بھی بچوں کو اسکول بھجواتے وقت گھبراتے ہیں۔
حکومت نے 26 دنوں کے وقفے کے بعد 12 جنوری کو اسکول کھولے‘ آرمی پبلک اسکول بھی دوبارہ کھل گیا‘ قوم کا خیال تھا اسکول کے پہلے دن وزیراعظم میاں نواز شریف‘ وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور عمران خان تینوں گیٹ پر کھڑے ہوں گے‘ یہ اپنے ہاتھوں سے اسکول کا گیٹ کھولیں گے‘ یہ بچوں کا استقبال کریں گے لیکن قوم یہ دیکھ کر حیران رہ گئی‘ 12 جنوری کو صرف آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنی اہلیہ کے ساتھ اسکول میں موجود تھے‘ یہ بچوں سے ہاتھ ملا کر انھیں اسکول میں خوش آمدید کہہ رہے تھے‘ انھوں نے بچوں کے ساتھ مل کر قومی ترانہ بھی پڑھا اور جھنڈے کو سلام بھی پیش کیا جب کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا‘ عمران خان اور وزیراعظم میاں نواز شریف تینوں غائب تھے‘ یہ بے حسی 16 دسمبر کے واقعے سے بڑا سانحہ تھی‘ قوم حکمرانوں کے اس رویے پر تڑپ کر رہ گئی‘ قوم شاید یہ بے حسی بھی برداشت کر جاتی لیکن 16 دسمبر سے 12 جنوری تک 26 دنوں کے درمیان چار ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے قوم کی حساسیت میں اضافہ کر دیا‘ یہ چاروں واقعات آنے والے کئی ماہ تک قوم کی نفسیات میں رہیں گے۔
پہلا واقعہ 21 ویں ترمیم تھی‘ حکومت کوشش کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں کو 21 ویں ترمیم پر اکٹھا نہ کر سکی‘ عمران خان کا صوبہ دس سال سے دہشت گردی کا مرکز ہے لیکن جب پالیسی بنانے کا وقت آیا تو عمران خان 21 ویں ترمیم کی حمایت کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس نہیں گئے‘ عمران خان اگر ایک دن کے لیے اپنے تمام ارکان کے ساتھ قومی اسمبلی چلے جاتے‘ یہ 21 ویں ترمیم پر ووٹ دے کر ایوان کا دوبارہ بائیکاٹ کر دیتے تو ان کی نیک نامی میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا‘ قوم بالخصوص خیبر پختونخوا کے لوگوں کے دلوں میں ان کا احترام بڑھ جاتا لیکن یہ 21 ویں ترمیم کے لیے بھی قومی اسمبلی نہیں گئے‘ جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا‘ مولانا فضل الرحمن نے نہ صرف کھل کر ترمیم کی مخالفت کی بلکہ انھوں نے یہ بھی فرما دیا ’’شکر ہے اللہ نے ہمیں اس گناہ سے محفوظ رکھا‘‘ جے یو آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان بھی بیان بازی شروع ہو گئی۔
ان سیاسی اختلافات نے قوم کی حساسیت میں اضافہ کر دیا‘ دوسرا واقعہ عمران خان کی شادی تھی‘ شادی کرنا عمران خان کا حق ہے اور دنیا کا کوئی قانون‘ کوئی قاعدہ ان سے یہ حق نہیں چھین سکتا مگر عمران خان نے اس حق کے لیے بھی غلط دنوں کا انتخاب کیا‘ پشاور کے شہید بچوں کی قبروں کی مٹی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی اور زخمیوں کی ابھی پٹیاں بھی نہیں اتری تھیں کہ عمران خان نے 8 جنوری کو شادی کر لی۔
میڈیا نے بھی اس شادی کو غیر ضروری کوریج دی اور وہ پی ٹی آئی بھی جس کو سانحہ پشاور کے بعد سوگ میں ہونا چاہیے تھا وہ مبارک باد کے ڈھول پیٹنے لگی‘ آپ خود سوچئے اگر مبارک دینے والوں کے اپنے بچے پشاور کے واقعے میں شہید ہوئے ہوتے تو کیا یہ لوگ شادی کرتے یا یہ مبارک باد کے ڈھول بجاتے؟ عمران خان سے دن کے انتخاب میں غلطی ہوئی‘ یہ اگر دو تین ماہ رک جاتے تو زیاہ بہتر تھا‘ اگر کوئی مجبوری تھی تو بھی خان صاحب کو فوٹو سیشن نہیں کرانے چاہیے تھے‘ یہ فوٹو سیشن بھی عوام کے دل پر لگے‘ تیسرا واقعہ بین الاقوامی تھا‘ پیرس میں دو فرانسیسی مسلمانوں نے 7 جنوری کو میگزین ’’چارلی ایبڈو‘‘ پر حملہ کر دیا اور 14 لوگوں کو گولی مار دی‘ چارلی ایبڈو غیر سنجیدہ مزاحیہ ہفت روزہ ہے۔
اخبار کی سرکولیشن بھی کم ہے اور لوگ بھی اسے سیریس نہیں لیتے‘ یہ مالیاتی خسارے کا شکار بھی تھا‘ انتظامیہ نے جریدے کو فروری میں بند کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ ہفت روزے کی انتظامیہ شرارتی ذہنیت کی مالک تھی‘یہ لوگ مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیے جریدے میں نبی اکرمؐ کے خاکے شایع کرتے رہتے تھے‘ مسلمانوں نے اس گستاخی پر بار بار احتجاج کیا لیکن یہ لوگ باز آئے اور نہ ہی حکومت نے نوٹس لیا‘ جریدے کی انتظامیہ نے اخبار بند ہونے سے قبل آخری بار مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کا فیصلہ کیا‘ یہ لوگ نبی اکرمؐ کے مزید خاکے شایع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے‘ فرانس میں پیدا ہونے والے دو مسلمان بھائیوں شریف کواچی اورسعید کواچی کو اطلاع ملی تو انھوں نے 7 جنوری کو چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملہ کر دیا‘ 7 جنوری کے واقعے میں اخبار کے 12 ورکر مارے گئے۔
دوسرا واقعہ پیرس کی ایک یہودی سپر مارکیٹ میں پیش آیا‘ احمد کولابیلی نے چار یہودیوں کو گولی مار دی اور پوری عمارت میں ڈائنامائیٹ لگا دیا‘ عمارت میں موجود ایک یہودی نے پولیس کی رہنمائی کی‘ 8 ہزار 8 سو پولیس اہلکاروں اور فوجی جوانوں نے عمارت کا گھیراؤ کیا اوراحمد کولابیلی کو گولی مار دی‘ ان دونوں واقعات میں پولیس کے ایک اہلکار سمیت 17 لوگ مارے گئے‘ فرانس نے اس واقعے کو قومی سوگ قرار دیا‘ پیرس میں11 جنوری کو 16 لاکھ لوگوں نے یونٹی مارچ کیا‘ دنیا کے 40 سربراہان اس مارچ میں شریک ہوئے‘ ان سربراہان میں ترکی‘ فلسطین‘ تیونس‘ مالی‘ نائیجر‘ الجزائر‘ اردن اور متحدہ عرب امارات کے مسلمان سربراہان اور نمایندے بھی شامل تھے‘ فرانس کے اس واقعے کے بعد نہ صرف پوری ریاست مرنے والوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی بلکہ یورپی یونین اور آدھی دنیا نے بھی فرانس کے کندھے سے کندھا جوڑ لیا‘ فرانس سمیت پوری مغربی دنیا جانتی ہے۔
مسلمان اپنے رسولؐ کی توہین برداشت نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود چارلی ایبڈو نے کل ایک بار پھر ٹائیٹل پر توہین آمیز خاکہ شایع کیا‘یہ توہین آمیز میگزین 30 لاکھ کی تعداد میں چھ زبانوں میں چھاپا گیا اور پوری دنیا میں بھجوایا گیا‘ حکومت نے میگزین کی انتظامیہ کو روکنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی‘ فرانس کے اس اقدام کی وجہ سے پوری اسلامی دنیا میں غم و غصہ پایا جاتا ہے‘ فرنچ حکومت کو اربوں ڈالر کا نقصان بھی ہو گا لیکن یہ اس کے باوجود اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے‘ پاکستانی قوم نے یہ یونٹی مارچ اپنی اسکرینوں پر دیکھا اور اس کے بعد اپنے سیاستدانوں سے سوال کیا‘ ہمارے ملک میں 60 ہزار لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں‘ اسکول کے 132 بچے 16 دسمبر کو گولیوں سے بھون دیے گئے لیکن ہم دنیا کو ساتھ کھڑا کرنا تو دور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا نہیں کر سکے‘ ہم آج بھی تقسیم ہیں‘ ہم آج بھی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔
کیوں؟ قوم کو یہ شکوہ بھی تھا ہم نے 60 ہزار لوگوں کے مرنے کے بعد بھی ملک میں کوئی یونٹی مارچ نہیں کیا‘ عمران خان حکومت گرانے کے لیے تو مارچ کرتے ہیں مگر یہ عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے باہر نہیں نکلتے‘کیوں؟ اس سوال نے بھی قوم کی حساسیت میں اضافہ کر دیا اور چوتھی وجہ قوم کا خیال تھا 16 دسمبر کے واقعے کے بعد میاں نواز شریف اور عمران خان اپنے اختلافات بھلا دیں گے‘ حکومت جوڈیشل کمیشن بنا دے گی اور عمران خان احتجاجی سیاست ترک کر دیں گے لیکن دونوں جماعتوں نے 16 دسمبر کے واقعے کو سانحے کے بجائے سیاسی موقع جانا‘ حکومت نے جوڈیشل کمیشن نہ بنایا اور عمران خان نے 13 جنوری کو دوبارہ احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا اور یوں سانحہ پشاور کو ابھی مہینہ نہیں گزرا تھا کہ ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دوبارہ سیاسی بک بک شروع ہو گئی‘ لوگوں کی حساسیت بڑھانے میں اس واقعے نے بھی تیل کا کام کیا۔
ہمیں آج ماننا پڑے گا ہمارے سیاست دان ابھی اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر نہیں ہوئے‘ یہ آج بھی زمانہ قبل مسیح میں زندہ ہیں‘ یہ آج بھی معاملات کو سمیٹنے کے بجائے پھیلاتے جا رہے ہیں‘میرا خیال ہے سیاستدانوں بالخصوص میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری‘ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن نے اگر حالات کی نزاکت کو نہ سمجھا‘ یہ اگر ذاتی مفادات اور تاخیری حربوں سے باہر نہ نکلے تو اس ملک میں ان لوگوں کے لیے زندگی مشکل ہو جائے گی‘ یہ لوگ ملک کے کسی بھی شہر میں نکلیں گے تو لوگ گو گو کے نعرے لگاتے ہوئے سامنے کھڑے ہو جائیں گے‘ میرے دوست پرویز رشید عمران خان کے ساتھ اس عوامی سلوک پر خوش ہیں۔
پرویز صاحب کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ لوگ پشاور میں صرف گو عمران گو کے نعرے نہیں لگا رہے تھے‘ وہ گو نواز گو بھی کہہ رہے تھے اور مجھے خطرہ ہے میاں نواز شریف جس دن آرمی پبلک اسکول جائیں گے لوگ ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں گے‘ شہداء پشاور کے معاملے میں دونوں کا رویہ یکساں تھا‘ عمران خان آرمی پبلک اسکول کے بچوں کے لیے میاں عمران خان اور میاں نواز شریف کپتان نواز شریف خان ثابت ہوئے‘ عوام کی نظر میں دونوں میں کوئی فرق نہیں۔

نیو سوشل کانٹریکٹ
جاوید چوہدری پير 12 جنوری 2015

آپ کو ماضی دیکھنا پڑے گا، ماضی میں دونوں سخت، بے لچک اور شدت پسند ہوتے تھے،آپ پہلے یہودیوں کا ماضی دیکھئے، یہ لوگ اس قدر سخت اور بے لچک تھے کہ انھوں نے سیکڑوں نبیوں کو صرف عقائد کی بنیاد پر قتل کر دیا، یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو بھی( عیسائی عقیدے کے مطابق) صلیب پر چڑھا دیا، یہ لوگ اپنی شدت، سختی، بے لچک رویوں اور سازشی فطرت کی وجہ سے سیکڑوں ہزاروں سال سے دنیا میں خوار ہو رہے ہیں، آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، یہ لوگ آپ کو مصر کے صحرائے سینا سے لے کر ہٹلر کے جرمنی تک پوری تاریخ میں بین کرتے دکھائی دیں گے۔
آپ کو دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں ملے گا جہاں ان کی عبادت گاہیں نہ جلائی گئی ہوں، جہاں ان کے شہر اور محلے نہ جلائے گئے ہوں اور جہاں ان کو سرے عام قتل نہ کیا گیا ہو، یہودی لوگ تاریخ کا بین، تاریخ کا گریہ ہیں لیکن آج ایسا نہیں، آج کی صورتحال مختلف ہے، کیوں؟ یہ میں آپ کو تھوڑی دیر میں بتاؤں گا، ہم اب عیسائی مذہب کے پیرو کاروں کی بات کرتے ہیں، آپ عیسائیت کی ساڑھے انیس سو سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو اس میں بھی قتل و غارت گری کے سوا کچھ نہیں ملے گا،کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ بھی بے لچک اور سخت تھے اور ان کے بے لچک رویوں اور سختی کی وجہ سے پروٹیسٹنٹ جیسا فرقہ بھی پیدا ہوا اور کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کے درمیان جنگ بھی ہوئی ، یہ جنگ تین سو سال تک چلتی رہی، یہ لوگ اس دوران چرچوں کو آگ لگا دیتے تھے اور پانچ پانچ سو لوگ چرچ میں جل کر مر جاتے تھے۔
اس دور میں شہر کے شہر جلا دیے گئے، خواتین کی بے حرمتی ہوئی، بچوں کو نیزوں پر پرویا گیا اور مردوں کو زمین پر لٹا کر ان پر گھوڑے دوڑا دیے گئے، عیسائی اس عہد کو ،،سیاہ دور،، کہتے ہیں، یہ لوگ اس دور میں اتنے سخت تھے کہ یہ دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتے تھے، برطانیہ کے ایک بادشاہ ہنری ہشتم نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا، پوپ نے اجازت نہ دی تو اس نے ویٹی کن سٹی سے ترک تعلق کر کے ،،چرچ آف انگلینڈ،، بنا لیا، یہ چرچ آج تک قائم ہے، دنیا میں دو عالمگیر جنگیں ہوئی ہیں، یہ دونوں جنگیں عیسائیوں نے عیسائیوں کے خلاف لڑیں اور ان میں8سے 10 کروڑ لوگ مارے گئے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے نوے فیصد شہر زمین بوس ہو چکے تھے لیکن آج ایسا نہیں، آج کی صورتحال قدرے مختلف ہے، کیوں؟ یہ میں آپ کو تھوڑی دیر میں عرض کرتا ہوں، ہم پہلے سفید چمڑی اور رنگ دار چمڑی کی بات کریں گے۔
ہم اگر مذہب، روحانیت، سائنس اور آرٹ چاروں کا تنقیدی جائزہ لیں تو ہم یہ جان کر حیران رہ جائیں گے، رنگ دار جلد کے لوگ مذہب اور روحانیت کے بانی اور پیرو کار ہیں جب کہ سائنس اور آرٹ ہزاروں سال سے سفید چمڑی والوں کی میراث چلی آ رہی ہے، آپ سائنسی علوم اور آرٹ کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے، دنیا میں طب ہو، ریاضی ہو، کیمسٹری ہو، فزکس ہو، زووالوجی ہو یا پھر فلکیات ہو آپ کو تمام سائنسی علوم یونان سے لے کر پرتگال تک سفید فام لوگوں کی زمینوں سے جنم لیتے نظر آئیں گے، دنیا کی نوے فیصد ایجادات بھی ٹھنڈے علاقوں کے سفید فام لوگوں کے پروفائل میں جاتی ہیں، آرٹ میں بھی موسیقی ہو، مصوری ہو، مجسمہ سازی ہو، شاعری ہو، ڈرامہ ہو، نثر ہو یا پھر رقص ہو ان تمام کے مراکز بھی یورپی علاقے رہے ہیں، امریکا دریافت ہوا تو سائنس اور آرٹ دونوں امریکا چلے گئے۔
وہاں ان کی نشوونما میں تیزی آ گئی، تاریخ کے پچھلے دو سو سالوں میں دنیا کی نوے فیصد ایجادات کا مرکز امریکا چلا آ رہا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں مذاہب اور روحانیت کے مراکز ایسے خطے اور ایسے علاقے رہے جہاں گرمی پڑتی تھی، جہاں زندگی مشکل تھی اور جہاں کے لوگوں کی جلد سیاہ تھی، براؤن تھی یا پھر زرد تھی، دنیا میں چار بڑے دین اترے ہیں، آپ کو براعظم یورپ، براعظم امریکا اور براعظم آسٹریلیا میں ان چاروں میں سے کسی آسمانی مذہب کے آثار اور شواہد نہیں ملتے۔
یورپ نے مذہب دوسرے خطوں سے امپورٹ کیا، ہم اگر مذہب، روحانیت، آرٹ اور سائنس چاروں کو ایک قطار میں رکھیں اور پھر سفید اور رنگ دار جلد کے لوگوں کو ان کے سامنے بٹھا دیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے یورپ، امریکا اور آسٹریلیا کے لوگ آرٹ اور سائنس کے ساتھ پیدا ہوئے اور انھوں نے مذہب اور روحانیت امپورٹ کی جب کہ ہم رنگ دار جلد کے لوگ مذہب اور روحانیت لے کر پیدا ہوئے اور ہم نے آرٹ اور سائنس درآمد کی یا درآمد کر رہے ہیں چنانچہ یورپ، امریکا اور آسٹریلیا کے لوگ مذہب اور روحانیت سیکھ رہے ہیں اور ہم آرٹ اور سائنس کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہاں سے مسئلہ پیدا ہو تا ہے کیونکہ آرٹ اور سائنس ہمارے لیے اجنبی ہیں اور مذہب اور روحانیت ان لوگوں کے لیے چنانچہ ہم دونوں ایک دوسرے کو شک اور حقارت سے دیکھتے ہیں۔
ہم اب آج کی یہودیت اور عیسائیت کی طرف آتے ہیں، یہ مذاہب خوشی قسمتی سے سیکڑوں ہزاروں سال قبل رنگ دار جلد کے گرم علاقوں سے نکل کر ان علاقوں میں چلے گئے جہاں ٹھنڈ بھی تھی، لوگ بھی سفید فام تھے اور جہاں آرٹ اور سائنس کی روایات بھی موجود تھیں، یہ مذاہب وہاں پہنچے، وہاں ان کے درمیان جنگیں ہوئیں اور لوگ سیکڑوں ہزاروں سال تک عقیدے کی بنیاد پر ایک دوسرے کا گلہ کاٹتے رہے لیکن آخر میں آرٹ اور سائنس جیت گئی، یورپ میں آرٹ اور سائنس پہلے اور دوسرے نمبر پر آ گئے اور مذہب اور روحانیت نے تیسری اور چوتھی پوزیشن سنبھال لی، یہ لوگ کروڑوں لوگوں کی جان دے اور لے کر یہ بھی سمجھ گئے جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی امن بہرحال سپریم ہونا چاہیے جب کہ دوسری طرف ہم رنگ دار جلد کے لوگ مذہب اور روحانیت کی تلوار سے آرٹ اور سائنس کے ساتھ لڑتے بھی رہے اور ایک دوسرے کا گلہ بھی کاٹتے رہے، ہم آج بھی یہ کر رہے ہیں، ہم آج آرٹ سے بھی لڑ رہے ہیں۔
سائنس سے بھی، دوسرے مذاہب اور عقائد کے لوگوں سے بھی اور آخر میں اپنے مسلک اور اپنے روحانی سلسلے کو حق اور دوسرے روحانی سلسلے اور مسلک کو کافر سمجھ کر ایک دوسرے کا گلا بھی کاٹ رہے ہیں، یہودی اور عیسائی گلے کاٹ کاٹ کر سمجھ دار ہو چکے ہیں، وہ آرٹ اور سائنس کی پناہ میں چلے گئے جب کہ ہم نے آرٹ کو تسلیم کیا، سائنس کو مانا، دوسرے مذہب کو اور نہ ہی دوسرے مسلک اور روحانی سلسلوں کو چنانچہ ہم لڑتے چلے جا رہے ہیں، آپ ایک اور حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے، آپ سینٹرل ایشیا سے لے کر ترکی تک اور ایسٹرن یورپ سے لے کر عرب کے ٹھنڈے علاقوں تک کا مطالعہ کیجیے، آپ وہاں کے مسلمانوں کو پرامن بھی دیکھیں گے اور آپ کو وہاں آرٹ اور سائنس بھی پروان چڑھتی نظر آئے گی جب کہ اس کے مقابلے میں آپ کو گرم علاقوں کے رنگ دار مسلمان حالت جنگ میں نظر آئیں گے۔
آپ اب ایک اور حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے، 1990ء کی دہائی میں انٹرنیٹ عام ہوا تو دنیا سمٹ گئی، وائی فائی نے اس عمل کو تیز کر دیا، فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، سکائپ اور وٹس ایپ نے 2010ء تک دنیا کو حقیقتاً گلوبل ویلج بنا دیا، دنیا اب سات براعظموں پر پھیلی دنیا نہیں رہی، یہ اب چار انچ کا گلوبل ویلج بن چکی ہے، آپ کے ہاتھ میں موبائل فون ہے اور آپ اس فون کے ذریعے پوری دنیا کے ساتھ منسلک ہیں، 2020ء تک دنیا مزید آگے چلی جائے گی، دنیا کا کوئی شخص دوسرے شخص سے اوجھل نہیں رہے گا، آج کے اس گلوبل ویلج میں مذہب اور روحانیت کے ساتھ پیدا ہونے والے رنگ دار لوگ اور آرٹ اور سائنس کے ساتھ جنم لینے والے سفید فام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہیں اور یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ الجھ بھی رہے ہیں، کیوں؟ کیونکہ دونوں کا پس منظر اور روایات مختلف ہیں، ان دونوں کے درمیان ہزاروں سال کا فاصلہ ہے، یہ فاصلہ، یہ فرق اور یہ معاشرتی اختلاف نئے قوانین، نئے سوشل کانٹریکٹ کا متقاضی ہے۔
یہ دنیا بھر کے حکمرانوں سے تقاضا کر رہا ہے آپ اگر جارج بش اور حاجی بشیر کو ایک دوسرے کے ساتھ بٹھانا چاہتے ہیں، آپ اگر دنیا کو پرامن دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو نئے ضابطے اور نئے قوانین بنانے ہوں گے،یورپ کو سمجھنا ہو گا ہم مسلمان شراب نہیں پیتے، ہم سور نہیں کھاتے، ہمارے حلال اور آپ کے حلال میں فرق ہے، ہماری خواتین اسکارف لیتی ہیں، ہم قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، ہم نماز پڑھتے ہیں، ہم داڑھی رکھتے ہیں، آپ لوگوں نے ہماری یہ روایات تسلیم کر لیں، آپ ہماری داڑھی، ہماری نماز، ہماری تلاوت، ہمارے اسکارف اور ہمارے حلال پر اعتراض نہیں کرتے، ہم آپ کے مشکور ہیں، آپ اب مہربانی فرما کر ہماری ایک بات بھی مان لیں، ہم لوگ اپنے رسولؐ اورصحابہ اکرامؓ سے اپنی جان سے زیادہ محبت کرتے ہیں، ہم ان کی توہین برداشت نہیں کر سکتے چنانچہ آپ انبیاء کرام اور صحابہ کرامؓ کی توہین کا سلسلہ بند کر دیں، آپ قانون پاس کر دیں، یورپ اور امریکا میں کسی نبی، کسی مقدس ہستی کا کارٹون بنے گا اور نہ ہی کوئی فلم ، آپ یقین کریں دنیا پرامن ہو جائے گی۔
مسلمان آپ کے ساتھ ہنسی خوشی رہیں گے اور آپ کو اس کے نتیجے میں یونٹی مارچ کرنے پڑیں گے اور نہ ہی سیکیورٹی پر سیکڑوں ارب ڈالر خرچ ہوں گے، ہم مسلمانوں کو بھی معاملے کا فلسفیانہ تجزیہ کرنا ہو گا، ہمیں یہ جاننا ہو گا مذہب یورپ میں درآمد ہوا تھا، یورپ کے لوگوں نے مذہب کی وجہ سے سیکڑوں جنگیں بھی لڑیں اور یہ کروڑوں لاشیں بھی اٹھا چکے ہیں چنانچہ یہ لوگ مذہب کے باغی ہیں، یہ آزادی رائے کو اپنا سب سے بڑا حق بھی سمجھتے ہیں، یہ لوگ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک ایسی خوف ناک فلمیں بنا چکے ہیں جن کا ہم تصور تک نہیں کر سکتے اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا یورپی معاشرے میں توہین آمیز خاکے بنانے والے چند لوگ ہیں، باقی لوگ پرامن بھی ہیں اور یہ ہمارے مذہبی عقائد کا احترام بھی کرتے ہیں لہٰذا ہمیں چاہیے ہم حملوں کے بجائے یورپ میں توہین مذہب اور توہین رسالت کا قانون پاس کروانے کے لیے یورپی یونین اور اقوام متحدہ پر سفارتی دباؤ ڈالیں، ہم اقوام متحدہ کو مجبور کریں، ہم یورپی یونین کو بھی قائل کریں۔
یہ انبیاء کرام کی حرمت کا قانون پاس کریں، مجھے یقین ہے ہم اگر کوشش کریں تو یہ لوگ ایسا قانون پاس کر دیں گے کیونکہ یورپ نے امن کے لیے کروڑوں لوگوں کی جانیں دی ہیں، یہ لوگ ہر حال میں امن چاہتے ہیں، ہم بس مناسب راستہ اختیار کریں، یہ مسئلہ حل ہو جائے گا ورنہ دوسر ی صورت میں یہ اختلافات صلیبی جنگوں کی شکل اختیار کر لیں گے اور پوری دنیا تباہ ہو جائے گی کیونکہ دنیا کے پاس اس بار صرف نظریات نہیں ہیں ایٹم بم بھی ہیں۔

یہ لوگ ہی
جاوید چوہدری ہفتہ 10 جنوری 2015

اور ایک اور بات امریکا اور جنرل ضیاء الحق نے یہ جنگ علماء کرام، مدارس، مفتیان اور خطیبوں کے ذریعے شروع کی اور ہم اب اسے ختم بھی ان ھی لوگوں کے ذریعے کر سکیں گے۔
یہ معاشرہ 1980ء تک معتدل تھا، ملک میں ہاکی، فٹ بال، کرکٹ اور سکوائش جیسے کھیل عروج پر تھے، پاکستان کی فلم انڈسٹری دنیا کی چھ بڑی فلم انڈسٹریوں میں شمار ہوتی تھی، بھارتی موسیقار پاکستان کی دھنیں چوری کرتے تھے، گلوکار پاکستانی گلوکاروں کی نقل کرتے تھے، نغمہ نگار پاکستانی شاعروں کے مصرعے اڑاتے تھے اور کہانی کار کہانیوں کے چربے تیار کرتے تھے، صادقین اور گل جی جیسے پاکستانی مصوروں کا طوطی پوری دنیا میں بولتا تھا، پاکستان یورپ کے ہپیوں کی گزر گاہ تھا، ہپی ذاتی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور کاروانوں پر پاکستان آتے تھے اور پاکستان سے بھارت اور آخر میں نیپال چلے جاتے تھے، 1980ء کی دہائی تک ملک میں ہزاروں چھوٹی بڑی لائبریریاں تھیں، پرائیویٹ لائبریری اس دور میں پاکستان میں بڑا اور کامیاب بزنس تھا، لوگ دکان میں چار پانچ سو کتابیں رکھ کر اپنا روزگار چلا لیتے تھے، شہروں میں پارک تھے۔
میدان تھے، چائے خانے تھے، لوگ 1980ء کی دہائی تک مولویوں کو پسند نہیں کرتے تھے، جماعت اسلامی اس دور کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت تھی لیکن یہ 39 برس کی سیاسی جدوجہد کے باوجود پارلیمنٹ میں جگہ نہیں بنا سکی تھی، یہ اقتدار کے ایوانوں سے کوسوں دور تھی، فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی جیسے ترقی پسند دانشور ملک میں عزت بھی پا رہے تھے اور مقام بھی۔ اس دور میں بزنس مین صرف بزنس مین ہوتا تھا، وہ مذہبی بزنس مین نہیں تھا، استاد صرف استاد تھا وہ سنی، وہابی یا شیعہ استاد نہیں تھا، طالب علم صرف طالب علم تھے وہ سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچی اور سرائیکی طالب علم نہیں تھے اور اس زمانے میں قرآن مجید صرف قرآن مجید اور مسجد صرف مسجد ہوتی تھی وہ سنیوں، وہابیوں، اہلحدیث، دیوبندیوں اور شیعوں کی مسجد یا بریلویوں اور دیوبندیوں کا قرآن مجید (شرح، تشریح) نہیں ہوتا تھا لیکن پھر جنرل ضیاء الحق اور امریکا دونوں کو افغانستان میں لاشوں کی ضرورت پڑ گئی، دونوں نے ریسرچ کی تو پتہ چلا یہ جنگ مولوی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہو گی چنانچہ دونوں نے علماء کرام کی مدد لینے کا فیصلہ کیا، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے مولوی کی مدد کیوں لی گئی؟
اس کی دو بڑی وجوہات ہیں، پہلی وجہ برصغیر پاک و ہند کی مذہبی روایات ہیں، اسلام اس وقت دنیا کے 245 ممالک میں ہے لیکن اسلام کے معاملے میں جتنے کنفیوژ برصغیر کے مسلمان ہیں اتنے دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ہیں، آپ سعودی عرب سے لے کر ایران تک پوری اسلامی دنیا کا مطالعہ کر لیں، آپ کو کسی جگہ کنفیوژن نہیں ملے گی لیکن آپ اسلام کی جو تصویر برصغیر میں دیکھیں گے وہ آپ کو دنیا کے کسی دوسرے اسلامی ملک میں نظر نہیں آئے گی، سعودی عرب میں 15 فیصد شیعہ آباد ہیں، وہاں کوئی مسئلہ نہیں اور ایران میں 9 فیصد سنی ہیں، وہاں بھی کوئی لڑائی نہیں، شام، اردن، ترکی، تیونس اور الجزائز میں عیسائی اور یہودی دونوں آباد ہیں۔
وہاں کوئی کسی عیسائی کو بھٹے میں ڈال کر نہیں جلا رہا، اسرائیل کے اندر مسجدیں بن رہی ہیں، یہودی اب آہستہ آہستہ مسلمانوں کو اسرائیل میں آباد ہونے کا موقع دے رہے ہیں، وہاں فلسطینی یہودی ایشو حل کی طرف بڑھ رہا ہے، مصر کے مسلمان بے لچک نظریات رکھتے ہیں، یہ القاعدہ کے ابتدائی سپورٹر بھی تھے لیکن وہاں سیاحت بھی چل رہی ہے، دریائے نیل کی بحری سیاحت دنیا کے دس بڑے کروز میں شمار ہوتی ہے اور بحری جہازوں کا ماحول مکمل مغربی ہوتا ہے، میں خود یہ کروز لے چکا ہوں، گورے اور گوریاں جہاز کی چھت پر سوئمنگ پول میں نیم برہنہ حالت میں لیٹے رہتے ہیں اور مصری عوام کو ان پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن برصغیر کا مسلمان اس معاملے میں متشدد واقع ہوا ہے، یہ مذہب میں بے لچک رویئے کا حامل ہے، یہ ایمان، تقویٰ اور برائی کی نہ صرف اپنی تعریف وضع کرتا ہے بلکہ یہ اپنی مرضی کا ایمان اور تقویٰ بزور بازو نافذ کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے، یہ برائی کو بھی بازو اور زبان سے روکنا عین جہاد سمجھتا ہے، دوسری وجہ برصغیر کے لوگ ہزاروں سال سے مرنے کو جینے پر فوقیت دیتے آ رہے ہیں۔
یہ ہزاروں سال سے موت کو عبادت سمجھتے آ رہے ہیں، ہندوستان کی عورتیں خاوند کی موت پرستی ہو جاتی تھیں اور ہندوستان میں ایک ایسا وقت بھی تھا جب خودکشی کو عظیم ترین عبادت سمجھا جاتا تھا، آج بھی برصغیر میں ایسے قبائل، گروپ اور نسلیں موجود ہیں جو طبعی کے بجائے خودکشی کی موت کو اہمیت دیتی ہیں، آپ آج پاکستان کا کوئی ایک اخبار منتخب کریں اور اس کی سال بھر کی فائلیں سامنے رکھ کر پڑھنا شروع کر دیں، آپ کو 365 دنوں میں سے کوئی ایک ایسا دن نہیں ملے گا جس میں اخبار میں دس پندرہ بیس لوگوں کے مرنے کی خبریں نہ ہوں، ہمارے ملک میں بارش ہو جائے تو خبر آتی ہے لاہور میں بارش سے چھ لوگ مارے گئے، سردی آ جائے تو خبر آتی ہے درجہ حرارت نقطہ انجماد سے ایک درجے نیچے،24 لوگ ہلاک، گرمی کا موسم ہو تو بلوچستان میں گرمی کی لہر، 14 لوگ ہلاک، بارش نہ ہو ،،خشک سالی، 41 لوگ ہلاک،، محرم کا مہینہ آ جائے تو بھی مرنے کی خبریں آ جاتی ہیں۔
میلاد النبیؐ ہو تو بھی لوگ مارے جاتے ہیں، کسی بزرگ کا عرس ہو تو بھی لوگ مر جاتے ہیں، میلے ہوں تو لوگ مارے جاتے ہیں، میچ ہو رہا ہو تو بھی ایک آدھ لاش گر جاتی ہے اور اگر سیاسی جلسہ ہو، جلوس نکلے یا دھرنا ہو جائے تو بھی دس پندرہ بیس لوگوں کے مرنے کی اطلاع آ جاتی ہے، ہم لوگ شادیوں، بسنت اور سالگروں تک میں مر جاتے ہیں جب کہ آپ کو اس کے مقابلے میں یورپ کے اخبارات میں چھ چھ مہینے کسی کے مرنے کی خبر نہیں ملتی،یہ ثابت کرتا ہے ہم لوگوں کو واقعی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جب کسی خطے میں موت اس قدر ارزاں اور عوام کے ذہن، فہم اور روح کا حصہ ہو جائے تو وہاں کے لوگوں کو مرنے اور مارنے کے لیے تیار کرنے میں وقت نہیں لگتا چنانچہ امریکا نے ہماری مذہبی کنفیوژن اور ہماری موت سے دلچسپی کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور یہ نسخہ کارآمد ثابت ہوا۔
جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقاء نے ملک کو امریکی جہاد کی فیکٹری بنا دیا، علماء کرم کی مدد لی، یہ لوگ اجتماعات میں جہاد اور شہادت کی تلقین کرنے لگے، مدارس بنائے گئے اور ان مدارس کو عرب ممالک مالی مدد دینے لگے، پاکستان نائین الیون تک عربوں کے صدقات، خیرات اور زکوٰۃ کا سب سے بڑا کنزیومر تھا، حج کے دوران سعودی عرب سے بیسیوں جہاز گوشت لے کر پاکستان آتے تھے اور یہ گوشت افغان مہاجرین اور مدارس کے بچوں میں تقسیم کیا جاتا تھا، جنرل صاحب نے پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان، فلم انڈسٹری، میڈیا، ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو بھی اس کام پر لگا دیا، ملک میں جہادی ادب اور جہادی صحافت شروع ہوئی، پی ٹی وی نے نسیم حجازی کے ناولوں پر ڈرامے بنانے شروع کیے۔
یہ ڈرامے مقبول ہوئے، حکومت نے افغانستان سے آنے والی لاشوں کے جنازے بھی پڑھنا شروع کر دیے، وزراء کو ہدایت تھی وہ مجاہدین کے جنازوں میں شریک ہوں گے، قبروں سے خوشبو آنے کی خبریں بھی شائع ہونے لگیں، مجاہدین کے لواحقین کو سرکاری امداد بھی ملنے لگی، جنرل ضیاء الحق کے دور میں مساجد کو سیاسی اہمیت حاصل ہوئی، امام صاحب منبر رسول پر بیٹھ کر روس کے خلاف اور امریکا کی حمایت میں تقریریں کرنے لگے، مدارس کی انتظامیہ تھانوں، کچہریوں اور جیلوں سے اپنے لوگوں کو بھی چھڑانے لگی اور یوں معاشرے کا اعتدال ختم ہوتا چلا گیا، آپ یہ ذہن میں رکھیں دنیا میں ہر عمل کا ردعمل ضرور ہوتا ہے، ہمارے ملک میں جب اسلام کے نام پر رائفل اٹھائی گئی تو اس کے رد عمل میں معتدل لوگوں نے بھی بندوق سیدھی کر لی، ملک میں مافیاز بنے، یہ مافیاز پہلے سیاستدانوں کے پیچھے چھپے اور یہ بعد ازاں فرقوں کے پیچھے پناہ گزین ہو گئے۔
ان لوگوں نے نسل اور زبان کو بھی میدان جنگ بنا دیا اور یہ اب ملک میں طبقاتی جنگ کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے رائفل اور گولی کا کوئی مذہب، کوئی فرقہ، کوئی جماعت اور کوئی طبقہ نہیں ہوتا، یہ صرف رائفل اور صرف گولی ہوتی ہے، معاشرے میں جب ایک بار بندوق اور گولی آ جائے تو پھر یہ اپنے مالکان بدلتی رہتی ہے، ہم نے رائفل اور گولی کو افغان جہاد کے لیے ملک میں آنے کی اجازت دی لیکن آج یہ ملک کے ہر طبقے کے ہاتھ میں ہے، کیوں؟ کیونکہ یہ مالک بدل رہی ہے اور یہ اس وقت تک اپنے مالک بدلتی رہے گی جب تک یہ ملک میں رہے گی۔ہم اب صورت حال کو بدلنا چاہتے ہیں، ہمیں بدلنا چاہیے بھی لیکن یہ ذہن میں رکھئے ہمیں صورت حال کو گراؤنڈ زیرو پر واپس لانے کے لیے ایک بار پھر ان علماء کرام، مدارس اور مفتیان کی مدد لینا پڑے گی۔
آپ کو یاد ہو گا امریکا نے جب 2001ء میں افغانستان اور 2009ء میں وزیرستان میں کارروائی کا فیصلہ کیا تو امریکا کے پالیسی ساز برطانیہ گئے اور ان ریٹائر فوجیوں اور منصوبہ سازوں سے ملے جو پاکستان بننے سے قبل ہمارے قبائلی علاقوں میں کام کرتے رہے تھے اور جنھوں نے مختلف ادوار میں افغانستان میں خدمات سرانجام دی تھیں، ان سب نے ان سے کہا ،،آپ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوج نہ اتارنا آپ ہار جاؤ گے، آپ انھیں فضا سے مارو،، یہ وہ نسخہ تھا جس پر عمل کر کے امریکا نے 2002ء میں افغانستان پر قبضہ کیا اور یہ آج 2015ء تک ہمارے قبائلی علاقوں پر ڈرون بھیج رہا ہے، آپ بھی امریکا کی تکینک استعمال کریں، ملک کے علماء کرام کو جمع کریں، ان سے مشورہ کریں ،،ہم ملک کو دہشت گردی سے کیسے نکال سکتے ہیں؟،، آپ ان سے مدد بھی لیں، یہ آپ کو طریقہ بھی بتائیں گے اور آپ کی مدد بھی کریں گے، آپ نے اگر ان کو سائیڈ پر رکھ کر حل نکالنے کی کوشش کی تو آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے، کیوں؟ کیونکہ دنیا میں وہی لوگ مسئلے کو حل کر سکتے ہیں جنھوں نے یہ پیدا کیا یا جن کی مدد سے وہ مسئلہ پیدا کیا گیا اور علماء آپ کو بہتر حل بتا سکتے ہیں۔

تاریخ کی غلطیاں نہ دہرائیں
جاوید چوہدری جمعرات 8 جنوری 2015

اور ایک اور بات ہمارے حکمران اور ہمارے سیاستدان بھی مدارس اور مذہبی رہنماؤں کے معاملے میں کنفیوژ ہیں، کیا یہ حقیقت نہیں اسامہ بن لادن اور ان کے وہ ساتھی جو بعد ازاں موسٹ وانٹیڈ لسٹ میں شامل ہوئے وہ افغان جنگ کے دوران جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے رابطے میں تھے، میاں نواز شریف اور اسامہ بن لادن کی ملاقات کا ذکر بھی اکثر اوقات کیا جاتا ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک بار الزام لگا دیا تھا اسامہ بن لادن نے میری حکومت گرانے کے لیے میاں نواز شریف کو لاکھوں ڈالر دیے تھے۔
کیا یہ حقیقت نہیں تحریک طالبان افغانستان کے ہمارے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے ساتھ رابطے تھے اور ہماری وزارت داخلہ ملا عمر اور ان کے ساتھیوں کو سپورٹ کرتی تھی، کیا ہم نے افغانستان کی طالبان حکومت کو ٹیلی فون لائنیں نہیں دی تھیں،کیا ہم لاہور کا نمبر ملاتے تھے اور ہماری گفتگو قندہار میں نہیں ہوتی تھی اور ہم اسلام آباد کے لوکل نمبر سے کابل میں بات نہیں کرتے تھے اور کیا ہم نے ماضی میں گڈ طالبان، گڈ قبائلی اور گڈ مجاہدین کے بڑے بڑے لشکر تیار نہیں کیے تھے، یہ ماضی کی حقیقتیں ہیں، ہم ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے اور کیا گارنٹی ہے کل ریاست جماعت الدعوۃ اور جامعہ نعیمیہ کے بارے میں بھی یہ رویہ اختیار نہیں کرے گی جو آج اس نے طالبان کے لیے وضع کیا، حافظ سعید ایک طویل عرصے سے مجاہد پاکستان ہیں۔
ملک کے تمام ریاستی ادارے اور عوام ان کی خدمات کو سراہتے ہیں، یہ بھی ہر مشکل وقت میں ملک کو خون بھی دیتے ہیں اور جان بھی۔ میاں نواز شریف فیملی دو نسلوں سے جامعہ نعیمیہ لاہور سے وابستہ ہے، میاں صاحب ہر سال جامعہ کی تقریب میں بھی شرکت کرتے ہیں، مفتی سرفراز احمد نعیمی میاں شریف کے خاندان کا حصہ تھے، آج بھی مفتی صاحب کے صاحبزادے راغب حسین نعیمی شریف خاندان کا فرد ہیں، آج کے دن تک مدرسہ نعیمیہ اور جماعت الدعوۃ دونوں بے داغ ہیں اور ملک کے زیادہ تر طبقے ان کا احترام کرتے ہیں لیکن کل کلاں اگر خدانخواستہ کسی دہشت گرد کا تعلق مدرسہ نعیمیہ سے نکل آتا ہے یا کوئی ایسا دہشت گرد مل جاتا ہے جو ماضی میں جماعت الدعوۃ کے ساتھ کام کرتا تھا تو ریاست کی جماعت الدعوۃ اور مدرسہ نعیمیہ کے بارے میں کیا رائے ہو گی؟ اگرریاست ان دونوں اداروں کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو کیا اس شریف فیملی پر انگلی نہیں اٹھے گی اور کیا وہ تمام لوگ مشکوک نہیں ہو جائیں گے جو جماعت الدعوۃ کے ویلفیئر کے پراجیکٹس میں جسمانی، مالی اور اخلاقی مدد کر رہے ہیں۔
جنھوں نے پیاسوں کے لیے کنوئیں کھودے، زلزلہ زدگان کو ملبے سے نکالا اور جنھوں نے سیلاب میں پھنسے لوگوں کی جان بچائی، میں اس سلسلے میں مولانا عبدالعزیز کی مثال بھی دوں گا،وہ 1998ء سے لال مسجد اسلام آباد سے منسلک ہیں، ہمارے بے شمار وزراء، سیکریٹری، بزنس مین اور دانشور ان کے پیچھے نماز پڑھتے رہے، جنرل پرویز مشرف اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں جب بھی علماء کرام کو رہنمائی کے لیے بلاتے تھے تو انھیں بھی دعوت دی جاتی تھی، حکومت نے مولانا کو خود ای سیون میں جامعہ فریدیہ قائم کرنے کی اجازت دی مگر یہ مولانا 2007ء میں ملک دشمن ڈکلیئر کر دیے گئے، لال مسجد آپریشن ہوا، مولانا کے بھائی عبدالرشید غازی آپریشن میں جان سے گئے۔
وہ گرفتار ہو گئے، یہ اپریل 2009ء تک جیل میں رہے، 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی، رحمن ملک وزیر داخلہ بن گئے، حکومت نے لال مسجد اور مولانا عبدالعزیز کا معاملہ سیٹل کرنے کا فیصلہ کیا، مولانا جیل سے فارغ ہو ئے تو انھیں سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند کر دیا گیا، رحمن ملک نے بعد ازاں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض سے مولانا عبدالعزیز کی مدد کی درخواست کی، ملک ریاض انھیں بحریہ ٹاؤن لے گئے، رحمن ملک کی درخواست پر وہاں انھیں گھر بھی دیا گیا، پلاٹ بھی الاٹ ہوا اور رحمن ملک ہی کی درخواست پر ملک ریاض نے لال مسجد کی دوبارہ تزئین و آرائش بھی کی، رحمن ملک نے بعد ازاں مولانا عبدالعزیز کے ساتھ مل کر ای سیون کے مدرسہ کے لیے ایک فارمولہ بھی طے کیا، حکومت کی مرضی سے مولانا دوبارہ لال مسجد آئے اور نماز اور خطبہ دینے لگے۔
آپ کو بہرحال ماننا ہو گا ہماری ریاست، ہمارے سیاستدان اور ہمارے حکمران اس معاملے میں کنفیوژ ہیں، یہ ایک وقت میں مدارس، مساجد اور علماء کرام کی دل و جان سے مدد کرتے ہیں اور یہ دوسرے وقت میں ان کے مخالف ہوتے ہیں، آپ کو اس معاملے میں بھی پالیسی بنانی ہو گی۔
ہم سب مسلمان ہیں، ہم ایک اللہ اور نبی اکرمؐ کو آخری نبی مانتے ہیں، ہم یوم آخرت اور فرشتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں، ہم عشق رسولؐ کو بھی اپنی کل میراث سمجھتے ہیں، ہم نماز اور روزے کے بھی پابند ہیں ، ہم حج کو بھی اسلام کا رکن مانتے ہیں، ہم اللہ کی آخری کتاب کو ہدایت کا سب سے بڑا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں اور ہم نبی اکرمؐ کے اصحابؓ کی بھی تکریم کرتے ہیں،آپ بتائیے ایمان کے ان تمام ارکان، ان تمام ضابطوں کے بعد کیا بچتا ہے؟ ہمیں اپنی مسلمانی ثابت کرنے کے لیے مزید کس چیز کی ضرورت ہے؟ ہم مزید کیا تلاش کر رہے ہیں؟ ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی، مذہب انسانوں کے ہوتے ہیں، یہ ملکوں کے نہیں ہوتے، کلمہ ہو، نماز ہو، روزہ ہو، زکوٰۃ ہو یا حج ہو یہ فریضے لوگ ادا کرتے ہیں۔
ملک یا ریاستیں نہیں، دنیا میں اس وقت 245 ملک ہیں، ان تمام ملکوں میں صرف ایک فیصد ریاستیں مذہبی ہیں، باقی تمام ریاستیں صرف ریاستیں اور صرف ملک ہیں اور جو ملک، جو ریاست محض ریاست اور محض ملک ہے وہاں امن بھی ہے، انصاف بھی، سکون بھی اور خوشحالی بھی اور ترقی بھی اور دنیا میں جب بھی کسی ریاست کو مذہبی ڈکلیئر کرنے کی کوشش ہوئی وہاں فسادات ہوئے، وہاں لوگوں نے لوگوں کے گلے کاٹے، آپ آج اسرائیل سے لے کر پاکستان تک دنیا کی تمام مذہبی ریاستوں کا ڈیٹا نکال لیجیے، آپ کو وہاں انسانیت پریشان، خوفزدہ اور زخمی نظر آئے گی، کیا اسرائیل میں امن ہے؟ نہیں ہے ،کیوں نہیں ہے؟ کیونکہ اسرائیل کو بنانے والوں نے اسے یہودی اسٹیٹ بنا دیا تھا، کیا عراق میں امن ہے؟ کیا لیبیا میں امن ہے؟ کیا شام میں امن ہے؟ اور کیا پاکستان میں امن ہے؟ اور کیا سعودی عرب میں انسانی حقوق ہیں؟ کیا وہاں کے لوگ دوسرے ملکوں میں امیگریشن نہیں لے رہے؟
آپ اسلامی ریاستوں کو چھوڑ دیجیے، آپ عیسائی تاریخ کا مطالعہ کیجیے، تاریخ میں جب بھی کسی ملک کو عیسائی بنانے کی کوشش ہوئی، سوال پیدا ہوا! کون سی عیسائیت؟ کیتھولک یا پروٹیسٹنٹ، اگر کیتھولک تو کتنا کیتھولک اور اگر پروٹیسٹنٹ تو کتنا پروٹیسٹنٹ اور پھر فسادات شروع ہو گئے، اسلامی ریاست کا بھی یہی ایشو تھا، تاریخ میں جب بھی اسلامی ریاست تشکیل دینے کی کوشش کی گئی اس کا اختتام لاشوں پر ہوا، اسلام کے دونوں بڑے فرقوں نے خلافت کے اختلاف سے جنم لیا تھا اور ہم آج ساڑھے تیرہ سو سال بعد بھی ان اختلافات کو نہیں مٹا پا رہے، ہم آج بھی شناختی کارڈ چیک کر کے لوگوں کو گولی مار رہے ہیں، ہماری 14 سو سال کی اسلامی تاریخ میں ترقی، خوشحالی اور امن کے صرف چند جزیرے ہیں اور یہ جزیرے بھی مسلمان بادشاہوں نے قائم کیے تھے اور ان بادشاہوں نے خلافت کے اسلامی معیارات کے بجائے سلطان ابن سلطان اور ابن سلطان یا شمشیر ابن شمشیر اور ابن شمشیر سے جنم لیا تھا، ہماری اسلامی ریاست چار خلفاء راشدین کے بعد ختم ہو گئی تھی، آپ اس میں زیادہ سے زیادہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو شامل کر سکتے ہیں لیکن وہ بھی بادشاہ کی وصیت سے خلیفہ بنے تھے۔
ایسا کیوں ہوتا رہا؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم نے جب بھی اسلامی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا تو عیسائی ریاست کی طرح اگلا سوال پیدا ہوا، کون سا اسلام؟ اور یوں اختلافات شروع ہو گئے اور ان اختلافات کے آخر میں فسادات ہوئے، آپ تازہ ترین مثال لیجیے، داعش کیا کر رہی ہے؟ یہ بھی اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کوشش میں کیا ہو رہا ہے؟ مخالف فرقوں کے لوگوں کے سرے عام سر اتارے جا رہے ہیں، مساجد کو توپ کے گولوں سے اڑایا جا رہا ہے اور مقدس ہستیوں کی قبریں ہتھوڑوں سے توڑی جا رہی ہیں، آپ دیکھ لیجیے گا اس ظلم کے خلاف بہت جلد دوسرے فرقے کے لوگ بھی لشکر بنائیں گے اور یوں مسلمانوں کے درمیان ایک خوفناک جنگ ہو گی جس میں اتنے مسلمان شہید ہو جائیں گے جتنے روس اور امریکا نے چالیس سال میں مجموعی طور پر شہید نہیں کیے۔
آپ ایک اور حقیقت بھی دیکھئے، بیسوی صدی میں اسلامی دنیا کے صرف تین ملکوں نے ترقی کی، ان ملکوں میں انصاف اور امن بھی موجود ہے، یہ ملک ملائشیا، ترکی اور یو اے ای ہیں، یہ تینوں ملک اسلامی جمہوریہ نہیں ہیں، ان تینوں نے ریاست کو مذہبی بنانے کی کوشش نہیں کی لہٰذا یہ تینوں ملک آج امن اور خوشحالی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
آپ مہربانی کر کے تاریخ کی وہ غلطیاں نہ دہرائیں جن کے نتیجے میں آج تک کھوپڑیوں کے مینار بنتے رہے، چرچز کو آگ لگتی رہی اور مساجد میں گھوڑے باندھے جاتے رہے، ہم نے اگر تاریخ سے سیکھ لیاتو ہم بچ جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں مسلمان، مسلمانوں کے ہاتھوں سے قتل ہو جائیں گے اور اسلام کے نام پر بننے والا ملک اسلام کے نام پر ٹوٹ جائے گا۔
ملٹری کورٹس
جاوید چوہدری جمعرات 8 جنوری 2015

ایک اور بات ہم اگر یہ سمجھتے ہیں یہ مسئلہ ملٹری کورٹس سے حل ہو جائے گا تو یہ ہماری غلط فہمی ہے‘ ہم ملک میں کتنی ملٹری کورٹس بنا لیں گے؟ یہ ملٹری کورٹس کتنے مقدمے سن لیں گی اور یہ ملٹری کورٹس کتنے لوگوں کو پھانسی دے لیں گی؟ دنیا میں جب تک خرابی اور بیماری کی سپلائی بند نہیں ہوتی مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوا کرتے‘ دہشت گرد‘ دہشت گردی اور قتل اس بیماری کی صرف علامتیں ہیں جو ہماری رگوں‘ ہمارے جسم کے خلیوں کے اندر موجود ہے۔
ہم جب تک اپنے خلیوں کا علاج نہیں کریں گے‘ ہم جب تک بیماری کو جڑوں سے نہیں نکالیں گے یہ علامتیں بھی اس وقت تک قائم رہیں گی اور قوم بھی اس وقت تک ملٹری کورٹس کے سامنے بیٹھی رہے گی‘ اب سوال یہ ہے ہماری بیماری ہے کیا؟ ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ ہمارا مسئلہ ہماری شدت پسندی ہے‘ ہم لوگ اپنے رویوں میں سخت اور متشدد ہیں‘ ہم میں یہ سختی اور یہ شدت ایک طویل معاشرتی عمل کے ذریعے آئی‘ ہم جب تک اس عمل کو نہیں سمجھیں گے‘ ہم اس وقت تک شدت پسندی پر قابو نہیں پا سکیں گے اور ہم میں جب تک شدت پسندی کے یہ جینز زندہ رہیں گے ہمارا مسئلہ بھی اس وقت تک جوں کا توں رہے گا۔
آئیے ہم اب اس شدت پسندی کی وجوہات تلاش کرتے ہیں‘ ہماری شدت پسندی کی پانچ بڑی وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ مذہب ہے‘ اسلام دنیا کا جدید ترین اور موسٹ ماڈرن مذہب تھا (یہ آج بھی ہے) لیکن ہم نے اسے قدیم ترین مذاہب کے برابر لا کھڑا کیا‘ کیسے؟ آپ وجہ ملاحظہ کیجیے‘ ہمارے مذہب میں سو شاندار ترین روایات ہیں‘ ان سو روایات میں سے ایک روایت ظلم کے خلاف جہاد ہے‘ دنیا کا کوئی مذہب لڑنے کا حکم نہیں دیتا‘ یہ صرف اسلام کا اعزاز تھا کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ظلم کے خلاف اٹھنے‘ لڑنے‘ مرنے اور مارنے کا حکم دیتا ہے لیکن یہ حکم باقی ننانوے روایات کے ساتھ منسلک تھا‘ ہم جب تک باقی ننانوے روایات (احکامات) کو نہیں مانتے‘ ہم جب تک ان پر عمل نہیں کرتے ہم پر اس وقت تک یہ حکم لاگو نہیں ہوتا لیکن 1980ء میں بدقسمتی سے امریکا کو افغانستان میں ہماری ضرورت پڑ گئی‘ اس نے اس وقت ایک امریکی اسلام وضع کیا‘ ہمارے حکمرانوں کو ترغیب دی اور ہم نے ملک میں امریکی اسلام نافذ کر دیا۔
یہ اسلام صرف ایک حکم پر مبنی تھا اور وہ ’’حکم‘‘ تھا سوویت یونین کے خلاف لڑنا‘ مارنا اور مرنا عین فرض ہے‘ ہم نے اس دور میں اسلام کی ننانوے شاندار ترین روایات کو اس سے الگ کیا اور اس ’’حکم‘‘ کو پورا مذہب بنا دیا اور آپ جب بھی چار پہیوں کی گاڑی کو ایک پہیے پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں ‘ اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آگے چل کر ہمارے ملک میں نکلا‘ آپ آج ملک میں نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کی تقریروں اور تحریروں کا مطالعہ کریں آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ اسلامی سزاؤں کو شریعت سمجھتے ہیں‘ یہ قاتلوں کی گردنیں اتارنے‘ چوروں کے ہاتھ کاٹنے اور زنا کاروں کو سنگسار کرنے کو پورا مذہب سمجھتے ہیں‘ آپ ان سے پوچھیں کیا اسلام صرف یہ ہے؟ سزائیں کسی بھی مذہب‘ کسی بھی معاشرے کا صرف ایک جزو ہوتی ہیں۔
یہ کبھی کُل نہیں ہوتی لیکن ہم نے سزاؤں کو کُل مذہب بنا دیا ہے اور یہ اس امریکی اسلام کا نتیجہ ہے جسے ہمارے حکمرانوں نے ذاتی مفاد کے لیے ملک میں نافذ کیا‘ ہم جب تک اسلام کی باقی ننانوے روایات واپس نہیں لائیں گے‘ ہم جب تک قوم کو یہ نہیں بتائیں گے گاڑی ایک پہیے پر نہیں چل سکتی ہمارے اندر اس وقت تک شدت پسندی کے جینز موجود رہیں گے‘ نبی اکرمؐ کی عمر مبارک 63 سال تھی‘ تبلیغ کا عرصہ 23 برس تھا‘ آپؐ نے 23 اور 40 برسوں میں صرف چند مرتبہ حدود جاری کیں جب کہ اسوہ حسنہ 63 سال پر مبنی تھا‘ آپؐ کی جہادی زندگی کا نوے فیصد حصہ دفاع پر مبنی تھا‘ دس فیصد حصے میں حملہ آوروں کا پیچھا اور وعدہ خلافوں سے نبٹنا شامل تھا لیکن ہم نے اسوہ حسنہ کو فراموش کر دیا اور تلوار اٹھا لی‘ ہم جب تک اس ننانوے فیصد اسلام کو معاشرے میں زندہ نہیں کریں گے ہم اس وقت تک شدت پسندی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
ہماری شدت پسندی کی دوسری وجہ فرقہ واریت ہے‘ ہم فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور ہر فرقہ خود کو مسلمان اور دوسرے کو کافر سمجھتا ہے‘ یہ فرقے صرف فرقے نہیں ہیں‘ یہ انڈسٹری ہیں اور یہ انڈسٹری ہمارے دشمنوں‘ ہماری صفوں میں چھپے مفاد پرستوں اور چند نا سمجھ مذہبی اسکالروں نے پیدا کی‘ یہ فرقے صرف فرقوں تک محدود رہتے تو بھی اتنے خوفناک ثابت نہ ہوتے لیکن ہر فرقے نے اپنی اپنی تقریبات‘ جلوس اور مظاہرے بھی شروع کر دیے ہیں اور ان تقریبات کو بدقسمتی سے احکامات الٰہی سے زیادہ سماجی سپورٹ مل گئی ‘ ہم جب تک فرقہ واریت کو ختم نہیں کریں گے‘ ہمارے اندر اس وقت تک شدت پسندی کے جینز موجود رہیں گے۔
ریاست کو سب سے پہلے فرقہ واریت پر مبنی تقریبات کو محدود کرنا ہوگا‘ مذہبی جلوسوں اور اجتماعات کو محدود کرنا ہو گا اور اس کے بعد فرقے کی عوامی شناخت ختم کرنا ہو گی‘ ہم صرف مسلمان ہیں‘ ہم میں سے جوشخص اپنی شناخت شیعہ مسلمان‘ وہابی مسلمان‘ اہلحدیث مسلمان اور بریلوی مسلمان کی حیثیت سے کروائے اس کے لیے کڑی سزا ہونی چاہیے ‘ ہم جب تک یہ فیصلہ نہیں کریں گے ہم اس وقت تک بحران سے باہر نہیں نکل سکیں گے‘ ہماری شدت پسندی کی تیسری وجہ سیاسی جماعتیں ہیں‘ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے ملٹری ونگز قائم کر رکھے ہیں‘ یہ ونگز مافیا کی طرح کام کرتے ہیں‘ یہ اغواء بھی کرتے ہیں‘ تاوان بھی وصول کرتے ہیں‘ قتل بھی کرتے ہیں اور قبضے بھی کرتے ہیں‘ یہ لوگ اس کام کے لیے نسل کو بھی استعمال کرتے ہیں‘ زبان کو بھی‘ صوبے کو بھی اور ثقافت کو بھی‘ یہ مافیاز پاکستان کو پاکستان اور پاکستانیوں کو پاکستانی نہیں بننے دے رہے۔
آپ کو یہ خرابی ماننا بھی ہو گی اور اس کا تدارک بھی کرنا ہو گا‘ حقیقت تو یہ ہے قوم کے موجودہ اتحاد کے دوران بھی یہ مسائل موجود تھے‘ ایم کیو ایم اکیسویں ترمیم کو صرف مذہبی جماعتوں اور مدارس تک محدود رکھنا چاہتی تھی جب کہ مولانا فضل الرحمن سیاسی جماعتوں کے ملٹری ونگز کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتے تھے چنانچہ فوجی قیادت کی موجودگی میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تاہم ریاست نے آخر میں ایم کیو ایم کا مطالبہ مان لیا اور یوں مولانا فضل الرحمن باہر ہو گئے اور یہ 21 ویں ترمیم کا پہلا سیاسی سمجھوتہ تھا‘ آپ خود فیصلہ کیجیے ملک میں جب فرقے کی بنیاد پر قتل کرنے والے لوگوں کے مقدمے ملٹری کورٹس میں چلیں گے جب کہ کسی سیاسی جماعت کا ملٹری ونگ اگر سو لوگ بھی ماردے۔
ریاست اس کا مقدمہ عام عدالتوں میں لے کر جائے گی تو کیا ہم ملک میں امن قائم کر سکیں گے‘ دہشت گرد کو صرف دہشتگرد ہونا چاہیے تھا‘ یہ مذہبی دہشت گرد اور سیاسی دہشت گرد میں تقسیم نہیں ہونا چاہیے تھا مگر حکومت نے اسے تقسیم کر دیا‘ ہم اب دو لوگوں کے قاتل کو سزائے موت دے دیں گے لیکن اڑھائی اڑھائی سو لوگوں کے ٹارگٹ کلرز جیلوں میں فائیو اسٹار سہولتیں انجوائے کریں گے‘ کیا ہمیں یہ منافقت ایک نئے بحران کی طرف نہیں لے جائے گی؟ کیا ہم اس صورتحال میں شدت پسندی کے جینز کو مار سکیں گے‘ ہماری شدت پسندی کی چوتھی وجہ بے روزگاری اور تربیت کی کمی ہے‘ دنیا میں تعلیم صرف تعلیم نہیں ہوتی یہ تعلیم و تربیت ہوتی ہے جب کہ ہم صرف تعلیم کو فوکس کرکے بیٹھے ہیں۔
ہم نے تربیت کے عنصر کو وجود سے باہر نکال دیا‘ ہمارا تعلیمی نظام بھی اکتسابی زیادہ ہے اور عملی کم‘ ہم ہر سال لاکھوں بے ہنر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پیدا کر دیتے ہیں‘ آپ انسانوں کا تھوڑا سا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ جانتے دیر نہیں لگے گی بے تربیت‘ بے ہنر تعلیم یافتہ شخص معاشرے کے لیے موت ثابت ہوتا ہے‘ ہماری ریاست جب تک تعلیم و تربیت کو تربیت و تعلیم نہیں بناتی اور یہ جب تک تعلیم کو ہنر اور ہنر کو روزگار کے ساتھ نتھی نہیں کرتی‘ ہمارا مسئلہ اس وقت تک قائم رہے گا‘ آپ تربیت کا باقاعدہ سلیبس تیار کریں اور اسکولوں کے پہلے تین سال تربیتی رکھیں‘ تعلیم چوتھے سال سے شروع ہونی چاہیے اور یونیورسٹیوں کو دس سال تک صرف پریکٹیکل علوم کے لیے وقف کر دینا چاہیے۔
یونیورسٹیوں سے صرف اعلیٰ ہنر مند باہر نکل سکیں اور یہ ہنر مند بھی برسر روزگار ہوں اور ہماری شدت کی پانچویں وجہ تفریح کی کمی ہے‘ ہمارے ملک میں اسپورٹس‘ لائبریریاں‘ فلم‘ میوزک اور چائے خانے ختم ہو چکے ہیں‘ یہ پانچ چیزیں جہاں بھی ختم ہوتی ہیں وہاں جنگیں شروع ہو جاتی ہیں یا پھر جہاں جنگیں شروع ہوتی ہیں وہاں سے یہ پانچوں چیزیں نقل مکانی کر جاتی ہیں‘ ہم جب تک انھیں واپس نہیں لائیں گے ہمیں اس وقت تک ملٹری کورٹس کے عہد میں زندگی گزارنا پڑے گی۔
میری ریاست سے درخواست ہے‘ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اے پی سی میں 20 نقطوں پر اتفاق کیا‘ ہم نے ان 20 نقطوں میں سے صرف ملٹری کورٹس کے ایک نقطے کو عملی شکل دے دی لیکن 19 نقطے خاموش بیٹھے ہیں‘ یہ 19 نقطے پائپ ہیں اور ملٹری کورٹس اس پائپ کا آخری سرا۔ ہم جب تک پائپ کو ٹھیک نہیں کریں گے ہمارا آخری سرا ٹھیک نہیں ہو گا‘ آپ ان 19 نقاط پر بھی اتنی ہی جلدی اور اتنی ہی قوت سے عمل کریں گے جتنی جلدی آپ نے ملٹری کورٹس بنائیں تو مسئلہ حل ہو گا بصورت دیگر ملٹری کورٹس بنتی رہیں گی‘ پھانسیاں ہوتی رہیں گی اور دہشت گردوں کے نئے لشکر پیدا ہوتے رہیں گے‘ ہم پہلے بھی مر رہے تھے‘ ہم بعد میں بھی مریں گے‘ بس پہلے زمانے اور دوسرے زمانے میں ایک فرق ہو گا‘ پہلے زمانے میںعام عدالتیں تماشہ دیکھتی تھیں اور دوسرے زمانے میں ملٹری کورٹس بھی تماشے میں شامل ہو جائیں گی۔
زاکوپانا کا اداس بے زار ناظر
جاوید چوہدری پير 5 جنوری 2015

زاکوپانا (Zako Pane) پولینڈ کے جنوب میں واقع ہے، یہ ملک کا بلند ترین شہر ہے، کراکوف سے زاکوپانا تک ایک سو دس کلو میٹر کافاصلہ ہے مگر سنگل سڑک، رش اور پہاڑی علاقے کی وجہ سے یہ فاصلہ دو اڑھائی گھنٹے میں طے ہوتا ہے، یہ شہر بھی ماؤنٹ بلینک کی طرح سردیوں میںبرف میں دفن ہو جاتا ہے اور لوگ سردیوں کے کھیلوں کے لیے یہاں آتے ہیں، آپ اس شہر کو پولینڈ کا سوات یا مری بھی کہہ سکتے ہیں مگر یہ شہر مری اور سوات کے مقابلے میں صاف ستھرا، مہذب اور آرام دہ ہے۔
شہر میں سیکڑوں چھوٹے بڑے ہوٹل ہیں لیکن یہ ہوٹل سیاحوں کی ضرورت پوری نہیں کر پاتے چنانچہ شہر میں سیکڑوں پے اینگ گیسٹ رومز اور گیسٹ ہاؤسز ہیں، لوگ ہوٹلوں کے برابر رقم لے کر سیاحوں کو اپنے گھروں میں ٹھہرا لیتے ہیں،زاکوپانا کے گھر خوبصورت، آرام دہ اور گرم ہوتے ہیں، میں نے انٹر نیٹ کے ذریعے ہوٹل بک کرایا تھا مگر وہاں پہنچ کر ہوٹل پسند نہ آیا، میں نے ریسپشن پر موجود خاتون سے پے اینگ گیسٹ کی سہولت تلاش کرنے کی درخواست کی، خاتون نے تین چار فون کیے اور آخر میں مجھے ایک صاحب کا نمبر دے دیا، میں وہاں گیا، گھر بہت خوبصورت اور آرام دہ تھا، میں اس گھر کا پہلا مہمان تھا کیونکہ وہ لوگ اس گھر میں اسی دن شفٹ ہوئے تھے۔
وہ گھر کم گیسٹ ہاؤس تھا، مالک مکان ایک منزل پر بیوی ، چار سال کے بیٹے اور کتے کے ساتھ رہتا تھا جب کہ باقی دو منزلوں پر نو کمروں کا گیسٹ ہاؤس تھا، تمام کمرے جنگل کی طرف کھلتے تھے اور جنت کا نظارہ پیش کرتے ہیں، مجھے آخری منزل پر رافٹ میں جگہ ملی، بیڈ کے دائیں جانب تکونی کھڑکی تھی اور کھڑکی سے برف پوش پہاڑ نظر آتا تھا، وہ گھر، کمرہ اور اس کی کھڑکی سے نظر آنے والا منظر تینوں یادگار تھے، میں شاید زندگی بھر ان تینوں کو بھلا نہ سکوں ، زاکوپانا میں چھوٹے بڑے سیکڑوں ریستوران، چائے خانے، کافی شاپس، بارز اور ڈسکوز بھی ہیں،میں جس دن زاکوپانا پہنچا اس دن درجہ حرارت منفی بیس سینٹی گریڈ تھا لیکن لوگ گلیوں اور سڑکوں پر چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔
ہم لوگ ان کے مقابلے میں پانچ سے دس سینٹی گریڈ سردی برداشت نہیں کر پاتے، کیوں؟ وجہ بہت آسان ہے، یورپ اور ہمارے ذہن میں فرق ہے، یورپ کے لوگ ہمیشہ حل تلاش کرتے ہیں جب کہ ہمارا ذہن صرف مسئلے تلاش کرتا ہے ۔ زاکوپانا اور پولینڈ کے لوگوں نے بھی سردی کا حل تلاش کر لیا ہے، یہ اونی کپڑوں کے اوپر گرم جیکٹ پہن لیتے ہیں، گلے میں مفلر باندھتے ہیں، سر پر ٹوپی رکھتے ہیں، ہاتھوں پر دستانے چڑھا لیتے ہیں اور پاؤں میں لانگ شوز پہنتے ہیں اور منفی بیس درجے میں مزے سے باہر پھرتے رہتے ہیں جب کہ ہم لوگ آج بھی چادروں کے ذریعے سردی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم آج تک یہ نہیں سمجھ سکے سردی کا مقابلہ بدن کی گرمی کرتی ہے اور چادر جسم کو زیادہ دیر تک گرم نہیں رکھ سکتی، کاش پاکستان میں بھی کوئی شخص سرد علاقوں کے جسمانی کلچر میں تبدیلی پر کام کرے، دوسرا یہ لوگ گھر ہوں، دکانیں ہوں یا شاپنگ سینٹر انھیں گرم رکھتے ہیں، کاش ہم بھی ایسا کر لیں۔
حکومت نے زاکو پانا شہر میں پہاڑی ریلوے قائم کر رکھا ہے، آپ ٹکٹ خریدتے ہیں اور بجلی کی ٹرین آپ کو پہاڑ کی انتہائی بلندی تک لے جاتی ہے، ٹرین کے ڈبے کے تین اطراف شیشے کی دیواریں ہیں، آپ تین اطراف سے برف اور جنگل کا نظارہ کرتے ہوئے دس منٹ میں پہاڑ پر پہنچ جاتے ہیں، آپ کو اوپر پہنچ کر سامنے بھی برف پوش چوٹیاں نظر آتی ہیں، دائیں اور بائیں بھی اور پیچھے بھی۔ پہاڑ پر سکینگ کے چار میدان ہیں، یہ چاروں میدان چیئر لفٹس سے منسلک ہیں، سکینگ اور آئس اسکیٹنگ کے لیے مخصوص قسم کی چیئر لفٹس ہوتی ہیں، آپ پاؤں پر پیڈ باندھ کر چیئر لفٹ کا ہینڈل پکڑتے ہیں اور لفٹ آپ کو گھسیٹ کر پہاڑ کے اوپر لے جاتی ہے، آپ پہاڑ سے سکینگ کرتے ہوئے واپس نیچے جاتے ہیں اور وہاں سے ہینڈل پکڑ کر دوبارہ اوپر آ جاتے ہیں۔
پہاڑ پر درجنوں ریستوران اور کافی شاپس ہیں، میں نے وہاں ہزاروں لوگ آتے، سکینگ کرتے اور کافی شاپس میں بیٹھے دیکھے، زاکوپانا کے پہاڑ پر برف کے درمیان بیٹھ کر شام کا انتظار کرنا بھی ایک تجربہ تھا اور مجھے اس تجربے نے مدہوش کر دیا، میں سرمستی کے عالم میں وہاں بیٹھا رہا اور میرے اوپربرف برستی رہی، سردی ناقابل برداشت ہو گئی تو میں نے جھرجھری سی لی، مجھے احساس ہوا میں برف میں تقریباً دفن ہو چکا ہوں، میری پلکوں تک پر برف کی تہہ جم چکی تھی، میری دیکھا دیکھی درجن بھر لوگ وہاں بیٹھ گئے، میں نے برف جھاڑنا شروع کی تو لوگوں کی ہنسی نکل گئی۔
میں نے بھی قہقہہ لگایا، مجھے ان قہقہوں کے دوران محسوس ہوا آنسوؤں اور قہقہوں کی اپنی زبان ہوتی ہے اور یہ زبان بین الاقوامی ہوتی ہے، آپ دنیا کے کسی حصے میں کسی شخص کو روتے یا ہنستے دیکھ لیں آپ کو وہ شخص زبان کے بغیر پورا سمجھ آ جائے گا اور میں اپنے ساتھ برف میں بیٹھے لوگوں کو سمجھ آ رہا تھا اور وہ بھی مجھے پورے کے پورے سمجھ پا رہے تھے، ہم سب ایک ہی قسم کے پاگل لوگ تھے، تجربے کرنے والے اداس کنفیوژ لوگ۔
میں زاکو پانا میں کیوں گیا، اس کی دو وجوہات تھیں، پہلی وجہ ڈاگ سلج تھی اور دوسری وجہ ہارس سلج تھی، یہ دونوںبرف پر چلنے والی گاڑیاں ہوتی ہیں، ان میں پہیے نہیں ہوتے، یہ لکڑی کے راڈ پر بنی ہوتی ہیں اور یہ برف میں کھینچی جاتی ہیں، ڈاگ سلج کو کتے کھینچتے ہیں جب کہ ہارس سلج گھوڑے کھینچتے ہیں، یہ دونوں دلچسپ تجربے ہیں، یورپ میں سلج دو ملکوں میں ملتی ہیں،پولینڈ میں زاکو پانا اور ناروے میں قطب شمالی پر۔ سردیوں میں قطب شمالی جانا مشکل ہوتا ہے، وہاں دسمبر میں سورج نہیں نکلتا، فلائیٹس بھی مشکل ہوتی ہیں جب کہ زاکوپانا جانا قطب شمالی کے مقابلے میں آسان ہے، آپ کو یہاں دن بھی مل جاتا ہے۔
آپ یہاںآسانی سے بھی پہنچ جاتے ہیں اور آپ کو یہاں سلج بھی مل جاتی ہیں، میں سلج پر بیٹھنا چاہتا تھا، میں نے ڈاگ اور ہارس سلج دونوں بک کرا رکھی تھیں لیکن میں بدقسمتی سے ڈاگ سلج کا تجربہ نہ کر سکا، اس کی وجہ برف باری کی کمی تھی، ڈاگ سلج کے لیے بھرپور برفباری درکار ہوتی ہے مگر میں جب وہاں پہنچا تو وہاں زیادہ برف باری نہیں ہوئی تھی، میں ڈاگ سلج تک پہنچ گیا، مالک نے مجھے گاڑی پر بھی بٹھا لیا لیکن برف کم اور نرم ہونے کی وجہ سے کتوں کو گاڑی کھینچنے میں دقت ہو رہی تھی، میں گاڑی سے اتر گیا، سلج کے مالک کی کوشش تھی وہ کتوں کو بہلا پھسلا کر مجھے چکر لگوا دے لیکن میں پولش کتوں پر ظلم کے لیے تیار نہیں تھا، میں نے سلج کے مالک کورقم دے دی، بیکری سے کتوں کے لیے مفن خریدے، کتوں کو کھلائے اور ان کے جسم پر ہاتھ پھیر کر واپس آ گیا تاہم ہارس سلج کا تجربہ ضرور ہوا، زاکوپانا میں ہارس سلج کی باقاعدہ کمپنی ہے، یہ سترہ اٹھارہ لوگوں کا گروپ بناتی ہے،یہ لوگ رات ساڑھے چھ بجے ان لوگوں کو بس میں بٹھا کر شہر سے باہر لے جاتے ہیں۔
شہر کے مضافات میں ایک برفیلی سڑک ہے، ہارس سلج اس سڑک پر چلتی ہیں، میں جس گروپ میں تھا اس میں یورپ کے مختلف لوگ شامل تھے، ہم بس کے ذریعے شہر سے باہر پہنچ گئے، وہ ایک برفیلی وادی تھی، سڑک کے ایک سائیڈ پر گہری کھائی تھی جب کہ دوسری طرف دریا تھا، دریا سے ذرا سے فاصلے پر پہاڑ تھا اور پہاڑ کی اترائیوں پر صنوبر کا گھنا جنگل تھا، ہم وہاں پہنچے تو چھ ہارس سلج ہمارا انتظار کر رہی تھیں،ایک سلج میں چار لوگ بیٹھ سکتے تھے، گھوڑے توانا اور خوبصورت تھے، کوچوان لمبی داڑھیوں والے پولش کسان تھے، انھوں نے مشعلیں جلائیں، ہمارے ہاتھوں میں پکڑائیں اور سلج کا سفر شروع ہو گیا، وادی میں اس وقت گھپ اندھیرا، تیز ہوا، ناقابل برداشت ٹھنڈ تھی، کوچوانوں کے نغمے، مشعلوں کی تھرتھراتی لوئیں، گھوڑوں کی ٹاپیں، ان کے نتھنوں سے نکلتا دھواں اور سلج کے گھسیٹنے کی بے ربط آوازیں تھیں اور دائیں جانب سرکتے پانی کی سرسراہٹ تھی اور دور وادی میں جنگلی جانوروں کی چیخیں تھیں، وہ ایک عجیب تجربہ تھا، میری سلج پر ایک پولش جوڑا بیٹھا تھا، یہ دونوں جرمن بارڈر پر چھوٹے سے پولش گاؤں میں رہتے تھے، یہ بھی میری طرح سلج کا تجربہ کرنے زاکو پانا آئے تھے، مرد کے ہاتھ میں مشعل تھی۔
وہ گھوڑے کی ٹاپوں کے ساتھ مشعل ہوا میں ٹھہراتا تھا اور اس کی نئی نویلی بیوی مسرت کے گہرے گھونٹ بھرتی تھی اور تالیاں بجاتی تھی اور میں ان کو خوش دیکھ کر خوش ہوتا تھا، مجھے سردی لگ رہی تھی، خاتون نے میرے اوپر ترس کھایا اور اپنی چادر مجھے دے دی، میں نے اس کے خاوند کی طرف دیکھا، اس نے مسکرا کر مجھے اجازت دے دی، میں نے چادر ٹانگوں پر اوڑھ لی اور اجنبی لوگوں کی مہربانی کی گرمائش میرے پورے وجود میں اتر گئی، سلج کا سفر گھنٹہ بھر جاری رہا، ہم آدھ گھنٹہ آگے گئے اور آدھ گھنٹہ واپس آئے، ہم نے جہاں سے سلج کا سفر شروع کیا تھا وہاں ٹور کمپنی نے باربی کیو اور کنسرٹ کا بندوبست کر رکھا تھا، کھانا حلال نہیں تھا، میں کھانا نہیں کھا سکتا تھا، وہ شرکاء کو ،،ہاٹ وائین،، بھی پیش کر رہے تھے۔
میں شراب طہورہ کا قائل ہوں اور یہ ظاہر ہے زمین پر دستیاب نہیں چنانچہ میں وہ بھی نہیں پی سکتا تھا، وہ سوپ بھی سرو کر رہے تھے لیکن سوپ میں بھی ایسی چند مشکوک چیزیں موجودتھیں جنھیں مسلمان نہیں کھاتے چنانچہ میرے لیے سوپ بھی بے کار تھا، میں نے اپنے حصے کا کھانا، سوپ اور گرم شراب پولش جوڑے کو پیش کر کے چادر کا قرض اتار دیا، وہ دونوں خوش ہو گئے، مجھے پہلی بار معلوم ہوا یورپ میں لوگ شراب کو ابال کر بھی پیتے ہیں، یہ وائین کو گرم کرتے ہیں اور چائے یا سوپ کی طرح چسکیاں لے کر پی جاتے ہیں، یہ میرے لیے عجیب بات تھی، وہ لوگ پی رہے تھے۔
کھا رہے تھے اور برف پر ناچتے جا رہے تھے اور میں آگ کے قریب کھڑے ہو کر انھیں حیرت سے دیکھ رہا تھا، میں اس وقت تاحد نظر پھیلے اس برفستان میں ان کا اکیلا ناظر تھا، ہمارے چاروں طرف جنگل تھا، خاموشی تھی، برف تھی، آگ میں چٹختی ہوئی لکڑیاں تھیں، ناچتے ہوئے آٹھ جوڑے تھے اور ان کا اکیلا ، اداس، بے زار ناظر تھا اور زندگی کی بے مقصدیت تھی اور میں اس وسیع پینٹنگ کا ایک نقطہ بن کر وہاں خاموش کھڑا تھا۔

کراکوف میں نیو ائیر
جاوید چوہدری ہفتہ 3 جنوری 2015

کراکوف پولینڈ کا تاریخی شہر ہے، میں 2014ء کے آخری دن گزارنے یہاں آ گیا، کیوں آ گیا؟ یہ مجھے بھی معلوم نہیں تھا، شاید شہر کے قدیم ترین کیفے جاما میخا لیکا میں کافی پینے آ گیا، یہ کافی شاپ 1890ء میں بنی اور آج ایک سو 24 سال بعد بھی قائم ہے، یہ ماضی میں پولینڈ کے شاہی خاندان، سیاستدانوں، بیورو کریٹس، مصوروں، شاعروں، ادیبوں ور پروفیسروں کا مستقل مسکن ہوتا تھا، یہ آج بھی کلچر، ادب اور رومانس کا مرکز ہے۔
میں جولائی 2014ء میں کراکوف آیا تو جاما میخا لیکا بند تھا، شاید پینٹ ہو رہا تھا، میں شاید جاما میخا لیکا میں ایک شام گزارنے کے لیے یہاں آ گیا یا پھر میں 2014ء کے آخری دن یورپ کے سرد ترین شہر میں گزارنا چاہتا تھا، 30 دسمبر کی رات کراکوف کا درجہ حرارت منفی 13 ڈگری سینٹی گریڈ تھا، میں نے رات بارہ بجے دریا کے ساتھ ساتھ واک شروع کر دی، دریا کا پانی جم چکا تھا، برف پاؤں کے نیچے ٹوٹنے سے قبل چیختی تھی، آسمان پر آدھا چاند ساتھ ساتھ چل رہا تھا، وہاں اس لمحے خاموش درختوں، آوارہ ہواؤں اور یخ رات کے سوا کوئی نہیں تھا، وہ عجیب واک تھی، شہر اجنبی تھا، دریا بھی اجنبی تھا، رات بھی اجنبی تھی اور مسافر بھی اجنبی تھا، بس اگر کوئی چیز شناسا تھی تو وہ تنہائی اور آوارگی تھی اور دنیا کے دوڑتے، بھاگتے ہجوم میں گم ہونے کی ناکام خواہش تھی اور چاند اور دریا کے ساتھ ساتھ بہنے کی ادھوری دعا تھی اور بس، باقی سب کچھ اجنبی تھا۔
کراکوف کے اس دریا کے کنارے رات بارہ بجے منفی 13 ڈگری سینٹی گریڈ میں واک کرتے ہوئے مجھے اچانک محسوس ہوا، میں کنفیوژ ہو چکا ہوں، میرا دماغ، میرا ذہن میرے کنٹرول میں نہیں رہا، میں ٹھنڈے یخ بینچ پر بیٹھ گیا، میں اس لمحے کراکوف کے دریائے وسٹولا (Vistula) کے کنارے اس اعتراف پر مجبور ہو گیا ،،میں کنفیوژ ہو چکا ہوں،، میں وجوہات تلاش کرنے لگا، میں اس لمحے اپنے آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اعتراف کیا میری فلاسفی غلط تھی، جنرل ضیاء الحق کے جہاد کے دوران پیدا ہونے والے دانشور غلط تھے، میرے سینئرز اور میں نے معاشرے کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا، ہم نے قوم کو مذہب، روحانیت اور مشرقیت کی افیون دے دے کر سلا دیا اور ہم عوام کو حقائق کی زمین سے غیر حقیقی توقعات کے آسمان پر لے گئے اور ہم میں اب اپنی غلطی تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں، میں نے تسلیم کیا میں لاشیں دیکھ دیکھ کر اندر سے قبرستان بن چکا ہوں۔
میرے اندر کتبے ہی کتبے ہیں اور یہ کتبے مجھے اب آرام سے زندگی نہیں گزارنے دے رہے، دہشت گردی کی جنگ کے دوران مرنے والے 55 ہزار معصوم لوگ اب میرے جیسے لوگوں کو کبھی آرام، کبھی شانتی سے زندگی نہیں گزارنے دیں گے، ہم لوگوں نے اب لاشوں کے اس بوجھ کے ساتھ زندگی گزارنی ہے، میں نے اعتراف کیا، پشاور کے 150 معصوم بچوں نے مجھے اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے، میرا ذہنی توازن بگاڑ دیا ہے اور مجھے اب نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے اور میں نے اعتراف کیا میں ماضی میں صرف تکنیک سے لکھتا تھا، دل سے نہیں اور اب جب دل سے لکھ رہا ہوں تو لوگ اعتراض کرتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ حقائق کے عادی نہیں ہیں، میں نے اعتراف کیا ہم جب تک معاشرے میں ایسا امن قائم نہیں کریں گے جیسا کراکوف جیسے شہروں میں ہے کہ میں سات سمندر پار آدھی رات دریا کے کنارے بیٹھا ہوں اور کوئی مجھے شک سے نہیں دیکھ رہا، ہم اس وقت تک اپنے معاشرے کو رہنے کے قابل نہیں بنا سکیں گے۔
میں نے اعتراف کیا، امن عقائد سے بڑی نعمت ہوتا ہے اور ہم اس نعمت کو عقائد کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں، میں نے اعتراف کیا ہم لوگ جینا بھول چکے ہیں، ہم میں سے ہر شخص آدھا درندہ ہے اور یہ کبھی مذہب، کبھی طبقے، کبھی فرقے اور کبھی نسل کی بنیاد پر دوسرے کو چیرنا پھاڑنا عین عبادت سمجھتا ہے اور ہم اگر معاشرے کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بڑے فیصلے کرنا ہوں گے، ہمیں عقائد، نسل پرستی، لسانیت اور طبقاتی تقسیم کو کنٹرول کرنا ہو گا اور میں نے اعتراف کیا ہم نے اگر معاشرے کو سدھارنے کی کوشش نہ کی تو ملک میں لمبا مارشل لگ جائے گا اور اگلا جنرل صرف جنرل نہیں ہو گا وہ پاکستان کا اتاترک ہو گا، وہ مساجد سے لے کر تبلیغ تک ہر چیز پر پابندی لگا دے گا۔
میں کراکوف میں دو دن رہا، اس دن درجہ حرارت منفی آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ تھا، وہ سال کا آخری دن تھا، شہر کے وسطی حصے میں نیو ائیر کی تقریب کے لیے اسٹیج لگا تھا، پولینڈ میں عوامی مقامات پر شراب نوشی پر پابندی ہے،شراب نوشوں کو ریستورانوں، کلبوں اور کافی شاپس میں جانا پڑتا ہے، پولش معاشرہ اس معاملے میں بڑی حد تک اسلامی ہے تاہم حکومت 31 دسمبر کو شراب نوشی کی خصوصی اجازت دے دیتی ہے، نوجوان اس شام بوتلیں اٹھا کر پھرتے دکھائی دیتے ہیں، میں شام کے وقت مرکز گیا تو مجھے وہاں ہر دوسرا شخص نیو ائیر کی تیاری میں دکھائی دیا، لوگ خوش تھے، شام کے وقت سینٹر میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی، لوگ ہی لوگ اور سر ہی سر دکھائی دیتے تھے، ہر شخص کے منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی مگر وہ اس کے باوجود ڈسپلن میں تھا، یہ کسی دوسرے شخص سے ٹکراتا تھا اور نہ ہی غل غپاڑہ کرتا تھا، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو شراب خانے بھی کسی ملک میں قانون کی حکمرانی جانچنے کا ایک طریقہ ہوتے ہیں۔
دنیا کے کسی ملک میں اگر قانون کمزور ہے تو وہاں شراب خانے اور ڈسکو کلب نہیں بن سکتے اور اگر بن جائیں تو یہ چل نہیں سکتے، کیوں؟ کیونکہ قانون کو نشے سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے، اگر قانون کمزور ہو گا تو لوگ شراب پی کر غل غپاڑہ بھی کریں گے اور ایک دوسرے سے دست و گریبان بھی ہوں گے، اس کے نتیجے میں شراب خانے اور کلب میں لڑائی ہو گی، یوں وہ شراب خانہ یا کلب ایک آدھ لڑائی کے بعد بند ہو جائے گا چنانچہ دنیا کسی ملک میں امن اور قانون دیکھنے کے لیے یہ بھی دیکھتی ہے کیا اس ملک میں شراب خانے اور کلب ہیں اور اگر ہیں تو یہ کتنے عرصے سے ہیں، اگر اس کا جواب ناں ہو تو ماہرین محسوس کرتے ہیں ملک میں امن اور قانون دونوں نہیں ہیں۔
ہم مسلمان ہیں اور اسلامی معاشرے میں شراب اور کلب دونوں کی گنجائش نہیں ہوتی، ہونی بھی نہیں چاہیے لیکن کیا لوگ نیو ائیر جیسے مواقع پر اکٹھے بھی نہیں ہو سکتے؟ کیا یہ بھی غیر اسلامی ہے؟ کیا یہ بھی ناشائستہ ہے؟ اگر ہاں تو کیا لوگوں کو تفریحی کے لیے ہر بار دھرنے کا انتظار کرنا ہو گا؟ اور کیا یہ ہر بار ڈی جے بٹ کا راستہ دیکھیں گے؟ ہمیں بہرحال ملک میں مختلف نوعیت کی تقریبات شروع کرنی چاہئیں، ہمیں بسنت کی طرف بھی واپس جانا چاہیے اور ہمیں ملک میں میلوں ٹھیلوں کا کلچر بھی دوبارہ زندہ کرنا ہو گا تاہم یہ تقریبات تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہنی چاہئیں، قانون کو ہر حال میں مقدم ہونا چاہیے، کراکوف کے سینٹر میں لوگ جمع تھے، آپ اگر کبھی کراکوف جائیں تو آپ کو سینٹر میں ایک بڑا گھنٹہ گھر ملے گا، نیو ائیر کا اسٹیج اس گھنٹہ گھر کے ساتھ بنا تھا، آٹھ بجے کنسرٹ شروع ہو گیا، گلوکار آتے، ہجوم گانے کے ساتھ ساتھ ناچنے لگتا، پولیس تھی لیکن نہ ہونے کے برابر۔ لوگ خود ہی قطار بنا لیتے تھے اور کندھے سے کندھا جڑا ہونے کے باوجود دوسرے شخص کو دھکا نہیں مارتے تھے۔
لوگ بوتلیں بھی نہیں پھینک رہے تھے، کوئی کسی کے ساتھ بدتمیزی بھی نہیں کر رہا تھا، میں ہجوم سے ہٹ کر کافی شاپ کی دوسری منزل پر بیٹھ گیا، مجھے وہاں سے سارا ہجوم نظر آ رہا تھا، میں نے پاکستان میں لوگوں کو اتنا خوش صرف عمران خان کے دھرنے میں دیکھا، ہمیں عمران خان کو کم از کم اتنی داد ضرور دینی چاہیے، یہ لوگوں کو کھینچ کر باہر لے آیا، اور نوجوان دھرنے میں خوشی سے ناچتے تھے، یہ چیز ثابت کرتی ہے ہمارے لوگوں میں خوشی ابھی تک قائم ہے، یہ ناچ بھی سکتے ہیں، گا بھی سکتے ہیں اور خوش بھی ہو سکتے ہیں بس کوئی ہو جو انھیں بے خوف بنا کر باہر لے آئے، جو انھیں خوش ہونے کا موقع دے دے، میں کراکوف کے سینٹر کی طرف واپس آتا ہوں۔
رات گیارہ بج کر 55 منٹ پر میوزک تیز ہو گیا، لوگوں نے پاگلوں کی طرح ناچنا شروع کر دیا، وہ ناچتے رہے، ناچتے رہے یہاں تک کہ بارہ بجنے میں تیس سیکنڈ رہ گئے، لوگوں کا جنون بھی بڑھ گیا، بارہ بجنے میں دس سیکنڈ رہ گئے تو میوزک بند ہو گیا، لوگ بھی رک گئے، الٹی گنتی شروع ہوئی، نو، آٹھ، سات، چھ، پانچ، چار، تین، دو، ایک ، زیرو اور ساتھ ہی آسمان بقہ نور بن گیا، آتشبازی شروع ہو گئی، ہمارے اردگرد سیکڑوں ہزاروں رنگ تھے اور تیز میوزک تھا، لوگ دیوانہ وار ناچ رہے تھے اور ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دے رہے تھے، میں ساڑھے بارہ بجے تک وہاں بیٹھا رہا، کافی شاپ کے ملازم نے بتایا، یہ ہمارے شہر کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے اور اس کے سارے اخراجات میونسپل کارپوریشن برداشت کرتی ہے۔
میں ساڑھے بارہ بجے وہاں سے اٹھا اور دوبارہ دریا کے کنارے آ گیا، دور دور تک کوئی بندہ بشر نہیں تھا، لوگ سینٹر میں ناچنے میں مصروف تھے، میں اداس ہو گیا، میں دراصل انسانوں کے اس گروپ سے تعلق رکھتا ہوں جنھیں خوش ہونا نہیں آتا، خوشی کھیل کی طرح ہوتی ہے، آپ کو یہ سیکھنی پڑتی ہے اور میں بدقسمتی سے یہ نہیں سیکھ سکا لہٰذا میں خوشی کے مواقع پر ہمیشہ اداس ہو جاتا ہوں، میں اس وقت بھی اداس تھا اور اداسی کے اس دورے کے دوران بس ایک سوال پوچھ رہا تھا ،،اگر یہ لوگ غلط ہیں، اگر نیو ائیر منانے والے دنیا کے 95 فیصد لوگ غلط ہیں تو پھر یہ خوش کیوں ہیں، یہ پرامن اور خوبصورت زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟ دنیا میں کسی غلط چیز کا نتیجہ اچھا نہیں نکل سکتا، پھر ان کا غلط اچھے نتائج کیوں دے رہا ہے اور اگر ہم لوگ ٹھیک ہیں، ہمارا طرز زندگی اچھا ہے تو پھر ہم خوشی کیوں نہیں ہیں، ہم پرامن، مطمئن، مسرور اور کامیاب کیوں نہیں ہیں، ہم میں سے ہر شخص جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر کیوں بیمار ہے؟،، مجھے سوال کا کوئی جواب نہیں ملا، آپ کوشش کریں شاید آپ کو مل جائے۔
نوٹ:کراکوف انگریزی میں KRAKOW لکھا جاتا ہے، پولش لوگ اسے کراکو کہتے ہیں۔
ماؤنٹ بلینک
جاوید چوہدری بدھ 31 دسمبر 2014

ہم رات کے دس بجے شامونی پہنچے‘ تیز برفباری ہو رہی تھی‘ سڑکوں پر تین تین فٹ برف پڑی تھی‘ درخت‘ گاڑیاں‘ مکانوں کی چھتیں‘ گلیاں‘ بازار‘ سائن بورڈز اور انسان سب سفید برف میں دفن تھے‘ شہر میں ہوکا عالم تھا‘ اسٹریٹ لائٹس تک ٹھٹھری اور سہمی ہوئی تھیں‘ گاڑیاں سفید قبریں محسوس ہورہی تھیں‘ دنیا میں دس ہزار مناظر ہیں اور ان میں سے ہر منظر آپ کی توجہ کھینچ لیتا ہے‘ آپ اسے دیکھ کر مبہوت ہو جاتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ اگر دنیا میں کوئی نبی نہ بھیجتا تو بھی کائنات میں بکھرے مناظر اس کی کبریائی‘ اس کی موجودگی اور اس کے خالق ہونے کے یقین کے لیے کافی تھے۔
آپ کسی روز رات کے پچھلے پہر جاگیں‘ اپنے گھر کی چھت پر بیٹھ جائیں اور مشرق کی طرف نظریں جما کر صبح کاذب کو صبح صادق میں اترتے دیکھیں‘ آپ خواہ کتنے ہی بڑے دہریے کیوں نہ ہو‘ آپ اللہ کے وجود کو بھی تسلیم کریں گے اور اس پر ایمان بھی لے آئیں گے‘ کائنات میں بکھرا ہوا ہر منظر اللہ کا پیغام ہے اور یہ پیغام آپ کو اس کے ہونے کا یقین دلاتا ہے لیکن برف میں گم صنوبر کے درختوں کا منظر ان تمام مناظر کا جوہر ہے‘ ان تمام مناظر کا جد امجد ہے‘ آپ تصور کیجیے‘ آپ پہاڑوں کے درمیان کھڑے ہوں‘ آپ کے چاروں اطراف بلندی سے لے کر سڑک تک صنوبر کے لاکھوں درختوں کے جنگل ہوں اور یہ جنگل آسمان سے لے کر زمین تک سفید نرم برف میں ملبوس ہوں‘ درختوں نے اپنے پورے وجود پر برف اوڑھ رکھی ہو‘ آپ کے دائیں بائیں۔
آگے پیچھے اور اوپر نیچے ہر طرف برف ہو اور آپ اس برفستان میں کھڑے سفید صنوبر کے جنگل دیکھ رہے ہوں تو آپ کیا محسوس کریں گے‘ شامونی اس وقت ایسا تھا‘ برف میں صنوبر کے جنگل‘ سڑکوں پر تین تین فٹ برف‘ گاڑیاں برف کی قبریں‘ مکانوں کی چھتیں سفید‘ راستے غائب‘ اسٹریٹ لائٹس ٹھٹھری ہوئی‘ سمٹی ہوئی‘ ندیاں نالے اور جھیلیں جمی ہوئیں اور آسمان سے برف کے برستے گالے‘ شامونی اس وقت جنت کا کوئی خاموش کونا محسوس ہوتا تھا‘ یورپ کی برفباری دنیا کے قیمتی ترین مناظر میں شمار ہوتی ہے اور ہم تین مسافر اس وقت اس منظر کا حصہ تھے‘ میں‘ شیخ مبشر اور ملک ضیغم ‘ شامونی کائنات میں اس وقت صرف سانس لیتے نفوس تھے۔
ماؤنٹ بلینک ایک پہاڑی تکون ہے‘ یہ فرانس کا آخری حصہ ہے‘ اس کے ایک طرف سوئٹرز لینڈ ہے اور دوسری طرف اٹلی‘ جنیوا ماؤنٹ بلینک سے چند منٹ کی مسافت پر ہے‘ آپ ماؤنٹ بلینک جا رہے ہوں تو وادی میں داخل ہونے سے قبل ایک سڑک جنیوا جاتی ہے‘ جنیوا وہاں سے صرف سات کلومیٹر کے فاصلے پر ہے‘ اٹلی کے خوبصورت ٹاؤن ٹیورن کی طرف جانے والی سڑک بھی ماؤنٹ بلینک کے ایک کونے سے نکلتی ہے اور اطالوی حصے سے ہوتے ہوئے ٹیورن پہنچ جاتی ہے‘ میں 2009ء میں ٹیورن گیا تھا‘ ٹیورن میں آئی ایل او کا ٹریننگ سینٹر ہے‘ میں نے وہاں سے 2009ء میں چھوٹا سا کورس کیا‘ یہ شہر ماضی میں اٹلی کا دارالحکومت تھا‘ حضرت عیسیٰ ؑ کی لہو میں تر چادر ٹیورن میں موجود ہے‘ عیسائیوں کا عقیدہ ہے‘ حضرت عیسیٰ ؑکو جب صلیب سے اتارا گیا تو حضرت مریم ؑ نے اپنی چادر ان کے اوپر ڈال دی‘ چادر پر حضرت عیسیٰ ؑ کے لہو کے نشان لگ گئے‘ یہ چادر دو ہزار سال کا سفر طے کر کے ٹیورن پہنچ گئی۔
یہ اس وقت ٹیورن کیتھڈرل چرچ میں موجود ہے‘ میں واپس شامونی اور ماؤنٹ بلینک کی طرف آتا ہوں‘ ماؤنٹ بلینک کو انگریزی میں ماؤنٹ بلینک جب کہ فرنچ میں ماؤ بلاں کہا جاتا ہے‘ ماؤنٹ کا مطلب پہاڑ اور بلینک کے معنی سفید ہیں یعنی سفید پہاڑ‘ دنیا کے زیادہ تر لوگ ماؤنٹ بلینک یا ماؤ بلاں کو برانڈ سمجھتے ہیں‘ یہ درست ہے ماؤ بلاں کے پین ‘گھڑیاں اور پرفیوم دنیا بھر میں مشہور ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو ماؤ بلاں کا پین استعمال کرتے تھے۔
یہ پین چالیس ہزار روپے سے شروع ہوتا ہے اور 50 لاکھ روپے تک جاتا ہے‘ ماؤ بلاں کی گھڑیاں بھی بہت مہنگی ہوتی ہیں تاہم پرفیوم نسبتاً سستے ہیں‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ ماؤنٹ بلینک کو برانڈ سمجھتے ہیں جب کہ یہ پہاڑ اور اس کی وادی کا نام ہے‘ یہ فرانس کا بلند ترین اور دنیا کا گیارہواںاونچا پہاڑ ہے‘ شامونی سے اس کی اونچائی تین ہزار 8 سو 42 میٹر ہے‘ فٹ میں یہ بلندی 11 ہزار 5 سو 26فٹ بنتی ہے‘ ماؤنٹ بلینک پر گرمیوں میں بھی برف پڑتی رہتی ہے‘ یہ اس برف کی وجہ سے سفید پہاڑ کہلاتا ہے تاہم اپریل کے بعد شامونی اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ سرسبز ہو جاتا ہے وادی میں درجنوں قسم کے پھول بھی کھلتے ہیں‘ یہ وادی اور یہ پہاڑ یورپ میں سردیوں کے کھیلوں کا سب سے بڑا مرکز ہے‘ دنیا بھر سے لوگ اسکیٹنگ کے لیے یہاں آتے ہیں اور دسمبر سے لے کر مئی تک یہاں ہوٹل نہیں ملتے۔
ہم پیرس سے ماؤنٹ بلینک کے لیے نکلے تو ہمارا خیال تھا ہم سات گھنٹے میں شامونی پہنچ جائیں گے لیکن راستے میں ٹریفک کے رش کی وجہ سے ہم نے یہ سفر گیارہ گھنٹوں میں طے کیا‘ ہم نے ہزاروں گاڑیاں شامونی کی طرف جاتی دیکھیں‘ تمام گاڑیوں کی چھتوں پر اسکیٹنگ کا سامان لدا تھا لیون کے قریب پہنچے تو برف باری شروع ہوئی اور شامونی تک جاری رہی‘ برفباری کا یہ سلسلہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات تک چلتا رہا‘ شامونی میں سیکڑوں ہوٹل ہیں‘ یہ بیس بیس‘ تیس تیس کمروں کے چھوٹے لیکن خوبصورت ہوٹل ہیں‘ ہمارے ہوٹل کی کھڑکی سے ماؤنٹ بلینک بھی دکھائی دیتا تھا اور شہر کا ایک بڑا حصہ بھی‘ میں ساری رات کھڑکی کے قریب بیٹھ کر برف باری دیکھتا رہا‘ آسمان سے روئی کے گالے اتر رہے تھے۔
یہ گالے جب اسٹریٹ لائٹ کے قریب پہنچتے تھے تو کرسٹل کی طرح چمکتے تھے اور ان کے وجود سے سات رنگ منعکس ہوتے تھے‘ چھتیں برف سے بھاری ہو رہی تھیں اور مکانوں کے سامنے کھڑی گاڑیاں برف میں گم ہو چکی تھیں‘ آپ گاڑیوں کو صرف اندازے سے گاڑیاں سمجھتے تھے‘ میں نے اگلے دن لوگوں کو بیلچوں سے برف کھود کر گاڑیاں نکالتے دیکھا‘ شامونی کی وہ رات میری زندگی کی یاد گار ترین رات تھی‘ شامونی کی برف تھی‘ خاموش شہر تھا‘ ہوٹل کی کھڑکی تھی‘ کھڑکی کے ایک کونے میں موم بتی تھی اور میں تھا اور دور دور تک پھیلا برفستان تھا‘ تاحد نظر سفیدا ہی سفیدا تھا‘صبح کے وقت ماؤنٹ بلینک کی چوٹی پر آگ سی لگ گئی‘ میں نے زندگی میں پہلی بار برف کو سونے میں تبدیل ہوتے دیکھا‘ ماؤنٹ بلینک کی چوٹی پہلے سرخ ہوئی‘ پھر پیلی ہوئی اور پھر یہ پیلاہٹ آہستہ آہستہ وادی میں اترنے لگی‘ برف پیلی اور سرخ ہو گئی‘ وادی میں آگ لگ گئی‘ برفباری رک گئی۔
شامونی دو پہاڑوں کے درمیان لمبی پٹی کی طرح واقع ہے‘ یہ پٹی وادی کے ایک سرے سے شروع ہوتی ہے اور دوسرے سرے پر پہنچ کر پہاڑوں میں گم ہو جاتی ہے‘ شہر اس پٹی پر آباد ہے‘ درمیان سے پانی کا نالہ گزرتا ہے اور نالے پر بنے پل شہر کے دونوں حصوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں‘ آپ اگر اس پٹی پر سیدھے کھڑے ہوں تو آپ کے دائیں جانب پہاڑ پر اسکیٹنگ کے بڑے بڑے میدان ہیں‘ کھلاڑی اسکیٹنگ کا سامان لے کر پہاڑ کے دامن میں پہنچتے ہیں‘ حکومت نے وہاں کھلاڑیوں کے لیے چیئر لفٹ لگا رکھی ہے‘ کھلاڑی چیئر لفٹ کے ذریعے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے ہیں اور وہاں پاؤں پر اسکیٹنگ پیڈ باندھ کر پہاڑ کی اترائیوں پر اتر جاتے ہیں جب کہ آپ اگر بائیں دیکھیں تو آپ کو بائیں جانب دوسری لفٹ نظر آئے گی‘ یہ چیئر لفٹ ماؤنٹ بلینک کے نظارے کے لیے آنے والے سیاحوں کے لیے بنائی گئی ہے۔
آپ اس چیئر لفٹ کے ذریعے ماؤنٹ بلینک کی انتہائی چوٹی تک پہنچ سکتے ہیں‘ ہم بائیں جانب کی لفٹ پر چڑھ گئے‘ ماؤنٹ بلینک پر درجہ حرارت اس دن منفی 25 تھا‘ ہمارے کپڑے دیکھ کر کھڑکی میں کھڑی خاتون نے مشورہ دیا آپ لوگ اوپر نہ جائیں وہاں بہت سردی ہے اور آپ کے کپڑے زیادہ مناسب نہیں ہیں لیکن ہم نہ مانے‘ ہم نے ٹکٹ لیے اور لفٹ پر چڑھ گئے‘ لفٹ تین اسٹاپس پر رکتی ہوئی دس منٹ میں ٹاپ پر پہنچ گئی‘ لفٹ کیبن کی طرح تھی جس میں بیک وقت بیس پچیس لوگ سفر کر سکتے تھے‘ کیبن کے چاروں اطراف شیشہ لگا تھا اور آپ درمیان میں کھڑے ہو کر چاروں اطراف سے شامونی اور ماؤنٹ بلینک کو دیکھ سکتے تھے۔
دائیں بائیں یقینا جنگل تھے لیکن سو سو فٹ بلند درخت برف میں گم تھے‘ صرف ان کی چوٹیاں باہر تھیں‘ بلندی سے شہر چند آڑھی ترچھی لکیریں نظر آتا تھا‘ انتہائی بلندی پر ناقابل برداشت سردی تھی‘ برف کا طوفان تھا‘ برفیلی منجمد ہوائیں تھیں اور دور دور تک تاحد نظر پھیلی دھند تھی‘ اتنی بلندی پر زندگی ممکن نہیں ہوتی چنانچہ وہاں درختوں اور سبزے کا نشان تک نہ تھا‘ صرف سیدھی نوکیلی چٹانیں تھیں اور برف تھی اور ہزاروں سال بوڑھا گلیشیئر تھا‘ میں ماؤنٹ بلینک کی چوٹی پر پہنچ کر گوروں کی ہمت‘ محنت اور وژن کا قائل ہو گیا‘ آپ تصور کیجیے‘ ان لوگوں نے اس مشکل ترین جگہ پر کیبل کار کیسے پہنچائی ہو گئی‘ یہ وہاں تک بجلی کیسے لے کر گئے ہوں گے اور انھوں نے منفی 25 درجہ حرارت پر ریستوران کیسے بنائے ہوں گے‘ ہم صرف تصور کر سکتے ہیں‘ ٹاپ پر تین اٹریکشن تھیں‘ دو ویو پوائنٹس اور ایک ریستوران کمپلیکس۔ ماؤنٹ بلینک کے دونوں ویو پوائنٹس منجمد تھے‘ آپ ٹیرس پر باہر نکلتے ہیں اور آپ کی رگوں کا لہو منجمد ہو جاتا ہے۔
ناک اور کان سن ہو جاتے ہیں اور ہونٹوں پر برف کی پپڑی جم جاتی ہے‘ پاؤں من من بھاری ہو جاتے ہیں اور انگلیاں جواب دے جاتی ہیں‘ میں نے زندگی میں پہلی بار پلکوں پر برف جمتی دیکھی‘ میں پلکیں اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا اور میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں‘ دونوں ٹیرس لمبے ہیں اور پہاڑ کے گرد ہوا میں معلق ہیں‘ آپ کے قدموں میں ہزاروں فٹ کی اترائیاں اور گہرائیاں ہوتی ہیں اور آپ فضا میں معلق یہ گہرائیاں دیکھتے ہیں‘ طوفانی ہوا آپ کو گہرائی کی طرف دھکیلتی ہے اور آپ قدم جما جما کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں‘ میں نے جیب سے فون نکالا اور وڈیو بنانی شروع کر دی‘ کیمرہ تھوڑی دیر چلا اور پھر سردی کی وجہ سے فون ہینگ ہو گیا۔
ہم وہاں صرف دو منٹ ٹھہر سکے‘ دو منٹ میں ہمارا پورا جسم برف بن گیا‘ ہم دوڑے اور دوڑ کر ریستوران کے کمپلیکس میں پہنچ گئے‘ وہاں کا درجہ حرارت نارمل تھا‘ آپ گوروں کی محنت دیکھئے انھوں نے منفی 25 درجہ سینٹی گریڈ پر پانچ ہزار مربع فٹ کی ایک گرم جنت بنا رکھی ہے‘ آپ اس جنت کی کھڑکی سے منجمد پہاڑ دیکھتے ہیں اور کافی پیتے ہیں۔
یہ دہشت گردی کی جنگ (آخری حصہ)
جاوید چوہدری ہفتہ 27 دسمبر 2014

ہم اب دہشت گردی کے عفریت سے نکلنا چاہتے ہیں مجھے فوج حکومت،سیاسی جماعتیں اور عوام چاروں فریق پہلی مرتبہ ایک صفحے پر دکھائی دے رہیں، کیوں؟کیونکہ فوج جانتی ہے یہ دہشت گردوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ ہے اور اس کے پاس اب لڑیں یا مریں کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا کیونکہ حکومت کو معلوم ہے ریاست دم توڑ رہی ہے اور ہم نے اگر اب فیصلہ نہ کیا تو پھر ہم کبھی فیصلہ نہیں کر سکیں گے کیونکہ سیاسی جماعتیں اچھی طرح واقف ہیں دہشت گردی ختم نہ ہوئی تو ملک میں سیاست اور حکومت دونوں ناممکن ہو جائیں گی اور کیونکہ عوام بھی جان گئے ہیں یہ سلسلہ جاری رہا تو ہر زندہ کندھے کو لاش اٹھانی پڑے گی چنانچہ لمحہ موجود میں تمام فریق ایک صفحے پر ہیں۔
یہ سب دہشت گردی سے نجات چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا ہم ایک صفحے پر ہونے کے باوجود اس عذاب سے نکل سکیں گے؟۔ یہ مرحلہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ہمیں چندبڑے اور بے لچک فیصلے کرنا ہوں گے اور ان فیصلوں پر پوری قوت سے عمل کرنا ہو گا۔ ہم دس سے پندرہ برسوں میں کم از کم اپنی ناک پانی سے ضرور باہر نکال لیں گے اور یہ عمل اگر جاری رہا تو ہم بیس برس بعد مکمل محفوظ ہوں گے۔
وہ فیصلے کیا ہیں۔ ہم پہلے شارٹ ٹرم اور میڈ یم ٹرم فیصلوں کی طرف آتے ہیں۔ حکومت فوری طور پر قتلٗ آبرو ریزی اور ڈاکے کو ریاست کے خلاف جرم قرار دے دے۔ ان جرائم میں ریاست مدعی ہو اور ریاست سال کے اندر اندر مجرم کو کیفر کردار تک پہنچائے ۔ حکومت ان تینوں جرائم کے فیصلوں کا اختیار ملٹری کورٹس کو دے دے لیکن تین سال کے اندر خصوصی عدالتیں بنادی جائیں اور یہ عدالتیں ہر صورت سال کے اندر اندر مقدمہ نبٹالیں، ججز کی تنخوائیں اور مراعات کو فیصلوں کی تعداد سے نتھی کر دیا جائے، جو جج جتنے مقدمے نبٹائے گا اس کو اتنا بونس مل جائے گا، حکومت علماء کرام کے ساتھ بیٹھ کر دیت کے قانون میں گنجائش پیدا کرے۔ دیت اسلامی قانون ہے لیکن ریمنڈڈیوس ہو یا شاہ زیب کے قاتل شاہ رخ جتوئی، سکندر جتوئی ہوں ملک کے زیادہ با اختیار اور امیر لوگ اس مذہبی سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہم آج دہشت گردوں کو دیت کی سہولتیں دے دیں آپ یقین کر لیں یہ لوگ کل اربوں روپے لے کر آجائیں گے۔
یہ مدعیوں کو دبا بھی لیں گے، حکومت دیت کی عارضی معطلی کا بندوبست کرے ،یہ ممکن نہ ہو تو حکومت قانون بنا دے قاتل دیت سے پہلے عمر قید بھگتے گا،دیت کی رقم بھی لواحقین کی بجائے عدالت طے کرے اور یہ کروڑوں روپے میں ہونی چاہیے تا کہ لواحقین کو زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ ہو سکے۔ ہمارے ملک میں ریاست مجرموں کی میزبان بن جاتی ہے، مجرم جرم کے بعد جیل آتے ہیں اور یہ جب تک جیل میں رہتے ہیں ریاست انھیں تین وقت کھانا بھی دیتی ہے ٗ پانی بھی،پنکھا بھی،ہیٹر بھی‘ڈاکٹر بھی،دوا بھی اور کپڑے بھی۔ ریاست یہ بوجھ کیوں اٹھاتی ہے ؟ ٹیکس دہندگان کی رقم مجرموں پر خرچ نہیں ہونی چاہیے ۔
حکومت جیلوں کے فی دن، فی کس اخراجات کا تخمینہ لگائے اور یہ رقم مجرم یا اس کے لواحقین سے وصول کی جائے، اخراجات پورے کرنے کے لیے مجرم کی پراپرٹی تک بیچ دی جائے۔ جو مجرم یہ رقم ادا نہیں کر سکتے وہ بینکوں سے قرضے لیں اور قید پوری کرنے کے بعد کام کر کے قرض ادا کریں۔ میں یہاں چین کی مثال دوں گا ٗ چین میں قاتل کو گولی ماری جاتی ہے اور اس گولی کی قیمت بھی لواحقین سے وصول کی جاتی ہے۔ ہم کیوں نہیں کرتے؟ہم تیس چالیس ہزار مجرموں کو کیوں پال رہے ہیں؟ حکومت ایمنسٹی انٹرنیشنل یورپین یونین اور اقوام متحدہ کے جاگنے سے پہلے سزا ئے موت کے تمام قیدیوں کو بھی پھانسی دے دے کیونکہ حکومت کے لیے دو تین ماہ بعد یہ ممکن نہیں رہے گا۔
حکومت فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان بھی کر دے، ہم اپنے سیاسی مفادات کو ڈیورنڈ لائین تک لے آئیں ۔ افغانستان کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے دیں۔ ہم وہاں کوئی کارروائی کریں اور نہ کسی کو کرنے دیں،ہم افغانوں کے اچھے ہمسائے بن جائیں، بھارت کے ساتھ بیس سال کا امن معاہدہ کر لیں، کشمیر ایشوکو بیس سال کے لیے منجمد کر دیں، ہم اس کے لیے صرف عالمی اور علاقائی فورم پر آواز بلند کریں،عسکری جدو جہد سے ہاتھ کھنچ لیں، بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھی معاہدہ کریں، ہم دہشت گردی کے معاملے میں ان کی مدد کریں، جو اب میں ان سے مدد لیں، مجھے یقین ہے ہم اگر بیس برسوں میں اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے تو کشمیر ہمیںخود بخود مل جائے گا لیکن اس کے بر عکس اگر موجودہ صورتحال جاری رہی تو شاید ہمیں کشمیر کے ساتھ ساتھ آدھے بلوچستان،کراچی اور آدھے پنجاب کی قربانی بھی دینا پڑجائے گی چنانچہ عقل کا تقاضا ہے آپ اندرونی محاذ پر توجہ دینے کے لیے بیرو نی محاذ بند کردیں ہم بچ جائیں گے۔
مجھے یقین ہے پاکستان کے بے شمار طبقے میری اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے لیکن ہمیں سماج کو فساد سے نکالنے کے لیے مذہب کو بہر حال انفرادی حیثیت پر لانا ہو گا۔ ملک میں دو عیدوں کے علاوہ کسی تہوار کو سرکاری حیثیت حاصل نہیں ہونی چاہیے، مذہبی اجتماعات پر پابندی ہونی چاہیے، لوگ مجلس کرنا چاہیں یا ذکر یہ چا ر دیوار ی تک محدود رہیں، ان کی آواز باہر نہیں آنی چاہیے، مساجد اور مدارس بنانا حکومت کی ذمے داری ہونی چاہیے، کوئی پرائیوٹ شخص مسجد اور مدرسہ نہ بنا سکے۔
تاہم وزارت مذہبی امور یا اوقاف مساجد اور مدارس فنڈ قائم کر دے، مساجد اور مدارس بنانے کے خواہاں لوگ اپنے عطیات اس فنڈ جمع کرا دیں، حکومت یہ فنڈ بعد ازاں مدارس اور مساجد کی تعمیر،اخراجات اور آرائش پر خرچ کرے، ایک شہر میں اذان کا وقت ایک ہونا چاہیے، تاہم جماعت میںدس بیس منٹ کا فرق آجائے تو کوئی ہرج نہیں، امام حضرات کے لیے دینی کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی لازمی قرار دے دی جائے‘ہمارے امام کو کم از کم گریجویٹ ضروری ہونا چاہیے، ملک کے تمام مدارس آرمی پبلک اسکول کے ساتھ منسلک کر دیے جائیں تا کہ مدرسے کے بچوں کو دینی تعلیم بھی ملے اور دنیاوی بھی ۔ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا اسلامی دنیا میں دہشت گردی کا مذہب کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہوتاہے۔
ہماری آج کی صورتحال کی جڑیں افغان جہاد میں گڑی ہیں، پاکستان کے سلطان ایوبی جنرل ضیاء الحق 1980ء میں روس افغان امریکا جنگ کو جہاد ڈکلیئر نہ کرتے تو آج ہم اللہ اکبر کی آوازوں کے ساتھ شہید نہ ہو رہے ہوتے، ملک میں جہاد،شہید اور غازی کی اصل تعریف بھی کی جائے ۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے جہاد کو ریاست کی ذمے داری قرار دے دیا تھا، اسلام میں صرف وہ جنگ جہاد ہوتی ہے جسے اسلامی ریاست لڑنے کا اعلان کرے، مسلمان کے خلاف مسلمان کا ہتھیار اٹھانا جہاد نہیں ہوتا،آپ علماء کو جہاد کی تعریف پر قائل کریں اور یہ تعریف بعد ازاں نصاب کا حصہ بنائیں، فوج کو انگیج کریں۔ یہ اگر بے کاربیٹھے گی تو ملک میں مسئلے پیدا ہوں گے۔
آپ فوج سے سیکیورٹی کا کام بھی لیں، مجرموں کی گرفتاری کا بھی اور پولیس مقابلے کی ذمے داری بھی بے شک انھیں سونپ دیں ۔ فوج متحرک بھی رہے گی اور قومی سلامتی میں اپنا کردار بھی ادا کرتی رہے گی اور ملک میں میڈیا ریفارم کی بھی ضرورت ہے۔ بریکنگ نیوز کے لیے ضابطہ اخلاق بننا چاہیے۔ ہماری بریکنگ نیوز ہمیشہ منفی کیوں ہوتی ہے؟ ہم مثبت خبر یں کیوں نہیں دیتے۔ پشاور کے سانحے میں 133 بچے شہید ہوئے لیکن اس سانحے میں سیکڑوںبچے زندہ سلامت بھی رہے، یہ بچے خبر کیوں نہیں ہیں۔ ہم نے ان کو خبر کیوں نہیں بنایا؟ ملک میں مثبت بریکنگ نیوز بھی متعارف ہونی چاہیے۔
ہم اب لانگ ٹرم کی طرف آتے ہیں ۔ کھیل،مطالعہ اور تفریح، یہ تین چیزیں انسان کے اعصاب کو ریلیکس کرتی ہیں۔ ہم تینوں میں مار کھا رہے ہیں، آپ معاشرے کو واپس ان 35 سالوںمیں لے جائیں، جب یہ ملک دہشت گردی سے مکمل پاک تھا، آپ کو اس وقت ملک میں کھیل بھی ملیں گے‘لائبریریاں بھی اور تھیٹر بھی‘سینما گھر اور پارک بھی ۔ یہ آج کہاں ہیں ؟ہم سکوائش،ہاکی،کبڈی اور کرکٹ میں دنیا پر حکمرانی کرتے تھے، آج کیوں نہیں ؟ کھیل کو دوبارہ زندہ کریں، ملک میں یورپ کی طرح پرائیویٹ کلب اور کرکٹ ٹیمیں بنوائیںاور میچ کرائیں‘ صوبوں کی ٹیمیں بنوا کر میچ شروع کرادیں۔
صوبے اگر دوسرے صوبے کے کھلاڑی خریدنا بھی چاہیں توانھیں اجازت دے دیں، اس سے ایکٹویٹی جنم لے گی‘ ملک کے تمام اسکولوں میں لائبریریاں بنوائیں‘ ہر کلاس میں کتاب کا پیریڈ رکھیں‘ بچوں کے لیے کھیل کتاب اور موسیقی کو لازم قرار دے دیں‘ ہر بچے کو کوئی نہ کوئی آلہ موسیقی ضروربجانا چاہیے‘ فلم انڈسٹری کو سبسڈی دیں‘ سینما بنوائیں اور غیر ملکی فلموں کو پانچ دس سال کے لیے ٹیکس فری کر دیں‘ ملک کے تمام قصبوں اور شہروں میں چائے خانوں کے لیے جگہ مختص کریں۔
اس جگہ صرف چائے‘ کافی اور لسی کے ریستوراں بنیں تاکہ لوگ ہر شام وہاں بیٹھ سکیں یوں لوگوں کے درمیاں انٹرایکشن بڑھے گا اور اس سے معاشرے کی شدت میں کمی آئے گی اور ہاں آخری تجویز ملک میں فوراً اسلحہ پر پابندی لگا دیں ٗ لوگوں کو ملک میںگن نظر تک نہیں آنی چاہیے، اس سے بھی معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، ہم جب ہر طرف رائفلیں اور پستول دیکھیں گے تو پھر ملک میں امن کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ آپ ذرا سوچئے‘ آپ ذرا غور کیجیے۔

یہ دہشت گردی کی جنگ (حصہ دوم)
جاوید چوہدری جمعرات 25 دسمبر 2014

دنیا اکیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے مذہبی سے سیکولر ہو چکی تھی،سعودی عرب جیسے ملک نے بزنس امیگریشن کھول دی،یہ اب خواتین کو ملازمت اور ڈرائیونگ کی اجازت دے رہا ہے،اسرائیل نے عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے شہریت کی گنجائش پیدا کر دی اور یہ مسجدوں اور چرچوں کی اجازت بھی دے رہا ہے،وائیٹ ہاؤس اور 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ جیسے ایوانوں میں افطار ڈنر اور عید ملن پارٹیاں ہونے لگیں،بھارت میں متعصب ہندوؤں نے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی کوشش کی تو بی جے پی کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مستعفی ہونے کی دھمکی دے دی،ایران جیسے سخت ملک نے بھی یورپ اور امریکا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔
یو اے ای مسلم دنیا کا لندن پیرس اور نیویارک بن گیا،ملائشیا اور انڈونیشیا نے مذہب کو ترقی کے عمل سے الگ کر دیا اور مصر نے سیاحت کے نام پر اخوان المسلمون کے ملک میں یورپی باشندوں کے لیے سماجی برداشت کا چھوٹا سا جزیرہ بنا دیا جب کہ ہم اسلام کے نام پر گلے کاٹنے لگے،ہم نے اللہ کے آخری دین کے دس پندرہ ٹکڑے کیے اور ہر ٹکڑے کو مکمل مذہب قرار دے کر دوسروں کو کافر قرار دینے لگے،ہم شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں اور صرف نام کی بنیاد پر پندرہ پندرہ لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں۔
ہم نے اللہ کی مسجد کو بریلویوں کی مسجد،وہابیوں کی مسجد،اہل حدیث کی مسجد اور شیعوں کی امام بارگاہ بنا دیا،یہ کام جب چل رہا تھا تو ریاست خاموش رہی،مسلح جتھوں نے اس خاموشی کو تائید خداوندی سمجھ کر بندوق کی نلی کے ذریعے اسلام نافذ کرنے کا اعلان کر دیا،تحریک طالبان پاکستان بنی،یہ لوگ وزیرستان میں اکٹھے ہوئے،وہاں سے سوات آئے،سوات میں مقامی انتظامیہ کو قتل کر کے بھگایا اور مالاکنڈ ڈویژن میں ایسا اسلام نافذ کر دیا جس کا معاشرے کے ساتھ کوئی تعلق تھا اور نہ ہی اسلام کے ساتھ۔ ریاست نے محسوس کیا،ہم نے اگر ان لوگوں کو نہ سنبھالا تو امریکا پاکستان میں براہ راست مداخلت کر دے گا،فوج سوات میں اپنے ہی لوگوں کے سامنے کھڑی ہوئی۔
جنگ ہوئی اور ہم نے ان لوگوں کو شکست دے دی جنھیں ہم نے خود پیدا کیا تھا،جن کی ہم نے خود پرورش کی تھی اور جنھیں ہم نے خود پھلنے اور پھولنے کا موقع دیا تھا،سوات کے بعد جنگ جنوبی وزیرستان گئی،ہم نے وہاں بھی بڑی حد تک شورش پر قابو پا لیا،وہاں سے یہ آگ شمالی وزیرستان میں اکھٹی ہو ئی،ہمیں وہاں وقت پر آپریشن کرنا چاہیے تھا لیکن ہم نے بروقت قدم نہ اٹھایا،کیوں نہ اٹھایا؟ اس کی تین وجوہات تھیں،ہم نے دو جرنیلوں کے غیر قانونی اقتدار کو قانونی بنانے کے عمل میں دہشت گردوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا،اچھے دہشت گرد اور برے دہشت گرد،اچھے دہشت گرد وہ تھے جو ہمارے چند عہدیداروں کے اقتدار،اختیار اور ایکس ٹینشن یا ہمارے ’’قومی مفاد‘،کے لیے ہماری درخواست پر افغانستان اور بھارت میں گھس جاتے تھے۔
اپنی جان دیتے تھے اور چند عمارتیں،چند گاڑیاں اور چند معصوم لوگوں کو اڑا دیتے تھے یا پھر دوسرے فریق کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے گاڑی میں بارود بھر کر جلال آباد،کابل،قندھار اور دہلی میں داخل ہو جاتے تھے اور برے دہشت گرد وہ تھے جو ہماری بات نہیں مانتے تھے یا جو ہم پر حملہ کرتے تھے یا پھر جو پاکستان کی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنا تے تھے،ہم اپنے اچھے دہشتگردوں کو مالی،سیاسی اور قانونی مدد بھی دیتے تھے اور ہم ان کے ایسے جرم بھی معاف کر دیتے تھے جن میں ’’غلطی‘،سے دس،بیس،پچاس لوگ مارے جاتے تھے،ہم لوگ اچھے دہشت گردوں کے مطالبے پر ان کے مجرموں کو جیلوں سے بھی چھڑا دیتے تھے۔
ججوں پر بھی دباؤ ڈالتے تھے اور پولیس کو بھی کارروائی سے روک دیتے تھے،امریکا ہماری اس تکنیک کو سمجھ گیا چنانچہ اس نے ہمارے برے دہشت گردوں کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا،بھارت اور روس بھی امریکا کی دیکھا دیکھی میدان میں کودے اور یہ بھی ہمارے برے دہشت گردوں کو مالی،تکنیکی اور سیاسی سپورٹ دینے لگے،یہ انھیں ڈالر بھی دیتے تھے،گولہ بارود بھی اور ٹریننگ بھی۔ یہ لوگ شمالی وزیرستان میں مقیم تھے اور ہم ان اچھے دہشت گردوں کو ہر صورت بچائے رکھنا چاہتے تھے چنانچہ ہم نے آپریشن نہ کیا،آپریشن نہ کرنے کی دوسری وجہ ان لوگوں کی مزاج شناسی تھی،یہ لوگ کیونکہ کبھی ہمارے لوگ رہے تھے چنانچہ یہ ہماری کمزوریوں سے واقف تھے،یہ ہمیں کسی نہ کسی ایسے ایشو میں پھنسا لیتے تھے جس کی وجہ سے ہم بے بس ہوتے چلے گئے،امریکا نے ہمارے اچھے دہشت گردوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے مارنا شروع کر دیا،ہم نے ’’اپنی حدود کی خلاف ورزی‘،کا بہانہ بنا کر اعتراض کیا تو اس نے ایک آدھ حملہ ہمارے برے دہشت گردوں پر بھی کر دیا،ہم جانتے تھے امریکا ہمارے اچھے دہشت گردوں کے بارے میں جانتا ہے۔
ہم نے اگر آپریشن شروع کیا تو یہ ہم سے اچھے دہشت گرد مروا دے گا اور ہم یہ نہیں کرنا چاہتے تھے،سیاستدان اور بیوروکریسی اس صورتحال کو کنٹرول کر سکتی تھی لیکن بد قسمتی سے 35 برسوں میں جتنے سیاستدانوں نے آنکھ کھولی،ان میں سے آدھوں کے ان داتا جنرل ضیاالحق تھے اور آدھوں کے جنرل پرویز مشرف،یہ لوگ حقیقتاً مارشل لاؤں کی پیداوار تھے،یہ لوگ ملک کی خدمت کے بجائے ذاتی مفادات،لالچ،اقتدار کی نا آسودہ خواہشات اور مخالفوں کو نیچا دکھانے کے لیے سیاست میں آئے تھے،ملک ان کا مقصد نہیں تھا چنانچہ یہ دیہاڑیاں لگاتے رہے،جنگوں کے بے شمار المیوں میں سے ایک المیہ دانش،ذہانت اور عقل کی موت ہوتا ہے،ہماری 35 سالہ جنگ نے ملک سے دانشور،ادیب اور فلاسفر بھی ختم کر دیے اور اعلیٰ سیاستدان بھی،سیاست ماجھے گامے کے پاس چلی گئی اور دانش اور ادب میرے جیسے ناسمجھ صحافیوں کے ہاتھ میں آ گئی۔
یوں ہم سیاست اور ادب دونوں کا قبرستان بن گئے،بیوروکریٹس 35 برسوں میں اقتدار کے اصل قبلے کو سمجھ گئے،انھوں نے حکومت اور ریاست کے بجائے وسیع تر قومی مفاد کی ملازمت شروع کر دی،آج ہماری بیورو کریسی کی حالت یہ ہے،عمران خان اور علامہ طاہر القادری اسلام آباد پر حملہ آور ہوتے ہیں تو حکومت کو وفاقی دارالحکومت کے لیے ایس ایس پی نہیں ملتا،حکومت اگر کسی کو یہ ذمے داری سونپ بھی دیتی ہے تو ایک فون آتا ہے اور وہ چھٹی لے کر گھر چلا جاتا ہے،جو بیوروکریٹ ’’وسیع تر قومی مفاد‘،کی ماتحتی میں نہ آیا وہ نوکری سے فارغ ہو گیا یا پھر وہ اسلام نافذ کرنے والوں کے ہتھے چڑھ گیا،ہمارے حکمران بھی اسی صورتحال کا شکار تھے۔
ان میں سے آدھے اسلام نافذ کرنے والوں سے ہمدردی رکھتے تھے اور آدھے وسیع تر قومی مفاد کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے تھے،پانچ سال پورے کرتے تھے اور پانچ سال کی کمائی سمیٹ کر آرام سے کسی کونے کھدرے میں بیٹھ جاتے تھے،اس دوران ایک اور دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا،ہماری غلطیوں کی وجہ سے برے دہشت گرد اور اچھے دہشت گرد اکھٹے ہو گئے اور یہ پاکستان اور امریکا دونوں کو نقصان پہنچانے لگے،یہ نقصان 2013 ء میں وہاں جا پہنچا جہاں فوج اپنی جان اور اچھے دہشت گردوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہو گئی۔ ہم نے ضرب عضب بھی شروع کی اور 16 دسمبر2014ء کے سانحے کے بعد دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف جامع قومی پالیسی بھی بنائی،وزیر اعظم نے کل اعلان کیا پاکستان کا کل نیا ہو گا،کیا واقعی ایسا ہو سکے گا؟ آئیے ہم اب اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے معاشروں کو ایک غلط دن کا تاوان چار دن تک بھگتنا پڑتا ہے اور ہماری کریڈٹ لسٹ پر 35 سال کی غلطیاں ہیں،آپ اس سے قوم کے تاوان کا اندازہ لگا لیں گے،ہم نے ان 35 برسوں میں صرف اپنی مت نہیں ماری بلکہ ہم نے اپنے ملک کو دوسروں کی چراگاہ بھی بنا لیا،ہم خود کو اگر آج ٹھیک بھی کر لیں تو بھی ہم امریکا کو خطے سے کیسے نکالیں گے،امریکا 1988ء کی غلطی نہیں دہرائے گا،یہ افغانستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا اور امریکا جب تک افغانستان میں رہے گا ہم اس کے دوست بھی رہیں گے اور وہ افغان جن کے گھر بار،بچے اور والدین ان 35 برسوں کا رزق بنے وہ بھی ہم سے اور امریکا سے لڑتے رہیں گے،بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے،یہ ہماری دو کمزوریوں سے واقف ہے۔
یہ جانتا ہے ہم افغانستان میں 35 برس سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور ہم کبھی یہ سرمایہ کاری ضایع نہیں ہونے دیں گے چنانچہ بھارت افغانستان کے ذریعے ہمیں انگیج رکھے گا،بھارت یہ بھی جانتا ہے ہم دو سرحدوں پر نہیں لڑ سکتے اور بھارت اگر اپنی سرحدوں پر امن قائم رکھنا چاہتا ہے تو اسے افغان پاکستان بارڈر گرم رکھنا ہو گا،مجھے خطرہ ہے،بھارت کبھی پاک افغان سرحد ٹھنڈی نہیں ہونے دے گا،ہمارے دہشت گرد بھائی بھی جانتے ہیں بھارت ہمارے ہر دشمن کی مدد کرتا ہے،یہ لوگ بھی بھارت سے مدد لیتے رہیں گے،پاکستان عرب باغیوں کا شاندار ٹھکانہ ہے،عرب ملک بھی اپنے باغیوں کو اس ٹھکانے کی طرف دھکیلتے رہیں گے،ایران پاکستان میں شیعہ مسلک پر حملوں کی وجہ سے پاکستانی سیاست میں ملوث ہو چکا ہے،ہم اب اسے بھی آسانی سے نہیں نکال سکیں گے،ہم نے عوام کو 35 برس جہاد کا درس دیا،ہماری دو نسلیں اس درس کے ساتھ پروان چڑھیں۔
یہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہیں،آپ کو یقین نہ آئے تو آپ مذہبی جماعتوں کے اجتماعات دیکھ لیجیے،ہماری ساری سیاسی جماعتیں مل کر بھی اتنے بڑے اجتماع نہیں کر سکتیں،یہ اسٹریٹ پاور سے بھرپور لوگ ہیں،ہماری کمزور ریاست اس اسٹریٹ پاور کا مقابلہ بھی نہیں کر سکے گی،ہم دنیا بھر کی عسکری تحریکوں کا ٹریننگ کیمپ بھی بن چکے ہیں،آج دنیا کے کسی کونے میں عسکری تحریک چلتی ہے تو اس کے ڈانڈے پاکستان میں آ ملتے ہیں،ہم مستقبل قریب میں یہ ڈانڈے بھی نہیں توڑ سکیں گے،اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ میں (خلفاء راشدین کے عہد کو نکال کر) آج تک کوئی مکمل اسلامی ریاست قائم نہیں ہو ئی لیکن ہم 35 سال سے قوم کو یہ یقین دلا رہے ہیں ہم پاکستان میں اسلامی فلاحی ریاست قائم کریں گے۔
عوام اس یقین پر یقین کر چکے ہیں،ہم اب ان کا یہ یقین بھی نہیں توڑ سکیں گے اور پاکستان میں بتدریج وہ تمام ادارے اور شعبے بھی ختم ہو چکے ہیں جو قوموں کو شدت پسندی سے نکالتے ہیں،آپ کھیل کو دیکھئے،مطالعے کی عادت دیکھئے اور فلم اور موسیقی کو دیکھئے آپ کو یہ شعبے زوال کی آخری حدوں کو چھوتے دکھائی دیں گے،ہم اگر آج ان اداروں کو زندہ کرنا چاہیں تو ہمیں کم از کم تیس برس درکار ہوں گے،کیا ہمارے پاس اتنا وقت باقی ہے؟ مجھے آج محسوس ہوتا ہے،قوم نے دو جرنیلوں کے ناجائز اقتدار کو جائز بنانے کے لیے جو غلطیاں کیں آج ان کے تاوان کا وقت آ گیا ہے لیکن ہمیں بہرحال زیادہ مایوس نہیں ہونا چاہیے،ہمیں خود کو بچانے کی آخری کوشش ضرور کرنی چاہیے اور وہ آخری کوشش کیا ہو سکتی ہے،یہ میں اگلی قسط میں آپ کے سامنے رکھوں گا۔
یہ دہشت گردی کی جنگ
جاوید چوہدری جمعرات 25 دسمبر 2014

یہ جنگ بنیادی طور پر دو جرنیلوں کی مہربانی تھی اور اس مہربانی میں سیاستدانوں کی نالائقی‘ مفاد پرستی‘ لالچ اور کم علمی آگ پر تیل ثابت ہوئی‘ یہ 35 برس پرانی دو ایکٹ پر مبنی کہانی ہے‘ کہانی کا پہلا ایکٹ 1980ء میں لکھا گیا‘ جنرل ضیاء الحق ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن چکے تھے‘میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو آمروں کی ایک نفسیاتی مجبوری بتاتا چلوں‘ دنیا بھر کے آمر ناجائز بچے کی طرح ہوتے ہیں‘ یہ پوری زندگی باپ تلاش کرتے رہتے ہیں اور جنگیں آمروں کا آسان ترین باپ ہوتی ہیں۔
آپ تاریخ کو اس زاویئے سے پڑھئے‘ آپ حیران رہ جائیں گے‘ دنیا کی تمام بڑی جنگیں آمروں نے چھیڑیں اور آمروں ہی نے لڑیں‘ جنگیں عوام اور عالمی برادری کی توجہ بٹانے کا شاندار ترین طریقہ ہوتی ہیں اور آمر ہمیشہ یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں‘ پاکستان نے چار بڑی جنگیں لڑیں‘ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگیں‘ 1980ء سے 1988ء تک افغان جہاد اور 2001 سے 2010ء تک دہشت گردی کی عالمی جنگ‘ یہ چاروں جنگیں پاکستان کے آمرانہ ادوار میں لڑی گئیں‘ کیا یہ حسن اتفاق تھا؟ نہیں‘ یہ جنگیں آمریت کو قانونی بنانے کی قدیم ترین تکنیک تھیں‘ آج بھی اگر ملک میں مارشل لاء لگ جائے تو پاکستان پانچویں بڑی جنگ لڑے گا اور یہ جنگ سیکولر اور مذہبی طبقوں کے درمیان ہو گی۔
ہمارا اگلا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اتاترک بن کرمساجد اور مدارس پر پل پڑے گا اور پوری دنیا اس کار خیر میں اسے اسی طرح سپورٹ کرے گی جس طرح اس نے جنرل پرویزمشرف‘جنرل ضیاء الحق‘ جنرل یحییٰ خان اور جنرل ایوب خان کی مدد کی تھی‘ آمر دنیا میں ہمیشہ چار بڑے کام کرتے ہیں‘ یہ کوئی نہ کوئی بڑی جنگ چھیڑتے ہیں‘ یہ عالمی طاقتوں کو کوئی نہ کوئی ایسی بڑی ’’فیور‘‘ دیتے ہیں جو جمہوری لیڈر نہیں دے سکتے‘ یہ اپنی سیاسی جماعت بناتے ہیں‘ اس شاہی جماعت میں ملک کے ان تمام طبقوں کو شامل کر لیتے ہیں جو آمر کے اقتدار کو چیلنج کر سکتے ہیں اور یہ عوام کو آٹے‘ گھی اور دال سے لے کر بجلی‘ گیس اور پٹرول میں بے تحاشہ سبسڈیز دیتے ہیں‘یہ نوازش ملکی قرضوں میں اضافہ کر دیتی ہے اور آمر جب رخصت ہوتے ہیں تو نئی حکومت کے لیے یہ سبسڈیز جاری رکھنا ممکن نہیں ہوتا‘ چیزیں اصل قیمت پر آ جاتی ہیں‘ مفت خوری کے عادی لوگ بلبلا اٹھتے ہیں اور بآواز بلند کہتے ہیں ’’آمریت اس جمہوریت سے لاکھ درجے بہتر تھی‘‘ آپ اس تھیسس کو سامنے رکھئے اور پاکستان کے آمرانہ ادوارکا جائزہ لیجیے‘ہم واپس 1980ء میں آتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق اقتدار پر قابض بھی ہو چکے تھے اور جمہوری لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود پھانسی بھی دے چکے تھے‘ وہ ملک اور بیرون ملک بری طرح غیرمقبول تھے‘ جنرل صاحب کو اس غیر مقبولیت کو مقبولیت میں تبدیل کرنے کے لیے ایک ایسی جنگ چاہیے تھی جو پوری دنیا کی توجہ کھینچ لے‘ قدرت نے جنرل صاحب کی مدد کی‘ سوویت یونین دسمبر 1979 میں افغانستان پر قابض ہو گیا‘ امریکا نے روس سے نبٹنے کے لیے ایران کو تیار کر رکھا تھا مگر ایران میں انقلاب آ گیا اور ’’مولوی‘‘ اقتدار پر قابض ہو گئے‘ امریکا نے ویتنام میں تازہ تازہ ہزیمت اٹھائی تھی‘ اس کے لیے افغانستان میں فوجیں اتارنا مشکل تھا‘ جنرل ضیاء الحق زیرک انسان تھے‘ وہ امریکا اور یورپ کی پوزیشن سمجھتے تھے چنانچہ انھوں نے چارلی ولسن کے ذریعے امریکی حکومت کو ایک عجیب پیش کش کی‘ انھوں نے امریکا سے کہا ’’آپ ہمیں صرف رقم اور اسلحہ دے دیں۔
آپ کی جنگ ہم لڑیں گے‘‘ امریکا کے لیے یہ آفر انتہائی مناسب تھی‘ امریکا مان گیا یوں جنرل ضیاء الحق پاکستان سمیت افغان روس جنگ میں کود پڑے‘ ڈالر اور اسلحہ امریکا دیتا رہا اور جنگ میں شہید مدارس کے طلباء‘ مذہبی سیاسی جماعتوں کے کارکن اور عام غریب پاکستانی ہوتے رہے‘ یہ جنگ امریکا اور روس کی جنگ تھی مگر اس جنگ میں امریکا کا ایک بھی سپاہی نہیں مرا ‘دنیا کی اس عظیم جنگ پر امریکا کے صرف تین ارب ڈالر خرچ ہوئے اور دنیا کی دوسری سپر پاور ماضی کا حصہ بن گئی‘ اس جنگ کے بدلے جنرل ضیاء کو کیا ملا؟ امریکا نے انھیں یونیفارم میں صدر تسلیم کر لیا‘ امریکا میں ان کافقید المثال استقبال ہوتا‘ ہمیں سٹینگر میزائل اور ایف 16 طیارے ملے اور ہم سینہ کھول کر دوسری سپر پاور کے سامنے کھڑے ہو گئے‘ جنرل صاحب اس جنگ میںصرف امریکا اور یورپ تک محدود نہ رہے بلکہ انھوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کی وجہ سے ناراض عربوں کوخوش کرنے کے لیے اپنا ملک عرب باغیوں کے لیے بھی کھول دیا‘ عرب باغی جہاد کے لیے یہاں آئے اور ہمیشہ کے لیے یہاں آباد ہو گئے۔
جنرل ضیاء الحق ملک کے امیر المومنین بن گئے‘ یہ ملک کے تامرگ حکمران بھی تسلیم کر لیے گئے لیکن ملک کو ان کی امارت کی کڑی سزا بھگتنا پڑی‘ یہ معتدل ملک مذہبی شدت پسندی کا شکار ہو گیا‘ ملک میںعسکری تربیت کے کیمپ بنے‘ جہاد کے فتوئے جاری ہوئے‘ مساجد منافرت کے لیے استعمال ہونے لگیں‘ ملک شیعہ اور سنی میں تقسیم ہوا اور دونوں فرقوں نے رائفلیں اٹھا لیں‘ جہاد کے لیے اسلحہ آیا‘ یہ اسلحہ عام لوگوں تک پہنچا اور افغان متحارب گروہوں کی فنڈنگ کے لیے منشیات کی اسمگلنگ شروع ہوگئی‘ یہ سلسلہ 1988ء تک جاری رہا‘ روس فروری 1989ء میں افغانستان سے نکلا تو ملک میں ایک لاکھ ٹرینڈ مسلح لوگ موجود تھے‘ ان مسلح افرادکے حامی مدارس بھی تھے اور مساجد بھی۔جنرل ضیاء الحق اس وقت تک جہادی سیاستدانوں کی ایک فوج بھی تیار کر چکے تھے۔
یہ سیاستدان افغان وار کو جہاد بھی سمجھتے تھے اور مجاہدین اور ان کی مدد کرنے والے اسمگلروں کے ہاتھ بھی چومتے تھے لیکن معاشرہ اس وقت تک تباہ ہو چکا تھا‘ ہم اندھے کنوئیں میں گر چکے تھے‘ افغان وار کے بعد لاکھوں ٹرینڈ سپاہیوں کے پاس کوئی کام نہیں تھا‘ یہ ریاست کے لیے کھلم کھلا چیلنج تھے‘ جنرل ضیاء الحق کے بعد فوج کی نئی قیادت نے ان میں سے کچھ کو کشمیر میں کھپا دیا اور جو باقی بچ گئے انھیں جنرل نصیر اللہ بابر نے طالبان کے ظہور کے بعد افغانستان بھجوا دیا‘ یہ تکنیک جلے پر برف ثابت ہوئی‘ درد عارضی طور پر ختم ہو گیا لیکن بیماری متعدی بن گئی‘ یہ جنگ کا پہلا ایکٹ تھا‘ یہ ایکٹ صرف ایک جرنیل کے اقتدار کے لیے تحریر کیا گیا اور اس ایکٹ نے نہ صرف معتدل معاشرے کو شدت پسند بنا دیا بلکہ ملک کو دہشت گردی‘ مذہبی شدت پسندی‘ فرقہ واریت‘ ہیروئن اور گولے بارود کا کھیت بھی بنا دیا۔
جنگ کا دوسرا ایکٹ 2001ء میں لکھا گیا‘ جنرل پرویز مشرف میاں نواز شریف کو فارغ کر کے اقتدار پر قابض ہو چکے تھے‘ یہ بھی آمر تھے اور انھیں بھی اپنے اقتدار کو ملک اور بیرون ملک قابل قبول بنانے کے لیے کسی بڑی جنگ کی ضرورت تھی‘قدرت نے ان پر بھی نوازش کی اور 2001ء میں نائین الیون ہوگیا ‘ وہ جرنیل آج بھی زندہ ہیں جنہوں نے ٹوئن ٹاورز گرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف کو مبارکباد کے فون کیے تھے‘ امریکا کو جس طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں روسیوں کی گولیوں کے لیے پاکستانی سینے درکار تھے‘بالکل اسی طرح جنرل مشرف کے دور میں ایک بار پھر طالبان کی گولیوں کے لیے ہمارے جسم چاہیے تھے۔ جنرل مشرف نے فوراً ہاں کر دی‘ اس ہاں کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف پوری دنیا کے لیے یونیفارم میں قابل قبول ہو گئے مگر ملک کا رہا سہا جنازہ بھی نکل گیااور ہم ان مجاہدین کے دشمن بھی ڈکلیئر ہو گئے جنھیں ہم نے اسی کی دہائی میں خود بنایا تھا۔
ہم ان طالبان کے بھی دشمن نمبر ون ہو گئے جنھیں ہم نے 1994ء میں افغانستان میں سیٹل کیا تھا اور ہم ان پاکستانی مجاہدین کے لیے بھی کافروں کے دوست اور قابل گردن زنی ہو گئے جن کی جیب میں پاکستان کا شناختی کارڈ تھا اور ہم نے جنھیں پاکستان سے بھرتی کر کے ٹریننگ دی تھی‘ جنرل مشرف اس کے بعد غلطیاں کرتے رہے اور افغانستان کی جنگ پاکستان میں داخل ہوتی رہی‘ یہ جنگ جنرل مشرف کی مہربانی سے بلوچستان میں بھی آئی‘ جنوبی وزیرستان بھی پہنچی‘ سوات بھی آئی اور شمالی وزیرستان بھی گئی ‘ ہمیں جب اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو اس وقت تک ہمارے 55 ہزار لوگ شہید ہو چکے تھے‘ ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا تھا‘ ریاستی ادارے تباہ ہو چکے تھے‘ فوجی اداروں اور عمارتوں پر حملے ہو چکے تھے‘ قوم نفسیاتی مریض بن چکی تھی‘ پاکستان دنیا کے لیے خطرناک ترین ملک ڈکلیئر ہو چکا تھا اور وہ امریکا اور یورپ جن کے لیے ہم 35سال سے لڑ رہے تھے وہ ہم پر درجنوں پابندیاں لگا چکے تھے‘ ہم بری طرح پھنس چکے تھے۔
ہم اب آگے چلنے سے قبل یہ فیصلہ کرتے ہیں ہم نے ان 35 برسوں میں کیا پایا‘ ہمیں صرف دو فائدے ہوئے‘ ایک دنیا نے جنرل ضیاء الحق کو تامرگ حکمران تسلیم کر لیا‘ دو‘ جنرل پرویز مشرف 2008ء تک بلاشرکت غیرے پاکستان کے حکمران رہے اور بس۔ ہم نے نقصان کیا اٹھائے؟ ہم نے معاشرے کا توازن کھو دیا‘ دنیااکیسویںصدی میں مذہب سے سیکولر ہو گئی‘ سعودی عرب نے بزنس امیگریشن کھول دی‘ خواتین کو ملازمت اور ڈرائیونگ کی اجازت دے دی‘ اسرائیل عیسائیوں اور مسلمانوں کو شہریت دینے لگا‘ مسجدوں اور چرچز کی اجازت دینے لگا‘ وائیٹ ہاؤس اور 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں افطار ڈنر ہونے لگے‘عید ملن پارٹیاں ہونے لگیں‘ بھارت میں مسلمان کو شدھی کرنے کی مہم پر نریندر مودی نے استعفیٰ دینے کی دھمکی دے دی‘ ایران میں (باقی کل)۔

وزیراعظم اور عمران خان کے لیے
جاوید چوہدری پير 22 دسمبر 2014

آپ ولید ابو ہریرہ کی مثال لیجیے، ولید کی عمر چودہ سال ہے، یہ آرمی پبلک اسکول ورسک روڈ میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا، ولید اسکول کا ذہین ترین طالب علم تھا، یہ امتحان میں ہمیشہ اول آتا تھا، یہ اپنی کلاس کا پراکٹر بھی تھا، یہ 16 دسمبر کو اسکول کے آڈیٹوریم میں تھا، آڈیٹوریم کی پہلی قطار میں چھ پراکٹر بیٹھے تھے، ولید بھی ان میں شامل تھا، دہشت گرد صبح 10بجے کر بیس منٹ پر آڈیٹوریم میں داخل ہوئے، یہ پہلی قطار کے قریب پہنچے اور فائر کھول دیا، قطار میں بیٹھے پانچ پراکٹر شہید ہو گئے جب کہ ولید کے منہ اور گردن پر درجنوں گولیاں لگیں، یہ شدید زخمی ہو گیا، دہشت گرد اسے ہلاک سمجھ کر آگے بڑھ گئے، اللہ تعالیٰ کو ولید کا مزید امتحان مقصود تھا، یہ شاید اسی لیے بچ گیا، ولید اس وقت سی ایم ایچ پشاور میں داخل ہے۔
بچے کا پورا چہرہ اڑ چکا ہے، ولید کا جبڑا، زبان، تمام دانت، آدھا نچلا ہونٹ، ناک، رخسار، تھائی رائیڈ گلینڈ اور سانس کی نالی کا بڑا حصہ دہشت گردوں کی گولیوں نے اڑا دیا، یہ اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے، اللہ تعالیٰ نے ولید کو زندگی تو دے دی مگر اسے چہرے کی بحالی کے لیے کم از کم دو سال بیسیوں سرجری کروانی پڑیں گی، ملک کے صرف ایک پرائیویٹ اسپتال میں اس کا علاج ممکن ہے، ولید کے والد نے اسپتال سے رابطہ کیا، ڈاکٹرں نے ولید کی تصویریں دیکھنے کے بعد اپنی فیسیں معاف کر دیں لیکن اس کے باوجود بچے کی بحالی کے لیے 50لاکھ روپے درکار ہیں، ولید کا والد گلزار محمد پشاور میں ٹائروں کا کاروبار کرتا ہے، یہ پانچ بچوں کا والد ہے، باقی تمام بچے بھی زیر تعلیم ہیں، آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، کیا ولید کا والد اپنے بیٹے کا علاج کرا سکے گا؟ کیا یہ خاندان دو سال تک بیٹے کو اسپتالوں میں رکھ سکے گا؟ آپ سوچئے اور اس کے بعد اس مسئلے کا حل بتائیے۔
یہ معاملہ صرف ولید ابوہریرہ تک محدود نہیں، دہشت گردوں نے 16 دسمبر 2014 کو زیادہ تر بچوں کے چہروں، گردنوں اور سر کو نشانہ بنایا تھا، ڈیڑھ سو کے قریب بچے شہید ہو گئے جب کہ اتنے ہی شدید زخمی ہیں، ان زخمیوں میں 65 بچے ولید کی طرح بے چہرہ ہو چکے ہیں،یہ اب مہنگے اور طویل ترین علاج کے عمل سے گزریں گے،و لید جیسے پچاس بچے سی ایم ایچ میں ہیں اور 15 بچے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں موجود ہیں، ان 65 بچوں کے چہروں پر گولیاں لگی ہیں، آپ جانتے ہیں دنیا میں کاسمیٹک سرجری مہنگی بھی ہے، طویل بھی اور مشکل بھی۔
پاکستان میں یہ علاج دستیاب نہیں، ہم اگر ملک کے تمام کاسمیٹک سرجنوں کو جمع کر لیں تو بھی ان 65 بچوں کو بحال نہیں کیا جاسکتا اور اگر یہ ممکن بھی ہو تو بھی مڈل کلاس والدین یہ افورڈ نہیں کر سکیں گے، میری وزیراعظم اور عمران خان سے درخواست ہے آپ فوری طور پر یہ ایشو بھی دیکھیں، وزیراعظم ان تمام بچوں کے علاج کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کریں اور دنیا کے جس جس ملک میں ان بچوں کا علاج ممکن ہے حکومت ان بچوں کو فوری طورپر وہاں بھجوائے، عمران خان نے دھرنے پرایک ارب روپے خرچ کر دیے، یہ بھی ان بچوں کی ذمے داری اٹھا سکتے ہیں، صوبائی حکومت آدھے اخراجات برداشت کرے اور آدھی رقم عمران خان ڈونیشن سے جمع کریں۔
یہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے چیتوں اور چیتیوں سے درخواست کریں، اکاؤنٹ کھولیں اور ان بچوں کا علاج کرائیں، یہ ممکن نہ ہو تو حکومت دوسرے ملکوں سے مدد مانگ لے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکا بڑی آسانی سے ہماری مدد کر سکتے ہیں، دبئی میں کاسمیٹک سرجری کے درجنوں اسپتال ہیں، فرانس، جرمنی اور برطانیہ بھی اس ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہیں، ترکی اور امریکا بھی اس سرجری میں کسی سے کم نہیں ، وزیراعظم ان حکومتوں سے ذاتی حیثیت میں درخواست کر سکتے ہیں، برطانیہ اگر ملالہ کے معاملے میں ہماری مدد کر سکتا ہے تو یہ ہمارے ان 65 بچوں کی بحالی میں بھی ہماری معاونت کر سکتا ہے جن میں سے ہر بچہ ملالہ کی طرح ذہین اور جرأت مند ہے۔
حکومت نے فوری قدم نہ اٹھایا تو یہ بچے ہماری قومی بے حسی کی عبرت ناک مثال بن جائیں گے، یہ بچے اور ان کے والدین اللہ تعالیٰ سے بار بار پوچھیں گے ،، اس سانحے میں ہم بھی کیوں نہیں مارے گئے،، یہ لوگ یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کیونکہ زخمی جاں بحق ہونے والوں سے زیادہ مظلوم ہوتے ہیں، مرنے والے تو ایک ہی جست میں زندگی کی حد پار کر جاتے ہیں لیکن زخمی بالخصوص جن کے چہرے متاثر ہو جاتے ہیں، یہ روز مرتے اور روز جیتے ہیں، کاش ہم ان بچوں کو روز مرنے اور روز جینے سے بچا پائیں۔
میں وزیراعظم اور پوری ریاست سے درخواست بھی کرنا چاہتا ہوں، ہم اس سانحے کو سامنے رکھتے ہوئے بچوں کے لیے چند بڑے فیصلے کرسکتے ہیں، حکومت فوری طورپر کالج تک کے طالب علموں کی لائف انشورنس کروائے، انشورنس کی آدھی رقم اسکول ادا کریں اور آدھی رقم بچوں کے والدین سے وصول کی جائے، والدین اگر ادا نہ کر سکیں تو یہ رقم حکومت ادا کرے اور جب بچہ بڑا ہو کر برسر روزگار ہو جائے تو حکومت انشورنس کی رقم اس سے واپس لے لے، ملک کے کسی اسکول اور کالج کا بچہ اس وقت تک امتحان نہ دے سکے جب تک وہ رول نمبر کے ساتھ انشورنس نمبر نہ لکھے، یہ انشورنس نمبر بعد ازاں بچے کے ساتھ ساتھ چلتا رہے۔
یہ گاڑی خریدے تو گاڑی کی انشورنس اسی نمبر میں شامل ہو،یہ شادی کرے، جاب کرے، سیاست میں آئے یا پھر ملک سے باہر سفر کرے تو انشورنس نمبر اس کے ساتھ ساتھ چلے، یہ انشورنس نمبر اس کی میڈیکل ہسٹری بھی ہو، انشورنس کمپنیاں سال میں دو مرتبہ اس کا میڈیکل چیک اپ کرائیں اور تمام رپورٹس اپنے ڈیٹا ہاؤس میں جمع رکھیں، یہ ڈیٹا اس شخص کی پوری میڈیکل ہسٹری ہوگی، اسکول سے انشورنس شروع کرنے کے چار فائدے ہوںگے، ایک، ولید جیسے سیکڑوں ہزاروں بچوں کو حادثوں اور سانحوں کے بعد علاج کے لیے حکومت کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا، یہ بچے امداد کے بغیر باعزت طریقے سے اپنا علاج کرا سکیں گے، دو، شہریوں کو انشورنس کی عادت پڑ جائے گی،یہ پوری زندگی خود اور اپنے خاندان کی انشورنس کرائیں گے، تین، ملک کے تمام بچوں کا ڈیٹا حکومت کی رسائی میں آجائے گا، حکومت چند لمحوں میں ملک کے تمام بچوں کے بارے میں جان لے گی۔
بچوں کی عمر سے لے کر ان کی صحت اور ان کی تعلیمی قابلیت تک تمام معلومات حکومت کے پاس ہوں گی اور چار، لوگوں کو اپنی صحت کی فکر ہو گی، یہ سال میں جب دو بار اپنا طبی معائنہ کرائیں گے تو انھیں اپنی جسمانی حالت کے بارے میں معلومات ملتی رہیں گی اور اس کا ان کی صحت پر اچھا اثر ہو گا، حکومت اگر فوری طورپر ملک کے تمام بچوں کے لیے یہ قانون نہ بنا سکے تو اسے کم از کم پرائیویٹ اسکولوں کو انشورنس کے لیے پابند ضرور کرنا چاہیے، یہ پابندی ملک میں صحت کے شعبے میں جدت اور معاشی سرگرمیاں بھی پیدا کرے گی، حکومت کو پرائیویٹ اسکولوں کو سیکیورٹی کے انتظامات کی ہدایت بھی کرنی چاہیے، ملک کے پندرہ بڑے شہروں کے پرائیویٹ اسکولوں کو اپنی عمارتوں کے باہر اور اندر مورچے بھی بنانے چاہئیں اور اسکولوں کی چار دیواریوں کو بھی مضبوط بنانا چاہیے، اسکول منافع کمانے کی فیکٹریاں ہیں، حکومت کو انھیں خرچ پر بھی مجبور کرنا چاہیے۔
حکومت فوج کو اختیار دے، فوج تمام پرائیویٹ اسکولوں کا معائنہ کرے، اسکول انتظامیہ کو سیکیورٹی کی ہدایات دے اور جو اسکول ان ہدایات پر عمل نہ کریں حکومت وہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند کر دے،ہم حالت جنگ میں ہیں تو پھر ہمارے تعلیمی اداروں، ان کی انتظامیہ اور ان کے مالکان کو بھی جنگ کی سنگینی کا اندازہ ہونا چاہیے، انھیں تھوڑی سی مالی قربانی بھی دینی چاہیے، امریکا میں رہائشی اور دفتری عمارتوں میں ،،پینک روم،، ہوتے ہیں، یہ کمرے بنکر کی طرح ہوتے ہیں، ان میں ہفتہ بھر کا خشک راشن اور پانی بھی ہوتا ہے، حکومت کو چاہیے یہ مہنگے تعلیمی اداروں کو ،،پینک روم،، بنانے کی ہدایت کرے تاکہ ایمر جنسی کی صورت میں انتظامیہ بچوں کو ان پینک رومز،، میں محفوظ کر سکے، ہمارے اسکولوں میں بچوں اور اساتذہ کو ہنگامی صورتحال سے بچنے کی تربیت بھی نہیں دی جاتی، ہمارے بچوں کو فائرنگ اور بموں کے دوران زمین پر لیٹنے اور آڑ لینے کی ٹریننگ نہیں ہوتی، ہمارے بچے آگ تک بجھانے کی تکنیک سے واقف نہیں ہیں، حکومت کو چاہیے یہ اسکول انتظامیہ کو بچوں کی ٹریننگ کا بندوبست کرنے کا پابند بنائے۔
سیکیورٹی کمپنیاں اور ادارے مہینے میں کم سے کم ایک بار اسکول آئیں اور کلاسوں میں جا کر بچوں کو سیکیورٹی پر لیکچر دیں، اسکولوں میں ایمر جنسی سائرن بھی ہونے چاہئیں، یہ سائرن طاقتور ہونے چاہئیں اور اسکول میں جوں ہی کوئی ایمر جنسی ہو یہ سائرن بجا دیے جائیں تاکہ پولیس اور عام شہریوں کو اطلاع ہو جائے اور حکومت کو بچوں کو گردوپیش پر نظر رکھنے کی ٹریننگ بھی دینی چاہیے، دہشت گرد ہمیشہ ریکی کرتے ہیں اور یہ ریکی کئی دنوںتک چلتی ہے، بچوں کو چاہیے یہ اسکول کے ارد گرد کھڑے لوگوں پر نظر رکھیں اور انھیں جوں ہی کوئی مشکوک شخص نظر آئے یہ انتظامیہ کو اطلاع دے دیں اور انتظامیہ پولیس کو خبر کر دے لیکن یہ سارے لانگ ٹرم انتظامات ہیں، حکومت کو فوری طور پر ولید جیسے 65 بچوں کے لیے عملی قدم اٹھانا چاہیے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو یہ واقعہ داغ بن کر ہمیشہ ان 65 بچوں کے چہروں پر درج ہو جائے اور ان بچوں کے چہرے چیخ چیخ کر دنیا کو یہ بتاتے رہیں ،،کاش ہم بھی 16 دسمبر کوشہید ہو گئے ہوتے۔،،

عفریت
جاوید چوہدری ہفتہ 20 دسمبر 2014

اور ایک ظہیر ماڈل بھی ہے، ظہیر صاحب کراچی کے بڑے بزنس مین ہیں، آج سے 22 سال قبل ان کا اکلوتا بیٹا حادثے کا شکار گیا، بیوی دوسری بار ماں بننے کی صلاحیت سے محروم تھی، ظہیر صاحب کے پاس دو آپشن تھے، یہ نئی شادی کرتے یا پھر باقی زندگی اولاد کے بغیر گزار دیتے لیکن ظہیر صاحب تیسرے آپشن کی طرف چلے گئے، یہ ایک دن کراچی کے بڑے یتیم خانے میں گئے، اپنے مرحوم بیٹے کا ہم عمر تلاش کیا، بچہ گود لیا، گھر لائے، بچے کا نام بدل کر اپنے مرحوم بیٹے کا نام رکھ دیا اور بچے کو اسی اسکول میں داخل کرا دیا ۔
جس اسکول میں ان کا بیٹا پڑھتا تھا، نیا بیٹا سال گزرنے کے بعد ان کا پورا بیٹا بن گیا، یہ دونوں میاں بیوی مرحوم بیٹے کو بھول گئے، ظہیر صاحب کا لے پالک بیٹا جوان ہوا، اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سارا کاروبار سنبھال لیا، یہ بیٹا شائستہ بھی ہے، مہذب بھی، خوف خدا سے مالامال بھی اور خدمت گزار بھی۔ آپ نے اگر کسی بیٹے کو ماں باپ کے پاؤں دھو کر پیتے دیکھنا ہو تو آپ ظہیر صاحب کے لے پالک بیٹے کو دیکھئے،ظہیر صاحب کے بیٹے نے والدین کی محبت اور اطاعت میں مثال قائم کر دی، ظہیر صاحب اور ان کی اہلیہ آج اپنے اس فیصلے پر بہت خوش ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک بیٹا لے کر انھیں پہلے سے بہتر بیٹا دے دیا، دوست ظہیر صاحب کے اس فیصلے کو ظہیر ماڈل کہتے ہیں۔
ہماری دنیا میں کامیاب ہونے والے 82 فیصد لوگ یتیم، طلاق یافتہ والدین کے بچے یا پھر سنگل پیرنٹس کی اولاد ہوتے ہیں،سائنسی تحقیق نے ثابت کیا، یتیمی انسان کے اندر ایک عجیب فورس پیدا کرتی ہے، یہ فورس انسان کو کہیں سے کہیں لے جاتی ہے، آپ آج دنیا کے 20 بڑے شعبوں کے بیس کامیاب ترین لوگوں کی فہرست نکالیںاور ان کے پروفائل پڑھیں، آپ کو میری بات پر یقین آ جائے گا، اگریتیمی بڑی طاقت نہ ہوتی تو اللہ کے آخری نبیؐ یتیم نہ ہوتے، یتیمی میں کوئی نہ کوئی ایسی طاقت تھی۔
جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی کو یتیم پیدا کیا اور پھر چھ سال کی عمر میں ان کے سر سے والدہ کا سایہ بھی اٹھا لیا، آپ تاریخ کا مطالعہ کریں، آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے، دنیا کے زیادہ تر بڑے لیڈر، بڑے سپہ سالار بچپن میں یتیم ہو گئے تھے، وہ یتیمی میں بڑے ہوئے اور پھر جوان ہو کر پوری دنیا کی شکل بدل دی، محرومی شاید انسان کی صلاحیتوں کے لیے کک ثابت ہوتی ہے اور یتیم کیونکہ اپنی زندگی کے ابتدائی حصے میں دنیا بھر کی محرومیاں دیکھ لیتا ہے چنانچہ یہ جوان ہونے تک زمانے کی تمام گرم ہواؤں کا ذائقہ چکھ لیتا ہے،ہم دوست اپنے دوستوں کو مشورے دیتے ہیں آپ زندگی میں کم از کم ایک بچہ یا بچی ضرور گود لیں، یہ بچی یا بچہ آپ کے اپنے بچوں سے بہتر ثابت ہو گا ، ہمارے جن دوستوں نے ظہیر ماڈل پر کام کیا وہ آج جھولی پھیلا کر دعائیں دے رہے ہیں۔
پشاور کا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا المناک ترین واقعہ تھا، دہشت گردوں نے 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول کے 132 بچوں کو قتل کر دیا، اس واقعے نے پوری دنیا کے انسانوں کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا، پوری دنیا پاکستان کے ساتھ اس وقت مغموم ہے، ہم لوگ کوشش کے باوجود اپنے اندر سے دکھ نہیں نکال پا رہے، ہم اس غم میں دوسری اور تیسری صف کے لوگ ہیں، آپ ان والدین کی حالت کا اندازہ لگائیے جو صبح خود اپنے بچوں کو اسکول چھوڑ کر آئے اور سہ پہر اور شام کے وقت انھیں بچوں کی کٹی پھٹی لاشیں ملیں، یہ اپنے مرے ہوئے بچوں کے چہرے تک نہ دیکھ سکے، یہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ عملاً فوت ہو چکے ہیں، یہ اب نفسیاتی لحاظ سے کبھی بحال نہیں ہو سکیں گے۔
میری ان والدین سے درخواست ہے آپ اگر ظہیر ماڈل پر چلے جائیں، آپ اگر ملک کے مختلف یتیم خانوں سے اپنے بچوں کے ہم عمر اور ہم نام تلاش کرلیں، آپ ان بچوں کو گود لیں،آپ انھیں اسی اسکول میں پوری مراعات کے ساتھ داخل کرائیں اور آپ ان یتیم بچوں کے وہ سارے نخرے برداشت کریں جو آپ اپنے بچوں کے برداشت کرتے تھے تو یقینا آپ کے غم میں کمی آ جائے گی، یہ حقیقت ہے ہمارے بچے ہمارے جگر کا ٹکڑا ہوتے ہیں اور آپ کسی دوسرے کے جگر کے ٹکڑے کو اپنے جگر کا حصہ نہیں بنا سکتے لیکن اللہ تعالیٰ نے یتیم بچوں میں ایک عجیب صلاحیت رکھی ہے، انسان جب کسی یتیم بچے کو اپنے بچے کی جگہ دیتا ہے تو یتیم بچہ نہ صرف جلد مرحوم بچے کی جگہ لے لیتا ہے بلکہ یہ انسان کی زیادہ محبت اور زیادہ توجہ کھینچ لیتا ہے چنانچہ مجھے یقین ہے اگر مرحوم بچوں کے والدین ظہیر ماڈل پرآ جائیں تو انھیں اپنے کھوئے ہوئے بچے بھی واپس مل جائیں گے، ان کی نفسیاتی بحالی کا عمل بھی تیز ہو جائے گا اور یہ غم اور دکھ سے بھی جلد چھٹکارہ پا جائیں گے۔
ہماری ریاست بھی 68 سال میں پہلی بار دہشت گردی کے خلاف متحد اور متحرک ہوئی ہے،حکومت نے اگر اسی طرح اپنا دباؤ قائم رکھا، یہ دن رات دہشت گردوں کی سرکوبی کرتی رہی تو پاکستان چھ ماہ میں تبدیل شدہ ملک ہو گا لیکن حکومت کو دہشت گردی کے خلاف جامع پالیسی بنانی ہو گی اور پالیسی بناتے وقت چند نقطوں کا خیال رکھنا ہوگا، حکومت اگر ان نقطوں کو سمجھ گئی اور اس نے پالیسی میں اگر ان کو شامل کر لیا تو ہمارا ملک دو برسوں میں اس عفریت پر مکمل قابو پا لے گا بصورت دیگر یہ بیماری ایک دوبرسوں میں زیادہ شدت کے ساتھ ملک پر حملہ کرے گی اور ہم شاید اس وقت اس پر قابو نہ پا سکیں، ہمارے ملک میں دہشت گردی کی چار بڑی وجوہات ہیں۔
حکومت کوان چاروں وجوہات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنانا ہو گی، ہمارے ملک میں دہشت گردی کی پہلی وجہ مذہب کی غلط تشریح ہے، دنیا کے تمام مذاہب پرامن ہیں، ہم اسلام کے پیرو کار ہیں، اسلام کا مطلب سلامتی ہے اور سلامتی امن کے بغیر نہیں ہوتی مگر ہمارے علماء کرام بدقسمتی سے اسلام کی اصل اسپرٹ معاشرے تک نہیں پہنچا سکے، ہم نے اسلام کو امن اور سلامتی کے بجائے نفاق، فرقہ پرستی اور قتال کا ذریعہ بنا دیا،دنیا میں آج تک کوئی مذہبی ریاست قائم نہیں رہ سکی، دنیا میں صرف وہ معاشرے قائم رہتے ہیں جن میں جمہوریت پہلے آتی ہے اور مذہب بعد میں لیکن ہمارے معاشرے میں مذہب کو جمہوریت، قانون، آئین اور سماجی اخلاقیات چاروں پر فوقیت حاصل ہے اور ترتیب کی یہ خرابی ہے۔
جس کی وجہ سے آج اسلام کے نام پر بننے والا ملک اسلام ہی کے نام پر ٹوٹ رہا ہے، حکومت کو فوری طور پر یہ ترتیب بدلنا ہوگی، حکومت مذہب کو اجتماعی کے بجائے انفرادی حق ڈکلیئر کرے، ملک میں کسی کے عقائد پر انگلی اٹھانا قتل جتنا بڑا جرم ہونا چاہیے، ہمارے نام صرف نام ہونے چاہئیں، ان سے فرقے کی شناخت نہیں ہونی چاہئیں، حکومت کو نقوی، جعفری، کاظمی، صدیقی، بریلوی اور فاروقی تمام تخلص، تمام سابقوں اور لاحقوں پر پابندی لگا دینی چاہیے، کوئی شخص کسی سرکاری دستاویز میں فرقے کی نشاندہی کرنے والا سابقہ یا لاحقہ نہ لکھوا سکے، پورے شہر میں صرف ایک وقت اذان ہو، یہ اذان اگر قومی نشریاتی رابطے سے ہو تو سونے پرسہاگہ ہو گا، مساجد سے لاؤڈ اسپیکر اتروا دیے جائیں۔
جمعہ کے لیے علماء کرام سے 52 خطبے تیار کروائے جائیں اور یہ خطبے بھی تربیتی ہونے چاہئیں اختلافی نہیں، امام حضرات جمعہ کو ان خطبوں میں سے کوئی ایک خطبہ دے سکیں، یہ ان سے باہر ایک لفظ نہ بول سکیں، مساجد صرف سرکاری اجازت سے قائم ہو سکیں،مؤذن اور امام کا فیصلہ حکومت کرے، مدارس رجسٹر کرائے جائیں اور سلیبس سرکار فراہم کرے، ملک بھر سے تمام اختلافی مواد ضبط کر لیا جائے، انٹر نیٹ پر جس مولوی کا اختلافی بیان ملے اسے عمر قید دے دی جائے، توہین رسالت کا فیصلہ ریاست کرے،جو شخص یہ فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے، اسے پھانسی دی جائے اور ملک میں مذہبی جلوسوں اور اجتماعات پرپابندی لگا دیں،دہشت گردی کی دوسری وجہ اسلحہ ہے، یہ ملک اسلحے کا ڈپو بن چکا ہے، حکومت فوری طور پر اسلحے پر پابندی لگا دے، ملک میں ڈنڈے اور چاقو کے علاوہ کوئی اسلحہ نہیں ملنا چاہیے۔
حکومت اسلحے پر پابندی بھی لگائے اور کڑی سزا بھی تجویز کرے، ملک میں جب تک اسلحہ موجود ہے، آپ دہشت گردی نہیں روک سکیں گے، خواہ آپ ہر ماہ دس ہزار لوگوں کو پھانسی کیوں نہ دیں، تیسری وجہ نوجوان ہیں، ہمارے ملک میں نوجوان 40فیصد ہیں، ملک میں ان لوگوں کے لیے کوئی ایکٹویٹی نہیں، کھیل کے میدان نہیں ہیں، سینما گھر اور چائے خانے نہیں ہیں، حکومت فوری طور پر نوجوانوں کو مصروف رکھنے کی پالیسی بنائے، کھیل کے میدان بنائیں، پانچ سے بیس سال تک کے بچوںکے لیے کھیل لازمی قرار دیے جائیں اور جو بچہ جسمانی کھیل نہ کھیلتا ہو اسے ڈگری نہیں ملنی چاہیے۔
ہمارے نوجوان جسمانی لحاظ سے مصروف ہوں گے تو ملک میں شدت پسندی میں کمی آئے گی اور شدت کی کمی دہشت گردی کے خاتمے کا باعث بنے گی اور آخری وجہ ہم چالیس سال سے حالت جنگ میں ہیں، ہماری تیسری نسل جنگی حالات میں پرورش پا رہی ہے،آپ دنیا کی کوئی قوم بتائیے جو چالیس سال حالت جنگ میں رہی ہو اور وہ اس کے باوجود نارمل بھی ہو، ہم جنگ کی وجہ سے اندر سے ٹوٹ چکے ہیں، ہم متوازن اور نارمل نہیں رہے چنانچہ ریاست فوری طور پر تمام محاذ بند کرنے کا اعلان کر دے کیونکہ ہم جب تک یہ محاذ بند نہیں کریں گے ہمارے ملک میں گڈ طالبان موجود رہیں گے اورجب تک یہ لوگ موجود رہیں گے، ہمارے ملک سے دہشت گردی ختم نہیں ہو گی خواہ ہم کچھ بھی کر لیں۔
ہم فیصلے کی گھڑی تک پہنچ چکے ہیں، ہم نے اب عفریت کو قتل کرنا ہے یا پھر اس عفریت نے ہمیں نگلنا ہے، آپ یقین کیجیے ہم نے اگر اس عفریت کو نہ مارا تو یہ ایک دو سال میں ہمیں کھا جائے گا چنانچہ فیصلہ کیجیے کیونکہ ہم ،،اب یا کبھی نہیں،، کی منزل تک پہنچ چکے ہیں، ہم نے فیصلہ نہ کیا تو عفریت کامیاب ہو جائے گا اور ہم مری ہوئی داستانوں میں ایک داستان بن کر رہ جائیں گے۔
جو قوم وزیراعظم صاحب
جاوید چوہدری جمعرات 18 دسمبر 2014

ہماری تاریخ میں بہت کم ایسے دن گزرے ہیں جنہوں نے دنیا کو اس دن سے پہلے کی دنیا اور اس دن سے بعد کی دنیا، دو حصوں میں تقسیم کیا ہو، نائین الیون ایک ایسا ہی دن تھا، القاعدہ نے گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکا کی تین عمارتوں کو نشانہ بنایا، 2ہزار9سو96 لوگ مارے گئے، 6ہزار زخمی ہوئے اور دنیا تبدیل ہو گئی، مورخ دنیا کو اب نائین الیون سے پہلے کی دنیا اور نائین الیون سے بعد کی دنیا میں تقسیم کرتے ہیں، دنیا کا ان حملوں کے بعد پہلا سبق سیکیورٹی تھا۔
دنیا نے محسوس کیا، ہمیں اب ایک ان دیکھے دشمن سے لڑنا ہو گا اور ہم اگر یہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ملک کی سیکیورٹی پر خصوصی توجہ دینی ہو گی، امریکا نے پہلا قدم اٹھایا، امریکا میں ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی اور نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم سینٹر بنا اور پورے امریکا کی سیکیورٹی ان کے حوالے کر دی گئی، ہوم لینڈ سیکیورٹی کو وسیع اختیارات دیے گئے، پورے امریکا کا ڈیٹا ایک جگہ جمع ہوا، اطلاعات اورخفیہ اطلاعات کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا، ویزوں کے لیے کرائی ٹیریا بنایا گیا، ملک کے اندر اور بیرون ملک فلائیٹس کے ڈیٹا سینٹر بنے، کوئک ریسپانس فورس بنائی گئی، پولیس، فوج اور عدلیہ تینوں کو ہوم لینڈ سیکیورٹی کاحصہ بنایا گیا اور عوام کو یہ یقین دلایا گیا یہ ادارہ آپ کی حفاظت کے لیے معرض وجود میں آیا ہے۔
آج اس ادارے کو 12 سال ہو چکے ہیں، القاعدہ نے 12 برسوں میں امریکا پر حملے کی درجنوں کوششیں کیں لیکن امریکا میں نائین الیون کے بعد دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا، یہ ان دو اداروں کی بڑی کامیابی تھی، برطانیہ دوسرا ملک تھا جس نے جون 2003ء میں جوائنٹ ٹیرر ازم انیلسیز سینٹر اور آفس فار سیکیورٹی اینڈ کاؤنٹر ٹیررازم بنایا، برطانیہ میںنائین الیون کے بعد دہشت گردی کا صرف ایک واقعہ ہوا، یہ واقعہ 7جولائی 2005ء کولندن میں پیش آیا اور یہ سیون سیون کہلاتا ہے۔
برطانیہ میں بھی دہشت گردوں نے دہشت گردی کی درجنوں کوششیں کیں لیکن ان دونوں اداروں نے یہ کوششیں ناکام بنا دیں، آسٹریلیا تیسرا ملک تھا جس نے اکتوبر 2002ء میں نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم کمیٹی بنائی، اس کمیٹی نے بھی آسٹریلیا کو آج تک محفوظ رکھا، یہ ادارے صرف آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا تک محدود نہیں ہیں بلکہ فرانس، جرمنی، اسپین، جاپان، چین اور کینیڈا میں بھی ایسے ادارے بنائے گئے اوریہ ادارے آج تک اپنے اپنے شہریوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔
پاکستان امریکا اور برطانیہ کے بعد دنیا میں دہشت گردوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ تھا، امریکا اور برطانیہ کے دشمن القاعدہ اور طالبان پاکستان کی سرحد پرتھے (آج بھی ہیں)، ہم ان کی اولین گزر گاہ بن گئے، جنرل پرویز مشرف پاکستان میں حکمران تھے، جنرل اور ان کے ساتھیوں نے اس گزر گاہ کو اپنے اقتدار کے لیے سنہری موقع بنا لیا، یہ لوگ سجدہ شکر میں گر گئے اور خطرے کو فیکٹری بنا لیا، امریکا کو صرف القاعدہ سے خطرہ تھا جب کہ پاکستان ہماری پالیسیوں کی وجہ سے القاعدہ، تحریک طالبان افغانستان، تحریک طالبان پاکستان، پنجابی طالبان اور شیعہ اور سنی مسالک کے مسلح لشکروں کا میدان جنگ بن گیا، ڈرون حملوں نے اس جنگ کی شدت میں اضافہ کر دیا اور یوں پندرہ برسوں میں 55 ہزار پاکستانی شہید ہو گئے۔
ہماری فوج، پولیس اور خفیہ ادارے ان حملوں کا سب سے بڑا ہدف تھے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جی ایچ کیو، مہران بیس، کامرہ ائیر بیس، پریڈ لین مسجد، ایف آئی اے کے پانچ بڑے سینٹروں، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے دفاتر، آرڈی ننس فیکٹری اور پولیس اور ایف سی کے ٹریننگ سینٹر پر حملے ہوئے اور ان حملوں میں سیکڑوں جوان شہید ہو گئے، ہماری معیشت تباہ ہو گئی، عوام بے چینی اور ڈپریشن کے مریض بن گئے اور ملک دنیا بھر کے لیے خطرناک ہو گیا، ہماری ریاست کو ان حقائق کو سمجھنا چاہیے تھا، ہمیں ملک اور عوام کو بچانے کے لیے ہوم لینڈ سیکیورٹی جیسا بڑا ادارہ بنانا چاہیے تھا لیکن ہم سوئے رہے، ہم نے سیکیورٹی کے لیے ادارہ تو دور کوئی پالیسی تک نہ بنائی۔
اس کی وجہ سے لوگ مرتے رہے اور مارنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور ان کو روکنے اور سزا دینے والوں کی طاقت بھی دم توڑتی رہی، یہاں تک کہ پولیس دہشت گردوں کو گرفتار کرنے اور جج دہشت گردوں کا مقدمہ سننے سے انکار کرنے لگے، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے دہشت گردی کی عالمی جنگ کے نو سال بعد خطرے کو محسوس کیا، حکومت نے جنوری 2009ء میں نیکٹا (نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی) کے نام سے قومی سلامتی کا پہلا ادارہ بنایا، اس ادارے نے پورے ملک کی حفاظت کرنی تھی لیکن اس حفاظت سے قبل سیکیورٹی پلان اور اس پلان کی منظوری ضروری تھی مگر ہماری پوری پارلیمنٹ، پوری حکومت میں ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں تھا جو سیکیورٹی پلان بنا سکتا چنانچہ معاملہ پلاننگ پر آ کر رک گیا، یہ کام بھی فوج نے اپنے ہاتھ میں لے لیا، جنرل کیانی نے سیکیورٹی پلان تیار کرایا اور حکومت کے حوالے کر دیا مگر حکومت چار سال تک پارلیمنٹ سے یہ پلان منظورنہ کرا سکی اور یوں فائل اگلی حکومت کو ورثے میں مل گئی۔
آپ کے لیے شاید یہ بات بھی حیران کن ہو گی، پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا مگر بیس کروڑ لوگوں کی اس آبادی میں نیشنل سیکیورٹی کاایک بھی ماہر موجود نہیں، حکومت نے نیشنل سیکیورٹی کونسل بنا رکھی ہے، سرتاج عزیز سیکیورٹی ایڈوائزر ہیں اور ان کا سیکیورٹی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں، میری میاں نواز شریف سے درخواست ہے آپ فوری طورپر ملک سے دو سو ذہین طالب علم چنیں اور انھیں نیشنل سیکیورٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے بیرون ملک بھجوا دیں، یہ لوگ جب واپس آئیں تو آپ انھیں نیشنل سیکیورٹی کا ٹاسک دیں، یہ لوگ شاید ملک کا یہ مسئلہ حل کر دیں، میں سیکیورٹی پلان کی طرف واپس آتا ہوں، میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو اس نے پارلیمنٹ سے تحفظ پاکستان بل منظور کرانا شروع کیا، یہ بل متنازع ہو گیا، پارٹیوں نے اسے سیاسی میدان جنگ بنالیا، یوں معاملہ تاخیر کا شکار ہوتارہا، 8 جون 2014ء کوکراچی ائیر پورٹ پر حملہ ہوا۔
پوری قوم غم میں چلی گئی، حکومت نے اس سانحے کا فائدہ اٹھایا اور 2 جولائی کو پروٹیکشن آف پاکستان بل منظور کرا لیا، تحفظ پاکستان بل کی منظوری کے بعد پورے ملک کی سیکیورٹی کی ذمے داری نیکٹا کے پاس چلی گئی، میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں حکومت نے نیکٹا کا بورڈ آف گورنر بنایا تھا،یہ پاکستان کی 68 سالہ تاریخ کا سب سے بڑا اور مضبوط بورڈ آف گورنر تھا، وزیراعظم اس بورڈ کے چیئرمین ہیں جب کہ وزیر داخلہ، چاروں وزراء اعلیٰ، گلگت ، بلتستان کے وزیراعلیٰ، آزاد کشمیر کے وزیراعظم، وفاقی وزیر قانون، وزیر خزانہ، وزیر دفاع، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کے نمایندے، سیکریٹری داخلہ، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، ڈی جی ایم آئی، چاروں چیف سیکریٹریز، ڈی جی ایف آئی اے، چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے آئی جی اور نیشنل کوآرڈی نیٹر یہ تمام لوگ بورڈ کے ممبر تھے، نیکٹا میں ملک کے تیس خفیہ اداروں کا جوائنٹ انفارمیشن ڈیسک بننا تھا، ملازمین کے لیے خصوصی پے اسکیل طے ہوا لیکن یہ بورڈ آف گورنرز، یہ سارے منصوبے اور یہ سارے دعوے صرف کاغذوں تک محدود رہے۔
نیکٹا کو بنے ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں، تحفظ پاکستان بل کی منظوری کو 6 ماہ ہو چکے ہیں لیکن آج تک بورڈ آف گورنر کا کوئی اجلاس نہیں ہوا،ادارے کے لیے خصوصی پیکیج کی فائل وزیر خزانہ کو بھجوائی گئی لیکن پانچ ماہ گزرنے کے باوجود یہ فائل واپس نہیں آئی، پاکستان کے بااختیار ترین ادارے کی حالت یہ ہے یہ اس وقت سیکریٹری داخلہ کے ماتحت ہے،ادارے میں صرف چار افسر موجود ہیں اور یہ چار بھی وہ ہیں جن کی کوئی سفارش نہیں چنانچہ یہ بے چارے ملک کے سب سے خوفناک کھڈے میں لین حاضر ہیں،گاڑیاں موجود نہیں، ہیں تو پٹرول نہیں، دفتری استعمال کے لیے کاغذ نہیں، کمپیوٹر اور پرنٹرز نہیں، گرمیوں میں پنکھے نہیں تھے اور آج سردیوں میں ہیٹر نہیں ہیں، بجلی چلی جائے تو جنریٹر اور یو پی ایس نہیں۔
اسی فیصد آسامیاں خالی پڑی ہیں اور جو لوگ موجود ہیں ان کے پاس کوئی اختیار نہیں، ادارے کے ماہرین موبائل فون پر ایس ایم ایس نہیں کر سکتے، ادارے کی ویب سائیٹ پرانی اور ناقابل استعمال ہے، فون ہیں تو کام نہیں کرتے، کرتے ہیں تو فون سننے والا کوئی نہیں اور ادارے کا پرانا فرنیچر نادرا کے گوداموں میں پڑا ہے اور یہ وہ ادارہ ہے جس نے آرمی پبلک اسکول سے لے کر وزیراعظم تک ملک کے 20 کروڑ لوگوں کی حفاظت کرنی ہے، جس نے ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نکالنا ہے۔
ہمارے ملک میں ادارے، قوانین اور فیصلوں کی کمی نہیں، ہم کمشنوں،کمیٹیوں، ترامیم اور فیصلوں کی قوم ہیں، ہمارا المیہ عمل ہے،ہم بے عمل کوتاہ فہم قوم ہیں، ہم کمیٹیاں اور کمیشن بنا دیتے ہیں لیکن ہم ان کمیٹیوں اور کمیشنوں کی سفارشات پر عمل نہیں کرتے،ہم نظام نہیں بناتے اور اگر بنا لیتے ہیں تو وہ نظام کام نہیں کرتا چنانچہ ہم جہاں سے چلتے ہیں، ہم گھوم پھر کر دوبارہ وہاں آ جاتے ہیں، حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کل ایک اور کمیٹی بنا دی۔
یہ کمیٹی سات دن میں سفارشات مرتب کرے گی لیکن سوال یہ ہے جو کام نیکٹا نہیں کر سکا، جو کام تحفظ پاکستان بل سے نہیں ہو سکا، کیا وہ کام، یہ کمیٹی کر سکے گی؟ وزیراعظم صاحب جو قوم اللہ کے احکامات اور قرآن مجید کی آیات کو نہ مانتی ہو وہ ان کمیٹیوں اور ان سفارشات پر خاک عمل کرے گی، جس قوم نے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو سنجیدہ نہ لیا ہو وہ قوم چوہدری نثار کمیٹی کو کیا اہمیت دے گی؟ وزیراعظم صاحب اس قوم کو منصوبہ بندی کی سو سیڑھیاں نہیں، عمل کا ایک قدم چاہیے اور جس دن یہ قدم اٹھ گیا قوم اس دن کمیٹیوں اور کمیشنوں کی محتاجی سے آزاد ہو جائے گی۔
16 دسمبر
جاوید چوہدری جمعرات 18 دسمبر 2014

میں مون ہوں‘ نہیں میں عمران‘ میزان‘ عدنان‘ نواز‘ بلاول‘ بہرام‘ حسن اور اویس ہوں‘ نہیں! آپ ایک لمحے کے لیے رکیے‘ میں یہ بھی نہیں ہوں‘ میں ایک نعش ہوں‘ خون میں لت پت نعش‘ میری آنکھ‘ میری گردن‘ میرے سینے اور میری دونوں ٹانگوں میں تیرہ گولیاں لگی ہیں‘ میرے جسم سے خون کے فوارے نکلتے رہے‘ میں نے اپنی ایک زندہ آنکھ سے خود یہ ابلتے ہوئے فوارے دیکھے‘ میرے لہو کے چھینٹے کلاس روم کے وائیٹ بورڈ‘ دیواروں‘ فرش اور ڈیسک پر پڑی میری کتابوں پر پڑے اور خون کا دباؤ جب کم ہوگیا تو لہو نے میری یونیفارم کا راستہ دیکھ لیا‘ میں آہستہ آہستہ اپنے ہی لہو میں تر ہوتا گیا لیکن نہیں آپ مزید ٹھہریئے میرے بدن‘ میرے وجود پر صرف میرا لہو نہیں تھا‘ اس پر اویس‘ حسن‘ بہرام اور عدنان کا خون بھی تھا‘ یہ بھی میرے ساتھ نعشیں بنے‘ یہ بھی میرے ساتھ تڑپتے رہے۔
میں صرف 14 سال کا تھا‘ میں نے 14سال کی عمر میں زندگی اور موت دونوں دیکھ لیں‘ میں ایک ہی دن میں خوشی‘ خوف‘ درد اور موت چاروں مراحل سے گزر گیا‘ میں انسان سے لاش بن گیا‘ میرے ساتھ کیا ہوا؟ میں زندگی سے موت کے غار میں کیسے اترا؟ آپ یقینا جاننا چاہیں گے‘ آپ یقینا سننا چاہیں گے‘ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بچہ تھا‘ میں پیدا ہوا تو میری ماں اولاد کی صلاحیت سے محروم ہو گئی‘ میرے والدین نے اسے اللہ کی مرضی سمجھا اور میری پرورش میں لگ گئے‘ میری ماں‘ میرے والد نے دن اور رات کو اینٹ بنایا اور ان اینٹوں سے میری ذات‘ میری شخصیت کی عمارت کی تعمیر شروع کر دی۔
میں چودہ سال کا ہوگیا‘ 16 دسمبر کو میری ماں مجھے اسکول چھوڑنے آئی‘ میری ماں مجھے چودہ سال سے اسکول چھوڑتی اور اسکول سے لیتی آ رہی ہے‘ یہ مجھے روز اپنے ہاتھ سے ناشتہ کراتی تھی‘میں صبح نخرے کرتا تھا‘ میری ماں مجھے اٹھاتی تھی لیکن میں آنکھیں موند کر لیٹا رہتا تھا‘ میری ماں مجھے گدگداتی تھی‘ میری بند آنکھوں پر پیار کرتی تھی‘ میرے سر‘ میری گردن کو سہلاتی تھی‘ مجھے کیک‘ ٹافیوں اور چاکلیٹ کا لالچ دیتی تھی‘ میں تب جا کر آنکھیں کھولتا تھا‘ میں تب جا کر باتھ روم میں گھستا تھا‘ میری ماں مجھے نہلاتی بھی تھی‘ میں بڑا ہو چکا تھا لیکن میری ماں مجھے چھوٹا ہی سمجھتی تھی‘ وہ جب تک مجھے خود نہیں نہلا لیتی تھی اسے تسلی نہیں ہوتی تھی‘ گھر سے اسکول تک ہمارا کوئز ٹائم ہوتا تھا۔
میری ماں مجھ سے سوال پوچھتی جاتی تھی اور میں جواب دیتا جاتا تھا اور یوں میرے سبق‘ میرے لیسنز کی دہرائی ہوتی جاتی تھی‘ میں راستے میں چیزوں کو ٹھڈے بھی مارتا جاتا تھا‘ میری ماں مجھے منع کرتی تھی مگر میں ماں کو چڑانے کے لیے یہ ضرور کرتا تھا‘ ٹھڈے مارنے سے میرے جوتے گندے ہو جاتے تھے اور تسمے کھل جاتے تھے‘ ماں اسکول پہنچ کر مجھے دہلیز پرکھڑا کرتی‘ خود نیچے بیٹھتی ‘ اپنے ہاتھوں سے میرے تسمے باندھتی اور پھر اپنے دوپٹے سے میرے دونوں جوتے صاف کرتی ‘ میں چھٹی کے وقت اسکول سے نکلتا تو میری ماں باہر کھڑی ہوتی تھی‘ وہ انگلی پکڑ کر مجھے گھر لے جاتی ‘یہ ہمارا روز کا معمول تھا۔
16 دسمبر کو بھی یہی ہوا‘ میں صاف جوتوں کے ساتھ اسکول میں داخل ہوا اور ماں گندہ دوپٹہ لے کر گھر واپس چلی گئی‘ ہم اس دن بہت خوش تھے‘ ہمارے دو پیریڈز خالی تھے‘ ہم نے پیریڈز کے بعد فٹ بال کھیلنا تھا‘ ہم کلاس میں بیٹھے تھے‘ ٹیچر ہمیں مطالعہ پاکستان پڑھا رہا تھا‘ اچانک زور دار دھماکا ہوا‘ پورا اسکول لرز گیا‘ ہمارے کانوں میں سائیں سائیں کی آوازیں آنے لگیں‘ ہم سب سکتے کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے‘ کانوں کی سائیں سائیں ابھی جاری تھی کہ گولیوں کی تڑ تڑ کی آوازیں آنے لگیں‘ ہمارے ٹیچر دوڑ کر باہر نکلے‘ واپس پلٹے‘ کلاس کا دروازہ بند کیا‘ کنڈی لگائی اور چیخ کر کہا ’’ اسکول پر حملہ ہو گیا‘ آپ سب زمین پرلیٹ جاؤ‘‘ ہماری آدھی کلاس زمین پر لیٹ گئی‘ باقی دوہرے ہو کر بینچوں کے نیچے گھس گئے۔
باہر گولیاں چل رہی تھیں‘ چیخنے‘دوڑنے‘ گرنے اور مدد مدد کی آوازیں آ رہی تھیں‘ ہم بینچوں کے نیچے سہمے بیٹھے تھے‘ اچانک کسی نے دروازے کو دھکا دیا‘ دروازہ ٹوٹ کر اندر گرگیا‘ دو لوگ اندر آئے اور انھوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی‘ دونوں کے چہروں پر لمبی داڑھیاں تھیں‘ وہ ایف سی کی یونیفارم اور فوجی بوٹوں میں تھے‘ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کلمہ پڑھو‘ کلمہ پڑھو اور ساتھ ساتھ اللہ اکبر‘ اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے اور بچوں پر کلاشنکوف کے بریسٹ مار رہے تھے‘ میرے سامنے میرے سارے دوست مارے گئے‘ ہمارے استاد میز پر گر پڑے تھے‘ ان کا سینہ چھلنی ہو چکا تھا اور وہ میز پر پڑے تڑپ رہے تھے‘ وہ دونوں حملہ آور گولیاں چلاتے تھے۔
فرش پر گرے بچوں کو ٹھڈے مارتے تھے‘ جس بچے میں ذرا سی بھی جان ہوتی تھی‘ وہ اس کے سینے میں گولی اتار دیتے تھے‘ کمرہ لاش گھر بن گیا تو ایک قاتل کمرے میں رہ گیا اور دوسرا بھاگ کر باہر نکل گیا‘ کمرے میں موجود شخص نے بینچوں کے نیچے جھانک کر دیکھا‘ ہم بارہ لڑکے بینچوں کے نیچے چھپے بیٹھے تھے‘ اس نے چیخ کر ہمیں حکم دیا‘ کلمہ پڑھو اور ساتھ ہی فائر کھول دیا‘ ہم سب کو گولیاں لگ گئیں‘ میری دونوں ٹانگوں میں گولیاں لگیں‘ میں الٹ کرگرا اور بینچ میرے اوپر گر گیا‘ میری دونوں ٹانگیں بری طرح زخمی تھیں‘ مجھے اس دن معلوم ہوا موت کا خوف درد پر بھاری ہوتا ہے۔
آپ جب موت کے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں تو آپ کو کوئی درد‘ کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی‘ میں بھی اس کیفیت میں تھا‘ میں نے اپنی ٹائی منہ میں ٹھونسی اور نعشوں کے درمیان لیٹ گیا‘ بینچ میرے اوپر پڑا تھا‘ میں آدھ کھلی آنکھوں سے دائیں بائیں دیکھتا تھا تو مجھے دوسیاہ لمبے بوٹ اپنے اردگرد چلتے دکھائی دیتے تھے اور میں دوبارہ اپنی آنکھیں میچ لیتا تھا‘ بوٹ چند لمحے کلاس میں پھرتے رہے‘ وہ شخص جہاں کسی بچے میں زندگی کی رمق محسوس کرتا تھا‘ وہ اس کے سر یا سینے میں گولی مار دیتا تھا‘ اس نے جب تسلی کر لی‘ اسے جب یقین ہوگیا کلاس میں کوئی بچہ زندہ نہیں بچا تو وہ بھی باہر نکل گیا۔
میں نے چند سیکنڈ انتظار کیا‘ مجھے جب کلاس میں کوئی حرکت محسوس نہ ہوئی تو میں نے بینچ کھسکایا‘ بہرام‘ اویس اور حسن کی نعشیں سائیڈ پر کیں اور دروازے کی طرف گھسیٹنا شروع کر دیا‘ میری دونوں ٹانگیں بے جان تھیں‘ میرا پورا جسم خون میں لت پت تھا‘ میں دونوں ہاتھوں کے ذریعے اپنے لت پت وجود کو دروازے کی طرف گھسیٹ رہا تھا‘ میرے راستے میں میرے دوستوں‘میرے کلاس فیلوز کی نعشیں پڑی تھیں‘ پورے کمرے میں لہو اور بارود کی بو پھیلی تھی‘ نعشوں کی آنکھیں پھٹی اور منہ کھلے تھے‘ میں ان پھٹی آنکھوں ‘ کھلے منہ اور آڑھی ترچھی پڑی نعشوں کے درمیان سے گھسیٹتا ہوا‘ کلاس سے باہر نکل گیا۔
باہر بڑے کمرے میں ایک خاتون ٹیچر کی نعش کرسی پر پڑی تھی‘ خاتون کو کرسی پر گولی ماری گئی تھی اور پھر اس کی نعش کو آگ لگا دی گئی تھی‘ ٹیچر کا ہاتھ کرسی سے نیچے جھول رہا تھا‘ ٹیچر کی گردن سے خون کی لکیر بازو پر آرہی تھی اور بازو سے انگلیوں پر پہنچ کر نیچے فرش پر گر رہی تھی‘ میں گھسیٹتا ہوا‘ سرکتا ہوا بڑے کمرے سے باہر آگیا‘ باہر کوریڈور میں نعشیں بکھری تھیں‘ زخمی بچے درد سے کراہ رہے تھے‘ اسکول کے آڈیٹوریم سے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں‘ اسکول میں ہر طرف قیامت کا منظر تھا‘ لاشیں تھیں‘ خون کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ تھے‘ انسانی جسموں کے چیتھڑے تھے۔
دیواروں‘ دروازوں اور گملوں پر گولیوں کے نشان تھے‘ اللہ اکبر کے نعرے تھے اور دوڑتے بھاگتے بچوں کی صدائیں تھیں ‘ میں صدمے کے عالم میں اپنے جسم کو فرش پر گھسیٹتا جا رہا تھا‘ میرے سامنے سیڑھیاں آ گئیں‘ میں نے سیڑھیوں سے اترنے کی کوشش کی‘ میرے ہاتھ دوسری سیڑھی پر تھے‘ جسم فرش پر اور مفلوج ٹانگیں پیچھے دور کوریڈور میں‘ میں نے اچانک ایک وحشی آواز سنی ’’وہ دیکھو‘ اس لڑکے کو دیکھو‘‘ اور پھر اس آواز کے ساتھ ہی سیاہ رنگ کے دو بوٹ دوڑتے ہوئے میری طرف آئے‘ میں خوف کی آخری منزل چھونے لگا‘ وہ بوٹ میرے قریب پہنچے‘ میں نے خوف کے عالم میں اوپر دیکھا‘ میرے سامنے لمبے بالوں اور لمبی داڑھی والا ایک خوفناک شخص کھڑا تھا۔
اس کے کپڑے خون سے لتھڑے ہوئے تھے‘ وہ غصے سے میری طرف دیکھ رہا تھا‘ اس نے کلاشنکوف میری طرف سیدھی کی اور چلا کر کہا کلمہ پڑھو‘ میں بے اختیار کلمہ پڑھنے لگا‘ میں ابھی مشکل سے محمدالرسول اللہ تک پہنچا تھا کہ ٹھاہ کی آواز آئی اور کوئی تیز گرم چیز میری آنکھ میں اتر گئی‘ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں وہ تیز گرم چیز میرے سر سے دوسری طرف نکل گئی‘ میں تڑپا اور سیڑھیوں پر سیدھا ہو گیا‘ ٹھاہ کی دوسری آواز آئی اور میری گردن اور میرا سینہ کھل گیا‘ وہ شخص مجھے تڑپتا ہوا دیکھتا رہا‘ میں تڑپا‘ کسمسایا اور ٹھنڈا ہو گیا‘ مرنے کے بعد مجھے عجیب تجربہ ہوا۔
مجھے معلوم ہوا انسان مرنے کے بعد بھی وہیں رہتا ہے‘ میں بھی وہیں تھا‘ ان سیڑھیوں کے قریب جہاں میری لاش پڑی تھی‘ میں وہاں اکیلا نہیں تھا‘ میرے دائیں بائیں وہ سارے بچے موجود تھے جن کی لاشیں آرمی پبلک اسکول کے کلاس رومز‘آڈیٹوریم اور کوریڈورز میں پڑی تھیں‘ ہم سب اپنی اپنی نعشوں کے سرہانے کھڑے تھے اور اپنے مرے ہوئے‘ ٹوٹے ہوئے‘ پھٹے ہوئے وجودوں سے پوچھ رہے تھے’’ ہمارا قصور کیا تھا‘ ہمیں کیوں مار دیا گیا؟‘‘ ہمارے وجود خاموش ٹھنڈے تھے‘ یہ ٹھنڈے وجود کیا جواب دیتے ؟ یہ جانتے تھے ہمارا قصور صرف اتنا تھا کہ ہم نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور عمران خان کے بیٹے نہیں تھے‘ ہم عام لوگوں کے بچے تھے اور یہ ملک عام لوگوں کے بچوں کے لیے نہیں بنا۔
میں نے گیٹ پر اپنی ماں کو دیکھا‘ میری ماں کو آج خالی ہاتھ واپس جانا تھا۔