جاوید چوہدری

’’فری ہینڈ‘‘
جاوید چوہدری پير 15 دسمبر 2014

آپ پاکستان کے کسی بھی شہر میں رہتے ہوں، آپ کا تعلق خواہ کراچی، حیدر آباد، سکھر، لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، راولپنڈی، اسلام آباد، بنوں، پشاور یا پھر کوئٹہ، ژوب اور زیارت سے ہو یا پھر آپ ملک کے کسی چھوٹے شہر میں رہائش پذیر ہوں، آپ کو اپنے شہر میں درجنوں کچی آبادیاں ملیں گی، آپ اگر گھرسے نکلیں توآپ کو سڑک کے دونوں اطراف سیکڑوں ناجائز تجاوزات بھی ملیں گی،آپ یقینا جانتے ہیں دنیا میں سڑک کی دونوں سائیڈوں پر سو فٹ تک زمین خالی رکھی جاتی ہے۔
اس سو فٹ میں تعمیرات کی اجازت نہیں ہوتی، کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ ایکسیڈنٹ ہے، دنیا کی تمام گاڑیاں جب سلپ ہوتی ہیں تو یہ سڑک سے پچاس ساٹھ فٹ باہر نکلتی ہیں چنانچہ اگر سڑک پر گھر یادکانیں ہوں گی تو گاڑیاں سیدھی اندر گھس جائیں گی اور یوں جانی اور مالی نقصان ہو گا، دو، دنیا کے تمام ممالک میں پانچ سال بعد سڑکیں کھلی کی جاتی ہیں، آپ خود سوچئے اگر سڑکوں کی سائیڈز پر مکان اور دکانیں ہوں گی اور آپ سڑک کو کھلا کرنا چاہیں گے تو کیا یہ ممکن ہو گا چنانچہ حکومتیں سڑکوں کی سائیڈز دو تین سو فٹ تک خالی رکھتی ہیں لیکن آپ کو پاکستان کی تمام سڑکوں کی دونوں سائیڈز پر مکان اور دکانیں ملیں گی، یہ مکان اور دکانیں ناجائز تجاوزات ہیں۔
آپ کو اپنے بازاروں میں بھی سیکڑوں ہزاروں ناجائز تجاوزات ملیں گی، بازار کا ہر دکاندار برآمدے، فٹ پاتھ، گلی اور آدھی سڑک پر قابض ہو جاتا ہے اور ٹریفک اور شہریوں کی نقل و حمل مشکل بنا دیتا ہے، کچی آبادی سے لے کر فٹ پاتھ کے قابضین تک یہ تمام لوگ قانون شکن ہیں، یہ سرکاری املاک پر قابض ہیں، سوال یہ ہے کیا ریاست ان لاکھوں کروڑوں قابضین، قانون شکنوں اور شہری زندگی کو متاثر کرنے والوں کے وجود سے ناواقف ہے؟ جی نہیں! ریاست نہ صرف ان کے وجود سے پوری طرح واقف ہے بلکہ یہ انھیں بجلی کے میٹر، سوئی گیس کے کنکشن اور پوسٹل ایڈریس بھی فراہم کرتی ہے، اب سوال یہ ہے ریاست ان لوگوں سے قبضہ کیوں نہیں چھڑاتی؟ یہ کچی آبادیوں، فٹ پاتھوں اور سڑکوں سے ان قابضین کو کیوں نہیں اٹھاتی، اس کی وجہ بہت دلچسپ ہے اور یہ وجہ ہماری سماجی اور ریاستی خرابی کی بنیادی جڑ ہے، یہ قابضین دراصل حکومت کے خلاف جلوس نکال سکتے ہیں۔
یہ مظاہرہ کر سکتے ہیں اور یہ پہیہ جام کر سکتے ہیں، حکومت جس دن تجاوزات ہٹانے کی کوشش کرتی ہے، یہ قابضین جمع ہوتے ہیں، تین پرانے ٹائر لیتے ہیں، سڑک پر رکھتے ہیں، انھیں آگ لگاتے ہیں، دس پندرہ بیس لوگ سڑک پر کھڑے کرتے ہیں، حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہیں،میلوں دور تک ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے،بات میڈیا تک پہنچتی ہے، بریکنگ نیوز بنتی ہے، حکومت اور سپریم کورٹ نوٹس لیتی ہے اور پھر ریاست قابضین سے معافی مانگتی ہے، ان کے نقصان کا ازالہ کرتی ہے۔
ان کے ناجائز حقوق کو مالکانہ حقوق مانتی ہے اور ریاست کی رٹ اسٹیبلش کرنے والے افسروں کو معطل بھی کردیتی ہے، کچی آبادی کے معاملے میں بھی یہی ہو گا، کے ڈی اے، سی ڈی اے یا ایل ڈی اے کا عملہ کچی آبادی گرانے کے لیے جائے گا، لوگ، خواتین اور بچے ہاتھوں میں پتھر اٹھا کر سڑک پر آئیں گے، ٹریفک بلاک کریں گے، میڈیا آئے گا، خواتین اور بچے کیمروں کے سامنے سینہ کوبی کریں گے اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نوٹس لینے پر مجبور ہو جائیں گے، افسر معطل ہو جائیں گے، مشینری واپس جائے گی اور یوں ناجائز قبضہ جائز ہو جائے گا۔
آپ اس کے برعکس ملک میں جائز اور قانونی کاروبار شروع کریں، آپ کروڑوں اربوں روپے کی زمین خریدیں، بینکوں سے بھاری سود پر قرضہ حاصل کریں، کمپنی رجسٹر کرائیں، لوگ بھرتی کریں اور ٹیکس ادا کریں، آپ کو جگہ جگہ مسائل کے دریاؤں کا سامنا ہو گا، ریاست کے درجنوں ادارے منہ کھول کر آپ پر پل پڑیں گے، آپ نقشے پاس کرانے جائیں گے تو سی ڈی اے، کے ڈی اے اور ایل ڈی اے کے ملازمین مشینری لے کر آپ کے دفتر، آپ کی فیکٹری آ جائیں گے اور آپ کی عمارت گرانا شروع کر دیں گے، آپ کو بجلی، گیس اور پانی کے کنکشن کے لیے خوار ہونا پڑے گا، آپ اپنے ورکروں کے ہاتھوں باقاعدہ ذلیل ہوں گے، آپ امپورٹ سے لے کر ایکسپورٹ تک درجنوں دلدلوں سے گزریں گے۔
آپ کے ملازمین آپ کا تیار مال، آپ کی رقم لے کر بھاگ جائیں گے اور پولیس ایف آئی آر تک نہیں کاٹے گی، آپ کی بجلی، آپ کی گیس اچانک کاٹ دی جائے گی، آپ کو اپنی جیب سے سڑک نہیں بنانے دی جائے گی، آپ خیراتی اسکول یا یتیم خانہ بنائیں گے تو قانون آپ کے خلاف متحرک ہو جائے گا، آپ اپنے گارڈز رکھیں گے مگر ریاست آپ کو جائز اسلحے کے جائز لائسنس جاری نہیں کرے گی اور آپ احتجاج کریں گے تو آپ کے خلاف پرچہ کٹ جائے گا اور آپ تھانوں اور عدالتوں میں دھکے کھائیں گے، آپ کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہو گا؟ آپ کے ساتھ یہ سلوک اس لیے ہو گا کہ آپ ملک میں جائز کام کر رہے ہیں اور ریاست اور حکومت یہ جانتی ہے جائز کام کرنے والے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے چنانچہ یہ آپ کو رگڑ کر رکھ دے گی۔
ہم ایک دلچسپ ملک میں رہ رہے ہیں، ایک ایسے ملک میں جس میں آپ ریاست اور حکومت کو جتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں، آپ جتنے بڑے قانون شکن، جتنے بڑے قبضہ گروپ اور جتنے بڑے ظالم ہیں آپ اس ملک میں اتنے ہی محفوظ ہیں اور آپ ملک کو جتنا فائدہ پہنچا سکتے ہیں، آپ جس قدر قانون پسند، امن پسند اور انصاف پسند ہیں، آپ نظام پر جتنا زیادہ یقین رکھتے ہیں، آپ قانون کا جتنا احترام کرتے ہیں اور آپ جتنے عاجز اور منکسرالمزاج ہیں، آپ ملک میں اتنے ہی غیر محفوظ، اتنے ہی کمزور سمجھے جاتے ہیں،مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے ، یہ ملک روڈ بلاک کرنے اور ٹائر جلانے والوں کے لیے بنا تھا، یہ قبضہ گروپوں، مافیاز اور جرائم پیشہ لوگوں کے لیے معرض وجود میں آیا ہے۔
آپ خواہ ملک توڑ دیں، آپ خواہ پورا ملک بند کر دیں، آپ خواہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے 120 دن دھرنا دے کر بیٹھ جائیں، آپ خواہ عوام کو گھیرو، مارو، توڑو، جلاؤ اور تباہ کردو کا پیغام دے دیں، آپ خواہ ملک کا سارا جائز کاروبار بند کرا دیں، آپ خواہ ٹریفک روک دیں، سڑکوں پر ٹائر جلائیں، اسپتالوں، اسکولوں اور دفتروں کو جانے والے راستے بند کر کے بیٹھ جائیں، آپ خواہ امتحانات منسوخ کرا دیں، فلائیٹس رکوا دیں، ایمبولینس کو راستہ نہ دیں، آپ خواہ ٹرینیں روک لیں، میٹرو بسوں پر حملے کر دیں، آپ خواہ پارلیمنٹ ہاؤس پرقابض ہو جائیں، پی ٹی وی کو فتح کر لیں، سپریم کورٹ کی باؤنڈری وال پر شلواریں لٹکا دیں اور آپ خواہ پورا ملک مفلوج کرنے کا اعلان کر دیں ۔
آپ کو روکنا تو دور ریاست آپ کی حفاظت پر ایک ارب روپے خرچ کر دے گی، یہ آپ کو فائیو اسٹار سیکیورٹی فراہم کرے گی، کیوں؟ کیونکہ آپ حکومت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اورملک کا جو گروپ، جو جماعت حکومت کو جتنا زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے، ریاست اس جماعت، اس گروپ کواتنا ہی فری ہینڈ، اتنا ہی پروٹوکول، اتنی ہی سیکیورٹی دے گی، میری میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے درخواست ہے آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں، ملک میں ہاؤسنگ کے سیکٹر سے وابستہ وہ لوگ جو 60 بڑی صنعتیں چلا رہے ہیں یہ پرامن مظاہرہ کرنا چاہیں، یہ ملک کی کسی اسمبلی کے سامنے اکٹھا ہونا چاہیں، ملک میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار، تعلیم کے شعبے سے وابستہ ماہرین، ادویات بنانے والے صنعت کار، ملک کے ٹرانسپورٹر یا پھر ملک میں بجلی بنانے والے نجی ادارے اپنے جائز حقوق کے لیے مظاہرہ کرنا چاہیں تو کیا آپ انھیں اسمبلیوں کے سامنے جمع ہونے دیں گے؟
کیا آپ انھیں کوئی سڑک بلاک کرنے دیں گے؟ کیا آپ ان سے مذاکرات کریں گے؟ اس کا جواب ناں ہو گا! کیوں؟ کیونکہ یہ وہ ریاست ہے جو لاہور میں اندھوں پر پوری طاقت استعمال کرتی ہے لیکن عمران خان اور ان کے ورکروں کو فری ہینڈ دے دیتی ہے، کیوں؟ کیونکہ اندھے حکومت کا کچھ نہیںبگاڑ سکتے جب کہ عمران خان حکومت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور ہماری ریاست نقصان پہنچانے والوں کو عزت اور فائدہ پہنچانے والوں کو بے عزتی کے قابل سمجھتی ہے، تاجر کیونکہ جائز کام کر رہے ہیں، یہ ٹیکس اور روزگار فراہم کر رہے ہیں ۔
چنانچہ انھیں کوئی بھی شخص مار جائے، کوئی بھی ان کی دکانیں فیکٹریاں بند کرا دے اور کوئی ان کی املاک کو آگ لگا دے، ریاست ان کی مدد نہیں کرے گی جب کہ دھرنے والے قانون توڑ رہے ہیں، یہ ریاست کا سرے عام منہ چڑا رہے ہیں لہٰذا ریاست انھیں آج بھی فری ہینڈ دے رہی ہے اورکل بھی انھیں فری ہینڈ دے گی، یہ آج بھی ان کی مدد کر رہی ہے اور کل بھی یہ ان کی مدد کرے گی اور یہ ہیں ہم اور ہماری ریاست یعنی جو نقصان پہنچاسکے اس کوفری ہینڈ دیں اور جو فائدہ پہنچائے اسے ٹف ہینڈ، واہ! سبحان اللہ۔
وہ دس دن
جاوید چوہدری ہفتہ 13 دسمبر 2014

وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا، میں اس سے پندرہ سال قبل ملا تو وہ ایک شیخی خور انسان تھا، وہ لمبی لمبی ڈینگیں مار رہا تھا ،،میں نے لانگ آئی لینڈ میں پانچ ملین ڈالر کا فلیٹ خرید لیا، میں نے نئی فراری بُک کروا دی، میں چھٹیوں میں بچوں کو ہونو لولو لے گیا، میں نے پچھلے سال ایدھی فاؤنڈیشن کو پانچ کروڑ روپے کا چیک بھجوا دیا اور آئی ہیٹ دس کنٹری،، وغیرہ وغیرہ، اس کی باتوں میں شیخی، ڈینگ، بناوٹ اور نفرت سارے عناصر موجود تھے۔
میں آدھ گھنٹے میں اکتا گیا، مجھے اس کی رولیکس واچ، گلے میں دس تولے کی زنجیر، بلیک اطالوی سوٹ، ہوانا کا سیگار اور گوچی کے جوتے بھی تنگ کر رہے تھے، وہ سر سے لے کر پاؤں تک دولت کا (بدبودار) اشتہار تھا، وہ میرے دفتر آیا تو وہ پانی کی اپنی بوتل، کافی کا اپنا مگ اور اپنے ٹشو پیپر ساتھ لے کر آیا، وہ ہمارا منرل واٹر تک پینے کے لیے تیار نہیں تھا، وہ ہاتھ ملانے کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالتا تھا، ہاتھ باہر نکالتا تھا اور دونوں ہاتھ رگڑتا تھا، میں نے تھوڑا سا غور کیا تو پتہ چلا اس نے جیب میں جراثیم کش کیمیکل رکھا ہوا ہے، وہ ہاتھ ملانے کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالتا تھا، کیمیکل کی ٹیوب دبا کر مواد لگاتا تھا اور ہاتھ باہر نکال کر دونوں ہاتھ رگڑتا تھا اور اپنے ہاتھ اجنبی جراثیموں سے محفوظ کر لیتا تھا، وہ میرے دفتر کو بھی ناپسندیدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا، وہ آنکھیں چڑھا کر دائیں بائیں دیکھتا اور پھر برا سا منہ بناتا، وہ غیبت کا بھرا ہوا ڈرم بھی تھا۔
میں جس شخص کا نام لیتا تھا وہ اس کے خلاف مقدمے کھول کر بیٹھ جاتا تھا، میں جس مقام، جس شہر اور جس ملک کا تذکرہ کرتا تھا وہ اس کی منفی باتیں بیان کرنے لگتا، وہ حِس مزاح سے بھی عاری تھا، میں نے اسے جو بھی لطیفہ سنایا اس نے برا سا منہ بنا کر مجھے شرمندہ کر دیا، میں آدھے گھنٹے میں اس سے اکتا گیا، قدرت کا غیبی ہاتھ آیا، اس کا ،،گولڈ پلیٹڈ،، موبائل فون بجا، وہ فون اٹھا کر کونے میں گیا اور فون ختم ہوتے ہی افراتفری میں میرے دفتر سے نکل گیا، میں نے چھت کی طرف منہ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، وہ چلا گیا لیکن پندرہ سال ہمارا ای میل اور ایس ایم ایس پر رابطہ رہا، یہ رابطہ بھی عید، شب برات یا یوم آزادی پر مبارک باد اور شکریے تک محدود تھا، مجھے بڑے عرصے بعد پتہ چلا مبارک باد کی یہ ،،ای میلز،، بھی وہ نہیں بھجواتا تھا، اس نے اپنے لیپ ٹاپ میں مبارک باد کا سافٹ ویئر لگا رکھا تھا، یہ سافٹ ویئر فہرست میں موجود لوگوں کو خود بخود پیغام بھجوا دیتا تھا، اس کے ایس ایم ایس بھی خود کار نظام کے تحت دنیا بھر میں پھیلے لوگوں تک پہنچ جاتے تھے۔
ہم پندرہ سال نہیں ملے، پندرہ سال طویل عرصہ ہوتا ہے، آپ اس عرصے میں بڑے سے بڑے حادثے، بڑے سے بڑے سانحے بھول جاتے ہیں، انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ پندرہ سال کوئی زبان نہ بولے تو 95 فیصد لفظ اس کی یاد داشت سے محو ہو جاتے ہیں، ہم پندرہ سال نہیں ملے لیکن میں اس کے باوجود اسے بھول نہ سکا، میں جب بھی رولیکس گھڑی دیکھتا، میرے سامنے کوئی لانگ آئی لینڈ کا نام لیتا یا میں کسی شخص کو کیمیکل سے ہاتھ صاف کرتے، فرنچ منرل واٹر پیتے یا پھر شیخی مارتے دیکھتا تو مجھے بے اختیار وہ یاد آ جاتا اور میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکتا مگر کل جب پندرہ سال بعد اس سے دوسری ملاقات ہوئی تو وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا، اس نے جینز کی عام سی پینٹ، ڈھیلا سا سویٹر، لمبا کوٹ، لانگ شوز اور سر پر اونی ٹوپی پہن رکھی تھی، وہ مسکرا بھی رہا تھا، لطیفے بھی سنا رہا تھا اور قہقہے بھی لگا رہا تھا، وہ اٹھارہ سو سی سی کی عام سی گاڑی سے اترا تھا۔
اس نے میرے دفتر کی گھٹیا چائے بھی پی لی اور وہ ہر شخص سے بلا خوف ہاتھ بھی ملا رہا تھا، میرے دفتر میں درجنوں لوگ آتے ہیں، میں نے آج تک کسی شخص کو اپنے چپڑاسی سے ہاتھ ملاتے نہیں دیکھا لیکن وہ چپڑاسی کے لیے بھی کھڑا ہوا، اس نے اس سے ہاتھ بھی ملایا اور اس کی خیریت بھی پوچھی، وہ ملک کے بارے میں بھی مثبت رائے کا اظہار کر رہا تھا، وہ دو گھنٹے میرے ساتھ بیٹھا رہا اور ان دو گھنٹوں میں اس نے کسی کی غیبت کی، کسی کے خلاف منفی فقرہ بولا، کوئی شیخی بھگاری، کوئی ڈینگ ماری اور نہ ہی اپنی کسی گاڑی، سفر اور فلیٹ کا ذکر کیا، میں نے اس سے ڈرتے ڈرتے پوچھا ،،آپ کی کمپنی کیسی چل رہی ہے؟،، اس کے جواب نے حیران کر دیا، اس کا کہنا تھا، کمپنی کی گروتھ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ہمیں امید ہے یہ اگلے سال امریکا کی پہلی ہزار کمپنیوں میں آ جائے گی، ہماری ملاقات کے دوران نماز کا وقت آیا تو وہ اٹھا، جائے نماز بچھائی اور نماز ادا کر کے واپس آ گیا۔
اس نے بتایا وہ دن میں دو بار وضو کرتا ہے اور یہ دو وضو پورا دن گزار دیتے ہیں، میں اس کایا پلٹ پر بہت حیران تھا، میں اپنی حیرت پر قابو نہ رکھ سکا تو میں نے اس کایا پلٹ کے بارے میں پوچھ لیا، وہ مسکرایا اور نرم آواز میں بولا ،،بھائی جاوید یہ سب میری زندگی کے دس دنوں کا کمال ہے، وہ دس دن آئے اور انھوں نے حیات کا سارا پیٹرن بدل دیا،، میں خاموشی سے سنتا رہا، وہ بولا ،،مجھے ایک دن ٹریڈ مل پر بھاگتے ہوئے پیٹ میں درد ہوا، میں ڈاکٹر کے پاس گیا، ڈاکٹر نے دوا دی لیکن مجھے آرام نہ آیا، میں اگلے دن اسپتال چلا گیا، ڈاکٹر نے معائنہ کیا، خون اور پیشاب کے نمونے لیے، یہ نمونے لیبارٹری بھجوا دیے، خون کے نمونوں کے نتائج آئے تو پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی، میں لبلبے کے کینسر میں مبتلا تھا، میرے پاس زیادہ وقت نہیں تھا، میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ گیا، میں اسپتال کے لان میں بینچ پر بیٹھ گیا اور حسرت سے دنیا کو دیکھنے لگا۔
زندگی کے پیچھے زندگی بھاگ رہی تھی مگر میں اداس تھا، میرے اندر گہرائی میں کوئی چیز ٹوٹ رہی تھی، مجھے محسوس ہوا میری رگوں میں لہو نہیں کرچیاں ہیں اور یہ کرچیاں دل کی ہر دھک کے ساتھ آگے سرک رہی ہیں، میں بینچ سے اٹھا، اپنا موبائل فون توڑا، بینک سے پچاس ہزار ڈالر نکلوائے، اپنا پرس، بیگ اور لیپ ٹاپ گاڑی میں رکھا، گاڑی گھر بھجوائی، ائیر پورٹ گیا اور ٹکٹ خرید کر فیجی آئی لینڈ چلا گیا، میرا خیال تھا میرے پاس صرف دو مہینے ہیں اور میں نے ان دو مہینوں میں پوری زندگی گزارنی ہے، میں نے زندگی میں پہلی بار ٹینٹ خریدا اور میں یہ ٹینٹ لے کر جنگلوں میں نکل گیا، میں نے چار دن جنگلوں، جھیلوں، آبشاروں اور سمندر کے اداس کناروں پر گزارے، میں اس کے بعد شہر کی رونق میں گم ہو گیا، میں نوجوانوں کے ساتھ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر ڈانس کرتا، سڑک کے کنارے اسٹالوں سے برگر خرید کر کھاتا، صبح صادق کے وقت مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتا اور سورج کو اپنے سامنے اگتا ہوا دیکھتا، میں ننگے پاؤں ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا، میں لہروں کو ابھرتے، ساحل سے ٹکراتے اور واپس جاتے دیکھتا، میں اپنے پاؤں تلے ریت کو کھسکتے ہوئے محسوس کرتا۔
میں درختوں میں روشنی کے بنتے بگڑتے سائے بھی دیکھتا، میں نے زندگی میں پہلی بار صداؤں کے، آوازوں کے، گرتی ہوئی آبشاروں کے اور دوڑتے اڑتے پرندوں کے پروں میں بندھی زندگی دیکھی، میں نے زندگی میں پہلی بار زندگی کو محسوس کیا، میں پانی بھی پیتا تھا تو میں حلق سے لے کر معدے تک اس کی ٹھنڈک کو محسوس کرتا تھا، میں کھاتا تھا تو میں کھانے میں چھپے تمام ذائقے محسوس کرتا تھا، میں آنکھیں بند کرتا تھا تو اندھیرے میں چھپے رنگ محسوس کرتا تھا، میں اجنبیوں سے ملتا تھا تو مجھے ان کی اچھائیاں نظر آتی تھیں، میں اپنے دائیں بائیں اوپر نیچے دیکھتا تھا تو مجھے ہر چیز، ہر منظر اچھا لگتا تھا، مجھے زندگی میں پہلی بار دنیا کی کوئی برائی برائی، کوئی خامی خامی اور کوئی خرابی خرابی محسوس نہ ہوئی۔
مجھے دنیا ایک خوبصورت جزیرہ، ایک نعمت محسوس ہوئی، میں دس دن اس کیفیت میں رہا، میں نے دسویں دن اپنی بیوی کو فون کیا، وہ بہت پریشان تھی، وہ لوگ مجھے پوری دنیا میں ڈھونڈ رہے تھے، میری بیوی نے انکشاف کیا ،، تمہاری میڈیکل رپورٹ غلط تھی، اسپتال نے خون کے نمونے تین مختلف لیبارٹریوں میں بھجوائے تھے، پہلی رپورٹ میں لبلبے کا کینسر نکلا جب کہ دوسری دونوں رپورٹیں نارمل ہیں، ڈاکٹر دوبارہ خون کے نمونے لینا چاہتے ہیں،، میں یہ سن کر حیران رہ گیا، میں سیدھا فیجی کے اسپتال گیا، خون دیا، رپورٹ آئی تو میں اس میں بھی نارمل تھا، میں نے شکر ادا کیا اور امریکا واپس چلا گیا،،۔
وہ دوبارہ بولا ،،میں آج یہ سمجھتا ہوں، وہ رپورٹ قدرت کی طرف سے ،،ویک اپ کال،، تھی، مجھے اللہ تعالیٰ زندگی کی حقیقت بتانا چاہتا تھا اور میں یہ حقیقت جان گیا، میں آج یہ سمجھتا ہوں آپ جب تک زندگی کے ہر لمحے کو آخری سمجھ کر زندگی نہیں گزارتے آپ اس وقت تک زندگی کو اس کے اصل رنگوں میں محسوس نہیں کر سکتے، آپ کو اس وقت تک زندگی محسوس نہیں ہو سکتی،،۔
یہ اختتام نہیں آغاز سفر ہے!
جاوید چوہدری جمعـء 12 دسمبر 2014

بٹر فلائیز بھارت میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے‘ یہ تنظیم 1989ء میں قائم ہوئی‘ تعلیم اس تنظیم کا بنیادی فریضہ ہے‘ بٹر فلائیز نے کام شروع کیا تو تنظیم کے رضا کاروں کو معلوم ہوا بھارت میں کروڑوں بچے گلیوں میں پیدا ہوتے ہیں‘ گلیوں میں پروان چڑھتے ہیں‘ گلیوں میں جوان ہوتے ہیں اورگلیوں ہی میں بوڑھے ہو کر مر جاتے ہیں‘ یہ بچے ’’اسٹریٹ چلڈرن‘‘ کہلاتے ہیں اور گلیاں ان بچوں کا مقدر ہوتی ہیں۔
بٹر فلائیز کو معلوم ہوا بھارت کے سیکڑوں شہروں میں اس وقت بھی 10 ملین اسٹریٹ چلڈرن موجود ہیں‘ یہ بچے بے سمت ہیں اور انھیں بھارت میں بچہ ہونے کا کوئی بھی حق نہیں مل رہا‘ بٹر فلائیز نے جب مزید تحقیق کی تو اسٹریٹ چلڈرن کا ایک عجیب المیہ اس کے سامنے آیا‘ پتہ چلا گلیوں میں پروان چڑھنے والے بچے ابتدائی عمر میں زندگی کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں‘ یہ بچے پانچ چھ سال کی عمر میں چھوٹا بن کر کام شروع کرتے ہیں‘ اسٹریٹ چلڈرن کی تنخواہیں انتہائی کم ہوتی ہیں اور یہ تنخواہیں بھی بچوں کے والدین‘ عزیز اور رشتے دار ہڑپ کر لیتے ہیں‘ یہ پیسے اسٹریٹ چلڈرن سے ان کے بڑے بھائی اور عمر سے بڑے بچے چھین لیتے ہیں یا یہ رقم چوری ہو جاتی ہے یا پھر دوسرے بچے یہ رقم اینٹھنے کے لیے ان بچوں کو جوئے اور منشیات کی عادت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
بٹر فلائیز نے سوچا ہم اگر ان بچوں کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے‘ ہم انھیں اعلیٰ تعلیم نہیں دلا سکتے‘ ہم انھیں انجینئر‘ ڈاکٹر یا سائنس دان نہیں بنا سکتے تو بھی ہم کم از کم ان کی یہ کمائی ضرور محفوظ رکھ سکتے ہیں‘ ہم ان کی یہ رقم ضایع ہونے سے ضرور بچا سکتے ہیں اور اگر ان غریب بچوں کی یہ کمائی بچ جائے تو یہ بھی کمال ہو گا‘ بٹر فلائیز نے اسٹریٹ چلڈرن کے لیے بچوں کے بینک کا تصور پیش کر دیا‘ بھارت کے دارالحکومت دہلی کے قدیم علاقے فتح پور میں 2001ء میں بچوں کا پہلا بینک قائم کیا گیا‘ اس بینک میں 9 سے 18 سال تک کے بچے ساڑھے تین فیصد منافع پر اپنی رقم جمع کرا سکتے ہیں۔
بینک کے تمام انتظامات اور اختیارات بچوں کے پاس ہیں‘ بینک کا منیجر سونو نام کا بچہ ہے‘ سونو کی عمر 13 سال ہے‘ یہ بچپن میں گھر سے بھاگ کر دہلی آ گیا تھا‘ یہ چائے کے اسٹال پر کام کرتا تھا‘ بٹرفلائیز کے رضا کار چائے پینے کے لیے اس ٹی اسٹال پر جاتے تھے‘ رضا کاروں نے سونو کو بینک کے بارے میں بتایا‘ سونو نے ٹی اسٹال کی نوکری چھوڑی اور بینک کی ملازمت اختیار کر لی‘ یہ اب چلڈرن بینک کا منیجر بھی ہے اور یہ اسکول بھی جاتا ہے‘ یہ بینک ہفتے کے سات دن کھلا رہتا ہے‘ بچے کسی بھی وقت بینک میں رقم جمع کرا سکتے ہیں اور بینک سے اپنی ضرورت کے مطابق رقم نکلوا سکتے ہیں‘ بینک کے کھاتے داروں میں بے گھربچے‘ گھروں میں کام کرنے والے بچے‘ مزدوری کرنے والے بچے اور بھیک مانگنے والے بچے شامل ہیں۔
چلڈرن بینک کی وجہ سے اسٹریٹ چلڈرن کو بچت کی عادت بھی پڑ رہی ہے اور ان کی رقم بھی رشتے داروں سے محفوظ رہتی ہے‘ بینک بچوں کو صرف اتنی رقم واپس کرتا ہے جس سے یہ لباس‘ جوتے اور کھانا لے سکیں‘ ان کی باقی رقم محفوظ رہتی ہے‘ بینک کا خیال ہے یہ بچوں کو مختلف کاروبار کی ٹریننگ دے گا‘ انھیں آسان شرائط پر قرضے بھی دیے جائیں گے اور کاروبار کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے‘ کاروبار کے ساتھ ساتھ انھیں بنیادی تعلیم بھی دی جائے گی تا کہ یہ مفید شہری بن سکیں۔
بٹر فلائیز کے اس منصوبے نے بھارت سمیت دنیا بھر کی ان تمام تنظیموں کی توجہ کھینچ لی جو دہائیوں سے بچوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں‘ چلڈرن بینک نے ان تنظیموں کو نئی راہ دکھا دی‘ یہ تنظیمیں اب تیسری دنیا کے مختلف ممالک میں چلڈرن بینک بنانے کی کوشش کر رہی ہیں‘ پاکستان‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش اور افریقہ کے 13 غریب ممالک ان کا ٹارگٹ ہیں۔
یہ ہے انقلاب اور اسے کہتے ہیں کام اور خدمت! بھارت میں کیلاش سیتارتھی نے بھی ایک ایسا ہی کارنامہ سرانجام دیا‘ یہ مدھیہ پردیش کے ضلع ودیشا کے رہنے والے ہیں‘ یہ کالج میں لیکچرار تھے‘ انھوں نے 1980ء میں جاب چھوڑی‘ ’’بچپن بچاؤ آندولن‘‘ نام کی تنظیم بنائی اور بچوں کی خدمت شروع کر دی‘ کیلاش کی تنظیم نے آج تک 80 ہزار سے زائد بچوں کی حالت بدل دی‘ ہم اگر گہرائی میں جا کر دیکھیں تو کیلاش ہمیں فرشتہ صفت انسان محسوس ہوں گے‘ بھارت میں اس وقت ایک ارب 25 کروڑ سے زائد لوگ بستے ہیں‘ ان میں اسی کروڑ لوگ جوان ہیں لیکن ان اسی کروڑ لوگوں میں کیلاش سیتارتھی واحد انسان ہے۔
جس نے اپنی زندگی غریب اور بے بس بچوں کے لیے وقف کر دی‘ جس نے 80 ہزار بچوں کی زندگی بدل کر رکھ دی‘ کیلاش کو کل اوسلو میں ہماری ملالہ یوسفزئی کے ساتھ امن کا نوبل انعام ملا‘ نوبل انعام دنیا کا معزز ترین ایوارڈ ہے‘ ملالہ یوسف زئی یہ اعزاز حاصل کرنے والی کم عمر ترین خاتون ہے‘ یہ اس وقت صرف سترہ سال کی ہیں‘ ملالہ نے 12 سال کی عمر میں بی بی سی اردو میں گلی مکئی کے نام سے سوات کی ڈائری لکھنا شروع کی‘ وہ طالبان کا دور تھا‘ پاکستانی طالبان سوات پر قابض ہو چکے تھے‘ سرکاری انتظامیہ سوات سے رخصت ہو چکی تھی‘ علاقے کے تمام اختیارات مقامی کمانڈرز کے ہاتھوں میں تھے‘ وہ لوگ سوات میں پولیس بھی تھے اور عدالت بھی۔ لڑکیوں کو اسکول اور کالج جانے سے روک دیا گیا‘ بچیوں کے چار سو سے زائد اسکول بارود لگا کر اڑا دیے گئے۔
ملالہ بہت باہمت بچی تھی‘ اس نے یہ غیر قانونی اور غیر شرعی احکامات ماننے سے انکار کر دیا‘ یہ اٹھ کھڑی ہوئی‘ اس نے گل مکئی کا فرضی نام رکھا‘ ڈائری لکھنا شروع کی اور پوری دنیا میں سوات کی بچیوں کی آواز بن گئی‘ جون 2009ء میں سوات میں ملٹری آپریشن ہوا‘ طالبان پسپا ہوئے‘ سرکاری رٹ دوبارہ اسٹیبلش ہوئی‘ میڈیا سوات پہنچا‘ گل مکئی دوبارہ ملالہ بن گئی‘ ملالہ کو اللہ تعالیٰ نے بے انتہا اعتماد اور ٹھہراؤ دے رکھا ہے‘ یہ بولنا جانتی ہے‘ یہ کیمروں کے سامنے آئی اور ملک اور بیرون ملک توجہ حاصل کر لی‘ طالبان کو گل مکئی کے پیچھے چھپی ملالہ کا علم ہوا تو 9 اکتوبر 2012ء کو اس پر حملہ کر دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے ملالہ کی جان بچا لی لیکن حملے کے آثار آج بھی اس کے چہرے کی بائیں سائیڈ پر موجود ہیں‘ اس کا آدھا چہرہ سُن ہے اور اس کے ہونٹ کی ایک سائیڈ بھی ہلکی سی لٹکی ہوئی ہے‘ ملالہ 15 اکتوبر 2012ء کو علاج کے لیے برمنگھم کے کوئین الزبتھ اسپتال پہنچی‘ یہ تندرست ہو گئی لیکن پاکستان میں اس کی جان محفوظ نہیں چنانچہ یہ برطانیہ میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہو گئی‘ یہ برمنگھم میں رہتی ہے اور ایجبسٹن ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہی ہے‘ میں 5 مارچ 2014 ء کو اس سے ملاقات کے لیے برمنگھم گیا‘ ملالہ سے ملاقات ہوئی‘ میں نے اس کی روح کو سوات کے لیے تڑپتے ہوئے پایا۔
ملالہ پاکستان کی واحد شہری ہے جس نے 38 عالمی ایوارڈز اور اعزاز حاصل کیے‘ نوبل کمیٹی نے 10 اکتوبر 2014ء کو اس کے لیے نوبل پیس پرائز کا اعلان کیا‘ یہ ایوارڈ کیلاش سیتارتھی اور ملالہ دونوں کو مشترکہ ملا‘ ملالہ اس اعزاز کی حق دار ہے کیونکہ پاکستان بالخصوص سوات جیسے علاقے کی لوئر مڈل کلاس بچی میں اتنی ہمت‘ جرات اور اتنی استقامت واقعی کمال ہے! ہم اگر ملالہ کی ان خوبیوں کو فراموش بھی کر دیں تو بھی اس اعزاز کے لیے ملالہ کی ایک خوبی کافی ہو گی اور وہ خوبی ہے اللہ تعالیٰ کا کرم۔ اللہ تعالیٰ نے 20 کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف ملالہ کو نوبل انعام اور اتنی پذیرائی اور بین الاقوامی عزت کے قابل سمجھا۔
یہ بچی اللہ تعالیٰ کے اس اصول کی عملی تفسیر ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو عزت دینا چاہے تو خواہ پوری دنیا اس شخص کے خلاف کیوں نہ ہو جائے وہ شخص عزت ضرور پاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے ملالہ کو عزت دینے کا فیصلہ کر لیا تھا چنانچہ اسے یہ عزت ملی اور ہم اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ مان لینا چاہیے‘ ہمیں ملالہ سے حسد کے بجائے رشک کرنا چاہیے‘ پوری قوم کو اس کی تعریف بھی کرنی چاہیے اور اسے مبارک باد بھی پیش کرنی چاہیے لیکن اس مبارک باد اور تعریف کے باوجود ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی کیلاش سیتارتھی اور ملالہ یوسف زئی میں بہت بڑا فرق ہے‘ کیلاش کو یہ ایوارڈ 80 ہزاربچوں کی حالت بدلنے کے بعد ملا‘ کیلاش نے کام پہلے کیا اور ایوارڈ بعد میں حاصل کیا جب کہ ملالہ یوسف زئی نے ایوارڈ پہلے حاصل کیا اور کام اس نے اب کرنا ہے۔
ملالہ نے ابھی پاکستان میں ’’بچپن بچاؤ آندولن‘‘ اور چلڈرن بینک جیسے ادارے بنانے ہیں‘ یہ بچی دنیا کے ان چند خوش نصیب لوگوں میں شمار ہوتی ہے جنھیں اللہ تعالیٰ عزت اور شہرت پہلے دیتا ہے اور ان سے کام بعد میں لیتا ہے‘ ملالہ نے اگر اللہ تعالیٰ کایہ پیغام سمجھ لیا‘ یہ جان گئی اس کی زندگی آغاز کے بجائے اختتام سے اسٹارٹ ہو رہی ہے تو یہ بچی کمال کر دے گی‘ یہ پاکستان کی ہر بچی کو ملالہ بنا دے گی‘ یہ کیلاش سیتارتھی سے بڑی شخصیت بن کر ابھرے گی اور وہ وقت آئے گا جب پورا ملک کھڑا ہو کر اس کے لیے تالیاں بجائے گا اور نوبل انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی اعلان کرے گی ہم نے آج تک 860 لوگوں کو نوبل انعام دیا مگر صرف ملالہ نے خود کو اس اعزاز کا اصل حق دار ثابت کیا لیکن ملالہ نے اگر نوبل انعام کو آخری منزل سمجھ کر خود کو برطانیہ اور میڈیا تک محدود کر دیا تو یہ اعزاز بہت جلد اس کے لیے بے عزتی کا باعث بن جائے گا‘ لوگ اسے پہچانیں گے لیکن اس کی عزت نہیں کریں گے اوریہ صرف تاریخ تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔
ملالہ نے آج فیصلہ کرنا ہے یہ اعزاز اس کا آغاز سفر ہے یا پھر اختتام سفر۔ اس نے دس دسمبر 2014ء سے ’’میڈیا کوئین‘‘ کا سفر شروع کرنا ہے یا پھر پاکستان کی کیلاش سیتارتھی بننا ہے اور یہ دس دسمبر کے دن سے مستقبل کے روشن دن کی طرف چلے گی ‘ تاریخ کے اندھیرے غار میں اترے گی ‘ خوش قسمت ملالہ بنے گی یا پھر بد نصیب ملالہ۔
ملالہ کا سفر آج سے شروع ہوتا ہے!
معاملات قیادت کے ہاتھ میں رہنے چاہئیں
جاوید چوہدری پير 8 دسمبر 2014

علاقے کا نام ساندل بار تھا، یہ دور دور تک بے آب اور بے گیاہ تھا، علاقے میں تاحد نظر ویرانی، دھول اور اجاڑ تھا، زمین سوکھی، آسمان بے مہر اور موسم شدید تھے، سردیوں میں شدید سردی اور گرمیوں میں شدید گرمی پڑتی تھی، جھنگ،گوجرانوالہ اور ساہیوال قریب ترین شہر تھے مگر ان شہروں تک پہنچنے کا کوئی راستہ موجود نہیں تھا، پانی کی کمی کے باعث آبادی نہ ہونے کے برابر تھی لیکن پھر ایک واقعہ پیش آیا اور علاقے کا مقدر بدل گیا، سر جیمز لائل پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر بن گئے،یہ وژنری انسان تھے، یہ نئی بستیاں بنانے، نئے ٹاؤن آباد کرنے اور صدیوں سے گمنامی کے اندھیرے میں گم علاقوں کو روشنی میں لانے کے خبط میں مبتلا تھے، یہ شاندار گھڑ سوار بھی تھے۔
یہ اکثر گھوڑے پر سوار ہو کر لاہور سے ساندل بار نکل جاتے ، وہ 1890ء کا زمانہ تھا، انگریز پنجاب فتح کرچکا تھا اور اس وقت پنجاب کے مختلف علاقوں میں ترقیاتی کام ہو رہے تھے،سڑکیں بن رہی تھیں، ریلوے لائین بچھ رہی تھی اور دریائے چناب سے ایک بڑی نہر نکالی جا رہی تھی، اس نہر سے تین بڑی برانچیں بھی نکلنی تھیں، راکھ برانچ، جھنگ برانچ اور گوگیرہ برانچ، یہ نہر اور یہ تین برانچ نہریں اس علاقے کا مستقبل تھیں، انگریزوں کا خیال تھا،یہ نہریں پورے علاقے کا مقدر بدل دیں گی، سر جیمز لائل ساندل بار کے ویران علاقے میں گھوڑا دوڑاتے رہتے تھے، وہ ایک دن گھڑ سواری سے تھک گئے تو وہ رکے، گھوڑے سے اترے، کیکرکے ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگائی اور سستانے کے لیے بیٹھ گئے۔
جیمز لائل کے دماغ میں بیٹھے بیٹھے اس بے آب و گیاہ علاقے میں نیا شہر بسانے کا خیال آیا، وہ سیدھے ہوئے، درخت کی ایک خشک ٹہنی لی، زمین پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچیں اور شہر کا ابتدائی نقشہ تیار ہو گیا، ڈسمنڈنگ ایک ڈیزائنر تھا، یہ اس وقت گورنر پنجاب کا مہمان تھا، جیمز لائل لاہور واپس آئے، ڈسمنڈنگ سے بات کی، وہ اگلے ہفتے جیمز لائل کے ساتھ ساندل بار جانے پر راضی ہو گیا، وہ دونوں تین دن اس بے آب و گیاہ علاقے کے میں گھومتے رہے، وہ تین دن پاکستان کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد کی بنیاد ثابت ہوئے، سر جیمز لائل اور ڈسمنڈنگ نے پنجاب کو ایک نئے اور خوش حال شہر کا تحفہ دینے کا فیصلہ کرلیا، سر گنگا رام اس وقت لاہور کے بڑے ٹھیکیدار تھے، سر جیمز لائل اور ڈسمنڈگ نے گنگا رام کو بلایا، نئے شہر کا نقشہ دکھایا اور ان سے ابتدائی ٹاؤن پلاننگ کی درخواست کی، گنگا رام مان گئے، جیمز لائل نئے شہر کو پیرس کی طرز پر تعمیر کرنا چاہتے تھے۔
پیرس کے عین درمیان میں ٹریمف آرک ہے،یہ آزادی کے شہیدوں کی یاد گار ہے، یہ عمارت چوک میں قائم ہے، آپ اگر اس کی چھت پر کھڑے ہوں تو آپ کو ٹریمف آرک سے آٹھ سڑکیں نکلتی نظرآئیں گی، شانزے لیزے بھی ان سڑکوں میں سے ایک سڑک ہے، جیمز لائل، ڈسمنڈنگ اور گنگارام نے یہ شہر ٹریمف جیسے چوک کے گرد آباد کرنے کا فیصلہ کیا، چوک بنانے کی ذمے داری گنگا رام کو سونپی، یہ چوک آج ایک سو آٹھ سال سے فیصل آباد کے عین درمیان موجود ہے، یہ گھنٹہ گھر کہلاتا ہے ، 1892ء میں چناب کی نہر اور تینوں برانچ نہریں نکلیں، علاقے میں پانی آیا، خشک زمین ہری بھری ہوئی اور1892ء میں جیمز لائل نے ساندل بال میں نئے شہر کا سنگ بنیاد رکھ دیا، شہر کے لیے 110مربع ایکڑ زمین مختص کی گئی، گنگا رام نے گھنٹہ گھر بنانا شروع کیا، تعمیر کی ذمے داری گلاب خان کو سونپی گئی، یہ تاج محل کے معماروں کے خاندان سے تھا،گھنٹہ گھر تین برسوں میں مکمل ہوا۔
گھڑیال ممبئی سے لایا گیا، مینار کے گرد آٹھ بازار بنائے گئے، 1910ء میں شہر کو ریلوے سے جوڑ دیا گیا، جیمز لائل اکثر گھوڑے پر بیٹھ کر نئے شہر کا معائنہ کیا کرتے تھے، جیمز لائل کی اس محنت اور محبت کی وجہ سے یہ شہر پنجاب بھر کا کاروباری مرکز بن گیا، منڈی بنی،صنعتی علاقہ بنا اور پھر پیداوار اور تجارت کا ہیڈکوارٹر بن گیا، قیام پاکستان کے وقت لائل پور کی آبادی لاکھ نفوس سے کم تھی، 1951ء میں یہاں کی آبادی ایک لاکھ 70 ہزار ہو گئی، یہ آہستہ آہستہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر بن گیا، جیمز لائل اور ان کا خاندان دہائیوں قبل برطانیہ واپس چلا گیا لیکن ان کی نشانی پاکستان میں موجود رہی، 2003ء میں مارک لائل گرانٹ برطانوی ہائی کمشنر بن کرپاکستان آئے۔
یہ جیمز لائل کے نواسے تھے، 1977ء میں لائل پور کا نام تبدیل کر کے فیصل آباد رکھ دیا گیا، شہر کو فیصل آباد کا نام سعودی عرب کے حکمران شاہ فیصل کے نام پر دیا گیا ، آپ یہاں دو دلچسپ حقیقتیں ملاحظہ کیجیے، شاہ فیصل نے پوری زندگی اس شہر میں قدم نہیں رکھا لیکن ہم نے اس کے باوجود ملک کا تیسرا بڑا شہر ان کے نام منسوب کر دیا اور دوم پورے سعودی عرب میں شاہ فیصل کے نام سے کوئی بستی، کوئی ادارہ قائم نہیں لیکن پاکستان میں ان کے نام سے ایک شہر، ملک کی سب سے بڑی مسجد اور کراچی شہر کی مین شاہراہ منسوب ہے جب کہ پاکستان کے لوگ اس شخص کا نام تک بھول چکے ہیں جس نے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس شاندار شہر کی بنیاد بھی رکھی تھی اور پورے پنجاب سے لوگوں کو مراعات دے کر یہاں آباد بھی کیا تھا، میری حکومت سے درخواست ہے آپ فیصل آباد کو واپس لائل پور نہ بنائیں لیکن آپ کم سے کم شہر کے گھنٹہ گھر کو لائل چوک ضرور ڈکلیئر کر دیں، آپ گھنٹہ گھرچوک میں جیمز لائل کا مانو منٹ بھی بنائیں تا کہ ہماری نوجوان نسل تاریخ کے اس گمنام کردار سے واقف ہو سکے۔
فیصل آباد پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے تیسرا جب کہ معاشی لحاظ سے سب سے بڑا شہر ہے، شہر میں 10ہزار سے زائد چھوٹے بڑے صنعتی یونٹ ہیں، ملک کی آدھی سے زیادہ ایکسپورٹ فیصل آباد سے بیرون ملک روانہ ہوتی ہے، یہ کاٹن مصنوعات اور گارمنٹس کا مرکز بھی ہے اور یہ ملک کا خوش حال ترین شہر بھی ہے لیکن کل دنیا نے اس شہر کا انتہائی بدصورت چہرہ دیکھا، کل پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے شہر کو میدان جنگ بنا دیا، دنیا سارا دن ٹیلی ویژن اسکرین پر ڈنڈے، نعرے، واٹر کینن اور بپھرے ہوئے عوام دیکھتی رہی، عمران خان نے 30 نومبر کو اعلان کیا تھا یہ 8 دسمبر کو فیصل آباد بند کر دیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمودقریشی نے دو دسمبر کو ہمارے پروگرام ،،کل تک،، میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کو پیش کش کی ،،حکومت اگر 6 دسمبر کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائے تومیں عمران خان سے اپیل کروں گا آپ فیصل آباد کا دھرنا ،،کال آف،، کر دیں،، اسحاق ڈار نے وزیراعظم سے رابطے کے بعد جواب دینے کا وعدہ کیا لیکن بدقسمتی سے مذاکرات اسٹارٹ نہ ہو سکے اور یوں معاملات مزیدالجھ گئے، وزیراعظم میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں اس وقت مذاکرات کے خواہاں ہیں، شاہ محمود قریشی بھی مسئلے کا پرامن حل چاہتے ہیں، کیوں؟ دو وجوہات ہیں، میاں نواز شریف اپنی توجہ ترقیاتی کاموں پر لگانا چاہتے ہیں۔
یہ جانتے ہیں امریکا کے افغانستان سے نکلنے سے قبل خطے میں ترقیاتی عمل شروع ہو جائے گا پاکستان نے اگر یہ وقت بھی ضایع کر دیا تو ملک ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا چنانچہ یہ ہر صورت اس وقت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں،دوم، عمران خان ساڑھے تین ماہ طویل دھرنا دے کر تھک چکے ہیں، اسلام آباد میں سردی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، دسمبر کے آخر میں ڈی چوک میں بیٹھنا مشکل ہو جائے گا، دھرنے کی وجہ سے پارٹی بھی معاشی دباؤ کا شکار ہے، لاکھوں روپے روزانہ خرچ ہو رہے ہیں اور کسی بھی جماعت کے لیے تین چار ماہ تک یہ بوجھ برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا، پارٹی دھرنے کی وجہ سے خیبرپختونخواہ حکومت بھی کام نہیں کر پا رہی، صوبے پر آہستہ آہستہ ان کی گرفت بھی کمزور پڑتی جا رہی ہے چنانچہ عمران خان بھی اب یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں، یہ ،،میاں نواز شریف استعفیٰ دیں،، جیسے مطالبے سے بھی پیچھے ہٹ چکے ہیں۔
یہ صرف جوڈیشل کمیشن بنانا چاہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے حکومت سمجھوتے کے بجائے رگڑا لگانے کے موڈ میں چلی گئی ہے، یہ عمران خان کو مکمل ناکام اور سیاسی بے وقوف ثابت کرنے میں جت گئی ، میں یہاں حکومت کو غلط سمجھتا ہوں، میرا خیال ہے حکومت کو ضد ترک کر کے عمران خان کا آگے بڑھایا ہوا ہاتھ تھام لینا چاہیے، حکومت مذاکرات کی میز بچھائے، جوڈیشل کمیشن بنائے اور یہ مسئلہ ختم کر دے، حکومت نے یہ وقت ضایع کر دیا تو معاملات بگڑ جائیں گے کیونکہ حالات بڑی تیزی سے میاں نواز شریف اور عمران خان کے ہاتھ سے نکل کر کارکنوں کے ہاتھ میں جا رہے ہیں۔
آج فیصل آباد میں دونوں جماعتوںکے کارکن آمنے سامنے آئے ہیں،12 دسمبر کو کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا مقابلہ ہو گا اور 15 کو لاہور میں آگ لگ جائے گی،یہ صورتحال حکومت کو سوٹ نہیں کرتی کیونکہ معاملات اگر ایک بار عوام میں چلے گئے تو ان کی واپسی مشکل ہوجائے گی،معاملات ہمیشہ قیادت کے ہاتھ میں رہنے چاہئیں، عوام میں نہیں جانے چاہئیں چنانچہ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، یہ معاملات کنٹرول کرے، مذاکرات شروع کرے ورنہ دوسری صورت میں گیا وقت کبھی واپس نہیں آتا، آپ کویقین نہ آئے تو آپ جنرل مشرف کو دیکھ لیجیے، جنرل مشرف نے بھی لڑائی کو مذاکرات پر اہمیت دی تھی چنانچہ یہ آج گھر تک محصور ہو کر رہ گئے ہیں، کیا میاں صاحب بھی مشرف بننا چاہتے ہیں ، حکومت کو آج کے دن یہ ضرور سوچنا چاہیے۔

خوشحالی کے چھ اصول
جاوید چوہدری ہفتہ 6 دسمبر 2014

وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا کے شہر اوماہا میں رہتے ہیں‘ یہ امریکا کی 9 بڑی کمپنیوں کے چیئرمین‘ سی ای او یا سربراہ ہیں‘ یہ 2000ء سے دنیا کے دس امیر ترین لوگوں کی فہرست میں آ رہے ہیں‘ یہ غریب والدین کی اولاد تھے‘ سرمایہ کاری جینز میں تھی‘ بچپن میں بچوں کو کوکا کولا کی بوتلیں سپلائی کرنا شروع کیں اور پھر کبھی مڑ کر نہیں دیکھا‘ یہ اس وقت 74 بلین ڈالر کے مالک ہیں لیکن دولت کے باوجود سادہ زندگی گزارتے ہیں‘ یہ پانچ کمروں کے پرانے گھر میں رہتے ہیں‘ یہ گھر انھوں نے 1958ء میں خریدا تھا‘ یہ گھر کا سارا کام خود کرتے ہیں‘ گھر کے سامنے ایک چھوٹی سی کافی شاپ ہے۔
صدر اوباما ہوں‘ بل گیٹس ہوں یا پھر کسی دوسرے ملک کا سربراہ‘ کاروباری شخصیت یا راک اسٹار جو بھی شخص وارن بفٹ سے ملنا چاہتا ہے وہ ان سے وقت طے کرتا ہے اور اس کافی شاپ میں آ جاتا ہے‘ وارن بفٹ طے شدہ وقت پر یہاں آتے ہیں‘ اس شخص سے ملاقات کرتے ہیں اور وقت ختم ہونے پر وہاں سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں‘ یہ اس وقت امریکا اور دنیا میں دو تحریکیں بھی چلا رہے ہیں‘ یہ دنیا میں ایسے ایک سو ارب پتی لوگوں کا کلب بنانا چاہتے ہیں جس کے تمام ممبرز انتقال سے قبل اپنی تین چوتھائی دولت خیرات کر دیں‘ یہ دولت دنیا بھر میں فلاح عامہ‘ صحت تعلیم اور ریسرچ پر خرچ ہو‘ یہ ہر سال بل گیٹس کی ’’بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘‘ کو خیرات دیتے ہیں‘ وارن بفٹ نے2014ء میں 2.8 بلین ڈالر بل گیٹس کی فاؤنڈیشن کو دیے‘ یہ امریکا میں ’’امیر لوگوں کو زیادہ ٹیکس دینا چاہیے‘‘ جیسی تحریک بھی چلا رہے ہیں۔
امریکا میں سرمایہ کاروں کو ٹیکس مراعات حاصل ہیں‘ وارن بفٹ ان مراعات کے خلاف ہیں‘ یہ کہتے ہیں میرے منیجر میرے مقابلے میں زیادہ ٹیکس دیتے ہیں‘ یہ معاشرے کے ساتھ ظلم ہے‘ حکومت کو امیروں پر ٹیکس بڑھانا چاہیے اور غریبوں پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنا چاہیے‘ وارن بفٹ دنیا کے ان چند لوگوں میں بھی شمار ہوتے ہیں جنہوں نے انسانی ذہن کو بے تحاشہ متاثر کیا‘ یہ صوفی منش انسان ہیں‘ آپ صوفیاء کرام کے طرز زندگی کا مطالعہ کریں اور اس کے بعد وارن بفٹ کے شب و روز کا تجزیہ کریں تو آپ کو دونوں میں بے شمار مشترک عادتیں ملیں گی‘ یہ ارب پتی ہونے کے باوجود ذہنی‘ روحانی اور جسمانی لحاظ سے صوفی ہیں‘ یہ ٹینشن فری زندگی گزارتے ہیں‘ ذاتی زندگی میں کنجوس ہیں‘ خوراک‘ کپڑوں اور گاڑیوں پر رقم ضایع نہیں کرتے‘ یہ‘ تعیشات سے بھی پاک ہیں۔
نمود و نمائش کے خلاف ہیں‘ دولت کے اصراف کو گناہ سمجھتے ہیں‘ ریستورانوں سے صرف اتنا کھانا خریدتے ہیں جتنی انھیں ضرورت ہوتی ہے لیکن ضرورت مندوں کے لیے ان کا دل انتہائی کھلا ہے‘ آپ پورے عالم اسلام سے کوئی ایک ایسا رئیس شخص دکھا دیجیے جو ہر سال اربوں ڈالر چیریٹی کرتا ہو جب کہ وارن بفٹ ہر سال یہ کرتے ہیں‘ یہ چیریٹی کرتے وقت مذہب‘ نسل اور ملک سے بالاتر ہو جاتے ہیں‘ ان کی دولت دنیا کے 245 ممالک کے ضرورت مندوں کے کام آتی ہے اور یہ ان کے انتقال کے بعد بھی کام آئے گی مگر یہ دولت اور ان کا طرز زندگی ہمارا موضوع نہیں‘ ہمارا موضوع سرمایہ کاری اور دولت کے بارے میں ان کا فلسفہ حیات ہے۔
وارن بفٹ نے نئے سرمایہ کاروں‘ خوش حال زندگی گزارنے کے خواہش مند مڈل کلاسیوں اور آمدنی میں اضافے کے متمنی لوگوں کے لیے چھ اصول وضع کیے ہیں‘ یہ چھ اصول وارن بفٹ کی کامیابی کے گُر ہیں‘ یہ گُر دنیا کے عظیم سرمایہ کار فلاسفر کی کاروباری زندگی کا نچوڑ ہیں‘ میں یہ نچوڑ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں‘ آپ اگر تھوڑی سی توجہ دیں تو یہ گُر آپ کی زندگی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں‘ وارن بفٹ کا پہلا گُر آمدنی سے متعلق ہے‘ ان کا کہنا ہے‘ انسان کو کبھی ایک ذریعہ معاش پر انحصار نہیں کرنا چاہیے‘ اس کا کوئی نہ کوئی دوسرا ’’سورس آف انکم‘‘ ضرور ہونا چاہیے۔
میں وارن بفٹ کے اس نقطے سے اتفاق کرتا ہوں‘ دنیا میں ہر وہ شخص معاشی دباؤ کا شکار رہتا ہے جس کی آمدنی کا ذریعہ ایک ہوتا ہے‘ آپ نوکری کرتے ہوں یا کاروبار آپ روزانہ اتار چڑھاؤ سے گزرتے ہیں‘ دنیا میں کوئی نوکری‘ کوئی کاروبار مستقل نہیں ہوتا چنانچہ آپ جب بھی کسی ایک ذریعے پر انحصار کریں گے تو آپ پر دباؤ ضرور آئے گا چنانچہ آپ کو آمدنی کے دو سے تین مختلف ذرایع پیدا کرنے چاہئیں‘ آپ اگر میاں بیوی ہیں تو آپ دونوں کو کام کرنا چاہیے اور دونوں کا کام مختلف ہونا چاہیے تا کہ اگر کسی ایک کا کام یا جاب ختم ہو جائے تو بھی گھر چلتا رہے‘ دنیا کا بہتر ماڈل کام‘ بزنس اور سرمایہ کاری ہے یعنی اگر گھر کا ایک فرد جاب کرتا ہے تو دوسرے کو کاروبار کرنا چاہیے اور یہ دونوں جو کما رہے ہیں۔
اس کا ایک حصہ سرمایہ کاری میں لگنا چاہیے‘ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کے چار بڑے ذرایع ہیں‘ اسٹاک ایکسچینج‘ بینک میں ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر فکس ڈیپازٹ‘ پراپرٹی میں سرمایہ کاری یا پھر پرافٹ اور لاس کی بنیاد پر کسی کاروباری ادارے میں رقم لگا دینا‘ یہ سرمایہ کاری آپ کے گھر کے اخراجات میں سہولت پیدا کر دے گی تاہم آپ خواہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہوں آپ کی آمدنی کا ذریعہ ایک نہیں ہونا چاہیے‘ آپ کے دو یا تین سورس آف انکم ہونے چاہئیں‘ وارن بفٹ کا دوسرا اصول اخراجات سے متعلق ہے‘ وارن بفٹ کا کہنا ہے آپ کو صرف ضرورت کی اشیاء خریدنی چاہئیں‘ آپ بلا ضرورت رقم خرچ نہ کریں‘ وارن بفٹ مثال دیتے ہیں‘ میں بے شمار ایسے لوگوں سے واقف ہوں جو بلاضرورت اشیاء خریدنے کی عادت میں مبتلا تھے لیکن انھیں بعد ازاں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایسی اشیا ء بیچنا پڑیں جو ان کے لیے انتہائی ضروری اور اہم تھیں‘ میں وارن بفٹ کی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں‘ ہم جب بھی کوئی چیز خریدیں ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے۔
کیا یہ چیز میرے لیے ضروری ہے یا میں اس چیز کے بغیر بھی گزارہ کر سکتا ہوں؟ ہمیں ان سوالوں کے جواب کے بعد خرید و فروخت کا فیصلہ کرنا چاہیے‘ ہم یہ عادت اپنا لیں گے تو ہمارے معاشی دباؤ میں کمی آ جائے گی‘ وارن بفٹ کا تیسرا اصول بچت سے متعلق ہے‘ وارن بفٹ کا کہنا ہے‘ دنیا کے زیادہ تر لوگ اخراجات سے بچنے والی رقم کو بچت سمجھتے ہیں‘ یہ تصور غلط ہے‘ انسان کو چاہیے یہ اسے بچت نہ سمجھے جو خرچ کرنے کے بعد باقی بچ جائے بلکہ اسے وہ خرچ کرنا چاہیے جو بچت کے بعد باقی بچ جائے‘ یہ کہتے ہیں آپ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہی یہ فیصلہ کر لیں آپ اپنی آمدنی کا اتنے فیصد بچائیں گے‘ آپ کے ہاتھ میں جوں ہی رقم آئے آپ سب سے پہلے اس میں سے بچت الگ کریں اور باقی رقم اس کے بعد خرچ کریں‘ آپ پوری زندگی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے‘ یہ فارمولا بھی پریکٹیکل اور کامیاب ہے‘ آپ آج سے اس پر عمل شروع کریں‘ آپ تین ماہ میں اس کے نتائج دیکھیں گے‘ وارن بفٹ کا چوتھا اصول سرمایہ کاری سے متعلق ہے۔
یہ اپنی پوری سرمایہ کار زندگی کو صرف ایک فقرے میں بیان کرتے ہیں‘ یہ کہتے ہیں ’’میں نے کبھی اپنے تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھے‘‘ یہ کہتے ہیں‘ آپ اپنی بچت کو کبھی کسی ایک سیکٹر میں نہ لگائیں کیونکہ اگر یہ شعبہ بیٹھ گیا تو آپ کی ساری سرمایہ کاری پھنس جائے گی‘ آپ آٹھ سے دس شعبوں کی فہرست بنائیں اور اپنی بچت ان تمام شعبوں میں پھیلا دیں‘ آپ کو کبھی گھاٹا نہیں پڑے گا‘ وارن بفٹ کا پانچواں اصول رسک سے متعلق ہے‘ یہ کہتے ہیں لوگ دریاؤں میں اندھا دھند چھلانگ لگانے کو رسک کہتے ہیں جب کہ یہ رسک رسک نہیں خودکشی ہوتی ہے‘ آپ دریا کو دریا سمجھیں‘ اسے خطرناک جانیں‘ آپ کبھی اس کی گہرائی ماپنے کے لیے اس میں پاؤں نہ ڈالیں‘ وارن بفٹ کا یہ نقطہ خاصا مشکل ہے‘ یہ شاید اس اصول کے ذریعے یہ سمجھانا چاہتے ہیں‘ انسان کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے‘ آپ خود رسک لینے کے بجائے دوسروں کے رسک سے سیکھیں‘ آپ دریا کی گہرائی ماپنے کے لیے خود دریا میں نہ اتریں۔
آپ دریا کے کنارے نصب بورڈ پڑھ لیں یا پھر دریا کے کسی ماہر سے پوچھ لیں‘ یہ بتانا چاہتے ہیں ہمیں زندگی میں رسک لینے سے قبل باقاعدہ ریسرچ کرنی چاہیے‘ لوگوں سے مشورہ کرنا چاہیے اور کثرت رائے سے فیصلہ کرنا چاہیے اور وارن بفٹ کا چھٹا اور آخری اصول توقعات سے متعلق ہے‘ یہ کہتے ہیں‘ ایمانداری قیمتی تحفہ ہے‘ آپ سستے لوگوں سے اس کی توقع نہ رکھیں‘ میں وارن بفٹ کی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں‘ ہم اعتماد کی وجہ سے 80 فیصد دھوکے کھاتے ہیں‘ آپ لوگوں پر اندھے اعتماد کے بجائے سوچ سمجھ کر فیصلے کریں‘ آپ 80 فیصد دھوکوں سے بچ جائیں گے‘ ہم سرمایہ کاری کے لیے ہمیشہ دوسروں پر اعتماد کرتے ہیں‘ ہم لوگوں کو ظاہری حلیے کی بنیاد پر ایماندار یا بے ایمان سمجھ بیٹھتے ہیں اور یہاں سے ہمارے معاشی مسائل شروع ہو جاتے ہیں‘ آپ دوسروں پر اندھے اعتماد کے بجائے ٹھوک بجا کر سرمایہ کاری کریں‘ اپنی تسلی کریں‘ کاغذی کارروائی مکمل کریں اور وقت پر قسطیں ادا کریں‘ آپ کو کبھی شرمندگی یا پریشانی نہیں ہو گی۔
وارن بفٹ کے یہ چھ اصول صرف فلسفہ نہیں ہیں‘ یہ ان کی عمر بھر کے تجربات کی کمائی ہیں‘ یہ وہ اصول ہیں جنہوں نے معمولی غریب انسان کو دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص بنایا‘ ہم اگر ان اصولوں کو رہنما مان لیں تو ہم ارب پتی نہ بھی بنیں تو بھی ہم ایک خوش حال زندگی ضرور گزار سکتے ہیں‘ باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔

وزیراعظم کی بینائی کا صدقہ
جاوید چوہدری جمعـء 5 دسمبر 2014

آپ روز صبح جاگتے ہیں‘ آنکھیں کھول کر کمرے کا جائزہ لیتے ہیں‘ کھڑکی سے اندر جھانکتی بیلوں اور ان بیلوں پر مسکراتے پھول دیکھتے ہیں‘ آپ کو اپنی رضائی‘ اپنے کمبل کے رنگین پیٹرن بھی دکھائی دیتے ہیں اور دیواروں کا عنابی رنگ بھی‘ پنکھے کے سفید پر بھی‘ صوفے کا قرمزی کپڑا بھی اور سیاہ سلیپر بھی اور آپ قدرت کے کارخانے میں بکھرے سیکڑوں ہزاروں رنگ بھی روز دیکھتے ہیں‘ یہ کیا ہے؟ یہ سب آدھ انچ کی دو پتلیوں اور ان کے پیچھے چھپے چھوٹے مہین سے پردے کا کمال ہے۔
ہماری پلکیں اٹھتی ہیں اور ہمارے گرد موجود سیکڑوں رنگ عکس بن کر پتلیوں پر دستک دینے لگتے ہیں‘ پتلیاں سکڑتی اور پھیلتی ہیں اور عکس آنکھ کے لینز سے ہوتے ہوئے دماغ کے پردے پر اترتے ہیں‘ ہمارے دماغ کی باریک نسیں اس عکس کو پڑھتی ہیں‘ اس عکس کو سگنل بناتی ہیں‘ یہ سگنل دماغ کے برقی سسٹم میں دوڑتے ہیں اوریوں ہم سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اپنے دائیں بائیں‘ اوپر نیچے موجود مناظر کو سمجھنے لگتے ہیں‘ چڑیا کے پنکھ اور تتلی کے پر میں رنگوں کی چودہ سو ڈیٹیلز ہوتی ہیں‘ ہماری آنکھ چند سیکنڈ میں یہ ساری ڈیٹیلز دیکھ لیتی ہے‘وزیراعظم صاحب انسان پانچ حسوں کا عظیم مرکب ہے‘ آنکھ ان پانچ حسوں کی لیڈر ہے‘ آپ اگر دیکھ نہیں سکتے تو آپ پچاس فیصد رہ جاتے ہیں‘ آپ کی زندگی سے پچاس فیصد زندگی نکل جاتی ہے۔
آپ کے سیکھنے‘ انڈر اسٹینڈ کرنے اور آگے بڑھنے کے امکانات پچاس فیصد کم ہو جاتے ہیں‘ وزیراعظم صاحب آپ ایک دن‘صرف ایک دن کے لیے اپنی آنکھیں ادھار دے دیں‘آپ صبح اٹھیں اور پلکیں کھولے بغیر اپنی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ لیں اور پھر رات سونے تک یہ پٹی باندھے رکھیں‘ آپ اس کے بعد ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈ لیں اور اپنے دن بھر کے محسوسات اس ٹیپ ریکارڈر میں ریکارڈ کرتے جائیں‘ آپ دوسرے دن معمول کے مطابق اٹھیں‘آنکھیں کھولیں‘ ٹیپ ریکارڈ آن کریں اور اپنے گزشتہ دن کے سارے محسوسات سنیں‘مجھے یقین ہے آپ پریشان ہو جائیں گے کیونکہ آپ کو زندگی میں پہلی بار گزرا ہوا کل اپنا کل محسوس نہیں ہو گا‘ آپ کو محسوس ہو گا آپ اپنے کمرے میں اپنے بیڈ سے اٹھے تھے لیکن آپ کا کمرہ آپ کا کمرہ نہیں تھا‘ آپ کے کمرے میں کھڑکی تھی لیکن کیا اس کھڑکی سے سرخ پھولوں کی بیل اندر جھانک رہی تھی؟ آپ زندگی میں پہلی بار یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکیں گے۔
آپ کے پردوں میں رنگ تھے یا اڑ چکے تھے‘ آپ کی بیڈ شیٹ‘ آپ کے کمبل یا آپ کی رضائی میں کتنے رنگ تھے‘ آپ یہ نہیں دیکھ سکے‘ آپ نے اپنے سیلپر بھی ٹٹول کر تلاش کیے‘ آپ باتھ روم تک کیسے پہنچے‘ آپ کو کموڈ‘ آپ کو سنک تک پہنچتے ہوئے کتنی ٹھوکریں‘ کتنے ٹھڈے لگے‘ آپ کا ٹوتھ برش اور پیسٹ کہاں تھا؟ آپ کے ہاتھ میں پیسٹ کی ٹیوب تھی یا شیونگ کریم ‘ آپ کو کچھ اندازہ نہیں ہوا‘ آپ نے شیو کرنے کے لیے ریزر اٹھایا تو آپ کو معلوم ہوا آپ آج شیو نہیں کر سکیں گے کیونکہ منہ پر کریم لگانے اور ریزر چلانے کے لیے آنکھیں چاہئیں اور اس دن میاں نواز شریف ایک دن کے لیے اپنی آنکھیں ادھار دے چکے تھے۔
آپ تولیہ تلاش کرتے ہیں تو آپ کو تولیہ نہیں ملتا‘ آپ شاور تک جاناچاہتے ہیں تو آپ کو درجنوں ٹھڈے اور ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں‘ فرش پر شیشے کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے‘ آپ کے راستے میں ڈسٹ بین آ جاتی ہے‘ شاور کیس کا ہینڈل اپنی جگہ موجود نہیں‘ شاور کی ناب کہاں ہے‘ گرم اور ٹھنڈے پانی کے ہینڈل کدھر ہیں‘ آپ اندازہ نہیں کر سکتے‘ آپ کے منہ آپ کے بالوں پر کہاں کہاں صابن لگا ہے‘ شیمپو کی بوتل کہاں ہے اور شاور جیل کہاں رکھا ہے‘ آپ کو اندازہ نہیں ہوتا‘ وزیراعظم صاحب آپ گھبرا رہے ہیں‘ یہ تو شروعات ہیں‘ آپ ابھی سے گھبرا گئے‘ آپ نے اندھے پن کے صرف دس منٹ گزارے ہیں‘ آپ نے ابھی کپڑے بھی تلاش کرنے ہیں‘ آپ نے ایک ہی رنگ کی شلوار قمیض سیدھی پہنی ہے اور اگر شلوار میں آزار بند نہیں ہے تو آپ نے ابھی آزار بند‘ ناڑے پانی اور شلوار تینوں تلاش کرنی ہیں‘ آپ نے جوتے بھی تلاش کرنے ہیں اور ایک ہی رنگ کی جرابیں بھی تلاش کر کے پہننی ہیں۔
آپ نے ٹٹول کر ویسٹ کوٹ بھی تلاش کرنی ہے‘ آپ نے ناشتے کی میز پر بھی پہنچنا ہے اور آپ نے ڈبل روٹی‘ انڈہ‘ جیم‘ مکھن اور شہد کا اندازہ بھی لگانا ہے‘ آپ نے چائے کافی کا مگ بھی گرائے بغیر تلاش کرنا ہے‘ آپ نے میز پر پڑی ہر چیز اٹھا کر منہ تک بھی لانی ہے اور آپ نے اپنے ہونٹوں‘ اپنی ٹھوڑی پر لگے مکھن اور جیم کے نشان بھی صاف کرنے ہیں‘ آپ نے اس میز سے اٹھنا بھی ہے۔
دروازے تک بھی جانا ہے اور دروازے سے نکل کر سڑک پر بھی پہنچنا ہے اور سڑک پر بکھرے چیلنجز سے بھی بچنا ہے‘ آپ نے ابھی اونچی نیچی گلیوں‘ اچانک ختم ہوتے فٹ پاتھوں‘ راستے کے کیچڑ‘ اندھے سائیکلوں‘ بے مہار موٹر سائیکلوں‘ بے ترتیب ٹریفک‘ بے ہنگم ریڑھیوں‘ مدہوش ہجوم اور ابلتی تڑپتی نالیوں کا مقابلہ بھی کرنا ہے‘آپ نے بس اسٹاپ تک بھی آنا ہے‘ آپ نے اپنے آپ کو ویگنوں کے پیچھے بھاگتے لوگوں سے بھی بچانا ہے‘ آپ نے بس‘ ویگن اور رکشے میں بھی سوار ہونا ہے اور آپ نے وقت پر اپنی منزل مقصود تک بھی پہنچنا ہے اور ابھی آپ کے اندھے پن کو صرف ایک گھنٹہ گزرا ہے‘ رات ابھی بہت دور ہے وزیراعظم صاحب!۔
وزیراعظم صاحب! دنیا میں ایک اندھے کو نارمل زندگی گزارنے کے لیے کم از کم تین لوگوں کی مستقل ضرورت ہوتی ہے‘ آپ یا آپ کا کوئی عزیز خدانخواستہ بینائی سے محروم ہے تو اسے سنبھالنے کے لیے آپ کے گھر کے تین لوگوں کو عمر بھر وقت‘ توانائی اور خوشیوں کی قربانی دینا ہو گی‘ یہ تین لوگ اگر چوبیس گھنٹے اس شخص کے ساتھ رہیں تو بھی یہ بے چارہ صرف ساٹھ فیصد نارمل زندگی گزار سکے گا‘ اس کی باقی 40فیصد زندگی بے رنگ‘ بے رونق اور ادھوری رہے گی۔
آپ ان لوگوں کو دیکھئے اور اس کے بعد ملک کو دیکھئے‘ ہمارے ملک میں وزیراعظم صاحب کوئی سڑک‘ کوئی عمارت اور کوئی دفتر معذور لوگوں کی ضرورت کو سامنے رکھ کر نہیں بنایا گیا‘ آپ ملک میں کوئی پبلک ٹوائلٹ دکھا دیجیے جو معذوروں کی ضرورت پوری کرتا ہو‘ کوئی ٹریفک سگنل دکھا دیجیے جو معذوروں بالخصوص بینائی سے محروم لوگوں کے لیے بنایا گیا ہو‘ آپ کوئی فٹ پاتھ دکھا دیجیے جس پر کوئی معذور‘ کوئی اندھا چل سکتا ہو‘ آپ ملک کی کوئی اسمبلی دکھا دیجیے جس میں جسمانی معذوروں کی نمایندگی ہو اور آپ ملک میں کوئی اعلیٰ عہدہ دکھا دیجیے جس پر کوئی معذور بیٹھا ہو جب کہ ہمارے ملک میں 50 لاکھ سے زائد لوگ معذور ہیں۔
کیا یہ لوگ ہماری ذمے داری نہیں؟ کیا یہ لوگ کسی اور خدا کی مخلوق ہیں اور کیا یہ کسی اور وزیراعظم کی رعایا ہیں؟ ہم لوگ وزیراعظم صاحب ان لوگوں پر توجہ دینے کے بجائے ان کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں؟ آپ 3 دسمبر 2014ء کالاہور کا واقعہ ملاحظہ کرلیجیے‘ کل معذوروں کا عالمی دن تھا‘ حکومت نے سرکاری ملازمتوں میں پڑھے لکھے معذوروں کے لیے دو فیصد کوٹہ مختص کر رکھا ہے‘اس کوٹے پر آج تک عمل درآمد نہیں ہو سکا‘ وزیراعظم صاحب ہمارے معاشرے میں معذور بالخصوص نابینا افراد کے پاس زندگی گزارنے کے دو آپشن بچتے ہیں‘ یہ قرآن مجید حفظ کر لیں اور زندگی ختم درود کی کمائی پر گزار دیں یا پھر سڑکوں‘ چوکوں اور گلیوں میں بھیک مانگیں‘ اس معاشرے میں اگر کوئی نابینا شخص‘ اگر کوئی معذور اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیتا ہے تو یہ واقعی کمال ہوتا ہے؟ یہ شخص سونے میں تولنے کے قابل ہوتا ہے جب کہ ہم لوگ ان لوگوں کو نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ تک دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
لہٰذا یہ لوگ مجبور ہو کر 3 دسمبر 2014ء کو لاہور میں چیف منسٹر ہاؤس کے سامنے بیٹھ گئے‘یہ صرف اپنا حق مانگ رہے تھے لیکن پولیس نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا‘ آپ 3 دسمبر کی فوٹیج منگوا کر دیکھ لیجیے‘ آپ کے سینے میں اگر دل اور پتلیوں کے پیچھے آنکھیں موجود ہیں تو مجھے یقین ہے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے‘ میری آپ سے درخواست ہے آپ اس افسوس ناک واقعے کو قدرت کاالارم سمجھ کر چند فوری فیصلے کر دیجیے۔
آپ تمام سرکاری اور غیر سرکاری دفتروں‘ کمپنیوں اور اداروں میں معذوروں کے دوفیصد کوٹے پر فوری تعیناتیوں کا اعلان کر دیں‘ یہ لوگ ایک ماہ کے اندر اندر نوکری پر ہونے چاہئیں‘ آئین میں ترمیم کریں اور ملک کی تمام اسمبلیوں میں دو‘ دو فیصد معذور ارکان کی گنجائش پیدا کریں‘ یہ قانون بنا دیں ملک میں آیندہ کوئی ایسی سرکاری اور غیر سرکاری عمارت نہیں بنے گی جس میں وہیل چیئر کے لیے ریمپ‘ نابینا افراد کو راستہ دکھانے کے لیے ٹک ٹک کی آواز کا سسٹم اور فٹ پاتھوں پر اندھوں کی رہنمائی کا نظام نہیں ہو گا‘ آپ بڑے شہروں کے ٹریفک سگنلز میں بھی فوراً نابینا افراد کی رہنمائی کا نظام لگوادیں‘ یورپی یونین اس معاملے میں آپ کی مدد کر سکتی ہے اور آپ یہ قانون بنا دیں ملک میں جو بھی معذور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہے گا اس کی تعلیم کے تمام اخراجات حکومت ادا کرے گی۔
وزیراعظم صاحب آپ اگر یہ کر جائیں تو یہ آپ کی بینائی کا صدقہ ہو گا‘ اللہ آپ پر رحم کرے گا ورنہ دوسری صورت میں جناب عالی یہ ساری نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور اللہ کسی بھی وقت کوئی بھی نعمت واپس لے سکتا ہے کیونکہ اللہ کی نظر میں محمد نواز ہو یا وزیراعظم محمد نواز شریف سب برابر ہوتے ہیں‘ یہ کسی کو کوئی استثنیٰ نہیں دیتا چنانچہ آپ اگر اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں تو آپ فوری طور پر اپنی بینائی کا صدقہ دیں۔

ریاست کو جاگنا ہو گا
جاوید چوہدری بدھ 3 دسمبر 2014

جنید جمشید ملک کی مشہور کاروباری اور تبلیغی شخصیت ہیں‘ یہ 1987ء سے 2004ء تک پاکستان کے نامور پاپ اسٹار رہے‘ جنید جمشید نے 1983ء میں ’’وائیٹل سائنز‘‘ کے نام سے اپنا بینڈ بنایا‘ شعیب منصور نے 14 اگست 1987ء کو جنید جمشید کا گایا ہوا ملی نغمہ ’’دل دل پاکستان‘‘ پی ٹی وی سے نشر کیا اور یوں جنید جمشید دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں مشہور ہو گئے۔
’’وائیٹل سائنز‘‘ نے ملک میں موسیقی کا نیا ٹرینڈ قائم کیا‘ آپ کو ملک میں آج جتنے بھی بینڈ نظر آتے ہیں یہ وائیٹل سائنز کی ایکسٹینشن ہیں‘ جنید جمشید 2004ء تک موسیقی کے آسمان پر چمکتے رہے‘ کامیابی کے اس دور میں انھوں نے ہر وہ کام کیا جو ایسے حالات میں کیا جاسکتا ہے‘ لڑکیاں ان پر باقاعدہ مرتی تھیں ‘ جوانی کی کامیابی انسان کی ذات میں ایک مہیب خلا پیدا کرتی ہے‘ یہ خلا انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے‘ انسان اس خلا کو چار چیزوں سے پر کرتا ہے۔
منشیات‘ فراریت‘ فن کشی یا پھر مذہب۔ دنیا میں ہر سال درجنوں انٹرنیشنل اسٹارز منشیات کے ہاتھوں وقت کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں‘ سیکڑوں لوگ شہرت کی چکا چوند چھوڑ کر اچانک گمنامی میں غائب ہو جاتے ہیں‘دنیا کے بے شمار فنکار اپنی پوری زندگی فن کو ودیعت کردیتے ہیں‘ یہ فن میں غرق ہو جاتے ہیں اور غرقابی کے اس عمل میں اپنی خاندانی‘ سماجی اور ذاتی زندگی قربان کر بیٹھتے ہیں‘ میں اس عمل کو فن کشی کہتا ہوں اور دنیا کے بے شمار فنکار آواز اور روشنی کا یہ گورکھ دھندہ چھوڑ کرمذہب کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں‘ جنید جمشید کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی‘ یہ مولانا طارق جمیل سے متاثر ہوئے‘ یہ 2004ء میں تبلیغی جماعت میں شامل ہوئے‘ مغربی لباس ترک کیا‘ گانا بند کیا۔
داڑھی رکھی‘ نماز اور روزے شروع کیے اور آہستہ آہستہ تبلیغ کا کام شروع کر دیا‘ یہ جنید جمشید کا دوسرا جنم تھا‘ ان کا تیسرا جنم 2002ء میں شروع ہوا جب انھوں نے اپنا بوتیک بنایا‘ یہ کاروبار میں آئے اور انھوں نے اس میں بھی نیا ٹرینڈ دے دیا‘ جنید جمشید کا برانڈ کامیاب ہو گیا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں بلکہ اربوں میں کھیلنے لگے‘ یہ اگر خود کو یہاں تک محدود کر لیتے تو یہ ایک سکھی اور کامیاب زندگی گزارتے لیکن دنیا کے تین پیشوں کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ ایسا لہو ہیں جو اگر ایک بار منہ کو لگ جائے تو پھر یہ ہونٹوں سے نہیں ہٹتا‘ ایک بادشاہت ہے‘ انسان اگر ایک بار کرسی تک پہنچ جائے تو پھر یہ اسے چھوڑ نہیں سکتا اور یہ اگر اسے چھوڑ دے تو پھر یہ عام انسان نہیں ہوتا‘ یہ نیلسن مینڈیلا ہوتا ہے‘ دو‘ انسان اگر ایک بار عوام سے مخاطب ہو جائے اور عوام اس کے حق میں تالیاں بجا دیں تو پھر انسان اسٹیج سے نہیں اترتا اور تیسرا جس شخص کو اسکرین کی عادت پڑ جائے یہ پھر اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جنید جمشید کی کایا پلٹ گئی لیکن کایا پلٹنے سے قبل اسکرین ان کے اندر جگہ بنا چکی تھی اور یہ اسکرین انھیں کسی نہ کسی بہانے کسی نہ کسی اسکرین پر کھینچ لاتی تھی‘ جنید جمشید کی واپسی موسیقی کے بغیر ’’دل دل پاکستان‘‘ سے ہوئی‘کسی ٹیلی ویژن پروگرام میں انھوں نے شلوار قمیض‘ داڑھی اور ٹوپی کے ساتھ دل دل پاکستان گایا اور اس کے ساتھ ہی وہ دروازہ کھل گیا جو نہیں کھلنا چاہیے تھا‘ دنیا میں صرف وہ انسان کامیاب ہوتے ہیں جو اگر ایک بار گزر جائیں تو پھر گزر جائیں‘ وہ واپس مڑ کر نہ دیکھیں‘ میرا مطالعہ‘ تجربہ اور مشاہدہ ہے جو لوگ جانے کے بعد مڑ کر دیکھتے رہتے ہیں وہ پھنس جاتے ہیں اور جنید جمشید کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
یہ واپس مڑکر دیکھنے کی غلطی کر بیٹھے‘ نعت خوانی کا سلسلہ شروع ہوا پھر جنید جمشید نے ٹیلی ویژن پر رمضان کے پروگرام شروع کیے‘ پھر مذہبی پروگرام شروع ہوئے اور آخر میں واعظ کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پھر وہ ہو گیا جس کا خطرہ تھا‘ وہ کیا ہے؟ ہم اس طرف آنے سے قبل جنید جمشید کی ایک خامی کا ذکر کریں گے‘ جنید جمشید مذہبی ہو چکے ہیں‘ یہ اسلام کے رنگ میں بھی رنگے جا چکے ہیں مگر وہ میری طرح اسلام کے بارے میں سطحی علم رکھتے ہیں‘ جنید جمشید جیسے لوگوں کے دو المیے ہیں‘ایک یہ لوگ مذہبی علم میں خام ہیں اور دوسرا ملک میں مذہبی برداشت ختم ہو چکی ہے‘ہمارے ملک میں آج خاندانی‘ کاروباری اور شخصی مخالفت میں کسی بھی شخص کو گستاخ رسول قرار دیا جا سکتا ہے‘ لوگ اس پر بلاتحقیق حملہ کر دیتے ہیں‘ اسے قتل کر دیا جاتا ہے‘ اس کی املاک کو جلا دیا جاتا ہے اور تحقیق اور تفتیش بعد میں ہوتی ہے۔
جنید جمشید شاید ان دونوں حقیقتوں سے واقف نہیں تھے‘ یہ ٹیلی ویژن انڈسٹری کی ریٹنگ کی دوڑ کا شکار بھی ہو گئے‘ ہماری ٹیلی ویژن انڈسٹری کو ہر وقت ایسے چہرے درکار ہوتے ہیں جنھیں یہ بیچ کر منافع بھی کما سکے اور حریفوں کو خاک بھی چٹوا سکے‘ مذہب بدقسمتی سے میڈیا انڈسٹری کے لیے منافع خوری کا ذریعہ بن چکا ہے‘ آپ کوئی ٹیلی ویژن چینل آن کر کے دیکھ لیں آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی ایسا ماڈرن مولوی مل جائے گا جو مذہب‘ روحانیت اور وظائف کو چاکلیٹ کے ریپر میں لپیٹ کر بیچ رہا ہو گا۔
جنید جمشید بھی ان لوگوں میں شامل ہو گئے اور پھر نازک آبگینوں کے ٹوٹنے کا وہ لمحہ آ گیا۔ جنید جمشید نے واعظ کیا اور اس واعظ کے دوران اس سے ایک مقدس ہستی کی شان میں گستاخی ہو گئی‘ یہ گستاخی یقینا گستاخی ہے لیکن اس گستاخی کی وجہ جنید جمشید کی بدنیتی نہیں تھی‘ یہ کم علمی اور مذہب کے بارے میں ادراک کی کمی کے ہاتھوں مارے گئے‘ جنید جمشید کا مقصد توہین نہیں تھا‘ بہرحال تیر کمان سے نکل گیا‘ احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا‘ ملک کے مختلف حصوں میں ایف آئی آر درج ہوئیں اور یہ ملک سے باہر چلے گئے‘ جنید جمشید فیس بک پر ہاتھ باندھ کر معافی بھی مانگ چکے ہیں لیکن شاید بات معافی سے آگے نکل چکی ہے۔
میں جنید جمشید کے واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے علماء کرام‘ حکومت اور معاشرے سے چند درخواستیں کرنا چاہتا ہوں‘ میری علماء کرام سے درخواست ہے آپ جنید جمشید کے معاملے میں احتیاط سے کام لیں‘ یہ ان چند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو ماڈرن زندگی چھوڑ کر مذہب کی طرف راغب ہوئے‘ اگر جنید جمشید کو نقصان پہنچا تو ملک کے ایسے ہزاروں لوگ مذہب سے دور ہو جائیں گے جو دنیاوی زندگی چھوڑ کر اللہ کے راستے پر آنا چاہتے ہیں‘ یہ واقعہ ان لوگوں اور ان کے خاندانوں کے لیے بری مثال بن جائے گا‘ لوگ مذہب کی طرف آتے ہوئے گھبرائیں گے‘ ہماری مذہبی کتب میں مقدس ہستیوں کے بارے میں بے شمار ایسے واقعات اور احادیث موجود ہیں جنھیں ہم جیسے دنیا دار پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔
علماء کرام سے درخواست ہے آپ یہ تمام کتب یا ان کتب میں موجود یہ مواد ’’ایڈٹ‘‘ کرا دیں یا پھر آپ مذہبی کتب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں‘ علماء کے لیے کتب اور عام لوگوں کے لیے کتب۔ علماء کی کتابیں عام لوگوں کو دستیاب نہیں ہونی چاہئیں‘ حکومت علماء کا بورڈ بنائے اور یہ بورڈ جب تک کسی کتاب کی منظوری نہ دے‘اس وقت تک مذہب سے متعلقہ کوئی کتاب یا کسی کتاب کا کوئی حصہ شایع نہیں ہونا چاہیے‘ کتابوں کے آخر میں یہ سر ٹیفکیٹ بھی شایع ہونا چاہیے‘ علماء کرام اگر احادیث کی کتابوں کا بھی از سر نو جائزہ لے لیں تو یہ بھی ہم جیسے عام مسلمانوں کے لیے خصوصی مہربانی ہو گی‘ حکومت ٹیلی ویژن پر مذہبی پروگراموں کے لیے فوری طور پر ضابطہ اخلاق طے کرے‘ ٹیلی ویژن پر مذہبی گفتگو کرنے والے لوگ جب تک اس معیار پر پورا نہ اتریں انھیں اس وقت تک ٹیلی ویژن پر مذہبی گفتگو کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ ہمارے معاشرے میں نعت‘ منقبت اور قوالی کے لیے کوئی ضابط اخلاق موجود نہیں۔
ہمارے نعت خوان‘ منقبت لکھنے والے اور قوال اکثر اوقات جذب و مستی میں عقیدت کی لکیر عبور کر جاتے ہیں‘ ملک میں نعتوں‘ منقبت اور قوالیوں کو پاس کرنے کا باقاعدہ نظام ہونا چاہیے اور جب تک حکومت سکہ بند علماء کی مدد سے پاس نہ کرے کسی نعت خواں اور کسی قوال کو کوئی نئی قوالی کہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ عقائد ریاست کے تابع ہوتے ہیں‘ ریاست عقائد کی ماتحت نہیں ہوتی‘ ریاست فوراً ایکٹو کریں‘ ریاست کو مسجد اور امام مسجد سے لے کر ٹیلی ویژن پر اذان تک ہر مذہبی معاملے میں نظر آنا چاہیے کیونکہ ریاست اگر اسی طرح پیچھے ہٹتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب کوئی شخص اٹھ کر ریاست کے خلاف فتویٰ دے گا اور ملک میں لاشوں کے انبار لگ جائیں گے۔
آپ القاعدہ اور داعش کو ذہن میں رکھیں‘ یہ لوگ ایک خاص شریعت کے حامی ہیں‘ یہ روز اللہ اکبر کے نعروں میں کلمہ گو مسلمانوں کے گلے کاٹتے ہیں‘ سوشل میڈیا پر کلپس نشر کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے سرخ تلواروں کا اسلام پیش کرتے ہیں‘ ہم اگر ملک کو اس انجام سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ریاست‘ علماء کرام اور معاشرے تینوں کو جاگنا ہو گا‘ آپ خود سوچئے لوگ جس ملک میں خدا کے بجائے بندوں سے ڈرنے لگیں‘ کیا اس ملک کی حکومت سونے کا رسک لے سکتی ہے؟ ریاست کو جاگنا چاہیے ورنہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک اسلام کے نام پر ہی ختم ہو جائے گا۔
تین تجاویز
جاوید چوہدری پير 1 دسمبر 2014

مجھ سے حل پوچھا گیا۔
وہ ٹھیک کہہ رہے تھے‘ دنیا میں اعتراض کرنا‘ چیزوں کو برا بھلا کہنا‘ کیڑے نکالنا اور خامیاں تلاش کرنا بہت آسان لیکن ان خامیوں‘ ان کیڑوں اور ان اعتراضات کا ٹھوس حل تجویز کرنا انتہائی مشکل ہے ۔ ہم لکھنے والے‘ ہم بولنے والے دن رات اعتراض کرتے ہیں‘ ہم کیڑے بھی نکالتے ہیں مگر ہم ان مسائل کا کوئی ٹھوس حل نہیں بتاتے چنانچہ ہم پر یہ اعتراض بجا ہے۔
وہ بولے ’’آپ میں اور عام تھڑے باز میں کیا فرق ہے‘ وہ بھی چیختا ہے اور آپ بھی چیخ رہے ہوتے ہیں‘ وہ بھی احتجاج کرتا ہے‘ عمران خان بھی احتجاج کر تے ہیں اور آپ لوگ بھی احتجاج کر رہے ہوتے ہیں‘ ہمیں چیزوں کو ٹھیک کرنے کا طریقہ کوئی نہیں بتاتا‘‘۔ میں نے ان سے اتفاق کیا‘ ہم واقعی حکومت کو ٹھوس اور پریکٹیکل تجاویز نہیں دیتے‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’ آپ کے لیے میری تین تجاویز ہیں اور یہ تینوں پریکٹیکل ہیں‘‘ انھوں نے پوچھا ’’ کیا کیا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’ پہلی تجویز‘ ہمارے ملک میں ہر شخص موجودہ نظام کو برا کہتا ہے‘ یہ دعویٰ‘ یہ بات سو فیصد غلط ہے‘ہمارا نظام ٹھیک ہے‘ یہ نظام اس وقت 70 ممالک میں چل رہا ہے اور یہ وہاں ڈیلیور بھی کر رہا ہے۔
ہم نے آج تک دراصل اس نظام سے پورا کام نہیں لیا‘ ہمارے مسائل کا حل نیا نظام نہیں کیونکہ ہم نے اگر نئے نظام سے بھی کام نہ لیا تو اسے بھی پرانے نظام کی جگہ آتے دیر نہیں لگے گی‘ ہمیں نیا نظام بنانے کے بجائے پرانے کو ایکٹو کرنا چاہیے‘‘ وہ بولے ’’کیوں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’ یہ نظام بڑی مشکل سے بنا تھا‘ انگریز نے بڑی عرق ریزی اور ریسرچ کے بعد یہ نظام بنایا تھا‘ ہم لارڈ میکالے کو برا کہتے ہیں‘ میں بھی برا کہتا تھا لیکن سوال یہ ہے اگر لارڈ میکالے ہندوستان کے لیے تدریسی نظام نہ بناتا تو کیا آج برصغیر میں اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں ہوتیں؟ حقیقت تو یہ ہے مسلمان ہندوستان میں 8 سو سال حکمران رہے مگر انھوں نے ملک کے لیے کوئی تدریسی نظام نہیں بنایا ‘ آپ لارڈ میکالے سے قبل ہندوستان میں کوئی اسکول‘ کالج اور یونیورسٹی دکھا دیں‘ ہندوستان کے امراء اپنے بچوں کے لیے ایران‘ ترکی‘ سمرقند اور عراق سے اتالیق امپورٹ کیا کرتے تھے۔
یہ استادصرف امراء کے بچوں کو پڑھایا کرتے تھے‘ آپ ہندوستان کے قدیم شعراء‘ ادباء اور دانشوروں کے پروفائل نکال کر دیکھ لیجیے‘ آپ کو یہ تمام لوگ سینٹرل ایشیا سے آتے اور ہندوستان کے دربار سے وابستہ ہوتے نظر آئیں گے‘ ہندوستان میں طبیب اور ڈاکٹر بھی باہر سے آتے تھے‘ ہماری حالت یہ تھی جہانگیر کی صاحبزادی بیمار ہو گئی‘ برطانیہ سے ولیم ہاکنز آیا‘ اس نے شہزادی کوکونین کی گولیاں کھلائیں‘ شہزادی تندرست ہو گئی ‘ بادشاہ نے ولیم ہاکنز کو سورت میں تجارتی کوٹھی بنانے کی اجازت دے دی‘ یہ تجارتی کوٹھی بنی‘ انگریز آئے‘کپاس اور افیون کی تجارت شروع کی اور یوں انگریز کونین کی دو گولیوں کے ذریعے پورے ہندوستان پر قابض ہو گئے‘ آپ یقین کریں‘ انگریز نہ آتے تو ہندوستان میں آج بھی عام شہری پر تعلیم کے دروازے بند ہوتے‘ ہمارے علاقے میں کوئی انجینئرنگ یونیورسٹی ہوتی‘ کوئی میڈیکل کالج ہوتا اور نہ ہی کوئی جنرل یونیورسٹی ہوتی۔
ہم لارڈ میکالے کے بارے میں کہتے ہیں ’’ میکالے نے یہ نظام کلرک پیدا کرنے کے لیے وضع کیا تھا‘‘ یہ بات درست ہو گی لیکن کیا میکالے سے قبل کوئی ایسا نظام تعلیم موجود تھا جو ملک میں بادشاہ پیدا کرتا تھا‘ ہندوستان ایک ہزاری‘ دو ہزاری اورپنج ہزاری میں تقسیم تھا‘ بادشاہ غلاموں کی غلامی سے متاثر ہو کر ان میں زمین تقسیم کر تے تھے اور یہ لوگ کسانوں کی چمڑی اور ہڈیوں سے لگان وصول کرتے تھے‘ ظلم کے اس سمندر میں سو دو سو سال بعد شیر شاہ سوری جیسے جزیرے ابھرتے تھے اور جلد ہی ختم ہو جاتے تھے‘ مغلوں کے دربار میں سینٹرل ایشیا سے آئے عالموں‘ دانشوروں اور مورخین کے لیے صرف تین عہدے ہوتے تھے‘ یہ بادشاہ کے وثیقہ نویس یا منشی بن جائیں‘ یہ شاہی مورخ کا عہدہ قبول کرکے بادشاہ کی فرضی فتوحات اور تخیلاتی شجاعت کی عظیم داستانیں تخلیق کریں یا پھر غالب کی طرح بادشاہ کے قصیدے لکھیں اور منہ موتیوں سے بھر لیں اور بس۔ انگریزوں نے اس خطے میں حقیقتاً کام کیا ۔
انھوں نے ہندوستان کو نظام بھی دیا اور انفراسٹرکچر بھی۔ ہم آج تک ہندوستان میں انگریزوں کے بنائے پل بدل سکے اور نہ ہی ریلوے‘ سڑکیں‘ آئین‘ قانون‘ انتظامی بندوبست‘پولیس سروس اور فوجی کلچر‘ ہم بدل بھی نہیں سکیں گے کیونکہ یہ ہندوستان میں تحقیق کے ذریعے بننے والا پہلا نظام تھا لہٰذا ہمیں اسے بدلنے پر توانائی ضایع نہیں کرنی چاہیے‘ ہمیں اسے ایکٹو کرنا چاہیے‘ ‘ وہ غور سے سنتے رہے‘ میں نے عرض کیا ’’ میں آگے بڑھنے سے قبل ایک کامنٹ پاس کرنا چاہتا ہوں‘‘ وہ خاموشی سے میری طرف دیکھتے رہے‘ میں نے عرض کیا ’’انگریز کو ہندوستان آنا نہیں چاہیے تھا اور اگریہ آ گیا تھا تو اسے دو سو سال تک جانا نہیں چاہیے تھا‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا‘ میں نے عرض کیا ’’ انگریز نہ آتا تو ہمیں زیادہ شعور نہ ملتا اور ہم افریقہ کے چھوٹے ملکوں کی طرح کچے گھروں میں چپ چاپ زندگی گزار رہے ہوتے اور انگریز اگر آ گیا تھا تو پھر اسے نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا‘ امریکا اور ساؤتھ افریقہ کی طرح تین چار سو سال یہاں رہنا چاہیے تھا‘ یہ یہاں صرف نوے سال (1947ء 1857-ء) رہا اور ہمیں کچا پکا چھوڑ کر چلا گیا‘ ہم ماضی کے رہے اور نہ مستقبل کے۔
انگریز ساؤتھ افریقہ میں ساڑھے تین سو سال رہا ‘ یہ ان ساڑھے تین سو سالوں کا کمال تھا کہ نیلسن مینڈیلا نے جب مئی 1994ء میں عنان اقتدار سنبھالی تو ساؤتھ افریقہ دس برسوں میں جدید دنیا کی صف میں شامل ہو گیا‘ ہم بھی اگر اس عمل سے گزرے ہوتے تو آج ہمارے حالات بھی مختلف ہوتے‘ میں بہرحال واپس آتا ہوں‘ سرہم سے نیا نظام نہیں بن سکے گا‘ ہم نیا آئین بھی نہیں بنا سکیں گے کیونکہ نئے آئین کے لیے چاروں صوبوں کا متفق ہونا ضروری ہے اور یہ آج ممکن نہیں چنانچہ آپ آئین کو چھیڑیں اور نہ ہی نظام کو‘ آپ بس اسے ایکٹو کر لیں‘ آپ اس سے کام لینا شروع کر دیں‘ ہمارے مسئلے حل ہو جائیں گے‘‘۔
وہ مسکرائے اور بولے ’’اور دوسری تجویز‘‘ میں نے عرض کیا ’’سرہم میں اور جدید دنیا میں پانچ سو سال کا فاصلہ ہے‘ یہ دنیا پانچ سو کلو میٹر کی رفتار سے آگے بھی دوڑ رہی ہے‘ ہم اب چل کر یا دوڑ کر اس دنیا کو پکڑ نہیں سکیں گے‘ ہمیں اب اس تک پہنچنے کے لیے ترقی کے جمپ لگانا ہوں گے‘ دنیا آج جہاں ہے آپ اپنے چند ہزار لوگوں کو اچھال کر وہاں پہنچا دیں‘ یہ چند ہزار لوگ چند لاکھ لوگوں کو کھینچ لیں گے اور یوں ہم ایک‘ ایک‘ دو دوگروپوں میں آگے بڑھتے جائیں گے‘‘ وہ بولے ’’مثلاً‘‘ میں نے عرض کیا ’’ مثلاً آج کی دنیا میں ملک کی ترقی کے لیے ایک آدھ شعبہ کافی ہوتا ہے‘ فرانس فیشن اور پرفیوم بیچ کر ترقی کر گیا‘تائیوان صرف مائیکرو چپ سے ترقی یافتہ ملک بن گیا‘ جرمنی انڈسٹریل مشینیں بیچ کر اوپر چلا گیا۔
برطانیہ صرف تعلیم کی انڈسٹری سے اپنا بجٹ پورا کر لیتا ہے‘ امریکا سرمایہ کاری سے امریکا بن گیا‘ جاپان نے ٹیکنالوجی کو اپنا کعبہ بنا لیا‘ چین نے سستی سکلڈ لیبر کا فارمولہ ایجاد کر لیا‘ ہالینڈ نے پھول اور سڑکوں کی ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کر لیا‘ ساؤتھ افریقہ نے میڈیکل سائنس کو ترقی کا راستہ بنا لیا اور سوئٹزرلینڈ نے بینکاری اورسیاحت کو انڈسٹری بنا لیا‘ ہم بھی اگر کسی ایک انڈسٹری پر فوکس کر لیں اور اپنی ساری توانائیاں صرف اس شعبے پر فوکس کر دیں تو ہم بھی ترقی کا جمپ لے لیں گے مثلاً ہم آج فیصلہ کر لیں‘ 2020ء تک دنیا کے تمام بڑے ملکوں میں پاکستانی شیف اور پاکستانی ویٹر ہوں گے یا ہم دنیا کو پیرا میڈیکل اسٹاف فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جائیں گے یا ہمارے خیبر پختونخواہ کے لوگ شاندار سیکیورٹی گارڈز ثابت ہو سکتے ہیں۔
ہم وہاں پچاس ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بنائیں گے‘محسود‘ آفریدی اور مہمند قبائل کے نوجوانوں کو ٹریننگ دیں گے اور دنیا بھر کو پرائیوٹ سیکیورٹی گارڈز فراہم کریں گے یا ہم ایگری کلچر کو اپنی اولین انڈسٹری بنائیں گے‘ ہم اپنے سارے ذرایع زراعت کی ریسرچ پر لگا دیں گے‘ اپنی ضرورت بھی پوری کریں گے اور دنیا کی رہنمائی بھی کریں گے یا ہم دنیا کو ہر سال تیس چالیس ہزار انجینئرز فراہم کر یں گے‘ ہم ملٹری ٹریننگ کا ملک بن جائیں گے‘ ہم دنیا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں کو ملٹری ٹریننگ بھی دے سکتے ہیں اور کچھ نہ ہو تو ہم دنیا بھر کے لیے اچھے ڈرائیور تو بن سکتے ہیں‘ ہم پورے ملک کو ڈرائیونگ اسکول بنا دیں اور دنیا کو ڈرائیور سپلائی کرنا شروع کر دیں‘ ہمیں بہرحال کوئی ایک شعبہ‘ کوئی ایک پیشہ تلاش کرنا ہو گا اور اپنے سارے وسائل اس میں جھونکنے ہوں گے‘‘۔
انھوں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا ’’تیسری تجویز‘‘ میں نے عرض کیا ’’ آپ لاکھوں کی تعداد میں کامیابی کے سفیر بھرتی کریں‘ ہمارے ملک میں لاکھوں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ترقی کا زیرو سے ہیرو تک سفر کیا‘ آپ ان لوگوں کو اپنا سفیر بنائیں‘ یہ ملک کے مختلف حصوںمیں کام‘ ترقی اور مالیاتی استحکام پر کلاسوں کا اہتمام کریں‘ یہ غریب‘ پسماندہ اور پسے ہوئے لوگوں کو گائیڈ کریں‘ یہ زندگی کے بارے میں لوگوں کا نظریہ بدلیں‘ ملک میں تبدیلی آ جائے گی‘‘ ہمارے لوگوں کو مدد کی نہیں صرف رہنمائی کی ضرورت ہے‘ انسان کو صرف رہنمائی درکار ہوتی ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے تمام انبیاء کو رہنما بنا کر بھیجا تھا‘ آپ بھی لوگوں کے لیے رہنمائی کا بندوبست کر دیں باقی کام یہ خود بخود کر لیں گے‘‘۔
مشکل آسان، آسان مشکل
جاوید چوہدری ہفتہ 29 نومبر 2014

میں اعجاز قادری کا کئی مرتبہ ذکر کر چکا ہوں‘ یہ میرے دوست ہیں‘ آرکی ٹیکٹ ہیں‘ گھر ڈیزائن کرتے ہیں اور کمال کر دیتے ہیں۔ ان کے ڈیزائن میں تین خوبیاں ہوتی ہیں‘ گھر باہر سے عام دکھائی دیتے ہیں لیکن آپ جونہی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں آپ کو گھر کی خوبصورتی‘ لیونگ اسٹینڈرڈ اور کھلا پن کھینچ لیتا ہے۔ اعجاز قادری کے گھر روشن ہوتے ہیں‘ آپ کو شام تک گھر میں لائٹ نہیں جلانا پڑتی اور تین ‘یہ گھر کسی نودولتیے کے بھی محسوس نہیں ہوتے‘ آپ کو ان میں ٹھہراؤ‘ تہذیب اور شائستگی نظر آتی ہے۔
میں نے زندگی میں دو گھر بنائے‘ آج سے چودہ سال قبل آٹھ مرلے کا گھر بنایا‘ وہ گھر اعجاز قادری نے ڈیزائن کیا اور کمال ڈیزائن کیا تھا۔ دوسرا گھر آج سے تین سال قبل بنایا‘ یہ ایک کنال کاگھر ہے لیکن اس کا لیونگ اسٹینڈر چار کنال کے گھروں کے برابر ہے‘لوگ روزانہ یہ گھر دیکھنے آتے ہیں۔ اعجاز قادری کا فن اپنی جگہ لیکن یہ ذہنی لحاظ سے بھی شاندار انسان ہیں‘ ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے یہ اس کے بارے میں ذاتی اور اوریجنل رائے رکھتے ہیں۔ میں جب بھی بور ہو جاتا ہوں‘ ڈپریشن یا کنفیوژن کا شکار ہوتا ہوں تو میں ان سے ملتا ہوں یا نعیم بخاری صاحب کو تلاش کرتا ہوں یا پھر بابا جی شیخ حفیظ کو آواز دیتا ہوں اور ترو تازہ ہو جاتا ہوں۔
میں اور اعجاز قادری چنددن قبل لنچ کے لیے مری گئے‘ ہم راستے میں زندگی کے بارے میں گفتگو کرتے رہے‘ گفتگو کے دوران انھوں نے انتہائی دلچسپ بات کی ۔ان کا کہناتھا ’’زندگی کو مشکل بنانا انتہائی آسان جب کہ زندگی کو آسان بنانا انتہائی مشکل ہوتا ہے‘‘ ۔میں پچھلے چھ دن سے اس فقرے کو انجوائے کر رہا ہوں‘ آپ بھی اگر اس پر ذرا سی توجہ دیں تو اسے اتنا ہی انجوائے کریں گے ۔
ہمارے لیے زندگی کو مشکل بنانا کتنا آسان ہے؟ آپ صبح اٹھیں اور جو بھی شخص نظر آئے اسے گھورنا شروع کر دیں‘ آپ ہر کسی کو الٹا جواب دینا شروع کر دیں، ہمسایوں سے لڑنا شروع کر دیں‘ آپ دوسرے کے دروازے کے سامنے گاڑی کھڑی کر دیں‘ آپ اسکول‘ کالج‘ یونیورسٹی یا آفس کا کام نہ کریں‘ آپ اندھا دھند قرض لینا شروع کر دیں‘آپ بلا وجہ لوگوں کی بے عزتی شروع کر دیں‘ آپ ڈاکٹر کی ہدایت کے برخلاف کھانا پینا شروع کردیں‘ آپ اپنی آمدنی کم کرتے جائیں اور اخراجات میں اضافہ کرنے لگیں‘ آپ اپنے گھر اور گلی میں گند ڈالنے لگیں اور آپ اپنے سے طاقتور لوگوں سے پھڈا شروع کر دیں۔
آپ کی زندگی مشکل ہو جائے گی‘ آپ کے دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہو جائے گی‘ آپ سکون‘ آرام اور صحت کو ترستے ترستے دنیا سے رخصت ہو جائیں گے جب کہ اس کے مقابلے میں آپ زندگی کو آسان بنانے کا فیصلہ کر لیں تو آپ کو مشکلات کی بے شمار دلدلوں سے گزرنا پڑے گا۔ آپ کو مصائب کے درجنوں پہاڑ سر کرنا پڑیں گے۔ آپ جانتے ہیں گاڑی کے چاروں پہیے گول ہوتے ہیں‘ ان پہیوں کو گول رکھنے کے لیے انڈسٹری کو کتنی محنت کرنا پڑتی ہے‘ آپ اس کا تصور نہیں کر سکتے۔
سیکڑوں سائنس دان ایسی دھاتیں تلاش کرتے رہتے ہیں جنھیں لوہے میں ملایا جائے تو لوہا اتنا سخت نہ رہے کہ سڑک کی رگڑ‘ ہوا کا دباؤ اور گاڑی کا بوجھ اسے توڑ دے اور یہ اتنا نرم بھی نہ ہو جائے کہ سڑک کے پتھر اسے ٹیڑھا کر دیں۔ رم اور ٹائر کے درمیان بہتر سے بہتر توازن پیدا کرنے کے لیے بھی سیکڑوں لیبارٹریاں کام کر رہی ہیں اور ایسے ٹائر بنانے کے لیے بھی درجنوں سائنس دان دن رات محنت کر رہے ہیں جو گرمی‘ سردی‘ بارش‘ برف اور ریت میں یکساں کام کریں۔ آپ دیکھ لیں انسان کتنی آسان اور عام سی چیز کے لیے کتنی مشکلات برداشت کرتا ہے۔ آپ سوئی کو دیکھ لیجیے‘ یہ کتنی آسان اور سستی چیز ہے لیکن آپ اگر اس آسان اورسستی چیز کی ایجاد پر ریسرچ کریں یا آپ اسے بنتا ہوا دیکھ لیں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔
ہم گلاس میں دودھ بھرتے ہیں‘ اٹھاتے ہیں اور غٹا غٹ پی جاتے ہیں لیکن آپ اگر چارے سے لے کر گائے کے تھنوں تک دودھ کا عمل جان لیں تو آپ کو قدرت کی حکمت اور عمل دونوں کی پیچیدگی حیران کر دے گی۔ یہ ہمارے استعمال کی تین چیزوں کی مثال ہے۔ ہم روزانہ 548 اشیاء استعمال کرتے ہیں‘ یہ تمام اشیاء ہمارے لیے معمول کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن یہ معمول کی آسان چیزیں کتنی مشکل ہیں آپ ان کا تصور نہیں کر سکتے‘ آپ اس عمل کی پیچیدگی کا اندازا بھی نہیں لگا سکتے جن سے گزر کر یہ چیزیں بنتی ہیں اور ہم تک پہنچتی ہیں۔ آپ کبھی اس پٹرول کو گاڑی کے ٹینک سے واپس زمین تک لے جائیں جسے آپ کریڈٹ کارڈ دے کر گاڑی میں بھروا لیتے ہیں تو آپ کو نیند نہیں آئے گی۔
انسان نے ان تمام آسانیوں کی بڑی کڑی قیمت ادا کی ہے۔ آج بھی دنیا میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو محققین کو نئی ادویات چیک کرنے کے لیے اپنی زندگی پیش کر دیتے ہیں‘ یہ رضاکار اپنا نام لکھواتے ہیں‘ ڈاکٹر ادویات تیار کرتے ہیں‘ ان کو کھلاتے ہیں‘ یہ ان ادویات کے اثرات محسوس کرتے ہیں‘ ڈاکٹروں کو لکھواتے ہیں اور ڈاکٹر ان اثرات کی بنیاد پر ادویات کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان رضا کاروں میں سے بے شمار لوگ ادویات کی ٹیسٹنگ کے دوران انتقال کر جاتے ہیں لیکن ہم بازار جاتے ہیں‘ سو روپے کاؤنٹر پر رکھتے ہیں‘ دوا کی ڈبی اٹھاتے ہیں‘ پانی کے گلاس کے ساتھ دو گولیاں نگلتے ہیں اور ڈکار مار کر سو جاتے ہیں‘ ہم نے کبھی سوچا تک نہیں کتنے انسانوں نے اس آسانی کے لیے اپنی جان‘ اپنی نیندیں قربان کر دیں مگر ہم پھر بھی بے حس ہیں۔
یہ ہماری زندگی کی چند آسانیاں ہیں‘ آپ ذرا تصور کیجیے ہم اگر اپنی پوری زندگی کو آسان بنانا چاہیں تو یہ کتنا کٹھن‘ کتنا مشکل ہوگا کیونکہ آپ کو زندگی کو آسان بنانے کے لیے جھوٹ بولنا ترک کرنا ہو گا‘ آپ کو وقت کی پابندی کرنا ہو گی‘ آپ کو قانون کی پاسداری کرنا پڑے گی‘ آپ کو انصاف قائم کرنا ہوگا‘ آپ کو فیملی‘ ہمسایوں اور معاشرے کو ان کا حق دینا ہوگا‘ آپ کو پڑھنا ہو گا‘ ریسرچ کرنا پڑے گی‘ آپ کو دن رات کام کرنا ہوگا‘ آپ کو وعدے کا پاس کرنا پڑے گا‘ آپ کو وقت کی قدر کرنا ہو گی‘ آپ کو فضول گوئی سے بچنا ہوگا‘ آپ کو سگریٹ‘ شراب نوشی اور جوئے کی لت چھوڑنا ہو گی‘ آپ کو پازیٹو رہنا ہوگا‘ آپ کو برداشت سیکھنا ہو گی‘ آپ کو دوسروں کو سپیس دینا ہو گی‘ آپ کو معافی مانگنے اور معاف کرنے کی عادت ڈالنا ہو گی ۔
آپ کو مذہب کا احترام کرنا ہو گا‘ آپ کو بزرگوں‘ رسموں اور روایات کا پاس رکھنا ہو گا اور آپ کو صدقہ اور خیرات کرنا ہوگی۔ آپ کو جسمانی اور ماحولیاتی صفائی کا خیال رکھنا ہوگا اور آپ اگر اپنی زندگی کو آسان بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو فراڈ‘ چور بازاری‘ ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ‘ منافع خوری اور چوری چکاری سے بچنا ہوگا۔ آپ ذرا تصور کیجیے یہ تمام کام کتنے مشکل‘ کتنے کٹھن ہیں جب کہ ہم لوگ ہمیشہ ان مشکلات سے بچنے کے لیے اپنی زندگی کو مشکل بناتے جاتے ہیں کیونکہ ہم یہ کام بڑی آسانی سے سر انجام دے سکتے ہیں۔
آپ نے کبھی سوچا ہم لوڈشیڈنگ پر قابو کیوں نہیں پاتے؟ کیونکہ اس کے لیے ریسرچ کرنا پڑے گی‘ ہمیں انرجی کے متبادل ذرائع تلاش کرنا ہوں گے‘ ہمیں ڈیم بنانا پڑیں گے اور ہمیں اپنے واپڈا کو ٹھیک کرنا ہوگا اور یہ کام ظاہر ہے مشکل ہیں چنانچہ ہم نسبتاً آسان کام کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ہم اندھیرے میں بیٹھ جاتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ باہر نکل کر مظاہرے کرتے ہیں‘سڑکیں بلاک کر دیتے ہیں‘ گاڑیوں پر پتھراؤ کرتے ہیں‘ بجلی کے دفاتر پر حملہ کر دیتے ہیں‘ ٹرانسفارمر کو آگ لگا دیتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ مشکلات انتہائی آسان ہیں اور ہم ہمیشہ آسان کام کی طرف جاتے ہیں۔ آپ نے کبھی سوچا ہم مہنگائی کم ہونے کے انتظار کی بجائے اپنی آمدنی میں اضافہ کیوں نہیں کرتے؟ کیونکہ آمدنی میں اضافے کے لیے کام کرنا پڑے گا‘ کام کے لیے گھر سے نکلنا ہوگا‘ صبح گھر سے نکلنے کے لیے رات جلدی سونا پڑے گا‘ ہمیں کام کے لیے مہارت اور تعلیم بھی حاصل کرنا پڑے گی‘ ہمیں دفتروں میں دیانتداری بھی ثابت کرنا پڑے گی‘ ہمیں ڈسپلن میں بھی آنا ہوگا اور ہمیں اپنے اپنے گھروں کا بجٹ بھی بنانا ہوگا اور ہمیں مہنگی کی بجائے نسبتاً سستی چیزیں بھی تلاش کرنا پڑیں گی۔
آپ تصور کیجیے یہ کتنا مشکل کام ہے چنانچہ ہم لوگ ان مشکلات سے گزرنے کی بجائے مہنگائی کے خلاف مظاہرے جیسا آسان کام کرتے ہیں اور آرام سے سو جاتے ہیں۔ آپ نے کبھی سوچا ہم زندہ رہنے کی بجائے خود کش حملہ آور کیوں بن جاتے ہیں؟ کیونکہ زندہ رہنا مشکل اور مرنا آسان ہے‘ زندہ رہنے کے لیے دوسروں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے‘ اپنے آپ کو زیادہ باصلاحیت‘ زیادہ ذہین‘ زیادہ محنتی اور زیادہ اہل ثابت کرنا پڑتا ہے جب کہ خود کش حملہ آور بننے کے لیے ایک جیکٹ اور ایک جھٹکا کافی ہے اور بات ختم۔ آپ نے کبھی سوچا حاجی صاحب اسکول‘ کالج اور یونیورسٹی نہیں بناتے‘ مسجد اور مدرسہ بنا دیتے ہیں۔
کیوں؟ کیونکہ اسکول‘ کالج اور یونیورسٹی کے لیے محنت کرنا پڑے گی‘ آپ عمارت بنائیں‘ اسٹاف رکھیں‘ بچے بھرتی کریں اور پھر ان سب کی نگرانی کریں‘ اس مشکل کے لیے کس کے پاس وقت ہو گا؟ چنانچہ آپ مسجد بنائیں اور یہ دنیا بھی روشن اور وہ دنیا بھی مکمل اور آپ نے کبھی سوچا ہم دنیا سے رشک کی بجائے حسد کیوں کرتے ہیں؟ ہم اہل مغرب کو برا بھلا کیوں کہتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ رشک کے لیے آپ کو جاگنا پڑتا ہے‘ آپ کو مقابلہ کرنا پڑتا ہے جب کہ حسد کے لیے آپ چارپائی پر بیٹھ کر پھٹی بنیان کھینچ کر‘ پیٹ پر خارش کرتے کرتے بھی کر سکتے ہیں اور آپ نے کبھی سوچا ہم دوا پر تعویذ کو فوقیت کیوں دیتے ہیں کیونکہ دوا کھانا پڑتی ہے‘ اس کے ساتھ پرہیز بھی کرنا پڑتا ہے جب کہ تعویذ آپ ایک ہی بار بازو پر باندھیں اور مسئلہ ختم۔
ہم آسان کام کرنیوالے لوگ ہیں خواہ اس کے لیے ہماری زندگی کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو جائے‘ ہمیں پرواہ نہیں ہوتی۔ ہم زندہ رہنے کی بجائے مرنے کو فوقیت دیتے ہیں کیونکہ زندہ رہنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے اور محنت ہم کرنا ہی نہیں چاہتے‘ ہمارے لیے مشکل آسان اور آسان مشکل ہے۔
تقریریں بنجر اور دعوے بانجھ ہوتے ہیں خان صاحب
جاوید چوہدری جمعـء 28 نومبر 2014

خان صاحب ہمارے ملک کی حقیقتیں ہمارے پرسپشن سے بالکل مختلف ہیں۔ آپ جانتے ہیں دنیا کے جس ملک کی آبادی 5 کروڑ ہو جائے وہ سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیے آئیڈیل ہوجاتا ہے‘ پانچ کروڑ آبادی کے ملک میں مختلف سائز کی کم سے کم پانچ لاکھ کمپنیاں ہونی چاہئیں‘ ان کمپنیوں میں کم سے کم دو کروڑ لوگ ملازم ہونے چاہئیں اور انھیں ملک کے لیے کم سے کم 50 بلین ڈالرز کی مصنوعات سالانہ تیار کرنی چاہئیں اور مہینے میں کم سے کم ایک بلین ڈالر کمانے چاہئیں، وہ ملک تب جا کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گا‘ دنیا میں آٹھ لاکھ سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں‘ یہ 245 ممالک میں کاروبار کے امکانات تلاش کرتی رہتی ہیں‘ یہ ہر اس ملک میں داخل ہوتی ہیں ۔
جس کی آبادی اڑھائی کروڑ سے اوپر ہے‘ پانچ کروڑ آبادی کے ممالک ان کے لیے آئیڈیل ہوتے ہیں جب کہ ہمارے ملک کی آبادی آئیڈیل ممالک سے چار گنا زیادہ یعنی 20 کروڑ ہے‘ یہ دنیا بھر کی کمپنیوں کے لیے آئیڈیل مارکیٹ ہونے چاہیے تھے‘ آپ خود سوچئے جس ملک میں روزانہ 40 کروڑ روٹیوں کی ضرورت پڑتی ہو‘ جس ملک میں اگر فی کس ایک پاؤ گندم کو معیار بنا یا جائے تو اس ملک میں روزانہ 5 کروڑ کلو گندم استعمال ہو گی‘ ہم اگر اس کے ساتھ سبزی‘ دالیں‘ دلیئے‘ گھی‘ مصالحے‘ مرغی اور گوشت کو بھی شامل کر لیں تو ان میں سے ہر جنس روزانہ لاکھوں کلو گرام کی مقدار میں استعمال ہو گی‘ جس میں روزانہ 10 کروڑ لیٹر دودھ درکار ہو‘ جس ملک کا ہر شخص اگر سال میں صرف دو جوڑے کپڑے اور دو جوتے خریدے تو اسے سال میں 40 کروڑ جوڑے کپڑے اور 40 کروڑ جوتے چاہئیں‘ جو لوڈ شیڈنگ کا شکار بھی ہو‘ جسے مزید دس ہزار میگاواٹ بجلی چاہیے۔
جس ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سو بڑی کمپنیاں درکار ہوں اور ہر کمپنی اگر سالانہ ایک ارب ڈالر خرچ کرے تو ہماری سفری ضروریات پوری ہوں گی‘جسے موٹروے جیسی تیس بڑی شاہراہیں بھی درکار ہوں‘ جس ملک کے صرف ایک فیصد لوگوں کے پاس ذاتی سواری ہو‘ باقی ننانوے فیصد لوگ موٹر سائیکل سے ذاتی کار کا انتظار کر رہے ہوں‘ جس ملک کی 18فیصد آبادی قدرتی گیس‘پانچ کروڑ لوگ ذاتی گھر اور چالیس فیصد تعلیم‘ چالیس فیصد صاف پانی اور 20فیصد علاج کی سہولت سے محروم ہوں ‘یہ ملک غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے آئیڈیل ترین نہیں ہوگا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے‘ غیر ملکی کمپنیاں تو رہیں ایک طرف ملکی کمپنیاں بھی ملک سے فرار ہو رہی ہیں‘ ہمارے 80 فیصد مالدار لوگ ملک سے باہر سیٹ اپ بنا چکے ہیں‘ یہ دوبئی سے لے کر کینیڈا تک شفٹ ہو چکے ہیں‘کیوں؟ آپ کا جواب یقینا کرپشن‘ سرخ فیتہ‘ نااہل حکمران اور دہشت گردی ہو گا‘ یہ وجوہات بھی یقینا موجودہیں لیکن یہ سب مل کر دس فیصد بنتی ہیں‘ نوے فیصد وجہ مختلف ہے اور وہ وجہ آج سے چند برس قبل جنرل الیکٹرک نے تلاش کی تھی‘ یہ دنیا کی 7ویں بڑی کمپنی ہے۔
اس کا ریونیو 140بلین ڈالر سے زائدہے‘ اس نے چند برس قبل پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجوہات تلاش کرائیں‘ اس کے سامنے دو بڑی وجوہات آئیں‘ پہلی وجہ پاکستان میں اعلیٰ پائے کی مینجمنٹ موجود نہیں‘ غیر ملکی کمپنیوں کو تجربہ کار منیجر نہیں ملتے اور دو یہاں پیشہ ور اور ماہر کارکن موجود نہیں ہیں‘ آپ اگر کسی ملک میں آئی فون کا کارخانہ لگاتے ہیں تو آپ کو کم سے کم دو ہزار ورکرز اور 40 منیجرز چاہئیں لیکن آپ کو اگر ملک میں ورکر ملیں گے اور نہ ہی منیجرتو آپ کارخانہ کیسے لگائیں گے‘ ہمارے ملک میں 20 کروڑ لوگ ہیں لیکن صرف ایک کروڑ لوگ کام کرتے ہیں اور ان میں سے بھی تین چوتھائی لوگوں کے پاس مستقل کام نہیں چنانچہ ایک کروڑ لوگ 19 کروڑ لوگوں کا بوجھ کتنی دیر اٹھائیں گے؟ 20 کروڑ لوگوں میں سے صرف دس لاکھ ٹیکس دیتے ہیں‘ گویا دس لاکھ لوگ 19 کروڑ 90 لاکھ لوگوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں اور اس میں جوہری دفاع کے اخراجات بھی شامل ہیں۔
آپ ان دس لاکھ لوگوں کی تعداد میں کتنا اضافہ کر لیں گے؟ آپ اگر انھیں بڑھا کر ایک کروڑ بھی کر لیں آپ تب بھی ملک نہیں چلا سکیں گے‘ آپ کو ملک چلانے کے لیے کم از کم 8 کروڑ کماؤ پوت چاہئیں اور یہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ اعلیٰ تربیت یافتہ ہونے چاہئیں اور یہ پورا ٹیکس بھی ادا کریں‘ آپ کو ان کے ساتھ ساتھ کم از کم 5 لاکھ بڑی اور درمیانے درجے کی کمپنیاں بھی چاہئیں‘ خان صاحب آپ یہ سب کچھ کہاں سے لائیں گے؟ آپ کے پاس اگر الہ دین کا چراغ بھی آ جائے آپ تب بھی یہ سب کچھ تین چار پانچ برسوں میں نہیں کر سکیں گے‘ حقیقت تو یہ ہے ہماری پوری قوم‘ہماری ساری حکومتیں صرف پانی سے بجلی پیدا کرنے پر لگ جائیں‘ سارے وسائل پن بجلی میں جھونک دیں تب بھی ہم دس برسوں میں پورے ملک کو بجلی فراہم کرنے کے قابل ہوں گے‘ یہ وہ حقیقت ہے جسے آپ کنٹینر سے خطاب کرتے وقت بھول جاتے ہیں‘ آپ پاکستانیوں کو مزید خواب بیچ کر گھر چلے جاتے ہیں۔
خان صاحب حقیقت تو یہ ہے 25 نومبر 2014ء کی رات کراچی کے ایک گھر سے 26 کمسن بچیاں برآمد ہوئیں‘ یہ بچیاں باجوڑ ایجنسی سے لائی گئی تھیں اور قرضے کی ڈیڑھ دو لاکھ روپے قسط ادا نہ ہونے پر آگے روانہ کر دی گئیں‘ یہ بچیاں کہاں سے آئیں‘ یہ کس کس گھر کی چشم و چراغ تھیں‘ والدین انھیں اپنے زخمی کلیجوں سے الگ کرنے پر کیوں مجبور ہوئے اور ان بچیوں نے دو تین چار برس بعد کس کس کی ہوس کے بستر پر ذبح ہونا تھا؟ آپ شاید یہ نہیں جانتے ہوں گے‘ خان صاحب ملک کے دس بڑے شہروں میں ایسے درجنوں گینگ موجود ہیں جو روٹی‘تعلیم اور شادی کے نام پر سوات‘ آزاد کشمیر اور قبائلی علاقوں سے نابالغ بچیاں لاتے ہیں اور بعد ازاں ان بچیوں کو ملک اور بیرون ملک ہوس کے کاروبار پر لگا دیتے ہیں لیکن وہ ریاست جو تین دن میں ان بچیوں کے والدین کی نشاندہی نہ کر سکی ہو‘ وہ یہ کاروبار کیسے روکے گی؟ خان صاحب آپ کچھ نہ کریں ۔
آپ اگر خیبر پختونخواہ میں ہر بچے کو رجسٹر کرنا شروع کردیں اور یہ قانون بنادیں صوبے کا کوئی بچہ والدین کے بغیر سفر نہیں کرے گا تو آپ کی پوری زندگی اس قانون پر عملدرآمد پر خرچ ہو جائے گی‘ یہ ریاست اگر 26 بچیوں کی حفاظت نہیں کر سکتی‘ خیر پختونخواہ اگربیس تیس لاکھ بچیوں کو نہیں پال سکتا تو پھر آپ پورا ملک کیسے کنٹرول کریں گے‘ ہیومن ٹریفکنگ دنیا کا سنگین ترین جرم ہوتا ہے لیکن یہ جرم معمولی سی توجہ سے روکا جا سکتا ہے مگر ہم اگر ملک میں یہ قانون نہیں بنا سکتے‘ ہم اگر اس پر عمل نہیں کرا سکتے تو ہم ملک کے ڈبل شاہوں اور سو سو بچوں کے قاتلوں کو پھانسی کیسے لگائیں گے؟ ہم فرقہ واریت کو مذہب قرار دینے والے لوگوں کو کیسے روکیں گے؟
خان صاحب سرگودھا میں 12 بچے انکیوبیٹر اور دیگر طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مر گئے‘ تھر میں 128 بچے غذائی قلت کی وجہ سے مر چکے ہیں‘ تھر میں خشک سالی اور قحط کی وجہ سے گزشتہ پانچ برسوں سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں‘ حکومت اب تک تھر پرایک ارب روپے خرچ کر چکی ہے لیکن تھر کا بحران ختم نہیں ہورہا‘ کیوں؟ کیونکہ دنیا کی کوئی ریاست 15 لاکھ لوگوں کو زندگی بھر نہیں پال سکتی‘ آپ کے صوبے میں 28 لاکھ آئی ڈی پیز چھ ماہ سے دربدر پھر رہے ہیں‘ وفاق اور صوبائی حکومت انھیں نہیں سنبھال سکی‘ آپ اگر سندھ حکومت سے توقع کریں‘ یہ پانچ برسوں سے تھر کے قحط زدہ لوگوں کو پال لے گی تو یہ آپ کی غلط فہمی ہو گی۔
آپ مٹھی میں اسپتال بنا سکتے ہیں‘ آپ وہاں جدید ترین مشین بھی لگا سکتے ہیں لیکن آپ ڈاکٹر‘ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ان مشینوں کو چلانے والے لوگ کہاں سے لائیں گے اور آپ اگر لے بھی آئے تو آپ ان لوگوں کو مٹھی میں کتنے دن روک سکیں گے؟ یہ کراچی یا حیدر آباد بھاگ جائیں گے اور ان کے جانے کے بعد مٹھی یا تھر دوبارہ پہلی پوزیشن پر ہوگا اور تھر کے یہ 15لاکھ لوگ اگر بے ہنر رہیں گے‘ یہ کام نہیں کریں گے اور یہ ریاست کو ٹیکس ادا نہیں کریں گے تو ریاست ان کے لیے سڑکیں‘ اسکول‘ اسپتال‘ ٹرانسپورٹ اور صنعتی یونٹ کہاں سے بنائے گی۔
ہم کہتے ہیں تھرکوئلے کی دولت سے مالا مال ہے‘ یہ درست ہے لیکن کیا تھر کے لوگوں یا پاکستانی قوم میں یہ کوئلہ نکالنے کی صلاحیت موجود ہے؟ ہم لوگ تو کوئلہ نکالنے کے لیے بھی چین کے محتاج ہیں چنانچہ پھر تبدیلی کیسے آئے گی اور خان صاحب آپ 14 اگست سے اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھے ہیں‘ اس کی سیکیورٹی پر ایک ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں‘ آپ نے بھی یقینا ساٹھ ستر کروڑ روپے خرچ کیے ہوں گے‘ یہ رقم کس کھاتے میں جائے گی؟ کیا یہ اس غریب قوم کے کندھوں پر بوجھ نہیں‘ اگر ہاں تو اس کا ذمے دار کون ہے؟
خان صاحب دنیا میں خوابوں کی کاشت آسان ترین کاروبار ہے کیونکہ اس کے لیے بیج درکار ہوتے ہیں اور نہ ہی زمین‘ پانی‘ کھاد اور کسان‘ بس آنکھیں بند کر کے لیٹ جائیں اور خوابوں کی ٹہنیوں پر ہیرے جواہرات لہلہانے لگتے ہیں مگر جب آنکھ کھلتی ہے تو خوابوں کا مسافر بدستور یخ ٹھنڈی زمین پر پڑا ہوتا ہے اوراس کے اوپر وہی بے مہر آسمان تنا ہوتا ہے اور اس کے دائیں بائیں مسائل کا سمندر بھی اسی طرح ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے‘ کاش دعوے انڈے دیتے اور تقریروں پر بالیاں اگتیں تو قومیں یہ انڈے‘ یہ بالیاں بیچ کر نئے ملک خرید لیتیں‘ تقریریں بنجر اور دعوے بانجھ ہوتے ہیں خان صاحب یہ قوموں کے مقدر نہیں بدلا کرتے‘پرانی قومیں کام کرنے سے نئی بنا کرتی ہیں اور ہم خان صاحب من حیث القوم سب کچھ کر سکتے ہیں‘ اگر نہیں کر سکتے تو بس کام نہیں کر سکتے۔
یہ کیسے ممکن ہے
جاوید چوہدری جمعرات 27 نومبر 2014

ہم تمام اعتراضات‘ تمام دلائل اور تمام نکات چند لمحوں کے لیے سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں اور یہ مان لیتے ہیں عمران خان ملک کے مخلص ترین‘ سچے ترین اور مقبول ترین لیڈر ہیں اور یہ واقعی وہ انقلابی لیڈر ہیں جن کے لیے نرگس ہزاروں سال اپنی بے نوری پر روتی ہے اور یہ وہ ناقہ صحرائی ہیں جو صحراؤں کی آوارہ ہواؤں کو سوئے حرم لے جاتی ہیں‘ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں خان صاحب کے قول اور فعل میں بھی کوئی تضاد نہیں‘ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں عمران خان کا انقلاب سچا ہے اور 30 نومبر کے بعد یہ سچا انقلاب واقعی آ گیا‘ ملک بدل گیا‘ ہم نئے پاکستان میں داخل ہو گئے‘ اب سوال یہ ہے عمران خان نئے انقلابی پاکستان کے مسائل کیسے حل کریں گے‘ مثلاً یہ ملک میں ریفارمز کیسے کریں گے‘ ہندوستان کی دس ہزار سال کی تاریخ ہے۔
ان دس ہزار برسوں کی تاریخ میں ہندوستان کی پہلی منظم پولیس 1860ء کی دہائی میں بنی‘ ہندوستان کی تاریخ کا پہلا پولیس ایکٹ انگریز سرکار نے 1861ء میں بنایا‘ آج اس ایکٹ کو 153 سال ہو چکے ہیں‘ برصغیر اس وقت سات آزاد ممالک پر مشتمل ہے‘ یہ سات ملک آج تک 1861ء کے ایکٹ کو پوری طرح نہیں بدل سکے‘ یہ ایکٹ آج بھی ان ممالک میں 1861ء کی اسپرٹ کے ساتھ موجود ہے‘ یہ سات ممالک اسے کیوں نہیں بدل سکے؟ اس کا جواب بہت سیدھا اور واضح ہے‘ انگریز ہندوستان کی تاریخ کا واحد حکمران تھا جس نے پورے خطے کی روایات‘ قوموں‘ نسلوں اور ثقافت پر باقاعدہ ریسرچ کی‘ یہ ایکٹ اس ریسرچ کی بنیاد پر بنایا اور جب تک اس خطے کی یہ روایات‘قومیں‘ نسلیں اور ثقافت موجود ہے ہم یہ ایکٹ نہیں بدل سکیں گے۔
برصغیر کے لوگ ’’شریکے‘‘ کے قائل ہیں‘ ہم حریف کو مقدموں میں پھنسانے کے لیے اپنی فصلوں کو آگ لگا دیتے ہیں‘ اپنے مکان گرا دیتے ہیں اور اپنے عزیز کو خود گولی مار کر مخالف پر پرچہ درج کرا دیتے ہیں‘ ہم خواہ سونے کے پہاڑ پر بیٹھے ہوں مگر ہم سے دوسرے کی پانچ سو روپے کی نتھلی برداشت نہیں ہو گی‘ ہمارا یہ وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پھڈے چلتے رہتے ہیں‘ بھارت اور پاکستان کے درمیان شریکے کی لڑائی ہے‘ بھارت فوج رکھتا ہے تو ہم بھی رکھتے ہیں‘ وہ ایٹم بم بناتا ہے تو ہم بھی بناتے ہیں‘ ہم ہزاروں سال سے طبقاتی تقسیم کے مرض میں بھی مبتلا ہیں‘ہمارے خطے میں چار ذاتیں ہوتی تھیں‘ ہم آج بھی چوہدریوں ‘ مزارعوں ‘ سیدوں اور مریدوں میں تقسیم ہیں۔
یہ تقسیم بڑھتے بڑھتے فرقوں تک پہنچ چکی ہے‘ ہم اب رانا سے شیعہ رانا اور سنی رانا بھی ہو چکے ہیں‘برصغیر تاریخ کے کسی دور میں آبادی کنٹرول نہیں کر سکا‘ برصغیر نے آج بھی دنیا کی ایک تہائی آبادی کا بوجھ اٹھا رکھا ہے‘ پاکستان محدود ترین وسائل کے باوجود 20 کروڑ لوگوں کا ملک ہے‘انگریز نے شریکے‘ طبقاتی اور مذہبی تقسیم اور آبادی کو ذہن میں رکھ کر پولیس فورس بنائی تھی‘یہ سارے ایشوز آج بھی موجود ہیںلہٰذا کوئی ملک 1861ء کے اس پولیس ایکٹ کو نہیں بدل سکا چنانچہ عمران خان اس ملک میں پولیس ریفارمز کیسے کریں گے۔
جس میں قائداعظم سے لے کر ایوب خان‘ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف تک پولیس ٹھیک نہیں کر سکے اور جس کے دائیں بائیں چھ ملکوں میں آج بھی پولیس ایکٹ 1861ء قائم دائم ہے‘حقیقت تو یہ ہے‘ بھارت کا سیاسی نظام نہرو جیسے آکسفورڈ کیمبرج لیڈر سے ٹی بوائے نریندر مودی پر آ گیا لیکن بھارت اپنی پولیس فورس سے 1861ء کی روح نہ نکال سکا‘ آپ آج بھی بالی ووڈ کی کوئی فلم دیکھ لیجیے‘ آپ کو اس میں ظالم‘ رشوت خور اور سیاستدانوں کا غلام پولیس اہلکار ضرور ملے گا۔
آپ اب آئین کی طرف آ جائیے‘ انگریزوں نے ہندوستان میں 1935ء میں جامع آئینی اصلاحات کیں‘ یہ ہندوستان کی تاریخ کی پہلی مکمل دستوری اور قانونی دستاویز تھی‘ یہ خطہ اس سے قبل ایسی دستاویز سے محروم تھا‘ برصغیر کی ہیت 1947ء میں تبدیل ہو گئی‘ یہ آج سات ممالک کا گروپ ہے‘ سارک کے سات ممالک نے 68 برسوں میں بے شمار دستوری کوششیں کیں‘ ہم نے بھی چار آئین بنائے لیکن یہ تمام آئین 1935ء کے دستور کی بنیادوں پر استوار تھے‘ آپ ملک کے کسی قانون کا پروفائل نکال کر دیکھ لیجیے‘ آپ کو اس میں 1935ء کا ہندسہ ضرور ملے گا اور یہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ آپ ہندوستان جیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا بھی کوئی قانون کھول کر دیکھ لیجیے‘آپ کو وہ 1935ء کے ایکٹ کا چربہ ملے گا‘ یہ تمام ملک اور ان کے تاریخ ساز لیڈر جب 1935ء کی روح سے رہائی حاصل نہیں کر سکے تو آپ کیسے کریں گے‘ ملک کا تیسرا بڑا ایشو انصاف ہے‘ ملک کی آبادی زیادہ ہے۔
عدالتیں کم ہیں‘ قانون کمزور ہے اور لوگ پھڈے باز ہیں‘ ہم میں سے ہر تیسرا شخص کسی نہ کسی مقدمے کا محرک ہے‘ یہ خواہ ظالم ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ انصاف کی دہائی ضرور دیتا ہے‘ ہم اگر 20 کروڑ لوگ ہیں تو سات کروڑ لوگ انصاف کے طلب گار ہیں اور ان سات کروڑ لوگوں میں سے ساڑھے چھ کروڑ لوگوں کی درخواستیں میرٹ پر نہیں ہوتیں چنانچہ آپ خواہ پوری دنیا کے جج جمع کر لیں آپ ملک میں عدالتی درخواستیں نہیں نبٹا سکیں گے‘ آپ کے لیے یہ بات یقینا حیران کن ہو گی پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں دنیا کی چند عدالتوں میں شمار ہوتی ہیں جن میں ہر سال لاکھوں مقدمے دائر ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر بابر اعوان نے چودھویں ترمیم اور سپریم کورٹ حملے پر میاں نواز شریف کے خلاف 1997ء میں پٹیشن جمع کرائی تھی۔
سپریم کورٹ نے 18نومبر 2014ء کو 17 سال بعد اس پٹیشن کو غیرمؤثر قرار دیا‘ ان 17 برسوں میں چار حکومتیں بدلیں اور آئینی ترامیم 14 سے 20 ہوگئیں‘ ہم اس تاخیر پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن حقیقت قدرے مختلف ہے‘ ہماری سپریم کورٹ میں اگر ہر سال 22 ہزار درخواستیں جمع ہوں گی اور جج 17 ہوں گے تو آپ الہ دین کا چراغ بھی لے آئیں تو بھی آپ ان پٹیشنز کا فیصلہ نہیں کرسکتے‘آپ کسی دن صبح کے وقت کسی سول جج کی عدالت کے سامنے چلے جائیں اور آپ سول جج کے دروازے پر چسپاں فہرست دیکھ لیں اور پھر آپ یہ جواب دیجیے کیا کوئی جج آٹھ گھنٹے میں ڈیڑھ سو کیس سن سکتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر آپ یقینا پورے ملک کو انصاف فراہم کر لیں گے اور اگر نہیں تو پھر آپ خواہ کتنا بڑا انقلاب لے آئیں آپ لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کر سکیں گے‘ ملک کا چوتھا بڑا مسئلہ مہنگائی‘ بے روزگاری اور قرضے ہیں۔
آپ نے کبھی غور کیا یہ تینوں مسئلے ایک ہی کوکھ سے جنم لیتے ہیں‘ جس ملک میں بے روزگاری ہو گی وہاں مہنگائی بھی ہوگی اور جس ملک میں مہنگائی ہو گی وہ غیر ملکی قرضے بھی ضرور لے گا‘ اب سوال یہ ہے بے روزگاری ہوتی کیوں ہے؟ جواب واضح ہے ملک میں جب سرمایہ کاری نہیں ہو گی‘ لوگ جب کاروبار کے خلاف ہوں گے اور عوام جب تاجروں‘ سرمایہ داروں‘ صنعت کاروں اور دکانداروں سے نفرت کریں گے تو ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کیسے کم ہوں گی؟ آپ خود سوچئے ملک میں جب نئے صنعتی یونٹ نہیں لگیں گے تو نوکریاں پیدا نہیں ہوں گی اور جب نوکریاں نہیں ہوں گی تو بے روزگاری ہو گی اور جب بے روزگاری ہو گی تو لوگوں کی جیب میں پیسے نہیں ہوں گے اور جب پیسے نہیں ہوں گے تو مہنگائی بڑھے گی اور جب مہنگائی بڑھے گی تو حکومتیں سبسڈی بھی دیں گی اور ان کی ٹیکس کولیکشن بھی کم ہو گی اور جب خزانہ خالی ہو گا تو حکومت قرضے لے گی اور جب حکومت قرضے لے گی تو وہ دوسرے ملکوں کی غلام بھی ہو گی اور ہمیں مانناہوگا ہم 20 کروڑ لوگ ہیں اور ہم بے ہنر بھی ہیں اور ہم کاروباری طبقے سے نفرت بھی کرتے ہیں چنانچہ ہم مہنگائی‘ بے روزگاری اور قرضوں سے کیسے آزاد ہوں گے؟ عمران خان جواب دیں! ہمارے ملک کا پانچواں مسئلہ انرجی کرائسس ہے۔
ہم گیس‘پٹرول اور بجلی تینوں شعبوں میں اپنی ضرورت پوری نہیں کر پا رہے‘ ہمارے ملک میں 68 برسوں میں پانی سے بجلی بنانے کے صرف چار بڑے منصوبے لگے ہیں‘ پن بجلی سستی ہوتی ہے لیکن منصوبہ مہنگا اور طویل ہوتا ہے‘ آپ کو بڑا ڈیم بنانے کے لیے دس سال کا عرصہ اور ہزار ارب روپے چاہئیں‘ کیا قوم دس سال انتظار کر سکتی ہے اور کیا ہم دس پندرہ ہزار ارب روپے الگ کر سکتے ہیں؟ آپ سردیوں میں انڈسٹری کو گیس دیتے ہیں تو چولہے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں‘ گھروں کو گیس دیتے ہیں تو انڈسٹری بند ہو جاتی ہے‘انڈسٹری بند ہوتی ہے تو مزدوربے روزگار ہو جاتے ہیں اور ہمارے کل مالیاتی ذخائر 15 ارب ڈالر ہیں لیکن ہم ہر سال16 ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کرتے ہیں۔
آپ یہ مسئلہ کیسے حل کریں گے اور اگر آپ نے یہ حل کر لیا تو عوام گیس‘ بجلی اور پٹرول کے بل کہاں سے ادا کریں گے! اور آخری مسئلہ آپ جس ملک میں دو کروڑ20 لاکھ آبادی کا ایک صوبہ نہیں سنبھال سکے‘ آپ وہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکے‘ آپ جس میں اپنے چند لاکھ ورکروں کونہیں سنبھال سکے‘ یہ آپ کے جلسوں میں خواتین کے پنڈال میں داخل ہو جاتے ہیں‘ یہ آپ کے کنٹینر پرلڑ پڑتے ہیں اور آپ دس دس سینئر لوگوں کی رکنیت معطل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ان میں تین ایم پی اے بھی شامل ہوتے ہیں۔
آپ جس میں اپنے آٹھ بائی چالیس فٹ کے کنٹینر پر نظم و ضبط پیدا نہیں کر پاتے اور جس میں آپ اپنے 33 ایم این اے کو متحد نہیں رکھ پاتے آپ اس میں ساڑھے چار سو ارکان پارلیمنٹ کو کیسے سنبھالیں گے؟ آپ اس ملک کے 20 کروڑ لوگوں کو کیسے سنبھالیں گے؟ دنیا میں اگر تقریروں سے تبدیلیاں آسکتیں تو آپ یقین کیجیے دنیا میں کوئی بیماری ہوتی‘کوئی جرم ہوتا اور نہ ہی کوئی طبقاتی تقسیم ہوتی۔ مسائل کے حل کے لیے اہلیت اور وقت دونوں درکار ہوتے ہیں لیکن آپ صرف لفظوں سے مسائل کی آگ بجھانا چاہتے ہیں‘ آپ لفظوں کے ذریعے پاکستان کو سپر پاور بنانا چاہتے ہیں‘ یہ کیسے ممکن ہے خان صاحب!۔

سچ کاسفر
جاوید چوہدری منگل 25 نومبر 2014

صدر الدین ہاشوانی ملک کے ممتاز بزنس مین ہیں‘ یہ اسماعیلی ہیں‘ پرنس کریم آغا خان کو اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں‘ اسماعیلیوں کی تین نشانیاں ہیں‘ علم دوستی‘ بزنس اور خیراتی ادارے۔ آپ کے لیے شاید یہ انکشاف ہو‘ مصر کے دارالحکومت قاہرہ کی بنیاد بھی اسماعیلیوں نے رکھی تھی اور جامع الازہر بھی انھوں نے بنائی تھی‘ اسماعیلیوں کے چودھویں امام المعوز نے الازہر مسجد اور دنیا کی پہلی اسلامی یونیورسٹی جامع الازہر کی بنیاد رکھی‘ ہاشوانی صاحب کا خاندان 1840ء میں اسماعیلیوں کے 46ویں امام‘ امام حسن علی شاہ کے ساتھ ایران سے بلوچستان آیا‘ امام حسن علی شاہ آغا خان اول کہلاتے ہیں۔
امام سندھ سے ہوتے ہوئے ممبئی چلے گئے لیکن ہاشوانی فیملی بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں اقامت پذیر ہو گئی تاہم والدہ کا خاندان گوادر میں مقیم تھا‘ والد حسین ہاشوانی کراچی میں کپاس کا کاروبار کرتے تھے‘ یہ برطانیہ کی کمپنی رالی برادرز کو کپاس سپلائی کرتے تھے‘ صدر الدین حسین ہاشوانی کے سات بچوں میں سے ایک ہیں‘ یہ چھٹے بچے ہیں‘ یہ 1940ء میں کراچی میں پیدا ہوئے‘ یہ اچھے طالب علم نہیں تھے چنانچہ زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکے‘ صدرالدین نے جوانی میں اپنے بہنوئی شمس الدین کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کیا‘ یہ لوگ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں گندم سپلائی کرتے تھے‘ یہ ایک مشکل کام تھا لیکن صدر الدین ہاشوانی یہ کام کرتے رہے۔
یہ دھان منڈی سے خود گندم خریدتے تھے‘ یہ اس گندم کو خود ٹرکوں پر لدواتے‘ یہ گندم بلوچستان کے انتہائی مشکل اور دور دراز علاقوں میں بھجوائی جاتی‘ ہاشوانی صاحب بعد ازاں ٹرکوں‘ بسوں اور گدھوں پر سفر کرتے ہوئے ان علاقوں میں پہنچتے‘ بل کلیئر کرواتے اور اسی طرح دھکے کھاتے ہوئے واپس کراچی آجاتے‘ ہاشوانی نے اپنا سفر وہاں سے شروع کیا‘ یہ آج پاکستان کے نامور بزنس مین ہیں‘ یہ ملک میں دس فائیو اسٹار ہوٹلز کے مالک ہیں‘ یہ ملک کے باہر بھی درجنوں ہوٹل چلا رہے ہیں اور یہ دنیا کے نصف درجن سے زائد ممالک میں تیل اور گیس کی تلاش کا کام بھی کرتے ہیں۔
ہاشوانی صاحب نے چند روز قبل ’’ٹروتھ آل ویز پرویلز‘‘ کے نام سے اپنی بائیو گرافی لکھی‘ یہ کتاب محض ایک کتاب نہیں‘ یہ کمال کتاب ہے‘ میں نے کل یہ کتاب پڑھنی شروع کی اور بڑے عرصے بعد ایک ہی نشست میں یہ کتاب پڑھ گیا‘ یہ کتاب پاکستان کے سیلف میڈ لوگوں کا نوحہ ہے‘ یہ آپ کو بتاتی ہے ہمارے ملک میں ترقی کرنا کتنا مشکل ہے اور ایک عام انسان کو خاک سے اٹھ کر عرش تک پہنچنے میں کتنے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘ انسان کس کس در کے دھکے کھاتا ہے اور اسے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں‘ ہاشوانی صاحب کے ان کٹھن مراحل کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور آپ اگر پاکستان کے سیلف میڈ بزنس مین ہیں تو آپ بھی ان چاروں مراحل سے گزرے ہوں گے یا پھر گزر رہے ہوں گے‘ ہاشوانی صاحب کی حیات کا پہلا مرحلہ فیملی ایشوز تھے۔
یہ ان تھک کام کرنے والے وژنری شخص ہیں‘ یہ بہنوئی کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کرتے ہیں‘ یہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہیں جب کہ بہنوئی کام کو ہاتھ نہیں لگاتے‘ وہ دس بجے دفتر آتے تھے‘ کرسی پر بیٹھ کر دو تین گھنٹے جھولتے تھے‘ پھر لنچ کرنے کلب چلے جاتے تھے‘ شام کوگھر روانہ ہو جاتے تھے اور رات کو دوبارہ سوشل ایکٹوٹیز میں مصروف ہو جاتے تھے مگر ہاشوانی صاحب محنت کرتے رہے‘ یہ کاروبار کو ترقی دیتے رہے‘ کاروبار جب اپنی معراج کو چھونے لگا تو بہنوئی نے انھیں فارغ کر دیا‘ ہاشوانی صاحب لکھ سے ککھ پتی ہو گئے مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری‘ نئی کمپنی بنائی اور مختلف کمپنیوں کو کپاس کی گانٹھیں باندھنے کی آہنی پٹیاں سپلائی کرنا شروع کر دیں۔
یہ وہاں سے کپاس اور چاول کے بزنس میں آئے اور کمال کر دیا جب کہ ان کے مقابلے میں ان کے بہنوئی دیوالیہ ہو گئے‘ یہ بزنس کے ساتھ دوسرے فیملی ایشوز میں بھی الجھے رہے‘ ہم جوں جوں ان کی بائیو گرافی پڑھتے ہیں‘ ہمیں احساس ہوتا ہے ہمارے ملک میں فیملی ایشوز کام کرنے والے لوگوں کا کارآمد ترین وقت ضایع کر دیتے ہیں‘آپ اندازہ لگائیں ہاشوانی صاحب نے ساٹھ کی دہائی میں شادی کی‘ پانچ بچے پیدا ہوئے‘ یہ بچے جوان ہوئے اور ہاشوانی صاحب نے 2011ء میں بڑھاپے میں اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی‘ یہ طلاق ان ایشوز کا نتیجہ تھی جن کا یہ چالیس برس تک سامنا کرتے رہے‘ ہاشوانی صاحب کی حیات کا دوسرا کٹھن مرحلہ کاروبار تھا‘ ہمارے ملک میں کوئی سسٹم‘ کوئی پالیسی نہیں‘ پاکستان میں لوگوں کو کاروبار کرنے کے لیے ہزاروں جتن کرنے پڑتے ہیں۔
یہ روز ٹنل سے گزرتے ہیں‘ ہاشوانی صاحب بار بار بتاتے ہیں‘ حکومت تبدیل ہونے سے ہمارا سارا نظام تبدیل ہو جاتا ہے‘ جنرل ایوب خان نے ملک میں کاروباری ماحول پیدا کیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے آ کر صنعتوں کو قومیا لیا اور یوں ریورس گیئر لگ گیا‘ ملک کے درجنوں صنعتی اور کاروباری گروپ صفر ہو گئے‘ لوگ سرمایہ سمیٹ کر ملک سے باہر چلے گئے‘ قوم آج تک بھٹو صاحب کے اس غلط فیصلے کا تاوان ادا کر رہی ہے‘ یہ بار بار بتاتے ہیں حکومتیں کاروباری گروپوں کو نقصان پہنچانے کے لیے انتہائی نچلی سطح پر چلی جاتی ہیں‘ یہ ٹیکس کے جھوٹے مقدمے بناتی ہیں اور کاروباری شخصیات کو جیلوں میں بھی پھینک دیتی ہیں‘ ان ہتھکنڈوں سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے‘ ہاشوانی صاحب کی کتاب کا تیسرا حصہ سیاسی مداخلتوں کی گھناؤنی داستانوں پر مشتمل ہے۔
ہاشوانی صاحب نے کتاب میں ذکر کیا جنرل ضیاء الحق نے کراچی میں ان سے پوچھا ’’ کیا خبر ہے!‘‘ ہاشوانی صاحب نے جواب دیا ’’ بھٹو صاحب نے ملک میں صرف پوٹیٹو کارپوریشن آف پاکستان قائم کی تھی لیکن آپ کے دور میں ٹی وی کھولیں تو وہاں مُلا ہی مُلا نظر آتے ہیں‘ آپ براہ کرم معیشت پر توجہ دیں‘ ہم ڈوب رہے ہیں‘ کارپوریشنوں کو بیورو کریٹس سے نجات دلائیں‘ کرپشن میں اضافہ ہو چکا ہے‘‘ جنرل ضیاء الحق اس بات پر ناراض ہو گئے‘ ہاشوانی صاحب کے خلاف تادیبی کارروائیاں شروع ہو گئیں‘ یہ گرفتار بھی ہوئے‘ حوالات میں بھی رکھے گئے اور ان کے خلاف لمبے چوڑے مقدمے بھی قائم ہوئے‘ ہاشوانی صاحب نے بھٹو صاحب کے بارے میں لکھا‘ وہ صنعتوں کو قومیانے کے عمل کے دوران کراچی کے مشہور وکیل اور اپنے استاد رام چندانی ڈنگو مل سے ملنے گئے‘ ڈنگو مل نے ان سے کہا ’’ ذلفی تم نے تعلیم کو بھی سرکاری تحویل میں لے لیا‘‘ بھٹو نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’پریشان مت ہو‘ تمہارے اور میرے بچوں نے کون سا پاکستان میں تعلیم حاصل کرنی ہے؟‘‘۔
ہاشوانی نے انکشاف کیا’’محمد خان جونیجو نے انھیں اپنی اسمگل شدہ مرسڈیز کار بیچنے کی کوشش کی‘ یہ نہ مانے تو ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع ہو گئیں‘ جنرل ضیاء الحق اور محمد خان جونیجو دونوں ان کے خلاف تھے اور یہ جان بچانے کے لیے ملک کے مختلف علاقوں میں روپوش ہونے پر مجبور ہو گئے یہاں تک کہ پیر صاحب پگاڑا نے ان کی جان بخشی کرائی‘ ہاشوانی صاحب نے انکشاف کیا‘ جنرل ضیاء الحق کو کسی نے غلط فہمی میں مبتلا کر دیا’’میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو 25 لاکھ روپے چندہ دیا ہے‘‘ جنرل ضیاء نے کارروائیاں تیز کر دیں۔ یہ جنرل ضیاء سے بچے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے رگڑے میں آ گئے‘ ہاشوانی صاحب نے یہ انکشاف بھی کیا‘ آصف علی زرداری کا کراچی میں ان کے ہوٹل کے ڈسکو میں کسی سے جھگڑا ہو گیا۔
ہوٹل کی انتظامیہ نے زرداری صاحب کو ہوٹل سے باہر نکال دیا‘ پیپلز پارٹی کے دونوں ادوار میں انھیں بے تہاشہ تنگ کیا گیا‘ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور اقتدار میں انھیں اغواء اور قتل کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا‘ جنرل آصف نواز جنجوعہ اس وقت کراچی کے کور کمانڈر تھے‘ انھوں نے ان کی مدد کی اور یوں یہ لندن میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے‘ یہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں بھی کبھی ملک کے اندر اور کبھی ملک سے باہر بھاگتے رہے‘ آصف علی زرداری 2008ء میں صدر بنے تو میریٹ اسلام آباد پر حملہ ہو گیا‘ یہ حملہ انھیں اور ان کے خاندان کو مروانے کے لیے کیا گیا تھا۔
حکومت نے حملے کے بعد ان پر دباؤ ڈالا‘ آپ میڈیا کو بیان جاری کریں آصف علی زرداری ہوٹل میں مدعو تھے اور یہ حملہ انھیں مارنے کے لیے ہوا تھا‘ ہاشوانی صاحب نے انکار کر دیا اور یوں یہ ایک بار پھر عتاب کا شکار ہو گئے اور انھیں جان بچانے کے لیے دوبئی شفٹ ہونا پڑ گیا‘ یہ پانچ سال دوبئی رہے‘ ہاشوانی صاحب نے انکشاف کیا‘ میاں نواز شریف بھی انھیں بے نظیر بھٹو کا آدمی سمجھتے تھے اور یہ میاں صاحب کے دونوں ادوار میں بھی حکومتی انتقام کا نشانہ بنتے رہے‘ میاں صاحب بھی ان کے خلاف قانونی کارروائی کراتے رہے۔
ہاشوانی صاحب کی کتاب کا چوتھا حصہ ملک میں سرمایہ کاری سے متعلق ہے‘ ان کا دعویٰ ہے حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملکی سرمایہ کاروں پر فوقیت دیتی ہے‘ یہ ملک میں تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کر رہے تھے لیکن حکومتیں ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر تی رہیں یہاں تک کہ یہ آئل اور گیس کا کاروبار بیرون ملک شفٹ کرنے پر مجبور ہو گئے‘ ہاشوانی صاحب کا کہنا ہے حکومت اگر پاکستانی سرمایہ کاروں پر اعتماد کرے تو ملک بہت ترقی کر سکتا ہے‘ ہاشوانی صاحب نے ہوٹل انڈسٹری کے بارے میں بھی انکشافات کیے‘ انھوں نے بتایا‘ یہ کس طرح ہوٹل انڈسٹری میں آئے اور انھوں نے کس طرح ملک میں فائیو اسٹار ہوٹل بنائے۔
یہ کتاب کتاب نہیں‘ یہ پاکستانی نظام کا نوحہ ہے‘ میری میاں نواز شریف سے درخواست ہے‘ آپ یہ کتاب ضرور پڑھیں کیونکہ آپ کو اس کتاب میں ملک کی وہ تمام خامیاں ملیں گی جن کی وجہ سے ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے اور آپ کو ان خامیوں کے وہ حل بھی ملیں گے جن پر عمل کر کے آپ پرانے پاکستان کو نیا بنا سکتے ہیں۔
لالچ کے گھوڑے
جاوید چوہدری اتوار 23 نومبر 2014

بادشاہ خوش نہیں تھا‘ وہ خوش رہنا چاہتا تھااور خوشی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا‘ اس نے خوشی کے ماہرین کی مدد بھی لی اور سیانوں‘ دانشوروں اور سمجھ داروں کی پوٹلیوں میں بھی جھانکا مگر خوشی کا فارمولہ ہاتھ نہ آیا‘ وہ ایک پہاڑ پر چلا گیا‘ پہاڑ پر ایک درویش رہتا تھا‘ درویش کے دو مشاغل تھے‘ صبح صادق کے وقت مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھ جانا اور سورج کو آہستہ آہستہ افق سے ابھرتے ہوئے دیکھنا اور اور اس کے بعد جنگل میں نکل جانا‘ سارا دن جنگل میں گزار دینا۔
بھوک لگتی تھی تو وہ درختوں سے پھل توڑ کر کھا لیتا تھا‘ پیاس محسوس ہوتی تو وہ ندیوں‘ جھرنوں اورآبشاروں کا پانی پی لیتا‘ درویش کے پاس رہنے کے لیے ایک کٹیا تھی‘ وہ رات کٹیا میں آ جاتا تھا‘ درویش کے پاس سردیوں کے لیے دو کمبل تھے‘ گرمیوں کے لیے کھلا آسمان اور ٹھنڈی زمین تھی اور کپڑے لتے کی ضرورت زائرین پوری کر دیتے تھے‘ درویش کے پاس اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا لیکن وہ اس کے باوجود خوش تھا‘ بادشاہ اس خوشی کی وجہ دریافت کرنے کے لیے درویش کے پاس پہنچ گیا‘ درویش نے سنا‘ قہقہہ لگایا‘ لکڑی کی کھڑاویں پہنیں اور بادشاہ سے کہا ’’ بادشاہ سلامت میں اس کا جواب آپ کے دربار میں جا کر دوں گا‘‘ بادشاہ نے درویش کو گھوڑے پر بٹھایا اور دارالخلافہ آ گیا‘ درویش نے درخواست کی‘ آپ اب کسی ضرورت مند کو بلائیے۔
بادشاہ نے عرضیوں کی ٹرے سے ایک خط نکالا‘وہ خط وزیر کے حوالے کیا اور ضرورت مند کو طلب کرنے کا حکم دے دیا‘ ضرورت مند کو دربار میں حاضر کر دیا گیا‘ درویش نے بادشاہ کے کان میں سرگوشی کی ’’ آپ حکم جاری کریں‘ اے ضرورت مند! تم جاؤ‘ میری سلطنت میں دوڑو‘ تم سورج غروب ہونے تک زمین پر جتنا بڑا دائرہ بنا لو گے وہ زمین تمہاری ہو جائے گی‘‘۔ بادشاہ نے ضرورت مند کو حکم دے دیا‘ حکم جاری ہونے کے بعد بادشاہ‘ درویش اور درباری محل کے سامنے کرسیاں بچھا کر بیٹھ گئے‘ ضرورت مند کو لکیر کھینچ کر ایک مقام پر کھڑا کر دیا گیا‘ بادشاہ کا رومال ہلا اور ضرورت مند نے دوڑنا شروع کر دیا۔
ضرورت مند نے دوڑ کے آغاز میں وقت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا‘ صبح سے ظہر تک آگے جانا اور ظہر سے مغرب تک واپسی کا سفر۔ ضرورت مند کا خیال تھا‘ یوں وہ زمین کا بہت بڑا ٹکڑا ہتھیا لے گا‘ ضرورت مند سرپٹ بھاگتا رہا‘ ظہر کے وقت اس نے چار سو ایکڑ زمین گھیر لی‘ فارمولے کے مطابق ضرورت مند کو اب واپسی کا سفر شروع کرنا تھا لیکن وہ لالچ کا شکار ہو گیا‘ اس نے سوچا میں اگر اپنی اسپیڈ بڑھا لوں تو میں عصر تک سو ایکڑ زمین مزید گھیر لوں گا اور میں اگر اسی اسپیڈ سے واپسی کے لیے دوڑوں تو میں مغرب تک واپس پہنچ جاؤں گا۔
میں آپ کویہاں انسان کی فطرت کی ایک کمزوری بتاتا چلوں‘ انسان لالچی ہے اور لالچ میں دو درجن خامیاں ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی خامی کا تعلق انسانی ذہن کے ساتھ ہے‘اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخمینہ لگانے‘ کیلکولیشن کرنے کی صلاحیت سے نواز رکھا ہے‘ ہم جب بھی کوئی چیز دیکھتے ہیں‘ ہمارا دماغ فوراً اس کے عرض بلد‘ موٹائی‘ وزن اور قیمت کا اندازہ لگاتا ہے اور ہم اس کیلکولیشن کی بنیاد پر اگلے فیصلے کرتے ہیں مگر ہم جب لالچ میں آتے ہیں تو ہمارا دماغ ایک عجیب کیمیکل پیدا کرتا ہے‘ یہ کیمیکل ہماری کیلکولیشن کی صلاحیت کو تباہ کر دیتا ہے اور یوں ہم غلط فیصلے کرنے لگتے ہیں۔
آپ فراڈیوں کے ہاتھوں عمر بھر کی کمائی لٹانے والے لوگوں کی کہانیاں سنیں‘ آپ کہانی سننے کے فوراً بعد کہیں گے ’’ تم پڑھے لکھے‘ سمجھ دار انسان ہو‘ تم یہ اندازہ نہیں لگا سکے لوہا کبھی سونا نہیں بن سکتا یا جو شخص ٹیکسی پر تمہارے پاس آیا تھا وہ تمہیں پانچ کروڑ کی زمین اڑھائی کروڑ میں کیسے دے سکتا ہے یا جو دکان مارکیٹ میں کروڑ روپے کی ہے وہ دس لاکھ روپے میں کیسے مل سکتی ہے اور مٹھائی سے شوگر کا علاج کیسے ہو سکتا ہے اور اتنی خوبصورت لڑکی امریکا سے پاکستان آ کر تم جیسے میٹرک فیل لڑکے سے کیوں شادی کرے گی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ فراڈ کا نشانہ بننے والا عموماً یہ جواب دیتا ہے ’’ بھائی جان وہ جادوگر تھا‘ اس نے میری عقل پر پردہ ڈال دیا تھا‘‘ فراڈیاجادوگر نہیں تھا‘ جادوگر لالچ تھا اور لالچ سے پیدا ہونے والا وہ کیمیکل تھا جو انسان کی عقل سلب کر لیتا ہے اور یوں اچھا بھلا سمجھ دار شخص ماموں بن جاتا ہے‘ میں واپس زمین گھیرنے والے شخص کی طرف آتا ہوں۔
لالچ نے اس کی عقل بھی سلب کر لی‘ اس کی کیلکولیشن بھی غلط ہو گئی‘ وہ مزید زمین کے لالچ میں عصر تک بھاگتا رہا‘ سورج نے جب تیزی سے واپسی کا سفر شروع کیا تو اس شخص کو اپنی غلطی کا احساس ہوا‘ وہ پلٹا اور واپسی کے لیے دوڑ لگا دی لیکن دیر ہو چکی تھی‘ وہ اب مغرب سے قبل واپس نہیں پہنچ سکتا تھا‘ اس کے پاس اس وقت دو آپشن تھے‘ وہ اپنی ہار مان لیتا‘ دوڑنا بند کر دیتا اور چپ چاپ گھر واپس چلا جاتا یا پھر جیتنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرتا‘ وہ دوسرے آپشن پر چلا گیا‘ میں آپ کو یہاں انسان کی ایک اور خامی بھی بتاتا چلوں‘ کامیابی میں سرتوڑ محنت ہمیشہ تیسرے نمبر پر آتی ہے۔
پہلا نمبر پلاننگ اور دوسرا نمبرصلاحیت کو حاصل ہوتا ہے‘ آپ کی منصوبہ بندی غلط ہے‘ آپ پہاڑ پر کھجور لگانا چاہتے ہیں یا صحرا میں چاول اگانا چاہتے ہیں تو خواہ کتنی محنت کر لیں آپ کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہوں گے‘ دوسرا آپ میں اگر صلاحیت نہیں‘ آپ نے اگرباقاعدہ ٹریننگ حاصل نہیں کی ‘ آپ نے اگرٹاسک کے لیے تیاری نہیں کی تو بھی آپ خواہ کتنی ہی سر توڑ محنت کر لیں آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
زمین گھیرنے والا بھی منصوبہ بندی اور صلاحیت دونوں سے عاری تھا چنانچہ اس نے دوسرا فیصلہ بھی غلط کیا‘ اس نے سر توڑ کوشش کی ٹھان لی‘ بھاگنے کی اسپیڈ بڑھا دی‘ وہ بری طرح تھکاوٹ کا شکار تھا لیکن وہ اس کے باوجود دیوانہ وار دوڑ رہا تھا‘ وہ وقت پر پہنچنے کی کوشش میں اپنی اسپیڈ بڑھاتا رہا یہاں تک کہ اس کے پھیپھڑے پھٹ گئے‘ اس کے منہ سے خون جاری ہو گیا لیکن وہ اس کے باوجود بھاگتا رہا‘ وہ بالآخر بادشاہ تک پہنچ گیا لیکن گول پرپہنچنے کے بعد اس نے لمبی ہچکی لی‘ زمین پر گرا‘ تڑپا اور اپنی جان‘ جان آفرین کے حوالے کر دی‘ وہ زمین جیت گیا تھا لیکن زندگی ہار گیا۔
درویش اپنی جگہ سے اٹھا‘ زمین پر گرے شخص کے قریب آیا‘ ہاتھ سے اس کی کھلی آنکھیں بند کیں‘ بادشاہ کو قریب بلایا اور اس بدنصیب شخص کی لاش دکھا کر بولا’’ بادشاہ سلامت حرص کے بیوپاری کبھی خوش نہیں رہ سکتے‘ یہ شخص مجھ سے بہتر زندگی گزار رہا تھا‘ میرے پاس کپڑوں کا ایک جوڑا‘ لکڑی کے جوتے‘ دو کمبل اور ایک پیالے کے سوا کچھ نہیں ‘ میں شہر سے کوسوں دور پہاڑ پر رہتا ہوں‘ پھل کھاتا ہوں اور ندیوں کا پانی پیتا ہوں لیکن خوش ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ میں لالچ نہیں کرتا جب کہ آپ میرے مقابلے میں اس شخص کے اثاثے دیکھئے‘ یہ شخص مجھ سے ہزار درجے بہتر ہو گا۔
اس کے پاس مکان بھی ہو گا‘ بیوی بچے بھی‘ کپڑے بھی‘ سواری بھی‘ دال اناج بھی اور زمین جائیداد بھی لیکن یہ اس کے باوجود زمین پر گر کر مر گیا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ اپنے اندر کے لالچی انسان کو قابو میں نہ رکھ سکا‘ یہ دیوانہ وار خواہشوں کے پیچھے بھاگتا رہا‘ یہ کبھی کسی کو درخواست دے دیتا اورکبھی آپ کو عرضی بھجوا دیتا‘ قسمت نے یاوری کی اس کی لاٹری نکل آئی‘ آپ نے اسے زمین گھیرنے کی اجازت دے دی‘ یہ بھاگا لیکن اس کا لالچ بھی اس کے ساتھ ہی دوڑ پڑا‘ یہ اگر سمجھ دار ہوتا‘ یہ اگر درمیان میں قناعت کر لیتا‘ یہ رک جاتا‘ یہ جو حاصل ہو گیا اس پر اکتفا کر لیتا‘ یہ شکر ادا کرتا اور زندگی کو انجوائے کرنا شروع کر دیتا تو یہ نعمت اس کے لیے کافی ہوتی لیکن یہ لالچ کے گھوڑے سے نہ اترا‘ یہ بھاگتا رہا یہاں تک کہ لالچ نے اس کی جان لے لی‘‘ درویش نے لمبی سانس لی اور بولا ’’ بادشاہ سلامت! حرص اور خوشی دونوں سوتنیں ہیں‘یہ اکٹھی نہیں رہ سکتیں‘ آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو لالچ کو طلاق دینا ہو گی۔
خوشی خود بخود آپ کے گھر میں بس جائے گی لیکن آپ اگر لالچ کے گھوڑے پر بیٹھ کر خوشی کی تلاش میں سرپٹ بھاگتے رہے تو آپ کا انجام بھی اس شخص جیسا ہو گا‘ آپ بھی عبرت کا رزق بن جائیں گے‘‘ بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے گلوگیر لہجے میں عرض کیا ’’ جناب! بادشاہت حرص کی دلدل ہوتی ہے‘آپ بادشاہ ہوتے ہوئے خود کو لالچ سے کیسے بچا سکتے ہیں‘‘ درویش نے قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’ اختیار میں اضافہ بادشاہوں کی حرص ہوتی ہے اور جو بادشاہ زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اس میں اور زمین پر پڑے اس شخص میں کوئی فرق نہیں ہوتا‘ آپ اختیارات سمیٹنے کی بجائے اختیارات بانٹنا شروع کر دیں‘ آپ کو خوشی مل جائے گی‘‘۔

منوں صاحب
جاوید چوہدری جمعـء 21 نومبر 2014

اخبار کے ٹھنڈے صفحوں پر ایک کالم کی چھوٹی سی خبر تھی اور یہ خبر زندگی کی وہ حقیقت تھی جسے ہم آخری سانس تک بھولے رہتے ہیں۔ ’’ملک کے معروف صنعت کار شہزادہ عالم منوں انتقال کر گئے‘‘ میں نے اخبار نیچے رکھا‘ آنکھیں بند کیں اور لمبا سانس لیا۔
منوں صاحب سے پہلی ملاقات 1996ء میں ہوئی‘ میں نے 1996ء میں نے ایک اخباری گروپ کے لیے ایک ماہنامہ شروع کیا‘یہ ہیرالڈ کی طرز کا اردو میگزین تھا‘ یہ میگزین بھی میری زندگی کا ایک ناکام تجربہ تھا لیکن یہ مجھے منو بھائی اور شہزادہ عالم منوں دو اچھے دوست دے گیا‘ میں ’’اور‘‘ کے ساتھ صرف تین ماہ وابستہ رہا‘ ہم نے ان تین مہینوں میں مختلف صنعت کاروں‘ بزنس مینوں‘ دانشوروں‘ سیاستدانوں اور اداکاروں کے انٹرویوز شروع کیے‘ وہ انٹرویوز ماضی کے قبرستان کی مٹی بن چکے ہیں لیکن منو بھائی اور منوں صاحب کا انٹرویو مجھے آج بھی یاد ہے۔
پہلا انٹرویو منو بھائی کا تھا‘ وہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی‘ منو بھائی کا رہن سہن سادہ اور گفتگو بہت چمکدار تھی‘ محترمہ بے نظیر بھٹو ان دنوں تازہ تازہ اقتدار سے فارغ ہوئی تھیں‘ الیکشنوں کی تیاریاں ہو رہی تھیں‘ منو بھائی نے اس وقت دعویٰ کیا ‘میاں نواز شریف یہ الیکشن بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے مگر یہ بھی زیادہ عرصہ نہیں چل سکیں گے‘ میں نے وجہ پوچھی‘ منو بھائی نے مسکرا کر جواب دیا ’’ ہم انسان اللہ تعالیٰ کی دلچسپ مخلوق ہیں‘ ہم جب تک ناسمجھ رہتے ہیں‘ ہم جب تک چیزوں کو انڈر اسٹینڈ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ہمیں ڈھیل دیتا رہتا ہے لیکن ہم جوں ہی کائنات کے رموز سمجھ جاتے ہیں‘ ہمیں حقیقتوں کا ادراک ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری زندگی کی رسی کھینچ لیتا ہے‘ ہم قبر کا رزق بن جاتے ہیں‘‘ میں نے مسکرا کر عرض کیا ’’لیکن جناب اس فلسفے کا میاں نواز شریف کے اقتدار سے کیا تعلق ہے؟‘‘ منو بھائی قہقہہ لگا کر بولے ’’ ہمارے ملک میں بھی خدائی سیاسی نظام چل رہا ہے‘ ہمارے لیڈروں کو جب تک حقیقتوں کا ادراک نہیں ہوتا یہ مزے سے حکومت کرتے ہیں لیکن انھیں جوں ہی حقائق سمجھ آتے ہیں‘ یہ پیاز کے چھلکے اتارنا سیکھ جاتے ہیں‘ ان کے اقتدار کی رسی بھی کھینچ لی جاتی ہے‘‘ منو بھائی کا کہنا تھا ’’میاں نواز شریف بھی پے در پے حملوں کے بعد حقائق جان گئے ہیں۔
لہٰذا یہ اس بار کان کو پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کریں گے اور جلد فارغ ہو جائیں گے‘‘ منو بھائی نے اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے میں تاریخی انکشاف کیا‘ منو بھائی کا کہنا تھا ’’پاکستان پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو تیسری اور آخری بار اقتدار میں آئیں گی اور یہ اس مرتبہ انٹرنیشنل ایجنڈا لے کر مسند اقتدار پر بیٹھیں گی‘‘ منو بھائی کا کہنا تھا ’’ بے نظیربھٹو کا آخری دور ملک کا آخری فیز (خدانخواستہ) ثابت ہو گا‘‘ منو بھائی کے ساتھ اس کے بعد دوستی کا تعلق قائم ہو گیا‘ یہ تعلق آج تک چل رہا ہے۔
شہزادہ عالم منوں دوسری شخصیت تھے‘ یہ منوں گروپ کے چیئرمین تھے‘ یہ لوگ ٹیکسٹائل میں کام کرتے تھے‘ ان سے ملاقات ہوئی تو حیرتوں کا دروازہ کھل گیا‘ منوں صاحب میں سلیقہ‘ عاجزی اور وژن موجود تھا‘ 1971ء میں پاکستان ٹوٹا تو ان کی صنعت کا بڑا حصہ بنگلہ دیش رہ گیا‘ یہ مغربی پاکستان آئے تو باقی فیکٹریاں ذوالفقار علی بھٹو نے قومیا لیں‘ یہ لوگ صفر ہو گئے‘ شہزادہ عالم آگے بڑھے اور انھوں نے ایک ایک اینٹ کر کے اپنے خاندان کو از سر نو تعمیر کیا اور کمال کر دیا‘ یہ 1980ء کی دہائی تک نہ صرف دوبارہ قدموں پر کھڑے ہو گئے بلکہ یہ قومی خزانے کو اربوں روپے ٹیکس بھی دینے لگے۔
میں نے دنیا میں بے شمار منیجر دیکھے ہیں‘ میں لی آئیا کوکا سے بھی ملا ہوں اور بل گیٹس اور وارن بفٹ سے بھی اور میں نے ملک کے بے شمار صنعت کاروں‘ بزنس مینوں اور سیاستدانوں کے کامیاب ماڈل بھی دیکھے ہیں لیکن شہزادہ عالم کے بزنس ماڈل نے حیران کر دیا‘ ان کی پہلی خوبی ٹائم مینجمنٹ تھی‘ یہ صبح جلدی کام شروع کرتے تھے اور دن کے ایک یا دو بجے دفتر سے واپس آ جاتے تھے اور اس کے بعد کام کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے‘ یہ دفتر سے کوئی فون بھی ریسیو نہیں کرتے تھے‘ اس دوران منوں گروپ کا کتنا ہی نقصان ہو جائے یا انھیں کتنے ہی بڑے فائدے کی پیشکش کیوں نہ کر دی جائے‘ وہ رابطے میں نہیں آتے تھے۔
وہ فائدہ ہو یا نقصان اگلے دن ہی دیکھتے تھے‘ میں نے کامیابی کے جتنے فارمولے پڑھے ‘ ان میں ان تھک محنت‘ شبانہ روز کام اور دن کے 18 گھنٹے دستیاب رہنا شامل تھا لیکن شہزادہ عالم منوں اس فارمولے سے برعکس زندگی گزار رہے تھے‘ وہ دن میں پانچ حد چھ گھنٹے کام کرتے تھے اور اس کے بعد آرام کرتے تھے‘ ایکسرسائز کرتے تھے‘ کتابیں پڑھتے تھے اور دوستوں اور فیملی کے ساتھ وقت گزارتے تھے‘ وہ سمجھتے تھے کام زندگی کے لیے ہوتا ہے‘ زندگی کو کام کے لیے نہیں ہونا چاہیے‘ وہ ہفتے میں ایک دن ورکروں کی وردی پہن کر دفتر آتے تھے‘ وہ یہ یونیفارم دفتری اوقات میں پہنے رکھتے تھے۔
یہ ان کا اپنے ورکروں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہوتا تھا‘ آپ نے پاکستان میں بے شمار فیکٹریاں دیکھی ہوں گی لیکن منوں صاحب کی فیکٹریاں ان سے بالکل مختلف ہیں‘ آپ کو پاکستان کی جس بھی فیکٹری کے سامنے پانی کا خوبصورت تالاب اور فوارے نظر آئیں آپ یہ جان لیں یہ فیکٹری منوں صاحب کی ملکیت یا پھر اس فیکٹری کا مالک منوں صاحب کی فلاسفی سے متاثر ہے‘ منوں صاحب نے ان تالابوں کی ایک خوبصورت بیک گراؤنڈ بتائی‘ ان کا کہنا تھا‘ آپ کو ٹیکسٹائل مل میں آگ بجھانے کا بندوبست رکھنا پڑتا ہے‘ آپ فیکٹریوں میں پانی کا ٹینک بناتے ہیں‘ میری فیکٹریوں میں بھی ٹینک تھا‘ میں نے ایک دن اپنے منیجر کو بلایا اور اس سے پوچھا ’’ہماری فیکٹری میں اگر آگ لگ جائے تو آپ یہ آگ کیسے بجھائیں گے‘‘ منیجر نے جواب دیا ’’سرہم ایک بٹن دبائیں گے۔
موٹر چالو ہو گی اور ہم پانی پھینک کر آگ بجھا دیں گے‘‘ میں نے بٹن دبانے کی درخواست کی‘ بٹن دبایا گیا‘ موٹر چلی لیکن پانی نہ آیا‘ معلوم ہوا پائپ بند ہو چکے ہیں‘ میں نے کھڑے کھڑے تمام فیکٹریوں میں پانی کے تالاب بنانے اور ان میں فوارے لگانے کا حکم دے دیا‘ ان تالابوں اور ان کے فواروں نے فیکٹریوں کی خوبصورتی میں بھی اضافہ دیا اور یہ آگ بجھانے کا بندوبست بھی ہو گئے‘ ہم لوگ روزانہ فوارے چلاتے ہیں‘ یہ فوارے پائپوں کو کھلا بھی رکھتے ہیں اور ہمیں ان کے ذریعے اپنے انتظام کے کارآمد ہونے کا یقین بھی ہو جاتا ہے‘ منوں صاحب اپنے ورکروں کے بارے میں بھی بہت حساس تھے‘ یہ ان کے لیے خصوصی رہائش گاہیں بھی بنواتے تھے‘ کالونیاں بھی تعمیر کرتے تھے اور ان کالونیوں میں بچوں کے لیے اسکول‘ اسپتال اور گراؤنڈ بھی بنواتے تھے‘ منوں صاحب نے ایک گاؤں بھی ’’گود‘‘ لے رکھا تھا‘ انھوں نے پورا گاؤں دوبارہ بنوایا‘ اس میں جدید دور کی سہولیات کا بندوبست کیا‘ وہ اکثر کہا کرتے تھے‘ ملک کے امراء اگر اپنی اوقات کے مطابق ایک ایک‘ دو دو دیہات کا بندوبست سنبھال لیں تو ملک کے آدھے مسائل حل ہو جائیں گے۔
میری ان سے آخری ملاقات 2009ء میں ہوئی‘ وہ ملکی حالات سے خاصے پریشان تھے‘ ان کا خیال تھا ملک میں مذہبی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے‘ ریاست نے اگر یہ عمل نہ روکا تو لوگ فرقے کی بنیاد پر دوسروں کو قتل کرتے جائیں گے‘ اس کے نتیجے میں ملک میں کوئی مسجد بچے گی اور نہ ہی مدرسہ۔ وہ کہتے تھے علماء کرام کو بھی آگے آنا چاہیے اور حکومت کو بھی مذہبی شدت پسندی کا راستہ روکنا چاہیے۔
میری ان سے اگلی ملاقات منوں آبشار میں طے ہوئی‘ منوں صاحب نے اسلام آباد اور مری کے راستے میں چھتر کے مقام پر ایک خوبصورت جزیرہ آباد کر رکھا تھا‘ یہ جزیرہ برساتی نالے کے عین درمیان میں تھا‘ یہ لکڑی کے پل کے ذریعے سڑک سے منسلک تھا‘ یہ پل بوقت ضرورت کھولا جاتا تھا اور بعد ازاں اسے واپس کھینچ کر اس کا تعلق زمین سے توڑ دیا جاتا‘ منوں صاحب کے جزیرے میں ایک آبشار بھی ہے‘ یہ آبشار آپ کو مری روڈ سے صاف دکھائی دیتی ہے‘ منوں صاحب نے مجھے وہاں لنچ کی دعوت دی لیکن زندگی کی بے مقصد مصروفیات نے موقع نہ دیا یہاں تک کہ منوں صاحب دنیا سے رخصت ہو گئے۔
منوں صاحب کی موت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا‘ آپ اچھے ہیں یا برے موت بہرحال آپ کو آ کر رہتی ہے اور آپ کے بعد اخبارات میں صرف ایک کالم کی چھوٹی سی خبر چھپتی ہے اور بس اور یہ ہے زندگی! اور ہو سکتا ہے آپ جس دن دنیا سے رخصت ہوں اس دن کوئی دھرنا چل رہا ہو اور دھرنے کی خبریں آپ کی موت کی ایک کالم خبر کو بھی نگل جائیں اور یوں آپ بے خبری میں دنیا سے رخصت ہو جائیں‘ منو ں صاحب چلے گئے اور ہم کسی دن چلے جائیں گے اور پیچھے رہ جائیں گی حسرتیں اور حسرتوں کی تلاش میں بھاگتے لوگوں کے زخم۔
’’اینٹ بہرحال تمہیں کھانی پڑے گی‘‘
جاوید چوہدری منگل 18 نومبر 2014

وہ پنجابی کا ایک تھیٹر تھا اور تھیٹر کا ایک سین میرے ذہن‘ میرے دماغ میں برگد کا درخت بن گیا اور یہ درخت دن رات پھیلتا جا رہا ہے۔
آپ لاہور کی ثقافتی اور سماجی زندگی کو پندرہ سال ’’ری وائنڈ‘‘ کریں تو یہ آپ کو تھیٹروں میں دھنسا پھنسا نظر آئے گا‘ ان تھیٹروں نے فلم انڈسٹری کے زوال سے جنم لیا تھا‘ ہماری فلم انڈسٹری کراچی سے لاہور شفٹ ہوئی‘ پھر اردو سے پنجابی میں آئی‘ پھر سنتوش‘ درپن‘ محمد علی‘ ندیم‘ وحید مراد‘ صبیحہ خانم‘ نیر سلطانہ‘ شمیم آراء اور شبنم سے سلطان راہی‘ مصطفی قریشی‘ انجمن اور مسرت شاہین پر آئی اور یہ پھر وہاں سے سیدھی تھیٹروں میں آ کر دفن ہوگئی‘ لاہور کے پنجابی تھیٹروں کا زمانہ فنون لطیفہ کا سیاپا تھا‘ یہ تھیٹر فحش فقروں‘ نیم برہنہ ڈانس اور گھٹیا موضوعات کی وجہ سے ثقافتی دلدل بن گئے۔
شریف لوگ اورخاندان دن کے وقت بھی الحمراء آرٹس کونسل کے قریب سے نہیں گزرتے تھے‘ پنجاب حکومت نے ان پر پابندی لگا دی ‘عوام کے دم میں دم آیا‘ یہ تھیٹر انتہائی گھٹیا تھے لیکن اس کے باوجود ان سے سہیل احمد‘ ببو برال‘ خالد عباس ڈار اور امان اللہ جیسے عظیم فنکار نکلے‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقابلہ بالی ووڈ سے لے کر ہالی ووڈ تک دنیا کا کوئی مزاحیہ اداکار نہیں کر سکتا‘ یہ لوگ جب بھی اسٹیج پر آتے تھے‘ یہ کمال کر دیتے تھے لیکن لچر پن اور فحاشی نے ان لوگوں کو بھی بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
میں واپس موضوع کی طرف آتا ہوں‘ مجھے طالب علمی کے دور میں لاہور میں ایک تھیٹر دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ میں تھیٹر کا موضوع اور اداکار بھول چکا ہوں لیکن ایک سین ذہن میں برگد کا درخت بن گیا اور یہ درخت دن رات پھیلتا جا رہا ہے‘ سین کچھ یوں تھا‘ ایک پاگل اینٹ اٹھا کر اسٹیج پر آتا ہے اور سامنے کھڑے شخص کودھمکی دیتا ہے ’’میں اس اینٹ سے تمہارا سر کچل دوں گا‘‘ ہدف گھبرا کر کہتا ہے ’’میں تمہارے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں‘ تم مجھے کوئی ایسا کام بتائو جو میں کر دوںا ور تم مجھے اینٹ نہ مارو‘‘ پاگل قہقہہ لگا کر کہتا ہے ’’چلو ٹھیک ہے‘ تم مجھے ڈانس کر کے دکھاؤ‘‘ ڈیل ہو جاتی ہے۔
سین اب یوں ہے‘ پاگل اینٹ اٹھا کر کھڑا ہے اور ہدف دیوانہ وار ناچ رہا ہے‘ہدف ڈانس مکمل ہونے کے بعد پاگل سے پوچھتا ہے ’’ کیا تمہیں ڈانس پسند آیا‘‘ پاگل قہقہہ لگا کر جواب دیتا ہے ’’ ہاں ڈانس بہت ا چھا تھا لیکن تمہیں اس کے باوجود اینٹ کھانی پڑے گی‘‘ ہدف گھبرا کر کہتا ہے ’’ تم مجھ سے کوئی اور خدمت لے لو‘‘ پاگل اسے مسرت شاہین کی طرح ڈانس کا حکم دیتا ہے‘ ہدف نے ایسا کر دیا۔پاگل خوشی سے چھلانگیں لگاتا ہے‘ ہدف اطمینان کا سانس لیتا ہے اور پوچھتا ہے ’’کیا تم نے میری جان بخش دی‘‘ پاگل خوشی سے تالیاں بجاتا ہے۔
ڈانس کی تعریف کرتا ہے اور آخر میں کہتا ہے ’’ لیکن تمہیں اینٹ تو کھانی ہی پڑے گی‘‘ ہدف اگلا ٹارگٹ پوچھتا ہے‘ پاگل اسے مینڈک ڈانس کا حکم دیتا ہے اور ہدف اسٹیج پر مینڈک کی طرح پھدکنا شروع کر دیتا ہے‘پاگل کو یہ ڈانس بھی پسند آ تا ہے لیکن وہ تالیاں بجانے کے باوجود اعلان کرتا ہے ’’ اینٹ تمہیں بہرحال کھانی پڑے گی‘‘ اور اس کے بعد فرمائشوں اور اینٹ مارنے کی دھمکیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ہدف تھک جاتا ہے‘ وہ دوڑ کر پاگل کے ہاتھ سے اینٹ چھینتا ہے اور خود ہی اپنے سر پر مارنا شروع کر دیتا ہے۔
یہ سین صرف تھیٹر کا ایک سین نہیں‘ یہ ہمارے معاشرے کا نفسیاتی المیہ بھی ہے‘ ہم لوگ صرف شک‘خیال اور خواب کی بنیاد پر دوسروں پر بڑے سے بڑے الزام لگا دیتے ہیں اور دوسرا خواہ الزام کی اینٹ سے بچنے کے لیے مسرت شاہین بن جائے‘ اینٹ اس کے سر پر لہراتی رہتی ہے‘ وہ اینٹ سے بچ نہیں سکتا‘ ہم ایک دلچسپ ملک میں رہ رہے ہیں‘ ہمارے ملک میں آپ کسی بھی شخص کو امریکی‘ روسی‘برطانوی‘ بھارتی اور یہودی ایجنٹ قرار دے دیں۔
وہ شخص صفائی کے لیے خواہ قرآن مجید سر پر اٹھا لے یا غلاف کعبہ تھام کر اپنے بے گناہ ہونے کا اعلان کرے مگر معاشرہ جاسوسی کی اینٹ نیچے رکھنے کے لیے تیار نہیں ہو گا‘ آپ اس ملک میں کسی بھی شخص کو قادیانی‘کافر‘ مرتد‘ غدار اور توہین رسالت کا مرتکب بھی قرار دے سکتے ہیں اور لوگ صرف الزام پر اس شخص کو سڑک پر لٹا کر قتل کر دیں گے‘ نعش کو موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ کر گھسیٹیں گے یا پھر بھٹے میں ڈال کر جلا دیں گے اور ملک کا کوئی ادارہ اس شخص کی حفاظت نہیں کرسکے گا۔
وہ شخص خواہ کلمہ پڑھ کر‘ قرآن مجید سینے پر رکھ کر‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کا واسطہ دے کر اپنے ایمان کی گواہی دے لیکن شک اور الزام کی اینٹ بہرحال اس کے سر پر گر کر رہے گی اور اس ملک میں کوئی بھی شخص کسی بھی وقت کسی بھی شخص کو بے ایمان اور بکائو بھی قرار دے سکتا ہے اور وہ شخص اپنے سر میں اینٹ مارنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ ملک کا کوئی ادارہ الزام لگانے والے کو بلائے گا اور نہ ہی ملزم کو ریلیف دے گا‘ ہمارے ملک میں ایسا کیوں ہوتا ہے اور ریاست اس پر خاموش کیوں رہتی ہے؟ عوام کو آج تک اس کیوں کا کوئی جواب نہیں ملا!۔
پاکستان تحریک انصاف نے 16 نومبر 2014ء کو جہلم میں بھی شاندار جلسہ کیا‘ عمران خان نے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے انکشاف کیا ’’ نواز شریف نے دھرنا ناکام بنانے کے لیے آئی بی کو 270 کروڑ روپے دیے‘‘ عمران خان نے یہ الزام بھی لگایا ’’ حکومت نے صحافیوں‘ کالم نگاروں‘ تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز کا ضمیر خریدنے کی کوشش کی‘‘ عمران خان ملک کے بڑے سیاستدان ہیں‘ عمران خان کی جماعت 2013ء کے الیکشن میں ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری‘ اس نے 76 لاکھ‘ 79 ہزار 9 سوچون ووٹ بھی حاصل کیے۔
عمران خان پچھلے تین ماہ سے میڈیا کی ہیڈ لائینز کا مسلسل حصہ ہیں‘ یہ لمحہ موجود میں پاپولیرٹی کی انتہا کو چھو رہے ہیں‘ ملک میں اگر آج الیکشن ہو جائیں تو عمران خان نہ صرف بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے بلکہ وزیر اعظم بھی بن جائیں گے‘ عمران خان کا دھرنا بھی کامیاب ہو سکتا تھا لیکن ان سے چند غلطیاں ہو گئیں‘ ان غلطیوں میں سے ایک غلطی 28 اگست2014ء کی رات آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات بھی تھی‘ فوجی حکام عمران خان کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے مگر اس ملاقات نے اس رائے کو شدید دھچکا پہنچایا‘ فوج نیوٹرل ہوگئی۔
آپ کو اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو آپ واقعات کو ’’ری وائنڈ‘‘ کرکے دیکھ لیں‘ آپ کو 28اگست تک حالات ایک رخ پر جاتے ہوئے نظر آئیں گے اور آپ 28 اگست کو عمران خان کی آرمی چیف سے ملاقات کے بعد حالات کو دوسرے رخ پر مڑتے دیکھیں گے‘ کیوں؟ آپ خود سمجھ دار ہیں‘ آپ خود سمجھ جائیے مگر میں اس کے باوجود عمران خان کو ملک کا بڑا لیڈر بھی سمجھتا ہوں اور ان کے الزامات کو سنجیدہ ترین بھی۔ ریاستی اداروں کو ان الزامات کا فوراً نوٹس لینا چاہیے‘ سپریم کورٹ ملک کا مقتدر ترین ادارہ ہے۔
عمران خان کو چیف جسٹس ناصر الملک (تادم تحریر) پر اعتماد بھی ہے چنانچہ سپریم کورٹ کو عمران خان‘ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور آبی بی کے چیف آفتاب سلطان کو عدالت میں طلب کرنا چاہیے‘ عمران خان کے الزام کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور حکومت نے اگر واقعی آئی بی کو دھرنے کے خاتمے کے لیے 270 کروڑ روپے دیے ہیں تو سپریم کورٹ کو حکومت کے خلاف ایکشن لینا چاہیے اور اس ایکشن کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہونی چاہیے‘ دو‘ چیف جسٹس عمران خان سے ان صحافیوں‘ کالم نگاروں‘ تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز کے نام بھی حاصل کریں۔
حکومت نے جن کو خرید لیا یا خریدنے کی کوشش کی‘ سپریم کورٹ کو تحقیقات کے بعد تمام مجرم صحافیوں کو جیلوں میں بھی پھینک دینا چاہیے اور ان پر تامرگ صحافت کرنے پر پابندی بھی لگا دینی چاہیے‘ میری سپریم کورٹ سے درخواست ہے آپ صحافیوں اور آئی بی دونوں پر لگنے والے الزامات کے لیے جے آئی ٹی بھی بنائیں اور اس جے آئی ٹی کے لیے تمام ممبرز خیبر پختونخواہ سے لیے جائیں کیونکہ آپ کی بنائی جے آئی ٹی میں اگر دوسرے صوبوں کا کوئی رکن نکل آیا تو موجودہ چیف جسٹس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو جنرل کیانی‘ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے ساتھ ہوا تھا۔
آپ بھی اینٹ کا ہدف بن جائیں گے اور جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے یہ خواہ پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ اور عمران خان کو چیف جسٹس مان لے تب بھی اینٹ بہرحال اسے کھانی ہی پڑے گی کیونکہ آج کے نئے پاکستان میں عمران خان سے اختلاف کرنے والا ہر شخص اینٹ‘ گالی اور دھمکی کے قابل ہے‘ وہ یہ سزا بہرحال بھگتے گا۔
وہ جس نے انگلیوں کوآنکھیں بنا لیا
جاوید چوہدری ہفتہ 15 نومبر 2014

وہ بچپن میں حادثے کا شکار ہوگیا‘جان بچ گئی مگر بینائی جاتی رہی‘ وہ عمر بھر کے لیے اندھا ہو چکا تھا‘ لوئی کو پڑھنے کا جنون تھا‘ وہ حادثے سے قبل روزانہ کتابیں پڑھتا تھا لیکن وہ اب پڑھ نہیں سکتا تھا‘ والدین امیر تھے‘ یہ 1820ء کا زمانہ تھا‘ فرانس کے متمول لوگ اس دور میں ملازمین کی فوج رکھتے تھے‘ ملازمین ان کا وزٹنگ کارڈ ہوتے تھے‘ یہ لوگ جب کسی سے ملاقات کے لیے جاتے تھے تو ان کا ہرکارہ باآواز بلند اعلان کرتا تھا ’’حضرات آپ ڈیوک فلپ سے ملیے‘ یہ دو ہزار ایکڑ زمین‘ تین محلات اور چار سو ملازمین کے مالک ہیں‘ اس جاگیر میں اتنے باڑے‘ اتنی جھیلیں اور اتنی کانیں ہیں ‘‘وغیرہ وغیرہ۔
تعارف کا یہ اسٹائل اس دور میں کم و بیش دنیا کے تمام ممالک میں تھا‘ ہمارے خطے میں یہ خدمات مراثی سرانجام دیتے ہیں‘ پنجاب کے دیہات میں ہر چوہدری کے پاس مراثیوں کا پورا اسکواڈ ہوتا تھا اور یہ ہر مناسب اور غیر مناسب مقام پر اپنے چوہدری کا بڑھا چڑھا کر تعارف کراتے تھے‘ یہ روایت فرانس میں بھی موجود تھی‘ وہاں بھی رئیس ملازم رکھتے تھے اور فرنچ مراثی ملازمین کی تعداد کو اپنے رئیس کا تعارف بناتے تھے‘ لوئی کے والدین اس کلچر کا حصہ تھے چنانچہ انھوں نے معذور ہوتے ہی اس کے لیے دو ٹیوٹرز کا بندوبست کر دیا۔
یہ ٹیوٹرز لوئی کو کتابیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے مگر بارش اور برف باری کے موسم میں جب ٹیوٹر گھر نہیں آ سکتے تھے تو لوئی کو کوفت ہوتی تھی اور وہ صحن میں دیوانہ وار چکر لگاتا تھا‘ وہ اس وقت اپنی معذوری کو زیادہ شدت سے محسوس کرتا تھا‘ والدین کو اس کی بے چینی بہت پریشان کرتی تھی مگر اس دور میں معذور لوگوں کے پاس دوسروں کے سہارے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا‘ لوئی ایک مختلف بچہ تھا‘ یہ 1809ء میں پیدا ہوا‘ 1820ء میں اندھا ہوا‘ اس نے چار سال ٹیوٹرز کے سہارے زندگی گزاری اور پھر اس نے اندھنے پن میں رہ کر پڑھنے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرنا چاہتا تھا ۔
جس کے ذریعے وہ کتاب پڑھ سکے‘ لوئی نے انگلیوں کی پوروں کو آنکھیں بنانے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے ایسا ٹائپ رائیٹر ایجاد کرنا شروع کر دیا جو لفظوں کو کاغذ پر ابھار دیتا تھا اور وہ کاغذ پر انگلیاں پھیر کر ابھرے ہوئے لفظ پڑھ لیتا تھا‘ لوئی نے یہ ٹائپ رائیٹر بنانے کے لیے دن رات کام کیا‘ آپ تصور کیجیے‘ آپ کی آنکھیں نہ ہوں‘ آپ ڈبل روٹی کو بھی ٹٹول کر محسوس کرتے ہوں لیکن آپ ایک ایسا طریقہ ایجاد کرنے میں جت جائیں جو پوری دنیا کی طرز فکر بدل دے یہ کتنا مشکل‘ یہ کتنا کٹھن ہو گا‘ اللہ تعالیٰ نے لوئی کو ارادے کی نعمت سے نواز رکھا تھا‘ اس نے وہ ٹھان لیا ’’میں نے ہر صورت کامیاب ہونا ہے‘‘ اور لوئی بہرحال کامیاب ہو گیا۔
اس نے 1839ء میں ایک ایسا سسٹم ایجاد کر لیا جس کے ذریعے دنیا بھر کے اندھے کتابیں پڑھ سکتے تھے‘ لوئی نے یہ سسٹم ایجاد کرنے کے بعد باقی زندگی اس کی ترویج اور پھیلاؤ میں لگا دی‘ وہ یہ سسٹم لے کر پورے یورپ میں گیا‘ یہ بادشاہوں اور سیاستدانوں سے ملا‘ اس نے تعلیمی ماہرین کے ساتھ مذاکرات کیے اور اس نے عوام کوبھی سمجھایا‘ وہ 1852ء تک زندہ رہا‘ وہ زندگی کی آخری سانس تک اس سسٹم کی اشاعت میں لگا رہامگر بدقسمتی سے اس کے انتقال تک یورپ میں یہ نظام کامیاب نہ ہو سکا‘ لوئی کے انتقال کے بعد یورپ میں اندھوں کے حقوق کے لیے تحریکیں شروع ہوئیں اور صرف دو برسوں میں لوئی کا بنایا ہوا سسٹم پورے یورپ میں رائج ہوگیا۔
یورپ کے 14ملکوں نے تمام بڑی کتابیں لوئی کے نظام پر منتقل کرنا شروع کر دیں‘ آج لوئی کا بنایا ہوا بریل سسٹم پوری دنیا میں رائج ہے‘ دنیا میں ہر سال بریل پر ہزاروں کتابیں شائع ہوتی ہیں‘ آپ اور میں دونوں اس سسٹم کے بارے میں جانتے ہیں لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہوں گے بریل سسٹم کو بریل سسٹم کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ سسٹم بنانے والے کے نام سے مشہور ہے‘ لوئی کا پورا نام لوئی بریل تھا اور دنیا میں جب بھی کوئی اندھا شخص بریل پر کوئی حرف‘ کوئی لفظ پڑھتا ہے تو وہ بے اختیار لوئی بریل کی کوششوں کا اعتراف کرتا ہے‘وہ بریل کی نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے۔
دنیا میں 20 ایسی ایجادات ہیں جنھیں ایجادات کی ماں قرار دیا جاتا ہے‘ یہ وہ ایجادات ہیں جنھوں نے آگے چل کر ایجادات کے ہزاروں بچوں کو جنم دیا‘ یہ بچے ہماری سماجی زندگی کا حصہ ہیں‘ ہم ان بچوں کے بغیر آرام دہ زندگی نہیں گزار سکتے‘ ان 20 ایجادات میں بریل بھی شامل ہے‘ بریل نے دنیا کو پہلی بار بتایا معذور بھی عام انسانوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں چنانچہ بریل کے بعد ایسی سیکڑوں چیزیں ایجاد ہوئیں جنھوں نے آگے چل کر معذوروں کی زندگی آسان بنا دی اور لوئی بریل اس ٹرینڈ کا بانی تھا‘ لوئی نے بریل ایجاد کر کے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا ’’ایجادات کی اصل ماں ضرورت ہوتی ہے۔
آپ دنیا میں ضرورت پیدا کریں چیزیں خود بخود پیدا ہوجائیں گی‘‘ کاش ہم لوئی بریل کے اس نقطے کو سمجھ لیں‘ ہم یہ جان لیں دنیا کے تمام مسائل انسان کے لیے ہیں اور یہ مسئلے انسان ہی نے حل کرنے ہیں‘ ہم یہ نقطہ جس دن جان لیں گے ہمارے پچاس فیصد مسائل حل ہو جائیں گے‘ملک میں اس کے بعد بے روزگاری رہے گی‘ جہالت رہے گی اور نہ ہی بدامنی‘ بے چینی‘ لوڈ شیڈنگ اور ٹریفک کا شور۔ ہم پاکستانی بدقسمتی سے سیکڑوں مسائل کا شکار ہیں مگر ہم یہ مسائل حل کرنے کی بجائے دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں‘ ہم یہ چاہتے ہیں گلی میں گند ہم ڈالیں‘گھر کا پانی ہم سڑک کی طرف نکال دیں۔
ہم سڑک پر اندھا دھند موٹر سائیکل چلائیں‘ ہم گاؤں میں اسپتال بننے دیں اور نہ ہی ڈسپنسری‘ ہم اسکول بھی کھلنے نہ دیں‘ ہم اپنے جعلی ڈگری ہولڈر بھائی کو اسکول اور کالج میں ملازمت دلا دیں‘ ہم واپڈا کے کھمبے سے تار اتار لیں‘ ہم بلا ٹکٹ ٹرین میں سفر کریں‘ ہم سرکاری عمارتوں کے بلب چوری کر لیں‘ ہم معاشرے کے نالائق ترین شخص کو ایم پی اے اور ایم این اے منتخب کریں اور ہم دن رات کبھی اسلام‘ کبھی پاکستانیت اور کبھی مشرقیت کی بنیاد پر دوسروں کو تکلیف دیں مگر ریاست اس کے باوجود ہماری جان‘ مال اور عزت کی حفاظت کرے‘ یہ ہمیں صاف پانی بھی فراہم کرے‘ اعلیٰ تعلیم بھی‘ روزگار بھی‘ انصاف اور پاک صاف ماحول بھی۔
کیا یہ ممکن ہے؟ ملک کے 20 کروڑ لوگ جب روزانہ درخت کی شاخیں کاٹیں گے تو درخت کیسے سرسبزاور شاداب رہے گا؟ ملک کیسے آگے بڑھے گا؟ آپ لوئی بریل سے لے کر نیوٹن اور مادام کیوری سے لے کر آئن سٹائن تک دنیا کے تمام محسنوں کے پروفائل پڑھ لیں آپ کویہ جان کر حیرت ہو گی‘ یہ تمام لوگ اکیلے تھے‘ ان کے پیچھے کسی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں تھا‘ یہ تھے اور بس ان کی دیوانگی تھی اور ان لوگوں نے آخر میں اپنے جیسے انسانوں کی زندگی سہل بنا دی‘ یہ لوگوں کی بے نور زندگی میں رنگ بھرتے چلے گئے‘ ہمارا معاشرہ بھی لاچار اور بیمار ہے‘ اس معاشرے کو بھی لوئی بریل جیسے لوگ چاہئیں‘ ایسے لوگ جو بے بس لوگوں کا ہاتھ تھامیں اور زندگی کی بے نور گلیوں میں راستے ٹٹولنے والوں کو سکون اور کامیابی کی منزل مل جائے۔
دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں‘ ایک‘ وہ لوگ جو لوئی بریل کی طرح اپنی زندگی تیاگ کر دوسروں کے مستقبل روشن کرتے ہیں‘ دو‘ وہ لوگ ہیں جو لوئی بریل جیسے لوگوں سے سیکھ کر دوسرے لوگوں کو سکھاتے ہیں اور تین ہمارے جیسے لوگ جو مرنے تک آسمان سے نصرت اترنے کا انتظار کرتے ہیں‘ جو غیبی امداد کے انتظار میں عمر کا سفر رائیگاں کر دیتے ہیں‘ ہمارے معاشرے کو پہلی قسم کے لوگ درکار ہیں۔
وہ لوگ جو مسائل حل کرنے کے لیے اپنی جان لڑا دیں‘ اللہ تعالیٰ انسانوں کو برابر صلاحیتیں دیتا ہے‘ آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں آپ کو دن 24 گھنٹے ‘ مہینہ 30 دنوں اور سال 365 دنوں کا ملے گا‘آپ کو دنیا کے تمام انسانوں کے منہ پر دو آنکھیں‘ دو کان‘ ایک ناک اور بدن پر دو ہاتھ اور دو پاؤں ملیں گے‘ ہم سب برابر ہیں بس دنیا کی چند قومیں اپنے ان دو ہاتھوں‘ دو آنکھوں‘ دو کانوں اور ایک ناک کا استعمال سیکھ لیتی ہیں چنانچہ یہ آگے نکل جاتی ہیں جب کہ ہم لوگ ان کا استعمال نہیں جانتے‘ ہم اپنے سارے حواس‘ اپنی ساری صلاحیتیں کھانا کھانے اور واش روم جانے میں خرچ کر دیتے ہیں‘ ہم لوئی بریل کی طرح وقت کو وقت سمجھ کر استعمال نہیں کرتے‘ ہم اسے انسانوں کی فلاح پر نہیں لگاتے۔
ہمارے لیے کس قدر ڈوب مرنے کا مقام ہے لوڈ شیڈنگ ہم پیدا کرتے ہیں مگر ہمارا یہ مسئلہ امریکا‘ یورپ اور چین حل کر رہا ہے‘ دہشت گردی ہم پیدا کرتے ہیں لیکن یہ مسئلہ دنیا حل کر رہی ہے‘ پولیو کے مریضوں میں اضافہ ہم کر رہے ہیں لیکن پولیو کی ویکسین بنانا اور پلانا دوسری قوموں کی ذمے داری ہے‘ بے روزگار ہم ہیں لیکن روزگار کا مسئلہ ہمارے دوستوں نے حل کرنا ہے‘ لڑتے جھگڑتے ہم ہیں‘ دوسروں کے مال پر قبضہ ہم کر تے ہیں اور دوسروں کی انا کچلتے ہم ہیں لیکن ہمارے پیدا کردہ یہ مسئلے پولیس اور عدالتیں حل کریں گی! کیادنیا میں ایسا ممکن ہے؟ کیا ہم اس اپروچ کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔
میری آپ سے درخواست ہے آپ لوئی بریل بنیں‘ آپ اندھا رہ کر دوسروں کے ٹکڑوں پر نہ پلیں‘ آپ معاشرے کے گداگر نہ بنیں آپ معاشرے کا لیڈر بنیں بالکل اس طرح جس طرح لوئی بریل نے بریل بن کر دنیا بھر کے اندھوں کی انگلیوں پر آنکھیںلگادی تھیں‘ جو خود اندھیروں میں بھٹکتا رہا لیکن اس نے دوسروں کو علم کی روشن گلیوں میں اترنے کا راستہ دکھا دیا۔
میرا فیصلہ، تیرا فیصلہ
جاوید چوہدری جمعـء 14 نومبر 2014

قائداعظم کے پاس چند مسلمان طالب علم آئے‘ یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا‘ وائسرے نے ہندوستان میں سائیکلوں پر بتی لگانے کا حکم دے رکھا تھا‘ یہ حکم قانون کی حیثیت رکھتا تھا‘ مسلمان اور ہندو انگریز سے آزادی چاہتے تھے چنانچہ یہ اکثر سرکاری احکامات کی خلاف ورزی کرتے رہتے تھے‘ نوجوان خلاف ورزیوں میں پیش پیش ہوتے تھے‘ قائداعظم نے طالب علموں سے پوچھا ’’ آپ میں سے کس کس کے پاس سائیکل ہے‘‘ تمام نوجوانوں نے ہاتھ اٹھا دیے۔
قائداعظم کا اگلا سوال بہت دلچسپ تھا‘ آپ نے پوچھا ’’ اور کس کس کی سائیکل پر بتی ہے؟‘‘ ایک نوجوان کے سوا تمام نے ہاتھ نیچے گرا دیے‘ نوجوانوں کا خیال تھا قائداعظم قانون کی اس خلاف ورزی پر خوش ہوں گے لیکن قائداعظم توقع کے برعکس اداس ہو گئے‘ آپ نے نوجوانوں سے فرمایا ’’ ینگ مین‘ قانون قانون ہوتا ہے ‘ آپ سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے‘‘ نوجوانوں نے عرض کیا ’’ جناب یہ انگریز کا قانون ہے‘ ہم اس پر کیوں عمل کریں‘‘ قائداعظم نے جواب دیا ’’ نوجوانو! جو شخص آج قانون پر عمل نہیں کر رہا‘ وہ کل ہمارے پاکستان میں بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا‘ آپ میری بات پلے باندھ لیں‘ ہمارے ملک میں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہو گی‘‘۔
یہ پاکستان کے بارے میں قائداعظم کا وژن تھا‘ آپ اب عمران خان کا نیا پاکستان ملاحظہ کیجیے‘ کل ننکانہ صاحب میں پاکستان تحریک انصاف کا جلسہ تھا‘ یہ جلسہ بھی عمران خان کے دوسرے جلسوں کی طرح کامیاب تھا‘ ہمیں ماننا پڑے گا عمران خان بھرپور جلسے کر رہے ہیں‘ یہ دو دن کا نوٹس دیتے ہیں اور ہزاروں لوگ جمع ہو جاتے ہیں‘ عمران خان کے جلسے کامیاب ہو رہے ہیں لیکن عمران خان اخلاقی لحاظ سے کمزور ہورہے ہیں‘ ان کی اس کمزوری کی بڑی وجہ شیخ رشید جیسے لوگ ہیں‘ آپ انٹر نیٹ پر جائیں اور ننکانہ صاحب میں شیخ رشید کی تقریر سنیں‘آپ حیران رہ جائیں گے کیونکہ شیخ صاحب نے تقریر نہیں فرمائی انھوں نے سیدھی سادی گالیاں دیں۔
انھوں نے تقریر میں کمینے تک کا لفظ استعمال کیا‘ دنیا میں سیاست اختلافات کا کھیل ہوتی ہے‘ لوگ سیاست میں دوسرے سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور مذمت بھی لیکن اس پیشے‘ اس شعبے میں کسی کو گالی نہیں دی جاتی‘ عمران خان کی 92 دن کی تحریک میں بدقسمتی سے یہ کام روزانہ ہوتا ہے‘ عمران خا ن نے ناشائستگی کا سلسلہ اوئے نواز شریف سے شروع کیا تھا لیکن بات اب کمینے تک پہنچ گئی ہے‘ ہم نے اگر اس سلسلے کو یہاں نہ روکا تو وہ وقت دور نہیں جب سیاسی جماعتوں کے اسٹیج سے ماں بہن کی گالیاں دی جائیں گی اور پوری قوم ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر ان گالیوں پر تالیاں بجائے گی۔
ہم اس ملک کے شہری ہیں جس میں ایک ایسا دور بھی گزرا جب ہمارے لیڈر مہاتما گاندھی کو بھی گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو کو نہرو جی اور پنڈت جی کہتے تھے‘ میں آپ کو پاکستان کی تاریخ کا بدترین دور یاد دلاتا ہوں‘ 1971ء میں پاکستان ٹوٹا‘ جنرل یحییٰ خان پر ملک توڑنے کا الزام لگ گیا‘ عوام نے اس وقت جنرل یحییٰ خان کے ساتھ ایک نامناسب لفظ جوڑ دیا‘ ذوالفقار علی بھٹو اور ملک کی مذہبی جماعتیں جنرل یحییٰ خان کے خلاف تھیں لیکن عوام نے جب یہ نعرے لگانے شروع کیے تو بھٹو صاحب سمیت ملک کے تمام رہنماؤں نے اس کی شدید مذمت کی‘ سیاسی جلسوں میں جب یحییٰ خان کے ساتھ وہ لفظ جوڑ کر نعرے لگائے جاتے تھے تو سیاسی رہنما تقریریں ادھوری چھوڑ کر اسٹیج سے اتر جاتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھٹو کے خلاف بھی یہ نعرہ لگایا گیا‘ جنرل ضیاء الحق نے حکومتی سطح پر نہ صرف اس نعرے کی مذمت کی بلکہ بیورو کریسی کو حکم دیا ’’ آپ یہ نعرہ زبردستی رکوائیں‘‘ بھارت میں آج بی جے پی جیسی متعصب سیاسی جماعت اور نریندر مودی کی حکومت ہے لیکن نریندر مودی ہوں‘ ان کے وزراء ہوں یا پھر ان کے اینکرز ہوں وہ میاں نواز شریف کو نواز جی اور شریف صاحب کہتے ہیں جب کہ ہماری ارض پاک پر وزیراعظم کو اوئے نواز شریف اور کمی کمین کہا جا رہا ہے اور ہم یہ گالیاں ٹیلی ویژن پر لائیو دکھا رہے ہیں۔
میاں نواز شریف پر لگائے جانے والے تمام الزامات درست ہو سکتے ہیں لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے قائدین پوری قوم کے سامنے میاں نواز شریف کو برا بھلا کہیں یا شیخ رشید پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے پارلیمنٹ میں بیٹھنا حرام قرار دے دیں یا دوسروں کو کمی‘ کمین اور کمینہ کہنا شروع کر دیں؟ کیا ہم اس سیاست کو سیاست اور سیاست سے جنم لینے والے اس پاکستان کو نیا پاکستان مان سکیں گے؟ میری شاہ محمود قریشی اور محمود الرشید جیسے سینئر لوگوں سے درخواست ہے آپ عمران خان اور شیخ رشید کو سمجھائیں‘ یہ دونوں غلط روش اختیار کر رہے ہیں اور اس کا نتیجہ کسی صورت ٹھیک نہیں نکلے گا۔
مجھے واٹس ایپ‘ وائبر اور ای میل کے ذریعے روزانہ دو‘ دو‘ تین تین سال کے معصوم بچوں کے کلپس موصول ہوتے ہیں‘ یہ کلپس بچوں کے والدین بناتے ہیں‘ کلپس میں معصوم بچوں سے گو نواز گو کے نعرے لگوائے جاتے ہیںاور پھر ان کے منہ سے گالیاں ریکارڈ کی جاتی ہیں‘ گالیوں کی آوازوں کے ساتھ والدین کی ہنسی بھی شامل ہوتی ہے‘ سوال یہ ہے ہمارے والدین اپنے معصوم بچوں کو کیا ٹریننگ دے رہے ہیں؟ کیا دو تین سال کی عمر میں گالی سیکھنے والا بچہ بڑا ہو کر ملک کا مفید شہری بن سکے گا؟ کیا عمران خان‘ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین اپنے بچوں اور اپنے پوتے پوتیوں اور نواسوں‘ نواسیوں کے منہ سے ایسی گالیاں سننا پسند کریں گے؟ کیا یہ چاہیں گے ان کی اولاد بھی یہ گالیاں سیکھے اور یہ لوگ ان کے سامنے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں؟ عمران خان سوشل میڈیا پر اپنے کارکنوں کی کارکردگی اور اخلاقیات بھی دیکھ لیں۔
مجھے یقین ہے یہ اپنے ورکروں کی یہ کارکردگی ایک منٹ برداشت نہیں کر سکیں گے‘ میرے پروگرام میں ایک دن وقفے کے دوران پی ٹی آئی کے ایک لیڈر نے اپنا موبائل آن کیا تو وہ پی ٹی آئی کے ورکروں کی طرف سے غلیظ گالیاں پڑھ کر پریشان ہو گئے‘ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ ان کا قصور یہ تھا‘ وہ اعتدال کے دائرے میں رہ کر گفتگو کررہے تھے اور ورکروں کو ان کا یہ اعتدال گراں گزر رہا تھا‘ میں نے ان سے اظہار ہمدردی کے بعد عرض کیا ’’جناب یہ گالیاں نہیں ہیں‘ یہ ان گالیوں کی بازگشت ہے جو آپ کے ورکروں کی طرف سے ہم جیسے لوگوں کو دی جاتی تھیں اور آپ تالیاں بجاتے تھے۔
یہ گالیاں آج آپ کے کانوں تک بھی پہنچ رہی ہیں‘ آپ اب اپنی بنائی ہوئی دھنیں انجوائے کریں‘‘ میری پی ٹی آئی کی لیڈر شپ سے درخواست ہے آپ شیخ رشید جیسے فنکاروں کو روکیں‘ آپ نے اگر ان کی زبان کنٹرول نہ کی تو بدکلامی کا یہ سیلاب معاشرے کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی بہا لے جائے گا‘لیڈر عوام کی کردار سازی کیا کرتے ہیں‘ آپ عوام کا کردار بنا نہیں سکتے تو کم از کم آپ اسے برباد نہ کریں‘ میری سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ سے بھی درخواست ہے‘ آپ بھی عوامی تقریروں اور ان کی لائیو کوریج کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق بنائیں‘ اسپیکرقومی اسمبلی بھی شیخ رشید کے فرمودات کا نوٹس لیں‘ یہ ان کے خلاف کارروائی کریں۔
ننکانہ صاحب کے جلسے کی دوسری خوبصورتی عمران خان کی طرف سے مریم نواز شریف کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی تعریف تھی‘ لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے 11 نومبر کو مریم نواز شریف کی تعیناتی کو غیر آئینی قرار دے دیا‘ وزیراعظم نے اپنی صاحبزادی کو22نومبر 2013ء کو وزیراعظم یوتھ لون اسکیم کی چیئرپرسن تعینات کیا تھا‘ عمران خان نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی کھل کر تعریف کی‘ ننکانہ صاحب کے جلسے کے دو گھنٹے بعد اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان سمیت 28 لوگوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
خان صاحب ننکانہ صاحب سے سیدھے کنٹینر پر آئے اور عدالت کے اس فیصلے کو حکومتی سازش قرار دے دیا‘ یہ گرفتاری دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں‘ سوال یہ ہے‘اگر عدالت کا ایک فیصلہ عظیم ہے تو دوسرا فیصلہ کیسے غلط ہو گیا؟ آپ اگر ملک کو نیا ملک بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اس قائداعظم کی طرح قانون کے تمام فیصلے ماننا ہوں گے جنہوں نے سائیکل پر بتی نہ لگانے پر مسلمان طالب علموں کو ڈانٹ دیا تھا‘ ہم اگر عدالتی فیصلوں کو میرا فیصلہ اورتیرا فیصلہ میں تقسیم کرتے رہے تو پھر نیا پاکستان پرانے پاکستان سے کہیں زیادہ بدتر ہو گا‘ لوگ نئے پاکستان کے فیصلوں کو مفادات کی بنیاد پر اچھا اور برا قرار دیں گے‘ میری آپ سے درخواست ہے آپ اپنی طرز فکر میں تبدیلی لائیں ورنہ عوام شیخ رشید کے نئے پاکستان میں آباد ہونے سے افغانستان میں نقل مکانی کو فوقیت دیں گے اور یہ آج کے المیوں سے بڑا المیہ ہو گا۔
سیمی فائنل
جاوید چوہدری جمعرات 13 نومبر 2014

آپ پاکستان کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ مریض کی کیفیات سمجھ لیں آپ کو ملک کی سمجھ آ جائے گی‘ دنیا میں جب بھی کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو وہ پانچ مراحل سے گزرتا ہے‘ پہلی اسٹیج میں لوگ مریض کو بتاتے ہیں ’’تمہیں فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے‘‘ لیکن مریض ’’میں الحمدُللہ ٹھیک ہوں‘‘ جیسا فقرہ بول کر یہ مشورہ مسترد کر دیتا ہے‘ دوسری اسٹیج پر مریض کو اپنے بیمار ہونے کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ اپنے عزیزوں‘ رشتے داروں اور دوستوں سے درخواست کرتا ہے۔
’’مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جائیں‘‘ وہ خود بھی کوئی اچھا ڈاکٹر تلاش کرتا ہے‘ تیسری اسٹیج پر مریض کی بیماری عوامی چرچہ بن جاتی ہے‘ مریض کے دوست‘ احباب‘ عزیز‘ رشتے دار‘ محلے دار اور شہر کے لوگ خان صاحب بیمار ہیں‘میاں صاحب فلاں بیماری کا شکار ہو چکے ہیں جیسے اعلانات شروع کر دیتے ہیں‘ چوتھی اسٹیج میں مرض کی تشخیص کی جاتی ہے‘ مریض کا مکمل معائنہ ہوتا ہے‘ مرض کی وجوہات تلاش کی جاتی ہیں اور مریض کے ٹیسٹ ہوتے ہیں اور پانچویں اور آخری اسٹیج پر مریض کا علاج شروع ہوتا ہے۔
مریض کو ادویات دی جاتی ہیں اور اگر مقامی ڈاکٹر علاج نہ کر سکیں تو مریض کو دوسرے ممالک کے ڈاکٹروں‘اداروں اور اسپتالوں میں لے جایا جاتا ہے‘ پاکستان بھی ایک ایسا ہی مریض ہے‘ یہ مریض پانچویں اسٹیج پر پہنچ چکا ہے لیکن وہ لوگ جن کے پاس ملک کا علاج ہے وہ ابھی تک پہلی‘ دوسری اور تیسری اسٹیج پر کھڑے ہیں‘ آپ ملک کے عام شہری سے لے کر صدر تک کسی شخص سے پوچھ لیں‘ آپ ملک کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی تقریریں سن لیں‘ آپ کو لیڈروں سے لے کر بھنگیوں اور چرسیوں تک تمام لوگ ملک کے سارے مسائل گنواتے نظر آئیں گے‘ یہ مرض کی پوری علامات بیان کریں گے‘ یہ آپ کو بتائیں گے ملک میں قانون کی عملداری نہیں‘ پولیس رشوت خور ہے‘ ملک میں طاقتور کے لیے ایک اور کمزور کے لیے دوسرا قانون ہے۔
جج کم ہیں اور مقدمے زیادہ۔ عدالتی نظام سے تاخیر کے سوا کچھ نہیں نکلتا‘ پٹواری بادشاہ ہیں‘ مسجدیں محفوظ ہیں اور نہ ہی امام بارگاہ‘ ملک کے کسی شہر میں صاف پانی نہیں ملتا‘ عوام خوراک کی کمی کے شکار ہیں‘ مہنگائی برداشت سے باہر ہے‘ دنیا کا کوئی معاشی ماہر دس ہزار روپے میں بجٹ نہیں بنا سکتا‘ بجلی کے بل ادا نہیں کیے جا سکتے‘ لوڈ شیڈنگ نے معیشت کی مت مار دی‘ گیس کی کمی سردیوں کو مزید ٹھنڈا کر دیتی ہے‘ سیاسی قائدین مفادات کی ناک سے آگے نہیں سوچتے‘ سیاسی جماعتیں چند خاندانوں کی جاگیر ہیں‘ سیاستدان‘ بیورو کریٹس اور تاجر کرپٹ ہیں‘ فوج سیاست میں مداخلت کرتی رہے گی۔
ہمارا انتخابی نظام درست نہیں‘ الیکشن سے صرف کرپٹ اور نااہل لوگ اوپر آتے ہیں‘ مٹھی کا قحط انسانی المیہ بن چکا ہے‘ ہم جب تک دہشت گردی ختم نہیں کریں گے‘ یہ ملک آگے نہیں بڑھے گا‘ ہمارا تعلیمی نظام صلاحیت کے بجائے ڈگریاں پیدا کر رہا ہے اور ہم جب تک معاشرے اور مذہب کے درمیان قانون کی دیوار کھڑی نہیں کرتے ہم سکون سے زندگی نہیں گزار سکیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ملک کا ہر شخص خواہ وہ تھڑے پر بیٹھا ہو یا کنٹینر پر چڑھا ہو یا پھر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر تشریف فرما ہو‘ وہ یہ تمام خامیاں ایک سانس میں قوم کے سامنے رکھ دے گا مگر کیا اس حق گوئی اور بے باکی سے مریض کو کوئی فائدہ ہو رہا ہے؟
اس کا جواب ناں ہے! کیوں؟ کیونکہ مریض تشخیص اور علاج کی اسٹیج پر پہنچ چکا ہے‘ یہ ڈاکٹر اور دواء چاہتا ہے مگر بدقسمتی سے عام شہری سے لے کر سیاسی قائدین اور سیاسی قائدین سے لے کر حکمرانوں تک تمام لوگ صرف علامات کا واویلا کر رہے ہیں‘ یہ لوگ اول ڈاکٹر نہیں ہیں اور یہ اگر ڈاکٹر ہیں تو انھیں مریض کے علاج سے کوئی دلچسپی نہیں‘ یہ صرف ’’یہ بیمار ہے‘ یہ بیمار ہے‘‘ کا واویلا کر رہے ہیں اور یہ اس واویلے کو اپنا وژن‘ اپنی پرفارمنس‘ اپنی حب الوطنی اور اپنی کامیاب سیاست قرار دے رہے ہیں‘اب سوال یہ ہے کیا اس رویئے سے مریض ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا ہم اس اپروچ سے ملک کو چلا لیں گے؟ مریض اس سوال کا جلد سے جلد جواب چاہتا ہے کیونکہ مریض میں اب مرض سہنے کی مزید گنجائش باقی نہیں۔
ہم عمران خان سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں‘ ہم ان کی طرز سیاست سے بھی اختلاف کر سکتے ہیں‘ ہم لانگ مارچ اور پارلیمنٹ ہاؤس پر حملے اور دھرنے کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کے بھی خلاف ہیں اور ہم ان کے طرز تکلم پر بھی اعتراض کر سکتے ہیں لیکن ہمیں بہر حال ان کی دو باتوں سے اتفاق کرنا ہوگا‘ ایک‘عمران خان کے مطالبات غلط نہیں ہیں‘ نظام میں واقعی خامیاں موجود ہیں اور ہم جب تک یہ خامیاں دور نہیں کریں گے۔
یہ مریض صحت مند نہیں ہو سکے گا ۔ دو‘ عمران خان کی تحریک غیر جمہوری دور سے نکل کر جمہوری فیز میں داخل ہو چکی ہے‘ یہ دھرنے سے جلسوں پر بھی شفٹ ہو گئے ہیں اور یہ وزیراعظم کے استعفے سے بھی دست بردار ہو چکے ہیں چنانچہ حکومت کو اب فتح کے شادیانے بجانے کے بجائے عمران خان سے مذاکرات کرنے چاہئیں‘ عمران خان جوڈیشل کمیشن بنانا چاہتے ہیں‘ حکومت بنا دے‘ یہ جے آئی ٹی میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمایندوں کو شامل کرنا چاہتے ہیں‘ آپ یہ بھی کر دیں‘آخر کیا حرج ہے؟ آئی ایس آئی اور ایم آئی بھی ریاستی ادارے ہیں اور ہمیں ان پر اعتماد کرنا چاہیے۔
حکومت کو بحران حل کرنے کا سنہری موقع مل چکا ہے لیکن حکومت موقع کو غنیمت جاننے اور عمران خان کا کیچ پکڑنے کے بجائے ضد کی طرف جا رہی ہے‘ حکومتی وزراء فتح کے جوش میں معاملات بگاڑ رہے ہیں‘ حکومت کو عوام پر مہربانی کرنی چاہیے اور عمران خان کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولنا چاہیے‘ یہ عقل کا تقاضا بھی ہے اور سیاست کا قرینہ بھی۔ دنیا میں تاخیر ہمیشہ نقصان پہنچاتی ہے‘ میاں صاحب کو اس معاملے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے‘ حکومت کو مذاکرات کے علاوہ بھی چند فوری اقدامات کرنے چاہئیں‘ ملک کو انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے‘ حکومت الیکٹورل ریفارمز کمیٹی سے بلاتاخیر سفارشات مرتب کرائے‘ پارلیمنٹ سے یہ سفارشات پاس کرائے اور یہ ایشو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دے‘ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر بھی ہنگامی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔
ہم اگر 20 کروڑ لوگوں کے ملک سے ایک غیرمتنازعہ اور متفقہ چیف الیکشن کمشنر منتخب نہیں کر سکتے تو پھر ملک کی گنجائش باقی نہیں رہتی‘ آپ الیکشن کمیشن کو بھارتی الیکشن کمیشن جتنی خودمختاری بھی دیں‘یہ بھی ضروری ہے‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے دھرنے کی ’’برکت‘‘ سے حکومت نے وفاقی وزراء کی پرفارمنس کا جائزہ لینا شروع کیا تھا‘ کابینہ کے خصوصی اجلاس بھی ہوئے مگر ان اجلاسوں کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا‘ وہ وزراء آج بھی اپنی کرسیوں پر موجود ہیں جن کی کارکردگی سے وزیراعظم تک مطمئن نہیں ہیں‘ حکومت نے نئے وزراء کا تقرر بھی کرنا تھا‘ وہ تقرر بھی نہیں ہو سکا‘ ملک کے 50 بڑے اداروں کے سربراہ اٹھارہ ماہ سے تعینات نہیں ہو سکے‘ امیدواروں کے چھ چھ انٹرویوز ہو چکے ہیں لیکن وزیراعظم کو حکم جاری کرنے کی فرصت نہیں مل رہی۔
پنجاب میں بھی ساڑھے تین سو تعیناتیاں وزیراعلیٰ کی توجہ کی طالب ہیں مگر وزیراعلیٰ کو بھی احکامات جاری کرنے کے لیے وقت نہیں مل رہا‘ پنجاب کی بیس سے زائد وزارتیں بے وزیر ہیں‘ میاں شہباز شریف محنتی اور ان تھک ہیں لیکن یہ اس کے باوجود انسان ہیں‘ یہ آخر کتنے لوگوں کا کام کر لیں گے؟ آپ کو اگر 11 کروڑ لوگوں کے صوبے اور341 ایم پی ایز میں سے 20 اہل لوگ نہیں مل رہے تو پھر آپ کو اپنی ناکامی تسلیم کر لینی چاہیے اور میدان عمران خان کے حوالے کر دینا چاہیے‘ ہمارا خیال تھا وزیراعظم عمران خان کے دھرنے کے بعد جاگ اٹھے ہیں‘ یہ اپنے معمولات تبدیل کر لیں گے‘ یہ میٹنگز کے بجائے فیصلے کریں گے لیکن تاحال کوئی بڑا فیصلہ سامنے نہیں آیا‘ مجھے ایوان اقتدار کے اندر سے ایک ایس ایم ایس آیا تھا میرے کسی کالم کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعظم نے رات گئے تک دفتر میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن کیا اس فیصلے پر عملدرآمد بھی ہوا یا پھر یہ فیصلہ بھی تاحال دوسرے فیصلوں کی طرح ایک فیصلہ ہے؟
قوم اس کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتی‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے 15 ارکان فارورڈ بلاک بنا رہے ہیں‘ وزیراعظم ان کی شکایات تک سننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ وزیراعظم خیبر پختونخوا کو صوبہ اور پرویز خٹک کو وزیراعلیٰ بھی نہیں مان رہے‘ یہ انھیں کسی نیشنل اور انٹرنیشنل تقریب میں ساتھ لے کر نہیں جاتے‘ یہ سیاسی تفریق بھی ختم ہونی چاہیے‘ وزیراعظم نے سادگی بھی اختیار کرنی تھی مگر سادگی تو دور ابھی تک اس کا اعلان تک نہیں ہوا‘ ہمارا خیال تھا یہ دھرنے خاندانی سیاست پر بھی کاری ضرب لگائیں گے لیکن حکومت نے اس پر بھی توجہ نہیں دی‘ آج لاہور ہائی کورٹ حکومت کو حکم دے رہی ہے آپ مریم نواز کو لون اسکیم کی سربراہی سے الگ کریں ورنہ ہم حکم جاری کر دیں گے مگر حکومت اس حکم کو بھی سیریس نہیں لے رہی۔
میری حکومت سے درخواست ہے آپ 30 نومبر کو 14 اگست کی طرح آسان نہ سمجھیں‘ یہ 30 نومبر سیاست کو نئے فیز میں دھکیل دے گا‘ حکومت سیریس نہ ہوئی تو عوام اور ریاستی اداروں کوحکمرانوں کی غیر سنجیدگی کا یقین ہو جائے گا اور یہ یقین آگے چل کر حکومت اور نظام دونوں کے لیے خطرناک ہو گا‘ آپ ایک لمحے کے لیے سوچئے‘ یہ صورتحال اگر طوالت اختیار کر لیتی ہے اور سپریم کورٹ معاملات سلجھانے کے لیے ایکٹو ہو جاتی ہے‘ یہ کوئی فیصلہ دے دیتی ہے اور فوج کو اس فیصلے پر عملدرآمد کا حکم جاری کر دیتی ہے تو حکومت اور نظام کا کیا مستقبل ہو گا‘ آپ دوسرا سیناریو بھی سوچئے اگر معاملات نہیں سلجھتے اور ملک کی دوسری سیاسی جماعتیں عمران خان کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہیں تو کیا ہو گا؟ حکومت کو جاگ جانا چاہیے کیونکہ یہ 30 نومبر صرف 30 نومبر نہیں ہوگا یہ سیمی فائنل ہو گا‘ یہ گیم چینجر بھی ثابت ہو سکتا ہے‘ عمران خان جیتیں یا ہاریں نقصان بہرحال حکومت کو ہو گا۔

باؤنڈری وال پر کھڑے کھڑے
جاوید چوہدری منگل 11 نومبر 2014

انٹرلاکن ہماری اگلی منزل تھی‘ یہ سوئٹزر لینڈ کا وہ شہر ہے جو زندہ لوگوں کو پتھر کی مورتی بنا دیتا ہے‘ سوئس لوگ جھیل کو لاک کہتے ہیں‘ انٹر لاکن شہر دو بڑی اور دلفریب جھیلوں کے درمیان آباد ہے لہٰذا یہ انٹر لاکن یعنی ’’جھیلوں کے درمیان‘‘ کہلاتا ہے‘ یہ شہر تین اطراف سے گلیشیئرز اور پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے‘ پہاڑوں کی اترائیوں پر جنگل ہیں اور جنگلوں میں چھوٹے چھوٹے صاف ستھرے گاؤں‘ تین تین منزلہ کھیت‘ جانوروں کے باڑے اور درجنوں ندیاں‘ نالے اور دریا ہیں۔
سوئٹزرلینڈ جھیلوں کا ملک ہے ‘سوئس جھیلیں اتنی وسیع ہیں کہ ان میں باقاعدہ بحری جہاز چلتے ہیں‘ شہر جھیلوں کے گرد آباد ہیں چنانچہ یہ بحری جہاز ٹرانسپورٹ کا بڑا ذریعہ ہیں‘ سوئٹزر لینڈ چیئر لفٹوں کا ملک بھی ہے‘ 80 لاکھ آبادی اور41 ہزار 2سو 85مربع کلومیٹر لمبے ملک میں سیکڑوں چیئر لفٹس ہیں‘ آپ جس طرف نکل جائیں آپ کو وہاں چیئر لفٹ ملے گی‘ یہ چیئر لفٹ آپ کو ہزاروں فٹ بلند چوٹیوں تک لے جائے گی۔
آپ کو وہاں گلیشیئرز کے درمیان ریستوران‘ ہوٹلزاور ٹرین سمیت زندگی کی تمام سہولتیں ملیں گی۔ میں درجنوں مرتبہ انٹر لاکن آیا ہوں‘ میں نے یہ شہر تقریباً تمام موسموں میں دیکھا‘ میں مئی جون میں بھی اس وقت یہاں آیا جب یہ پوری وادی پھولوں سے مہکتی ہے‘ میں نے اسے جولائی کی تپتی دوپہروں میں بھی دیکھا‘ میں نے یہاں کی برساتیں اور طوفان بھی دیکھے اور میں نے اس شہر کی شاموں کو سرد ہوتے بھی دیکھا‘ میں نے اس شہر کی دونوں جھیلوں کے گرد دوڑ بھی لگائی‘ لمبی لمبی واک بھی کی اور میں نے ان جھیلوں کے کنارے لیٹ کر گہری سیاہ راتوں میں تارے بھی گنے‘ میں نے انٹر لاکن کی جھیلوں میں سورجوں کو ڈوبتے بھی دیکھا اور نرم ملائم صبحوں کو ان پانیوں سے طلوع ہوتے بھی دیکھا۔
میں نے اس کے جنگلوں کی فریش چیریز کے مزے بھی لوٹے اور میں نے شاخوں سے انگور توڑ کر بھی کھائے‘ میں نے بس اس شہر کو برفباری میں نہیں دیکھا‘میں جب بھی انٹر لاکن جاتا تھا‘ میں ’’ویو کارڈز‘‘ میں پوری ویلی کو برف کی چادر اوڑھے دیکھتا تھا اور ہر بار پروگرام بناتا تھا میں اگلی سردیوں میں انٹر لاکن ضرور آؤں گا مگر بدقسمتی سے اگلی سردیاں کسی نہ کسی فضول کام میں ضایع ہو جاتیں لیکن یہ سردیاں! میں نے یہ سردیاں ضایع نہ ہونے دیں۔
انٹر لاکن میں پہلی برفباری ہو چکی تھی‘ ہم لوگ جمعہ کی صبح گیسٹائین سے انٹر لاکن کے لیے روانہ ہوئے‘ آسٹریا اور سوئٹزر لینڈ کا راستہ دنیا کے خوبصورت ترین راستوں میں شمار ہوتا ہے‘ برف پوش پہاڑ‘ سیاہ جنگل‘ پیلے اور آتشیں پتوں سے لدھے درخت‘ آبشاریں‘ ندیاں‘ نالے‘ دریا اور تیز ہوائیں آپ کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں‘ ہم گیسٹائین سے نکلے تو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی‘ یہ بارش انٹر لاکن تک ہمارے ساتھ رہی‘ راستے میں کسی جگہ بارش رک جاتی اور سورج بادلوں سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتا تو پورا ماحول کیلنڈروں کی دلفریب تصویروں کی شکل اختیار کر لیتا‘ ہم خوبصورت مناظرکی تصویریں کھینچتے ہیں لیکن آپ اگر آٹھ دس گھنٹے ایسے مناظر کے درمیان سفر کریں جس کا ہر ’’شارٹ‘‘ قدرت کی صناعی کا عظیم شاہکار ہو تو آپ اور آپ کا کیمرہ دونوں بے بس ہو جاتے ہیں اور ہم بھی بے بس ہو گئے کیونکہ ہم جس طرف دیکھتے تھے ہماری آنکھیں پھٹ جاتیں اور منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ‘ ہم انٹر لاکن پہنچے تو شام ہو چکی تھی‘روشنیاں روشن ہو چکی تھیں اور جھیلوں کا پانی یخ ہو چکا تھا‘ شہر میں تیز آوارہ ہوائیں گردش کر رہی تھیں اور سناٹے پر پھیلا رہے تھے۔
انٹر لاکن میں شالیمار کے نام سے ایک پاکستانی ریستوران ہے‘ یہ ریستوران گجرات کے بلال بٹ نے چند برس قبل بنایا تھا‘ مجھے تین مرتبہ اس ریستوران میں جانے کا اتفاق ہوا‘ ہم تھکے ہارے شالیمار ریستوران پہنچے‘ ہمیں چھ دن بعد پاکستانی کھانا نصیب ہوا چنانچہ ہم اپنی ضرورت سے زیادہ کھا گئے‘ بٹ صاحب شکل سے جوان دکھائی دیتے ہیں مگر انھوں نے جب اپنی عمر بتائی تو معلوم ہوا یہ ہم تینوں سے بڑے ہیں‘ یہ حقیقتاً عمر چور ہیں۔ہم نے انٹرلاکن کے مضافات میں بیرن گاؤں میں ہوٹل بک کرا رکھا تھا‘ بیرن انٹر لاکن سے پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر پہاڑی گاؤں ہے‘ گاؤں کا ماحول کالام سے ملتا جلتا ہے لیکن معیار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
اس قصبے کے نصف سے قریب گھر پے انگ ہوم‘ گیسٹ ہاؤسز اور چھوٹے ہوٹل ہیں‘ یورپ میں چھوٹے ہوٹلز کا تصور عام ہو رہا ہے خاص طور پر سوئٹرز لینڈ میں لوگ دس بیس کمروں کا ہوٹل بناتے ہیں‘ گراؤنڈ فلور پر ریستوران کھول لیتے ہیں ‘ یہ ہوٹل ان کی آمدنی کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے اور بڑھاپے کی تفریح بھی۔ میں یورپ کے ایسے بے شمار ہوم ٹائپ ہوٹلوں میں ٹھہرا ہوں‘ یہ ہوٹل مائیاں اور بابے چلاتے ہیں‘ ان ہوٹلوں میں دنیا بھر کی سہولتیں موجود ہوتی ہیں‘ گرم پانی‘ صاف ٹوائلٹس‘ صاف ستھری چادریں اور خوشبودار کمبل اور کرایہ بھی زیادہ نہیں ہوتا‘کاش پاکستان میں بھی یہ تصور آ جائے‘ ہم بھی صاف ستھرے چھوٹے ہوٹل بنائیں لیکن ہوٹل بنانے سے قبل ہمیں عارضی رہائش کی فلاسفی تبدیل کرنا ہو گی۔
ہمیں اپنی معاشرتی روایات تبدیل کرنا ہوں گی‘ ہم لوگ ہوٹلوں میں رہنا اور مہمانوں کو ٹھہرانا توہین سمجھتے ہیں‘ ہم جب دوسرے شہر جاتے ہیں تو ہم وہاں کوئی ایسا رشتہ دار‘ دوست یا دوست کا دوست تلاش کرتے ہیں جو ہمیں ایک آدھ دن کے لیے اپنے پاس رکھ لے‘ ہمارے مہمان آئیں تو بھی ہم انھیں ہوٹلوں میں ٹھہرانے کے بجائے گھروں پر ٹھہراتے ہیں‘ ہم ریستورانوں سے کھانا کھانے یا کھانا کھلانے کو بھی توہین سمجھتے ہیں‘ یہ روایات ماضی میں اچھی تھیں‘ ان سے اپنائیت اور محبت میں اضافہ ہوتا تھا لیکن یہ روایت آج کے زمانے میں دقت طلب بھی ہے اور ملک کی سماجی اور معاشی سرگرمیوں کے راستے کی رکاوٹ بھی ہے‘ گھروں پر مہمان بنانے اور بننے سے گھریلو زندگی متاثر ہوتی ہے‘ آپ مہمان کو اپنے معمول کے مطابق چلانے کے بجائے مہمان کے معمول کے غلام ہو جاتے ہیں۔
خواتین کو بھی زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور بچوں کی روٹین بھی خراب ہو جاتی ہے‘ پاکستان میں روزانہ 50 لاکھ لوگ دوسرے شہروں کا سفر کرتے ہیں‘ یہ لوگ اگر ہوٹلوں میں رہائش اختیار کریں تو ہوٹلوں کے تیس سے چالیس لاکھ کمرے روزانہ استعمال ہوں گے‘ آپ تصور کیجیے‘ اس سے کتنی بڑی معاشی سرگرمی جنم لے گی اور ملک کا کون کون سا طبقہ اس سے فائدہ اٹھائے گا؟آپ اگر یورپ کے چھوٹے ہوٹل اور ریستوران بند کر دیں تو پورے یورپ کی معیشت دم توڑ جائے گی کیونکہ یہ دونوں یورپ کی سب سے بڑی انڈسٹری ہیں‘ یہ صنعتیں پورے پورے ملک کو چلا رہی ہیں‘ یہ لوگوں کو جاب بھی دیتی ہیں‘ حکومت کو کھربوں ڈالر کا ٹیکس بھی اور سیکڑوں صنعتوں کو آکسیجن بھی اور یہ ساری انڈسٹری صرف ایک سماجی روایت پر قائم ہے‘ یورپ کے لوگ دوسروں کے گھروں میں نہیں رہتے‘ یہ دوسروں کو گھروں میں ٹھہرانا بھی پسند نہیں کرتے‘ یہ لوگ بیس بیس سال کے گہرے دوست ہوتے ہیں‘ یہ دوست سے ملنے آتے ہیں لیکن ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں۔
میزبان فیملی انھیں کھانا بھی کسی ریستوران میں کھلاتی ہے اور یوں لوگ مسائل سے بھی بچ جاتے ہیں اور معیشت کا پہیہ بھی رواں دواں رہتا ہے‘ ہماری حکومت اگر توجہ دے‘ یہ چھوٹے ہوٹل کھولنے کے رجحان کو تقویت دے‘حکومت ہوٹلوں اور ریستورانوں کے معیار کی کڑی نگرانی کرے‘ ہم لوگ بھی میزبان تلاش کرنے کے بجائے ہوٹلوں میں رہنا سیکھیں تو ملک میں بڑا سماجی اور معاشی انقلاب آ سکتا ہے‘ ہماری حکومتوں نے بدقسمتی سے آج تک سیاحت کو انڈسٹری نہیں سمجھا‘ پاکستان بیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے ‘ہم میں سے چار کروڑ لوگ سال میں دو بار سیاحت افورڈ کر سکتے ہیں۔
لوگ گرمیوں کی چھٹیوں میں گھروں اور شہروں سے نکلتے بھی ہیں لیکن سیاحتی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات ان کی چھٹیاں خراب ہو جاتی ہیں‘ یہ صحت مند جاتے ہیں اور بیمار اور زخمی ہو کر واپس آتے ہیں‘ حکومت اگر سیاحت کی انڈسٹری کو سنجیدگی سے وقت دے‘ محکمہ سیاحت غیر ملکی کمپنیاں ہائر کرے‘ یہ کمپنیاں سیاحتی مقامات کی نشاندہی کریں‘ گورے ان علاقوں کے لوگوں کو صاف ستھرے ہوٹل اور ریستوران بنانے کے طریقے سکھائیں‘ علاقے کا کچرا ٹھکانے لگانے‘ پانی‘ فضا اور ماحول کو صاف رکھنے کے طریقے سکھائے جائیں تو پورے ملک میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن حکومتوں کے پاس شاید ایسے چھوٹے چھوٹے منصوبوں کے لیے وقت نہیں۔
بیرن خوبصورت گاؤں تھا‘ ہوٹل کی بالکونی سے پوری وادی کا نظارہ ہوتا تھا‘ ٹاؤن برفباری کی وجہ سے سفید ہو چکا تھا‘ چھتوں پر برف کی تہہ جمی تھی‘ پہاڑ کی چوٹیاں سفید ہو چکی تھیں‘ درخت سیاہ تھے لیکن درختوں کی انتہائی بلند شاخوں پر برف کے گالے اٹکے ہوئے تھے‘ ان گالوں پر سورج کی روشنی پڑتی تھی تو یہ سفید موتیوں کی طرح چمکتے تھے‘ میں نے کمرے کی کھڑکی کھولی ‘ مجھے دور دور تک درختوں پر ہزاروں سفید موتی چمکتے نظر آئے‘ ہوائیں ان موتیوں کو گدگداتی تھیں تو یہ لرزتے‘ کانپتے ہوئے نیچے گرجاتے تھے اور زمین کی برف میں برف ہو کر غائب ہو جاتے تھے‘ میں کافی کا مگ لے کر ہوٹل کی باؤنڈری وال پر کھڑا ہو گیا‘ میرے چاروں اطراف نیچر تھی‘ لکڑی کے مہکتے ہوئے گھر تھے اور ہوٹل تھے۔
چمنیوں سے دھواں نکل رہا تھا‘ برف سے بھاپ اٹھ رہی تھی اور چھتوں سے قطرہ قطرہ پانی ٹپک رہا تھا‘ وہ لمحہ زندگی کے قیمتی ترین لمحوں میں سے ایک لمحہ تھا‘میں قدرت کے عظیم صفحے کا ایک نقطہ بن کر اس کی بنائی کائنات میں کھڑا تھا اور میرے دائیں بائیں سکون ہی سکون تھا‘ شانتی ہی شانتی۔ میرے ہاتھ میں ’’کاپو جینو‘‘ کا مگ تھا‘ وقت ٹھہر گیا تھا اور میں ٹھہرے ہوئے وقت کا ایک خاموش لمحہ بن کر اس باؤنڈری وال پر کھڑا تھا اور میرے قدموں کے نیچے سڑک تھی اور سڑک سے آگے سیکڑوں فٹ کھائی‘ ہم لوگ جب لاکھوں‘ کروڑوں سال قبل جنت سے نکلے تو ہمارے آباؤ اجداد آتے ہوئے انٹر لاکن جیسے ہزاروں گنا عظیم مناظر ساتھ لے آئے ۔
یہ مناظر ہمارے خون میں موجود ہیں‘ ہم جب شہروں کے دوزخوں سے تھک جاتے ہیں تو ہمارے خون میں چھپے انٹر لاکن جاگ جاتے ہیں اور یہ انٹرلاکن مقناطیس کے مثبت سروں کی طرح ہمیں اپنی طرف کھینچتے ہیں ‘ ہم جب جنت جیسی ان وادیوں میں پہنچ جاتے ہیں تو ہماری ساری ٹینشن‘ ہمارا سارا ڈپریشن ختم ہو جاتا ہے‘ہم ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں اور بیرن کے اس ہوٹل کی اسی باؤنڈری کی وال پر کھڑے کھڑے میرے سر سے ڈپریشن کا بھوت اتر گیا‘ میں خود کو تروتازہ محسوس کرنے لگا۔
میں دھرنوں میں واپس آنے کے لیے تیار ہو گیا۔
سالسبرگ کی ایک اداس ٹھنڈی شام
جاوید چوہدری اتوار 9 نومبر 2014

گیسٹائین (Gastein) سالسبرگ کی خوبصورت وادی ہے اور سالسبرگ آسٹریا بلکہ پورے یورپ کا خوبصورت ترین شہر۔ سالسبرگ برف پوش پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا علاقہ ہے‘ یہ علاقہ بہار اور گرمیوں میں سبزے‘ آبشاروں‘ پھولوں اور وادیوں کی وجہ سے سیاحوں کی خصوصی توجہ کا باعث ہوتا ہے‘ گیسٹائین سالسبرگ کا بھی خوبصورت ترین علاقہ ہے‘ یہ تین چھوٹے شہروں کا مجموعہ ہے‘ ڈارف گیسٹائین‘ بیڈ ہاف گیسٹائین اور بیڈ گیسٹائین۔ گیسٹائین پہاڑوں کی ڈھلوان پر آباد ہے۔
آپ کھڑکی کھولتے ہیں تو آپ کو سامنے برف پوش پہاڑ‘ پہاڑوں کی اترائیوں پر گھنے جنگل اور جنگلوں کے درمیان سے آبشاریں‘ پہاڑی جھرنے اور سفید برفیلے پانی کی ندیاں دکھائی دیتی ہیں‘ آپ کے قدموں کے نیچے سے دریا بہتا ہے اور آپ کو دور دور تک بھیڑ بکریاں‘ گائے اور سیاہ ہرن نظر آتے ہیں‘ یہ علاقہ حقیقتاً جنت کا ٹکڑا ہے‘ گیسٹائین کے مضافات میں یورپ کی خوبصورت ترین سڑک بھی موجود ہے‘ یہ سڑک لائف ٹائم تجربہ ہے‘ یہ پچاس کلو میٹر لمبی سڑک ہے‘ آپ 45 یورو ادا کر کے اپنی گاڑی اس روڈ پر لے جاتے ہیں‘ یہ سڑک جنت کا سفر ہے‘ آپ اس کے کسی موڑ‘کسی راستے‘ کسی اسٹاپ کو زندگی میں فراموش نہیں کر سکتے‘ آپ کو راستے میں درجنوں ریستوران‘ کافی شاپس اورجوس کارنر ملتے ہیں اور بچوں کے پلے پارکس بھی۔ گیسٹائین اور گیسٹائین کی اس سڑک پر نومبر کے شروع میں برف باری شروع ہو جاتی ہے۔
میں سالسبرگ کی پہلی برف باری دیکھنا چاہتا تھا اور ہمیں یہ برف باری دیکھنے کے لیے دو ملکوں اور دن بھر کا سفر کرنا پڑا‘ میں اور مبشر ویلنس سے بائی ائیر کوپن ہیگن پہنچے‘ ہم نے کوپن ہیگن سے زیورچ کی فلائیٹ لی اور پیرس سے میرے دوست ضیغم ملک گاڑی لے کر زیورچ پہنچے‘ ضیغم ملک اور ان کے بھائی ازرم چکوال کے گاؤں کھاٹی کے رہنے والے ہیں‘ یہ پیرس شہر میں کاروبار کرتے ہیں‘ ضیغم 17 سال کی عمرمیں پیرس آئے‘ انھوں نے دن رات محنت کی‘اللہ نے کرم کیا اور یہ اب پیرس میں شاندار زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ اپنے گاؤں میں ویلفیئر کے کئی منصوبے چلا رہے ہیں‘ میرے قریبی دوست ہیں‘ اس قسم کے سفروں میں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔
یہ نوگھنٹے ڈرائیو کر کے زیورچ پہنچے‘ ہم آٹھ بجے زیورچ اترے اوراس کے بعد سالسبرگ کا سفر شروع کر دیا‘ یہاں برف باری شروع ہو چکی تھی‘ یہ سوئٹزر لینڈ کی اس سال کی پہلی برف باری تھی‘ ہم رات کے سناٹے میں سفر کر رہے تھے‘ گاڑی کی ہیڈ لائیٹس میں برف کے گالے ! یہ ایک عجیب تجربہ تھا‘ ہماری زندگی میں چند ایسے اوقات آتے ہیں ہم جنھیں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے‘ صرف محسوس کر سکتے ہیں‘ ہم انھیں صرف آنکھوں سے چکھ سکتے ہیں، ہماری زندگی میں بعض ایسے مقامات بھی آتے ہیں جب ہماری آنکھیں صرف آنکھیں نہیں رہتیں ان میں اچانک چکھنے اور سونگھنے کی حس بھی پیدا ہو جاتی ہے‘ آپ جب اس مقام پر پہنچتے ہیں تو آپ کی آنکھیں آپ کو منظر کاذائقہ اور خوشبو بھی ٹرانسمٹ کرتی ہیں‘ آپ کو اگرمیری بات کا یقین نہ آئے تو آپ تصویریں دیکھنا شروع کر دیں۔
آپ انٹرنیٹ پر تصویریں تبدیل کرتے جائیں‘ آپ البم کے ورق الٹتے جائیں‘ آپ کو بہت جلد وہ تصویر مل جائے گی جس میں ذائقہ بھی ہو گا اور خوشبو بھی‘ آپ کو اگر یہ تجربہ ہو جائے تو آپ پھرمحسوس کیجیے گا میں اس وقت کیا محسوس کر رہا تھا‘ ہمارے چاروں اطراف برف گر رہی تھی اور ہم آگے‘ آگے‘ مزید آگے سفر کر رہے تھے‘ ہم راستے میں ایک جگہ رک گئے‘ یہ سوئٹزر لینڈ اور آسٹریا کے بارڈر پر ایک چھوٹا سا ریستوران تھا‘ یہ ریستوران رات کے درمیانے حصے میں بھی آباد تھا‘ ہم گاڑی سے نکل کر ریستوران تک پہنچے تو ہم آسمان سے اترتی ہوئی روئی میں گم ہو چکے تھے‘ ریستوران کے اندر کا موسم گرم تھا‘ یورپ نے ہم سے سو سال قبل زندگی کا سراغ پا لیا‘ یہ موسم کو کنٹرول کرنے کاہنر سیکھ گئے‘ آپ کو عمارتوں سے باہر منفی تیس درجہ حرارت ملے گا لیکن آپ جوں ہی عمارت کے اندر داخل ہوں گے آپ کوفوراً 20 سینٹی گریڈ درجہ حرارت ملے گا‘ کاش ہم بھی یہ ہنر سیکھ جائیں۔
ہم ساری رات سفرکرتے رہے‘ صبح چار بجے سالسبرگ پہنچے‘ ہوٹل تلاش کرنا شروع کیے‘ ہوٹلوں کی انتظامیہ بارش اور سردی کی وجہ سے کاؤنٹر چھوڑکر غائب ہو چکی تھی‘ ہم نے کھڑے کھڑے گیسٹائین جانے کا فیصلہ کیا‘ گیسٹائین سالسبرگ سے دو گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا‘ ہم گیسٹائین روانہ ہو گئے‘ ضیغم صاحب گیسٹائین کے ایک ہوٹل کی مالک کو جانتے تھے‘ فون کیا‘ خاتون نے فون اٹھا لیا‘ ہمیں دو کمرے مل گئے‘ صبح ہو چکی تھی۔ ہم نے تقریباً 20 گھنٹے سفر کیا تھا‘ یہ سفر اب تھکاوٹ بن کر پورے جسم پر اتر رہا تھا‘ ہم بے سدھ ہو گئے‘ اگلی صبح‘ صبح نہیں تھی‘ وہ ایک ایسی یاد تھی جو شاید مرنے کے بعد بھی ہمارے جینز کے حافظے میں درج رہے‘ ہمارے کمرے کے تین اطراف دلفریب مناظر تھے‘ دائیں کھڑکی کے سامنے دو شاندار آبشاریں تھیں، آبشاروں کے گرد گھنا جنگل تھا۔
آپ ذراتصور کیجیے‘ گھنا جنگل ہو‘ درخت سیاہ ہوں‘ سیاہی مائل تنوں کے آخری سروں پر سرخ اور پیلے رنگ کے پتے ہوں‘ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہو ،اس جنگل کے درمیان سے آبشاریں گر رہی ہوں تو آپ کیسا محسوس کریں گے‘ہم بالکل وہی محسوس کر رہے تھے جوآپ ایسے منظر کے سامنے بیٹھ کر محسوس کر سکتے ہیں‘ بیڈ کی پائینتی میں دوسری کھڑکی تھی اور اس سے شوریدہ سر دریا نظر آتا تھا‘دریا کا پاٹ زیادہ نہیں تھا‘ دوسری طرف شاپنگ سینٹرز اور کافی شاپس تھیں اُدھر اور اِدھر دریا کے ساتھ ساتھ کرسمس ٹری کا جنگل تھا‘ یہ صنوبر کے چھوٹے سائز کے درخت تھے جنھیں یہ لوگ کرسمس کے دنوں میں سجا کر کرسمس مناتے ہیں اور کمرے کی بائیں کھڑکی سے دوسرا پہاڑ نظر آتا تھا‘ یہ چیڑھ کے درختوں کا گھنا جنگل تھا‘ یہ منظر صرف منظر نہیں تھا‘ یہ پتھر کی لکیر تھا اور یہ لکیر ہماری جمالیات کی سلیٹ پر نقش ہو گئی۔
یہ ہوٹل ایک آسٹرین خاتون کی ملکیت تھا‘ یہ درمیانی عمر کی ایک پرجوش اور فرینڈلی خاتون تھی‘ یہ ایک بزرگ خاتون کے ساتھ مل کر پورا ہوٹل مینج کر رہی تھی‘ یہ 27 کمروں کا تین منزلہ ہوٹل تھا‘ کمرے صاف ستھرے اور آرام دہ تھے‘ مجھے یورپ کی یہ عادت بہت اچھی لگتی ہے‘ یورپ میں دو تین لوگ پورا پورا ریستوران‘ پورا پورا ہوٹل اور پوری پوری دکان چلاتے ہیں اور کسی کے چہرے پر بیزاری یا تھکن نظر نہیں آتی‘ ہم جس ریستوران میں جاتے ہیں‘ وہاں دو تین لوگ سو سو لوگوں کو کھانا بنا کر کھلاتے ہیں اور کسی جگہ گند ہوتا ہے اور نہ ہی بدنظمی دکھائی دیتی ہے جب کہ ہمارے اسٹورز‘ ریستورانوں اور ہوٹلوںمیں درجنوں ملازم ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں گندگی کے ڈھیر بھی ہوتے ہیں‘ بدنظمی بھی اور سروس بھی ٹھیک نہیں ہوتی‘ یہ لوگ دل لگا کر کام کرتے ہیں اور کام سے یہ دلچسپی ان کی کامیابی کا بہت بڑا راز ہے۔
ہم لوگ ناشتے کے بعد یورپ کی خوبصورت سڑک کی طرف نکل گئے لیکن بدقسمتی سے برف باری کی وجہ سے سڑک بند ہو چکی تھی‘ ہم ٹول پلازے تک پہنچے تو اس پر سرخ رنگ سے کراس کا نشان لگا تھا‘ ٹول پلازہ سنسان تھا‘ انتظامیہ برف باری شروع ہوتے ہی نیچے شہر میں منتقل ہو گئی تھی‘ وہاں دور دور تک کوئی بندہ بشر دکھائی نہیں دیتا تھا‘ میں نے اپنے ساتھیوں کو قائل کرنے کی کوشش کی ہم بیریئر ہٹا کر آگے نکل جاتے ہیں لیکن دونوں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر انکار کر دیا‘ یہ بیس سال سے یورپ میں رہ رہے ہیں‘ یہ قانون سے بہت ڈرتے ہیں‘ ان کا کہنا تھا حکومت نے کراس کانشان لگا کر یہ سڑک بند کر دی ہے۔
یہ نشان پوری ریاست ہے اور کوئی شخص اس نشان کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتا‘ حکومت اس نشان کی خلاف ورزی کو اپنے خلاف آرٹیکل سکس سمجھے گی‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ ہم اگریہ لائین کراس کر جاتے ہیں تو؟‘‘ دونوں نے مسکرا کر جواب دیا حکومت کو اگر معلوم ہو گیا کوئی گاڑی اس ٹول پلازے سے آگے نکلی ہے تو چند لمحوں میں یہاں پولیس اور فوج کی گاڑیاں پہنچ جائیں گی‘ یہ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بھی ہم تک پہنچ جائیں گے اور اس کے بعد ہم جیل میں ہوں گے‘ یہ لوگ اس قسم کی سنگین غلطیاں معاف نہیں کرتے‘ میں نے گھبرا کر سرخ کراس کی طرف دیکھا‘ اسے جھک کر سلام کیا اور ٹول پلازے سے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
ہمارے چاروں اطراف پہاڑ تھے اور پہاڑوں نے برف کی چادر اوڑھ رکھی تھی‘ٹھنڈی ہوا یلغار کر رہی تھی‘ درجہ حرارت یقینا منفی تھا‘ پہاڑ کے قدموں میں دو ہرن ہمیں غور سے دیکھ رہے تھے‘ وہ شاید ہماری حماقت پر ہنس رہے تھے‘ ان کا خیال تھا جب علاقے کے لوگ نیچے شہر منتقل ہو گئے ہیںتو یہ کون سی مخلوق ہے جو اس وقت احمقانہ انداز سے دائیں بائیں دیکھ رہی ہے‘ ہم اس وقت واقعی مخلوق لگ رہے تھے‘ ہم احمقانہ انداز سے دائیں بائیں بھی دیکھ رہے تھے اور ہماری یہ حرکت اس قدر نامعقول تھی کہ ہرن تو رہے ایک طرف برف پوش پہاڑ‘ گیلی سڑک‘ بارش کی نرم پھوار اور دائیں سے بائیں جانب ہلکورے لیتی دھند وہ پورا منظر ہمیں احمق سمجھ رہا تھا‘ ہم نے ماحول کی آواز سن لی چنانچہ ہم واپس چل پڑے‘ ہم شہر واپس پہنچے تو شام ہو چکی تھی‘ روشنیاں جل رہی تھیں۔
ریستورانوں میں میوزک چل رہا تھا اور شہر کی تنگ گلیوں میں لوگ بھوت بن کر پھر رہے تھے‘ آپ نے اگر کبھی سردیوں میں یورپ کی سیر نہیں کی تو میرا آپ کو مشورہ ہے آپ زندگی میں کم از کم دو تین مرتبہ یہ تجربہ ضرور کریں کیونکہ یہ تجربہ آپ کو نئے ذائقوں سے متعارف کروائے گا‘ آپ سردی‘ بارش اور اداسی میں گندھی ایک ایسی رومانویت سے متعارف ہوں گے جو آپ پاکستان میں رہ کر محسوس نہیں کر سکتے‘ آپ یورپ جائیں اور بارش اور برف میں رات کے کسی پہر گیسٹائین جیسے کسی شہر کی اداس تنگ گلیوں میں نکل جائیں اور شہر کے بیل ٹاور سے ہر آدھ گھنٹے بعد گھڑیال کی آواز سنیں اور گرتی ہوئی برف کی سرسراہٹ اور کافی شاپس اور شراب خانوں کے کھلتے بند ہوتے دروازوں کی آواز سنیں اور چمنیوں سے سفید دھوئیں کی اٹھتی ہوئی بے قرار لکیریں دیکھیں اور اپنے برف ہوتے ہوئے پاؤں کی بے چینی ملاحظہ کریں‘ آپ یقین کریں آپ کا زندگی کے بارے میں زاویہ بدل جائے گا۔
لتھونیا سے
جاوید چوہدری جمعرات 6 نومبر 2014

لتھونیا کا پہلا تعارف ڈاکٹر ماریا تھی‘ میں 1999ء میں پہلی بار کوپن ہیگن گیا‘ کوپن ہیگن میں لٹل مارمیڈ کے مجسمے کے قریب ڈاکٹر ماریا مل گئی‘ لٹل مارمیڈ کوپن ہیگن میں سمندر کے کنارے جل پری کا مجسمہ ہے‘ جل پری کے اس مجسمے سے ایک افسانوی داستان منسوب ہے‘ یہ جل پری پانی میں رہتی تھی‘ یہ کسی انسان کی محبت میں گرفتار ہوئی‘ یہ اس کی محبت میں خشکی پر آئی اور مجسمہ بن کر سمندر کے کنارے چٹان پر منجمد ہو گئی‘ یہ مجسمہ آج تک موجود ہے۔
دنیا سے ہر سال لاکھوں سیاح کوپن ہیگن آتے ہیں‘ سمندر کے کنارے پہنچتے ہیں‘ لٹل مارمیڈ کے قریب جاتے ہیں‘ تصویر کھنچواتے ہیں اور خوشی خوشی واپس چلے جاتے ہیں‘ پتھر کا یہ معمولی مجسمہ دنیا میں کوپن ہیگن کی پہچان ہے‘ یہ اب تک ڈنمارک کو اربوں ڈالر کما کر دے چکا ہے‘ یہ مجسمہ سیاحتی اسٹنٹ کے سوا کچھ نہیں‘ آپ جب تک اس مجسمے تک نہیں پہنچتے آپ اس کی محبت کا شکار رہتے ہیں لیکن آپ جوں ہی اس کے قریب پہنچ جاتے ہیں‘ آپ کھلی آنکھوں سے یہ دیکھتے ہیں‘ آپ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
1999ء جولائی کی دس تاریخ کو میں بھی اسی کیفیت کا شکار تھا‘ میں مایوسی کے عالم میں لٹل مارمیڈ سے ذرا سے فاصلے پر بیٹھ کر کف افسوس مل رہا تھا‘ میں نے اچانک کسی خاتون کی آواز سنی‘ میں نے سر اٹھایا تو ایک عجیب منظر دیکھا‘ ایک نوجوان خاتون لٹل مارمیڈ کے سامنے کھڑی ہو کر اسے اونچی آواز میں گالیاں دے رہی تھی اور دو درجن سیاح اس کے گرد کھڑے ہو کر قہقہے لگا رہے تھے‘ میں اپنی جگہ سے اٹھا اور مجمعے میں شامل ہو گیا‘ وہ خاتون لٹل مارمیڈ کو گالی دیتی اور پھر چلا کر کہتی اس بدبخت نے میرے دس سال ضایع کر دیے اور مجمع قہقہہ لگاتا‘ میں نے چلا کر خاتون سے اس نفرت کی وجہ پوچھی‘ اس نے بتایا میں پچھلے دس سال سے یہ مجسمہ دیکھنے کے لیے مر رہی تھی‘ میں بڑی مشکل سے یہاں پہنچی‘ یہ دیکھا تو سخت مایوسی ہوئی‘ میں اس مایوسی میں اسے گالیاں دے رہی ہوں۔
وہ خاتون ڈاکٹر ماریا تھی‘ وہ اپنی نفرت کے بھرپور اظہار کے بعد میرے ساتھ بینچ پر بیٹھ گئی‘ وہ لتھونیا سے کوپن ہیگن آئی تھی‘ میں نے اس کے منہ سے پہلی بار لتھونیا سنا‘ ڈاکٹر ماریا نے بتایا ’’لتھونیا 1990ء میں سوویت یونین سے آزاد ہوا‘ ہم لوگ کوپن ہیگن سے دور نہیں ہیں‘ ہم شام کو فیری لیتے ہیں اور صبح کوپن ہیگن پہنچ جاتے ہیں‘ ہوائی جہاز کے ذریعے پچاس منٹ کا سفر ہے لیکن سوویت یونین میں ہونے کی وجہ سے ہم نے یہ سفر 70 سال میں طے کیا۔
ہم یورپ میں ہونے کے باوجود لتھونیا سے باہر نہیں جا سکتے تھے‘ میں نے بچپن میں لٹل مارمیڈ کی کہانی سنی‘ میں اس کی محبت میںگرفتار ہوئی‘ میں عمر کم ہونے کی وجہ سے کوپن ہیگن نہیں آ سکتی تھی‘ میں نے یہاں پہنچنے کے لیے آزادی کے بعد دس سال انتظار کیا‘ میں بڑی مشکل سے آج یہاں پہنچی‘ لٹل مارمیڈ دیکھی تو بہت افسوس ہوا اور میں یہ افسوس چھپا نہ سکی‘‘۔
ڈاکٹر ماریا نے یہ کہانی سنانے کے بعد اپنا سفری تھیلہ اٹھایا اور وہ وہاں سے روانہ ہو گئی لیکن مجھے لتھونیا سے متعارف کرا گئی‘ لتھونیا سے دوسرا تعارف محسود خان ہیں‘ محسود خان کوپن ہیگن میں رہتے ہیں‘ ڈنمارک میںکاروبار کرتے ہیں‘ اسلام آباد میں مقیم ہیں‘ یہ پاکستان میں لتھونیا کے اعزازی قونصل جنرل ہیں‘ میں ان کے گھر کے صحن میں لتھونیا کا جھنڈا دیکھتا ہوں تو یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں محسود خان کو لتھونیا کی قونصلر شپ لینے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے جب بھی محسود خان سے یہ سوال کیا‘ انھوں نے ہنس کر جواب دیا آپ جب تک لتھونیا جائیں گے نہیں آپ کو وجہ سمجھ نہیں آ سکتی‘ لتھونیا سے تیسرا تعارف آصف علی زرداری ہیں۔
پاکستان میں لتھونیا کا سفارت خانہ نہیں‘ ترکی میں لتھونیا کا سفیر پاکستانی امور بھی دیکھتا ہے‘ لتھونیا جب بھی ترکی کے لیے نیا سفیر بھجواتا ہے‘ یہ سفیر ترکی میں اسناد پیش کرنے کے بعد پاکستان کے دورے پر آتا ہے اور پاکستانی صدر کو بھی اپنی اسناد پیش کرتا ہے‘صدر آصف علی زرداری کے دور میں لتھونیا کا سفیر ترکی سے اسلام آباد آیا‘ ایوان صدر میں اسناد پیش کرنے کی تقریب ہوئی‘ تقریب کے دوران ہمارے صدر نے لتھونیا کے سفیر سے پوچھا ’’ آپ کا ملک کہاں ہے‘‘ سفیر نے جواب دیا ’’ ہم بالٹک سی کے ساتھ ہیں‘ لتھونیا بالٹک اسٹیٹ ہے۔ ہم تین ملک ہیں‘ لتھونیا‘ لٹویا اور اسٹونیا۔ ہم سوویت یونین سے آزاد ہوئے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
صدر نے یہ تعارف سنا اور اس کے بعد پوچھا ’’ آپ کی آبادی کتنی ہے‘‘ سفیر نے جواب دیا ’’تیس لاکھ‘‘ صدر آصف علی زرداری مسکرائے اور طنزاً کہا ’’ ہمارے ملک میں تیس ایسے شہر ہیں جن کی آبادی آپ کے ملک کی کل پاپولیشن سے زیادہ ہے‘‘ سفیر نے ادب سے جواب دیا ’’ جی ہاں‘ ہم ایک چھوٹا سا ملک ہیں‘‘ صدر آصف علی زرداری نے اس کے بعد پوچھا ’’آپ کی ایکسپورٹس کتنی ہیں‘‘ سفیر نے ادب سے جواب دیا ’’پچاس ارب ڈالر‘‘ یہ فگر صدر آصف علی زرداری کے لیے حیران کن تھی‘ انھوں نے دوبارہ پوچھا ’’ ایکسی لینسی ففٹی ملین ڈالر آر ففٹی بلین ڈالرز‘‘ سفیر نے جواب دیا ’’ سر ففٹی بلین ڈالرز‘‘ یہ جواب صدر زرداری کے لیے حیران کن تھا کیونکہ پاکستان 20 کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔
ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں‘ ہم جغرافیائی لحاظ سے بھی بہت اہم ہیں لیکن ہماری برآمدات 32 بلین ڈالر ہیں جب کہ ہم سے 66 گنا چھوٹا ملک 50 بلین ڈالر برآمدات سالانہ کماتا ہے‘ صدر نے سفیر سے پوچھا ’’آپ کیا برآمد کرتے ہیں‘‘ سفیر نے بتایا ’’ ہم لیزر ٹیکنالوجی میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں‘ ہم سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کا کاروبار بھی کرتے ہیں‘ ہم دنیا کو بائیو ٹیکنالوجی بھی دیتے ہیں اور ہم ایگریکلچرل مصنوعات بھی بناتے ہیں‘‘ ہمارے صدر مزید شاک میںچلے گئے۔
سفیر ترکی روانہ ہو گیا لیکن صدر اس کے بعد بڑی مدت تک لوگوں کو یہ واقعہ سناتے رہے‘ وہ یہ واقعہ سنا کر آخر میں ہر بار کہتے تھے ’’ آپ دیکھئے دنیا کہاں چلی گئی‘ لتھونیا 1990ء میں آزاد ہوا‘ آبادی تیس لاکھ اور رقبہ صرف 65 ہزار تین سو مربع کلو میٹر اور یہ ملک صرف لیزر ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی سے 50 بلین ڈالر کما رہا ہے جب کہ ہم 20 کروڑ لوگوں کا ملک ہیں اور صرف 32 بلین ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کرتے ہیں‘ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے‘‘ صدر آصف علی زرداری کے یہ الفاظ لتھونیا سے میرا تیسرا تعارف تھے۔
میں اتوار کے دن پیرس آیا‘ شیخ مبشر کو ساتھ لیا اور ہم سوموار کو ویلنس پہنچ گئے‘ ویلنس لتھونیا کا دارالحکومت ہے‘ یہ ساڑھے پانچ لاکھ لوگوں کا چھوٹا سا شہر ہے‘ یہ شہر دریا نیرس کے کنارے آباد ہے‘ دریا شہر کے درمیان سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا گزرتا ہے‘ ویلنس میں سردی شروع ہو چکی ہے‘ ہم جب ائیر پورٹ پر اترے تو شام کے چھ بجے تھے لیکن ہر طرف گھپ اندھیرا تھا‘ ائیر پورٹ چھوٹا سا ہے مگر انتظامات اچھے ہیں‘ ہم ائیر پورٹ سے باہر نکلے‘ درجہ حرارت صفر سے کم تھا‘ لوگ گرم کپڑوں میں چھپے ہوئے تھے‘ معلوم ہوا ہم سے ایک دن قبل درجہ حرارت منفی سات تک پہنچ گیا تھا۔
نومبر اور دسمبر میں شدید سردی شروع ہو جاتی ہے‘ جنوری فروری میں درجہ حرارت منفی پچیس‘ تیس تک گر جاتا ہے‘ شہر میں شدید برفباری بھی ہوتی ہے‘ ہوٹل تک پہنچتے پہنچتے چہرہ اور کان یخ ہو چکے تھے‘ ہم دو دن ویلنس میں رہے‘ ویلنس ایک پرسکون یخ شہر ہے‘ لتھونیا یورپی یونین کا حصہ ہے لیکن یہ یورپ کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں سستا اور سست ملک ہے‘ لوگ بہت نرم خو‘ فرینڈلی اور مہمان نواز ہیں‘ فیملی لائف گزارتے ہیں‘ جوائٹ فیملی سسٹم ہے‘ لوگ آج بھی دادا کے بنائے گھروں میں رہتے ہیں‘ بزرگوں کا بے انتہا احترام کیاجاتا ہے‘ نوجوان والد اور والدہ کے سامنے سگریٹ نہیں پیتے‘ شادیاں ہماری طرح دھوم دھام سے کرتے ہیں‘ شام جلد ہو جاتی ہے اور آٹھ بجے کے بعد لوگ گلیوں اور کافی شاپس میں نظر آتے ہیں‘ نو بجے شہر سنسان ہو جاتا ہے‘ ویلنس تاریخی شہر ہے۔
شہر میں چھ چھ سو سال پرانے چرچ ہیں‘ لوگ کیتھولک ہیں‘ شہر میں پولش اور روسی لوگ بھی ہیں لیکن اکثریت لتھونین لوگوں کی ہے‘ لتھونیا میں منگول مسلمان بھی ہیں‘ یہ چھ سات سو سال قبل لتھونیا آئے تھے‘ یہ آج بھی یہاں موجود ہیں‘ ان کے نام اسلامی لیکن کلچر غیر اسلامی ہے‘ یہ اسلام کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے‘ ترکی آج کل ان لوگوںکو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کی کوشش کر رہا ہے‘ لتھونیا ہزار سال سے طالع آزماؤں کی گزر گاہ ہے‘ روسی اس کے ذریعے یورپ پر حملہ آور ہوتے رہے جب کہ نپولین بونا پارٹ نے جب 1812ء میں روس پر حملہ کیا تو یہ لتھونیا کے راستے ہی ماسکو پہنچا تھا‘ نپولین کی فوجیں بری طرح برف میں پھنس گئیں‘ یہ وہاں سے بھوک‘ بیماری اور زخم لے کر واپس پلٹیں لیکن دیر ہو چکی تھی‘ نپولین کے ہزاروں فوجی راستے میں مارے گئے۔
لتھونیا میں بونا پارٹ کے 80 ہزار فوجیوں کی اجتماعی قبریں ہیں‘ یہ قبریں بوناپارٹ دور کی نشانی ہیں‘ ویلنس سماجی لحاظ سے بھی جدید شہر ہے‘ 1860ء میں ٹرین سروس شروع ہوئی‘ شہر میں 1886ء میں ٹیلی فون لگے‘ 1899ء میں شہر میں سیوریج سسٹم بچھایا گیا جب کہ 1903ء میں شہر میں پاور پلانٹ لگایا گیا‘ لتھونیا سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والا پہلا ملک بھی ہے‘ سپریم کونسل نے 1987ء میں آزادی کا اعلان کر دیا‘ روس نے آزادی کی آواز دبانے کی کوشش کی‘ فائرنگ ہوئی‘ 14 لوگ مارے گئے لیکن لوگ ڈٹے رہے‘ لتھونیا کے لوگوں نے آزادی کے لیے دنیا کی سب سے بڑی انسانی زنجیر بھی بنائی۔
لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہوگئے یوں پوری سرحد کے ساتھ لوگوں کی زنجیر تھی‘ سوویت یونین میں لینن کا پہلا مجسمہ بھی ویلنس شہر میں مسمار کیا گیا‘ آپ آج بھی فلموں‘ ٹیلی ویژن کے کلپس اور سوویت یونین ٹوٹنے کی اخباری تصویروں میں لینن کا سیاہ رنگ کا مجسمہ دیکھتے ہیں‘ یہ مجسمہ آہستہ آہستہ آگے کی طرف گرتا ہے‘ مجسمہ ویلنس میں گرایا گیا تھا اور اس کے گرنے کی تصویر سوویت یونین کے ٹوٹنے کی علامت بن گئی۔
میں کل شہر کے سنٹرل حصے میں اس مقام پر گیا جہاں کبھی لینن کا مجسمہ ایستادہ ہوتا تھا اور لوگ خوف سے اس کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے تھے‘ وہ جگہ قوموں کے عروج و زوال کی عبرت گاہ تھی‘ آپ وہاں کھڑے ہو کر ایک لمحے کے لیے سوچیں تو آپ کو یقین آ جاتا ہے‘ دنیا میں وقت سے بڑا سنگدل کوئی نہیں‘ یہ پل میں افق پر چمکتی قوموں کو خاک کا رزق بنا دیتا ہے اور پھر خاک کے اس رزق پر ہم جیسے لاچار لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔
میں نے اس جگہ کھڑے ہو کر پاکستان اور لتھونیا دونوں کو سلام پیش کیا کیونکہ یہ دنیا کے دو ایسے ملک ہیں جنہوں نے روس جیسی سپر پاور کو شکست دی‘ پاکستان نے اسی کی دہائی میں سوویت یونین کو افغانستان میں ٹکرا کر اور لتھونیا نے 1990ء میں آزادی کا اعلان کر کے دنیا کو پیغام دیا چیونٹی اگر ہاتھی کو مارنے کا فیصلہ کر لے تو فتح بہر حال چیونٹیوں ہی کو نصیب ہوتی ہے‘ لتھونیا اور پاکستان اس معاملے میں بھائی بھائی ہیں۔

صدقہ، عاجزی اور رحم
جاوید چوہدری اتوار 2 نومبر 2014

عطاء اللہ شاہ بخاریؒ برصغیر پاک و ہند کے نامور عالم‘ خطیب اور سیاسی رہنما تھے‘ اللہ تعالیٰ نے شاہ صاحب کو بیان اور تاثیر کی قوت ودیعت کر رکھی تھی‘ وہ بولتے نہیں تھے وہ سناروں کی طرح نقش گھڑتے تھے اور سننے والوں کے زیور احساس پر کنندہ کر دیتے تھے‘ لوگ ان کے دیوانے تھے‘ زائرین دو‘ دو دن کا کھانا باندھ کر شاہ صاحب کا خطاب سننے آتے تھے اور شاہ جی بھی دو‘ دو دن بولتے رہتے تھے۔
نمازوں اور کھانے کا وقفہ ہوتا تھا اور خطاب دوبارہ شروع ہو جاتا تھا‘ شاہ صاحب ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے‘ وہ چاہتے تھے ہندو اور مسلمان مل کر انگریزوں کو نکالیں اور اس کے بعد بھائی بھائی بن کر اکٹھے رہیں‘ وہ اپنے خطبات میں اپنے ان خیالات کا برملا اظہار کرتے رہتے تھے مگر لوگ خطاب ان کا سنتے تھے اور ووٹ قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ کو دیتے تھے چنانچہ شاہ صاحب کی بھرپور مخالفت کے باوجود پاکستان بن گیا‘ شاہ صاحب نے پاکستان ہجرت کی اور پاکستان میں اقامت اختیار کر لی‘ وہ ملتان میں آباد ہو گئے‘ ملتان میں ایک بار کسی نے ان سے پوچھا لیا ’’ شاہ جی آپ پاکستان کے مخالف تھے لیکن آپ پاکستان ہی میں آباد ہیں‘ کیوں؟‘‘ شاہ صاحب نے کیا خوب جواب دیا‘ فرمایا ’’ آپ کا بیٹا کسی خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہو‘ آپ کو رشتہ منظور نہ ہو۔
آپ رشتے کی بھرپور مخالفت کریں لیکن آپ کا بیٹا اس مخالفت کے باوجود شادی کر لے تو آپ کو اس کے بعد کیا کرنا چاہیے؟‘‘ شاہ صاحب نے اس کے بعد فرمایا ’’ رشتے کے بعد وہ خاتون آپ کی بہو ہو گی‘ آپ کو اسے بہو بھی ماننا چاہیے اور اسے بہو کی عزت بھی دینی چاہیے‘‘ شاہ صاحب نے فرمایا ’’میں پاکستان کا مخالف تھا لیکن پاکستان میری مخالفت کے باوجود بن گیا‘ یہ اب میرا ملک ہے اور میں اس کی اتنی ہی عزت کرتا ہوں جتنی اس ملک میں رہنے والے دوسرے لوگ کرتے ہیں‘‘ یہ دلیل شاہ صاحب کی عظمت اور اعلیٰ ظرفی کی نشانی تھی ورنہ اس ملک میں ایسے لوگ اور ان کی پارٹیاں آج بھی موجود ہیں جنھوں نے قیام پاکستان سے قبل پاکستان کی مخالفت کی‘ جو پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے شہری بنے‘ پوری زندگی ملکی وسائل سے لطف اٹھایا لیکن یہ آج بھی ملک کی مخالفت کر رہے ہیں‘ یہ آج بھی پاکستان کے خلاف ہیں۔
مجھے چند دن قبل ایک دوست نے عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا ایک انتہائی خوبصورت قول ایس ایم ایس کیا‘ مجھے جب سے یہ قول موصول ہوا‘ میں اس وقت سے سرشاری کے عالم میں ہوں اور میں جھولی پھیلا کر شاہ صاحب کو دعائیں دے رہا ہوں‘ شاہ صاحب نے فرمایا ’’ میں پوری زندگی دو لوگوں کو تلاش کرتا رہا لیکن مجھے یہ دو لوگ نہیں ملے‘ ایک وہ شخص جو صدقہ کرتا ہو لیکن اس کے باوجود مفلس ہو اور دوسرا وہ شخص جس نے ظلم کیا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ گیا ہو‘‘ یہ قول صرف قول نہیں بلکہ یہ مکمل ضابطہ حیات ہے‘ آپ زندگی میں اگر صرف ان دو اصولوں کو پلے باندھ لیں‘ آپ صدقہ کریں اور ظلم سے بچیں۔
آپ شاندار اور مطمئن زندگی گزاریں گے‘ آپ یقین کریں آپ اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو آپ خواہ کتنے ہی امیر کیوں نہ ہو جائیں‘ آپ پوری زندگی مفلس رہتے ہیں‘ آپ کے ہاتھ ہمیشہ دوسروں کے سامنے پھیلے رہتے ہیں اور آپ اگر ظالم ہیں تو آپ خواہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہو جائیں‘ آپ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے‘ یہ میری زندگی کا تجربہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی۔ میں ملک کے درجنوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن کی شہرت اچھی نہیں‘ جن کے کام دھندے غلط ہیں‘ مصیبتیں پوری طاقت سے ان کی طرف دوڑتی ہیں‘ پولیس انھیں گرفتار کرنا چاہتی ہے‘ حکومت ان کے خلاف پوری ریاستی طاقت استعمال کرتی ہے۔
ان کے خلاف قانون بن جاتے ہیں‘ جج ان کے خلاف فیصلے لکھ دیتے ہیں‘ ان کے لیے جیلیں تیار ہو جاتی ہیں اور ان کے وارنٹ جاری ہو جاتے ہیں لیکن وہ عین وقت پر بچ جاتے ہیں‘ دنیا بھر کی مصیبتیں ان کے قریب سے گزر جاتی ہیں‘ آپ ذرا سی تحقیق کریں‘ آپ کو معلوم ہو گا ان میں سیکڑوں عیب ہیں لیکن یہ عیبوں کے باوجود کھلے دل سے صدقہ اور خیرات کرتے ہیں‘ ان کا دستر خوان وسیع ہے‘ یہ ہر ماہ درجنوں بیواؤں‘ یتیموں‘ بے آسراؤں‘ بیماروں اور بے کسوں کی مدد کرتے ہیں‘ یہ مدد انھیں مصیبتوں سے بھی بچاتی ہے اور ان کی دولت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔
بزرگ بتاتے ہیں‘ ایک فقیر نے ایک بزرگ کے سامنے دست سوال دراز کیا اور ساتھ ہی دعا دی اللہ تعالیٰ تمہیں بادشاہ بنائے‘ بزرگ نے اس سے پوچھا ’’ کیا تم بادشاہ بننا چاہتے ہو‘‘ فقیر نے حیران ہو کر جواب دیا ’’جناب میں نسلوں کا فقیر‘ میں کیسے بادشاہ بن سکتا ہوں‘‘ بزرگ نے کہا ’’ چلو ہم ایک تجربہ کرتے ہیں‘ میں تمہیں بادشاہ بنانے میں کامیاب ہو گیا تو تم مجھے حج کرواؤ گئے اور میں اگر ناکام ہو گیا تو میں پوری زندگی تمہاری کفالت کروں گا‘‘ فقیر مان گیا‘ بزرگ نے اس سے کہا ’’تمہاری جیب میں کتنے پیسے ہیں‘‘ فقیر نے پیسے گنے‘ وہ تیس روپے تھے‘ بزرگ نے اسے مٹھائی کی دکان پر بھیجا‘ تیس روپے کی جلیبیاں منگوائیں‘ سامنے بے روزگار مزدور بیٹھے تھے۔
بزرگ نے اسے حکم دیا ’’ تم یہ جلیبیاں ان مزدوروں میں تقسیم کر دو‘‘ فقیر گیا اور جلیبیاں مزدوروں میں بانٹ آیا‘ بزرگ نے اسے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور حکم دیا ’’تم گھر چلے جاؤ‘ تیس دن انتظار کرو اور دیکھو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا پیغام آتا ہے‘‘ فقیر چلا گیا‘ وہ تیسرے دن دوڑتا ہوا بزرگ کے پاس آیا‘ وہ خوشی سے چھلانگیں لگا رہا تھا‘ بزرگ نے وجہ پوچھی‘ فقیر نے بتایا ’’ مجھے پچھلے مہینے ایک کلرک نے بھیک میں پرائز بانڈ دیا تھا‘ میں نے وہ بانڈ سنبھال لیا‘ آج وہ بانڈ نکل آیا‘ میں بیٹھے بٹھائے تین لاکھ روپے کا مالک بن گیا‘‘ بزرگ مسکرائے اور اس سے کہا ’’یہ بانڈ تمہارا نہیں‘ اس کا مالک وہ ہے۔
جس نے تمہیں یہ بانڈ دیا تھا‘ تم بانڈ کے مالک کو تلاش کرو‘ یہ رقم اسے واپس کر دو اور انتظار کرو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا پیغام آتا ہے‘‘ فقیر کو یہ آئیڈیا بہت برا لگا لیکن اس کے باوجود اس نے کلرک کو تلاش کیا اور بانڈ لے کر اس کے پاس پہنچ گیا‘ کلرک فقیر کی ایمانداری پر حیران رہ گیا‘ وہ فقیر کے ساتھ دفتر سے نکلا‘ ڈی سی آفس گیا‘ وہاں کنسٹرکشن کمپنی رجسٹر کرائی‘ فقیر کو پچاس فیصد کا حصہ دار بنایا اور سرکاری ٹھیکے لینا شروع کر دیے‘ وہ دونوں مل کر کام کرتے تھے‘ کلرک ٹھیکہ لیتا تھا اور فقیر کام کرواتا تھا‘ یہ کمپنی مزدوروں کو تین وقت کا کھانا دیتی تھی‘ کمپنی چل پڑی‘ کلرک اور فقیر دونوں امیر ہو گئے‘ یہ دونوں بزرگ کو ہر سال حج پر بھجواتے تھے اور شام کے وقت فقیروں کو روک کر انھیں بادشاہ بننے کا نسخہ بتاتے تھے‘ یہ کمپنی آج بھی قائم ہے۔
اس میں اب کلرک اور فقیر کے بچے کام کرتے ہیں‘ یہ کمپنی تیس روپے کے صدقے سے شروع ہوئی‘ یہ اب تک درجنوں لوگوں کو بادشاہوں جیسی زندگی دے چکی ہے‘ میں ذاتی طور پر ایسے بیسیوں لوگوں سے واقف ہوں جو جاہل بھی ہیں‘ نالائق بھی اور غیر محتاط بھی لیکن ان پر اللہ تعالیٰ کا کرم برستا رہتا ہے‘ میں نے جب بھی تحقیق کی‘ مجھے اس کرم کے پیچھے ہمیشہ صدقہ اور خیرات ملی‘ یہ دل کے سخی اور ہاتھ کے کھلے ہیں‘ میں نے ایک اور چیز بھی مشاہدہ کی‘ انسان اگر صدقہ کرے اور ساتھ ہی عاجزی اختیار کر لے تو دولت بھی ملتی ہے اور عزت بھی کیونکہ جس طرح خوش حالی کا تعلق صدقے سے ہے بالکل اسی طرح عزت عاجزی سے وابستہ ہے‘ آپ جتنا جھکتے جاتے ہیں آپ کی عزت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے‘ آپ اس معاملے میں اولیاء کرام کی مثال لے لیجیے‘ اولیاء کرام میں عاجزی ہوتی ہے چنانچہ ان کے مزارات ہزار ہزار سال تک آباد رہتے ہیں‘ یہ کھلے دل اور فراخ ہاتھ بھی ہوتے ہیں چنانچہ ان کے درباروں پر ان کے انتقال کے بعد بھی لنگر چلتے ہیں اور بادشاہ مال و متاع لے کر ان کی درگاہ پر حاضر ہوتے رہتے ہیں۔
ہم اب ظلم کی بات کرتے ہیں‘ میرے بزرگ دوست شیخ عبدالحفیظ راولپنڈی کے ایک ریلوے ملازم کی بات سنایا کرتے ہیں‘ یہ صاحب راولپنڈی میں رہتے تھے‘ ملتان میں کوئی شخص قتل ہوا مگر پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر لیا اور اس پر قتل کا مقدمہ قائم ہو گیا‘ وکلاء اور جج جانتے تھے یہ بے گناہ ہیں لیکن وہ صاحب کہتے تھے مجھے ہر صورت سزائے موت ہو گی‘ یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی‘ عدالت نے اسے سزائے موت سنا دی‘ دوست اس سے ملاقات کے لیے گئے ‘ اس سے یقین کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا ’’ مجھے یہ سزا ملتان کے قتل کی نہیں ملی‘ میں گوجرانوالہ کے قتل کی سزا بھگت رہا ہوں‘‘ دوستوں نے تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا ’’ میں پاکستان بننے کے وقت ریلوے میں ٹی ٹی تھا‘ بھارت سے مہاجرین کی ٹرینیں آ رہی تھیں‘ میں نے امرتسر سے ایک ٹرین بھری۔
ٹرین چلی تو مجھے اسٹیشن پر ایک خوبصورت لڑکی دوڑتی ہوئی نظر آئی‘ میں نے ہاتھ باہر نکال کر اسے پکڑا اور ٹرین میں سوار کر لیا‘ میں نے اسے اپنے ڈبے میں بٹھا لیا‘ وہ نئی نویلی دلہن تھی‘ فساد میں اس کا سارا خاندان مارا گیا مگر وہ جان بچا کر گرتے پڑتے اسٹیشن پہنچ گئی‘ میری ٹرین نے امرتسر سے لاہور اور لاہور سے راولپنڈی آنا تھا‘ میں نے اسے راولپنڈی تک کے لیے اپنے ڈبے میں پناہ دے دی‘ ہم لاہور سے نکلے تو میری نیت خراب ہو گئی‘ میں نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی‘ وہ نہ مانی‘ میں نے اس کے ساتھ زبردستی شروع کر دی‘ لڑکی شاک میں چلی گئی‘ اس نے دروازہ کھولا اور ٹرین سے باہر چھلانگ لگا دی‘ وہ ٹرین کے نیچے آ کر مر گئی‘ میں اس دن سے احساس گناہ کا شکار ہوں‘ میں اس کا قاتل ہوں اور مجھے یقین تھا میں کبھی نہ کبھی اس قتل کی سزا ضرور بھگتوں گا اور مجھے آج وہ سزا مل گئی‘ میں پھانسی چڑھ رہا ہوں‘‘۔
میری آپ سے درخواست ہے‘ آپ صدقہ دیں‘ عاجزی اختیار کریں اور ظلم سے بچیں‘ اللہ تعالیٰ آپ پر خوشحالی‘ عزت اور پرامن زندگی کے دروازے کھول دے گا‘ یہ راز حیات ہے۔
ہمارا امیج
جاوید چوہدری جمعرات 30 اکتوبر 2014

تبسم اسد پاکستان کے شہر منڈی بہاؤ الدین سے تعلق رکھتی ہیں‘ یہ پانچ سال کی عمر میں والدین کے ساتھ فرانس چلی گئیں‘ فرانس میں تعلیم مکمل کی‘2005ء میں فرانس میں مقابلے کا امتحان (Concours) دیا‘ یہ فرانس کا سی ایس ایس لیول کا امتحان ہے‘ پورے فرانس سے تین ہزار نوجوان اس امتحان میں شریک ہوئے‘ 120 امیدوار پاس ہوئے‘ تبسم نے امتحان میں پانچویں پوزیشن حاصل کی‘ یہ امتحان پاس کرنے کے بعد فرانس کی منسٹری آف ڈیفنس میں شامل ہو گئیں ‘یہ دس برسوں سے منسٹری آف ڈیفنس میں فرائض سرانجام دے رہی ہیں‘ تبسم نے منسٹری میں انٹرنیشنل ریلیشن ڈیپارٹمنٹ کا انتخاب کیا تھا مگر ان کا پاکستانی نژاد ہونا ان کے راستے کی رکاوٹ بن گیا‘ یہ انٹرنیشنل ریلیشن ڈیپارٹمنٹ میں نہ جا سکیں اور انھیں ایسے ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کر دیا گیا جہاں ان کی کسی حساس فائل تک رسائی نہ ہو سکے۔
تبسم کو برا لگا لیکن انھوں نے اس کے باوجود جاب اسٹارٹ کر دی‘ یہ دس سال سے وزارت دفاع میں ہیں‘ ان دس برسوں میں کئی ایسے مواقع آئے جب ان کے کولیگز نے ان کی ذات‘ ان کی جائے پیدائش اور پاکستان کے امیج کو ذہن میں رکھ کر ان کی ذات پر تنقید کی لیکن پاکستانی ہونے اور ملک کی حساس ترین منسٹری کا حصہ ہونے کی وجہ سے تبسم نے کبھی اس تنقید کا جواب نہ دیا‘ انھوں نے کسی سے شکایت بھی نہیں کی تاہم ان کے اندر ان باتوں اور طعنوں کے چھوٹے چھوٹے زخم لگتے رہے اور یہ زخم آہستہ آہستہ ٹیومر کی شکل اختیار کرتے گئے۔
تبسم کی ملازمت کے دوران ایسے مواقع بھی آئے جب ان کے سینئرز یاکولیگز کو پتہ چلتا تبسم پاکستانی ہیں تو ان کا طنزیہ سوال ہوتا تھا ’’آپ کو فرانس کی منسٹری آف ڈیفنس میںکس نے بھیج دیا؟‘‘ بتسم یہ طنز بھی سہہ جاتیں کیونکہ یہ جانتی تھیں‘ ساتھیوں کی نظر میں پاکستان ایک دہشت گرد ملک اور اس کے تمام باشندے انتہا پسند ہیں اور یہ تاثر جب تک قائم رہے گا‘ ان جیسے پاکستانیوں کو یہ طنز اور یہ فقرے برداشت کرنا پڑیں گے‘ منسٹری میں تبسم کا ہونا اور ان کے ساتھ پاکستان کا نام آنا ساتھی کولیگز کے لیے تشویشناک امر تھا۔ لوگ انھیں مشکوک نظروں سے دیکھتے تھے‘ تبسم دس سال تک اس اذیت کا شکار رہیں یہاں تک کہ انھوں نے فرنچ وزارت دفاع میں پاکستان کا امیج تبدیل کرنے اور پاکستانیوں کا اصل چہرہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا‘ فرانس کی منسٹری آف ڈیفنس ہر سال سالانہ ایونٹ کرواتی ہے۔
وزارت کے تمام ملازمین ان ایونٹس کے لیے مختلف آئیڈیاز دیتے ہیں‘ تبسم نے اس سال وزارت میں پاکستان کا کلچر اور روایات پیش کرنے کا آئیڈیا دیا‘ منسٹری آف ڈیفنس نے یہ پروپوزل قبول کر لیا‘ یہ خبر سنتے ہی تبسم کو یوں لگا جیسے اس نے کوئی جنگ جیت لی ہو‘یہ ایونٹ تبسم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا چنانچہ انھوں نے دن رات ایک کردیے‘ یہ چار ہفتے آفس ٹائمنگ کے بعد ایونٹ کی تیاری کرتی رہیں‘ ان کی دلی تمنا تھی پاکستان کی اصل تصویر پیش ہونے میں کوئی کسر نہ رہ جائے‘ انھوں نے اس کے لیے ہر وہ دروازہ کھٹکھٹایا جہاں سے انھیں پاکستانی کلچر اور روایات مل سکتی تھیں‘پروجیکٹ کے لیے یہ عام پاکستانی سے لے کر فرانس میں موجود پاکستانی سفیر غالب اقبال تک کے پاس گئیں‘ پاکستان کے سفیر غالب اقبال مثبت سوچ کے وژنری انسان ہیں۔
سفیر نے اس موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا‘ تبسم کو پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہر وہ رہنمائی اور مدد دی جس سے پاکستان کی ثقافت اور نظریہ پاکستان مثبت انداز میں پیش کیا جا سکتا تھا۔ ایونٹ کا دن آیا تو منسٹری آف ڈیفنس فرانس میں ہر طرف پاکستان ہی پاکستان نظر آ رہا تھا‘ چاروں صوبوں کی ثقافت‘ فیشن شو‘ پاکستان کی تاریخ‘ نظریہ پاکستان اور پاکستان کے موجودہ حالات پر سفیر پاکستان کی تقریر ہر چیز نے فرانسیسی حکام کو حیران کر دیا۔ پاکستان ایمبیسی کے سفیر سے لے کر‘ ڈیفنس اتاشی تک اور پاکستانیوں سے لے کر فرانس کے جرنیلوں اور آفیسرز تک نے پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیض پہنا‘ اس دن پر فرانس کے اس ادارے کے لوگوں نے پاکستان کی وہ تصویر دیکھی جو ان کی نظر سے اوجھل تھی۔
اس ایونٹ کے بعد منسٹری آف ڈیفنس کے وہ لوگ جن کو پاکستان کے نام سے خوف آتا تھا ‘ان کے پاکستان کے بارے میں خیالات تبدیل ہو گئے‘ یہ پاکستان کو بھی اہمیت دینے لگے‘ مجھے کسی صاحب نے بتایا‘ پاکستان کی اس نمائش کے بعد تبسم کے اعتماد میں اضافہ ہو گیا‘ یہ پورے اعتماد کے ساتھ وزارت کے کوریڈورز میں گھومتی ہیں اور ان کے کولیگز پہلے سے زیادہ ان کا احترام کرتے ہیں۔
تبسم اسد کی مثال دو حقائق ثابت کرتی ہے‘ پہلی حقیقت‘ پاکستان کا امیج پوری دنیا میں خراب ہو چکا ہے‘ یہ امیج کیوں خراب ہے؟ اس کی پانچ وجوہات ہیں‘ ہم جب تک یہ وجوہات دور نہیں کریں گے‘ ہمارا امیج ٹھیک نہیں ہوگا‘ ایک‘ مہذب دنیا لڑنے جھگڑنے والے لوگوں اور قوموں کو پسند نہیں کرتی جب کہ ہم پچھلے چالیس سال سے حالت جنگ میں ہیں‘دنیا چالیس سال سے ہماری منفی تصویر دیکھ رہی ہے‘ افغانستان کی جنگ ہو‘ طالبان ہوں‘ امریکا طالبان جنگ یا پھر پاکستان میں دس سال سے جاری دہشت گردی کی جنگ ہو‘ ہم چالیس سال سے حالت جنگ میں ہیں اور دنیا کو جنگ کے سوا ہماری کوئی تصویر منتقل نہیں ہوئی‘ یہ درست ہے‘یہ جنگ ہم نے نہیں چھیڑی‘ یہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی اور ہم عالمی طاقتوں کی طرف سے مسلط کردہ اس جنگ کے متاثرین ہیں لیکن کیا دنیا کے پاس اس سوال کا جواب تلاش کرنے کا وقت ہے‘؟ نہیں ہے! دنیا کو صرف ہمارے خطے میں پھٹنے والے بم نظر آتے ہیں۔
ہم بے گناہ ہیں‘ یہ ہم جانتے ہیں اور ہمارے جنگی اتحادی جانتے ہیں‘ دنیا میں 245 ممالک ہیں اور ہماری بے گناہی کے بارے میں صرف چند ملکوں کو معلوم ہے‘ دنیا کے باقی 240 ملک ہماری بے گناہی سے واقف نہیں ہیں‘ ان ملکوں کو صرف ہماری جنگ اور دہشت گردی نظر آتی ہے اور ہم نے آج تک دہشت گردی اور جنگ کا یہ تاثر زائل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی‘ ہمارے مقابلے میں بھارت میں علیحدگی کی 28 مسلح تحریکیں چل رہی ہیں‘ وہاں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں 60 سال سے جنگ ہو رہی ہے لیکن دنیا کو بھارت کی طرف سے ہمیشہ امن‘ آرٹ‘ موسیقی اور فلم کے پیغامات جاتے ہیں‘ دنیا اسے پرامن اور ہمیں بد امن ملک سمجھتی ہے‘ ہم نے اس حقیقت کو ماننا بھی ہے اور اس حقیقت کے رنگ بھی بدلنے ہیں‘ دو‘ دنیا مذہبی انتہا پسندی کو بھی پسند نہیں کرتی‘ یورپ میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان عوامی بحث ہوئے تین سو سال ہو چکے ہیں‘ لوگ وہاں کسی شخص کو دوسرے شخص کا مذہب یا فرقہ پوچھنے کی اجازت نہیں دیتے اور وہاں تبلیغ بھی حکومت کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی جب کہ ہم بری طرح مذہبی شدت پسندی کا شکار ہیں‘ پاکستان میں ربیع الاول اور محرم کے مہینوں میں ہائی الرٹ ہو جاتا ہے۔
یہ ہائی الرٹ اور مذہبی شدت پسندی بھی ہمارے امیج کو خراب کر رہی ہے‘تین‘ دنیا جہالت‘ بیماری اور گندگی کو بھی پسند نہیں کرتی‘ بچے اسکول نہ جائیں‘ ملک میں ٹی بی‘ پولیو‘ خسرہ اور ڈینگی بھی ہو اور لوگ ویکسین پلانے والے ورکرز کو گولی بھی مار دیتے ہیں اور آپ جس طرف دیکھیں ‘ آپ کو وہاں گندگی کے ڈھیر نظر آئیں‘ آپ خود سوچیں دنیا اس ملک کے بارے میں کیا سوچے گی؟ اور دنیا ہمارے بارے میں وہ سوچ رہی ہے جو اسے ان حالات میں سوچنا چاہیے! چار‘ دنیا آمریت اور آمریت پسندی کو بھی پسند نہیں کرتی‘ جدید دنیا آمریت سے ہزاروں کلومیٹر آگے نکل چکی ہے جب کہ ہمارے ملک میں آج بھی جمہوریت کی لو تھرتھرا رہی ہے‘ دنیا جب یہ تھرتھراتی لو دیکھتی ہے تو بھی اس کے ذہن میں ہمارا امیج نیگٹو ہو جاتا ہے اور پانچ،آپ دنیا کے 245 ممالک میں چلے جائیں۔
آپ کو دنیا کے کسی ملک میں بھکاریوں کی عزت ہوتی نظر نہیں آئے گی جب کہ ہماری پوری اکانومی بھیک‘ امداد اور قرضے پر چل رہی ہے‘ ہماری معیشت آج تک اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو سکی چنانچہ دنیا ہمارے بارے میں کیسے پازیٹو سوچے؟ ہم جب تک یہ تاثر زائل نہیں کریں گے‘ ہم جب تک یہ ایشوز ذہن میں رکھ کر کام نہیں کریں گے‘ پاکستان کے جھنڈے اور پاسپورٹ کی عزت اس وقت تک بحال نہیں ہو گی اور دوسری حقیقت تبسم اسد جیسی ایک خاتون نے فرانس میں پاکستان کا امیج بہتر بنانا شروع کر دیا‘ یہ بڑی حدتک کامیاب بھی ہو گئی‘ دنیا کے سیکڑوں ملکوں میں تبسم جیسے ہزاروں لاکھوں پاکستانی موجود ہیں۔
یہ بھی اگر تبسم کی اسپرٹ سے کام کریں ‘ یہ بھی اگر خود کو پاکستان کا سفیر سمجھ کر محنت کریں تو پاکستان کا امیج ٹھیک ہو سکتا ہے چنانچہ میری بیرون ملک پاکستانیوں سے درخواست ہے آپ وہاں ’’گو نواز گو‘‘ یا ’’گو بلاول گو‘‘ کے نعرے لگانے اور بلاول بھٹو زرداری پر بوتلیں پھینکنے کے بجائے ملک کا امیج بہتر بنانے کی کوشش کریں‘ آپ تبسم اسد کی طرح پاکستان کا پرسپشن تبدیل کریں‘ دنیا ہماری عزت شروع کر دے گی‘ ہم واپس اس جگہ آجائیں گے جہاں قومیں قوموں کو عزت دیتی ہیں۔
پھرپرسپشن
جاوید چوہدری منگل 28 اکتوبر 2014

وزیراعظم صاحب آئیے ہم ایک چھوٹی سی ریسرچ کرتے ہیں‘ ہم پاکستان واپس آنے والے ہر شخص سے ایک سوال پوچھتے ہیں ’’آپ نے باہر کیا دیکھا‘‘ہم اس ریسرچ میں کابینہ کے تمام وزراء‘ ملک کے تمام اعلیٰ بیوروکریٹس‘ ملک کے بریگیڈیئر لیول سے اوپر تمام حاضر سروس اور ریٹائر فوجی افسروں‘ ملک کے تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ اور سینئر صحافیوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں‘ ہم ان سے بھی درخواست کرتے ہیں آپ بھی اپنے ملنے والوں سے یہ سوال کریں۔
ہم اس ریسرچ میں پاکستان کے ان تمام سفیروں کو بھی شامل کر لیتے ہیں جنہوں نے دوسرے ممالک میں خدمات سرانجام دیں‘ ہم اس میں پاکستان میں خدمات سرانجام دینے والے سفارتی عملے کو بھی شامل کر لیتے ہیں اور ہم اس میں ان پاکستانی سیاحوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں جو دوسرے ملکوں کے سفر کرتے رہتے ہیں‘ ہم سب کے جواب جمع کرتے ہیں‘ جوابوں کی سمریاں بناتے ہیں اور پھر ہم ان تمام سمریوں کا مطالعہ کرتے ہیں‘ مجھے یقین ہے ہمیں ان سمریوں میں چار چیزیں مشترکہ ملیں گی‘وہ چار چیزیں کیا ہوںگی؟ ایک‘ہمیں لوگ بتائیں گے ہم جن ممالک میں گئے وہاں خوف نہیں تھا‘ لوگ سڑکوں‘ بازاروں‘ شاپنگ سینٹروں‘ پارکس‘ میدانوں‘ گلیوں‘ جھیلوں‘ جنگلوں اور پہاڑوں میں بلاخوف پھرتے ہیں‘ ملک کے کسی حصے میں کسی شخص کو لٹنے‘ زخمی ہونے‘ قتل ہونے‘ اغواء ہونے یا آبروریزی کا خطرہ نہیں‘ خواتین خواہ رات کے پچھلے پہر شہر میں نکل جائیں‘ کوئی شخص ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔
دو‘ بیرون ملک سے آنے والا ہر شخص وہاں کی ٹریفک کی تعریف کرے گا‘ وہ آپ کو بتائے گا وہاں گاڑیاں آدھی رات کے وقت سنسان سڑکوں پر بھی ٹریفک سگنل پر رکتی ہیں‘ گاڑیاں لین میں رہتی ہیں‘ کوئی شخص ہارن نہیں دیتا‘ اسپیڈ لمٹ کراس کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا‘ آپ اگر ڈرائیونگ کے دوران غلطی کر بیٹھے تو آپ کی جان نہیں چھوٹے گی اور آپ اگر صدر ہیں یا صدر کے چپڑاسی ہیں سڑک پر آپ برابر ہیں‘ٹریفک پولیس آپ سے کوئی رعایت نہیں برتے گی‘ آپ وہاں شراب پی کر گاڑی نہیں چلا سکیں گے اور وہاں آپ کو کوئی گاڑی آواز دیتی یا دھواں نکالتی نظر نہیں آئے گی‘ وغیرہ وغیرہ‘ تین‘ لوگ آپ کو بتائیں گے ہم نے وہاں صفائی دیکھی‘ ماحول صاف ستھرا تھا‘ کسی جگہ کوڑے کرکٹ کا ڈھیر نہیں تھا‘ سڑکیں‘ گلیاں او رپارکس صاف تھے‘ پبلک ٹوائلٹس کے فرش خشک اور ماحول بے بو تھا اور کوئی شخص کسی جگہ کچرا پھینکتا نظر نہیں آیا اور چار بیرون ملک سے آنے والا ہر شخص انصاف کی تعریف کرے گا۔
وہ آپ کو بتائے گا آپ نے اگر وہاں کوئی جرم کر دیا تو آپ کو ہر صورت سزا بھگتنا پڑے گی خواہ آپ صدر ہیں‘ بل گیٹس ہیں یا پھر آپ انجلینا جولی ہیں‘ وہاں عدالتیں سب کے ساتھ برابر سلوک کرتی ہیں‘ مجھے یقین ہے‘ ہماری ریسرچ میں یہ چار چیزیں کامن ہوں گی‘ یہ چار چیزیں کیوں کامن ہوں گی؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے! یہ وہ چار چیزیں ہیں جو قوموں کے بارے میں دوسری قوموں کے دماغ میں پرسپشن بناتی ہیں‘ قومیں سب سے پہلے ان چار چیزوں پر توجہ دیتی ہیں‘ آپ کے پاس اگر یہ چار چیزیں نہیں ہیں تو آپ خواہ کتنے ہی امیر کیوں نہ ہوں‘ آپ خواہ قدرتی وسائل سے کتنے ہی مالا مال کیوں نہ ہوں‘ آپ کے ملک میں خواہ روزگار‘ خوراک‘ صحت اور تعلیم کی کتنی ہی فراوانی کیوں نہ ہو‘ قومیں آپ کی عزت نہیں کریں گی اور آپ کے ملک میں خواہ کتنی ہی بیروزگاری‘ غربت‘ بے چینی‘ بیماری اور جہالت کیوں نہ ہو لیکن آپ کے پاس اگر یہ چار چیزیں موجود ہیں تو آپ ترقی یافتہ ہیں‘ قومیں آپ کے بارے میں اچھا پرسپشن رکھیں گی اور ہمارے ملک میں بدقسمتی سے یہ چاروں چیزیں نہیں ہیں‘ میں 65 ملکوں میں گیا ہوں‘ میں نے ان 65 ملکوں میں صرف ایک ملک کے ائیر پورٹ پر ٹینک دیکھا اور وہ ملک پاکستان ہے۔
آپ جب اسلام آباد ائیرپورٹ پر راول لاؤنج سے نکلتے ہیں تو آپ کو سامنے ٹینک کھڑا نظر آتا ہے‘ یہ ٹینک جب تک یہاں رہے گا ہمارا ملکی پرسپشن ٹھیک نہیں ہو سکے گا‘ ہم نے اسلام آباد میں میزائل چوک بنا رکھے ہیں‘ آپ کو دنیا کے کسی ملک میں میزائل چوک نظر نہیں آئیں گے‘ آپ ائیرپورٹ پر اتریں اور ایوان صدر چلے جائیں آپ کو راستے میں ہر جگہ رائفلیں‘ توپیں اور گارڈز نظر آئیں گے‘ آپ اسلام آباد شہر کی کسی گلی‘ سڑک‘ بازار‘ پارک یا شاپنگ سینٹر میں چلے جائیں‘ آپ کو ہر جگہ گارڈز‘ کلاشنکوفیں اور مورچے نظر آئیں گے‘ آپ کو ہر گھر کے سامنے سیکیورٹی گارڈز نظر آئیں گے‘ یہ سیکیورٹی‘ یہ گارڈز اور یہ مورچے جب تک ملک میں موجود ہیں ہمارا پرسپشن ٹھیک نہیں ہو سکتا چنانچہ ہم نے ان چاروں چیزوں کو ترجیح دینی ہے جو قوموں کا پرسپشن بناتی ہیں‘ آپ اسلام آباد سے اسٹارٹ کریں۔
اسلام آباد ایک چھوٹا‘ جدید اور پڑھا لکھا شہر ہے‘ آپ اس شہر کو جلد تبدیل کر لیں گے‘ آپ سب سے پہلے اسلام آباد کی پولیس تبدیل کر دیں‘ اسلام آباد میں نئی بھرتیاں کریں‘ 22سال تک کے نوجوان بھرتی کریں‘ تیس ہزار روپے سے تنخواہ اسٹارٹ کریں‘نئے جوانوں کو فوجی اکیڈمی سے ٹریننگ دلوائیں‘ یہ نوجوان سروس کے دوران مہینے میں چار دن دوبارہ اکیڈمی بھجوائے جائیں‘ اکیڈمی میں دوڑ لگوا کر ان کی فٹنس چیک کی جائے‘ تیس فیصد خواتین بھی بھرتی کی جائیں‘ یونیفارم فوراً تبدیل کر دی جائے‘ موجودہ یونیفارم مشکل بھی ہے اور مہنگی بھی۔
آپ یورپ کی طرح صرف پولیس جیکٹ بنوائیں‘ پولیس اہلکار جینز اور شرٹ پر صرف یہ جیکٹ پہن لیا کریں‘آپ نئی پولیس سروس کے بعد شہر میں 15 کو ایکٹو کر دیں‘ پولیس کال کے صرف تین منٹ بعد موقع واردات پر پہنچ جائے‘ آپ یقین کریں‘ شہر میں کسی شخص کو سیکیورٹی گارڈ رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ شہر کو کیمروں کا شہر بنا دیں‘ شہر میں کوئی شخص کیمروں کی آنکھ سے اوجھل نہ رہے‘ سرکاری عمارتوں کی سیکیورٹی کسی شخص کو نظر نہیں آنی چاہیے‘ رائفلیں‘ بندوقیں اور توپیں چھپا دی جائیں‘ آپ پینٹا گان جائیں‘ پینٹا گان میں اینٹی ائیر کرافٹ میزائل لگے ہیں لیکن آپ کو یہ میزائل نظر نہیں آتے‘ یہ چھت پر چھپائے گئے ہیں‘آپ بھی تمام توپیں‘ ٹینک اور مشین گنیں چھپانے کا حکم جاری کر دیں‘ گراؤنڈ پولیس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 35سال کر دی جائے۔
پولیس کا جوان 35 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جائے یا پھر اسے تھانوں کے اندر تفتیشی ڈیوٹی دے دی جائے یا پھر یہ لوگ پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں میں پرائیویٹ نوکری کر لیں‘ شہر میں کسی جگہ ان فٹ پولیس اہلکار نظر نہیں آنا چاہیے‘ شہر میں جرائم کے بارے میں ’’زیرو ٹالرینس‘‘ پالیسی اپنائی جائے‘ بیگ چھیننے سے لے کر قتل تک مجرم گرفتار ہوں اور چھ ماہ میں سزا پائیں اور اس معاملے میں کسی شخص سے رعایت نہ کی جائے‘ جرم کو ریاست کے خلاف جرم تصور کیا جائے‘ کسی فرد کے خلاف نہیں‘آپ یقین کریں لوگ بے خوف ہو جائیں گے۔
آپ اسلام آباد کے لیے نئی ٹریفک پولیس اور نئے ٹریفک رولز بنائیں‘ اسلام آباد میں گاڑیوں کی انشورنس اور مینٹیننس سرٹیفکیٹ لازمی قرار دے دیا جائے‘ اسلام آباد میں تمام گاڑیاں انشورڈ ہوں‘ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے کیے جائیں‘ اوور اسپیڈنگ اور سگنل توڑنے کا جرمانہ پانچ ہزار روپے سے اسٹارٹ ہو‘ ہارن بجانے پر پابندی لگا دیں‘ پیدل سڑک کراس کرنے والے کو ایک ماہ کے لیے جیل بھجوا دیں اور جیل کے اخراجات بھی اس سے وصول کیے جائیں‘ ٹریفک کے بہاؤ میں رخنہ ڈالنے والوں‘ سڑک بلاک کرنے اور سڑکوں پر دھرنا دینے والوں کے لیے لمبی سزائیں اور بھاری جرمانے طے کیے جائیں‘ روٹس پر پابندی لگا دی جائے اور ملک کے کسی وی آئی پی کے لیے ٹریفک نہ روکی جائے‘ہمارے ملک کا ٹریفک کے بارے میں پرسپشن بھی بدل جائے گا۔
آپ شہروں کی صفائی پر خصوصی توجہ دیں‘ آپ اسلام آباد سے اسٹارٹ لیں‘ سی ڈی اے کی میونسپل ڈویژن کو ایک ماہ دیں‘ یہ شہر کی صفائی کی ذمے داری اٹھائے‘ شہر میں کسی جگہ کوڑا کرکٹ دکھائی نہیں دینا چاہیے‘ آپ ویسٹ مینجمنٹ کے لیے کسی ملکی یا غیر ملکی کمپنی کی مدد بھی لے سکتے ہیں لیکن اسلام آباد صاف ستھرا دکھائی دینا چاہیے اور رہ گیا عدل و انصاف‘ ہم شاید پورے ملک کے مقدمے ختم نہ کر سکیں مگر ہم کم از کم اسلام آباد میں تو انصاف قطعی بنا سکتے ہیں‘ آپ اسلام آباد کے عدالتی عملے کے ساتھ میٹنگ کریں‘ ان کے جائز مطالبات سنیں‘ ان کو سہولتیں دیں۔
اسلام آباد کے لیے انصاف کا نیا پیکیج بنائیں اور ایک سال میں وفاقی دارالحکومت کے تمام مقدمات نبٹا دیں‘ اس کے بعد قانون بنا دیں اسلام آباد میں کوئی مقدمہ چھ ماہ سے زیادہ نہیں چلے گا‘ فوجداری مقدمات کو نقطہ انجام تک پہنچانے کی ذمے داری پولیس پر ہو گی اور سول مقدمات وکلاء اور جج مل کر چھ ماہ میں نبٹائیں گے‘ وکلاء تاریخیں نہیں لیں گے اور جج انھیں تاریخیں نہیں دیں گے‘ آپ اسلام آباد سے اسٹارٹ لیں‘ کامیابی کے بعد صوبائی دارالحکومتوں کا رخ کریں اور اس کے بعد اپنی ان اصلاحات کو آہستہ آہستہ پورے ملک میں پھیلا دیں‘ ہمارے ملک کا پرسپشن تبدیل ہونے لگے گا۔
یہ وہ کام ہیں جن کے لیے آپ کو زیادہ سرمائے کی ضرورت نہیں‘ آپ نے صرف توجہ دینی ہے‘ آپ نے صرف اہل ٹیم کا بندوبست کرنا ہے‘ روز فیڈ بیک لینا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اپنے اہداف کی طرف بڑھنا ہے‘ پاکستانیوں کو نئے پاکستان کی اشد ضرورت ہے‘ آپ فیصلہ کر لیں یہ ضرورت آپ پوری کریں گے یا پھر آپ کے بعد آنے والے حکمران کیونکہ یہ بہر حال ہو کر رہنا ہے کیونکہ یہ ملک اب رہے گا یا نہیں رہے گا یہ بہر حال اب ’’ایسا نہیں رہے گا‘‘۔
زندگی کا کھویا ہوا سرا
جاوید چوہدری اتوار 26 اکتوبر 2014

ڈاکٹر ہرمن بورہیو کے انتقال کے بعد ان کا سامان کھولا گیا‘ سامان میں تین سوٹ‘ لکھنے کے چار قلم‘ کاغذوں کے درجنوں دستے‘ ایک چھتری‘ ایک بیڈ‘ ایک رائٹنگ ٹیبل‘ ایک آرام کرسی‘ کھانے کے چند برتن اور ایک کتاب تھی‘ کتاب مخملی غلاف میں لپٹی تھی‘ غلاف کھولا گیا ‘ کاغذ کا لفافہ برآمد ہوا‘ لفافے پر سیل لگی تھی اور سیل کے ساتھ ڈاکٹر ہرمن بورہیو کے ہاتھ سے لکھی تحریر تھی ’’ یہ کتاب میری پوری زندگی کی طبی تحقیق کا نچوڑ ہے۔
اس کتاب میں وہ نسخہ موجود ہے جس پر عمل کرنے والے کو زندگی بھر ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا پڑے گا‘ میری یہ کتاب نیلام کر دی جائے اور نیلامی سے حاصل ہونے والے رقم لیڈن یونیورسٹی کے طبی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو دے دی جائے‘‘ یہ کتاب‘ کتاب نہیں تہلکہ تھی اور اس تہلکے نے پورے یورپ کو پریشان کر دیا‘ ہالینڈ‘ جرمنی‘ فرانس‘ اٹلی‘ برطانیہ اور آسٹریا کے شاہی خاندانوں اوریورپ بھر کے امراء اور رؤساء میں کتاب خریدنے کے لیے دوڑ لگ گئی۔
لیڈن شہر میں نیلامی کا بندوبست کیا گیا‘ یورپ بھر کے امراء‘ رؤساء اور شاہی خاندانوں کے نمائندے نیلامی میں پہنچ گئے‘ یہ یورپ کی تاریخی نیلامی تھی مگر ہم نیلامی کی طرف جانے سے قبل ڈاکٹر ہرمن بورہیو کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں‘ یہ کون تھا اور اس کی کتاب نیلامی میں کیوں رکھی گئی اور لوگ اس کتاب کو اتنا سیریس کیوں لے رہے تھے؟۔
ڈاکٹر ہرمن بور ہیو ہالینڈ کا رہنے والا تھا‘وہ 1668ء میں لیڈن شہر میں پیدا ہوا‘ وہ مبلغ بننا چاہتا تھا‘ اس نے 1689ء میں لیڈن یونیورسٹی سے فلسفے کی ڈگری حاصل کی‘ وہ تبلیغ پر روانہ ہونے لگا تو معلوم ہوا عیسائی مشنری مشن پر جانے سے قبل طب کی تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ یہ دوسرے شہروں اور ملکوں میں جا کر چرچ بناتے ہیں اور اس چرچ کے ساتھ اسکول اور اسپتال کھولتے ہیں‘ مشنری علاج کے لیے آنے والے مریضوں اور اسکول میں داخل ہونے والے بچوں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں‘ یہ خصوصی توجہ عیسائیت کی تبلیغ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے‘ ڈاکٹر ہرمن بورہیو کی معلومات درست تھیں۔
آپ آج پاکستان کے قدیم چرچز کا مشاہدہ کریں آپ کو ان کے ساتھ اسپتال بھی ملیں گے اور کانونٹ اسکول بھی۔ یہ کانونٹ اسکول‘ یہ اسپتال اور یہ چرچ انگریز دور میں عیسائی مشنریوں نے قائم کیے ‘ اسلام میں مدارس اور مطب کا تصور انھیں مشنری اداروں سے آیا‘ شام ظہور اسلام کے وقت عرب ملکوں میں عیسائی تہذیب کا مرکز تھا‘ مسلمانوں نے یہ ملک 634ء میں حضرت عمرؓ کے دور میں فتح کیا‘ شام میں مسلمانوں نے کلیساؤں کے نظام کا مطالعہ کیا ‘ مسلمانوں کو معلوم ہوا کلیساؤں کے پادری اور ننیں طبیب اور استاد ہوتی ہیں‘ یہ لوگ چرچ میں مریضوں کا علاج بھی کرتے ہیں اور قرب و جوار کے بچوں کو جدید تعلیم بھی دیتے ہیں‘ مسلمانوں کو یہ طریقہ اچھا لگا چنانچہ اسلامی سلطنت کی مساجد میں بھی تعلیم اور علاج کا سلسلہ شروع کر دیا گیا‘ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
ہمارے مولوی صاحبان آج بھی استاد اور حکیم ہوتے ہیں‘میں واپس ڈاکٹر ہرمن بورہیو کی طرف آتا ہوں‘ ڈاکٹر نے اچھا مبلغ بننے سے قبل اچھا طبیب بننے کا فیصلہ کیا‘ اس نے ہارڈر وک یونیورسٹی کے شعبہ طب میں داخلہ لے لیا‘ اس نے طب پڑھنی شروع کی تو زندگی کے بارے میں اس کا سارا فلسفہ تبدیل ہو گیا‘ اسے معلوم ہوا خدمت تبلیغ سے کہیں بڑی عبادت ہے اور علاج انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے‘ ڈاکٹر ہرمن بورہیو نے مبلغ کی بجائے طبیب بننے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے 1693ء میں طب کی ڈگری لی‘ وہ 1701ء میں لیڈن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف میڈیسن میں لیکچرر بھرتی ہوا‘ 1709ء میں نباتات اور ادویات کا پروفیسر بنا اور 1714ء میں یونیورسٹی کا ریکٹر بن گیا‘ وہ اپنے دور کا مشہور ترین طبیب بھی تھا‘ بادشاہ اس سے علاج بھی کراتے تھے اور طبی مشورے بھی کرتے تھے۔
وہ اپنے دور کا مشہور ترین فطرت شناس‘ فزیشن اور ماہر نباتات تھا‘ وہ دنیا میں جدید طب کا بانی اور فادر آف فزیالوجی بھی تھا‘ وہ 23 ستمبر 1738ء میں فوت ہوا تو اس کے سامان سے وہ مشہور زمانہ کتاب برآمد ہوئی جس میں اس کی عمر بھر کی طبی تحقیق کا نچوڑ تھا اور یورپ کے تمام امراء‘ رؤساء اور شاہی خاندان وہ تحقیق حاصل کرنا چاہتے تھے‘ کتاب کا نام تھا ’’ طبی تاریخ کا واحد اور قیمتی راز‘‘ کتاب سربمہر تھی۔
نیلامی کا دن آ گیا‘ نیلامی شروع ہوئی تو کتاب یورپ کے ایک بیمار رئیس نے وہ کتاب دس ہزار ڈالر میں خرید لی‘ یہ کتنی بڑی رقم تھی آپ یہ جاننے کے لیے کیلنڈر کو تین سو سال پیچھے لے جائیں‘ آپ کو1738ء کے دس ہزار ڈالر آج کے دس کروڑ ڈالر لگیں گے‘ یہ اس دور کی مہنگی ترین نیلامی تھی‘ رئیس نے کتاب خرید لی‘ وہ کتاب لے کر اپنے محل میں گیا‘ لفافے کی مہرتوڑی‘ کتاب نکالی‘ کتاب کھولی‘ کتاب کا پہلا صفحہ خالی تھا‘ دوسرا صفحہ کھولا گیا‘ وہ بھی خالی تھا‘ تیسرا صفحہ کھولا گیا وہ بھی خالی تھا‘ رئیس پریشان ہو گیا اور وہ تیزی سے صفحے کھولتا گیا اور پریشان ہوتا گیا کیونکہ کتاب کے سارے صفحے خالی تھے‘ یہاں تک کہ رئیس آخری صفحے تک پہنچ گیا‘ طبی تاریخ کا واحد اور قیمتی راز کتاب کے آخری صفحے پر لکھا تھا۔
وہ راز ایک چھوٹا سا فقرہ تھا‘ ڈاکٹر ہرمن بورہیو نے لکھا تھا ’’ تم اپنے سر کو ٹھنڈا اور پیروں کو گرم رکھو‘ تمہیں پوری زندگی کسی طبیب کی ضرورت نہیں پڑے گی‘‘ خریدارنے راز پڑھ کر قہقہہ لگایا‘ کتاب سائیڈ پر رکھی اور آہستہ آواز میں بولا ’’ ڈاکٹر تم واقعی گریٹ انسان تھے‘‘۔ ڈاکٹر ہرمن بورہیو نے اس چھوٹے لیکن کارآمد راز تک پہنچنے کے لیے پوری زندگی خرچ کر دی اور یہ فقرہ آج سے 3سو سال قبل مہنگا ترین فقرہ تھا‘ ہم اگر اس فقرے کو پڑھیں تو یہ ہمیں عامیانہ دکھائی دیگا اور ہم سوچیں گے ڈاکٹر ہرمن بورہیو یورپ کے امیروں کو بیوقوف بنا گیا‘ یہ کیا بات ہوئی آپ سو صفحے کی کتاب جلد کرائیں‘ آپ ننانوے صفحے خالی چھوڑ دیں‘ آخری صفحے پر 20 حرفوں کا ایک چھوٹا سا فقرہ لکھیں‘ کتاب پر سیل لگائیں‘ یہ کتاب بعد ازاں نیلام ہو‘ دس ہزار ڈالر کما لیے جائیں اور ایک بیمار رئیس اپنی دولت کا تین چوتھائی حصہ دے کر صرف اتنا سیکھے ’’ دماغ کو ٹھنڈا اور پیروں کو گرم رکھو‘‘ یہ مذاق یا دھوکہ نہیں تو کیا ہے؟ لیکن آپ اگر گرم پیروں اور ٹھنڈے دماغ سے اس فقرے پر غور کریں تو آپ ڈاکٹر کی تحقیق سے بھی متفق ہو جائینگے اور آپ کو اس فقرے میں افراد‘ خاندانوں‘ معاشروں‘ ملکوں اور قوموں کے عروج و زوال کی پوری تاریخ بھی مل جائے گی ۔
آپ یقین کیجیے‘ آپ کسی شخص کا سر اور پاؤں دیکھ کر اس کے مستقبل کی پیش گوئی کر سکتے ہیں‘ ہماری زندگیوں کا 90فیصد دارومدار ہمارے فیصلوں پر ہوتا ہے‘ آپ تعلیم سے لے کر پیشے تک اور دوستوں سے لے کر شریک حیات تک اور رشتے داروں سے برتاؤ سے لے کر معاشرتی رویوں تک پوری زندگی فیصلے کرتے ہیں اور یہ فیصلے آپ کی جسمانی‘ ذہنی‘ روحانی اور معاشرتی صحت سے لے کر آپ کے لائف اسٹائل تک کا فیصلہ کرتے ہیں اور آپ اس وقت تک اچھے فیصلے نہیں کر سکتے جب تک آپ کا سر ٹھنڈا نہیں ہو گا‘ اسی طرح آپ اگر اسپورٹس نہیں کرتے‘ واک نہیں کرتے اور جاگنگ نہیں کرتے تو آپ کے پاؤں ٹھنڈے رہیں گے اور یہ ٹھنڈے پاؤں بہت جلد آپ کو بستر مرگ تک پہنچا دینگے۔
آپ کی باقی زندگی دواء‘ ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے اردگرد گزرے گی چنانچہ آپ اگر اچھی‘ معیاری اور کلر فل زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ صرف دو کام کریں‘ آپ دماغ کو ٹھنڈا رکھیں خواہ آپ کو اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے اور آپ اپنے پیروں کو گرم رکھیں‘ آپ روز واک کریں‘ جاگنگ‘ سائیکلنگ‘ تیراکی یا ایکسرسائز کریں‘ خواہ آپ کو اس کے لیے دہکتے انگاروں پر ہی کیوں نہ چلنا پڑے‘ واک سے آپ کا دوران خون ٹھیک رہے گا‘ لہو سر سے پاؤں کی طرف آئے گا‘ آپ کی صحت اچھی رہے گی۔
آپ اگر اس فلسفے کو افراد سے معاشروں تک لے جائیں تو آپ بڑے دلچسپ حقائق دیکھیں گے‘ آپ کو دنیا کی ہر وہ قوم ترقی یافتہ ملے گی جس میں لوگوں کے دماغ ٹھنڈے اور پاؤں گرم ہیں‘جس میں لوگ معاملات کو جذباتیت کے بجائے دلائل پر دیکھتے ہیں‘جس میں لوگ گفتگو کے دوران ٹھنڈے رہتے ہیں‘ جس میں لوگ دوسروں سے چلا کر مخاطب نہیں ہوتے‘ جس میں لوگ جلسوں اور جلوسوں کے دوران بھی ڈسپلن برقرار رکھتے ہیں‘ وہ توڑ پھوڑ نہیں کرتے‘ دوسروں کو گالی نہیں دیتے‘ دوسروں پر بلاتحقیق الزام نہیں لگاتے‘ دوسروں پر حملے نہیں کرتے اور جس میں لوگ کام کو صرف کام کے طور پر لیتے ہیں‘ اسے ذاتیات نہیں بناتے اور جن معاشروں میں پارکس‘ واکنگ ٹریکس‘ جم‘ میدان اور کلب ہوتے ہیں اور آپ کو وہاں صبح اور شام لوگ دکھائی دیتے ہیں۔
آپ کو یقین نہ آئے تو آپ امریکا سے لے کر چین تک دنیا کا مشاہدہ کر لیں آپ کو پوری جدید دنیا میں یہ دونوں خوبیاں نظر آئیں گی اور آپ اس کے بعد غیرترقی یافتہ یا پسماندہ قوموں کا مطالعہ بھی کر لیں‘ آپ کو دنیا کی تمام پسماندہ قومیں جذباتی‘ غیر منطقی‘ دلائل سے دور‘ لڑاکا‘ فسادی‘ شکی‘ بھڑکیلی اور شدت پسند ملیں گی‘ یہ صحن میں گیند گرنے‘ فصل سے جانور گزرنے‘ گھورنے‘ کھنگورا مارنے‘ تھوکنے‘ دوسری دکان سے سودا خریدنے‘ رشتہ نہ دینے‘ امتحان میں کم نمبر آنے اور میں جنتی ہوں اور تم دوزخی‘ میں مومن ہوں اور تم کافر جیسے ایشوز پر دس دس لوگوں کو قتل کر دیں گے‘ یہ انقلاب پہلے لانا چاہیں گے اور لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا طریقہ بعد میں ڈھونڈیں گے اور آپ کو پسماندہ قوموں کے پارکس میں بھینسیں اور گائے بھی چرتی نظر آئیں گی۔
آپ کو وہاں قبضہ گروپ بھی دکھائی دیں گے اور آپ کو ان کے اسٹیڈیمز میں کھیلوں کی بجائے جلسے ہوتے بھی نظر آئیں گے اور آپ کو وہاں لوگ چلتے ہوئے کم اور بیٹھے ہوئے زیادہ نظر آئیں گے‘ آپ آج دنیا کو ٹھنڈے سروں اور گرم پیروں کے فلسفے سے دیکھ لیں‘ آپ کو انسان کی تاریخ بھی سمجھ آ جائے گی‘ انسان کا حال بھی اور اس کا مستقبل بھی اور آپ اپنے ذاتی اور معاشرتی زوال کی وجہ بھی جان جائیں گے‘ ہمارے سر گرم اور پاؤں ٹھنڈے رہتے ہیں شاید اسی لیے ہم دنیا سے پیچھے رہتے ہیں‘ آپ ایک بار غور کیجیے‘ آپ ایک بار زندگی کو اس زاویئے سے بھی دیکھ لیں‘ شاید زندگی کا کھویا ہوا سرا آپ کے ہاتھ میں آ جائے‘ شاید آپ لائف کے ٹریک پر واپس آ جائیں۔

ریالٹی
جاوید چوہدری جمعرات 23 اکتوبر 2014

ہم اب دھرنوں کی حقیقت دیکھتے ہیں‘ میں اپنے آپ سے آغاز کرتا ہوں‘ ریالٹی کیا ہے؟ مجھ سے 10 مئی 2013ء کو ’’ایکسپریس نیوز‘‘ کی الیکشن ٹرانسمیشن میں ایک گستاخی ہو گئی‘ میں نے کہہ دیا ’’ لاہور میاں برادران کا تھا لیکن یہ شہر اب صرف میاں برادران کا نہیں رہا‘ عمران خان بھی اب اس شہر کے حصہ دار ہیں‘‘ میری یہ گستاخی ن لیگ کی قیادت کو پسند نہیں آئی‘ میں نے 11 مئی کے الیکشن کے بعد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف دونوں کو مبارکباد کا ایس ایم ایس کیا لیکن یہ دونوں میرے ساتھ اس قدر ناراض تھے کہ انھوں نے میری مبارک باد تک قبول نہ کی‘ مجھے جواب تک دینا مناسب نہ سمجھا‘ الیکشن کے بعد میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف دونوں کے ساتھ ایک ایک ادھوری ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات بھی خوش گوار نہیں تھی۔
میں 2013ء کے سیلاب کے دوران کوریج کے لیے جنوبی پنجاب میں گیا‘ وہاں وزیراعلیٰ پنجاب کا چھوٹا سا انٹرویو کیا‘ یہ انٹرویو رہے سہے تعلقات بھی کھا گیا‘ میری اس کے بعد وزیراعلیٰ سے اگست 2014ء کے دوسرے ہفتے ملاقات ہوئی‘ رہ گئے میاں صاحب تو میں نے میاں نواز شریف سے 24 مارچ کو ’’دی ہیگ‘‘ میں زبردستی ملاقات کی‘ ہم پانچ صحافی اپنے اداروں کے خرچ پر جوہری تحفظ کی تیسری عالمی کانفرنس میں گئے تھے‘ وزیراعظم کا اسٹاف ہماری ان سے ملاقات کے لیے تیار نہیں تھا‘ میں وزیراعظم کی سیکیورٹی کا حصار توڑ کر ان تک پہنچ گیا‘ ان سے زبردستی ہاتھ ملایا اور ہم وزیراعظم کو لے کر میز پر بیٹھ گئے‘ میں نے وزیراعظم سے عرض کیا ’’ میاں صاحب آپ لیڈر ہیں‘ آپ کا دل بڑا ہونا چاہیے‘ آپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض نہ ہوا کریں‘‘ وزیراعظم نے جواب دیا ’’ ہم مل کر بات کریں گے‘‘ ملاقات کے لیے شام کا وقت طے ہوا۔
میں شام کے وقت ہوٹل میں وزیراعظم کے سویٹ تک پہنچ گیا‘ اندر پیغام بھجوایا گیا لیکن وزیراعظم نے وقت دینے کے باوجود ملاقات سے انکار کر دیا‘ میں دس منٹ کوریڈور میں کھڑا رہا‘ ملٹری سیکریٹری نے باہر تک آنا گوارہ نہ کیا‘ انھوں نے فون پر ہی معذرت کر لی‘ میں نے ایک سرکاری افسر کو فون کیا‘ انھوں نے جواب دیا’’ وزیراعظم تھک گئے ہیں‘ یہ آپ سے اسلام آباد میں ملیں گے‘‘ مجھے اس وقت ذلت کا شدید احساس ہوا‘ میں ہوٹل سے واپس آ گیا اور میں نے وزیراعظم سے ملاقات کا باب بند کر دیا‘ آپ 11 مئی 2013ء سے 14 اگست 2014ء تک میرے کالم اور ٹی وی پروگرام نکال کر دیکھ لیں‘ میں آپ کو ہر جگہ حکومت کا خوفناک ناقد نظر آؤں گا‘ حکومت نازک مزاج تھی (آج بھی ہے)‘میری تنقید اچھی نہیں لگتی تھی چنانچہ انھوں نے میرا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کر دیا‘ چوہدری نثار علی خان نے وزیرداخلہ بننے کے بعد مجھے کوئی انٹرویو نہیں دیا‘ احسن اقبال 18 ماہ میں دو بار تشریف لائے‘ خواجہ سعد رفیق ایک بار‘ خواجہ آصف دو بار‘ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کبھی نہیں‘ ایاز صادق کبھی نہیں‘ مشاہد اللہ ایک بار اور پرویز رشید دو بار۔
یہ کیوں نہیں آتے تھے؟ اور انھوں نے میرا کیوں بائیکاٹ کر رکھا تھا؟ اس کی وجہ عمران خان تھے‘ یہ مجھے عمران خان کا سپورٹر سمجھتے تھے‘ عمران خان نے الیکشن سے قبل مال روڈ پر کنٹینر مارچ کیا تھا‘ میں واحد اینکر تھا جو اس کنٹینر پر عمران خان کے ساتھ کھڑا تھا اور میں نے الیکشن سے قبل کنٹینر سے ان کا انٹرویو کیا تھااور میں نے انھیں 2013ء کے الیکشن کا فاتح قرار دیا تھا‘ میں مئی 2013ء سے لے کر28جولائی2014ء تک ان کے انٹرویوز کرتا رہا‘ میں لائیو پروگراموں میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی بدتمیزی بھی برداشت کر جاتا تھا‘ جاوید ہاشمی نے میرے شو میں بیٹھ کر پروگرام کو بے ہودہ ترین شو کہا تھا‘ اسد عمر بھی ایک پروگرام میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کر چکے تھے لیکن میں قہقہہ لگا کر خاموش ہو گیا‘ میرا دعویٰ ہے آپ ان تمام صحافیوں کی ڈیڑھ سال کی کارکردگی بھی نکال لیجیے جنھیں آج حکومت کا چمچہ قرار دیا جا رہا ہے‘ یہ تمام لوگ بھی ڈیڑھ سال تک حکومت کے خوفناک ناقد تھے‘ یہ آج بھی ہیں اور یہ مستقبل میں بھی رہیں گے اور حکومت ان سے بھی خوش نہیں تھی‘ وزراء سلیم صافی کو بلے باز اور طلعت حسین کو طنزاً قائداعظم کہتے تھے‘ میاں صاحب طلعت حسین سے مجھ سے بھی زیادہ ناراض تھے‘ ریالٹی یہ ہے! حقیقتیں یہ ہیں!۔
ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں’’ ہم دھرنے کے خلاف کیوں تھے؟‘‘ ہم اپنے صحافتی تجربے کی بنا پر جانتے تھے عمران خان اور علامہ طاہر القادری ناکام ہو جائیں گے‘ یہ میاں نواز شریف سے استعفیٰ نہیں لے سکیں گے‘ اسمبلیاں نہیں ٹوٹیں گی اور انقلاب نہیں آئے گا‘ ہماری اس آبزرویشن کی چند موٹی موٹی وجوہات تھیں مثلاً عمران خان اور قادری صاحب غیر آئینی راستہ اختیار کر رہے ہیں‘ ہم جانتے تھے یہ راستہ پارلیمنٹ کے لیے قابل قبول ہو گا‘ سپریم کورٹ کے لیے‘ میڈیا کے لیے اور نہ ہی عوام کے لیے‘ ہمیں یقین تھا عوام عمران خان اور علامہ صاحب کے ساتھ نہیں نکلیں گے‘ 20 کروڑ لوگوں کے ملک میں دو لاکھ لوگ بھی لانگ مارچ میں شریک نہیں ہوں گے‘ ہم جانتے تھے اسٹیبلشمنٹ بھی لانگ مارچ کے ایشو پر تقسیم ہے‘ پورا ادارہ ان کی حمایت نہیں کر رہا اور جو لوگ حامی ہیں وہ بھی حکومت کو فارغ نہیں کرنا چاہتے۔
وہ میاں صاحب کو صرف رگڑا لگانا چاہتے ہیں اور اس رگڑا لگوائی کے کھیل میں عمران خان اور علامہ صاحب سیاسی لحاظ سے زخمی ہو جائیں گے‘ ہم یہ بھی جانتے تھے عمران خان اور علامہ صاحب صرف لانگ مارچ تک محدود نہیں رہیں گے‘ یہ دھرنا بھی دیں گے‘ ریڈزون میں بھی داخل ہوں گے اور یہ پارلیمنٹ ہاؤس‘ ایوان صدر‘ پرائم منسٹر ہاؤس اور پی ٹی وی پر قابض ہونے کی کوشش بھی کریں گے اور یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہو گی اور یہ غلطی انھیں اور ان کے سپورٹرز کو شرمندہ کروا دے گی‘ میں شروع دن سے اس خدشے کا اظہار کرتا آیا ہوں اور وقت کے ساتھ ساتھ میرے تمام خدشات درست ثابت ہوئے‘ ہم یہ بھی جانتے تھے فوج آگے نہیں آئے گی‘ کیوں؟ کیونکہ بدنامی کے وہ داغ ابھی تک پوری طرح نہیں دھلے جو جنرل پرویز مشرف کے اقتدار نے فوج کے دامن پر لگائے تھے‘ فوج تین مختلف محاذوں پر بھی سرگرم تھی اور فوج کو سرے دست بین الاقوامی سپورٹ بھی نہیں مل سکتی چنانچہ ہم جانتے تھے فوج ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھے گی‘ہم یہ بھی جانتے تھے عمران خان اور علامہ طاہر القادری دونوں کی کشتیوں کے ساتھ دو دو بھاری پتھربندھے ہیں‘ عمران خان ڈیڑھ سال میں خیبرپختونخواہ میں کوئی کمال نہیں کر سکے۔
یہ وہ بھاری پتھر ہے جو ان کی کشتی کو آگے نہیں بڑھنے دے گا اور علامہ صاحب 2012ء میں اسلام آباد سے ناکام واپس جا چکے ہیں‘ وہ ناکامی ان کا بھاری پتھر تھا‘ یہ دونوں پتھر سوال بن کر بار بار ان کے سامنے کھڑے ہوں گے اور یہ ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکیں گے تاہم یہ بات درست تھی وفاقی حکومت نے پندرہ ماہ میں غیر مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے تھے‘ بیڈ پرفارمنس‘ بیڈ گورننس‘ سستی‘ وژن کی کمی اور وقت کا ضیاع حکومت پر بے شمار الزامات لگائے جا سکتے ہیں لیکن ہم جانتے تھے ان الزامات کے باوجود انقلاب ابھی قبل از وقت تھا‘ حکومت جس طرح غلطیاں کر رہی تھی‘ یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہتا تو حکومت 2015ء تک غیر مقبولیت کی انتہا کو چھو لیتی‘ یہ اپنی غلطیوں کے بوجھ تلے دفن ہو جاتی اور عمران خان اور علامہ صاحب کو کوئی تحریک نہ چلانی پڑتی‘ عمران خان نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا‘ یہ 2014ء میں باہر آ گئے‘ہم جانتے تھے عمران خان نے غلط موسم کا انتخاب بھی کیا‘ ایسی تحریکوں کے لیے بہار کا موسم آئیڈیل ہوتا ہے۔
ہم یہ بھی جانتے تھے یہ دھرنا سیاسی لحاظ سے بھی غلط تھا‘ حکومت غیر مقبولیت کے باوجود لوڈ شیڈنگ میں کمی اور دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی تھی‘فوج نے بھی آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا تھا اور آئی ڈی پیز بھی سڑکوں پر تھے چنانچہ دھرنا سیاسی لحاظ سے بھی غلط تھا لہٰذا نتائج وہی نکلے جن کی ہم جیسے نالائقوں کو توقع تھی‘ آپ آج دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں‘ میری کون سی بات غلط ثابت ہوئی‘ کیا میاں نواز شریف نے استعفیٰ دے دیا‘ کیا اسمبلیاں ٹوٹ گئیں‘ کیا ملک میں انقلاب آ گیا‘ کیا پوری قوم سڑکوں پر نکل آئی اور کیا کاخ امراء کے درو دیوارہل گئے‘ نہیں بالکل نہیں‘ ریالٹی تو یہ ہے عمران خان استعفیٰ لینے آئے تھے لیکن استعفے دے کر جا رہے ہیں‘ یہ میاں صاحب کی بادشاہت ختم کرنے آئے تھے لیکن انھوں نے میاں صاحب اور زرداری صاحب دونوں بادشاہوں کو اکٹھا کر دیا‘ حقیقت تو یہ ہے انقلاب سے قبل ملک میں اپوزیشن بھی تھی اور اپوزیشن لیڈر بھی لیکن انقلاب کی برکت سے اپوزیشن کا وجود ختم ہو گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان اور محافظ بن گئی‘ میڈیا کے وہ لوگ جو نظام کی گندگی کا ڈھنڈورا پیٹتے تھے جو حکمرانوں کی غلطیاں آشکار کرتے تھے وہ ملک کو بڑی برائی سے بچانے کے لیے چھوٹی برائی کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور ہو گئے اور میڈیا کو اب واپس آنے میں بڑی محنت کرنا پڑے گی۔ حقیقت تو یہ ہے علامہ طاہر القادری کا دھرنا ختم ہو چکا ہے اور عمران خان کو بالآخر یہ دھرنا ختم کرنا پڑے گا‘ ریالٹی تو یہ ہے ہمارے دونوں انقلابی گو نواز گو اور جلسوں کو اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں لیکن یہ دونوں کام تو ان دھرنوں کے بغیر بھی ہو سکتے تھے۔
ریالٹی تو یہ ہے عمران خان نے جاوید ہاشمی جیسا شخص کھو دیا اور عامر ڈوگر پا لیا‘ ریالٹی تو یہ بھی ہے عمران خان اور علامہ صاحب کے کنٹینر پر روز وہ چہرے نظر آتے ہیں جن کی وجہ سے خان صاحب کو نیا پاکستان بنانا پڑ رہا ہے اور ریالٹی تو یہ بھی ہے اگر فیصلہ سازوں کے دل میں عمران خان کے لیے کوئی سافٹ کارنر تھا تو وہ ختم ہو چکا ہے مگر ہمارے لوگ یہ حقیقتیں ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ اس ملک میں پرسپشن ہمیشہ ریالٹی سے بڑے ہوتے ہیں اور ہم زیادہ تر پرسپشن افواہوں‘ شک‘ جماعتوں‘ نسلوں اور زبانوں کی بنیاد پر بناتے ہیں‘ ان کا حقیقتوں سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
پرسپشن (1)
جاوید چوہدری جمعرات 23 اکتوبر 2014

ونی‘ سوارہ اور سنگ چٹی یہ تینوں رسمیں ایک ہیں اور یہ تینوں پاکستانی معاشرے کا بدصورت چہرہ ہیں‘ یہ رسمیں پاکستان کے چاروں صوبوں میں پچھلے چار سو سال سے جاری ہیں مگر خیبرپختونخوا‘ پنجاب کے سرائیکی علاقے‘ بلوچستان اور اندرون سندھ کے علاقے ان سب سے زیادہ متاثر ہیں‘ ان علاقوں کی سیکڑوں بچیاں ہر سال ان رسموں کا شکار ہوتی ہیں‘ پنچایت ان رسموں میں خاندانی دشمنیاں ختم کرنے کے لیے نابالغ بچیوں کو زر ضمانت بنا دیتی ہے۔
آپ فرض کیجیے‘ دو خاندانوں کے درمیان دشمنی ہے‘ قتل ہو رہے ہیں‘ پولیس اور عدالتیں دشمنی ختم کرانے میں ناکام ہو گئیں‘ معاملہ پنچایت میں آیا‘ پنچایت فیصلہ کرتی ہے‘ یہ دشمنی اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک دونوں خاندانوں کے درمیان رشتہ داری نہیں ہوتی چنانچہ پنچایت کے حکم سے قاتل خاندان کی بچیوں کے مقتول خاندان کے مردوں سے نکاح کرا دیے جاتے ہیں۔
یہ نکاح’’ ایک قتل‘ ایک نکاح‘‘ کی بنیاد پر کرائے جاتے ہیں‘ یہ معاملہ اگر یہاں تک رہتا تو شاید قابل برداشت ہوتا لیکن پنچایت عموماً فیصلہ کرتے وقت ایک طرف سے چھوٹی نابالغ بچیوں اور دوسری طرف سے بوڑھے مردوں کا انتخاب کرتی ہے‘ چھ‘ سات سال کی بچی کا نکاح ساٹھ پینسٹھ سال کے مرد سے کرا دیا جاتا ہے‘ ہم اس نکاح کو جس زاویے سے بھی دیکھیں‘ یہ ہمیں ظلم‘ زیادتی اور ناانصافی لگے گا‘ یہ برا محسوس ہونا ’’پرسپشن‘‘ ہے اور دنیا کا جو بھی شخص اس رسم کو فاصلے سے دیکھے وہ اسی پرسپشن کا شکار ہو جائے گا جب کہ ’’ونی‘‘ کی حقیقت اس پرسپشن سے بالکل مختلف ہے اور ہم میں سے کسی نے آج تک یہ حقیقت جاننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
آپ اب حقیقت ملاحظہ کیجیے‘ آپ فرض کیجیے خاندان اے کا کوئی فرد طیش میں آ کر خاندان بی کے دو افراد کو قتل کر دیتا ہے‘ ملک میں قانون اور انصاف نام کی کوئی چیز موجود نہیں‘ پولیس تفتیش مکمل نہیں کرتی‘ ملزم ضمانتوں پر رہا ہو جاتے ہیں یا عدالت سے چھوٹ جاتے ہیں یا پھر اصل مجرم مقدمے سے نکل جاتا ہے اور فرضی ملزموں کو چند سال قید ہو جاتی ہے‘ خاندان بی کے لوگ کورٹ کچہریوں کے چکراور وکیلوں کی بھاری فیسیں ادا کر کے تھک جاتے ہیں۔
یہ اسلحہ خریدتے ہیں اور خاندان اے کے دو تین مردوں کو قتل کر دیتے ہیں‘ پولیس اور عدالت کا ایک اور چکر شروع ہوتا ہے لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلتا‘ اب باری خاندان اے کی ہے‘ یہ بھی خاندان بی کے دو تین مردوں کو قتل کر دیتے ہیں یوں طیش کا ایک واقعہ خاندانی دشمنی میں تبدیل ہو جاتا ہے‘ دونوں خاندانوں کی زمینیں‘ جائیدادیں بک جاتی ہیں اور یہ شرافت کی خلعت اتار کر بدمعاشی کی جیکٹ پہننے پر مجبور ہو جاتے ہیں یوں گاؤں دو دھڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور دو خاندانوں کی لڑائی آہستہ آہستہ پورے گاؤں کو لپیٹ میں لے لیتی ہے‘ لوگ مرتے رہتے ہیں‘ دشمنی کے دائرے وسیع ہوتے جاتے ہیں‘ کاروبار ٹھپ ہو جاتے ہیں‘ کھیت ویران ہو جاتے ہیں‘ اسکول بند ہو جاتے ہیں‘ بچیوں کے رشتے اور شادیاں بند ہو جاتی ہیں‘ یہ صورتحال دیکھ کر علاقے کے بزرگ اکٹھے ہوتے ہیں‘ دونوں دھڑوں یا خاندانوں کو بٹھاتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان رشتے داری کرا دیتے ہیں‘ اب سوال یہ ہے گاؤں میں امن قائم کرنے کے لیے بے جوڑ رشتے کیوں کرائے جاتے ہیں؟
آٹھ سال کی بچی کا نکاح ستر سال کے بوڑھے سے کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ آپ اب اس پرسپشن کی حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے‘ یہ بے جوڑ رشتے جان بوجھ کر کرائے جاتے ہیں‘ بچی آٹھ یا دس سال کی ہوتی ہے جب کہ ’’دولہا‘‘ 65 یا ستر سال کا ہوتا ہے۔ نکاح ہو جاتا ہے‘ بچی بالغ ہونے تک والدین کے گھر رہتی ہے‘ یہ جب بالغ ہوتی ہے تو اس وقت تک اس کا خاوند انتقال کر چکا ہوتا ہے یا پھر بستر مرگ پر ہوتا ہے‘ یوں یہ بچی بالغ ہونے پر بے جوڑ رشتے سے آزاد ہو جاتی ہے‘ میں ونی‘ سوارہ اور سنگ چٹی جیسی رسموں کے خلاف ہوں‘ میں سمجھتا ہوں‘ دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں انصاف کے متبادل نظام کی گنجائش نہیں ہوتی‘ ہم اگر معاشرہ ہیں تو پھر ہماری پولیس اور عدالتوں کو ایسا فوری اور مکمل انصاف کرنا چاہیے جس کے بعد ونی جیسے قبائلی عدل کی ضرورت نہ رہے مگر اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے ہم اور بیرونی دنیا قبائلی رسومات کے بارے میں یک طرفہ ’’پرسپشن‘‘ کا شکار ہیں‘ہم لوگ پروپیگنڈے کے غبار میں چھپی ’’ریالٹی‘‘ تلاش نہیں کرتے‘ ہم دوسرے معاشروں کو اپنی روایات اور اپنے نظام کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں اور اس سے تہذیبی تصادم پیدا ہوتے ہیں۔
ہم انسان اللہ تعالیٰ کی دلچسپ مخلوق ہیں‘ ہم ہمیشہ پرسپشن کو ریالٹی سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں‘ یہ ہماری وہ خامی ہے جس کی وجہ سے ہم غیر جانبدار‘ حقیقی اور دلائل پر مشتمل رائے بنانے میں ناکام رہتے ہیں‘ یہ بین الاقوامی المیہ ہے‘ پاکستانی المیہ اس سے کہیں زیادہ خوفناک اور گہرا ہے‘ پاکستانی معاشرہ ریالٹی تو دور یہ پرسپشن بھی نسل‘ زبان‘ قبیلے‘ جماعت‘ فرقے‘ افواہ‘ جھوٹ اور شک کی بنیاد پر بناتا ہے‘ آپ آج بھی کسی محفل میں بیٹھ جائیں‘ آپ لوگوں کو صرف شک اور افواہ کی بنیاد پر قومی اور بین الاقوامی ایشوز پر رائے بناتے اور دیتے دیکھیں گے‘ ملک میں بارشیں نہ ہوں تو لوگ کہیں گے ’’ یہ امریکا کی سازش ہے‘‘ آپ پوچھیں ’’کیسے‘‘ جواب آئے گا ’’امریکا نے ایسی ٹیکنالوجی ڈویلپ کر لی ہے جس کے ذریعے یہ پاکستان کے بادل کیلیفورنیا شفٹ کر لیتا ہے‘‘ ملک میں سیلاب آ جائے تو لوگ کہیں گے ’’ بھارت نے پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے پانی چھوڑ دیا‘‘ آپ پوچھیں ’’بھائی انڈیا نے یہ پانی کہاں سے چھوڑ دیا‘‘ وہ جواب دے گا ’’ بھارت سارا سال پانی جمع کرتا ہے۔
پاکستان جب مشکل میں آتا ہے تو یہ پانی چھوڑ کر ہماری مشکلات میں اضافہ کر دیتا ہے‘‘ لوگ آپ کو بتائیں گے ’’ اسرائیل‘ امریکا‘ روس اور بھارت مل کر پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں‘‘ آپ پوچھیں ’’کیوں‘‘ وہ جواب دیں گے ’’ پاکستان پوری امہ کا لیڈر ہے اور یہ ہمارے دشمنوں کو منظور نہیں‘‘ لوگ آپ کو بتائیں گے ’’ آصف علی زرداری اور نواز شریف نے فیصلہ کیا تھا‘ آپ ہمیں پانچ سال پورے کرنے دیں‘ ہم آپ کو پانچ سال نہیں چھیڑیں گے‘‘ آپ اس رائے کی وجہ پوچھیں‘ جواب آئے گا ’’ آصف علی زرداری عمران خان کے بجائے نواز شریف کا ساتھ دے رہے ہیں‘‘ لوگ کہیں گے ’’نریندر مودی نے نواز شریف کو بچانے کے لیے ایل او سی پر جنگ چھیڑ دی‘‘ آپ وجہ پوچھیں‘ جواب ملے گا ’’ ایل او سی پر دھرنوں کے دوران ہی فائرنگ کیوں ہو رہی ہے؟‘‘ لوگ کہیں گے ’’ملک کے دس بڑے صحافی بک چکے ہیں‘‘ آپ ثبوت مانگیں گے‘ وہ جواب دیں گے ’’ہم نے خود سوشل میڈیا پر پڑھا تھا‘‘ آپ پوچھیں گے ’’یہ اگر حقیقت ہے تو عمران خان اور علامہ طاہر القادری ثبوت لے کر عدالت کیوں نہیں جاتے۔
یہ حقائق دنیا کے سامنے کیوں نہیں رکھتے‘‘ جواب ملے گا ’’ ہمارے لیڈر یہ کام انقلاب کے بعد کریں گے‘‘ اور آپ اگر لوگوں میں بیٹھیں تو آپ کو ہر دوسرے شخص کے پاس ملک کے تمام مسائل کا حل ملے گا‘ آپ کو ملک کا ہر شخص امام خمینی‘ نیلسن مینڈیلا‘ بارک حسین اوباما‘ مہاتیر محمد اور گورڈن براؤن ملے گا‘ یہ آپ کو علی الاعلان دعویٰ کرتا نظر آئے گا ’’آپ ملک میرے حوالے کر دیں‘ میں چھ ماہ میں عوام کا مقدر بدل دوں گا‘‘ آپ اس سے اس کی کوالیفکیشن پوچھیں تو وہ جواب دے گا ’’ علم کا ڈگری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ حکیم لقمان کس میڈیکل کالج کا گریجویٹ تھا‘‘ آپ اس سے پوچھیں ’’آپ نے کبھی کوئی ادارہ چلایا‘ کوئی کاروبار کیا‘ کسی ایک شخص کی زندگی بدلی یا کوئی ریسرچ کی‘‘ وہ نفی میں سر ہلا دے گا لیکن اس کے باوجود اس کے پاس قوم کا مقدر بدلنے کا نسخہ موجود ہو گا۔
یہ لوگ صرف دعویٰ نہیں کریں گے بلکہ انھیں اپنے دعوے پر پورا ایمان‘ پورا یقین بھی ہو گا‘ یہ پرسپشن کی اس اعلیٰ ترین چوٹی پر بیٹھے ہوں گے جہاں سے انسان کو (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغامات آنا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ خود کو انسانیت کا نجات دہندہ سمجھنے لگتا ہے اور آپ کو اس ملک میں ایسے ہزاروں لاکھوں لوگ بھی ملیں گے جو دل سے سمجھتے ہیں ہمیں بھارت پر ایٹم بم پھینک دینا چاہیے اور ہم جب تک اسرائیل‘ امریکا اور یورپ کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹا دیتے‘ ہم مسلمان آرام سے زندگی نہیں گزار سکتے۔
آپ اگر پاکستانی پرسپشن کا دائرہ ذرا سا بڑھا لیں تو آپ کو ملک میں ایسے کروڑوں لوگ ملیں گے جو دوسرے فرقے کے تمام لوگوں کو قابل گردن زنی سمجھتے ہیں‘ جو ڈومیسائل کی بنیاد پر لوگوں کو برا‘ غدار اور غاصب سمجھتے ہیں‘ آپ اگر پنجاب میں پیدا ہوئے ہیں تو آپ ظالم ہیں اور آپ کو ملک میں زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں اور آپ اگر بلوچستان‘ اندرون سندھ یا خیبر پختونخوا میں پائے گئے تو آپ کو پنجابی ہونے کے جرم میں گولی مار دی جائے گی‘ آپ اگر بلوچی‘ سندھی یا پختون ہیں تو ملک کے کروڑوں لوگ آپ کو بھی زندہ رہنے کا حق نہیں دیں گے‘ آپ اگر سنی ہیں تو آپ شیعہ اکثریتی علاقے میں غیر محفوظ ہیں اور آپ اگر شیعہ ہیں تو آپ ملک کے لیے خواہ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں‘ آپ کسی بھی وقت کسی نامعلوم گولی کا نشانہ بن جائیں گے‘ ملک میں آج بھی وڈیرے اور کمی موجود ہیں۔
کمی خاندان کا بچہ امام کعبہ بن کر بھی کمی ہی رہے گا اور مخدوم کا بچہ سو قتل کرنے کے بعد بھی اپنا ہاتھ لوگوں کی طرف بڑھا ئے گا اور لوگ مقدس کتاب کی طرح اس کے ہاتھ کو بوسا دیں گے‘ ملک میں آج بھی جو شخص لاؤڈ اسپیکر پر گالی دے دے‘ جو جذباتی تقریر کر لے‘ جو بڑے بڑے دعوے کرلے اور جو دوسرے لوگوں پر بلاتحقیق الزام لگا دے وہ قوم کا مسیحا‘ قوم کا لیڈر بن جاتا ہے اور سیاسی جماعتیں آج بھی ملک توڑنے جیسا جرم معاف کر دیتی ہیں لیکن اپنے لیڈر کے خلاف ایک بیان برداشت نہیں کرتیں‘ یہ کیا ہے؟ یہ پرسپشن کے مختلف شیڈز ہیں اور ان شیڈز کا ریالٹی کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں‘ ہم اب پرسپشن اور ریالٹی کی بنیاد پر دھرنوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں‘ ہم دھرنوں کی حقیقت دیکھتے ہیں
(جاری ہے)۔
یہ تو بہرحال ہونا ہی تھا
جاوید چوہدری منگل 21 اکتوبر 2014

یہ تو بہرحال ہونا ہی تھا اور اگر یہ نہ ہوتا تو بہت پریشانی ہوتی۔
میری ایدھی صاحب سے پہلی ملاقات 2003ء میں کھارا در میں ہوئی‘ میں ان دنوں ’’سیلف میڈ کے نام سے سیلف میڈ‘‘ لوگوں پر ڈاکومنٹری فلمیں بنارہا تھا‘ یہ میری زندگی کے ان 98 ناکام منصوبوں میں سے ایک تھا جن پر میں نے بے تحاشا توانائی‘ وقت اور سرمایہ خرچ کیا‘ میں نے جن کے لیے دن رات ایک کر دیے تھے لیکن یہ اس کے باوجود ناکام ہو گئے اور میں نے جن سے یہ سیکھا‘ آپ پر جب تک اللہ تعالیٰ کا کرم نہ ہو اس وقت تک کھیت‘ پانی‘ بیج اور شاندار موسم کے باوجود آپ کے سٹوں میں دانا پیدا نہیں ہوتا۔
’’سیلف میڈ‘‘ بھی ایک ناکام منصوبہ تھالیکن یہ شروع میں شاندار اسپیڈ سے چل رہا تھا‘ آئیڈیا اچھا تھا‘پرائیویٹ میڈیا کو ابھی صرف ایک سال ہوا تھا‘ ٹیلی ویژن چینلز کو سافٹ ویئر درکار تھے‘ میرے پاس فرصت بھی تھی اور وسائل بھی۔ ٹیم بنائی‘ ملک کے 34ایسے لوگوں کی فہرست تیار کی جنھوں نے انتہائی نامساعد حالات میں آنکھیں کھولیں لیکن یہ شبانہ روز محنت کرتے ہوئے بین الاقوامی شخصیت بن گئے‘ عبدالستار ایدھی اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھے‘ یہ آج بھی پہلے نمبر پر ہیں‘ آپ ملک میں نامور لوگوں کی کوئی فہرست بنائیں‘ آپ کے ذہن میں سب سے پہلے عبدالستار ایدھی کا نام آئے گا‘ یہ صرف ساڑھے پانچ فٹ کے 60 کلو وزنی انسان نہیں ہیں‘ یہ پاکستان کے آئفل ٹاؤر ہیں‘ یہ پاکستان کی مدر ٹریسا ہیں‘ دنیا میں جس طرح آئفل ٹاور کے بغیر پیرس اور مدر ٹریسا کے بغیر انڈیا کا تصور ممکن نہیں بالکل اسی طرح پاکستان عبدالستار ایدھی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
ہم لوگوں نے فہرست کے پہلے نام سے کام شروع کیا‘ میں کھارا در گیا‘ ایدھی صاحب سے ملاقات ہوئی‘ایدھی صاحب کے بدن پر سیاہ ملیشیا کے گھسے ہوئے کپڑے تھے‘ سر پر میلی ٹوپی تھی‘ پاؤں میں پلاسٹک کے سلیپرتھے‘ دانت میلے اور ہاتھ کالے تھے اور جسم سے پسینے کی بو آ رہی تھی‘ میں نے گفتگو شروع کی‘ معلوم ہوا ایدھی صاحب نے پوری زندگی مُردوں کے کپڑے اور جوتے پہنے‘ لواحقین مُردوں کی ذاتی اشیاء استعمال نہیں کرتے‘ یہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے ہیں‘ بیس سال قبل میٹھا در کا کوئی پٹھان فوت ہوا‘ اس کے گھر سے ملیشیا کے دو تھان نکلے‘ ایدھی صاحب بیس سال سے ان تھانوں کے کپڑے سلوا رہے ہیں‘ ایک جوڑا دو سال نکال جاتا ہے‘ سلیپر بھی مُردوں کے پہنتے ہیں اور ٹوپی بھی ایک نعش کا ورثہ تھی‘لوگ انھیں حاجی صاحب کہتے ہیں‘ ہفتے میں صرف ایک بار نہاتے ہیں‘ حاجی صاحب کا خیال تھا پانی قیمتی سرمایہ ہے۔
اسے نہانے میں ضایع نہیں کرنا چاہیے چنانچہ نہانے کے خلاف ہیں‘ گجرات کاٹھیاوار کے گاؤں بانٹوا میں پیدا ہوئے‘ ماں کی دوسری شادی تھی‘پہلے خاوند سے بھی بچے تھے‘ ماں کو ہمیشہ دکھی اور پریشان دیکھا‘ کراچی آ کر کپڑے کا کاروبار شروع کیا‘ کپڑا خریدنے مارکیٹ گئے‘ وہاں کسی شخص نے کسی شخص کو چاقو مار دیا‘ زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا‘ لوگ تڑپتے شخص کے گرد گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے‘ وہ شخص تڑپ تڑپ کر مر گیا‘ نوجوان عبدالستار کے دل پر داغ پڑ گیا‘ سوچا معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہیں‘ دوسروں کو مارنے والے‘ مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اور زخمیوں کی مدد کرنے والے‘ نوجوان عبدالستار نے فیصلہ کیا‘ میں مارنے والوں میں شامل ہوں گا اور نہ ہی تماشہ دیکھنے والوں میں‘ میں مدد کرنے والوں میں شامل ہوں گا‘ کپڑے کا کاروبار چھوڑا‘ ایک ایمبولینس خریدی‘ اس پر اپنا نام لکھا‘ نیچے ٹیلی فون نمبر لکھا اور کراچی شہر میں زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کر دی‘ وہ اپنے ادارے کے ڈرائیور بھی تھے‘ آفس بوائے بھی‘ ٹیلی فون آپریٹر بھی‘ سویپر بھی اور مالک بھی‘وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے تھے۔
فون کی گھنٹی بجتی‘ یہ ایڈریس لکھتے اور ایمبولینس لے کر چل پڑتے‘ زخمیوں اور مریضوں کو اسپتال پہنچاتے‘ سلام کرتے اور واپس آ جاتے‘ ایدھی صاحب نے سینٹر کے سامنے لوہے کا گلا رکھ دیا ‘ لوگ گزرتے وقت اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈال دیتے تھے‘ یہ سیکڑوں سکے اور چند نوٹ اس ادارے کا کل اثاثہ تھے‘ یہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جاتے تھے‘ یہ ایک صبح مسجد پہنچے‘ پتہ چلا کوئی شخص مسجد کی دہلیز پر نوزائیدہ بچہ چھوڑ گیا‘ مولوی صاحب نے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا حکم جاری کر دیا‘ لوگ بچے کو مارنے کے لیے لے جا رہے تھے‘ یہ پتھر اٹھا کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے‘ بچہ لیا اور بچے کی پرورش شروع کر دی‘ میرے کان میں بتایا ’’وہ بچہ آج کل ملک کے ایک بڑے بینک کا اہم افسر ہے‘‘ یہ نعشیں اٹھانے بھی جاتے تھے‘ پتہ چلا گندے نالے میں نعش پڑی ہے‘ یہ وہاں پہنچے‘ دیکھا لواحقین بھی نالے میں اتر کر نعش نکالنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ عبدالستار ایدھی نالے میں اتر گئے‘ نعش نکالی‘ گھر لائے‘ غسل دیا‘ کفن پہنایا‘ جنازہ پڑھایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کھود کر نعش دفن کر دی‘ بازار میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکھے‘ پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا اور آوارہ بچوں کو فٹ پاتھوں پر کتوں کے ساتھ سوتے دیکھا تو اولڈ پیپل ہوم بنا لیا‘ پاگل خانے بنا لیے‘ چلڈرن ہوم بنالیے‘ دستر خوان بنا لیے اور عورتوں کو مشکل میں دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا لیے‘ لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے‘ ان کی مدد کرتے رہے‘ یہ آگے بڑھتے رہے ۔
یہاں تک کہ ایدھی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا‘ یہ ادارہ 2000ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا‘ ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنائی تھی‘ عبدالستار ایدھی ملک میں بلاخوف پھرتے تھے‘ یہ وہاں بھی جاتے تھے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھایا فسادات ہو رہے ہوتے تھے‘ پولیس‘ ڈاکو اور متحارب گروپ انھیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیتے تھے‘ ملک کا بچہ بچہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے‘ یہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں‘ نام کے حاجی اور نام کے مولوی ہیں‘ یہ خدمت کو اپنا مذہب اور انسانیت کو اپنا دین سمجھتے ہیں‘ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں اور یہ لوگوں سے بھی شاکی ہیں‘ یہ ہر لحاظ سے فرشتہ صفت ہیں۔ میں پورا دن ایدھی صاحب کے ساتھ رہا‘ ہم نے اگلے ہفتے شوٹنگ شروع کی‘ تین دن ایدھی صاحب کے ساتھ رہے‘ ان کی تمام اچھائیاں کھل کر سامنے آ گئیں مثلاً ایدھی صاحب نے 2003ء تک گندے نالوں سے 8 ہزار نعشیں نکالی تھیں‘ انھوں نے 16 ہزار نوزائیدہ بچے پالے تھے‘ انھوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائی تھیں اور یہ اس وقت تک ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے۔
ہم جب بھی انھیں بازار یا سڑک پر لے کر جاتے تھے‘ لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھے‘ عورتیں زیور اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیتی تھیں‘ ہمارے سامنے ایک نوجوان اپنی اکلوتی موٹر سائیکل انھیں دے کر خود وین میں بیٹھ گیا اور ایک دکان دار نے وہ موٹر سائیکل لاکھ روپے میں خرید لی‘ میں نے ایدھی صاحب کے ساتھ چار دن گزارے‘ وہ چار دن میری زندگی کا شاندار ترین وقت تھا‘ میں جب ان سے الگ ہونے لگا تو میں نے جھک کر ان کے پاؤں چھوئے‘ ایدھی صاحب نے مجھے کھینچ لیا‘ گلے لگایا‘ میرا ماتھا چوما اور جھولی پھیلا کر مجھے دعائیں دیں‘ میں آج بھی ان کی دعاؤں کو اپنا اثاثہ سمجھتا ہوں۔
یہ تھے عبدالستار ایدھی مگر ایدھی صاحب کے ساتھ کل 19 اکتوبر 2014ء کو کیا ہوا؟ 8 مسلح ڈاکوصبح10 بجے کھارا در ان کے دفتر داخل ہوئے‘ ایدھی صاحب کے سر پر پستول رکھا‘ ان سے کہا ’’ بڈھے تمہارے کلمہ پڑھنے کا وقت آ گیا‘‘ ایدھی صاحب کے لاکرز توڑے اور 5 کلو سونا اور کروڑوں روپے کی غیر ملکی کرنسی لوٹ کر لے گئے‘ ہمارے ملک میں روزانہ تین درجن بری خبریں جنم لیتی ہیں‘ ہم ان خبروں کو روٹین کی کارروائی سمجھ کر فراموش کر دیتے ہیں لیکن ایدھی صاحب کی خبر نے پورے ملک کو اداس کر دیا‘ ملک کا بچہ بچہ ڈپریشن میں ہے‘ہم سب دل سے سمجھتے ہیں‘ عبدالستار ایدھی کے ساتھ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا مگر یہ بہرحال ہونا ہی تھا اور اگر یہ نہ ہوتا تو پریشانی ہوتی‘ کیوں؟ کیونکہ ہمارا ملک بے عزتی‘ بے آبروئی اور بے وفائی کے وائرس کا شکار ہے‘ جس ملک میں قائداعظم محمد علی جناح فٹ پاتھ‘ قائد ملت لیاقت علی خان اسٹیج اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو پھانسی گھاٹ پر مار دیے جائیں۔
جس میں حکیم سعید جیسے شخص کو گولی مار دی جائے‘ ڈاکٹر قدیر جیسے انسان کو مجرم بنا کر ٹیلی وژن پر پیش کر دیا جائے اور جس میں روز کنٹینروں ‘ اسٹیجز اورٹیلی وژن پر لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہوں اور جس میں آپ کی جگہ تم‘ تم کی جگہ تو اور تو کی جگہ اوئے نے لے لی ہو اور جس میں الزام قانون اور شک عدالتی فیصلہ بن گیا ہو اور جس میں سیاسی قائدین کا فرمان اللہ کے احکامات سے بڑا ہو چکا ہواور جس میں لوگ اللہ سے کم اور مولوی سے زیادہ ڈرتے ہوں اور جس میں جاوید ہاشمی ہار جاتے ہوں اور عامر ڈوگر جیسے لوگ جیت جاتے ہوں اس ملک میں ایسا بہرحال ہو کر رہتا ہے‘ اس معاشرے میں ایک ایک کر کے سب لوٹ لیے جاتے ہیں‘ دیمک لگی دہلیزیں فرشتے ہوں یا انسان کسی کا بوجھ برداشت نہیں کرتیں اور ہم دیمک زدہ معاشرے کے شہری ہیں‘ ہمارے معاشرے میں ایدھی صاحب کے ساتھ بہرحال یہ ہونا ہی تھا!۔
انقلاب ٹو

’’غربت تھی اور غربت کے ساتھ فساد بھی تھا‘‘۔
غربت اور شدت دونوں بہنیں ہیں‘ جہاں بے صبری‘ عدم برداشت اور شدت ہوگی وہاں غربت بھی ہوگی اور جہاں غربت ہو گی وہاں برداشت کی کمی‘ بے صبری اور لڑائی جھگڑے بھی ہوں گے‘ آپ اگر اپنی ذات‘ خاندان اور معاشرے میں برداشت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو آپ اپنی معاشی صورتحال پر توجہ دیں‘ آپ کی شخصیت جلد تبدیل ہو جائے گی اور آپ اگر کسی شخص‘ خاندان یا معاشرے میں غصہ‘ فساد اور نفرت بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ اس کی آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن پیدا کر دیں‘ آپ کو بہت جلد معاشرے کے تار پور ہلتے دکھائی دیں گے۔
نک ڈی الوسیو کے گھر میں بھی غربت تھی‘ اخراجات زیادہ تھے اور آمدنی کم چنانچہ نک ڈی الوسیو نے اپنے والدین کو ہمیشہ لڑتے جھگڑتے اور چیختے چلاتے دیکھا‘ وہ بلوں پر لڑتے تھے‘ پٹرول پر لڑتے تھے اور گھر کے لیے سودا سلف کی خریداری پر لڑتے تھے‘ نک ڈی چھ سال کا تھا جب اس نے پہلی بار سوچا ’’ مجھے بھی والدین کے ساتھ کام کرنا ہو گا‘‘ آپ تصور کیجیے‘ بچے کی عمر چھ سال ہو‘ وہ ابھی بمشکل اسکول جاتا ہو اور وہاں سے واپس آتا ہو اور وہ کام کرنے‘ کمانے اور خاندان کی آمدنی میں اضافہ کرنے کا سوچتا ہو آپ کو یہ بات کتنی غلط‘ کتنی عجیب لگے گی؟ نک ڈی کے والدین‘ رشتے داروں‘ اسکول ٹیچرز اور ہم عمروں کو بھی یہ سوچ احمقانہ محسوس ہوئی لیکن نک ڈی باز نہ آیا‘ وہ کوئی ایسا کاروبار تلاش کرتا رہا جس کے راستے میں عمر رکاوٹ نہ ہو‘ وہ جسے بچپن ہی میں شروع کر سکے۔
وہ تلاش کرتا رہا‘ کرتا رہا یہاں تک کہ اسے گیارہ سال کی عمر میں وہ کاروبار‘ وہ کام مل گیا‘ اس نے کمپیوٹر ایپلی کیشن بنانے کا فیصلہ کیا‘ وہ اسکول کے فالتو وقت میں کمپیوٹر لیب میں بیٹھ جاتا‘ اسکول کے بعد وہ ’’نیٹ کیفے‘‘ میں چلا جاتا اور وہ وہاں گھنٹوں بیٹھ کر کام کرتا رہتا‘ وہ ایک سال ’’ ایپلی کیشن‘‘ پر کام کرتا رہا‘ ایپلی کیشن بن گئی لیکن وہ زیادہ معیاری نہیں تھی‘ وہ اس سے مطمئن نہیں تھا‘ اس نے دوبارہ کام شروع کر دیا‘ نک ڈی کو اس بار تین سال لگے‘ اس نے 15سال کی عمر میں نیوز سملی (News-summly) نام کی معرکتہ الآراء ایپلی کیشن بنا لی‘ نک ڈی کو شروع ہی میںنیوز سملی کے دو لاکھ استعمال کنندہ مل گئے‘ یہ ایپلی کیشن ’’یاہو‘‘ کی نظر میں آئی‘ یاہو نے نک ڈی سے رابطہ کیا اور اس سے 30 ملین ڈالر میں نیوز سملی خرید لی‘ یہ رقم پاکستانی روپوں میں 3 ارب روپے بنتی ہے۔
یہ رقم جوں ہی نک ڈی کے والد کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی‘ پندرہ سال کا بچہ ارب پتی بن گیا‘ یہ بڑے گھر میں شفٹ ہو چکے ہیں‘ یہ بڑی گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں‘ یہ وقت پر بل ادا کرتے ہیں‘ چھٹیاں گزارتے ہیں اور جو دل چاہتا ہے خریدتے ہیں‘ نک ڈی کے گھر میں اب جھگڑا بھی نہیں ہوتا‘ یہ لوگ اب کسی انقلاب کا انتظار نہیں کر رہے کیونکہ یہ لوگ جان چکے ہیں معاشروں کا انقلاب ہمیشہ افراد سے شروع ہوتا ہے‘ فرد اپنی حالت بدل لیں تو پورا معاشرہ تبدیل ہو جاتا ہے اور اگر افراد اپنی ذات پر توجہ نہ دیں‘ یہ اپنی حالت تبدیل نہ کریں تو معاشرہ خواہ کتنا ہی آئیڈیل کیوں نہ ہو یہ لوگوں کے مسائل حل نہیں کرتا‘ نک ڈی الوسیو نے تیس ملازم رکھ لیے ہیں‘ یہ لوگ کمپیوٹر اور موبائل فونز کی نئی ایپلی کیشن پر کام کر رہے ہیں‘ ان کا خیال ہے یہ لوگ ہر سال ایسی ایپلی کیشنز تیار کریں گے جو انھیں تیس چالیس ملین ڈالر سالانہ دیں گی اور یوں خوش حالی کا سلسلہ آگے بڑھتا رہے گا‘ نک ڈی الوسیو ارب پتی نک ڈی الوسیو دن کو تعلیم حاصل کرتا ہے اور شام کے وقت اپنی ذاتی لیب میں کام کرتا ہے‘ یہ سمجھتا ہے یہ 2015ء میں تین بڑی ایپلی کیشن متعارف کروائے گا۔
فوربس میگزین ہر سال دنیا کے کروڑ اور ارب پتیوں کی فہرست جاری کرتا ہے‘ مجھے چند دن قبل اس کی فہرست میں ایسے 8 نوجوان ارب پتیوں کے پروفائل پڑھنے کا اتفاق ہوا جو کم عمری میں ہی ارب پتی بن گئے ‘ نک ڈی الوسیو اس فہرست میں شامل تھا‘ نک کی کہانی حیران کن تھی لیکن باقی سات نوجوانوں کی کہانیاں اس سے کہیں زیادہ حیران کن اور سبق آموز ہیں‘ مثلاً آپ الیگزینڈر آموسو کو لے لیجیے‘ یہ نائیجیرین نژاد برطانوی ہے اور اس وقت اس کی عمر38 سال ہے‘ یہ نوجوان 13 سال کی عمر میں ایک الیکٹرک شاپ پر چھ پاؤنڈ روزانہ کی اجرت پر کام کرتا تھا‘ ان چھ پاؤنڈ سے اس کا خاندان بریڈ‘ بٹر اور انڈے خریدتا تھا‘ الیگزینڈر نے الیکٹرک شاپ پر کام کرتے کرتے موبائل فون کی رنگ ٹونز بنانا شروع کر دیں‘ یہ رنگ ٹونز ایک موبائل فون کمپنی نے 9 ملین ڈالرز میں خرید لیں۔
یوں 24 سال کی عمرمیں ایک غریب نوجوان 90 کروڑ روپے کا مالک بن گیا‘ الیگزینڈر نے اس رقم سے فیشن کمپنی بنا لی‘ یہ اب نئی رنگ ٹونز بھی بنا رہا ہے اور یہ فیشن کمپنی کے ذریعے بھی پیسے کما رہا ہے‘ کولین تھرونٹن کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے‘ یہ ساؤتھ افریقہ کے شہر جوہانسبرگ کا رہنے والا ہے‘ اس وقت اس کی عمر 34 سال ہے‘ یہ وِٹ واٹر سرینڈ جوہانسبرگ یونیورسٹی کا طالب علم تھا‘ یہ کمپیوٹر سائنسز میں گریجوایشن کرنا چاہتا تھا لیکن نالائق ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی نے اسے نکال دیا‘ یہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو گیا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری‘ اس نے گھر میں کمپیوٹر ٹھیک کرنے کا کام شروع کر دیا‘ کمپیوٹر ٹھیک کرتے کرتے اس نے ’’ڈائل اے نرڈ‘‘ کمپنی بنائی‘ یہ کمپنی آئی ٹی سپورٹ کا کام کرتی ہے‘ یہ کمپنی سالانہ دس ملین ڈالر یعنی ایک ارب روپے کماتی ہے جب کہ اس کی مالیت 30 ملین ڈالر ہے۔
یہ آج ہر ہفتے یونیورسٹی جاتا ہے‘ وائس چانسلر سے ملتا ہے‘ اس کے ساتھ چائے پیتا ہے‘ اس کا شکریہ ادا کرتا ہے ’’آپ نے اگر مجھے یونیورسٹی سے نہ نکالا ہوتا تو میں آج بھی آپ کا ایک غریب اور نالائق اسٹوڈنٹ ہوتا‘‘ وائس چانسلر شرمندہ ہو جاتا ہے اور کولین مسکرا کر واپس آ جاتا ہے‘ امریکا کا کیمرون جانسن بھی اس فہرست میں شامل ہے‘ کیمرون کی عمر 30 سال ہے‘ اس نے نو سال کی عمر میں ہاتھ سے خاندان اور ہمسایوں کے لیے برتھ ڈے کارڈ بنانا شروع کیے‘ وہ یہ کارڈ معمولی رقم کے عوض بیچ دیتا تھا‘ بارہ سال کی عمر میں اس نے ڈیزائن بنا کر ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی کو بیچنا شروع کر دیے‘ اس نے ڈیزائن سے حاصل ہونے والی رقم جمع کی اور اس رقم سے (Surfingprizes.com) کے نام سے آن لائن ایڈورٹائزنگ ایجنسی بنائی ‘ یہ بھی کامیاب ہو گیا‘ اس کے بعد اس نے DoubleClick, L90اورAdvertising.comکے نام سے ویب سائیٹس بنائیں اور یہ اب سالانہ لاکھوں ڈالر کمارہا ہے‘ فریزر ڈھورتے بھی اس فہرست میں شامل ہے۔
یہ نوجوان اسکاٹ لینڈ کا رہنے والا ہے‘ فریزر کی دادی قدرتی پھلوں کا جیم بنانے کی ماہر تھی‘ فریزر نے دادی سے یہ فن سیکھا‘ 16سال کی عمر میں جیم بنانے کا کام شروع کیا‘ یہ جیم قصبے میں مشہور ہو گئے‘ اس نے ’’سپر جیم‘‘ کے نام سے کمپنی بنائی اور قدرتی پھلوں کا نیچرل جیم بنانا شروع کر دیا‘ یہ جیم آج پوری دنیا میں بک رہے ہیں‘ یہ اس کاروبار سے دو ملین ڈالر ماہانہ کما رہا ہے‘ ایشے کوئلز بھی اس فہرست کی ارب پتی نوجوان خاتون ہے‘ ایشلے نے 2004ء میں واٹ ایور لائف ڈاٹ کام (whateverlife.com) کے نام سے ویب سائیٹ بنائی‘ اس ویب سائیٹ پر 70 لاکھ لوگ روزانہ وزٹ کرتے ہیں‘ ایشلے ویب سائیٹ سے سالانہ دس ملین ڈالر یعنی ایک ارب روپے کما رہی ہے‘ فہرست میں جولیٹ برنڈک اور ایڈم ہاروٹزبھی شامل ہیں‘ جولیٹ کا تعلق بھی امریکا سے ہے۔
اس نے 16سال کی عمر میں محسوس کیا‘ نوجوان بچیوں کو انٹرنیٹ پر بے شمار مسائل کا سامنا ہے‘ لڑکیوں کے لیے کوئی سائیٹ موجود نہیں چنانچہ جولیٹ نے 16سال کی عمر میں مس او اینڈ فرینڈ کے نام سے لڑکیوں کی ویب سائیٹ بنائی‘ یہ ویب سائیٹ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کی لڑکیوں کی پہچان بن گئی‘ یہ ویب سائیٹ نوجوان لڑکیوں میں بات چیت‘ سوشل میڈیا‘ اسپورٹس اور اشتہارات کے حوالے سے بہت مقبول ہے‘ ہر ماہ ایک کروڑ لوگ اس ویب سائیٹ کو وزٹ کرتے ہیں‘ جولیٹ نے اس سے 15 ملین ڈالر یعنی ڈیڑھ ارب روپے کمائے‘ ایڈم ہاروٹز نے بھی ویب سائیٹس بنانا شروع کیں‘ اس کی تیس ویب سائیٹس ناکام ہو گئیں یہاں تک یہ آخر میں ایک ایسی ویب سائیٹ بنانے میں کامیاب ہو گیا جو صارفین کو یہ بتاتی ہے آپ انٹرنیٹ پر بزنس کیسے کر سکتے ہیں‘ یہ نوجوان بھی صرف ایک ویب سائیٹ کے ذریعے ارب پتی بن چکا ہے۔
آپ اگر فوربس میگزین کی ویب سائیٹ پر جا کر ارب پتیوں کی فہرستیں دیکھیں‘ آپ فہرست میں موجود نوجوانوں کے پروفائل نکال کر پڑھیں تو آپ کو ایسے درجنوں نوجوان ملیں گے جن کے خاندانی حالات آپ سے مختلف نہیں تھے مگر ان نوجوانوں نے شبانہ روز محنت سے اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا‘ یہ لوگ اب خوشحال‘ مطمئن‘ مسرور اور شاندار زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ لوگ بھی ہماری طرح اسی کرہ ارض کے باسی ہیں‘ یہ بھی ہماری طرح آکسیجن‘ پانی اور خوراک استعمال کرتے ہیں‘ یہ بھی ہماری طرح بیمار ہوتے ہیں‘ہماری طرح قہقہے لگاتے ہیں‘ دوڑتے ہیں‘ بھاگتے ہیں اور یہ بھی ہمارے جتنے قد کاٹھ اور وزن کے مالک ہیں لیکن یہ لوگ اطمینان اور خوش حال زندگی گزار رہے ہیں جب کہ ہم روز کسی ایسے انقلاب کا انتظار کرتے ہیں جو آسمان سے اترے‘ ہمارے دروازے کھول کر اندر داخل ہو اور ہمیں بیٹھے بیٹھے ارب پتی بنا دے۔
مجھے یقین ہے آپ جب ان نوجوانوں کا احوال پڑھیں گے تو آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور سر اٹھائے گا ’’مجھ میں اور ان لوگوں میں کیا فرق ہے‘‘ آپ کے ذہن میں جب بھی یہ سوال پیدا ہو جان لیجیے آپ اور ان میں صرف اپروچ کا فرق ہے‘ یہ لوگ آپ سے پہلے سمجھ گئے تھے ’’ انسانی انقلاب چھ فٹ کے انسان سے شروع ہوتا ہے‘ انسان جس دن اپنی حالت بدل دیتا ہے وہ اس دن پورے معاشرے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے‘‘ یہ لوگ جان گئے تھے ’’ خامی زمین‘ ملک یا معاشرے میں نہیں‘ خامی ہمارے اندر ہے اور ہم جب تک یہ خامی دور نہیں کریں گے ہم اس وقت تک اصل انقلاب تک نہیں پہنچ سکیں گے‘‘ یہ سمجھ گئے تھے ’’معاشرے کو بدلنے سے قبل خود کو بدلو‘ یہ دنیا تبدیل ہو جائے گی‘‘ یہ لوگ یہ نقطہ سمجھ گئے چنانچہ یہ اطمینان سے زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم نہیں سمجھے چنانچہ ہم انقلاب کے ڈنڈے پر کیلیں لگا رہے ہیں‘ ہم انقلاب کو دھرنوں میں تلاش کر رہے ہیں۔

ملالہ کبھی پاکستان نہیں آ سکے گی
جاوید چوہدری جمعـء 17 اکتوبر 2014

ڈاکٹر عبدالسلام کا جرم بھی یہی تھا‘ وہ بھی ٹیلنٹڈ تھے‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی عقل‘ فہم اور علم سے نوازا تھا۔
وہ ساہیوال کے گاؤں سنتوک داس میں پیدا ہوئے‘ ٹاٹ اسکول میں پڑھے‘ وظیفے لے کر گورنمنٹ کالج جھنگ اور گورنمنٹ کالج لاہورتک پہنچے‘ امتحانات میں پہلی پوزیشن حاصل کی‘ حکومت نے اسکالر شپ دیا اور وہ کیمبرج یونیورسٹی پہنچ گئے‘ کیمبرج یونیورسٹی سے ریاضی اور فزکس میں ایم ایس سی کی‘ نظری طبیعات میں پی ایچ ڈی کی‘ کیمبرج یونیورسٹی نے دوران تعلیم یونیورسٹی کا سب سے بڑا عزاز ’’اسمتھ پرائز‘‘ دیا اور یہ طالب علم کی حیثیت ہی میں سینٹ کالج‘ کیمبرج یونیورسٹی اور پرنسٹن یونیورسٹی کے فیلو منتخب ہو گئے‘ پوری دنیا ان کے لیے کھلی تھی لیکن وہ پاکستان کی محبت میں گرفتار تھے‘ وہ سمجھتے تھے نوزائیدہ ملک کو ان کی ضرورت ہے ۔
چنانچہ وہ 1951ء میں لاہور واپس آ گئے‘ گورنمنٹ کالج میں استاد بھرتی ہو گئے‘ اگلے سال پنجاب یونیورسٹی سے بھی وابستہ ہو گئے‘ وہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ کچھ کرنا چاہتے تھے‘ گورنمنٹ کالج کی انتظامیہ سے درخواست کی‘ کالج کے پاس فنڈز موجود ہیں‘ آپ مجھے چھوٹی سی لیبارٹری بنا دیں ‘میں اور میرے طالب علم کمال کردیں گے‘ انتظامیہ کو یہ مطالبہ توہین محسوس ہوا چنانچہ انھیں شروع میں ہاسٹل کا وارڈن بنا دیا گیا‘ ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ درخواست کی تو انھیں فٹ بال ٹیم کا کوچ بنا دیا گیا‘ کالج اور یونیورسٹی میں ان کے خیالات کا مذاق بھی اڑایا جاتا تھا‘ یہ تنگ آ گئے چنانچہ یہ 1954ء میں لندن چلے گئے‘ امپیریل کالج لندن نے انھیں ریاضی کے شعبے کا سربراہ بنا دیا‘ یہ 1957ء میں فزکس کے پروفیسر بھی بنا دیے گئے‘ یہ جدید دنیا میں اعلیٰ ترین علمی عہدہ ہوتا ہے لیکن ان کا دل پاکستان میں اٹکا رہا‘ یہ ہر حکومت سے رابطہ کرتے اور اسے سائنس کی تعلیم اورسائنسی ادارے قائم کرنے پر ابھارتے‘ یہ پاکستان کے ایٹمی توانائی کمیشن کے رکن بھی رہے۔
صدر ایوب کے دور میں تعلیمی کمیشن اور سائنس کمیشن کے رکن بھی بنے‘ یہ 1961ء سے 1974ء تک صدر کے سائنسی مشیر بھی رہے‘ اسپارکو کی بنیاد بھی انھوں نے رکھی اور یہ نیشنل سائنس کونسل اور پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر بھی رہے‘ یہ ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر ان کا ٹیلنٹ اور ان کا عقیدہ ہر بار رکاوٹ بن جاتا تھا‘ یہ بونوں کا ملک ہے اور بلند قامتی بونوں کے معاشروں میں جرم ہوتی ہے‘ڈاکٹر عبدالسلام کو اللہ تعالیٰ نے بلند قامت بنایا تھا‘ وہ برین آف پاکستان تھے چنانچہ ملک میں ان کی گنجائش نہیں تھی‘ ڈاکٹر صاحب نے 1964ء میں حکومت کو پاکستان میں نظری طبیعات کا انٹرنیشنل سینٹر بنانے کی تجویز دی‘ ایوب خان ان دنوں محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن میں ہرانے جیسے تعمیری کام میں مصروف تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی تجویز ایوان صدر کے اسٹور روم میں پھینک دی گئی‘ اٹلی کو اس تجویز کی بھنک پڑ گئی‘ اطالوی حکومت نے ڈاکٹر عبدالسلام سے رابطہ کیا اور اربوں ڈالر خرچ کر کے ٹرائیسٹ شہر میں ’’انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹیکل فزکس‘‘ قائم کر دیا‘ یہ سینٹر آج بھی ڈاکٹر عبدالسلام کے نام منسوب ہے‘یہ اب تک ہزاروں سائنس دان پیدا کر چکا ہے‘ ڈاکٹر صاحب نے 1974ء میں لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں ’’اسلامک سائنس فاؤنڈیشن‘‘ کی تجویز پیش کی‘ یہ تجویز پسند کی گئی لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا‘ ڈاکٹر صاحب کو 1979ء میں فزکس کا نوبل انعام دیا گیا‘ یہ پاکستان کا پہلا نوبل انعام تھا‘ ہمارے لیے اعزار کی بات تھی لیکن ڈاکٹر صاحب کا عقیدہ اس اعزاز کے راستے میں بھی رکاوٹ بن گیا‘ ملک میں اس نوبل انعام کو اسلام کے خلاف یہودی‘ امریکی اور روسی سازش قرار دے دیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب اس سلوک پر کس قدر دل گرفتہ تھے‘ آپ اس سلسلے میں ڈاکٹر جاوید اقبال کا ایک واقعہ ملاحظہ کیجیے‘ فرزند اقبال ڈاکٹر صاحب سے ملنے ٹرائیسٹ گئے‘ سیکریٹری نے جوں ہی ڈاکٹر صاحب کو بتایا ’’آپ سے کوئی صاحب پاکستان سے ملنے آئے ہیں‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام دیوانہ وار باہر نکلے‘ شاعر مشرق کے صاحبزادے کو گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے‘ وہ بار بار کہتے تھے ’’ مجھ سے پوری دنیا ملنے آتی ہے لیکن پاکستان سے کوئی نہیں آتا‘ میرا جرم کیا ہے؟ میری غلطی کیا ہے؟‘‘ یہ سن کر جاوید اقبال کے آنسو بھی نکل آئے‘ ڈاکٹر صاحب کو نوبل انعام ملا تو جنوبی کوریا نے اپنے سائنس دانوں اور پروفیسروں کا ایک وفد بھجوا دیا‘ یہ وفد ڈاکٹر صاحب سے صرف اتنا معلوم کرنا چاہتا تھا ’’ہم نوبل انعام کیسے حاصل کر سکتے ہیں‘‘ جب کہ ہمارا نوبل انعام یافتہ سائنس دان اپنے ملک میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔
قائداعظم یونیورسٹی نے 1979ء میں انھیں اعزاز ڈگری سے نوازا‘ آپ المیہ دیکھیے‘ صدر جنرل ضیاء الحق نے ڈاکٹر صاحب کو یہ ڈگری یونیورسٹی ہال کے بجائے نیشنل اسمبلی ہال میں دی‘ کیوں؟ کیونکہ طالب علموں کی ایک جماعت نے حکومت کو دھمکی دے دی تھی ’’ یہ مرتد یونیورسٹی آیا تو یہ زندہ واپس نہیں جا سکے گا‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام کو 23 ممالک کی 32 یونیورسٹیوں نے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزاز ڈگریاں دی تھیں‘ دنیا کے 22 ممالک نے انھیں اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا اور یہ 23 ممالک کی اعلیٰ ترین سائنس اکیڈمیوں کے فیلو اور رکن رہے اور انھیں یہ تمام اعزازات یونیورسٹیوں کے ہالوں میں ہزاروں طالب علموں کی گونجتی تالیوں میں دیے گئے تھے لیکن اپنے ملک میں انھیں یہ اعزاز نیشنل اسمبلی ہال میں ’’عوام‘‘ سے بچا کر دیا گیا اور اخبارات نے عوامی خوف کی وجہ سے ان کی تصویر تک شایع نہیں کی‘ ڈاکٹر عبدالسلام پوری زندگی پاکستان کو ترستے رہے‘ یہ 1996ء میں فوت ہوئے‘ ان کی نعش پاکستان آئی تو حکومت کو جنازے اور قبر کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کرنے پڑگئے۔
ڈاکٹر عبدالسلام کو مرے ہوئے آج 18 سال ہو چکے ہیں‘ یہ آج بھی اس معاشرے سے اپنا جرم پوچھ رہے ہیں‘ میں 10 اکتوبر تک سمجھتا تھا ڈاکٹر عبدالسلام کو قادیانی ہونے کی سزا ملی‘ ہم مسلمان ہیں اور ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے‘ ہم قادیانیوں کو پسند نہیں کرتے چنانچہ ڈاکٹر صاحب کا عقیدہ ان کا جرم بھی بن گیا اور یہ ان کی خوبیوں اور کمالات کو بھی نگل گیا لیکن جوں ہی ملالہ یوسف زئی کے لیے نوبل انعام کا اعلان ہوا اور ملک بھر میں ملالہ کے خلاف نفرت کا سیلاب بہنے لگا تو مجھے اس وقت معلوم ہوا ڈاکٹر عبدالسلام کا جرم قادیانی ہونا نہیں تھا ان کا اصلی جرم ٹیلنٹڈ ہونا‘ کامیاب ہونا اور دنیا سے اپنے آپ کو منوا لینا تھا‘ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی تھے‘ ہم نے اس جرم میں ان سے پاکستانیت کا حق بھی چھین لیا لیکن ملالہ تو مسلمان ہے‘ ہم اس کے خلاف کیوں ہیں؟ وجہ صاف ظاہر ہے‘ ہم حاسد قوم ہیں‘ہم سے دوسروں کی عزت‘ شہرت اور کامیابی ہضم نہیں ہوتی‘ ہماری نظر میں ہر کامیاب شخص بے ایمان‘ کرپٹ اور یہودی ایجنٹ ہے۔
آپ پاکستانی شہریوں سے پاکستان کے کسی ریکارڈ ہولڈر کے بارے میں رائے لے لیں‘ آپ اگر ان کے منہ سے اس کے بارے میں کوئی اچھا لفظ نکال لیں تو میں آپ کو سیلوٹ پیش کروں گا‘ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں لوگ اس عبدالستار ایدھی کو بھی بے ایمان سمجھتے ہیں جس نے اپنی پوری زندگی انسانی فلاح پر خرچ کر دی‘ ہم نے اس ملک میں ڈاکٹر عبدالقدیر کو بھی مجرم بنا کر ٹی وی پر پیش کر دیا تھا اور ہم نے محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن میں ہروا دیا ‘ ہماری نظر میں ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ یوسفزئی دونوں یہودیوں کے ایجنٹ ہیں لیکن بچیوں پر کتے چھوڑنے‘ ونی کرنے‘ ان کی شادیاں قرآن مجید سے کرنے‘ ان کے منہ پر تیزاب پھینکنے‘ ان کی اجتماعی آبروریزی کرنے اور انصاف کے نام پر ان کی شادیاں اسی اسی سال کے بوڑھوں سے کرنے والے سچے مومن ہیں۔
ملالہ یوسف زئی اور ڈاکٹر عبدالسلام اہل اسلام کے خلاف مغربی سازش ہیں مگر دودھ میں کیمیکل ملانے‘ مرچوں میں لکڑی کا برادہ مکس کرنے‘ جعلی دوائیں بنانے‘ غلط آپریشن کرنے‘ مریضوں کے گردے چوری کرنے‘ بے بس لوگوں کو سڑک پر کچلنے‘ زہریلی شراب کے ذریعے پچاس پچاس لوگوں کو قتل کرنے‘ مسجدوں‘ درگاہوں‘ یتیم خانوں اور قبرستانوں کے فنڈ کھانے‘ رشوت لینے‘ ملکی خزانہ لوٹنے‘ حاجیوں کا زاد راہ چرانے‘ خود کش حملوں کے ذریعے نمازیوں کو مارنے‘ شناختی کارڈ اور نام پڑھ کر گولی مارنے‘ بھتہ لینے‘ ٹارگٹ کلرز اور زمینوں کے قابضین عین مسلمان اور پاکستانی ہیں۔
ہم طالبان سے مذاکرات کرتے ہیں لیکن ملالہ یوسف زئی کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے ڈرتے ہیں‘ ملالہ غدار ہے اور اسلام کے نام پر قتل کرنے والے محب وطن‘ مجھے یقین ہے اگر ڈاکٹر عبدالسلام عام لیکچرر بن کر زندگی گزارنا چاہتے‘ یہ سائیکل اسٹینڈ کے چوکیدار بن جاتے یا فٹ بال ٹیم کے کوچ‘ ہاسٹل وارڈن اور کالج کی پرچیزنگ کمیٹی کے کرپٹ سربراہ ہوتے تو ہمیں ان کے قادیانی ہونے کے باوجود ان پر کوئی اعتراض نہ ہوتا اور یہ پیسے لے کر خواہ نالائق طالب علموں کو جعلی ڈگریاں دیتے رہتے یا پھر ملک کے کروڑوں اربوں روپے کھا جاتے ہمیں ان پر کوئی اعتراض نہ ہوتا اور اگر ملالہ یوسف زئی بھی سوات کی دوسری بچیوں کی طرح گائے اور بھیڑ بکریاں چراتی رہتی اور اگر 15 سال کی عمر میں دوسری بچیوں کی طرح اس کی شادی بھی کر دی جاتی تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر یہ کیونکہ ہمارے بچوں سے کئی گنا ٹیلنٹڈ نکلی اور اللہ تعالیٰ نے اسے عالمگیر عزت سے نوازدیا چنانچہ یہ اب یہودی ایجنٹ بھی ہے اور مغرب کی ہم جیسے عظیم لوگوں کے خلاف سازش بھی لہٰذا یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔
ہم بونے ہیں اور بونے ہر قدآور شخص سے حسد کرتے ہیں‘ یہ اس کے خلاف ہوتے ہیں‘ ہم نے کل ڈاکٹر عبدالسلام کو پاکستان میں نہیں گھسنے دیا تھا اور ہم اب نوبل انعام پانے کے بعد ملالہ کو بھی پاکستان نہیں آنے دیںگے‘ یہ بیچاری بھی اب پاکستان نہیں آ سکے گی‘ یہ ملک کو ترستے ترستے مر جائے گی۔
شاردا۔ قدیم ترین یونیورسٹی
جاوید چوہدری جمعرات 16 اکتوبر 2014

کیرن کا ریسٹ ہاؤس دریائے نیلم کے کنارے بھارتی مقبوضہ علاقے کے بالکل سامنے تھا‘ ہمارے کمرے کی کھڑکی اور ٹیرس سے مقبوضہ کشمیر کے مکانات‘ کیرن کی جامع مسجد اور بھارتی پوسٹیں نظر آتی تھیں‘ یہ ریسٹ ہاؤس آزاد کشمیر کے محکمہ سیاحت کی ملکیت ہے‘ وادی نیلم کے انچارج غلام مرتضیٰ ملک ہیں‘ یہ سادہ طبیعت اور دھیمے مزاج کے انسان ہیں‘ خدمت گزار ہیں‘ ملک اور وادی نیلم دونوں کے لیے پریشان رہتے ہیں‘ ریسٹ ہاؤس کے لان میں سیب‘ ناشپاتی اور اخروٹ کے بیسیوں درخت ہیں۔
یہ درخت پھلوں سے لدے تھے‘ میں نے زندگی میں پہلی بار درخت سے سیب اور اخروٹ توڑ کر کھائے‘ آپ نے اگر زندگی میں تازہ اخروٹوں اور سیبوں کا مزہ نہیں چکھا تو آپ پھر بہت بڑے تجربے سے محروم ہیں اور آپ کو پہلی فرصت میں یہ تجربہ کرنا چاہیے‘ پاکستانی علاقے میں کھڑے ہو کر مقبوضہ مسجد سے اذان کی آواز سننا بھی ایک تجربہ تھا‘ مقبوضہ کشمیر کا مؤذن بھارتی توپوں کے سائے میں اللہ اکبر‘ اللہ اکبر کی صدا لگا رہا تھا اور ہم سرحد کے پار کھڑے ہو کر اللہ کا یہ پیغام سن رہے تھے‘ دنیا کی ساری فوجیں سرحدوں پر قابض ہو سکتی ہیں‘ یہ انسانوں کے راستوں میں رکاوٹیں بھی کھڑی کر سکتی ہیں لیکن یہ پرندوں‘ ہواؤں اور اذانوں کی آوازیں نہیں روک سکتیں‘ مجھے اس وقت محسوس ہوا مقبوضہ کشمیر کے مسلمان پابند ہیں لیکن بھارتی فوجی کوشش کے باوجود اذانوں کو نہیں روک سکے‘ یہ کل بھی آزاد تھیں‘یہ آج بھی آزاد ہیں اور یہ کل بھی آزاد رہیں گی۔
شاردا کیرن کے بعد ہماری اگلی منزل تھی‘ یہ علاقہ ہندو مت میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو اسلام میں مکہ مکرمہ‘ عیسائیت میں ویٹی کن سٹی اور یہودیت میں یروشلم کو حاصل ہے‘ ہندو مت میں شاردا علم و حکمت کی دیوی تھی‘ آپ اگر ہندومیتھالوجی سے واقف ہیں تو پھر آپ نے سراسوتی ندی کا ذکر ضرور سنا ہو گا‘ اس ندی کا پانی ہندوؤں میں اتنا ہی متبرک سمجھا جاتا ہے جتنا مسلمان آب زم زم اور عیسائی ہولی واٹر کو سمجھتے ہیں‘ یہ ندی سراسوتی جھیل سے نکلتی ہے اور یہ جھیل شاردا کے بعد ہندوؤں کے دوسرے مقدس ٹمپل ناردا کے پیروں میں موجود ہے اور یہ دونوں علاقے آزاد کشمیر میں ہیں‘ ہندوؤں نے تین ہزار سال قبل مسیح سے دو ہزار قبل مسیح میں ناردا اور شاردا کے مقامات پر شاندار ٹمپل تعمیر کیے‘ یہ ٹمپل فن تعمیر کے عظیم شاہکار ہیں‘ شاردا کیرن سے دو اڑھائی گھنٹے کی مسافت پر ہے۔
سڑک کی حالت بہت خراب تھی لیکن ہم اس کے باوجود شاردا پہنچے‘ یہ بھی پہاڑوں میں گھری ہوئی خوبصورت وادی ہے‘ آپ جوں ہی شاردا میں داخل ہوتے ہیں‘ آپ کو محسوس ہوتا ہے آپ جنت کے دروازے پر پہنچ گئے ہیں‘ وادی لکڑی کے معلق پل سے منسلک ہے‘ گاڑیاں ہچکولے کھاتی ہوئی پل پار کرتی ہیں‘ شاردا میں ملٹری کیمپ بھی ہے‘ آپ کو وہاں فوجی جوان نظر آتے ہیں‘ شاردا کا ٹمپل ملٹری کیمپ سے متصل ہے‘ سیاح باقاعدہ شناخت کے بعد ٹمپل تک پہنچتے ہیں‘ ٹمپل تک جانے کے لیے چبوتروں جیسی 63 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں‘ ہندوؤں میں 63 کا ہندسہ مقدس مانا جاتا تھا چنانچہ یہ مندر 63 سیڑھیوں کے بعد ٹیلے پر بنایا گیا‘ ٹمپل زمانے کی دست برد کا شکار ہے‘ دیواریں‘ چھتیں اور نقش نگار وقت کے پیٹ میں دفن ہو چکے ہیں لیکن مرکزی عبادت گاہ کی دیواریں تاحال قائم ہیں‘ مین گیٹ کی آرچ آدھی غائب ہے مگر عمارت کا شکوہ آج بھی باقی ہے‘ آپ کو قدیم پتھروں اور کائی زدہ دیواروں سے عظمت رفتہ کی صدا آج بھی سنائی دیتی ہے۔
یہ جگہ کبھی ہندوستان کا متبرک ترین مقام تھا‘ ٹمپل کے دائیں جانب پہاڑی نالہ رواں دواں تھا‘ یہ نالہ مدومتی کا تالاب کہلاتا تھا‘ ہندو یاتری شاردا پہنچ کر اس تالاب میں اشنان کرتے تھے اور اس کے بعد ننگے پاؤں 63 سیڑھیاں چڑھ کر ٹمپل آتے تھے‘ ٹمپل میں شاردا دیوی کا بت تھا‘ یہ بت ہوا میں معلق تھا اور چاند کی ہر 18 ویں تاریخ کو جھومتا تھا‘ پرانوں میں لکھا ہے جو شخص شاردا دیوی کے بت کو ہاتھ لگاتا تھا وہ چند لمحوں میں پسینے میں شرابور ہو جاتا تھا‘ یہ ٹمپل بعد ازاں ہندوستان کا مذہبی کمپلیکس بن گیا‘ بدھ مت آیا تو اس نے بھی اسے مرکز مان لیا‘ ٹمپل کے گرد یونیورسٹی بن گئی‘ یونیورسٹی میں ادب‘ طب‘ فلکیات‘ ہیت‘ نجوم اور فلسفے کی تعلیم دی جانے لگی‘ شاردا یونیورسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کی عمارتوں کے آثار آج بھی وادی کے مختلف پہاڑوں اور چٹانوں پر موجود ہیں‘ ٹمپل سے ایک کوس کے فاصلے پر کشن کھاٹی تھی‘ یہ روحانی غار تھا‘ ہندو پنڈت اور بودھ بھکشو 1947ء تک اس غار میں تپسیا کرتے تھے‘ یہ غار میں دم سادھ کر دو دو سال تک بیٹھے رہتے تھے۔
کھاٹی پر آج بھی مورتی کے آثار اور نقش موجود ہیں‘ شاردا تاریخ میں اس قدر اہم تھا کہ اس کا ذکر پرانوں میں بھی ملتا ہے‘ قدیم ہندو مؤرخین کی کتابوں میں بھی اور انگریز مؤرخین اور افسروں کے روزنامچوں میں بھی۔ آپ اگر ٹمپل کے صحن میں کھڑے ہوں اور آپ بائیں جانب دیکھیں تو آپ کو دور سفید برف پوش پہاڑ نظر آتے ہیں‘ ان پہاڑوں میں ناردا کا ٹمپل اور سراسوتی جھیل ہے‘ ہندو اور بودھ یاتری شاردا سے ننگے پاؤں ناردا جاتے تھے‘ ناردا کا ٹمپل نوگھنٹے کی پیدل مسافت پر ہے‘ یہ دونوں ٹمپل اس قدر مقدس ہیں کہ جنوبی ہندوستان کے ہندو آج بھی صبح اشنان کے بعد شاردا کی طرف منہ کر کے شاردا دیوی کو پرنام کرتے ہیں‘ یہ دونوں ٹمپل مذہبی سیاحت کے اہم ترین مراکز ہیں مگر حکومت نے کیونکہ آزاد کشمیر میں غیر ملکیوں کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے‘ کوئی غیر ملکی شخص این او سی کے بغیر آزاد کشمیر میں داخل نہیں ہوسکتا اور این او سی کا عمل بہت مشکل ہے لہٰذا ہم ان سیاحتی مقامات سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔
حکومت اگر اپنی پالیسی میں ذرا سی نرمی پیدا کرلے‘ یہ شاردا اور ناردا کے مقامات کو سیاحوں کے لیے کھول دے تو ہر سال ہزاروں لاکھوں بودھ اور ہندو ان مقامات کی زیارت کے لیے آ سکتے ہیں‘ اس سے علاقے میں بھی خوش حالی آئے گی اور سیاحت کی انڈسٹری بھی مضبوط ہو گی‘ دنیا اوپن ہو چکی ہے‘ آج اسرائیل تک مسلمانوں کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دے رہا ہے‘ بس اس کے لیے کسی اسرائیلی سیاحتی کمپنی کا پیکیج لینا ضروری ہے‘ پاکستان سے ہر سال سیکڑوں ہزاروں زائرین خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی درگاہوں پر حاضری کے لیے بھارت جاتے ہیں لیکن ہم 2014ء میں بھی دیواریں اونچی کر کے اندر محصور بیٹھے ہیں‘ ہم اگر بھارت کے ساتھ مل کر شاردا اور ناردا کے سیاحتی پیکیج بنا لیں تو اس سے دونوں ملکوں کی ٹینشن میں بھی کمی آجائے گی اور سیاحتی انڈسٹری بھی مضبوط ہوگی۔
شاردا کو قدرت نے حسن کی دولت سے نواز رکھا ہے‘ وادی میں دریائے نیلم بہتا ہے‘ ہندو اس دریا کو کشن گنگا کہتے تھے‘ بھارت اسی مناسبت سے دریائے نیلم کے ماخذ پر کشن گنگا ڈیم بنا رہا ہے‘ شاردا میں چاروں اطراف چیڑھ کے گھنے جنگل ہیں‘ جنگل میں آبشاریں‘ ندیاں اور جھیلیں ہیں اور ان جھیلوں‘ ندیوں اور آبشاروں پر تیز آوارہ ہوائیں اڑتی ہیں‘ آپ کو علاقے کی خوبصورتی مبہوت کر دیتی ہے لیکن جہاں تک ہماری ذہنی گندگی اور سماجی بے ترتیبی کا معاملہ ہے وہ تہذیب اور شائستگی کو بری طرح روند چکی ہے‘ ہم نے قدرت کی شاہکار وادی کو بدترین شکل میں تبدیل کر دیا ہے‘ پورے علاقے میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں۔
پلاسٹک کی بوتلیں‘ ریپر اور گتے کے ڈبوں کے انبار ہیں اور کیچڑ اس آلودگی کو بیماری میں تبدیل کر رہا ہے‘ میری محکمہ سیاحت‘ آزاد کشمیر حکومت اور فوج سے درخواست ہے آپ فوری طور پر شاردا ویلی کی صفائی کا بندوبست کریں‘ یہ وادی عملاً فوج کے پاس ہے‘ اگر ملٹری کیمپ کے انچارج مہربانی کریں‘ یہ مقامی آبادی کو ساتھ ملا کر وادی میں صفائی مہم شروع کریں اور ساتھ ہی سیاحوں کو سمجھانے کی ذمے داری اٹھالیں تو قدرت کا یہ شاہکار برباد ہونے سے بچ جائے گا ورنہ دوسری صورت میں یہ خوبصورت وادی تخلیق کرنے والا اللہ تعالیٰ ہمیں اس گناہ عظیم پر معاف نہیں کرے گا‘ جان شیر خان شاردا میں ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے انچارج ہیں‘ یہ بھی شاندار انسان ہیں‘ میں نے ان سے بھی صفائی کی درخواست کی‘ یہ بھی تیار ہیں بس ملٹری کیمپ کے انچارج کی طرف سے ایک قدم اٹھانے کی دیر ہے اور یہ وادی دوبارہ اپنے اصل مقام پر آ جائے گی۔
ہم شاردا سے واپس کیرن آئے‘ کیرن سے ایک سڑک اپر نیلم کی طرف جاتی ہے‘ آپ اس پر سفر کرتے ہوئے دس منٹ میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتے ہیں‘ پہاڑ پر درمیانے سائز کا ایک میدان ہے اور اس میدان میں نیلم گاؤں آباد ہے‘ میدان کے دائیں بائیں اور پیچھے بھی پہاڑ ہیں اور ان پہاڑوں کی اترائیوں پر سیکڑوں گھر آباد ہیں‘ یہ گھر‘ یہ اترائیاں اور یہ میدان نیلم ہیں‘ وہ نیلم جس کی وجہ سے یہ پورا علاقہ نیلم ویلی کہلاتا ہے‘ نیلم کے بالکل سامنے کیرن سیکٹر کے پہاڑ ہیں اور ان پہاڑوں پر بھارتی فوج کی توپیں لگی ہیں‘ نیلم ویلی کے باسی روز کیرن کے پہاڑ دیکھتے ہیں‘ چیڑھ کے درختوں میں چھپی توپوں کو محسوس کرتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں ۔
اگر یہ توپین بول پڑیں تو ہمارا کیا بنے گا؟یہ اندیشہ درست ہے کیونکہ ایل او سی کے دونوںطرف ہمارے لوگ آباد ہیں‘ ہمارے فوجی احتیاط سے گولی چلاتے ہیں جب کہ بھارتی فوج کی نظر میں ادھر بھی دشمن ہیں اور ادھر بھی دشمن لہٰذا یہ جب بھی فائرنگ کرتے ہیں اندھا دھند کرتے ہیں اور اس فائرنگ سے بیسیوں لوگ شہید ہو جاتے ہیں‘ ہماری پوزیشن ’’ایل او سی‘‘ پر ہمیشہ حساس ہوتی ہے‘ ہمارے فوجی اندھا دھند فائرنگ نہیں کر سکتے اور بھارت ہمیشہ ہماری کمزور پوزیشن کا فائدہ اٹھاتا ہے‘ کاش امن ہو جائے‘ کاش کشمیریوں کو بھی سانس کی مہلت مل جائے‘ کاش ہم کشمیر کا کوئی پرامن حل نکال لیں۔

وادی نیلم سے
جاوید چوہدری پير 13 اکتوبر 2014

میں عید کے تیسرے دن آزاد کشمیر کی نیلم ویلی چلا گیا‘ میرے بچے بھی میرے ساتھ تھے‘ ہم اسلام آباد سے نکلے اور چار گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد مظفر آباد پہنچے‘ سڑک بہت خراب تھی‘ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سڑک جگہ جگہ سے غائب تھی ‘ ہم شام کے وقت مظفر آباد پہنچے‘ مظفر آباد میں ایک ہی فائیوسٹار ہوٹل ہے‘ یہ ہوٹل خوبصورت مقام پر بنایا گیا‘ آپ کو چاروں طرف سے شہر دکھائی دیتا ہے‘ ہوٹل کی بالکونیوں‘ لانوں اور کمروں کی کھڑکیوں سے مظفر آباد یورپ کا حصہ دکھائی دیتا تھا‘ دھوپ چھتوں پر باقی تھی‘ لوہے کی چھتیں چمک رہی تھیں‘ زلزلے کو گزرے نو سال ہو چکے ہیں مگر زلزلے کے اثرات ابھی تک شہر میں موجود ہیں‘ سڑکیں مکمل نہیں ہوئیں‘ لوگوں کے چہروں پر خوف بھی آج تک باقی ہے۔
آپ کسی سے خیریت پوچھیں اس کے چہرے پر خوف کا سایہ آ جائے گا‘ وہ دائیں بائیں دیکھے گا اور پھر جواب دے گا‘ شہر میں سڑکوں کی تعمیر اور اڑتی ہوئی دھول ہماری نالائقی کا منہ بولتا ثبوت تھا‘ دنیا نے 2005ء کے زلزلے کے بعد دل کھول کر ہماری مدد کی لیکن یہ مدد کرپٹ نظام کے معدوں میں چلی گئی‘ ہم آج تک مظفر آباد کو بحال نہیں کر سکے‘ ہمارے مقابلے میں وہ ممالک جنہوں نے براہ راست پیسے دینے کے بجائے تعمیراتی منصوبے شروع کیے تھے‘ وہ کام مکمل کر کے سات سال قبل پاکستان سے جا چکے ہیں جب کہ ہم ابھی تک جوتے تلاش کر رہے ہیں‘ میری وزیراعظم میاں نواز شریف اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے درخواست ہے‘ یہ فوری طور پر میٹنگ کریں اور فیصلہ کریں اگلے سال زلزلے سے متعلق تمام منصوبے ہر صورت مکمل ہو جائیں گے۔ دس سال بعد ہی سہی لیکن کم از کم زلزلے کی فائل ضرور بند ہونی چاہیے۔
ہم اگلے دن کیرن روانہ ہو گئے‘ مظفر آبادکے دو مقامی صحافی راجہ وسیم اور مرزا اورنگ زیب ہمارے گائیڈ تھے‘ یہ دونوں پڑھے لکھے اور متحرک نوجوان ہیں‘ ہم دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ بلندی کی طرف سفر کر رہے تھے‘ راستے میں ’’نیلم جہلم پراجیکٹ‘‘ آیا‘ بجلی کا یہ منصوبہ 17برس تک ہماری روایتی سستی کا شکار رہا‘ موجودہ حکومت نے اس پر خصوصی توجہ دی‘ اس منصوبے پر اب دن رات کام ہو رہا ہے‘ یہ اگر وقت پر مکمل ہو گیا تو لوڈ شیڈنگ میں خاصی کمی آ جائے گی‘ میں نے گاڑی کی کھڑکی سے نیلم جہلم پراجیکٹ دیکھا اور میں کشمیریوں کی وسعت قلبی اور وژن کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا‘ منگلا ڈیم ہو یا نیلم جہلم پراجیکٹ کشمیری عوام نے کبھی کسی تعمیری منصوبے کو تعصب کی نظروں سے نہیں دیکھا‘ انھوں نے ہمیشہ خوش دلی سے ملکی منصوبوں کی اجازت دی جب کہ ہم چالیس سال سے کالا باغ ڈیم پر لڑ رہے ہیں۔
ہم اس سے تعصب کا زہر نہیں نکال سکے‘ کاش ہم کشمیریوں ہی سے دل کھلا رکھنے کا ہنر سیکھ لیں‘ نیلم ویلی کے راستے میں ٹیٹوال کا گاؤں آتا ہے‘ ٹیٹوال کے دو حصے ہیں‘ ایک حصہ آزاد کشمیر میں شامل ہے جب کہ دوسرا حصہ مقبوضہ کشمیرکے قبضے میں ہے‘ درمیان میں سوفٹ کا دریائے نیلم بہتا ہے‘ ہم لوگ وہاں رک گئے‘ دریا کے دوسری طرف بھارتی ٹیٹوال تھا‘ دور دور تک گھر بکھرے تھے‘ سامنے اسکول کی عمارت تھی‘ عمارت پر بھارتی جھنڈا لہرا رہا تھا‘ میدان میں باسکٹ بال کے پول لگے تھے‘ لوگ بھی چل پھر رہے تھے‘ بھارتی حکومت نے آزاد کشمیر کے لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے بھاری سرمایہ لگا کر ٹیٹوال قصبے کو ’’سوئس لک‘‘ دے دی جب کہ ہماری سائیڈ سے غربت اور بے ترتیبی جھلکتی تھی‘ پاکستانی اور بھارتی دونوں اطراف پر دریا کے کنارے چٹانوں کاچھوٹا سا سلسلہ تھا‘یہ چٹانیں کشمیریوں کا ’’کمیونیکیشن نیٹ ورک‘‘ ہیں‘ پاکستان اور بھارت دونوں سائیڈز پر موبائل فون سروس نہیں چنانچہ عید اور شب رات جیسے تہواروں پر دونوں سائیڈوں کے کشمیری ان چٹانوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور اونچی آواز میں ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتے ہیں‘ یہ خط لکھ کر پتھر میں لپیٹ کر بھی ایک دوسرے کی طرف پھینکتے ہیں۔
دونوں طرف فوجی مورچے ہیں‘ فوجیں مورچوں سے ان لوگوں کی نگرانی کرتی ہیں‘ یہ انتہائی جذباتی جگہ ہے‘ یہاں ہر سال ایسے درجنوں واقعات پیش آتے ہیں جو سنگدل سے سنگدل انسان کو تڑپا دیتے ہیں‘ لوگ اپنے عزیزوں کو سامنے دیکھ کر تیز رفتاردریا میں چھلانگ لگا دیتے ہیں‘ یہاں کے لوگ ایک ماں اور اس کے دو بیٹوں کا قصہ سناتے ہیں‘ ماں مقبوضہ علاقے میں تھی اور بیٹے آزاد علاقے میں۔ یہ عید پر ایک دوسرے کو دیکھنے آئے‘ ماں نے بچوں کو دیکھا تو فرط جذبات میں دریا میں چھلانگ لگا دی‘بیٹے بھی بے تاب ہو گئے‘ وہ بھی پانی میں کود گئے اوریوں تینوں بہہ کر ماضی کا قصہ بن گئے‘ ٹیٹوال میں لکڑی کا ایک پل بھی ہے‘ یہ پل آدھا پاکستان میں ہے اور آدھا بھارت میں‘ درمیان میں سفید لکیر لگا کر اسے تقسیم کیا گیا ہے‘ دونوں حکومتیں پرمٹ دے کر ہر سال چند درجن کشمیریوں کو یہ پل پار کرنے کی اجازت دیتی ہیں‘ پرمٹ کا عمل بہت مشکل ہے‘ کشمیری اسے آسان دیکھنا چاہتے ہیں‘سڑک ٹیٹوال سے لوات تک لائین آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
ہم نے کھلی آنکھوں سے بھارتی فوجیوں کو مورچوں سے جھانکتے اور ایل او سی پر چہل قدمی کرتے دیکھا‘ بھارتی پوسٹیں بھی صاف نظر آتی ہیں‘ یہ سڑک 2003ء تک ناقابل استعمال تھی‘ دونوں طرف سے بھاری گولہ باری اور فائرنگ ہوتی تھی‘ مقامی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہو چکی تھی‘ جنرل پرویز مشرف نے 2003ء میں اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ مل کر ایل او سی پر امن قائم کر دیا‘ نیلم میں امن ہوا‘ لوگ آزادانہ نقل و حرکت کرنے لگے‘ آج نیلم روڈ پر ٹریفک رواں دواں رہتی ہے‘ مورچے موجود ہیں لیکن فائرنگ نہیں ہوتی‘ لوگ جنرل مشرف کو روزانہ ہزاروں دعائیں دیتے ہیں‘ عید کے دنوں میں چاروا‘ سجیت گڑھ‘ ہرپال‘ بجوات‘ شکرگڑھ اور چپراڑ کی ایل او سی پر لڑائی شروع ہو گئی‘ لڑائی کی خبریں نیلم پہنچیں تو لوگ پریشان ہو گئے‘ لوگ یہاں امن چاہتے ہیں‘ یہ پندرہ برس بعد علاقے میں سیٹل ہوئے ہیں‘ یہ دوبارہ اپنے گھر بار نہیں چھوڑنا چاہتے‘ لوگوں کا خیال ہے اگر لڑائی نہ رکی تو نیلم کا محاذ بھی ایکٹو ہو جائے گا اور اس سے نیلم ویلی کے لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے۔
اب سوال یہ ہے بھارت ایل او سی پر چھیڑ چھاڑ کیوں کر رہا ہے؟ اس کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ نریندر مودی ہیں‘ بھارت میں پاکستان مخالف عناصر بھاری تعداد میں موجود ہیں‘ نریندر مودی ایل او سی ایکٹو کر کے ان کے ہیرو بن رہے ہیں‘ یہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کر رہے ہیں‘ دوسری وجہ‘ ہماری فوج ضرب عضب میں مصروف ہے‘ پاکستانی طالبان کو بھارتی پشت پناہی حاصل ہے‘ فوج شمالی وزیرستان میں نوے فیصد کامیابی حاصل کر چکی ہے‘ بھارت پاکستان مخالف طاقتوں کو زندہ رکھنا چاہتا ہے چنانچہ اس نے پاک فوج کی توجہ بٹانے کے لیے مشرقی بارڈر ایکٹو کر دیا‘ ہمارے چند ناعاقبت اندیش لیڈر حکومت کو ٹارزن بننے کے مشورے دے رہے ہیں‘ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے میاں نواز شریف ان لوگوں کے دباؤ میں نہیں آ رہے کیونکہ میاں نواز شریف کی طرف سے ایک جذباتی بیان کی دیر ہے اور پاک بھارت سرحد پر جنگ شروع ہو جائے گی۔
ہم اس کے ساتھ ہی شمالی وزیرستان سے فوجیں واپس بلانے پر مجبور ہو جائیں گے اور یوں ہمیں مغربی سرحد سے طالبان اور افغان ماریں گے اور مشرقی سرحد سے بھارت۔ انڈیا یہی چاہتا ہے‘ہم ایک بیان سے بھارت کا پورا منصوبہ کامیاب بنا دیں گے‘ وزیراعظم اور فوجی قیادت کو حالات کی نزاکت سمجھنی چاہیے‘ ہمیںجنگ کے بجائے جنگ بندی پر توجہ دینی چاہیے‘ ہمارا ضرب عضب پر فوکس رہنا چاہیے‘ ہم نے یہ موقع گنوا دیا تو پھر ہم کبھی دہشت گردی کی جنگ سے باہر نہیں نکل سکیں گے اور آخری وجہ‘ بھارت پاکستان کو جمہوریت کے راستے پر چلتا نہیں دیکھنا چاہتا‘ بھارتی تھنک ٹینکس جانتے ہیں پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو گئی تو پاکستان ترقی کرے گا اور یہ بھارت کو قبول نہیں چنانچہ بھارت نے سیاسی مسائل کی شکار حکومت کے لیے نیا تنازعہ کھڑا کر دیا‘ وزیراعظم اب خاموش رہتے ہیں تو ان کی گرتی ہوئی ساکھ کو نقصان پہنچے گا اور یہ اگر بول پڑتے ہیں تو بھی ان کے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا‘ نریندر مودی نے پاکستانی جمہوریت کے خلاف ایک جال بچھا دیا ہے‘ میاں نواز شریف کی ایک غلطی انھیں 12 اکتوبر 1999ء کی طرف لے جائے گی چنانچہ احتیاط لازم ہے کیونکہ لوکل دھرنے کو اب انٹرنیشنل پولیٹیکل سپورٹ بھی مل رہی ہے۔
میں واپس نیلم وادی کی طرف آتا ہوں‘ ٹیٹوال سے ہمارا اگلا پڑاؤ کیرن تھا‘کیرن ایک لائف ٹائم تجربہ ہے‘ پاکستان کے ہر باشعور شخص کو زندگی میں ایک بار کیرن ضرور جانا چاہیے‘ یہ پہاڑوں میں گھری ہوئی سرسبز اور شاداب وادی ہے‘ آپ کو چاروں اطراف سے بلند و بالا پہاڑ گھیر لیتے ہیں‘ آپ دریائے نیلم کے کنارے کھڑے ہو جائیں‘ آپ کے بالکل سامنے دریا کے دوسرے کنارے مقبوضہ کشمیر ہے‘ بھارتی مورچے پتھر پھینکنے کے فاصلے پر ہیں‘ دریا کا ایک کنارہ پاکستان ہے اور دوسرا کنارہ بھارت (مقبوضہ کشمیر)۔ آپ کو دوسری طرف فصلیں بھی دکھائی دیتی ہیں‘ مکان بھی‘ مال مویشی بھی اور چمنیوں سے نکلتا ہوا دھواں بھی اور آپ کی ناک کے بالکل سامنے لکڑی کی خوبصورت مسجد بھی ہوگی۔
اذان ادھر ہوتی ہے اور نماز ادھر‘لوگ آواز وہاں سے لگاتے ہیں اور جواب ادھر سے آتا ہے‘ دریا آپ کے دائیں بازو گھومتا ہے‘ مقبوضہ علاقہ بھی دریا کے ساتھ دائیں گھوم کر آپ کو گھیر لیتا ہے‘ آپ خود کو نیم دائرے میں گھرا ہوا محسوس کرتے ہیں‘ آپ کے سامنے اور دائیں جانب بھارت ہے اور پیچھے اور بائیں جانب پاکستان اور آپ وہاں یقین اور بے یقینی کے عالم میں پریشان کھڑے رہ جاتے ہیں اور میں بھی وہاں پریشان کھڑا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی آزاد کشمیر کہاں ہے اور مقبوضہ کشمیر کہاں ہے؟ میرے سامنے بھی فوجی تھے اور پیچھے بھی‘ مجھے محسوس ہوا مجھے سامنے سے بھی گولی ماری جا سکتی ہے اور پیچھے سے بھی‘ میں ہر لحاظ سے ’’ان دی لائین آف فائر‘‘ تھا۔

شہید حکیم محمد سعید کی یاد میں
جاوید چوہدری ہفتہ 11 اکتوبر 2014

کیلنڈر پر جب بھی اکتوبر طلوع ہوتا ہے‘ میرے دل کی دھڑکنیں رک سی جاتی ہیں اور حکیم سعید صاحب کی یادوں کی ریت آنکھوں کی پتلیوںپر رگڑ کھانے لگتی ہے۔ میں حکیم صاحب سے نومبر 1993ء میں پہلی بار ملا تھا‘ حکیم صاحب کے ہونٹوں پر ایک طلسماتی مسکراہٹ اور ہاتھوں میں خوشبودار گرمائش تھی۔ میں اس وقت ایک عام‘ معمولی صحافی تھا جب کہ حکیم سعید عالمی شخصیت، مگر حکیم صاحب نے اپنائیت سے میری طرف دیکھا اور ان کے ساتھ زندگی بھر کا تعلق پیدا ہو گیا۔
میں عام زندگی میں ایک غیر سنجیدہ اور کیئرلیس انسان ہوں‘ میں زیادہ دیر تک خاموش اور با ادب نہیں بیٹھ سکتا جب کہ حکیم صاحب کی محفل میں ایک مقدس اور متبرک سی خاموشی ہوتی تھی مگر اس تضاد کے باوجود ان کے ساتھ میری دوستی ہو گئی‘ حکیم صاحب نے میری غیر سنجیدگی کے ساتھ خاموش سمجھوتا کر لیا۔ وہ شروع شروع میں میری غیر سنجیدہ باتوں پر خاموش رہتے تھے‘ پھر انھوں نے اس میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔
اس کے بعد وہ ان سے لطف لینے لگے اور آخر میں انھوں نے میری غیر سنجیدگی کو قبول کر لیا۔ مجھے ان دنوں شوگر کا مرض لاحق ہو گیا‘ میں حکیم صاحب کے پاس حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا ’’حکیم صاحب مجھے شوگر ہو گئی ہے‘ میں کیا کروں‘‘ انھوں نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور بولے ’’کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ چھوٹی سی بیماری ہے یہ تمہارا کیا بگاڑ لے گی‘‘ میں نے عرض کیا ’’حکیم صاحب میں بیماری سے خوفزدہ نہیں ہوں‘ میں اندیشے میں مبتلا ہوں‘‘ فرمایا ’’کیا مطلب‘‘ میں نے عرض کیا ’’جناب میں نے سنا ہے شوگر کے مریض اعصابی کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں اور میں اس کیفیت سے بہت ڈرتا ہوں‘‘ حکیم صاحب نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور میرے ساتھ ہاتھ ملا کر بولے ’’یار میرا بھی یہی مسئلہ ہے‘ ‘ میری ہنسی نکل گئی اور میں نے عرض کیا ’’حکیم صاحب چلیے پھر دونوں مل کر کوئی حکیم تلاش کرتے ہیں‘‘ حکیم صاحب بڑی سنجیدگی سے بولے ’’بالکل ٹھیک ہے‘ کوئی حاذق حکیم تلاش کرتے ہیں‘‘۔
دنیا میں کوئی شخص اس وقت تک بڑا انسان نہیں بن سکتا جب تک اس میں تین خوبیاں نہ ہوں‘ ایک‘ اس میں حس مزاح نہ ہو۔ دو‘ اس میں جمالیاتی حس نہ ہو اور تین‘ اس کی ذات میں رومانویت نہ ہو۔ حکیم صاحب میں یہ تینوں خوبیاں موجود تھیں۔ وہ خوشگوار مزاج کے انسان تھے‘ آپ ان کی محفل میں بیٹھ کر بور نہیں ہوتے تھے‘ ان کی طبیعت میں حس جمال خون بن کر دوڑتی تھی‘ وہ صاف ستھرا اور شفاف لباس پہنتے تھے‘ حکیم صاحب کی گفتگو تک میں کوئی سلوٹ نہیں ہوتی تھی‘ حکیم صاحب کے فقرے ایسے ہوتے تھے جیسے ابھی ابھی دھوبی کے گھاٹ سے دھل کر‘ استری ہو کر آئے ہیں‘ لفظوں کا چناؤ ایسا جیسے ان کے تمام لفظوں نے عطار کی دکان میں آنکھ کھولی ہے اور آپ کے دائیں بائیں ماحول میں نفاست کے انبار۔ رہ گئی رومانویت تو آپ شاعر کا دل‘ مصنف کی آنکھ اور موسیقار کا احساس لے کر پیدا ہوئے تھے۔
آپ حکیم صاحب کی تحریریں پڑھیں‘ آپ کو ان کے ایک ایک فقرے میں رومانویت کی ہلکی ہلکی تپش اور جذبوں کی بھینی بھینی خوشبو ملے گی۔ حکیم صاحب کی رومانویت اور عام انسانوں کی رومانویت میں فرق تھا‘ عام لوگ اس جذبے کو لیلاؤں کی گلیوں میں ’’رول‘‘ دیتے ہیں جب کہ حکیم صاحب نے اپنے اس جذبے کو ملک‘ قوم اور ملت کے ساتھ وابستہ کر کے اسے عبادت گاہ کی شکل دے دی چنانچہ حکیم صاحب کی رومانویت قوم کی کردار سازی کا فرض ادا کرتی نظر آتی ہے۔ امریکا کے ایک ادارے نے دس برس قبل دنیا کے ایک ہزار نو سو ایک کامیاب لوگوں کی عادتوں کی ایک فہرست بنائی تھی‘ ان تمام کامیاب لوگوں میں سات عادتیں مشترک تھیں‘ یہ لوگ وقت کے پابند تھے‘ حکیم صاحب بھی وقت کی بے انتہاء پابندی کرتے تھے‘ ان کے دس بجے ٹھیک نو بج کر 59 منٹ پر بجتے تھے‘ وقت کے معاملے میں گھڑی کی سوئیاں دھوکا کھا سکتی تھیں لیکن حکیم صاحب کے معمولات میں لغزش نہیں آتی تھی‘ دنیا کے کامیاب لوگ کام کو کام سمجھتے تھے‘ حکیم صاحب کام کو ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔
انھوں نے لاکھوں خطوط کا جواب اپنے ہاتھ سے دیا تھا‘ وہ گاڑی میں ہوں‘ جہاز میں یا پھر کسی تقریب میں وہ مسلسل لکھتے رہتے تھے‘ وہ سندھ کے گورنر بھی تھے تو معمول کے مطابق مریضوں کا معائنہ کرتے تھے۔ حکیم صاحب نے مختصر سی زندگی میں اتنے ادارے قائم کیے جتنے ہزاروں لوگ مل کر سیکڑوں برسوں میں قائم نہیں کر پاتے۔ دنیا کے کامیاب لوگ ایماندار ہوتے ہیں‘ حکیم صاحب کی ایمانداری ایمان کو چھوتی تھی‘ حکیم صاحب نے پوری دنیا میں کوئی ذاتی جائیداد نہیں بنائی‘ آپ کا اربوں روپے کا ادارہ ہمدرد پاکستان کے نام وقف ہے۔ وہ اپنی بیٹی سعدیہ راشد کے گھر میں ایک کمرے میں رہتے تھے اور اس کا بھی باقاعدہ کرایہ ادا کرتے تھے‘ سندھ کے گورنر تھے‘ لاہور میں مریضوں کے معائنے کے لیے آتے تھے تو ذاتی جیب سے اکانومی کلاس کا ٹکٹ خریدتے تھے‘ خود اکانومی میں بیٹھتے تھے اور ان کے ملٹری سیکریٹری فرسٹ کلاس میں سفر کرتے تھے‘ ملٹری سیکریٹری کو شرم آتی تھی لیکن آپ انھیں کہتے تھے ’’بیٹا آپ میرے لیے اپنا اسٹیٹس خراب نہ کریں‘ میں ذاتی کام سے سفر کر رہا ہوں‘ آپ اپنی ڈیوٹی دے رہے ہیں‘ آپ اپنے اسٹیٹس کے مطابق رہیں‘ مجھے اپنے اسٹیٹس کے مطابق رہنے دیں‘‘۔
لاہور اترتے تھے تو ہمدرد ادارے کی سوزوکی کار میں مطب جاتے تھے‘ کراچی میں بھی ذاتی کاموں کے لیے ذاتی کار استعمال کرتے تھے‘ دنیا کے کامیاب لوگوں میں عاجزی تھی‘ حکیم صاحب بھی انکسار سے بھرے ہوئے تھے‘ وہ کسی تقریب میں جاتے تو ریکارڈ سے اس علاقے کے مریضوں کے ایڈریس نکلوا کر ساتھ لے جاتے اور جاتے اور آتے ہوئے مریضوں کے گھر جا کر ان کی خیریت معلوم کرتے‘ بچوں تک سے جھک کر ملتے تھے‘ انھوں نے کبھی ڈرائیور کو ڈرائیور اور چپڑاسی کو چپڑاسی نہیں سمجھا‘ وہ سب کو انسان سمجھتے تھے اور انھیں اشرف المخلوقات کا درجہ دیتے تھے۔
دنیا کے کامیاب لوگ بے لوث تھے‘ حکیم صاحب کو بھی لالچ اور ترغیب چھو کر نہیں گزری تھی‘ انھوں نے جو کچھ کمایا ملک کے نام کر دیا‘ کراچی کے مضافات میں اسکول قائم کیا اور ڈاکوؤں کے دیہات میں جا کر ان کے بچوں کو مفت تعلیم دینا شروع کر دی‘ اس ملک میں جس میں ہر زورآور کے دامن پر کسی نہ کسی این آر او کا داغ ہے اس میں حکیم سعید واحد انسان تھے جن کے شفاف دامن کی قسم فرشتے بھی کھا سکتے ہیں۔ دنیا کے کامیاب لوگ بہادر تھے‘ حکیم صاحب کے لہو میں بہادری سرخی کی حیثیت رکھتی تھی‘ ان کی شہادت بھی بہادری کی وجہ سے ہوئی تھی‘ انھوں نے ملک کے ان طبقوں کو للکارنا شروع کر دیا تھا جن کی طرف قانون تک آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا‘ آپ کو رفقاء نے سمجھایا تو آپ نے جواب دیا ’’میں نہیں بولوں گا تو کون بولے گا‘‘ اور دنیا کے کامیاب لوگوں کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا‘ حکیم صاحب بھی جو کہتے تھے وہ کرتے تھے اور جو کرتے تھے اسی کی تبلیغ فرماتے تھے‘ ان کی ذات میں قول اور فعل جڑواں بھائیوں کی طرح دکھائی دیتے تھے۔
مجھے یاد ہے 17 اکتوبر 2009ء کو لاہور میں حکیم سعید کی 11 ویں برسی منائی گئی‘ میں بھی اس تقریب میں شریک تھا‘ تقریب کی نظامت ٹیلی ویژن کے مشہور کمپیئر نورالحسن نے کی‘ نورالحسن نے تقریب کے آخر میں فرمایا ’’ہم 17 کروڑ لوگ حکیم سعید صاحب کی صاحبزادی محترمہ سعیدہ راشد سے معافی مانگتے ہیں کہ ہم حکیم صاحب کے قاتلوں کو سزا نہیں دے سکے‘‘ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کیونکہ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو گی حکیم سعید 17 اکتوبر 1998ء کو کراچی میں شہید ہوئے‘ ان کے قتل کے الزام میں لوگ پکڑے گئے لیکن صدر پرویز مشرف کے این آر او کی وجہ سے ان لوگوں کا جرم بھی معاف کر دیا گیا‘ یہ لوگ بھی این آر او کی واشنگ مشین میں دھو دیے گئے اور اس ظلم پر ہماری پارلیمنٹ کے کسی رکن نے آواز نہیں اٹھائی۔ کیا یہ حکیم صاحب کی شہادت سے بڑی بدقسمتی نہیں…! ہم سب واقعی اس قابل نہیں ہیں کہ حکیم سعید صاحب جیسے انسان ہمارے درمیان ہوتے کیونکہ حکیم سعید حضرت امام حسین ؓ کے قافلے کے بچھڑے ہوئے رکن تھے اور حضرت امام حسین ؓ کے قافلے کے لوگ کبھی کوفے میں قیام نہیں کیا کرتے۔

عاشق نہیں امتی
جاوید چوہدری اتوار 5 اکتوبر 2014

ہم جب تک نبی اکرم ﷺ سے اپنی آل‘ اولاد‘ مال‘ دولت اور جان سے زیادہ محبت نہ کریں ہم اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے‘ یہ دنیا کے ہر مسلمان کا ایمان ہے‘ ہماری زندگی عشق رسولﷺ سے شروع ہوتی ہے اور عشق رسولﷺ پر ختم ہو جاتی ہے۔
دنیا کا شائد ہی کوئی مسلمان ہو گا جس کی آنکھیں نبی رسالتﷺ کے ذکر پر نم نہ ہوں اور جس کا دل ذکر رسولﷺ پر تڑپتا نہ ہو‘ میں ان حضرت احمد رضا خاں بریلوی ؒ کا ماننے والا ہوں جنھوں نے فرمایا تھا ’’میں اللہ کو اللہ اس لیے مانتا ہوں کہ اسے حضرت محمدﷺ اللہ کہتے ہیں‘‘ میں حضرت اویس قرنی ؓ کو اپنا رول ماڈل سمجھتا ہوں جو زندگی بھر نبی اکرمﷺ کی زیارت نہیںکر سکے لیکن عشق رسولؐ نے انھیں صحابی کے درجے پر فائز کر دیا‘ جو عشق رسولﷺ میں اس مقام تک چلے گئے کہ انھیں کسی نے بتایا جنگ احد میں آپؐ کا دانت مبارک شہید ہو گیا‘ حضرت اویس قرنی ؓ نے اپنے تمام دانت توڑ دیے اور جن کا عشق انھیں اس مرتبے تک لے گیا کہ آپؐ نے اپنا خرقہ مبارک حضرت اویس قرنی ؓ کو عنایت کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی فرمایا جو شخص انھیں یہ خرقہ دینے جائے وہ ان سے امت کی مغفرت کے لیے دعا کرائے۔
میں عشق رسولﷺ میں حضرت بلالؓ کی تقلید کا قائل بھی ہوں‘ آپؐ کا وصال ہوا تو آپؓ کے حلق سے اذان نہیں نکلتی تھی‘ آپؓ اذان دینے لگتے تھے تو اشہد ان محمد الرسول اللہ پر پہنچ کر آپؓ کی آواز آنسوؤں میں ڈوب جاتی تھی اور یہ آپؓ کے عشق کی معراج تھی جب حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت خالدؓ بن ولید کی گرفتاری کا فیصلہ کیا تو آپ ؓ کو پورے عالم اسلام میں حضرت بلالؓ واحد شخص دکھائی دیے جو اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالار کوخلیفہ کا حکم بھی پہنچا سکتے تھے اور اس حکم پر عملدرآمد بھی کرا سکتے تھے چنانچہ حضرت بلالؓ خلیفہ کا پیغام لے کر حضرت خالدؓ بن ولید کے پاس پہنچے‘ سپہ سالار کو گھوڑے سے نیچے اترنے کا حکم دیا‘ حضرت خالدؓبن ولید چپ چاپ گھوڑے سے اترآئے۔
حضرت بلالؓ نے انھیں اپنے ہاتھ آگے بڑھانے کا حکم دیا‘ حضرت خالدؓ نے اپنے دونوں ہاتھ حضرت بلالؓ کے سامنے کر دیے‘ آپؓ نے حضرت خالدؓ بن ولید کی پگڑی کھولی‘ اس پگڑی سے حضرت خالدؓ بن ولید کے دونوں ہاتھ باندھے اور فرمایا ’’تم خلیفہ کے حکم سے گرفتار ہو چکے ہو‘ تم اب مسلمانوں کے سپہ سالار بھی نہیں رہے‘‘ اور حضرت خالدؓ بن ولید سمیت دو لاکھ مجاہدوں کے اس لشکر میں سے کسی کو اس حبشی زادے کے سامنے انکار کی جرات نہ ہوئی اور حضرت بلالؓ حضرت خالدؓ بن ولید کو اسی عالم میں مدینہ مبارک لے آئے اور میں عشق رسولﷺ میں اس اسامہ بن زیدؓ کا مقلد ہوں جنھیں نبی اکرم ﷺ نے اپنے لشکر کا سالار بنایا اور آپؐ کے وصال مبارک کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ لشکر روانہ کیا تو خلیفہ نے اس غلام زادے کے گھوڑے کی لگام تھام رکھی تھی اور مستقبل کے جید سپہ سالار اور خلفاء اس غلام زادے کے گھوڑے کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اور میں عشق رسولﷺ میں ان عاشقوں کے عشق کا بھی قائل ہوں جو زندگی کی آخری ساعتوں تک پاؤں میں جوتا پہن کر مدینہ منورہ کی گلیوں میں داخل نہیں ہوئے کہ کہیں ان کا جوتا کسی ایسی جگہ نہ آ جائے جہاں کبھی نبی رسالتﷺ نے پائے مبارک رکھا ہو اور میں عشق میں ان لوگوں کی محبت کوبھی وضو کا درجہ دیتا ہوں جو نبی اکرمﷺ کی داڑھی مبارک کی طرح داڑھی رکھتے ہیں۔
جو سنت سمجھ کر روز آنکھوں میں سرما لگاتے ہیں‘ جو روز شہد کھاتے ہیں‘ جو سفید شلوار اور کُرتہ پہنتے ہیں‘ جو سر میں مہندی لگاتے ہیں‘ جو عربی کھسہ پہنتے ہیں اور جو سر پر سبز یا سیاہ پگڑی باندھتے ہیں اور میں عشق رسولﷺ میں ان لوگوں کو بھی اپنا رہنما سمجھتا ہوں جو لوکی کدو کھا کر زندگی گزار دیتے ہیں کہ آپؐ نے لوکی کدو کو پسند فرمایا تھا۔
مجھے نبی اکرمﷺ کی ذات مبارکہ سے عشق ہے اور میں اس عشق میں غازی علم دین شہید کی موت مرنا چاہتا ہوں اور حضرت بلالؓ اور حضرت اویس قرنیؓ کی زندگی کا خواستگار ہوں لیکن اس کے باوجود ایک سوال اکثر میرے ذہن میں ابھرتا ہے اور رگ و پے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے‘ میں اکثر سوچتا ہوں میں عشق رسولﷺ میں جان دینے اور جان لینے پر تیار ہو جاتا ہوں لیکن میں نے آج تک نبی اکرمﷺ کے کسی فرمان ‘ کسی حکم پر عمل نہیں کیا‘ میں عاشق ضرور ہوں لیکن میں نبی اکرمﷺ کا سچا اور کھرا امتی نہیں ہوں‘ میں شہ رگ تک آپؐ کے عشق سے بھرا ہوا ہوں‘ آپؐ کے ذکر پر میری آنکھیں چھلک پڑتی ہیں ‘ میرا دل تڑپ کر سینے کی قید سے آزاد ہونے لگتا ہے لیکن میری زندگی میں نبی اکرمﷺ کے کسی حکم‘ کسی قول کی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔
میں اپنے اقوال سے لے کر افعال تک کسی پہلو سے محبوب خدا کا امتی دکھائی نہیں دیتا‘ مثلاً میرے رسولﷺ کی برداشت پر ساتوں آسمان قربان ہو جاتے تھے‘ آپؐ حرم شریف کے صحن میں نماز ادا کر رہے ہوتے تھے ‘ کفار آپ پر اونٹوں کی اوجھڑیاں ڈال دیتے تھے‘ آپ کی سانس اکھڑنے لگتی تھی یہاں تک کہ آپؐ کی صاحبزادیاں بے تاب ہو کر گھروں سے نکل پڑتی تھیں‘ حرم شریف پہنچتی تھیں اورروتی جاتی تھیں اور آپؐ کے سر مبارک سے اوجھڑیاں اور آنتیں اتارتی جاتی تھیں اور کفار کعبہ کے سائے میں کھڑے ہو کر قہقہے لگاتے جاتے تھے۔ آپؐ کو طائف کے لوگوں نے پتھر مارے ‘ خون آپؐ کے سرمبارک سے نکل کر نعلین شریفین میں جم گیا ‘آپؐ نے درخت کے ساتھ ٹیک لگائی‘ خادم نے نعلین شریفین اتاریں تو آپؐ کی حالت دیکھ کر آنسو ضبط نہ کر سکا‘ اس وقت فرشتوں کی برداشت بھی جواب دے گئی‘ حضرت جبرائیل امینؑ تشریف لائے اور عرض کیا آپ اجازت دیںتو میں طائف کی ساری آبادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں‘ آپؐ نے مسکرا کر فرمایا ’’نہیں شائد ان کی آنے والی نسلیں مسلمان ہو جائیں‘‘ آپؐ روز اس گلی سے گزرتے تھے اور روز ایک مخصوص وقت پر وہ بوڑھی خاتون گھر بھر کا کوڑا آپؐ کے اوپر گرا دیتی تھی مگر آپؐ کی جبین نیاز پر کبھی شکن آئی‘ آپؐ نے کبھی راستہ بدلا اور نہ ہی آپؐ نے کبھی اس سلوک پر احتجاج کیا۔
میں آج اس ملک کے تمام عاشقان رسولؐ کو چیلنج کرتا ہوں‘ آئیے گھر سے باہر نکلیے اور زندگی میں صرف دو تین بار اپنے سر پر کوڑا پھینکنے کی اجازت دے دیجیے‘ میں دیکھتا ہوں آپ کا صبرکب تک اپنی بنیادوں پر قائم رہتا ہے‘ سر پر کوڑا برداشت کرنا اور اس کے بعد مسکرانا بھی تو سنت ہے‘ آپ میں سے کون ہے جو یہ سنت ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور آپ نبی اکرمﷺ کی برداشت ملاحظہ کیجیے‘ فتح مکہ کے وقت آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ کا قاتل آپؐ کے سامنے پیش ہوا‘ آپؐ حضرت حمزہ ؓ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے اور حضرت حمزہ ؓ کی شہادت پر آپؐ نے فرمایا تھا کیا اس پورے مدینہ میںحمزہؓ کو رونے والا کوئی نہیں اور نبی اکرمﷺ کے یہ لفظ اہل مدینہ کے دل میں تیر کی مانند لگے اور پورے شہر کے منہ سے آہیں ابل پڑیں۔ اس حضرت حمزہؓ کا قاتل آپؐ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ کیا آپؐ نے مجھے بھی معاف فرما دیا‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ہاں‘ میں نے تمہیں بھی معاف کر دیا لیکن کوشش کرنا تم کبھی میرے سامنے نہ آؤ‘‘۔میں اپنے آپ سے اکثر سوال کرتا ہوں‘ میرے اندر وہ صبر اور وہ برداشت کیوں نہیں جو نبی اکرمﷺ کی شخصیت کا حصہ تھی۔
ہم سب نبی اکرمﷺ کے عاشق ہیں لیکن نبی اکرمﷺ کے وہ عاشق کہاں ہیں جو برداشت کو سنت سمجھتے تھے‘ جو بڑے سے بڑے اختلاف کو ہنس کر سہہ جاتے تھے اور جو انسان کو آخری سانس تک اصلاح کا موقع دیتے تھے‘ ہم اس رسولﷺ کی طرف کیوں نہیں دیکھتے جنھوں نے منافق اعظم عبداللہ بن اُبئی کا جنازہ بھی پڑھایا تھا‘ اسے کرتہ مبارک کا کفن بھی عنایت کیا تھا اورجو اس کی مغفرت کے لیے دعا بھی کیاکرتے تھے اور ہم رسول اللہ ﷺ کی حیات کے ان پہلوؤں پر عمل کیوں نہیں کرتے جن میں آپؐ مسکراتے دکھائی دیتے ہیں‘ جن میں آپؐ پودوں سے لے کر اونٹوں تک سے شفقت کرتے ہیں اور جن میں آپؐ کافروں کو آخری سانس تک اصلاح کی گنجائش بھی دیتے ہیں‘ یہ درست ہے ہمیں عاشق رسول ہونا چاہیے کیونکہ عشق رسولﷺ کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا لیکن ہمیں عاشق کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ کا امتی بھی تو ہونا چاہیے ‘ ہماری زندگی میں رسول اللہﷺ کے کسی ایک قول کی جھلک بھی تو دکھائی دینی چاہیے۔
ہم اعمال میں دنیا کی بدترین قوم ہیں‘ ہماری زندگیوں میں خوف خدا دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی سنت رسولﷺ لیکن ہم اس کے باوجود عشق رسولﷺ کے دعوے بھی کرتے ہیں‘ ہم سے بڑا ظالم‘ہم سے بڑا ستم گر کون ہے؟ ہمارے رسولﷺ کو اس وقت عاشقوں سے زیادہ امتیوں کی ضرورت ہے اور عالم اسلام میں عاشق تو کروڑوں اربوں ہیں لیکن امتی کوئی نہیں۔ مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے ہمارے رسولؐ عاشقوں کی بھیڑ میں امتی تلاش کرتے ہوں گے‘ کاش ہم اپنے رسولؐ کو چند امتی فراہم کر دیں‘ ہم اس عید پر ہی امتی بن جائیں‘ ہم خوشی کے اس موقع پر ہی رسول اللہ ﷺ کی کوئی ایک سماجی سنت اپنا لیں‘ ہم دوسروں کو برداشت کرنا شروع کر دیں‘ ہم مسکرانا ہی شروع کر دیں‘ کاش ایسا ہو جائے!۔
Reality and Perception
جاوید چوہدری جمعـء 3 اکتوبر 2014

امریکا‘ یورپ اور کینیڈا میں ہر سال لاکھوں ٹن گندم سمندر میں پھینک دی جاتی ہے‘ یہ گندم جس وقت سمندر میں پھینکی جاتی ہے عین اس وقت تیسری دنیا کے 14 ممالک قحط میں مبتلا ہوتے ہیں‘ ہم اگر امریکا‘یورپ اور کینیڈا کی اس حرکت کو اپنے زاویئے سے دیکھیں تو ہمیں یہ لوگ ظالم‘ سنگدل‘ بے حس اور ننگ انسانیت نظر آئیں گے اور ہم انھیں ہزاروں‘ لاکھوں بلکہ کروڑوں گالیاں دیں گے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے‘ دنیا کا ہر ملک اپنی ضرورت سے بیس فیصد زیادہ گندم اگاتا ہے‘ حکومت کل پیداوار کا بیس سے چالیس فیصد حصہ مارکیٹ سے خرید لیتی ہے‘ یہ گندم سرکاری گوداموں میں اسٹور کرلی جاتی ہے۔ حکومت اس گندم سے تین کام لیتی ہے‘ اول یہ گندم ملک میں ہر قسم کی قدرتی آفت زلزلے‘ سیلاب اور خشک سالی کے دوران عوام میں تقسیم کر دی جاتی ہے‘ دوم‘ حکومت اس گندم سے مارکیٹ میں راشن کی قیمت کنٹرول کرتی ہے‘ بیوپاری عموماً گندم کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں‘ یہ گندم روک کر ملک میں مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں اور پھر منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں‘ حکومت مارکیٹ میں مصنوعی قلت دیکھتے ہی سرکاری گوداموں کی گندم ریلیز کر دیتی ہے اور یوں گندم کے نرخ نیچے آ جاتے ہیں اور سوم حکومتیں یہ اضافی گندم سفارت کاری کے لیے استعمال کرتی ہیں‘ حکومتیں دوست ملکوں کو خشک سالی اور قدرتی آفتوں کے دوران گندم گفٹ کرتی ہیں‘ ہم اب یہ سوال کرتے ہیں‘ امریکا‘ یورپ اور کینیڈا ہر سال گندم ضایع کیوں کرتے ہیں۔
اس کی دوجوہات ہیں‘ پہلی وجہ‘ گندم ان اجناس میں شامل ہے جو کسان کو زیادہ منافع نہیں دیتی‘ آپ گندم کی جگہ آلو‘ ٹماٹر‘ گنا‘ مکئی اور دالیں اگائیں ‘ آپ زیادہ منافع کمائیں گے‘ کسان ہمیشہ گندم سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں‘ آپ پاکستان کی مثال لیجیے‘پاکستان کو ہر سال 30 ملین ٹن گندم درکار ہوتی ہے‘ ہم ضرورت سے دس فیصد زیادہ گندم اگاتے ہیں‘ آپ فرض کیجیے سرکاری گوداموں میں 2013ء کی پیداوار کابیس فیصد حصہ پڑا ہے‘ یہ حصہ 2014ء تک محفوظ رہا‘ حکومت نے 2014ء میں یہ حصہ ریلیز کر دیا‘ یہ بیس فیصد حصہ گندم کے نرخ پر اثر انداز ہوا‘ مارکیٹ میں مندی ہو گئی‘کسان کو گھاٹا پڑگیا‘ کسان نے گھاٹے کے بعد گندم کی جگہ چنا‘ مکئی‘ آلو اور گنا کاشت کر لیا‘ نتیجتاً 2015ء میں گندم کی پیداوار 20 لاکھ ٹن پر آگئی‘ گندم کی قلت پیدا ہو گئی۔
ریٹس دگنے ہو گئے‘ آٹا مہنگا ہو گیا‘ حکومت کے پاس ایسی صورتحال میں دو آپشن بچتے ہیں‘ یہ باہر سے گندم امپورٹ کرے‘ یہ گندم لوکل گندم سے مہنگی ہو گی‘ حکومت کو دو تین سو ارب روپے کی سبسڈی دینا پڑ جائے گی‘ جو ظاہر ہے خزانے پر بوجھ ہو گا‘ دوسرا طریقہ حکومت گندم کے نرخ کو زبردستی کنٹرول کرے‘ حکومت جب بیوپاریوں اور کسانوں پر کریک ڈاؤن کرتی ہے تو کسان مزید ناراض ہو جاتے ہیں اور ملک میں حقیقتاً قحط پڑ جاتا ہے چنانچہ حکومت کے پاس صرف یہ آپشن بچتا ہے‘ یہ اضافی گندم ضایع کردے اور حکومتیں ایسا کرتی ہیں‘ گندم ضایع کرنے کی دوسری وجہ‘ امریکا‘ یورپ اور کینیڈا کا خیال ہے گندم سے آبی حیات کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ’’سی فوڈ‘‘ کی کوالٹی بہتر ہو جاتی ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے امریکا‘ یورپ اور کینیڈا یہ اضافی گندم قحط زدہ ممالک کو کیوں نہیں دے دیتے؟ آپ کو یہ جان کر یقینا حیرت ہو گی‘ یہ ممالک ہر سال گندم ضایع کرنے سے قبل ’’ورلڈ فوڈ پروگرام‘‘ کو پیش کش کرتے ہیں’’ آپ جتنی گندم چاہیں اٹھا لیں‘‘ ورلڈ فوڈ پروگرام قحط زدہ ممالک کو خط لکھتا ہے مگر ان ممالک کی حکومتیں ذاتی مفادات کی وجہ سے مفت گندم نہیں اٹھاتیں یا پھر یہ بحری جہازوں کا کرایہ ادا نہیں کر پاتیں چنانچہ یہ گندم ضایع کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ آپ خود سوچئے کیا کوئی ملک ہر سال اپنے خرچ پر لاکھوں ٹن گندم سات سمندر پار پہنچا سکتا ہے؟ یہ یقینا ممکن نہیں ہوگا‘ ہم خود ہر سال ہزاروں ٹن گندم ضایع کرتے ہیں اور ہم مستقبل میں بھی کریں گے کیونکہ یہ ملک کو قحط سے بچانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
یہ گندم ضایع کرنے کے اصل حقائق ہیں لیکن ہم لوگ کیونکہ حقائق کی جگہ جذبات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں لہٰذا ہمارے ملک میں جو شخص گندم ضایع کرنے کے جرم میں امریکا‘ کینیڈا اور یورپ کو گالی دے گا وہ دیکھتے ہی دیکھتے قوم کا ہیرو بن جائے گا اور جو حقائق بیان کرنے کی غلطی کرے گا وہ قوم کی اجتماعی گالیاں کھائے گا‘ ہم لوگ حقائق سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ ہمارے ملک میں لکھنے اور بولنے والے‘ بولنے اورلکھنے سے قبل پڑھنے اور سننے والوں کے چہرے دیکھتے ہیں اور اس کے بعد نہایت احتیاط سے گفتگو شروع کرتے ہیں‘ میں ایسے بے شمار دانشوروں کو جانتا ہوں جنھیں ہال میں اگر ایک بھی باریش شخص نظر آ جائے تو وہ اپنی گفتگو میں آیات اور احادیث شامل کر دیتے ہیں اور وہاں اگر نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہو تو وہ عمران خان اور سنی لیون کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں۔
میں خود کالم لکھنے سے قبل دیکھتا ہوں یہ کالم جس دن شائع ہو گا کیا اس دن کوئی مذہبی تہوار یا کسی مقدس ہستی کا یوم وفات تو نہیں؟‘ صحافیوں کے پاس ایسی شخصیات کی پوری فہرست موجود ہے جن کا ذکر محرم کے مہینے میں نہیں کیا جا سکتا‘ میں ایک بار سکردو گیا‘ میں گفتگو شروع کرنے لگا تو ڈپٹی کمشنر نے میرے کان میں سرگوشی کی‘ آپ کے سامنے اہل تشیع بیٹھے ہیں‘ آپ طالبان کا ذکر نہ کیجیے گا‘یہ ہے اس ملک میں آزادی رائے اور یہ ہے حقائق بیانی کی اصل صورتحال۔ انگریزی کے دولفظ ہیں‘ ریالٹی اور پرسیپشن‘ دنیا کے اچھے معاشرے پرسیپشن بناتے ہوئے حقائق کو کبھی قربان نہیں ہونے دیتے جب کہ ہم لوگ ہمیشہ حقائق کی قبروں پر پرسیپشن کا مینار تعمیر کرتے ہیں مثلاً پاکستان میں پرسپیشن ہے ’’امریکا ہمارا دشمن ہے‘‘ آپ ملک کے کسی شہری کو روک کر امریکا کے بارے میں پوچھ لیجیے‘ لوگ آپ کو یہی جواب دیں گے جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
ہماری تاریخ میں امریکا واحد ملک ہے جس نے ہمیں سب سے زیادہ امداد دی‘ آج بھی ملک میں سیکڑوں منصوبے امریکی امداد سے چل رہے ہیں‘ امریکا ہمارے ہر مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے لیکن ہم یہ بات سننا ہی نہیں چاہتے اور جو شخص یہ کر بیٹھے وہ غدار بھی کہلائے گا اور امریکی ایجنٹ بھی۔ ہمارا پرسیپشن ہے چین ہمارا دوست ہے۔ ہم 68 سال سے پرسیپشن کی یہ گٹھڑی اٹھا کر پھر رہے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے‘ آج تک چین نے ہماری اتنی مدد نہیں کی جتنی مدد ہم نے چین کی فرمائی‘ پی آئی اے کی پہلی انٹرنیشنل فلائیٹ ہو یا رچرڈ نکسن کی ماؤزے تنگ اور چواین لائی سے ملاقات ہویا چین کا ایٹمی پروگرام ہو۔ پاکستان نے پوری دنیا کو ناراض کر کے چین کی مدد کی‘ ہمارے موجودہ سیاسی بحران کی ایک وجہ بھی چین ہے‘ امریکا اور اس کے اتحادی پاکستان میں چینی سرمایہ کاری سے خوش نہیں ہیں‘ ہم اپنے دائمی دوستوں کو ناراض کر کے چین سے دوستی نبھا رہے ہیں چنانچہ ملک سیاسی میدان جنگ بن گیا۔
چین اس حقیقت سے آگاہ ہے لیکن چینی صدر نے اس کے باوجود چھوٹے سے دھرنے کی وجہ سے پاکستان کا دورہ ملتوی کر دیا‘ یہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت چلا گیا‘ پاکستان کے صنعتی زوال اور بے روزگاری کی بڑی وجہ بھی چین ہے‘ چین نے دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان سے اپنی مصنوعات کے لیے ٹیکس میں چھوٹ لے لی‘ چین کی سستی مصنوعات پاکستان آئیں اور ان کے ساتھ ہی ہماری صنعت بھی ختم ہو گئی اور ہمارے ہنر مند بھی بے روزگار ہو گئے‘ یہ اصل حقائق ہیں لیکن پرسیپشن ان حقائق کو نگل چکا ہے اور آج جو شخص ان حقائق کی بات کرتا ہے تو لوگ اسے امریکی جاسوس قرار دے دیتے ہیں‘ حقائق یہ ہیں عمران خان اور علامہ طاہر القادری کا دھرنا کامیاب نہیں ہوا‘یہ لوگ استعفیٰ لینے اسلام آباد آئے تھے لیکن استعفے دے کر جا رہے ہیں‘ جبر کا نظام جڑوں سمیت موجود ہے‘ دھاندلی کی پیداوار پارلیمنٹ بھی رواں دواں ہے‘ میاں نواز شریف بھی اسی طرح شام سات بجے رہائشی علاقے میں چلے جاتے ہیں اور صبح نو بجے تروز تازہ ہو کر دفتر آ جاتے ہیں۔
دھرنا دینے والوں نے عملاً ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں اور جلسوں کی ایک مہم کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا‘ یہ بھی حقیقت ہے عمران خان نے اگر پارلیمنٹ سے استعفے دے دیے تو یہ شاید اگلی بار اتنی نشستیں بھی حاصل نہ کر سکیں‘ دھرنے والوں نے اپنی ضد کی وجہ سے جوڈیشل کمیشن اور انتخابی اصلاحات کا سنہری موقع بھی ضایع کردیا‘ یہ سوئی ہوئی حکومت کو بھی جگا چکے ہیں اور آج اگر حکومت پرفارم کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے تو یہ بازی عمران خان کی سیاست کا آخری پتہ ثابت ہو گی لیکن پرسیپشن یہ ہے عمران خان کامیاب ہو چکے ہیں‘ عمران خان کے ٹائیگر کسی بھی وقت نوازشریف کے کاغذی شیروں کو اٹھا کر دریائے راوی میں پھینک دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ملک میں اب جو بھی شخص پرسیپشن کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے کی غلطی کرتا ہے‘ ٹائیگر اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیںاور گالیاں اس بے چارے کا مقدر بن جاتی ہیں۔
مجھے گالیاں دینے والے ٹائیگر پاکستان کے مظلوم ترین لوگ لگتے ہیں جو پرسیپشن کی دلدل پر گھر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے ان لوگوں پر غصہ نہیں آتا‘ ترس آتا ہے کیونکہ معاشرے میں جب دلیل ختم ہو جائے‘ حقائق مرجھا جائیں اور تحقیق دم توڑ جائے تو گالی جنم لے لیتی ہے اور گالیاں جب قوم کا مزاج بن جائیں تو حقائق مزید دھندلا جاتے ہیں اور لوگ آیت پڑھنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں ہم نے اللہ کے کلام کا کون سا حصہ پڑھنا ہے اور کون سا نہیں اور ہمارے معاشرے کو یہ حد کراس کیے بھی دہائیاں گزر چکی ہیں۔
میں اگر عمران خان ہوتا
جاوید چوہدری جمعرات 2 اکتوبر 2014

نیویارک کے ایک پولیس آفیسر کے بارے میں مشہور تھا‘ وہ جس کیس کو ہاتھ ڈالتا تھا‘ مجرم پکڑے جاتے تھے‘ وہ کیسوں کی ننانوے فیصد گتھیاں سلجھا لیتا تھا‘ وہ ریٹائر ہوا تو پولیس ڈیپارٹمنٹ نے ’’فیئر ویل‘‘ کا بندوبست کیا‘ پولیس آفیسر کی خدمات کا اعتراف کیا گیا اور آخر میں اس سے کامیابی کا گر پوچھا گیا‘ وہ مائیک پر آیا‘ مسکرایا اور پولیس سروس کے لوگوں سے مخاطب ہوا ’’میں جب بھی کوئی کیس لیتا تھا‘ میں پولیس مین کے بجائے مجرم بن کر سوچتا تھا اور کیس کا سرا میرے ہاتھ آ جاتا تھا‘‘ اس کا کہنا تھا ’’پولیس کے زیادہ تر آفیسر کرائم سین پر پولیس مین بن کر جاتے ہیں۔ یہ قانون کی کتاب سر پر رکھ کر مجرم تلاش کرتے ہیں اور ناکام ہو جاتے ہیں جب کہ میں جب بھی کرائم سین پر جاتا تھا‘ میں اپنے آپ کو چور سمجھتا تھا‘ میں ڈاکو‘ قاتل اور ریپسٹ بن جاتا تھا‘ چند لمحوں کے لیے سائیڈ پر کھڑا ہو کر یہ سوچتا تھا میں نے اگر یہ واردات کی ہوتی تو میں یہ جرم کیسے کرتا‘ میں اس کرائم سین پر کیا کیا غلطیاں کرتا‘ میں جوں ہی مجرم بن کر کرائم سین کو دیکھتا ‘ میرے ذہن میں واردات کی پرتیں کھل جاتیں‘‘ اس کا کہنا تھا ’’آپ اگر کوئی کیس حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کبھی پولیس آفیسر بن کر نہ جائیں‘ آپ خود کو مجرم کی جگہ رکھ کر دیکھیں‘ آپ کو سارا معاملہ سمجھ آ جائے گا‘‘۔
دنیا کے معاملات دیکھنے کے درجنوں طریقے ہیں اور ان درجنوں طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے‘ آپ ایشو کو لکیر‘ میز اور میدان کے دوسری طرف کھڑے لوگوں کی نظر سے دیکھیں‘ آپ اپنی پوزیشن سے اٹھ کر چند لمحوں کے لیے مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں‘ آپ کو معاملہ بھی سمجھ آ جائے گا اور آپ حل پر بھی پہنچ جائیں گے‘ میاں نواز شریف‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے درمیان معاملات کے الجھاؤ کی بڑی وجہ یہ بھی ہے‘ یہ تینوں اپنی اپنی پوزیشن سے دوسرے کو دیکھ رہے ہیں چنانچہ انھیں یہ ضدی‘ انا پرست‘ سپائلر‘ مجرم اور غیر جمہوری نظر آ رہا ہے‘ علامہ طاہر القادری اور عمران خان میاں نواز شریف کو اپنے اعتراضات اور مطالبات کی عینک سے دیکھتے ہیں لہٰذا میاں نواز شریف انھیں بدعنوان‘ کرپٹ‘ دھاندلی کی پیداوار اور اسٹیٹ رسک دکھائی دیتے ہیں۔
میاں نواز شریف ان دونوں کو اپنے زاویئے سے دیکھتے ہیں لہٰذا یہ انھیں نادان اور ظالم لگتے ہیں‘ یہ تینوں اگر پوزیشن بدل لیں‘ یہ ایک‘ دوسرے اور تیسرے کی جگہ بیٹھ کر معاملات کو دیکھیں تو مجھے یقین ہے‘ یہ معاملات کو سمجھ بھی جائیں گے اور یہ حل بھی نکال لیں گے‘ میاں نواز شریف کسی دن عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے تمام مطالبات منگوائیں‘ وزیراعظم چند لمحوں کے لیے عام پاکستانی بنیں اور تمام مطالبات کا مطالعہ کریں‘ مجھے یقین ہے یہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے خیالات سے اتفاق پر مجبور ہو جائیں گے‘ ملک میں واقعی کسی شہری کو انصاف نہیں مل رہا‘ عوام کو ایف آئی آر کے لیے دھرنے دینے پڑتے ہیں یا پھر نعشیں سڑک پر رکھ کر ٹریفک بلاک کرنی پڑتی ہے‘ مقتول کے لواحقین انصاف تک پہنچنے کے لیے ساری زمین جائیداد سے محروم ہو جاتے ہیں‘ ملک میں لوگ ٹیکس نہیں دیتے‘ آپ جتنے طاقتور ہوتے جاتے ہیں آپ اس ملک میں اتنے ہی ظالم‘ اتنے ہی چور بن جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں تقریروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور حقیقتاً ملک کے اٹھارہ انیس کروڑ بے بس لوگوں کا کوئی وارث نہیں‘ میاں صاحب عام آدمی بن کر چند لمحوں کے لیے دھرنے والوں کی بات سن لیں‘ یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا‘ میاں صاحب چند لمحوں کے لیے ’’میں اگر عمران خان ہوتا‘‘ بن جائیں‘ یہ معاملات کو سلجھا لیں گے‘۔
میرا مشورہ ہے حکومت اعلان کر دے‘ پاکستان میں ایک سال کے اندر ایف آئی آر آن لائن ہو جائے گی‘ ملک کا کوئی بھی شہری کسی بھی وقت کوئی بھی ایف آئی آر کروا سکے گا‘ پولیس ابتدائی تفتیش میں اس ایف آئی آر کے جینوئن یا نان جینوئن ہونے کا فیصلہ کرے‘ ایف آئی آر اگر غلط ہوئی تو درج کروانے والے کے خلاف کارروائی کی جائے اور اگر یہ درست ہو تو پولیس تفتیش کرے‘حکومت پولیس سے صرف تفتیش کا کام لے یہ اسے سیکیورٹی ڈیوٹیوں اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال سے باہر نکالے‘ سیکیورٹی ڈیوٹی رینجرز‘ ایف سی اور فوج سے کروائی جائے۔ حکومت عدلیہ کے ساتھ مل کرجوڈیشل ریفارمز کرے‘ قانون بنائے ملک میں کوئی بھی کیس سال سے زیادہ نہیں چلے گا‘ جج سال کے اندر فیصلے کا پابند ہوگا‘ ڈاکہ‘ زنا اور قتل ریاست کے خلاف جرم سمجھا جائے گا اور مقدمہ مقتول کے بجائے ریاست لڑے گی‘ حکومت مان لے ہم پرانے اداروں کو ٹھیک نہیں کرسکتے‘ ہمیں موٹرویز پولیس کی طرح نئے ادارے بنانے چاہئیں‘ پنجاب گیارہ کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے‘ ایک آئی جی اور ایک پولیس پورے صوبے کوکنٹرول نہیں کرسکتی‘ آپ پولیس کو تیس چالیس یونٹوں میں تقسیم کردیں‘ اسلام آباد کی پولیس کو صوبوں میں تقسیم کر دیں اور وفاق کے لیے نئی اور جدید کیپیٹل پولیس بنائیں‘ یہ پولیس بین الاقوامی سطح کی ہو‘لاہور کے لیے لاہور پولیس‘ ملتان کے لیے ملتان پولیس اور فیصل آباد‘ سیالکوٹ اور ڈی جی خان کے لیے بھی الگ فورس بنائی جائے اور یہ فورسز خودمختار اور آزاد ہوں‘۔
سندھ‘ بلوچستان اور کے پی کے میں بھی علاقوں کے مطابق الگ الگ فورس بنائی جائے۔ ریلوے اور پی آئی اے بھی ٹھیک نہیں ہو سکیں گے‘ آپ پرانے ریلوے کے ساتھ نیا ریلوے بنائیں‘ پرانی پی آئی اے کے ساتھ ماڈرن پی آئی اے بنائیں‘ پرانے اداروں میں نئی بھرتیاں نہ کریں‘ نئے اداروں میں نئے لوگ بھرتی کرتے رہیں‘ پرانے اداروں کے لوگ آہستہ آہستہ ریٹائر ہو جائیں گے اور نئے ادارے پرانے اداروں کو ’’ٹیک اوور‘‘ کرتے رہیں گے‘ ٹیکس کا نظام بھی فرسودہ ہوچکا ہے‘ ایف بی آر کے لوگ کام نہیں کرتے‘ آپ انکم ٹیکس کی پوری اسٹیبلشمنٹ نئی بنا دیں‘ اس میں تمام لوگ نئے ہوں‘ یہ لوگ خود مختار بھی ہوں اور آزاد بھی اور یہ ملک کے کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت گرفت میں لے سکتے ہوں اور کوئی شخص یا کوئی ادارہ ان کا راستہ نہ روک سکے‘۔
پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پرمشتمل ہے‘ یہ نوجوان آگ کا گولہ ہیں‘ یہ ہر وقت تخریبی کارروائی کے لیے تیار رہتے ہیں‘ یہ تین مسائل کا شکار ہیں۔ ملک میں ان کے لیے گراؤنڈز اور جم نہیں ہیں‘ ان کے لیے کوئی انٹرٹینمنٹ نہیں اور ملک میں نوکریوں کی شرح بھی بڑی تیزی سے گر رہی ہے‘ آپ فوری طور پر ان تینوں معاملات کے لیے پالیسی بنائیں‘ آپ ملک بھر میں اسپورٹس کو فروغ دیں‘ کھیل کے میدان اور جم بنوائیں‘ ملک میں فلم سازی کی صنعت دوبارہ سر اٹھا رہی ہے‘ آپ اسے گود لے لیں‘ پاکستان میں سال میں کم از کم 50 بڑی فلمیں بنیں‘ پاکستان میں سینما اور موسیقی کی واپسی بہت ضروری ہے‘ آپ اس کے لیے کام کریں‘ آپ روزگار کے لیے ایسی پالیسیاں بنائیں جن سے ملک میں سرمایہ کاری ہو‘ لوگ کمپنیاں‘ فرمیں اور ادارے بنائیں‘ کارخانے لگیں‘ تجارت شروع ہو‘ آئی ٹی کی فرمیں بنیں‘ سروسز کا سیکٹر مضبوط ہو‘ نئی مارکیٹیں بنیں‘ بینک نوجوانوں کو بزنس لون دیں‘ اس سے نوکریاں پیدا ہوں گی‘ نوجوانوں کو کام ملے گا‘ یہ ایکسرسائز بھی کریں گے اور ہلہ گلہ کر کے خوش بھی ہوں گے اور یہ تخریبی کارروائیوں کے بجائے تعمیری سرگرمیوں کی طرف متوجہ ہوں گے‘اس کے نتیجے میں یہ دھرنوں اور کنٹینرز کا پیچھا چھوڑ دیں گے‘ یہ ڈنڈوں پر کیل لگانا بند کر دیں گے اور یہ شیشے اور گاڑیاں بھی نہیں توڑیں گے‘ یہ ملک بچ جائے گا۔
میاں نواز شریف اگر چند لمحوں کے لیے عمران خان اور علامہ طاہر القادری بن کر سوچیں تو مجھے یقین ہے یہ اپنے اثاثے ڈکلیئر کرتے دیر نہیں لگائیں گے‘ یہ لندن میں موجود ذاتی پراپرٹی بھی فروخت کر کے پیسے پاکستان لے آئیں گے‘ یہ رائے ونڈ کے سفید محل کے بجائے کسی چھوٹی رہائش گاہ میں بھی شفٹ ہو جائیں گے‘ یہ ہفتے میں تین دن لاہور میں رہنے کی روٹین بھی بدل دیں گے‘ یہ سادگی اختیار کریں گے‘ سرکاری جہاز لے کر دوروں پر نہیں جائیں گے‘ یہ وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کے اخراجات بھی کم کر دیں گے اور یہ عوام کو وقت بھی دیں گے‘ حکومت کے وزراء بھی دفتروں اور لاجز کے بجائے عوام میں دکھائی دیں گے‘ یہ محکموں کی ازسر نو تعمیر شروع کریں گے‘یہ مہنگائی کا کوئی مستقل حل تلاش کریں گے‘ یہ صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں پر توجہ دیں گے۔ یہ کرپشن روکنے کا مضبوط سسٹم بھی بنائیں گے اور یہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے دھرنوں کی ناکامی کو اپنی فتح نہیں سمجھیں گے‘ یہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت قرار دیں گے اور گہری نیند سے جاگ کرعوام کی خدمت میں جت جائیں گے‘ میاں صاحب اگر چند لمحوں کے لیے عمران خان اور علامہ طاہر القادری بن جائیں تو یہ دل سے مان لیں گے.
علامہ اور خان صاحب حکومت کے پیندے میں سوراخ کر چکے ہیں‘ حکومت کے بدن سے اب اختیار اور اقتدار تھوڑا تھوڑا زمین پر گرتا رہے گا‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری نظام کو کمزور اور بدعنوان بھی ثابت کر چکے ہیں‘ یہ نظام اب زیادہ دیر اپنے قدموں پر کھڑا نہیں رہ سکے گا چنانچہ میاں صاحب کو آگے بڑھ کر نیا نظام بنانا ہوگا یا پھر اس فرسودہ نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہو گا‘ میاں صاحب نے اگر یہ نہ کیا‘ یہ اگر چند لمحوں کے لیے ’’میں اگرعمران خان ہوتا‘‘ نہ بنے تو پھر میاں صاحب اور ملک دونوں خدا حافظ ہو جائیں گے۔
میری عمران خان اور علامہ صاحب سے بھی درخواست ہے‘ آپ بھی چند لمحوں کے لیے ’’میں اگر نواز شریف ہوتا‘‘ بن جائیں‘ مجھے یقین ہے آپ کو بھی چیزیں اتنی خراب نہیں لگیں گی جتنی آپ کو یہ کنٹینروں کی چھت سے دکھائی دے رہی ہیں۔
’’گونوازگو‘‘
جاوید چوہدری منگل 30 ستمبر 2014

نیویارک میں 16 سے آج 30 ستمبر تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس تھا‘ یہ 69 واں اجلاس تھا اوراس اجلاس میں 120 سربراہان مملکت نے خطاب کیا‘ میاں نواز شریف خطاب کے لیے 24 ستمبر کو نیو یارک پہنچے‘ یہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے دھرنوں کو اسلام آباد چھوڑ کر امریکا گئے‘ علامہ صاحب اور خان صاحب وزیراعظم کی روانگی سے قبل ’’گو نواز گو‘‘ کی تحریک شروع کر چکے تھے‘ یہ تحریک ملک کی گلیوں سے ہوتی ہوئی سوشل میڈیا کے گھوڑے پر سوار ہوئی اور پوری دنیا میں پھیل گئی اور جب میاں صاحب 23ستمبر کو لندن پہنچے تو پاکستان تحریک انصاف کے کارکن ’’ گو نواز گو‘‘ کے پلے کارڈ لے کر پارک لین میں کھڑے ہو گئے‘ یہ گو نواز گو کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ میاں صاحب 26 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے آئے تو پاکستانی اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے بھی موجود تھے‘ یہ وہاں کئی گھنٹے گو نواز گو کے نعرے لگاتے رہے‘ میرا خیال تھا‘ ملک میں جاری بحران اور گو نواز گو کے نعروں نے میاں نواز شریف پر اثر کیا ہو گا‘ یہ سنبھل گئے ہوں گے لیکن بدقسمتی سے میاں نواز شریف کی سوچ اور طرز حکمرانی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی‘ یہ اتنے شدید بحران کے باوجود جہاز لے کر لندن اور نیویارک چلے گئے‘ یہ نیویارک میں والڈروف ہوٹل میں ٹھہرے جس کا یومیہ کرایہ 8 لاکھ روپے تھا ‘ وزیراعظم کے دورے سے قبل سرکاری دستاویز بھی آؤٹ ہو گئی جس میں انکشاف ہوا میاں نواز شریف کا اقوام متحدہ میں خطاب قوم کو تین کروڑ 90 لاکھ روپے میں پڑے گا۔
میاں نواز شریف نیویارک میں دنیا کے بڑے لیڈروں سے ملاقات بھی نہ کر سکے چنانچہ یہ دورہ کسی بھی طرح کامیاب نہیں تھا‘ وزیراعظم کو نیویارک ضرور جانا چاہیے تھا‘یہ دورہ ملکی وقار اور امیج کے لیے ضروری تھا لیکن وزیراعظم کو بہرحال اپنا شاہانہ طرز حکمرانی ضرور تبدیل کرنا چاہیے تھا‘ وزیراعظم کو پورا جہاز لے کر جانے کے بجائے کمرشل فلائٹ پر بیرون ملک جانا چاہیے تھا‘ آپ خواہ پوری بزنس کلاس بک کرا لیں مگر کمرشل فلائٹ پر سفر کریں‘ وزیراعظم اگر ہوٹل کے بجائے پاکستانی سفارت خانوں میں رہیں یا یہ پاکستانی سفیر کی رہائش گاہ میں رہ جائیں تو اس سے سفارت خانوں کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا اور قوم کا سرمایہ بھی بچے گا‘ ہوٹل میں رہنا اگر ضروری ہو تو بھی وزیراعظم کو شاہانہ ہوٹلوں کے بجائے چھوٹے ہوٹلوں میں اقامت اختیار کرنی چاہیے‘ یہ اگر ہوٹلوں کے بل بھی ذاتی جیب یا پارٹی فنڈ سے ادا کر دیں تو اس سے بھی ان کی عزت میں اضافہ ہو گا۔ وزیراعظم سیون اسٹار ہوٹل میں ہوں یا پھر ون اسٹار ہوٹل میں یہ بہرحال وزیراعظم ہی رہیں گے‘ ان کی شان میں کمی نہیں ہو گی لیکن اس سے قوم کے کروڑوں روپے بھی بچ جائیں گے اور وزیراعظم بھی تنقید سے بچے رہیں گے‘ یہ عقل کا تقاضا بھی ہے اور وقت کا بھی۔
یہ ملک اب اس شاہانہ طرز حکمرانی سے نہیں چل سکے گا‘ آپ فوری طور پر سادگی اختیار کریں‘ آپ بجٹ میں موجود دوروں کے اخراجات میں بھی پچاس فیصد کمی کا اعلان کریں‘ کمرشل فلائٹس میں سفرکا فیصلہ کریں اور پروٹوکول اور سیکیورٹی کا شوروغوغا بھی کم کریں کیونکہ آپ نے اگر یہ فیصلے نہ کیے تو مجھے خطرہ ہے آپ کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمار اور سینیٹر رحمن ملک کے ساتھ 16 ستمبر کو کراچی میں ہوا تھا‘ پی آئی اے کے مسافروں نے فلائٹ لیٹ کرانے پر دونوں سیاستدانوں کو جہاز سے اتار دیا تھا‘ آپ نے بھی اگراپنا طرز حکمرانی تبدیل نہ کیا تو مجھے خطرہ ہے لوگ آپ کی تقریبات کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ آپ کے شاہانہ قافلوں کو سڑکوں پر روک لیں گے اور آپ کے جہازوں کو ائیرپورٹس سے اڑنے یا اترنے کی اجازت نہیں دیں گے اور یہ سلسلہ اگر چل پڑا تو پھر ملک میں حکمران کلاس کا کوئی شخص نہیں بچ سکے گا چنانچہ آپ اپنے آپ‘ دوسرے سیاستدانوں اور ملک پر رحم کریں‘ نیویارک جیسے مہنگے دورے نہ کریں کیونکہ یہ دورے نفرت کی آگ کو مزید ایندھن فراہم کر رہے ہیں ‘ یہ آپ اور ملک دونوں کے لیے خطرناک ہیں۔
میں میاں صاحب کو مزید دو مشورے بھی دینا چاہتا ہوں‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کا دھرنا غیر قانونی اور غیر آئینی تھا‘ لوگوں نے توقع کے برعکس ان کاساتھ نہیں دیا لیکن عمران خان اب آئین اور قانون کے راستے پر چل نکلا ہے‘ یہ ملک بھر میں جلسے کر رہا ہے‘ عمران خان کے کراچی اور لاہور کے جلسے بہت کامیاب تھے‘ یہ میانوالی‘ ملتان‘ فیصل آباد اور سیالکوٹ میں بھی ماضی سے بڑے جلسے کرے گا‘ یہ اگر اسی طرح جلسے کرتا رہا‘ یہ اگر اسی طرح نظام کے قلعے پر حملہ آور ہوتا رہا تو یہ بہت جلد کامیاب ہو جائے گا‘ حکومت مڈٹرم الیکشن پر مجبور ہو جائے گی اور مڈٹرم الیکشن بحران میں مزید اضافہ کر دیں گے کیونکہ عمران خان کو حکومت بنانے کے لیے اتحاد بنانا پڑے گا اور ہمارے ملک میں اتحادی حکومتیں نہیں چلتیں لہٰذا بحران بڑھ جائے گا۔
حکومت کو یہ بھی ماننا پڑے گا عمران خان اور علامہ طاہر القادری میاں صاحبان کے اقتدار میں ’’ڈینٹ‘‘ ڈال چکے ہیں‘ لوگ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کا ساتھ دیں یا نہ دیں لیکن لوگ اب کھلے عام کہہ رہے ہیں ’’خان غلط نہیں کہتا‘‘ اور ملکوں میں جب یہ بحث چل نکلے تو پھر معاملات مشکل ہو جاتے ہیں‘ خان اور علامہ طاہرالقادری عوام کے دلوں میں موجود نفرت کو راستہ دے چکے ہیں‘ یہ نفرت اب اس راستے پر سرپٹ دوڑے گی اور اس کا نقصان بہرحال ملک کی اشرافیہ کو ہوگا‘ ہم لوگ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کو ضدی کہتے ہیں‘ ہم یہ کہتے ہیں ان دونوں کا ایجنڈا بھی واضح نہیں اور ان کے پاس پرانے پاکستان کا کوئی ٹھوس متبادل بھی موجود نہیں‘ یہ دونوں اس آئین کے دائرے سے باہر کھڑے ہو کر نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جسے قوم نے 26 سال کی محنت کے بعد بنایا تھا اور ہم نے اس آئین کے لیے آدھے ملک کی قربانی دی تھی‘ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں عمران خان اور علامہ طاہر القادری کامیاب ہو گئے تو نیا پاکستان صرف پنجاب تک محدود ہو جائے گا۔ سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ نئے پاکستان کو قبول نہیں کریں گے اور یوں خاکم بدہن فیڈریشن ٹوٹ جائے گی‘.
یہ سارے اعتراضات اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے میاں صاحب بھی عمران خان اور علامہ صاحب کی طرح ضد کر رہے ہیں‘ وزیراعظم کا ایجنڈا بھی واضح نہیں‘ ان کے پاس بھی ملک چلانے کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل موجود نہیں‘ یہ بھی کنفیوزڈ ہیں اور اگر عمران خان اور علامہ صاحب پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دے کر بیٹھے ہیں تو میاں صاحب اس کے اندر خیمہ زن ہیں‘ یہ ملک کو باہر سے نقصان پہنچا رہے ہیں اور میاں صاحب ملک کو اندر سے توڑ رہے ہیں‘ یہ بھی کلیئر نہیں ہیں اور وہ بھی کلیئر نہیں ہیں اور پیچھے رہ گئے عوام تو یہ بے چارے تقریروں اور دعوؤں کے کچرا گھر سے سچائی کے ٹکڑے تلاش کر رہے ہیں اور ماتم کر رہے ہیں‘ میاں صاحب کو اپنی ضد ترک کر کے بہرحال اسٹیٹس کو کے مینار سے اترنا ہو گا‘یہ جتنی جلدی نیچے آ جائیں گے‘ یہ جتنی جلدی عوام کی خدمت شروع کر دیں گے۔ ان کے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا ورنہ دوسری صورت میں عوام انھیں واقعی نیچے کھینچ لائیں گے‘ یہ میرا انھیں پہلا مشورہ تھا‘ دوسرا مشورہ ہے آپ مہربانی کر کے وفاداری کے بجائے اہلیت کو اہمیت دیں‘ ہم بدقسمتی سے اکیسویں صدی میں بھی خاندان غلاماں کے فلسفے سے باہر نہیں آسکے‘ ہماری اشرافیہ آج بھی اہل لوگوں کے بجائے وفادار غلام تلاش کر رہی ہے‘ غلاموں کی اہلیت صرف غلامی ہوتی ہے‘ یہ صرف کورنش بجا لاتے ہیں‘ یہ پرفارم نہیں کر سکتے‘ آپ آصف علی زرداری کو دیکھ لیں‘ آپ میاں نواز شریف حتیٰ کہ عمران خان کو دیکھ لیں یہ لوگ آج بھی غلام تلاش کرتے ہیں‘ آپ کو آج بھی ان کے گرد ’’واہ جی واہ‘‘ کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دے گی‘ یہ لوگ اہم ترین عہدے اہل لوگوں کے بجائے غلاموں کو عنایت کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ملک مزید کیچڑ میں پھنس جاتا ہے۔
آپ المیہ ملاحظہ کیجیے عمران خان بھی جب خیبر پختونخواہ کے لیے وزیراعلیٰ منتخب کرتے ہیں تو یہ ’’پرفارمر‘‘ کے بجائے ٹھمکے باز کا انتخاب کرتے ہیں چنانچہ اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے‘ عمران خان ریڈزون میں دھرنے کا ریکارڈ قائم کردیتا ہے‘ یہ کراچی اور لاہور میں تاریخی جلسے کر لیتا ہے لیکن یہ پشاور میں جلسہ کر سکتا ہے اور نہ ہی جلوس نکال سکتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ صوبائی حکومت نے آج تک دعوؤں کے سوا کچھ نہیں کیا؟ کیونکہ پی ٹی آئی خیبر پختونخواہ میں ڈیلیور نہیں کر سکی اور یہ اتنی ہی بڑی حقیقت ہے جتنی بڑی حقیقت میاں نواز شریف کی بیڈ گورننس اور بری پرفارمنس ہے‘ میرا میاں صاحب کو مشورہ ہے‘ آپ وفاداروں کو اختیارات دے دیتے ہیں‘ عزت نہیں دیتے جب کہ آپ اہل لوگوں کو عزت دیتے ہیں ‘ اختیارات نہیں دیتے‘ آپ اس ترتیب کو پلٹ دیں‘ آپ وفاداروں کو عزت دیں اور اہل لوگوں کو اختیار دیں ملک چل پڑے گا۔
میں اس سلسلے میں گورنر پنجاب چوہدری سرور کی مثال دیتا ہوں‘ چوہدری سرور 13سال برطانوی پارلیمنٹ میں رہے‘ یہ کامیاب ترین اوورسیز پاکستانیوں میں بھی شمار ہوتے ہیں‘ یہ یورپ اور امریکا میں پاکستان کا امیج بہتر بنا سکتے تھے‘یہ تعلیم‘ صحت اور پولیس کے شعبوں میں بیرونی امداد بھی لا سکتے ہیں اور تکنیکی معاونت بھی۔ یہ اوورسیز پاکستانیوں کو بھی ملک میں ایکٹو رول ادا کرنے پر تیار کرسکتے ہیں لیکن آپ نے ان سے یہ کام لینے کے بجائے انھیں ڈیڑھ سو سال پرانے گورنر ہاؤس میں قید کر دیا‘ آپ کو گورنر ہاؤس میں کسی بزرگ سیاستدان کو بٹھانا چاہیے تھا اور چوہدری سرور کو وزیر خارجہ بنانا چاہیے تھا یا پھر انھیں اوورسیز پاکستانیوں اور تعلیم کی وزارت دینی چاہیے تھی‘ یہ ان تینوں شعبوں میں پرفارم کر سکتے ہیں مگر آپ نے انھیں گورنر ہاؤس جیسے پنجرے میں بٹھا دیا جہاں یہ سارا دن ایچی سن کالج کے داخلوں میں چھپی کرپشن کی کہانیاں پڑھتے ہیں اور کڑھتے رہتے ہیں‘ چوہدری سرور کو بھی چاہیے یہ میاں صاحب سے کھل کر بات کریں‘ یہ سینیٹر بنیں اور میاں صاحب سے خارجہ‘ تعلیم یا اوورسیز پاکستانیوں کی وزارت کا قلم دان مانگ لیں‘ میاں صاحب مانتے ہیں تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت میں مستعفی ہو کر ویلفیئر کے کام کریں‘ اپنی توانائیاں ضایع نہ کریں‘ میاں صاحب بھی وقت کی نزاکت سمجھیں‘ ضد چھوڑیں اور وہ کام شروع کریں جس کے لیے قوم نے انھیں تیسری اور آخری بار مینڈیٹ دیا تھا‘ آپ سیاست کو عزت دیں‘ آپ ملک میں ’’کم نواز کم‘‘ کے نعرے لگوائیں‘ ملک کو ’’گو نواز گو‘‘ کے شور میں نہ ڈبوئیں‘ یہ ملک اب مزید سستی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

2007 سے
جاوید چوہدری جمعـء 26 ستمبر 2014

شرجیل فاروق میرے معاون ہیں‘ ہم دونوں پچھلے سال سے دلچسپ ریسرچ کر رہے ہیں‘ شرجیل کا خیال ہے پاکستان میں 1999سے قدرت کا خفیہ ہاتھ ایکٹو ہے‘ یہ ہاتھ لوکل اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے ناکام بنا دیتا ہے‘ منصوبہ بندی کچھ ہوتی ہے لیکن نتائج اس کے برعکس نکل آتے ہیں‘ یہ ہاتھ ملک میں تبدیلی کی سوچ کوتوانا کرتا جا رہا ہے‘ میں شرجیل کی بات سے اتفاق کرتا ہوں مگر مجھے سال پر اعتراض ہے‘ میرا خیال ہے قدرت کا یہ خفیہ ہاتھ 1999 کے بجائے 2007 میں ایکٹو ہوا اور یہ خاموشی سے چیزوں کو غلط مقامات سے اٹھا کر اصل جگہ پر رکھتا جا رہا ہے‘ یہ ہاتھ پاکستان کو مضبوط بھی بنا رہا ہے اور بہتر بھی اور یہ ہاتھ اگر اسی طرح ایکٹو رہا تو ہم پانچ دس سال بعد حقیقتاً نئے پاکستان میں ہوں گے‘ ایک ایسے پاکستان میں جس میں ہر چیز درست سمت چل رہی ہو گی‘ میں 2007 سے لے کر ستمبر 2014 تک سات سال کے چند بڑے واقعات آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور آپ کو دعوت فکر دیتا ہوں۔
جنرل پرویز مشرف 2007میں انتہائی مضبوط تھے‘ ملک کے تمام چھوٹے بڑے ادارے ان کے کنٹرول میں تھے‘ ملک کی کسی سیاسی جماعت میں ان کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات نہیں تھی‘ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جلاوطنی سے سمجھوتہ کر چکے تھے‘ جنرل پرویز مشرف نے 9 مارچ 2007 کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کر دیا‘ چیف جسٹس زیادہ مقبول نہیں تھے‘ یہ جنرل مشرف کے دوست بھی سمجھے جاتے تھے‘ جنرل مشرف کا خیال تھا‘ یہ چیف جسٹس کو ہٹائیں گے‘ نیا چیف جسٹس آئے گا اور یہ حکومت کا ایجنڈا آگے بڑھاتا چلا جائے گا لیکن قدرت کا خفیہ ہاتھ ایکٹو ہوا اور افتخار محمد چوہدری گیم چینجر بن گئے۔ جنرل مشرف ملک کے بااختیار ترین شخص تھے ‘ یہ اپنے تمام تر اختیارات کے باوجود افتخار محمد چوہدری اور ان کی تحریک کو نہ روک سکے‘ یہ تحریک آگے چل کر اسٹیبلشمنٹ کے اختیارات اور منصوبہ بندی کے لیے بہت بڑا جھٹکا ثابت ہوئی‘ آپ اس تحریک کو سماجیات کا طالب علم بن کر پڑھیں‘ آپ کا اللہ تعالیٰ کے معجزوں پر ایمان تازہ ہو جائے گا‘۔
دوسرا واقعہ ملاحظہ کریں‘ جنرل مشرف نے جولائی 2007میں ابوظہبی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ملاقات کی‘ اس ملاقات میں دو فیصلے ہوئے‘ حکومت نے این آر او کے تحت محترمہ کے خلاف تمام مقدمے واپس لینے کا فیصلہ کیا‘ محترمہ کو پاکستان واپس آنے کی اجازت بھی دے دی گئی‘ مشرف کا خیال تھا محترمہ کی واپسی سے افتخار چوہدری کی تحریک بھی کمزور ہو جائے گی اور پاکستان مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی مل کر حکومت بھی بنائیں گے۔ اپوزیشن کا اتحاد بھی ٹوٹ جائے گا‘ میاں نواز شریف اکیلے رہ جائیں گے لیکن جوں ہی محترمہ پاکستان پہنچیں قدرت کا خفیہ ہاتھ ایکٹو ہو گیا‘ وکلاء تحریک بھی تیز ہو گئی اور ملک بھی جمہوریت کی طرف بڑھنے لگا‘ محترمہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے راستے کی رکاوٹ تھیں‘ محترمہ کو 27 دسمبر کو راستے سے ہٹا دیا گیا‘ محترمہ کے بعد چوہدری پرویز الٰہی نے وزیراعظم بننا تھا لیکن الیکشن ہوئے اور پاکستان مسلم لیگ ق کو مار پڑ گئی‘ قومی اسمبلی نے یوسف رضا گیلانی کو متفقہ وزیراعظم بنا دیا‘ گیم الٹ گئی‘ لوکل اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا‘ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم رہیں گے اور جنرل پرویز مشرف 58(2B) کے ساتھ صدر لیکن قدرت کا ہاتھ ایکٹو ہوا‘ میاں نواز شریف 12مئی 2008 کو حکومتی اتحاد سے نکل گئے۔ جنرل مشرف اور زرداری پر دباؤ ڈالا‘ مشرف فارغ ہو گئے‘ آصف علی زرداری صدر بن گئے‘۔
تیسرا واقعہ‘ آصف علی زرداری نے پنجاب پر قابض ہونے کے لیے 25 فروری 2009 کو نواز شریف اور شہباز شریف کو سپریم کورٹ سے نااہل کروا دیا‘ میاں برادران فارغ ہو گئے‘ قدرت کا ہاتھ ایکٹو ہوا‘ میاں نواز شریف نے 16 مارچ کو لانگ مارچ کیا‘ چیف جسٹس بھی بحال ہو گئے اور میاں شہباز شریف کی حکومت بھی۔ اس واقعے نے آصف علی زرداری کو طرز سیاست تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا‘ زرداری صاحب نے اس کے بعد کسی کے مینڈیٹ پر حملہ نہیں کیا‘ چوہدری افتخار نے واپس آ کر آمریت کا گند صاف کیا‘ این آر او اور مشرف ایمرجنسی کے خلاف فیصلے دے کر آئین بھی سیدھا کر دیا اور مارشل لاء کا راستہ بھی روک دیا‘۔
چوتھا واقعہ‘امریکا نے 2010 اور 2011 میں پاکستان میں اثرورسوخ بڑھا دیا‘ امریکا گرینڈ پلان کے ذریعے پاکستان کے تمام بڑے ادارے اپنے ہاتھ میں لے رہا تھا‘ فوج اور امریکا براہ راست ہو گئے‘ حکومت درمیان سے نکل گئی‘ حکومت تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی ہو گیا لیکن پھر قدرت کا ہاتھ ایکٹو ہوا‘ ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ پیش آیا‘ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن آپریشن ہوا اور سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ ہو گیا‘ امریکا اور پاک فوج کے تعلقات خراب ہو گئے اور صدر زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت بچ گئی۔ عمران خان نے 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور میں فقید المثال جلسہ کیا‘ یہ عمران خان کی سیاست میں بڑی لانچنگ تھی‘ عمران خان نے اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور ریٹائر جرنیل انھیں سپورٹ کر رہے تھے‘ عمران خان دو برسوں میں بڑی سیاسی قوت بن گئے‘ مجھ سمیت زیادہ تر صحافیوں کا خیال تھا عمران خان دونوں روایتی جماعتوں کو اڑا کر رکھ دیں گے‘میں نے 2013 کی الیکشن ٹرانسمیشن کے دوران یہ دعویٰ بھی کر دیا ’’ لاہور میاں برادران کے ہاتھ سے نکل گیا ہے‘‘ عمران خان کوبھی جیتنے کا یقین تھا اور ان کے خفیہ اور ظاہری سپورٹروں کو بھی لیکن جب نتائج سامنے آئے تو دنیا حیران رہ گئی‘ آج 2013کے الیکشنوں میں جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ فخر الدین جی ابراہیم اور نگران حکمرانوں پر دھاندلی کے الزامات لگ رہے ہیں لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگ جانتے ہیں سابق فوجی قیادت میاں نواز شریف کو ناپسند کرتی تھی‘ میاں نواز شریف 25 نومبر 2007کو پاکستان آئے اور 2013 تک جنرل کیانی کے ساتھ ان کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
جنرل کیانی اور ان کے کور کمانڈرز عمران خان کو پسند کرتے تھے‘ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کے بھی عمران سے تعلقات اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہے‘ آپ ڈیفنس کے علاقوں کے ووٹ بھی نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو وہاں عمران خان کی واضح برتری نظر آئے گی‘ فخر الدین جی ابراہیم اور نگران حکمران بھی عمران خان کو پسند کرتے تھے چنانچہ میرا خیال ہے اگر جنرل کیانی اور فخرو بھائی نے دھاندلی کرائی ہوتی تو عمران خان کو بھٹو سے زیادہ ووٹ ملنے چاہیے تھے مگر ایسا نہیں ہوا ‘ میاں نواز شریف واضح اکثریت سے جیت گئے‘ میاں نواز شریف کی جیت کے بے شمار فیکٹرز میں سے ایک فیکٹر ٹکٹوں کی تقسیم بھی تھا‘ میاں برادران پانچ برس پنجاب کے حلقوں پر ریسرچ کرتے رہے‘ یہ اس ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے‘ ووٹ بہرحال برادریاں ہی لیتی ہیں چنانچہ انھوں نے برادریوں کو سامنے رکھ کر ٹکٹ دیے‘ حلقے میں اگر جاٹ‘ گجر اور راجپوت ہیں تو انھوں نے ایم این اے کی نشست جاٹوں کو دے دی اور ایم پی اے کی دونوں سیٹیں راجپوتوں اور گجروں میں تقسیم کر دیں اور یوں یہ لوگ جیت گئے۔
خان صاحب حلقوں کی اس سیاست پر توجہ نہ دے سکے چنانچہ یہ مار کھا گئے‘ 2008 سے 2013 کے درمیان سیاست میں ایک نیا عنصر بھی داخل ہوا‘ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے ملکی سیاست کے بجائے علاقائی اور صوبائی سیاست شروع کردی‘ یہ جماعتیں جان گئیں تھیں‘ آپ کی پارٹی خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو آپ کے پاس بہرحال ایک صوبہ ضرور ہونا چاہیے چنانچہ پیپلز پارٹی نے سندھ پر کام کیا‘ ن لیگ نے پنجاب کو ہاتھ میں رکھا اور قوم پرست جماعتوں نے بلوچستان کی سیاسی نبضیں تھام لیں‘ عمران خان کے پاس کوئی صوبہ نہیں تھا‘ یہ یہاں بھی مار گئے‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں اب صوبہ دے دیا ہے چنانچہ انھیں خیبرپختونخواہ کو کسی صورت ہاتھ سے نہیں نکالنا چاہیے کیونکہ اگر یہ صوبہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر ان کی سیاست ناکامیوں کے گھنے جنگلوں میں بھٹک کر رہ جائے گی۔
ہم اب آخری اور بڑے واقعے کی طرف آتے ہیں‘ علامہ صاحب اور عمران خان کا لانگ مارچ ایک جامع منصوبہ تھا‘ یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں تمام گھوڑے اتار دیے گئے تھے‘ پنجاب حکومت نے دھرنے والوں کو 14 لاشیں بھی دے دیں‘ منصوبہ یہ تھا عمران خان اور علامہ صاحب پانچ لاکھ لوگوں کو لے کر لاہور سے نکلیں گے‘ یہ لوگ جوں ہی راوی کا پل عبور کریں گے حکومت کو گھر بھجوا دیا جائے گا لیکن قدرت کا ہاتھ ایکٹو ہوگیا‘ لوگ اکٹھے نہ ہو سکے‘ 14 اگست کا جلوس 16 اگست کو اسلام آباد پہنچا‘ بارشوں کا موسم شروع ہو گیا‘ دھرنے دے دیے گئے۔ اگلے منصوبے میں ریڈزون میں لاشیں گرنی تھیں لیکن میاں نواز شریف نے عین وقت پر پولیس کو غیر مسلح بھی کرا دیا اور پیچھے بھی ہٹا لیا‘ دھرنے ریڈزون پہنچ گئے لیکن لاشیں نہ ملیں‘ اگلے مرحلے میں وزیراعظم ہاؤس‘ ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاؤس پر قبضہ ہونا تھا‘ یہاں بھی تصادم کا امکان تھا جس میں عورتوں اور بچوں کی نعشیں گرنی تھیں‘ قبضہ ہوا‘ تصادم بھی ہوا لیکن نعشیں نہ گر سکیں‘ آخری کوشش پی ٹی وی پر قبضہ تھی‘ یہ قبضہ بھی ہوا‘ آرمی چیف نے وزیراعظم سے ملاقات بھی کی مگر وزیراعظم سے استعفیٰ نہ مانگا گیا اور اب آخری اطلاعات کے مطابق دھرنے کے اندر کچھ ہونے کی خبریں آ رہی ہیں لیکن مجھے یقین ہے یہ سازش بھی ناکام ہو جائے گی کیونکہ قدرت کا ہاتھ ایکٹو ہے اور یہ ہاتھ عین وقت پر نتائج بدل دیتا ہے اور نتائج اس بار بھی بدل جائیں گے۔
پاکستان حقیقتاً نئے دور میں داخل ہو رہا ہے‘ عمران خان کامیاب ہوں یا ناکام لیکن مجھے یقین ہے نیا پاکستان ضرور بنے گا‘ ایسا نیا پاکستان جس میں قانون بھی ہو گا‘ انصاف بھی اور دھاندلی سے پاک مینڈیٹ بھی ‘ کیوں؟کیونکہ قدرت ایکٹو ہو چکی ہے اور قدرت بہرحال اسٹیبلشمنٹوں سے مضبوط ہوتی ہے‘ قدرت منصوبے نہیں بدلتی‘ یہ ان کے نتائج تبدیل کرتی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں 2007 سے منصوبوں کے نتیجے بدل رہے ہیں‘ آپ تحقیق کر لیں آپ کو بھی یقین آ جائے گا‘ آپ بھی مان جائیں گے یہ کوئی اور ہے جو سب کچھ بدل دیتا ہے اور منصوبے بنانے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

ایک تھا عمران خان
جاوید چوہدری بدھ 24 ستمبر 2014

’’ہم نے دھرنے کا ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا‘ آپ کم از کم اس کی داد تو دیں‘‘ میرے دوست کی آنکھوں میں تحسین طلب چمک تھی‘ میں نے اعتراف میں سر ہلایا‘ مبارک باد پیش کی اور عرض کیا ’’آپ اگر ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے اسلام آباد آئے تھے تو میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں‘‘ اس نے شکریئے کے ساتھ مبارک باد قبول کر لی۔
میں خاموش ہو گیا‘ میرے دوست کو چند لمحے بعد اپنی غلطی کا احساس ہوا‘ وہ تڑپ کر سیدھا ہوا اور بولا ’’ کیا مطلب‘‘ میں نے عرض کیا ’’ جناب آپ اسلام آباد ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے نہیں آئے تھے‘ آپ میاں نواز شریف کا استعفیٰ لینے‘ اسمبلیاں توڑنے‘ انتخابی اصلاحات کرانے‘ نئے الیکشن کرانے اور نیا پاکستان بنانے آئے تھے لیکن آپ نے 42 دنوں میں کیا اچیو کیا؟ آپ نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے اوپن حمام بنانے کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا‘ آپ نے ریڈ زون کو ملک کا متعفن ترین مقام بنانے‘ سپریم کورٹ کی دیوار پر گندی شلواریں اور کچھے لٹکانے‘ ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ اور مفت ائیر ٹائم لینے‘ دنیا کے پہلے کنٹینر احتجاج اور طویل ترین دھرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا‘ آپ اگر اس لیے اسلام آباد تشریف لائے تھے تو آپ کو مبارک ہو اور آپ اگر نیا پاکستان تشکیل دینے آئے تھے تو پھر حقیقت یہ ہے آپ پرانے پاکستان کو مزید پرانا کر چکے ہیں‘ آپ کی پارٹی میں دراڑ آ چکی ہے۔
آپ کے آٹھ ایم این ایز مستعفی نہ ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں‘ آپ کے وزیراعلیٰ اور ایم پی اے حضرات نے قائد کے حکم کے باوجود خیبر پختونخوا حکومت چھوڑنے سے انکار کر دیا‘ آپ استعفے لینے آئے تھے لیکن دے کر جا رہے ہیں‘ آپ اپنے پارٹی صدر جاوید ہاشمی تک سے محروم ہو چکے ہیں‘ آپ پر اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی کا الزام لگ چکا ہے‘ آپ باقی زندگی یہ داغ دھوتے گزاریں گے‘ آپ باقی زندگی لندن پلان کی وضاحتیں بھی کرتے رہیں گے‘ آپ کو باقی زندگی اس الزام کی وضاحت بھی کرنا پڑے گی‘ پاکستان جیسے ملکوں میں کوئی سیاسی جماعت تنہا حکومت نہیں بنا سکتی۔ اسے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کو ساتھ ملانا پڑتا ہے لیکن آپ تمام جماعتوں پر الزامات لگا کر سیاسی تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں‘ آپ مستقبل میں جب حکومت بنانا چاہیں گے تو کوئی سیاسی جماعت آپ پر اعتماد نہیں کرے گی‘ آپ نے کراچی کے جلسے میں کراچی کے حلقوں میں دھاندلی کا ذکر نہیں کیا‘ آپ نے زہرہ شاہد کے قتل کا تذکرہ بھی نہیں کیا‘ تجزیہ کاروں کا خیال ہے آپ کی اس احتیاط پسندی کی وجہ ایم کیو ایم کا خوف تھا‘ آپ باقی زندگی اس خوف کا جواب بھی دیتے رہیں گے اور آپ باقی زندگی ان نوجوانوں کی امنگوں‘ خواہشوں اور تبدیلی کی تڑپ کا سامنا بھی کریں گے جنہوں نے آپ پر اعتبار کیا اور آپ کو ایک اور حساب بھی دینا ہو گا‘‘ میں خاموش ہو گیا۔
وہ تڑپ کر بولا ’’ ہم کیا حساب دیں گے‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’ میاں نواز شریف کی پرفارمنس خراب تھی‘ یہ الیکشن جیتنے کے بعد گہری نیند میں چلے گئے‘ حکومتی ٹیم اچھی نہیں تھی‘ وزراء آپس میں لڑتے تھے‘ یہ میاں نواز شریف کے سامنے بھی ایک دوسرے سے سلام نہیں لیتے تھے‘ فیصلوں میں تاخیر ہو رہی تھی‘ ملک کے ستر فیصد اعلیٰ اداروں کے سربراہ نہیں تھے اور جن 30 فیصد اداروں کے سربراہ تھے وہاں نااہل لوگ بیٹھے تھے‘ پارٹی معطل ہو چکی تھی‘ پارٹی کا سندھ ونگ ختم ہو چکا تھا‘ ایم این اے میاں نواز شریف کی شکل کو ترس گئے تھے‘ حکومت اور فوج کے درمیان بھی تصادم شروع ہو چکا تھا۔ حکومت پر بیرونی دباؤ میں بھی اضافہ ہو رہا تھا اور عوام مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بدامنی‘ بے انصافی اور لوڈ شیڈنگ کی چکی میں پس رہے تھے‘ میرا ذاتی خیال تھا‘ میاں نواز شریف کی حکومت مارچ 2015ء تک اپنی مقبولیت کھو دے گی‘ پارٹی کے اندر سے بغاوت ہو جائے گی‘ پارلیمنٹ ٹوٹ جائے گی اور مڈٹرم الیکشن ہو جائیں گے‘ عمران خان اگر آٹھ مہینے صبر کر لیتے‘ یہ 2014ء کے بجائے 2015ء میں نکلتے تو انھیں علامہ طاہر القادری کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی کسی لندن یا ریٹائرڈ جرنیلوں کے پلان کی ‘ یہ حقیقتاً راوی کے پل پر پاؤں رکھتے اور کاخ امراء کے درو دیوار ہل جاتے لیکن خان صاحب کے دوستوں کی جلد بازی نے دو خرابیاں پیدا کر دیں‘ آپ لوگوں نے سوئے ہوئے میاں نواز شریف کو جگا دیا‘ یہ اب اگر نئی سیاسی صف بندی کر لیتے ہیں‘ یہ فوج سے اختلافات ختم کر لیتے ہیں یہ عوامی سیاست شروع کر دیتے ہیں‘ یہ صدر مشرف اور شوکت عزیز جیسی معاشی پالیسیاں شروع کر دیتے ہیں‘ یہ علامہ طاہر القادری اور عمران خان کا سارا ایجنڈا اٹھا لیتے ہیں‘ پولیس اور عدلیہ کو خود مختار بنا دیتے ہیں‘ انتخابی اصلاحات کر دیتے ہیں‘ یوتھ لون کا دائرہ پھیلا دیتے ہیں‘یہ دیہات‘ قصبوں اور شہروں میں ضلعی حکومتیں قائم کردیتے ہیں اور یہ ملک میں دس بیس صوبے بنانے کا عمل شروع کر دیتے ہیں تو یہ نہ صرف پانچ سال پورے کر جائیں گے بلکہ یہ اگلا الیکشن بھی جیت جائیں گے‘‘
میرے دوست نے انکار میں سر ہلایا اور بولا ’’ اور دوسری خرابی کیا ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی جانی دشمن تھیں‘ میاں نواز شریف کی پارٹی نے گو زرداری گو کے نعروں کے ساتھ الیکشن جیتا تھا‘ حکومت کے 17 ماہ میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے پنجاب میں قدم نہیں رکھا تھا‘ بلاول 18 ستمبرکو پنجاب آئے اور پنجاب حکومت نے انھیں بھرپور سیکیورٹی فراہم کی۔ بلوچستان میں صوبائی قیادت اور قومی سیاست کے درمیان اختلافات تھے‘ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان سرد جنگ تھی‘ مولانا فضل الرحمن اتحادی ہونے کے باوجود حکومت سے ناراض تھے اور جماعت اسلامی قومی سیاست سے آؤٹ ہو چکی تھی لیکن آپ کی جلد بازی نے ان تمام لوگوں کو اکٹھا کر دیا‘ یہ لوگ ذاتی اختلافات بھلا کر ایک میز پر بیٹھ گئے‘آج سیاسی اتحاد کی حالت یہ ہے‘ پارلیمنٹ میں چوہدری نثار اور چوہدری اعتزاز احسن میں خوفناک جھڑپ ہوئی لیکن چوہدری اعتزاز احسن اس کے باوجود وزیراعظم کے ساتھ کھڑے رہے‘ ایم کیو ایم نئے صوبوں کے ایشو پر پارلیمنٹ سے واک آؤٹ کرگئی لیکن یہ حکومت اور وزیراعظم کے ساتھ کھڑی رہی‘ جماعت اسلامی آپ کی اتحادی تھی لیکن اس نے اعلان کیا ’’ وزیراعظم کا استعفیٰ غیر آئینی مطالبہ ہے‘‘ یہ آپ کے کوالیشن پارٹنر ہونے کے باوجود میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے چنانچہ آپ کی مہربانی سے ملک میں اپوزیشن عملاً ختم ہو گئی۔
یہ لوگ اب الیکشن بھی مل کر لڑیں گے اور ایسی پالیسیاں بھی بنائیں گے جن کا فائدہ صرف اور صرف ان کی ذات کو ہو گا‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کیا ملک میں اب سوئس کیسز کا فیصلہ ہو سکے گا‘ کیا کراچی میں امن قائم ہو سکے گا‘ کیا ہم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے خلاف فیصلے سن سکیں گے اور کیا ای او بی آئی اور ایفی ڈرین جیسے مقدموں کا کوئی نتیجہ نکل سکے گا؟ میاں نواز شریف اب سیاسی جماعتوں کے زیر بار ہو چکے ہیں۔ یہ اب ’’انڈی پینڈنٹ‘‘ فیصلے نہیں کر سکیں گے‘ آپ تصور کیجیے میاں نواز شریف سیاسی جماعتوں کے اس قدر سیاسی یرغمال بن چکے ہیں! یہ میاں شہباز شریف سے استعفیٰ بھی لینا چاہتے تھے اور عمران خان کی مرضی کا جوڈیشل کمیشن بھی بنانا چاہتے تھے لیکن گیارہ سیاسی جماعتوں نے دباؤ ڈال کر یہ فیصلہ تبدیل کرا دیا‘ حکومت اب جوڈیشل کمیشن بنائے گی اور نہ ہی کسی کا استعفیٰ پیش کرے گی‘ آپ نے بوڑھے شیر کے ہاتھوں پر نئے‘ مضبوط اور لمبے ناخن اگا دیے ہیں‘ آپ نے اس کے منہ میں نئے اور چمکدار دانت بھی دے دیے ہیں اور آپ کو پوری زندگی اس کا حساب بھی دینا پڑے گا‘‘۔
میرے دوست نے مجھ سے اتفاق نہیں کیا لیکن اس کے باوجود مجھ سے پوچھا ’’وے آؤٹ کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’ آپ غیر مشروط واپسی کا اعلان کر دیں‘ آپ جتنا عرصہ ریڈ زون میں رہیں گے آپ کی مقبولیت اور سیاسی ساکھ کو اتنا ہی نقصان پہنچتا رہے گا‘ کھیل ہو‘ جنگ ہو یا سیاست ہو‘ انسان کی ہر ہار آخری ہار نہیں ہوتی‘ کپتان وہ ہوتا ہے جو اپنی ہار تسلیم کرے اور دوبارہ لڑنے کا اعلان کرے‘ عمران خان ہار مان کر دوبارہ لڑنے کا اعلان کریں‘ میرے جیسے بے شمار لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے‘ قومی اسمبلی سے ہرگز ہرگز استعفیٰ نہ دیں‘ سینیٹ میں پی ٹی آئی کی کوئی نشست نہیں‘ آپ مستعفی ہو گئے تو آپ سینیٹ سے بھی فارغ ہو جائیں گے اور کل اگر آپ کی حکومت آ گئی توآپ کوئی قانون پاس نہیں کرا سکیں گے‘ آپ کے استعفوں کے بعد مولانا فضل الرحمن مضبوط ہو جائیں گے۔ یہ آپ کے قدم دوبارہ نہیں جمنے دیں گے‘ آپ جاوید ہاشمی کی پیش گوئی بھی ذہن میں رکھیں‘ آپ اگر ایک بار قومی اسمبلی سے نکل گئے تو آپ شاید دوسری بار اتنی سیٹیں حاصل نہ کر سکیں‘ عوام شاید آپ پر اتنا اعتبار نہ کریں‘‘ اور آخری تجویز آپ اپنی ساری توانائیاں خیبر پختونخوا پر لگا دیں‘ آپ اس صوبے کی حالت اس قدر بدل دیں کہ ملک کا جو بھی شخص اٹک کا پل پار کرے وہ بے اختیار بول پڑے ’’ میں جنت میں داخل ہو گیا ہوں‘‘ آپ نے اگر یہ تین قدم نہ اٹھائے تو آپ کی ضد آپ کو تباہ کر دے گی اور آپ کے پاس ورلڈ ریکارڈ تو ہوں گے مگر لوگ آپ کو ’’ایک تھا عمران خان‘‘ کہیں گے۔
’’ایک تھا میاں نواز شریف‘‘
جاوید چوہدری پير 22 ستمبر 2014

میں میاں نواز شریف کو ایک بار پھر 1992ء میں لے جانا چاہتا ہوں‘ وزیراعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے‘ فوج افغانستان‘ انڈیا اور امریکن پالیسی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی تھی جب کہ وزیراعظم تمام امور اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتے تھے۔ غلام اسحاق خان صدر تھے‘ ان کے پاس 58(2B) تھی‘ یہ ایک صدارتی حکم کے ذریعے ملک کی تمام اسمبلیاں اور حکومتیں توڑ سکتے تھے‘ یہ بھی میاں نواز شریف سے نالاں تھے۔ یوں میاں نواز شریف کے خلاف محاذشروع ہوگیا‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا گیا‘ محترمہ نے 16نومبر 1992ء کو حکومت کے خلاف لانگ مارچ شروع کیا‘ گو نواز گو کا نعرہ اس لانگ مارچ میں پہلی بار ایجاد ہوا تھا.
میاں نواز شریف خوش قسمت انسان ہیں‘ قدرت انھیں ہمیشہ بڑے بحرانوں سے بچالیتی ہے‘ آپ میاں نواز شریف کی پوری سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں‘ آپ کوان کے پروفائل میں قسمت زیادہ اور صلاحیت اور پرفارمنس کم نظر آئے گی۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہر سازش اور ہر بحران سے مکھن کے بال کی طرح نکال لیتا ہے‘ یہ جب بھی مار کھاتے ہیں‘ یہ اپنی سنگین غلطیوں کی وجہ سے کھاتے ہیں‘ یہ ہمیشہ آخر میں بم کو ٹھڈا مارتے ہیں اور دوبارہ پہلی سیڑھی پر چلے جاتے ہیں‘ میاں صاحب کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی‘ یہ اپنے لیے خود ہی کافی ہوتے ہیں۔ قدرت نے 1992ء میں بھی ان کا ساتھ دیا‘ میاں صاحب کی حکومت ایک ہفتے کی مہمان رہ گئی تھی کہ اچانک 8 جنوری 1993ء کو جنرل آصف نواز جنجوعہ کا انتقال ہوگیا۔ محترمہ کے کندھے سے ہاتھ ہٹ گیا‘ بحران ٹل گیا‘جنرل عبدالوحید کاکڑ نئے آرمی چیف بنے‘ یہ خاموش طبع پروفیشنل سولجر تھے‘ یہ محلاتی سازشوں پر یقین نہیں رکھتے تھے‘ جنرل کاکڑ نے فوج کو سیاست سے نکالنے کا فیصلہ کیا لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ ادارہ اس وقت تک میاں نواز شریف کے خلاف ہوچکا تھا‘ آرمی چیف اپنے رفقاء کار کے دباؤ میں آ گئے اور یہ دو ماہ بعد صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے‘صدر غلام اسحاق خان نے 18 اپریل 1993ء کو میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کردی‘ قومی اسمبلی توڑ دی‘ میاں نواز شریف 25 اپریل کو سپریم کورٹ چلے گئے۔
قسمت نے ایک بار پھر یاوری کی سپریم کورٹ نے 26 مئی کو قومی اسمبلی اور میاں نواز شریف کی حکومت بحال کر دی‘ میاں صاحب نے فوراً قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا اور 27 مئی کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا‘ آرمی چیف نے یہ فیصلہ قبول کرلیا تاہم صدر اور وزیراعظم کے دفاتر کے درمیان نئی لڑائی شروع ہوئی اور فوج ایک بار پھر اپنے سپریم کمانڈر کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ ’’شیٹل ڈپلومیسی‘‘ شروع ہوئی اور آخر میں 18 جولائی 1993ء کو جنرل عبدالوحید کاکڑ تین جنرلوں کے ساتھ ایوان صدر گئے‘ اپنے سپریم کمانڈر صدر غلام اسحاق خان اور باس وزیراعظم میاں نواز شریف کو اکٹھا بٹھایا اور دونوں سے استعفیٰ لے لیا۔
میں میاں نواز شریف صاحب کو ایک بار پھر 1992ء میں لے جانا چاہتا ہوں اور ان سے درخواست کرنا چاہتا ہوں‘ آپ 1992ء اور 1993ء کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کریں‘ آپ کو محسوس ہوگا ملک کا طاقتور ترین ادارہ جب کسی کے خلاف ہوجاتا ہے تو خواہ آرمی چیف تبدیل ہو جائے‘خواہ جنرل آصف نواز جنجوعہ کی جگہ جنرل عبدالوحید کاکڑ آ جائے فیصلہ تبدیل نہیں ہوتا‘ فیصلہ اس بار بھی تبدیل نہیں ہوگا‘ وزیر دفاع نے پارلیمنٹ ہاؤس کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر چار کور کمانڈرز اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ریٹائرمنٹ کی سمری پر دستخط کیے‘ کل نئے ڈی جی آئی ایس آئی اور چار نئے کور کمانڈرز کا نوٹیفکیشن بھی ہو گیا‘ وزیراعظم نے فیصلہ میرٹ پرکیا‘ جنرل رضوان اختر کا کیریئر بے داغ ہے‘ یہ کراچی کے حالات ٹھیک کر کے اپنی نیک نامی میں اضافہ بھی کر چکے ہیں۔ یہ یقینا آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرح خود کو سیاست سے دور رکھیں گے‘ یہ کسی دھرنے‘ احتجاج یا جلسے کو سپورٹ نہیں کریں گے‘ یہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا بھی خیال رکھیں گے‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے دھرنے بھی اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ختم ہو جائیں گے لیکن اس کے باوجود خطرات قائم رہیں گے‘ یہ بحران اتنی آسانی سے نہیں ٹلے گا۔ میاں صاحب کے لیے اب حکومت کرنا آسان نہیں ہو گا‘ یہ ایک بحران سے نکلیں گے تو دوسرا شروع ہو جائے گا‘ یہ اس سے نبٹیں گے تو دوسرا سانپ پٹاری سے باہر آ جائے گا‘ یہ اس کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوں گے‘ یہ اسے ماریں گے تو بچھوؤں کا مرتبان ٹوٹ جائے گا اوریہ خود کو بچانے کے لیے کبھی دائیں بھاگیں گے اور کبھی بائیں اور کبھی آگے جائیں گے اور کبھی پیچھے۔
اب سوال یہ ہے میاں صاحب خود کو اس صورتحال سے بچا کیسے سکتے ہیں‘ میاں صاحب کے پاس صرف دو آپشن ہیں‘ یہ آصف علی زرداری کے ماڈل پر چلے جائیں یا پھر میاں شہباز شریف ماڈل کا انتخاب کرلیں‘ آصف علی زرداری صرف سیاست کھیلتے رہے۔ انھوں نے ملک کے ہر اس کھلاڑی اور ہر اس ادارے کو کسی نہ کسی چکر میں پھنسائے رکھا جس سے ان کے اقتدار کو نقصان پہنچ سکتا تھا‘ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کسی نہ کسی ایشو میں الجھے رہے اور آصف علی زرداری نے اس الجھاؤ میں پانچ سال پورے کر لیے‘ میاں صاحب کے پاس پہلا آپشن یہ ہے‘ یہ آصف علی زرداری بن جائیں‘ یہ کچھ نہ کریں صرف پانچ سال پورے کریں‘ پانچ سال بعد حکومت عمران خان کے حوالے کر دیں اور خان صاحب کو اپنے اور زرداری صاحب کے حصے کی غلطیاں کرنے دیں‘ خان صاحب ایک آدھ سال میں ناکام ہو جائیں‘ مڈ ٹرم الیکشن ہوں‘ میاں صاحب اور آصف علی زرداری مل کر حکومت بنائیں اور یہ مل کر وہ سب کچھ کریں جو لوگ کرنا چاہتے ہیں‘ میاں صاحب کے پاس دوسرا آپشن میاں شہباز شریف ماڈل ہے‘ ملک کی تمام جماعتوں اور اداروں کو بہرحال کھلے دل سے یہ ماننا پڑے گا میاں شہباز شریف کام کرتے ہیں‘ پنجاب آج ہر لحاظ سے دوسرے صوبوں سے آگے ہے اور لوگ سندھ‘ بلوچستان خیبر پختونخواہ‘ بلتستان‘ فاٹا اور کشمیر سے پنجاب میں آباد ہو رہے ہیں‘ کراچی کے 80 فیصد سیٹھوں نے اپنے دفاتر لاہور میں بنا رکھے ہیں اور یہ اپنے خاندان اسلام آباد شفٹ کررہے ہیں یا پھر لاہور۔ میاں صاحب کو بھی اپنی پوری حکومت کو لانگ شوز پہنا کر میاں شہباز شریف کی طرح پانی میں اتارنا ہو گا‘یہ فوج کے ساتھ اپنے اختلافات کو کولڈ اسٹوریج میں رکھیں‘ افغان‘ انڈیا اور امریکن پالیسی سے چند برسوں کے لیے پیچھے ہٹ جائیں‘ فوج کو دل سے اپنا سپریم اور محب وطن ادارہ مانیں‘ اپنی پوری ٹیم کو ترقی اور تبدیلی کا چارٹر دیں اور جو شخص اٹھارہ گھنٹے کام نہ کرے‘ اسے فارغ کر دیں۔
میں آج بھی دل سے یہ سمجھتا ہوں عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے مطالبات غلط نہیں ہیں‘ یہ درست کہہ رہے ہیں۔ ملک کی خاموش اکثریت کو صرف ان کے طریقہ کار اور متبادل سسٹم کی عدم موجودگی پر اعتراض تھا‘ یہ لوگ اگر دھرنے کے بجائے آئینی طریقہ استعمال کرتے‘ یہ اچھی زبان اختیار کرتے‘ یہ دن کو سیلاب زدگان کے ساتھ ہوتے اور رات کو دھرنے میں آتے‘ یہ باقاعدہ متبادل نظام دیتے‘ یہ چھوٹے صوبوں کو ساتھ ملا لیتے‘ یہ کنٹینروں کے بجائے ورکروں کے ساتھ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوتے‘ ان کے خاندان بھی ان کے ساتھ ہوتے‘ ان پر بین الاقوامی اور لوکل اسکرپٹ کا الزام نہ لگتا اور یہ لوگ 14 اگست 2014ء کے بجائے 14 اگست 2015ء کو باہر نکلتے تو میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہو چکی ہوتی‘ میری میاں صاحب سے درخواست ہے‘ آپ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا ایجنڈا منگوائیں اور اس پورے ایجنڈے کو اپنی حکومت کا منشور بنا لیں۔ آپ فیصلہ کر لیں آپ کی حکومت ایک سال میں اس پورے ایجنڈے پر اسی فیصد عمل کرے گی‘ آپ سادگی اختیار کریں‘ میٹنگ نہ کریں‘ فیصلے کریں اور ان فیصلوں پر عمل کرائیں‘ آپ اپنے پورے خاندان کے اثاثے ڈکلیئر کردیں‘ خاندان کو سیاست سے باہر نکال دیں‘ بلدیاتی الیکشن کرائیں‘ شہروں‘ قصبوں اور دیہات پر توجہ دیں‘ اپنی ٹیم میں اضافہ کریں‘ دوسری پارٹیوں کے اچھے لوگوں کو ساتھ شامل کریں‘ رضا ربانی‘ اعتزاز احسن‘ خورشید محمود قصوری‘ شاہ محمود قریشی‘ مشاہد حسین سید‘ سردار آصف احمد علی‘ ہمایوں اختر‘ فاروق ستار‘ غلام احمد بلور‘ اسد عمر اور سراج الحق شاندار لوگ ہیں‘ آپ انھیں اقتدار میں شامل کریں‘ ریٹائر جرنیلوں اور سابق آرمی چیفس کی مدد بھی حاصل کریں‘ آپ صرف اقتدار کو انجوائے نہ کریں‘ ملک کی قیادت کریں‘ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو فارغ نہیں کر سکے گی۔
آپ کو بہرحال پوری حکومت کو میاں شہباز شریف بنانا ہو گا یا پھر آصف علی زرداری ورنہ دوسری صورت میں اگلا بحران آپ‘آپ کی پارٹی اور آپ کی سیاست تینوں کے لیے آخری کیل ثابت ہو گا اور آپ صرف سیاسی کتابوں تک محدود ہو کر رہ جائیں گے اور اگلی نسل یہ کہہ کر آپ کو یاد کرے گی ’’ایک تھا میاں نواز شریف‘‘۔
موت کی دہلیز پر
جاوید چوہدری اتوار 21 ستمبر 2014

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہوکار صرف ایک سوال کا جواب چاہتا تھا ’’میں خوش کیوں نہیں ہوں‘‘ وہ پانچ لفظوں کے اس سوال کی پوٹلی اٹھا کر بابا جی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا‘ بابا جی لنگوٹ باندھ کر جنگل میں بیٹھے تھے‘ ساہوکار نے سوال کیا ’’میں خوش کیوں نہیں ہوں‘‘ بابا جی نے سنا‘ قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا ’’تمہارے پاس قیمتی ترین چیز کون سی ہے‘‘ ساہوکار نے جواب دیا ’’میرے پاس نیلے رنگ کا ایک نایاب ہیرا ہے‘‘ بابا جی نے پوچھا ’’تم نے یہ ہیرا کہاں سے لیا تھا‘‘ ساہوکار نے جواب دیا ’’یہ ہیرا میری تین نسلوں کی کمائی ہے‘ میرے دادا حضور جو کماتے تھے‘ وہ اس سے سونا خرید لیتے تھے۔
دادا اپنا سونا میرے باپ کو دے گئے‘ باپ نے جو کمایا اس نے بھی اس سے سونا خریدا اور اپنا اور اپنے والد کا سونا جمع کر کے میرے حوالے کر دیا‘ میں نے بھی جو کچھ کمایا اسے سونے میں تبدیل کیا‘ اپنی تین نسلوں کا سونا جمع کیا اور اس سے نیلے رنگ کا ہیرا خرید لیا‘‘ بابا جی نے پوچھا ’’وہ ہیرا کہاں ہے‘‘ ساہو کار نے اپنی میلی کچیلی ٹوپی اتاری‘ ٹوپی کا استر پھاڑا‘ ہیرا ٹوپی کے اندر سِلا ہوا تھا‘ ساہوکار نے ہیرا نکال کر ہتھیلی پر رکھ لیا‘ ہیرا واقعی خوبصورت اور قیمتی تھا‘ ہیرا دیکھ کر باباجی کی آنکھوں میں چمک آ گئی‘ انھوں نے ساہو کار کی ہتھیلی سے ہیرا اٹھایا‘ اپنی مٹھی میں بند کیا۔
نعرہ لگایا اور ہیرا لے کر دوڑ لگا دی‘ ساہوکار کا دل ڈوب گیا‘ اس نے جوتے ہاتھ میں اٹھائے اور باباجی کو گالیاں دیتے ہوئے ان کے پیچھے دوڑ پڑا‘ بابا جی آگے تھے‘ ساہو کار‘ اس کی گالیاں اور اس کی بددعائیں باباجی کے پیچھے پیچھے تھیں اوران دونوں کے دائیں اور بائیں گھنا جنگل تھا اور جنگل کے پریشان حال جانور تھے‘ باباجی بھاگتے چلے گئے اور ساہو کار ان کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتا رہا‘ یہ لوگ صبح سے شام تک بھاگتے رہے یہاں تک کہ جنگل کا آخری کنارہ آ گیا‘ باباجی جنگل کی حد پر پہنچ کر برگد کے درخت پر چڑھ گئے۔
اب صورتحال یہ تھی‘ باباجی درخت کے اوپر بیٹھے تھے‘ ہیرا ان کی مٹھی میں تھا‘ ساہوکار الجھے ہوئے بالوں‘ پھٹی ہوئی ایڑھیوں اور پسینے میں شرابور جسم کے ساتھ درخت کے نیچے کھڑا تھا‘ وہ باباجی کو کبھی دھمکی دیتا تھا اور کبھی ان کی منتیں کرتا تھا‘ وہ درخت پر چڑھنے کی کوشش بھی کرتا تھا لیکن باباجی درخت کی شاخیں ہلا کر اس کی کوششیں ناکام بنا دیتے تھے‘ ساہو کار جب تھک گیا تو باباجی نے اس سے کہا ’’میں تمہیں صرف اس شرط پر ہیرا واپس کرنے کے لیے تیار ہوں‘ تم مجھے اپنا بھگوان مان لو‘‘ ساہو کار نے فوراً ہاتھ باندھے اور باباجی کی جے ہو کا نعرہ لگا دیا‘ باباجی نے مٹھی کھولی‘ ہیرا چٹکی میں اٹھایا اور ساہو کار کے پیروں میں پھینک دیا۔
ساہوکار کے چہرے پر چمک آ گئی‘ اس نے لپک کر ہیرا اٹھایا‘ پھونک مار کر اسے صاف کیا‘ ٹوپی میں رکھا اور دیوانوں کی طرح قہقہے لگانے لگا‘ باباجی درخت سے اترے‘ ساہوکار کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ’’ہم صرف اس وقت خوش ہوتے ہیں جب ہمیں کھوئی ہوئی نعمتیں واپس ملتی ہیں‘ تم اپنی طرف دیکھو‘ تم اس وقت کتنے خوش ہو‘‘ ساہوکار نے اپنے قہقہوں پر توجہ دی‘ تھوڑا سا سوچا اور اس کے بعد پوچھا ’’حضور میں سمجھا نہیں‘‘ باباجی نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیروں کی طرح ہوتی ہیں‘ ہم نعمتوں کے ہیروں کو ٹوپیوں میں سی کر پھرتے رہتے ہیں‘ ہم ان کی قدر و قیمت بھول جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ایک دن ہم سے یہ نعمتیں چھین لیتا ہے‘ ہمیں اس دن پہلی بار ان نعمتوں کے قیمتی ہونے کا اندازہ ہوتا ہے‘ ہم اس کے بعد چھینی ہوئی نعمتوں کے پیچھے اس طرح دیوانہ وار دوڑتے ہیں جس طرح تم ہیرے کے لیے میرے پیچھے بھاگے تھے‘ ہم نعمتوں کے دوبارہ حصول کے لیے اس قدر دیوانے ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنے جیسے انسانوں کو بھگوان تک مان لیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کو پھر ایک دن ہم میں سے کچھ لوگوں پر رحم آ جاتا ہے اور وہ ہماری نعمت ہمیں لوٹا دیتا ہے اور ہمیں جوں ہی وہ نعمت دوبارہ ملتی ہے ہم خوشی سے چھلانگیں لگانے لگتے ہیں‘‘ بابا جی نے اس کے بعد قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’تم صرف اس لیے اداس تھے کہ تم نے نعمتوں کے دوبارہ حصول کا تجربہ نہیں کیا تھا‘ تمہیں نعمتوں کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں تھا‘ تم اب ان چیزوں‘ ان نعمتوں کی قدر کا اندازہ لگا چکے ہو جو تمہارے پاس موجود ہیں چنانچہ اب تم کبھی اداس نہیں ہو گے‘ تم خوش رہو گے‘‘۔
میں نے یہ واقعہ برسوں پہلے پڑھا لیکن یہ آج اچانک یاد آ گیا‘ یہ کیوں یاد آ گیا؟ اس کی وجہ گارڈین اخبار کی ایک ریسرچ تھی‘ اخبار کے ایک رپورٹر نے آخری سانس لیتے ہوئے مریضوں کی آخری خواہشات جمع کیں‘ یہ بے شمار مرتے ہوئے لوگوں سے ملا اور ان ملاقاتوں کی روشنی میں اس نے اپنی ریسرچ مکمل کی‘ ریسرچ کے مطابق مرنے والوں میں پانچ خواہشیں ’’کامن‘‘ تھیں‘ ان کا کہنا تھا ’’ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی میں جو عنایت کیا تھا‘ ہم اسے فراموش کر کے ان چیزوں کے پیچھے بھاگتے رہے جو ہمارے نصیب میں نہیں تھیں۔
اللہ تعالیٰ اگر ہماری زندگی میں اضافہ کر دے یا یہ ہمیں دوبارہ زندگی دے دے تو ہم صرف ان نعمتوں کو انجوائے کریں گے جو ہمیں حاصل ہیں‘ ہم زیادہ کے بجائے کم پر خوش رہیں گے‘‘ ان کا کہنا تھا‘ ہم نے پوری زندگی لوگوں کو ناراض کرتے اور لوگوں سے ناراض ہوتے گزار دی‘ ہم بچپن میں اپنے والدین‘ اپنے ہمسایوں‘ اپنے کلاس فیلوز اور اپنے اساتذہ کو تنگ کرتے تھے‘ ہم جوانی میں لوگوں کے جذبات سے کھیلتے رہے اور ہم ادھیڑ عمر ہو کر اپنے ماتحتوں کو تکلیف اور سینئرز کو چکر دیتے رہے‘ ہم دوسروں کے ٹائر کی بلاوجہ ہوا نکال دیتے تھے‘ دوسروں کی گاڑیوں پر خراشیں لگا دیتے تھے اور شہد کے چھتوں پر پتھر مار دیتے تھے‘ ہم بہن بھائیوں اور بیویوں کے حق مار کر بیٹھے رہے‘ ہم لوگوں پر بلاتصدیق الزام لگاتے رہے۔
ہم نے زندگی میں بے شمار لوگوں کے کیریئر تباہ کیے‘ ہم اہل لوگوں کی پروموشن روک کر بیٹھے رہتے تھے اور ہم نااہل لوگوں کو پروموٹ کرتے تھے‘ ہمیں اگر دوبارہ زندگی مل جائے تو ہم عمر بھر کسی کو تکلیف دیں گے اور نہ ہی کسی سے تکلیف لیں گے‘ ہم ناراض ہوں گے اور نہ ہی کسی کو ناراض کریں گے‘‘ زندگی کی آخری سیڑھی پر بیٹھے لوگوں کا کہنا تھا‘ ہماری مذہب کے بارے میں اپروچ بھی غلط تھی‘ ہم زندگی بھر لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتے رہے‘ ہم انھیں دوزخی یا جنتی قرار دیتے رہے۔
ہم مسلمان ہیں تو ہم باقی مذاہب کے لوگوں کو کافر سمجھتے رہے اور ہم اگر یہودی اور عیسائی ہیں تو ہم نے زندگی بھر مسلمانوں کو برا سمجھا‘ ہم آج جب زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے دنیا کا ہر شخص ایک ہی جگہ سے دنیا میں آتا ہے اور وہ ایک ہی جگہ واپس جاتا ہے‘ ہم ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں اور قبر کے اندھیرے میں گم ہو جاتے ہیں‘ ہمیں اگر آج دوبارہ زندگی مل جائے یا اللہ تعالیٰ ہماری عمر میں اضافہ کر دے تو ہم مذہب کو کبھی تقسیم کا ذریعہ نہیں بنائیں گے‘ ہم لوگوں کو آپس میں توڑیں گے نہیں‘ جوڑیں گے‘ ہم دنیا بھر کے مذاہب سے اچھی عادتیں‘ اچھی باتیں کشید کریں گے اور ایک گلوبل مذہب تشکیل دیں گے۔
ایک ایسا مذہب جس میں تمام لوگ اپنے اپنے عقائد پر کاربند رہ کر ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار سکیں اور دنیا میں مذہب کی بنیاد پر کوئی جنگ نہ ہو‘ آخری سانسیں گنتے لوگوں کا کہنا تھا‘ ہم نے زندگی بھر فضول وقت ضایع کیا‘ ہم پوری زندگی بستر پر لیٹ کر چھت ناپتے رہے‘ کرسیوں پر بیٹھ کر جمائیاں لیتے رہے اور ساحلوں کی ریت پر لیٹ کر خارش کرتے رہے‘ ہم نے اپنی دو تہائی زندگی فضول ضایع کر دی‘ ہمیں اگر دوبارہ زندگی ملے تو ہم زندگی کے ایک ایک لمحے کو استعمال کریں گے‘ ہم کم سوئیں گے‘ کم کھائیں گے اور کم بولیں گے۔
ہم دنیا میں ایسے کام کریں گے جو دوسرے انسانوں کی زندگیوں کو آسان بنائیں‘ جو محروم لوگوں کو فائدہ پہنچائیں اور زندگی کی آخری سیڑھی پر بیٹھے لوگوں کا کہنا تھا‘ ہم عمر بھر پیسہ خرچ کرتے رہے لیکن ہم اس کے باوجود اپنی کمائی کا صرف 30 فیصد خرچ کر سکے‘ ہم اب چند دنوں میں دوزخ یا جنت میں ہوں گے لیکن ہماری کمائی کا ستر فیصد حصہ بینکوں میں ہو گا یا پھر یہ دولت ہماری نالائق اولاد کو ترکے میں مل جائے گی‘ ہمیں اگر دوبارہ زندگی ملی تو ہم اپنی دولت کا ستر فیصد حصہ ویلفیئر میں خرچ کریں گے‘ ہم مرنے سے قبل اپنی رقم چیریٹی کر جائیں گے۔
یہ مرنے والے لوگوں کی زندگی کا حاصل تھا‘ یہ زندگی میں خوشی حاصل کرنے کے پانچ راز بھی ہیں لیکن انسانوں کو یہ راز زندگی میں سمجھ نہیں آتے‘ ہم انسان یہ راز اس وقت سمجھتے ہیں جب ہم موت کی دہلیز پر کھڑے ہوتے ہیں‘ جب ہمارے ہاتھ سے زندگی کی نعمت نکل جاتی ہے‘ انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ اس کی آنکھ اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک اس کی آنکھیں مستقل طور پر بند نہیں ہو جاتیں اور ہم میں سے زیادہ تر لوگ آنکھیں کھولنے کے لیے آنکھوں کے بند ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
ہم سب کے لیے
جاوید چوہدری منگل 16 ستمبر 2014

ہمیں ماننا پڑے گا ہم سب غلطی پر ہیں‘ ہم سب مجرم ہیں اور ہمیں فوری طور پر اپنی اصلاح کرنا ہو گی ورنہ دوسری صورت میں ہم بے نام قبرستان کی بے نشان قبربن جائیں گے‘ میں سب سے پہلے میڈیا سے شروع کرتا ہوں‘ الیکٹرانک میڈیا کو فوری اصلاح کی ضرورت ہے‘ ہم ریٹنگ کی دوڑ میں ملک کو ایسی ’’سلوپ‘‘ پر لے آئے ہیں جہاں ہزاروں فٹ گہری کھائی ہے‘ ہم ملک میں ہونے والی ہر منفی سرگرمی کو ہزاروں گنا بڑا کر کے دکھاتے ہیں‘ ہماری اسکرینوں پر ڈپریشن‘ ٹینشن‘ شدت اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوتا‘ ہم نے ٹیلی ویژن کو کنفیوژن کی فیکٹری بنا دیا‘ لوگوں کے ڈپریشن میں اضافہ ہو رہا ہے اور ڈاکٹر اب مریضوں کو ٹی وی سے پرہیز کا مشورہ دیتے ہیں‘ ہم نے اپنی اسکرینوں کو خودکش اینکرز کے حوالے کر دیاہے‘ یہ لوگ اپنے ساتھ ساتھ میڈیا اور معاشرے کو بھی تباہ کر رہے ہیں‘ ہماری گاڑیوں‘ کیمروں‘ رپورٹروں اور دفتروں پر حملے شروع ہو چکے ہیں‘ یہ حملے عوام کی اس فرسٹریشن کا نتیجہ ہیں جو ہم نے پیدا کی اور جس کو ہم روز ایندھن فراہم کر رہے ہیں۔
لوگ اب ہم سے صرف وہ سننا چاہتے ہیں جو یہ سننا چاہتے ہیں اور صرف وہ دیکھنا چاہتے ہیں جو یہ دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم جس دن ان کی توقع پر پورے نہیں اترتے یا ہم انھیں تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی ’’غلطی‘‘ کر بیٹھتے ہیں‘ یہ اس روز ہماری گاڑیوں‘ ہمارے کیمروں اور ہمارے رپورٹرز پر حملے شروع کر دیتے ہیں‘ ہم اگر اب بھی نہ سنبھلے‘ ہم نے اگر عوامی نفسیات کو دیکھ کر پالیسی نہ بنائی اور ہم نے جذباتیت کی یہ دکانداری بند نہ کی تو ملک سے قبل ہم سب تباہ ہو جائیں گے‘ لوگ ہمارے اسٹوڈیوز پر قابض ہو جائیں گے اور یہ ہمیں گن پوائنٹ پر وہ دکھانے پر مجبورکریں گے جو یہ اور ان کے چاہنے والے دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ ہمیں عوامی خواہشات کا غلام یا مستقبل کے لیڈر ان دونوں میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا ہو گا‘ہمیں فوری طور پر میڈیا اصلاحات کرنا ہوں گی‘ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا ہم نے کون سی چیز دکھانی ہے اور کون سی نہیں‘ ہمیں اینکر پرسنز کے لیے بھی ’’کرائی ٹیریا‘‘ طے کرنا ہو گا۔
میڈیا کی طرح عوام بھی مجرم ہیں‘ یہ آج بھی نعروں‘ دعوؤں اور بیانات کو آسمانی صحیفہ سمجھ رہے ہیں‘ یہ آج بھی سمجھتے ہیں‘ روٹی‘ کپڑا اور مکان حکومتی ذمے داری ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں کسان گندم مہنگی بوئے گا لیکن ہمیں سستی بیچے گا‘ بجلی 22 روپے یونٹ بنے گی لیکن ہمیں پانچ روپے یونٹ ملے گی‘ ہم خواہ پٹڑیاں اکھاڑ کر بیچ دیں لیکن ریلوے چلنی چاہیے‘ پی آئی اے کے جہاز25 ہوں‘ ملازم19 ہزار4 سو 18 ہوں اور یہ ملازم خواہ تیل بیچ دیں اور پرزے نکال کر کباڑ مارکیٹ میں فروخت کر دیں لیکن پی آئی اے کودنیا کی شاندار ترین ائیر لائین ہونا چاہیے۔
یہ سمجھتے ہیں یہ خواہ بچوں کو تعلیم نہ دیں‘ یہ بچوں کو ہنر نہ سکھائیں لیکن بچوں کو کم از کم ایم ڈی ضرور لگنا چاہیے‘ یہ خود دھرنے دے کر ملک بند کر دیں‘ دفتر‘ دکانیں‘ فیکٹریاں اور کارخانے بند ہو جائیں لیکن ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہونا چاہیے‘ یہ بیمار خود ہوں لیکن علاج حکومت کرائے‘ یہ پوری زندگی ریاست کو دھیلا ٹیکس نہ دیں لیکن ریاست کینیڈا‘ ناروے اور جرمنی کی طرح ویلفیئر ہونی چاہیے‘ یہ پوری زندگی کام نہ کریں لیکن ملک کو ان کے ساتھ داماد جیسا سلوک کرنا چاہیے یہ سعودی عرب منشیات لے جائیں لیکن پھانسی سے بچانا ریاست کی ذمے داری ہے اور یہ خواہ ساری سرکاری املاک جلا کر راکھ کر دیں لیکن پولیس کو انھیں سیلوٹ کرنا چاہیے‘ کیا یہ ممکن ہے؟ اور کیا اس طرح یہ ملک چل سکے گا‘ عوام کو سمجھنا ہوگا ہم جب تک اپنا‘ اپنے خاندان‘ اپنے شہر اور اپنی ریاست کا مالی بوجھ نہیں اٹھائیں گے‘ یہ ملک نہیں چل سکے گا‘ ہم جب تک ملک کو گھر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے‘ ہم ملک نہیں چلا سکیں گے‘ ہمارے عوام کو یہ سمجھنا ہو گا۔
ہماری حکومت اور سیاسی قیادت بھی مجرم ہے‘ یہ تیسری دنیا کے مرتے ہوئے ملک کے قائد ہیں لیکن ان کے انداز حکمرانی شاہانہ ہیں‘ یہ سیلاب زدہ علاقوں کے دوروں کے دوران بھی جوتوں کو کیچڑ نہیں لگنے دیتے‘ یہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے ملک میں سرکاری جہازوں میں سفر کرتے ہیں‘ یہ بچوں کو دوبئی‘ لندن اور نیویارک میں رکھتے ہیں اور یہ کاروبار باہر چلاتے ہیں‘ ملک میں صرف حکومت کرنے کے لیے آتے ہیں‘ یہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ میں پھنسے ہوئے لوگ ہیں‘ یہ خاندانوں‘ برادریوں‘ دھڑوں اور سیاسی مفادات کا شکار ہیں‘ یہ اقتدار میں آ جاتے ہیں‘ نظام میں پیوند لگا کر وقت گزارتے ہیں اور عوام کو پہلے سے زیادہ خوفناک حالات میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، ہمارے حکمرانوں اور سیاسی قائدین کو بھی عقل کے ناخن لینا ہوں گے‘ انھیں بھی خواب خرگوش سے نکلنا ہو گا اور ملک کو نئے سرے سے تعمیر کرنا ہو گا‘ عمران خان نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا‘ سیاسی قائدین یہ موقع غنیمت جانیں اور ملک کے اصل مسائل کے حل کے لیے تعمیری قانون سازی کریں‘ اداروں کو’’ری شیپ‘‘ کریں‘ پولیس اور عدلیہ کو آزاد بھی کریں اور وسائل بھی دیں‘ عوام کی انگلی پکڑیں تاکہ ملک میں صحیح معنوں میں تبدیلی آ سکے ورنہ اگلا حملہ پورے ملک کو اڑا دے گا۔
عمران خان اور علامہ طاہر القادری بھی غلط راستے پر چل رہے ہیں‘ آپ اگر خود قانون توڑیں گے‘ آپ سسٹم کے خلاف لوگوں کو خود سڑکوں پر لے آئیں گے‘ آپ جارحانہ زبان استعمال کریں گے‘ آپ ریاست کے اداروں کو سرے عام برا بھلا کہیں گے اور آپ اختلافات کرنے والے صحافیوں کو بکاؤ قرار دیں گے تو آپ کل خود کیسے حکومت کریں گے‘ آپ کل عوام سے حکومت کی رٹ کیسے منوائیں گے‘ میں آپ کے ورکروں کی ’’موبائل دہشت گردی‘‘ کا بہت بڑا ہدف ہوں‘ آپ کے ورکرزآپ سے اختلاف کو برداشت نہیں کرتے اور آپ کے باغیوں کو گالی دینا فرض سمجھتے ہیں‘ یہ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے مجھ پر مہربانی فرما رہے ہیں، آپ پی ٹی آئی کی ویب سائیٹس دیکھیں‘ آپ کی ویب سائیٹس سے لوگوں کو میرے نمبردے کر مجھے گالیاں دینے کا ٹاسک دیا جاتا ہے‘کیا یہ وہ تبدیلی تھی جس کا آپ دعویٰ کرتے ہیں؟ مجھے یقین ہے آپ جس دن اس نئے پاکستان کے حکمران بنیں گے اس دن آپ کے ساتھ اس سے بھی برا سلوک ہو گا‘آپ کے لیے باہر نکلنا مشکل ہو جائے گا‘ کیوں؟ کیونکہ آپ لوگوں کو وہاں لے آئے ہیں جہاں لوگ صرف ہم زبانوں اور ہم خیالوں کو غیر جانبدار سمجھتے ہیں‘ آپ اگر انقلاب کے ساتھ ہیں تو آپ کے سات خون بھی معاف ہیں اور آپ نے اگر شاہی دربار میں چھینک بھی مار دی تو آپ غدار ہیں‘ خان صاحب لوگ خواہشوں کے گھوڑوں پر بیٹھ چکے ہیں‘ یہ اب لوگوں کے سر اتاریں گے اور جس دن یہ کھیل شروع ہو گیا اس دن یہ ملک ہاتھ سے نکل جائے گا‘ آپ ہوش میں آئیں۔
مجھے افواج پاکستان سے بھی چند گلے ہیں‘ پاکستان کی 68 سال کی تاریخ میں 32 سال فوجی حکومتیں رہیں‘ ہم اگر آج ملکی حالات کو رو رہے تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا حالات کی اس خرابی میں آمروں کا ہاتھ ساٹھ فیصد ہے‘ ہم فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک کسی آمر کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے‘ ہمیں ماننا پڑے گا ایوب خان کی امریکا نواز پالیسی نے پاکستان کو روس امریکا جنگ کا میدان جنگ بنا دیا تھا اور ہم نے 60ء کی دہائی ہی میں آدھی دنیا کواپنا مخالف بنا لیاتھا‘ جنرل یحییٰ خان کی ضد نے ملک توڑ دیا تھا‘ بنگلہ دیش بنا تھا‘ جنرل ضیاء الحق کے جہاد نے ملک کو بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا تھا اور جنرل پرویزمشرف کی غلط پالیسی نے ملک کو دہشت گردی کے جہنم میں دھکیل دیا تھا‘ ہمیں یہ ساری غلطیاں ماننا ہوں گی۔
فوج کو یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا‘ ملک کے ہر آمرانہ دور میں کرپٹ سیاستدانوں کی ایک نئی کلاس نے جنم لیا اور یہ کلاس ملک کو تباہ کرتی چلی گئی‘ آپ آج سیاست سے الگ ہیں‘ اچھی بات ہے لیکن آپ موجودہ بحران سے الگ نہیں رہ سکتے! آپ کو یہ بحران ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا‘ آپ وزیراعظم سے ملاقات کریں‘ غلط فہمیاں دور کریں‘ مستقبل کا لائحہ عمل تیارکریں اور دھرنے ختم کرائیں‘ یہ دھرنے جہاں ملک کو اندر اور باہر دونوں طرف سے کھوکھلے کر رہے ہیں وہاں آپ کی خاموشی اور لاتعلقی ملک کو مزید تباہ کر رہی ہے اور آخر میں میرے اندر بے شمار خامیاں ہیں‘ میں جاہل بھی ہوں‘ نالائق بھی‘ سست بھی اور عاقبت نااندیش بھی، اللہ تعالیٰ کے کرم اور محنت کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں‘ میں نے جولاہے کی طرح ایک ایک دھاگہ جوڑ کر اپنی زندگی کا غلاف بنا ہے اور راج مزدور کی طرح ایک ایک اینٹ رکھ کر اپنی ذات کی مسجد بنائی ہے‘ میں نے اس غلاف کو کبھی آلودہ ہونے دیا اور نہ ہی ذات کی مسجد میں کسی بے ایمانی کو قدم رکھنے دیا‘ میں نے بڑی مشکل سے آزاد سوچنا‘ آزاد بولنا اور آزاد لکھنا سیکھا ہے میں کسی کو یہ آزادی چھیننے دوں گا اور نہ ہی خریدنے دوں گا‘ کسی میں اگر گالی دینے کی ہمت ہے تو سامنے آئے‘ فرضی اور جعلی اکاؤنٹس کی چارپائی سے باہر آئیں‘ میں بکنے اور خریدے جانے والوں دونوں پر لعنت بھیجتا ہوں اور میرے جیسے آزاد لکھنے اور بولنے والوں کو گالیاں دینے والوں پر بھی۔ میں اس کے ساتھ یہ بھی سمجھتا ہوں عمران خان اور ان کی جماعت کو قائم رہنا چاہیے کیونکہ ملکی سیاست میں بہت بڑا ’’ویکیوم‘‘ موجود ہے‘ اگر عمران خان راستے سے ہٹ گیا تو یہ ویکیوم مذہبی شدت پسند پورا کریں گے اور یہ لوگ اگر آ گئے تو پاکستان عراق بن جائے گا اور ہم پاکستان کو پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں عراق نہیں۔
عمران خان کے لیے
جاوید چوہدری اتوار 14 ستمبر 2014

خان صاحب آپ نے 25 اپریل 1996ء کو پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی، میں اس دن آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوا اور میری اگست 2014ء تک آپ سے دوستی رہی‘ میں نے آخری بار 28 جولائی 2014ء کو آپ کے ساتھ اسلام آباد سے بنوں تک سفر کیا‘ ہم آئی ڈی پیز کے ساتھ عید منانے بنوں گئے تھے‘ میں نے اس دن آپ کا آخری انٹرویو بھی کیا تھا‘ میری آپ سے اٹھارہ سال رفاقت رہی‘ میں نے ان اٹھارہ برسوں میں آپ پر درجنوں کالم لکھے اور بیسیوں انٹرویوز کیے‘ ان انٹرویوز میں وہ انٹرویوز بھی شامل ہیں جو جنرل پرویز مشرف کے اس دور میں نشر کیے گئے جب ٹیلی ویژن چینلز آپ کے انٹرویوز چلانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔
میری اس طویل ارادت مندی کی تین وجوہات تھیں‘ میرا خیال تھا محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میں ملک چلانے کی صلاحیت نہیں‘ یہ اسٹیٹس کو اور سیاسی مفادات کے اسیر ہیں‘یہ نیک تمناؤں کے ساتھ ایوان اقتدار میں آتے ہیں لیکن اس کو‘ حلقوں کی سیاست‘پارٹی کے مفاد پرست دھڑے اور ماضی کی غلطیاں انھیں جلد ہی راہ راست سے بھٹکا دیتی ہیں اور یہ چند ماہ میں پرانی روش پر آ جاتے ہیں‘ میرا خیال تھا آپ میں اسٹیٹس کو توڑنے کی ہمت ہے‘ دو‘ لوگ پرانے چہرے دیکھ دیکھ کر تھک گئے تھے‘ملکی سیاست دہائیوں سے چند خاندان اورچند لوگوں کے قبضے میں تھی‘ یہ لوگ سورج مکھی ہیں‘ یہ اقتدار سے فارغ ہونے والی پارٹی کا فوراً اندازہ لگا لیتے ہیں اور چلتی گاڑی سے اقتدار کے اگلے ٹرک میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔
میرا خیال تھا آپ نئی ٹیم کے ساتھ سیاست میں آرہے ہیں اور آپ کا یہ قدم سیاست میں نیا جھونکا ثابت ہو گا اور تیسری اور آخری وجہ‘ پاکستان کا نوجوان طبقہ سیاست سے بے زار ہو چکا تھا‘ یہ لوگ جلسوں میں آتے تھے اور نہ ہی ووٹ دیتے تھے‘ آپ نوجوانوں کے ہیرو تھے چنانچہ میرا خیال تھا آپ نوجوانوں کو باہر نکالیں گے اور یہ سیاست کی بہت بڑی خدمت ہو گی‘ آپ پڑھے لکھے بھی ہیں‘ فارن کوالی فائیڈ بھی ہیں‘ آپ نے تین چوتھائی زندگی ہیرو کی طرح بھی گزاری اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے نوجوانی میں وہ ساری سہولتیں بھی دیں جو لوگوں کو عمر بھر کی ریاضت کے بعد بھی نصیب نہیں ہوتیں چنانچہ میں نے بھی ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح آپ سے سیکڑوں امیدیں وابستہ کر لیں لیکن میں آج تسلیم کرتا ہوں میرے سارے اندازے غلط تھے‘ میں غلطی پر تھا اور مجھے آج پاکستان کا مستقبل پہلے سے زیادہ خوفناک دکھائی دے رہا ہے‘ آپ نے ملک کے ساتھ زیادتی کی‘ کیا زیادتی کی؟ میں اب وہ تمام حقائق قوم کے سامنے رکھتا ہوں اور آپ سے جواب چاہتا ہوں۔
آپ کی پہلی زیادتی‘ آپ نے ملک کی اس اشرافیہ کو نئی زندگی دے دی‘ اسے دوبارہ اکٹھا کر دیا جسے قوم نے بڑی مشکل سے الگ الگ بھی کیا تھا اور دیوار کے ساتھ بھی لگایا تھا‘ آج آپ کی ضد کی وجہ سے بلوچستان سے لے کر سندھ اور جنوبی پنجاب سے لے کر کوہستان تک ملک کی ساری سیاسی قیادت یک جان ‘ یک قالب ہو چکی ہے‘ یہ لوگ اب ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں اور ریاست اب ان سے پرانے جرائم کا حساب لے سکے گی اور نہ ہی انھیں نئے جرائم سے روک سکے گی‘ وفاق کا سندھ حکومت سے بجلی چوری پر تنازعہ تھا‘ بلوچستان کے ساتھ رائیلٹی کا ایشو تھا اور بلوچستان اور وفاق کے درمیان بلوچ باغیوں پر بھی اختلافات تھے۔
آپ کی مہربانی سے اب میاں نواز شریف کسی صوبے سے وفاق کی رٹ نہیں منوا سکیں گے۔ دوسری زیادتی‘ آپ کے پاس سنہری موقع تھا آپ الیکشن اصلاحات کرواتے‘ الیکشن دھاندلی کا مستقل حل تلاش کرتے اور مستقبل کے تمام انتخابات کو صاف اور شفاف بنوا دیتے لیکن آپ کی استعفے کی ضد نے یہ موقع گنوا دیا‘ الیکشن اصلاحات اب آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کریں گے اور یہ اصلاحات بھی اب ماضی کے الیکشنوں کی طرح اقتدار کسی نہ کسی ’’ اسٹیٹس کو‘‘ کے حوالے کیا کریں گی۔ تیسری زیادتی‘ آپ عوام کے غصے کو تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں لا سکتے تھے‘ ہمارے ملک کے ہر شخص کے اندر غصہ ابل رہا ہے‘ اخلاقیات دم توڑ چکی ہیں‘ لوگ دوسروں کو آپ کہنا توہین سمجھتے ہیں‘ ملک میں مقدس ترین ہستیوں کو بھی برا بھلا کہنے کی روایت چل پڑی ہے۔
ہمارا خیال تھا آپ نوجوانوں میں پاپولر ہیں‘ آپ غصے سے ابلتے نوجوانوں کو تہذیب کے دائرے میں لائیں گے لیکن آپ نے اس غصے کو غیرشائستگی کا نیا پٹرول فراہم کر دیا‘ آج آپ سے اختلافات رائے کا مطلب گالیاں ہیں۔ آپ انسان ہیں‘ ایسا نہیں ہے کہ آپ سے اختلاف نہیں ہو سکتا۔ آج لکھنے اور بولنے والوں کو علامہ اقبال اور قائداعظم کی فلاسفی سے اختلاف پر اتنی گالیاں نہیں پڑتیں جتنی آپ کے انقلاب کی حمایت نہ کرنے پر نصیب ہوتی ہیں‘ کیا دنیا کے کسی ملک میں اس رویئے کی گنجائش موجود ہے؟ آپ اور آپ کے کارکنوں نے پوری سیاست کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے‘ وہ لوگ شاندار اور ایماندار ہیں جو آپ کے حامی ہیں اور باقی دنیا بے غیرت‘ بے شرم اور لعنتی اور اس دنیا میں آپ کی پارٹی کے صدر جاوید ہاشمی اور آپ کے برادر نسبتی حفیظ خان نیازی بھی شامل ہیں۔
یہ کیسی جمہوریت‘ کیسی آزادی اور کیسا نیا پاکستان ہے؟ آپ آج اگر اپنے چند لاکھ ورکروں کی زبان کنٹرول نہیں کر سکتے تو آپ مسائل میں گھرے ہوئے پاکستان کو کیسے کنٹرول کریں گے۔ چوتھی زیادتی‘ یہ ملک بدامنی‘ بے انصافی اور لاقانونیت کا شکار تھا‘ ہمارے ملک میں طاقتور کے لیے الگ قانون تھا اور بے بس کے لیے الگ‘ ہمارا خیال تھا آپ ملک کو قانون کی حکمرانی کی طرف لے کر جائیں گے لیکن آپ نے قانون کا رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیا‘ پاکستان میں آج تک کسی سیاستدان نے سول نافرمانی‘ ہنڈی‘ بل جمع نہ کرانے‘ ٹیکس نہ دینے اور پولیس کو ڈنڈے مارنے کا حکم نہیں دیا تھا‘ بنگلہ دیش بن گیا لیکن سول نافرمانی نہ ہوئی‘ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی لگ گئے لیکن کسی سیاسی ورکر نے جیل کی گاڑی نہ روکی اور میاں نواز شریف کو خاندان سمیت جلا وطن کر دیا گیا مگر کسی نے پولیس پر ہاتھ نہ اٹھایا لیکن آپ نے قانون کا سارا بھرم توڑ دیا‘ لوگ آج کے بعد تھانوں پر حملے کریں گے۔
مرضی کے فیصلے لینے کے لیے ججوں کا گھیراؤ کریں گے اور جیلیں توڑ کر اپنے ملزموں‘ اپنے مجرموں کو باہر نکالیں گے‘ کیا یہ ٹھیک ہو گا؟ اگر ہاں تو کیا اس صورتحال میں کوئی شخص وزیراعظم بن سکے گا اور کیا کوئی حکومت ملک چلا سکے گی؟ پانچویں زیادتی‘ سول سوسائٹی‘ میڈیا اور وقت نے طویل جدوجہد کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے باہر نکالا تھا‘ طویل عرصے بعد سیاسی مسائل سیاسی میدان میں حل ہونے لگے تھے‘ پارلیمنٹ مضبوط ہو رہی تھی اور سیاستدان اٹھارویں‘ انیسویں اور بیسویں ترامیم کرنے لگے تھے لیکن آپ نے ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں گھسیٹ لیا۔ چھٹی زیادتی‘ صوبوں کے درمیان نفرت کم ہو رہی تھی لیکن آپ نے ایک بار پھر سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قوم پرستوں کو پنجاب کو برا بھلا کہنے کا موقع دے دیا‘ لوگ پوچھ رہے ہیں‘ اگر بلوچستان‘ سندھ‘ جنوبی پنجاب یا کسی پشتون لیڈر نے سول نافرمانی کا اعلان کیا ہوتا تو کیا اس کے ساتھ بھی عمران خان اور علامہ طاہر القادری جیسا سلوک ہوتا؟ وفاق اب مستقبل میں کسی قوم پرست جماعت کو لانگ مارچ اور دھرنے سے روک سکے گا اور نہ ہی اعلان بغاوت پر اس کے خلاف قانونی کارروائی کر سکے گا۔
لوگ کہیں گے عمران خان کے لیے پھول اور ہمارے لیے ہتھکڑیاں‘ کیوں؟۔ ساتویں زیادتی‘ آپ نے ملک کے تمام دھڑوں کو راستہ دکھایا‘ یہ لوگ چند ہزار لوگ لائیں اور ملک سے ایٹم بم لے لیں یا پھر بھارت پر حملہ کروا دیں‘ آپ نے ملک میں دھرنوں اور لانگ مارچز کا راستہ کھول دیا۔ آٹھویں زیادتی‘ آپ کی اپنی ضد سے ملک میں تیزی سے ابھرتی سیاسی جماعت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے‘ آپ کے بعض ایم این اے آپ کے اقدامات سے خوش ہیں‘ آپ کے ووٹرز اور نہ ہی وہ خاموش اکثریت جس نے آپ سے ہزاروں امیدیں وابستہ کر لی تھیں‘ آج ملک کا پڑھا لکھا طبقہ‘ تاجر برادری‘ سفارت کار‘ سرکاری ملازمین اور طالب علم آپ سے ناراض نظر آتے ہیں۔
فوج میں آپ کی حمایت موجود تھی لیکن آپ کے بے لچک رویئے نے وہ حمایت بھی کھو دی‘ آپ یقین کریں دنیا کا کوئی ملک آپ جتنا ضدی حکمران افورڈ نہیں کر سکتا‘ آپ کا کنٹینر آپ کو دن بدن اقتدار سے دور لے جا رہا ہے‘ آپ آنکھیں کھولیں۔ نویں زیادتی‘ آپ سسٹم بریک کر رہے ہیں لیکن آپ کے پاس ضد کے علاوہ کوئی متبادل نظام موجود نہیں‘ خان صاحب اگر یہ سسٹم ٹوٹ گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا‘ آپ کو اندازہ ہے آپ کیا کر رہے ہیں اور دسویں زیادتی‘ آپ نے ملک میں کوئی ادارہ‘ کوئی شخصیت نہیں چھوڑی‘ آپ کے علاوہ تمام لوگ چور ہیں‘ صرف آپ ایماندار ہیں‘ خان صاحب یہ خدائی دعویٰ صرف خدا کو سوٹ کرتا ہے‘ آپ تکبر کی آخری سیڑھی پر چلے گئے ہیں اورتاریخ میں آج تک کوئی شخص اس سیڑھی سے سلامت واپس نہیں آیا‘ آپ بھی نہیں آ سکیں گے۔
خان صاحب میری آپ سے درخواست ہے‘ آپ استعفے کا مطالبہ چھ ماہ کے لیے موخر کر دیں‘ آپ کے ساڑھے پانچ مطالبات منظور ہو چکے ہیں‘ آپ اگر دو تہائی اکثریت بھی لے لیتے تو بھی آپ آئین میں یہ ساڑھے پانچ تبدیلیاں نہیں کر سکتے تھے‘ آپ جیت چکے ہیں‘ آپ اس پر اکتفا کریں‘ آئین کو درست کریں‘ انتخابی اصلاحات کریں اور جوڈیشل کمیشن کو میاں نواز شریف کا فیصلہ کرنے دیں‘ آپ اور ملک دونوں بچ جائیں گے‘ دوسرا آپ خیبر پختونخواہ پر توجہ دیں‘ یہ دو کروڑ بیس لاکھ لوگوں کا چھوٹا سا صوبہ ہے‘ آپ نے اگر وہاں پرفارم کر لیا تو پورا ملک آپ کا ہو گا‘ لوگ آپ کو گھر سے اٹھا کر وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیں گے لیکن آپ نے اگر یہ موقع کھو دیا تو آپ اور کتابوں میں رکھے ہوئے سوکھے گلابوں میں کوئی فرق نہیں ہو گا‘ آپ ہوں گے اور بنی گالہ کی اداس شامیں ہوں گی اور میرے جیسے چند دوست ہوں گے‘خدا را! آپ واپس آ جائیں‘ ملک کو نئے لیڈر سے محروم نہ کریں۔
نوٹ: میں عمران خان سے اختلاف کر کے توہین خان کا مرتکب ہو چکا ہوں‘ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں سے درخواست ہے آپ مجھے غلط نمبر پر گالیاں دے رہے ہیں‘ آپ مجھے اس کالم کے بعد گالی دینے کے لیے 0300-5555590 ، 0333-5553747 پر رابطہ کریں۔
مولانا کے لیے
جاوید چوہدری جمعـء 12 ستمبر 2014

علامہ طاہر القادری صاحب میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں‘ آپ امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے عظیم خطیب ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لفظوں کو مقناطیسی قوت ودیعت کر رکھی ہے‘ آپ دلوں کو گرفت میں لے لیتے ہیں‘ میں زمانہ طالب علمی میں آپ کے سالانہ اجتماع میں جاتا تھا‘ میں ساری رات آپ کی تقریر سنتا تھا اور اکثر اوقات بارش یا سردی کی وجہ سے بیمار واپس لوٹتا تھا‘ میں نے آپ کی درجنوں کتابیں بھی پڑھیں اور مجھے آپ کے انٹرویوز کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی‘ میں تاریخ کے مطالعے اور آپ کے خطبات سن کر چند نتائج پر پہنچا ہوں اور میں یہ نتائج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں‘ مجھے یقین ہے آپ مائنڈ نہیں کریں گے۔
علامہ صاحب! پاکستانی جنیاتی لحاظ سے جمہوری اور لبرل لوگ ہیں‘ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جو جنگ کے بجائے ووٹ کے ذریعے بنے ہیں‘ امریکا ہو‘ کینیڈا ہو‘ لاطینی امریکا کے 21 ممالک ہوں‘ پورا یورپ ہو‘ افریقہ ہو‘ عرب ممالک ہوں‘ روسی ریاستیں ہوں‘ مشرق بعید کے ممالک ہوں یا پھر چین اور جاپان ہوں دنیا کے ہر خطے کے لوگوں کو آزادی کے لیے طویل جنگ لڑنا پڑی‘ وہاں فوجی لڑائی بھی ہوئی اور چھاپہ مار کارروائیاں بھی‘ ہزاروں لوگ مارے گئے اور لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے‘ آپ دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں آزادی کی جنگ میں شہید ہونے والے سپاہیوں کی یادگاریں ملیں گی لیکن آپ کو یہ یاد گار پاکستان میں نظر نہیں آئے گی‘ کیوں؟ کیونکہ ہم نے آزادی جنگ لڑ کر نہیں لی تھی‘ ووٹ کے ذریعے حاصل کی تھی۔
ہندوستان کے مسلمانوں نے آزادی کے لیے سو سال جمہوری جدوجہد کی یہاں تک کہ انگریزسرکارمسلمانوں کو الگ ملک دینے پر مجبور ہوگئی اور آپ یہ بات ذہن میں رکھیں‘ ہم مسلمان جنگجو قوم ہیں‘ ہم چودہ سو سال سے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے ہیں اور دنیا میں کوئی ایک ایسا اسلامی ملک نہیں جس نے پچاس سال امن میں گزارے ہوں لیکن ہم نے ملک ووٹ کے ذریعے بنایا‘ یہ حقیقت ثابت کرتی ہے ہم جنگجو ہیں لیکن ہم ملک کے فیصلے ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں‘ ووٹ ہمارے جینز میں شامل ہیں‘ دوسری حقیقت‘ ہم لوگ مذہبی ہیں‘ ہم میں سے ہر شخص اللہ اور رسولؐ پر جان دینا سعادت سمجھتا ہے‘ ہماری مسجدیں آباد رہتی ہیں‘ ہم رمضان کا اہتمام کرتے ہیں‘ ہمارے ملک میں لاکھوں چھوٹے بڑے مدرسے ہیں اور یہ تمام مدارس عوام کے چندے سے چل رہے ہیں‘ پاکستان دنیا میں چیریٹی کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے۔
پاکستان بننے کے بعد ملک میں مسجدوں کی تعداد میں ہزار گنا اضافہ ہوا‘ آج بھی ملک کی بڑی سے بڑی سیاسی جماعت سال میں اتنے لوگ جمع نہیں کر سکتی جتنے لوگ درمیانی سطح کی عام مذہبی جماعت ایک دن میں اکٹھے کر لیتی ہے لیکن جب ملک کی قیادت کی بات آتی ہے تولوگ ہمیشہ لبرل لیڈروں کو ووٹ دیتے ہیں‘ ملک بنانا ہو یا چلانا ‘ عوام قائداعظم ‘ خان لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین اور عبدالرب نشتر جیسے بے ریش اور لبرل لوگوں پر اعتماد کرتے ہیں‘ یہ حقیقت ہے ملک بنانے والوں نے کسی دارالعلوم سے تعلیم حاصل کی تھی اور نہ ہی چلانے والوں نے‘ آپ غلام محمد سے لے کر میاں نواز شریف تک پاکستان میں مینڈیٹ لینے والے کسی سیاستدان کا پروفائل دیکھ لیجیے‘ آپ کو ان میں کوئی شخص امام‘ مفتی یا علامہ نہیں ملے گا.
علامہ اقبال کو بھی ہم علامہ اقبال کہتے ہیں، علامہ صاحب پوری زندگی خود کو محمد اقبال اور ان کے ساتھی انھیں ڈاکٹر صاحب کہتے رہے‘ علامہ اقبال نے کسی کو اپنے نام کے ساتھ علامہ نہیں لکھنے دیا تھا‘ آپ قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم اور جواہر لال نہرو کی حلف برداری کی تقریبات کی البم دیکھ لیجیے‘ آپ کو جواہر لال نہرو کے ساتھ علماء کرام کی تصویریں ملیں گی قائد اعظم کے ساتھ نہیں‘ مولانا ابوالکلام آزاد نہرو کے ساتھ تھے‘ قائداعظم کے ساتھ نہیں تھے‘ قیام پاکستان سے قبل ہندوستان علماء کرام کا مدینہ دوم کہلاتا تھا‘ یہاں دنیا کے بڑے دارالعلوم اور علماء کرام تھے لیکن ملک بنانے کی سعادت ایک ایسے شخص اور ایسی ٹیم کو نصیب ہوئی جو مولانا تھا‘ مفتی تھا اور نہ ہی امیر شریعت تھا اور جس نے 50 سال سوٹ پہنا‘ ٹائی لگائی‘ بوٹ پہنے‘ ہیٹ رکھا اور کتے پالے۔ لوگ آج بھی علماء کرام کے کہنے پر جان لے اور دے سکتے ہیں لیکن لوگ کسی مذہبی سیاسی جماعت کو مینڈیٹ نہیں دیتے‘ لوگ آج بھی مذہبی جماعتوں پر تن‘ من اور دھن وار دیں گے لیکن یہ ووٹ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف ہی کو دیں گے۔
ملک میں تیس سال بعد کسی پارٹی نے جنم لیا‘ یہ پارٹی پاکستان تحریک انصاف ہے اور یہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ دونوں سے زیادہ لبرل ہے اور کیا یہ حقیقت نہیں‘ افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان کے خوف کے باوجود ملک میں کوئی بڑی مذہبی سیاسی جماعت پیدا نہیں ہو سکی؟ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کی جڑیں بہت مضبوط ہیں‘ یہ جماعتیں قدیم بھی ہیں لیکن یہ بھی آج تک عمران خان جتنی مقبولیت حاصل نہیں کر سکیں‘ آپ نے مئی 1989ء میں پاکستان عوامی تحریک کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تھی‘ ملک میں آپ کے لاکھوں مریدین ہیں‘ آپ نے دو کامیاب لانگ مارچ اور دھرنے بھی دیے لیکن آپ کی سیاسی جماعت کامیاب ہوئی اور نہ ہی آپ کے لوگ پارلیمنٹ میں پہنچ سکے‘ کیوں؟ کیونکہ لوگ مذہبی جماعتوں کو سیاسی یونیفارم میں قبول نہیں کرتے۔
مولانا! پاکستانی آئین پرست لوگ ہیں‘ ہمارے ملک میں 68 برسوں میں چار مارشل لاء لگے لیکن کوئی آمر دس سال سے زیادہ اقتدار میں نہ رہ سکا‘ ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک عوام نے ملک کے تمام آمروں کو گھسیٹ کر ایوان اقتدار سے باہر نکالا‘ ملک کی 68 برسوں کی تاریخ میں کوئی جمہوری حکومت لانگ مارچ یا دھرنے کے ذریعے رخصت نہیں ہوئی‘ حکومتوں کو بھجوانے کے لیے ہر بار فوج کو ایکٹو ہونا پڑا‘ آج آپ اور عمران خان جیسے پاپولر لیڈر باہر نکلے ہیں تو عوام آپ کے انقلاب کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے‘ آپ 30 دن سے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بیٹھے ہیں لیکن ملک کے کسی حصے میں آپ کے حق میں جلوس نہیں نکلا‘ لوگ اگر آپ کے انقلاب کو پسند کرتے تو آج کروڑوں لوگ ملک کی سڑکوں پر ہوتے اور حکمرانوں کو بھاگنے کا راستہ نہ ملتا لیکن حقیقت تو یہ ہے آپ دونوں کنٹینر میں محصور ہیں جب کہ ظالم حکمران ملک بھر میں آزاد پھر رہے ہیں‘ کوئی انھیں روک نہیں رہا‘ یہ حقیقت کیا ثابت کرتی ہے؟ یہ ثابت کرتی ہے آپ کے چاہنے والے کتنے ہی کیوں نہ ہوں یہ آپ کے کسی غیر آئینی قدم کو سپورٹ نہیں کریں گے۔
آپ کو میاں نواز شریف کو ہٹانے‘ پارلیمنٹ کو توڑنے اور آئین کو معطل کرنے کے لیے بہرحال فوج کی مدد لینا پڑے گی‘ آپ صرف دھرنے سے آئین اور پارلیمنٹ کو شکست نہیں دے سکیں گے‘ تیسری بات‘ مولانا آپ ہمیشہ انقلاب فرانس اور انقلاب روس کی مثال دیتے ہیں‘ یہ دونوں واقعی عوامی انقلاب تھے لیکن آپ نے کبھی غور کیا یہ دونوں انقلاب صرف فرانس اور روس میں کیوں آئے‘ یہ جرمنی‘ اسپین‘ جاپان اور ہندوستان میں کیوں نہیں آئے؟ ہندوستان میں 1920ء میں کمیونزم کی تحریک شروع ہوئی تھی‘ یہ آج تک پورے ہندوستان کو متاثر نہیں کر سکی‘ کیوں؟ کیونکہ مولانا! فرانس 1789ء اور روس 1917ء میں زرعی ملک تھے‘ کسان غلہ اگاتا تھا‘ خود بھوکا رہ جاتا تھا اور اناج بادشاہ کے کارندے اٹھا لے جاتے تھے‘ یہ ظلم کسانوں سے برداشت نہ ہو سکا‘ وہ باہر نکل آئے اور انقلاب آ گیا‘ یہ انقلاب ہندوستان سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں میں اس لیے نہیں آیا کہ یہ ملک فرانس اور روس جتنے زرعی بھی نہیں تھے اور ان میں فرانس اور روس جتنی خوفناک بادشاہتیں بھی نہیں تھیں۔
دنیا اب زراعت سے آگے نکل چکی ہے‘ یہ صنعت‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سروسز کے دور میں داخل ہو چکی ہے چنانچہ دنیا میں اب فرانس اور روس جیسے انقلاب نہیں آتے‘ دنیا میں اب افغانستان‘ عراق‘ لیبیا‘ مصر اور تیونس جیسے ’’فارن فنڈڈ‘‘ انقلاب آتے ہیں اور ان انقلابوں کے بعد لوگ روٹی روٹی کو بھی ترس جاتے ہیں اور لوگوں کا فرقہ‘ لوگوں کی زبان اور لوگوں کی نسل ان کا ڈیتھ وارنٹ بھی بن جاتی ہے‘ آپ چیکو سلواکیہ سے لے کر عراق تک پچھلے تیس برسوں میں آنے والے ’’ انقلاب‘‘ دیکھ لیجیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا ان انقلابوں کے بعد وہ ملک بچ گئے اور کیا ان کے عوام آج امن سے زندگی گزار رہے ہیں؟ نہیں‘ ہر گز نہیں! اور آخری بات مولانا ہم جو اسلامی ریاست تخلیق کرنا چاہتے ہیں‘ وہ اس وقت 58 اسلامی ممالک میں کسی جگہ موجود نہیں اور ہم مسلمان وہ ریاست 14 سو سال میں تخلیق نہیں کر سکے‘ ہم پھر یہ پاکستان میں کیسے تخلیق کریں گے؟۔
مولانا ہم سب اس ملک میں انقلاب لانا چاہتے ہیں‘ میں بھی آپ کی طرح انقلابی ہوں‘ میں بھی غریب کو امیر کے برابر دیکھنا چاہتا ہوں لیکن ہمیں اس کے لیے اسلام کی اصل اسپرٹ کی طرف جانا پڑے گا‘ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے ریاست پہلے تخلیق کی اور دین بعد میں مکمل ہوا‘ آپ بھی اگر انقلاب لانا چاہتے ہیں تو آپ ملک کے کسی ایک شہر کو مدینہ بنا دیں‘ آپ طیب اردگان کی طرح ملک کا کوئی چھوٹا سا قصبہ منتخب کریں اور اس قصبے کو مدینہ یا قرطبہ بنا دیں‘ آپ وہاں انصاف قائم کر دیں‘ گورے اور کالے اور چوہدری اور کمی کو برابر کر دیں۔ شہر کے تمام لوگوں کو روزگار فراہم کر دیں، شہر سے چوری چکاری‘ زناکاری‘ فحاشی‘ لڑائی جھگڑا اور قتل و غارت گری ختم کر دیں‘ آپ کے شہر میں لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے جائیں اور عورتیں زیورات سے لد کر باہر نکلیں اور کوئی شخص ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے‘ آپ کا شہر صفائی ستھرائی میں بھی مثالی ہو‘ آپ کے شہر کے تمام بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں اور آپ کے شہر میں لوگوں کو صحت کی سہولت بھی برابر مل رہی ہو‘ آپ یقین کیجیے آپ کو ملک میں انقلاب کے لیے کوئی لانگ مارچ کرنا پڑے گا اور نہ ہی دھرنا دینا پڑے گا‘ لوگ چل کر آپ کے پاس آئیں گے اور اپنے شہروں کی چابیاں آپ کے قدموں میں رکھ دیں گے ورنہ دوسری صورت میں آپ اقتدار کے ایوانوں کے سامنے اوپن ائیر حمام تو قائم کر دیں گے مگر آپ اقتدار کے ایوانوں میں داخل نہیں ہو سکیں گے‘ آپ لوگوں کا مقدر نہیں بدل سکیں گے۔

پارلیمنٹ کے لیے
جاوید چوہدری جمعرات 11 ستمبر 2014

آپ لوگ اس وقت پارلیمنٹ ہاؤس میں بیٹھے ہیں‘ آپ کی کل تعداد446 ہے‘ آپ 342 ایم این اے اور 104سینیٹر ہیں‘ آپ 20 کروڑ لوگوں کے نمایندہ ہیں‘ میری آپ سے درخواست ہے آپ ایک بار‘ صرف ایک بار پارلیمنٹ ہاؤس کی کھڑکی کھول کر شاہراہ دستور پر نظر ڈالیں‘ آپ ڈی چوک کی طرف دیکھیں‘ آپ کو وہاں خیمہ بستی نظر آئے گی‘ آپ کو وہاں گندے‘ ننگے اور بھوکے بچے کرکٹ کھیلتے بھی دکھائی دیں گے‘ عورتیں ایک دوسرے کے سروں سے جوئیں نکالتی نظر آئیں گی‘ مرد دھوتیاں اور کچھے پہن کر نہاتے دکھائی دیں گے اور بزرگ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر حقہ پیتے نظر آئیں گے۔
آپ کو تاحد نظر گندگی کے ڈھیر بھی دکھائی دیں گے اور آپ ذرا سا غور کریں تو آپ کو لوگ سرکاری عمارتوں‘ درختوں اور جھاڑیوں کی اوٹ میں رفع حاجت کرتے بھی نظر آ جائیں گے‘ آپ کو یقینا یہ مناظر تکلیف دیں گے‘ یہ آپ کی حس جمال پر بجلی بن کر گریں گے‘ یہ آپ کی صفائی پسند طبیعت کے لیے اذیت مسلسل بھی ثابت ہوں گے اور یہ آپ کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کردیں گے حکومت آخر اس کچرے کو صاف کیوں نہیں کرتی‘ ہم آخر ان لوگوں کو اٹھا کر اسلام آباد سے باہر کیوں نہیں پھینکتے؟ آپ کے یہ احساسات جینوئن ہیں‘ آپ اور آپ کے کولیگز نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا‘ پاکستان کی خوبصورت اور محفوظ ترین شاہراہ پر اس قماش کی مخلوق اتر آئے گی اور سرے عام آپ کی جمالیاتی حسوں کو چیلنج کرے گی‘ آپ نے کبھی یہ تصور نہیں کیا ہو گا۔
پاکستان میں ایسے گندے‘ مندے اور غیر مہذب لوگ بھی موجود ہیں جو سرے عام سپریم کورٹ‘ وزیراعظم سیکریٹریٹ‘ پارلیمنٹ ہاؤس‘ ایف بی آر اور ایوان صدر کے سامنے رفع حاجت کر دیتے ہیں‘ جو پی ٹی وی کی کمپیوٹر اسکرینوں‘ ٹیلی ویژن مانیٹرز اور کرسیوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں اور جنہوں نے زندگی میں پہلی بار کھلی آنکھوں سے یہ ایوان دیکھے ہیں۔
آپ جب پارلیمنٹ ہاؤس کی کھڑکی سے یہ مناظر دیکھیں گے تو مجھے اس وقت آپ سے بہت ہمدردی ہو گی‘ میں اس وقت آپ سے عرض کروں گا’’ جناب یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کو دولہا بنا کر آپ کو اپنی خواہشوں‘ حسرتوں اور خوابوں کے گھوڑوں پر بٹھاتے ہیں‘ یہ گھوڑے اس پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف روانہ کرتے ہیں اور پھر باقی زندگی ان گھوڑوں کی واپسی کے انتظار میں گزار دیتے ہیں‘ ان لوگوں کو انتظار کی امید باندھے 68 سال گزر چکے ہیں مگر آج تک ان کی امیدوں کے گھوڑے واپس نہیں آئے‘ ان کی حسرتوں کے ساحلوں پر آج تک کوئی کولمبس نہیں اترا اور آج تک کسی فرشتے نے ان کی کنواری دعاؤں کی زمین پر پاؤں نہیں رکھا‘ ‘جناب عالی آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے۔
یہ مناظر اصل پاکستان ہیں اور آپ پارلیمنٹ ہاؤس کی کھڑکی سے جن لوگوں کو دیکھ رہے ہیں یہ اصلی پاکستانی ہیں‘ ملک کی 80 فیصد اصلی آبادی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی میں کبھی جہاز پر نہیں بیٹھے‘ جنہوں نے زندگی میں کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا‘ جو حمل سے لے کر انتقال تک بھیک‘ امداد اور قرض پر جیتے ہیں‘ جنھیں اس ملک میں کبھی صاف پانی‘ مفت انصاف‘ باعزت زندگی اور بے خطر آبرو نصیب نہیں ہوئی‘ جو پیدا ہوتے ہیں تو جہد مسلسل کی چکی میں ڈال دیے جاتے ہیں اور جو مرنے کے بعد بھی زندگی کے عذاب سے رہائی نہیں پاتے‘ یہ وہ لوگ ہیں جو عمر بھر شاور‘ کموڈ‘ پیزا اور کافی سے محروم رہتے ہیں اور یہ زندگی بھر ذاتی سواری کی لذت سے بے گانہ رہتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود آپ لوگوں کو اُس ایوان میں بھجواتے ہیں جس کا فی منٹ خرچ 60 ہزار روپے ہے اور جو آپ کو دنیا بھر میں عزت‘ وقار اور اختیارات دیتا ہے‘ یہ لوگ آپ کو ملک کی اس عظیم عمارت میں اس لیے بھجواتے ہیں کہ آپ اس ٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کر اُن لوگوں کے دکھوں کا مداوا کریں جنھیں عمر بھر پنکھا نصیب نہیں ہوتا‘ جو وضو کے پانی سے افطار کرتے ہیں اور دو رکعت نماز صبر کو سحری سمجھ کر روزہ رکھ لیتے ہیں.
یہ اللہ کے وہ بندے ہیں جن کے بارے میں اللہ خود فرماتا ہے‘ میں ان کے دلوں اور شہ رگوں میں رہتا ہوں مگر آپ کتنے ظالم ہیں‘ آپ نے 68 برسوں میں ان شہ رگوں اور ان دکھی دلوں کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا‘ یہ لوگ مظلوم بھی ہیں‘ نادار بھی ہیں‘ مسکین بھی‘ غریب بھی اور بے آسرا بھی۔ یہ اصل پاکستان ہے اور آپ اس پارلیمنٹ کی کھڑکی سے اس اصل پاکستان کا پہلا صفحہ ملاحظہ کر رہے ہیں‘ آپ سوچئے‘ آپ پہلے صفحے کی تاب نہیں لا پا رہے لیکن جس دن پوری کتاب کھل گئی ‘ آپ اس دن کہاں جائیں گے‘ آپ اس دن کہاں پناہ لیں گے۔
آپ پارلیمنٹ ہاؤس کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ پاکستان کی تاریخ میں کبھی اتنا بڑا اور مسلسل جوائنٹ سیشن نہیں ہوا اور وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنی پوری سیاست میں کبھی پارلیمنٹ کو اتنا وقت نہیں دیا‘ حکومت نے کبھی خندہ پیشانی سے اتنی تنقید بھی برداشت نہیں کی اور پارلیمنٹ کی تاریخ میں کبھی اتنی کھلی اور براہ راست تقریریں بھی نہیں ہوئیں اور پارلیمنٹیرینز نے کبھی ان تقریروں پر اتنے صبر اور برداشت کا مظاہرہ بھی نہیں کیا‘ یہ برداشت‘ یہ صبر‘ یہ کھلا پن اور یہ خندہ پیشانی قابل تقلید ہے لیکن سوال یہ ہے اتنی تہذیب اور اتنی شائستگی کی وجہ کیا ہے؟ کیا آپ لوگ اس عمارت میں ان لوگوں کی محبت میں جمع ہوئے ہیں جو پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے سامنے خیمہ زن ہیں یا پھر آپ اپنا اقتدار‘ اپنا اختیار اور اپنی اپنی وہ سیٹیں بچانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں جن کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں ہیں.
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے‘ آپ کا مقصد صرف اپنے مفادات کی حفاظت ہے‘ میں دل سے پارلیمنٹ اور پارلیمانی نظام کو اس ملک کی بقا سمجھتا ہوں‘ میں کسی شخص کو اس آئین اور اس پارلیمنٹ پر شب خون مارنے کی اجازت نہیں دوں گا‘ مولانا طاہر القادری ہوں‘ عمران خان ہوں یا پھر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف ہم کسی شخص کو پارلیمنٹ پر غیر آئینی حملہ نہیں کرنے دیں گے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں‘ ہم آپ لوگوں کو آئین اور پارلیمنٹ کے پردے میں ذاتی مفادات کا کھیل کھیلنے کی اجازت دے دیں ! آپ کا احتساب نہ ہو‘ نہیں‘ ہرگز نہیں! آپ سے بھی پوچھ پڑتال ہو گی‘ ہم آپ سے پوچھیں گے آپ کس لیے جمع ہوئے ہیں‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری پارلیمنٹ کے باہر کیوں ہیں اور آپ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر کیا کر رہے ہیں؟ عمران خان نے چھ مطالبات پیش کیے‘ جوڈیشل کمیشن بنا دیں‘ انتخابی اصلاحات کر دیں اور وزیراعظم مستعفی ہو جائیں وغیرہ وغیرہ‘ یہ تمام مطالبات ان کے اقتدار سے متعلق ہیں‘ علامہ صاحب سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کٹوانے اسلام آباد آئے تھے‘ یہ اب وزیراعلیٰ پنجاب کا استعفیٰ لینا چاہتے ہیں‘ پارلیمنٹ کے اندر آپ لوگ بیٹھے ہیں۔
آپ میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف اور پارلیمنٹ کو بچانا چاہتے ہیں‘ وہ آپ کو گرانے کے لیے باہر سے زور لگا رہے ہیں اور آپ خود کو بچانے کے لیے اندر بیٹھ کر مسل دکھا رہے ہیں‘ عوام کہاں ہیں؟عوام عمران خان اور علامہ صاحب کے ایجنڈے میں ہیں اور نہ ہی آپ جیسے معزز ارکان پارلیمنٹ کی ترجیحات میں ہیں‘ میں اس دن عمران خان اور علامہ طاہر القادری کو سلام پیش کروں گا جس دن یہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے عوام کے حقوق کا چارٹر لے کر پارلیمنٹ ہاؤس کا گھیراؤ کریں گے اور میں اس دن آپ لوگوں کو تمغہ جمہوریت پیش کروں گا جس دن آپ پورے ملک کے عوام کو صاف پانی‘ یکساں نظام تعلیم‘ غربت کے خاتمے‘ امن و امان‘ انصاف اور برابر حقوق فراہم کرنے کے لیے اکٹھے ہوں گے‘ آپ جس دن ملک کے ہر شخص کو ایف آئی آر درج کرانے کا حق دینے کے لیے اکٹھے ہوں گے۔
آپ جس دن ملک کے ہر بالغ شخص کو باعزت روزگار فراہم کرنے کا فارمولہ طے کرنے‘ خواتین کو حقوق دینے‘ معاشرے میں موجود طبقاتی تقسیم ختم کرنے‘ ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی عہدیداروں کا احتساب کرنے اور ملک کے ہر شہری کوصحت کی یکساں سہولیات دینے کے لیے جوائنٹ سیشن بلائیں گے‘ آپ جس دن پارلیمنٹ ہاؤس کے سیشن میں ارکان کو پابند کریں گے آپ لوگ کوٹ ٹائی پہن کر ایوان میں نہیں آسکتے‘ آپ شلوار قمیص پر ویسٹ کوٹ پہن کر ایوان میں آئیں گے‘ خدا کی پناہ ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور وزراء چار چار لاکھ روپے کے سوٹ پہن کر ہلاکتوں اور تباہیوں کے اعداد و شمار دے رہے ہیں‘ آپ جس دن پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں بڑی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی لگانے کے لیے اکٹھے ہوں گے‘ آپ جس دن جوائنٹ سیشن بلائیں گے اور فیصلہ کریں گے ملک میں کوئی سیاستدان دولت کی نمائش نہیں کرسکتا‘ آپ خوشحال ہیں لیکن جب تک آپ سیاستدان ہیں آپ اس خوشحالی کی نمائش نہیں کر سکتے۔
آپ جس دن جوائنٹ سیشن بلائیں گے اور فیصلہ کریں گے ملک میں غریب ہو یا امیر شادی ایک ہی اسٹینڈر کے مطابق ہو گی‘ کوئی جہیز دے گا ‘ نہ لے گا اور نہ ہی شادی کی کوئی تقریب ہو گی‘ آپ جس دن فیصلہ کریں گے حکمرانوں کے خاندان کاکوئی دوسرا فرد پہلے فرد کے ہوتے ہوئے اقتدار میں نہیں آسکتا‘ آپ جس دن فیصلہ کریں گے آئین کا آرٹیکل 62 اور 63 فوری طور پر نافذ العمل ہو گا اور جو پارلیمنٹیرین اس پر پورا نہیں اترے گا وہ ہمیشہ کے لیے سیاست سے فارغ ہو جائے گا‘ آپ جس دن فیصلہ کریں گے صدر اور وزیراعظم صرف کمرشل فلائیٹس پر سفر کرسکتے ہیں‘ یہ سرکاری جہاز استعمال نہیں کرسکتے‘ آپ جس دن فیصلہ کریں گے‘ الیکشن کمیشن‘ نیب اور ایف آئی اے آزاد ہو گی‘ یہ کسی بھی وقت کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتی ہے اور آپ جس دن یہ فیصلہ کریں گے ملک میں کوئی مقدمہ چھ ماہ سے طویل نہیں ہو گا‘ مقدمات درج ہوں گے اور عدالتیں ہر صورت چھ ماہ میں فیصلہ کریں گی اور آپ جس دن یہ فیصلہ کریں گے حکومتیں آئیں یا جائیں لیکن ریاست تیس سال میں ملک سے غربت ختم کر دے گی اور آپ جس دن جوائنٹ سیشن بلائیں گے اور ملک کا بیس تیس سال کا ایجنڈا طے کریں گے۔
میری آپ سے درخواست ہے آپ جاگ جائیں کیونکہ آپ اگر اب بھی نہ جاگے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بیٹھے لوگ ایوان کے اندر بھی آئیں گے اور آپ کے گھروں میں بھی داخل ہوں گے اور اس وقت آپ کے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ موجود ہو گا اور نہ ہی کوئی پناہ گاہ۔ یہ آخری وارننگ ہے‘ آپ خدا کے لیے اس آخری وارننگ پر جاگ جائیں ورنہ اس کے بعد ایک عظیم تباہی ہے‘ دوزخ سے ملتی ہوئی تباہی۔
عوام کے لیے
جاوید چوہدری منگل 9 ستمبر 2014

یہ ماننا پڑے گا ملک کے 80 فیصد لوگ معاشی دباؤ کا شکار ہیں‘ آمدنی کم ہے اور اخراجات زیادہ ‘ مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے‘ ضروریات زندگی عوام کے ہاتھوں سے نکل چکی ہیں‘ بیماریاں بڑھ رہی ہیں‘بے روزگاری تاریخی سطح کو چھو رہی ہے اور لوگ مر مر کر روح اور بدن کا رشتہ قائم رکھ رہے ہیں‘ ہمیں یہ حقیقتیں ماننا ہوں گی لیکن سوال یہ ہے‘ ان مسائل کا حل کیا ہے؟ کیا دنیا کی کوئی حکومت‘ کوئی حکمران عوام کو ان مسائل سے نکال سکتی ہے۔
کیا علامہ طاہر القادری یا عمران خان بجلی سستی کرسکتے ہیں‘ یہ گیس‘ پٹرول‘ آٹا‘گھی‘ چاول اور دالیں سستی کر سکتے ہیں؟ کیا یہ ساڑھے چار کروڑ بے روزگاروں کو سرکاری نوکریاں دے سکتے ہیں؟ کیا یہ دو کروڑ غریبوں اور مسکینوں کو زندگی بھر وظیفہ دے سکتے ہیں؟ کیا یہ خوفناک بیماریوں کے شکار چالیس پچاس لاکھ مریضوں کا مفت علاج کر سکتے ہیں اور کیا یہ مرتے ہوئے سرکاری اداروں میں روح پھونک سکتے ہیں؟اس کا جواب ہے‘ نہیں! عمران خان اور علامہ طاہر القادری تو ایک طرف دنیا کا بڑے سے بڑا لیڈر بھی عوام کے یہ مسئلے حل نہیں کر سکے گا‘ آپ خود سوچئے وسائل جب صفر ہوں‘ ملک سے تیل نکلتا ہو اور نہ ہی سونا‘ صنعت دم توڑ رہی ہو‘ عوام کاروبار کے خلاف ہوں‘ لوگ اس تاجر‘ اس کاروباری شخص اور اس صنعت کار کو برا سمجھتے ہوں جو عوام کو نوکری بھی دیتا ہے اور حکومت کو ٹیکس بھی۔ آپ خود سوچئے بیس کروڑ لوگوں کا ملک ہو لیکن ٹیکس صرف دس لاکھ لوگ دیتے ہوں‘ ملک کی معیشت کا دارومدار قرضے‘ امداد اور بھیک پرہو‘ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی قسط نہ ملے تو ملک ڈیفالٹ کے دھانے پر پہنچ جاتا ہو۔
آبادی وسائل اور ضرورت سے دس گنا زیادہ ہو‘ ملک صرف دو کروڑ لوگوں کا بوجھ سہہ سکتا ہو مگر لوگ 20 کروڑ ہوں‘ کام کرنے والے لوگ کم ہوں اور کھانے والے زیادہ ہوں اور ایک ایک شخص نے بارہ بارہ لوگوں کا بوجھ اٹھا رکھا ہو تو ملک کے مسائل کون حل کر سکتا ہے؟ ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی‘ خام مال مہنگا ہو چکا ہے‘ آپ جب سویا بین مہنگا خریدیں گے تو آپ سستا گھی کیسے بنائیں گے‘ دالیں اور چاول مہنگے ہوں گے تو آپ یہ عوام کو سستا کیسے دیں گے‘ بجلی جب 18 روپے سے 32 روپے یونٹ بنے گی تو آپ یہ عوام کو گیارہ سے 14 روپے یونٹ کیسے دیں گے‘ آپ کا بچہ جب صرف ڈگری لے گا‘ وہ اپنے اندر صلاحیت پیدا نہیں کرے گا تو اسے نوکری کون دے گا؟ لوگ اگر ذاتی کاروبار کے بجائے نوکریوں کے پیچھے بھاگیں گے تو مرتی ہوئی صنعتیں کتنے لوگوں کو ’’اکاموڈیٹ‘‘ کریں گی‘ آپ جب بچیوں کو کام نہیں کرنے دیں گے اور آپ جب بچوں کو کام کی عادت نہیں ڈالیں گے تو پھر آپ کی معاشی حالت کیسے بدلے گی؟ ہماری معاشی ابتری ان تلخ سوالوں کے جواب پر لٹک رہی ہے اور ہم جب تک ان کاجواب تلاش نہیں کرتے ہم اس وقت تک اسی طرح درخت پر لٹک کر ہیلپ ہیلپ کی آوازیں لگاتے رہیں گے اور نام نہاد انقلابی ہمیں خوش فہمیوں کے تعویز دیتے رہیں گے۔
ہمارے عوام کو چند حقیقتیں سمجھنا ہوں گی‘ یہ جب تک یہ حقیقتیں نہیں سمجھیں گے‘ یہ اس وقت تک بحرانوں کے کیچڑ سے باہر نہیں نکل سکیں گے‘ ہمارے عوام یہ بات پلے باندھ لیں‘ دنیا میں آج تک کوئی ملک‘ کوئی ریاست اور کوئی حکومت کسی غریب شخص کو امیر نہیں بنا سکی‘ انسان خود امیر بنتا ہے‘ دنیا میں آج تک مہنگائی کم نہیں ہو سکی‘ چیز اگر ایک بار مہنگی ہو گئی تو پھر یہ کبھی سستی نہیں ہو سکتی اور دنیا میں چیزیں مہنگی یا سستی نہیں ہوتیں‘یہ افورڈ ایبل یا نان افورڈ ایبل ہوتی ہیں‘ آپ اگر خرید نہیں سکتے تو چیز خواہ کتنی ہی سستی کیوں نہ ہو جائے آپ نہیں خرید سکیں گے اور آپ اگر ’’ افورڈ‘‘ کرسکتے ہیں تو نرخ کتنے ہی کیوں نہ بڑھ جائیں‘ آپ خرید لیں گے۔
چنانچہ آپ کو چیزوں کے سستے ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے‘ آپ کو اپنی قوت خرید پر توجہ دینی چاہیے اور دنیا میں 245 ممالک ہیں‘ ان میں سے صرف سات ممالک ویلفیئر اسٹیٹس ہیں اور ان ممالک میں بھی آبادی کم ہے‘ نوے فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں‘ آبادی کے 75 فیصد بالغ لوگ کام کرتے ہیں اور یہ تمام ممالک قدرتی اور انسانی وسائل سے بھی مالا مال ہیں‘ یہ ممالک صنعتی بھی ہیں‘ کاروباری بھی ہیں اور سرمایہ کار بھی ہیں لیکن ہم لوگ موجودہ حالات میں رہ کر پاکستان کو ویلفیئر اسٹیٹ دیکھنا چاہتے ہیں‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ ہمیں اپنے زمینی حقائق میں رہ کر اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا اوریہ حل زیادہ مشکل نہیں ہیں۔
آپ سب سے پہلے کام کرنے والے لوگوں اور اداروں کی قدر کرنا شروع کریں‘ آپ خود غور کیجیے آپ کے خاندان میں اٹھارہ افراد ہوں‘ ان 18 افراد میں سے صرف ایک شخص کما رہا ہو‘ باقی سترہ کھا بھی رہے ہوں اور ساتھ ساتھ اس شخص کو جوتے بھی مار رہے ہوں اور اسے زہر بھی دے رہے ہوں تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ وہ شخص ہمت ہار جائے گا‘ وہ فوت ہو جائے گا یا پھر کام کرنا بند کر دے گا اوراس کے بعد باقی 17 لوگ بھی بھوکے مر جائیں گے‘ ہمارے تاجر‘ بزنس مین‘ صنعت کار اور سرمایہ کار وہ اکیلا شخص ہیں جو پورے ملک کو پال رہے ہیں چنانچہ ہمیں ان کی قدر بھی کرنی چاہیے‘ ان کی حوصلہ افزائی بھی اور ان کا ہاتھ بھی بٹانا چاہیے‘ فائیو اسٹار ہوٹل میں جب ایک نیا کمرہ بنتا ہے تو 127 لوگوں کی معیشت بہتر ہوتی ہے ‘ انڈے دینے والی ایک مرغی 22 لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے اور محلے کی ایک دکان چار سو لوگوں کے لیے منفعت بخش ہوتی ہے‘ آپ اگر انھیں بچائیں گے تو فائدہ بہرحال آپ کی ذات کو ہو گا‘ آپ بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھائیں۔
ملک کے تمام کالج ڈرائیونگ اسکول بنائیں‘ اٹھارہ سال کے تمام بچوں کو ڈرائیونگ اسکول میں ڈرائیونگ کی تربیت دیں‘ ڈرائیونگ لائسنس اپلائی کرائیں اور یہ بچے ایف اے کے سر ٹیفکیٹ کے ساتھ کالج سے ڈرائیونگ لائسنس بھی لے کر نکلیں‘ ملک کے کسی نوجوان کو اس وقت تک بی اے کی ڈگری نہ دی جائے جب تک وہ ڈرائیونگ لائسنس حاصل نہ کر لے‘ اس سے سرکاری ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا‘ نوجوان بھی باقاعدہ ڈرائیونگ سیکھیں گے اور حادثات میں بھی کمی آئے گی‘ ملک کے تمام کالجوں کو ایک ایک ’’ٹریڈ‘‘ دے دیا جائے‘ کالج کے نوجوان وہ ہنر سیکھ کر باہر نکلیں‘ آپ اگر والدین ہیں تو آپ بچوں کو عملی شعبوں میں اعلیٰ تعلیم دلائیں‘ آپ کا بچہ ڈگری لینے کے بعد نوکری تلاش کرنے کے بجائے اپنا کام شروع کرے۔
یہ یاد رکھیں تیسری دنیا میں کوئی شخص صرف نوکری سے امیر نہیں ہو سکتا‘ آپ کو خوش حالی کے لیے بہر حال کاروبار کرنا پڑتا ہے‘ آپ بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھائیں‘ انسان کا بچہ چودہ سال کی عمر میں ’’اسٹیبل‘‘ ہو جاتا ہے‘ آپ چودہ سال کے بچوں کو اسکول کے بعد دو گھنٹے کے لیے کسی دکان‘ فیکٹری‘ اسٹور یا دفتر میں کام کروائیں‘ یہ دو گھنٹے بچے کو عملی بنا دیں گے‘ یہ اس کے اعتماد میں بھی اضافہ کریں گے‘ آپ خاندان پر بھی بوجھ ڈالیں‘ خواتین اور بچیاں گھروں میں بیٹھ کر درجنوں ایسے کام کر سکتی ہیں جن کی آمدنی سے کم از کم گھر کے بل ادا ہو سکتے ہیں‘ میں ایک ایسے خاندان کو جانتا ہوں جس کی خواتیں گھر میں کچے سموسے بناتی تھیں‘ بچے یہ سموسے دکانداروں کو سپلائی کرتے تھے‘ خواتین نے سموسوں کی کمائی سے بچے بھی پڑھائے اور گھر بھی چلائے۔
آپ کیرئیر پلاننگ بھی کریں، یہ باقاعدہ سائنس ہے‘ آپ جب بھی کوئی کام شروع کریں تو آپ اپنی کیرئیر فائل بنائیں‘ آپ اپنی زندگی کو ریٹائرمنٹ سے شروع کریں اور اس دن تک آئیں جس دن آپ نے کام شروع کیا‘ آپ فائل میں اپنی پروموشن‘ اپنی ترقی کے سال لکھیں اور ان کے سامنے ترقی کی کوالیفکیشن لکھیں اور پھر اس فائل کے مطابق زندگی گزاریں‘ آپ کے لیے زندگی آسان ہو جائے گی‘ دنیا میں صرف ایکسرسائز‘ متوازن خوراک‘ مثبت سوچ اورمحنت کے ذریعے اسی فیصد بیماریاں ختم ہو سکتی ہیں‘ آپ پورے خاندان کو یہ پانچ عادتیں ڈال دیں‘ آپ کے گھر کا ہیلتھ بجٹ کم ہو جائے گا‘ آپ جس طرح زکوٰۃ روک کر اپنی آخرت اکارت کرلیتے ہیں آپ بالکل اسی طرح ٹیکس نہ دے کر اپنی دنیا خراب کر لیتے ہیں‘ آپ اپنی آمدنی پر معقول ٹیکس دیں اور یہ ٹیکس خود جا کر ادا کریں‘ آپ کا ملک بھی بچ جائے گا اور آپ بھی ٹینشن سے نکل جائیں گے۔
یہ یاد رکھیں ہم دنیا میں جو اضافی دولت کماتے ہیں وہ بہر حال دنیا میں رہ جاتی ہے‘ ہم اگر خود اپنے ہاتھ سے اس میں سے کچھ حصہ ملک کو دے دیں گے تو ملک بھی ترقی کرے گا اور ہم بھی امن میں چلے جائیں گے اور آخری بات بچت انسان کے اعتماد میں اضافہ کرتی ہے‘ دنیا کے تمام ممالک شاید اس لیے زرمبادلہ کے ذخائر جمع کرتے ہیں‘ آپ بھی اگر اپنی آمدنی کا 25 فیصد حصہ جمع کرلیں اور پورے خاندان کو بچت کی عادت ڈال دیں تو آپ کے اعتماد میں اضافہ ہو جائے گا‘ ورنہ دوسری صورت میں آپ بھی ایک ایسے انقلاب کا انتظار کرتے رہیں جو آج تک دنیا میں آیا اور نہ ہی آئے گا‘ اللہ تعالیٰ انسان کو خالی ہاتھ زمین پر بھجواتا ہے اور خالی ہاتھ واپس لے جاتا ہے‘ ہمیں قدرت امیر یا غریب نہیں بناتی‘ ہم خود بنتے ہیں‘ ہم چاہیں تو بن جاتے ہیں اور نہ چاہیں تو نہیں بنتے خواہ ہم دنیا کے امیر ترین ملک میں کیوں نہ پیدا ہوںلہٰذا محنت کریں اور اللہ سے اس محنت پر پھل لگانے کی دعا کریں‘ آپ انقلابوں کی دھند سے باہر آ جائیں گے۔
میرے سوشل میڈیا ایڈریس درج ذیل ہیں۔
وزیراعظم کے لیے
جاوید چوہدری اتوار 7 ستمبر 2014

میاں صاحب آپ کو یاد ہو گا محترمہ بے نظیر بھٹو نے 16 نومبر 1992 کو آپ کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا تھا، غلام اسحاق خان صدر تھے اور جنرل آصف نواز آرمی چیف۔لانگ مارچ ناکام ہو گیا لیکن غلام اسحاق خان نے18 اپریل 1993 کو 58 ٹو بی کے تحت اسمبلیاں توڑ دیں‘آپ سپریم کورٹ چلے گئے‘ سپریم کورٹ نے 26 مئی 1993 کو آپ کی حکومت بحال کر دی، آپ جنگ جیت گئے لیکن اس جیت کا کیا نتیجہ نکلا‘ بے نظیر بھٹو نے16 جولائی 1993 کو ایک اور لانگ مارچ شروع کیا مگر ان کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے جنرل عبدالوحید کاکڑ نے18 جولائی 1993 کو آپ اور صدر غلام اسحاق خان دونوں سے استعفیٰ لے لیا۔
میاں صاحب آپ قسمت کے دھنی اور سیاسی بحرانوں کو روکنے کے ماہر ہیں‘ آپ نے محترمہ کا لانگ مارچ ناکام بنا دیا تھااور آپ سپریم کورٹ کی جنگ بھی جیت گئے تھے اور آپ کے رفقاء اور میڈیا نے آپ کو اس جیت پر مبارک باد پیش کی تھی‘ آپ بھی اپنی کامیابی پر خوشیاں منانے لگے لیکن پھر کیا ہوا؟ آپ دو دو دریا پار کرنے کے باوجود صرف آٹھ ماہ نکال سکے‘ آپ کی حکومت اور پارلیمنٹ 18 جولائی 1993 کو فارغ ہو گئی‘ کیوں؟ کیونکہ فارغ کرنے والوں نے آپ کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ ایک آرمی چیف فوت ہو گیا‘ اس کی جگہ دوسرا آ گیا لیکن آپ کو چلنے نہیں دیا گیا چنانچہ آپ آٹھ ماہ بعد ایوان اقتدار سے باہر تھے‘ آپ اب 1993 سے 2014 میں آ جائیے‘ آپ 21 سال بعد ایک بار پھر اسی موڑ پر ہیں‘ آپ پر چاروں اطراف سے حملہ ہوا۔
آپ کی قسمت نے یاوری کی‘ عوام نے عمران خان اور علامہ طاہر القادری کا ساتھ نہ دیا‘ موسم نے بھی رنگ دکھایا‘ سراج الحق اور جاوید ہاشمی نے انتہائی مثبت کردار ادا کیا‘ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پارلیمنٹ پوری طاقت کے ساتھ آپ کا قلعہ بن گئی‘ میڈیا تقسیم ہو گیا‘ جمہوریت پسند اینکرز اور کالم نگار گالیاں اور دھمکیاں کھاتے رہے لیکن آپ کے ساتھ کھڑے رہے‘ آصف علی زرداری ماضی فراموش کر کے آپ کے کندھے کے ساتھ کندھا جوڑ کر کھڑے ہو گئے‘ ایم کیو ایم اور جے یو آئی ف نے بھی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا اور رہی سہی کسر عمران خان کے کنسرٹس‘ ناچ گانے اور ضد نے پوری کر دی اور یوں آپ سرخرو ہو گئے لیکن آپ یہ بات ذہن میں رکھیں آپ کی یہ کامیابی عارضی ہے‘ آپ کو فارغ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور آپ کے پاس بمشکل چند ماہ ہیں۔
آپ نے اگر یہ چند ماہ ضایع کر دیے تو 18 جولائی 1993 آتے دیر نہیں لگے گی‘ آپ ایک بار پھر گلیوں اور بازاروں میں ہوں گے اور آپ یہ خوش فہمی ذہن سے نکال دیں‘ آپ چوتھی بار اقتدار میں آ سکیں گے کیونکہ اگر اس بار آپ کی پارٹی ٹوٹی تو یہ چھوٹی چھوٹی کرچیوں میں تقسیم ہو جائے گی اور آپ کو اسے سمیٹتے سمیٹتے دس سال لگ جائیں گے اور آپ دس سال بعد عمر کے اس حصے میں ہوں گے جس میں آپ کیک تک نہیں کھا سکیں گے لہٰذا میری آپ سے درخواست ہے آپ ان تین چار مہینوں کو قدرت کی طرف سے آخری مہلت سمجھیں اور آپ جاگ جائیں‘ آپ بھی بچ جائیں گے‘ جمہوریت بھی بچ جائے گی اور ملک بھی محفوظ ہو جائے گا۔
میاں صاحب مہربانی فرما کر اپنی ہی فوج کو فتح کرنا بند کر دیں‘ آپ فوج پر اعتماد کریں اور فوج کو آپ پر اعتماد کرنے دیں‘ آپ ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف کے ساتھ براہ راست رابطہ رکھیں‘ وہ آپ کو براہ راست فون کریں اور آپ انھیں ڈائریکٹ فون کریں‘ آپ تینوں کے درمیان کوئی چوتھا شخص نہیں ہونا چاہیے‘ آپ اپنے تمام وزراء اور حکومتی عہدیداروں پر پابندی لگا دیں یہ فوج کے بارے میں منہ سے ایک لفظ نہ نکالیں اور جونکالے وہ خواہ کوئی بھی شخص ہو آپ اسے فارغ کر دیں‘ آپ ترکی ماڈل پر چلے جائیں‘ آپ پرفارمنس اور خدمت کو اپنا سیاسی ایمان بنا لیں‘ روزانہ کی بنیاد پر کام کریں۔
آپ شام سات بجے ’’آف‘‘ کر جاتے ہیں اور آپ سے رابطہ تک ممکن نہیں رہتا‘ یہ پاکستان جیسے بحرانوں کے شکار ملک کے ساتھ ظلم ہے‘ پاکستان جیسے ملک کے وزیراعظم کو تو نیند ہی نہیں آنی چاہیے لیکن آپ سو جاتے ہیں‘ آپ فیصلہ کر لیں آپ صبح آٹھ بجے سے رات بارہ بجے تک آفس میں رہیں گے اور طیب اردگان کی طرح صرف اتوار کی شام چھٹی کریں گے‘ آپ کو سیاست یا کاروبار دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا‘ آپ کا کاروبار قانونی ہو گا لیکن یہ آپ کی سیاسی کشتی کا سوراخ بن چکا ہے‘ آپ کب تک اس سوراخ پر پاؤں رکھ کر کھڑے رہیں گے‘ آپ اپنے اور اپنے خاندان کے اثاثے ڈکلیئر کریں‘ لندن کا فلیٹ بیچیں‘ کاروبار کرنے والے بچوں کے بارے میں اعلان کریں‘ یہ کبھی سیاست میں قدم نہیں رکھیں گے۔
خاندان کو بیرونی دوروں پر لے جانا بند کیں‘ مریم نواز باصلاحیت ہیں لیکن انھیں 150 ارب روپے کے ادارے پر بٹھا دینا زیادتی ہے‘ آپ انھیں وومن ڈویلپمنٹ کا قلم دان سونپیں اور وزیراعظم یوتھ لون پروگرام زمرد خان‘ اسد عمر یا سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی جیسے کسی ایماندار اور وژنری شخص کے حوالے کر یں‘ آپ پارٹی کو بھی خاندانی سیاست سے الگ کریں‘ آپ کی پارٹی تین حصوں میں تقسیم ہے‘ آپ ن لیگ اے کو ہینڈل کرتے ہیں‘ ن لیگ بی میاں شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے اور ن لیگ سی کے سربراہ میاں حمزہ شہباز شریف ہیں‘ سلمان شہباز شریف کاروبار کرتے ہیں لیکن وہ بھی آپ کی معاشی ٹیم کے مشیر ہیں‘ آپ نے ڈیڑھ سال سے پارٹی کا اجلاس نہیں بلایا‘ آپ کی پارٹی کے عہدے تک مکمل نہیں ہیں‘ آپ کب تک ہر چیز کو ایک رومال میں باندھنے کی کوشش کرتے رہیں گے‘ آپ پارٹی اہل لوگوں کے حوالے کریں‘ پارٹی کے لیے سیاسی کالج بنائیں اور تمام ایم این ایز‘ ایم پی ایز اور ضلعی عہدیداروں کو سیاسی تربیت دیں۔
آپ نااہل اور بے صلاحیت لوگوں کے ساتھ پارٹی چلا سکیں گے‘ حکومت اور نہ ہی ملک۔ آپ کو دل اور دماغ دونوں بڑے کرنا ہوں گے‘ آپ عام معافی کا اعلان کر دیں‘ آپ اپنی تمام ناراضگیاں اور اختلافات ختم کرنے کا اعلان کر دیں‘ جنرل مشرف کو عدلیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں‘ چوہدری صاحبان‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے گھر جائیں‘ ایم کیو ایم کے قائد کو فون کریں‘ لندن میں ان سے ملاقات کریں‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ میر ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز سے مشورہ کریں۔
چوہدری اعتزاز احسن اور رضا ربانی کو اپنا مشیر بنائیں‘ سراج الحق کو صوبائی رابطوں کا وزیر بنا دیں‘ مستقل مذاکراتی کمیٹی بنائیں‘ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو اس میں شامل کریں اور یہ کمیٹی دھرنوں جیسے بحرانوں کا حل تلاش کرے‘ مشاہد حسین سید کو افغانستان‘ ایران‘ بھارت اور چین کے ساتھ تعلقات کا فریضہ سونپ دیں‘ وزراء کے درمیان موجود لڑائی ختم کرائیں‘ آپ نے شروع میں وزراء سے تین ماہ بعد کارکردگی رپورٹ مانگنے کا فیصلہ کیا تھا‘ آپ اس پر فوراً کام شروع کریں اور عمران خان اور علامہ طاہر القادری کا طریقہ کار غلط تھا مگر ان کے مطالبات درست ہیں‘ آپ ان کے تمام مطالبات کو گود لے لیں اور سال کے اندر اندر وہ سب کچھ کر دیں جو یہ لوگ ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔
وزیراعظم صاحب ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے پارلیمنٹ ڈبیٹنگ کلب بن چکی ہے‘پارلیمنٹ پر 60 ہزار روپے فی منٹ اخراجات ہوتے ہیں لیکن آؤٹ پٹ کچھ نہیں ہوتی لہٰذا پھر لوگ اس پر حملہ کیوں نہ کریں؟ آپ پارلیمنٹ کو عزت بھی دیں اور اس سے وہ کام بھی لیں جس کے لیے عوام اسے منتخب کرتے ہیں‘ ملک کے ادارے ختم ہو چکے ہیں‘ آپ ڈھونڈیں تو آپ کو سیکریٹری نہیں ملتے‘ پولیس کا چیف نہیں ملتا‘ آپ اداروں پر فوراً توجہ دیں‘ پولیس ریفارمز کے لیے پانچ اہل اور ایماندار ترین سابق آئی جیز کی ٹیم بنائیں اور پولیس ڈیپارٹمنٹ ان کے حوالے کر دیں‘ آپ اگر رینجرز اور ایف سی کو گرفتاریوں‘ ناکوں اور سیکیورٹی کی ذمے داری دے دیں اور پولیس کو صرف تفتیش تک محدود کر دیں تو بھی مسئلہ بڑی حد تک حل ہو جائے گا‘ ملک میں انصاف کی حالت واقعی خراب ہے۔
جس ملک میں چیف جسٹس کو انصاف نہ ملتا ہو اور وزیراعظم عدالتوں میں دھکے کھاتے ہوں اس ملک میں عام شخص کی کیا حالت ہو گی‘ آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں‘ آپ مہربانی فرما کر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے ملیں اورانصاف کی فراہمی کے عمل کو آسان اور فوری بنائیں‘نیب اور ایف آئی اے کو اس قدر خودمختار کر دیں کہ یہ وزیراعظم تک کو ہاتھ ڈال سکیں‘ ملک میں نوکریاں پیدا کرنے کے لیے بیورو قائم کریں‘ ملک میں جو شخص پچاس لوگوں کو نوکری دے اس کا انکم ٹیکس معاف کر دیں‘ دنیا بھر میں موجود اہل پاکستانیوں کو دعوت دیں‘ یہ ملک میں واپس آئیں اور سرکاری اداروں میں کام کریں اور خدا کے لیے‘ خدا کے لیے ملک میں مذہبی تقریروں اور اجتماعات پر پابندی لگا دیں‘ ملک میں صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ عالموں کو اسپیکر کی سہولت حاصل ہونی چاہیے‘ نیم خواندہ ملاؤں کو منبر رسولؐ نہیں ملنا چاہیے اور آپ سادگی اختیار کریں‘ مہنگی گھڑیاں باندھنا‘ سونے کے بٹن والی ویسٹ کوٹ پہننا اور رائے ونڈ کے محل میں رہنا بند کر دیں۔
آپ جب ورساشے کے صوفوں پر بیٹھیں گے تو عوام کے تن بدن میں آگ لگے گی اور آپ جب جہاز لے کر بیرون ملک جائیں گے اور اس میں آپ کا خاندان ہو گا تو لوگوں کے ہاتھ آپ کے گریبانوں کی طرف اٹھیں گے‘آپ لوگوں کو باز نہیں رکھ سکیں گے‘ میاں صاحب !آپ کے ایوان کے سامنے ابھی چند ہزار لوگ بیٹھے ہیں لیکن ان چند ہزار لوگوں نے حکومت کو مہینہ بھر کے لیے مفلوج کر دیا ہے‘ آپ ذرا تصور کیجیے‘ ان لوگوں کی تعداد جب لاکھوں کروڑوں ہو جائے گی تو آپ کہاں جائیں گے‘ آپ کا کیا بنے گا چنانچہ میری درخواست ہے آپ جاگ جائیں‘ آپ کے پاس زیادہ وقت نہیں بچااگر عمران خان اور علامہ طاہر القادری کی جگہ ایسے لوگ آ گئے جو برستی بارشوں اور جھلستی دوپہروں میں کنٹینر میں بیٹھنے کی بجائے سڑک پرانقلابیوں کے ساتھ بیٹھ گئے تو پھر انھیں کوئی نہیں اٹھا سکے گا‘ آپ ایسے لوگوںکے آنے سے پہلے جاگ جائیں‘ آپ کی بہت مہربانی ہو گی۔ (میرا ٹویٹر‘ فیس بک اور ویب سائٹ کا ایڈریس نوٹ فرما لیں)

دھرنے شروع سے آخرتک (دوسرا حصہ)
جاوید چوہدری جمعـء 29 اگست 2014

ہم اب مارچ‘ دھرنے اور تھرڈ ایمپائر کی طرف آتے ہیں‘ عمران خان اور طاہر القادری کا خیال تھا‘ یہ دس بیس لاکھ لوگوں کو گھروں سے نکال لیں گے‘ اسمبلیوں میں عمران خان کے 123 ارکان تھے‘ یہ ارکان چار لاکھ لوگ جمع کر لیں گے‘ تین چار لاکھ لوگ خیبر پختونخواہ حکومت لے آئے گی‘ چار پانچ لاکھ عام لوگ اکٹھے ہو جائیں گے اور دو سے تین لاکھ مریدین علامہ طاہرالقادری کے میدان میں آ جائیں گے‘ پنجاب حکومت علامہ طاہر القادری کو ماڈل ٹاؤن سے نکلنے نہیں دے گی‘ حکومت نے بھی علامہ صاحب کو روکنے کی پوری تیاریاں کر رکھی تھیں۔
عمران خان نے 14 اگست کو چھ سات لاکھ لوگوں کے ساتھ لاہور سے نکلنا تھا‘ علامہ صاحب کا ماڈل ٹاؤن میں پولیس سے تصادم ہونا تھا‘ میڈیا نے دونوں کو بھرپور کوریج دینی تھی‘ آٹھ دس نعشیں گرنی تھیں اور گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے فیصلہ ہو جانا تھا‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ لاہور اور کراچی میں آرٹیکل 245 نافذ ہو چکا تھا۔ عمران خان کا خیال تھا‘ فوج حالات کنٹرول کرنے کے لیے باہر آنے پر مجبور ہو جائے گی اور یوں ملک میں انقلاب آ جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا‘ لاہور چھ سات لاکھ لوگ جمع ہو ئے اور نہ ہی ماڈل ٹاؤن میں تصادم ہوا۔
حکومت نے علامہ صاحب کو اچانک اسلام آباد جانے کی اجازت دے دی‘ ان کے ساتھ 24 سے 26 ہزار لوگ تھے‘ عمران خان کے مارچ میں ان سے بھی کم لوگ تھے‘ میڈیا نے دونوں کا بھرپور ساتھ دیا لیکن مارچ اس کے باوجود ناکام ہو گیا‘ سفر کی طوالت کی وجہ سے لوگ تھک گئے‘ خیبر پختونخواہ سے آیا ہوا ہر اول دستہ 24 گھنٹے انتظار کر کے تتر بتر ہو گیا‘ بارش اور حبس نے بھی رنگ دکھا دیا‘ جلسہ گاہ میں بنیادی سہولتوں کی کمی نے بھی مظاہرین کو مایوس کر دیا‘ عوام نے بھی انقلابیوں کا ساتھ نہیں دیا‘ یوں پہلا مرحلہ ناکام ہو گیا‘ دوسرے مرحلے میں دھرنا دیا گیا‘ انقلابیوں کا خیال تھا دھرنے میں دس لاکھ لوگ پورے ہو جائیں گے مگر یہ بھی نہ ہو سکا‘ تقریریں ہوئیں، مائیک اور اسکرین کے ذریعے آگ لگائی گئی لیکن کام نہ بن سکا دوسرا مرحلہ بھی ناکام ہو گیا۔
تیسرے مرحلے میں انقلابیوں کا خیال تھا‘ یہ ریڈ زون کی طرف مارچ کریں گے‘ حکومت روکے گی‘ تصادم ہو گا‘ آنسو گیس‘ لاٹھی چارج‘ ربڑ کی گولیاں اور آخر میں اصلی گولیاں چلیں گی‘ لاشیں گریں گی اور انقلاب آ جائے گا‘ ریڈ زون کی طرف مارچ ہوا‘ چوہدری نثار انھیں روکنا چاہتے تھے لیکن وزیراعظم نے عین وقت پر معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے‘ ریڈزون کی عمارتیں فوج کے حوالے کردی گئیں‘ فورس کو پیچھے ہٹا دیا گیا اور یوں عمران خان اور علامہ طاہر القادری ریڈزون پہنچ گئے‘ انقلابیوں کا خیال تھا حکومت زیادہ دیر تک انھیں برداشت نہیں کرے گی، وزیراعظم مستعفی ہونے پر مجبور جائیں گے لیکن اسکیم الٹ ہو گئی۔
پارلیمنٹ میں موجود گیارہ جماعتوں نے حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا‘ یہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہو گئیں‘ حکومت نے دوسری عقل مندی مذاکرات کی شکل میں کی‘ مذاکرات شروع ہوئے تو انقلاب کا ایجنڈا سامنے آ گیا‘ قوم کو معلوم ہوگیا‘ مارچ اور دھرنوں کا ایجنڈا دو نقاطی ہے‘ نواز شریف استعفیٰ دیں اور پارلیمنٹ اور اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کریں‘ مذاکرات نے ایجنڈا آشکار کردیا اور یوں خان صاحب اور قادری صاحب سیاسی تنہائی کا شکار ہو گئے۔
عمران خان نے اس دوران چار بڑی غلطیاں کیں‘ یہ دن میں اوسطاً سات بار تقریر کرتے رہے‘ ان کی زبان بھی خراب تھی‘ باڈی لینگویج بھی اوردھمکیاں بھی۔ غیر ضروری میڈیا کوریج‘ زبان اور دھمکیوں کی وجہ سے ان کا امیج خراب ہوا‘ دو‘ انھوں نے سول نافرمانی‘ ہنڈی اور سرکاری بینکوں سے رقم نکالنے کا اعلان کردیا‘ یہ اعلان ریاست سے بغاوت تھا‘ یہ بھی ان کے گلے پڑ گیا‘ تین‘ خیبر پختونخواہ کی حکومت بچا لی مگر دوسری اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا گیا‘ 31 ارکان کے استعفے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ بھجوا دیے گئے لیکن شیخ رشید اور عمران خان نے اپنا استعفیٰ پاس رکھ لیا‘ یہ حکمت عملی بھی ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی اور چار‘ یہ غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے قیام‘ انتخابی اصلاحات اور دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے لاہور سے نکلے تھے لیکن اسلام آباد پہنچ کر انھوں نے یہ تمام مطالبات طاق میں رکھ دیے اور میاں نواز شریف کا استعفیٰ مانگنا شروع کر دیا‘ یہ حکمت عملی بھی ان کے گلے پڑ گئی۔
یہ خرابیاں‘یہ غلطیاں اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے عمران خان اور علامہ طاہر القادری تمام تر مسائل کے باوجود ریڈزون میں ڈٹے رہے‘ میں دونوں کی استقامت کی داد دیتا ہوں بالخصوص علامہ طاہر القادری کے ورکرز قابل ستائش ہیں‘ یہ لوگ ڈسپلن میں بھی رہے اور انھوں نے کسی کے ساتھ کسی قسم کی بدتمیزی بھی نہیں کی‘ یہ لوگ مظلوم بھی ہیں‘ ان کے 14 لوگ شہید اور 80 زخمی ہوئے ہیں‘ ایف آئی آر ان کا حق تھا‘ حکومت نے انھیں یہ حق نہ دے کر زیادتی کی‘ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر لواحقین کی مرضی کے مطابق درج ہونی چاہیے تھی اور وزیراعلیٰ پنجاب کو مستعفی بھی ہونا چاہیے تھا‘ اس میں رعایت نہیں کی جا سکتی‘ یہ لوگ اس ظلم کے باوجود اگر ریڈ زون میں پرامن رہے‘ ہمیں اس پر انھیں سلام بھی پیش کرنا چاہیے۔
ہم ایشو کی طرف واپس آتے ہیں‘ عمران خان کا خیال تھا‘ فوج زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہے گی‘ یہ ایمپائر بن کر انگلی اٹھا دے گی‘ عمران خان کے دو ساتھی اور شیخ رشید انھیں روز یہ یقین دلاتے تھے‘ علامہ صاحب کو یقین دلانے کی ذمے داری چوہدری صاحبان کی تھی‘ یہ بھی انھیں ہر دو تین گھنٹے بعد ’’اللہ کی نصرت بہت قریب ہے‘‘ کا پیغام دیتے تھے لیکن فوج وزیراعظم کے ساتھ اختلافات کے باوجود خاموش رہی‘ کیوں؟ انقرہ سے لے کر خواجگان کے بیانات تک اور جیو سے لے کر جنرل مشرف‘ محمود اچکزئی کی کابل سے واپسی اور میاں نواز شریف کی بھارتی پالیسی تک فوج کو وزیراعظم کے بے شمار اقدامات پر اعتراض تھا‘ فوج اور حکومت کے درمیان کھچاؤ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں تھا اور یہ فوج کے پاس حکومت سے انتقام لینے کا سنہری موقع بھی تھا لیکن فوج اس کے باوجود خاموش رہی‘ یہ ایمپائر نہیں بنی‘ کیوں؟۔
فوج کی خاموشی کی تین وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ فوج میاں نواز شریف کو ہٹانا نہیں چاہتی ‘ فوج نے اگر وزیراعظم کو ہٹانا ہوتا تو اس کے لیے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ بہترین راستے تھے‘ وزیراعظم کے خلاف اتحاد بنتا‘ ن لیگ میں فارورڈ بلاک بنایا جاتا‘ اپوزیشن جماعتیں اس بلاک کا ساتھ دیتیں اور پارلیمانی انقلاب آ جاتا یا پھر سپریم کورٹ وزیراعظم کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس کھول دیتی‘ وزیراعظم کا اپنا حلقہ کھل جاتا‘ دھاندلی ثابت ہو جاتی‘ وزیراعظم ’’ڈس کوالی فائی‘‘ کر جاتے اور یوسف رضا گیلانی کی طرح 30 سیکنڈ کی سزا بھگت کر گھر چلے جاتے لیکن یہ راستے اختیار کرنے کے بجائے مارچ اور دھرنوں کا انتظار کیوں کیا گیا؟
وجہ صاف ظاہر ہے حکومت کو صرف رگڑا لگانا‘ ناک سے لکیریں نکلوانا ور اس کے ہاتھ بندھوانا مقصود تھا اور یہ کام ہو گیا‘ دوسری وجہ‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری دونوں مستقل خطرہ ہیں‘ ان دونوں کو فارغ کرنا یا پھر سائز میں لانا ضروری تھا اور یہ کام بھی دھرنوں کے ذریعے ہو گیا‘ علامہ صاحب شاید اس مارچ کے بعد کوئی تیسرا مارچ نہ کر سکیں اور عمران خان بھی خیبر پختونخواہ تک محدود ہو کر رہ جائیں اور تیسری وجہ‘ یہ ثابت ہو گیا‘ میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کر کے آرام سے حکومت نہیں کر سکتے‘ فوج ملک کا واحد منظم اور مضبوط ادارہ ہے، ملک کے دیگر ادارے ختم ہو چکے ہیں اور حکومت کو سیلاب سے لے کر دہشت گردی اور کراچی میں قیام امن سے لے کر ریڈ زون کی عمارتوں کی حفاظت تک فوج کی ضرورت پڑتی ہے اور آپ فوج کو تنگ کر کے‘ ناراض کر کے اور اس کی بے عزتی کر کے کاروبار سلطنت نہیں چلا سکتے‘ یہ دھرنے اور مارچ میاں نواز شریف کے لیے خطرہ نہیں تھے‘یہ خطرے کاالارم تھے‘میاں صاحب کو اس الارم کے ذریعے پیغام دیا گیا ’’آپ اپنا رویہ تبدیل کریں‘ آپ فوج کو بلاوجہ تنگ نہ کر یں‘ یہ آپ کی معاون ہے‘ دشمن نہیں‘‘
میاں صاحب کو اس وارننگ کو سیریس لینا چاہیے‘ میاں صاحب کی فوج کے معاملے میں اپروچ درست نہیں‘ ریاست کے تمام اداروں کوبلاشبہ حکومت کے ماتحت ہونا چاہیے لیکن حکومت کو پہلے خود کو اس کا اہل ثابت کرنا ہو گا‘ میاں صاحب کو ترکی ماڈل پرجانا چاہیے‘ آپ افغانستان اور بھارت پالیسی میں زیادہ چھیڑ چھاڑ نہ کریں، دہشت گردی کا ایشو بھی فوج کے حوالے کر دیں اور گورننس اور پرفارمنس پر توجہ دیں‘ اداروں کی ’’ری سٹرکچرنگ‘‘ کریں‘ اکانومی کو بہتر بنائیں‘ بجلی پیدا کریں‘ نوکریاں بڑھائیں‘ بلدیاتی الیکشن کرا کر چھوٹے قصبوں اور شہروں کی حالت بدلیں‘ نیب کو خود مختار بنائیں اور کرپشن کو جڑوں سے کھینچ کر باہر پھینک دیں ‘آپ کی ٹرانسپورٹ پالیسی اچھی ہے‘ آپ ملک میں موٹرویز اور میٹرو بسوں جیسے منصوبوں کا جال بچھا دیں‘ آپ یقین کریں‘ آپ کی پرفارمنس ملک کے تمام اداروں کو آپ کی ماتحتی میں لے آئے گی لیکن آپ نے اگر یہ چھیڑ چھاڑ جاری رکھی تو آپ پر بہت جلد ایک اور حملہ ہوگا اور وہ حملہ سو فیصد جان لیوا ثابت ہو گا‘ آپ کی حکومت بھی جائے گی‘ آپ کو بھٹو بنانے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
ہم اب آتے ہیں دھرنے کے نقصانات کی طرف۔ ہمارا ایٹمی پروگرام ہمارا سب سے بڑا دفاع ہے‘ یہ بم جس دن ہمارے ہاتھ سے نکل گیا‘ ہمارے دشمن اس دن ہمارے پانچ ٹکڑے کر دیں گے‘ فوج دوسرا بڑا دفاع ہے‘ ہمارے دشمن اس ادارے کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہماری اقتصادیات ہمارا تیسرا دفاع ہے‘ چین‘ ترکی اور سعودی عرب ہماری اقتصادی مدد کررہے ہیں‘ ہمارے دشمنوں کو یہ بھی منظور نہیں‘ مارچ اور دھرنوں نے ہمارے دشمنوں کو نیا راستہ دکھا دیا‘ یہ جان گئے پاکستان میں دو تین لاکھ لوگوں کو سڑکوں پر لا کر پوری ریاست کو مفلوج کیا جا سکتا ہے۔
یہ سوچ ہمارے لیے خطرناک ثابت ہو گی‘ دھرنوں نے عوام کو بھی ذہنی مریض بنا دیا ہے‘ لوگ چڑچڑے ہو چکے ہیں‘ یہ اپنے مستقبل سے مایوس ہو چکے ہیں اور یہ مایوسی قوموں کو عموماً خودکشی کی طرف لے جاتی ہے‘ قوم اس وقت عمران خان اور علامہ طاہر القادری بن چکی ہے‘ یہ رجحان بھی مستقبل میں خطرناک ثابت ہو گا۔
دھرنے‘ شروع سے آخر تک
جاوید چوہدری جمعرات 28 اگست 2014

یہ سلسلہ ایک غلط فہمی سے شروع ہوا اور اس غلط فہمی نے 13فروری 2014ء کو جنم لیا‘ ترکی نے فروری میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کے لیے سہ فریقی کانفرنس بلائی‘ یہ ترک صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم طیب اردگان کا آئیڈیا تھا‘ پاکستان اور افغانستان دونوں نے یہ دعوت قبول کرلی۔
13فروری کا دن طے ہوا‘ حامد کرزئی اپنی انٹیلی جنس کے سربراہ رحمت اللہ نبیل‘ وزیر خارجہ ضرار احمد عثمانی اور وزراء بسم اللہ محمدی‘ صلاح الدین ربانی‘ ڈاکٹر رنگین دادفر اور یحییٰ معروفی کے ساتھ انقرہ پہنچ گئے‘ پاکستان سے وزیراعظم میاں نواز شریف‘ آرمی چیف جنرل راحیل شریف‘ آئی ایس آئی کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام‘ سرتاج عزیز‘ طارق فاطمی اور محمود خان اچکزئی بھی ترکی چلے گئے‘ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو شمالی وزیرستان کی وجہ سے وفد میں شامل کیا گیا تھا‘ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت افغانستان میں پناہ گزین تھی۔
یہ لوگ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کرتے تھے‘ فوجی قیادت کا خیال تھا افغان حکومت اگر پاکستانی طالبان کے سر سے ہاتھ اٹھا لے تو پاکستان ان لوگوں سے نبٹ لے گا‘ پاک فوج اور آئی ایس آئی کی قیادت طالبان کے خلاف ثبوت ساتھ لے کر گئی تھی ‘ محمود خان اچکزئی بلوچستان کے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں‘ ان کے بھائی محمد خان اچکزئی بلوچستان کے گورنر بھی ہیں اور یہ بلوچستان میں میر حاصل بزنجو اور ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت کے اتحادی بھی ہیں‘ بلوچستان میں افغانستان کے ذریعے دس سال سے مداخلت ہو رہی ہے۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ افغانستان کے راستے بلوچستان میں افراتفری پھیلا رہی ہے‘ افغانستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے ٹھکانے بھی موجود ہیں‘ محمود اچکزئی کو اس ایشو پر گفتگو کے لیے وفد میں شامل کیا گیا تھا‘ یہ لوگ 12 فروری کو انقرہ پہنچے‘13 فروری کو میٹنگ شروع ہوئی تو حامد کرزئی نے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی‘ ان کا کہنا تھا پاکستانی فوج نے افغانستان کے دشمن پال رکھے ہیں‘ یہ پاکستان سے افغانستان آتے ہیں اور نیٹو فورسز اور افغان حکومت کو بھاری نقصان پہنچا کر واپس پاکستان چلے جاتے ہیں‘ وہ بار بار اس نیٹ ورک کا نام بھی لیتے تھے۔
حامد کرزئی کا لہجہ غیر سفارتی اور اشتعال انگیز تھا‘ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پروٹوکول کی وجہ سے خاموش رہے‘ ان کا خیال تھا وزیراعظم فوج اور آئی ایس آئی کی صفائی دیں گے لیکن میاں صاحب حسب عادت خاموش رہے‘ یہ خاموشی طول پکڑ گئی تو ڈی جی آئی ایس آئی مداخلت پر مجبور ہوگئے‘ انھوں نے افغانستان کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا‘ انھوں نے طالبان کے افغان کنیکشن بھی بیان کیے اور بلوچستان میں افغان اور بھارتی مداخلت کے ثبوت بھی پیش کر دیے۔
حامد کرزئی مزید غصے میں آگئے‘ عبداللہ گل نے مداخلت کی‘فریقین کو ٹھنڈا کیا‘ میٹنگ ختم ہوئی اور آخر میں عبداللہ گل‘ حامد کرزئی اور میاں نواز شریف نے مشترکہ پریس کانفرنس کی‘ پاکستانی وفد واپس آ گیا لیکن وفد کے آنے سے قبل پاکستان کے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں حکومت اور فوج کے درمیان کچھاؤ کی افواہ پھیل گئی‘ فوجی مبصرین کا خیال تھا‘ میاں صاحب کو حامد کرزئی کے سامنے پاک فوج اور آئی ایس آئی کا دفاع کرنا چاہیے تھا۔
حامد کرزئی پاکستان پر الزام لگا رہے تھے جب کہ میاں صاحب خاموش بیٹھے تھے‘ فوج کو ان کے اس رویئے پر اعتراض تھا‘ یہ افواہ پاکستان کے اعلیٰ حلقوں میں تیزی سے پھیلنے لگی اور اس نے آگے چل کر اس غلط فہمی کی بنیاد رکھ دی جس کی کوکھ سے موجودہ بحران نے جنم لیا۔
مارچ اور اپریل کے مہینے آئے تومزید دو واقعات وقوع پذیر ہو گئے‘ ملک میں خبر گردش کرنے لگی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کو ملک سے جانے کی اجازت دے دی ہے اور جنرل مشرف کسی بھی وقت باہر چلے جائیں گے‘ یہ خبر ابھی افواہ تھی کہ خواجہ آصف نے دو ٹی وی پروگراموں میں کہہ دیا’’جنرل پرویز مشرف بھی قومی مجرم ہیں اور مشرف کے حکم نامے پر انگوٹھے لگانے والے بھی قومی مجرم ہیں اور یہ لوگ اب حکومت کے پائوں پڑ رہے ہیں۔
فضا میں ابھی ان انٹرویوز کا ارتعاش موجود تھا کہ خواجہ سعد رفیق نے بھی پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے کھڑے ہو کر بیان دیا ’’پرویز مشرف مرد کے بچے بنیں اور ڈرامے بازی چھوڑ کر مقدمے کا سامنا کریں‘‘ خواجگان کا ہرگز ہرگز وہ مطلب نہیں تھا جو ان بیانات سے اخذ کر لیا گیا‘ یہ بیانات محض بیانات رہ جاتے اگر انقرہ کا واقعہ نہ ہوا ہوتا‘ خواجگان کو بھی اگر انقرہ کے واقعے کا علم ہوتا تو یہ بھی یقینا ان بیانات سے پرہیز کرتے‘ یہ بے چارے سادگی اور جذبات میں مارے گئے اور ان کے بیانات نے تنائو میں اضافہ کر دیا۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف 7 اپریل کو تربیلا میں ایس ایس جی ہیڈکوارٹر کے دورے پر گئے‘ وہ وہاں کہنے پر مجبور ہو گئے ’’غیر ضروری تنقید پر افسروں اور جوانوں کے تحفظات ہیں‘ فوج اپنے وقار کا ہر حال میں تحفظ کرے گی‘‘ اور یوں فوج اور سول حکومت کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے‘ 19 اپریل کو کراچی میں حامد میر پر حملہ ہوا‘ جیو نے اس حملے کے بعد غیر ذمے داری کا ثبوت دیا‘ ڈی جی آئی ایس آئی کو حملے کا ذمے دار قرار دیا گیا‘ ساڑھے آٹھ گھنٹے ان کی تصویر ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی، فوجی حکام اس دوران حکومت سے رابطے کی کوشش کرتے رہے مگر حکومت نے جیو کو نہیں روکا، یہاں تک کہ بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض نے مداخلت کی‘ میر شکیل الرحمن کو فون کیا اور یوں جنرل ظہیر الاسلام کی تصویر ٹیلی ویژن اسکرین سے ہٹی۔
وزیراعظم میاں نواز شریف 21 اپریل کو حامد میر کی عیادت کے لیے اسپتال چلے گئے‘ فوج کے بعض اعلیٰ عہدیداروں نے اس عیادت پر اعتراض کیا‘ ان کا خیال تھا وزیراعظم کو حامد میر کی عیادت سے قبل آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر آنا چاہیے تھا اور ادارے کو اپنی حمایت کا یقین دلانا چاہیے تھا، وزیراعظم نے حامد میر کی عیادت کر کے فوج کو یہ پیغام دیا ’’ ہم آپ کے بجائے جیو کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ اس عیادت نے غلط فہمی کی خلیج میں اضافہ کر دیا‘ رہی سہی کسر پرویز رشید کے اس بیان نے پوری کر دی جس میں انھوں نے فرمایا ’’ ہم دلیل کے ساتھ ہیں‘ غلیل کے ساتھ نہیں‘‘ فوج میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو 19 اپریل کے واقعے کو حکومت اور جیو کی ملی بھگت قرار دیتے ہیں۔
ان تمام واقعات کے بعد وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان رابطے تقریباً منقطع ہو گئے اور یہ افواہ پھیل گئی‘ میاں صاحب کسی بھی وقت جنرل راحیل شریف سے استعفیٰ مانگ لیں گے‘ مجھے ایک ریٹائرڈ جنرل نے بتایا ’’ فوج کو یقین تھا جنرل راحیل شریف وزیراعظم کے دفتر جائیں گے اور ان سے استعفیٰ مانگ لیا جائے گا‘ فوج نے جنرل شریف کو انکار کا مینڈیٹ تک دے دیا تھا‘‘۔
عمران خان‘ علامہ طاہر القادری اور چوہدری صاحبان فوج اور حکومت کے ان اختلافات کو گہری نظر سے دیکھ رہے تھے‘ ان کا خیال تھا‘ یہ حکومت پر حملے کا سنہری موقع ہے‘ فوج اور حکومت میں فاصلہ ہے‘ ہم اگر اس وقت حکومت پر حملہ کرتے ہیں تو فوج نیوٹرل ضرور رہے گی چنانچہ 30 مئی 2014ء کو علامہ طاہر القادری‘ عمران خان اور چوہدری صاحبان نے لندن میں ملاقات کی اور حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا معاہدہ کر لیا‘یہ معاہدہ ہوا تو تین اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے‘ سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے 12جون 2014ء کو جنرل پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کی درخواست نبٹا دی، عدالت نے وفاق کو 15 دن کے اندر جنرل مشرف کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کا حکم دے دیا‘ یہ فیصلہ حکومت کے حلق میں پھنس گیا۔
اسلام آباد میں آج بھی بے شمار لوگ دعویٰ کرتے ہیں‘ حکومت کے ایک سینئر وزیر نے فوجی قیادت کو یقین دلایا تھا عدالت اگر حکم دے دے تو ہم جنرل مشرف کا نام ای سی ایل سے ہٹا دیں گے لیکن جب فیصلہ آیا تو حکومت نے نہ صرف سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کر دیا بلکہ جنرل مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے سے بھی انکار کر دیا، یہ فیصلہ براہ راست وزیراعظم نے کیا تھا اور اس میں وزیر داخلہ تک کو بائی پاس کردیا گیا تھا‘ فوج کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے وعدہ یاد کرایا تو میاں صاحب نے جواب دیا ’’ میں نے اس قسم کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا‘‘ وعدہ کرنے والے وزیر سے پوچھا گیا تو وہ شرمندہ ہو گئے اور اس شرمندگی میں ان کے وزیراعظم کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے‘ دوسرا واقعہ آپریشن ضرب عضب تھا‘ 13 جون کو شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہوگیا‘ حکومت نے 15 جون کو آپریشن کا اعلان کیا، دو دنوں کے اس گیپ نے سیاسی حلقوں میں یہ افواہ پھیلا دی’’ فوج نے حکومت کی اجازت کے بغیر آپریشن شروع کر دیا‘‘۔
پاکستان مسلم لیگ ق‘ پاکستان تحریک انصاف‘ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان آج بھی ٹیلی ویژن پر یہ دعویٰ کرتے ہیں‘ یہ اطلاع بہرحال غلط تھی کیونکہ آپریشن کے معاملے میں سیاسی اور فوجی قیادت حقیقتاً ایک صفحے پر تھی‘ آپریشن ضرب عضب نے علامہ طاہر القادری اور عمران خان دونوں کو کنفیوژ کر دیا‘یہ محسوس کرنے لگے فوج اور حکومت کے اختلافات ختم ہو چکے ہیں اور آپریشن کے دوران اب کچھ نہیں ہو سکے گا چنانچہ مولانا نے ملک میں واپس آنے کا ارادہ ملتوی کردیا جب کہ عمران خان نے جلسے روکنے کا فیصلہ کرلیا لیکن پھر 17 جون کا واقعہ ہو گیا، پولیس نے لاہور میں ادارہ منہاج القرآن کے کارکنوں پر فائرنگ کی‘ 14لوگ شہید اور80 زخمی ہو گئے‘ یہ سانحہ حکومت کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا‘ علامہ صاحب 23 جون کو پاکستان آ گئے‘ عمران خان نے 27 جون کو بہاولپور کے جلسے میں لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ چوہدری صاحبان اور شیخ رشید ایکٹو ہوئے اور باقی کہانی آپ کے سامنے ہے۔
سانحہ ماڈل ٹائون کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم واقعہ بھی پیش آیا‘ محمود اچکزئی 17 اور 18 جون کو افغانستان گئے، صدر حامد کرزئی نے انھیں شاہی مہمان قراردیا اور واپسی پر انھیں آئی ایس آئی کے خلاف جھوٹے ثبوتوں کے پلندے تھما دیے‘ محمود اچکزئی نے یہ ثبوت وزیراعظم کو دے دیے‘ وزیراعظم نے یہ ثبوت متعلقہ اداروں کو بھجوا دیے‘ اس پر بھی فوج برا مان گئی‘ فوج کو برا منانا بھی چاہیے تھا کیونکہ ہم جب غیرملکی اداروں کو ملکی اداروں پر فوقیت دیں گے تو دل تو ٹوٹیں گے‘ ناراضگیاں تو جنم لیں گی لہٰذا ناراضگیاں پیدا بھی ہوئیں اوردل بھی ٹوٹے اور آپ نے آنے والے دنوں میں ان ٹوٹے ہوئے دلوں کا نتیجہ بھی ملاحظہ کیا۔
ہم اب مارچ‘ دھرنے اور تھرڈ ایمپائر کی طرف آتے ہیں۔عمران خان اور علامہ طاہر القادری کا خیال تھا (باقی کل ملاحظہ کیجیے)۔

قومیں جب تعصب کی عینک پہن لیں
جاوید چوہدری پير 25 اگست 2014

نادر شاہ درانی نے 1739ء میں ہندوستان پر حملہ کیا‘ دہلی فتح کیا اور شہر میں خون کی ندیاں بہا دیں‘ دہلی شہر میں نعشوں کا انبار لگ گیا‘ شہر کے ہر گھر سے دھواں اٹھنے لگا‘ دس دس سال کی بچیاں ’’ریپ‘‘ ہوئیں اور دہلی والوں کا مال و متاع لوٹ لیا گیا‘ دہلی کے بہادروں نے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کا فیصلہ کیا۔
یہ لوگ اٹھے اور رات کے اندھیرے میں کوئلے سے دہلی کی دیواروں پر ’’مرگ بر ظالم‘‘ لکھ دیا‘ نادر شاہ درانی نے یہ بدعا پڑھی تو جامع مسجد کے سامنے کھڑا ہو گیا‘ قہقہہ لگایا‘ اپنے سپاہی بلائے اور اس فقرے کے نیچے لکھوا دیا ’’بعد ازاں مرگ مظلوم‘‘ نادر شاہ درانی کے کہنے کا مطلب تھا ’’ ظالم بھی مر جاتا ہے لیکن مظلوم ہمیشہ ظالم سے پہلے مرتا ہے‘‘ نادر شاہ چلا گیا مگر دنیا کو یہ حقیقت بتا گیا ’’مظلوم ظالم سے پہلے مرتا ہے‘‘ کیوں مرتا ہے؟ اس کا جواب دنیا کے کسی قانون‘ کسی آئین اور کسی عدالت کے پاس نہیں‘ عدالت خواہ قاتل کو سو بار پھانسی دے دے مگر مقتول زندہ نہیں ہو سکتا‘ وہ کبھی واپس نہیں آ سکتا۔
یہ وہ بنیادی نکتہ تھا جس نے پولیس کے ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھی‘ پولیس ڈیپارٹمنٹ مجرم کو سزا دینے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا‘ مظلوم کو مظلوم بننے سے روکنے کے لیے بنایا گیا تھا‘ سزا دینا عدالت کا کام ہوتا ہے اور عدالتیں پولیس ڈیپارٹمنٹ سے ہزاروں سال قبل بنائی گئی تھیں‘ یہ وجہ ہے پوری دنیا میں 15یا 1122 جیسے ادارے موجود ہیں‘ آپ ٹیلی فون کا ایک بٹن دباتے ہیں اور پولیس پانچ منٹ میں آپ کے دروازے پر پہنچ جاتی ہے جب کہ دنیا کے کسی ملک میں عدالت کے لیے ایمرجنسی کال سسٹم نہیں۔
عدالتیں ہمیشہ آہستہ کام کرتی ہیں اور پولیس فوراً‘ کیوں؟ کیونکہ عدالت مجرم کو سزا دیتی ہے جب کہ پولیس جرم روکتی ہے اور جرم روکنے کی اسپیڈ انصاف دینے والوں کی رفتار سے تیز ہونی چاہیے‘ ہمارے ملک میں یہ نظام مختلف ہے‘ ہمارے ملک میں پولیس ہو یا عدالت یہ جرم نہیں روکتی‘ یہ انصاف بھی نہیں دیتی‘ یہ صرف اور صرف مظلوموں میں اضافہ کرتی ہے‘ آپ کو میری بات پر یقین نہ آئے تو آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں‘ آپ کو اس ملک میں تاحد نظر مظلوم ہی مظلوم نظر آئیں گے‘ ان مظلوموں کا تعلق کسی ایک طبقے سے نہیں ہو گا‘ آپ اندازہ کیجیے جس ملک میں پولیس کے آئی جی انصاف مانگ رہے ہوں۔
چیف جسٹس سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہوں اور جس میں ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کا قائد کنٹینر پر کھڑا ہو کر سول نافرمانی‘ ہنڈی اور سرکاری بینکوں سے رقم نکالنے کا حکم دے رہا ہو اور جس میں ملک کا سابق صدر غداری کا مقدمہ بھگت رہا ہو اور جس ملک میں دو تہائی اکثریت کے حامل وزیراعظم کو وزیراعظم ہاؤس سے اٹھا کرہائی جیکنگ کی مقدمہ بنا دیا جاتا ہو اور جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر کو ’’ سیکیورٹی تھریٹ‘‘ قرار دے دیا گیا ہو اور جس میں آئی ایس آئی کے چیف کو ٹیلی ویژن اسکرین پر قاتل ڈکلیئر کر دیا گیا ہو اور جس میں الیکشن کمیشن کے ایک سابق ملازم کے ’’انکشافات‘‘ پر پورے الیکشن پراسیس کو دھاندلی ثابت کر دیا گیا ہو آپ کو اس ملک میں کہاں کہاں مظلوم نظر نہیں آئیں گے؟
یہ ملک‘ ملک کم اور مظلومستان زیادہ ہے اور اس مظلومستان میں میرے جیسے لوگ پریشان پھر رہے ہیں اور یہ پوچھ رہے ہیں‘ ہم خود کو ایماندار‘ محب وطن اور غیر جانبدار کیسے ثابت کریں‘ ہمارے ملک میں کوئی بھی شخص اٹھتا ہے‘ ٹیلی فون کی ایک سم خریدتا ہے‘ انٹرنیٹ پر اپنا خفیہ اکائونٹ بناتا ہے‘ فیس بک یا ٹویٹر پر جاتا ہے یا پھر کوئی ’’بلاگ‘‘ بناتا ہے اور کسی بھی شخص کی ٹوپی یا پگڑی اتار کر اس میں غلاظت ڈال دیتا ہے اور کلمہ حق کا بے چارہ ہدف باقی زندگی دیوار گریہ تلاش کرتا رہ جاتا ہے۔
ملک میں اس وقت آٹھ صحافی خفیہ کلمہ حق کے ہدف ہیں‘ ان آٹھ مظلوموں کا صرف ایک جرم ہے‘ ان لوگوں نے اس پاگل پن کی رو میں بہنے سے انکار کر دیا جس کے آخر میں ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی‘ ہم ایٹم بم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے‘ عراق کی طرح نسلی‘ لسانی اور فرقہ وارانہ جنگ کا شکار بھی ہو جائیں گے‘ ہماری فوج کو بھی نقصان ہو گا اور ہم آئین اور پارلیمنٹ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے‘ ہمارے لیے کتنا آسان تھا ہم بھی ہجوم کے ساتھ شامل ہو جاتے‘ انقلاب زندہ باد‘ انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے۔
شہزاد رائے کے ساتھ کھڑے ہو کر سالی کو منانے کی کوشش کرتے اور انقلاب کی برکات جھولی میں بھر کر واپس آ جاتے‘ پاکستان تحریک انصاف کا نیا پاکستان بھی خوش ہو جاتا اور ہمارا خفیہ کلمہ حق بھی راضی ہو جاتا لیکن ہم بے وقوف لوگ اس آئین کے ساتھ کھڑے ہو گئے جسے اس قوم نے آدھے ملک کی قربانی دے کر بنایا تھا اور ہم اس پارلیمنٹ کی حفاظت کے لیے بھی سامنے آ گئے جس کے بارے میں ہمارا خیال ہے یہ متحدہ پاکستان کی آخری منتخب پارلیمنٹ ہے‘یہ اگر ٹوٹ گئی تو پھر ہمیں ڈی چوک پر عزت کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے دہائیوں کا سفر طے کرنا پڑے گا۔
ہم فرض کر لیتے ہیں سماجی مفتیوں کے فتوے درست ہیں‘ ہم مجرم ہیں‘ پھر سوال پیدا ہوتا ہے ہم اگر مجرم ہیں تو پھر آصف علی زرداری‘ الطاف حسین‘ اسفند یار ولی‘ مولانا فضل الرحمن‘ سراج الحق اور محمود اچکزئی بھی بکے ہوئے غدار ہیں کیونکہ یہ لوگ بھی اس وقت ہم آٹھ صحافیوں کی طرح پارلیمنٹ اور آئین کے ساتھ کھڑے ہیں‘ آپ ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟ ہم جانتے ہیں ہمیں استقامت کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘ ہماری کردار کشی بھی ہو گی‘ ہم پر حملے بھی ہوں گے‘ ہماری جعلی آڈیوز اور ویڈیوز بھی جاری ہوں گی۔
ہمارے نام چاند اور مریخ پر پلاٹ بھی نکل آئیں گے اور ہمیں سی آئی اے‘ موساد اور را کا ایجنٹ بھی قرار دے دیا جائے گا‘ ہمیں بے ایمان ثابت کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے‘ ملک کے دو مفتی اینکر پرسنز نے ہمارے بارے میں حکومت سے رقم وصول کرنے کا فتویٰ بھی جاری کر دیا ‘ پی ٹی آئی اور ان کے وہ مہربان جو انقلابیوں کو انقلاب کے سمندر میں دھکا دے کر غائب ہو گئے وہ ہمارے خلاف سوشل میڈیا پر کمپین کر رہے ہیں‘آپ ہمیں غدار‘ بکاؤ اور منافق قرار دے رہے ہیں‘ آپ کرتے رہیں‘ آپ گوئبلز ازم کے اس سمندر میں جتنے چاہیں بیڑے اتار لیں‘ ہم لوگ بہر حال سسٹم کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہم پارلیمنٹ اور آئین کے ساتھ ہیں‘ پارلیمنٹ میں اگر کل عمران خان‘ الطاف حسین یا علامہ طاہر القادری بھی بیٹھ جاتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور کسی شخص کو صرف دھرنے کی بنیاد پر پارلیمنٹ توڑنے یا وزیراعظم طاہر القادری اور وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ مانگنے نہیں دیں گے‘ یہ ملک ہے اور اس ملک میں ٹوٹا پھوٹا اور لولا لنگڑا ہی سہی مگر سسٹم موجود ہے اور ہم کسی طالع آزما کو یہ سسٹم توڑنے نہیں دیں گے‘ آپ کو میاں نواز شریف پسند نہیں یا آپ سمجھتے ہیں الیکشنز میں دھاندلی ہوئی ہے تو آپ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر کمیشن بنوائیں‘ تحقیقات کرائیں۔
کمیشن کی سماعت کو میڈیا کے لیے اوپن کر دیں تا کہ پوری قوم اپنی آنکھوں سے انصاف ہوتا دیکھے‘ آپ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر روز وزیراعظم تبدیل کریں‘ آپ کو الیکشن کمیشن اور انتخابات کے طریقہ کار پر اعتراض ہے تو آپ نئی انتخابی اصلاحات کر لیں‘ آپ وزارت عظمیٰ کی مدت پانچ سے تین سال کر لیں‘ آپ قانون بنا دیں وہ شخص جس کے بچے اور کاروبار باہر ہیں وہ ملک میں الیکشن نہیں لڑ سکے گا‘ آپ کو پارلیمانی جمہوریت پسند نہیں‘ آپ صدارتی نظام لے آئیں‘ آپ امیدواروں کے لیے آئین کی دفعہ 62 اور 63 کو لازم قرار دے دیں‘ آپ جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں‘ آپ جو نیا پاکستان تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔
آپ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر جائیں‘ آپ کو کوئی نہیں روکے گا مگر سڑکوں کو عوامی پارلیمنٹ نہ بنائیں کیونکہ سڑکیں اگر ایک بار پارلیمنٹ بن گئیں تو پھر یہاں عوامی عدالتیں بھی بنیں گی‘ عوامی پولیس اور عوامی کمیشن بھی بنیں گے اور جس دھڑے کا کمیشن‘ پولیس اور عدالت تگڑی ہو گی وہ سڑک پر بیٹھ کر دوسرے کو غدار‘ منافق اور کافر قرار دے گا اور عوامی تارا مسیح آگے بڑھ کر اس کافر‘ اس منافق اور اس غدار کو پھانسی پر چڑھا دے گا‘ عمران خان یاد رکھیں شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات نے ملک توڑ دیا تھا۔
ہمیں خدشہ ہے آپ کے چھ نکات اس ملک کی رہی سہی روح قبض کر لیں گے‘ آپ خدا کے لیے ملک کے کسی ادارے کو بڑا مان لیں‘ آپ پارلیمنٹ کو نہیں مانتے تو آپ سپریم کورٹ کو بڑا مان لیں‘ چیف جسٹس پرفیصلہ چھوڑ دیں اور اگر چیف جسٹس نے 2013ء کے الیکشن کو جعلی قرار دیا تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے‘ ہم آپ کے ساتھ مل کر نواز شریف سے استعفیٰ بھی مانگیں گے اور ہم مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ بھی کریں گے‘ آپ کسی ایک پر اعتماد کریں‘ آپ کی بے اعتمادی ملک کو تباہ کر دے گی۔
اور آخر میں ہم جیسے لوگ! ہم لوگ اپنی حب الوطنی‘ ایمانداری اور غیر جانبداری ثابت کرنے کے لیے کیا کریں‘ ہم کون سا دروازہ کھٹکھٹائیں‘ کس ادارے سے رابطہ کریں اور کس سے سر ٹیفکیٹ لیں‘ آپ لوگ ہماری رہنمائی کریں‘ ہم اس دروازے پر جا کر بیٹھ جائیں گے‘ اس ادارے سے درخواست کریں گے‘ خدا را آپ ہمیں حب الوطنی کا سر ٹیفکیٹ جاری کر دیں ‘لوگوں کو ہم پر یقین نہیں آ رہا‘ ہم سر ٹیفکیٹ لے آئیں گے لیکن کیا گارنٹی ہے آدھی قوم اس سر ٹیفکیٹ کو بھی جعلی قرار نہیں دے گی؟کیوں؟ کیونکہ جب قومیں تعصب کی عینک پہن لیتی ہیں تویہ نعوذ باللہ مقدس ترین ہستیوں کو جادوگر اور احکامات کو شاعری قرار دے دیتی ہیں جب کہ ہم تو معمولی صحافی ہیں‘ ہماری بات‘ ہمارے سر ٹیفکیٹ پر کون یقین کرے گا۔