جاوید چوہدری

مبارک ہو
جاوید چوہدری اتوار 24 اگست 2014

بات گھٹیا‘ بے شرم اور لعنتی سے اسٹارٹ ہوئی‘ نوجوان کا کہنا تھا ’’ تم انتہائی گھٹیا‘ بے شرم اور لعنتی انسان ہو‘ میں تمہارا فین تھا لیکن میں اب تم پر لعنت بھیجتا ہوں‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کہاں سے بول رہے ہیں‘‘ نوجوان نے جواب دیا ’’لندن سے ‘‘ آپ کیا کرتے ہیں، جواب آیا ’’میڈیا اسٹڈیز کا اسٹوڈنٹ ہوں‘‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’ بیٹا آپ کس بات پر خفا ہیں‘‘ نوجوان نے چلا کر کہا ’’ تم مجھے بیٹا نہ کہو‘ غلیظ بکاؤ صحافی‘‘ میں نے جواب میں عرض کیا ’’ اوکے سر آپ کس بات پرخفا ہیں‘‘ اس نے تھرتھراتی آواز میں جواب دیا ’’ تم نے آج عمران خان کے خلاف کالم کیوں لکھا‘‘ میں نے عرض کیا ’’ سر آپ کو میرے 15 برسوں کے کالموں پر تو کوئی اعتراض نہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’ نہیں‘ تم تازہ تازہ بکے ہو‘‘۔
میں نے عرض کیا ’’ اوکے سر‘ آپ میڈیا اسٹڈیز کے طالب علم ہیں چنانچہ میں آپ کو دو مشورے دینا چاہتا ہوں‘‘ اس نے جواب دیا ’’ بکواس کرو‘ میں سن رہا ہوں‘‘ میں نے عرض کیا ’’سر انسان کو کبھی ایک واقعے‘ ایک گالی‘ غصے کے ایک واقعے‘ ایک کالم‘ ایک ٹی وی شو اور ایک تقریر کی بنیاد پر رائے قائم نہیں کرنی چاہیے، انسان میں 24 گھنٹے میں 11 موڈ آتے ہیں اور ہر موڈ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے‘ آپ انسان کو دن میں 11 بار دیکھیں گے تو یہ آپ کو گیارہ مرتبہ مختلف لگے گا‘ اللہ تعالیٰ کی ذات ہماری اس خصلت سے واقف ہے شاید یہ اسی لیے ہماری آخری سانس تک ہمارے لیے توبہ کے دروازے کھولے رکھتی ہے‘ اللہ ہمارا حساب بھی حشر کے میدان میں اس وقت لے گا جب زمین پر زندگی کا آخری خلیہ ختم ہو جائے گا‘ سر آپ جانتے ہیں نبی اکرم ؐ نے جب نبوت کا اعلان فرمایا تو پورا مکہ آپؐ کے خلاف ہو گیا‘ کفار آپؐ کی جان کے دشمن تھے لیکن نفرت کے باوجود کسی کو آپؐ پر حملے کی جرأت نہیں ہوئی‘ پورے شہر میں صرف خطاب کا بیٹا تھا جو نبی اکرمؐ کو شہید کرنے کے لیے تلوار لے کر گھر سے نکلا‘ ہم اگر خطاب کے اس بیٹے کو دیکھیں تو ہمارے ذہن میں ایک تصویر بنے گی اور ہم اگر ان حضرت عمر فاروقؓ کو دیکھیں جن کے بارے میں نبی اکرم ؐ نے فرمایا تھا ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے‘‘ تو ہمارے دماغ میں دوسری تصویر بن جائے گی۔
آپ ان دونوں تصویروں کو ذہن میں رکھئے اور سوچئے وہ شخص جس نے حضرت عمر فاروقؓ کو قبول اسلام سے قبل دیکھا ‘ وہ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہوگا اور جن حضرات نے انھیں مدینہ منورہ میں دیکھا وہ ان کے بارے میں کیا کہتے ہوں گے‘ حضرت عمرؓ سے کسی نے پوچھا ’’ آپ کی زندگی کا حیران کن واقعہ کیا تھا‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’ میں جب بھی یہ سوچتا ہوں عمر بدل کیسے گیا تو میں حیران ہو جاتا ہوں‘‘۔
سر میری درخواست ہے‘ رائے بہت قیمتی چیز ہوتی ہے، آپ اس میں جلد بازی نہ کیا کریں اور دوسرا مشورہ‘‘ نوجوان جذباتی ہو گیا‘ اس نے بے صبری سے میری باٹ کاٹی اور کہا ’’ تمہارے اسی منافقانہ رویے نے مجھے فون کرنے پر مجبور کیا‘ تم قرآن‘ سنت اور صحابہؓ کی بات کرتے ہو مگر حکمرانوں کے تلوے چاٹتے ہو‘‘ مجھے نوجوان کے لفظ بہت گراں گزرے‘ میرا بلڈ پریشر بڑھ گیا‘ کنپٹی میں آگ سی لگ گئی‘ میں زمین پر بیٹھ گیا‘ میں نے غصے پر قابو پایا اور نوجوان سے عرض کیا ’’سر آپ اگر میری دوسری بات بھی سن لیں تو شاید آپ کو فائدہ ہو جائے‘‘ نوجوان نے کہا ’’ بکو میں سن رہا ہوں‘‘ میں نے عرض کیا ’’ سر میرے خیالات آپ سے مختلف ہو سکتے ہیں مگر اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں، آپ مجھے گالی دیں‘‘ نوجوان نے حیرت بھری آواز میں جواب دیا ’’ میں نے تمہیں کب گالی دی‘‘ میں نے اس سے عرض کیا ’’ سر آپ نے مجھے گھٹیا بھی کہا‘ بے شرم بھی‘ لعنتی بھی‘ بکاؤ بھی اور منافق بھی‘ کیا یہ گالیاں نہیں ہیں‘‘ نوجوان کو غصہ آ گیا‘ اس نے اونچی آواز میں چلا کر کہا ’’ کیا یہ گالیاں ہیں‘ گالیاں یہ ہوتی ہیں‘‘ اور اس کے بعد وہ پنجابی میں آ گیا‘ میں نے اس کی ساری گالیاں سنیں اور اس کے بعد اس سے صرف اتنا کہا ’’سر یہ آپ کا قصور نہیں‘ یہ آپ کے لیڈر کا قصور ہے‘ وہ اگر پوری قوم کے سامنے کھڑے ہو کر گالیاں دیں گے تو آپ پر گالی دینا فرض ہو جائے گا‘‘۔ میں نے اس کے بعد فون بند کر دیا۔
یہ پچھلے دس دن کی صرف ایک مثال تھی‘ میں اس وقت سوشل میڈیا کی دہشت گردی کا بہت بڑا شکار ہوں‘ پاکستان تحریک انصاف کے انقلابیوں نے میری حوصلہ افزائی کے لیے ’’بلاگس‘‘ بنا دیے ہیں‘ ان ’’بلاگس‘‘ سے میرے فیس بک اکاؤنٹ‘ ای میل ایڈریس‘ ٹویٹر اور موبائل فون نمبر پر لاکھوں کی تعداد میں گالیاں دی جا رہی ہیں‘ یہ لوگ ٹھیک کر رہے ہیں کیونکہ آج کے طارق بن زیاد کے سپاہیوں کا ایمان ہے‘ انقلاب کے اس نازک موڑ میں جو شخص عمران خان کے کنسرٹ میں شامل نہیں، وہ غدار بھی ہے اور بکا ہوا بھی۔ علامہ طاہر القادری بھی انقلاب کی اس گھڑی گھروں میں بیٹھنے کو حرام قرار دے چکے ہیں‘ مجھے اس رویئے پر افسوس نہیں‘ مجھے افسوس ہے تو 28 جولائی کے ان بارہ گھنٹوں پر افسوس ہے جب میں ایماندار‘ سچا‘ کھرا اور بے باک صحافی ہوتا تھا‘ میں عمران خان کے ساتھ بنوں گیا اور میں نے نئے پاکستان کے بانی سے یہ نہیں پوچھا‘ آپ خیبر پختونخوا کا ہیلی کاپٹر کس استحقاق سے استعمال کررہے ہیں اور آپ کوہاٹ سے بنوں تک پروٹوکول کس کھاتے میں لے رہے ہیں‘ مجھے 18 اگست کو عمران خان سے یہ بھی عرض کرنا چاہیے تھا‘ آپ خیبر پختونخوا کی حکومت اور اسمبلی توڑنے کا اعلان پہلے کریں اور باقی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی سے استعفیٰ بعد میں دیں۔
مجھے ان سے عرض کرنا چاہیے تھا ’’آپ خیبر پختونخوا کا فیصلہ اتحادیوں پر چھوڑ رہے ہیں لیکن آپ جمہوریت کے ان 11 اتحادیوں کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں جن کے پارلیمنٹ میں 307 ارکان ہیں اور جو پارلیمنٹ اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘۔مجھے عمران خان سے یہ بھی پوچھنا چاہیے تھا’’ آپ کے بنی گالہ کے گھر کی سیکیورٹی خیبر پختونخواہ کی پولیس اور ایف سی کے پاس کیوں ہے؟‘‘افسوس میں ایمانداری اور بے ایمانی دونوں ادوار میں اپنے قائد سے یہ سوال نہ پوچھ سکا۔
میں عمران خان کا دوست بھی ہوں اور فین بھی لیکن میں اس عقیدت کے باوجود ان کے انقلاب کا مخالف ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ میں جانتا ہوں عمران خان استعمال ہو رہے ہیں‘ یہ صرف ’’پلاس‘‘ ہیں‘ اس پلاس کے ذریعے سسٹم کی ٹونٹی کھولی جا رہی ہے‘ یہ ٹونٹی جس دن کھل جائے گی اس دن انقلاب کا پلاس بے معنی ہو جائے گا اور پھر عمران خان ہوں گے‘ بنی گالہ ہوگا اور ہمارے جیسے عقیدت مند ہوں گے‘ عمران خان کی جنگی حکمت عملی سے چار غلط نتائج نکلے ہیں‘ایک‘ یہ آج وہاں آ گئے ہیں جہاں سے انھوں نے اٹھارہ سال پہلے سیاست شروع کی تھی، ان کی مقبولیت کے پیندے میں سوراخ ہو چکا ہے‘ لوگ اب انھیں سنجیدہ نہیں لیں گے۔
‘ دو‘ ان کی مہربانی سے آج وہ تمام سیاستدان ایک میز پر بیٹھ گئے ہیں جنھیں قوم نے بڑی مشکل سے الگ الگ کیا تھا‘ یہ لوگ خارجی دروازے پر تھے مگر عمران خان کی مہربانی سے یہ واپس آ گئے ہیں۔ ‘ تین‘ یہ ملک انقلاب کے لیے تیار تھا‘ ہم سب کا خیال تھا ایک با معنی انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے اور یہ انقلاب عمران خان جیسے متوازن اور معتدل لیڈر کے ذریعے آئے گا، عمران خان پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر بھارت جیسی انتخابی اصلاحات کریں گے‘ آئین کی دفعات 62 اور 63 کو متحرک کریں گے اور ہمارا اگلا الیکشن پاکستان کو ترکی بنا دے گا لیکن عمران خان کی جلد بازی اور ضد نے انقلاب کا یہ موقع ضایع کر دیا‘ مجھے خطرہ ہے‘ اس خلا کو اب شدت پسند پر کریں گے‘ یہ اپنی اپنی خواہشوں کے پانیوں میں گوندھی شریعت لے کر نکلیں گے اور اس پارلیمنٹ پر قابض ہو جائیں گے جس پر عمران خان کے انقلاب کا جھنڈا نہیں لہرا سکا اور عمران خان نے چوتھا کمال کیا‘ انھوں نے ایک ایسی نسل تیارکردی جو گھٹیا‘ بے شرم‘ لعنتی ‘ بکاؤ اور منافق جیسی گالیوں کو گالی نہیں سمجھتی‘ جو اختلاف رائے کے حق کو حق ہی نہیں سمجھتی۔
خان صاحب آپ کامیاب ہو گئے ہیں‘ آپ کو نیا پاکستان مبارک ہو۔

انقلاب
جاوید چوہدری جمعـء 22 اگست 2014

آپ اگر انقلاب کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو ہنری اور ٹام کی کہانی سننا ہو گی‘ ہنری اور ٹام دونوں امریکی ریاست ٹیکساس میں رہتے تھے‘ یہ دونوں سیاہ فام تھے‘ یہ دونوں نیم پڑھے لکھے‘ غریب اور نادار تھے‘ یہ دونوں دوست اور ہمسائے تھے‘ یہ دونوں اپنی معاشی‘ سماجی اور سیاسی زندگی بدلنا چاہتے تھے‘ ٹام کا خیال تھا‘ ہمیں ایک آئیڈیل‘ شفاف‘ ہمدرد اور انقلابی حکومت چاہیے‘ انقلابی لیڈر آئے گا اور وہ امریکا کے پسے ہوئے طبقوں کو عزت‘ برابری‘ انصاف اور روزگار دے گا‘ ہم جیسے لوگوں کو بھی گھر ملیں گے‘ مہنگی گاڑیاں ملیں گی‘ ہم بھی جہازوں پر سفر کریں گے‘ ہم بھی فائیو اسٹار ہوٹلوں میں رہیں گے، ہم بھی ٹی وی پر آئیں گے اور ہم بھی مشہور ہو جائیں گے۔
ہنری کا ویو مختلف تھا‘ وہ سمجھتا تھا دنیا کی کوئی حکومت‘ کوئی سیاسی جماعت اور کوئی لیڈر کسی شخص کا مقدر نہیں بدل سکتا‘ حکومتیں اور لیڈر آپ کے بنگلے کے چوکیدار ہوتے ہیں‘ یہ آپ کے بنگلے کی حفاظت کرسکتے ہیں لیکن بنگلہ بہرحال آپ نے خود بنانا ہوتا ہے‘ ہنری اور ٹام میں اختلاف ہوگیا‘ ہنری کا اپنے کزن ڈک کے ساتھ پراپرٹی پر جھگڑا چل رہا تھا‘ معاملہ عدالت میں تھا‘ ہنری اٹھا‘ اپنے کزن کے گھر گیا‘ اس سے معذرت کی اور سچا ہونے کے باوجود اپنے حق سے دستبردار ہوگیا، اس نے اس کے بعد اپنی واحد گاڑی پانچ ہزار ڈالر میں بیچی‘ ڈھائی ہزار ڈالر بیوی کو دیے اور ڈھائی ہزار ڈالر ایک کوکنگ اسکول میں جمع کرا کے شیف کے کورس میں داخلہ لے لیا‘ وہ ایک سال اسکول میں پڑھتا رہا‘ فارغ ہوا تو ریستوران میں شیف کی نوکری کر لی‘ وہ آدھی تنخواہ گھر دیتا تھا اور آدھی جمع کر لیتا تھا‘ وہ ریستوران کے بزنس کا بھی گہرائی سے جائزہ لیتا رہا‘ وہ اس کاروبار کی خامیاں اور گاہکوں کی ضروریات نوٹ کرتا رہا۔
اس نے ریستوران میں ایک سال کام کیا‘ اس دوران اس کے پاس بارہ ہزار ڈالر جمع ہوگئے‘ ہنری نے شہر میں دس بائی دس کی چھوٹی سی دکان لی اور لنچ باکس بنانا شروع کر دیے،وہ روزانہ دو سو لنچ باکس بناتا تھا اور قرب و جوار کے دفتروں اور اسکولوں میں سپلائی کر دیتا تھا‘ کھانا صاف ستھرا اور مزے دار بھی تھا اور سستا بھی۔ ہنری کا کاروبار چل پڑا‘ وہ آہستہ آہستہ ترقی کرتا رہا یہاں تک کہ آج وہ امریکا کے 14 بڑے شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں لنچ باکس سپلائی کرتا ہے‘ اس کے پاس ڈھائی ہزار ملازمین ہیں‘ اس کی کمپنی 24 گھنٹے کام کرتی ہے‘ اس نے امریکا کی دو بڑی ائیر لائینز کو لنچ باکس سپلائی کرنے کا ٹھیکہ بھی لے لیا‘ آج تیس سال بعد وہ امریکا کے خوش حال ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے‘ اس کے پاس بنگلے بھی ہیں‘ مہنگی گاڑیوں کا بیڑہ بھی اور بیس نشستوں کا ذاتی طیارہ بھی۔
ہنری کے سارے بچوں نے برکلے اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی‘ اس نے اپنے کزن سے وہ پراپرٹی بھی خرید لی جسے وہ اس کے گھر جا کر اس کے حوالے کر آیا تھا‘ دنیا کے ہر انسان کی پانچ بڑی ضرورتیں ہوتی ہیں‘ پیسہ‘ یہ ہنری کے پاس موجود ہے‘ گھر‘ یہ بھی ہنری کے پاس موجود ہے‘ صحت‘ ہنری دنیا کے مہنگے ترین اسپتالوں میں مہنگا ترین علاج کرا سکتا ہے‘انصاف‘ ہنری امریکا کے مہنگے ترین وکیل اور لاء فرموں کی خدمات حاصل کر سکتا ہے اور سیکیورٹی‘ ہنری نے اپنی اور اپنے بچوں کے لیے پرائیویٹ سیکیورٹی کا بندوبست کر رکھا ہے‘ یہ ہنری کی اسٹوری تھی‘ آپ اب ٹام کی کہانی سنیے۔
ٹام نے ملک میں سیاسی تبدیلی کے لیے جدوجہد شروع کر دی‘ وہ بل کلنٹن کا سپورٹر بن گیا‘ بل کلنٹن ٹام جیسے سپورٹروں کی مدد سے ایوان صدر تک پہنچ گیا‘ وہ ٹام کو نام اور شکل سے جانتا تھا‘ وہ اسے ہزاروں کے مجمعے میں پہچان جاتا تھا اور دور سے ہاتھ ہلا کر اسے ’’ہائے ٹام‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتا تھا‘ ٹام تین بار بل کلنٹن سے ملا‘ کلنٹن نے اس سے یہ بھی کہا ’’ ٹام واٹ کین آئی ڈو فار یو‘‘ ٹام نے اسے مکان کے لیے درخواست لکھ کر دے دی لیکن امریکی صدر کسی شہری کو مفت گھر نہیں دے سکتا، یہ صدر کے اختیارات سے باہر تھا چنانچہ ٹام کو کلنٹن کے آٹھ برسوں کے اقتدار میں گھر نہ مل سکا‘ وہ کلنٹن کے بعد جارج بش کا حامی ہوگیا‘ وہ اس کے جلسوں میں نعرے لگاتا رہا‘ پارٹی کا جھنڈا جسم پر لپیٹ کر اس کی ریلیوں میں ڈانس کرتا رہا‘ وہ میڈیا پر جا کر جارج بش کھپے کے نعرے لگاتا رہا‘ وہ دیوانہ وار جارج بش کی گاڑی کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوتا تھا‘ ٹام کی یہ دیوانگی زیادہ دیر تک جارج بش سے مخفی نہ رہ سکی یوں ٹام جارج بش کے دربار تک پہنچ گیا‘ بش نے بھی اس سے پوچھا ’’ ٹام واٹ کین آئی ڈو فار یو‘‘ ٹام نے پرانی درخواست کا نیا پرنٹ نکال کر جارج بش کے حوالے کر دیا۔
بش کے پاس پارٹی فنڈ میں رقم موجود تھی‘ اس نے پارٹی فنڈ سے ٹام کو تین مرلے کا گھر دے دیا‘ ٹام خوش ہو گیا‘ وہ نئے گھر میں پہنچا تو اسے معلوم ہوا زندگی گزارنے کے لیے صرف گھر کافی نہیں ہوتا‘ انسان کو روزگار بھی چاہیے‘ بچوں کی تعلیم‘ صحت اور یوٹیلٹی بلز کے لیے رقم بھی چاہیے اور ٹام کے پاس یہ نہیں تھا‘ وہ دوبارہ جارج بش کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا‘ وہ چاہتا تھا بش سرکاری یا پارٹی فنڈ سے اسے وظیفہ دے دے‘ یہ وظیفہ اس کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ اور بچوں کو دے دیا جائے لیکن بش نے معذرت کر لی‘ صدر کا کہنا تھا‘ ملک میں اس وقت ٹام جیسے چار کروڑ لوگ ہیں، صدر کس کس کو وظیفہ دے گا۔
بش کے انکار نے ٹام کا دل توڑ دیا‘ وہ بش سے مایوس ہو گیا‘ بارک اوباما نام کا ایک سیاہ فام سیاستدان اس وقت سر اٹھا رہا تھا‘ بارک اوباما اور ٹام دونوں سیاہ فام تھے‘ یہ دونوں پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتے تھے‘ ٹام بارک اوباما کے ساتھ شامل ہو گیا‘ یہ اس کے جلسے میں کرسیاں بھی رکھتا‘ اس کے پلے کارڈ بھی اٹھاتا اور اس کے ہینڈ بلز بھی تقسیم کرتا‘ یہ اوباما کی سوشل میڈیا ٹیم کا حصہ بھی بن گیا‘ یہ جعلی اکاؤنٹس سے اوباما کے دشمنوں کو ماں بہن کی گالیاں بھی دیتا اورانھیں نسل پرستی‘ منافقت اور ملک دشمنی کے طعنے بھی، اوباما اس کی خدمات کا اعتراف کرنے لگا‘ یہ الیکشن مہم کے دوران اکثر میڈیا پر اوباما کے پیچھے کھڑا نظر آتا‘ 20 جنوری 2009ء کو اوباما الیکشن جیت گیا‘ وہ کامیابی کے بعد شکاگو گیا تو اس نے ٹام کو ناشتے کی دعوت دی‘ ٹام اپنا بہترین سوٹ پہن کر اوباما کے ساتھ ناشتہ کرنے پہنچ گیا‘ اوباما نے اس کا استقبال کیا‘ اس کی تعریف کی‘ اسے شاباش دی اور آخر میں اس سے پوچھا ’’ ٹام واٹ کین آئی ڈو فار یو‘‘ ٹام نے درخواست نکال کر اس کے سامنے رکھ دی‘ یہ نوکری کی درخواست تھی‘ ٹام اس وقت تک سمجھ گیا تھا‘ حکومت اسے امداد یا وظیفہ نہیں دے سکے گی چنانچہ اسے صدر اوباما سے نوکری مانگنی چاہیے۔
اوباما نے درخواست لی‘ مسکرا کر ٹام کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا ’’ٹام آپ کیا کر سکتے ہو‘‘ ٹام نے بے چارگی سے جواب دیا ’’ مجھے صرف ڈرائیونگ آتی ہے‘‘ اوباما نے مسکرا کر سر ہلایا‘ ٹیلی فون اٹھایا اور اپنے ایک دوست کا فون ملا کر اس سے درخواست کی ’’ میں اپنا ایک قریبی دوست تمہارے پاس بھجوا رہا ہوں‘ آپ مہربانی فرما کر اسے اپنی کمپنی میں ڈرائیور کی جاب دے دو‘‘ دوست نے دوسری طرف سے ’’اوکے‘‘ کہہ دیا‘ اوباما نے درخواست پر کمپنی کا نام اور مالک کا نمبر لکھا اور کاغذ ٹام کے ہاتھ میں پکڑا دیا‘ ٹام اگلے دن کمپنی کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گیا‘ یہ بیس منزلہ جدید خوبصورت عمارت تھی، سیکریٹری نے ٹام کا استقبال کیا‘ لفٹ میں سوار کیا‘ اسے عمارت کے ٹاپ فلور پر لے کر آئی‘ کمپنی کے صدر کا دروازہ کھولا اور ٹام اندر داخل ہو گیا‘ اندر بیس فٹ کی وسیع آبنوسی میز کے پیچھے ہنری بیٹھا تھا‘ وہ ہنری جس نے تیس برس قبل فیصلہ کیا تھا‘ انسان اپنی ذات کا لیڈر‘ اپنی ذات کی حکومت خود ہوتا ہے‘ دنیا کا کوئی لیڈر‘ کوئی حکومت اس کا مقدر نہیں بدل سکتی‘ وہ اپنا مقدر صرف اور صرف خود بدل سکتا ہے‘ وہ اگر کوشش نہیں کرے گا تو حکومتیں بدلتی رہیں گی‘ لیڈر آتے اور جاتے رہیں گے لیکن ہنری ہنری ہی رہے گا۔
یہ سوچ اصل حقیقت‘ اصل انقلاب ہے‘ کاش عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے کارکن اور اس ملک کے کروڑوں بے روزگار نوجوان اس حقیقت کو سمجھ جائیں‘ لوگ یہ جان جائیں پاگلوں کی طرح خواہشوں کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگنے سے زندگیوں میں انقلاب نہیں آیا کرتے۔

انقلاب یا ملک
جاوید چوہدری جمعرات 21 اگست 2014

ہم انسان اگر کسی زبان کے صرف 80 لفظ سیکھ لیں تو ہم اس زبان میں اپنا مافی الضمیر پیش کر سکتے ہیں‘ ہمارے پاس اگر دو سو الفاظ کا ذخیرہ ہو تو ہم رائیٹر بن سکتے ہیں اور ہم اگر تاریخ ساز لکھاری بننا چاہتے ہیں تو صرف تین سو مختلف الفاظ کافی ہوں گے‘ شیکسپیئر نے اپنے ڈراموں میں صرف اڑھائی سو الفاظ استعمال کیے‘ وہ پوری زندگی صرف ان اڑھائی سو لفظوں سے کھیلتے رہے‘ آپ اگر پرانی انگریزی کے وہ اڑھائی سو الفاظ سیکھ لیں، آپ ان الفاظ کی بیک گراؤنڈ جان لیں تو آپ شیکسپیئر کو اسی فیصد سمجھ سکتے ہیں باقی بیس فیصد کے لیے وجدان‘ ریاضت اور مطالعہ درکار ہے۔
ہم لکھاری لفظوں کے بازی گر ہوتے ہیں‘ ہم لفظوں اور ان لفظوں کو پڑھنے والوں دونوں کو اچھی طرح جانتے ہیں‘ ہم جانتے ہیں‘ ہمارا کون سا لفظ‘ کون سا فقرہ دلوں کی رفتار بڑھا دے گا‘ ہمارے کون سے لفظ آنکھوں میں ریت کے ذرے بن جائیں گے‘ ہمارے کون سے لفظ شعور میں کانٹا بن کر دھنس جائیں گے اور ہمارے کون سے الفاظ روتے ہوئوں کو قہقہہ لگانے پر مجبور کر دیں گے، آپ کو صرف دو اڑھائی سو لفظ چاہیے اور ان لفظوں کو برتنے کا ڈھنگ آنا چاہیے اور بس! لیکن کیا ہمارا کام صرف لفظوں کی بازی گری‘ فقروں کا مداری پن ہے؟ کیا ہمیں وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ سورج مکھی کی طرح اپنا زاویہ نظر بھی بدل لینا چاہیے‘ کیا ہمیں وقت کے ساتھ اپنے لفظوں کی قندیلیں بھی اونچی نیچی کرتے رہنا چاہیے؟
مجھے اس وقت ہزاروں لوگ گالیاں دے رہے ہیں‘ میرا فیس بک پیج‘ ٹویٹر‘ ای میل اور ایس ایم ایس باکس گالیوں سے بھرا ہوا ہے اور یہ گالیاں اس ملک کا پڑھا لکھا طبقہ دے رہا ہے، اس پڑھے لکھے طبقے کا خیال ہے لکھنے والوں کو ذاتی رائے نہیں دینی چاہیے‘ ان کی سوچ اور ان کی رائے کے دھارے میں بہنا چاہیے‘ یہ لوگ جن کو وقتی طور پر محبوب سمجھ رہے ہیں‘ یہ جنھیں چار دن کے لیے اپنا ہیرو سمجھتے ہیں‘ لکھنے اور بولنے والوں کو ان کی بیعت کر لینی چاہیے‘ میں لکھاری ہوں‘ میرے لیے ان لوگوں کے تیر اور ترکش کے رخ بدلنا مشکل نہیں‘ میں نے ایک کالم لکھنا ہے اور ٹیلی ویژن پر ساڑھے پانچ منٹ کی تقریر کرنی ہے‘ انقلاب زندہ باد کے نعرے لگانے ہیں‘ عمران خان کو مبارک باد پیش کرنی ہے اور ڈنڈا بردار نوجوانوں سے درخواست کرنی ہے، آپ آگے بڑھیں اور کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دیں‘ آپ تمام نقش کہن مٹا دیں اور جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی‘ آپ اس کھیت کے تمام خوشہ ہائے گندم کو جلا دیں اور یہ ساڑھے پانچ منٹ اور ایک کالم گالیاں دینے والے ہزاروں لوگوں کو زندہ باد‘ زندہ باد کے نعرے لگانے پر مجبور کر دے گا۔
میں جو لمحہ موجود میں ولن ہوں میں ہیرو بن جائوں گا‘ میرے لیے کتنا آسان ہے‘ میں گھر سے نکلوں‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے کنٹینر پر چڑھوں‘ مولانا میرا لائیو استقبال کریں، میں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو کر جھومنا شروع کر دوں اور میں آخر میں ان سے بغل گیر ہوں‘ مکا بنائوں اور ہوا میں لہرا دوں اور تالیوں کی گونج میں گھر واپس آ جائوں یا پھر میں فیس بک پر عمران خان اور علامہ طاہر القادری کو مبارک باد پیش کروں اور لاکھوں لوگ جواب میں مجھے مبارک باد پیش کرنے لگیں‘ یہ کتنا آسان ہے مگر کیا لوگوں کو خوش کرنا میرا ہنر‘ میرا کام اور میری ذمے داری ہے یا پھر اصل حقائق لوگوں کے سامنے پیش کرنا‘ انھیں نعروں اور دعوئوں کے سبز باغوں سے نکالنا۔
میرے نزدیک صحافت عورت کی عزت کی طرح مقدس اور ماں کی حرمت کی طرح پوتر ہے‘ میں ماں اور بہن کی گالی برداشت کر سکتا ہوں مگر مجھ سے بے ایمان‘ بکائو اور جانبدار ہونے کی گالی برداشت نہیں ہوتی‘ آپ اگر مجھ سے دھونس اور دبائو کے ذریعے مرضی کے تاثرات لینا چاہتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا‘ میں اس کے مقابلے میں یہ پیشہ چھوڑنا یا مرنا قبول کر لوں گا مگر گالیوں اور ڈنڈوں کے بہائو میں نہیں بہوں گا‘ آپ جتنا زور لگانا چاہتے ہیں لگا لیں۔
ہم نے آج فیصلہ کرنا ہے‘ ہم نے ملک کو بچانا ہے یا پھر نعوذ باللہ توڑنا ہے‘ ہم نے اگر توڑنا ہے تو پھر آئیے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے جمع ہو جاتے ہیں اور ہم پارلیمنٹ ہائوس اور وزیراعظم ہائوس پر قابض ہو جاتے ہیں اور پھر اس قبضے کے نتائج دیکھتے ہیں‘ اس قبضے کا پہلا نتیجہ بلوچستان کی علیحدگی ہو گا‘ بلوچ قیادت اس انقلاب کو مسترد کر چکی ہے‘ میرحاصل بزنجو بلوچ لیڈر ہیں اور محمود خان اچکزئی بلوچستان کے پشتون لیڈر۔ بلوچستان میں اس وقت دونوں حکمران ہیں‘ یہ دونوں عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے انقلاب کو مسترد کرچکے ہیں۔
بلوچستان میں کسی بھی وقت بڑی ریلی نکلے گی اور عوام پہلے اس انقلاب اور بعد ازاں وفاق کو مسترد کر دیں گے‘ کیا ہم اس کے بعد بلوچستان میں مارشل لاء لگائیں گے اور کیا عوام اس مارشل لاء کو قبول کرلیں گے؟ خیبر پختونخواہ میں پرویز خٹک کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی ہے‘ اپوزیشن جماعتیں وہاں بھی سڑک پرآ رہی ہیں‘ مولانا فضل الرحمن اور ان کے کارکن باہر نکلنے والے ہیں‘ یہ صوبے کا سارا نظام مفلوج کردیں گے‘ کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟ ہماری قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس سڑکوں پر ہوں گے‘ ارکان سڑک پر بیٹھیں گے اور پوری دنیا عوامی قومی اسمبلی کا تماشہ دیکھے گی‘ کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟ پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب میں مضبوط ہے‘ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے‘ یہ لوگ بنی گالہ اور منہاج سیکریٹریٹ کا گھیرائو بھی کریں گے اور سڑکوں پر بھی نکلیں گے‘ یہ پارلیمنٹ کی حفاظت کے لیے اسلام آباد کی طرف مارچ بھی کریں گے‘ کیا ہم یہ چاہتے ہیں‘ عمران خان نے نسلوں کے دشمن سیاستدانوں کو اکٹھا کر دیا‘ یہ لوگ اکٹھے ہو چکے ہیں‘ یہ دوستی کے نئے رشتوں میں بندھ جائیں گے‘ یہ آج کے بعد ایک دوسرے کی کرپشن پر آنکھیں بند کرلیں گے‘ یہ اب زیادہ شدت سے ایک دوسرے کی سپورٹ کریں گے‘ یوں ملک میں اپوزیشن کا وجود ختم ہو جائے گا‘ کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟
اور ہم نے ایک آدھ دن میں ریڈ زون کے حالات کنٹرول نہ کیے تو فوج مداخلت پر مجبور ہو جائے گی‘ یہ مارشل لاء یا ایمرجنسی لگا دے گی اور عمران خان‘ طاہر القادری اور میاں نواز شریف تینوں فارغ ہوجائیں گے‘ ملک پانچ دس سال کے لیے آمریت کے قبضے میں چلا جائے گا‘ کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟ عمران خان اور علامہ صاحب کی یہ بات درست ہے یہ سسٹم خراب ہے‘ یہ نظام کسی کو انصاف فراہم کر رہا ہے اور نہ ہی تحفظ۔ یہ عوام کو روزگار‘ تعلیم‘ صحت اور عزت بھی نہیں دے پا رہا‘ ملک میں الیکشن بھی غیر جانبدارانہ اور شفاف نہیں ہوتے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے‘ ہم اس پورے نظام کو ختم کر دیں اور عوام کے فیصلے ڈنڈوں سے ہوں؟
نہیں‘ ہمیں نظام توڑنے کے بجائے ٹھیک کرنا چاہیے اور نظام کو ٹھیک کرنے کا واحد راستہ آئین اور پارلیمنٹ ہے‘ یہ ملک 1947ء میں بنا اور ملک کا پہلا اور شاید آخری متفقہ آئین 1973ء میں بنا یعنی قوم کو آئین تک پہنچنے میں 26 سال لگ گئے تھے‘ ملک میں آئین نہ ہونے کی وجہ سے آدھا ملک ٹوٹ گیا‘ آج اگر خدانخواستہ یہ آئین ختم ہو جاتا ہے تو شاید پوری قوم مل کر نیا آئین نہ بنا سکے چنانچہ میری درخواست ہے‘ آپ آئین کو تسلیم کریں‘ آپ پارلیمنٹ کے تقدس کا خیال بھی رکھیں اور آپ کو اگر سسٹم میں خرابیاں نظر آتی ہیں تو آپ آئین میں ترامیم لے آئیں‘ آپ آئینی طریقے سے نظام کو اندر سے بدلیں۔
آپ نظام پر باہر سے حملے نہ کریں‘ آپ نے اگر یہ حملے جاری رکھے تو بلوچستان کے لیڈر کوئٹہ میں جمع ہو جائیں گے‘ جے یو آئی‘ اے این پی اور ن لیگ پشاور میں جلسے شروع کر دیں گی اور پاکستان مسلم لیگ ن ملک بھر میں اپنے کارکنوں کو باہر لے آئے گی! کیا اس وقت لوگ ملک کی گلیوں‘ بازاروں اور چوکوں میں ایک دوسرے کے سر نہیں پھاڑیں گے‘ کیا چوکوں میں پھانسی گھاٹ تیار نہیں ہوں گے؟ آج عوامی پارلیمنٹ بن گئی ہے تو کیا کل عوامی عدالتیں نہیں لگ جائیں گی اور یہ عدالتیں لوگوں کو سرے عام پھانسی نہیں دے دیں گی؟
آج اسٹیج سے پولیس اور رینجرز کو حکم دیا جا رہا ہے‘ آپ سائیڈ پر ہوجائیں‘ کل اگر فوج کو بھی یہ احکامات جاری کر دیے جاتے ہیں’’ آپ ہمارے راستے میں حائل نہ ہوں‘‘ تو کیا ہو گا؟ یہ ایک لاکھ‘ دو لاکھ یا دس لاکھ لوگ ہیں‘ یہ اگر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے پہنچ کر حکومت کو فارغ کردیتے ہیں تو کیا گارنٹی ہے کل عمران خان وزیراعظم بنیں گے تو کوئی پارٹی بیس لاکھ لوگ جمع کر کے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے نہیں آئے گی اور یہ پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیراعظم ہاؤس کی چھت پر کھڑی ہو کر ان سے استعفیٰ نہیں لے گی‘ یہ اگر آج پورے پارلیمانی نظام کو فارغ کر دیتے ہیں تو کیا کل پچاس لاکھ لوگ اسلام آباد آ کر ریاست سے ایٹم بم نہیں چھین لیں گے یا ریاست کو بھارت پر حملہ کرنے کا حکم جاری نہیں کریں گے۔
پاکستان میں فیصلے اگر لانگ مارچ سے ہوں گے تو پھر آپ لکھ لیجیے ہمیں عراق‘ شام اور لیبیا بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا‘ نظام عورت کی عصمت کی طرح ہوتے ہیں‘ یہ اگر ایک بار روند دیے جائیں تو یہ کبھی دوبارہ واپس نہیں آتے‘ آپ لوگوں نے صرف انقلاب کا نام سنا ہے‘ آپ ذرا اس کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے‘ وہ لوگ جو ایک بار لوگوں کو لے کر باہر نکلے وہ کبھی انھیں واپس نہ لے جا سکے‘ وہ ڈنڈے جو دوسروں کے سر پر ٹوٹے انھیں ڈنڈوں نے بعد ازاں اپنے لیڈروں کے سر کچلے چنانچہ آپ فیصلہ کر لیجیے‘ آپ کو یہ انقلاب چاہیے یا پھر ملک۔

عمران خان میرا ہیرو
جاوید چوہدری منگل 19 اگست 2014

قائداعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے کرشماتی لیڈر تھے‘ بھٹو صاحب گھر سے نکلے تو یہ خیبر سے لے کر گوادر تک عوام کے جسم میں بجلی بن کر دوڑ گئے‘ ملک کا ہر غریب خود کو بھٹو کا بھائی‘ بھٹو کا بیٹا اور بھٹو کا دوست سمجھنے لگا‘ بھٹو صاحب بعد ازاں اسلامی بلاک کے بانی بھی بنے‘ اسلامی بم کے موجد بھی بنے اور اسلامی بینک کے مصور بھی بنے۔
جان ایف کینیڈی نے بھٹو سے مل کر کہا تھا ’’ ذوالفقار آپ اگر امریکی ہوتے تو آپ میری کابینہ کے وزیر ہوتے‘‘ بھٹو نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’ نہیں‘ میں اگر امریکی ہوتا تو میں امریکا کا صدر ہوتا‘‘ بھٹو صاحب واقعی کرشماتی لیڈر تھے مگر افسوس ہم نے اس عظیم لیڈر کو معمولی مفاد اور تھوڑی سی ہوس اقتدار کے عوض پھانسی پر لٹکا دیا‘ سینیٹر پرویزرشید بھٹو صاحب کے جیالے تھے‘ میں نے کل انھیں ٹیلی ویژن پر ایاز خان سے گفتگو کرتے سنا‘ پرویز رشید نے بھٹو صاحب کے بارے میں کمال فقرہ بولا‘ انھوں نے کہا ’’ ہم نے بھٹو کو اس کی خامیوں کی سزا نہیں دی‘ ہم نے اسے اس کی خوبیوں کی سزا دی تھی‘‘ بھٹو صاحب کو حقیقتاً ان کی خوبیوں نے پھانسی پر چڑھا یا تھا اور ان کے بعد سیاست بونوں کا کھیل بن کر رہ گئی۔
میرے ہیرو عمران خان بھٹو صاحب کے بعد ملک کے تیسرے کرشماتی لیڈر ہیں‘ عمران خان میں بے شمار خوبیاں ہیں‘ یہ اسٹار ہیں‘ دنیا ان کو ان کے نام اور شکل سے پہچانتی ہے‘ یہ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں لوگ ان کے ساتھ رک کر تصویر بنواتے ہیں‘ یہ بے خوف بھی ہیں‘ یہ دوسروں سے مرعوب بھی نہیں ہوتے‘ انگریزی‘ اردو اور پنجابی تین زبانیں بولتے ہیں‘ ملک اور بیرون ملک اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی‘بچپن اور جوانی دونوں بھرپور گزاریں‘ کوئی حسرت ادھوری نہیں رہی۔
لوگ جب ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی کرتے ہیں عمران خان اس وقت سیاست میں آئے اور صرف 15برسوں میں خود لیڈر بن گئے اور ان کی جماعت ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی۔ شوکت خانم کینسر اسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسا کمال بھی کیا‘ یہ ایماندار بھی ہیں‘ سچے بھی ہیں اور یہ مایوس بھی نہیں ہوتے‘ ان کی شخصیت میں تسلسل بھی ہے‘ عمران خان کا دل بھی کھلا ہے‘ یہ شیخ رشید جیسے شخص کو بھی کھلے دل سے قبول کر لیتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی گلے لگا لیتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں سیتا وائیٹ ’’متعارف‘‘ کروائی تھی۔
یہ لبرل مسلمان ہیں‘ نماز بھی پڑھتے ہیں اور میوزک بھی سنتے ہیں اور یہ عوام کے ساتھ بھنگڑا بھی ڈال لیتے ہیں‘ یہ ملک کے واحد لیڈر ہیں جو بیک وقت مذہبی طبقے‘ ایلیٹ کلاس‘مڈل کلاس‘ سیاسی لیڈر شپ اور فوج میں پاپولر ہیں‘ یہ میرٹ پر بھی چلتے ہیں‘ نیازی ہیں مگر ان کے اردگرد نیازی نظر نہیں آتے‘ لوگ ان کو خان صاحب کے بجائے عمران کہتے ہیں اور یہ برا بھی نہیں مناتے‘ مجھے آج بھی یقین ہے میاں نواز شریف کے بعد عمران خان کی حکومت بنے گی کیونکہ میاں صاحب جتنی تیزی سے غلطیاں کر رہے ہیں‘ ان کا فائدہ بہرحال عمران خان کو ہو گا‘ عمران خان میرے ہیرو ہیں‘ بس ان میں تین خامیاں ہیں اور یہ تین خامیاں ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
عمران خان کو آگے کا سفر جاری رکھنے سے قبل اپنی یہ خامیاں دور کرنا ہوں گی‘ ان کی پہلی خامی جلد بازی ہے‘ یہ جلد باز واقع ہوئے ہیں اور سیاست میں جلد بازی اتنی ہی خطرناک ہے جتنا ہیلمٹ کے بغیر کرٹلی امبروز یاایلن ڈونلڈ کے سامنے کھڑا ہو جانا۔ ان کی دوسری خامی خوش فہمی ہے‘ ان کی توقعات اور زمینی حقائق میں اتنا فاصلہ ہوتا ہے جتنا مریخ اور زمین کے درمیان ہے اور ان کی تیسری خامی ’’مر جائیں یا مار دیں‘‘ جیسا رویہ ہے‘ یہ معاملات کو انتہا پر لے جاتے ہیں اور سیاست میں یہ رویہ خودکشی کے مترادف ہوتا ہے‘ سیاست میں آپ ہمیشہ واپسی کا راستہ کھلا رکھتے ہیں۔
سیاست میں کشتیاں جلانے والے ہمیشہ مار کھا جاتے ہیں‘ ملک کی قیادت اور کرکٹ ٹیم کی قیادت میں بڑا فرق ہوتا ہے‘ آپ کرکٹ میں ہار بھی جائیں تو بھی آپ کے پاس اگلے ورلڈ کپ کی گنجائش ہوتی ہے جب کہ سیاست میں ہارنے کا مطلب پوری پارٹی‘ پوری قوم کی ہار ہوتی ہے اور تاریخ بہت کم لیڈروں اور قوموں کو ڈوب کر دوبارہ ابھرنے کا موقع دیتی ہے‘ عمران خان نے جس دن اپنی ان تینوں غلطیوں پر قابو پا لیا‘ یہ اس دن ملک کے طلسماتی لیڈر بن جائیں گے۔
یہ لانگ مارچ اور سول نافرمانی کا اعلان عمران خان کی سیاسی غلطیاں ہیں‘ لانگ مارچ بنیادی طور پر خوش فہمیوں اور ناآسودہ توقعات کی بارات تھا‘ عمران خان کے جلسے بہت کامیاب تھے‘ عمران خان ان جلسوں کی بنیاد پر بڑا جواء کھیل بیٹھے اور یہ بھول گئے جلسہ ٹونٹی ٹونٹی میچ ہوتا ہے‘ لوگ پیدل آتے ہیں‘ تین چار تقریریں سنتے ہیں اور واپس گھر جا کر سو جاتے ہیں جب کہ لانگ مارچ ٹیسٹ میچ ہوتا ہے‘ لوگوں کو اس کے لیے گھر‘ دکان‘ دفتر اور فیکٹری چھوڑنا پڑتی ہے‘ دھوپ‘ بارش اور سردی برداشت کرنا پڑتی ہے‘ ننگی زمین پر سونا پڑتا ہے‘ بھوک اور پیاس کاٹنا پڑتی ہے اور پولیس کے ڈنڈے‘ آنسو گیس اور گولیاں کھانا پڑتی ہیں اور یہ ساری مصیبتیں‘ یہ سارے آلام صرف علامہ طاہر القادری کے مریدین برداشت کر سکتے ہیں۔
یہ مصیبتیں جھیلنا فیس بک‘ ٹویٹر اور اسکائپ کے ممی ڈیڈی کرائوڈ کے بس کی بات نہیں ہوتی‘ عمران خان یہاں مار کھا گئے‘ عمران خان موسم کے ہاتھوں بھی مارے گئے‘ برسات برصغیر کا بدترین موسم ہوتا ہے‘ ہمارے ملک میں برسات اپنے ساتھ حبس لے کر آتی ہے اور اس حبس میں گدھے بھی درختوں کے نیچے پناہ لے لیتے ہیں جب کہ آپ نے انسانوں سے توقع باندھ لی تھی‘ یہ سڑکوں پر بیٹھ جائیں گے‘ برسات اور حبس کتنی خوفناک آفت ہوتی ہے‘ آپ اس کا اندازہ اس سے لگا لیجیے۔
عمران خان اور ان کے انقلابی ساتھی شام چھ سے پہلے گھروں اور ہوٹلوں سے نکلنے کا رسک نہیں لیتے تھے اور یہ صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی حبس‘ بو اور گرمی سے بھاگ کر سینٹرلی ائیر کنڈیشنڈ ہوٹلوں اور بنی گالہ میں پناہ گزین ہو جاتے تھے‘ عمران خان نے تیسری غلطی سفر لمبا کر کے کی‘ انھوں نے نو گھنٹے لاہور میں ضایع کر دیے اور پانچ گھنٹے گوجرانوالہ میں ناشتے پر لگا دیے‘ اس دوران خیبر پختونخواہ کے انقلابی واپس چلے گئے یا مری کی سیر کے لیے نکل گئے۔
راولپنڈی اور اسلام آباد کی پارٹی انتظامیہ بھی فیل ہو گئی‘ اس نے انقلابیوں کے لیے خیموں کا بندوبست کیا اور نہ ہی روٹی پانی‘ ادویات اور واش رومز کا جب کہ ان کے مقابلے میں پاکستان عوامی تحریک کے انتظامات بہت اچھے ہیں‘ ان کے ورکرز نے پورے جلسہ گاہ کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں اور وہاں واقعی کوئی پتہ ٹوٹا اور نہ ہی کسی کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔
عمران خان‘ شیخ رشید اور اسد عمر اپنے اپنے حلقے کے عوام کو بھی باہر نکالنے میں ناکام رہے‘ پاکستان تحریک انصاف کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 123 نشستیں ہیں‘ یہ لوگ اگر ہر حلقے سے دو ہزار لوگ نکال لیتے تو اسلام آباد میں اڑھائی لاکھ لوگ جمع ہو جاتے مگر یہ بدقسمتی سے ہر حلقے سے اتنے لوگ بھی دارالحکومت نہیں لا سکے‘ خیبر پختونخواہ میں ان کی حکومت ہے‘ یہ وہاں سے کم از کم تین چار لاکھ لوگ لا سکتے تھے مگر یہ وہاں بھی فیل ہو گئے۔
عمران خان نے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد سول نافرمانی کا اعلان کر کے دوسری بڑی غلطی کی‘ سول نافرمانی غیر ملکی آقائوں کے خلاف ہوتی ہے‘ آپ اپنی ہی حکومت اور اپنی ہی ریاست کے خلاف سول نافرمانی نہیں کر تے‘ خیبر پختونخواہ میں آپ کی حکومت ہے آپ کے صوبے کے لوگ اگر آپ کو ٹیکس نہیں دیں گے تو صوبہ کیسے چلے گا؟ عمران خان کے اعلان کے بعد اگر کے پی کے کے عوام نے صوبائی ٹیکس روک لیے‘ گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس ادا نہ کی‘ اشٹام پیپر کی ادائیگی نہ ہوئی‘ چونگیوں اور مارکیٹ کمیٹیوں کے ٹیکس معطل ہوگئے اور میونسپل کمیٹیوں کی ادائیگیاں رک گئیں تو صوبے کی معیشت کا جنازہ نکل جائے گا۔
یہ بھی سوچنے کی بات ہے‘ کیا اٹک کے پار لوگ پٹرول پر ٹیکس نہیں دیں گے اور کیا مصنوعات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس ادا نہیں کیا جائے گا‘ پاکستان میں کل 2688 ارب روپے ٹیکس وصول ہوتا ہے‘ کسٹم ڈیوٹی سے 281 ارب روپے‘ سیلز ٹیکس سے 1147 ارب روپے‘ انکم ٹیکس سے 1099 ارب روپے اور دیگر ٹیکس 161 ارب روپے ہیں‘ کیا کوئی شخص انکم ٹیکس سے انکار کر سکتا ہے‘ کیا عمران خان اور ان کے ایم پی اے اور ایم این ایز حکومت کو اپنی تنخواہوں سے انکم ٹیکس نہیں کاٹنے دیں گے۔
کیا تاجر سیلز ٹیکس سے انکار کر سکتے ہیں اور کسٹم کے معاملے میں درآمد کنندگان ٹیکس پہلے ادا کرتے ہیں اور ان کا سامان بندرگاہ سے بعد میں نکلتا ہے‘ یہ لوگ اگر کسٹم جمع نہیں کرائیں گے تو انھیں روزانہ پانچ سے دس ہزار روپے چارجز بھی پڑ جائیں گے اور حکومت 45 دن بعد ان کا مال بھی نیلام کر دے گی‘ لوگ بجلی اور گیس کے بل نہیں دیںگے تو واپڈا بجلی کا کنکشن کاٹ دے گا‘ لوگ کیا کریں‘ یہ گھر‘ دکانیں اور کار خانے کیسے چلائیں گے چنانچہ عمران خان نے سول نافرمانی کا حکم دے کر اپنے کارکنوں کو بے عزت کرا دیا۔
یہ دونوں غلطیاں قابل اصلاح ہیں‘ مجھے خطرہ ہے عمران خان کہیں اپنے ورکروں کو ریڈ زون میں نہ لے جائیں اوریہ پارلیمنٹ یا وزیراعظم ہائوس پر قبضہ نہ کرلیں‘ یہ غلطی عمران کی آخری غلطی ثابت ہو گی‘ میاں نواز شریف کے ورکروں نے 1997 میں سپریم کورٹ کے ایک کمرے پر حملہ کیا تھا اور اس سے صرف ایک شیشہ ٹوٹا تھا‘ میاں صاحب آج تک اس غلطی کا جواب دے رہے ہیں۔
عمران خان پارلیمنٹ ہائوس یا وزیراعظم ہائوس پر قبضہ کر کے کس کس کو جواب دیں گے چنانچہ میری عمران خان سے درخواست ہے‘ آپ میرے اور اس قوم کے ہیرو ہیں‘ ہیرو ہار کر بھی جیتتے ہیں‘ آپ کو پھر موقع ملے گا‘ آپ کی سیاست ختم نہیں ہوئی‘ آپ واپس چلے جائیں‘ آپ نے اسمبلیوں سے استعفے دے دیے‘ ٹھیک مگر آپ ریڈ زون میں قدم رکھنے کی غلطی نہ کریں‘ یہ غلطی آپ کی آخری غلطی ہو گی‘ آپ اور آپ کی سیاست ختم ہو جائے گی‘ آپ میرے اور قوم کے ہیرو ہیں اور ہیرو اپنی شکست مردانگی سے قبول کیا کرتے ہیں۔

آخری فارمولہ
جاوید چوہدری بدھ 13 اگست 2014
کیا ہوگا؟ ہم بات اس آخری مقام سے شروع کرتے ہیں۔
علامہ طاہر القادری اپنی زندگی کی آخری بازی کھیل رہے ہیں‘ یہ انقلاب کے لیے ضرور باہر نکلیں گے‘ علامہ صاحب کے کارکن کمیٹڈ ہیں‘ پاکستان عوامی تحریک ایم کیو ایم کے بعد ملک کی دوسری جماعت ہے جس کے کارکن اپنے قائد کے حکم کو حرف آخر سمجھتے ہیں‘ ہم علامہ طاہر القادری کے بے شمار خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں‘ ان کے ماضی پر بھی اعتراضات کیے جا سکتے ہیں اور ان کے حالیہ بیانات پر بھی تنقید کی جا سکتی ہے لیکن جہاں تک ان کی پوزیشن کی بات ہے‘ یہ بہت واضح ہے‘ یہ ’’انقلاب‘‘ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘ علامہ صاحب کے کارکن جان نثار ہیں۔ علامہ صاحب جو کہہ دیں گے کارکن وہ کر گزریں گے اور علامہ صاحب وہاں تک جائیں گے جہاں معاملات خطرناک ہو جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ علامہ صاحب جانتے ہیں‘ یہ ان کا آخری معرکا ہے‘ یہ اگر ناکام ہوگئے تو یہ ملک میں رہ سکیں گے اور نہ ہی عوام کو تیسری بار ’’موبلائز‘‘ کر سکیں گے چنانچہ یہ ہر صورت لاہور سے نکلنے اور اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کریں گے جب کہ پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت انھیں پوری طاقت سے روکے گی خواہ اسے ماڈل ٹائون کو رینجرز کے حوالے ہی کیوں نہ کرنا پڑے‘ یہ خونی مرحلہ ہوگا۔
حکومت کے پاس علامہ طاہر القادری کو روکنے کے سوا کوئی آپشن بھی نہیں‘ حکومت جانتی ہے اس کے لیے اگر کوئی طاقت‘ اگر کوئی پارٹی مسئلہ بن سکتی ہے تو وہ علامہ طاہر القادری ہیں‘ حکومت جانتی ہے علامہ صاحب کے کارکن سردی‘ گرمی اور بارش میں دس بیس دن تک بیٹھ سکتے ہیں جب کہ باقی جماعتوں کے کارکن موبائل کی بیٹریاں ختم ہونے کے بعد دائیں بائیں ہوجائیں گے‘ حکومت یہ بھی جانتی ہے علامہ صاحب اگر لاہور سے نکل آئے تو عمران خان کی طاقت میں تین گنا اضافہ ہوجائے گا اور یہ حکومت کو ’’سوٹ‘‘ نہیں کرتا چنانچہ حکومت انھیں ہر صورت روکے گی‘ عمران خان بھی سیاست کا فائنل میچ کھیل رہے ہیں۔
عمران خان نے 2013 کے الیکشن کے بعد کھلے دل سے نتائج تسلیم کر لیے تھے‘ یہ اچھی روایت تھی‘ حکومت کو عمران خان کی فراخ دلی کی قدر کرنی چاہیے تھی‘ یہ حکومت کی پہلی غلطی تھی‘عمران خان نے بعد ازاں چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا‘ میاں صاحب کو یہ مطالبہ مان لینا چاہیے تھا‘ چار حلقے کھل جاتے تو کیا قیامت آجاتی‘ زیادہ سے زیادہ میاں صاحب کے ہاتھ سے دو سیٹیں نکل جاتیں‘ کیا فرق پڑتا؟ لیکن حکومت اکڑ گئی‘ اس نے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا یوں معاملات ’’ پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ تک چلے گئے‘عمران خان کی بات نہ مان کر حکومت نے دوسری غلطی کی‘ میں نے تین جولائی کو عمران خان کا انٹرویو کیا۔ یہ انٹرویواس وقت میڈیا کا موضوع بحث ہے‘ عمران خان نے اس انٹرویو میں حکومت کو پیشکش کی ’’وزیراعظم چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن بنا دیں‘ یہ کمیشن چار حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کرے‘ یہ کمیشن جو فیصلہ کرے گا مجھے قبول ہو گا‘‘ عمران خان نے حکومت کو اس کمیشن کی تشکیل کے لیے دو ہفتوں کا وقت دیا‘ میرا خیال تھا وزیراعظم یہ پیشکش قبول کر لیں گے کیونکہ یہ معاملات کو ٹھیک کرنے کا بہترین اور مناسب حل تھا‘ وزیراعظم نے اس آفر پر اپنے رفقاء سے مشورے بھی کیے لیکن یہ مشورے بالغ نہ ہو سکے اور یہ حکومت کی تیسری غلطی تھی۔
وزیراعظم نے اس پیشکش کا خیر مقدم کیوں نہیں کیا‘ اس کی تین وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ فوج تھی‘جون کے آخر میں فوج کے ساتھ حکومت کے تعلقات ٹھیک ہوگئے جس کے نتیجے میں حکومت کے بعض ارکان نے سوچا طاہر القادری اور خان صاحب اکیلے رہ گئے ہیں‘ یہ اب لانگ مارچ نہیں کر سکیں گے‘ حکومت کا یہ خیال غلط ثابت ہوا‘ دوسری وجہ سیاسی جماعتیں تھیں‘ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں حکومت کے ساتھ کھڑی تھیں‘ حکومت کا خیال تھا عمران خان سیاسی تعاون کے بغیر بڑی تحریک نہیں چلا سکیں گے اور تیسری اور آخری وجہ حکومت کا خیال تھا اگست میں موسم برسات شروع ہو جائے گا‘ ملک میں حبس اور گرمی کا موسم ہو گا‘عمران خان کے کارکن ’’ممی ڈیڈی‘‘ ٹائپ ہیں‘ یہ موسم کی شدت برداشت نہیں کر سکیں گے‘ سیلاب کا خطرہ بھی تھا‘ سیلاب کی وجہ سے بھی لانگ مارچ ممکن نہیں تھا لہٰذا حکومت کا خیال تھا عمران خان خود ہی لانگ مارچ کی کال واپس لے لیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا اور عمران خان حقیقی خطرہ بن کر نظام کے دروازے پر کھڑے ہوگئے۔
میاں نواز شریف نے منگل کی رات نو بجے سپریم کورٹ کا تین رکنی کمیشن بنانے کا اعلان کردیا مگراس وقت تک پلوں کے نیچے سے لاکھوں مکعب فٹ پانی گزر چکا تھا‘ عمران خان نے میاں صاحب کی پیشکش مسترد کر دی، میاں صاحب کی طرف سے یہ پیش کش اور عمران خان کی طرف سے انکار کے بعد حالات زیادہ خراب ہوگئے‘ لوگ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور علامہ طاہر القادری کو مبارک بادیں پیش کرنے لگے‘ رہی سہی کسر کل لاہور ہائی کورٹ نے کنٹینر ہٹانے کا حکم دے کر پوری کر دی اور یوں عمران خان کا لانگ مارچ سیاسی حقیقت بن گیا‘ حکومت اب اس خوش فہمی کا شکار ہے عمران خان اسلام آباد آئیں گے‘ یہ آ کر بیٹھ جائیں گے لیکن یہ کتنے دن بیٹھ سکیں گے‘ یہ تھک جائیں گے اور یوں یہ تھک کر سپریم کورٹ کے کمیشن کا آپشن قبول کر لیں گے مگر یہ حکومت کی خام خیالی ہے کیونکہ اگر عمران خان اسلام آباد پہنچ گئے تو یہ حکومت کا سر لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔
ہم اب آتے ہیں ’’ہوگا کیا‘‘ کی طرف۔ ہمارے نظام کو اس وقت دو بڑے خطرات ہیں‘ پہلا خطرہ انارکی ہے‘ آپ فرض کیجیے‘ عمران خان علامہ طاہر القادری کے ساتھ اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں‘ یہ دارالحکومت میں بیٹھ جاتے ہیں‘ میاں نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں اور میاں صاحب انکار کر دیتے ہیں تو کیا ہو گا؟ اسلام آباد میں جمع ہجوم کسی بھی وقت بے قابو ہو جائے گا‘ حکومت ہجوم کو قابو کرنے کے لیے پولیس اور ایف سی کا آپشن استعمال کرے گی‘ اگریہ آپشن فیل ہو گیا تو حکومت کو فوج طلب کرنا پڑجائے گی‘ سوال یہ ہے‘ کیا فوج اپنے لوگوں پر گولی چلائے گی؟ اس کا جواب ناں ہے چنانچہ جب فوج انکار کرے گی تو پھر کیا ہوگا؟
کیا ملک میں انارکی نہیں پھیل جائے گی اور یہ انارکی ملک کو عراق‘ شام اور لیبیا جیسی صورتحال کی طرف نہیں لے جائے گی اور اگرحالات اس نہج پر آ گئے تو کیا دنیا خاموشی سے جوہری پاکستان میں ایسی صورتحال پیدا ہونے دے گی؟ نہیں ہر گز نہیں! ہم یقینا نیٹو فورسز کا ہدف بن جائیں گے‘ یہ پاکستان کے جوہری اثاثوں پر قبضہ کر لیں گے اور ہمیں اس کے بعد عراق اور شام کی طرح لڑنے مارنے کے لیے چھوڑ دیں گے چنانچہ انارکی اس صورتحال کا پہلا نتیجہ نکل سکتا ہے۔
دوسرا نتیجہ فوجی مداخلت ہے‘ حالات اگر خراب ہوگئے تو فوج کو متحرک ہونا پڑے گا، یہ 245 کے اختیارات کے تحت ایوان صدر‘ وزیراعظم ہائوس اور پارلیمنٹ ہائوس کا چارج سنبھال لے گی‘ عمران خان اور میاں نواز شریف کو میز پر بٹھایا جائے گا‘ حکومت سے استعفیٰ لیا جائے گا‘ ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنائی جائے گی‘ یہ ٹیکنو کریٹس دو تین برسوں میں انتخابی اصلاحات کریں گے‘ بائیو میٹرک سسٹم لگائیں گے‘ مردم شماری ہو گی‘ نئی ووٹر لسٹیں بنیں گی اور الیکشن کرا دیے جائیں گے لیکن سوال یہ ہے‘ کیا فوج یہ کرے گی‘ کیا سیاسی جماعتیں یہ آپشن قبول کر لیں گی؟ اور کیا عمران خان اتنی بڑی تحریک کی کامیابی کے بعد اپنے تمام انڈے ٹیکنوکریٹس کی جھولی میں ڈال دیں گے۔ کیا یہ دو تین سال انتظار کر لیں گے؟ اگر نہیں تو پھر یہ فوری الیکشن چاہیں گے‘ عمران خان اگر یہ مطالبہ کرتے ہیں اور الیکشن موجودہ سسٹم اور موجودہ ووٹر لسٹوں کے تحت کرائے جاتے ہیں اور میاں نواز شریف 2013 کے مقابلے میں زیادہ ووٹ لے کر اقتدار میں آجاتے ہیں تو کیا عمران خان کے لیے اس الیکشن کے نتائج قابل قبول ہوں گے؟ اس سوال کا جواب بھی ناں ہے چنانچہ پھر میاں نوازشریف اور عمران خان کے لیے آپشن کیا بچتا ہے؟
میرا خیال ہے میاں نواز شریف کو ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کا ایک پارلیمانی وفد بنانا چاہیے‘ یہ وفد عمران خان سے ملاقات کرے اور انھیں پیش کش کرے عمران خان انتخابی اصلاحات کمیشن کے سربراہ بن جائیں‘ یہ کمیشن اصلاحات کرے‘ الیکشن کمیشن کی ہیت تبدیل کرے‘ ملک میں بائیو میٹرک سسٹم لگائے اور جوں ہی یہ کام مکمل ہو جائے میاں نواز شریف حکومت توڑ کر نئے الیکشن کا اعلان کردیں۔
یہ فارمولہ میاں صاحب اور خان صاحب دونوں کے لیے بھی سوٹ ایبل ہوگا اور یہ ملک کے لیے بھی بہتر ہوگا ورنہ دوسری صورت میں میاں صاحب اور عمران خان کی ضد اور انا اس ملک میں داعش جیسی تحریک پیدا کر دے گی اور دنیا کی پہلی جوہری مسلم ریاست عبرت کا نشان بن کر رہ جائے گی اور لوگ قبروں کی حفاظت کے لیے بھی مسلح گارڈز رکھنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
پاکستانی معاشرے کی چودہ خرابیاں
جاوید چوہدری منگل 12 اگست 2014

یہ اوکاڑہ کے پسماندہ گاؤں کے غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں‘ غربت اور عسرت میں بچپن گزارہ‘ وظیفے لے کر ابتدائی تعلیم پائی‘ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کی‘ میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا‘ ڈاکٹر بنے‘ دس بائی دس فٹ کے کمرے سے عملی زندگی کا آغاز کیا‘ کمرے میں سیمنٹ کی بوریاں بھی ہوتی تھیں‘ کھاد کے تھیلے بھی اور ان کی چارپائی بھی۔ کمرے میں لیٹے لیٹے کاروبار کا فیصلہ کیا‘ یہ تیس برس تک مسلسل کام کرتے رہے‘ دن دیکھا نہ رات‘ دنیا کے تمام آرام‘ عیش اور آسائشیں اپنے لیے حرام قرار دے دیں‘ زندگی میں کبھی سگریٹ پیا‘ شراب کو ہاتھ لگایا اور نہ ہی کسی قسم کی بدکاری کی۔
اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کیا‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور یہ ملک کے بڑے بزنس مینوں میں شمار ہونے لگے‘ آج ان کی کمپنی میں تین ہزار لوگ ملازم ہیں‘ یہ دس کروڑ روپے ٹیکس دیتے ہیں‘ یہ کسی بینک کے ڈیفالٹر نہیں ہیں‘ ویلفیئر کے درجنوں منصوبے چلا رہے ہیں‘ دل کے کھلے ہیں‘ کسی ضرورت مند کو مایوس نہیں کرتے‘ دوستوں کے دوست ہیں‘ مذہبی بھی ہیں‘ درجنوں عمرے اور حج کر چکے ہیں‘ یہ خالص پاکستانی ہیں‘ زندگی میں جو کمایا پاکستان میں رکھا اور دنیا کے کسی کونے میں کوئی بینک اکاؤنٹ ہے اور نہ ہی زمین جائیداد۔
یہ میرے لیے ہمیشہ سورس آف انسپائریشن رہے‘ میں اگر کبھی مایوس ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ لیا مگر میں نے انھیں کل پہلی بار مایوس دیکھا‘ ڈاکٹر صاحب نے کل میرے سامنے دو اعلان کیے‘ ان کا پہلا اعلان تھا ’’میں اب کام نہیں کروں گا‘ میں نے کمپنی کی گروتھ روک دی ہے‘ ہم اب کوئی نیا پراجیکٹ شروع نہیں کر رہے‘ ہم بتدریج کام میں کمی لائیں گے‘ملازمین کم کریں گے اور مسائل پیدا کرنے والے یونٹ بند کر دیں گے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے دوسرا اعلان کیا ’’ میں ملک سے باہر گھرتلاش کر رہا ہوں‘ میں خاندان کو ملک سے باہر شفٹ کر دوں گا‘ میں چھ ماہ ان کے ساتھ باہر رہوں گا اور چھ ماہ ملک میں رہوں گا‘ میں کوشش کروں گا میرے بچے ملک سے باہر ایڈجسٹ ہو جائیں‘ وہ وہاں کام کرلیں‘‘۔
میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا ’’ پاکستان میں کام کرنے والوں کو عزت نہیں دی جاتی‘ میں خاک سے اٹھا ہوں مگر آج تک کسی شخص نے میرے کندھے پر تھپکی نہیں دی‘ کسی نے میرے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا‘ کسی نے مجھے مبارک باد نہیں دی‘ حکومت ہو‘ معاشرہ ہو یا پھر خاندان ہو‘ ہر شخص نے مجھے تنگ کرنا‘ مجھے پریشان کرنا اور مجھے بے عزت کرنا اپنا فرض سمجھا‘ میں اب بے عزتی اور پریشانی سے تنگ آ گیا ہوں چنانچہ میں نے یہ دونوں فیصلے کر لیے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب واحد مثال نہیں ہیں‘ کراچی سے ایمریٹس ائیر لائین کی روزانہ چھ فلائٹس دوبئی جاتی ہیں‘ آپ دوسری ائیر لائینز کو بھی شامل کر لیں تو کل 12 فلائٹس روزانہ کراچی سے یو اے ای روانہ ہوتی ہیں‘ گویا کراچی شہر سے ہر دو گھنٹے بعد ایک فلائٹ متحدہ عرب امارات جاتی ہے‘ لاہور سے روزانہ 11 فلائٹس یو اے ای روانہ ہوتی ہیں اور اسلام آباد سے روزانہ چھ۔ آپ اس کے مقابلے میں کراچی سے لاہور اور اسلام آباد آنے والی فلائٹس کی تعداد دیکھ لیجیے‘ پی آئی اے اور ائیر بلیو کی کل 10 فلائٹس کراچی سے لاہور اور اسلام آباد روانہ ہوتی ہیں گویا دوبئی جانے والوں کی تعداد ملک کے اندر سفر کرنے والوں سے دوگنی ہے۔
اب سوال یہ ہے‘ یہ کون لوگ ہیں‘ یہ یقینا ڈاکٹر صاحب جیسے لوگ ہیں‘ یہ اپنے بچے‘ اپنی کمپنیاں اور اپنے دفاتر دوبئی شفٹ کر چکے ہیں‘ ہمارے ملک کے اسی فیصد کروڑ پتی ملک سے باہر ٹھکانے بنا چکے ہیں‘ ہماری کابینہ کے نوے فیصد اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے پچانوے فیصد ارکان کی ملک سے باہر رہائش گاہیں‘ کاروبار‘ بچے اور اکائونٹس موجود ہیں‘ یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ یہ اپنے ملک پر اعتماد کیوں نہیں کر رہے؟
اس کی وجہ ہمارے معاشرے کی 14 بڑی خرابیاں ہیں‘ ہم نے جس طرح 10 اگست کے کالم میں اپنے معاشرے کی 14 خوبیوں کا ذکر کیا ہم آج اسی طرح ان 14 خرابیوں کا تذکرہ کریں گے جو ڈاکٹر صاحب جیسے لوگوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہیں‘ ہماری پہلی خرابی کامیاب لوگوں سے نفرت ہے‘ دنیا کامیاب لوگوں کی عزت کرتی ہے‘ امریکی بڑے فخر سے خود کو بل گیٹس کی قوم کہتے ہیں لیکن ہم ملک میں ترقی کرنے والے ہر شخص کی توہین کرتے ہیں‘ ہم اسے تنگ کرتے ہیں‘ آپ کے پاس دو لاکھ پائونڈ ہیں اور آپ اگر برطانیہ کو لکھ کر دے دیں آپ سال میں تین لوگوں کو نوکری دیں گے تو برطانیہ آپ کو خاندان سمیت امیگریشن دے دیتا ہے، آپ کو یہ سہولت پورا یورپ‘ امریکا اور کینیڈا بھی فراہم کرتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں تین تین ہزار ملازمین کی کمپنیاں چلانے اور دس دس کروڑ روپے ٹیکس دینے والے لوگ ذلیل ہو رہے ہیں‘ یہ لوگ ملک سے کچھ نہیں مانگتے‘ یہ صرف عزت کے طلب گار ہیں مگر کوئی شخص انھیں عزت دینے کے لیے تیار نہیں۔
ہماری دوسری خرابی ملازمتی اپروچ ہے‘ ہم کاروبار کے بجائے ملازمت تلاش کرتے ہیں اور ملازمت بھی ایسی جس میں تنخواہ اور کرپشن زیادہ ہو اور کام نہ کرنا پڑے جب کہ قومیں بزنس مین اپروچ سے ترقی کرتی ہیں‘ امریکا‘ یورپ‘ چین اور بھارت کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، امریکا کو امریکا اس کی 36 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بنایا تھا۔ ہماری تیسری خرابی ہنر کی کمی ہے‘ ہم بے ہنر لوگ ہیں‘ ہم ہنر سیکھنا توہین سمجھتے ہیں‘ آپ کو پورے شہر میں اچھا پلمبر‘ اچھا باورچی‘ اچھا الیکٹریشن‘ اچھا ڈرائیور اور اچھا سیکیورٹی گارڈ نہیں ملتا‘ آپ پوری زندگی مالی تلاش کرتے رہتے ہیں مگر آپ کو مالی نہیں ملتا۔ ہماری چوتھی خرابی مذہبی انتہا پسندی ہے‘ ہم نے مذہب کو انتہا پسندی کا مرکز بنا دیا‘ ملک میں درجنوں فرقے ہیں اور ہر فرقہ دوسرے فرقے کے لوگوں کو کافر قرار دے رہا ہے اور اس اپروچ نے ملک کو دوزخ بنا دیا۔
پانچویں خرابی‘ ہم بے تربیت قوم ہیں‘ ہم نئی نسلوں کی سماجی تربیت نہیں کر رہے‘ ہمیں بولنے کی تمیز ہے‘ بیٹھنے کی‘ اٹھنے کی اور نہ ہی دوسرے سے ڈیل کرنے کی‘ ہمیں کام کرنے کی ٹریننگ بھی نہیں دی گئی‘ دکان کا ملازم دکان تباہ کر دیتا ہے اور فیکٹری کے ملازمین فیکٹری بند کرا دیتے ہیں‘ آپ ڈرائیور کو گاڑی دے دیں تو وہ اپنے رزق کے ذریعے کو برباد کردے گا‘ ہم جلسوں اور جلوس کے دوران وہ قومی املاک توڑ دیتے ہیں جو ہمارے ٹیکس کے ذریعے بڑی مشکل سے بنی تھیں‘ دنیا کے جس ملک میں پولیس کی گاڑی اور ایمبولینس کو آگ لگا دی جائے یا واپڈا کے دفتر پر حملہ ہو جائے اس ملک کی تباہی میں کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔
چھٹی خرابی‘ ہماری آبادی ہمارے وسائل اور ضرورت سے چھ گنا زیادہ ہے‘ یہ ملک صرف تین کروڑ لوگوں کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے ‘ ہم انیس کروڑ ہیں لہٰذا ملک پندرہ سولہ کروڑ اضافی لوگوں کے لیے خوراک‘ تعلیم‘ روزگار‘ بجلی اور انصاف کا بندوبست کہاں سے کرے گا؟ آبادی کی وجہ سے چوری‘ چکاری‘ ڈاکہ زنی‘ اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری صنعت اور کاروبار بن چکے ہیں۔ ساتویں خرابی‘ ہم نااہل ہیں‘ ہمارے ملک میں ’’آن جاب ٹریننگ‘‘ کا تصور تک نہیں‘ ہماری نوے فیصد آبادی ڈرائیونگ نہیں جانتی‘ پچاس سال سے اوپر اسی فیصد پڑھے لکھے لوگ کمپیوٹر نہیں جانتے‘ ایس ایم ایس نہیں کر سکتے اور ہمارے دفتر میں آج بھی سٹینو گرافرز اور کلرکوں کی جابز نکلتی ہیں۔
آٹھویں خرابی‘ ہم ہوم ورک یا تجزیہ نہیں کرتے‘ علامہ طاہر القادری اور عمران خان انقلاب لانا چاہتے ہیں مگر کیا یہ لوگ انقلاب کے بعد ملک کو سنبھال سکیں گے؟ اس پر ان کا کوئی ہوم ورک نہیں‘ 2020ء میں جب ہمارا پانی پچاس فیصد کم ہو جائے گا تو ہم کیا کریں گے؟ ہم نے کوئی ہوم ورک نہیں کیا؟ ہم پہلے سڑک بناتے ہیں‘ پھر اسے انڈر پاس کے لیے توڑتے ہیں اور پھر انڈر پاسز کو توڑ کر میٹرو بس چلا دیتے ہیں اور آخر میں میٹرو ٹرین کے منصوبے شروع کر دیتے ہیں۔
نویں خرابی‘ ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے‘ ہم آج بھی آمریت کے خوف تلے زندگی گزار رہے ہیں‘ ہماری حکومتیں اول دھاندلی کی پیداوار ہوتی ہیں اور یہ اگر ٹھیک ہوں تو ہم اس حکومت کو چلنے نہیں دیتے۔ دسویں خرابی‘ ہم میں برداشت کی کمی ہے‘ ہم دوسرے کا نقطہ نظر برداشت نہیں کرتے‘ ہم ہاتھ توڑ دیں گے‘ گردن اتار دیں گے اور کھال کھینچ لیں گے سے کم نہیں سوچتے‘ ہم پوری دنیا کو جلا دینا چاہتے ہیں۔ گیارہویں خرابی‘ ہم بری طرح لاقانونیت کا شکار ہیں‘ ملک میں قانون کوئی نہیں‘ آپ تگڑے ہیں تو آپ کو کوئی روکے گا نہیں اور آپ اگر کمزور ہیں تو آپ کو کوئی جانے نہیں دے گا‘ ہم قتل‘ اغواء‘ ڈاکے اور زنا بالجبر میں دنیا میں سب سے آگے ہیں۔
بارہویں خرابی‘ ہمارا فیملی سسٹم ٹھیک نہیں‘ ہم جوائنٹ فیملی سسٹم اور سنگل پرسن سسٹم کے درمیان لٹکے ہوئے ہیں‘ ہم آج تک دونوں نظاموں میں سے کسی ایک کا فیصلہ نہیں کر سکے‘ پاکستان میں 60 فیصد مقدمات کی بنیاد خاندان ہوتا ہے۔ تیرہویں خرابی‘ ہم سماجی نرگسیت کا شکار ہیں‘ ہم بدترین زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہم خواب پوری دنیا پر حکمرانی کے دیکھتے ہیں، دنیا میں کشکول لے کر پھرتے ہیں لیکن عزت کے طلب گار بھی ہیں اور ہم خود کو اس قدر اہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے پوری دنیا ہمارے خلاف سازشیں کر رہی ہے اور ہماری آخری چودھویں خرابی‘ ہم من حیث القوم سستی کا شکار ہیں‘ ہم آج کا کام کبھی آج ختم نہیں کریں گے‘ ہم چلتے ہوئے بھی یورپ اور امریکا کے شہریوں کی نسبت کم قدم اٹھاتے ہیں‘ امریکی شہری ایک منٹ میں اوسطاً پچاس قدم اٹھاتا ہے جب کہ ہم زیادہ سے زیادہ 35 قدم لیتے ہیں‘ ہمارے طالب علم گیس اور نقل کے بغیر امتحان پاس نہیں کر پاتے اور ہم آج کی نمازوں تک کو کل پر شفٹ کر دیتے ہیں۔
ہم میں 14خوبیاں ہیں لیکن ہماری خوبیاں ہماری خامیوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہیں‘ ہم جب تک ان خرابیوں کا پردہ چاک نہیں کریں گے‘ ہماری خوبیاں دنیا کے سامنے نہیں آئیں گی۔

پاکستانی معاشرے کی چودہ خوبیاں
جاوید چوہدری ہفتہ 9 اگست 2014

یہ ڈیلف کی دوسری شادی تھی۔ وہ جوان ،خوبصورت‘ پڑھی لکھی اور مہذب تھی جب کہ اس کا خاوند گجرات کا ان پڑھ اور ادھیڑ عمر تھا‘ محمد اکرم اور ڈیلف کی عمروں میں بیس سال کا فرق تھا‘ ڈیلف تیس برس کی دہلیز پر بیٹھی تھی اور اکرم صاحب پچاس کی لکیر عبور کر چکے تھے‘ یہ دونوں ایمسٹرڈیم میں رہتے تھے‘ اکرم صاحب بیس سال کی عمر میں یورپ آئے‘ دھکے کھاتے ہالینڈ پہنچے اور یہاں کے ہو کر رہ گئے‘ یہ مزدور تھے‘ پوری زندگی مزدوری میں گزار دی‘ یہ ایک دن پھولوں کے فارم میں کام کر رہے تھے، فارم کا مالک ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا ’’کیا تم پاکستانی ہو‘‘ اکرم صاحب نے ہاں میں سر ہلا دیا‘ مالک نے اس کے بعد ان سے عجیب سوال کیا ’’ کیا تم ہالینڈ کی خوبصورت لڑکی سے شادی کر لو گے‘‘ اکرم صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ’’کیا مطلب‘‘ مالک نے جواب دیا ’’ میری سالی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے‘ یہ کسی پاکستانی کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے‘ میں صرف تمہیں جانتا ہوں چنانچہ میں نے تم سے پوچھ لیا‘‘۔
اکرم صاحب رشتے کے اس عجیب و غریب پیغام پر حیران رہ گئے‘ مالک انھیں حیران دیکھ کر بولا ’’ تم خاتون سے مل لو‘ اگر تمہیں پسند آئی تو تم اس سے شادی کر لینا ‘‘ اکرم صاحب مان گئے‘ ملاقات ہوئی‘ اکرم صاحب کو خاتون پسند آ گئی اور شادی ہو گئی‘ خاتون نے اکرم صاحب کی زندگی کی سمت بدل دی‘ وہ فارم ہاؤس کے مزدور سے پھولوں کے بیوپاری بن گئے‘ میں 2005ء میں ایمسٹر ڈیم گیا‘ اکرم صاحب سے ملاقات ہوئی‘ وہ مجھے گھر لے گئے‘ ڈیلف سے ملاقات ہوئی‘ ڈیلف نے بتایا ’’ یہ میری دوسری شادی ہے، میرا پہلا خاوند بھی پاکستانی تھا‘ میں نے 20 سال کی عمر میں اس سے شادی کی‘ ہم دس سال اکٹھے رہے‘ وہ بیچارہ حادثے میں ہلاک ہو گیا‘ میں نے اس کے بعد فیصلہ کیا میرا دوسرا خاوند بھی پاکستانی ہو گا‘‘۔
میں بہت حیران ہوا‘ میں نے حیرت کا اظہار کیا تو ڈیلف نے عجیب وجہ بتائی‘ اس کا کہنا تھا ’’میں نے پاکستانیوں میں عجیب عادت دیکھی جو دوسری کسی کمیونٹی میں موجود نہیں‘ پاکستانی کھل کر قہقہہ لگاتے ہیں‘ یہ سارا دن بیٹھے رہیں تو یہ سارا دن قہقہے لگاتے رہیں گے‘ میرا پہلا خاوند بھی اتنا ہی زندہ دل تھا اور میرا یہ خاوند بھی زندگی سے بھرپور قہقہے لگاتا ہے‘‘ میں ڈیلف کی بات پر حیران رہ گیا اور میں نے اس کے بعد پاکستانیوں کو ڈیلف کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا‘ ڈیلف کا مشاہدہ درست تھا۔
ہم لوگ واقعی کھل کر ہنسنے کے ماہر ہیں‘ ڈیلف سے ملاقات اور اس کا بتایا ہوا نقطہ میری اس ریسرچ کی بنیاد بن گیا‘ میں نے ریسرچ کی اور مجھے پاکستانیوں میں 14 حیران کن خوبیاں نظر آئیں‘ میں آج یہ خوبیاں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں‘ آپ بھی یقینا کنٹینروں میں الجھے پھنسے اس ملک اور اس ملک کے 19 کروڑ مایوس لوگوں کی ان 14 خوبیوں پر حیران رہ جائینگے‘ یہ خوبیاں آپ کو دوسری اقوام میں کم ملیں گی۔ پاکستانیوں کی پہلی خوبی جمہوریت پسندی ہے‘ ہمارے لوگ جمہوریت سے محبت کرتے ہیں‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں آمریت کا دور زیادہ سے زیادہ دس سال ہوا ہے‘ جنرل خواہ ایوب خان ہو‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق یا پھر پرویز مشرف ہو اس کو بہر حال آٹھ دس برسوں میں اپنا دسترخوان لپیٹنا پڑجاتا ہے اور وہ اقتدار سیاستدانوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جب کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں جب بھی آمریت آئی‘ یہ تیس چالیس سال سے پہلے ختم نہیں ہوئی، آپ اٹلی سے لے کر اسپین اور شام سے لے کر مصر‘ لیبیا‘ عراق اور تیونس کی مثالیں دیکھ لیں آپ کو پاکستان ان سے مختلف لگے گا۔
دو‘ دنیا میں 58 اسلامی ممالک ہیں‘ ان 58 اسلامی ممالک میں سے صرف چار ملکوں میں صحیح معنوں میں جمہوریت ہے‘ ترکی‘ ملائیشیا‘ بنگلہ دیش اور پاکستان۔ ہمیں اپنی جمہوریت پر بیشمار تحفظات ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے پاکستان میں الیکشن بھی ہوتے ہیں اور عوام جیسے تیسے سہی اپنی مرضی سے حکمران بھی منتخب کرتے ہیں‘ ملک میں ون پارٹی سسٹم ہے اور نہ ہی ’’ کنٹرولڈ ڈیموکریسی‘‘۔ ہمارا ملک سیاسی لحاظ سے اس حد تک آزاد ہے کہ یہاں کوئی بھی پارٹی کسی بھی وقت پورا ملک بند کر سکتی ہے، علامہ طاہر القادری انقلاب لانے کے لیے کینیڈا سے تشریف لے آتے ہیں اور عمران خان آزادی مارچ کے ذریعے پورا ملک معطل کر دیتے ہیں اور کوئی انھیں روک نہیں سکتا‘ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اتنی آزادی ممکن نہیں۔
تین‘ لوگ سیاسی لحاظ سے سمجھ دار ہیں‘ میں اس سلسلے میں دو سیاسی جماعتوں کی مثال دوں گا‘ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف‘ یہ دونوں نئی سیاسی جماعتیں ہیں‘ ن لیگ 6 اکتوبر 1993ء میں بنی اور پی ٹی آئی کے پاس 2002ء کی قومی اسمبلی میں صرف ایک سیٹ تھی لیکن لوگوں نے ن لیگ کو دوبار ہیوی مینڈیٹ دیا‘ پی ٹی آئی بھی پنجابی پارٹی ہے لیکن اس پارٹی نے نہ صرف خیبر پختونخواہ میں حکومت بنا لی بلکہ اس نے تین صوبوں اور قومی اسمبلی میں بھاری نشستیں بھی حاصل کر لیں جب کہ ان کے مقابلے میں مقامی جماعتیں‘ قوم پرست پارٹیاں اور مذہبی سیاسی جماعتیں الیکشن ہار جاتی ہیں، لوگ علامہ طاہر القادری کے لیے جان دے دیتے ہیں لیکن یہ انھیں ووٹ نہیں دیتے‘ سندھی قوم پرست جماعتیں بھی پورا سندھ بند کرا دیتی ہیں لیکن یہ ووٹ نہیں لے پاتیں‘ جماعت اسلامی ملک کا سب سے بڑا جلسہ کر لے گی لیکن مینڈیٹ نہیں لے سکے گی اور طالبان ملک پر قبضہ کر سکتے ہیں مگر ووٹ نہیں لے سکتے‘ کیا یہ عوام کی سیاسی بلوغت کی نشانی نہیں۔
چار‘ پاکستان کا بنیادی انفرا سٹرکچر‘ سڑکوں کا معیار‘ صفائی‘ مواصلاتی نظام اور سوک سینس سارک کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت اچھی ہے‘ ہماری سڑکیں یورپ کا مقابلہ نہیں کر سکتیں لیکن یہ معیار میں ہمسایہ ممالک سے بہت آگے ہیں‘پاکستان میں دنیا کا دوسرا بڑا نہری نظام بھی ہے، ہم آج بھی ایک سو53 سال پرانی ریل کی پٹڑی پر ٹرین چلا رہے ہیں اور ہمارا گندے سے گندا شخص بھی کھانا کھانے سے قبل ہاتھ ضرور دھوئے گا جب کہ سارک کے دیگر ممالک میں یہ روایت موجود نہیں۔
پانچ‘ لوگ پاکستان میں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلاتے ہیں‘ ملک کی پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بیس فیصد طالبعلم انتہائی نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ کچی بستیوں تک میں پرائیویٹ انگریزی اسکول قائم ہیں‘ یہ حقائق عوام کی تعلیم پسندی ثابت کرتے ہیں جب کہ تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں یہ رجحان موجود نہیں۔
چھ‘ ہمارے ملک میں ایک شخص پورے خاندان کی ذمے داری اٹھا لیتا ہے‘ یہ اس ذمے داری کو مذہبی فریضہ سمجھ کر نبھاتا ہے، آپ کو یہ احساس ذمے داری دنیا کے دیگر ممالک میں نظر نہیں آتا۔ سات‘ ہم لوگ مہمان نواز ہیں‘ ہم لوگ کسی مہمان کو چائے اور کھانے کے بغیر نہیں جانے دیتے‘ ہم ادھار لے لیں گے مگر مہمان کو خاطر داری کے بغیر اٹھنے نہیں دینگے۔ آٹھ ‘ ہم میں حس مزاح ہے‘ ہم ہنسنا جانتے ہیں‘ لوگ یورپ اور امریکا کے تعلیمی اداروں میں ہمارے طالبعلموں کو ٹولیوں میں بیٹھ کر ہنستے اور لوٹ پوٹ ہوتے دیکھ کر حیران ہوتے ہیں ۔ نو‘ ہمارا میڈیا اور ہماری عدلیہ آزاد ہے‘ ہمارا میڈیا وہ کچھ دکھا دیتا ہے جس کا دوسرے ملکوں میں تصور نہیں کیا جاتا‘ ہماری عدالتیں بھی انصاف فراہم کریں یا نہ کریں لیکن یہ احکامات جاری کرنے میں مکمل آزاد ہیں‘ ہمارے جج کوئی بھی حکم جاری کر سکتے ہیں اور کوئی ان کا احتساب نہیں کر سکتا‘ یہ آزادی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں موجود نہیں۔
دس‘ ہم لوگ صدقات اور خیرات میں دنیا میں پانچویں نمبر پر ہیں‘ ہم میں سے 98 فیصد لوگ صدقہ کرتے ہیں‘ ہم خیرات بھی دیتے ہیں، ہمارے دروازوں سے ضرورت مند خالی ہاتھ واپس نہیں جاتے۔ گیارہ‘ ہم میں ’’لوک دانش‘‘ موجود ہے‘ آپ چٹے ان پڑھ لوگوں سے گفتگو کریں‘ آپ کو ان کی گفتگو میں محاورے بھی ملیں گے‘ ضرب المثل بھی‘ قصے بھی‘ واقعات بھی اور زندگی کے سبق بھی‘ ہمارے لوگوں کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے جب کہ دنیا کے دیگر علاقوں کے لوگ کہنے کے معاملے میں بانجھ واقع ہوئے ہیں۔ یہ دو تین فقرے بولنے کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں۔ بارہ‘ ہمارے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں‘ یہ نہ صرف برائیوں اور خرابیوں سے واقف ہیں بلکہ یہ ان کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں‘ آپ کسی شخص کے پاس بیٹھ جائیں وہ ’’ہم لوگ‘‘ کے فقروں سے گفتگو شروع کرے گا اور پھر پورے معاشرے کی خرابیاں بیان کر دیگا‘ میں نے یہ معاشرتی اعلیٰ ظرفی اور اعتراف جرم کسی دوسری قوم میں نہیں دیکھا‘ لوگ یہ معاشرتی برائیاں دور بھی کرنا چاہتے ہیں شاید یہی وجہ ہے ہمارے لوگ ہر قسم کے احتجاج‘ مارچز‘ جلسے‘ جلوس اور ریلیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
تیرہ‘ ہم لوگ جی جان سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں‘ آپ کسی جگہ کھڑے ہو جائیں اور کسی گزرنے والے سے راستہ پوچھ لیں‘ وہ باقاعدہ رک کر نہ صرف آپ کو راستہ بتائے گا بلکہ وہ آپ کے ساتھ چل پڑیگا‘ لوگ دوسرے لوگوں کو راستہ بھی دیتے ہیں‘ خواتین اور بزرگوں کے لیے جگہ بھی خالی کر دیتے ہیں اور راستوں میں پانی اور دودھ کی سبیلیں بھی لگاتے ہیں‘ یورپ میں لوگ دوسروں سے صرف عادتاً پوچھتے ہیں ’’ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں‘‘ جب کہ ہمارے ملک میں لوگ حقیقتاً دوسروں کی مدد کرتے ہیں، یہ ایکسیڈنٹ کی صورت میں زخمیوں کو اسپتال چھوڑ کر آتے ہیں‘ آگ لگنے کے بعد پورا محلہ مل کر آگ بجھاتا ہے اور زلزلے اور سیلابوں کے بعد پورے ملک سے امدادی قافلے چل پڑتے ہیں اور چودہ‘ پاکستان 19 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ہے‘ یہ دنیا کی ساتویں بڑی کنزیومر مارکیٹ ہے‘ لوگوں کو یہاں سوئی سے لے کر جہاز تک درکار ہیں۔
پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ آپ یہاں زہر بھی بیچنا چاہیں تو وہ بک جائے گا‘ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود سبزی بازار سے خریدتے ہیں‘ گھر میں لان موجود ہوگا لیکن ہم اس سے آلو‘ پیاز اور لیموں حاصل کرنا توہین سمجھتے ہیں چنانچہ ہم انیسں کروڑ لوگ کنزیومر ہیں‘ دنیا میں کسی جگہ اتنی بڑی مارکیٹ موجود نہیں چنانچہ پاکستان میں صنعت‘ کاروبار اور تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں‘ حکومت بس کاروباری ماحول پیدا کر دے اور اس کے بعد ملک کی معیشت کو آسمان سے باتیں کرتا دیکھے۔
یہ پاکستانی معاشرے کے 14 خوبصورت رنگ ہیں‘ ہم شاندار لوگ ہیں بس ہمیں اپنی خوبیاں نظر نہیں آتیں‘ ہم نے جس دن ڈیلف کی طرح اپنی خوبیاں پا لیں‘ ہم نے اپنے رنگ دیکھ لیے‘ ہم اس دن ترقی کے راستے پر آ جائیں گے‘ ہم اس دن پاک سرزمین شاد باد بن جائیں گے‘ ہم اس دن پاکستانی ہو جائیں گے۔

ضد چھوڑیں
جاوید چوہدری جمعـء 8 اگست 2014

آپ فرض کیجیے‘ آپ بہت بڑی کمپنی کے مالک ہیں‘ کمپنی کے اثاثوں کی مالیت اربوں کھربوں ڈالرہے‘ دس بیس ہزار لوگ کام کرتے ہیں لیکن کمپنی چاروں اطراف سے دشمنوں میں گھری ہے‘ انتظامیہ کرپٹ ہے‘ یہ روزانہ کروڑوں ڈالر چرا لیتی ہے‘ ورکرز کام چور ہیں‘ کمپنی کے گرد و نواح میں حریفوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں‘ یہ روزانہ عمارت کو آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور کمپنی کی فلاسفی‘ طریقہ کار اور مشینری بھی پرانی ہو چکی ہے‘ آپ صورتحال سے پریشان ہیں اور سمجھتے ہیں‘ کمپنی کی ری سٹرکچرنگ کے لیے نئی ٹیم‘ نئی انتظامیہ اور نئے سربراہ کی ضرورت ہے۔
آپ نئی ٹیم کے چنائو کے لیے اعلیٰ معیار کا مہنگا ترین سلیکشن کمیشن بناتے ہیں‘ یہ اربوں روپے خرچ کر کے بیس لوگ چنتا ہے‘ آپ ان میں سے ایک کو کمپنی کا سربراہ بنا دیتے ہیں اور باقی 19کو اس کا معاون۔ آپ تمام اختیارات اس بیس رکنی ٹیم کو دے دیتے ہیں‘ آپ چھ مہینے بعد ٹیم سے رپورٹ مانگتے ہیں‘ ٹیم جواب دیتی ہے ہم ابھی ماضی کا گند صاف کر رہے ہیں۔ آپ خاموش ہو جاتے ہیں‘آپ چھ مہینے بعد ٹیم سے دوبارہ کارکردگی رپورٹ طلب کرتے ہیں‘ ٹیم جواب دیتی ہے’’ ہم پالیسی بنا رہے ہیں‘‘ آپ دوبارہ خاموش ہو جاتے ہیں‘ آپ کو دو تین ماہ بعد اطلاع ملتی ہے‘ ٹیم دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے‘ حکمران دھڑا اور مخالف دھڑا اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں‘ آپ پریشان ہو جاتے ہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں ‘ اس لڑائی کے دوران کمپنی کا مزید بیڑا غرق ہو جائے گا۔
آپ دونوں دھڑوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ‘دونوں مطالبہ کرتے ہیں آپ دوسرے دھڑے کو فارغ کریں گے تو کام ہو سکے گا‘ برسر اقتدار دھڑا کہتا ہے‘ یہ لوگ ہمیں کام نہیں کرنے دیتے‘ ہم دفتر کے اوقات صبح آٹھ بجے طے کریں تو انھیں اعتراض ہوتا ہے‘ ہم نو بجے کر دیں تو بھی یہ نہیں مانتے اور ہم اگر تنگ آ کر شام کی ٹائمنگ کر دیں تو بھی یہ جھنڈے اور ڈنڈے لے کر آ جاتے ہیں‘ آپ اگر ہم سے کام لینا چاہتے ہیں تو آپ انھیں فارغ کریں‘ آپ دوسرے دھڑے سے ملتے ہیں تووہ کہتا ہے‘ سیٹھ صاحب آپ نے کرپٹ‘ نااہل اور بے ایمان ترین لوگوں کوکرسی پر بٹھا دیا‘ یہ اقرباء پروری اور کرپشن کے چیمپیئن ہیں۔
یہ کمپنی کو مغلیہ سلطنت بناتے جا رہے ہیں‘ یہ کلیدی عہدوں پرخاندان کے نااہل لوگوں کو تعینات کر رہے ہیں‘ یہ کمپنی کے اثاثے بیچ بیچ کر اپنے اکائونٹس بھر رہے ہیں‘ یہ سلیکشن کمیشن کے ساتھ بھی مل گئے تھے اور انھوں نے آپ کو دھوکا دے کر خود کو سلیکٹ کروا لیا تھا‘ آپ اگر ہم سے کام لینا چاہتے ہیں یا کمپنی کو بچانا چاہتے ہیں تو آپ انھیں نکالیں ورنہ ہم کمپنی کے دروازے پر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے اور اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک ان لوگوں کا بوریا بستر گول نہیں ہوتا‘ آپ کی پریشانی میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ آپ جانتے ہیں آپ کی کمپنی گھنٹوں کے حساب سے ڈوب رہی ہے۔
کمپنی کو فوری مدد درکار ہے جب کہ کمپنی کو بچانے والے آپس میں لڑ رہے ہیں‘ آپ سوچتے ہیں مجھے فوری طور پر دونوں دھڑوں کو فارغ کر دینا چاہیے لیکن آپ کو اس وقت معلوم ہوتا ہے کمپنی کے قانون میں کوئی ایسی گنجائش موجود نہیں‘ آپ پانچ سال تک ان لوگوں کا احتساب کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں نکال سکتے ہیں‘ یہ جان کر آپ کی حالت کیا ہوگی؟ آپ اس وقت یقینا اسی صورتحال کا شکار ہوں گے جس میں آج کل پاکستان کے عوام الجھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے عوام اس لیے پارلیمنٹ تشکیل نہیں دیتے کہ ہمارے پارلیمنٹیرینز ایک دوسرے سے دست و گربیان رہیں‘ پاکستان مسلم لیگ ن ’’گو زرداری گو‘‘ کے نعرے لگاتی رہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی ’’ جان دو میاں صاحب جان دو‘‘ کے نعرے لگائے‘ عمران خان ’’ساڈی واری آن دو‘‘ کے مطالبے کریں اور پاکستان مسلم لیگ ق لاہور کو جلیانوالہ باغ بنادے‘ عوام لیڈروں کو ڈوبتے ہوئے پاکستان کو بچانے کے لیے منتخب کرتے ہیں مگر یہ ایک دوسرے کے خلاف دھرنے دے کر پانچ سال گزار دیتے ہیں‘ یہ ملک بچانے کے بجائے بھٹو اور مجیب الرحمن کی طرح ملک توڑ دیتے ہیں۔
کیا سیاست کا مقصد صرف اقتدار‘ دھرنے‘ مارچ اور افرا تفری ہے؟ اگر ہاں تو پھر ہمیں دنیا کی ترقی یافتہ ترین قوم ہونا چاہیے تھا کیونکہ ملک میں 1948ء سے دھرنے‘ لانگ مارچ اور جلسے جلوس چل رہے ہیں‘ میں 1988ء سے ان دھرنوں‘ لانگ مارچز اور ’’ساڈی واری آن دو‘‘ جیسی تحریکوں کا عینی شاہد ہوں اور مجھے ہر بار یہ محسوس ہوتا ہے ہم شاید ان لیڈروں کو اسی کام کے لیے منتخب کرتے ہیں‘ دھرنے اور مارچز ہی شاید ان لوگوں کی اصل پرفارمنس ہے! قدرت نے 2013ء میں بڑی شاندار سیاسی تقسیم کی‘ یہ قدرت کی طرف سے ہمارے لیے آخری موقع تھا۔
قدرت نے چار بڑی سیاسی طاقتوں کو چار الگ الگ خطے دے دیے تا کہ چاروں سیاسی قوتیں اپنی اپنی سیاسی طاقت اور اپنی اپنی قابلیت کا امتحان لے سکیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو سندھ مل گیا‘ یہ ان کے لیے سندھ اور کراچی کو ایشیا کا شاندار ترین خطہ بنانے کا سنہری موقع ہے‘ پنجاب پاکستان مسلم لیگ ن کو مل گیا‘ یہ پنجاب کو خطے کا محفوظ ترین‘ خوش حال ترین اور جدید ترین خطہ بنا دے‘ بلوچستان بلوچ قیادت کو مل گیا‘ بلوچ قیادت اس کو دوبئی کے برابر لے جائے اور عمران خان اور ان کی پارٹی جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر خیبر پختونخواہ کا مقدر بدل دے۔
وفاق 18 ویں ترمیم کے بعد بڑی حد تک اسلام آباد کے بیس کلو میٹر کے دائرے تک محدود ہو چکا ہے‘ یہ اب فوج سے الجھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا چنانچہ اقتدار کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے پاس اپنے اپنے گھوڑے اور اپنے میدان موجود ہیں لیکن ہماری سیاسی قیادت نے بدقسمتی سے اس آخری موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا شروع کر دی‘ میاں نواز شریف کو چاہیے تھا یہ تدبر کا مظاہرہ کرتے‘ عمران خان اگر چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کر رہے تھے تو میاں صاحب چاروں حلقے کھول دیتے یا خود کو کسی دوسرے حلقے سے منتخب کرا لیتے اور ان چاروں متنازعہ نشستوں پر دوبارہ الیکشن کرا دیتے‘ اس میں کیا حرج تھا۔
اسی طرح اگر عمران خان انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں تو یہ اقتدار سنبھالتے ہی اصلاحاتی کمیٹی بنا دیتے‘ عمران خان کو اس کمیٹی کا سربراہ بنا دیتے اور اصلاحات ہو جاتیں‘ عمران خان کو بھی چاہیے تھا‘ یہ اپنی تمام توانائیاں خیبر پختونخواہ پر لگا دیتے‘ اپنے ورکروں کو وہاں جمع کرتے اور صوبے کے صدیوں پرانے مسائل حل کر دیتے‘ یہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخابی اصلاحات کرتے اور اگلے الیکشن کو ماضی کی تمام خرابیوں سے پاک کر دیتے‘ خان صاحب کو قوم کو ’’موبلائز‘‘ کر کے سڑکوں پر لانے کی کیا ضرورت تھی؟
پاکستان پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی‘ پاکستان مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کو بھی چاہیے تھا یہ دونوں پارٹیوں کے اختلافات ختم کرانے کی کوشش کرتیں‘ یہ صورتحال کا اندازہ کرتیں‘ اگر حکومت غلط ہوتی تو تمام پارٹیاں مل کر حکومت کے خلاف پارلیمانی اتحاد بنا لیتیں اور حکومت پر دبائو ڈالتیں اور اگر عمران خان غلط ہوتے تو یہ ان کا گھیرائو کر لیتیں مگر یہ بھی ثالث کا کردار ادا کرنے کے بجائے تماشائی بن گئیں‘ یہاں تک کہ معاملات بگڑ گئے اور پورا نظام دائو پر لگ گیا‘ کیا قوم نے آپ کو اس کام کے لیے پارلیمنٹ میں بھجوایا تھا‘ کیا آپ اس لیے اقتدار میں آئے تھے کہ پارلیمنٹ میں پہنچ کر بھٹو اور مجیب الرحمن بن جائیں اور باقی ماندہ پاکستان کو مزید توڑنے میں لگ جائیں‘ خدا خوفی کریں اور اصل کام کی طرف واپس آ جائیں‘ یہ ملک مزید مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
میری میاں نواز شریف سے درخواست ہے‘ یہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں‘ یہ انقلابات اور مارچز کی اصل وجوہات پر توجہ دیں‘کیا میاں صاحب یہ نہیں جانتے انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن اصل ایشو نہیں ہیں‘ اصل ایشو جنرل پرویز مشرف اور دو وفاقی وزراء ہیں‘ آپ جب تک ان دونوں وفاقی وزراء کو سین سے نہیں ہٹائیں گے اور آپ جب تک جنرل پرویز مشرف کے مسئلے پر اپنا شملہ نیچے نہیں کریں گے آپ اس وقت تک سکون سے حکومت نہیں کر سکیں گے‘ یہ 14 اگست گزرے گا تو ایک نیا 14 اگست شروع ہو جائے گا اور آپ وہاں سے نکلیں گے تو ایک نیا14 اگست آ جائے گا‘ آپ کتنے 14 اگستوں کا مقابلہ کریں گے؟
آپ آصف علی زرداری نہیں ہیں‘ آپ زیادہ دنوں تک اس صورتحال کامقابلہ نہیں کر سکیں گے‘ آپ تھک جائیں گے یا اکتا جائیں گے اور اس تھکاوٹ اور اس اکتاہٹ میں وہ ہو جائے گا جو ہوتا چلا آیا ہے‘ آپ کو تیسری بار گھر جانا پڑے گا یا پھر آپ خود ہی اسمبلیاں توڑ کر سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیں گے چنانچہ میری درخواست ہے‘ آپ تھوڑا سا سمجھوتہ کر لیں‘ آپ جنرل پرویز مشرف کو جانے دیں‘ اپنے دو وزراء کے پورٹ فولیوز بھی تبدیل کر دیں اور اصل کام پر توجہ دیں۔
آپ کامیاب ہوگئے تو ملک میں آیندہ کوئی جنرل پرویز مشرف پیدا نہیں ہو سکے گا اور میری عمران خان سے بھی درخواست ہے آپ کا لانگ مارچ کامیاب ہو بھی گیا تو بھی آپ اقتدار میں نہیں آ سکیں گے کیونکہ آپ کے لانگ مارچ کے آخر میں جو طاقتیں میاں نواز شریف کو گھر بھجوائیں گی وہ آپ کو وزیراعظم کیوں بنائیں گی اور اگر آپ وزیراعظم بن بھی گئے تو بھی آپ خود کو پارلیمنٹ سے آئینی وزیراعظم نہیں بنوا سکیں گے‘ آپ کو الیکشن میں جانا پڑے گا اور اس ملک میں اگر جنرل پرویز مشرف الیکشن کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے تھے تو آپ کیسے حاصل کریں گے چنانچہ آپ بھی نقصان میں رہیں گے‘ میری درخواست ہے خان صاحب اور میاں صاحب دونوں اصل کام کی طرف آ جائیں‘ اس اصل کام کی طرف جس کے لیے آپ کو پارلیمنٹ میں بھجوایا گیا تھا۔

ڈھیلی پتلونیں
جاوید چوہدری منگل 5 اگست 2014
ہمارے سیاسی نظام کے ساتھ وہ کچھ ہو رہا ہے جو امریکی نفسیات دان نے دنیا کے شرارتی ترین بچے کے ساتھ کیا تھا‘ کیلیفورنیا کے بچے کی عمر تین سال تھی لیکن وہ انتہائی شرارتی تھا‘ وہ روزانہ سترہ اٹھارہ گھنٹے اپنے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں استعمال کرتا تھا اور پورا قصبہ اس کی حرکتوں کی وجہ سے تنگ تھا‘ محلے کے لوگوں نے چندہ جمع کیا‘ یہ رقم نیویارک کے ایک نفسیات دان کو پیش کی۔
وہ نفسیات دان ٹاؤن میں آیا‘ بچے سے ملاقات کی‘ اس کے کپڑے تبدیل کرائے‘ محلے کے لوگوں کو جمع کیا اور خوش خبری سنائی ’’یہ بچہ اب کبھی شرارت نہیں کرے گا‘‘ نفسیات دان نے اس اعلان کے بعد بیگ اٹھایا اور نیویارک واپس چلا گیا‘ بچے نے واقعی سال بھر کوئی شرارت نہیں کی‘ ٹائون میں سکون رہا لیکن پھر بارہ تیرہ مہینے بعد بچہ دوبارہ ایکٹو ہو گیا‘ وہ اب ہر چیز کو ٹھڈا مار دیتا تھا اور اس ٹھڈے سے لوگوں کا ہزاروں ڈالر کا نقصان ہو جاتا تھا‘ نفسیات دان کو دوبارہ بلایا گیا‘ وہ آیا‘ اس نے بچے کو دیکھا‘ اس کے جوتے تبدیل کرائے۔
محلے کے لوگوں کو دوبارہ جمع کیا اور یہ خوش خبری سنائی ’’ یہ بچہ اب کسی چیز کو ٹھڈا نہیں مارے گا‘‘ دوبارہ اپنا بیگ اٹھایا اور نیویارک واپس چلا گیا‘ بچے نے واقعی ٹھڈے مارنا چھوڑ دیے‘ یہ نفسیات دان کی بہت بڑی کامیابی تھی‘ دو سال بعد واشنگٹن میں بچوں کی نفسیات پر بین الاقوامی کانفرنس ہوئی‘ کانفرنس میں نفسیات دان سے کامیابی کا فارمولہ پوچھا گیا‘ نفسیات دان نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’ میں نے پہلی بار بچے کو کھلی پتلون پہنا دی تھی‘ یہ پتلون ڈھیلی تھی‘ بچہ سارا دن دونوں ہاتھوں سے اس ڈھیلی پتلون کو تھامے رکھتا تھا اور یوں اس کی توجہ شرارتوں سے پتلون پر شفٹ ہو گئی اور ٹائون میں امن ہوگیا۔
سال بعد بچے کو محسوس ہوا‘ میں پاؤں سے بھی شرارتیں کر سکتا ہوں چنانچہ اس نے دونوں ہاتھوں سے پتلون سنبھال کر پائوں سے ٹھڈے مارنا شروع کر دیے‘ میں ٹائون میں گیا‘ بچے کو ملا اور میں نے دوسری بار اسے تنگ جوتا پہنا دیا‘ بچے نے جوتا تنگ ہونے کی وجہ سے ٹھڈے مارنا بھی ترک کر دیا‘‘شرارت روکنے کا یہ تیر بہدف نسخہ سن کر پورے ہال نے قہقہے لگائے‘ قہقہے رکے تو نفسیات دان دوبارہ بولا ’’ خواتین و حضرات یہ نسخہ صرف بچوں تک محدود نہیں‘ آپ اسے سماجیات سے لے کر سفارت کاری تک دنیا کے ہر شعبے اور ہر شخص پر استعمال کر سکتے ہیں‘ آپ مشکل لوگوں کو ڈھیلی پتلونیں اور تنگ جوتے پہنائیں اور آرام سے زندگی گزاریں‘‘۔
یہ فارمولہ نفسیات دان نے شاید پاکستان کے مقتدر حلقوں کو بھی سمجھا دیا‘ شاید اسی لیے یہ پاکستان میں مسلسل استعمال ہو رہا ہے‘ اندرونی اور بیرونی ادارے کبھی ہماری لیڈر شپ کی پتلونیں ڈھیلی کر دیتے ہیں اور کبھی انھیں تنگ جوتے پہنا دیتے ہیں اور یہ بے چارے پتلونیں سنبھالتے اور پائوں کو تکلیف سے بچاتے بچاتے اقتدار سے فارغ ہو جاتے ہیں‘ آپ دور نہ جائیے‘ آپ پچھلے پانچ سالہ دور کو دیکھ لیجیے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کو2008ء میں اقتدار ملا‘ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی میدان میں آ گئے لیکن انھیں اقتدار سنبھالنے سے قبل عدلیہ کی ڈھیلی پتلون پہنا دی گئی۔
یہ بے چارے پورا سال یہ پتلون سنبھالتے رہے‘ یہ اس سے فارغ ہوئے تو انھیں این آر او کی ڈھیلی پتلون پہنا دی گئی‘یہ اگلے تین سال اس پتلون کو سنبھالتے رہے‘ یہ اس سے ذرا سے فارغ ہوئے تو انھیں سوئس کیسز‘ حج سکینڈل‘ ایفی ڈرین اور رینٹل پاور پلانٹس کی ڈھیلی پتلونیں پہنا دی گئیں‘ یہ انھیں بھی سنبھالتے رہے اور ان لوگوں نے ان پتلونوں کو سنبھالتے سنبھالتے پانچ سال پورے کر دیے‘ یہ لوگ اس دوران اگر کبھی سانس لے لیتے تھے تو ایم کیو ایم کی بیلٹ کھینچ لی جاتی تھی اور ان بے چاروں کے ہاتھ بے اختیار پتلون کی طرف چلے جاتے تھے۔
آصف علی زرداری کے بعد میاں نواز شریف کی باری آئی‘ میاں صاحب کو چار حلقوں کی ڈھیلی پتلون پہنا دی گئی‘ یہ حقیقت ہے 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی لیکن کیا یہ دھاندلی میاں نواز شریف یا میاں شہباز شریف نے کروائی تھی؟ یہ وہ سوالیہ نشان ہے جس کا جواب ہمیں کبھی نہیں مل سکے گا‘ میرا خیال ہے وہ دھاندلی‘ دھاندلی کم اور ڈھیلی پتلون زیادہ تھی اور اس ڈھیلی پتلون کا مقصد صرف اور صرف میاں نواز شریف کو الجھائے رکھنا تھا تا کہ یہ بھی آصف علی زرداری کی طرح اس ڈھیلی پتلون کو پانچ سال تک پکڑے رکھیں۔
میاں صاحب کا اقتدار اگست کے مہینے میں داخل ہو چکا ہے‘ میرا خیال ہے یہ اگر اس کرائسس سے نکل گئے تو نجم سیٹھی کے 35 پنکچرز کے ثبوت سامنے آ جائیں گے‘ یہ ان سے بھی بچ گئے تو حمزہ شہباز اور حسین نواز کے کاروبار کی خبریں آ جائیں گی اور اگر یہ قصے بھی بارآور نہ ہوئے تو سانحہ ماڈل ٹائون وہ ڈھیلی پتلون ثابت ہو گا جسے سنبھالتے سنبھالتے میاں برادران کے چار سال ختم ہو جائیں گے اور اگر خوش قسمتی سے میاں برادران یہ تمام مراحل بھی گزار گئے تو پھر جنرل پرویز مشرف کا تنگ جوتا کہیں نہیں گیا‘یہ تنگ جوتا‘ شمالی وزیرستان کا آپریشن اور لوڈ شیڈنگ حکومت کو آرام سے نہیں چلنے دے گی اور یہ لوگ باقی مدت پائوں بچاتے بچاتے ہی پوری کریں گے۔
یہ ڈھیلی پتلون صرف وفاقی اور پنجاب حکومت تک محدود نہیں بلکہ عمران خان‘ آصف علی زرداری اور بلوچستان کی حکومت بھی ڈھیلی پتلون اور تنگ جوتے کے فارمولے کا شکار ہے‘ عمران خان کو خیبر پختونخواہ کی حکومت ملی لیکن ساتھ ہی شمالی وزیرستان کی ڈھیلی پتلون بھی مل گئی‘ یہ اس وقت دونوں ہاتھوں سے اسے سنبھالے ہوئے ہیں‘ آصف علی زرداری کو سندھ مل گیا لیکن یہ اس وقت کراچی کے بگڑتے ہوئے حالات کی ڈھیلی پتلون سنبھال کر کھڑے ہیں اور بلوچستان میں طویل مدت بعد خالص بلوچ حکومت قائم ہوئی۔
ڈاکٹر عبدالمالک شاندار انسان اور دیانتدار لیڈر ہیں لیکن یہ بھی مسنگ پرسنز اور قوم پرست علیحدگی پسندوں کی ڈھیلی پتلون کو پکڑے بیٹھے ہیں‘ یہ اس خوف کا شکار ہیں ’’ میں جس دن کھڑا ہوں گا‘ میری پتلون گر جائے گی‘‘ ہم اگر ڈھیلی پتلون کے دائرے کو ذرا سا وسیع کر دیں تو ہمیں محسوس ہو گا چوہدری برادران گم نامی کی ڈھیلی پتلون تھامے کھڑے ہیں‘ یہ جانتے ہیں ہم اگر اب پانی کی سطح پر نہ آئے تو ہم ہمیشہ کے لیے ڈوب جائیں گے۔
علامہ طاہر القادری انقلاب کی ڈھیلی پتلون پکڑ کر کھڑے ہیں جب کہ الطاف حسین منی لانڈرنگ کیس کی ڈھیلی پتلون پر ہاتھ رکھے کھڑے ہیں‘ ہمارے وفاقی وزراء بھی ملتی جلتی صورتحال کا شکار ہیں‘ چوہدری نثار لاء اینڈ آرڈر‘ خواجہ آصف لوڈ شیڈنگ‘ خواجہ سعد رفیق ریلوے اور میرے عزیز ترین دوست پرویز رشید اطلاعات و نشریات کی ڈھیلی پتلونیں پکڑ کر کھڑے ہیں‘ یہ حضرات جانتے ہیں ہمارے ہاتھ جس دن ذرا سے ڈھیلے پڑیں گے اس دن نہ صرف ہماری ڈھیلی پتلونیں گر جائیں گی بلکہ انھیں دوسرے لوگ اٹھا کر بھاگ جائیں گے۔
ہم اب آتے ہیں صورتحال سے نکلنے کے طریقے کی طرف۔ ہم اگر واقعی اس ملک اور نظام سے مخلص ہیں تو پھر ہمیں ایک بڑا اور تاریخی فیصلہ کرنا ہوگا‘ میاں صاحب کو فوری طور پر قومی حکومت بنا دینی چاہیے‘ یہ تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کو جمع کریں اور انھیں اقتدار کا سٹیک ہولڈر بنا دیں‘ہمیں ماننا پڑے گا کراچی کو صرف ایم کیو ایم صاف کر سکتی ہے‘میاں صاحب الطاف حسین کو لندن سے بلا کر کراچی ان کے حوالے کر دیں‘ عمران خان کو وزیر خارجہ بنا دیا جائے‘ جنرل پرویز مشرف کو صدر بنا دیں اور مسئلہ کشمیر اور کالا باغ ڈیم آصف علی زرداری کے حوالے کر دیں۔
چوہدری نثار کو دہشت گردی کا مسئلہ سونپ دیں‘ شوکت عزیز کو واپس بلا کر معیشت اور صنعت ان کے حوالے کر دی جائے اور اسحاق ڈار کو آئین اور قانون کے سقم دور کرنے اور صوبوں کے درمیان تعلقات استوار کرنے کی ذمے داری دے دی جائے ‘ ہماری سیاسی قیادت اس کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی کرے‘ ہم مارشل لاء کو کسی قیمت قبول نہیں کریں گے اور فوج بھی یہ فیصلہ کر لے ہم اقتدار کی طرف مارچ نہیں کریں گے ‘یقین کیجیے ہمارے ملک کے حالات بدلنے لگیں گے‘ ہمیں ماننا ہو گا موجودہ حالات میں کوئی ایک جماعت ملک کے تمام مسائل حل نہیں کرسکتی۔
ہمارے ملک میں جو بھی شخص برسر اقتدار آئے گا ڈھیلی پتلون اس کا مقدر ہو گی‘ آج عمران خان یا علامہ طاہر القادری بھی آ جائیں تو صورتحال میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ادوار سے مختلف نہیں ہو گی‘ یہ بھی ڈھیلی پتلون سنبھالتے رہیں گے اور ہم نے اگر ڈھیلی پتلونوں کا یہ سلسلہ بند نہ کیا تو ملک ڈھیلا ہو جائے گا اور ملک اگر ایک بار ڈھیلے ہو جائیں تو انھیں دوبارہ نہیں کسا جا سکتا۔
آپ کو یقین نہ آئے تو آپ چیکو سلواکیہ سے لے کر عراق اور ایسٹ تیمور سے لیبیا تک پچھلے 25 سال کی تاریخ دیکھ لیں‘ آپ جان جائیں گے دنیا کا جو بھی ملک ڈھیلا ہوا‘ وہ دوبارہ سلامتی کی طرف نہیں جا سکا‘ ملک مچھلیوں کی طرح ہوتے ہیں‘یہ اگر ایک بار نظام کے پانیوں سے باہر آ جائیں تو پھر تڑپنا اور تڑپ تڑپ کر جان دینا ان کا مقدر ہو جاتا ہے‘ ہم بھی اگر ایک بار نظام سے باہر آ گئے تو پھر واپس نہیں جا سکیں گے چنانچہ آپ لوگ اپنادل بڑا کریں‘ آپ نے اگر آج دل بڑا نہ کیا تو دل بچے گا اور نہ ہی دل والے۔

سماجی عذاب
جاوید چوہدری ہفتہ 2 اگست 2014

میں نے بھی عید کے دوسرے دن بے وقوفی فرما دی‘ میں خاندان کو مری لے گیا‘ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی بے وقوفی اور خوفناک ترین دن تھا‘ ہم لوگ دو گاڑیوں میں سہ پہر کے وقت گھر سے نکلے‘ ہمیں ایکسپریس وے تک پہنچنے میں دو گھنٹے لگ گئے‘ رش کی وجہ سے ایک مہربان نے میری گاڑی کا پچھلا حصہ اڑا دیا‘ ڈکی تک تباہ ہو گئی۔
موٹروے پولیس نے ہمیں واپس جانے کا مشورہ دیا لیکن جب انسان کی مت ماری جائے تو وہ سیدھے کو الٹا ثابت کرنے میں جت جاتا ہے‘ میں نے بھی پولیس کا مشورہ نہیں مانا اور یوں اس عذاب میں مبتلا ہو گیا جس میں عید کے چار دن سات آٹھ لاکھ لوگ پھنس گئے تھے‘ جھیکا گلی تک حالات تقریباً ٹھیک تھے لیکن اس کے بعد ناقابل برداشت ہو گئے‘ ٹریفک پھنس گئی اور دس گھنٹے تک پھنسی رہی‘ ہماری دونوں گاڑیاں ایک دوسرے سے بچھڑ گئیں‘ موبائل فونز کی بیٹریاں ختم ہو گئیں۔
پٹرول کے ٹینک آخری حدوں کو چھونے لگے‘ قرب و جوار میں کسی جگہ کوئی واش روم‘ کوئی دکان اور کوئی ریستوران نہیں تھا‘ گاڑیوں کے اندر سے بچوں کی گریہ و زاری اور خواتین کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں‘ میرے سامنے ایک شخص کو ہارٹ اٹیک ہوا اور اس نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی‘ موٹر سائیکلوں اور پیدل چلنے والوں نے ٹریفک کو مزید مشکل میں ڈال دیا‘ میں دس گھنٹے بعد کشمیر پوائنٹ سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر پہنچا‘ گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کی اور بچوں کو لے کر پیدل چل پڑا‘ لوگوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا۔
بچوں کو لے کر اندھیرے میں پہاڑ پر چڑھنے لگا‘ ہم ایک گھنٹے میں فلیٹ تک پہنچے‘ میں نے انھیں وہاں چھوڑا‘ واپس گاڑی تک آیا اور دوبارہ قطار میں لگ گیا‘ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان تھے‘ ہر طرف دھواں ہی دھواں اور شور ہی شور تھا‘ مجھے اوپر پہنچنے میں مزید دوگھنٹے لگ گئے‘ اس کے بعد کھانا اور پانی تلاش کرنے کی باری آئی‘ مال روڈ پر پہنچا تو میں نے زندگی کا سب سے بڑا‘ بے ہنگم اور غیر منظم ہجوم دیکھا‘ مال روڈ پر ہاتھ سے ہاتھ اور سرسے سر ٹکرا رہا تھا‘ میں رمضان میں عمرے کے لیے بھی گیا‘ میں نے حج کی سعادت بھی حاصل کی۔
میں ویٹی کن سٹی بھی گیا ہوں اور میں نے لندن اور پیرس میں نیو ائیر کے ہجوم بھی دیکھے ہیں لیکن مال روڈ کا ہجوم ان سے کہیں بڑا تھا‘ آپ کو تاحد نظر سر ہی سر دکھائی دیتے تھے‘ مجھے کھانا لینے میں دو گھنٹے لگ گئے‘ ریستوران سے فلیٹ تک مزید ایک گھنٹہ لگ گیا‘ میں اس کے بعد دوسری گاڑی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا‘ دوسری گاڑی میں میرے بیٹے تھے‘ مجھے انھیں تلاش کرنے میں تین گھنٹے لگ گئے اور یوں ہم 18 گھنٹے بعد اکٹھے ہوئے‘ یہ ہماری زندگی کا خوفناک ترین دن تھا۔
مری راولپنڈی سے 32 کلو میٹر دور پنجاب کا بڑا تفریحی مقام ہے‘ یہ مقام دس برسوں سے عید کے ایام میں ہلڑ بازی اور رش کی منڈی بن رہا ہے‘ شہر میں ساڑھے تین ہزار گاڑیوں کی آمد و رفت اور پارکنگ کی گنجائش ہے‘ عید کے دن 37 ہزار گاڑیاں شہر میں داخل ہوئیں‘ عید کے دوسرے دن 81 ہزار 9 سو 37 گاڑیاں مری میں آئیں جب کہ تیسرے دن ان کی تعداد ایک لاکھ 21 ہزار تھی‘ مری آنے والے لوگوں کے بارے میں اندازہ تھا ان کی تعداد سات آٹھ لاکھ تھی‘ مری کو ہم پنڈی پوائنٹ سے شروع کریں اور کشمیر پوائنٹ پر ختم کریں تو اس کی لمبائی چار کلو میٹر بنتی ہے۔
یہ چار کلو میٹر سات آٹھ لاکھ لوگوں کو کیسے برداشت کرے گا‘ آپ خود اندازہ کیجیے اور جس شہر میں ساڑھے تین ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہو وہ شہر روزانہ اسی نوے ہزار گاڑیوں کی گنجائش کیسے پیدا کرے گا؟ چنانچہ مری تفریحی مقام کی بجائے مقام عذاب بن گیا‘ پولیس بالخصوص ٹریفک وارڈنز جاںفشانی کا مظاہرہ کرتے رہے‘ ان لوگوں نے مسلسل 36 گھنٹے کام کیا‘ میں نے ٹریفک وارڈنز کو لوگوں کے سامنے ہاتھ باندھتے اور ان کی منت تک کرتے دیکھا لیکن ٹریفک اس کے باوجود کنٹرول نہیں ہو رہی تھی۔
لوگ ایک دوسرے سے تعاون کے لیے تیار نہیں تھے‘ لوگ آنے والی لین میں گاڑیاں چڑھا دیتے تھے اور ایک آدھ گاڑی کی وجہ سے دو دو گھنٹے کے لیے ٹریفک بند ہو جاتی تھی‘ واش روم نہیں تھے‘ گاڑیاں سائیڈ پر کھڑی کرنے کی گنجائش نہیں تھی اور ہجوم کو کنٹرول کرنے کا انتظام بھی نہیں تھا‘ یہ معاملہ صرف اس عید تک محدود نہیں بلکہ مری ہر بار عیدین‘ 14 اگست اور لمبی چھٹیوں کے دنوں میں اسی عذاب سے گزرتا ہے‘ میاں برادران کو مری سے خصوصی محبت ہے لہٰذا میں اپنے تجربات کی بنیاد پر انھیں چند مشورے دینا چاہتا ہوں۔
میرا خیال ہے اگر ان مشوروں پر تھوڑا سا بھی عمل کر لیا جائے تو مری اور سیاحوں کے مسائل میں کمی ہو سکتی ہے‘ میری حکومت سے درخواست ہے‘ آپ رش والے دنوں میں مری میں موٹر سائیکلوں کے داخلے پر پابندی لگا دیں‘ یہ موٹر سائیکل حادثوں کا باعث بھی بنتے ہیں اور ٹریفک میں خلل بھی ڈالتے ہیں‘ ایکسپریس وے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موٹر سائیکل پر پابندی لگا دی جائے‘ ایکسپریس ٹول پلازے کی فیس پچاس روپے ہے‘ عید کے دنوں میں فیس میں پانچ گنا اضافہ کر دیا جائے‘ یہ اضافی رقم ٹریفک وارڈنز کو بطور بونس ادا کر دی جائے اور ساتھ ہی انھیں پابند کیا جائے مری میں عیدین کے دوران ٹریفک کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہونا چاہیے‘ رش والے دنوں میں ایکسپریس وے کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
گاڑیوں کو ان پانچ حصوں میں روک لیا جائے‘ صرف دو‘ دو ہزار گاڑیوں کو آگے جانے دیا جائے‘ دو ہزار گاڑیاں جھیکا گلی کراس کر جائیں تو نئی دو ہزار گاڑیاں آ جائیں‘ باقی گاڑیاں دس کلو میٹر پیچھے انتظار کریں‘ ایکسپریس وے پر ڈیجیٹل بورڈ لگا دیے جائیں جو سیاحوں کو رش اور منزل سے فاصلے کے بارے میں بتاتے رہیں‘ لوگوں کو ٹول پلازے پر بتا دیا جائے آپ کو اتنے گھنٹے لگ جائیں گے‘ آپ کا فیول ٹینک فل ہے تو آگے جائیں ورنہ واپس چلے جائیں‘ آپ مریض ہیں تو بھی آگے نہ جائیں‘ مری اور مری کے راستے میں ہارن بجانے پر پابندی لگا دیں‘ ٹول پلازے پر جدید ترین واش رومز بنوائیں‘ مری کے داخلے کے مقام پر بھی واش رومز اور شاپنگ سینٹر ہونا چاہیے‘ مری کے تمام ہوٹلوں‘ گیسٹ ہاؤسز‘ مکانات اور ریسٹ ہاؤسز کو آن لائین کر دیا جائے اور صرف ان لوگوں کو مری میں گاڑی لے جانے کی اجازت دی جائے جن کے پاس بکنگ موجود ہو باقی خواتین و حضرات کے لیے ’’ڈے پاس‘‘ جاری کیے جائیں‘ ڈے پاس کی باقاعدہ قیمت ہو۔
سیاح ڈے پاس کی قیمت شاپنگ یا ریستوران کے بل میں ایڈجسٹ کروا سکیں یا پھر شام کے وقت ڈے پاس واپس کر کے اپنی رقم واپس لے لیں‘ مال روڈ کو درمیان میں عارضی پائپ لگا کر دو حصوں میں تقسیم کر دیاجائے‘ ایک حصے میں فیملیز چل سکیں اور دوسرے حصے میں عام لوگ۔ موجودہ حالات میں لوگوں کو فیملی کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے دقت ہوتی ہے‘ مری کو اگر جھیکا گلی اور پنڈی پوائنٹ سے کار فری کر دیا جائے‘ شہر کے اندر بگھیاں‘ الیکٹرانک کارز اور سائیکل رکشے چلادیے جائیں تو اس سے بھی ٹریفک کا مسئلہ حل ہو جائے گا‘ یہ ممکن نہ ہو تو حکومت فوری طور پر جھیکا گلی پر اوور ہیڈ روڈ بنائے‘ یہ بھی ممکن نہ ہو تو مری کے انٹری اور ایگزٹ کے راستے مختلف کر دیے جائیں‘ لوگ پرانی سڑک کے ذریعے مری میں داخل ہوں اور موٹر وے کے ذریعے باہر نکلیں یا پھر موٹر وے کے ذریعے داخل ہوں اور پرانی روڈ کو خروج کے لیے وقف کر دیا جائے اور رش کے دنوں میں مری میں پولیس کی نفری میں بھی اضافہ کر دیا جائے۔
ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا ملک میں سیاحت کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے‘ لوگ چھٹیوں میں تفریحی مقامات کی طرف جاتے ہیں‘ آپ کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کو دیکھیں‘ لاکھوں لوگ ان شہروں میں جمع ہو جاتے ہیں‘ ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور حالات کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں‘ حکومت کو فوری طور پر نئی تفریح گاہیں بنانی چاہئیں۔
سیاحت کی وزارت کو ایکٹو کریں‘ پرائیوٹ کمپنیوں کو بلائیں‘ زمینیں الاٹ کریں اور ملک کے مختلف علاقوں میں تفریحی پارک بنائیں‘ شہروں کے مضافات میں مصنوعی جھیلیں بھی بنائیں اور ان جھیلوں کے کنارے تفریحی پارکس‘ ریستوران اور کیفے بھی۔ شہروں میں نئے تھیٹر ہاؤس اور سینما بنوائیں اور نئے پارکس بھی۔ یہ تفریحی مقامات لوگوں کے ذہنوں پر اچھے اثرات مرتب کریں گے‘ معاشرہ صحت مند ہو گا اور بڑے شہروں پر دباؤ بھی کم ہو جائے گا ورنہ دوسری صورت میں ہم سب سماجی عذاب کا شکار ہو جائیں گے۔
اگر وہ کر سکتے ہیں
جاوید چوہدری بدھ 23 جولائ 2014

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی تھا اور گائوں کا نام اسولا تھا‘ اسولا دہلی کے مضافات میں گجربرادری کا ایک چھوٹا سا گائوں ہے‘ یہ گائوں فتح پوری بیری کے ہمسائے میں واقع ہے‘ وجے تنوار نے گاؤں میں اکھاڑا بنایا اور نوجوانوں کو پہلوانی سکھانا شروع کردی‘ گائوں کے نوجوان لمبے تڑنگے اور مضبوط کاٹھی کے مالک تھے‘ پہلوانی اور کبڈی گائوں کا پرانا شغل تھا‘ لوگ کسرت اور باڈی بلڈنگ میں بھی دلچسپی رکھتے تھے چنانچہ وجے تنوار کا اکھاڑا کامیاب ہوگیا‘ گائوں کے پچاس سے زائد نوجوانوں نے اکھاڑے میں کسرت شروع کر دی۔
میں یہاں وجے تنوار کی کہانی کو چند لمحوں کے لیے روک کر آپ کو دہلی کی معاشی اور سماجی زندگی میں آنے والی چند تبدیلیوں کے بارے میں بتائوں گا‘ ان تبدیلیوں کا وجے تنوار اور گائوں اسولا سے گہرا تعلق تھا‘ دہلی 1980ء کی دہائی تک مڈل کلاس لوگوں کا شہر تھا‘ شہر کے مضافات میں گائوں تھے‘ ان دیہات میں غربت اور افلاس کے انبار لگے تھے‘ اسی کی دہائی میں بھارت کی معیشت نے ’’ٹیک آف‘‘ کا آغاز کرنا شروع کیا‘ 1990ء کی دہائی میں ’’شائننگ انڈیا‘‘ کا آغاز ہو گیا‘ بھارت میں ہزاروں کی تعداد میں فیکٹریاں لگیں‘ سرمایہ کاری ہوئی‘ اسٹاک ایکسچینج نے ترقی کرنا شروع کی‘ بھارتی روپیہ مضبوط ہوا اور بھارت ایکسپورٹ کرنے والے ممالک میں شامل ہوگیا۔
معیشت کے اثرات دہلی تک بھی پہنچ گئے‘ دہلی دارالحکومت ہونے کے باوجود ایک چھوٹا شہر تھا‘ یہ شہر کھربوں روپوں کا دبائو برداشت نہ کر سکا اور شہر کی پراپرٹی کی قیمتوں میں دس گنا اضافہ ہو گیا‘ حکومت کو احساس ہوا چنانچہ حکومت نے دہلی کے مضافات میں چار بڑے اور جدید شہر آباد کرنا شروع کر دیے‘ یہ شہر گڑ گائوں‘ نائیڈو‘ نیونائیڈو اور فرید آباد ہیں‘ یہ انتہائی خوبصورت اور جدید شہر ہیں اور یہ تین تین رویہ سڑکوں کے ذریعے دہلی سے جڑے ہوئے ہیں‘ یہ شہر دیہات کی زمینوں پر آباد ہوئے‘ زمینیں مہنگی ہوگئیں اور وہ لوگ جو کبھی بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی پوری کرتے تھے وہ چار چار‘ پانچ پانچ سو کروڑ کے مالک بن گئے‘ شہر میں ارب اور کھرب پتیوں کی نئی کلاس نے جنم لیا‘ اس کلاس کے لیے مہنگے رہائشی علاقے بھی بنے‘ مالز بھی‘ شراب خانے بھی اور نائیٹ کلبز بھی۔
دنیا میں جہاں بھی نئے کروڑ اور ارب پتی جنم لیتے ہیں وہاں نئے مالز‘ سینما ہائوسز‘ شراب خانے اور نائیٹ کلب بنتے ہیں اور بعد ازاں وہاں سیکیورٹی گارڈز کی ضرورت پڑتی ہے‘ انگریزی میں ان گارڈز کو بائونسرز کہا جاتا ہے‘ یہ بائونسرز جسمانی لحاظ سے خوبصورت‘ لمبے تڑنگے اور جوان ہوتے ہیں‘ آپ کو بائونسرز یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید جیسی سوسائٹیوں میں بھی ملتے ہیں‘ ان کا کام نائیٹ کلب‘ ریستوران‘ مالز‘ سینما اور باس کے دفتر کی صورتحال کو کنٹرول رکھنا ہوتا ہے‘ یہ ناپسندیدہ خواتین و حضرات کو اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں‘ بھارت میں بائونسرز کی باقاعدہ کمپنیاں ہیں‘ یہ کمپنیاں شادی بیاہ‘ برتھ ڈے اور دفتری تقریبات کے لیے عارضی بائونسرز بھی فراہم کرتی ہیں‘ ہم اب تنوار کی طرف واپس آتے ہیں۔
آج سے پندرہ سال قبل وجے تنوار اپنے اکھاڑے میں شاگردوں کو کسرت کروا رہا تھا‘ دہلی کے ایک پب کے مالک کو ایک رات کے لیے بائونسرز کی ضرورت تھی‘ وہ بائونسرز تلاش کرتا ہوا اسولا پہنچ گیا‘ وہ وجے کے اکھاڑے میں پہنچا‘ اس نے اس کا جسم اور پرسنیلٹی دیکھی اور اسے ایک رات کے لیے دس ہزار روپے کی پیش کش کر دی‘ وجے کے لیے یہ بڑی رقم تھی‘ اس نے یہ پیش کش قبول کر لی‘ وہ پانچ نوجوانوں کے ساتھ دہلی گیا‘ پب میں تقریب تھی‘ وجے نے اس تقریب کو سیکیورٹی فراہم کی‘ مالک نے فی کس 10 ہزار روپے کے حساب سے 60 ہزار روپے ادا کر دیے۔
ان 60 ہزار روپوں نے اسولا کا مقدر کھول دیا‘ وجے کو بزنس کا نیا آئیڈیا آیا‘ اس نے ریسرچ کرائی‘ معلوم ہوا‘ دہلی میں ایسے درجنوں پب‘ ڈسکوز‘ مالز‘ سینما ہائوسز اور کارپوریٹ آفسز ہیں‘ ان تمام عمارتوں کو بائونسرز کی ضرورت ہے‘ وجے نے گائوں کے نوجوانوں کو جمع کیا‘ نئے کاروبار کے بارے میں بتایا‘ اکھاڑے کو جم میں تبدیل کیا اور نوجوانوں کو باڈی بلڈنگ کی تربیت دینا شروع کر دی‘ اسولا کے نوجوان جسم بنانے میں جت گئے‘ چھ ماہ بعد اسولا بائونسرز کی نرسری بن گیا‘ آج پندرہ برس بعد پورا اسولا گائوں بائونسرز بن چکا ہے‘ گائوں کے ہر گھر میں کم از کم ایک بائونسر موجود ہے۔
یہ باؤنسر دہلی میں کام کرتا ہے اور تیس سے پچاس ہزار روپے ماہانہ معاوضہ لیتا ہے‘ گائوں کا ہر بائونسر اپنے نام کے ساتھ تنوار لکھتا ہے‘ آپ دہلی کے کسی نائیٹ کلب کے سامنے کھڑے ہو کر تنوار پکاریئے‘ بائونسرز ’’جی‘‘ کہہ کر آپ سے مخاطب ہو جائیں گے‘ اسولا کے بائونسر انفرادی لحاظ سے بھی بہت دلچسپ لوگ ہیں‘ یہ سگریٹ اور شراب نہیں پیتے‘ یہ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے‘ یہ مرضی کی شادی کے خلاف ہیں‘ یہ والدین کی خواہش کے مطابق صرف ارینج میرج کرتے ہیں۔
یہ جواء بھی نہیں کھیلتے اور یہ کسی بھی جرم میں ملوث نہیں ہوتے‘ یہ روز ورزش کرتے ہیں‘ اسولا کے بائونسرز روزانہ 10 انڈوں کی سفیدی‘ تین لیٹر دودھ‘ درجن کیلے اور ایک ابلی ہوئی مرغی کھاتے ہیں‘ یہ لوگ گالی نہیں دیتے‘ ان لوگوں نے ’’بائونسر سماج‘‘ کے نام سے تنظیم بھی بنا رکھی ہے‘ یہ لوگ دہلی میں برانڈ بن چکے ہیں‘ شہر کی کمپنیاں جب بھی بائونسر کے لیے اشتہار دیتی ہیں تو یہ تنوار نام کے نوجوانوں کو ٹیسٹ اور انٹرویو کے بغیر ’’سلیکٹ‘‘ کر لیتی ہیں۔
یہ دلچسپ اور کارآمد تجربہ ہے‘ ہم ملک کے مختلف حصوں میں اس تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ پاکستان انیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے‘ ہمارے ملک میں ہر سال دس لاکھ نئے ڈرائیوروں‘ بیس لاکھ مستریوں‘ مزدوروں اور ترکھانوں‘ پانچ لاکھ موٹر مکینکس‘ دس لاکھ پلمبرز‘ الیکٹریشنز اور پینٹرز کی ضرورت پیدا ہوتی ہے‘ ہمارے ملک میں ہر سال 7 لاکھ نئے گھروں کی ڈیمانڈ پیدا ہوتی ہے‘ دس برسوں میں سیکیورٹی گارڈز کی تیس لاکھ آسامیاں پیدا ہوئیں‘ ہمارے ملک کے ہر شہر میں نرسوں‘ وارڈ بوائز‘ لیب ٹیکنیشنز اور کمپائونڈرز کی ہزاروں آسامیاں موجود ہیں۔
آپ کو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بھی اچھے ویٹرز نہیں ملتے‘ پورے ملک میں سینٹری ورکرز کی کمی ہے‘ آپ کو پرسنل اسسٹنٹس بھی دستیاب نہیں ہیں اور آپ آفس بوائے کی تلاش میں بھی برسوں خوار ہوتے ہیں‘ ہم اگر ملک میں ورکرز کی ضرورت کا تخمینہ لگائیں اور ملک کے مختلف علاقوں کو مختلف ٹریڈز کے لیے وقف کر دیں‘ ملک کے مختلف دیہات کو اسولا کی طرز پر ڈویلپ کریں تو ملک کی معاشی صورتحال میں بھی تبدیلی آ جائے گی‘ لوگوں کو روزگار بھی ملے گا‘ امن وامان کی حالت بھی ٹھیک ہو جائے گی اور ملک میں پروفیشنل ازم بھی آ جائے گا۔
راولپنڈی اور اسلام آباد کے زیادہ تر ویٹرز مری اور آزاد کشمیر کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ حکومت یا علاقوں کے مخیر حضرات اگر ان دیہات میں ویٹرز کی ٹریننگ کا چھوٹا سا ادارہ بنا دیں‘ ان بچوں کو ٹریننگ دیں اور ایک سسٹم کے تحت انھیں نوکریوں کے لیے بھجوائیں تو انھیں معاوضہ بھی اچھا ملے گا‘ یہ نوکری بھی جلد حاصل کر لیں گے اور ملک میں پروفیشنل ویٹرز کا ٹرینڈ بھی شروع ہو جائے گا‘ ہم اگر اسی طرح کسی گائوں میں موٹر مکینک کا ٹریڈ شروع کرا دیں‘ گائوں کے بچے موٹر مکینک کا باقاعدہ کورس کر کے مارکیٹ میں آئیں تو اس سے ان کے خاندان کی معاشی حالت بھی بہتر ہو جائے گی۔
موٹر مکینک کے شعبے میں پروفیشنل ازم بھی آ جائے گا اور لوگوں کی نئی گاڑیوں پر تجربوں کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا‘ ہم اسی طرح زرعی علاقوں کو بھی مختلف اجناس میں تقسیم کر سکتے ہیں‘ جہاں چاول اگتا ہے اسے چاول کی معیشت بنا دیا جائے‘ جہاں گنا ہوتا ہے وہاں لوگوں کو گنے اگانے اور اس کی مصنوعات بنانے کی ٹریننگ دی جائے اور جہاں انگور ہو سکتا ہے وہاں انگور کے جوس اور سرکے کی صنعت پروان چڑھائی جائے‘ ہم کچھ نہ کریں تو بھی ہم دنیا کو ہیومین ریسورس ایکسپورٹ کرنے والا بڑا ملک بنا سکتے ہیں‘ ہم دو تین شعبے لے لیں‘ اپنے نوجوانوں کو ان شعبوں میں بین الاقوامی سطح کی ٹریننگ دیں اور پوری دنیا کو ان شعبوں میں ٹرینڈ ہیومین ریسورس فراہم کرنا شروع کر دیں۔ دس پندرہ بیس برسوں میں ہمارے لوگوں کی حالت بدل جائے گی.
فن لینڈ نے موبائل فون کی ون جی ٹیکنالوجی متعارف کروائی تھی‘ فن لینڈ نے صرف اس ایک ٹیکنالوجی کے ذریعے پورا ملک چلا لیا‘ تائیوان نے 1981ء میں مائیکرو چپ بنانے کا ایک کارخانہ لگایا‘ آج تائیوان میں تین ہزار کمپنیاں مائیکرو چپ بنا رہی ہیں‘ آپ کمپیوٹر اور موبائل کنیکشن کسی ملک اور کسی کمپنی کا استعمال کریں لیکن چپ اس میں تائیوان ہی کا ہوگا‘ تائیوان نے صرف ایک ٹیکنالوجی کے ذریعے خود کو دنیا کے پندرہ ترقی پذیر ممالک میں شامل کرلیا۔
چین کے 34 صوبے ہیں‘ یہ تمام صوبے ایک ایک ٹیکنالوجی‘ ایک ایک شعبے کے ماہر ہیں‘ کسی صوبے میں صرف فرنیچر بن رہا ہے‘ کسی میں صرف الیکٹرانکس کی اشیاء بنائی جا رہی ہیں اور کسی میں صرف ٹائلز کی فیکٹریاں ہیں‘ چین آج اسی ماڈل کی وجہ سے دنیا کی واحد معاشی سپر پاور ہے‘ اگر چین کر سکتا ہے‘ اگرتائیوان اور فن لینڈ کر سکتا ہے اور اگر اسولا کا وجے تنوار پورے گائوں کو بائونسرز کی فیکٹری بنا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے‘ ہم اپنے لوگوں کا مقدر کیوں نہیں بدل سکتے؟۔
شاید‘ شاید ہم کرنا ہی نہیں چاہتے۔
پولینڈ سے
جاوید چوہدری ہفتہ 19 جولائ 2014

آپ اگر پولینڈ میں سرخ اشارے پر سڑک پار کرنے کی کوشش کریں یا زیبرا کراسنگ کے علاوہ کسی مقام پر سڑک پر قدم رکھ دیں تو آپ کو پولیس گرفتار کر سکتی ہے‘ یہ آپ کو سوذلوٹی (3400 روپے) جرمانہ بھی کر سکتی ہے اور آپ کو 24 گھنٹے تک حوالات میں بھی بند رکھ سکتی ہے‘ وارسا دنیا کے ان چند شہروں میں شامل ہے جہاں پیدل چلنے والے بھی جرمانے کا شکار ہو سکتے ہیں‘ شاید یہی وجہ تھی میں نے چار دنوں میں کسی شخص کو غلط جگہ یا سرخ اشارے پر سڑک پار کرتے نہیں دیکھا۔
پولینڈ مشرقی یورپ کا خوبصورت ملک ہے‘ اس کی ایک سرحد بیلا روس‘ یوکرائن‘ روس اور لیتھونیا سے ملتی ہے‘ دوسری چیک ریپبلک اور سلواکیہ اور تیسری سرحد جرمنی سے ملتی ہے‘ اس کے شمال میں بالٹک سی ہے‘ یہ دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جن کی سرحدیں سات ممالک سے جڑی ہوئی ہیں‘ یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح یہاں بھی خواتین زیادہ نظر آتی ہیں‘ یہ آپ کو ہر جگہ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں‘ خواتین دنیا کے کسی بھی ملک میں ترقی کی بہت بڑی علامت ہوتی ہیں۔
آپ کو اگر معاشرے میں خواتین زیادہ نظر آئیں‘یہ آپ کو سڑکوں‘ گلیوں‘ بازاروں‘ مارکیٹوں‘ ریلوے اور بس اسٹیشنوں اور ائیر پورٹس پر بے نظر آئیں اور یہ آپ کو آدھی رات کو بھی فٹ پاتھوں پر پیدل چلتی نظر آئیں تو آپ جان لیں یہ معاشرہ محفوظ بھی ہے‘ مہذب بھی‘ شائستہ بھی‘ قانونی بھی اور یہاں لاء اینڈ آرڈر بھی انتہائی سخت ہے۔ آپ اس پس منظر کو سامنے رکھ کر بڑی آسانی سے اپنے معاشرے کے حالات اور مستقبل کا اندازہ کر سکتے ہیں‘ میں عورت کی بے پردگی کے خلاف ہوں‘ اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے چاروں مذاہب میں عورت کے پردے کے احکامات موجود ہیں‘ آپ یہودی‘ عیسائی اور مسلمان عورت کو دیکھئے‘ یہ اگر مذہبی ہیں تو یہ سر بھی ڈھانپ کر رکھیں گی اور جسم بھی چھپائیں گی۔
میں نے دنیا میں بے شمار یہودی عورتوں‘ عیسائی ننوں اور مسلمان خواتین کو اسکارف‘ ڈھیلے کوٹ اور گاؤن پہنے دیکھا‘ یہ پردہ بہت اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے دنیا کا کوئی مذہب عورت کو کام کرنے‘ گھر سے باہر آنے اور فرد کی حیثیت سے عملی زندگی میں شامل ہونے سے نہیں روکتا‘ ہمارے ملک میں 52 فیصد خواتین ہیں‘ یہ دس کروڑ فرد ہیں‘ آپ ان دس کروڑ لوگوں اور 52 فیصد آبادی کو عملی زندگی سے الگ کر کے ترقی کیسے کر سکتے ہیں؟ چنانچہ ہمیں خواتین کو فرد بھی سمجھنا ہو گا اور انھیں کام کے مواقع بھی دینا ہوں گے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو گا ہم جب تک اپنی گلیوں‘ چوکوں‘ سڑکوں‘ فٹ پاتھوں‘ بس اسٹاپوں اور شاپنگ سینٹرز کو عورتوں کے لیے محفوظ نہیں بناتے‘ ہمارے ملک میں پانچ سال کی بچی سے لے کر 85 سال کی بڑھیا تک عورت محفوظ نہیں لہٰذا ہم خود کو مہذب اور ترقی پسند کیسے کہہ سکتے ہیں مگر پولینڈ کی عورت محفوظ ہے‘ یہ دن ہو یا رات معاشرے میں نظر آتی ہے۔
یہ لوگ تہذیب اور شائستگی میں بھی بہت بلند ہیں‘ آہستہ آواز میں بات کرتے ہیں‘ لڑتے جھگڑتے اور الجھتے نہیں ہیں‘ مغربی یورپ کے مقابلے میں مہنگائی کم ہے‘ ہوٹل‘ ریستوران اور ٹرانسپورٹ سستی ہے‘ سیاح پولینڈ میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں‘ اس دلچسپی کی بے شمار وجوہات ہیں‘ ایک وجہ سستا ہونا بھی ہے جب کہ دوسری وجوہات میں پولینڈ کی تاریخ‘ یہودیوں کا ماضی‘ وارسا اور کراکووف کے اولڈ ٹاؤن‘ لاء اینڈ آرڈر کی مضبوطی‘ جرائم کا نہ ہونا اور معاشرے کا کھلا پن شامل ہیں‘ آپ شام کے وقت جس طرف نکل جاتے ہیں آپ کو ریستوران‘ کیفے اور لوگوں کی ٹولیاں نظر آتی ہیں‘ وارسا شہر میں دریائے وسٹولا بہتا ہے‘ یہ دریا شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔
آپ رات کے وقت دریا پر جائیں آپ کو دریا کے دونوں کناروں پر چار پانچ کلو میٹر تک نوجوان لڑکے لڑکیاں بیٹھے نظر آئیں گے‘ یہ رات گئے تک یہاں بیٹھتے ہیں‘ شہر پر پولیس کا کنٹرول ہے لیکن آپ کو کسی جگہ پولیس نظر نہیں آتی‘ کراکووف سیاحتی شہر ہے‘ پولینڈ آنے والے 80 فیصد سیاح کراکووف ضرور آتے ہیں‘ یہ پولینڈ کا کلچرل کیپیٹل بھی کہلاتا ہے‘ آپ کو اس کی ہر گلی میں کوئی نہ کوئی قدیم چرچ ملتا ہے‘ میں نے کراکووف میں دو عجیب چرچ دیکھے‘ میں گلی کے درمیان کھڑا تھا‘ میرے دائیں ہاتھ غریب لوگوں کا چرچ تھا اور بائیں ہاتھ امیر لوگوں کا چرچ۔ گائیڈ نے بتایا بادشاہوں کے دور میں امیروں کے چرچ میں صرف امراء داخل ہو سکتے تھے جب کہ غریبوں کا چرچ عام لوگوں کے لیے تھا۔
میں اس تضاد پر حیران رہ گیا‘ اسلام میں کم از کم غریب اور امیر کی مسجد ایک ہوتی ہے‘ ہمارے مذہب میں صدر‘ وزیراعظم اور چپڑاسی کم از کم ایک مسجد‘ ایک جماعت اور بعض اوقات ایک صف میں نماز ضرور ادا کر سکتے ہیں‘ پوپ جان پال دوم کراکووف کے رہنے والے تھے‘ اسی شہر میں تعلیم حاصل کی‘ یہ 16 اکتوبر 1978ء سے 2 اپریل 2005ء تک عیسائی دنیا کے پوپ رہے‘ میں ان کے گھر بھی گیا اور اس کھڑکی تک بھی جہاں کھڑے ہو کر وہ عام زائرین کو اپنا دیدار کرواتے تھے‘ کراکووف کا یہودی محلہ بھی دیکھنے کی جگہ ہے‘ یہاں کے اسرائیلی ریستوران میں دنیا کی مختلف زبانوں میں موسیقی چلائی جاتی ہے‘ یہودیوں نے یہاں زائرین کے لیے ہوٹل‘ سرائے‘ ہاسٹل اور ریستوران بنا رکھے ہیں۔
یہودیوں کے محلے میں ہر وقت پولیس گشت کرتی رہتی ہے‘ سینا گوگا کے سامنے بھی دو پولیس اہلکارکھڑے تھے‘ میں جب تک سینا گوگا کے دروازے پر رہا انھوں نے اس وقت تک مجھ پر نظریں گاڑھے رکھیں‘ حکومت نے عوام کو بے تہاشہ سہولتیں دے رکھی ہیں‘ پورے وارسا شہر کو گرم پانی سپلائی کیا جاتا ہے‘ وارسا کی میونسپل کارپوریشن نے شہر میں پانی گرم کرنے کے دو بڑے پلانٹس لگا رکھے ہیں‘ یہ پلانٹس شہر کو گرم پانی فراہم کرتے ہیں‘ لوگ گھروں میں گیزر نہیں لگاتے‘ یہ ٹونٹی کھولتے ہیں اورا نھیں گرم پانی مل جاتا ہے‘ یہ لوگ یہ پانی صفائی‘ کپڑے دھونے اور نہانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور اس سے اپنے گھر بھی گرم رکھتے ہیں۔
یہ اپنے فرش میں کاپر کے باریک پائپ بچھا دیتے ہیں‘ گرم پانی ان پائپوں میں گردش کرتا ہے اور یہ گھر کو گرم کر دیتا ہے‘ یورپ کے زیادہ تر ممالک کی طرح پولینڈ میں بھی ٹونٹی کا پانی پینے کے قابل ہے‘ آپ ٹونٹی کھول کر جگ بھر لیتے ہیں اور بلا خوف وہ پانی پی جاتے ہیں‘ میں نے پیرس اور ناروے میں بھی یہ تجربہ کیا اور پچھلے مہینے جارجیا میں بھی لیکن میں پاکستان میں یہ غلطی نہیں کر سکتا‘ اسلام آباد پاکستان کا خوبصورت ترین اور امیر ترین شہر ہے لیکن اس شہر میں ٹونٹی کا پانی پینا تو درکنار آپ اس سے منہ تک نہیں دھو سکتے‘ شہر کی نصف آبادی نے گھروں میں پانی کی موٹریں لگا رکھی ہیں لیکن ان موٹروں کا پانی بھی پینے کے قابل نہیں‘ کاش ہماری حکومت کسی ایک شہر کے لوگوں کو صاف پانی فراہم کر دے‘ یہ کم از کم اسلام آباد کے شہریوں ہی کو پینے کا پانی دے دے لیکن شاید انسانی صحت ہماری ترجیحات میں شامل نہیں‘ ہم لوگوں کو صرف ٹینشن اور موت دے سکتے ہیں‘ ہم انھیں خوشیاں اور صحت نہیں دے سکتے۔
وارسا یونیورسٹی بھی دیکھنے کے لائق ہے‘ یہ نئے شہر سے پرانے شہر کی طرف جاتے ہوئے راستے میں آتی ہے‘ ایک عام سا گیٹ ہے جس پر وارسا یونیورسٹی لکھا ہے‘ آپ اندر داخل ہوں تو مختلف بلاکس پر مشتمل ایک طویل کمپاؤند نظر آتا ہے‘ یونیورسٹی میں 56 ہزارطالب علم پڑھتے ہیں لیکن آپ کو کیمپس کے اندر کسی قسم کا ہلا گلا دکھائی نہیں دیتا‘ یونیورسٹی کے دائیں بائیں مختلف مضامین کے ڈیپارٹمنٹ ہیں‘ ڈیپارٹمنٹس کی عمارتیں عام سڑک پر واقع ہیں لیکن سڑک پر کسی قسم کی ٹریفک بلاک یا افراتفری دکھائی نہیں دیتی‘ ٹریفک اور لوگ رواں دواں رہتے ہیں اور آپ کو اگر بتایا نہ جائے تو آپ کو معلوم ہی نہیں ہوتا آپ یونیورسٹی ایریا سے گزر رہے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں ہمارے تعلیمی اداروں کے علاقے ہر وقت افراتفری‘ ہلا گلہ اور ہنگاموں کا مرکز رہتے ہیں‘ دنیا جہاں کے لوگ تعلیمی اداروں‘ چرچوں اور قبرستانوں کے گرد گھر بناتے ہیں ۔
کیونکہ وہاں امن ہوتا ہے جب کہ ہمارے ملک میں اسکولوں‘ کالجوں یونیورسٹیوں‘ مسجدوں اور قبرستانوں کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے موجود پلاٹس فروخت نہیں ہوتے‘ لوگ وہاں رہائش پذیر ہونے سے ڈرتے ہیں‘ آپ کبھی لاہور میں پنجاب یونیورسٹی اور کراچی کے یونیورسٹی ایریا سے گزر کر دیکھیں‘ آپ کے لیے ڈرائیو کرنا مشکل ہو جائے گا‘ ہم اگر اپنی یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو زیبرا کراسنگ‘ اوور ہیڈ بریج اور انڈر پاس استعمال کرنے کی تمیز نہیں سکھاسکتے تو پھر تہذیب اور شائستگی کے جنازے میں کتنی دیر بچ جاتی ہے‘ وارسا یونیورسٹیی کی لائبریری جمالیاتی ذوق کا شاہکار ہے‘ یہ عمارت چوبیس گھنٹے جاگتی رہتی ہے‘ آپ کسی بھی وقت وہاں چلے جائیں آپ کو وہاں لوگ پڑھتے اور ریسرچ کرتے نظر آئیں گے‘ لائبریری کی بیرونی دیوار بھی شاہکار ہے‘ اس دیوار پر دنیا کی تمام بڑی زبانیں تحریر ہیں‘ یہاں عربی بھی ہے اور ہندی بھی۔
اس دیوار پر لکھی زبانوں میں سے دو تحریروں نے زیادہ حیران کیا‘ ایک سائنسی زبان تھی اور دوسری میوزک کی زبان‘ یہ دونوں تحریریں دیوار کے آخر میں لکھی ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں‘سائنس کی زبان دنیا کی دوسری آخری زبان ہے جب کہ موسیقی کی زبان دنیا کی آخری زبان۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں‘ سائنس اور موسیقی کی زبانیں واقعی آخری زبانیں ہیں اور آپ کو یہ زبانیں سمجھنے اور سیکھنے کے لیے کسی حرف کی ضرورت نہیں پڑتی‘ آپ بس زمین پر چند آڑی ترچھی لکیریں کھینچیں اور یہ آڑی ترچھی لکیریں لفظ اور آواز بن جائیںگی۔وارسا کی دو خواتین نے اسداللہ غالب اور سلطان راہی پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے‘ سلطان راہی نے دنیا میں سب سے زیادہ فلموں میں کام کیا‘ یہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہیں‘ انھوں نے 58سال کی زندگی میں 813 فلموں میں کام کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ وہ 9 جنوری 1996 ء کو جی ٹی روڈ پر گوجرانوالہ کے قریب قتل کر دیے گئے تھے۔
ہم آج تک ان کا قاتل گرفتار نہیں کر سکے لیکن ایک پولش خاتون نے ہمارے اس فنکار پر پی ایچ ڈی کر لی جس کا فقرہ ’’ مولا نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مر سکدا‘‘ اس کے مرنے کے بعد بھی زندہ ہے‘ سلطان راہی انتقال کر گئے لیکن ان کے کردار آج تک زندہ ہیں اور یہ کردار بھی اگر مر جائیں تو بھی ان کی شخصیت پر ہونے والی پی ایچ ڈی انھیں ہمیشہ زندہ رکھے گی‘ یہ پاکستان میں نہیں تو پولینڈ میں ضرور زندہ رہیں گے جب کہ دوسری خاتون نے غالب پر پی ایچ ڈی کر کے ’’نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا‘‘جیسے شعروں کو پولینڈ پہنچا دیا‘ یہ دو پی ایچ ڈی اردو اور پنجابی دونوں کی بڑی کامیابیاں ہیں۔
وارسا کے اولڈ ٹاؤن میں ایک عجیب گھر دیکھا‘ یہ پرانی عمارت تھی‘ عمارت کے دائیں اور بائیں کوئی گھر نہیں تھا‘ دونوں اطراف کے پلاٹس خالی تھے‘ گائیڈ نے بتایا یہ عمارت سو سال قبل ’’قحبہ خانہ‘‘ تھی‘ لوگوں نے اس کی ہمسائیگی میں آباد ہونے سے انکار کر دیا چنانچہ اس کے دائیں بائیں کے پلاٹس خالی رہ گئے‘ یہ آج تک خالی ہیں‘ میں یہ خالی پلاٹس دیکھ کر ہنس پڑا اور میں نے سوچا ‘کاش ہم لوگ بھی برے لوگوں کے ساتھ آباد ہونے سے انکار کر دیں‘ شاید اسی سے ہمارا معاشرہ صاف ستھرا اور پاک ہو جائے۔

آدمی بنو
جاوید چوہدری اتوار 27 جولائ 2014

سید انور محمود ملک کے معروف بیورو کریٹ تھے‘ یہ نستعلیق شخصیت کے مالک ہیں‘ شائستہ بھی ہیں‘ حلیم بھی اورصاحب علم بھی۔ یہ عملی زندگی کے تمام ادوار میں لائم لائیٹ میں رہے‘ کیریئر کے شروع میں ذوالفقار علی بھٹو کے دست راست عبدالحفیظ پیرزادہ کے دست راست بن گئے‘ حفیظ پیرزادہ بھٹو صاحب کے بعد ملک کی طاقتور ترین شخصیت تھے‘ وہ آج کے اسحاق ڈار تھے اور شاہ صاحب ان کے بااعتماد ساتھی۔ شاہ صاحب کیریئر کے آخری حصے میں صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کے دست راست ہو گئے۔
یہ طویل مدت تک اطلاعات ونشریات کے وفاقی سیکریٹری رہے‘ شوکت عزیز اور جنرل پرویز مشرف ان پر بے انتہا اعتماد کرتے تھے‘ بیورو کریسی بھی ان کا احترام کرتی تھی‘ سید انور وفاقی سیکریٹری کی حیثیت سے سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو گئے‘ ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصہ بعد شاہ صاحب کو معدے میں درد محسوس ہوا‘ یہ درد ملازمت کے دوران بھی انھیں تنگ کرتا تھا مگر یہ اسے معمولی سمجھ کر جھٹک دیتے تھے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد اس دردمیں شدت آ گئی‘ یہ ڈاکٹر کے پاس گئے‘ ڈاکٹر نے طبی معائنہ کیا‘ اینڈو اسکوپی ہوئی‘ پتہ چلا معدے کے ایک حصے میں کینسر نکل آیا ہے‘ کینسر دنیا کا ایسا مرض ہے جو انسان کو جسمانی سے زیادہ ذہنی اذیت دیتا ہے۔
آپ خواہ کتنے ہی مضبوط اعصاب کے مالک کیوں نہ ہوں‘ آپ کو جوں ہی کینسر کی اطلاع ملتی ہے‘ آپ کھڑے کھڑے 75 فیصد انتقال کر جاتے ہیں‘یہ خبر شاہ صاحب کے لیے بھی دھماکے سے کم نہیں تھی‘ شاہ صاحب نے تازہ تازہ پلاٹ فروخت کیا تھا‘ رقم موجود تھی چنانچہ یہ فوری طور پر امریکا چلے گئے‘ طبی معائنہ ہوا‘ کینسر کی تصدیق ہو گئی‘ ڈاکٹروں نے شاہ صاحب کو دو آپشن دیے‘ پہلے آپشن میں معدے کا آپریشن ہونا تھا‘ کیمو تھراپی ہونی تھی اور کامیاب آپریشن کے بعد شاہ صاحب کو معائنے کے لیے ہر چھ ماہ بعد امریکا آنا تھا جب کہ دوسرے آپشن میں ڈاکٹروں نے آپریشن کے ذریعے شاہ صاحب کے جسم سے پورا معدہ خارج کر دینا تھا‘ شاہ صاحب نے پوچھا ’’ میرا معدہ خارج ہو جائے گا تو میں کھاؤں گا کیسے؟‘‘ ڈاکٹروں نے جواب دیا ’’ آپ کی آنتیں سلامت رہیں گی‘ آپ باقی زندگی نرم غدا کھائیں گے اور دن میں تین کی بجائے چھ بار کھائیں گے‘‘ شاہ صاحب معدہ نکلوانے پر رضا مند ہو گئے۔
آپریشن ہوا اور سید انورمحمود کا معدہ نکال دیا گیا‘ یہ صحت مند ہیں‘ اسلام آباد میں رہتے ہیں‘ کھانے میں بہت احتیاط کرتے ہیں‘ وزن کم ہو چکا ہے مگر ہمت ابھی تک جوان ہے‘ یہ آج بھی بھرپور طریقے سے کام کرتے ہیں‘ میرے بہت عزیز دوست ہیں۔ جاوید اکبر‘ یہ پولیس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں‘ کراچی میں تعینات ہیں‘ ایماندار بھی ہیں‘ عاجز بھی اور اہل بھی اور یہ وہ تین خوبیاں ہیں جو ہمارے ملک میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں‘ جاوید اکبر تین بھائی ہیں‘ بڑے بھائی ایف آئی اے میں اعلیٰ افسر تھے‘ درمیانے بھائی بزنس مین ہیں اور یہ خود تیسرے اور آخری بھائی ہیں‘ تینوں بھائیوں میں اتفاق اور محبت ہے‘ درمیانے بھائی کو پانچ سال قبل اچانک شوگر کا مرض لاحق ہو گیا‘ یہ خاندان میں شوگر کے پہلے مریض تھے‘ انسولین شروع ہوگئی‘ یہ مطمئن زندگی گزار رہے تھے مگر پانچ ماہ قبل انھیں کمر میں درد محسوس ہوا‘ یہ ڈاکٹر کے پاس گئے۔
ڈاکٹر نے انھیں ’’پین کلر‘‘ دے دیا‘ یہ ہفتہ بھر دوا کھاتے رہے مگر آرام نہ آیا‘ یہ دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گئے‘ ادویات بدل دی گئیں لیکن آرام نہ آیا‘ ڈاکٹر بدلا‘ نئے ڈاکٹر نے ٹیسٹ کرائے‘ سٹی سکین کروایا تو لبلبے کا کینسر نکل آیا‘ لبلبے کا کینسر خطرناک ترین کینسر ہوتا ہے‘ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا‘ جاوید اکبر بھائی کو نیو یارک لے گئے‘ کینسر پھیل چکا تھا‘ امریکی ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا‘ یہ ہمت والے لوگ ہیں‘ ہمت نہ ہاری‘ بھائی اس وقت کیمو تھراپی سے گز رہے ہیں‘ آہستہ آہستہ افاقہ بھی ہو رہا ہے‘ احباب سے دعا کی درخواست ہے۔
یہ میری زندگی کے اس نوعیت کے صرف دو واقعات نہیں ہیں‘ میں ایسے درجنوں واقعات کا عینی شاہد ہوں‘ جن میں ایک صحت مند شخص ہنستا کھیلتا گھر سے نکلا اور روتا ہوا واپس آیا اور اس کے بعد اس کی زندگی عذاب مسلسل بن کر رہ گئی‘ آپ نے بھی ایسے بے شمار واقعات دیکھے ہوں گے‘ آپ بھی کئی بار ایسے خوفناک لمحوں سے گزرے ہوں گے مگر ان سے آپ نے کوئی سبق سیکھا ہو گا اور نہ ہی میں نے سیکھا‘ میں پچھلے ہفتے پیرس میں تھا‘ میرے دوست ڈاکٹر اسلم بھی وہاں تھے۔
یہ پولٹری کے بزنس سے وابستہ ہیں‘ اچھے‘ نفیس اور نیک انسان ہیں‘ ہم زندگی کی بے ثباتی کا ذکر کر رہے تھے‘ میں نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا‘ آپ کبھی تنہائی میں بیٹھیں‘ ایک بڑا کاغذ لیں‘ کاغذ پر تین خانے بنائیں‘ پہلے خانے میں آپ ان لوگوں کے نام لکھیں جنھیں آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا‘ آپ جن کے جنازے میں شریک ہوئے یا پھر آپ فاتحہ کے لیے ان کی قبروں پر گئے‘آپ دوسرے خانے میں ان لوگوں کے نام لکھئے جو امیر تھے‘ رئیس تھے‘ با اختیار تھے‘ طاقتور تھے‘ نامور‘ باعزت اور مشہور تھے اور پھر آپ نے اپنی نظروں کے سامنے ان کی شہرت‘ عزت‘ ناموری‘ طاقت‘ اختیار اور دولت کو رخصت ہوتے ہوئے دیکھا اور وہ لوگ گم نامی‘ عسرت‘ بے بسی‘ بے اختیاری اور غربت کی چلتی پھرتی تصویر بن گئے اور آپ تیسرے خانے میں ان لوگوں کے نام لکھیں جو بے گناہ تھے مگر قدرت کی پکڑ میں آ گئے۔
قتل کسی نے کیا لیکن پکڑے یہ گئے‘ فراڈ کوئی کر گیا مگر گھر‘ دکان اور فیکٹری ان کی بک گئی‘ گولی کسی نے کسی پر چلائی لیکن لگ انھیں گئی‘ یہ اپنی لین میں گاڑی چلا رہے تھے‘ پیچھے سے گاڑی آئی‘ ایکسیڈنٹ ہوا اور یہ پوری زندگی کے لیے معذور ہو گئے‘ غلط سودا کیا اور عرش سے فرش پر آ گئے‘ سونا خریدا اور وہ مٹی ہو گیا‘ کاغذ کے کاروبار میں سرمایہ لگا دیا‘ سیلاب آیا اور کاغذ تباہ ہو گیا‘ پانی پیا‘ ہچکی آئی‘ پانی سانس کی نالی میں پھنس گیا اور یہ کومے میں چلے گئے‘ حج پر گئے اور لوگوں کے قدموں میں روندے گئے‘ کھجور کھائی‘ فوڈ پوائزننگ ہوئی اور باقی زندگی بستر پر گزار دی اور نماز پڑھنے گئے اور بم دھماکے کا شکار ہو گئے۔
آپ کاغذ کے تینوں خانوں میں تینوں کیٹگریز کے لوگوں کے نام لکھیں اور اس کے بعد سوچیں کیا آپ کا نام ان تینوں خانوں میں درج نہیں ہو سکتا‘ کیا آپ کسی بھی وقت مرحوم نہیں ہو سکتے‘ کیا آپ کسی بھی وقت غریب‘ بے اختیار اور بے بس نہیں ہو سکتے اور کیا آپ ان لوگوں کی طرح کسی ان ہونی کا شکار نہیں ہو سکتے؟ ڈاکٹر صاحب اور میں بڑی دیر تک استغفار کرتے رہے‘ مجھے یقین ہے آپ بھی اس وقت توبہ کر رہے ہوں گے‘ ہم انسان ہیں اور ہم بھی عام انسانوں کی طرح کسی بھی وقت ان تینوں خانوں میں سے کسی ایک خانے میں درج ہو سکتے ہیں‘ یہ دنیا جس سے جاتے ہوئے فاتح عالم سکندر اعظم نے وصیت کی تھی میرے ہاتھ کفن سے باہر رکھنا تا کہ لوگ جان سکیں دنیا کا سب سے بڑا فاتح خالی ہاتھ آیا تھا اور دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہوا تھا‘ جس میں حجاج بن یوسف معدے کے کینسر میں مبتلا ہوا‘ کپکپی کا شکار ہوا‘ اس کے گرد آگ جلا دی گئی۔
آگ سے اس کا پورا جسم جل گیا لیکن اس کی کپکپی ختم نہ ہوئی‘ جس میں محمود غزنوی نے مرنے سے قبل اپنے خزانے کھلوا دیے‘ سونے‘ چاندی اور جواہرات کے درمیان بیٹھا اور رو رو کر کہنے لگا یہ وہ دولت تھی جس کے لیے میں نے عمر برباد کر دی‘ جس میں امیر تیمور جیسا باعزم شخص چین فتح کرنے نکلا‘ راستے میں انتقال ہوا‘ سمر قند میں دفن ہوا اور پچاس سال بعد اس کی قبر اور اس کی سلطنت دونوں خاک میں مل گئیں‘ جس میں ہٹلر جیسا شخص خود کو گولی مارنے پر مجبور ہو گیا‘ جس میں صدام حسین جیسے مضبوط شخص کی لاش وصول کرنے کے لیے پورے عراق سے کوئی شخص نہیں نکلا‘ جس میں کرنل قذافی کی نعش کو سرت شہر کی گلیوں میں گھسیٹا گیا۔
جس میں حسنی مبارک کو اسٹریچر پر ڈال کر عدالت لایا جاتا ہے اور پورے مصر میں کوئی شخص اس کے لیے کلمہ خیر نہیں کہتا‘ جس میں تیونس کا صدرزین العابدین بن علی سعودی عرب میں پناہ گزین ہے اور جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی شخصیت سر عام گولی کا نشانہ بنا دی گئی اور ان کی میت دس گھنٹے راولپنڈی جنرل اسپتال کے پوسٹ مارٹم روم میں پڑی رہی اور جس میں آج وہ جنرل پرویز مشرف سڑک پر نہیں نکل سکتے جن کے استقبال کے لیے صدر جارج بش‘ صدرہو جن تاؤ‘ صدر سرکوزی‘ شاہ عبداللہ‘ ٹونی بلیئر اور کوفی عنان گھنٹوں کھڑے رہتے تھے‘ جن کے لیے سلامتی کونسل میں تالیاں بجائی جاتی تھیں‘ جنھیں خانہ کعبہ کے چھت پر اس مقام تک پہنچایا گیا تھا جہاں کھڑے ہو کر فتح مکہ کے موقع پر حضرت بلالؓ نے اذان دی تھی اور جن کے لیے روضہ رسولؐ کے دروازے تک کھول دیے جاتے تھے۔
جو اشارہ کرتے تھے اور ملک کا وزیراعظم اور چیف جسٹس بدل جاتا تھا اور امریکا کو ڈرون حملوں کا اختیار مل جاتا تھا اور جس میں ہم نے اپنی آنکھوں سے میاں برادران کو گرفتار ہوتے‘ جلاوطن ہوتے اور اسلام آباد ائیر پورٹ پر ایف آئی اے کے معمولی اہلکاروں کے دھکے کھاتے دیکھا اور جس میں ہم نے ارب پتی لوگوں کو صدر زرداری کے قدموں میں اپنی ٹوپیاں رکھتے دیکھا‘ یہ ہیں ہم اور یہ ہے ہماری زندگی لیکن اس کے باوجود ہماری اکڑ ختم نہیں ہوتی‘ اس کے باوجود ہمارے تکبر کی لو نیچے نہیں ہوتی اور اس کے باوجود ہمارے لہجوں کی فرعونیت کو زنگ نہیں لگتا‘ ہماری اوقات یہ ہے ہم مکھی کا پر نہیں بنا سکتے لیکن ہم روز اپنے اندر انا کے درجنوں خدا پیدا کر لیتے ہیں‘ ہمیں پل کی خبر نہیں ہوتی لیکن زمین سے آسمان تک تکبر کے پُل بنالیتے ہیں۔
تم آدم کے بچے بنو‘ آدمی بنو‘ آدمیوں کے خدا نہ بنو کیونکہ انہونی کے تینوں خانے تمہارے سامنے بھی پڑے ہیں‘ تمہارا نام بھی کسی بھی وقت‘ کسی بھی خانے میں درج ہوسکتا ہے۔
اور پھر ہم‘ ہم نہ رہے
جاوید چوہدری پير 14 جولائ 2014

ہمارے ملک کے شمالی علاقوں میں پہاڑوں کے درمیان جنگل‘ جھیلیں اور بڑی بڑی چٹانیں ہیں جب کہ شمالی ناروے میں جنگل‘ چٹانوں اور جھیلوں کے ساتھ ساتھ پہاڑوں میں سمندر بھی ہے‘ ناروے پہاڑی ملک ہے‘ یہاں آٹھ ہزار فٹ اونچے پہاڑ ہیں‘ اسے اٹلانٹک اوشین نے اپنی گود میں لے رکھا ہے‘ ٹھنڈے سمندر کا یخ پانی پہاڑوں کے اندر تک گھس آیا ہے‘یہ خشکی پر سمندری پانی کی شاخیں ہیں۔
یہ پانی پہاڑوں کے اندر سے ہو کر سمندر سے آ ملتا ہے‘ سمندر کی ان شاخوں کو ’’فیوڈ‘‘ کہا جاتا ہے اور ناروے ’’فیوڈز‘‘ کا ملک ہے‘ دنیا کا سب سے خوبصورت فیوڈ ’’گائی رینگر‘‘ بھی ناروے میں ہے‘ یہ مغرب میں واقع ہے‘ یونیسکو نے اسے 2005ء میں عالمی ورثہ ڈکلیئر کر دیا تھا‘ اللہ تعالیٰ اگر آپ کو گائی رینگر جانے کا موقع دے تو آپ اس کی خوبصورتی دیکھ کر اللہ کی صناعی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے‘ آپ کے چاروں اطراف سیدھے‘ اونچے برف پوش پہاڑ ہوں گے‘ پہاڑوں کے اوپر سے پانی کی درجنوں آبشاریں اور جھرنے نیچے گر رہے ہوں گے‘ پہاڑوں کے قدموں میں سمندر ہوگا اور آپ اس سمندر میں بحری جہاز کے عرشے پر کھڑے ہوں گے‘ آپ اس منظر کی خوبصورتی کا تصور نہیں کر سکتے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو اگر کبھی یہ موقع عنایت کیا تو آپ سجدہ شکر بجا لانا نہ بھولیے گا کیونکہ ایسے مناظر آنکھوں کی عبادت ہوتے ہیں اور ایسی عبادت اللہ تعالیٰ خوش نصیبوں کو نصیب کرتا ہے‘ یہ فیوڈز پورے ناروے میں ہیں‘ میں اور جہانزیب دو ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر کے بدھ کی شام قطب شمالی پر اینڈ آف دی ورلڈ پر پہنچے‘ ہم گلوب کو ہاتھ لگانے کے بعد کافی شاپ میں بیٹھ گئے‘ ہمارے پاس اب تین آپشن تھے‘ ہم قطب شمالی کی برفوں میں قدم رکھ دیتے اور سردی سے انتقال فرما جاتے‘ دوسرا ہم واپسی کا سفر شروع کر دیتے‘ ہونگ وئوگ واپس جاتے‘ بحری جہاز میں بیٹھتے‘ تھرمسو واپس آتے‘ وہاں سے فیری یا گاڑی لیتے اور ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے ’’بودو‘‘ پہنچتے اور وہاں سے فلائیٹ لے کر اوسلو آ جاتے۔
یہ تین چار دن کا سفر تھا اور تین ہم فلائیٹ لیتے‘ اوسلو جاتے‘ وہاں سے گاڑی لیتے اور فلوم اور برگن سے ہوتے ہوئے گائی رینگر فیوڈ چلے جاتے‘ ہم نے تیسرا آپشن لے لیا‘ میرے دوست اور بڑے بھائی مجید صاحب بھی اوسلو پہنچ چکے تھے‘ مخدوم عباس بھی سویڈن سے ناروے آنے کے لیے تیار تھے چنانچہ ہم دونوں اوسلو کے لیے روانہ ہو گئے‘ آلٹا قطب شمالی سے قریب ترین شہر تھا‘ یہ ناروے کا ائیر بیس ہے‘ روس کی سرحد کے قریب واقع ہے اور یہ ’’اینڈ آف دی ورلڈ‘‘ سے تین گھنٹے کی ڈرائیو کی دوری پر ہے‘ ہم آلٹا کے لیے روانہ ہوگئے۔
ہمارے چاروں اطراف برف سے ڈھکے پہاڑ تھے‘ پہاڑوں سے نکلتے جھرنے اور آبشاریں تھیں، ندیاں‘ جھیلیں اور دریا تھے اور ان کے آخر میں سمندر تھا‘ ہمارے لیے یہ تمیز کرنا انتہائی مشکل تھا کہ جھیل کہاں سے شروع ہوتی ہے اور سمندر کہاں ختم ہوتا ہے‘ جھیلیں سمندر لگتی تھیں اور سمندر جھیل۔ ناروے جغرافیائی اور زمینی لحاظ سے مشکل ترین ملک ہے‘ یہ ملک آج سے چالیس پچاس سال قبل تک چھوٹے چھوٹے جزیروں اور چھوٹی چھوٹی جغرافیائی اکائیوں میں تقسیم تھا لیکن آج نارویجن حکومت نے پہاڑوں‘ سمندر اور جھیلوں کے نیچے تیس تیس کلو میٹر لمبی سرنگیں کھود کر پورے ملک کو آپس میں جوڑ دیا ہے‘ آپ آج ناروے میں کسی جگہ جانا چاہیں آپ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جا سکتے ہیں۔
آپ کے سامنے پہاڑ آئے گا تو اس پہاڑ کے اندر غار ہو گا اور اس غار میں سڑک ہوگی‘ آپ سمندر کے قریب پہنچیں گے تو سمندر کے نیچے پانی کی تہہ میں سرنگ ہوگی اور اس سرنگ میں سڑک ہوگی اور آپ اگر جھیل کے کنارے پہنچ گئے ہیں تو آپ کے سامنے بحری جہاز کھڑا ہو گا‘ آپ گاڑی بحری جہاز میں لے جائیں گے اور یہ بحری جہاز آپ کو دس منٹ میں دوسرے کنارے پر اتار دے گا‘ ناروے میں 900 ٹنلز اور 82 بڑے پل ہیں‘ ان ٹنلز اور پلوں نے پورے ملک کو جوڑ رکھا ہے اور ہم ان ٹنلز اور ان پلوں سے ہوتے ہوئے رات گیارہ بجے آلٹا شہر پہنچ گئے اور لوگ سونے کے لیے بستروں میں گھس چکے ہیں‘ ہم نے بڑی مشکل سے ہوٹل تلاش کیا‘ صبح ساڑھے سات بجے ہماری فلائیٹ تھی۔
ہم صبح ساڑھے دس بجے اوسلو پہنچے‘ جہانزیب نے گاڑی لی‘ ہم نے مجید صاحب کو اٹھایا اور ہمارا قطب شمالی سے مخالف سمت میں سفر شروع ہو گیا‘ ہم فلومز بانا جا رہے تھے‘ فلومز بانا اوسلو سے چار گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے‘ راستے میں ’’لیلا ہیمر‘‘ کا شہر آیا‘ یہ شہر سردیوں کی سپورٹس کے لیے مشہور ہے‘ شہر میں ملک کا دوسرا بڑا سکیٹنگ اسٹیڈیم ہے‘ آپ چیئر لفٹ کے ذریعے پہاڑ کی چوٹی پر جاتے ہیں‘ وہاں سے ایک سو بیس کلو میٹر کی رفتار سے برف پر پھسلتے ہوئے نیچے آ جاتے ہیں۔
اسٹیڈیم میں نیچے سے اوپر تک اڑھائی ہزار سیڑھیاں ہیں‘ ہم تینوں چیئر لفٹ کے ذریعے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچے او ر وہاں سے نیچے آئے‘ روزے کی حالت میں ٹانگوں پر کھڑا ہونا مشکل تھا‘ مجید صاحب 27 گھنٹے کا روزہ رکھ کر پاکستان سے ناروے پہنچے تھے۔ ناروے نے مختلف خوبصورت علاقوں کو ’’نیشنل ٹوریسٹ روٹ‘‘ قرار دے رکھا ہے‘ ان روٹس پر سیاحوں کے لیے تمام سہولتیں موجود ہیں‘ ہم فلوم جانے کے لیے ایک ایسے ہی ’’ٹوریسٹ روٹ‘‘ پر چل پڑے‘ یہ حیران کن روٹ تھا‘ پہاڑ کی چوٹیاں تھیں‘ جولائی کا وسط تھا لیکن وہاں گلیشیئر اور برف کی موٹی موٹی تہیں تھیں‘ پگھلتی ہوئی برفوں کی ناف سے آبشاریں نکل رہی تھیں۔
یہ آبشاریں نیلی جھیلوں میں گر رہی تھیں اور نیلی جھیلوں پر سفید پرندے اڑ رہے تھے ‘ یہ مناظر صرف مناظر نہیں تھے‘ یہ ایک فل سکوپ فلم تھی‘ یہ سیکڑوں میل لمبی‘ اونچی اور چوڑی پینٹنگ تھی جس میں ہم تین زندہ انسان متحرک نقطوں کی طرح آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے‘ وہ دن میری زندگی کی ساری تپسیاں‘ ساری محنتوں اور مشقتوں کا حاصل تھا‘ وہ ان تمام رت جگوں اور رگڑے ہوئے گھنٹوں کا انعام تھا جو میں نے زندگی کی سخت اور کھردری زمین کو رواں بنانے کے لیے گزارے تھے۔
پہاڑ کی چوٹی پر ایک اداس آبشار نے میرے دل کے سارے ٹوٹے تار جو ڑ دیے اور میری روح میں سوئے ہوئے وہ تمام مردہ راگ جاگ اٹھے جنہیں میں نے زندگی کی تلخ مٹی میں دفن کر دیا تھا‘ میں اس آبشار اور اس آبشار کے بطن سے نکلی جھیل کے کنارے بیٹھ گیا اور پھر میں صدیوں تک وہاں بیٹھا رہا‘ قدیم کتابوں میں لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے زمین کے جس جس گوشے کی مٹی لے کر حضرت آدم ؑ کو بنایا تھا نسل آدم وہاں وہاں ضرور پہنچے گی‘ شاید میری مٹی میں اس آبشار کے ٹھنڈے پانی شامل تھے کیونکہ مجھے جتنا سکون اس جگہ ملا وہ دنیا کے کسی کونے میں نصیب نہیں ہوا‘ اس آبشار سے آگے ’’اورلینڈ‘‘ کا گائوں تھا۔
یہ گاؤں سطح سمندر سے چار ہزار فٹ کی بلندی پر تھا‘ اس کے ایک کونے میں دنیا کا شاندار ترین منظر تھا‘ دنیا بھر سے ہر سال ہزاروں فوٹوگرافرتصویر یں بنانے کے لیے یہاں آتے ہیں‘ اس مقام سے پہاڑیوں کے تین سلسلے‘ دور گہرائی میں’’فیوڈ‘‘ اور لینڈ کا قصبہ اور پہاڑوں کے دامن میں پناہ لیتا سورج نظر آتا ہے‘ آپ اس مقام سے سورج کے تبدیل ہوتے رنگ بھی دیکھ سکتے ہیں اور دھند میں لپٹے سمندر کے سرمئی پانیوں میں سورج کی گھلتی ہوئی کرنیں بھی ۔یہ مقام اور اس مقام کے مناظر واقعی ’’لائف ٹائم‘‘ تجربہ تھے‘ ہم ’’اورلینڈ‘‘ سے فلومزبانا پہنچ گئے‘ فلوم اس وقت تک سوچکا تھا۔
شہر میں سناٹا تھا اور ہم تھے ٗ ہم نے رات کے بارہ بجے ہوٹل کیسے تلاش کیا ٗ کھانے کا بندوبست کیسے کیا‘ یہ بھی ایک الگ کہانی ہے‘ نارویجن حکومت نے1940ء میں فلومز بانا میں ریل کی پٹڑی بچھائی تھی‘ اس پٹڑی پر ٹرین 60 کے زاویے پر پہاڑوں کی انتہائی بلندی تک جاتی ہے‘ ٹرین کے دونوں اطراف وادیاں ہیں‘ ان وادیوں میں چھوٹے چھوٹے گائوں ہیں ٗ بھیڑیں ہیں ٗ گائے ہیں اور سکون ہے ٗ ہم اگلی صبح گیارہ بجے اس ٹرین پر سوار ہو گئے‘ ٹرین آگے بڑھ رہی تھی اور سیاح تصویریں کھینچ رہے تھے‘ میں اس ٹرین پر دوسری بار سوار ہوا تھا‘ راستے میں ناروے کی ایک بڑی آبشار آتی ہے‘ اس آبشار پر پریوں کا رقص ہوتا ہے اور یہ ٹرین وہاں پانچ منٹ رک کر آگے بڑھ جاتی ہے۔
ٹرین گھنٹہ بھر چلتی رہی‘ آخری سٹیشن پر پہنچی اور پھر وہاں سے واپسی کا سفر شروع ہوگیا‘ فلومز بانا کی یہ ٹرین ناروے کی ایک بڑی تفریحی ہے‘ برگن فلومز بانا سے تین گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ اوسلو کے بعد ناروے کا دوسرا بڑا شہر ہے‘ ہم برلن کے لیے روانہ ہو گئے ‘سمندر پر آبادیہ شہر مچھلی کی بڑی مارکیٹ ہے‘ یہاں سے روزانہ ہزاروں من مچھلی دنیا کے مختلف ممالک میں جاتی ہے‘ مخدوم عباس سویڈن سے اسپین پہنچے اور وہاں سے فلائٹ لے کر برگن پہنچ گئے‘ ہم لوگوں نے انھیں ساتھ لیا‘ مچھلی خریدی اور ’’گائی رینگر‘‘ روانہ ہوگئے ‘گائی رینگر وہاں سے سات گھنٹے کی مسافت پر تھا‘ ہم نے رات راستے میں بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔
برگن سے تین گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد ایک چھوٹا سا گائوں آیا‘ یہ گائوں میری زندگی کے خوبصورت ترین گائوں میں سے ایک تھا‘ پہاڑوں کے بلند سلسلے کے قدموں میں فیوڈ تھا‘ فیوڈ کے کنارے پر لکڑی کے دو ٗ دو کمروں کے ہٹس تھے‘ان ہٹس میں زندگی کی تمام ضروری سہولتیں موجود تھیں‘ ہم نے سمندر کے کنارے ایک ہٹ کرائے پر لے لیا‘ ہٹ کے مالک سے مچھلی تلنے کا سامان لیا اور سمندر کے کنارے’’باربی کیو‘‘ شروع کر دیا۔
ہم رات کے ایک بجے ڈنر کررہے تھے‘ اوپر نیلا آسمان تھا‘ دائیں بائیں پہاڑ تھے ٗسامنے ٹھنڈا سمندر تھا اور جہاں تک نظر جاتی تھی وہاں تک چیڑھ کے درخت تھے اور اونگھتے ہوئے سفید سمندری پرندے تھے اور اس خوبصورت پینٹنگ میں کوئلوں کا دھواں تھا اور تلی ہوئی سلومن ٗ کورڈ اور ٹرائوٹ مچھلی کی مہک تھی اور ہماری زندگی کے کھوئے ہوئے بچھڑے ذائقے تھے۔یہ پورا منظر تصویر بن کر میرے حافظے میں حفظ ہوگیا‘ یہ اسکرین سیور کی طرح دماغ کی اسکرین پر’’سیو‘‘ ہو گیا اور میں اب جب بھی آنکھ بند کرتا ہوں یہ منظر الہام کی طرح دل و دماغ پر اتر آتا ہے اور میں اس منظر کی مستی میں جھومنے لگتا ہوں۔
ہماری اگلی اور آخری منزل گائی رینگر تھا‘ ہم اگلے دن وہاں سے روانہ ہوئے اور رات دس بجے گائی رینگر پہنچ گئے۔ ہم نے راستے میں ایک بار پھر نیشنل ٹوریسٹ روٹ لے لیا‘ یہ دوسرا روٹ تھا لیکن اس روٹ پر بھی درجنوں آبشاریں اور درجنوں جھیلیں تھیں‘ ہم ان جھیلوں اور آبشاروں سے گزرتے ہوئے گائی رینگر پہنچے تو دنیا کے اس ثقافتی ورثے نے ہماری نگاہیں اس طرح کھینچ لیں جس طرح مقناطیس لوہے کوکھینچتا ہے‘ ہم لوہے کے چھوٹے چھوٹے ذروں کی طرح اپنی اپنی ذات کی کھوکھلی ڈبیوں سے باہر نکلے اور اڑتے ہوئے گائی رینگر کے کروڑٹن بھاری مقناطیس سے چپک گئے ہم‘ ہم نہ رہے ٗ گائی رینگر بن گئے‘ گائی رینگر فیوڈ۔

دنیا کے آخری کونے پر
جاوید چوہدری جمعـء 11 جولائ 2014
ہونگ وئوگ قطب شمالی کی طرف آخری بندر گاہ ہے‘ یہ ہزار لوگوں پر مشتمل چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے۔ یہ بھی شمالی ناروے کی طرح پہاڑی علاقہ ہے‘ شہر میں خنکی اور دھند تھی‘ شمالی ناروے کے سفر پر پہلی بار جیکٹ پہننی پڑی۔ شمالی ناروے قدرت کی عجیب صناعی ہے‘ چاروں طرف برف ہے لیکن سورج بھی چمک رہا ہوتا ہے اور وہاں گرمی ہوتی ہے‘ آپ تھرمسو میں برف میں ’’ہاف سلیو‘‘ شرٹ پہن کر پھرتے ہیں لیکن ہونگ وئوگ میں صورتحال مختلف تھی‘ وہاںٹھنڈ تھی اور آپ جیکٹ اور چار دیواری دونوں کی پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ہونگ وئوگ سے قطب شمالی کے لیے بسیں بھی چلتی ہیں اور پرائیویٹ گاڑیا ں بھی۔ اس علاقے میں دو بڑی دلچسپیاں ہیں‘ ایک نارتھ پول اور دوسری دنیا کی سب سے بڑی برڈ سفاری۔ ہونگ وئوگ سے چالیس منٹ کی ڈرائیو پر ‘‘یس وار‘‘ کا گائوں ہے‘ یہ گائوں سمندر کے کنارے آباد ہے‘ اس کی آبادی 120 لوگوں پر مشتمل ہے‘ یہ لوگ مچھیرے ہیں لیکن ان کے گھر خوبصورت‘ صاف ستھرے اور حسن ذوق کے شاہکار ہیں‘ یس وار سے چھوٹے بحری جہاز چلتے ہیں‘ یہ جہاز مسافروں کو لے کر ٹھنڈے سمندر میں چلے جاتے ہیں‘ گائوں سے دس منٹ کی بحری مسافت پر تین درمیانے سائز کی پہاڑیاں ہیں۔
یہ پہاڑیاں سائبیریا‘ قطب شمالی اور نارویجن پرندوں کا گھر ہیں‘ ان پہاڑیوں پر 30 لاکھ پرندے رہتے ہیں‘ ہم نے ’’ہونگ وئوگ‘‘ سے کرائے پر گاڑی لی‘ جہانزیب نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور ہم ’’یس وار‘‘ پہنچ گئے‘ راستے میں گلیشیئر‘ چھوٹی بڑی درجنوں جھیلیں دور دور تک پھیلا ہوا سبزہ اور بارہ سنگھوں کی ڈاریں تھیں‘ شمالی ناروے کے بارہ سنگھے پچاس پچاس سو کی تعداد میں سفر کرتے ہیں۔
یہ برف میں رہتے ہیں اور صرف چارے کے لیے سبزے پر آتے ہیں‘ ہم نے انھیں جہاں بھی دیکھا برف پر بیٹھے دیکھا‘ یہ بے خوف تھے‘ یہ انسان سے گھبراتے نہیں تھے‘ سڑک بہت اچھی اوررواں تھی‘ حکومت نے سڑکوں کے دائیں بائیں بیٹھنے کے لیے جگہ جگہ بینچ لگا دیے ہیں یہ سڑک کے کنارے چھوٹے چھوٹے پکنک سپاٹ تھے ’ آپ ان پر بیٹھ کر لنچ بھی کر سکتے ہیں برف کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں اور جھیلوں میں بھی جھانک سکتے ہیں۔
ہم چالیس منٹ میں یس وار پہنچ گئے‘ یہ خوبصورت لیکن خنک گائوں تھا‘ گائوں سے برڈ سفار کے لیے تین اوقات میں جہاز چلتا ہے ہم تین بجے جہاز میں سوار ہو گئے‘ یہ جہاز پندرہ منٹوں میں پرندوں کی پہاڑیوں تک پہنچ گیا‘ پہاڑیوں میں چھوٹے بڑے دس لاکھ سوراخ ہیں‘ یہ سوراخ قدرتی گھونسلے ہیں چنانچہ ہر سال سائبیریا اور قطب شمالی سے لاکھوں پرندے یہاں آتے ہیں اور ان پہاڑیوں پر بسیرا کر لیتے ہیں‘ یہ دنیا میں پرندوں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے‘ گرمیوں میں یہاں 190 نسلوںکے کم و بیش تیس لاکھ پرندے آتے ہیں‘ یہ پہاڑ دور سے سفید‘ سیاہ‘ برائون اور گرے دکھائی دیتے ہیں لیکن آپ جوں ہی ان کے قریب پہنچتے ہیں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں یہ سارے رنگ پرندوں کی وجہ سے ہیں۔
وہاں درمیانے سائز کی ایک پوری پہاڑی پرندوں کی بیٹھوں کی وجہ سے سفید ہو چکی ہے جب کہ دوسری سیاہ پرندوں کی وجہ سے دور سے کالی دکھائی دیتی ہے‘ آپ کو پانی پر بھی لاکھوں پرندے ڈولتے نظر آتے ہیں‘ یہاں سیاہ عقابوں کی ایک نسل بھی پائی جاتی ہے‘ حکومت 15 جون کے بعد ان پہاڑوں پر جانے یا ان پہاڑوں کے ساحلوں پر اترنے پر پابندی لگا دیتی ہے‘ جہاز کے کپتان نے اس کی وجہ انڈوں کا سیزن بتائی۔
اس کا کہنا تھا‘ پرندے 15 جون کے بعد انڈے سیتے ہیں جنانچہ حکومت کا خیال ہے‘ انسانوں کو اس موسم میں پرندوں کو تنگ نہیں کرنا چاہیے‘ بحری جہاز پہاڑیوں کے قریب پہنچ کر واپس آجاتے ہیں‘ ان پہاڑیوں کے قریب سیل (ڈولفن کی ایک قسم) مچھلیوں کا ایک قبیلہ بھی رہائش پذیر ہے‘ یہ بحری جہازوں کو دیکھ کر اپنی تھوتھنیاں پانی سے باہر نکالتی ہیں‘ عرشے پر کھڑے لوگوں کی دیکھتی ہیں اور پانی میں غائب ہو جاتی ہیں‘ آپ کو قریب آتے دیکھ کر ہزاروں لاکھوں پرندے بھی فضا میں اڑ کر آ پ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
قطب شمالی یس وار سے چالیس منٹ کی ڈرائیو پر ہے‘ ناروے کے لوگ اس مقام کو ’’ نارڈ کوپ‘‘ کہتے ہیں‘ یہ مقام زمین کے 71ویں درجے (زاویئے) پر واقع ہے‘ آپ اگر 71ویں درجے پر گلوب پر لکیر کھینچیں تو یہ لکیر ناروے‘ فن لینڈ‘ سویڈن اور پورے روس کے بالائی حصے سے گزرے گی گویا دنیا کے یہ سرد ترین ممالک 71 ویں درجے سے نیچے ہیں‘ 71ویں درجے کے 78واں درجہ آتا ہے اور اس کے بعد 90ڈگری۔71 ویں درجے (ڈگری) کے بعد برفیں ہیں اور ان برفوں پر زندگی نہ ہونے کے برابر ہے‘ ناروے کے دو مقامات سے قطب شمالی شروع ہوتا ہے۔
ایک نارڈ کوپ جہاں ہم جا رہے تھے اور دوسرا ’’سوال بار‘‘ کا جزیرہ ہے‘ یہ جزیرہ ناروے سے شمال کی طرف خاصے فاصلے پر واقع ہے‘ یہ قطب شمالی کی طرف آخری آبادی ہے‘ اس جزیرے پر 2600 لوگ رہتے ہیں‘ اکثریت روسی ہیں‘ دوسری طرف ’’نارڈ کوپ‘‘ ہے‘ نارڈ کوپ زمین کا آخری سرا ہے‘ دنیا اسے اینڈ آف دی ورلڈ یا ٹاپ آف دی ورلڈ بھی کہتی ہے‘ یہاں پہنچ کر تہذیب اور معاشرت ختم ہو جاتی ہے‘ انسانی قدم رک جاتے ہیں اور اس سے آگے موت کا کھیل شروع ہو جاتا ہے‘ منجمد موت کا کھیل۔ زمین گول ہے لیکن اس گول زمین کے دونوں کونوں پر قطب شمالی اور قطب جنوبی ہیں‘ یہ دونوں قطبین برفوں میں دفن ہیں۔
دونوں قطبوں پر چھ ماہ کے دن اور چھ ماہ کی راتیں ہوتی ہیں‘ قطب شمالی پر چھ ماہ کے لیے سورج طلوع ہوتا ہے تو قطب جنوبی طویل رات اوڑھ کر لیٹ جاتا ہے اورجب قطب جنوبی سورج کے سامنے آتا ہے تو قطب شمالی چھ ماہ کے لیے اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے‘ ہم شام ساڑھے پانچ بجے ’’نارڈ کوپ‘‘ کے لیے روانہ ہوئے‘ ساڑھے چھ بجے زیرو پوائنٹ پر پہنچ گئے‘ نارڈ کوپ پر تیز یخ ہوائیں‘ دبیز دھند اور بے انتہا سردی تھی‘ ہم چلتے چلتے زمین کے آخری سرے پر پہنچ گئے‘ زمین ختم ہو چکی تھی‘ ہم نے نیچے دیکھا تو ہمیں دور نیچے دھند میں لپٹا ہوا یخ سمندر دکھائی دیا‘ ہمارے پائوں سے دھند شروع ہوتی تھی اور تاحد نظر افق تک دھند ہی دھند تھی۔
وہاں سورج 24 گھنٹے چمکتا ہے لیکن اسے دھند گھیرے رکھتی ہے‘ دھند کی بے لگام لہریں آتی ہیں اور روشنی کو نگل لیتی ہیں اور پھر وہاں ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دیتا‘ ٹھنڈی ہوا آپ کی ہڈیوں کا گودا تک جما دیتی ہے‘ نارویجن حکومت نے زمین کے آخری سرے پر لوہے کا دیو قامت گلوب نصب کر دیا ہے‘ یہ گلوب دنیا کے اختتام کی نشانی ہے‘ آپ کو گلوب کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بنوانے کے لیے سورج کا انتظار کرنا پڑتا ہے‘ وہاں دھند اور سورج کا مقابلہ چلتا رہتا ہے‘ حکومت نے ’’نارڈ کوپ‘‘ پر ایک بڑا کمپلیکس بھی بنا رکھا ہے‘ یہ لکڑی‘ شیشے اور پتھروں کی خوبصورت عمارت ہے‘ سیاح کافی کے مگ لے کر کھڑکیوں کے قریب کھڑے ہو جاتے ہیں‘ جوں ہی دھند کی تہہ میں سوراخ ہوتے ہیں اور سورج کی روشنی دکھائی دیتی ہے تو سیاح کیمرے لے کر گلوب کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔
تصویریں بناتے ہیں اور ٹھٹھرتے ہوئے واپس کمپلیکس میں آ جاتے ہیں‘ کمپلیکس کے اندر جدید سینما ہے جس میں قطب شمالی کے بارے میں فلم چلتی ہے‘ فلم میں ’’نارڈ کوپ‘‘ کے چاروں موسم دکھائے جاتے ہیں‘ کمپلیکس میں چھوٹا سا خوبصورت چرچ بھی ہے‘ یہ چرچ چٹانیں تراش کر بنایا گیا ہے‘ یہ بھی دیکھنے کی جگہ ہے‘ وہاں چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جس میں اس مقام کی تلاش اور اس کی تیاری کے مختلف مراحل دکھائے گئے ہیں‘ وہاں لائٹ اینڈ سائونڈ‘‘ شو بھی ہوتا ہے‘ اس جگہ کو ’’کیو آف لائیٹس‘‘ یعنی روشنیوں کا غار کہا جاتا ہے۔
’’نارڈ کوپ‘‘ کی ایک انفرادیت ناردرن لائیٹس یعنی شمالی روشنیاں بھی ہیں‘ سردیوں کے موسم میں جب قطب شمالی اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے تو اس وقت یہاں جادوئی روشنیاں نظر آتی ہیں‘ یہ نیلی اور سبز لائیٹس ہوتی ہیں جو آبشاروں کی طرح آسمان سے زمین پر اترتی ہیں اور لہروں کی طرح ڈولتی ہیں اور ماحول کو خواب ناک بنا دیتی ہیں‘ قطب شمالی اور شمالی ناروے کے قدیم باشندے انھیں معجزہ‘ جادو یا جنات کی بارات کہتے تھے لیکن آج سائنس نے انکشاف کیا‘ زمین اور سورج کے درمیان بڑے بڑے ذرات بہہ رہے ہیں۔
سورج کی روشنی جب ان ذرات سے منعکس ہو کر قطب شمالی کی برف پر پڑتی ہے تو یہ روشنی سبز اور نیلے رنگوں کی آبشار بن جاتی ہے‘ رنگوں کی یہ آبشاریں ناردرن لائیٹس یا ناردرن ارورا کہلاتی ہیں‘ یہ روشنیاں کیا ہیں؟ آپ اگر چند لمحوں کے لیے یہ سوال فراموش کر دیں تو آپ قدرت کا یہ معجزہ دیکھ کر مبہوت ہو جائیں گے‘ یہ روشنیاں دسمبر اور جنوری میں پورے شمالی ناروے میں دکھائی دیتی ہیں لیکن یہ ’’نارڈ کوپ‘‘ پر زیادہ واضح اور خوبصورت ہوتی ہیں‘ آپ ذرا تصور کیجیے‘ آپ دنیا کے آخری کونے پر کھڑے ہیں‘ گلوب برف سے ڈھکا ہوا ہے۔
زمین برف میں دفن ہے اور آپ کے قدموں کے نیچے سمندر کی موجیں ٹھاٹھیں مار رہی ہیں اور آپ کو دور قطب شمالی کی برفیں دکھائی دیتی ہیں اور عین نظروں کے سامنے آسمان سے زمین تک سبز روشنی کی آبشار گر رہی ہے‘ یہ منظر کیسا ہو گا؟ میں کیونکہ گرمیوں میں ’’نارڈ کوپ‘‘ پہنچا ہوں‘ یہ ناردرن لائیٹس کا موسم نہیں چنانچہ میں روشنیوں کی آبشار نہیں دیکھ سکا لیکن دنیا کے اس آخری کونے میں کھڑے ہو کر میں نے دعا کی اللہ تعالیٰ نے اگر موقع دیا تو میں زندگی کے کسی حصے میں ناردرن لائیٹس دیکھنے کے لیے سردیوں میں بھی یہاں آئوں گا‘ میں نے یہ بھی دعا کی اللہ تعالیٰ نے اگر چاہا تو میں ’’سوال بار‘‘ کی طرف سے بھی قطب شمالی کے اس کنارے پر پہنچنے کی کوشش کروں گا ۔
جہاں سورج غروب نہیں ہوتا
جاوید چوہدری جمعرات 10 جولائ 2014

تھرمسو میں کسی شخص کو شام سے پہلے گھر پہنچنے کی جلدی نہیں ہوتی کیونکہ یہاں شام ہی نہیں ہوتی‘ سورج اس شہر میں 24 گھنٹے چمکتا ہے‘ شہر میں مشرق اور مغرب کی تمیز بھی ممکن نہیں‘ سورج چھتوں پر بھی نہیں پہنچتا‘ یہ صرف کھڑکیوں‘ دروازوں پر دستک دے کر آگے بڑھ جاتا ہے‘ آپ اگر زمین کا گلوب دیکھیں تو آپ کو قطب شمالی اس کی چوٹی پر نظر آئے گا‘ نارتھ پول دراصل زمین کی چھت ہے‘ یہ چھت سورج کے گرد دائیں سے بائیں گھومتی ہے۔
سورج گھومنے کے دوران اسے ایک خاص زاویے سے فوکس رکھتا ہے اور یوں شمالی ناروے میں رات نہیں ہوتی‘ سورج چوبیس گھنٹے آسمان پر چمکتا رہتا ہے‘ سورج کی یہ چمک 25 ستمبر تک جاری رہتی ہے‘ 25 ستمبر کو قطب شمالی سے سورج اچانک غائب ہو جاتا ہے اور پورے خطے پر طویل رات طاری ہو جاتی ہے‘ چوبیس گھنٹے کی لمبی رات۔ شمالی ناروے کے ایک گائوں ’’روزویا‘‘ میں 19 اکتوبر سے 23 فروری تک 24 گھنٹے مکمل اندھیرا رہتا ہے‘ آپ دن کے وقت بھی باہر نکلیں تو آپ کو ہاتھ سے ہاتھ سجھائی نہیں دیتا‘ قطب شمالی کی رات18 مارچ تک جاری رہتی ہے 25 ستمبر سے 18 مارچ تک 175 دن یہ خطہ اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے‘ اس دوران یہاں برف ہوتی ہے‘ سردی ہوتی ہے اور قطب شمالی کے سفید ریچھ ہوتے ہیں۔
25 ستمبر کو سورج واپس آ جاتا ہے اور قطب شمالی کے لوگ سورج کی واپسی کا تہوار مناتے ہیں اور پھر یہ سورج 25 ستمبر تک ڈوبتا نہیں‘ ان 175 دنوں میں 20 جون سے 20 جولائی کے دوران قطب شمالی میں ’’ مڈ نائیٹ سن‘‘ رہتا ہے‘ سورج دائیں سے بائیں گھومتے ہوئے رات کے بارہ بجے نقطہ انتہا تک پہنچتا ہے اور پھر ڈوبے بغیر آگے کا سفر شروع کر دیتا ہے‘ یہ ایک حیران کن تجربہ ہوتا ہے‘ آپ کے سامنے سورج مشرق سے مغرب تک جاتا ہے اور پھر وہاں سے چمکتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے اور آپ رات کے بارہ بجے سورج کو دن کے بارہ بجے کی پوزیشن پر دیکھتے ہیں۔
تھرمسو شمالی ناروے کا آخری بڑا شہر ہے‘ ہم رات پونے بارہ بجے تھرمسو ایئر پورٹ پر اترے‘ سورج پوری طرح چمک رہا تھا‘ رات کے بارہ بجے‘ پھر ایک‘ دو اور تین بج گئے لیکن دن ختم نہیں ہوا شہر کی گلیاں سونی ہوگئیں‘ سڑکوں پر ٹریفک ختم ہو گئی‘ لوگ گھروں میں گھس گئے لیکن دن ختم نہیں ہوا‘ آپ اپنی سہولت کے لیے یوں سمجھ لیں‘ آپ کے شہر میں دن کے دو بجے ہوں اور لوگ گھروں میں گھس کر سو جائیں اور شہر ویران ہو جائے‘ تھرمسو شہر کی صورتحال رات کے دو تین بجے یہ ہوتی ہے۔
سورج چمک رہا ہے لیکن لوگ غائب ہیں‘ میں اور میرے دوست جہانزیب نے تھرمسو میں ایک رات گزاری‘ صبح اٹھے تو سورج وہیں تھا جہاں ہم نے اسے رات کے وقت چھوڑا تھا۔ تھرمسو ایک درمیانے سائز کا جزیرہ ہے‘ یہ جزیرہ سمندر کے درمیان واقع ہے‘ اس کے چاروں اطراف سمندر ہے لیکن اس سمندر کو تین اطراف سے پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے‘ حکومت نے سمندر پر دو پل بنا کر تھرمسو کو دونوں اطراف کی پہاڑیوں سے جوڑ دیا ہے، شہر کے چاروں اطراف سبزہ اور پانی ہے‘ آپ کسی جگہ کھڑے ہو جائیں آپ کو برف پوش پہاڑ‘ سبزہ اور پانی دکھائی دے گا۔
تھرمسو کی دائیں طرف آپ پل پار کر کے پہاڑ کے دامن میں پہنچتے ہیں تو آپ شہر کی واحد کیبل کار تک پہنچ جاتے ہیں‘ یہ کیبل کار 1961ء میں بنائی گئی تھی‘ آپ کیبل کار کے ذریعے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتے ہیں‘ چوٹی سے آپ کو پورا تھرمسو شہر‘ تاحد نظر پھیلا ٹھنڈا سمندر اور اس لا محدود کائنات میں چھوٹا سا اپنا آپ نظر آتا ہے اور آپ قدرت کی صناعی کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے‘ آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ میں نے بھی کلمہ پڑھا‘ درود شریف کا ورد کیا اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا جس نے مجھے کائنات کی وسعتیں دیکھنے اور اپنی حیران کن دنیا میں جھانکنے کا موقع عنایت کیا۔
پہاڑ کی چوٹی پر لوگوں نے ایک ڈیڑھ فٹ کے چھوٹے چھوٹے مینار بنا رکھے تھے‘ لوگ زمین پر بیٹھتے تھے‘ چھوٹے چھوٹے پتھر جمع کرتے تھے‘ پتھر پر پتھر جماتے تھے اور یوں چھوٹا سا مینار بن جاتا تھا‘ یہ دعاؤں کے مینار تھے‘ ناروے کے لوگوں کا عقیدہ ہے‘ آپ پہاڑ کی چوٹی پر پتھروں کا چھوٹا سا مینار بنائیں‘ یہ مینار جب مکمل ہو جائے تو آپ اس کے قریب بیٹھ کر جو دعا مانگیں وہ قبول ہو جاتی ہے، آپ اگر دور سے ان میناروں کو دیکھیں تو یہ آپ کو چھوٹا سا قبرستان دکھائی دیتے تھے‘ میں نے جب لوگوں کو مینار بناتے اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے دیکھا تو میں توہم پرستی کے اس شہکار تک پہنچ گیا‘ انسان دنیا کے جس کونے میں بھی ہو وہ بہرحال انسان ہی ہوتا ہے‘ کمزور‘ لاچار اور دکھی اور اس کے دکھ ‘ اس کی بے چارگی اوراس کی کمزوری اسے اکثر اوقات پتھروں کے مینار بنانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
یہ سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ (نعوذ بااللہ) بچہ ہے‘ ہم اسے پتھر جوڑ جوڑ کر دکھائیں گے تو یہ راضی ہو جائے گا‘ ہم دو ہزار سیڑھیاں چڑھ کر چوٹی پر پہنچیں گے‘ مندر یا معبد کی گھنٹی بجائیں گے تو یہ خوش ہو جائے گا، ہم بہت سادہ ہیں‘ ہم یہ بھول جاتے ہیں‘ اللہ کے نزدیک خلوص نیت سے بڑی کوئی عبادت نہیں‘ آپ دل میں خلوص بھر کر اس سے جو مانگیں یہ فوراً عنایت کر دیتا ہے، والدین اور بچے اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ خلوص نیت سے مانگتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ چند سیکنڈ میں ان کی سن لیتا ہے جب کہ باقی لوگوں کی دعائیں لفظوں کے خوبصورت پیکیج کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔ آپ دل میں صرف خلوص پیدا کر لیں‘ آپ کی اللہ تعالیٰ سے اس وقت کمیونی کیشن شروع ہو جائے گی‘ آپ اللہ تعالیٰ سے کہیں گے اور اللہ تعالیٰ آپ کی سننے لگے گا۔
چوبیس گھنٹے جاگنے والے شہروں کی اپنی ہی روایات ہوتی ہیں‘ لوگ اپنی مرضی کے اوقات طے کر لیتے ہیں مثلاً آپ اس کیبل کار ہی کو لے لیجیے‘ یہ کیبل کار چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے‘ آپ کو ہر آدھ گھنٹے بعد کیبل کار مل جاتی ہے‘ لوگ اس کیبل کار کے ذریعے پہاڑ پر آتے ہیں اور یہاں کھڑے ہو کر ’’مڈ نائیٹ سن ‘‘ کا نظارہ کرتے ہیں‘ رات کے بارہ بجے آسمان پر چمکتا سورج دیکھتے ہیں‘ آپ اس شہر میں اپنی مرضی کا دن اور مرضی کی رات بھی طے کر سکتے ہیں۔
آپ یہ فیصلہ کرلیں میری صبح اس وقت شروع ہو گی جب دنیا سہ پہر کے وقت کام ختم کر کے گھر جا رہی ہو گی اور میری رات اس وقت شروع ہو گی جب لوگ سو کر اٹھ رہے ہوں گے اور کوئی شخص آپ پر اعتراض نہیں کرے گا کیونکہ وہاں دن 24 گھنٹے کا ہوتا ہے اور آپ اسے اپنی مرضی سے رات بنا سکتے ہیں‘ تھرمسو کے پرندے اور جانور بھی اس اصول کے تحت زندگی گزارتے ہیں‘ یہ بے چارے جب تھک جاتے ہیں تو یہ دن کو رات بنا لیتے ہیں اور یہ جب آرام کر کے تھک جاتے ہیں تو یہ رات کو دن میں تبدیل کر لیتے ہیں۔
ہم نے تھرمسو سے ’’نارتھ پول‘‘ کے لیے بحری جہاز لیا تھرمسو سے شام (یا پھر دن) ساڑھے چھ بجے نارتھ پول کے لیے جہاز چلتا ہے‘ یہ ہوٹل جہاز ہے‘ اس میں کمرے بنے ہیں‘ جہاز چل پڑتا ہے اور آپ کمرے میں جا کر سو جاتے ہیں‘ ہم ساڑھے چھ بجے ہوٹل میں داخل ہوئے‘ یہ سات منزلہ ہوٹل تھا‘ میں یہ کالم اسی ہوٹل جہاز میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں‘ جہاز کی پہلی دو منزلیں بار برداری کے لیے استعمال ہوتی تھیں‘ تیسری منزل پر کمرے تھے‘ چوتھی منزل کافی شاپس‘ دکانوں‘ ڈائننگ ہال‘ بار روم‘ اسٹیم باتھ اور جم پر مشتمل تھی‘ پانچویں اور چھٹی منزل پر کمرے تھے اور ساتویں منزل ایک طویل ڈرائنگ روم تھی‘ اس میں بیٹھنے کے چھ قسم کے بندوبست تھے‘ آپ ڈیک (عرشے) پر کھلی فضا میں بھی بیٹھ سکتے تھے‘ سن روم میں بھی اور اس کے بعد ڈرائنگ روموں اور لابیوں میں بھی۔
آپ جہاں بھی بیٹھ جائیں‘ آپ کو چاروں اطراف سمندر دکھائی دیتا تھا‘ ہم ساڑھے چھ بجے روانہ ہوئے تو ہمارے دائیں بائیں پہاڑوں کا لا متناہی سلسلہ تھا‘ سمندر میں چھوٹے بڑے ہزاروں جزیرے تھے‘ یہ جزیرے غیر آباد تھے‘ ان پر پرندوں کے جھنڈ تھے اور برفیں تھیں‘ چوبیس گھنٹے چمکتا ہوا سورج تھا‘ خنکی تھی اور پانی پر سرکتا ہوا جہاز تھا‘ راستے میں مچھیروں کی چند بستیاں آئیں‘ یہ پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار لوگوں کی آبادیاں تھیں لیکن ان بستیوں میں بھی تمام سہولتیں موجود تھیں۔
اس جہاز نے اگلے دن ساڑھے گیارہ بجے ’’ہوینگ وینگ‘‘ پہنچنا تھا‘ جہاز ہوینگ وینگ‘‘ پہنچ کر رک جاتا ہے‘ یہاں سے ’’نارتھ پول‘‘ دو گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ مسافر جہاز سے اتر کر بسیں اور گاڑیاں کرائے پر لیتے ہیں اور نارتھ پول کی طرف نکل جاتے ہیں‘ آپ دو گھنٹے بعد اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ’’سولائزیشن‘‘ ختم ہو جاتی ہے‘ اس سے آگے سمندر ہے اور سمندر پر ہزاروں سال کی جمی برفیں ہیں‘ عام لوگوں کے لیے اس مقام سے آگے جانا مشکل ہوتا ہے‘ اس سے آگے صرف وہ خاص لوگ جا سکتے ہیں جو منفی چالیس درجے پر زندہ رہ سکتے ہیں‘ ہم نے اس مقام پر پہنچنا تھا جہاں سولائزیشن ختم ہو جاتی ہے‘ اور قطب شمالی شروع ہوتا ہے‘ اگلی صبح گیارہ بجے ہوینگ وینگ آگیا۔
ہوینگ وینگ میں دھند تھی‘ ہمیں دور سے زمین کا کنارہ نظر آرہا تھا لیکن وہ کنارہ دھند میں لپٹا تھا‘ دھند کے اس پار دو گھنٹے کی ڈرائیو پر قطب شمالی تھا‘ وہ مقام جہاں انسان کے قدم تو پہنچے لیکن یہ وہاں آباد نہیں ہو سکا‘ جہاں زندگی ہے لیکن وہ زندگی موت سے بد تر ہے‘ وہ قطب شمالی جہاں گرمیوں میں سورج 24 گھنٹے چمکتا ہے اور سردیوں میں چمکنا بھول جاتا ہے‘ ’’ہوینگ وینگ‘‘ جہاز کے کپتان نے ہوینگ وینگ کی انائونسمنٹ کی اور اس کے ساتھ ہی ہمارے دل پر ہلکی ہلکی خارش شروع ہو گئی۔

سفر درسفر
جاوید چوہدری ہفتہ 5 جولائ 2014

سحری کے وقت ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی‘ میں بیل ویل‘‘ کے جس اپارٹمنٹ میں ٹھہرا ہوا ہوں، اس کے سامنے سڑک ہے اور سڑک پر درجنوں درختوں کی طویل قطار ہے‘ اپارٹمنٹ کی کھڑکیاں سڑک کی طرف کھلتی ہیں‘ میں نے کمرے کی دونوں کھڑکیاں کھول دیں‘ بارش پتوں پر گر رہی تھی‘ لیمپ پوسٹ کی روشنیاں سبز پتوں کو چاندی میں بدل رہی تھیں اور میں وارفتگی کے عالم میں یہ منظر دیکھ رہا تھا‘ یہ فقط منظر نہیں تھا‘ یہ یادوں کے گزرے قافلوں کی وہ گرد تھا جسے انسان چاہنے کے باوجود منہ سے نہیں دھونا چاہتا یا پھر یہ دشت تنہائی میں یاد کے وہ لرزتے سائے تھے انسان جسے ہونٹوں کے سراب سمجھ کر پوری زندگی گزار دیتا ہے۔
پیرس شہر رات کے آخری سمے بھی جاگ رہا تھا‘ کل فرانس اور جرمنی کا فٹ بال میچ تھا‘ فرانس کی ٹیم کوارٹر فائنل ہار گئی‘ پیرس شہر ہار کے اس غم میں جاگ رہا تھا‘ ہفتے کو کولمبیا اور برازیل کا میچ تھا‘ پیرس میں موجود دونوں ملکوں کے شہری میچ کی ’’ایکسائیٹمنٹ‘‘ میں جاگ رہے تھے۔ ’’ویک اینڈ‘‘ تھا‘ نوجوان ویک اینڈ منانے کی کوشش میں جاگ رہے تھے جب کہ ’’بیل ویل‘‘ میں عرب رہتے ہیں‘ یہ عرب روزہ رکھنے کے لیے جاگ رہے تھے اورمیں سحری کے وقت سحری اور بارش دونوں کے لیے جاگ رہا تھا‘ یہ ایک عجیب رات تھی۔
سفر میرا جنون ہے‘ میں نے اس جنون سے نکلنے کی ساری کوششیں کر دیکھی ہیں لیکن میں اس پاگل پن پر قابو نہیں پا سکا‘ یہ جنون ایک دو ہفتوں کے بعد فشار خون بن کر کنپٹیوں میں آگ لگا دیتا ہے اور میں پاگلوں کی طرح زنجیریں توڑ کر نکل جاتا ہوں‘ میں اللہ تعالی کا پسندیدہ پاگل ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے صرف جنون نہیں بخشا بلکہ اس نے مجھے جنون کو مطمئن کرنے کے اسباب سے بھی نواز رکھا ہے چنانچہ مجھے دو دن بھی ملتے ہیں تو میں ملک کی سرحدوں سے باہر نکل جاتا ہوں۔
جمعرات کو پروگرام کے بعدفلائیٹ لیتا ہوں اور پیر کو پروگرام سے قبل واپس پہنچ جاتا ہوں‘ یہ اللہ تعالی کا خاص کرم ہے‘ اس نے وقت کے اس خاص موڑ پر پیدا کیا جب فاصلے اور ابلاغ دونوں مسئلے نہیں ہیں‘ آپ صبح تین چار بجے کی فلائیٹ لیتے ہیں اور اگلے دن بارہ‘ ایک بجے سات سمندر پار بیٹھے ہوتے ہیں‘ آپ انٹر نیٹ‘ وائبر اور واٹس ایپ کے ذریعے پوری دنیا سے رابطے میں رہتے ہیں‘ میں اگر پچاس ساٹھ سال قبل جوان ہوتا تو میں یقینا ان سہولتوں سے فائدہ نہ اٹھا سکتا‘ یہ خدا کا خاص کرم ہے۔
اللہ تعالی نے وسائل بھی دے دیئے ہیں‘ ہمت بھی عنایت کر دی‘ سفر کا خوف بھی ختم کر دیا اور نیند پر قابو بھی دے دیا‘ میں جہاز کی سیٹ پر نیند پوری کر لیتا ہوں‘ جہاز میں سوار ہوتے ہی سو جاتا ہوں اور منزل پر پہنچ کر اٹھ جاتا ہوں‘ میری شدید خواہش ہے اللہ کی بنائی یہ ساری دنیا دیکھ کر دنیا سے رخصت ہوں‘ میں قدرت کا یہ پورا کارخانہ دیکھنا چاہتا ہوں‘ آپ یقین کیجیے میں جوں جوںدنیا دیکھ رہا ہوں توں توں اللہ تعالیٰ پر یقین پختہ ہو رہا ہے‘ یہ دنیا اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
آپ اگر ایک بار اسے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیں تو آپ کو کسی دوسری دلیل‘ کسی دوسرے معجزے کی ضرورت نہیں رہتی‘ صحرا کی کروٹیں بدلتی ریت‘ سمندروں کی تہوں میں زندگی کے لہلہاتے کھیت‘ پہاڑوں کی انتہائی بلندیوں پر چٹیل میدان‘ برف کی پچاس پچاس میٹر موٹی تہہ کے نیچے چلتی کشتیاں‘ ان دیکھے جزیروں پر انسانی قدموں کے نشان اور قدیم غاروں میں ناخنوں سے تراشی ہوئی عبارتیں‘ یہ کیا ہیں؟ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ آیتیں ہیں جو انسان کو پکار پکار کر کہتی ہیں‘ کیا تمہیں اب بھی میرے مالک کائنات ہونے کے لیے کسی دوسری دلیل کی ضرورت ہے؟۔
دنیا میں علم کے تین ذرائع ہیں‘ کتاب‘ سفر اور روح۔ دانشوروں کے علم کی بنیاد مطالعہ ہوتا ہے‘ آپ پڑھتے رہتے ہیں‘ پڑھتے رہتے ہیں اور ایک ایسا وقت آتا ہے جب آپ کی ذات کے گھپ اندھے غار میں علم کی شمع روشن ہو جاتی ہے یا پھر آپ کے پیروں میں سیاحوں کی طرح پر اُگ آتے ہیں‘ آپ ان دیکھے راستوں پر نکل کھڑے ہوتے ہیں‘ آپ اجنبی زمینیں‘ اجنبی چہرے‘ اجنبی زبانیں اور اجنبی ثقافتیںدیکھتے ہیں اور پھر اچانک پہاڑ کی کسی چھوٹی پر آپ کو بزوان ہو جاتا ہے‘ آپ کے اندر روشنی پھیل جاتی ہے اور علم کاتیسرا ذریعہ روح ہے۔
آپ اللہ سے لو لگا لیتے ہیں‘آپ کائنات کے کل سے جڑ جاتے ہیں‘ آپ تپسیا کرتے ہیں‘ روح کے کیمیا گروں سے ملتے ہیں‘ درگاہوں پر دس دس سال گزار دیتے ہیں‘ وظیفے کرتے ہیں‘جاپ کرتے ہیں اور تسبیاں پھیرتے ہیں اور پھر ایک دن آپ پر حقیقتیں آشکار ہونے لگتی ہیں‘ کوئی آتا ہے اور آپ کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور آپ اندھیروں سے روشنیوں میں آ جاتے ہیں‘ میں اللہ کا پسندیدہ پاگل ہوں‘ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر علم کے یہ تینوں راستے کھول رکھے ہیں‘ کتاب سے تعلق قائم ہے‘ سفر کا جنون ہے اور روح کے بادشاہوں کے در کا فقیر ہوں چنانچہ جس طرف دیکھتا ہوں اللہ کاکرم ہی کرم ہے‘ اللہ نے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچا رکھا ہے‘ لوگوں کے صرف احسان ہیں خیرات نہیں‘ مہربانیاں ہیں مجبوریاں نہیں اور محبتیں ہیں زبردستی نہیں۔
آپ کو اگر سفر کا موقع ملے تو آپ دنیا کو تین حصوں میں تقسیم کر لیں‘ غریب دنیا‘ امیر دنیا اور حیران کن دنیا۔ یہ تین دنیائیں ہیں‘ یہ تینوں نظروں‘ کانوں‘ قدموں اور شعور کا مطالعہ ہیں‘ آپ غریب دنیا میں غربت‘ پسماندگی‘ انسانی بے چارگی اور معاشرتی بے بسی کا مطالعہ کر سکتے ہیں‘ وہ کون سے حالات ہیں جو انسان کو بے بس کر دیتے ہیں‘ جو دھڑکتے مچلتے انسان کو بے چارہ بنا دیتے ہیں اور جو اسے پسماندگی اور غربت کے اندھے کنوئیں میں پھینک دیتے ہیں‘ میں نے اب تک غریب ملکوں میں چار مشترک خرابیاں دیکھی ہیں‘ خانہ جنگی‘ کرپشن‘ جہالت اور بے ایمان لیڈر شپ۔ آپ ایتھوپیا سے افغانستان تک دنیا کے غریب خطے دیکھ لیجیے‘ آپ کو وہاں خانہ جنگی بھی ملے گی۔
کرپشن بھی‘ جہالت بھی اور بے ایمان لیڈرشپ بھی اور دنیا کا ہر وہ ملک جو چاروں خامیوں پر قابو پاتا جا رہا ہے‘ جس نے ایماندار لیڈرشپ کا بندوبست کر لیا‘ جس نے تعلیم عام کر لی‘ جس نے کرپشن کے جن کو بوتل میں بند کر لیا اور جس نے فرقہ واریت‘ نسل پرستی‘ طالبانائزیشن‘ فوجی آمریت اور قتل و غارت گری روک لی‘ وہ ملک پسماندگی سے خوش حالی کے راستے پر آ گیا‘ دنیا کی جو قوم ان چار خامیوں پر قابو پا لیتی ہے اور اس کے بعد وہ ملک میں میرٹ‘ انصاف اورلاء اینڈ آرڈر لے آتی ہے وہ دس سال میں دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں شامل ہو جاتی ہے‘ دنیا میں ایسے درجنوں ملک ہیں۔
آپ غریب دنیا کے بعد امیر دنیا کے سفر کریں‘ یورپ جائیں‘ امریکا‘ کینیڈا‘ جاپان‘ آسٹریلیا اورسنگا پور دیکھیں‘ آپ کو معلوم ہو گا امیر دنیا میں قانون کی حکمرانی ہے‘ صدر اور عام مزدور برابر ہیں‘ آپ پہاڑ پر ہوں یا سمندر کے کنارے آپ کو سڑک‘ بجلی‘ گیس‘ ٹیلی فون اور پبلک ٹرانسپورٹ ضرور ملے گی‘ حکومت آپ کو تعلیم اور صحت کی سہولت مفت دے گی‘ ماحول صاف ستھرا ہو گا‘ معاشرے میں سلیقہ اور نظم و ضبط ہو گا‘ لوگ آہستہ آہستہ بولیں گے‘ وقت کی پابندی ہو گی‘ قطار کا احترام کیا جائے گا‘ پروٹوکول نہیں ہو گا‘ بے ایمانی اورچوری نہیں ہو گی‘ لوگ واک اور ایکسرسائز کریں گے‘ اپنے کام سے کام رکھیں گے‘ اپنے وسائل کے اندر رہ کر زندگی گزاریں گے‘ کوئی دوسرے کی ناک کی حدود پامال کرنے کی کوشش نہیں کرے گا‘ یہ دنیا کتابوں‘ لائبریریوں‘ چاندی جیسے ساحلوں‘ پارکوں‘ جھیلوں‘ ریستورانوں‘ یونیورسٹیوں‘ لیبارٹریوں اور سڑکوں‘ ائیرپورٹس اور بندر گاہوں کی دنیا ہو گی‘ اس میں مستی میں ناچتے نوجوان بھی ہوں گے اور کافی شاپس میں بیٹھے دانشور بھی اور پارکوں میںسائیکل چلاتے‘ دوڑتے‘ جاگنگ کرتے جوان بھی اور میلوں ٹھیلوں کو انجوائے کرتے خاندان بھی۔
آپ کو امیر دنیا میں ہر طرف دولت اور خوش حالی کے انبار ملیں گے‘ آپ کو خوشیاں اور مسرتیں دکھائی دیں گی‘ آپ اس کے بعد حیران کن دنیا کی تلاش میں نکلیں‘ یہ حیرتوں کی دنیا ہے‘ قدرت اور انسان کی تخلیق کردہ حیرتوں کی دنیا۔ آپ پہاڑوں پر جائیں‘ دیوسائی اور فیری میڈوز کوتلاش کریں‘ کے ٹو‘ نانگاپربت اور ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ تک جائیں‘ سری لنکا کے اس پہاڑ کی زیارت کریں جہاں حضرت آدم ؑ نے پہلا قدم رکھا تھا اور کنوؤں سے پانی نکالنے کاطریقہ وضع کیا تھا‘ برف کے ان غاروں میں جھانک کر دیکھیں جہاں صدیوں سے برف کی مورتیاں ایستادہ ہیں اور موسموں کی تبدیلیاں چپ چاپ ان کے قریب سے گزر جاتی ہیں‘ کیپری کے جزیرے پر جائیں‘ پمپئی کے اس شہر میں گھومیں جو حضرت داؤد ؑ کے دور میں آباد ہوا اور حضرت عیسیٰ ؑ کے انتقال (عیسائی عقیدے کے مطابق‘ ہم مسلمان اس عقیدے کو نہیں مانتے) کے 67 سال بعد آتش فشاں کی اڑائی راکھ میں دفن ہو گیا‘ تبت کے پہاڑوں پر جائیں جہاں دنیاکی ضخیم ترین مذہبی کتاب رکھی ہے۔
بودھ مت کی مذہبی کتاب کی 108 جلدیں ہیں اور ہر جلد ہزار صفحوں پر مشتمل ہے‘ چنائی کے اس مندر میںجائیں جہاں دنیا کے ہر شخص کی جنم کنڈلی موجود ہے‘ حضرت عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش پر جائیں‘ حضرت موسیٰ ؑ کے سینا اور کوہ طور کی زیارت کریں‘ فرعون کے اہراموں میں جھانکیں‘ موہن جو ڈارو‘ ہڑپہ اور جولیاں کے شہروں میں گھومیں‘ ماسکو سے لہاسا تک ٹرین کا سفر کریں‘ سائبیریا کی سفاری ٹرین لیں‘ کینیا کی جنگل سفاری کریں‘ میامی بیچ پر جائیں‘ آرلینڈو کا انسانی معجزہ اور ورلڈ ڈزنی دیکھیں‘ ارارات کے پہاڑ پر حضرت نوح ؑ کی کشتی کی باقیات کی زیارت کریں۔
امیر تیمور کا ازبکستان دیکھیں‘ چنگیز خان کا منگولیا دیکھیں‘ سکندر اعظم کا مقدونیہ دیکھیں‘ آسٹریا کے پہاڑوں کے اندر دو غاروں میں چھپی جھیلیں دیکھیں‘ سوئٹزرلینڈ کی جھیلیں‘ جنگل اور گلیشیئر دیکھیں‘ دیوار چین پر چہل قدم کریں‘ اوساکا شہر کا سمندر پر بنا ائیرپورٹ دیکھیں‘ آئفل ٹاور پر کھڑے ہو کر کافی پئیں‘ واٹر لو کے میدان میں کھڑے ہو کر نپولین کی فوجوں کو ہارتے ہوئے دیکھیں‘ وینس کے گنڈلوں میںبیٹھ کر مارکو پولو کے گھر کا چکر لگائیں‘ رات کے آخری پہر قرطبہ شہر کی خاموشی اور چڑھتے سورج کے ساتھ غرناطہ کے کنگ چیمبر میں فواروں کی پھڑپھڑاہٹ سنیں اور دنیا کے اس کونے میں جہاں پہاڑ‘ صحرا اور سمندر تینوں گلے ملتے ہیں وہاں خیمے میں لیٹ کر رات کو دن میں ڈھلتے ہوئے دیکھیں‘ حیرتوں اور معجزوں کا یہ سفر اللہ تعالیٰ پر آپ کا یقین مضبوط کردے گا‘ آپ اس کی بندگی کی پناہ میں آ جائیں گے۔
یہ دنیا ’’بودو ‘‘ شہر پر جا کر ختم ہو جاتی ہے‘ یہ ناروے اور دنیا کا آخری ٹاؤن ہے‘ اس ٹاؤن میں دنیا ختم ہو جاتی ہے‘ یہ دنیا کا وہ مقام ہے جہاں 20 جون سے 20 جولائی تک سورج غروب نہیں ہوتا‘ آپ رات کے بارہ بجے بھی سورج کو چمکتے دیکھتے ہیں یا پھر یہاںسے تھوڑی دور قطب شمالی کی ہزاروں برس بوڑھی برفیں ہیں‘ یہ شہر‘ یہ مقام قدرت کی صناعی کا عجیب شاہکار ہے اور میں اس شاہکار کی تلاش میں نکلا ہوں‘ میں ایک دن پیرس رک کر بودو چلا جاؤں گا‘ بودو جہاں دنیا ختم ہو جاتی ہے‘ جہاں رات نہیں ہوتی اور جہاں سورج مہینہ بھر کے لیے ڈوبنا بھول جاتا ہے‘ یہ بودو شہر میری منزل ہے۔
خودکش حملہ آور
جاوید چوہدری بدھ 2 جولائ 2014

وہ شہری یونیورسٹی تھی اور ایم اے ماس کمیونی کیشن کے فائنل ائیر کی کلاس تھی‘ میں لیکچر کے لیے وہاں گیا تھا‘ میں نے کلاس سے پوچھا ’’وہ تمام خواتین وحضرات ہاتھ کھڑے کریں جنھیں ڈرائیونگ آتی ہے‘‘ ستر طالب علموں میں سے 12 طلبہ اور طالبات نے ہاتھ اٹھائے‘ میں نے پوچھا ’’ آپ میں سے ڈرائیونگ لائسنس کس کس کے پاس ہے؟‘‘ بارہ میں سے آٹھ ہاتھ نیچے چلے گئے‘ صرف چار ہاتھ کھڑے رہ گئے‘ میں نے آخری سوال پوچھا ’’ آپ میں سے کس کس نے باقاعدہ ڈرائیونگ اسکول میں داخلہ لے کر گاڑی چلانا سیکھی‘‘ آخری چار ہاتھ بھی نیچے چلے گئے۔
ڈرائیونگ دنیا کا خطرناک اور حساس ترین معمول ہوتا ہے‘ آپ جب گاڑی لے کر سڑک پرآتے ہیں تو آپ سمیت سیکڑوں لوگوں کی زندگی خطرے کا شکار ہو جاتی ہے‘ آپ کی معمولی سی غفلت آپ کو ٹرک‘ ٹرالر اور بس کے نیچے دے سکتی ہے‘ آپ گاڑی سمیت نالے میں گر سکتے ہیں‘ آپ کی گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھ سکتی ہے اور آپ راستے میں موجود مکانوں‘ دکانوں اور ریڑھیوں سے ٹکرا سکتے ہیں‘ آپ دفتر‘ گھر اور اسکول جاتے لوگوں کی جان بھی لے سکتے ہیں اور آپ فٹ پاتھ پر چلتے راہگیروں کی زندگی کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں چنانچہ دنیا کے مہذب ممالک ڈرائیونگ لائسنس کوقتل سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
آپ ڈرائیونگ اسکول سے ٹریننگ کے بغیر ڈرائیونگ لائسنس اپلائی نہیں کر سکتے‘ آپ ڈرائیونگ کے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو آپ کے پوائنٹس کٹ جاتے ہیں اور آپ کی غفلت جب خاص حد کو چھو جاتی ہے تو آپ کا ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے اور مہذب معاشروں میں ڈرائیونگ لائسنس کی منسوخی کا مطلب آپ کی حرکت پر پابندی ہوتا ہے‘ آپ پھر اس ملک میں گاڑی نہیں چلا سکتے مگر ہمارے ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی کے ستر طالب علموں میں سے صرف 12 ڈرائیونگ جانتے تھے‘ چار کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تھا اور ان چاروں نے بھی کسی ڈرائیونگ اسکول سے باقاعدہ ٹریننگ نہیں لی تھی گویا یہ 12 طالب علم خود کش حملہ آور تھے‘ یہ بارود بن کر روز اپنی اور دوسرے کی جان لینے کے لیے گھر سے نکلتے تھے۔
یہ ایک المیہ تھا‘ آپ اب دوسرا المیہ ملاحظہ کیجیے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ لوگوں نے دو سال میں ماس کمیونی کیشن کے کتنے مضامین پڑھے؟‘‘ ۔بتایا گیا ’’ 24‘‘۔ میں نے پوچھا ’’ آپ میں سے وہ لوگ ہاتھ اٹھائیں جو 24 مضامین میں سے کسی ایک مضمون کے ایکسپرٹ ہیں‘‘۔ ستر میں سے تین لوگوں نے ہاتھ اٹھائے‘ میں نے ان تینوں سے ان مضامین کے نام پوچھے جن میں یہ خود کو ایکسپرٹ سمجھتے تھے‘ خاتون نے جواب دیا ’’میں ٹیلی ویژن پروڈکشن کر سکتی ہوں‘‘۔
میں نے ان سے پوچھا ’’وائیٹ بیلنس کیا ہوتا ہے؟‘‘ وہ خاموش رہیں۔ میں نے پوچھا ’’اسٹوری بورڈ کیا ہوتا ہے؟‘‘ وہ خاموش رہیں اور میں نے پوچھا ’’ فلم کی پروڈکشن میں کتنے کیمرے استعمال ہوتے ہیں‘‘ اس نے جواب دیا ’’آٹھ‘‘۔ دوسرے صاحب کالم نگار تھے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ مطالعے کو روزانہ کتنا وقت دیتے ہیں؟‘‘ جواب دیا ’’ مجھے مطالعے کے لیے وقت نہیں ملتا‘‘۔میں نے پوچھا ’’ اخبار کون سا پڑھتے ہیں؟‘‘۔ جواب ملا’’ اخبار نہیں پڑھتا‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کیا آپ ملک کے پانچ بڑے کالم نگاروں کے نام بتا سکتے ہیں؟‘‘ نوجوان نے فوراً پانچ نام بتا دیے‘ میں نے ان پانچ کالم نگاروں کے کالموں کا ٹائیٹل پوچھا‘ نوجوان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’ آپ ان پانچ کالم نگاروں کے ایک ایک کالم کا حوالہ دیں‘‘ نوجوان خاموش رہا‘۔
تیسری خاتون نیوز کاسٹنگ کی ’’مہارت‘‘ رکھتی تھیں‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ امریکا کی کل ریاستیں کتنی ہیں؟‘‘ وہ خاموش رہیں‘ میں نے پوچھا ’’ پاکستان کے صدر کا نام کیا ہے؟‘‘ وہ خاموش رہیں‘ میں نے پوچھا ’’ سینیٹ کے کل ارکان کی تعداد کتنی ہے‘‘ وہ خاموش رہیں‘ میں نے پوچھا ’’ ملک کا پچھلا الیکشن کب ہوا‘‘ وہ خاموش رہیں اور میں نے پوچھا ’’پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر کون ہیں؟‘‘ جواب دیا ’’جنرل پرویز مشرف‘‘۔
میں نے تینوں ماہرین کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد پوری کلاس سے پوچھا ’’ آپ میں سے جاب کون کون کرنا چاہتا ہے‘‘ 70 میں سے 61 ہاتھ کھڑے ہو گئے‘ میں نے ان 9 طالب علموں سے نوکری نہ کرنے کی وجہ پوچھی جنہوں نے ہاتھ کھڑے نہیں کیے تھے‘ تین خواتین نے جواب دیا ’’ ہماری منگنی ہو چکی ہے‘ ایم اے کے بعد شادی ہو جائے گی‘‘۔ دو نوجوان ملک سے باہر جا رہے تھے‘ دو نوجوان سرکاری ملازم تھے‘ وہ کوالی فکیشن بڑھانے کے لیے ایم اے کر رہے تھے جب کہ دو نوجوان ایم اے کے بعد والد کا کاروبار سنبھالنا چاہتے تھے۔
میں اب 61 نوجوانوں کی طرف مڑا‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ کی تنخواہ کہاں سے اسٹارٹ ہونی چاہیے‘‘ مختلف نوجوانوں نے مختلف فگرز دیے لیکن 50 ہزار روپے پر اتفاق رائے ہو گیا‘ میں نے اب 61 نوجوانوں سے عرض کیا ’’ملک میں اب دو مسئلے ہیں‘ آپ کی کلاس کے 90 فیصد لوگ نوکری کرنا چاہتے ہیں جب کہ پاکستان میں ہر سال 23 فیصد نوکریاں کم ہو رہی ہیں‘ پاکستان تیسری دنیا کا غریب ملک ہے‘ ملک میں ستر ٹیلی ویژن چینلز ہیں‘ یہ تمام چینلز مالیاتی بحران کی وجہ سے ملازمین میں کمی کر رہے ہیں‘ یہ ’’تین پوسٹوں پر ایک شخص‘‘ کی پالیسی پر کاربند ہیں۔
اخبارات کی حالت بھی چینلز سے مختلف نہیں‘ اخبار میں سال سال تک کوئی آسامی پیدا نہیں ہوتی جب کہ ہماری یونیورسٹیاں سال میں ماس کمیونی کیشن کے دس ہزار طالب علم پیدا کر رہی ہیں اور ان میں سے نوے فیصد طالب علم نوکری کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی طرح شروع میں پچاس ہزار روپے تنخواہ لینا چاہتے ہیں‘ دوم‘ آپ کو کچھ نہیں آتا‘ آپ ایم اے کرنے کے باوجود 24 مضامین میں سے کسی مضمون کے ایکسپرٹ نہیں ہیں‘ آپ میں سے صرف 12 لوگوں کو ڈرائیونگ کی جاب مل سکتی ہے اور وہاں بھی اگر ڈرائیونگ لائسنس ضروری ہوا تو میرٹ پر صرف چار لوگ رہ جائیں گے اور کمپنی نے اگر ڈرائیونگ اسکول کا سر ٹیفکیٹ مانگ لیا تو یہ چار بھی ’’ڈس کوالی فائی‘‘ہو جائیں گے‘‘۔
میری گفتگو یقینا نامعقول اور نان پریکٹیکل تھی‘ شاید اسی لیے پوری کلاس اور کلاس کے اساتذہ ناراض ہو گئے‘ اساتذہ کا کہنا تھا‘ ہم نے آپ کو طالب علموں کو ’’ان کریج‘‘ کرنے کے لیے بلایا تھا لیکن آپ نے انھیں ’’ڈس کریج‘‘ کر دیا‘ میں نے اساتذہ سے پوچھا ’’کیا آپ کے بچے برسر روزگار ہیں‘‘ چائے کی میز پر دس استاد تھے‘ ان میں سے 7 استاد بزرگ تھے‘ ان کے بچے تعلیم مکمل کرچکے تھے‘ ان سات کے سات اساتذہ کے بچے بے روزگار تھے‘ میں نے بچوں کی ڈگریوں کی تفصیل پوچھی‘ دو بچے ڈاکٹر تھے‘ تین انجینئر تھے‘ دو ایم بی اے تھے اور ایک استاد کی بچی سافٹ ویئر انجینئر تھی۔
یہ بچے ٹیکنیکل شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار تھے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ کے بچے ٹیکنیکل شعبوں میں گریجوایشن کرنے کے باوجود کیوں بے روزگار ہیں‘‘ اساتذہ نے جواب دیا ’’ملک میں میرٹ نہیں‘ ہمارے بچے سفارش اور رشوت نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’رشوت اور سفارش سرکاری ملازمت کے لیے درکار ہوتی ہے۔
آپ کے بچے پرائیویٹ سیکٹر میں جائیں‘‘ اساتذہ نے جواب دیا ’’بچے پرائیویٹ سیکٹر میں سیکڑوں مرتبہ اپلائی کرچکے ہیں مگر انھیں انٹرویو تک کی کال نہیں آئی‘‘ میں نے پوچھا ’’ بچوں کو کال کیوں نہیں آتی‘‘ اساتذہ کا کہنا تھا ’’ سفارش اور رشوت‘‘ میں نے عرض کیا ’’ جی نہیں‘ جابز کم ہیں اور امیدوار زیادہ چنانچہ آپ کے بچے اعلیٰ تعلیم کے باوجود بے روزگار ہیں اور یہ ٹیکنیکل شعبوں کی حالت ہے جب کہ آپ مجھ سے ماس کمیونی کیشن کے طلباء اور طالبات کو ’’ان کریج‘‘ کروانا چاہتے ہیں‘‘ اساتذہ خاموش ہو گئے۔ یہ یقینا میرے ’’احترام‘‘ میں خاموش ہوئے ہوں گے کیونکہ ملک میں دوسروں کے نقطہ نظر کو برداشت کرنے یا تسلیم کرنے کی کوئی روایت موجود نہیں۔
پاکستان میں بے روزگاری انتہا کو چھو رہی ہے‘ ملک میں ایک کروڑ 45 لاکھ پڑھے لکھے‘ ڈگری ہولڈر بے روزگار ہیں جب کہ بے روزگاروں کی مجموعی تعداد پانچ کروڑ سے زائد ہے‘ یہ 5 کروڑ لوگ نوکریاں بھی چاہتے ہیں‘ بھاری تنخواہیں بھی اور مراعات بھی لیکن صلاحیت دیکھی جائے تو یہ ڈرائیونگ تک نہیں جانتے‘ یہ کمپیوٹر پر ٹائپ نہیں کر سکتے‘ یہ حساب نہیں کر سکتے اور یہ درخواست نہیں لکھ سکتے مگر یہ لوگ اس کے باوجود ایسی نوکریوں کی تلاش میں ہیں جن میں تنخواہیں لاکھوں میں ہوں‘ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے مواقع وسیع ہوں‘ اختیارات وزیراعظم کے برابر ہوں لیکن کام اور کارکردگی صفر ہو۔
میرا خیال ہے دنیا کی کوئی حکومت‘ دنیا کا کوئی نظام اس اپروچ اور بے روزگاری کے اس ہجوم کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ یہ ان پانچ کروڑ لوگوں کا مسئلہ حل نہیں کرسکتا‘ ہم اب اس مسئلے کے حل کی طرف آتے ہیں۔ اس مسئلے کے چار حل ہیں‘ ایک‘ آپ لوگوں کی اپروچ کو نوکری سے ذاتی کام پر شفٹ کریں‘ حکومت ’’سیلف ایمپلائمنٹ‘‘ پر کام کرے اور یہ ڈیٹا کالج کے طلباء کے ساتھ شیئر کرے‘ دو‘ ملک میں گریجوایشن کے بعد ماسٹر یا ایم اے میں داخلے کے لیے دو سال کا عملی تجربہ لازمی قرار دے دیا جائے‘ طالب علم بی اے کرے‘ عملی زندگی میں جائے‘ وہاں دو سال گزارے اور اس کے بعد ماسٹر لیول کی تعلیم کے لیے اپلائی کر سکے۔
دو سال کے عملی تجربے کے دوران بھی جو طالب علم ذاتی کام شروع کرے‘ اسے 80 نمبر دیے جائیں اور نوکری کرنے والے کو 20 نمبر۔ تین‘ اعلیٰ تعلیم مہنگی بھی کر دی جائے اور مشکل بھی۔ یونیورسٹیاں کسی بھی شعبے میں سال میں سو سے زائد طالب علم نہ لے سکیں‘ سلیبس کو 80 فیصد پریکٹیکل اور 20 فیصد تھیوریٹکل بنا دیا جائے‘ اہل طالب علموں کی فیس معاف کر دی جائے‘ باقی طالب علموں کو بینکوں کے ذریعے ’’ ایجوکیشن لون‘‘ کی سہولت دے دی جائے‘ ملک کی تمام سرکاری آسامیاں ’’سی ایس ایس‘‘ جیسے امتحانات کے ذریعے پُر کی جائیں تا کہ کم از کم سرکاری نوکریوں میں سفارش اور رشوت ختم ہو جائے اور چار‘ ملک میں ’’ٹیلنٹ ایکسپورٹ‘‘ کا ادارہ بنایا جائے۔
یہ ادارہ دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ’’ہیومن ریسورس ایکسپورٹ‘‘ کے معاہدے کرے‘ ان ممالک کی ضرورت کے مطابق یونیورسٹی کے بچوں کو ٹریننگ اور تعلیم دے اور اس کے بعد ان نوجوانوں کو ان ممالک میں بھجوا دے‘ یہ پڑھے لکھے پاکستانیوں اور پاکستان دونوں کے لیے بہتر ہو گا۔ہم نے اگر آج بے روزگاری کے مسئلے کو سنجیدہ نہ لیا تو یہ نام نہاد پڑھے لکھے نوجوان مستقبل کے خودکش حملہ آور ثابت ہوں گے اور ہم اگر طالبان سے بچ بھی گئے تو بھی ہم خود کو ان نااہل بے روزگار خود کش حملہ آوروں سے نہیں بچا پائیں گے کیونکہ یہ ایک کروڑ 45 لاکھ لوگ ملکی سلامتی کے لیے اصل خطرہ ہیں۔

ملک کے معززین سے معزز سوال
جاوید چوہدری جمعـء 27 جون 2014

خاتون استاد کا سوال سیدھا اور واضح تھا‘ میں سوال سمجھ گیا مگر میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ پوری کلاس کی نظریں مجھ پر جمی تھیں اور میں شرمندگی کے عالم میں خاموش کھڑا تھا‘ میں نے سوچا میں جھوٹ بول دیتا ہوں‘ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ‘ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں کچھ نہیں جانتے‘ میں جھوٹ بول کر خفت سے بچ جائوں گا لیکن پھر سوچا ہمارے رسولؐ جھوٹ سے نفرت کرتے تھے‘ وہ اعلان نبوت سے پہلے صادق اور امین اسٹیبلش ہو چکے تھے‘ میں آج جھوٹ بول کر خفت سے بچ جائوں گا مگر کل اپنے رسولؐ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔
میں نے خاتون اور کلاس سے معذرت کی اور عرض کیا ’’ مجھ میں ان تینوں ہستیوں کی کوئی عادت موجود نہیں‘‘ خاتون استاد نے یہ سن کرمیرا شکریہ ادا کیا اور علی کی طرف مڑ گئی۔ آپ زندگی میں بے شمار سوال پوچھتے ہیں‘ آپ سے بھی سیکڑوں ہزاروں سوال پوچھے جاتے ہیں‘ ہمارا ذہن بھی روزانہ چار ہزار سوال پیدا کرتا ہے مگر کچھ سوال ہمارے وجود کو جکڑ لیتے ہیں‘ یہ ہمیں مفلوج کر دیتے ہیں‘ انکل نسیم انور بیگ (اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے‘ تین دن قبل ان کی برسی تھی) فرمایا کرتے تھے ’’ بعض سوال اپنے جوابوں سے زیادہ معزز ہوتے ہیں‘‘ خاتون استاد کا سوال بھی جواب سے زیادہ معزز تھا چنانچہ مجھے چپ لگ گئی‘ میں شرمندگی اور خاموشی کی تہہ میں ڈوبتا چلا گیا‘ میں خاتون استاد کے سوال کی طرف آنے سے قبل آپ کو سوال کی بیک گرائونڈ بتاتا چلوں۔
یہ بیک گرائونڈ معاملہ سمجھانے میں آپ کی مدد کرے گی‘ بی ہیورز (Behavers) اور اخلاقیات سائنس ہیں‘یہ سائنس تین درجوں میں مکمل ہوتی ہے‘ ہماری اخلاقیات اور ہمارے بی ہیورز کی عمارت ہماری پیدائش سے قبل بننا شروع ہو جاتی ہے‘دوسرا مرحلہ پیدائش کے بعد شروع ہوتا ہے‘ ہم پیدا ہوتے ہیں تو ہم ماحول سے اخلاقیات اور بی ہیورز لینا شروع کرتے ہیں‘ ایک بچہ عالم کے گھر پیدا ہوتا ہے‘ ایک سیاستدان‘ ایک شاعر اور ایک طوائف کے گھر آنکھ کھولتا ہے‘ ان چاروں بچوں کی تاریخ پیدائش خواہ ایک ہو مگر ان کی اخلاقیات اور بی ہیورز میں زمین آسمان کا فرق ہو گا‘ یہ چاروں ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے‘ یہ بچے اس کے بعد معاشرے میں جائیں گے‘ معاشرہ اخلاقیات سازی کا تیسرا مرحلہ ہوتا ہے۔
معاشرے کی اخلاقیات اور بی ہیورز بچے کے جنیات اور خاندانی بی ہیورز اور اخلاقیات کے ساتھ ملتی ہیں‘ یہ بچے جن اسکولوں میں جاتے ہیں‘ یہ جن اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ یہ جو پیشہ اختیار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انھیں جو ٹیلنٹ ودیعت کر رکھا ہے‘ ان کی اخلاقیات بچے کی خاندانی‘ جنیاتی اور معاشرتی اخلاقیات میں شامل ہوتی چلی جاتی ہیں یہاں تک کہ یہ بچے 14 سال کی عمر میں پہنچ کر پرسنیلٹی بن جاتے ہیں‘ یہ بچے باقی زندگی اس پرسنیلٹی کے تحت زندگی گزارتے ہیں‘ ہم اس پرسنیلٹی کو کریکٹر بھی کہہ سکتے ہیں‘ دنیا کی مختلف یونیورسٹیاں بی ہیورز‘ اخلاقیات اور مینرز پر کورس کرواتی ہیں‘ میں نے آج سے پانچ برس قبل امریکا کی ایک یونیورسٹی سے ’’بی ہیورز‘‘ پر پندرہ دن کا کورس کیا‘ کورس میں مختلف ممالک کے 25 طالب علم شامل تھے۔
میں اور علی اس کلاس میں دو مسلمان تھے‘ علی مصر سے تعلق رکھتا تھا‘ علی کو 45 سال کی عمر میں پہنچ کر اندازہ ہوا وہ ’’بی ہیورز‘‘ کے بحران کا شکار ہے چنانچہ اس نے بھی کورس میں داخلہ لے لیا‘ وہ ہماری کلاس کا چوتھا دن تھا‘ خاتون استاد نے ہمیں کاغذ دیا اور ہمیں اپنی اپنی آئیڈیل شخصیات کے نام لکھنے کا حکم دیا‘ میں نے کاغذ پر نبی اکرم ؐ ‘ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے نام لکھ دیے‘ علی نے نبی اکرم ؐ‘ حضرت علی ؓ اور سلطان صلاح الدین ایوبی لکھا‘ خاتون استاد نے کاغذ جمع کیے اورپرچوں کا نفسیاتی تجزیہ شروع کر دیا‘ میں اور علی کلاس میں صرف دو لوگ تھے جنہوں نے اپنے رسول ؐ‘ اپنے بابائے قوم یا کسی صحابی ؓ کو آئیڈیل شخصیت قرار دیا۔
کلاس میں22 عیسائی اور ایک بودھ تھا‘ کسی عیسائی طالب علم نے حضرت عیسیٰ ؑکا نام نہیں لکھا‘ بودھ نے بھی مہاتما بودھ کا نام تحریر نہیں کیا ‘ زیادہ تر لوگوں کی آئیڈیل شخصیات سوشل ویلفیئر سے وابستہ شخصیات‘ بزنس ٹائی کونز‘ اسپورٹس مین‘ اداکارہ‘ گلو کار‘ والدین اور سائنس دان تھیں‘ بودھ طالب علم نے ایک عالمی سیاح کا نام لکھا تھا‘ ڈیٹا سامنے آنے کے بعد میں نے علی کی طرف دیکھا اور علی نے میری طرف دیکھا اور ہم دونوں نے فخر سے گردن اونچی کر لی‘ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس ہو رہا تھا‘ ہم فخر کیوں نہ کرتے‘ ہم لادین‘ کمرشل اور دنیا دار لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے‘ ہم خوش تھے لیکن پھر اگلا مرحلہ شروع ہو گیا‘ خاتون استاد نے سب سے پہلے مجھے کھڑا کیا اور مجھ سے پوچھا’’ آپ کے رسولؐ آپ کے آئیڈیل ہیں۔
آپ یہ بتائیے آپ میں ان کی کون کون سی عادتیں موجود ہیں‘‘ میرے لیے یہ سوال سرپرائز تھا‘ میرے سامنے نبی اکرم ؐ کی ہزاروں لاکھوں خوبیاں اور عادتیں آ رہی تھیں‘ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘ کبھی خیانت نہیں کی‘ کم کھاتے تھے‘ کم سوتے تھے‘ کم بولتے تھے‘ نظریں جھکا کر چلتے تھے‘ آہستہ بولتے تھے‘ کبھی انتقام نہیں لیا‘ وعدہ کیا تو نبھایا‘ یتیموں کے والی تھے‘ بیوائوں کا آسرا تھے‘ بچے گستاخی بھی کر جاتے تو ہنس پڑتے تھے‘ اپنی مسجد کو کمیونٹی سینٹر بنایا‘مہمانوں کی غلاظت تک دھو دی‘ جوتے گانٹھتے تھے‘ جانور چراتے تھے‘ لباس پر پیوند لگا کر پہن لیتے تھے‘ لوگوں میں اس طرح گھل مل کر بیٹھتے تھے کہ اجنبی کے لیے آپؐ کو پہچاننا مشکل ہو جاتا تھا‘ بڑے سے بڑے دشمن کو دو سیکنڈ میں معاف کر دیا‘ نظام پر یقین رکھتے تھے‘ لڑنا پڑا تو لڑے‘ جانوروں کے لیے ضابطہ بنوایا‘ دوسروں کے عقائد کا احترام کیا۔
صحابہؓ کو حکم دیا دوسروں کے جھوٹے خدائوں کو بھی برا نہ کہو اور انصاف اتنا کہ فرمایا ’’ فاطمہ بنت محمدؐ بھی ہوتی تو ہاتھ کاٹ دیتا‘‘ میری پہلی آئیڈیل شخصیت میں ہزاروں خوبیاں اورلاکھوںشاندار عادتیں تھیں مگر عبادت کے سوا ان کی کوئی عادت میری زندگی کا حصہ نہیں تھی‘ میں شرمندہ ہو گیا‘ خاتون استاد مجھے اس کے بعد قائداعظم اور علامہ اقبال کی طرف لے گئی‘ میرے اندر قائداعظم اور علامہ اقبال کی بھی کوئی خوبی موجود نہیں تھی‘ قائداعظم نے جیل یاترا کے بغیر دنیا کی کامیاب ترین مسلم تحریک چلائی‘ یہ جیل کیوں نہیں گئے؟ کیونکہ قائد نے کبھی کوئی قانون نہیں توڑا‘ وہ زندگی بھر قانون کے دائرے میں رہے‘ ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی‘ پوری جائیداد تعلیمی اداروں کو عطیہ کر دی۔
خاندان کے کسی شخص کو سرکاری عہدہ نہیں دیا اور زندگی کا ایک لمحہ ضایع نہیں کیا اور علامہ اقبال! وہ سچے عاشق رسولؐ تھے‘ آپ قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے تو قرآن کے ورق آنسوئوں سے بھیگ جاتے تھے‘ آپ پوری زندگی نیل کے ساحلوں کو کاشغر کی خاک سے ملانے کے خواب کاتتے رہے‘ قوم ہاشمی کو اقوام مغرب کی غلامی سے آزاد دیکھنے کی آرزوئیں کاشت کرتے رہے اور ممولے میں عقاب سے لڑنے کی قوت پیدا کرتے رہے لیکن افسوس مجھ میں قائداعظم اور علامہ اقبال کی بھی کوئی عادت‘ کوئی خوبی موجود نہیں تھی‘ میں نے شرمندگی سے منہ نیچے کر لیا‘ علی کی باری آئی تو علی کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ وہ بھی میری طرح شرمندہ ہو گیا۔
یہ سوال دوسرے طالب علموں سے بھی پوچھا گیا‘ ان کے آئیڈیل عام لوگ تھے چنانچہ وہ اپنے آئیڈیل اور اپنے درمیان موجود مشترکہ عادتیں دھڑا دھڑ بیان کرنے لگے‘ وہ خاتون استاد سے بحث کر رہے تھے اور میں اور علی ان کا منہ دیکھ رہے تھے‘ خاتون استاد نے اس اسٹڈی کے آخر میں تین نکتے سمجھائے‘ اس کا کہنا تھا‘ نبی‘ سینیٹ اور لیڈر عام لوگ نہیں ہوتے‘ یہ عام لوگوں سے بالاتر ہوتے ہیں‘ ہم کچھ بھی کر لیں ‘ ہم ان جیسے نہیں بن سکتے‘ ہم بہت زور لگا لیں تو ہم اپنے اندر ان جیسی کوئی ایک آدھ خوبی پیداکر لیں گے اور بس لہٰذا ہمیں ان کی صرف اتباع کرنی چاہیے‘ ان جیسا بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ کوشش ہمارے اندر بی ہیور کا بحران پیدا کر دیتی ہے اور لوگ ہمیں منافق کہنے لگتے ہیں۔
دو‘ ہم اگر گزرے ہوئے لوگوں کے بجائے زندہ لوگوں کو آئیڈیل بنائیں تو ہم ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘ زندہ لوگوں اور ہم میں زبان‘ ٹیکنالوجی‘ لباس‘ کرنسی اور انفراسٹرکچر بے شمار چیزیں کامن ہوتی ہیں‘ بل گیٹس اور آپ دونوں ’’کیپو چینو‘‘ پیتے ہیں اور آئی فون استعمال کرتے ہیں چنانچہ آپ ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور تیسرا آپ کسی ایک زندہ شخص کو آئیڈیل مان کر اس کی اخلاقیات اور بی ہیورز کی کاپی کرلیں۔آپ اس کی عادتیں اپنا لیں‘ آپ کامیابی کے راستے پر چل پڑیں گے۔
وہ کورس ختم ہو گیا‘ میں واپس آ گیا مگر میں پچھلے پانچ برسوں سے ملک کے تمام لیڈروں کو وہی غلطی کرتے دیکھ رہا ہوں جو میں نے اور علی نے کورس کے دوران کی تھی‘ میاں نواز شریف ملک کو علامہ اقبال کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں‘ علامہ طاہرالقادری ملک میں مصطفوی انقلاب لانا چاہتے ہیں‘ عمران خان پاکستان کو قائداعظم کا ملک بنانا چاہتے ہیں اور آصف علی زرداری پاکستان کو شہید بھٹو کے خوابوں کی سلطنت دیکھنا چاہتے ہیں۔
میں اپنے لیڈروں کے خیالات کا احترام کرتا ہوں لیکن میں احترام کے باوجود ان سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں‘ مجھے میاں نواز شریف بتائیں ان میں علامہ اقبال کی کون سی خوبی موجود ہے؟‘ علامہ طاہر القادری نے رسول اللہﷺ کی کون سی خوبی اپنائی‘ عمران خان نے قائداعظم کی کس خوبی کی پیروی کی اور آصف علی زرداری میں بھٹو کی کون سی خوبی موجود ہے؟‘ یہ لوگ اگر اپنے پونے چھ فٹ کے جسمانی رقبے میں اپنے آئیڈیل کی ایک خوبی پیدا نہیں کر سکے تو یہ 19 کروڑ لوگوں اور سات لاکھ مربع کلو میٹر کے اس ملک کو اپنے آئیڈیل کے رنگ میں کیسے ڈھالیں گے؟۔
کیا آپ میں سے کسی شخص کے پاس اس سوال کا جواب موجود ہے!۔

راستہ بن چکا ہے
جاوید چوہدری جمعرات 26 جون 2014

جولاہاکپڑے بُننے والوں کو کہا جاتا تھا‘یہ پیشہ بھی دوسرے پیشوں کی طرح دم توڑ چکا ہے‘ آپ کو جس طرح اب قصبوں اور دیہات میں موچی‘ ماشکی‘ مراثی‘ لوہار اور ترکھان نہیں ملتے بالکل اسی طرح جولاہے بھی نظروں سے غائب ہو چکے ہیں‘ یہ لوگ ہاتھ کی کھڈی پر کپڑا بُنا کرتے تھے‘ یہ کپڑا بعد ازاں بازاروں میں بکتا تھا‘ یہ لوگ فنکار تھے‘ یہ کپڑے میں مختلف قسم کے دھاگے اور رنگ ملا کر اس میں جان پیدا کر دیتے تھے‘ ریشم ہو یا کمخواب ہو‘ ململ ہو یا ٹاسا ہو یہ کپڑے کو زندہ کر دیتے تھے‘ آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے تک شہروں میں جولاہوں کی باقاعدہ بستیاں اور محلے ہوتے تھے۔
جولاہوں کے محلوں میں سیکڑوں ہزاروں کھڈیاں ہوتی تھیں اور یہ لوگ دن رات ان کھڈیوں پر کام کرتے تھے‘ وقت بدلا اور برقی لومیں‘ ٹیکسٹائل ملز اور گارمنٹس فیکٹریاںجولاہوں کے اس فن کو نگل گئیں‘ یہ لوگ بے روزگار ہوئے‘ ان کے محلے بے آباد ہوئے اور یہ لوگ اور ان کا فن آہستہ آہستہ وقت کے پیندے میں بیٹھتا چلا گیا‘ یہاں تک کہ آج کی نسل جولاہے کے لفظ تک سے واقف نہیں‘ مجھے خطرہ ہے دس سال بعد شاید جولاہے کا لفظ بھی لغت سے خارج ہو جائے اور یہ لوگ اور ان کا فن صرف قدیم کتابوں میں تذکرے کی حد تک محدود ہو جائے‘ یہ لوگ بھی دوسرے درجن بھر پیشوں کے ماہرین کی طرح یاد ماضی کا عذاب بن کرمعدوم ہو جائیں۔
یہ لوگ فنکار تھے‘ یہ لڑنے بھڑنے سے پرہیز کرتے تھے‘ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے تک جسمانی طاقت کامیابی سمجھی جاتی تھی‘ اس دور میں ہر اس شخص کا مذاق اڑایا جاتا تھا جو صلح‘ مذاکرات‘ افہام و تفہیم اور امن کی بات کرتا تھا‘ جولاہے لڑنے والے لوگ نہیں تھے لہٰذا یہ بزدل سمجھے جاتے تھے اور ہر اس شخص کو جولاہا کہہ کر اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا جو میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا تھا یا پھر لوگوں کو لڑنے بھڑنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتا تھا یا صلح صفائی کو لڑائی پر فوقیت دیتا تھا‘ جولاہا بڑی اور بہادر ذاتوں کے لیے طعنے یا گالی کی حیثیت رکھتا تھا‘ پنجاب میں لوگ مرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے مگر جولاہا کہلانا پسند نہیں کرتے تھے‘ جولاہے وہمی بھی ہوتے تھے‘ یہ معمولی باتوں کو پہاڑ بنا دیتے تھے۔
ان کی اس وہمی طبیعت سے درجنوں لطیفوں نے جنم لیا مثلاً آپ جولاہوں کے بارے میں یہ لطیفہ ملاحظہ کیجیے‘ جولاہوں کا ایک خاندان ماتم کر رہا تھا‘ ہمسایوں نے سوچا شاید ان کا کوئی عزیز انتقال کر گیا ہو‘ یہ لوگ تعزیت کے لیے پہنچ گئے‘ دوسرے ہمسایوں نے پہلے ہمسائے کو آتے دیکھا تو وہ بھی آ گئے‘ وہ روتے پیٹتے رہے اور ہمسائے آتے رہے یہاں تک کہ صحن مہمانوں سے بھر گیا‘ یہ سارے جولاہے تھے چنانچہ کسی نے رونے پیٹنے کی وجہ دریافت نہیں کی‘ وہ لوگ شام تک رو پیٹ کر تھک گئے تو کسی نے ان سے پوچھا ’’ میت کہاں سے آئے گی‘‘ رونے پیٹنے والوں نے حیرت سے پوچھا ’’کون سی میت‘‘ پوچھنے والے نے کہا ’’ آپ لوگ جس کو رو رہے ہیں‘‘ انھوںنے تڑپ کر جواب دیا ’’ ہم کسی کی موت پر نہیں رو رہے‘ ہم راستہ بننے پر رو رہے ہیں‘‘۔
پوچھنے والے کی حیرت میں اضافہ ہو گیا‘ رونے والوں نے بتایا ’’ ہمارا بزرگ صبح صحن میں کھڑا تھا‘ اس کی ٹانگوں کے درمیان سے چوہا گزر گیا‘ ہم اپنے بزرگ کے انجام پر رو رہے ہیں‘‘ پوچھنے والے نے پوچھا ’’ جناب چوہے کے گزرنے کا بزرگ کے انجام سے کیا تعلق؟‘‘ خاندان نے جواب دیا ’’ چوہا گزرنے کے بعد ابا جی کی ٹانگوں کے درمیان راستہ بن گیا ہے‘ ہم ڈر رہے ہیں کیونکہ اس راستے پر اب بھینسے بھی سفر کریں گے‘ گھوڑے بھی اور ہاتھی بھی‘ چوہا چھوٹا تھا وہ تو آرام سے گزر گیا مگر جب ہاتھی‘ گھوڑے اور بھینسے گزریں گے تو ابا جی کا کیا حال ہو گا؟ ہم نے جب یہ سوچا تو ہماری چیخیں نکل گئیں‘‘۔
مجھے یقین ہے‘ آپ بھی جولاہوں کی اس عجیب منطق پر ہنس رہے ہوں گے‘ یہ یقینا ہنسی کی بات ہے مگر اس ہنسی کی بات میں بھی ’’راستے بننے‘‘ کی ایک کارآمد ترین اصطلاح موجود ہے‘ انسان کی نفسیات ہے‘ یہ جب کسی اجنبی جگہ پر پائوں رکھ دیتا ہے تو پائوں کے اس نشان کو راستہ بنتے دیر نہیں لگتی‘ دوسرے انسان پائوں کے اس نشان پر قدم رکھتے ہوئے اس ایک نشان کو راستہ بنا دیتے ہیں‘ دنیا میں جتنے راستے‘ جتنی پگڈنڈیاں اور جتنی سڑکیں ہیں‘ یہ ماضی میں کسی ایک آدھ شخص کی گزر گاہ تھیں‘ یہ گزر گاہ راستہ بنی اور پھر یہ راستہ جی ٹی روڈ اور موٹروے بن گیا۔
انسان کی نفسیات ہے یہ پائوں پر پائوں رکھتا ہوا آگے سے آگے بڑھتا جاتا ہے اور انسان کی یہ نفسیات صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ آپ کو معاشرے کی ہر مضبوط روایت کے پیچھے یہی نفسیات نظر آئے گی‘ کوئی ایک انسان تھا جس نے کوئی ایک کام کیا‘ دوسرے انسان اس کام کی پیروی کرتے رہے اور یوں وہ ایک قدم روایت‘ رسم اور فلسفہ بن گئی‘ ہم اگر انسان کی اس نفسیات کو حقیقت مان لیں تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا مولانا طاہر القادری نے نظام پر دوسرا حملہ کر کے ملک میں انارکی کی بنیاد رکھ دی‘ مولانا طاہرالقادری عالم دین ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں خطابت کے جوہر سے بھی نواز رکھا ہے‘ یہ لفظوں کا دریا بہا دیتے ہیں اور یہ دریا سننے والوں کو چند لمحوں کے لیے مبہوت کر دیتا ہے۔
مولانا کے کارکن‘ ساتھی اور مریدین ان کے ساتھ مخلص ہیں‘ مولانا انھیں کہہ دیتے ہیں بیٹھ جائو‘ یہ بیٹھ جاتے ہیں‘ مولانا کہتے ہیں اٹھ جائو‘ یہ اٹھ جاتے ہیں اور مولانا کہتے ہیں چل پڑو‘ یہ چل پڑتے ہیں‘ مولانا طاہر القادری الطاف حسین کے بعد ملک کے دوسرے لیڈر ہیں جن کا اپنے ورکروں پر خوفناک ہولڈ ہے‘ ان کے ورکر ان کے اشاروں پر اس طرح چلتے ہیں جس طرح ریموٹ کنٹرول کی شعاعیں چلتی ہیں‘ مولانا نے نظام کے قلعے پر 14 جنوری 2013کو پہلا حملہ کیا تھا‘ یہ پوری شدت کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے تھے‘ یہ17 جنوری2013 کو اسلام آباد سے ناکام واپس لوٹے لیکن ہمیں ماننا پڑے گا مولانا کے حملے نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی‘ دنیا بھر کے میڈیا نے انھیں کوریج دی۔
ہمارے میڈیا نے بھی مسلسل پانچ دن مولانا کے لانگ مارچ اور دھرنے کو لائیو کوریج دی‘ مولانا نے اس حملے کے ذریعے پوری دنیا کو سمجھا دیا پاکستان کا نظام بہت کمزور ہے‘ اس نظام کو ایک شخص کینیڈا سے آ کر بھی اتنا ہلا سکتا ہے کہ دس بڑے لیڈر کنٹینر میں آ کر اس سے مذاکرات پر مجبور ہو جاتے ہیں‘یہ راستہ بنانے کا پہلا قدم تھا‘ مولانا نے نظام پر دوسرا حملہ 23 جون کو کیا‘ یہ راستہ بنانے کی دوسری کوشش تھی‘ ہمارے میڈیا نے 21 جون کو مولانا کو کوریج دینا شروع کر دی تھی‘ 23 جون کو تمام چینلز نے خصوصی ٹرانسمیشن کی‘ مولانا کو شام تک کوریج ملتی رہی‘شام کے وقت سورج کی شعاعیں مدہم پڑتے ہی انقلاب کی لو بھی کند ہوگئی‘ حکومت کا خیال تھا‘ مولانا اس دوسرے حملے کے بعد اپنی کریڈیبلٹی کھو بیٹھے ہیں‘ یہ اب تیسرا شو نہیں کر سکیں گے۔
یہ اندازہ سیاسی لحاظ سے درست ہے‘ حکومت نے مولانا کا جہاز ڈائی ورٹ کر کے انقلاب کو شدید دھچکا پہنچایا‘ مولانا کے کارکن اسلام آباد میں جمع تھے‘ جہاز اچانک لاہور آ گیا‘ مولانا نے لاہور میں جہاز سے اترنے سے انکار کر دیا‘ جہاز ساڑھے پانچ گھنٹے پھنسا رہا‘ پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی‘ مولانا کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا‘ مولانا کور کمانڈر لاہور کی ضمانت پر جہاز چھوڑنا چاہتے تھے لیکن فوج کی طرف سے گورنر سندھ عشرت العباد اور حکومت کی طرف سے گورنر پنجاب نے مذاکرات کیے اور یوں مولانا گورنر پنجاب چوہدری سرور کو اپنی گاڑی میں بطور ’’زر ضمانت ‘‘ رکھ کر جہاز سے باہر آگئے۔
مولانا کی ان حرکات نے ان کی کریڈیبلٹی کو متاثر کیا اور حکومت کے مطابق ان کا دوسرا حملہ بھی پسپا ہو گیا‘ حکومت مولانا کی ناکامی پر خوشیاں منا رہی ہے مگر مجھے اس ناکامی سے مستقبل کی بے شمار کامیابیوں کی بو آ رہی ہے‘ مولانا نظام پر حملوں کا راستہ بنا چکے ہیں‘ ہمارا نظام حقیقتاً ڈیلیور نہیں کر رہا‘ یہ نظام غریب کو غریب سے غریب تر اور امیر کو امیر سے امیر تر بنا رہا ہے‘ ملک میں بے روزگاری‘ بیماری‘ لاقانونیت‘ ظلم‘ زیادتی اور ناانصافی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔
حکومت موجود ہے لیکن اس سے حکمرانی غائب چکی ہے‘ ادارے اداروں کے کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں‘ فوج اور حکومت کی لڑائی بھی ختم نہیں ہو رہی‘ سرکاری اہلکاروں کی نالائقی آخری حدود کو کراس کر چکی ہے‘ بل بڑھ رہے ہیں بجلی کم ہو رہی ہے‘ ڈگریاں مل رہی ہیں مگر تعلیم ختم ہو چکی ہے‘ نوکریاں ہیںمگر میرٹ نہیں‘ مسجدیں آباد ہیں لیکن خوف خدا ختم ہو چکا ہے اور جس دن اس بے انصافی‘ لاقانونیت‘ بیماری اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے عوام نے مولانا طاہر القادری کے بنائے ہوئے راستے پر قدم رکھ دیا اس دن یہ نظام دم توڑ جائے گا اور وہ دن شاید ہمیں روانڈا‘ برونڈی اور عراق بنا دے۔
مولانا خانہ جنگی کا راستہ بنا چکے ہیں‘ ہمیں عوام کے قدم اٹھنے سے قبل اس نظام کی ڈینٹنگ پینٹنگ کر دینی چاہیے ورنہ دوسری صورت میں وقت کے ہاتھی ہمیں چٹنی بنا کر مولانا کے بنائے راستے سے گزر جائیں گے۔
یہ گلو بٹ نہیں‘ یہ نفرت ہے
جاوید چوہدری جمعـء 20 جون 2014
ہم دنیا کے ان چند زندہ لوگوں کی فہرست بنائیں جن سے پورا عالم اسلام نفرت کرتا ہے تو سلمان رشدی اس فہرست کے ابتدائی ناموں میں آئے گا‘ یہ انتہائی متنازعہ اور نامعقول کردار ہے‘یہ19 جون 1947ء کوبھارت کے شہر ممبئی میں پیدا ہوا‘کیمبرج سے تعلیم حاصل کی اور 1975 ء میں لکھنا شروع کیا‘ یہ اب تک 32 کتابیں لکھ چکا ہے‘ سلمان رشدی اور اس کی کتابیں لوگوں میں مقبول تھیں لیکن پھر اس نے 1988ء میں The Satanic Verses کے نام سے ایک واہیات ناول لکھ دیا‘ اس ناول کے چند توہین آمیز فقروں نے پورے عالم اسلام میں آگ لگا دی۔
اسلامی ممالک میں مظاہرے شروع ہوگئے اور عالم اسلام کی مختلف اسلامی تنظیموں اور شخصیات نے سلمان رشدی کے خلاف قتل کے فتوے جاری کر دیے‘ ایران نے 1989ء میں اس کے سر کی قیمت طے کر دی‘ سلمان رشدی اس وقت برطانیہ میں مقیم تھا‘ برطانیہ نے فوری طور پر اس کی سیکیورٹی کا بندوبست کر دیا‘ یہ جنوری 1999ء میں وہاں سے فرانس آیا اور 2000ء میں امریکا منتقل ہو گیا‘ یہ اس وقت امریکا کے شہر نیویارک کے علاقے یونین اسکوائر میں رہائش پذیر ہے‘ یہاں اسے سربراہ مملکت کے برابر سیکیورٹی حاصل ہے‘ یہ بلٹ اور بم پروف گھر میں رہتا ہے‘ یہ میزائل پروف گاڑی میں سفر کرتا ہے‘ یہ چارٹر جہازوں میں بیرون ملک جاتا ہے۔
پولیس اسے اپنی نگرانی میں گھر سے باہر اور گھر میں واپس لاتی ہے‘ اس کے گھر کے اردگرد ہر وقت پولیس کا پہرہ رہتا ہے‘ سلمان رشدی کو ایک خصوصی ریموٹ کنٹرول بھی دیا گیا ہے‘ یہ ’’کی چین‘‘ کی طرح کا چھوٹا سا ریموٹ کنٹرول ہے ‘ یہ ریموٹ کنٹرول ہر وقت اس کے ہاتھ میں رہتاہے‘ یہ کسی بھی ہنگامی حالت میں ریموٹ کنٹرول کابٹن دبا دیتا ہے‘ پولیس اور فوج تین منٹ میں اس تک پہنچ جاتی ہے‘ اس کے گھر کے اندر ایک خصوصی کمرہ بھی ہے‘ یہ کمرہ بم پروف ہے‘ یہ معمولی سے کھٹکے کے بعد اس روم میں پناہ گزین ہو جاتا ہے‘ یہ اس روم میں 45 روز تک رہ سکتا ہے کیونکہ اس کمرے میں 45 دن تک کے لیے ساری ضروریات موجود ہیں‘ یہ تمام انتظامات امریکی حکومت نے کر رکھے ہیں‘ حکومت ان انتظامات پر ہر سال لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔
آپ یہ ذہن میں رکھئے شاتم رسول سلمان رشدی مسلمان ہے (یا تھا) اس کے خلاف فتوے بھی مسلمانوں نے جاری کر رکھے ہیں‘ یہ اگر شدت پسند مسلمانوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو مغربی ممالک اس کی موت کو مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں‘ مسلمانوں کو مزید دہشت گرد ثابت کر سکتے ہیں لیکن یہ لوگ یہ آپشن اختیار کرنے کے بجائے سلمان رشدی کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس حفاظت پر ان کے لاکھوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں‘ کیوں؟ آپ کا جواب یقینا یہ ہو گا امریکی مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں‘ سلمان رشدی شاتم رسول ہے اور امریکا نے مسلمانوں کی دشمنی میں اسے پناہ دے رکھی ہے۔
یہ لوگ اس سے The Satanic Verses جیسی مزید کتابیں لکھوانا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ‘ میں بھی یہی سمجھتا تھا لیکن پھر مجھے امریکا میں ایک ٹی وی بحث دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ ٹیلی ویژن کی بحث میں سی آئی اے‘ نیویارک پولیس اور وزارت خزانہ کے اعلیٰ عہدیدار شریک تھے‘ حکومت کے غیر ضروری اخراجات پر بات ہو رہی تھی‘ میزبان نے گفتگو کے دوران سلمان رشدی کا ایشو اٹھایا اور مہمانوں سے پوچھا ’’ ہم اس شخص پر ہر سال لاکھوں ڈالر کیوں ضایع کر رہے ہیں‘ آپ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں‘‘ تینوں مہمان بیک وقت بولے ’’ سلمان رشدی کی حفاظت امریکا کی سلامتی کے لیے ضروری ہے‘‘۔
میزبان نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ سی آئی اے کے اہلکار نے جواب دیا‘ سلمان رشدی کی حفاظت کی دو وجوہات ہیں‘ اول ’’ہمارے ملک میں بے شمار لوگ‘ بے شمار لوگوں سے نفرت کرتے ہیں‘ یہ ان لوگوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں‘ یہ لوگ جب ہمیں سلمان رشدی کی حفاظت کرتے دیکھتے ہیں تو یہ سوچتے ہیں‘ ہماری ریاست جب ایک مسلمان (نام نہاد)کی اتنی حفاظت کر رہی ہے تو یہ ہم شہریوں کے بارے میں کتنی سنجیدہ ہو گی چنانچہ یہ اپنا منصوبہ ترک کر دیتے ہیں‘ دوم‘ دنیا کے بے شمار ممالک کے لوگ اور ادارے ہمارے ملک کی بے شمار اہم شخصیات کو قتل کرنا چاہتے ہیں‘یہ ادارے اور یہ لوگ جب ہمیں سلمان رشدی کی حفاظت کرتے دیکھتے ہیں تو یہ ہماری سرحدوں کے اندر داخل ہونے کی جرأت نہیں کرتے‘‘۔
میزبان حیرت سے مہمان کو دیکھتا رہا‘ پولیس کا اعلیٰ عہدیدار بولا ’’ ہم نے اگر سلمان رشدی کی سیکیورٹی واپس لے لی اوریہ ہمارے ملک میں مارا گیا تو لوگوں کے دلوں میںموجود قانون کا خوف ختم ہو جائے گا‘ ان کی نفرت دلوں سے نکل کر گلیوں میں آ جائے گی‘ لوگ یہ جان لیں گے ہمارے ملک میں لوگوں کو مارا جا سکتا ہے‘ لوگ پھر ہر اس شخص کو مار دیں گے جس سے یہ نفرت کرتے ہیں‘دوسرا سلمان رشدی کے قتل سے دنیا کو بھی یہ پیغام جائے گا‘امریکا کمزور ملک ہے‘ آپ امریکا میں گھس کربھی کسی کو مار سکتے ہیں اور یوں ہمارا ملک مقتولوں کا معاشرہ بن جائے گا‘ ہم لوگ یہ خطیر رقم لوگوں کی نفرت کو دماغوں تک محدود رکھنے کے لیے خرچ کر رہے ہیں‘‘۔
یہ میرے لیے ایک نیا نکتہ تھا‘ ہم لوگ اکثر اوقات اس نوعیت کے نکات فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ہم نہیں جانتے‘ عوامی نفرت نظام کے لیے سونامی ہوتی ہے‘ ریاست جب نفرت کو ذہنوں تک محدود رکھنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر گلو بٹ جیسے لوگ سامنے آ جاتے ہیں‘ گلو بٹ یقیناً کسی نہ کسی کا کارندہ ہو گا‘ یہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن بھی ہو سکتا ہے‘ یہ پولیس ٹائوٹ بھی ہو سکتا ہے اور یہ لاہور انتظامیہ کا اپنا بندہ بھی ہو سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کیا کوئی اپنا بندہ‘ کوئی ٹائوٹ‘ کوئی کارکن اور کوئی کارندہ اس خوفناک طریقے سے لوگوں کی گاڑیاں توڑ سکتا ہے‘ آپ کسی کو کتنے بھی پیسے دے دیں وہ گلو بٹ کی طرح دوسروں کی گاڑیاں نہیں توڑے گا‘ لوگ گاڑیوں پر حملے کرتے ہیں‘ شیشے بھی توڑتے ہیں اور لائٹس بھی کرچی کرچی کر تے ہیں لیکن وہ لوگ گاڑی پر ایک آدھ پتھر یا ڈنڈا مار کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
دنیا کا کوئی شخص اس طرح ڈنڈا اٹھا کر گاڑیاں نہیں توڑتا جس طرح گلوبٹ نے 17 جون کو ادارہ منہاج القرآن کے سامنے گاڑیاں توڑی تھیں‘ گلو بٹ سرمستی کے عالم میں گاڑیوں پر ڈنڈے برسا رہا تھا‘ وہ گاڑیاں توڑ کر فاتحانہ انداز سے رقص بھی کرتا رہا یہ رویہ نارمل نہیں‘ یہ رویہ دیہاڑی پربھی نہیں خریدا جا سکتا‘ یہ ادھار بھی نہیں لیا جا سکتا اور کسی شخص کو صرف ’’موٹی ویٹ‘‘ کر کے اس سے یہ کام بھی نہیں لیا جا سکتا‘ یہ نفرت تھی‘یہ گلو بٹ کی نظام‘ حکمرانوں‘ اشرافیہ اور گاڑیوں کے خلاف وہ نفرت تھی جو قطرہ قطرہ بن کر اس کے جسم میں جمع ہوتی رہی۔
یہ وہ نفرت تھی جو بیمار معاشروں میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی ہے اور جب انسان کو اس نفرت کو اگلنے کا موقع ملتا ہے تو یہ ایک ڈنڈے سے تیس تیس گاڑیاں توڑ دیتا ہے‘ فرانس میں جب انقلاب آیا تو پیرس کے بپھرے ہوئے لوگ چند منٹوں میں 25 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے وارسائی میں بادشاہ کے محل تک پہنچ گئے‘ بادشاہ نے حیران ہو کر وزیر سے پوچھا ’’ یہ لوگ اتنی جلدی کیسے پہنچ گئے‘‘‘ وزیر نے جواب دیا ’’بادشاہ سلامت یہ نفرت کے گھوڑے پر سوار تھے‘ ان کے پیروں میں نفرت کی آگ لگی تھی‘‘ نفرت کی آگ اور نفرت کے گھوڑے بہت تیز ہوتے ہیں۔
یہ چند لمحوں میں ہزاروں لاکھوں میل کا سفر طے کر جاتے ہیں‘ یہ عام لوگوں کو گلو بٹ بنا دیتے ہیں‘ آپ گلو بٹ کی فوٹیج کو بار بار دیکھیں‘ آپ کو اس ملک کے ہر غریب شہری کے اندر ایک کھولتا ہوا گلو بٹ ملے گا ‘ یہ گلو بٹ بھی لاہور کے گلو بٹ کی طرح اس ملک میں تعیش کی ہر چیز کو نابود کر دینا چاہتے ہیں‘ بس یہ اپنے اپنے حصے کے 17 جون کا انتظار کر رہے ہیں‘ یہ جس دن اپنے حصے کے 17 جون تک پہنچ جائیں گے یہ بھی گلو بٹ ثابت ہوں گے۔
یہ عوامی نفرت کا ایک پہلو تھا‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے‘ پولیس گلو بٹ کو ریمانڈ کے لیے ماڈل ٹائون کچہری میں لے کر گئی‘ عدالت میں موجود وکلاء اور عام لوگوں نے گلو بٹ کو دیکھا تو انھوں نے اسے پولیس کی حراست میں مارنا شروع کر دیا‘ گلو بٹ کو اتنے تھپڑ‘ ٹھڈے اور مکے لگے کہ وہ فرش پر گر کر بے ہوش گیا‘ پولیس نے اسے گھسیٹ کر رکشے میں ڈالا اور اسپتال لے گئی‘ یہ نفرت کا دوسرا اظہار تھا یعنی عوام اور وکلاء نے عدالت کے احاطے میں پولیس کی موجودگی میں گلو بٹ کو پھینٹی لگا دی اور عوام کو پولیس روک سکی‘ عدالت کا احترام اور نہ ہی قانون کا ڈر۔ یہ مثال کیا ثابت کرتی ہے؟
یہ مثال ثابت کرتی ہے‘ ہمارا معاشرہ بڑی تیزی سے عوامی انصاف کی طرف بڑھ رہا ہے اور دنیا کے جس ملک میں بھی‘ جس دور میں بھی عوامی انصاف کا سلسلہ شروع ہوا وہ ملک خانہ جنگی کا شکار بھی ہوا اور وہ ملک تباہ بھی ہو گیا‘ عوامی نفرت بوتل کے جن کی طرح ہوتی ہے‘ یہ اگر ایک بار کارک توڑ کر باہر نکل آئے تو پھر اسے بوتل میں دوبارہ بند نہیںکیا جا سکتا اور ہماری سماجی بوتل کا کارک تقریباً نکل چکا ہے‘ ہم میں سے آدھے گلوبٹ ہیں اور آدھے ماڈل ٹائون کچہری کے وہ وکیل جو احاطہ عدالت میں مکوں‘ ٹھڈوں ور تھپڑوں سے انصاف شروع کر دیتے ہیں‘ ملک کی جب یہ حالت ہو گی تو پھر اندر سے طالبان آئیں گے اور باہر سے ریمنڈ ڈیوس اور ہم کسی کو روک نہیں سکیں گے‘ اندر والوں کو اور نہ ہی باہر والوں کو اور ہم آج اس عمل سے گزر رہے ہیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کے لیے
جاوید چوہدری جمعرات 19 جون 2014

جسٹس جواد ایس خواجہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج ہیں‘ یہ وزیرآباد سے تعلق رکھتے ہیں‘ خواجہ صاحب کا خاندان وزیر آباد کی معزز اور متمول ترین فیملی تھی‘ پاکستان بننے کے بعد وزیرآباد شہر میں صرف دو گاڑیاں تھیں اور ان دو گاڑیوں میں سے ایک گاڑی کے مالک جسٹس جواد ایس خواجہ کے والد تھے‘ جسٹس جواد نے خوشحالی‘ نیک نامی اور تہذیب میں آنکھ کھولی‘ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں‘ نیک نام بھی ہیں اور ایماندار بھی۔
یہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے قریبی ساتھیوں میں بھی شمار ہوتے ہیں‘ 19 اپریل 2014ء کے بعد ’’جیو ٹیلی ویژن‘‘ کا معاملہ اٹھا‘ جیو کی انتظامیہ نے مئی کے شروع میں سپریم کورٹ میں نشریات کی بندش کے خلاف پٹیشن دائر کی‘ چیف جسٹس نے جواد ایس خواجہ ‘ جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بینچ بنا دیا‘ یہ خبرشایع ہوئی تو چند لوگوں نے اعتراض شروع کر دیا‘ میر شکیل الرحمن اورجسٹس جواد ایس خواجہ رشتے دار ہیں‘ میر شکیل الرحمن کی ہمشیرہ جسٹس جواد ایس خواجہ کی بھابی ہیں۔
یہ خبر شایع ہونے کے بعد نامعلوم افراد نے آبپارہ اور ریڈ زون میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے خلاف بینر لگوا دیے‘ یہ بینر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے لگے‘ یہ اخبارات میں بھی تصویر اور خبر کی شکل میں شایع ہو ئے اور ٹیلی ویژن چینلز نے بھی ان کی خبر نشر کر دی‘ جسٹس جواد ایس خواجہ نے 26 مئی کو ان بینرز کا نوٹس لے لیا‘ جسٹس صاحب نے اٹارنی جنرل‘ آئی جی اور ایس ایس پی اسلام آباد سے استفسار کیا‘ وفاقی حکومت اور پولیس متحرک ہوئی‘ 27 مئی کو تھانہ آبپارہ میں پولیس کی مدعیت میں دفعہ 504 اور 505(2) کے تحت ایف آئی آر درج ہوئی۔
پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے شروع کیے اور راولپنڈی کے ایک پینٹر شفیق بٹ اور اس کے 16 سال کے معاون محمد ناصر کو گرفتار کر لیا‘ اٹارنی جنرل سلیمان اسلم بٹ نے اگلے دن یعنی 28 مئی کو سپریم کورٹ کو ملزمان کی گرفتاری کی نوید سنا دی‘ سپریم کورٹ پولیس اور حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہو گئی یوں ایک کہانی ختم ہو گئی لیکن دوسری کہانی شروع ہو گئی‘ یہ پینٹر شفیق بٹ اور اس کے ہیلپر محمدناصر کی کہانی ہے۔
شفیق بٹ راولپنڈی کا ایک معمولی پینٹر ہے‘ یہ بنی کے علاقے میں جامع مسجد روڈ پر پل شاہ نذر کے قریب رہتا ہے‘ یہ 1964ء میں بچہ تھا‘ اسکول جاتا تھا‘ والد کا انتقال ہو گیا‘ پورے گھر کی ذمے داری دس سال کے بچے کے کندھوں پر آ گئی‘ یہ پیدائشی مصور تھا‘ ڈرائنگ اور خط اچھا تھا چنانچہ اس نے دس سال کی عمر میں وال چاکنگ شروع کر دی‘ یہ برش لے کر دیواروں پر اشتہار لکھنے لگا‘ شفیق بٹ کا کام چل نکلا‘ یہ چاکنگ اور بینر لکھنے کا کام کرنے لگا‘ یہ سلسلہ چلتا رہا۔
1980ء کی دہائی میں راولپنڈی میں منشیات عام ہو ئیں‘ بنی کے نوجوان بھی چرس‘ افیون اور ہیروئن کی لت میں مبتلا ہونے لگے‘ شفیق بٹ نے نوجوانوں کو نشے کے ہاتھوں برباد ہوتے دیکھا تو اس نے1992ء میں ’’نجات‘‘ کے نام سے نشیوں کی بحالی کا مرکز قائم کیا‘ یہ اپنی کمائی کا ایک حصہ ’’نجات‘‘ میں خرچ کرنے لگا‘ یہ مرکز چل پڑا‘ یہ مرکز آج ٹرسٹ بن چکا ہے‘ یہ ٹرسٹ سیکڑوں ہزاروں نوجوانوں کو بحال کر چکا ہے‘ شفیق بٹ راولپنڈی میں دو اولڈ پیپل ہوم بھی چلا رہا ہے۔ میں آپ کو پینٹرز کے کام کی بھی ذرا سی تفصیل بتاتا چلوں‘ پینٹرز کا کام شاگردوں اور ٹھیکے کی بنیاد پر چلتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم میں سے بعض لوگوں کو خوش خطی اور پینٹنگ کا ٹیلنٹ دے کر دنیا میں بھجواتا ہے‘ ہم میں سے ہر 13 واں شخص آرٹسٹ یا پینٹر ہوتا ہے‘ یہ لوگ اگر غریب اور پسماندہ علاقوں میں پیدا ہو جائیں تو یہ ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں‘ لوگ ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور انھیں پتھر بھی مارتے ہیں‘ یہ لوگ غربت کی وجہ سے بچپن ہی میں وال چاکنگ اور بورڈوں کی لکھائی شروع کر دیتے ہیں‘ یہ کام بڑے شہروں میں ہوتا ہے چنانچہ یہ لوگ دیہات اور قصبوں سے بھاگ کر بڑے شہروں میں آ جاتے ہیں‘ شہروں کے پینٹر انھیں اپنا شاگرد بنا لیتے ہیں‘ یہ شروع میں چاکنگ کے لیے دیواروں پر سفیدی کرتے ہیں‘ یہ لوگ تیار شدہ بینر لٹکانے کا کام بھی کرتے ہیں‘ یہ ان پڑھ ہوتے ہیں‘ یہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے‘ قدرت انھیں لفظوں کی نقالی کا ملکہ دے دیتی ہے‘ یہ حرف اور لفظ دیکھتے ہیں اور اس کو کاپی کر دیتے ہیں۔
آپ فلموں کے اشتہاروں میں عموماً ایک عجیب وغریب لفظ دیکھتے ہوں گے ’’آجشبکو‘‘۔ یہ لفظ تین الفاظ آج‘ شب‘ کو کا مجموعہ ہے‘ کسی پینٹر نے ان تینوں لفظوں کو اکٹھا لکھ کر ’’آجشبکو‘‘ بنا دیا تھا اور یہ آج تک آجشبکو چلا آ رہا ہے‘ پینٹر کے شاگرد جب تیار ہو جاتے ہیں تو یہ انھیں ٹھیکیدار بنا دیتے ہیں‘ یہ ٹھیکیدار شاگرد کام تلاش کرتے ہیں‘ بینر تیار کرتے ہیں‘ بینر لٹکاتے ہیں‘ معاوضے کا 75فیصد خود رکھ لیتے ہیں اور 25فیصد استاد کو دے دیتے ہیں‘ یہ استاد کی ’’گڈ ول منی‘‘ ہوتی ہے‘ شفیق بٹ کے پاس بھی درجن بھر شاگرد ہیں‘ مئی کے آخری عشرے میں شفیق بٹ کا ایک ہمسایہ اس کے شاگرد کے پاس آیا‘ رقم دی اور چھ سات بینرز کی تیاری کا آرڈر دے دیا‘ شاگرد نے بینر تیار کر دیے۔
یہ ہمسایہ دوسرے شاگرد محمد ناصر کو ساتھ لے کرگیا اورآبپارہ میں بینر لگوا دیے یوں یہ جاب ختم ہو گئی‘ بینر لگانے والے محمد ناصر کی عمر سولہ سال ہے‘ یہ کبیر والا کا رہنے والا ہے‘ ان پڑھ اور غریب ہے‘ یہ غربت سے بھاگ کر راولپنڈی آیا تھا‘ یہ روزانہ سو ڈیڑھ سو روپے کماتا ہے اور یہ سو ڈیڑھ سو روپے کبیر والا میں اس کے خاندان کی کفالت کا واحد ذریعہ ہیں‘ یہ لوگ کبھی سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے سے نہیں گزرے‘ یہ جسٹس‘ قانون اور وکیلوں کے نام تک سے واقف نہیں ہیں‘ یہ جسٹس جواد ایس خواجہ اور ان کے خاندان کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے‘ یہ بینر بنانے اور لگانے والے انتہائی غریب لوگ ہیں۔
گلی کے ایک شخص نے انھیں بینر بنانے اور لگانے کا آرڈر دیا اور انھوں نے کاغذ پر لکھے ہوئے لفظوں کی نقالی کر دی مگر سپریم کورٹ نے جب نوٹس لیا تو کاغذ پر عبارت لکھنے‘ بینر کا آرڈر دینے اور بینر لگوانے والے بچ گئے لیکن یہ مزدور پکڑے گئے‘ شفیق بٹ اور ان کے شاگردوں نے پولیس کو بینرز کا آرڈر دینے اور بینر لگوانے والے کا نام اور پتہ تک دیا تھا۔
یہ اس گاڑی تک کی نشاندہی کر چکے ہیں جس کے ذریعے ان لوگوں کو بینر لگوانے کے لیے اسلام آباد لایا گیا تھا مگر پولیس نے آج تک اصل مجرم پر ہاتھ نہیں ڈالا جب کہ شفیق بٹ اور سولہ سال کا محمد ناصر 27 مئی سے جیل میں ہیں اور ملک کی کوئی عدالت سپریم کورٹ کی وجہ سے ان کی ضمانت لینے کے لیے تیار نہیں ‘ راولپنڈی کے چند اہل دل نے سیشن کورٹ میں محمد ناصر کی ضمانت کی درخواست جمع کروائی مگر عدالت نے یہ درخواست مسترد کر دی‘ آخر چھوٹی عدالتیں ملک کی سب سے بڑی عدالت کا بوجھ کیسے اٹھا سکتی ہیں۔
میری جسٹس جواد ایس خواجہ اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی سے درخواست ہے‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات سے جب شفیق بٹ اور محمد ناصر جیسے لوگ گرفتار ہو جائیں گے تو ملک کی کون سی عدالت ان کی ضمانت لے گی‘ کون سی عدالت انھیں بے گناہ قرار دینے کا رسک لے گی؟ آپ ملک میں انصاف کی صورتحال بھی ملاحظہ کر لیجیے‘ بینر کا آرڈر دینے اور لگوانے والے آزاد ہیں مگر ان پڑھ اور غریب پینٹرز جیلوں میں سڑ رہے ہیں‘ یہ ہے ہمارے ملک کا انصاف اور قانون ۔ ہم اس قانون اور اس طرز انصاف کے ساتھ کتنی دیر زندہ رہ لیں گے۔
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر چند لمحوں کے لیے سوچئے‘ مجھے یقین ہے آپ کو اپنے دل سے شفیق بٹ اور محمد ناصر جیسے بے بس لوگوں کی چیخوں کی آوازیں آئیں گی‘ میں آپ کی توجہ ایک دوسرے مقدمے کی طرف بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں‘ آپ کو یاد ہو گا نومبر 2010ء میں حج سکینڈل سامنے آیا تھا‘ سپریم کورٹ کے نوٹس پر اس وقت کے ڈی جی حج رائو شکیل کو گرفتار کر لیا گیا تھا‘ مکہ اور مدینہ میں رہائش گاہوں کے تعین میں ڈی جی رائوشکیل کا کوئی عمل دخل نہیں تھا‘ حج کے معاملات کی تمام منظوریاں وزارت مذہبی امور‘ وفاقی کابینہ اور وزیراعظم نے دیں‘ رائو شکیل کے پاس ان منظوریوں کے تمام تحریری ثبوت بھی موجود ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے ’’ یہ مان بھی لیا جائے میں ان انتظامات کا ذمے دار تھا تو بھی اس سال رہائش گاہیں کم کرائے پر حاصل کی گئی تھیں اور رہائش گاہوں کے مالکان نے حاجیوں کو رقم بھی واپس کی تھی‘‘ لیکن کیونکہ یہ مقدمہ چیف جسٹس کے سوموٹو نوٹس پر قائم ہوا تھا اور رائو شکیل سپریم کورٹ کے دبائو پر گرفتار ہوئے تھے چنانچہ یہ 45 ماہ سے جیل میں پڑے ہیں اور کوئی جج‘ کوئی تفتیشی ادارہ اور کوئی تفتیشی افسر ان کی بات سننے کے لیے تیار نہیں‘ یہ اگر واقعی ملزم ہیں تو پھر انھیں سزا کیوں نہیں دی جاتی اور یہ اگر بے گناہ ہیں تو ان کی ضمانت قبول کیوں نہیں ہورہی؟ کیا یہ باقی زندگی فیصلے کے بغیر جیل میں گزاریں گے؟ اگر ہاں تو کیا یہ انصاف ہو گا؟ کیا ہماری عدلیہ‘ ہمارے قانون اور ہمارے نظام کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہے اور کیا ہم ’’ جس کے گلے میں پھندا آ جائے اسے لٹکا دیں‘‘ کی پالیسی کے ساتھ ملک کو چلا لیں گے۔
جسٹس صاحب آپ ایک لمحے کے لیے یہ ضرور سوچئے ‘ یہ ممکن ہے آپ کے نام پر لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہو۔
غربت اور بھوک
جاوید چوہدری اتوار 15 جون 2014

مزدوروں کے چہروں پر غربت تھی‘ بھوک نہیں‘ میں سڑک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گیا‘ فٹ پاتھ پر ان کے اوزار پڑے تھے‘ ٹول باکس بھی تھے‘ کُھرپے بھی‘ گینتیاں بھی‘ ہتھوڑے بھی اور کسّیاں بھی‘ یہ لوگ سڑک کی تین فٹ اونچی دیوار پر بیٹھے تھے‘ یہ جینز اور شرٹس میں ملبوس تھے‘ وہ قہوہ اور سگریٹ پی رہے تھے اور چند مزدور تاش‘ شطرنج اور کیرم بورڈ کھیل رہے تھے‘ یہ جارجیا کے مزدور تھے اور یہ تبلیسی شہر کی ایک سڑک کا منظر تھا‘ یہ ہمارے مزدوروں کی طرح فٹ پاتھ پر بیٹھ جاتے ہیں‘ لوگ گاڑیوں میں آتے ہیں۔
ان کا انٹرویو کرتے ہیں‘ انھیں کام بتاتے ہیں اور پھر گاڑی میں بٹھا کر گھر‘ دفتر یا فیکٹری لے جاتے ہیں‘ ہمارے فٹ پاتھوں پر روزانہ ایسے سیکڑوں ہزاروں مزدور‘ مستری‘ مکینک اور پلمبر آ کر بیٹھتے ہیں‘ لوگ آتے ہیں اور انھیں ساتھ لے جاتے ہیں‘ یہ منظر جارجیا اور پاکستان دونوں ملکوں میں مشترک ہیں لیکن جارجیا کے مزدوروں اور ہمارے مزدوروں میں ایک فرق ہے‘ وہ لوگ صرف غریب دکھائی دیتے ہیں‘ ان کے چہروں پر بھوک نہیں ہوتی جب کہ ہمارے مزدوروں کے چہروں پر بھوک کا لیپ ہوتا ہے‘ ہمارے مزدور دو کلو میٹر سے بھوکے دکھائی دیتے ہیں‘ یہ فرق کیوں ہے؟ اس کی محض ایک وجہ ہے‘ جارجیا کے لوگ خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہیں‘ یہ صدیوں سے ’’کھاچا پوری‘‘ بنا اور کھا رہے ہیں۔
کھاچا پوری میں پنیر کی آدھ انچ موٹی تہہ ہوتی ہے‘ ایک کھاچا پوری دو سے تین لوگوں کے لیے کافی ہوتی ہے‘ یہ لوگ قہوہ‘ چائے یا کولڈ ڈرنک کے ساتھ کھاچا پوری کھاتے ہیں اور پورا دن گزار لیتے ہیں‘ ملک میں سیکڑوں ہزاروں تنور ہیں‘ ان تنوروں پر کھاچا پوری ملتی ہیں‘ آپ خریدیں اور دن گزار لیں‘ لوگ خاندان کی ضرورت کے مطابق گھروں میں سبزی اور پھل بھی اگاتے ہیں‘ یہ لوگ ایک آدھ گائے بھی رکھ لیتے ہیں اور یوں یہ خوراک کے معاملے میں خودکفیل ہوتے ہیں‘ میں نے اکثر گھروں میں ایک دو مرلے کا ’’فارم ہاؤس‘‘ دیکھا‘ یہ لوگ اس ’’فارم ہاؤس‘‘ میں سبزیاں بھی اگاتے ہیں‘ پھلوں کے درخت بھی لگاتے ہیں اور مرغیاں بھی پالتے ہیں۔
جارجیا میں شاید ہی کوئی گھر ہو گا جس میں انگور کی بیل نہ ہو یا گھر کے لوگ گھر سے سیب‘ اخروٹ‘ بادام‘ آڑو‘ چیری اور آلو بخارہ حاصل نہ کر رہے ہوں‘ اس ’’ فارم ہاؤس‘‘ میں کاشت کاری کا کام گھر کی خواتین اور بچے سرانجام دیتے ہیں‘ یہ لوگ گھر کی ضرورت کے لیے اچار‘ چٹنیاں‘ مربے‘ جیم اور پنیر خود تیار کرتے ہیں‘ یہ لوگ اگرچھوٹے گھروں میں رہتے ہوں تو کرائے پر زمین لے کر سبزیاں اور پھل اگا لیتے ہیں اور یہ بھی اگر ممکن نہ ہو تو یہ گھر کے باہر یا صحن میں کاشت کاری کر لیتے ہیں جب کہ ہمارے لوگ‘ ہمارے مزدور عمر بھر خوراک کی محتاجی میں مبتلا رہتے ہیں‘ یہ آٹا‘ گھی اور چینی خریدنے کے لیے مزدوری کرتے ہیں اور ہمارے اس رویے نے ہمارے چہرے پر بھوک مل دی ہے‘ ہم سب کی آنکھوں میں بھوک درج ہو چکی ہے۔
ہم ہمیشہ ایسے نہیں تھے‘ ہمارے ملک میں تیس سال قبل بھوک نہیں تھی‘ صرف غربت تھی اور اگر غربت میں بھوک نہ ہو تو غربت قابل برداشت ہو جاتی ہے‘ غریب شخص اس وقت مجرم‘ درندہ اور ظالم بنتا ہے جب اس کی غربت میں بھوک شامل ہو جاتی ہے‘ ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی آج بھی دیہات میں رہتی ہے‘ یہ لوگ 30 سال پہلے تک خوراک کے معاملے میں خود کفیل تھے‘ ہمارے دیہات کے ہر گھر میں بھینس‘ گائے‘ بکری‘ مرغی اور گدھا ہوتا تھا‘ خاندان بھینس اور گائے سے دودھ‘ دہی‘ مکھن‘ لسی‘ بالائی اور گھی کی ضرورت پوری کر لیتا تھا‘ بکری اور مرغی‘ انڈے اور گوشت کا مسئلہ حل کر دیتی تھی‘ گدھا باربرداری کے کام آتا تھا اور رہ گیا اناج تو یہ لوگ سبزیاں اور گندم بھی اپنی اگا تے تھے۔
گاؤں کے ہر گھر میں گندم اسٹور کرنے کا مٹی‘ لوہے یا لکڑی کا ’’پڑہولا‘‘ ہوتا تھا‘ یہ لوگ چولہے میں لکڑیاں اور اُپلے جلاتے تھے‘ واش روم کھیت ہوتے تھے اور نہانے دھونے کا فریضہ ٹیوب ویلوں اور کنوؤں پر ادا ہوتا تھا چنانچہ یہ لوگ خوراک اور رہائش دونوں معاملوں میں خود کفیل تھے‘ گھر کا ایک آدھ فرد چھوٹی بڑی نوکری کر لیتا تھا‘ وہ فوج میں بھرتی ہو جاتا تھا‘ ڈاک خانے‘ فیکٹری یا ریلوے میں ملازم ہو جاتا تھا یا پھر راج مستریوں کے ساتھ لگ جاتا تھا‘ اس شخص کی آمدنی خاندان کی بچت ہوتی تھی‘ بہ بچت شادی بیاہ کے کام آتی تھی یا بیماری اور حادثوں کے اخراجات پورے کر دیتی تھی یا پھر گھر میں نئے کمرے ڈالنے کے کام آتی تھی۔
جارجیا کی کھاچا پوری کی طرح ہمارے دیہات اور شہروں کی بھی کوئی نہ کوئی مخصوص خوراک ہوتی تھی‘ گاؤں کے لوگ تنوری روٹی پر مکھن لگا کر یا پھر اچار رکھ کر دن گزار لیتے تھے‘ لسی پورے گاؤں کا مشروب تھی‘ آپ جہاں جاتے‘ آپ کو وہاں لسی کا پیالہ ضرور ملتا‘ آپ اگر معزز مہمان ہیں تو آپ کو دودھ کا پیالہ عنایت ہو جاتا تھا‘ یہ دودھ مکمل غذا ہوتی تھی‘ شہروں میں کلچے‘ نان اور دال روٹی ملتی تھی‘ پورے شہر میں سیکڑوں تنور ہوتے تھے‘ آپ کسی تنور سے ایک نان اور دال لیتے اور پورا دن گزار لیتے تھے‘ ہم نے اپنی سماجی بے وقوفی سے صدیوں میں بنا یہ سسٹم ختم کر دیا‘ گاؤں میں فلیش سسٹم آیا‘ اس نے پورے گاؤں کا پانی آلودہ کر دیا‘ لوگوں نے بھینس‘ گائے‘ بکری اور مرغی رکھنا بھی بند کر دی۔
گاؤں کے لوگ گندم‘ دالیں اور ترکاری بھی خرید کر استعمال کرنے لگے‘ گڑ اور شکر کی جگہ چینی آ گئی‘ لسی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ چائے‘ کولڈ ڈرنکس اور ڈبے کے جوس آ گئے‘ دیسی گھی کی جگہ بناسپتی گھی استعمال ہونے لگا‘ لکڑی اور اُپلوں کی جگہ گیس کے چولہے آ گئے‘ مسواک کی جگہ ٹوتھ برش آیا اور تیل کی جگہ شیمپو استعمال ہونے لگا ‘ یہ تمام چیزیں بازار سے ملتی ہیں اور انسان جب ایک بار بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بازار چلا جائے تو پھر اس کی غربت میں بھوک شامل ہوتے دیر نہیں لگاتی اور ہماری دیہی آبادی کے ساتھ یہی ہوا‘ یہ لوگ تیس برسوں میں غذائی خود مختاری سے بھوک کی محتاجی میں چلے گئے‘ یہ لوگ اب روز ہتھوڑی اور کَسّی لے کر فٹ پاتھوں پر بیٹھتے ہیں اور ہر گزرنے والے کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
ہماری بربادی میں ہماری سماجی روایات کے انتقال نے بھی اہم کردار ادا کیا‘ میں نے بچپن میں گاؤں میں درجنوں شاندار روایات دیکھی تھیں‘ یہ روایات آہستہ آہستہ مر گئیں‘ ان کے انتقال نے عام آدمی کے معاشی بحران میں اضافہ کر دیا مثلاً گاؤں کی ہر بچی کی شادی پورا گاؤں مل کر کیا کرتا تھا‘ پورا گاؤں ایک ایک چیز گفٹ کرتا تھا اور یہ چیزیں مل کر جہیز بن جاتی تھیں‘ بارات کے لیے کھانا پورا گاؤں مل کر بناتا تھا‘ باراتیوں کی رہائش کا بندوبست پورا گاؤں کرتا تھا مثلاً مہمان پورے گاؤں کے مہمان ہوتے تھے۔
یہ رہتے کسی کے گھر میں تھے‘ ناشتہ کسی کے گھر سے آتا تھا‘ لنچ دوسرے گھر اور ڈنر تیسرے گھر میں ہوتا تھا‘ مثلاً کسی کا انتقال پورے گاؤں کی ’’میت‘‘ کہلاتا تھا۔ قل تک کا کھانا لوگ مل کر دیتے تھے‘ مثلاً گندم کی کٹائی پورا گاؤں مل کر کرتا تھا‘ مثلاً لڑائی میں پورا گاؤں اپنے ’’بندے‘‘ کے ساتھ کھڑا ہو تا تھا‘ تھانے کچہری میں پورا گاؤں جاتا تھا‘ مثلاً قتل تک کے جھگڑے پنچایت میں نبٹائے جاتے تھے‘ مثلاً گاؤں میں اجتماعی بیٹھک ہوتی تھی‘ اسے ’’دارا‘‘ کہا جاتا تھا‘ لوگ شام کے وقت اس دارے میں بیٹھ جاتے تھے‘ مثلاً گاؤں کا کوئی شخص بیمار ہو جاتا تھا تو پورا گاؤں اس کے ’’سرہانے‘‘ پیسے رکھ کر جاتا تھا‘ یہ پیسے پوچھ‘ سرعت یا عیادت کہلاتے تھے۔
یہ رقم مریض کے علاج پر خرچ ہوتی تھی‘ مثلاً بچہ پیدا ہوتا تھا تو گاؤں کے لوگ بچے کو پیسے دے کر جاتے تھے‘ یہ پیسے زچہ اور بچہ دونوں کی بحالی پر خرچ ہوتے تھے‘ مثلاً خوراک کا بارٹر سسٹم نافذ تھا‘ آپ گندم دے کر چنے لے لیتے تھے اور مسور دے کر گُڑ حاصل کر لیتے تھے‘ مثلاً آپ نائی کو گندم دے کر حجامت کرا لیتے تھے‘ بکری دے کر موچی سے جوتے لے لیتے تھے اور گنے دے کر درزی سے کپڑے سلا لیتے تھے‘ مثلاً کوئی بچی روٹھ کر میکے آ جاتی تھی تو پورا گاؤں ڈنڈے لے کر سسرالی گاؤں پہنچ جاتا تھا‘ مثلاً لوگ ضرورت کے وقت دوسروں سے برتن‘ کپڑے‘ جوتے‘ زیورات اور جانور ادھار لے لیتے تھے اور مثلاً قدرتی آفتوں یعنی سیلاب‘ زلزلے اور آندھیوں کے بعد پورا گاؤں مل کر گری ہوئی دیواریں اور چھتیں بنا دیتا تھا‘ یہ ’’سوشل ارینج منٹ‘‘ غربت اور بھوک کے درمیان بہت بڑی خلیج تھا۔ یہ بندوبست سیکڑوں ہزاروں سال کے سماجی تجربے کے بعد بنا تھا۔
یہ غریب کو بھوکا نہیں رہنے دیتا تھا لیکن ہم نے یہ سماجی بندوبست بھی ختم کر دیا۔ ہم نے نیا نظام بنائے بغیر پرانا نظام توڑ دیا‘ ہم نے اپنے لوگوں کو لسی‘ نیوندرے‘ دارے‘ پوچھ اور بارٹر سسٹم چھوڑنے سے قبل یہ نہیں بتایا کارپوریٹ نظام میں لوگ اہم نہیں ہوتے‘ لوگوں کا ہنر‘ لوگوں کی پرفارمنس اور لوگوں کی آؤٹ پٹ اہم ہوتی ہے‘ آپ اگر مائیکرو سافٹ کو کما کر دے رہے ہیں تو بل گیٹس آپ کو جھک کر سلام کرے گا لیکن آپ اگر کمپنی کے پرافٹ میں اضافہ نہیں کر رہے تو پھر آپ خواہ بل گیٹس کے والد محترم ہی کیوں نہ ہوں۔
آپ کمپنی کی دیواروں کے سائے تک میں نہیں بیٹھ سکیں گے۔ آپ کا مقدر بھوک‘ غربت‘ بیماری اور فٹ پاتھ ہوں گے‘ ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ آج اسی کرب سے گزر رہا ہے‘ یہ روز آنکھوں میں بھوک کا سرمہ لگا کر ہر گزرتی گاڑی کو امید اور نفرت کی نظروں سے دیکھتا ہے اور یہ نفرت اور یہ امید اس وقت تک قائم رہے گی جب تک مزدور آٹے اور روٹی کے لیے کام کرتا رہے گا‘ یہ جب تک غربت اور بھوک کے درمیان موجود فرق کو نہیں سمجھے گا۔
حضرت نوح ؑ کے نام پانی کا بل
جاوید چوہدری پير 30 جون 2014

پاکستان بننے سے قبل کراچی شہر میں ایک سڑک ہوتی تھی‘ اسٹاف لائینز۔ یہ کراچی کی مہنگی اور خوبصورت ترین روڈ تھی‘ اسٹاف لائینز پر برطانوی فوج کے اعلیٰ افسروں کے سرکاری گھر تھے‘ اس سڑک پر 1865ء میں دس ہزار دو سو 14 مربع گز کا ایک خوبصورت بنگلہ بنایا گیا‘ یہ بنگلہ اس دور کے مشہور آرکیٹیکٹ موسس سوماکی نے ڈیزائن کیا تھا‘ یہ بنگلہ بعد ازاں فلیگ اسٹاف ہائوس کہلایا اور سندھ کے جنرل کمانڈنگ آفیسر کی سرکاری رہائش گاہ بنا۔
فلیگ اسٹاف ہائوس میں جنرل ڈگلس گریسی جیسے لوگ بھی رہائش پذیر رہے‘ یہ اُس وقت بریگیڈیئر کمانڈر تھے‘ یہ بنگلہ بعد ازاں مختلف ہاتھوں میں فروخت ہوتا رہا یہاں تک کہ یہ 1940ء میں کراچی کے مشہور بزنس مین سہراب کائوس جی کی ملکیت ہو گیا‘ سہراب کائوس جی پارسی تھے اور یہ اپنے دور کے بزنس ٹائیکون تھے‘ کائوس جی نے 1942ء میں یہ بنگلہ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا‘ کراچی کے پراپرٹی ڈیلرز نے گاہکوں کو بنگلہ دکھانا شروع کیا‘ بنگلہ مہنگا بھی تھا اور بڑا بھی۔
گاہک ملنا مشکل تھا‘ قائداعظم 1943ء میں کراچی آئے‘ قیام پاکستان کی تحریک اس وقت تک آخری فیز میں داخل ہو چکی تھی‘ قائداعظم جانتے تھے پاکستان چند برسوں میں بن جائے گا اور کراچی نئے ملک کا دارالحکومت ہو گا‘ قائداعظم کراچی میں اپنی رہائش کے لیے جگہ تلاش کر رہے تھے‘ کراچی کے ایک وکیل نے قائداعظم کو فلیگ اسٹاف ہائوس دکھایا‘ قائد کو یہ عمارت پہلی نظر میں پسند آ گئی‘ آپ نے سہراب کاؤس جی سے ملاقات کی اور بنگلہ خرید لیا‘ فلیگ اسٹاف ہائوس 1944ء میں قائداعظم کے نام منتقل ہوگیا‘ قائداعظم کے پاس اس وقت بمبئی اور دہلی میں شاندار رہائش گاہیں تھیں‘ کراچی کی رہائش گاہ بھی دہلی اور بمبئی کے گھروں کی طرح شاندار اور خوبصورت تھی۔
قائداعظم اگست 1947ء میں کراچی شفٹ ہوگئے‘ آپ نے بمبئی اور دہلی کے گھروں سے اپنا سامان منگوا لیا‘ یہ سامان فلیگ اسٹاف ہائوس میں لگا دیا گیا‘ قائداعظم زیادہ مدت کے لیے گورنر جنرل نہیں رہنا چاہتے تھے‘ وہ ذمے داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد فلیگ اسٹاف ہائوس میں شفٹ ہونا چاہتے تھے لیکن قدرت نے آپ کو ریٹائر ہونے اور فلیگ اسٹاف ہائوس میں شفٹ ہونے کی مہلت نہ دی‘ قائداعظم 11 ستمبر 1948ء کو انتقال کرگئے۔
فاطمہ جناح قائداعظم کے انتقال تک پاکستان کی خاتون اول اور مادر ملت تھیں‘ یہ قائداعظم کے ساتھ گورنر جنرل ہائوس میں رہتی تھیں‘ قائداعظم کے انتقال کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنا دیے گئے‘ محترمہ فاطمہ جناح نے گورنر جنرل ہائوس خالی کیا اور وہ فلیگ اسٹاف ہائوس میں شفٹ ہو گئیں‘ آپ کے شفٹ ہونے کے بعد حکومت نے اسٹاف لائینز کا نام فاطمہ جناح روڈ رکھ دیا‘ محترمہ فاطمہ جناح اپنے انتقال9 جولائی 1967ء تک اسی عمارت میں رہائش پذیر رہیں‘ لوگ آپ سے ملاقات کے لیے روز یہاں آتے تھے۔
ملک میں 7 اکتوبر 1958ء کو پہلا مارشل لاء لگا‘ آئین توڑ دیا گیا اور جنرل ایوب خان کو ملک کا صدر بنا دیا گیا‘ فاطمہ جناح کیونکہ عملی سیاست سے الگ ہو چکی تھیں چنانچہ وہ خاموش رہیں‘ ایوب خان نے 1964ء میں صدارتی الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا‘ ملک میں اس وقت پانچ اپوزیشن جماعتیں تھیں‘ یہ جماعتیں ایوب خان کے مقابلے کے لیے صدارتی امیدوار تلاش کر رہی تھیں‘ جماعتوں نے طویل غور و غوض کے بعد فیصلہ کیا یہ محترمہ فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خان کے خلاف متفقہ امیدوار بنائیں گی‘ فیصلے کے بعد اپوزیشن کی پانچوں جماعتوں کے سربراہ فلیگ اسٹاف ہائوس پہنچے‘ محترمہ فاطمہ جناح سے ملاقات کی اور اس وقت تک وہاں بیٹھے رہے جب تک مادر ملت نے ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان نہیں کر دیا۔
فاطمہ جناح کا الیکشن لڑنے کا اعلان ملکی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ تھا‘ یہ ملک کا پہلا واقعہ تھا جب حکومت نے ریاستی مشینری کو سیاست کے تنور میں جھونک دیا‘ ایوب خان نے الیکشن جیتنے کے لیے جہاں ہر قسم کی دھاندلی کروائی وہاں انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی کردار کشی اور اثاثوں کی پڑتال بھی شروع کرا دی‘ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت ایوب خان کے چہیتے وزیر اور منہ بولے بیٹے تھے‘ بھٹو صاحب نے ملتان کے جلسے میں محترمہ پر ایسا گھنائونا الزام لگایا کہ مؤرخین نے اس الزام کو لکھنے تک کی جرأت نہ کی۔
صدر ایوب خان کی ہدایت پر کراچی کی انتظامیہ نے اس دور میں محترمہ فاطمہ جناح کو مختلف قسم کے نوٹس دینا شروع کر دیے‘ ان نوٹس میں پراپرٹی ٹیکس کے نوٹس بھی تھے‘ انکم ٹیکس کے نوٹس بھی تھے اور جائیداد کی تفصیل بتانے کے نوٹس بھی تھے‘ کراچی کی انتظامیہ نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے کے جرم میں فاطمہ جناح کے نام فلیگ اسٹاف ہائوس کے پانی اور سیوریج کے بقایا جات بھی نکال دیے‘ فاطمہ جناح اپنے بل مقررہ وقت پر جمع کرواتی رہی تھیں لیکن میونسپل کمیٹی نے اس کے باوجود بقایا جات کا نوٹس بھجوا دیا۔
حکومت شاید بقایا جات کی بنیاد پر محترمہ کو الیکشن سے ’’ڈس کوالی فائی‘‘ کرنا چاہتی تھی‘ محترمہ نے ادا شدہ بلوں کی تفصیل میونسپل کمیٹی کو بھجوا دی‘ محکمہ خاموش ہوگیا مگر مقدمہ بند نہیں ہوا‘ یہ کیس سرکاری فائلوں میں چلتا رہا‘ ایوب خان الیکشن جیت گئے‘ محترمہ فاطمہ جناح ہار گئیں‘ یہ اسی فلیگ اسٹاف ہائوس میں 9 جولائی 1967ء کو انتقال فرما گئیں‘ پاکستان میں اس دور میں قائداعظم کی پراپرٹی کا کوئی وارث نہیں تھا چنانچہ فلیگ اسٹاف ہائوس ٹرسٹ کی تحویل میں چلا گیا‘ 1980ء کی دہائی آئی۔
کراچی میں پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا‘ قبضہ مافیا سرگرم ہو گیا‘ فلیگ اسٹاف ہائوس انتہائی مہنگی اور کمرشل جگہ پر واقع تھا‘ قبضہ گروپوں نے قائداعظم کی رہائش گاہ پر قبضے کی کوششیں شروع کر دیں‘ محمد خان جونیجو ان کوششوں سے واقف تھے‘ یہ 24 مارچ 1985ء کو وزیراعظم بنے تو انھوں نے فوری طور پر فلیگ اسٹاف ہائوس کوٹرسٹ سے خریدا اور اسے قائداعظم میوزیم بنا دیا اور یوں 1865ء کا فلیگ اسٹاف ہائوس قائداعظم کے استعمال کی ذاتی اشیاء کا عجائب گھر بن گیا‘ یہ گھر 1985ء سے وفاقی حکومت کی تحویل میں ہے لیکن محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف پانی اور سیوریج کے بقایاجات آج تک قائم ہیں۔
محترمہ کے خلاف ایوب خان دور میں قائم کردہ مقدمہ ختم نہیں ہوا‘ آپ اس کیس کا آخری ٹرننگ پوائنٹ ملاحظہ کیجیے‘ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے مارچ‘ اپریل 2014ء میں ڈیفالٹرز کو حتمی نوٹس جاری کیے‘ بورڈ نے وصولیوں کی اس مہم کے دوران محترمہ فاطمہ جناح کو بھی نوٹس جاری کر دیا‘ محترمہ کو نوٹس میں حکم دیا گیا‘ آپ کے ذمے پانی اور سیوریج کے دو لاکھ 63 ہزار 774 روپے واجب الادا ہیں۔ آپ کو ہدایت کی جاتی ہے آپ یہ رقم 28 مئی تک جمع کروادیں ورنہ دوسری صورت میں آپ کی رہائش گاہ آر۔ اے 241 (یعنی فلیگ اسٹاف ہائوس) کے پانی اور سیوریج کے کنکشن بھی کاٹ دیے جائیں گے ‘آپ کو لینڈ ریونیو ایکٹ کے تحت سزا بھی ہو سکتی ہے اور اس سزا میں آپ کی جائیداد قرقی‘ آپ کی جائیداد کی نیلامی اور بھاری جرمانہ شامل ہے‘ نوٹس پر محترمہ فاطمہ جناح کا صارف نمبر0 A060039000 درج ہے محترمہ فاطمہ جناح کو یہ نوٹس ان کے انتقال کے 47 سال بعد جاری ہوا ‘یہ نوٹس ہماری سرکاری کارکردگی کا تازہ ترین شاہکار ہے۔
میں اس نوٹس پر حکومت‘ بیوروکریسی اور ملک کے بیوروکریٹک سسٹم کی سرزنش نہیں کرنا چاہتا‘ میں اس نظام میں موجود دو خامیوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں‘ ہمارے ملک میں پیدائش اور انتقال کو غیر اہم سمجھا جاتا ہے جب کہ پوری دنیا اسے سنجیدہ سمجھتی ہے‘ آپ نیویارک جائیے‘ نیویارک میں ایلس آئی لینڈ ہے‘ امریکی مجسمہ آزادی اسی جزیرے کے ایک کونے میں نصب ہے‘ ایلس آئی لینڈ میں امریکا آنے والے مہاجرین سے متعلق ایک میوزیم قائم ہے‘ آپ کواس عجائب گھر میں مہاجرین کا پورا ڈیٹا بیس ملتا ہے۔
آپ اگر امریکی ہیں توآپ کمپیوٹر میں اپنا‘ اپنی والدہ اور اپنے والد کا نام ٹائپ کریں آپ کو کمپیوٹر فوراً بتا دے گا آپ کے آبائو اجداد کس سن میں کس ملک سے امریکا آئے تھے اور آپ کے کون کون سے رشتے دار امریکا کے کس کس حصے میں رہتے ہیں؟ دنیا کے ہر ملک میں بچہ پیدا ہوتا ہے تو سرکاری سسٹم میں اس کا نام درج کیا جاتا ہے اور یہ بچہ جہاں بھی جاتا ہے سرکاری سسٹم اس کا پیچھا کرتا ہے لیکن ہمارے ملک میں آج بھی ایک تہائی بچوں کا اندراج نہیں ہوتا‘ ہم لوگ اسی طرح ’’ڈیتھ سر ٹیفکیٹ‘‘ لینا یا انتقال کا اندراج کروانا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
میرا خیال ہے ہم اگر قائد اعظم‘ لیاقت علی خان‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو یا میاں محمد شریف کے بارے میں بھی تحقیقات کریں تو یہ بھی سرکار کی کسی نہ کسی فائل میں زندہ نکل آئیں گے‘ میری حکومت سے درخواست ہے یہ 2014ء میں یہ قانون بنا دے‘ یکم جنوری 2015ء سے ملک میں جو بچہ پیدا ہو گا ہر صورت اس کا اندراج ہو گا اور پاکستان کا جو شہری انتقال کرے گا سرکاری کاغذوں میں وہ نہ صرف فوت شدہ لکھا جائے گا بلکہ اس کے قبرستان اور قبر کا حدوداربعہ بھی درج کیا جائے گا‘ یہ کام نادرا کرے گا اور دوم ہمارے ملک میں مقدمات کی ’’ایکسپائری ڈیٹ‘‘ نہیں ‘ سرکاری محکموں کی فائلیں پچاس پچاس سال چلتی رہتی ہیں۔
یہ محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے 47 سال بعد بھی نوٹس جاری کر دیتے ہیں‘ یہ وقت اور وسائل دونوں کا ضیاع ہے‘ حکومت اس سال سے تمام سرکاری نوٹس‘ کیسز‘ درخواستوں اور مقدمات کی ’’ ایکسپائری ڈیٹ‘‘ طے کردے‘ سرکاری محکموں اور عدالتوں کو پانچ سال دے دیے جائیں یہ اگر پانچ برسوں میں فیصلہ نہیں کرتے تو فائل خود بخود بند ہو جائے گی اور ملزم یورپ کی طرح محکمے پر مقدمہ کر سکے گا یہ فیصلہ محترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیات کی روحوں کو سکون بخشے گا ورنہ دوسری صورت میں ہمارے محکمے کسی دن حضرت نوح علیہ السلام کو بھی پانی کا بل بھجوا دیں گے۔

جوائنٹ فیملی سسٹم
جاوید چوہدری اتوار 29 جون 2014

اشوک اعظم دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے پورے ہندوستان پر حکومت کی‘ اشوک کی سلطنت کابل‘ قندھار اور ہرات سے لے کر کشمیر اور نیپال‘ بنگال اور جنوب میں دریائے پینار تک پھیلی ہوئی تھی‘ سری نگر شہر اس نے آباد کیا تھا‘ یہ پورے ہندوستان میں امن قائم کرنے والا آخری فرمانروا بھی تھا‘ اشوک نے ہندوستان میں قتل‘ فسادات‘ چوریاں اور ڈاکے ختم کرا دیے۔
ہندوستان کو اضلاع میں تقسیم کیا‘ ہر ضلع میں ناظم تعینات کیے اور یہ ناظم ضلع میں امن و امان اور عدل و انصاف کے ذمے دار ہوتے تھے‘ اشوک نے قوانین تیار کرائے‘ یہ قوانین پتھروں اور لوہے کی پلیٹوں پر کھدوائے اور یہ ملک بھر میں لگوا دیے‘ یہ فرمودات ہندوستان کی پہلی تعزیرات تھے‘ اشوکا عہد کے یہ پتھر آج بھی سوات ویلی اور گلگت کے پہاڑوں میں نصب ہیں‘ سوال یہ ہے اشوک نے یہ مقام کیسے حاصل کیا؟ یہ ایک دلچسپ داستان ہے‘ اشوک پٹنہ کا رہنے والا تھا‘ والد بندوسار چندر گپت موریہ سلطنت کا بادشاہ تھا‘ اشوک کے 64 بھائی تھے‘ یہ تمام بھائی سازشی‘ لالچی اور حاسد تھے‘ اشوک باصلاحیت تھا‘ یہ دنیا فتح کرنا چاہتا تھا‘ اس میں صلاحیت بھی تھی لیکن بھائی اس ارادے میں رکاوٹ تھے۔
یہ جنگ کے لیے محاذ پر جاتا تھا تو کوئی نہ کوئی بھائی تخت پر قبضہ کر لیتا تھا‘ یہ تالاب میں نہانے کے لیے اترتا تھا تو بھائی تیر برسانا شروع کر دیتے تھے‘ یہ کھانا شروع کرتا تھا تو سالن سے زہر نکل آتا تھا‘ یہ سونے جاتا تھا تو کوئی نہ کوئی بھائی کمرے میں سانپ چھوڑ دیتا تھا اور یہ سیر کے لیے نکلتا تھا تو نقاب پوش حملہ کر دیتے تھے‘ اشوک تنگ آ گیا اور اس نے ایک دن سوچا میرے پاس صرف دو راستے ہیں‘ میں اپنے والد کی طرح گم نام زندگی گزار دوں یا پھر دنیا فتح کروں‘ اس نے دنیا فتح کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ اشوک نے اپنے 64 بھائی قتل کرا دیے‘ وہ اکیلا رہ گیا‘ اس نے اہل لوگوں کی ٹیم بنائی اور ہندوستان کی اپنی منظم حکومت کا بانی بن گیا۔
ہندوستان کا دوسرا بڑا حکمران جلال الدین اکبر تھا‘ اس نے ہندوستان پر 49 سال آٹھ ماہ حکومت کی‘ اس کی سلطنت کشمیر‘ سندھ‘ قندھار اور سینٹرل ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی‘ یہ اتنی بڑی سلطنت کی وجہ سے اکبر اعظم کہلاتا تھا‘ اس کی کامیابی کی وجہ اس کا اکلوتا ہونا تھا‘ یہ ہمایوں کا واحد بیٹا تھا‘ کسی نے اس کے تخت پر حق جتانے کی کوشش نہیں کی‘ اکبر نے نو اہل ترین لوگوں کی ٹیم بنائی اور عظیم مغل سلطنت کی بنیاد رکھ دی‘ تیسرا بڑا حکمران اورنگ زیب عالمگیر تھا‘ یہ بھی پورے ہندوستان پر قابض ہوا۔
یہ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ مدت کے لیے بادشاہ رہا‘ اس نے پچاس سال تین ماہ حکومت کی‘ یہ شاہ جہاں کا باصلاحیت ترین شہزادہ تھا‘ یہ بھی خواب پالتا تھا‘ یہ بھی پورے ہندوستان کا بادشاہ بننا چاہتا تھا لیکن اس کے بھائی اور والد اس کے راستے کی رکاوٹ تھے‘ والد داراشکوہ کو تخت دینا چاہتا تھا‘ وہ اہل نہیں تھا‘ داراشکوہ اور والد شاہ جہاں نے اورنگزیب کے خلاف سازشیں شروع کر دیں‘ اورنگزیب نے بھی ایک دن سوچا میرے پاس دو آپشن ہیں‘ میں بے نام مغل شہزادے کی حیثیت سے انتقال کر جاؤں یا پھر میں شہزادہ محی الدین سے اورنگزیب عالمگیر بن جاؤں‘ اورنگزیب نے بھی اشوک کی طرح دوسرا آپشن چن لیا‘ اورنگزیب نے والد کو آگرہ کے قلعے میں بند کر دیا‘ اپنے بھائی داراشکوہ اور شجاع دونوں سے جنگ کی اور دونوں کو مروا دیا‘ بھائیوں کے بعد بھتیجوں اور بھانجوں کی باری آئی‘ اس نے انھیں قلعے میں بند کر دیا‘ یہ وہاں بھنگ پی پی کر مر گئے۔
اورنگزیب نے اس کے بعد ہندوستان فتح کرنا شروع کیا‘ یہاں تک کہ تاریخ اسے عالمگیر کا نام دینے پر مجبور ہو گئی‘ انگریز چوتھی طاقت تھی جس نے پورے ہندوستان پر حکومت کی‘ انگریزوں کی کامیابی کی پانچ بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ ان کے ’’خاندانی اصول‘‘ تھے‘ ملکہ نے قانون بنایا تھا ہندوستان آنے والا کوئی برطانوی سرکاری ملازم اپنے خاندان کے کسی فرد کو یہاں ’’سیٹل‘‘ نہیں کروا سکتا تھا‘ انگریز ڈی سی مقامی لوگوں کو سو مربع زمین الاٹ کر سکتا تھا مگر یہ اپنے اور اپنے خاندان کو ایک مرلہ زمین نہیں دے سکتا تھا‘ برطانیہ کے ہر سرکاری ملازم پر لازم تھا وہ مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد برطانیہ واپس جائے گا‘ وہ ہندوستان میں رہائش پذیر نہیں ہو سکے گا‘ انگریز اہلکار دوران ملازمت اپنے والد‘ بھائیوں‘ بہنوں اور بھتیجوں‘ بھانجوں کو چھ ماہ سے زیادہ یہاں نہیں رکھ سکتے تھے چنانچہ یہ انگریز عزت کے ساتھ پورے ہندوستان پر حکومت کر کے 1947ء میں واپس چلے گئے۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہے‘ یہ ہماری ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ آپ لیڈر شپ سے لے کر بزنس مین‘ صنعت کار‘ سرکاری ملازموں‘ کھلاڑیوں اور خوشحال لوگوں تک ملک کے مختلف کامیاب لوگوں کے پروفائل نکال لیجیے‘ آپ کو ننانوے فیصد لوگ اپنے خونی رشتے داروں کے ہاتھوں تباہ ہوتے نظر آئیں گے‘ لیڈروں کی لیڈر شپ کو ان کے بھائی کھا جاتے ہیں‘ بہنوئی تباہ کر دیتے ہیں‘ سالے اڑا دیتے ہیں یا پھر بھانجے‘ بھتیجے اور کزن برباد کر دیتے ہیں‘ پاکستان میں ایوب خان کے دور میں 22 بڑے صنعتی اور کاروباری گروپ تھے۔
آج 40 سال بعد ان میں سے کوئی گروپ باقی نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ تمام صنعتی گروپ بھائیوں‘ بہنوئیوں‘ سالوں‘ بھانجوں اور بھتیجوں کی جنگ میں تباہ ہو گئے‘ آپ اپنے اردگرد نظریں دوڑائیں‘ آپ نے سیکڑوں ہزاروں لوگوں کو ترقی کرتے دیکھا ہو گا‘ آپ نے پھر ان لوگوں کو تباہ ہوتے بھی دیکھا ہو گا‘ آپ نے ان کی دکانیں‘ گودام‘ کارخانے اور فارم ہاؤس بکتے بھی دیکھے ہوں گے‘ یہ لوگ یقینا خونی رشتے داروں کے ہاتھوں تباہ ہوئے ہوں گے‘ انھوں نے نکمے رشتے داروں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے کرسی پر بٹھا دیا ہو گا یا کروڑوں کا کاروبار اپنے نکھٹو‘ سست اور بے وقوف بچوں کے حوالے کر دیا ہو گا اور یوں وہ ڈیوڑھی جس میں ہاتھی جھومتے تھے وہاں خاک اڑنے لگی‘ آپ بیوروکریٹس کو بھی دیکھ لیجیے‘ یہ بے چارے دیہاتی علاقوں میں ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ سی ایس ایس کرتے ہیں‘ اعلیٰ عہدوں پر پہنچتے ہیں اور پھر باقی زندگی بھائی‘ بھانجوں اور بھتیجوں کی ضمانتیں کرواتے رہتے ہیں۔
یہ خاندان کو ’’سیٹل‘‘ کرواتے کرواتے خود جیل پہنچ جاتے ہیں یا پھر کرپشن کی دلدل میں دفن ہو جاتے ہیں اور ہمارے کھلاڑیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے‘ یہ بے چارے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر ’’پچ‘‘ پر پہنچتے ہیں مگر پیچھے سے بھائی صاحب ’’بکی‘‘ سے آؤٹ ہونے کے کروڑ روپے پکڑ لیتے ہیں‘ ہمارا دوسرا المیہ سماجی بوجھ ہے‘ ہم میں سے کوئی ایک شخص ایڑھیاں رگڑ کر خوش حالی کے دروازہ تک پہنچتا ہے اور اس کے بعد پورا خاندان اپنی خواہشوں کی گٹھڑیاں اس کے سر پر رکھ دیتا ہے‘ نانی بیمار ہو یا پھوپھی کا دیور۔ علاج بہر حال بھائی صاحب ہی کروائیں گے‘ حالانکہ بچہ پاس ہو جائے تو ذمے داری یہ اٹھائے گا‘ فیل ہو جائے تو بھی ذمے دار یہ ہو گا‘ کوئی باہر جا رہا ہے تو سیٹ بک کروانے کی ذمے داری یہ اٹھائے گا۔
کوئی آ رہا ہے تو اسے ائیر پورٹ سے پک یہ کرے گا‘ یہ بے چارہ یہ ذمے داریاں نبھا بھی لیتا ہے‘ اللہ تعالیٰ ترقی کرنے والے ہر شخص کو بڑا دل اور بڑا حوصلہ دیتا ہے لیکن یہ بیچارہ طعنوں کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتا‘ دنیا میں پیچھے رہ جانے والے لوگ ’’شکایتی مراکز‘‘ ہوتے ہیں‘ ان کی زبانوں پر سیکڑوں ہزاروں شکایتیں چپکی ہوتی ہیں‘ یہ شکایتی مرکز جب اس شخص کو شکایات کے تیروں سے چھلنی کرتے ہیں تو اس کا حوصلہ جواب دے جاتا ہے اور یہ وہ وجہ ہے جس کی بدولت ہمارے ملک میں کامیاب لوگوں کی اوسطاً عمر 55 سال ہوتی ہے‘ یہ دنیا سے اس وقت رخصت ہو جاتے ہیں جب دنیا کے کامیاب لوگ خود کو جوان سمجھنا شروع کرتے ہیں۔
آپ دنیا کے کامیاب لوگوں کی فہرست بنائیں‘ آپ بل گیٹس کو دیکھئے‘ وارن بفٹ اور کارلوس سلم کی مثال لیجیے‘ آپ صدر باراک حسین اوباما کو دیکھئے‘ آپ کبھی ان لوگوں کے خاندان کو ان کے قریب نہیں دیکھیں گے‘ آپ کو کبھی برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور جرمن چانسلر اینجلا مرکل کے ابا جی‘ بھائی‘ بہن‘ بہنوئی اور سالے کی زیارت نہیں ہو گی‘ آپ ان کے بھانجوں اور بھتیجوں کے نام سے واقف نہیں ہوں گے‘ آپ کبھی اوبامہ کو اپنے بھتیجوں‘ بھانجوں سے ملاقات کرتے نہیں دیکھیں گے‘ خاندان سے یہ دوری ان کی کامیابی کی بڑی وجہ ہوتی ہے‘ کامیاب لوگوں کی کامیابی کی چھ بڑی وجوہات ہوتی ہیں اور ان وجوہات میں سے ایک وجہ اچھی اور اہل ٹیم ہوتی ہے‘ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پھنسے ہوئے لوگ ٹیم کی بجائے خاندان کو کھپانے میں مصروف ہو جاتے ہیں‘ سیل ڈیپارٹمنٹ بڑے بھائی دیکھیں گے‘ پرچیزنگ چھوٹے بھائی کا کام ہو گا‘ اکاؤنٹس بہنوئی کے پاس ہونگے۔
مارکیٹنگ سالہ صاحب کریں گے اور کمپنی کا وکیل خالہ کا بیٹا ہو گا اور رہ گئے کارخانے کے ورکر تو یہ بھی برادری‘ قبیلے اور گاؤں سے لیے جائیں گے اور جائیداد! جی ہاں یہ اباجی یا امی جی تقسیم کریں گی اور یوں خاندان اور قبیلے کے لوگوں کو ’’سیٹل‘‘ کرنے کی کوشش میں کاروبار کا بیڑہ غرق ہو جائے گا جب کہ ہمارے مقابلے میں بل گیٹس‘ وارن بفٹ‘ کارلوس سلم‘ صدر اوبامہ اور اینجلا مرکل ملک سے اہل ترین لوگ جمع کریں گے‘ یہ لوگ کام کریں گے تو یہ ان کے گلے میں ہار ڈالیں گے‘ یہ کام نہیں کریں گے تو یہ انھیں سلام کر کے فارغ کر دیں گے اور ان کی جگہ نئے لوگ آ جائیں گے یوں کمپنی اور پارٹی کامیاب ہو جائے گی۔
ہماری سیاست کا بھی یہی المیہ ہے ذوالفقار علی بھٹو اپنی صاحبزادی کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے‘ بھٹو صاحب کی اس خواہش نے پورا خاندان تباہ کر دیا‘ آصف علی زرداری نے 19 سال کے بچے کو پارٹی کا چیئرمین بنا دیا‘ رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی اور اب میاں نواز شریف بھی ملک کے ہیوی مینڈیٹ کو خاندان تک رکھنا چاہتے ہیں چنانچہ ان کا حشر بھی وہی ہو گا جو دس ہزار سال کی تاریخ میں اس خطے کے کامیاب لوگوں کا ہو رہا ہے‘ یہ بھی خاندان کو بناتے بناتے خود بکھر جائیں گے‘ یہ کمبل کا بندوبست کرتے رہ جائیں گے اور خاندان دری کھینچ لے گا اور ہیوی مینڈیٹ ماضی کا قصہ بن جائے گا۔
پاشا ماڈل
جاوید چوہدری منگل 17 جون 2014

فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کی پہلی سنجیدہ منصوبہ بندی اکتوبر 2010ء میں کی‘ جی ایچ کیو کے ’’وار روم‘‘ میں اعلیٰ سطح کی عسکری میٹنگ تھی‘ آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل احمد شجاع پاشا بھی میٹنگ میں شریک تھے‘ یہ آئی ایس آئی کے سربراہ بننے کے بعد فوجی حکمت عملی کے پراسیس سے الگ ہو چکے تھے لیکن یہ کیونکہ اپریل 2006ء سے اکتوبر 2008ء تک ڈی جی ملٹری آپریشنز بھی رہے تھے۔ انھوں نے سوات کے کامیاب آپریشن کی منصوبہ بندی بھی کی تھی اور یہ آئی ایس آئی کے ڈی جی بننے کے بعد امریکی انتظامیہ کے ساتھ بھی براہ راست ڈیل کرتے تھے چنانچہ انھیں بھی میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی.
جنرل پاشا نے میٹنگ میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا ایک ماڈل پیش کیا‘ میں آپ کی سہولت کے لیے اس ماڈل کا نام پاشا ماڈل رکھ رہا ہوں‘ جنرل پاشا نے پاک فوج کی اعلیٰ کمان کو مشورہ دیا ’’ سی آئی اے اور پینٹا گان شمالی وزیرستان کی بحالی اور ترقی کے لیے ہر قسم کی مدد کے لیے تیار ہیں‘ ہمیں بس ایک مکمل اور جامع آپریشن کرنا ہوگا‘‘۔
جنرل پاشا نے اس کے بعد پاشا ماڈل پیش کیا‘ جنرل کا خیال تھا ’’شمالی وزیرستان میں روایتی جنگ ممکن نہیں‘ دہشت گرد نسلوں سے اس علاقے میں رہ رہے ہیں‘ یہ زمین کے چپے چپے سے واقف ہیں‘ یہ لوگ زمین کے اندر خندقیں اور پہاڑوں میں میلوں لمبے غار بھی کھود چکے ہیں‘ ان کے پاس گولے‘ بارود اور جدید ترین اسلحے کے ذخائر بھی ہیں‘ یہ خود کش حملوں‘ بم دھماکوں اور پہاڑوں پر بیٹھ کر فائرنگ کے ماہر بھی ہیں اور یہ لوگ مشکل وقت میں افغانستان بھی چلے جاتے ہیں‘ افغانستان میں ان کی خفیہ اسٹیبلشمنٹ قائم ہے‘ یہ وہاں زمین جائیداد اور کاروبار کے مالک ہیں۔
ان کے پاس افغان شناختی کارڈ اور پاسپورٹس بھی ہیں اور افغانستان کے مختلف شہروں میں ان کے ٹھکانے بھی ہیں چنانچہ پاک فوج جب ان سے روایتی جنگ لڑے گی تو یہ شروع میں ہماری فوج کو شمالی وزیرستان میں داخل ہونے کا موقع دیں گے‘ ہم جب پوری طرح علاقے میں داخل ہو جائیں گے تو یہ فوج پر حملے شروع کر دیں گے‘ ہم پر گھروں کے اندر سے بھی حملے ہوں گے‘ پہاڑوں سے بھی‘ غاروں سے بھی اور خندقوں سے بھی۔ یہ فوج کی سپلائی لائین بھی آئے دن کاٹتے رہیں گے یوں ہماری فوج کو نقصان ہو گا‘ ہم جب اس نقصان کے بعد ’’ری ایکٹ‘‘ کریں گے تو یہ افغانستان بھاگ جائیں گے۔
محاذ پر خاموشی ہو جائے گی لیکن یہ لوگ چند ماہ بعد دوبارہ حملے کریں گے اور ہم ان حملوں کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں مستقل فوج رکھنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ اس فوج کے لیے سپلائی لائین بھی بنائی جائے گی اور اس پر اربوں روپے کے اخراجات ہوں گے‘ ہماری فوج کا ایک بڑا حصہ طویل مدت کے لیے وہاں انگیج رہے گا اور ہماری سویلین آبادی بھی ’’ڈس پلیسڈ‘‘ رہے گی‘ جنرل پاشا کا خیال تھا ’’ہمیں روایتی جنگ کے بجائے مستقل اور ٹھوس حل کی طرف جانا چاہیے‘ ہم علاقے میں منادی کروائیں‘ لوگوں کو علاقے سے نکلنے کے لیے ایک مہینہ دیں۔
سویلین آبادی کو نکالیں اور اس کے بعد میر علی اور میران شاہ دونوں قصبوں پر ہیوی بمباری کریں‘ جہازوں‘ ٹینکوں اور توپوں سے حملہ کیا جائے‘ ہم اس آپریشن کے بعد ملبہ اٹھائیں اور یہاں دو نئے اور جدید شہر آباد کر دیں‘ سویلین کو واپس لائیں اور انھیں نئے گھروں میں آباد کریں‘‘۔ جنرل پاشا کا کہنا تھا’’ امریکی آپریشن‘ نئے شہروں کی تعمیر اورشہریوں کی آباد کاری کے لیے ہر قسم کی مدد دینے کے لیے تیار ہیں‘ یہ ان شہروں کی سیکیورٹی کا جدید انتظام بھی کریں گے‘‘ جنرل پاشا کا ماڈل پسند کیا گیا لیکن فوج کیونکہ اس وقت آپریشن نہیں کرنا چاہتی تھی چنانچہ یہ معاملہ وقت کی فائل میں دب گیا۔
ہماری افواج نے 15 جون سے شمالی وزیرستان میں باقاعدہ آپریشن شروع کر دیا‘ یہ آپریشن ضروری تھا کیونکہ دہشت گردی اب تک 60 ہزار لوگوں کی جانیں لے چکی ہے‘ یہ ریاست کو اندر اور باہر دونوں طرف سے کھوکھلا بھی کر چکی ہے‘ ہم اگر آج لڑنے کا فیصلہ نہ کرتے تو ہم شاید یہ فیصلہ کبھی نہ کر پاتے‘ میں میاں نواز شریف کی مذاکراتی حکمت عملی کا حامی تھا‘ حکومت کو مذاکرات کو موقع دینا چاہیے تھا اور حکومت نے طالبان کو یہ موقع ضرورت سے زیادہ دیا مگر دہشت گردوں نے اسے ریاست کی کمزوری سمجھا چنانچہ ریاست اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے پرمجبور ہوگئی۔
یہ مظاہرہ ضروری بھی تھا اور ناگزیر بھی اور قوم مذاکرات کی طرح اب آپریشن پر بھی حکومت کے ساتھ ہے لیکن ہمیں آپریشن کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کی وجوہات پر بھی توجہ دینی ہوگی‘ ہم جب تک مسئلے کی ملکہ مکھی کو نہیں ماریں گے‘ دہشت گردی کے چھتے اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے‘ دہشت گرد آج شمالی وزیرستان میں ہیں‘ یہ کل بلوچستان چلے جائیں گے‘ ہم وہاں فوج بھجوائیں گے تو یہ سندھ کے اندرونی علاقوں کی طرف نکل جائیں گے اور ہم انھیں وہاں گھیریں گے تو یہ جنوبی پنجاب میں پناہ لے لیں گے‘ ہم کہاں کہاں آپریشن کریں گے‘ ہم کہاں کہاں فوج بھیجیں گے لہٰذا ہمیں اس ناسور کا مستقل حل تلاش کرنا چاہیے۔
ملک میں دہشت گردی کی تین بڑی وجوہات ہیں‘ ہم جب تک یہ وجوہات دور نہیں کرتے‘ یہ سلسلہ آپریشنوں کے باوجود چلتا رہے گا‘ پہلی وجہ افغانستان کی منشیات ہیں‘ افغانستان کا قومی بجٹ سات ارب ڈالر ہے جب کہ وہاں 30 ارب ڈالر کی منشیات پیدا ہوتی ہیں‘افغان منشیات فروشوں نے 2012ء میں صرف دوبئی میں 12 ارب ڈالر کی پراپرٹی خریدی‘ افغانستان نے 13-2012ء میں تین ہزار ٹن ہیروئن پیدا کی‘ افغانستان کی ہیروئن کا بڑا حصہ پاکستان میں فروخت ہوتا ہے یا پھر پاکستان کے راستے بین الاقوامی مارکیٹ میں جاتا ہے‘ فاٹا کے علاقے منشیات کے گودام ہیں‘ افغان منشیات ہمارے علاقوں میں ذخیرہ ہوتی ہیں اور یہاں سے باہر جاتی ہیں۔
یہ منشیات فروش دہشت گردوں کے سیاسی اور معاشی سپورٹر ہیں‘ ہم جب تک امریکا اور افغانستان کے ساتھ مل کر منشیات کا یہ کاروبار ختم نہیں کریں گے‘ ہم جب تک پاکستان کو ہیروئن‘ افیون اور چرس فری نہیں کریں گے‘ دہشت گردی کی سیاسی اور معاشی امداد اس وقت تک جاری رہے گی اوریوں دہشتگردی بھی جاری رہے گی‘ دو‘طالبان۔ ہمیں طالبان کے مختلف گروپوں کا تجزیہ اور ان کے ایجنڈے کا مطالعہ بھی کرنا ہو گا‘ طالبان میں پانچ قسم کے لوگ ہیں‘ افغان طالبان‘ یہ گروپ القاعدہ اور تحریک طالبان افغانستان کے لوگوں پر مشتمل ہے‘ یہ لوگ عیسائی اور یہودیوں کو تباہ کرنے کے لیے ایک مضبوط اسلامی ملک چاہتے ہیں۔
افغانستان‘ سوڈان‘ کینیا اور پاکستان چار اسلامی ممالک ان کے ہدف ہیں‘ یہ لوگ ان چاروں ممالک میں کام کر رہے ہیں لیکن پاکستان ان کے لیے مناسب ترین ملک ہے‘کیوں؟ کیونکہ پاکستان میں انفرا سٹرکچر بھی ہے‘ یہ جوہری بم بھی رکھتا ہے‘ اس کی آبادی بھی 19 کروڑ ہے اور پاکستانی عوام بھی امریکا‘ اسرائیل اور یورپ سے نفرت کرتے ہیں چنانچہ طالبان خواہ افغانستان میں بیٹھے ہوں یا سوڈان اور کینیا میں ان کا اصل ہدف پاکستان ہی رہے گا‘ ہم جب تک پاکستان کو ان لوگوں سے نہیں بچاتے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا‘ پاکستانی مجاہدین‘ یہ لوگ افغانستان میں روس اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے لڑتے رہے‘ یہ جنگ کے لیے ٹرینڈ ہیں‘ 1990ء میں افغان جہاد ختم ہوا تو مجاہدین کا ایک حصہ فارغ ہوگیا۔
جنرل پرویز مشرف نے 2005ء میں کشمیر آپریشن ختم کرکے دوسرے حصے کو فارغ کر دیا‘ یہ دونوں مل گئے‘ یہ لوگ جنرل پرویز مشرف اور ان کی جہاد مخالف پالیسیوں کی وجہ سے فوج سے ناراض ہیں‘ یہ ڈرون حملوں پر بھی شدید غصے میں ہیں‘ ہم جب تک ان لوگوں کو نیوٹرل نہیں کریں گے‘ یہ ایکٹو رہیں گے‘ فرقہ پرست گروپ‘ یہ لوگ سنی شیعہ اختلافات کی پیداوار ہیں‘ ہمارے بعض مدارس اور چند علماء کرام ان کے سپورٹر ہیں۔
ہم جب تک ان علماء کرام اور ان مدارس تک نہیں پہنچتے‘ ہم ان کے جائز مطالبات نہیں مانتے‘ یہ گروپ بھی فعال رہیں گے‘ جرائم پیشہ گروپ‘ یہ لوگ ملک میں اغواء برائے تاوان‘ قتل‘ ڈکیتی‘ کار چوری‘ منشیات‘ بردہ فروشی اور بھتہ خوری کی وارداتیں کرتے ہیں اور پولیس‘ عدلیہ اور فوج سے بچنے کے لیے طالبان کے پیچھے پناہ لے لیتے ہیں‘ ہم جب تک انھیں مجرم سمجھ کر ان سے نہیں نبٹیں گے‘ یہ گروپ بھی جوں کے توں رہیں گے اور پانچواں اور آخری گروپ گڈ طالبان ہیں۔
یہ ریاست کے پالے ہوئے طالبان ہیں‘ ہم لوگ ان کے ذریعے 20 سال سے افغانستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ یہ لوگ جب پاکستان اور افغانستان میں حملے کرتے ہیں تو ہماری ریاست ملک کے اندر اور ملک کے باہر ان کی وکیل بن جاتی ہے‘ ہم جب تک یہ فیصلہ نہیں کریں گے‘ سفارت کاری وزارت خارجہ کا کام ہے‘ فوج کا نہیں‘ ملک میں اس وقت تک یہ گروپ بھی قائم رہے گا اور یوں ان کے ساتھ ہمارا مسئلہ زندہ رہے گا کیونکہ بیڈ طالبان کے بعد گڈ طالبان بیڈ ہو جائیں گے اور ہم ایک جنگ کے بعد دوسری میں پھنس جائیں گے۔
ہم اب تیسری وجہ کی طرف آتے ہیں‘ ہمارے ملک میں دہشت گردی کی تیسری وجہ مذہب کی ٹھیکیداری ہے‘ ہمارے ملک میں 72 قسم کے مسالک یا فرقے ہیں اور ہر فرقہ‘ ہر گروپ 19 کروڑ لوگوں پر اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنا چاہتا ہے‘ ملک میں موجود ہر فرقہ دوسرے فرقے کو کافر اور قابل گردن زنی سمجھتا ہے‘ یہ لوگ قرآن مجید بھی اپنے مفسروں کا پڑھتے ہیں اور دوسرے فرقے کی مسجدوں تک کو عبادت گاہ تسلیم نہیں کرتے‘ آپ ملک میں کسی بھی شخص کو شیعہ‘ وہابی‘ بریلوی یا اہل حدیث قرار دے کر اس کی جان خطرے میں ڈال سکتے ہیں‘ حکومت جب تک اس مذہبی سوچ کی جڑ نہیں کاٹتی‘ یہ تمام مسجدوں اور امام بارگاہوں کو قومی تحویل میں نہیں لیتی یہ فرقہ واریت پر پابندی نہیں لگاتی اور یہ متنازعہ کتابوں اورنفرت انگیز مذہبی تقریروں پر سزائے موت طے نہیں کرتی‘ یہ مسئلہ اور اس مسئلے سے جڑی دہشت گردی اس وقت تک ختم نہیں ہوگی چنانچہ ہمارے ملک‘ ہماری ریاست کو دہشت گردی کی مکمل بیخ کنی کے لیے عسکری کے ساتھ ساتھ سماجی پاشا ماڈل بھی درکار ہے‘ ہم جب تک ان دونوں ماڈلز کو بیک وقت متحرک نہیں کریں گے‘ یہ مسئلہ پھوڑے پھنسیوں کی طرح جوں کا توں رہے گا‘ سردی آئے گی تو پھوڑے غائب ہو جائیں گے لیکن مون سون کا موسم شروع ہوتے ہی دانوں میں دوبارہ پیپ پڑ جائے گی اور قوم ناخنوں سے اپنی پیٹھ کھرچنے میں مصروف ہو جائے گی۔

www.facebook.com/javed.chaudhry
میں نے آخر میں سلیا اور اینڈی سے ایک سوال کیا اور وہ خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں اور مجھے وارسا کے یہودی میوزیم کے سامنے محسوس ہوا دونوں بزرگ خواتین لاجواب ہو چکی ہیں۔
سلیا مس مین اور اینڈی کی عمریں 74 اور 75 سال تھیں‘ یہ اور ان کے آبائواجداد یہودی تھے‘ یہ لوگ روس میں رہتے تھے‘ یہ پچھلی صدی کے شروع میں ماسکو سے امریکا شفٹ ہو گئے‘ سلیا کے والدین امریکا کی مختلف ریاستوں میں رہائش پذیر رہے‘ اس کے خاندان کے لوگ آج بھی امریکا کی تین ریاستوں میں بکھرے ہوئے ہیں تاہم یہ اور اس کی دوست اینڈی فلوریڈا کے شہر میامی میں رہتی ہیں‘ دنیا بھر کے یہودی زندگی میں کم از کم ایک بار پولینڈ ضرور آتے ہیں‘ وارسا اور کراکووف یروشلم کے بعد یہودی کمیونٹی کی دوسری بڑی منزل ہیں۔
یہ ان دو شہروں کی سیاحت ضرور کرتے ہیں‘ اس کی وجہ یہودیوں کی تاریخ‘ یہودیوں کا ماضی ہے‘ 1939ء تک دنیا میں سب سے زیادہ یہودی پولینڈ میں رہتے تھے‘ پولینڈ میں ان کی تعداد 35 لاکھ تھی‘ ہٹلر نے ستمبر 1939ء میں پولینڈ پر قبضہ کیا اور پولینڈ میں موجود یہودیوں کی نسل کُشی شروع کر دی‘ وارسا اور کراکووف ہٹلر کی توجہ کے خصوصی مراکز تھے‘ وارسا شہر کی آبادی اس وقت گیارہ لاکھ تھی‘ ان میں ساڑھے تین لاکھ یہودی تھے‘ جرمنوں نے پولینڈ پر قابض ہونے کے بعد یہودیوں کے لیے لازم قرار دے دیا یہ اپنے گھروں‘ دکانوں اور ٹھیلوں پر نیلے رنگ میں ’’سائن آف ڈیوڈ‘‘ بنائیں گے‘ سائن آف ڈیوڈ یہودیوں کی خصوصی نشانی ہے۔
یہ وہ ستارہ ہے جو آپ اکثر یہودی کمپنیوں کے لیٹر ہیڈ یا اسرائیل کے پرچم پر دیکھتے ہیں‘ جرمنوں کے اس حکم کے بعد وارسا اور کراکووف کے یہودی اپنی جائیدادوں پر ’’سائن آف ڈیوڈ‘‘ لگانے پر مجبور ہو گئے‘ انھیں اپنے بازوئوں اور کپڑوں پر بھی یہ نشان لگانے کا حکم دے دیا گیا‘ یوں پولینڈ کے تمام یہودی جرمنوں کی نظروں میں آ گئے‘ ہٹلر نے اس کے بعد ان یہودیوں کی مدد سے وارسا شہر میں نو فٹ اونچی‘ دو فٹ چوڑی اور پندرہ کلومیٹر لمبی دیوار بنوائی‘ اس دیوار پر شیشے کے ٹکڑے لگا کر اسے ناقابل عبور بنا دیا گیا اور اس کے بعد وارسا کے ساڑھے تین لاکھ یہودیوں کو اس دیوار کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔
یہ لوگ اپنے ہی شہر میں قیدی بن گئے‘ یہ اس وقت وارسا کی ایک تہائی آبادی تھے لیکن یہ ایک تہائی لوگ تیزی سے مرنے لگے‘ انسان کو زندہ رہنے کے لیے روزانہ خوراک کی دو ہزار کیلوریز درکار ہوتی ہیں‘ جرمنوں نے یہودیوں کی خوراک کی راشننگ کی اور انھیں صرف دو سو کیلوریزکی خوراک دی جانے لگی یوں دیوار کے پیچھے محبوس ساڑھے تین لاکھ یہودیوں میں سے ایک لاکھ لوگ خوراک کی کمی کے باعث ہلاک ہوگئے‘ باقی متعدی امراض کا شکار ہونے لگے ہٹلر نے پولینڈ‘ آسٹریا اور جرمنی میں یہودیوں کے خصوصی کیمپ بھی بنا دیے‘ یہ لوگ ان کیمپوں میں شفٹ کر دیے گئے‘ وہاں گیس چیمبر اور بجلی کی بھٹیاں تھیں‘ یہودیوں کو دو‘ دو ہزار کی تعداد میں ان گیس چیمبرز میں کھڑا کیا جاتا تھا‘ گیس کے سیلنڈرز اور کنٹینرز کھولے جاتے تھے۔
یہ لوگ چند لمحوں میں زندگی کی حدود عبور کر جاتے تھے اور بعد ازاں ان لوگوں کی نعشیں بھٹیوں میں جلا دی جاتی تھیں‘ یہ لوگ جس دن گیس چیمبرز میں قتل کیے جاتے اور ان کی نعشیں جلائی جاتی تھیں اس دن پورے کیمپ میں گیس اور جلائے جانے کی بو پھیل جاتی تھی اور دور دور تک دھواں دکھائی دیتا تھا‘ کیمپوں میں ان لوگوں کو خصوصی پائجامے اور شرٹس پہنائی جاتی تھیں‘ آج اس سانحے کو70 سال ہو چکے ہیں لیکن یہ لوگ آج بھی پائجاموں کے اس رنگ اور ڈیزائن سے نفرت کرتے ہیں‘ یہ اس ڈیزائن کو چھونا تک پسند نہیں کرتے‘ پولینڈ‘ آسٹریا اور جرمنی میں آج بھی یہ کنسنٹریشن کیمپ موجود ہیں‘ یہودیوں نے انھیں عجائب گھر بنا دیا ہے۔
ان عجائب گھروں میں یہودیوں کی بیرکیں جوں کی توں موجود ہیں‘ گیس چیمبرز بھی ہیں‘ برقی بھٹیاں بھی ہیں‘ اور ان کی چیخیں اور سسکیاں بھی ہیں‘ آپ اگر ان کیمپوں کا دورہ کریں تو آپ کو یہاں سیکڑوں ہزاروں دل دہلا دینے والی تصویریں‘ فلمیں اور خطوط ملیں گے اور آپ کا دل خواہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو آپ کے لیے دامن دل سنبھالنا مشکل ہو جائے گا اور آپ یہودیوں کی مظلومیت میں بہہ جائیں گے‘ ہٹلر کے دور میں پولینڈ کے 35 لاکھ یہودیوں میں سے 20 لاکھ مار دیے گئے‘ وارسا شہر میں تین لاکھ یہودی قتل کر دیے گئے۔
صرف وہ لوگ بچے جو بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے یا یورپ کے دور دراز علاقوں میں پناہ گزین ہو گئے یا پھر انھیں کسی نہ کسی عیسائی یا مسلمان نے پناہ دے دی اور وہ ان کے تہہ خانے میں چھپ کر بیٹھ گئے‘ بچ جانے والوں نے زندگی کی ڈور قائم رکھنے کے لیے چوہے بھی کھائے‘ بلیاں بھی اور کتے بھی اور اپنے مردہ بہن بھائیوں کا گوشت بھی۔ یہ لوگ چار چار سال تک تہہ خانوں میں رہے‘ یہ گٹروں اور سیوریج کے زیر زمین پائپوں میں چھپے رہے یہاں تک کہ1944ء آ گیا‘ ہٹلر کی فوجیں پسپا ہونے لگیں‘ پولینڈ میں جرمنوں کے خلاف بغاوت ہو گئی‘ روسی افواج نے اس بغاوت کو ہوا دی‘ روسیوں نے پولینڈ کے لوگوں کو یقین دلا دیا آپ لوگ جرمنوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں‘ ہم آپ کا ساتھ دیں گے اور یوں ہم مل کر پولینڈ کو جرمنوں سے آزاد کرالیں گے۔
پولینڈ کے عوام جرمنوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے‘ جرمن پسپا ہو رہے تھے لیکن انھوں نے پسپا ہونے سے قبل وارسا شہر کو تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ جرمنوں نے پورے شہر میں ڈائنامائیٹ لگائے‘ شہر کے باہر توپیں گاڑھیں‘ اپنے طیارے اڑائے اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ وارسا کا 80 فیصد حصہ زمین بوس ہو گیا‘ آٹھ لاکھ لوگ مارے گئے‘ گیارہ لاکھ لوگوں میں سے صرف دو لاکھ بچے اور وہ بھی مفرور اور زخمی تھے‘ آپ پولینڈ کی تباہی کا احوال دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں بنائی گئی فلموں میں دیکھ سکتے ہیں‘ اس بمباری کے نتیجے میں باقی ماندہ یہودی بھی مارے گئے۔
یہودیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ اسرائیل میں ہوں‘ فرانس میں ہوں یا پھر امریکا میں ہوں ان کا کسی نہ کسی ذریعے سے پولینڈ سے ضرور تعلق ہوتا ہے چنانچہ یہ یروشلم کے بعد پولینڈ ضرور آتے ہیں‘ پولینڈ دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین کے حصے میں آ گیا‘ اس کی سرحد مشرقی جرمنی سے ملتی تھی‘ برلن شہر وارسا سے دو گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ شہر دیوار برلن کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا‘ دیوار کے اس طرف مشرقی جرمنی تھا اور دیوار کی دوسری طرف مغربی جرمنی۔ مغربی جرمنی یورپ کا حصہ تھا جب کہ مشرقی جرمنی پر سوویت یونین کا قبضہ تھا۔
روسی اسٹیبلشمنٹ مشرقی جرمنی کو وارسا سے کنٹرول کرتی تھی‘ سویت یونین 1991ء میں ٹوٹ گیا‘ پولینڈ 22 جولائی 1944ء میں آزاد ہو گیا‘3 اکتوبر 1990ء کو دیوار برلن بھی گر گئی‘ مشرقی جرمنی دوبارہ مغربی جرمنی میں شامل ہو گیا‘ تاریخ کا نیا دور شروع ہوا‘ پولینڈ آزاد ہو گیا‘ وارسا نئی طاقت کے ساتھ سامنے آیا‘ پولینڈ کے زندہ بچ جانے والے یہودی اس وقت تک اسرائیل‘ فرانس‘ جرمنی‘ بیلجئم‘ ہالینڈ اور امریکا میں خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔
یہ لوگ ایک ایک کر کے پولینڈ آتے گئے اور یہاں زمینیں‘ فیکٹریاں اور جائیدادیں خرید تے چلے گئے‘ پولینڈ میں اس وقت تین ہزار یہودی ہیں لیکن یہ تین ہزار یہودی پوری پولش آبادی پر بھاری ہیں کیونکہ یہ اب تک پولینڈ کی معیشت‘ میڈیا‘ سیاست‘ اسٹاک ایکسچینج‘ ٹرانسپورٹ اور سیاحت کو کنٹرول کر چکے ہیں‘ وارسا اور کراکووف میں جیوئش کمیونٹی سنیٹر بن چکے ہیں‘ یہودیوں کے بڑے بڑے عجائب گھر بھی ہیں‘ سینا گوگ بھی اور ریستوران بھی‘ یہ پولینڈ کو دوبارہ کنٹرول کر رہے ہیں۔
میں سوموار 14 جولائی کو وارسا پہنچا اور 16 جولائی کو کراکووف شہر گیا‘ کراکووف شہر میں یہودیوں کا بہت بڑا اور قدیم محلہ ہے‘ محلے میں درجنوں سرائے‘ ہوٹل اور موٹلز ہیں‘ ان کے پب‘ ڈسکوز‘ سینا گوگ اور ریستوران بھی ہیں‘ یہاں ان کا میوزیم بھی ہے‘ میں ایک ریستوران کے سامنے رکا تو مجھے وہاں سے اردو میں گانے کی آواز آئی۔ میں ریستوران کے ریسپشن پر چلا گیا‘ گانے کے بارے میں معلوم کیا تو پتہ چلا اس ریستوران میں ان تمام ممالک کی زبانوں کے گانے موجود ہیں جہاں جہاں یہودی آباد ہیں یا ماضی میں آباد رہے تھے۔
میں نے یہ تحقیق کی تو پتہ چلا کراچی اور پشاور میں آج بھی یہودی موجود ہیں اور یہ سی ڈی کراچی کی ایک خاتون یہودی سنگر نے تیار کی ‘ وہ آواز بھی اسی سنگر کی تھی‘ گلی میں اس وقت مختلف عمروں کے سیکڑوں یہودی گھوم رہے تھے‘ ان لوگوں نے یہودیوں کے مخصوص لباس پہن رکھے تھے‘ وہ گلی میں موجودقدیم سینا گوگا کی دیواروں کو چومتے تھے‘ اس پر ہاتھ پھیر پھیر کر چہرے پر پھیرتے تھے اور روتے تھے‘ انھیں شاید اپنے آبائواجداد پر ہونے والے مظالم یاد آ رہے تھے‘ میامی کی سلیا مس مین اور اینڈی بھی دو دن قبل وارسا میں اسی کیفیت سے گزر رہی تھیں‘ وہ اس ٹور میں شامل تھیں جس کا میں بھی حصہ تھا اور ہم لوگ وارسا کی تاریخ تلاش کر رہے تھے۔
وارسا ایک دلچسپ اور خوبصورت شہر تھا‘ اس کے در و دیوار پر تاریخ رقم ہے‘ شہر میں شوپان نام کا وہ موسیقار رہا تھا جس نے میوزک کی قدیم روایات کو جڑوں سے ہلا دیا تھا‘ شہر میں آج بھی اس کے درجنوں مجسمے ایستادہ ہیں‘ مادام کیوری نے بھی اسی شہر میں جنم لیا تھا‘ اس مادام کیوری نے جس نے 1898ء میں ریڈیم اور پولونیم دریافت کر کے سائنس کو نیا وجود دیا‘ پوپ جان پال دوم بھی پولینڈ سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ کراکووف کے رہنے والے تھے‘ شہر میں آج بھی ان کا گھر اور وہ قدیم چرچ موجود ہے جہاں انھوں نے جنم لیا۔
تعلیم مکمل کی اور جہاں وہ لوگوں میں امن اور آشتی تقسیم کرتے تھے اور وارسا میں وہ عمارتیں بھی موجود ہیں جہاں دنیا میں پہلی بار درخت کاٹنے کو جرم قرار دیا گیا تھا‘ جہاں یورپ کا پہلا آئین تیار ہوا تھا اور جہاں دنیا کی پہلی وزارت تعلیم کا سنگ بنیادرکھا گیا تھا اور جہاں باقاعدہ الیکشن کے ذریعے بادشاہوں کا انتخاب ہوتا تھا لیکن اصل چیز یہودیوں کا میوزیم اور سینا گوگا تھا اور یہودی مظلوموں کی یاد گار تھی‘ اینڈی اور سلیا اس مقام پر پہنچ کر بے بس ہو گئیں‘ ان کی آنکھیں تر ہو گئیں‘ یہودیوں کی یادگار کے سامنے اسرائیل سے آئے نوجوان زائرین بیٹھے تھے‘ یادگار کے سامنے نوجوان یہودی سنگر عبرانی زبان میں گانا گا رہی تھی اور مختلف عمروں کے یہودی اس کے سامنے زمین پر بیٹھ کر وہ اداس گانا سن رہے تھے۔
خاتون یہودی سنگر کے ہاتھ میں گٹار تھا‘ وہ اداسی کا مجسمہ بن کر یاد گار کی سیڑھیوں پر بیٹھی تھی‘ یہودی نوجوان اس کی لے میں لے ملا رہے تھے‘ سلیا اور اینڈی مجمع کے قریب کھڑی تھیں اور وہ بھی منہ ہی منہ میں بول دہرا رہی تھیں‘ گانا ختم ہوا تو میں نے سلیا سے پوچھا ’’آپ لوگ اتنے اداس کیوں ہیں‘‘دونوں بیک آواز بولیں ’’ہمیں جرمنوں کے ظلم یاد آ رہے ہیں‘‘ میں نے اس کے بعد ان سے وہ سوال پوچھا جس کے جواب میں دونوں خاموش ہو گئیں‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ لوگوں کو اگر جرمنوں کے مظالم یاد ہیں تو پھر آپ آج فلسطینی مسلمانوں کے لیے ہٹلر کیوں بن گئے ہیں‘ آپ آج فلسطینیوں کے لیے جرمن کیوں ثابت ہو رہے ہیں؟‘‘ سلیا اور اینڈی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور خاموشی سے سر جھکا لیا۔
ہم مان رہے ہیں، آپ بھی مان لیں
جاوید چوہدری ہفتہ 21 جون 2014

ہمیں کچھ باتیں میاں نواز شریف کی ماننا پڑیں گی اور کچھ میاں صاحب کو بھی تسلیم کرنا ہوں گی۔
ہم مان لیتے ہیں میاں نواز شریف متحدہ پاکستان کے آخری بڑے لیڈر ہیں‘ ہم نے اگر حالات کی نزاکت پر توجہ نہ دی‘ ہم نے ملک میں پھیلی ہوئی منافرت‘ سرکاری نالائقی‘ اداروں کے درمیان ٹکراؤ اور مذہبی شدت پسندی پر قابو نہ پایا تو میاں نواز شریف کے بعد ملک کا شیرازہ بکھر جائے گا‘ یہ یوگو سلاویہ بن جائے گا یا پھر عراق جیسی صورتحال کا شکار ہو جائے گا‘ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سے لاکھ اختلافات سہی مگر یہ ملک کی یکجہتی کی علامت تھے۔
بے نظیر بھٹو27 دسمبر 2007ء کو دنیا سے رخصت ہو گئیں‘ یکجہتی کا ایک ستون ٹوٹ گیا‘ پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008ء میں اکثریت حاصل کی‘ پانچ سال پورے کیے لیکن یہ آج کہاں ہے؟ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی آج دیہی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی‘ آدھا سندھ یعنی کراچی اور حیدرآباد ایم کیو ایم کے پاس ہے باقی آدھا سندھ پیپلز پارٹی اور قوم پرست جماعتوں میں تقسیم ہو گیا‘ قومی پارٹی سندھی پارٹی بن گئی۔ میاں نواز شریف قومی یکجہتی کے دوسرے ستون ہیں‘ یہ گر گئے تو شاید پاکستان مسلم لیگ ن بھی میاں شہباز شریف‘ چوہدری نثار یا اسحاق ڈار کی قیادت میں پانچ سال پورے کر لے مگر 2018ء میں یہ پارٹی بھی پنجاب تک محدود ہو کر رہ جائے گی اور یہ 2020ء تک جنوبی پنجاب سے بھی فارغ ہو جائے گی۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی صورتحال آپ کے سامنے ہے‘ خیبر پختونخوا میں فاٹا‘ ہزارہ اور بلتستان تین نئے صوبے بن رہے ہیں‘ یہ تین نئے صوبے اٹک سے لے کر خیبر تک اور سوست باڈر سے لے کر ڈی آئی خان تک پورے علاقے کی ہیت بدل دیں گے‘ بلوچستان کے بارے میں سی آئی اے جنرل احمد شجاع پاشا کو دھمکی لگا چکی ہے ’’ہم نے افغانستان کی معدنیات نکالنی ہیں اگر پاکستان نے ہمیں راستہ نہ دیا تو ہم یہ دولت آزاد بلوچستان کے راستے نکال لے جائیں گے‘‘ آزاد بلوچستان امریکا اور یورپ کے لیے آئیڈیل جغرافیائی پوزیشن ہو گی‘ ہزار کلو میٹر کی کوسٹل لائین‘ تین بندرگاہیں‘ ایران کی ہمسائیگی اور عرب ممالک کی جغرافیائی دوستی‘ آزاد بلوچستان امریکا کے لیے آئیڈیل ملک ثابت ہو گا‘ میاں نواز شریف مستقبل کے ان برے دنوں کو ٹال سکتے ہیں‘ یہ ملک کو ٹوٹنے سے بھی بچا سکتے ہیں‘ نیوکلیئر پروگرام کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
فوج کی سیاسی حفاظت بھی کر سکتے ہیں اور مختلف زبانوں‘ نسلوں اور فرقوں میں بٹے لوگوں کو اکٹھا بھی رکھ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت بہر حال ماننا ہو گی‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا‘ میاں نوازشریف کی معاشی پالیسیاں درست ہیں‘ پاکستان معاشی لحاظ سے ترقی کر رہا ہے‘ زرمبادلہ کے ذخائربہتر ہو رہے ہیں‘ اسٹاک ایکسچینج توانا ہو چکی ہے‘ چین اور ترکی سرمایہ کاری کر رہے ہیں‘ صوبے موٹرویز کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑ رہے ہیں‘ میاں صاحب بجلی کے منصوبے بھی لگا رہے ہیں‘ ملک میں چار پانچ برسوں میں لوڈ شیڈنگ بھی ختم ہو جائے گی‘ میٹرو بسوں کے منصوبے بھی اچھے ہیں اور ملک میں کرپشن میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا پنجاب میں پچھلے چھ برسوں میں بہت کام ہوا‘ آپ پنجاب کے شہروں کا باقی صوبوں کے شہروں سے تقابل کر یں تو آپ کو واضح فرق محسوس ہو گا‘ آپ پنجاب میں آج بھی رات کے وقت باہر نکل سکتے ہیں جب کہ آپ سندھ‘ کے پی کے اور بلوچستان میں اس کا تصور تک نہیں کر سکتے‘ یہ ساری باتیں یہ سارے حقائق درست ہیں اور ہمیں دل بڑا کر کے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو ان کا کریڈٹ دینا ہو گا لیکن میری میاں صاحبان سے درخواست ہے‘ ہم اگر یہ حقائق مان رہے ہیں تو آپ بھی وہ حقائق مان لیں جن کو آپ فراموش کر کے بیٹھے ہیں‘ آپ میں بھی ایسی خامیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے آپ مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں‘ آپ اگر اپنا سیاسی سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی ان خامیوں پر قابو پانا ہو گا۔ آپ بھی انسان ہیں اور دنیا کا کوئی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا‘ یہ اصلاح کا طالب رہتا ہے اورآپ کو بھی اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔
میاں صاحب کی سب سے بڑی خامی خاندانی سیاست ہے‘ یہ طاقت اور اختیار کو صرف اور صرف اپنے خاندان تک محدود رکھنا چاہتے ہیں‘ آپ کے خاندان کے 19 افراد اس وقت طاقت کے برآمدوں میں گھوم رہے ہیں‘ یہ لوگ بھی وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم جتنے بااختیار ہیں‘ پارٹی کے عملی سربراہ حمزہ شہباز ہیں‘ یہ ذاتی جہاز میں سفر کرتے ہیں اور وزیر اعلیٰ کی طرح احکامات جاری کرتے ہیں‘ سلمان شہباز معاشی اور تجارتی فیصلے کرتے ہیں‘ مریم نواز کو وزیر خارجہ کی ٹریننگ دی جا رہی ہے اور وزیر اعظم بھارت کے دورے پر جائیں تو یہ شاہ محمود قریشی اور خورشید شاہ کو ساتھ لے جانے کی بجائے حسین نواز شریف کو سعودی عرب سے بلا کر دہلی لے جاتے ہیں۔
لاہور شہر کے اندر سات وی وی آئی پی رہائش گاہیں ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے ہزار سے دو ہزار اہلکار تعینات ہوتے ہیں‘ میاں صاحب کو یہ خاندانی سیاست ترک کر دینی چاہیے‘ میاں صاحبان کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے‘ یہ خاندان کے بعد جن لوگوں کو توجہ کے قابل سمجھتے ہیں‘ ان کا کشمیری ہونا‘ بٹ ہونا‘ خواجہ ہونا یا لاہوری ہونا ضروری ہے‘ آپ کتنے ہی اہل کیوں نہ ہوں‘ آپ اگر بٹ یا لاہوری نہیں ہیں تو آپ کے ساٹھ فیصد نمبر کٹ جائیں گے‘ میاں صاحب کو یہ تاثر بھی ختم کرنا ہو گا‘ یہ زیادہ نہیں کر سکتے تو یہ کم از کم اپنے ساتھیوں کے نام سے بٹ‘ خواجہ اور میاں کا سابقہ اور لاحقہ ہی ختم کر دیں‘ یہ اپنے دائیں بائیں سندھی‘ بلوچی اور پشتون ہی بٹھا لیا کریں‘ میاں صاحبان کے بارے میں تاثر ہے‘ یہ کچن کابینہ تک محدود ہیں‘ تمام فیصلے تین چار لوگ کرتے ہیں‘ پارٹی کو صرف اطلاع دی جاتی ہے اور اکثر اوقات اطلاع کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی جاتی‘ میاں صاحب کی کچن کا بینہ میں بھی شدید اختلافات ہیں‘ چوہدری نثار‘ اسحاق ڈار اور خواجہ آصف کے اختلافات اب ڈھکی چھپی بات نہیں‘ یہ اختلافات بھی اب گُل کھلا رہے ہیں۔
وزیر اعظم کو یہ اختلافات بھی فوراً ختم کرانے چاہئیں‘ وزراء کی حدود طے کریں اور کوئی وزیر دوسرے وزیر کی حد میں داخل نہ ہو‘ فوج خواجہ آصف کی ذمے داری ہے تو چوہدری نثار فوجی معاملات میں مداخلت نہ کریں اور داخلی سلامتی اگر چوہدری نثار کے پاس ہے تو اسحاق ڈار اور خواجہ آصف اس میں قدم نہ رکھیں‘وزیراعظم کو پالیسی سازی کا دائرہ بھی بڑھانا چاہیے‘ یہ اپنی کابینہ اور پھر پارٹی دونوں سے مشورے کریں اور ان مشوروں پر عمل بھی کریں‘ میاں نواز شریف کے بارے میں لوگوں کا تاثر ہے‘ یہ فوج کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں ہیں‘ یہ آرمی چیف کو بھارت کی طرح سیکریٹری دفاع کے ماتحت کرنا چاہتے ہیں‘ یہ نفسیاتی طور پر 12 اکتوبر 1999ء سے باہر بھی نہیں نکلے‘ یہ جنرل پرویز مشرف کو ہر صورت سزا دینا چاہتے ہیں اور یہ آئی ایس آئی کی افغان اور بھارتی پالیسی سے بھی مطمئن نہیں ہیں چنانچہ فوج کے ساتھ ان کے اختلافات شروع ہو چکے ہیں۔
یہ اختلافات صرف افواہیں نہیں ہیں‘ میاں صاحب کو فوج کے بارے میں واقعی اپنی پالیسی تبدیل کرنی چاہیے‘ یہ درست ہے ملک کے ہر ادارے کو قانون اور ضابطے کا پابند ہونا چاہیے‘ ملک کا چیف ایگزیکٹو صرف ایک ہونا چاہیے‘ ماتحتوں کو باس اور باس کو ماتحتوں کی خدمات سرانجام نہیں دینی چاہئیں لیکن اس کے لیے جمہوریت اور حکمران دونوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے‘ آپ طیب اردگان کی طرح قوم اور ملک پر توجہ دیں‘ ملک کے تمام ادارے خود بخود قانون کے ماتحت ہوتے چلے جائیں گے‘ فوجی پوری دنیا میں صرف اس شخص کو اپنا باس مانتے ہیں جو ایماندار ہو‘ بہادر ہو اور انٹلکچول ہو‘ فوج قائداعظم کا احترام کیوں کرتی ہے؟ اس لیے کہ ان میں یہ تینوں خوبیاں موجود تھیں اور امریکی فوج مسلمان باپ کے بیٹے باراک حسین اوبامہ کو کیوں سیلوٹ کرتی ہے؟ اس لیے کہ ان میں یہ تینوں خوبیاں موجود ہیں۔
آپ بھی اپنے انٹلکچول لیول اور جرات پر توجہ دیں‘ آپ ڈیلیور کریں اور آپ گلوبٹ کی قوم کو قائداعظم کی قوم بنائیں‘ فوج آپ کو اپنا ہیرو‘ اپنا لیڈر مان لے گی‘ آپ صرف احکامات کے ذریعے فوج کو اپنا ماتحت نہیں بنا سکیں گے‘ یہ کوشش آپ کو ایک نئے بحران کی طرف لے جائے گی اور میاں صاحب کے بارے میں یہ تاثر بھی عام ہے‘ یہ ایسی چیزوں پر توجہ دیتے ہیں جو نظر آتی ہیں‘ موٹروے‘ میٹرو بسیں‘ بجلی کے کارخانے‘ نئے جہاز اور لیپ ٹاپ یہ دکھائی دینے والی چیزیں ہیں‘ حکومت صرف اور صرف ان پر توجہ دے رہی ہے‘ یہ ان چیزوں کو استعمال کرنے والے لوگ‘ پرائمری اسکول کے بچے‘ بے روزگار نوجوان‘ گاڑیاں توڑنے والے گلو بٹ اور احتجاج کرنے والے وہ لوگ جو ہر شخص کو امام خمینی کی نظروں سے دیکھتے ہیں‘ یہ بے بس لوگ میاں صاحب کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں‘ پاکستانیوں کو خوش حال ملک نہیں چاہیے‘ خوشحال قوم چاہیے‘ آپ قوم کو قوم بنائیں‘ ملک خود بخود بن جائے گا۔
آپ پچاس لاکھ کا واش روم بنا دیں لیکن آپ واش روم استعمال کرنے والوں کو ہاتھ دھونے کی ٹریننگ نہ دیں تو پچاس لاکھ کا واش روم چند ماہ میں کھنڈر بن جائے گا‘ میاں صاحب واش روم بنا رہے ہیں مگر لوگوں کو واش روم استعمال کرنے کی ٹریننگ نہیں دے رہے اور یہ ان کی بہت بڑی سیاسی ناکامی ہے‘ ہم آج میٹرو بس سروس شروع کر رہے ہیں‘ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے‘ قومیں پبلک ٹرانسپورٹ کے بغیر ترقی نہیں کرتیں لیکن ہم نے اگر قوم کو میٹرو بس کے استعمال اور میٹرو بس کی حفاظت کا طریقہ نہ سکھایا تو اس میٹرو بس کو مرحومہ والو بس یا جی ٹی ایس بنتے دیر نہیں لگے گی۔
میاں صاحب کو ملک کے ساتھ ساتھ قوم پر بھی توجہ دینی چاہیے ورنہ قوم اور ملک دونوں کو 12 اکتوبر کی طرح آنکھیں پھیرتے دیر نہیں لگے گی اور اگر یہ ہو گیا تو اس بار خواجگان بھی فاتحین کے ساتھ ہوں گے‘ یہ ڈوبتی کشتی میں سوار نہیں رہیں گے کیونکہ یہ میاں صاحب کا آخری دور حکومت ہے‘ اس کے بعد گم نامی کے اندھیرے ہیں اور ان اندھیروں میں روشنی تلاش کرتے اندھے خواب ہیں اور بس۔

دی ٹرمینل
جاوید چوہدری جمعرات 12 جون 2014

’’مسٹر چوہدری آپ جہاز میں سوار نہیں ہو سکتے‘‘ خاتون کے چہرے پر سختی تھی‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’کیوں؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’آپ کے ملک میں جنگ ہو رہی ہے‘ ائیر پورٹس بند ہیں اور ہماری سول ایوی ایشن نے پاکستانی مسافروں کے سفر پر پابندی لگا دی ہے‘‘ میں حیرت اور پریشانی کے سمندر میں ڈوب گیا ’’ کیا پاکستان میں واقعی جنگ ہو چکی ہے؟ کیا انڈیا نے پاکستان پر حملہ کر دیا؟ یا پھر طالبان ملک پر قابض ہو چکے ہیں‘‘ میرے پاس بے شمار سوال تھے مگر کوئی شخص تبلیسی ائیر پورٹ پر ان سوالوں کا جواب دینے کے لیے موجود نہیں تھا۔
میں نے خاتون سے عرض کیا ’’ آپ مجھے گلف کے کسی ملک میں جانے دیں‘ میں وہاں سے فلائیٹ لے لوں گا‘‘ اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور آہستہ آواز میں بولی ’’ آپ کے پاس گلف کے کسی ملک کا ویزا نہیں‘ آپ تبلیسی سے صرف امریکا‘ برطانیہ یا یورپ جا سکتے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں دوبئی‘ دوہا یا ابوظہبی کے ائیرپورٹ سے ٹرانزٹ ویزا لے لوں گا‘‘ اس نے کندھے اچکا کر معذرت کر لی‘ اس کا کہنا تھا ’’ہم آپ کو ویزے کے بغیرجہاز میں سوار نہیں کر سکتے‘‘۔
میں کائونٹر سے پیچھے ہٹا اور خود کو چند لمحوں کے لیے بے وطن محسوس کرنے لگا‘ میں جارجیا میں تھا‘ یہ میرا ملک نہیں تھا‘ یہ لوگ مجھے کسی بھی وقت ملک چھوڑنے کا حکم دے سکتے تھے‘ میں پاکستان واپس نہیں جا سکتا تھا‘ میرے ملک میں جنگ چھڑ چکی تھی‘ ائیر لائین مجھے پاکستان کے کسی شہر کا کنکشن دینے کے لیے تیار نہیں تھی‘ میرے پاس امریکا‘ برطانیہ اور یورپ کا ویزا تھا مگر میں وہاں جانا نہیں چاہتا تھا‘ پیر سے جمعرات تک میرا ’’لائیو شو‘‘ ہوتا ہے‘ میں نے ہر صورت پیر کی شام تک اسلام آباد پہنچنا تھا مگر میرے لیے واپسی کے دروازے بند ہو چکے تھے‘ میں نے لیپ ٹاپ کھولا‘ انٹرنیٹ کے سگنل آئے اور پاکستان سے بری خبروں کی آمد شروع ہوگئی۔
کراچی ائیرپورٹ پر قبضہ ہو چکا ہے‘ دہشت گردوں نے جہازوں پر حملے کر دیے‘ ائیر پورٹ سے دھوئیں اور آگ کے مرغولے اٹھ رہے ہیں اوردنیا بھر کا میڈیا چیخ رہا ہے‘ انٹرنیشنل میڈیا تبصرہ کر رہا تھا ’’ دنیا میں جہاز اغواء ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں پورا ائیرپورٹ ہائی جیک ہو گیا‘‘ میں جوں جوں تبصرے پڑھتا رہا میں خود کو ہالی ووڈ کی فلم ’’دی ٹرمینل‘‘ کا کردار محسوس کرتا رہا‘ یہ سٹیون اسپیل برگ کی انتہائی خوبصورت فلم تھی‘ فلم کا کردار میری طرح ائیر پورٹ پہنچتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے تمہارا ملک ختم ہو چکا ہے‘ تم اب کسی ملک کے شہری نہیں ہو اور یوں وہ ائیر پورٹ بلکہ ٹرمینل تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔
یہ سچی کہانی تھی‘ اس کہانی کا کردار وکٹر نیوارسکی 9 ماہ ائیر پورٹ پر محصور رہا تھا‘ مجھے محسوس ہوا میں بھی ’’ٹرمینل‘‘ کا کردار بن چکا ہوں‘ میں اب کسی ملک کا شہری نہیں رہا‘ میں خوف کا شکار ہو گیا‘ میں فوراً ’’اے ٹی ایم مشین‘‘ پر گیا‘ اے ٹی ایم کارڈ چیک کیا‘ اے ٹی ایم کارڈ چل رہا تھا‘ کافی شاپ پر گیا‘ کافی آرڈر کی‘ کریڈٹ کارڈ دیا‘ کارڈ چارج ہو گیا‘ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ’’میں ابھی بھکاری نہیں بنا‘‘ فون آن کیا‘ فون پر سگنل آ رہے تھے‘ میں ائیر لائین کے بوتھ پر گیا اور یورپ‘ استنبول اور لندن کی فلائیٹس کی معلومات لینا شروع کیں‘ پتہ چلا اگلی شام تک یورپ کی کوئی فلائیٹ دستیاب نہیں‘ میں ائیر پورٹ سے باہر آگیا۔
میں زندگی میں ہر قسم کے خوف سے گزرا ہوں لیکن بے وطنی کا وہ ایک گھنٹہ انتہائی خوفناک تجربہ تھا‘ مجھے محسوس ہوا بے وطنی سے بڑی کوئی ذلت نہیں ہوتی‘ شاید بے وطنی کا یہی وہ مکروہ احساس تھا جس نے بے نظیر بھٹو‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو وطن واپسی کے لیے ہر قسم کے سمجھوتے پر مجبور کر دیا تھا اور شاید یہ وہ احساس تھا جس سے مجبور ہو کر ایڈمرل منصور الحق نے خود کو پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا۔
رستاولی تبلیسی کی ’’شانزے لیزے‘‘ ہے‘ یہ انتہائی پر رونق شاہراہ ہے‘ اس سڑک کے ایک موڑ پر فوڈاسٹریٹ ہے‘ اس فوڈ اسٹریٹ میں کیفے اور ریستوران ہیں‘ یہ انتہائی پر رونق اور آباد جگہ ہے‘ میں وہاں پہنچا اور ایک کافی شاپ میں بیٹھ گیا‘ مجھے رہ رہ کر پاکستان یاد آ رہا تھا‘ ہم نے اس ملک کا کیا حال بنا دیا‘ ہم پوری دنیا میں اچھوت بن کر رہ گئے ہیں‘ ہم ویزا مانگیں تو دنیا کے چھوٹے چھوٹے غریب ملک بھی ہمیں ویزے نہیں دیتے‘ ویزا مل جائے تو ہم جب تک پولیو سرٹیفکیٹ پیش نہیں کرتے ہم اپنے ملک سے باہر نہیں جا سکتے‘ ہم دوسرے ملکوں میں جائیں تو ہمارے جہازوں کو ’’مین ٹرمینلز‘‘ سے دور کھڑا کیا جاتا ہے‘ ہمیں بسوں میں سوار کر کے امیگریشن کائونٹرز تک لایا جاتا ہے۔
امیگریشن آفیسر دس دس بار ہمیں اور ہمارے پاسپورٹس کا مشاہدہ کرتے ہیں‘ ہمارے سامان کو کتوں کو سونگھایا جاتا ہے‘ کسٹم حکام ہماری تلاشی لیتے ہیں‘ ہم ہوٹل میں جائیں تو ہم سے پیسے پہلے وصول کیے جاتے ہیں اور کمرے بعد میں دیے جاتے ہیں‘ ہم ریستورانوں میں بیٹھیں تو لوگ ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں‘ گورے ہمارے ملک میں قدم نہیں رکھتے‘ یہ پاکستانی اداروں یا کمپنیوں سے معاہدے کے لیے دوبئی آتے ہیں اور ہماری کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز‘ ہمارے چیئرمین‘ ڈی جی اور وزراء معاہدوں پر دستخط کے لیے دوبئی جاتے ہیں‘ پاکستان کے زیادہ تر امیر اور خوشحال لوگ دھڑا دھڑ دوسرے ممالک کی شہریت لے رہے ہیں‘ مشرقی یورپ‘ دوبئی‘ کینیڈا‘ لاطینی امریکا‘ دوبئی اور مشرق بعید نے پاکستان جیسے ملکوں کی دولت کھینچنے کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع بڑھا دیے ہیں۔
آپ ان ممالک میں ستر اسی لاکھ روپے کی جائیداد خرید لیں تو یہ آپ کو ملک میں رہنے کی اجازت دے دیتے ہیں‘ پاکستانی اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہم لوگ خوف کی وجہ سے کاروبار بند کر کے رقم پراپرٹی میں لگا رہے ہیں‘ یہ ملک ہے یا آسیب ۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کا کیا حال کر دیا؟ کیا یہ حقیقت نہیں‘ موت کا خوف ہماری نفسیات کا حصہ بن چکا ہے؟ ہم میں سے ہر شخص خوف کا کمبل اوڑھ کر سوتا ہے اور خوف کا کمبل سرکا کر اٹھتا ہے‘ ہم لوگ آخر کب تک اس فضا میں زندگی گزاریں گے‘ کیا یہ زندگی ہے؟ اور کیا ہم لوگ خوف کے اسی موسم میں زندگی گزارتے رہیںگے؟ کیا یہ ہمارا مقدر ہے؟ اگر ہاں تو ہمیں قسمت کے اس پھیر سے باہر کون نکالے گا؟ میرے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
تبلیسی میں دو پاکستانیوں سے بھی ملاقات ہوئی‘ شاہد رسول کا تعلق سندھ کے شہر سانگھڑ سے ہے‘ یہ لوگ فیصل آباد سے سندھ میں سیٹل ہوئے ہیں‘ شاہد رسول کے والد جوانی میں فوت ہو گئے‘ یہ خاندان میں بڑا تھا‘ یہ عین جوانی میں ملک سے باہر آ گیا‘ ہانگ کانگ سے دھکے کھاتا ہوا کیوبا پہنچا‘ وہاں سے یورپ آیا‘ ہالینڈ‘ اسپین اور لندن میں زندگی کا رگڑا کھایا‘ پولینڈ میں شادی کی اور آخر میں تبلیسی میں ڈیرہ ڈال لیا‘ اس کی کہانی دردناک بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔
یہ تبلیسی میں دس کمروں کا چھوٹا سا ہوٹل چلا رہا ہے‘ یہ زندگی سے مطمئن ہے لیکن یہ بے چارہ پاکستان نہیں جا سکتا‘ یہ گیارہ سال سے پاکستان نہیں آیا‘ کیوں نہیں آیا‘ یہ بھی ایک عجیب کہانی ہے‘ یہ کامیاب ہو گیا تو برادری میں حسد پیدا ہو گیا‘کسی رشتے دار نے کسی خفیہ ادارے کو جھوٹی رپورٹ بھجوا دی‘ یہ پولینڈ میں تھا‘ خفیہ ادارے کے لوگ اس کے گائوں گئے اور اس کے دو بھائیوں کو اٹھا کر لے گئے‘ یہ ان سے صرف ایک سوال پوچھتے تھے‘ شاہد رسول باہر کیا کر رہا ہے اور اس کے بعد انھیں تشدد کا نشانہ بناتے‘ اس تشدد نے اس کے دونوں بھائیوں کو ناکارہ بنا دیا‘ یہ بے چارے اب کام کاج کے قابل نہیں رہے‘ شاہد رسول پریشان ہے‘ وہ بار بار پوچھ رہا تھا‘ میں نے پولینڈ میں رہ کر پاکستان میں ایسا کیا جرم کر دیا کہ خفیہ ادارے میرے بھائیوں کو اٹھا کر لے گئے؟
یہ اور اس کا خاندان خوفزدہ ہے‘ یہ پاکستان آیا تو شاید اسے گرفتار کر لیا جائے اور یہ وہ خوف ہے جس کی وجہ سے اس نے گیارہ سال سے ملک میں قدم نہیں رکھا‘ یہ مجھے ملا تو میں نے سوچنا شروع کیا‘ یہ بے چارہ اپنی بوڑھی ماں اور بھائیوں سے ملاقات کے لیے پاکستان کیسے آ سکے گا؟ پاکستان کا کوئی ادارہ اس سوال کا جواب دے سکتا ہے؟ دوسرے پاکستانی الفت علی ہیں‘ یہ اوکاڑہ کے رہنے والے ہیں‘ والدین غریب تھے‘ پورا خاندان ایک کمرے کے مکان میں رہتا تھا‘ تعلیم حاصل کی‘ پی ایچ ڈی کی اور بزنس شروع کر دیا‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور یہ بین الاقوامی بزنس مین بن گئے‘ ملائشیا‘ انڈونیشیا اور گلف میں بزنس پھیل گیا‘ یہ کامیابی ان کے لیے مسئلہ بن گئی۔
اوکاڑہ میں ان کے بیٹے کو تاوان کے لیے اغواء کر لیا گیا‘ بیٹے کو بڑی مشکل سے چھڑایا اور یہ ملک سے باہر شفٹ ہو گئے‘ دو بیٹے ’’فارایسٹ‘‘ میں کام کرتے ہیں اور یہ جارجیا میں رہتے ہیں‘ یہ تبلیسی میں دو ریستوران چلا رہے ہیں‘ فیکٹری لگانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں‘ یہ ابوظہبی اور تبلیسی دو شہروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں‘ یہ صرف دو مثالیں ہیں‘ آپ اگر ملک سے باہر جائیں تو آپ کو دنیا کے ہر کونے میں ایسے سیکڑوں ہزاروں پاکستانی ملیں گے جو اسی ذہنی اور نفسیاتی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔
میرا خیال ہے‘ ہم نے اگر ملک کو ٹرمینل بنانے کا سلسلہ بند نہ کیا‘ ہم نے اگر ملک کے تمام کینسر ختم کرنے کا فیصلہ نہ کیا تو ہم ملک کے تمام کارآمد لوگ کھو بیٹھیں گے اور پیچھے صرف وہ اچھوت رہ جائیں گے جن سے ملنے کے لیے کوئی آئے گا اور نہ ہی یہ کسی سے ملاقات کے لیے جا سکیں گے‘ کیا ہم پاکستان کو ایک ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں‘ جہاں کوئی آئے اور نہ ہی کوئی واپس جا سکے؟ اگر ہاں تو پھر ست بسم اللہ ہماری منزل اب زیادہ دور نہیں اور ہم اگر پاکستان کو پرامن ملک دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بڑے فیصلے کرنا ہوں گے مگر سوال یہ ہے یہ بڑے فیصلے کرے گا کون؟ کیونکہ دنیا کا کوئی چھوٹا شخص بڑا فیصلہ نہیں کر سکتا اور ہمارا ملک چھوٹے لوگوں کے نرغے میں آچکا ہے۔
کھاچا پوری
جاوید چوہدری منگل 10 جون 2014

سگ ناگی (Signagi) تبلیسی سے ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر خوبصورت جارجین قصبہ ہے‘ یہ قصبہ پہاڑوں کے درمیان بڑی سی چٹان پر واقع ہے‘ آپ کو اس کے چاروں اطراف سیکڑوں میل تک پھیلی وادی‘ ہزاروں ایکڑ پر محیط انگور کے باغ اور چھوٹے چھوٹے دیہات دکھائی دیتے ہیں‘ قصبے کے گرد چیڑھ‘ صنوبر‘ چیری‘ آلو بخارے اور اخروٹ کے درخت بھی ہیں‘ یہ دور سے سبز جنگلوں کے درمیان سرخ اینٹوں کا وسیع اسٹوپا محسوس ہوتا ہے‘ سگ ناگی (جارجین لوگ سگ ناگی کو سگ ناغی بولتے ہیں) پہاڑی قصبہ ہے چنانچہ اس کی گلیاں اونچی نیچی ہیں‘ گھر تین تین‘ چار چار اسٹیپس میں بنے ہیں‘ کھڑکیاں وادیوں کی طرف کھلتی ہیں‘ ہر گھر میں چھوٹا سا باغ یا لان بھی ہے اور ٹیرس بھی۔
حکومت نے پورا قصبہ دوبارہ بنایا لیکن بناتے ہوئے اس کی ڈیڑھ دو ہزار سال کی تاریخ کو مدنظر رکھا‘ گلیوں‘ گھروں اور باغوں کی قدیم ’’لُک‘‘ برقرار رکھی‘ چھتیں سرخ ہیں‘ پتھر اور لکڑی کا کام جابجا دکھائی دیتا ہے‘ آپ کو ہر مکان میں انگور کی بیلیں ضرور ملتی ہیں‘ یہ قصبہ انگور اور چیری کی وائن کی وجہ سے پورے جارجیا میں مشہور ہے‘ جارجیا میں انگوروں کی پانچ سو اقسام ہیں‘ یہ لوگ پانچ سو اقسام کی ’’وائین‘‘ بناتے ہیں‘ سگ ناگی کے گھروں میں وائین بنائی جاتی ہے‘ شہر کے زیادہ تر گھروں میں تہہ خانے ہیں‘ یہ تہہ خانے وائین کی فیکٹریاں اور اسٹور ہیں‘ یہ لوگ لکڑی کے بڑے بڑے کڑاہوں میں انگور کے گچھے ڈال دیتے ہیں‘ کڑاہے بھر جاتے ہیں تو کنواری لڑکیاں ننگے پائوں ان کڑاہوں میں گھس جاتی ہیں‘ یہ پیروں سے انگوروں کو کچلتی ہیں‘ انگور جوس میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
یہ جوس بعد ازاں مٹی کے بڑے بڑے مٹکوں میں ڈال دیا جاتا ہے‘ مٹکے گردن تک زمین میں دفن ہوتے ہیں‘ مٹکوں پر ڈھکن لگا دیے جاتے ہیں‘ ڈھکن ائیر ٹائٹ کر دیے جاتے ہیں‘ انگور کا جوس مٹکوں کے اندر وائن میں تبدیل ہو جاتا ہے‘ یہ لوگ جوس کو انگوروں کی نسل‘ قسم اور موسم کے مطابق مٹکے میں بند رکھتے ہیں‘ یہ بعد ازاں انھیں بوتلوں میں بند کر کے تہہ خانے میں رکھ دیتے ہیں‘ مجھے سگ ناگی میں معلوم ہوا وائین کی بوتل کو سیدھا نہیں رکھا جاتا‘ بوتلوں کو ٹیڑھا یا لٹا کر رکھا جاتا ہے‘ کیوں؟ میں نے پوچھا‘ گھر کے مالک نے بتایا ’’ بوتل سیدھی رکھنے سے وائین خراب ہو جاتی ہے‘‘ شاید یہ آکسیجن کا کوئی چکر ہو گا‘ مالک نے بتایا‘ ہم لوگ وائین کو برسوں تک تہہ خانوں میں رکھتے ہیں‘ وائین جتنی پرانی ہو گی‘ یہ اتنی ہی قیمتی ہو جائے گی‘ سگ ناگی کے تہہ خانوں میں پچاس پچاس برس پرانی وائین موجود ہے۔
’’آپ لوگ اتنی بزرگ وائن پیتے ہیں‘‘ میں نے مالک سے پوچھا‘ اس نے قہقہہ لگا کر بات ٹال دی۔ سگ ناگی کے زیادہ تر گھر ریستورانوں اور شراب خانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں‘ لوگ لان میں انگور کی بیلوں کے نیچے بیٹھ کر ’’شغل مے‘‘ فرماتے ہیں اور پہاڑوں سے اترتی نم ہوائوں کے گھونٹ بھرتے ہیں‘ قصبے کے اندر گھوڑے بھی چلتے ہیں‘ بگھیاں بھی اور سائیکل رکشے بھی۔ سیاح اس قصبے میں پہنچ کر حقیقتاً راستہ بھول جاتے ہیں‘ آج سے بیس سال قبل ایک امریکی سیاح سگ ناگی آیا اور واپس جانے سے انکار کر دیا‘ اس نے قصبے میں اب ایک ریستوران اور شراب خانہ بنا رکھا ہے‘ یہ شراب خانہ امریکی پب کہلاتا ہے۔
سگ ناگی سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر ’’بودبی‘‘ کی چٹان ہے‘ یہ ہزار میٹر بلند چٹان ہے جس پر خوبصورت چرچ ہے‘ یہ سینٹ نینو کا چرچ کہلاتا ہے‘ سینٹ نینو اطالوی خاتون تھی‘ یہ خاتون چوتھی صدی عیسوی میں اٹلی سے جارجیا آئی‘ اس نے اس وقت کے بادشاہ کی عزیز ترین ملکہ کے لیے دعا کی‘ ملکہ نانا مہلک بیماری سے صحت یاب ہو گئی‘ بادشاہ نے اسے ’’بودبی‘‘ کی چٹان پر چرچ بنانے کی اجازت دے دی‘ یہ چرچ بنا اور جارجیا کا متبرک ترین مقام بن گیا‘ یہ چرچ اور یہ علاقہ درجنوں مرتبہ فتح اور تاراج ہوا مگر یہ چرچ کم و بیش قائم رہا‘ اس چرچ کی تین چیزیں بہت مشہور ہیں۔
ایک سینٹ نینو کی قبر‘ لوگ اس قبر کی زیارت کے لیے آتے ہیں‘ قبر کا تعویز چومتے ہیں‘ یہ لوگ قبر پر اسی طرح جھک جاتے ہیں جس طرح ہم لوگ پیروں‘ فقیروں کے مزارات پر جھکتے ہیں‘ یہ تقریباً سجدہ ہوتا ہے‘ لوگ لائن میں لگ کر قبر کے کمرے میں جاتے ہیں‘ سجدہ کرتے ہیں اور باہر نکل جاتے ہیں۔
دوسری چیز اس کا چشمہ ہے‘ یہ چشمہ چٹان کے قدموں میں واقع ہے‘ زائرین چرچ سے 620 سیڑھیاں اتر کر چشمے تک جاتے ہیں‘ وضو اور غسل کرتے ہیں اور 620 سیڑھیاں چڑھ کر اوپر واپس آ جاتے ہیں‘ یہ سیڑھیاں خوبصورت ہیں‘ اس کے دائیں بائیں جنگل ہے اور اس جنگل کے درمیان پتھروں سے بنی ہوئی ہموار سیڑھیاں ہیں‘ میں اور مبشر شیخ 620 سیڑھیاں اتر کر چشمے تک پہنچے‘ چرچ کی انتظامیہ نے چشمے کے گرد کمرہ بنا دیا تھا‘ یہ غسل خانہ بن چکا تھا‘ سیکڑوں لوگ غسل خانے کو گھیر کر کھڑے تھے‘ ہم چشمہ دیکھے بغیر واپس آ گئے‘ ہمارے لیے یہ 1240 سیڑھیاں تفریح بن گئیں اور اس کی تیسری چیز نئے شادی شدہ جوڑے ہیں‘ پورے علاقے کے لوگ شادی کے بعد اس چرچ میں آتے ہیں‘ سینٹ نینو کی قبر کی زیارت کرتے ہیں‘ دعا کرتے ہیں اور اس کے بعد گھر جاتے ہیں۔
جارجیا کی شادی بیاہ کی رسومات پنجابی عروسی روایات کے بہت قریب ہیں‘ یہ لوگ بھی ہماری طرح خوب آتش بازی کرتے ہیں‘ دولہے اور دلہن کو پھولوں والی گاڑی میں بٹھاتے ہیں‘ دولہا گاڑیاں لے کر دلہن کے گھر جاتا ہے تاہم دلہن عیسائی دلہنوں کی طرح سفید فراک پہنتی ہے‘ آپ اگر پنجاب کے دیہاتی علاقوں سے واقف ہیں تو آپ جانتے ہوں گے ہمارے دولہے شادی سے قبل گائوں کے قبرستان‘ بزرگ کے مزار اور مسجد میں جاتے ہیں اور اس کے بعد دلہن کے گھر جاتے ہیں۔
جارجیا میں بھی یہ رسم موجود ہے تاہم یہاں دولہا اور دلہن دونوں گھر جانے سے قبل مقدس چرچ‘ بزرگوں کی قبروں اور قبرستانوں میں جاتے ہیں‘ یہ لوگ شہر کے خوبصورت حصوں میں بھی جاتے ہیں‘ وہاں تصویریں بنواتے ہیں اور اس کے بعد قافلے کی شکل میں گھر جاتے ہیں‘ یہ رسم ترکی میں بھی موجود ہے‘ گجر قبائل کیونکہ جارجیا سے ہندوستان گئے تھے چنانچہ یہ رسم بھی جارجیا سے ہندوستان چلی گئی‘ ہمارے گائوں شاہ سرمست کے قبرستان میں بھی ایک قدیم درگاہ ہے‘ یہ باباشاہ سرمست کا مزار کہلاتا ہے‘ ہم اسے ’’دربار‘‘ کہتے ہیں‘ میں نے بچپن میں گائوں کے تمام دولہوں کو اپنی شادی کا سفر اس دربار سے شروع کرتے دیکھا‘ یہ رسم یقینا آج بھی قائم ہوگی۔
میں جارجیا کے لوگوں کو یہ ’’حرکت‘‘ کرتے دیکھ کر حیرت میں چلا گیا‘ جارجیا کے لوگ ’’ڈیری پراڈکٹس‘‘ بہت استعمال کرتے ہیں‘ پنیر بہت کھائی جاتی ہے‘ مکھن‘ دودھ اور دہی بھی بہت استعمال ہوتا ہے‘ دیہات میں خواتین گائے چراتی ہیں لیکن یہ عورتیں ہماری عورتوں سے مختلف ہیں‘ یہ نسبتاً صاف ستھری ہیں‘ یہ جینز اور شرٹس پہنتی ہیں اور ہاتھوں میں چھتریاں لے کر گائے چراتی ہیں‘ پنیر گھروں میں بنائی جاتی ہے اور یہ پنیر یہ لوگ خود ہی کھا جاتے ہیں‘ شہروں میں پنیر کی سیکڑوں دکانیںہیں‘ آپ شہر سے باہر جائیں تو آپ کو مضافات میں سڑکوں کے کنارے دیسی پنیر کی دکانیں ملتی ہیں‘ یہ لوگ مخصوص قسم کا ’’ چیز نان‘‘ بناتے ہیں‘ یہ نان’’کھا چاپوری‘‘کہلاتا ہے‘ یہ میدے کے اندر پنیر کی تہہ جماتے ہیں‘ اسے بیل کر روٹی بناتے ہیں اور تنور میں لگا دیتے ہیں۔
جارجیا کے تمام شہروں میں کھاچا پوری کے ہزاروں تنور ہیں‘ لوگ صبح کے وقت یہاں ناشتہ کرتے ہیں‘ کھاچاپوری گھروں میں بھی کھائی جاتی ہے اور ریستورانوں میں بھی’’سرو‘‘ کی جاتی ہے‘ یہ ان کی زندگی کا معمول ہے‘ میرا خیال ہے پوری اور کھاجا کا لفظ جارجیا سے ہندوستان گیا‘ یہ ’’چھوٹا چھوٹا‘‘ بھی بولتے ہیں اور یہ لفظ ٹھیک انھی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو اردو اور پنجابی میں ہوتا ہے‘ یہ ترجمان کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیںا ور ان کی زبان میں پردے کے معنی بھی وہی ہیں جو ہماری زبان میں ہیں‘ جارجین عورتیں بے انتہا خوبصورت ہیں‘ ہم اگر جارجیا کو سرخ اور سفید لوگوں کی سرزمین کہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا‘ آپ جس طرف دیکھتے ہیں ‘آپ کو لگتا ہے دودھ کے پیالے میں گلاب گھولے جارہے ہیں‘ ہر رخسار پر آگ سی لگی نظر آتی ہے‘ آنکھیں جھیل بھی ہیں اور گہری بھی۔
خواتین بہت ایکٹو ہیں‘ یہ معاشرے کا سارا نظام چلا رہی ہیں‘ آپ کو ہر جگہ صرف عورتیں کام کرتی نظر آتی ہیں‘ مرد ڈھیلے اور سست ہیں‘ یہ شراب کے رسیا بھی ہیں‘ یہ فروٹ کی خوفناک شراب بنا تے ہیں‘ پیتے ہیں اور ’’ٹن‘‘ ہو جاتے ہیں‘ یہ شراب ’’چاچا‘‘ کہلاتی ہے۔
عورتیں شراب نہیں پیتیں یا انتہائی کم پیتی ہیں لہٰذا یہ ایکٹو ہیں‘ یہ’’فیملی پیپل‘‘ ہیں‘ خاندانی نظام قائم ہے‘ زمین بہت ہے‘ یہ لوگ شادی کے بعد اپنی زمین پر گھر بنا لیتے ہیں اور یوں والد ین کے قریب رہتے ہیں‘ حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دے رہی ہے‘ زمینیں سستی ہیں‘ لوگ آکر دھڑا دھڑ زمینیں خرید رہے ہیں‘ انڈسٹری بھی لگ رہی ہے‘ سیاحت بھی انڈسٹری بن رہی ہے‘ شام کے وقت ریستوران‘گلیاں اور سڑکیں بھری ہوتی ہیں‘ معیشت مضبوط ہے‘ ایک ڈالر کے پونے دو لارے آتے ہیں‘ ہم ایک ڈالر کے بڑے سو روپے دیتے ہیں‘ امن و امان مثالی ہے‘ کوئی کسی کو تنگ نہیں کرتا‘ چوری چکاری نہ ہونے کے برابر ہے‘ لوگ بے خوف پھرتے ہیں۔
جارجیا میں ماحولیاتی خوبصورتی بھی ہے اور جسمانی بھی۔ یہ جنت دیکھنے کے بعد میرے ذہن میں باربار خیال آیا ہمارے آباواجداد کو یہاں سے ہندوستان جانے کی کیا ضرورت تھی‘ شاید مصیبت یا برا وقت اسی کو کہتے ہیں‘ انسان جارجیا جیسی جنت چھوڑ کر ہندوستان کے دوزخ میں چلا جاتا ہے۔
صدیق راعی صاحب
جاوید چوہدری ہفتہ 31 مئ 2014

میری صدیق راعی صاحب سے پہلی ملاقات 1994ء میں ہوئی‘ یہ روحانیت میں دلچسپی رکھتے تھے‘ ان کے بڑے بھائی قدرت اللہ شہاب کے ارادت مند تھے‘ صدیق صاحب بھائی کے ساتھ شہاب صاحب سے ملے اور ان کے مرید بن گئے‘ شہاب صاحب نے انھیں درجنوں وظائف کرائے‘ یہ آہستہ آہستہ سلوک کی منزلیں طے کرنے لگے‘ صدر ایوب خان نے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس 1963 کے ذریعے ملک کے تمام بڑے اخبارات اور جرائد قومیا لیے‘ حکومت نے ان اخبارات کے انتظامات چلانے کے لیے پریس ٹرسٹ آف پاکستان بنا دیا‘ یہ ٹرسٹ شہاب صاحب کا آئیڈیا تھا چنانچہ یہ طویل عرصے تک اس ٹرسٹ کے والی وارث رہے۔
یہ صدیق راعی صاحب کو بھی ٹرسٹ میں لے آئے‘ قدرت اللہ شہاب کا انتقال ہوا تو راعی صاحب مرجھا گئے‘ ان کی زندگی کے اب تین معمول تھے‘ وظائف‘ دفتر اور شہاب صاحب کی لحد پر بیٹھنا۔ یہ ہفتے میں ایک دن ممتاز مفتی صاحب کے پاس بھی آتے تھے‘ میں ان دنوں مفتی صاحب کا تازہ تازہ بالکا بنا تھا‘ مفتی صاحب میرے ساتھ بہت شفقت فرماتے تھے‘ صدیق صاحب آ کر چپ چاپ صوفے پر بیٹھ جاتے تھے اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے رہتے تھے‘ مفتی صاحب ان کے وجود سے لاتعلق زائرین کے ساتھ گپ شپ لگاتے رہتے تھے۔ ’’مرشد اجازت ہے‘‘ کمرے میں اچانک یہ آواز گونجتی تھی‘ مفتی صاحب چونک کر صدیق صاحب کی طرف دیکھتے تھے۔
ہاں میں گردن ہلاتے تھے اور صدیق صاحب اٹھ کر چلے جاتے تھے‘ میں اکثر یہ منظر دیکھتا تھا‘ میں نے شہاب صاحب کی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں بھی صدیق راعی کا ذکر پڑھا تھا لیکن میں ان کی شخصیت سے زیادہ متاثر نہیں تھا‘ یہ متاثر کن بھی نہیں تھے‘ عام سی شکل و صورت‘ عام سی گفتگو اور عام سے کپڑے اور بس۔ یہ مفتی صاحب کے پاس بھی کوئی بقراطی نہیں جھاڑتے تھے‘ خاموش بیٹھے رہتے تھے اور واپس چلے جاتے تھے ہاں البتہ مفتی صاحب بعض اوقات انھیں کام کہہ دیتے تھے اور یہ سر ہلا کر انھیں یقین دہانی کرا دیتے تھے۔
مفتی صاحب کے کام عجیب و غریب ہوتے تھے ‘مثلاً وہ کہتے تھے ’’یار صدیق بابے سے پوچھ میرا سر درد کب ٹھیک ہو گا‘‘ یا پھر ’’اوئے صدیق بابے سے کہہ اچھی (عکسی مفتی) پھر شادی کرنا چاہتا ہے‘ میں کیا کروں‘‘ یا پھر ’’صدیق ان سے پوچھ کر بتا‘ یہ ملک رہنے کے قابل کب ہو گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ صدیق صاحب ہاں میں گردن ہلا کر چلے جاتے تھے‘ اگلے ہفتے واپس آتے تھے اور مفتی صاحب کو عجیب سا جواب دے کر واپس چلے جاتے تھے‘ یہ جواب عموماً اس قسم کے ہوتے تھے ’’آپ چھوٹی دار چینی کا قہوہ پئیں‘ آپ کا سر درد ٹھیک ہو جائے گا یا پھر ہومیو پیتھک کی فلاں دوا استعمال کریں۔
آپ صحت یاب ہو جائیں گے یا پھر لڑکے کے بوڑھے ہونے کا انتظار کریں یا پھر اس ملک کے لوگ جب تک پانچ دس لاکھ جانوں کی قربانی نہیں دیں گے‘ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں ہو گا وغیرہ وغیرہ‘ میں ان سوالوں اور عجیب و غریب جوابوں پر حیران ہوتا تھا لیکن ادب کی وجہ سے خاموش رہتا تھا مگر ایک دن میں نے مفتی صاحب سے ان سوالوں اور جوابوں کے بارے میں پوچھ لیا‘ مفتی صاحب نے انکشاف کیا ’’صدیق راعی واحد شخص ہیں جن سے شہاب صاحب کا رابطہ قائم ہے‘ ہم ان کے ذریعے شہاب صاحب کو پیغام بھجواتے ہیں اور وہ ان کے ذریعے جواب دے دیتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’ لیکن جناب اس کی کیا گارنٹی ہے۔
یہ جواب صدیق صاحب کی ذہنی اختراع نہیں ہوتے‘‘ مفتی صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’یہ جواب سو فیصد درست ہوتے ہیں کیونکہ میں جب بھی شک کرتا ہوں شہاب صاحب کوئی نہ کوئی ایسی نشانی بھجوا دیتے ہیں جس سے صرف میں واقف ہوتا ہوں مثلاً انھوں نے ایک بار یہ کہلاوا دیا‘ مفتی جی‘ واہ کینٹ والی لڑکی سے بچ جائیں‘ یہ آپ کا بڑھاپا خراب کر دے گی اور میں شرمندہ ہو گیا کیونکہ اس سے بڑی نشانی کیا ہو سکتی تھی‘‘۔
یہ صدیق راعی صاحب سے میری ابتدائی ملاقاتیں تھیں‘ میں ان دنوں ایک مسئلے کا شکار تھا‘ پیدائشی طور پر میری چھٹی حس تیز ہے‘ یہ مجھے اکثر اپنے کنٹرول میں لے لیتی تھی‘ میں خود کو شیزو فرینیا اور ہائپو کانڈریا کا مریض سمجھنے لگا تھا‘ میں نے مفتی صاحب سے ذکر کیا‘ مفتی صاحب نے صدیق صاحب کو طلب کر لیا اور ان سے پوچھا ’’کاکے کے ساتھ کیا ہوتا ہے‘‘ صدیق صاحب نے آنکھیں بند کیں‘ کچھ پڑھا‘ آنکھیں کھولیں اور فرمایا ’’ یہ قدرتی کشف ہے‘ ہم جس صلاحیت کے لیے بیس بیس سال وظائف کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے یہ انھیں مفت عنایت کر رکھی ہے‘‘ مفتی صاحب نے فرمایا ’’بابے سے پوچھ‘ یہ اس صلاحیت کو کنٹرول کیسے کرے‘‘ صدیق صاحب نے ہاں میں گردن ہلائی اور وہاں سے رخصت ہو گئے‘ وہ تین دن بعد واپس آئے۔ میں بھی مفتی صاحب کے گھر پہنچ گیا‘ صدیق صاحب نے جواب دیا ’’بابا جی فرما رہے ہیں۔
یہ درست وظائف کر رہے ہیں‘ بس ان میں درود شریف کا اضافہ کر لیں‘ یہ صلاحیت پانچ سال بعد ان کے کنٹرول میں آ جائے گی‘‘ میری اس پیغام کے بعد صدیق راعی صاحب سے دوستی ہو گئی‘ میں اکثر ان کے دفتر چلا جاتا تھا‘ یہ سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں رہتے تھے‘ میں ان کے گھر بھی پہنچ جاتا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا مگر یہ اس کے باوجود مطمئن تھے‘ ان کے بڑے بھائی ملتان میں رہتے تھے‘ وہ ملتان سے اخبار نکالتے تھے‘ بھائی کے انتقال کے بعد وہ اخبار بیٹوں کو منتقل ہو گیا‘ بیٹے نالائق تھے (آج بھی نالائق ہیں) مگر صدیق صاحب نے ان کے سر پر ہاتھ رکھ دیا‘ یہ پی آئی ڈی میں فون کر کے انھیں اشتہارات کا کوٹہ دلاتے تھے‘ یہ مجھ سے بھی ان کے لیے سفارش کرایا کرتے تھے۔
آپ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے‘ صدیق صاحب جب پچھلے سال آج کی تاریخ انتقال فرما گئے تو ان بھتیجوں نے ان کے مال اسباب اور جائیداد پر قبضہ کر لیا اور ہماری بے سہارا آنٹی روٹی روٹی کو محتاج ہو گئی‘ یہ بھتیجے بیوہ چچی کو گھر سے بھی بے دخل کرنا چاہتے ہیں‘ یہ بہر حال بعد کا قصہ ہے‘ ہم سر دست واپس 1995ء میں جائیں گے‘ ممتاز مفتی صاحب 27 اکتوبر 1995ء کو انتقال کر گئے تو میں صدیق صاحب کے زیادہ قریب ہو گیا‘ یہ بھی بہت محبت کرتے تھے‘ میرے ہر مشکل وقت میں یہ جہاں بھی ہوتے یہ میرے پاس پہنچ جاتے‘ میں جب بھی کنفیوز ہوتا یہ میرا ہاتھ تھام لیتے‘ میری بیوی ان کی منہ بولی بیٹی تھی‘ یہ میرے ساتھ ناراض ہوتے تو بھی اپنی بیٹی سے ملاقات کے لیے آ جاتے تھے اور ان کا پہلا فقرہ یہ ہوتا تھا ’’بیٹی والے بھی کتنے مجبور ہوتے ہیں۔
انھیں نالائق داماد بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں‘‘ یہ عجیب و غریب انسان تھے‘ پوری زندگی عسرت میں گزری مگر کبھی شکوہ نہیں کیا‘ اللہ نے اولاد کی نعمت نہیں دی مگر کبھی دوسری شادی کے بارے میں سوچا اور نہ ہی اولاد کے لیے دعا کی‘ میں کہتا تھا تو فرماتے تھے ’’اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا تو مجھے اصرار کی کیا ضرورت ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’اولاد والدین کی نشانی ہوتی ہے‘‘ جواب میں کہتے تھے ’’کیا تم لوگ میری اولاد نہیں ہو‘ کیا تم میری نشانی نہیں ہو‘‘ میں خاموش ہو جاتا تھا‘ مجھ سے ان کے دو تقاضے ہوتے تھے‘ ایک یہ مجھ سے شہاب صاحب کی ہر برسی پر کالم لکھواتے تھے۔
میں پوچھتا تھا ’’میں ہی کیوں‘‘ تو یہ جواب دیتے تھے ‘آپ کے لکھنے سے میرا بابا خوش ہو جاتا ہے‘ دو‘ ان کا کہنا تھا ’’میری بیٹی کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے‘ یہ تکلیف میں ہو گی تو تم بھی سکھی نہیں رہ سکو گے‘‘۔ میں نے ان سے ایک بار خوش رہنے کا فارمولا پوچھا‘ فرمایا ’’انسان دولت جمع کرنے سے دکھی ہوتا ہے اور خرچ کرنے سے خوش‘ تم خرچ کرتے رہا کرو‘ خوش رہو گے‘‘ میں نے ایک بار عرض کیا ’’کامیابی کیا ہے؟‘‘ فرمایا ’’جسے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولؐ کامیابی سمجھتا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’اور اللہ اور اس کا رسولؐ کسے کامیابی سمجھتا ہے‘‘ فرمایا ’’دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ کا قرب‘‘ میں نے عرض کیا ’’زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ کیا ہے‘‘ فرمایا‘ ’’ جو مل گیا اس پر شکر کرو‘ جو نہیں ملا اس پر صبر کرو اور زندگی کے ہر معاملے میں آہستہ چلو‘ تیزی شیطانی ہوتی ہے‘ یہ انسان کو ہمیشہ گمراہ کرتی ہے‘‘ میں نے ایک دن پوچھا ’’اللہ کا سب سے بڑے امتحان کیا ہوتا ہے‘‘ فرمایا ’’بیماری‘ انسان تمام بیرونی طاقتوں سے لڑ سکتا ہے لیکن یہ اندرونی جراثیموں کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ بیماری سے ہمیشہ پناہ مانگو‘‘۔
صدیق راعی صاحب پچھلے سال یکم جون کو جھنگ میں انتقال فرما گئے آج ان کی پہلی برسی ہے‘ آپ احباب سے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔
نوٹ: اعزاز علی سید ملک کے معروف رپورٹر ہیں، میں نے 22 مئی 2014ء کو ’’زرداری صاحب سے مشورہ کر یں‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا‘ اعزاز صاحب کو اس کے مندرجات پر اعتراض ہے‘ ان کا کہنا ہے‘ انھیں جنرل ظہیر الاسلام سے متعلق خبر حامد میر کے ذریعے خواجہ آصف نے نہیں دی تھی‘ یہ خبر انھوں نے تین مختلف ذرائع سے حاصل کی تھی اور ان ذرائع میں خواجہ آصف شامل نہیں تھے‘ میں یہ وضاحت اعزاز علی سید کے مطالبے پر جاری کر رہا ہوں۔
یہ ایشوز مریم نواز کے حوالے کردیں
جاوید چوہدری منگل 3 جون 2014

یہ مئی 2014ء کی 27 تاریخ تھی‘ وقت صبح کے پونے آٹھ بجے تھا اور مقام تھا لاہور ہائی کورٹ۔ 25 سال کی ایک نوجوان خاتون اور 45 سال کا ایک جوان مرد ہائیکورٹ کے گیٹ کے نزدیک پہنچا‘ یہ دونوں مسجد گیٹ کے ذریعے ہائیکورٹ میں داخل ہونا چاہتے تھے‘ یہ سڑک پر پہنچے تو اچانک اونچی آواز میں گالی کی آواز آئی‘ یہ دونوں گھبرا کر مڑے‘ سامنے سو گز کے فاصلے پر درجن بھر لوگ کھڑے تھے‘ یہ دونوں دوڑ پڑے مگر لوگوں نے انھیں گھیر لیا‘ جھگڑا شروع ہو گیا‘ خاتون نے چیخنا شروع کر دیا‘ لوگ اکٹھے ہوئے۔
اس دوران حملہ آوروں میں سے ایک شخص نے پستول نکالا اور خاتون پر فائر کر دیا‘ فائر خاتون کی ایڑی پر لگا‘ ہجوم میں موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے پستول چھین لیا‘ یہ شخص سیالکوٹ سے تعلق رکھتا تھا‘ سب انسپکٹر تھا اور یہ پیشی کے لیے ہائی کورٹ آیا تھا‘ اس دوران حملہ آوروں میں شامل ایک بزرگ نے سڑک سے اینٹ اٹھائی اور خاتون کے سر پر دے ماری‘ خاتون نیچے گر گئی‘ تین جوان حملہ آور بھاگے اور بزرگ کے ساتھ شامل ہو گئے‘ ان تینوں نے خاتون کو اینٹیں مارنا شروع کر دیں‘ لوگوں نے انھیں ہٹانے کی کوشش کی لیکن ان کے اٹھنے سے قبل خاتون زندگی کی سر حد پار کر گئی جب کہ خاتون کے ساتھ موجود جوان شخص ہجوم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگ گیا ‘پولیس کو اطلاع دی گئی‘ پولیس پہنچی‘ ایس پی‘ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او وہاں پہنچ گئے۔
خاتون کی لاش سڑک پر پڑی تھی‘ پولیس کو دیکھ کر خاتون کے ساتھ آنے والا شخص بھی وہاں پہنچ گیا‘ اسٹوری کھلی تو کھلتی چلی گئی‘ پتہ چلا مرنے والی خاتون کا نام فرزانہ تھا‘ یہ جڑانوالہ کے علاقے سیدوالا کی رہنے والی تھی‘ والدین نے دو سال قبل اس کا نکاح اس کے کزن مظہر اقبال سے کر دیا‘ یہ اپنے خاوند کے ساتھ خوش نہیں تھی‘ اس دوران فرزانہ کے محمد اقبال کے ساتھ تعلقات استوار ہو گئے‘ محمد اقبال شادی شدہ تھا لیکن وہ بھی اپنی بیوی سے خوش نہیں تھا‘ یہ تعلقات تقریباً سال ڈیڑھ سال چلتے رہے یہاں تک کہ فرزانہ نے اپنا گھر چھوڑا اور سات جنوری 2014ء کو اقبال کے ساتھ نکاح کر لیا‘ یہ نکاح پر نکاح تھا‘ فرزانہ کے پہلے خاوند مظہر اقبال کو اطلاع ملی تو اس نے دس جنوری کو اقبال کے خلاف سید والا میں ایف آئی آر کٹوا دی‘ اقبال گرفتار ہوگیا۔
فرزانہ بھاگ کر پاک پتن چلی گئی اور اس نے دارالامان میں پناہ لے لی‘ اقبال نے ضمانت کی درخواست دی‘ اس کی ضمانت ہو گئی‘ یہ پاک پتن گیا‘ اس نے فرزانہ کو دارالامان سے لیا اور یہ (شاید) لاہور آ گئے‘ دونوں نے لاہور ہائی کورٹ میں سید والا کی ایف آئی آر کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کر دی‘ یہ لوگ اس پٹیشن کے سلسلے میں 27 مئی کو لاہور ہائی کورٹ آئے‘ فرزانہ کے خاندان کو ان کی آمد کی اطلاع ہو گئی‘ یہ لوگ بھی ہائی کورٹ پہنچ گئے‘ لاہور آنے والوں میں اس کا والد اعظم‘ بھائی زاہد‘ بھائی غلام علی‘ کزن جہان خان اور پہلے خاوند مظہر اقبال سمیت پندرہ بیس قریبی رشتے دار شامل تھے‘ فرزانہ اور اقبال دونوں مسجد گیٹ کے قریب پہنچے تو رشتے داروں نے انھیں گھیر لیا‘ والد نے فرزانہ کے سر پر اینٹ ماری‘ دونوں بھائی اور پہلا خاوند والد کے ساتھ شامل ہوگئے اور چاروں نے اسے چند سیکنڈ میں قتل کر دیا۔
یہ انتہائی بہیمانہ واقعہ ہے‘ آپ اگر ذرا سے بھی حساس ہیں‘ آپ اگر معمولی سی بھی سمجھ بوجھ کے مالک ہیں اور آپ اگر تھوڑے سے بھی تعلیم یافتہ ہیں تو آپ خود کو اس واقعے پر دکھی ہونے سے باز نہیں رکھ سکتے‘ میں بھی چھ دن سے دکھی ہوں‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بھی دکھی ہیں‘ انھوں نے اس واقعے کا نوٹس بھی لے لیا اور یورپی یونین‘ امریکا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور برطانیہ کے ادارے بھی دکھی ہیں‘ انھوں نے بھی آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے‘ ہم اس واقعے کی جس قدر مذمت کریں‘ یہ کم ہو گی لیکن سوال یہ ہے کیا صرف مذمت‘ آسمان سر پر اٹھانا اور حکومت کا نوٹس لے لینا کافی ہے؟ کیا اس سے ایسے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے؟
پاکستان دنیا میں غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل میں پہلے نمبرپر آتا ہے‘ ملک میں ہر سال ہزاروں عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں‘ ان میں سے صرف دس فیصد کیس رپورٹ ہوتے ہیںاور ان میں بھی کیونکہ مدعی گھر والے ہوتے ہیں چنانچہ مقدمے کی پیروی جلد بند ہو جاتی ہے یا پھر ملزم کو معاف کر دیا جاتا ہے اور یوں ایک جیتی جاگتی عورت عبرت کا قصہ بن کر ماضی میں گم ہو جاتی ہے‘ ہم جب تک اس نظام کو نہیں بدلیں گے‘ ہم ’’غیرت‘‘ کے خلاف کڑی قانون سازی نہیں کریں گے‘ یہ واقعات اسی طرح ہوتے رہیں گے‘ حکومتیں اسی طرح نوٹس لیتی رہیں گی‘ پولیس اہلکار اسی طرح معطل ہوتے رہیں گے۔
میڈیا اسی طرح مصالحہ دار خبریں دیتا رہے گا اور پھر ایک اندوہناک واقعہ اسی طرح دوسرے اندوہناک واقعے کی جگہ لیتا رہے گا‘ فرزانہ کی جگہ شبنم آ جائے گی‘ شبنم کی جگہ فریحہ ماری جائے گی اور فریحہ کی خبر کو مریم کے خون کی لالی مٹا دے گی‘ ہم یہ واقعات‘ یہ خبریں اور یہ لاشیں کب تک چنتے رہیں گے لہٰذا میری وزیراعظم سے درخواست ہے‘ یہ ایک ہی بار یہ معاملہ نبٹا دیں‘ یہ اس سوراخ کو بند کر دیں جہاں سے فرزانہ جیسے واقعات نکلتے ہیں‘ میں حکومت کو چند تجاویز دینا چاہتا ہوں‘ میرا خیال ہے‘ حکومت اگر مہربانی فرمائے تو ان تجاویز کے ذریعے ہم یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں‘ وزیراعظم سب سے پہلے خواتین کے ایشوز اپنی صاحبزادی مریم نواز کے حوالے کر دیں۔
یہ اس وقت سیاست کی ٹریننگ لے رہی ہیں‘ یہ ان ایشوز میں آئیں گی تو یہ زیادہ تیزی سے اس معاشرے کو سمجھ سکیں گی‘ ملک میں خواتین کی تعداد 52 فیصد ہے‘ یہ 52 فیصد خواتین 52 فیصد مینڈیٹ بھی ہیں‘ مریم نواز ان کے مسائل حل کر کے 52 فیصد مینڈیٹ جیت لیں گی اور یہ میاں صاحب کی سیاست کے لیے بہت اچھا ہو گا‘ دنیا بھر میں قتل ریاست کے خلاف جرم سمجھا جاتا ہے‘ قتل کے مدعی لواحقین نہیں ہوتے ریاست ہوتی ہے چنانچہ ملک میں قتل کو ریاستی جرم قرار دیا جائے‘ اگر اس معاملے میں کوئی مذہبی رکاوٹ ہو تو حکومت علماء کرام سے مدد لے سکتی ہے‘ حکومت پہلے مرحلے میں خواتین کے قتل کو ریاستی جرم قرار دے دے اور پولیس کو اس کی تفتیش تین ماہ کے اندر مکمل کرنے اور عدالتوں کو چھ ماہ میں کیس نبٹانے کی ہدایت کرے۔
پولیس اور عدلیہ کے جو اہلکار اس قانون کی خلاف ورزی کریں‘ ان کی ترقیاں روک دی جائیں‘سول جج سیشن نہ بن سکے اور سیشن جج ہائی کورٹ کا جج نہ بن سکے اور پولیس کا سب انسپکٹر‘ انسپکٹر نہ بن سکے‘ ملک میں تمام فیملی مقدمات‘ خلع‘ خواتین کی وراثت کا کیس اور نان نفقے کے مقدمات ایک سال کے اندر اندر پایہ تکمیل تک پہنچائے جائیں‘ خواتین سے متعلق تمام مقدمات ’’آن لائین‘‘ کر دیے جائیں اور مریم نواز شریف اور میاں نواز شریف روزانہ ان کیسز کی پیش رفت مانیٹر کریں‘ یہ مقدمات جوں ہی ایک سال کی حد سے اوپر جانے لگیں حکومت مداخلت کرے اور ان مقدمات کی راہ میں موجود رکاوٹیں دور کرے‘ آپ کو آج بھی عدالتوں میں طلاق اور خلع کے بیس بیس سال پرانے مقدمے ملتے ہیں‘ آپ خود سوچئے کیا یہ ظلم نہیں‘حکومت ایک آرڈر سے ان تمام مقدموں کا فیصلہ کر دے۔
حکومت خواتین کے لیے لیگل سروس شروع کرے‘ حکومت خواتین وکیل ہائر کرے‘ یہ وکیل مظلوم عورتوں کے مفت مقدمے لڑیں یا ان کی فیس حکومت ادا کرے‘ فیسوں کا بوجھ عورتوں پر نہیں پڑنا چاہیے‘ ملک بھر میں نکاح کا سسٹم آن لائین کر دیا جائے‘ ملک بھر کے نکاح آن لائین رجسٹر ہوں اور جو نکاح خوان اس قانون کی خلاف ورزی کرے اسے کڑی سزا دی جائے‘ بچیوں کے والدین بھی فیس دے کر اپنے ہونے والے داماد کا ریکارڈ چیک کر سکیں‘ اس سسٹم سے نکاح پر نکاح‘ جعل سازی اور رشتوں کے معاملے میں مکرو فریب کا تدارک ہو جائے گا‘ یہ کام نادرا چند دنوں میں کر سکتا ہے‘ فرزانہ جیسی خواتین کے لیے ہیلپ لائین شروع کی جائے‘ یہ خواتین کسی بھی وقت ’’ٹول فری نمبر‘‘ پر فون کریں اور سیکیورٹی حاصل کرلیں‘ یورپی یونین اور بین الاقوامی تنظیمیں اس معاملے میں حکومت کی مدد کر سکتی ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے ’’غیرت‘‘ صرف دیہاتی‘ غریب‘ متوسط اور لوئر مڈل کلاس کا ایشو ہے‘ ہم جب تک دیہاتی زندگی کو شہری اور لوئر مڈل کلاس کو مڈل کلاس نہیں بنائیں گے‘ یہ معاملات جوں کے توں رہیں گے چنانچہ میری حکومت سے درخواست ہے‘ یہ فوری طور پر ملک کی تمام بچیوں کے لیے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنا لازم قرار دے دیں‘ یہ ہنر جدید ہونا چاہیے اور یہ بچیاں اس کی مدد سے اپنے خاندان کو پال سکیں‘ حکومت فوری طور پر تمام شہروں اور قصبوں میں زنانہ بازار بنائے‘ اس بازار کی تمام دکاندار بھی خواتین ہوں اور خریدار بھی خواتین۔ یہ بازار عورتوں کو مردوں کی معاشی غلامی سے آزاد کریں گے اور یوں حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور آخری بات ملک میں جرائم کی لامحدود کوریج پر پابندی لگا دی جائے‘ میڈیا کے پاس جب تک ناقابل تردید ثبوت نہ ہوں‘ یہ جرائم بالخصوص خواتین کے خلاف جرائم کی خبریں نہ دے سکے۔
وزیراعظم اگر فرزانہ کے قتل کو ٹیسٹ کیس بنا کر یہ فیصلے کر لیتے ہیں تو ملک کی زیادہ تر فرزانائیں بچ جائیں گی بصورت دیگر ایک کے بعد دوسری فرزانہ آئے گی اور ہر فرزانہ ملکی اور غیر ملکی ضمیر کو جھنجوڑدے گی چنانچہ وزیراعظم پولیس کے خلاف نوٹس لینے کے بجائے ایسے واقعات کی والدہ کی نس بندی کریں‘ یہ ضروری ہے۔

برداشت
جاوید چوہدری ہفتہ 24 مئ 2014

www.facebook.com/javed.chaudhry
بات بہت معمولی تھی‘ میں نے انھیں پانچ بجے کا وقت دیا تھا‘ نوجوان چھ بجے پہنچے‘ میرے پاس وقت کم تھا‘ میرے ایک دوست نے سوا چھ بجے آنا تھا اور سات بجے میں نے ریکارڈنگ پر جانا تھا‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’آپ کے پاس پندرہ منٹ ہیں‘ آپ ان 15 منٹوں میں جو گفتگو کر سکتے ہیں‘ آپ کر لیجیے‘ میری بات انھیں پسند نہیں آئی‘ ان کے چہروں کا رنگ بدل گیا‘ وہ بولے ’’ ہم دور سے آئے ہیں‘ ہماری بات پندرہ منٹ میں پوری نہیں ہو سکے گی‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کی بات سر آنکھوں پر مگر میری اپنی مصروفیت ہے‘ میں اس کو آگے پیچھے نہیں کر سکوں گا‘ آپ گفتگو اسٹارٹ کر لیجیے‘‘ ایک نوجوان بولا ’’میں سمجھتا ہوں‘ میں بے شمار کام کر سکتا ہوں‘ میں کیا کروں‘ آپ گائیڈ کریں‘‘۔
میں نے عرض کیا ’’بیٹا اس کا فیصلہ انسان خود کرتا ہے‘ دنیا میں کوئی ایسی مشین ایجاد نہیں ہوئی جس میں انسان کو ڈالا جائے اور وہ مشین بتا دے‘ یہ شخص یہ کر سکتا ہے اور یہ نہیں‘ آپ اپنی صلاحیتوں کا اندازہ خود کرتے ہیں اور اس کے بعد مشورے کی باری آتی ہے‘‘ وہ نوجوان خاموش ہو گیا۔ دوسرا بولا ’’مجھے لکھنے کا شوق ہے‘ میں اچھا لکھاری کیسے بن سکتا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ کتابیں پڑھتے ہیں‘‘ اس نے فوراً جواب دیا ’’ہاں لیکن زیادہ نہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کی عمر کتنی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’22 سال‘‘ میں نے پوچھا آپ نے ان 22 برسوں میں کل کتنی کتابیں پڑھیں؟ اس نے جواب میں کتابیں گننا شروع کر دیں‘ نوجوان نے قرآنی قاعدے سمیت کل سات کتابیں پڑھی تھیں۔
میں نے جواب دیا ’’بیٹا پھر آپ اچھے لکھاری نہیں بن سکیں گے‘‘ اس نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’لکھنے کے لیے پڑھنا ضروری ہے اور آپ مطالعہ نہیں کرتے‘‘ تیسرے نوجوان نے پوچھا ’’میں اپنی کمیونی کیشن سکل کیسے امپروو کر سکتا ہوں‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کے پاس اگر کہنے کے لیے کچھ ہو گا تو آپ کو بولتے ہوئے کوئی پریشانی نہیں ہو گی‘ آپ اپنے ذہن میں مواد جمع کر لیں‘ آپ میں کمیونی کیشن سکل پیدا ہو جائے گی‘‘۔
یہ گفتگو جاری تھی کہ سوا چھ بج گئے‘ میرے دوست پہنچ گئے‘ میں نے ان تینوں نوجوانوں کو دروازے پر چھوڑا‘ ہاتھ ملایا اور اپنی اگلی مصروفیت میں پھنس گیا‘ مجھے دو گھنٹے بعد نوجوانوں نے موبائل پر میسیج بھجوانا شروع کر دیے‘ ان کا کہنا تھا‘ وہ میرے رویئے سے بہت مایوس ہوئے ہیں‘ وہ دور سے آئے تھے لیکن میں نے انھیں وقت نہیں دیا‘ میں نے ان کے سوالوں کے جواب بھی تفصیلی نہیں دیے اور میرا رد عمل بھی منفی تھا‘ میں نے ان سے معذرت کی اور اس کے بعد عرض کیا ’’آپ نے پانچ بجے آنا تھا لیکن آپ ایک گھنٹہ لیٹ آئے‘ میں نے سوا چھ بجے کسی اور کو وقت دے رکھا تھا اور سات بجے میری ریکارڈنگ تھی‘ آپ خود فیصلہ کیجیے‘ میں کیا کرتا‘‘۔ وہ میرے جواب سے مطمئن نہیں ہوئے‘ وہ آج بھی مجھے میسیج کرتے ہیں اور ان کے پیغام کا صرف ایک ہی مطلب ہوتا ہے ’’آپ بہت برے انسان ہیں‘‘ اور میں ان سے معذرت کرتا ہوں۔
یہ ہمارا عمومی معاشرتی رویہ ہے‘ ہم بہت جلد برا منا جاتے ہیں اور دوسروں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں‘ آپ پاکستان کے کسی حصے میں چلے جائیں‘ آپ کو لوگ ایک دوسرے سے الجھتے نظر آئیں گے‘ آپ کو لوگ گلیوں‘ بازاروں اور سڑکوں پر ایک دوسرے سے دست و گریبان بھی دکھائی دیں گے اور آپ کسی محفل میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں بھی لوگ لوگوں کے بارے میں برے ریمارکس دیتے نظر آئیں گے‘ ایسا کیوں ہے؟ اس کی واحد وجہ برداشت کی کمی ہے‘ ہمارا معاشرہ عدم برداشت کی انتہا کو چھو رہا ہے‘ ہم معمولی اور جائز بات بھی برداشت نہیں کرتے‘ ہم عدم برداشت کی وجوہات میں پڑنے کی بجائے اس کے حل کی طرف آتے ہیں کیونکہ ہمارے گرد آباد ہزاروں لاکھوں لوگ عدم برداشت کی نشاندہی تو کرتے ہیں لیکن کوئی اس کا حل نہیں بتاتا۔
میں بھی صرف نشاندہی کر کے آپ کا وقت ضایع نہیں کرنا چاہتا چنانچہ ہم حل کی طرف آتے ہیں۔ ہم اگر اپنی زندگی میں تین کام کر لیں تو ہماری برداشت میں اضافہ ہو جائے گا‘ ہم دوسروں سے الجھنا اور دوسروں کو برا بھلا کہنا بند کر دیں گے‘ ہم اگر اپنی کمیونی کیشن امپروو کر لیں‘ ہم اگر دوسروں سے مخاطب ہونے سے قبل پوری تیاری کر لیں تو ہماری برداشت میں اضافہ ہو جائے گا مثلاً ہم اگر اسٹوڈنٹ ہیں اور ہم استاد سے مخاطب ہو رہے ہیں تو ہم اپنا سوال تیار کر لیں‘ ہمارا سوال جامع‘ مختصر اور سیدھا ہونا چاہیے‘ یہ سیدھا‘ مختصر اور جامع سوال فضا کو بہتر بنا دے گا‘ سوال اگر گنجلک‘ لمبا اور بکھرا ہوا ہو گا تو استاد بھی پریشان ہو جائے گا‘ آپ کے کلاس فیلوز بھی آپ کا مذاق اڑائیں گے اور یوں آپ کی برداشت کا امتحان شروع ہو جائے گا‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ بولنے سے قبل یہ فیصلہ نہیں کرتے ’’ہم نے پوچھنا ہے یا بتانا ہے‘‘۔
ہم پوچھتے پوچھتے بتانا شروع کر دیتے ہیں اور بتاتے بتاتے پوچھنے لگتے ہیں اور کمیونی کیشن کا یہ کنفیوژن ہمیں بالآخر جھگڑے کی طرف لے جاتا ہے‘ آپ پوچھنا چاہتے ہیں تو صرف پوچھیں اور بتانا چاہتے ہیں تو صرف بتائیں‘ کمیونی کیشن میں سننے کے 80 نمبر ہوتے ہیں اور بولنے کے 20۔ آپ اگر اچھے سامع ہیں تو آپ کامیاب کمیونی کیٹر ہیں اور آپ اگر کانوں سے کم اور زبان سے زیادہ کام لیتے ہیں تو پھر آپ کی کمیونی کیشن ناقص ہے‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کان دو اور زبان ایک دے رکھی ہے‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے آپ زبان کے مقابلے میں کانوں سے کم از کم دگنا کام لیں لیکن ہم کانوں کی بجائے زبان زیادہ استعمال کرتے ہیں اور یوں ہمارے لیے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے۔
اس میں ہڈی نہیں ہوتی لیکن یہ آپ کی تمام ہڈیا تڑوا سکتی ہے اور یہ کام ہمارے ساتھ روز ہوتا ہے‘ دنیا کی بڑی سے بڑی بات ایک منٹ میں مکمل ہو سکتی ہے اور آپ گیارہ لفظوں میں اپنا پورا مافی الضمیر بیان کر سکتے ہیں‘ آپ گیارہ لفظوں اور ایک منٹ کا استعمال سیکھ جائیں‘ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا‘ آپ کو اگر کسی سے کوئی کام ہو تو آپ وہ کام کاغذ پر لکھ کر لے جائیں‘ آپ متعلقہ شخص کا ٹیلی فون نمبر‘ ایڈریس اور عہدہ بھی لکھ کر لے جائیں اور یہ کاغذ اس صاحب کے سامنے رکھ دیں جس سے آپ کام کروانا چاہتے ہیں‘ آپ کے کام کے امکانات نوے فیصد ہو جائیں گے۔
موبائل پر جب بھی پیغام بھجوائیں‘ اپنا نام ضرور لکھیں‘ وائس میل میں بھی اپنا نام ریکارڈ کروائیں کیونکہ بعض اوقات ریکارڈنگ میں خرابی کی وجہ سے دوسرا شخص آپ کی آواز شناخت نہیں کر پاتا اور موبائل سیٹ میں خرابی یا سیٹ تبدیل ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات دوسرے شخص کی کانٹیکٹ لسٹ کام نہیں کرتی اور یوں کمیونی کیشن گیپ پیدا ہو جاتا ہے اور آخری ٹپ مطالعے اور مشاہدے کے بغیر اچھی کمیونی کیشن ممکن نہیں‘ آپ کے پاس معلومات نہیں ہوں گی تو آپ کی گفتگو بے ہنگم لفظوں کے سوا کچھ نہیں ہو گی‘ آپ مطالعہ بڑھائیں آپ کی کمیونیکیشن اچھی ہو جائے گی۔
دنیا بھر کے سماجی‘ نفسیاتی اور دماغی ماہرین متفق ہیں جو انسان جسمانی مشقت نہیں کرتا اس کے جسم میں ایسے کیمیکل پیدا ہو جاتے ہیں جو اس میں ٹینشن‘ انیگزائیٹی اور ڈپریشن پیدا کر دیتے ہیں اور یہ تینوں بیماریاں آپ میں عدم برداشت کا باعث بنتی ہیں‘ دنیا میں سب سے کم لڑائیاں جم‘ سوئمنگ پولز اور کھیل کے میدانوں میں ہوتی ہیں‘ آپ اگر اپنی برداشت کو بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ ایکسرسائز کو اپنا معمولی بنا لیں‘ آپ کی عمر اگر 45 سال سے کم ہے تو آپ روزانہ کم از کم 45 منٹ دوڑ لگائیں‘ آپ جم میں مسل ایکسرسائز کریں‘ وزن اٹھائیں‘ ٹریڈ مل پر واک کریں‘ فٹ بال‘ ہاکی‘ اسکواش‘ بیڈمنٹن یا پھر ٹینس کھیلیں اور آپ اگر 45 سال سے زیادہ ہیں تو آپ واک کریں‘ سوئمنگ کریں۔
ہفتے میں ایک بار مساج کروائیں‘ یوگا کریں اور بیڈ منٹن یا سکوائش کھیلیں‘ چائے خانوں‘ کافی شاپس یا پارکس میں بیٹھنا‘ سورج غروب ہوتے یا طلوع ہوتے دیکھنا‘ مہینے میں دو تین لمبی چھٹیاں کرنا‘ پہاڑوں پر چلے جانا‘ سمندر‘ دریا یا جھیل کے کنارے سیر کرنا یا جنگلوں میں چلے جانا بھی ایکسرسائز کا حصہ ہے‘ آپ مہینے میں ایک دو دن یہ بھی کریں‘ آپ اگر زیادہ مذہبی نہیں ہیں تو آپ معیاری فلمیں بھی دیکھیں اور میوزک بھی سنیں‘ یہ دونوں چیزیں اعصاب پر اچھا اثر ڈالتی ہیں‘ آپ روزانہ پانچ چھ کپ گرین ٹی بھی پیئیں‘ یہ بھی برداشت میں اضافہ کرتی ہے‘ گوشت ہفتے میں ایک بار کھائیں‘ سبزیاں‘ دالیں اور برائون بریڈ بھی آپ کا موڈ اچھا رکھتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں پاگل پن بڑھتا جا رہا ہے چنانچہ آپ لوگوں سے جتنا کم ملیں گے آپ کا موڈ اتنا اچھا رہے گا‘ آپ کم سے کم لوگوں سے ملیں‘ کنجوس‘ دھوکے باز اور جھوٹے لوگوں سے پرہیز کریں‘ یہ لوگ اگر دکاندار ہیں تو آپ ان سے سودا نہ خریدیں کیونکہ یہ آپ کا موڈ خراب کر دیں گے‘ آپ صبح اسکولوں اور دفتروں کا وقت شروع ہونے سے قبل سڑک سے گزر جائیں اور شام کو چھٹی کے وقت سڑک پر نہ آئیں کیونکہ ’’رش آورز‘‘ کے دوران ڈرائیونگ بھی آپ کے اعصاب کو متاثر کرتی ہے‘ آپ کے دوست بہت محدود ہونے چاہئیں اور یہ دوست بھی خوش اخلاق اور قہقہے باز ہوں تو اللہ کا شکر ادا کریں کیونکہ ہمارے دوست بھی اکثر اوقات ہمارے چڑچڑے پن کی وجہ ہوتے ہیں۔
ہم میں سے نوے فیصد لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں‘ کل کیا ہو گا؟ یہ نوکری چلی گئی تو ہمارا کیا بنے گا؟ میرا بچہ فیل نہ ہو جائے‘ میرے نمبر اچھے نہ آئے تو کیا ہو گا؟ بم نہ پھٹ جائے‘ چھت نہ گر جائے‘ گاڑی میں پٹرول ختم نہ ہو جائے‘ میرا ویزہ منسوخ نہ ہو جائے‘ باس ناراض نہ ہو جائے‘ چوری نہ ہو جائے‘ ڈاکہ نہ پڑ جائے‘ ٹیکس والے نہ آ جائیں‘ تربوز کھا کر پانی پی لیا مجھے ہیضہ تو نہیں ہو جائے گا‘ بیگم ناراض نہ ہو جائے‘ لوگ میرے کپڑوں کا مذاق تو نہیں اڑائیں گے اور پتہ نہیں میری نمازیں قبول بھی ہوں گی یا نہیں! یہ سارے شک‘ یہ سارے اعتراضات احساس عدم تحفظ کا ثبوت ہیں‘ ہم جب عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں تو ہم چڑچڑے ہو جاتے ہیں اور یہ چڑچڑا پن ہماری برداشت کو کھا جاتا ہے۔
عدم تحفظ سے نکلنے کے بھی دو طریقے ہیں‘ پہلا طریقہ آپ اللہ تعالیٰ پر اپنا ایمان پختہ کر لیں‘ یہ بات پلے باندھ لیں دنیا میں ہر کام اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی انسان کے لیے کبھی برا نہیں کرتا‘ یہ ایمان آپ کو اندیشوں کے سیاہ جنگل سے نکال لے گا۔ دو‘ ہمارے عدم تحفظ کا 80 فیصد حصہ معیشت‘ دس فیصد صحت اور دس فیصد رشتوں سے وابستہ ہوتا ہے‘ آپ اپنے کام کو 80 فیصد اہمیت دیں اور صحت اور رشتوں کو دس فیصد وقت دیں آپ عدم تحفظ سے نکل آئیں گے۔ اپنی آمدنی کو چار حصوں میں تقسیم کریں‘ دو حصے خاندان پر خرچ کریں۔
ایک حصہ اپنی ذات پر لگائیں اور ایک حصہ بچت کریں‘ بچت کو سرمایہ کاری میں تبدیل کرتے رہا کریں‘ آپ کے پاس دس روپے بچے ہیں تو آپ انھیں کسی ایسی جگہ لگا دیں جہاں اس کی ویلیو میں اضافہ ہوتا رہے یا پھر یہ آپ کو کما کر دینے لگیں‘ اپنی ذات پر خرچ کرنے والے حصے کو سیکھنے پر استعمال کریں‘ نئے کورس کریں‘ اپنی صلاحیت میں اضافہ کریں‘ صحت پر خرچ کریں‘ کپڑے‘ جوتے اور پرفیوم خریدیں اور دو حصوں سے خاندان کو خوش حال بنائیں‘ آپ کا موڈ اچھا رہے گا‘ آپ عدم تحفظ سے نکل آئیں گے اور یوں آپ کی برداشت میں اضافہ ہو جائے گا۔
آپ اگر عدم برداشت کا شکار ہیں تو بے مزہ زندگی آپ کا کم سے کم نقصان ہوتی ہے‘ آپ عدم برداشت کے ساتھ زندگی کو انجوائے نہیں کر سکتے اور اگر زندگی میں مزہ نہ ہو تو زندگی موت سے بدتر ہو جاتی ہے۔

بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں
جاوید چوہدری جمعرات 29 مئ 2014

لاہور آرٹس کونسل کو عطاء الحق قاسمی نہ ملتے تو یہ کونسل اب تک میانی صاحب کی کوئی ٹوٹی پھوٹی قبر بن چکی ہوتی اور سیاہ رنگ کے کوے اس کے سرہانے بیٹھے ہوتے‘ لاہور آرٹس کونسل اور ملک بھر کے ادیبوں‘ شاعروں‘ دانشوروں‘ موسیقاروں‘ گلوکاروں‘ نعت خوانوں‘ مصوروں‘ اداکاروں اور صحافیوں کو قاسمی صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ انھوں نے پاکستان کے ان تمام مرتے ہوئے فنون اور شخصیات کو نئی زندگی دے دی جو گم نام گوشوں کے بجھے ہوئے چراغ بن چکے تھے‘ وقت اگر قاسمی صاحب کی کالم نگاری‘ شاعری‘ نثر‘ محفل آرائی‘ خلوص اور حس مزاح کو فراموش بھی کر دے تو بھی یہ لاہور آرٹس کونسل کے لیے ان کی خدمات کو نہیں بھلا سکے گا‘ یہ میرا یقین بھی ہے اور دعویٰ بھی۔
لاہور آرٹس کونسل پاکستان بالخصوص پنجاب میں آرٹ اور کلچر کی ترویج کے لیے بنائی گئی تھی لیکن یہ ادارہ بھی پاکستان کے دوسرے اداروں کی طرح آہستہ آہستہ مردہ گھوڑا بن گیا‘ عطاء الحق قاسمی نے چھ سال قبل لاہور آرٹس کونسل کی سربراہی قبول کی اور اس کے بعد یہ ادارہ دوبارہ زندہ ہو گیا‘ یہ اس وقت ملک میں آرٹ اور کلچر کی واحد زندہ کونسل ہے‘ آپ اگر لاہور کے رہنے والے ہیں یا آپ لاہور آتے جاتے رہتے ہیں تو آپ کو یاد ہو گا الحمراء لاہور کے تینوں ہال فحش ڈراموں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے‘ یہ ڈرامے فحاشی اور مجرا بازی کے ایٹمی ری ایکٹر تھے‘ اس دور میں نیک خواتین و حضرات الحمراء میں قدم رکھنا تو دور یہ اس کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے لیکن قاسمی صاحب نے نہ صرف الحمراء کو فحاشی و عریانی سے پاک کر دیا بلکہ انھوں نے اس کمپلیکس کو ادب‘ ثقافت اور تہذیب کے پانیوں سے غسل بھی دے دیا۔
میں قاسمی صاحب کا صرف فین نہیں ہوں میں ان کا مرید بھی ہوں‘ یہ میرے لیے گرو کی حیثیت رکھتے ہیں‘ عظیم شخصیات کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں‘ آپ جن کی محفل میں بور نہیں ہوتے‘یہ وہ لوگ ہوتے ہیں آپ جن کے پاس دس بیس گھنٹے گزارنے کے بعد بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ’’یہ محفل جلدی ختم ہو گئی‘‘ اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں‘ آپ جن کے پاس سے اٹھتے ہوئے ہمیشہ تجربے‘ دانائی اور دانش کے موتی لے کر اٹھتے ہیں اور عطاء الحق قاسمی ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں‘ میں ان سے جب بھی ملا‘ میں نے یہ ضرور سوچا قاسمی صاحب کے بغیر زندگی کتنی اداس ہو جاتی ہے‘ میں جب بھی ان سے ملا۔
میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور میں نے جب بھی ان سے ملاقات کی‘ میرے اندر سے قہقہے نکلے‘ ملک میں اس وقت ان جیسا کوئی ایسا شخص موجود نہیں جس میں یہ ساری خوبیاں موجود ہوں‘ جو شاعر بھی ہو اور اس کے ساتھ انسان بھی ہو‘ جو صحافی بھی ہو اور اس میں عاجزی بھی ہو‘ جو دانش ور بھی ہو اور اس کا دل بھی کھلا ہو‘ جو مفکر بھی ہو اور ہنسنا بھی جانتا ہو‘ جو کالم نگار بھی ہو اور اپنے خیالات میں واضح بھی ہو اور جو سرکاری خدمات بھی سرانجام دیتا ہو اور سرکاری منافقت سے بھی پاک ہو ‘ قاسمی صاحب واقعی قاسمی صاحب ہیں۔
عطاء الحق قاسمی پانچ برسوں سے لاہور میں ادبی کانفرنسیں کروا رہے ہیں‘ انھوں نے 23 مئی سے 25مئی تین دن لاہور میں پانچویں انٹرنیشنل کانفرنس کروائی‘ اس کا موضوع قاسمی صاحب کے خیالات کی طرح اچھوتا تھا ’’بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں‘‘ یہ ایک منفرد کانفرنس تھی کیونکہ یہ صرف ادیبوں‘ شاعروں اور دانشوروں تک محدود نہیں تھی بلکہ اس میں ریٹائرڈ بیورو کریٹس‘ پروفیسرز‘ جرنیل‘ ڈاکٹر‘ سائنس دان‘ سیاستدان‘ گلوکار‘ اداکار‘ موسیقار‘ مصور‘ وکیل‘ کھلاڑی‘ سوشل ورکرز‘ صنعت کار اور تاجر بھی شریک تھے‘ الحمرا کے تین ہال تین دن تک ’’پیک‘‘ رہے‘ سیکڑوں لوگ ہالوں میں بیٹھ کر اپنی پسندیدہ شخصیات کے بیتے دنوں کی یادیں سنتے رہے‘ یہ قہقہوں‘ آہوں‘ سسکیوں اور پھر قہقہوں کی ایک دلچسپ تقریب تھی‘ میں بھی اس کانفرنس میں شریک تھا۔
میں تین دن مختلف ہالوں میں بیٹھ کر اپنی پسندیدہ شخصیات کی یادیں سنتا رہا اور ہر شخص کی یادیں سننے کے بعد میرے عزم اور حوصلے میں اضافہ ہوا۔ کانفرنس میں شریک تمام لوگ سیلف میڈ تھے اور یہ مشکلات‘ آلام اور مصائب کی کرچیوں پر چل کر کامیابی کی سیڑھی تک پہنچے تھے‘ پہلے دن کی تقریب میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنے بیتے ہوئے دنوں کی یادیں شیئرکیں‘ میاں صاحب نے بتایا‘ میں میاں نواز شریف کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا‘ میاں صاحب نے بڑے بھائی کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے مجھے غلط آئوٹ دے دیا‘ پیچھے سے آواز آئی ’’میاں صاحب آج بھی یہی کر رہے ہیں‘‘.
علامہ اقبال کے صاحبزادے جسٹس جاوید اقبال نے بتایا میری والدہ علامہ اقبال سے اکثر کہا کرتی تھیں‘ آپ سارا دن گھر میں لیٹے رہتے ہیں‘ آپ کوئی کام دھندہ کیوں نہیں کرتے‘ سینیٹر پرویز رشید نے جوانی کی یادیں شیئر کیں‘ ان کا کہنا تھا‘ استاد غلام حسین شگن موہنی روڈ کی مسجد کی دیوار کے ساتھ بیٹھ کر ہرسال سنگیت کی محفل سجاتے تھے‘برصغیر کی استادی گائیکی کے تمام گائیک اس محفل میں شریک ہوتے تھے‘ عشاء کی نماز کے بعد یہ محفل شروع ہوتی تھی اور فجر کی اذان تک جاری رہتی تھی‘ مسجد کے امام صاحب سمیت کسی بھی شخص کو اس پراعتراض نہیں ہوتا تھا‘ فجر کے وقت امام صاحب خود آ کر استاد شگن سے کہتے تھے فجر کی اذان کا وقت ہو گیا ہے‘ آپ یہ محفل ختم کریں تاکہ اذان دی جائے ۔
اعتزاز احسن نے بتایا میں 1946ء میں اس وقت پہلی بار گرفتار ہوا جب میری عمر فقط ایک سال تھی‘ میں والدہ کی گود میں والدہ کے ساتھ گرفتار ہو گیا‘ اصغر ندیم سید نے انکشاف کیا‘ مولانا فضل الرحمن میرے اسکول فیلو تھے‘ یہ بچپن میں بھی اسی طرح موٹے تازے‘ خوبصورت اور گگلو سے تھے اور یہ اسکول میں سب کی توجہ کا مرکز رہتے تھے‘ سندھ کے مشہور ماہر تعلیم اور مصنف ڈاکٹر قاسم بھوگیو نے انکشاف کیا‘ میرے والد چرواہے تھے‘ یہ دوسروں کی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے‘ ڈاکٹر خواجہ ذکریا نے بتایا‘ میں پوری زندگی استعفیٰ جیب میں ڈال کر پھرتا رہا اور عطاء الحق قاسمی نے انکشاف کیا‘میں نے وزیر آباد کے جس اسکول میں تعلیم حاصل کی لوگ اس اسکول کو کھوتی اسکول کہتے تھے۔
میں نے بھی کانفرنس میں اپنی زندگی کی سو عظیم حماقتوں میں سے چند حماقتیں پیش کیں‘ میری پہلی حماقت بچپن میں ایک بزرگ کے کان میں پھونک مارنا تھی‘ملک کے تمام محلوں میں چند ایسے بزرگ ہوتے ہیں جو بڑھاپے کی انتہا چھوتے ہی مسجد میں نماز پڑھنے پر اصرار شروع کر دیتے ہیں‘ یہ سلو موشن میں چلنے والے بزرگ ہوتے ہیں‘ یہ ظہر کے وقت گھر سے نکلتے ہیں اور یہ جب مسجد پہنچتے ہیں تو عصر کی جماعت کھڑی ہو چکی ہوتی ہے‘ یہ عموماً آخری صف میں کھڑے ہوتے ہیں‘نمازی سجدے میں ہوتے ہیں لیکن یہ رکوع کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں‘ ہمارے محلے میں بھی ایک ایسے ہی بزرگ ہوتے تھے‘ یہ بہت نیک‘ پارسا اور اچھے انسان تھے بس ان میں ایک خرابی تھی کوئی شخص یا بچہ اگر ان کے کان میں پھونک مار دیتا تھا تو وہ پاگل ہو جاتے تھے اور وہ اس پاگل پن میں اسے ماں بہن کی ننگی گالیاں دینے لگتے تھے‘ میں ان کے اس خبط سے واقف نہیں تھا.
ہم بچے ایک دن مسجد میں بیٹھے تھے ‘بابا جی آخری صف میں کھڑے ہو کر رکوع کی تیاری کر رہے تھے‘ میرے ایک ساتھی نے مجھے ترغیب دی‘ تم اس بابا جی کی کان میں پھونک مار کر جو دعا کرو گے وہ فوراً قبول ہو جائے گی‘ میں ساتھی کے چکر میں آگیا‘ بابا جی اس وقت رکوع کے لیے جھک رہے تھے‘ میں اپنا منہ بابا جی کے کان کے قریب لایا اور ان کے کان میں پھونک مار دی‘ بابا جی کو کرنٹ سا لگا‘ وہ سیدھے ہوئے اونچی آواز میں چلا کر بولے‘ مجھے نماز ختم کر لینے دو‘ اس کے بعد تمہاری ماں کو …‘‘۔
بابا جی کی چیخ اور گالی سن کر نمازیوں کی ہنسی چھوٹ گئی‘ جماعت ٹوٹ گئی‘ لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور ٹھیک ٹھاک پھینٹی لگا دی‘ میں نے اس مار سے سیکھا ’’انسان کو کبھی کسی اجنبی کے کان میں پھونک نہیں مارنی چاہیے‘‘ میں آج کل جب میاں نواز شریف کے ساتھیوں کو یہ کہتے سنتا ہوں ’’میاں صاحب کا قصور کیا ہے؟‘‘ تو میں ان سے عرض کرتا ہوں ’’میاں صاحب بلاوجہ فوج کے کان میں پھونک مار رہے ہیں‘‘ میری دوسری حماقت کون آئس کریم تھی‘ میں نے آٹھویں جماعت میں پہلی بار کون آئس کریم دیکھی‘ میں نے ڈیڑھ روپے میں کون خریدلی‘ دکاندار نے کون ٹشو پیپر میں لپیٹی اور میرے حوالے کر دی میں نے ٹشو پیپر بھی پہلی بار دیکھا تھا‘ میں کون آئس کریم کے ساتھ ساتھ ٹشو پیپر بھی کھا گیا‘ میں آج بھی جب ٹشو پیپر دیکھتا ہوں تو مجھے یہ واقعہ یاد آجاتا ہے اور میں انگریزوں کو برا بھلا کہنے لگتا ہوں کہ ان بدبختوں نے کیسی واہیات اور بد ذائقہ چیز بنائی۔ میں نے اپنی پہلی کافی کی واردات بھی بیان کی جسے پینے کے بعد میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا تھا ’’کیا تمہاری چائے کا دودھ بھی خراب ہے یا پھر صرف میرا خراب ہے‘‘۔
میں ایک نالائق طالب علم تھا‘ میں ہر کلاس میں دوسرے تیسرے درجے میں پاس ہوتا تھا لیکن پھر میں نے یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی‘ میں نے اپنے نوٹس بنائے‘ ان کا رٹہ لگایا‘ آدھ گھنٹے میں 25 صفحے لکھنے کی پریکٹس کی اور میں نے یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کر لیا‘ میں نے اس سے سیکھا‘ آپ اگر تکنیک اور مشقت کو زندگی بنا لیں اور اللہ تعالیٰ آپ پر کرم فرمائے تو آپ زندگی میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ میں نے نوجوانوں کو پہلی جاب حاصل کرنے کا قصہ بھی سنایا‘ میں کس طرح مہینہ بھر نوائے وقت لاہور کے چکر لگاتا رہا‘ میں وہاں کس طرح تین تین‘ چارچار گھنٹے بیٹھتا رہا اور کس طرح میرے ڈھیٹ پن نے میرے سفارشی پیدا کر دیے۔
کانفرنس کے تمام شرکاء اور حاضرین عطاء الحق قاسمی کے ممنون تھے‘ قاسمی صاحب نے اس کانفرنس کے ذریعے حالات کے جبر میں پھنسے لوگوں کو یہ پیغام دے دیا ’’اگر یہ لوگ کامیاب ہو سکتے ہیں تو آپ بھی کامرانیوں کو چھو سکتے ہیں‘ بس پلکوں سے بت تراشنا سیکھ لیں‘آپ کی زندگی آسان ہو جائے گی‘‘۔

احتیاط ضروری ہے
جاوید چوہدری جمعرات 5 جون 2014

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین شدید علیل ہیں لیکن علالت کے باوجود انھیں منگل تین جون کی صبح ساڑھے پانچ بجے ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا گیا‘ الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا‘ کیا یہ الزام درست ہے یا پھر ایم کیو ایم کے موقف کے مطابق قائد تحریک کو ’’عالمی اسٹیبلشمنٹ‘‘ جان بوجھ کر پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے‘ ہمیں یہ جاننے کے لیے تھوڑا سا ماضی میں جانا پڑے گا۔
یہ کہانی 2010ء میں شروع ہوتی ہے‘ کراچی کے شہری محسن علی سید نے لندن اکیڈمی آف مینجمنٹ سائنسز میں داخلہ لیا‘ کراچی کے ایک بزنس مین معظم علی خان نے محسن کو ویزے کے لیے سپانسر کیا تھا‘ محسن علی سید 2010ء کے شروع میں لندن چلا گیا‘ کالج کی انتظامیہ اور اساتذہ محسن علی سید کی پراگریس سے مطمئن تھے‘ یہ ستمبر کی 16 تاریخ تک لندن میں رہا پھر یہ اچانک غائب ہو گیا‘ یہ کہاں چلا گیا‘ یہ معمہ بعد ازاں اسکاٹ لینڈ یارڈ نے حل کیا‘ 16 ستمبر 2010ء کو ایم کیو ایم کے بانی کارکن اور لیڈر ڈاکٹر عمران فاروق کو ان کے گھر کے سامنے قتل کر دیا گیا۔
ڈاکٹر عمران فاروق ساڑھے پانچ بجے شام گھر واپس آ رہے تھے‘ یہ لندن کے مل ہل کے علاقے میں رہتے تھے‘ کونسل نے اس علاقے میں سیاسی پناہ گزینوں کے لیے بھی ایک کمپائونڈ بنا رکھا ہے‘ اس کمپائونڈ میں چار پانچ بلاک ہیں‘ ہر بلاک میں دو تین فلیٹس ہیں‘ ڈاکٹر عمران فاروق اس کمپائونڈ کے پہلے بلاک میں رہتے تھے‘ ان کا گھر بالائی منزل پر تھا‘ یہ مین سڑک سے کمپائونڈ میں آتے تھے‘ بلاک کے پیچھے جاتے تھے اور سیڑھیاں چڑھ کر گھر میں داخل ہو جاتے تھے‘ 16 ستمبر کو قاتل سیڑھیوں کے نیچے چھپے بیٹھے تھے‘ یہ جوں ہی سیڑھیوں کے قریب پہنچے‘ قاتلوں نے چھریوں اور اینٹوں سے ان پر حملہ کر دیا‘ قاتل ڈاکٹر صاحب کو قتل کرنے کے بعد وہاں سے بھاگ گئے‘ یہ لوگ وہاں سے کسی خفیہ مقام تک پہنچے‘ اپنے خون آلود کپڑے تبدیل کیے‘ ہیتھرو ائیر پورٹ آئے اور لندن سے سری لنکا چلے گئے۔
ڈاکٹر عمران فاروق کے کمپائونڈ میں موجود ایک گھر کی کھڑکی سے ایک خاتون قتل کا منظر دیکھ رہی تھی‘ اس نے میٹرو پولیٹن پولیس کو فون کر دیا‘ خاتون نے پولیس کو بتایا قاتل دو تھے‘ خاتون نے قاتلوں کے حلیے بھی بتائے‘ پولیس نے ڈاکٹر عمران فاروق کی آمد و رفت کی چھ ماہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوائی‘ فوٹیج کا تجزیہ کیا تو پتہ چلا چھ ماہ میں کئی بار ایک پاکستانی نوجوان ڈاکٹر صاحب کا پیچھا کرتا ہوا نظر آیا‘ یہ ڈاکٹر صاحب کے پیچھے ان کے گھر تک آتا تھا‘ اس نوجوان کا حلیہ قاتل کے حلیے سے میچ کر گیا‘ پولیس نے نوجوان کی تصویر ریکارڈ میں موجود تصویروں سے ملائی تو پتہ چلا نوجوان کا نام محسن علی سید ہے‘ یہ اسٹوڈنٹ ویزے پر لندن آیا اور یہ لندن اکیڈمی آف مینجمنٹ سائنسز کا طالب علم ہے‘ پولیس کالج پہنچ گئی۔
کالج کے ریکارڈ کی پڑتال کے دوران پولیس دوسرے قاتل تک بھی پہنچ گئی‘ اس کا نام کاشف خان کامران یا کامران خان کاشف تھا‘ یہ یکم ستمبر 2010ء کو کالج پہنچا تھا‘ اس کا سپانسر بھی معظم علی خان تھا اور یہ بھی کراچی کا رہنے والا تھا اور اس کی عمر 34 سال تھی‘ یہ دو ہفتے بعد محسن علی سید کے ساتھ غائب ہو گیا‘ فلائیٹس اور امیگریشن کا ریکارڈ نکالا گیا‘ پتہ چلا یہ دونوں واردات کے بعد سری لنکا روانہ ہو گئے اور ان کی اگلی منزل کراچی ہے‘ برطانوی حکومت نے پاکستانی حکومت کو دونوں کی تصاویر اور کراچی آمد کی اطلاع کر دی۔
یہ کیس اس دوران اسکاٹ لینڈ یارڈ تک پہنچ گیا‘ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے دونوں قاتلوں کے موبائل فونز کا ڈیٹا نکالا‘ یہ دونوں ایک تیسرے پاکستانی شہری افتخار حسین سے رابطے میں پائے گئے‘ قتل سے پہلے اور قتل کے بعد تینوں کی لوکیشن بھی ایک آ رہی تھی‘ پولیس نے افتخار حسین کے خلاف تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا یہ الطاف حسین کے رشتے دار ہیں۔ پولیس نے تفتیش کے دوران افتخار حسین کے گھر کی تلاشی لی‘ گھر سے غیر قانونی رقم نکل آئی‘ افتخار حسین اس رقم کے بارے میں پولیس کو مطمئن نہیں کر سکے ‘ ان کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا‘ رقم کی برآمدگی کے بعد اسکاٹ لینڈ یارڈ کا کائونٹر ٹیررازم اسکواڈ متحرک ہو گیا‘ اس نے6 دسمبر 2012ء کو ایم کیو ایم کے دفتر اور 18 جون 2013ء کو الطاف حسین کی رہائش گاہ کی تلاشی لی۔
دفتر اور گھر دونوں جگہوں سے لاکھوں پائونڈ نکل آئے‘ ہم اگر الطاف حسین کے گھر‘ دفتر اور افتخار حسین کے گھر سے نکلنے والی دولت جمع کریں تو یہ پونے سات لاکھ پائونڈ بنتے ہیں‘ برطانوی قانون کے مطابق یہ رقم غیر قانونی تھی‘ پولیس نے الطاف حسین کے خلاف تفتیش شروع کر دی‘ لندن میں موجود ایم کیو ایم کے کارکنوں اور دفتر میں کام کرنے والے کارندوں کے انٹرویو شروع ہو گئے‘ اس سے قبل محسن علی سید اور کاشف خان کامران کراچی ائیر پورٹ سے گرفتار ہو گئے‘ پاکستان کے خفیہ اداروں نے کراچی ائیر پورٹ کے احاطے سے خالد شمیم نام کا ایک ٹارگٹ کلر بھی گرفتار کیا۔ اس شخص نے انکشاف کیا ’’میں نے محسن علی سید اور کاشف خان کامران کو ائیر پورٹ سے نکلنے کے بعد قتل کرنا تھا‘‘۔
یہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور تھا‘ رحمن ملک وزیر داخلہ تھے‘ یہ تینوں لوگ وزارت داخلہ کے ماتحت اداروں کی حراست میں تھے‘ اسکاٹ لینڈ یارڈ اڑھائی برس تک دونوں ملزمان کی حوالگی کا مطالبہ کرتی رہی لیکن رحمن ملک انھیں ٹالتے رہے‘ مئی 2013ء میں نئی حکومت بنی تو یہ دونوں ممکناً قاتل نئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ’’ہینڈ اوور‘‘ ہو گئے۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے ان کی حوالگی کی بار بار درخواست آ نے لگی‘ مارچ میں برطانیہ میں موجود ایک ذریعے نے میرے سامنے اعتراف کیا ’’ چوہدری نثار نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کو ان لوگوں تک رسائی دے دی ہے‘ برطانیہ سے چند اعلیٰ تفتیشی عہدیدار پاکستان آئے اور ان لوگوں کا انٹرویو لے کر واپس چلے گئے‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ حکومت ان دونوں کو برطانیہ کے حوالے کیوں نہیں کرتی‘‘ ان کا جواب تھا ’’ حکومت کو ابھی تک یقین نہیں آیا یہ دونوں لوگ اصل مجرموں کی سزا کا ذریعہ بن جائیں گے۔
حکومت کو خدشہ ہے ایسا نہ ہو یہ دونوں ہمارے ہاتھ سے بھی نکل جائیں اور عمران فاروق کے قاتل بھی بچ جائیں چنانچہ حکومت اس دن تک ان لوگوں کو اپنی دسترس میں رکھے گی جب تک اسے قاتلوں کی گرفتاری اور سزا کا یقین نہیں ہو جاتا‘‘ مجھے کل ایک صاحب نے بتایا ’’ حکومت ان لوگوں کو برطانیہ کے حوالے کر چکی ہے اور اگر یہ لوگ تاحال برطانیہ نہیں پہنچے تو یہ کسی بھی وقت پہنچ جائیں گے‘‘ ۔
لندن میں اس دوران ایک تیسری کارروائی بھی شروع ہو گئی‘ الیکشن 2013 ء کے اگلے دن پی ٹی آئی کے کارکنوں نے تین تلوار پر دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا‘ الطاف حسین نے اس دن اپنے کارکنوں سے خطاب کیا ‘ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اس تقریر کے خلاف اسکاٹ لینڈ یارڈ میں درخواست دائر کر دی‘ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ہیڈ کوارٹر میں نفرت انگیز تقریروں کے خلاف پانچ ہزار شکایات درج ہوئیں اور ان پر بھی کارروائی شروع ہو گئی یوں اسکاٹ لینڈ یارڈ نے منگل تین جون کی صبح الطاف حسین کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا‘ یہ علیل ہیں‘ پولیس نے انھیں اسپتال میں داخل کرا دیا تاہم یہ پولیس کی حراست میں ہیں‘ الطاف حسین کی گرفتاری نے کراچی اور حیدر آباد کی سماجی اور سیاسی زندگی میں بھونچال پیدا کر دیا۔
ہمارے پاس معاملات کے تجزیے کا ایک آسان ترین طریقہ موجود ہے‘ ہم تفتیش اور برطانوی عدالتوں کے فیصلوں سے قبل الطاف حسین کو ’’مجرم‘‘ قرار دے دیں‘ ہم میڈیا کے لوگوں نے ماضی میں ایسی بے شمار غلطیاں کیں لیکن میرا خیال ہے ہمیں اب یہ روش بھی تبدیل کرنی چاہیے‘ الطاف حسین گرفتار ہیں‘ ہمیں برطانوی قانون اور جسٹس سسٹم کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے‘ ہمیں فیصلے سے پہلے فیصلہ جاری نہیں کرنا چاہیے‘ ہماری طرف سے احتیاط لازم ہے کیونکہ ایم کیو ایم بہرحال ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور اس کے کارکن اپنے قائد سے والہانہ محبت کرتے ہیں‘ ہمیں اس محبت کا احترام کرنا چاہیے‘ یہ اخلاقیات کا تقاضا بھی ہے‘ قانون کا بھی‘ انصاف کا بھی اور سمجھ داری کا بھی لہٰذا آپ بھی انتظار کیجیے اور میں بھی انتظار کرتا ہوں۔

جارجیا سے
جاوید چوہدری اتوار 8 جون 2014

ہوٹل کے کمرے سے عمارت کا صحن نظر آتا ہے‘ صحن میں انگور کی بیلیں ہیں اور ان بیلوں کے درمیان چیری کا ایک درخت فخر سے دائیں بائیں دیکھتا ہے‘ چیریز پک چکی ہیں‘ سبز پتوں کے درمیان چیری کے سرخ گچھے لٹک رہے ہیں‘ یہ گچھے مجھے بار بار اپنی طرف بلاتے ہیں‘ میں درجنوں مرتبہ اپنے بستر سے اٹھا‘ نیچے جانے‘ چیریز توڑنے اور درخت کے سائے میں بیٹھنے کا ارادہ کیا‘ جوتے بھی پہن لیے لیکن پھر کسی ان جانی طاقت نے روک لیا‘ پھلوں سے لدے درختوں میں ایک عجیب کشش ہوتی ہے‘ آپ خواہ کتنے ہی مضبوط اور شاکر کیوں نہ ہوں؟
یہ آپ کی توجہ بہر حال کھینچ لیتے ہیں‘ آپ اگر ان کے دام میں نہ آئیں تو بھی یہ آپ کے ارادوں پر ہتھوڑے برساتے رہتے ہیں اور چیری کا یہ درخت سارا دن یہی کرتا رہا۔ میں بستر پر لیٹتا‘ کھڑکی کا پردہ ہلتا اور درخت مجھے آوازیں دینے لگتا۔ آخر میں‘ میں کھڑکی بند کرنے کے لیے اٹھا تو دیکھا وہ درخت اکیلا نہیں تھا‘ اس کے ساتھ آلو بخارے‘ اخروٹ اور خوبانی کے درخت بھی ہیں اور وہ بھی آوازیں دے رہے ہیں‘ تبلیسی پر شام اتر رہی تھی‘ افق سرخ تھا‘ روشنیاں جلنا شروع ہو چکی تھیں اور گھروں سے بچوں کی شرارتوں کی آوازیں آ رہی تھیں‘ میں آ کر چیری کے درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا‘ ہاتھ بڑھایا‘ چیریز کا ایک گچھا کھینچا اور چیریز توڑ توڑ کر کھانے لگا۔
اس وقت ایک خیال آیا اور ذہن کی دیواروں کو چھیل کر گزر گیا ’’میں تبلیسی کیوں آیا ہوں‘‘ شاید میرے نصیب کی یہ چیریز مجھے کھینچ کر یہاں لے آئیں یا پھر آلو بخارے کے درخت میں چھپی کوئل یا پھر رستا ولی کے قہوہ خانوں کی مہک یا پھر دریا کا گدلا پانی یا پھر تبلیسی کی اداس مسجد کا قدیم مینار یا پھر ترکوں کا گم گشتہ حمام یا پھر اجنبی آنکھوں میں شناسائی تلاش کرنے کی لت‘ کیا تھا جو مجھے یہاں لے آیا؟ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا!
میں واقعی جارجیا کیوں آیا؟ تبلیسی کے ایئرپورٹ پر اترتے ہی یہ سوال میرے پاؤں کی زنجیر بن گیا‘ میرے ذہن میں جارجیا کا صرف ایک تصور تھا‘ ہم لوگ ذات کے گجر ہیں‘ میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا‘ یہ لوگ جارجیا سے نقل مکانی کر کے برصغیر آئے تھے‘ آج سے ہزاروں سال قبل کوئی مصیبت انھیں جارجیا کے پہاڑوں‘ میدانوں اور وادیوں سے برصغیر کی گرمی‘ گرد اور فساد میں لے آئی‘ یہ لوگ برصغیر پہنچ کر پورے ہندوستان میں بکھر گئے تاہم ہزارہ‘ کشمیر‘ پنجاب‘ ہماچل پردیش اور دہلی کے مضافات ان کا مستقل ٹھکانہ بن گئے۔
گیارہویں سے چودہویں صدی کے درمیان گجروں کی ایک اور نئی کھیپ ہندوستان پہنچی‘ وہ سنٹرل ایشیا کا مشکل ترین دور تھا‘ منگولوں سے لے کر تیمور تک طالع آزماؤں نے خوبصورت شہروں‘ وادیوں اور قلعوں کو روندنا شروع کر دیا‘ یہ لوگ اس قتل و غارت گری کے دور میں بھی جارجیا اور چیچنیا سے نکلے اور ہندوستان میں موجود اپنی ’’بلڈ لائین‘‘ سے جا ملے۔ ڈاکٹر ہوتی جارجیا کا مشہور آرکیالوجسٹ تھا‘ یہ گجر قبائل پر ریسرچ کرتے کرتے 1967ء میں پاکستان اور بھارت پہنچا‘ یہ ہندوستان کے مختلف گجر قبائل سے ملا‘ اس نے ان کی آوازیں ریکارڈ کیں‘ لباس کی روایات اسٹڈی کیں‘ رسم و رواج کا مطالعہ کیا۔
ان کے برتن اور گھر دیکھے اور جانور پالنے کی خُو کا مشاہدہ اور آخر میں اس مشاہدے اور مطالعے کی بنیاد پر فیصلہ صادر کیا‘ یہ لوگ سو فیصد جارجیا اور چیچنیا سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ لوگ ’’گوجرستان‘‘ سے ہندوستان آئے‘ ڈاکٹر ہوتی کا دعویٰ تھا‘ گجر جارجین زبان کا لفظ ہے‘ ان کی زبان‘ ان کا لہجہ بھی جارجیا سے ملتا جلتا ہے اور ان کی اسی فیصد رسوم و رواج بھی جارجین ہیں‘ پنجابی زبان میں بے شمار جارجین لفظ موجود ہیں اور یہ لفظ گجر اپنے ساتھ ہندوستان لائے تھے۔
میں شاید اپنی یہ جڑیں ٹٹولنے کے لیے جارجیا آ گیا یا پھر اس کی ایک اور احمقانہ وجہ بھی تھی‘ جارجیا ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جن کے لیے آپ کو ویزے کی ضرورت نہیں پڑتی‘ آپ کے پاس اگر امریکا‘ برطانیہ یا یورپی یونین (شینجن) کا ویزہ موجود ہے تو آپ جارجیا میں داخل ہو سکتے ہیں‘ میں نے چند دن قبل دنیا کے ان ممالک کی فہرست نکالی جہاں جانے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں‘ جارجیا بھی اس فہرست میں شامل تھا چنانچہ میں نے جارجیا آنے کا فیصلہ کر لیا۔
جمعہ کی دوپہر تبلیسی ائیر پورٹ پر اترا تو زندگی بہت آہستہ آہستہ محسوس ہوئی‘ یہ اسلام آباد جیسا ائیر پورٹ تھا‘ ائیر پورٹ پر صرف ایک فلائیٹ اتری تھی‘ امیگریشن کاونٹر پر رش نام کی کوئی چیز نہیں تھی‘ امیگریشن آفیسر نے میرا پاسپورٹ دیکھا‘ جمائی لی‘ مہر لگائی اور آگے بھجوا دیا‘ سامنے ’’پٹرول پولیس‘‘ کا کاؤنٹر تھا‘ پٹرول پولیس کے آفیسر نے پاسپورٹ لیا‘ فوٹو کاپی کی اور مجھے جانے کا اشارہ کر دیا‘ گیٹ سے نکلنے لگا تو کسٹم کی خاتون نے روک لیا‘ پاسپورٹ دیکھا اور پوچھا ’’کیا پیسے ہیں‘‘ میں نے انکار میں سر ہلایا اور جواب دیا ’’میں کریڈٹ کارڈ استعمال کرتا ہوں‘‘ اس نے پوچھا ’’یہ کیا ہوتا ہے‘‘ میں نے اسے سمجھانا شروع کر دیا مگر وہ نہیں سمجھی‘ اس نے اسی نا سمجھی کے دوران مجھے باہر جانے کا اشارہ کر دیا‘ میں باہر آ گیا‘ باہر گرمی تھی‘ پتہ چلا جارجیا اپنے نیم گرم موسم کی وجہ سے یورپ بھر میں مشہور ہے‘ گرمیوں میں درجہ حرارت 30 ڈگری سنٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔
ملک سستا ہے ساحل‘ ہوٹل‘ شراب‘ شاپنگ‘ کھانا پینا‘ ٹیکسی‘ بسیں اور ریلوے سستا ہے‘ امن و امان بھی ہے‘ پولیس اور قانوں بھی سخت ہے‘ کرپشن انتہائی کم ہے‘ لوگ لبرل ہیں‘ شبانہ سرگرمیاں بھی عام ہیں‘ صفائی تقریباً پورا ایمان ہے‘ لوگ دوسروں کے معاملے میں اپنی ناک نہیں گھساتے چنانچہ یورپ‘ عرب‘ ترکی اور ایران کے سیاح جارجیا کا رخ کرتے ہیں‘ جارجیا کی حکومت نے ویزے میں خاصی رعایتیں دے رکھی ہیں‘ عراق‘ سعودی عرب اور مصر تک کے لوگ ویزے کے بغیر تبلیسی آ سکتے ہیں‘ اس رعایت نے تبلیسی کو انسانی اسمگلروں اور ایجنٹوں کے لیے جنت بنا دیا‘ یہ لوگ دنیا بھر سے مرغے پھانس کر یہاں لاتے ہیں‘ ان کی ماؤں کے زیور اور زمینوں کی کمائی اڑاتے ہیں اور انھیں یہاں بے یارو مدد گار چھوڑ کر چلے جاتے ہیں‘ اس صورتحال نے جارجیا کی حکومت کو پریشان کر دیا ہے چنانچہ یہ اس ستمبر سے اپنی پالیسی تبدیل کر رہے ہیں‘ پاکستان کے ساتھ ان کے سفارتی تعلقات صفر ہیں۔
پاکستان میں جارجیا کا سفارتخانہ ہے اور نہ ہی جارجیا میں پاکستان کا سفارتی عملہ۔ پاکستانیوں کے بارے میں ان کی معلومات صرف اسامہ بن لادن‘ خود کش حملوں‘ جنرل پرویز مشرف اور غیر قانونی طریقے سے یورپ پہنچنے کے خواہش مند نوجوانوں تک محدود ہیں‘ یہ آج بھی ہماری رنگت کے لوگوں کو انڈین سمجھتے اور کہتے ہیں۔ جارجیا ’’وومن ڈامی نیٹنگ‘‘ ملک ہے‘ عورتیں کام کرتی ہیں اور مرد ان کی کمائی پر عیش کرتے ہیں‘ آپ کو پورے معاشرے میں عورتیں ہی عورتیں دکھائی دیتی ہیں‘ عورت بہت ’’ایکٹو‘‘ ہے‘ آپ کو کام کی تمام جگہوں پر عورتیں نظر آئیں گی‘ آبادی صرف ستر لاکھ ہے‘ رقبہ 69 ہزار 7 سو مربع کلو میٹر ہے‘ روس 70 سال جارجیا پر قابض رہا‘ یہ ملک 9 اپریل 1991ء کو روس سے آزاد ہوا لیکن روس کے اثرات آج بھی باقی ہیں‘ یہ ملک 2016ء میں یورپی یونین میں شامل ہو جائے گا لہٰذا ترقیاتی سرگرمیاں عروج پر ہیں‘ حکومت دھڑا دھڑ زمینیں الاٹ کر رہی ہے۔
زرعی زمین ایک لارے (پاکستانی شرح میں ستر روپے) میں مربع گز مل جاتی ہے‘ پانی وافر مقدار میں موجود ہے چنانچہ زراعت کے امکانات بہت روشن ہیں، انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے لہٰذا صنعتکاری کی ضرورت بھی موجود ہے‘ ہوٹل انڈسٹری ترقی کر رہی ہے‘ تعمیرات کا مٹیریل سستا ہے گھر بھی بن رہے ہیں‘ ہوٹل اور ریستوران بھی‘ چائے کے باغات بھی ہیں‘ قدرتی پانی کے چشمے بھی ہیں فروٹ بہت سستا اور دستیاب ہے‘ لوگ گوشت خور ہیں لیکن گوشت کی صنعت موجود نہیں چنانچہ گوشت ایران اور ترکی سے درآمد کیا جاتا ہے اور یہ خاصا مہنگا ہوتا ہے‘ لیبر بہت سستی ہے‘ دفاتر میں کام کرنیوالوں کی تنخواہیں دو سے 3سو لارے ہوتی ہیں۔
یہ ملک عربوں‘ ترکوں اور ایرانیوں کا محکوم بھی رہا چنانچہ یہاں مسلمان بھی موجود ہیں‘ یہ کل آبادی کے پانچ فیصد ہیں‘ تبلیسی کی جامع مسجد قدامت اور جدت کا خوبصورت امتزاج ہے‘ میں مسجد میں داخل ہوا تو اس کی صفائی‘ ترتیب اور سلیقے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ بجلی‘ گیس اور پیٹرول سستا ہے‘ گاڑیاں زیادہ تر سی این جی ہیں‘ مرسیڈیز اور بی ایم ڈبلیو تک سی این جی پر چلتی ہیں‘ روسی دور سے میٹرو بھی چلتی ہے‘ اس کا کرایہ بھی انتہائی کم ہے‘ شہر میں بسیں بھی ہیں‘ یہ بسیں بھی صاف ستھری ہیں۔
تبلیسی پہاڑوں میں گھرا ہوا شہر ہے‘ شہر کے درمیان سے دریا گزرتا ہے‘ دریا کے دونوں کناروں پر آبادی ہے‘ دریا پر پل ہیں‘ یہ پل شہر کے دونوں حصوں کو آپس میں جوڑتے ہیں‘ شہر کی انتظامیہ نے سیاحوں کی رہنمائی کے لیے یونیورسٹی کے طالبعلموں کو ہائر کر رکھا ہے۔ یہ ’’ٹوریسٹ‘‘ کی جیکٹ پہن کر شہر کے مختلف حصوں میں کھڑے ہوتے ہیں‘ یہ سیاحوں کو مفت معلومات دیتے ہیں‘ شہر میں بھکاری موجود ہیں لیکن ان کی تعداد زیادہ نہیں۔
تاہم یہ انتہائی ڈھیٹ ہیں‘ بالخصوص بھکاری بچوں سے بچنا مشکل ہے‘ یہ اچانک آتے ہیں اور آپ کی ٹانگ کے ساتھ لٹک جاتے ہیں‘ آپ ان کی لاکھ منتیں کریں‘ یہ آپ کی ٹانگ نہیں چھوڑتے‘ میری ٹانگین کئی بار ان بچوں کے قبضے میں آئیں‘ میرے پاس سکے نہیں تھے اور میں نوٹوں کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں تھا چنانچہ میں فٹ پاتھ پر بیٹھتا اور بچوں کے پاؤں پکڑ لیتا‘ یہ منظر دیکھ کر راہگیروں کی ہنسی چھوٹ جاتی‘ بھکاری بچے تھوڑی دیر اس صورتحال کو انجوائے کرتے لیکن پھر جلد ہی پریشان ہو جاتے‘ یہ پاؤں چھڑانے کی کوشش کرتے مگر میں ان کا پاؤں نہ چھوڑتا‘ یہ مقامی زبان میں منتیں کرتے اور میں پنجابی میں ان کے ترلے کرتا‘ لوگ قہقہے لگاتے‘ میں ذرا سی دیر میں بھکاری بچوں میں اتنا بدنام ہو گیا کہ یہ مجھے دیکھ کر دوڑ لگا دیتے تھے اور آخری بات تبلیسی میں پاکستانی بھی ہیں‘ مجھے انھوں نے تلاش کر لیا اور میں نے انھیں ڈھونڈ نکالا اور ہم دونوں فریق اب ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ٹھیکیدار
جاوید چوہدری منگل 22 جولائ 2014

یہ پچھلے سال کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس اٹلی کا خوبصورت‘ قابل دید اور رومانوی شہر ہے‘ یہ شہر صدیوں سے پانی میں ڈوبا ہوا ہے‘ نہریں شہر کی گلیاں ہیں اور موٹر بوٹس اور گنڈولے عوامی سواری۔ مارکوپولو اسی شہر کا باسی تھا‘ مارکو پولو کا گھر آج بھی یہاں موجود ہے‘ دنیا کی قدیم ترین کمپنیاں وینس سے تعلق رکھتی ہیں‘ کرسٹل کی اشیاء بنانے والی ایک فرم نبی اکرمؐ کی ولادت سے دو سال قبل بنی‘ یہ آج تک قائم ہے‘ دوسری فرم اس وقت بنی جب حضرت عیسیٰ ؑ نے تبلیغ کا کام شروع کیا‘ یہ فرم بھی آج تک سلامت ہے ‘ وینس شہر میں دنیا کا قدیم ترین کیسینو بھی ہے‘ یہ حیران کن شہر ہے‘ مجھے اس شہر میں چار بار جانے کا اتفاق ہوا۔
میں پچھلے سال دو دوستوں کے ساتھ وینس گیا‘ ہم شام کے وقت ایک ریستوران میں چلے گئے‘ہم نے وہاں جاتے ہی موبائل آن کیے اور انٹر نیٹ کے سگنل تلاش کرنے لگے‘ فیس بک‘ ای میلز اور وائبر کی وجہ سے ’’وائی فائی‘‘ ہماری زندگی کا لازم جزو بن چکا ہے‘ ہم لوگ جہاں بیٹھتے ہیں‘ ہم سب سے پہلے ’’ وائی فائی‘‘ تلاش کرتے ہیں اور وائی فائی ملتے ہی ہم موبائل میں گم ہو جاتے ہیں اور پھر ہمیں دائیں بائیں کا ہوش نہیں رہتا‘ ہم نے اس روز بھی یہی کیا‘ ہم پانچ سات منٹ تک موبائل فون سے گتھم گتھا رہے لیکن وائی فائی تو دور وہاں ہمارے موبائل فونز کے سگنل بھی نہیں آ رہے تھے‘ ہم لوگوں نے ویٹریس کو اشارہ کیا‘ اسے بلایا اور سگنل کی شکایت کی۔
اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’سر ہمارے ریستوران میں جیمرز لگے ہیں‘ یہاں موبائل فونز کام نہیں کرتے‘‘ ہم نے وجہ پوچھی‘ اس نے بتایا ’’ یہ وینس کا سگنل فری ریستوران ہے‘ ہم چاہتے ہیں ‘ہمارے مہمان ایک دوسرے سے گفتگو کریں اور یہ وائی فائی کے بجائے کھانے کو انجوائے کریں‘‘ ہم اس عجیب و غریب منطق پر حیران ہوئے اور ہم نے اس سے پوچھا ’’ یہ آئیڈیا کس کا تھا‘‘ اس نے جواب دیا ’’ یہ ہمارے مالک کا آئیڈیا تھا‘‘ ہم نے کھانے کا آرڈر دیا اور ریستوران کے مالک سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ ویٹریس نے ملاقات کا بندوبست کر دیا۔
ریستوران کا مالک ایک نوجوان اطالوی تھا‘ میں نے نوجوان سے اس عجیب و غریب آئیڈیا کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا ’’جناب ٹیکنالوجی نے انسان کو دورکر دیا ہے‘ ہم گھنٹوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں لیکن ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہوتی‘ ہم ایک دوسرے کی بات سننے کے بجائے وائبر‘ ای میلز اور فیس بک سے گفتگو کرتے رہتے ہیں‘ ہم ریستوران میں مہنگا کھانا آرڈر کریں گے مگر کھانا انجوائے کرنے کے بجائے سوشل میڈیا سے سوشل ہوتے رہیں گے۔
ہماری اس عادت نے ہمارا ٹیسٹ بھی برباد کر دیا ہے اور ہماری محفلوں کو بھی چنانچہ میں نے اپنے ریستوران میں فون کے سگنل بند کرا دیے ہیں اور ہم گاہکوں کو ’’وائی فائی‘‘ کی سہولت بھی نہیں دیتے‘ ہم اپنے مہمانوں سے درخواست کرتے ہیں‘ آپ ہمارے ریستوران میں بیٹھ کر سیکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں سے گفتگو کے بجائے سامنے بیٹھے شخص سے بات چیت کریں اور ہمارے کھانے کو انجوائے کریں‘‘۔ ہم اطالوی نوجوان کے آئیڈیئے کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
ہم ٹیکنالوجی کے دور میں زندہ ہیں‘ ٹیکنالوجی نے جہاں ہماری رفتار میں اضافہ کر دیا وہاں اس نے ہمیں اندر سے ویران بھی کر دیا ہے‘ ہم بے چینی اور بے سکونی کا شکار ہو چکے ہیں‘ زندگی ہمارے لیے فشار خون‘ دبائو‘ ٹینشن اور اینگزائٹی کے سوا کچھ نہیں رہی‘ ہم بیمار ہو چکے ہیں مگر ٹیکنالوجی ہماری ٹینشن اور فرسٹریشن کی واحد وجہ نہیں‘ ہمارے معاشی دبائو‘ سماجی افراتفری‘ رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ‘ دوست احباب کی منافقت‘ دہشت گردی‘ لوڈ شیڈنگ‘ لاء اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال اور انصاف کی کمی جیسے ایشوز بھی معاشرے میں فرسٹریشن اور ٹینشن پیدا کر ر ہے ہیں۔
یہ تمام عناصر مل کر ہماری خوشی کو نگل گئے ہیں اور ہم پاگل پن کی ابتدائی اسٹیج پر آ گئے ہیں‘ معاشرے میں جب لوگ صرف سنی سنائی باتوں اور شک کی بنیاد پر بڑے بڑے فیصلے کرنے لگیں‘ لوگ جب ذاتی خیال کو فلسفے کی شکل دینے لگیں اور لوگ جب اپنے فرقے کو پورا مذہب سمجھنے لگیں تو آپ جان لیں معاشرہ پاگل پن کی حدود میں داخل ہو چکا ہے‘ لوگ اب لوگوں کو کاٹ کر کھانا شروع کر دیں گے اور ہم آج کل اسی عمل سے گزر رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی اس پاگل پن میں مزید اضافہ کر رہی ہے‘ میں اکثر دیکھتا ہوں‘ تین چار لوگ گھنٹہ بھر ایک میز پر بیٹھے رہتے ہیں لیکن یہ ایک دوسرے سے گفتگو کے بجائے موبائل پر مصروف رہتے ہیں‘ گھروں میں بھی افراد خانہ آپس میں گپ شپ کے بجائے موبائل‘ ای میل اور ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے رہتے ہیں‘ یہ رویہ معاشرے کو قبرستان بناتا جا رہا ہے ‘ ہم نے اگر اس پر توجہ نہ دی‘ ہم نے اگر معاشرے کی ہیئت تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی تو معاشرتی پاگل پن اور ٹیکنالوجی کا غیر ضروری استعمال ہمیں تباہ کر دے گا لیکن اب سوال یہ ہے‘ کیا ہم اس پاگل پن سے نکل سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہے ہاں ہم بہت آسانی سے صورتحال تبدیل کر سکتے ہیں۔
اب دوسرا سوال یہ ہے‘ ہم اس صورتحال سے کیسے نکل سکتے ہیں‘یہ جواب بھی بہت سادہ ہے‘ ہمیں اس کے لیے ترقی یافتہ قوموں کا طریقہ استعمال کرنا ہو گا‘ یہ طریقہ آسان بھی ہے اور مجرب بھی اور جاپان سے لے کر امریکا تک دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا‘ ہم اس طریقہ کار کو تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ملک میں رائج کر سکتے ہیں۔
آپ تھوڑا ساماضی میں جا کر دیکھئے‘ آج سے سو سال پہلے یورپ بھی اسی صورتحال کا شکار تھا جس سے آج کل ہم گزر رہے ہیں‘ یہ لوگ معاشرتی گھٹن کی وجہ سے دو بڑی جنگوں تک چلے گئے اور ان جنگوں میں دس کروڑ لوگ مارے گئے مگر ان دو جنگوں کے بعد یورپ نے وہ کام شروع کیا میں جس کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں‘ یورپ کے سماجی ماہرین نے اندازہ لگایا چھٹیاں اور سیاحت دو ایسی سرگرمیاں ہیں جو انسان کے تنے ہوئے اعصاب کو نارمل کر دیتی ہیں۔
ہم اگر لوگوں کو چھٹیاں گزارنے کا موقع دیں تو اس سے معاشرے میں امن ہو جائے گا چنانچہ یورپ نے ہفتے میں اڑھائی چھٹی کر دی‘ یہ لوگ جمعہ کی سہ پہر کام سے فارغ ہوتے ہیں اور سوموار کے دن دوبارہ کام پر آتے ہیں‘ یورپ میں جولائی کے مہینے میں عوام ایک مہینہ چھٹیاں بھی کرتے ہیں‘ یہ نسخہ کارگر ثابت ہوا اور وہ یورپ جو 1945ء تک ایک دوسرے کا جانی دشمن تھا اس میں امن قائم ہو گیا‘ یورپ میں لوگ جمعہ اور ہفتہ کی شام ’’ویک اینڈ‘‘ مناتے ہیں‘ یہ کلب جاتے ہیں‘ ریستورانوں میں کھانا کھاتے ہیں اور اسپورٹس کرتے ہیں۔
یہ اتوار کے دن لیٹ جاگتے ہیں‘ گھر کے کام کرتے ہیں‘ کپڑے دھوتے ہیں‘ گھروں کی صفائی کرتے ہیں‘ سوئمنگ پول میں تیرنے کے لیے جاتے ہیں اور گھروں کے لان اور گملے صاف کرتے ہیں‘ یہ ہر سال جولائی کے مہینے میں پورے خاندان کے ساتھ چھٹیاںگزارتے ہیں‘ یہ جولائی شروع ہوتے ہی دور دراز کے سفروں کے لیے نکل جاتے ہیں‘ یہ عموماً پہاڑوں میں چلے جاتے ہیں‘ گرم ساحلوں پر ڈیرے ڈال لیتے ہیں یا پھر تاریخی شہروں اور ملکوں کا رخ کرتے ہیں‘ یہ پورا مہینہ موبائل فون استعمال نہیں کرتے‘ یہ ای میل کا جواب بھی نہیں دیتے‘ چھٹیوں کا پورا مہینہ ان کا ذاتی مہینہ ہوتا ہے۔
یہ اس مہینے اپنی ذات اور اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور یکم اگست کو پورے جذبے اور توانائی کے ساتھ دوبارہ میدان میں اتر آتے ہیں‘ان چھٹیوں کے دو فائدے ہوتے ہیں‘لوگ بھی فریش ہو جاتے ہیں اور نئی معاشی سرگرمیاں بھی جنم لیتی ہیں‘ یورپ میں جولائی کے مہینے میں 15 کروڑ لوگ چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے گھروں‘ قصبوں اور شہروں سے نکلتے ہیں‘یہ عارضی نقل مکانی 200 ارب ڈالر کی نئی معاشی سرگرمیوں کو جنم دیتی ہے‘ یہ جوتوں سے لے کر ہوا بازی کی صنعت تک پورے کاروبار کو نئی زندگی بخشتی ہے۔
عوام کی ان چھٹیوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل ہے‘ یورپ کے پندرہ ممالک میں وہ شخص‘ ادارے یا کمپنی کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کسی شخص کی چھٹیاں خراب کرنے کی مرتکب ہوتی ہے‘ ناروے میں اگر کوئی ملازم یہ شکایت کر دے‘ میرے فلاں باس کی وجہ سے میری چھٹیاں خراب ہو گئیں تو عدالت باس کو جیل بھجوا دیتی ہے‘ چھٹیوں کے دوران موبائل بند ہو جاتے ہیں اور یہ کھلے بھی ہوں تو بھی لوگ دوسروں کے موبائل پر فون نہیں کرتے‘ رابطہ اگر ناگزیر ہو تو یہ زیادہ سے زیادہ ایس ایم ایس کر دیتے ہیں۔
ہم بھی اس تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ ہم ایک مہینے کی چھٹی لازمی قرار دے دیں‘ جولائی یا اگست کے مہینے میں تمام سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر بند کر دیے جائیں‘ ہنگامی حالات اور انتہائی ضروری دفاتر اور محکموں کے آدھے عملے کو بھی چھٹی پر بھیج دیا جائے‘ ان لوگوں کو پابند بنایا جائے یہ لوگ چھٹیوں کا مہینہ اپنے شہر میں نہیں گزاریں گے‘ یہ خواہ کسی گائوں چلے جائیں مگر یہ ایک مہینہ اس شہر میں نہیں رہیں گے جہاں یہ کام کرتے ہیں تو مجھے یقین ہے اس ایک فیصلے سے لوگوں کی جسمانی اور ذہنی حالت بدل جائے گی‘ لوگ نارمل ہونے لگیں گے۔
دوسرا‘ میرا خیال ہے ہم اگر موبائل فون کا استعمال بھی کم کر دیں‘ ہم شام کے بعد فون بند کر دیں یا پھر اس کی آواز بند کر کے اسے کسی طاق میں رکھ دیں اور اپنے خاندان کو وقت دیں تو اس سے بھی ہماری سماجی ٹینشن میں کمی واقع ہو گی‘ ہم میں سے کوئی شخص صدریا وزیراعظم نہیں ہے اور ہمارا فون دنیا کو تیسری جنگ سے بھی نہیں بچا سکتا چنانچہ ہم اگر اپنی زندگی میں امن پیدا کرنے کے لیے چند گھنٹوں کے لیے فون آف کر دیں تو کوئی قیامت نہیں آئے گی‘ کوئی شہاب ثاقب اپنے مدار سے نکل کر زمین پر حملہ آور نہیں ہوگا۔
ہم لوگ فون اٹھا کر ایسے پھرتے ہیں جیسے ہمارے فون نے دنیا کا سارا بوجھ اٹھا رکھا ہے اور آخری بات ہم اگر فلسطین سمیت دنیا کے بڑے بڑے مسئلے حل کرنے سے پہلے اپنی موٹر سائیکل کی سیٹ ٹھیک کر الیں یا گاڑی کا سائلنسر ٹھیک کرا لیں تو بھی ہماری زندگیوں میں امن آ جائے گا کیونکہ ہمیں منہ دھونا نہیں آتا لیکن ہم پوری دنیا کے ٹھیکیدار ہیں‘ ہم زندگی میں کبھی گوجرخان تک نہیں گئے مگر امریکا کو فتح کرنا چاہتے ہیں چنانچہ ہم فشار خون کا شکار نہ ہوں توکیا ہوں!۔

اصلی پاکستانی
جاوید چوہدری جمعرات 7 اگست 2014

سویٹ ہوم کا جاوید میرا ہم نام ہے‘ جاوید کی عمر سات سال ہے‘ یہ کون ہے‘ اس کا والد کون تھا‘ والدہ کون ہے اور یہ کہاں کا رہنے والا تھا؟ یہ نہیں جانتا‘ یہ بچہ پیر ودہائی کے علاقے سے برآمد کیا گیا تھا‘ آپ اگر راولپنڈی اسلام آباد میں رہتے ہیں یا آپ ان دونوں شہروں سے واقف ہیں تو پھر یقینا آپ پیر ودہائی سے بھی آگاہ ہوں گے‘ پیر ودہائی اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع ہے‘ یہ بنیادی طور پر بسوں‘ ویگنوں اور ٹرکوں کا اڈہ ہے۔
یہاں سیکڑوں کی تعداد میں چھوٹے چائے خانے‘ نچلے درجے کے ہوٹل‘ سرائے‘ کھوکھے‘ کچی آبادیاں اور جرائم پیشہ لوگوں کے ٹھکانے ہیں‘ یہ علاقہ منشیات فروشی‘ عصمت فروشی اور نابالغ بچوں کے ساتھ زیادتی کا مرکز بھی ہے‘ پیر ودہائی سے شراب‘ چرس اور افیون سے لے کر ہیروئن اور کوکین تک ملتی ہے‘ یہاں روزانہ سیکڑوں ٹرک ڈرائیور اور کلینر آتے ہیں‘ ان کی اکثریت منشیات اور جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہوتی ہے‘ ایک بریگیڈیئر صاحب اینٹی نارکوٹکس فورس کے کمانڈرہیں‘ یہ بریگیڈیئر صاحب پیر ودہائی میں منشیات فروشوں کے ٹھکانوں پر چھاپے مارتے رہتے ہیں۔
انھوں نے ایک بار علاقے سے چند نوجوان لڑکیاں برآمد کیں‘ یہ بچیاں کالج میں پڑھتی تھیں‘ یہ منشیات کی عادی ہو گئیں‘ یہ گھر سے کالج جاتیں لیکن منشیات لینے کے لیے پیر ودہائی چلی جاتیں اور وہاں ٹرکوں کے ڈرائیور اور کلینر ایک آدھ پڑیا کے بدلے ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے‘ آپ اس کا تصور تک نہیں کر سکتے‘ بریگیڈیئر صاحب نے ان بچیوں کو انتہائی بری حالت میں ’’ریکور‘‘ کیا‘ بچیوں سے تفتیش ہوئی تو ان کا تعلق معزز خاندانوں سے نکلا‘ بریگیڈیئر صاحب نے بچیوں کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور انھیں ان کے خاندانوں کے حوالے کر دیا‘ یہ پیر ودہائی کا ایک پہلو تھا‘ دوسرا پہلو سات سال کا بچہ جاوید ہے‘ بیرسٹر عابد بیت المال کے موجودہ ایم ڈی ہیں‘ یہ ملک کے بڑے کاروباری گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔
بیرسٹر عابد کو 2011 میں کسی نے اطلاع دی‘ پیر ودہائی کے ایک مکان میں چھوٹا سا بچہ قید ہے‘ اس بچے کے ساتھ مسلسل زیادتی ہو رہی ہے‘ بیرسٹر عابد پولیس فورس لے کر پیر ودہائی پہنچ گئے‘ مکان پر چھاپہ مارا اور جاوید ’’ری کور‘‘ ہو گیا‘ بچے کی عمر چار سال تھی اور اس کی جسمانی‘ ذہنی اور نفسیاتی حالت انتہائی خراب تھی‘ یہ بچہ جوان مردوں کو دیکھ کر چیخیں مارتا تھا اور دوڑ کر کمروں کے کونوں میں چھپنے کی کوشش کرتا تھا‘ بیرسٹر عابد بچے کو اپنے گھر لے گئے‘ یہ بچہ اب ’’سویٹ ہوم‘‘ میں مقیم ہے‘ اس کی نفسیات بحال ہو رہی ہے لیکن یہ آج بھی لوگوں کو دیکھ کر ڈر جاتا ہے۔
میں عید پر سویٹ ہوم گیا‘ میں جاوید سے ملا‘ میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے اپنے پاس بٹھا لیا‘ بچے کی آنکھوں میں ابھی تک اداسی‘ خوف اور دہشت موجود ہے‘ یہ گھبرا کر دائیں بائیں دیکھتا ہے‘ یہ دوسرے بچوں کے ساتھ ’’مکس اپ‘‘ ہونے میں بھی دقت محسوس کرتا ہے‘ میں اس معصوم بچے کے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا‘ میری آنکھوں میں آنسو تھے اور میں سوچ رہا تھا‘ ہم کس سماج میں رہ رہے ہیں‘ ایک ایسے سماج میں جس میں چند درندوں نے ملک کے کسی حصے سے اڑھائی سال کا بچہ اغواء کیا۔
یہ بچہ مختلف لوگوں کے ہاتھوں بکتا ہوا پیر ودہائی پہنچا اور پیرودہائی میں اس چھوٹے سے معصوم بچے کو ’’چائلڈ پراسٹی چیوٹ‘‘ بنا دیا گیا‘ یہ بچہ ڈیڑھ سال تک درندگی کا نشانہ بنتا رہا‘ یہ خوش نصیب تھا‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی آہیں اور سسکیاں سن لیں‘ بیرسٹر عابد اس تک پہنچ گئے اور یوں یہ بچہ درندگی کے دوزخ سے باہر آ گیا جب کہ جاوید جیسے نہ جانے کتنے بچے اس وقت پیر ودہائی میں موجود ہوں اور ان کے ساتھ بھی جاوید جیسا سلوک ہو رہا ہو‘ آپ تصور کیجیے اور اس کے بعد سوچیے کیا ہمیں جاوید جیسی مثالوں کے بعد اللہ تعالیٰ سے کرم کی توقع رکھنی چاہیے؟
کیا ہم ایسے مظالم اور ایسی مثالوں کے بعد قدرت کی طرف سے اس سلوک کے حق دار نہیں ہیں جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے‘ میں جب جاوید سے ملا تو مجھے محسوس ہوا ہم اس سے کہیں زیادہ برے سلوک کے مستحق ہیں‘ یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی ہے‘ قدرت ہمیں صرف جوتے مار رہی ہے ورنہ ہم آسمان سے پتھروں اور زمین سے زلزلوں کے حق دار ہیں‘ اسلام آباد چوہدری نثار علی خان کی ’’سلطنت‘‘ ہے‘ میری ان سے درخواست ہے آپ کم از کم پیر ودہائی ہی کو منشیات‘ عصمت دری اور ’’چائلڈ پراسٹی چیوشن‘‘ سے پاک کر دیں‘ آپ کو سیکڑوں ہزاروں لوگ جھولی پھیلا کر دعائیں دیں گے۔
بیت المال حکومت پاکستان کا ادارہ ہے‘ حکومت نے یہ ادارہ 1992میں ملک کے نادار‘ بے بس اور بے کس لوگوں کی مدد کے لیے بنایا تھا‘ ملک کے دوسرے اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی آہستہ آہستہ فوت ہو گیا لیکن پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اس کی ذمے داری زمرد خان کو سونپ دی گئی‘ زمرد خان پیپلز پارٹی کے پرانے ورکر ہیں‘ یہ 2002 میں راولپنڈی سے ایم این اے بھی رہے‘ زمرد خان نے اس مردہ محکمے میں دوبارہ روح پھونک دی‘ خان صاحب نے بے شمار کام کیے‘ ان کاموں میں ’’سویٹ ہوم‘‘ بھی شامل ہے۔
بیت المال میں 2010 میں ’’سویٹ ہوم‘‘ قائم کیا گیا‘ یہ ہوم یتیم بچوں کی کفالت‘ رہائش اور تعلیم کے لیے بنایا گیا‘ ملک بھر سے چھوٹے یتیم بچے لائے گئے‘ ان بچوں کو سویٹ ہوم میں رکھا گیا اور انھیں عام بچوں کے برابر سہولتیں دی گئیں‘ زمرد خان کا یہ منصوبہ کامیاب ہو گیا‘ 2013 تک ملک میں 28 سویٹ ہومز بن چکے تھے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو دیگر عہدیداروں کی طرح زمرد خان بھی فارغ ہو گئے‘ کاش ہمارے ملک میں اتنی سیاسی بلوغت پیدا ہو جائے کہ ہم لوگوں کو پارٹی‘ نسل‘ قوم اور زبان کے بجائے پرفارمنس پر دیکھنا اور پرکھنا شروع کر دیں.
میاں نواز شریف کو چاہیے تھا۔یہ زمرد خان کو پیپلز پارٹی کے بجائے بیت المال کی پرفارمنس پر دیکھتے اور اقتدار کی تبدیلی کے باوجود ان سے کام جاری رکھنے کی درخواست کرتے لیکن ملک کے سیاسی کلچر کے عین مطابق زمرد خان کو بھی فارغ کر دیا گیا تاہم ’’سویٹ ہوم‘‘ جاری رہے‘ بیرسٹر عابد بیت المال کے نئے ایم ڈی ہیں‘ یہ اچھے‘ پڑھے لکھے اور متحرک نوجوان ہیں‘ یہ زمرد خان کی خدمات کو مانتے بھی ہیں اور ان کی تعریف بھی کرتے ہیں‘ سویٹ ہوم کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے‘ یہ اب 33 ہو چکے ہیں ان میں ساڑھے تین ہزار یتیم بچے ہیں‘ 14سویٹ ہومز ملک کے مختلف مخیر حضرات چلا رہے ہیں‘ گیارہ سو بچے اہل درد نے گود لے رکھے ہیں‘ یہ ان بچوں کے تمام اخراجات برداشت کر رہے ہیں‘ میری مخیر حضرات سے درخواست ہے آپ سویٹ ہومز کا دورہ کریں‘ بچوں سے ملیں اور اپنی استطاعت کے مطابق بچوں کو سپانسر کرنا شروع کر دیں‘ سویٹ ہوم میں اسپانسر شپ کی تین کیٹگریز ہیں‘ آٹھ ہزار روپے‘ دس ہزار روپے اور بارہ ہزار روپے ماہانہ‘ آپ ان میں سے کوئی ایک پیکیج منتخب کر سکتے ہیں۔
میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو بھی ’’سویٹ ہومز‘‘ سے متعلق ایک تجویز دینا چاہتا ہوں‘ میاں برادران اگر سویٹ ہوم یا بیت المال کو صرف دس منٹ دے دیں اور وہ پالیسی بنا دیں جس کا میں ذکر کروں گا تو ملک میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے‘ ہم اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں عثمانی خلافت تاریخ اسلام کا مضبوط ترین دور محسوس ہو گی‘ یہ سلطنت عثمان بن ارطغرل نے 1299 میں قائم کی اور یہ 1922تک قائم رہی‘ عثمانی خلافت چار براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی‘ عثمانی سلطنت کی کامیابی کی چار وجوہات میں سے ایک وجہ اس کی بیورو کریسی تھی۔
ترک بادشاہوں کے سرکاری اہلکار بے انتہا ایماندار‘ ماہر‘ ذہین اور بہادر تھے‘ یہ چار سو لوگوں کا گروپ تھا‘ یہ لوگ پوری سلطنت کے امور چلاتے تھے‘ یہ عثمانی سلطنت کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتے تھے‘ یہ چار سو لوگ کون ہوتے تھے؟ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی‘ یہ یتیم بچے ہوتے تھے اور ان کی اکثریت عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھی‘ بادشاہوں نے استنبول میں اعلیٰ سطح کے پانچ اسکول اور بورڈنگ ہائوس بنا رکھے تھے‘ یہ ملک کے مختلف حصوں سے یتیم بچوں کو ان بورڈنگ ہائوسز سے لاتے تھے‘ شہزادوں کی طرح ان کی پرورش کی جاتی تھی‘ انھیں اعلیٰ ذہنی‘ جسمانی اور نفسیاتی تربیت دی جاتی تھی‘ ملک کے نامور اتالیق انھیں جدید ترین تعلیم دیتے تھے‘ ان بچوں کو جنگی مہارت بھی سکھائی جاتی تھی اور انتظامی امور بھی۔
یہ بچے جب جوان ہوتے تو انھیں مختلف محکموں اور شعبوں کی ٹریننگ دی جاتی اور یہ لوگ جب تربیت کے تمام کٹھن مراحل گزار لیتے تھے تو پھر انھیں بیورو کریسی میں شامل کر دیا جاتا‘ یہ بچے یتیم ہوتے تھے‘ ان کا کوئی خاندان‘ کوئی قبیلہ نہیں ہوتا تھا چنانچہ یہ اقرباء پروری اور فیورٹ ازم جیسی علتوں سے پاک ہوتے تھے‘ یہ عیسائی ہوتے تھے چنانچہ یہ مذہبی دبائو میں بھی نہیں آتے تھے اور انھیں پہلے دن سے افسر بنایا جاتا تھا چنانچہ یہ ماہر بھی ہوتے تھے‘ ترکوں کا یہ فارمولہ کامیاب ہو گیا اور عثمانی خلافت 6 سو23 سال تک چار براعظموں پر قدم جما کر کھڑی رہی۔
میاں نواز شریف بھی اگر ان سویٹ ہومز کو ملٹری اور سول سروسز اکیڈمیز میں تبدیل کر دیں‘ یہ ملک میں مزید 65 سویٹ ہومز بنائیں‘ یتیم بچوں کو ملٹری اور سول سروسز کی ٹریننگ دیں‘ ان بچوں کو مخصوص ماحول میں بڑا کیا جائے اور انھیں بڑا ہونے کے بعد ملکی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بنا دیا جائے تو یہ بچے وہ کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں جو آج تک دوسرے لوگ نہیں دے سکے‘ یہ پورے ملک کو بدل کر رکھ دیں گے‘ یہ بچے اصلی پاکستانی ہیں‘ یہ پاکستان کے اصل محافظ ثابت ہو سکتے ہیں‘ آپ بس ان کے سر پر ہاتھ رکھ دیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا کرم ملاحظہ کریں‘ یہ بچے مایوس پاکستان کو کبھی مایوس نہیں کریں گے‘ آپ ایک بار تجربہ کر کے دیکھ لیں۔

میاں نواز شریف نے اچھا کیا
جاوید چوہدری پير 26 مئ 2014

وزیراعظم میاں نواز شریف کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں جانا چاہیے تھا اور میاں صاحب نے دہلی جا کر سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا‘ میاں صاحب کو کیوں جانا چاہیے تھا ہم وجوہات کی طرف جانے سے قبل نریندر مودی کی شخصیت کا ایک پہلو دیکھیں گے‘ یہ پہلو ہمارے موجودہ اور مستقبل کے حکمرانوں کے لیے سیاسی مشعل راہ بن سکتا ہے۔
نریندر مودی ستمبر کی 17 تاریخ اور سن 1950ء میں ریاست گجرات کے ضلع مہسانہ میں پیدا ہوا‘ والدین انتہائی غریب تھے‘ والد دامو درداس ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچتا تھا‘ ماں ہیرا بین لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھتی تھی‘ جھاڑو ٹاکی کرتی تھی‘ دامو درداس کے چار بچے تھے‘ نریندر کا تیسرا نمبر تھا‘ نریندر کے ایک بھائی نے لیدر فیکٹری میں کام کیا اور منظر سے غائب ہو گیا جب کہ دوسرا بھائی گجرات حکومت کے محکمہ اطلاعات میں معمولی افسر ہے۔
نریندر مودی بچپن ہی میں والد کا ہاتھ بٹانے لگا‘ یہ چھوٹا بن کر ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچنے لگا‘ والد ظالم تھا‘ نریندر باغی تھا اور حالات ناگفتہ بہ تھے چنانچہ نریندر سنگھ مودی 13 سال کی عمر میں گھر سے بھاگ گیا‘ یہ 17 سال کی عمر میں ایک دن کے لیے گھر آیا‘ والدین نے یشو دابین کے ساتھ اس کی شادی کرا دی لیکن یہ دلہن کا منہ دیکھے بغیر گھر سے نکل گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا‘ یہ 30 سال خانہ بدوش رہا‘ یہ کبھی اس شہر میں رہتا اور کبھی اس قصبے میں مقیم ہو جاتا‘ نریندر دفتروں اور پاٹھ شالوں میں راتیں گزارتا رہا‘ یہ بیس سال کی عمر میں متعصب ہندو تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) میں شامل ہو گیا‘ آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر ریاست مہاراشٹرا کے شہر ناگ پور میں تھا‘ یہ تنظیم ہندوستان سے غیر ہندوؤں کو نکال دینا چاہتی تھی۔
یہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرنے یا انھیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی قائل بھی ہے‘ نریندر مودی نے ناگ پور میں عسکری ٹریننگ لی اور اس کے بعد ہندوستان سے مسلمانوں کی نسل کشی کا پرچم اٹھا لیا‘ یہ 1980ء کے شروع میں گجرات آیا‘ یہ مسلمانوں کو گجرات سے نکالنا چاہتا تھا‘ یہ انھیں ’’دھرتی کا بوجھ‘‘ قرار دیتا تھا‘ یہ 1987ء میں گجرات میں آر ایس ایس کا سیکریٹری بن گیا‘ یہ 1995ء تک اس عہدے پر فائز رہا‘ اس دوران بی جے پی بھارت کی بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری‘ یہ پارٹی آر ایس ایس کا سیاسی ونگ تھی‘ نریندر مودی بی جے پی میں شامل ہو گیا‘ یہ اپنے خیالات اور حرکتوں میں ’’بولڈ‘‘ تھا‘ یہ پارٹی میں سازشیں بھی کرتا تھا چنانچہ لوگ نریندر کو بدتمیز اور سازشی سمجھ کر اسے ناپسندیدگی سے دیکھتے تھے تاہم ایل کے ایڈوانی اسے پسند کرتے تھے۔
یہ بھی ان کے ساتھ مخلص تھا‘ بی جے پی نے مارچ 1998ء کے ریاستی الیکشن لڑے‘ گجرات میں پارٹی نے 117نشستیں حاصل کر لیں‘کیشو بھائی پٹیل گجرات کے وزیراعلیٰ بنے‘یہ کرپشن الزامات کے باعث 6 اکتوبر 2001 کو مستعفی ہو گئے‘ ایل کے ایڈوانی نے نریندر مودی کی سفارش کی اور یہ7 اکتوبر 2001ء کو گجرات کا چیف منسٹر بن گیا‘ وزیراعلیٰ بننے کے بعد اس نے اپنے مسلم کش ایجنڈے پر کام شروع کر دیا‘ اس نے انتہا پسند ہندوؤں کو اشارہ کیا‘ 27 فروری 2002ء کو احمد آباد میں فسادات شروع ہوئے‘ سرکار ہندو فسادیوں کی مدد کرنے لگی‘ شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا‘ مسلمانوں کے سیکڑوں گھر جلا دیے گئے‘ ہزاروں عورتیں ’’ریپ‘‘ کر دی گئیں اور مسلمان مرد اور بچے قتل کر دیے گئے۔
برطانوی اداروں کے مطابق احمدآباد کے فسادات میں دو ہزار مسلمان قتل ہوئے‘ یہ فسادات نریندر مودی کی سیاست کو نگل گئے‘ وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی ناراض ہو گئے‘ یورپ نے آسمان سر پر اٹھا لیا جب کہ امریکا نے اس کے ویزے پر پابندی لگا دی‘ یہ فسادات نریندر مودی کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا‘ مودی کے پاس اس وقت دو آپشن تھے‘ یہ مسلم کشی کی سیاست کے چیمپیئن بن جاتے‘ یہ متعصب ہندوؤں کے ساتھ مل کر مسلمان‘ سکھ‘ عیسائی اور دلتوں کا صفایا کر دیتے یا پھر یہ ایک نئے بھارت کے نئے لیڈر بن کر ابھرتے‘ نریندر مودی نے دوسرا آپشن قبول کر لیا‘ انھوں نے مسلم دشمنی کا لٹھ تہہ خانے میں رکھا اور گجرات کی ڈویلپمنٹ میں جت گئے۔
نریندر مودی نے گجرات کی حالت بدل کر رکھ دی‘ انھوں نے صوبے کو کرپشن فری بنا دیا‘ پورے ملک سے ماہرین بلائے اور انھیں اعلیٰ عہدوں پر تعینات کر دیا‘ یہ لوگ وزیروں کے بجائے وزیراعلیٰ کو جواب دہ تھے‘ افسروں کا انتخاب ساکھ اور کارکردگی کی بنیاد پر کیا‘ یہ افسر ہر صورت پانچ سال پورے کرتے تھے‘ پوری حکومت کو آن لائین کر دیا‘ صوبے کی سبسڈیز‘ پینشن‘ زمین کی رجسٹریشن‘ خرید وفروخت‘ پیدائش‘ انتقال‘ پاسپورٹ‘ ڈرائیونگ لائسنس‘ ٹینڈر اور نوکریاں ہر چیز آن لائین ہو گئی‘ انٹرنیٹ سستا اور آسان کر دیا‘ پورے صوبے میں پبلک سروس سینٹرز بنادیے۔
انٹرنیشنل سرمایہ کاری کانفرنسیں کروائیں اور ٹاٹا موٹرز‘ جنرل موٹرز اور فورڈ جیسی کمپنیوں کو مراعات دے کر گجرات بلوا لیا‘ ان کمپنیوں نے 6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر دی‘ انٹرنیشنل فنانس سٹی بنا دیا‘ اس پراجیکٹ کی وجہ سے احمد آباد بھارت کا سب سے بڑا کاروباری مرکز بن گیا اور گجرات کو صنعت کاروں کی جنت بنا دیا گیا‘ نریندر مودی کی ان پالیسیوں کی وجہ سے گجرات نے بھارت کی کل سرمایہ کاری کا 15 فیصد کھینچ لیا‘ گجرات کی زراعت نے 11 فیصد جب کہ صنعت نے 13فیصد ترقی کی‘ آج بھارت کی کل برآمدات میں گجرات کا شیئر 22فیصد ہے اور یہ واقعی کمال ہے۔
نریندر مودی 2001ء سے 2014ء تک تیرہ سال گجرات کے وزیراعلیٰ رہے‘ ان 13 برسوں میں انھوں نے گورننس اور پرفارمنس کے بے شمار نئے ماڈل متعارف کروائے‘ یہ ایماندار بھی ہیں‘ انھوں نے 13 برسوں میں اپنے خاندان کے کسی شخص کو چیف منسٹر ہاؤس میں قدم نہیں رکھنے دیا‘ چالیس سال کی سیاست میں مودی نے ایک گھر کے سوا کچھ نہیں بنایا‘ یہ سادہ انسان ہیں‘ کھدر کے کپڑے پہنتے ہیں‘ سبزی اور دال کھاتے ہیں‘ فرش پر سو جاتے ہیں اور تمام سرکاری منصوبوں کی خود دیکھ بھال کرتے ہیں‘ اس سادگی‘ پرفارمنس‘ ایمانداری اور خدمت نے آج چائے بیچنے والے‘ فرش پر سونے والے‘ انگریزی نہ بول سکنے والے‘ مسلمانوں کے دشمن اور متعصب ہندو نریندر مودی کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کا وزیراعظم بنا دیا‘ یہ آج بھارت کے وزیراعظم ہیں۔
یہ تیس سال بعد ’’سنگل میجارٹی‘‘ حاصل کرنے والے وزیراعظم بھی ہیں‘ نریندر مودی ’’پرفارمنس‘‘ کی تازہ ترین مثال ہیں‘ یہ مثال ثابت کرتی ہے‘ آپ اگر لوگوں کی حالت بدل دیں‘ آپ پرفارم کریں‘ آپ ایماندار ہوں اور آپ میرٹ پر عمل کریں تو لوگ آپ کا غریبانہ اور متعصبانہ ماضی تک بھلا دیتے ہیں‘ یہ آپ کو شدت پسندانہ خیالات کے باوجود بھارت کا وزیراعظم بنا دیتے ہیں‘ ہمارے حکمرانوں بالخصوص چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ کو نریندر مودی سے سیاست سیکھنی چاہیے‘ ہم اگر دوستوں سے نہیں سیکھتے تو ہم کم از کم دشمن ہی سے سیکھ لیں‘ ہمارے چیف منسٹرز اپنے اپنے صوبوں میں صرف نریندر مودی کو کاپی کر لیں‘ یہ دس سال میں ملک کے متفقہ لیڈر بن جائیں گے اور ان کی لیڈر شپ کو کسی اندرونی اور بیرونی دشمن سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
ہم اب آتے ہیں میاں نواز شریف کی دہلی یاترا کی طرف۔ نریندر مودی ایل کے ایڈوانی کے سیاسی شاگرد ہیں‘ یہ دونوں پاکستان کے کھلے دشمن ہیں‘ یہ پوری زندگی پاکستان اور مسلمانوں کی مخالفت کی سیاست کرتے رہے‘ نریندر مودی پوری الیکشن مہم کے دوران پاکستان اور میاں نواز شریف کو دھمکیاں دیتے رہے لیکن یہ جوں ہی وزیراعظم نامزد ہوئے‘ انھوں نے میاں نواز شریف کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دے دی‘ یہ نریندر مودی کی چالیس سالہ سیاست کا سب سے بڑا یوٹرن تھا‘ یہ یو ٹرن ان کی سیاسی بلوغت‘ کھلے دل اور علاقائی مسائل حل کرنے کی سوچ کا غماز ہے‘ نریندر مودی شدت پسند بھی ہیں اور یہ 543 کے ایوان میں 283 سیٹیں لے کر وزیراعظم بھی بنے ہیں چنانچہ یہ اپنے فیصلوں میں بڑی حد تک آزاد ہوں گے۔
یہ بھارت کے پانچ سال تک وزیراعظم بھی رہیں گے اور ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا بھارت میں جب بھی بی جے پی کی حکومت آئی‘ بھارتی سرکار نے پاکستان کے معاملے میں غیر ضروری لچک کا مظاہرہ کیا‘ آپ اٹل بہاری واجپائی کو دیکھ لیجیے‘ یہ فروری 1999ء میں نہ صرف بس پر لاہور آئے بلکہ یہ مینار پاکستان بھی گئے اور یہ وہ جرأت ہے جو آج تک کانگریس کا کوئی لیڈر نہیں کر سکا‘ نریندر مودی اسی جماعت‘ اسی سوچ کی ایکسٹینشن ہیں‘ مودی امن کی اہمیت اور جنگ کے نقصانات سے بھی واقف ہیں‘ یہ 2002ء میں مسلم کش فسادات کے نتائج بھی دیکھ چکے ہیں اور یہ گجرات میں امن اور پرفارمنس کے رشتے کا مشاہدہ بھی کر چکے ہیں چنانچہ یہ جانتے ہیں بھارت نے اگر مزید ترقی کرنی ہے تو پھر اسے شدت پسندی چھوڑنا ہوگی ورنہ دوسری صورت میں چند قصاب بھارت کی تیس سالہ اچیومنٹس کو خاک میں ملا دیں گے۔
میرا خیال ہے آج بی جے پی امن کی گفتگو کو وہیں سے اسٹارٹ کرے گی جہاں سے یہ دھاگہ 1999ء میں ٹوٹا تھا۔ میاں نواز شریف کو اس معاملے میں نریندر مودی کا ساتھ دینا چاہیے‘ میاں نواز شریف آج دہلی میں ہیں‘ ان کے دہلی میں ہونے کا پاکستان کو کوئی نقصان نہیں ہوا جب کہ نریندر مودی حلف اٹھانے سے قبل شدت پسندوں کی نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں‘ ہم اگر اس دورے سے کچھ اور حاصل نہ بھی کر پائے تو بھی ہمارے لیے یہ کافی ہے کہ نریندر مودی باقی زندگی قوم کو نوازشریف کو دعوت دینے کا حساب دیتے رہیں لہٰذا ہم کسی بھی طرح گھاٹے میں نہیں رہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں نریندر مودی اور میاں نواز شریف مسئلہ کشمیر حل کر سکتے ہیں‘ یہ اس مسئلے کے حل اور اہمیت سے واقف ہیں‘ بس دونوں کو کارگل جیسی سازش سے بچنا ہو گا کیونکہ یہ سازش اس بار پاکستان کی طرف سے نہیں ہوگی‘ یہ بھارت سے ہو گی اور اس سازش کے سپہ سالار ریاستی نہیں غیر ریاستی عناصر ہوں گے اور یہ وہ عناصر ہیں جنھیں پاکستان روک سکتا ہے اور نہ ہی بھارت۔مودی صاحب اگر ان سے بچ گئے تو پاکستان اور بھارت تعلقات کے نئے دور میں داخل ہو جائیں گے اور یہ اس خطے کے لوگوں کے لیے عظیم تحفہ ہو گا ۔
میڈیا کی خلائی مخلوق
جاوید چوہدری جمعـء 23 مئ 2014

ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو بے شمار ایسی سہولتیں حاصل ہیں جو دنیا کے کسی دوسرے میڈیا کے پاس نہیں‘ مثلاً پاکستان کے کسی بھی چینل پر کسی بھی وقت کوئی بھی بات کی جا سکتی ہے اور یہ بات تین سیکنڈ میں عوام تک پہنچ جاتی ہے‘ دنیا کے کسی دوسرے ملک کا میڈیا یہ جرأت نہیں کر سکتا‘مثلاً ہمارے ٹیلی ویژن چینلز کا 80 فیصد مواد ’’لائیو‘‘ ہوتا ہے‘ ہمارے خبرنامے براہ راست ہوتے ہیں‘ ہمارے رپورٹر سارا دن ڈی ایس این جی پر دستیاب ہوتے ہیں‘ یہ کسی بھی وقت لائیو ’’کٹ‘‘ ہوجاتے ہیں اور یہ تحقیق اور تفتیش کے بغیر بڑی سے بڑی خبربریک کرسکتے ہیں۔
ہمارے کرنٹ افیئرز کے پروگرام بھی لائیو ہوتے ہیں‘ ہمارے اکثراینکرز اور ہمارے اکثر مہمان تیاری کے بغیر پروگرام میں بیٹھتے ہیں اور یہ انتہائی تیزابی قسم کی گفتگو کر کے گھر چلے جاتے ہیں جب کہ یورپ اور امریکا کے ٹیلی ویژن چینلز کا 70 فیصد مواد ریکارڈ شدہ ہوتا ہے‘ یہ لوگ 2014ء میں بھی صرف 30 فیصد لائیو کوریج کا رسک لیتے ہیں‘ بین الاقوامی چینلز کے 80 فیصد پروگرام ریکارڈ شدہ ہوتے ہیں اور یہ لوگ اس وقت تک یہ پروگرام ’’آن ائیر‘‘ نہیں کرتے جب تک ان کے پاس مواد کا ثبوت موجود نہ ہو‘مثلاً ہمارے وزراء‘ ہمارے سیاستدانوں اور ہمارے پارلیمنٹیرینز کو بھی لائیو کوریج ملتی ہے‘ یہ لوگ کسی کی عیادت کے لیے بھی جائیں تو یہ ٹیلی ویژن چینلز کی ڈی ایس این جی منگوا لیتے ہیں اوریہ چند سیکنڈ میں پوری قوم سے مخاطب ہوجاتے ہیں۔
یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید کے سیاستدان اس سہولت کا تصور تک نہیں کرسکتے‘ یورپ کے ٹیلی ویژن چینلز باقاعدہ پروٹوکول لسٹ بناتے ہیں اور یہ صرف اس فہرست میں شامل لوگوں کو کورکرتے ہیں اور یہ کوریج بھی لائیو نہیں ہوتی‘ چینل کا کیمرہ جاتا ہے‘ ریکارڈنگ ہوتی ہے اور ادارہ ریکارڈنگ دیکھ کر اسے ’’آن ائیر‘‘ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے‘ مثلاً پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہوگا جس میں لوگوں کو لائیو خود سوزی‘ ملک توڑنے کی لائیو دھمکی اور فرقہ واریت‘ نسلی فساد اور سماجی نفرت پھیلانے کی لائیو سہولت حاصل ہے۔
دنیا کا کوئی دوسرامعاشرہ‘ کوئی دوسراملک اپنے میڈیا کو یہ ’’سہولت‘‘ نہیں دیتا‘ یورپ میں کوئی شخص ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر کسی چیز کو حلال یا حرام قرار نہیں دے سکتا اور اگر کوئی شخص یا چینل یہ غلطی کر بیٹھے تو اس کی جان نہیں چھوٹتی‘ مثلاً پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہوگا جس میں صدر‘ وزیراعظم‘ چیف جسٹس‘ آرمی چیف اور مفتی اعظم بھی قانون کے سامنے جوابدہ ہیں‘ یہ کسی نہ کسی فورم پر احتساب کا سامنا کرتے ہیں‘ ملک میں وزیراعظم کو پھانسی ہوجاتی ہے‘ حکومتیں گرائی اور توڑی جا سکتی ہیں‘ منتخب رہنمائوں کو جلاوطن کیا جا سکتا ہے‘ وزراء اعظم کو عدالتوں کے حکم پر گھر بھجوایا جا سکتا ہے‘ چیف جسٹس کو فارغ کیا جا سکتا ہے۔
آرمی چیف کو عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے اور مفتی اعظم کے فتوئوں کو چیلنج کیا جا سکتا ہے مگر ٹیلی ویژن چینلز اور اینکرز کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا‘ آپ اینکرز کو بولنے‘ فضول بولنے اور بے تحاشا فضول بولنے سے نہیں روک سکتے‘ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں فضول بولنے کی یہ سہولت دستیاب نہیں‘ یورپ اور امریکا کے صحافی جب پاکستان آتے ہیں اور یہ ہمیں اس بے مہار آزادی کو انجوائے کرتے دیکھتے ہیں تو ان کے منہ کھلے رہ جاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اپنے ملک میں اس آزادی کا تصور نہیں کر سکتے اور مثلاً ہم میڈیا کے لوگوں کی خبریں غلط ہوجائیں‘ ہم غلط اطلاعات دے دیں‘ ہمارے تبصرے غلط ہو جائیں اور ہم غلط حقائق پر کالم لکھ دیں ملک کا کوئی ادارہ ہمارا احتساب نہیں کرسکتا‘ ہمارے ملک میں آج تک کوئی سینئر صحافی اپنی غلطی پر نوکری سے فارغ نہیں ہوا۔
ہمارے صحافتی ادارے زیادہ سے زیادہ کسی صحافی کو معطل کرتے ہیں اور معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعدوہ صحافی دوبارہ اپنی پوزیشن پربحال ہو جاتا ہے‘ یہ معطل شدہ صحافی اگر اکھڑ ہو اور یہ معطلی پر ادارے سے بھڑ جائے تو دوسرے ادارے اس کے گلے میں ہار ڈال کر اسے قبول کر لیتے ہیں جب کہ دنیا کے باقی ممالک میں جب کسی صحافی کی کریڈیبلٹی متاثر ہوتی ہے تو اس کا سارا کیریئر تباہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنی ساکھ بحال ہونے تک ’’جاب لیس‘‘ رہتا ہے۔
ہمیں چاہیے تھا ہم ان سہولتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے اور اس صحافتی آزادی کو انجوائے کرتے لیکن ہمارے میڈیا پر ایک خلائی مخلوق نے حملہ کر دیا‘ اس خلائی مخلوق نے اسکرین پر قبضہ کر لیا اور ہم نے یہ قبضہ ہونے دیا‘ صحافت اس خلائی مخلوق کا پیشہ نہیں تھا‘ یہ لوگ چھاتہ لے کر صحافت کی چھت پر اترے اور انھوں نے صحافتی میناروں پر قبضہ کر لیا‘ یہ لوگ اپنے اپنے پیشے میں ناکام تھے‘ خلائی مخلوق نے جس شعبے میں تعلیم حاصل کی‘ یہ اس میں ٹھہر نہیں سکے‘ انھوں نے اس کے بعد صحافت کا رخ کیا اور یہ اس میں ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے‘ ان لوگوں میں تین خوبیاں ہیں‘یہ تین خوبیاں ان کی اصل طاقت ہیں‘ یہ مختصر مدت کے اداکار ہوتے ہیں‘ یہ آتے ہیں‘ شہرت اور دولت سمیٹتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔
یہ اس جلد بازی میں اگر آگے پیچھے سے ننگے بھی ہو جائیں تو انھیں فرق نہیں پڑتا‘ ان کے جانے کے بعد میدان میں اخلاقیات کی کتنی نعشیں پڑی رہ جاتی ہیں‘ انھیں اس سے بھی فرق نہیں پڑتا‘ یہ خوبی ان کی طاقت اور میڈیا کی کمزوری ہے۔ دوسرا‘ یہ لوگ سمجھ گئے ہیں‘ ہمارے ٹیلی ویژن چینلز پر تین چیزیں بکتی ہیں‘ فحاشی‘ مذہب اور فساد چنانچہ یہ ان تینوں گیندوں کے ساتھ کھیلتے ہیں‘ ملک میں سیاسی فساد چل رہا ہو تو یہ تین فسادی سیاستدانوں کو دعوت خطاب دیتے ہیں‘ یہ سیاستدان دست و گریبان ہوتے ہیں اور یہ پروگرام کر کے گھر چلے جاتے ہیں‘ ملک میں سیاسی فساد نہ ہو تو یہ مذہب کا شوکیس سامنے رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں‘ یہ لوگ دو تین علماء کرام کو بلاتے ہیں اور کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے‘ کیا اسلام میں موبائل فون جائز ہے۔کیا اسلامی معاشرے میں خواتین نوکری کر سکتی ہیں اور کیا زنانہ کالجز میں جینز پہننے کی اجازت دی جا سکتی ہے جیسے پروگرام شروع کر دیتے ہیں.
ہمارے مارننگ شوز ایسے مواد کا شاہکار ہیں‘ یہ لائیو شادیوں اور بہو اور ساس کے لائیو جھگڑے تک کروا دیتے ہیں‘ ہمارے ناظرین جب ان اعلیٰ مذہبی مباحثوں سے تھک جاتے ہیں تو یہ مہربان وینا ملک‘ میرا‘ پوجا بھٹ اور سوناکشی سنہا کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں‘ اسکرین پر میرا کے بمبار سین چلتے ہیں اور اس کے بعد ان سے پوچھا جاتا ہے ’’ آپ نے یہ سب کچھ شادی سے پہلے کیا یا بعد میں؟‘‘ اور یہ تمام کارنامے کرنٹ افیئرز کے سیاسی پروگراموں میں ہوتے ہیں‘ یہ سارا دھندہ کیوں ہوتا ہے؟
اس کا یک لفظی جواب ہے ’’ریٹنگ‘‘۔ یہ بے چارے ریٹنگ کے لیے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں اور اس کے ردعمل میں انھیں اور پورے میڈیا کو ماں بہن کی گالی پڑتی لیکن یہ گالی ان کا مسئلہ نہیں ہوتی‘ یہ اس سے بالاتر ہیں! منیجمنٹ ریٹنگ میں چند قدم مزید آگے نکل گئی ‘ یہ ان تینوں کارناموں کی ذمے داری خواتین اینکرزکو سونپتی جا رہی ہے ‘ خواتین اینکرز کی وجہ سے پروگرام بھی چسکے دار ہوجا تے ہیں اور یہ اینکرز ان مشکل مہمانوں کو بھی پروگرام میں بلا لیتی ہیں جو مردانہ پروگراموں کے بدتمیز سوالوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتے‘ یہ خواتین مشکل مہمانوں کے گھر یا دفتر جا کر بھی پروگرام ریکارڈ کر لیتی ہیں اور یہ کام مرد اور صحافی اینکرز کے لیے مشکل ہوتا ہے اور اس خلائی مخلوق کی تیسری خوبی سیاسی رابطے ہیں۔
ملک کی تمام سیاسی‘ مذہبی اور سماجی تنظیمیں الیکٹرانک میڈیا کی طاقت سے واقف ہیں‘ یہ تنظیمیں اسکرین پر اپنے ایجنڈے کا رنگ چڑھانا چاہتی ہیں‘ یہ ’’نیا سیاسی خون‘‘ بھی متعارف کرانا چاہتی ہیں اور یہ مخالفوں کی کردار کشی بھی چاہتی ہیں اور یہ سارے کام اینکرز سے رابطے کے بغیر ممکن نہیں ہوتے‘ پرنٹ میڈیا یا صحافت کے طویل کیریئر کے بعد ٹیلی ویژن میں پہنچنے والے صحافی ایجنڈوں اور ان ایجنڈوں کے نتائج سے واقف ہوتے ہیں چنانچہ یہ لوگ ان کے ہاتھ نہیں آتے۔
’’قدیم صحافی‘‘ ان تنظیموں کے دفتروں‘ گھروں‘ کھانوں اور دوروں پر بھی نہیں جاتے جب کہ خلائی مخلوق ان کے ساتھ لنچ بھی کرتی ہے اور ڈنر بھی اور یہ ان کے ساتھ کافی بھی پی لیتی ہے اور شیشہ بھی‘ یہ ان کے سوئمنگ پولز میں سوئمنگ بھی فرماتی ہے اور یہ ان کے ساتھ بیرون ملک کے سفر بھی کرتی ہے‘ اس ’’انٹر ایکشن‘‘ کا نتیجہ ایجنڈے کی شکل میں نکلتا ہے‘ یہ خلائی مخلوق اسکرین کو سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا بنا دیتی ہے‘ میجمنٹ اس حقیقت سے واقف ہے مگر یہ ریٹنگ اور چھاتہ بردار کی بدتمیزی کی وجہ سے خاموش رہتی ہے‘ میں نے کئی چھاتہ برداروں کو منیجمنٹ کے ساتھ بدتمیزی کرتے دیکھا اور میں ہر بار یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ’’یہ بدتمیزی ہمارے میڈیا کو کہاں لے جائے گی‘‘ اور آخر میں وہ ’’ڈی ڈے‘‘ آ گیا ۔
آپ اب میڈیا کے بحران کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیجیے‘ ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے بلاشبہ بے شمار غلطیاں کیں لیکن آپ مہربانی کر کے خرابی پیدا کرنے والوں کی فہرست بنائیں‘ مجھے یقین ہے آپ کو اس فہرست میں 90 فیصد لوگ خلائی مخلوق ملیں گے‘ یہ وہ لوگ ہیں صحافت جن کا پیشہ تھی اور نہ ہی ہو گی‘ یہ بیرونی حملہ آور ہیں‘ یہ پکی ہوئی فصلیں اجاڑنے اور کھوپڑیوں کا مینار بنانے کے لیے میدان میں اترتے ہیں‘ پاکستانی میڈیا حقیقتاً خطرے میں ہے اور میڈیا کے مالکان‘ میڈیا کے ورکروں اور حکومت نے اب یہ فیصلہ کرنا ہے‘ ہمیں کھوپڑیوں کے کتنے مینار چاہئیں؟
ہم نے اگر اس جیتی جاگتی فیلڈ کو قبرستان میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر ہمیں کالک ملنے کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رکھنا چاہیے اور اگر ہم میڈیا اور معاشرے کے چہرے کو صاف دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ضابطہ اخلاق بنانا ہو گا‘ ایسا ضابطہ اخلاق جس میں اینکر کو ریٹنگ کے لیے زندہ سانپ کھانا پڑے اور نہ مہمان کو دوسرے مہمان کے منہ پر گلاس مارنا پڑے۔ ہم نے اگر آج یہ ضابطہ اخلاق نہ بنایا‘ ہم نے اگر آج میڈیا کو اس خلائی مخلوق‘ اس ٹڈی دل سے پاک نہ کیا اور ہم نے اگر آج اپنے مائیکرو فون‘ اپنے کیمرے‘ اپنے قلم اور اپنے منہ کو ضابطے کا ماتحت نہ بنایا تو شاید وہ وقت آتے دیر نہ لگے جب صحافیوں کو جان بچانے کے لیے گندے نالوں میں پناہ لینی پڑے یا ڈاکٹروں کے کوٹ پہن کر باہر نکلنا پڑے۔

زرداری صاحب سے مشورہ کریں
جاوید چوہدری بدھ 21 مئ 2014

ہمیں بہر حال آصف علی زرداری کو داد دینی ہوگی‘ یہ میاں نواز شریف کے مقابلے میں سیاسی لحاظ سے زیادہ بالغ ثابت ہوئے ہیں‘ یہ اقتدار کے شروع میں جان گئے تھے‘ یہ امریکا‘ فوج اور اپوزیشن سے لڑ کر حکومت نہیں کر سکیں گے چنانچہ انھوں نے تینوں کو نہ صرف اقتدار میں شیئر ہولڈر بنا لیا بلکہ انھوں نے پورے پانچ سال انھیں الجھائے بھی رکھا‘ امریکا اس خطے کا سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہے‘ یہ شاید پاکستان کے ایٹم بم‘ افغانستان کے طالبان‘ ایران کی سخت پالیسیوں‘ بھارت کی مارکیٹ اور چین کی معاشی طاقت کی وجہ سے ہمیشہ اس خطے کا سٹیک ہولڈر رہے گا۔
صدر زرداری یہ سمجھ گئے چنانچہ انھوں نے امریکا کو پانچ سال انگیج رکھا‘ امریکی آتے تھے تو یہ انھیں کبھی جی ایچ کیو بھجوا دیتے تھے‘ کبھی آئی ایس آئی کے حوالے کر دیتے تھے‘ کبھی طالبان کی طرف روانہ کر دیتے تھے اور کبھی میاں نواز شریف‘ مولانا فضل الرحمن اور مذہبی جماعتوں کی طرف روانہ کر دیتے تھے‘ امریکی پانچ سال ایک دفتر سے دوسرے دفتر اور ایک شخص سے دوسرے شخص کے درمیان گھومتے رہے‘ صدر زرداری یہ بھی جان گئے‘ فوج بھی اقتدار کی بڑی سٹیک ہولڈر ہے‘ ہم اسے فیصلہ سازی سے باہر رکھ کرحکومت نہیں کر سکیں گے چنانچہ یہ فوج کی ہر بات مانتے رہے یہاں تک کہ جب جنرل کیانی نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کا مشورہ دیا تو صدر نے یہ مشورہ بھی مان لیا۔
صدر نے جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں بھی تین سال اضافہ کر دیا‘ آصف علی زرداری کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی نے پارلیمنٹ کو بریفنگ تک دی اور صدر ایبٹ آباد کے امریکی آپریشن کے بعد بھی خاموش رہے‘ زرداری صاحب کے پانچ برسوں میں کئی ایسے مواقع آئے جب اقتدار اور فوج کے درمیان پیالی اور ہونٹوں کا فاصلہ رہ گیا تھا مگر زرداری صاحب کی ’’گنجائش دے دو‘‘ کی پالیسی نے معاملات سنبھال لیے‘ میمو اسکینڈل کے بعد ایک ایسا وقت بھی آیا جب صدر زرداری اور جنرل کیانی کے درمیان جھگڑا ہو گیا لیکن جب معاملہ بگڑنے لگا تو صدر بیمار ہو گئے اور علاج کے لیے دبئی شفٹ ہو گئے یوں ان کی ’’بیماری‘‘ نے معاملات سنبھال لیے۔
صدر زرداری کے دور میں فوج اور آئی ایس آئی ہر معاملے میں آزاد تھی اور صدر زرداری یہ بھی جان گئے تھے‘ میں نے اگر دوسری سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں شریک نہ کیا تو یہ مجھے آرام سے حکومت نہیں کرنے دیں گی چنانچہ زرداری صاحب نے ایم کیو ایم‘ جے یو آئی (ف) اور اے این پی کو اپنا شریک اقتدار بنالیا جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو پنجاب دے دیا‘ پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان خاندانی لڑائی تھی‘ فیصل صالح حیات اور آصف علی زرداری ایک دوسرے کے ذاتی مخالف تھے لیکن زرداری صاحب نے نہ صرف فیصل صالح حیات کو حکومت میں شامل کر لیا بلکہ چوہدری صاحبان کو بھی اقتدار کے کیک کا بڑا حصہ عنایت کردیا‘ یہ پانچ سال تک ایم کیو ایم کے ساتھ بھی کھیلتے رہے‘ ایم کیو ایم آتی رہی‘ جاتی رہی اور پھر آتی رہی‘ جاتی رہی مگر زرداری صاحب نے تعلقات کا دھاگہ نہیں ٹوٹنے دیا۔
مولانا فضل الرحمان بھی تمام تر تحفظات کے باوجود پانچ سال زرداری صاحب سے بندھے رہے‘ صدر آصف علی زرداری کی سیاست صرف یہاں تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ پارٹی کے ساتھ بھی کھیلتے رہے‘ یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ میں پھنسائے رکھا‘ راجہ پرویز اشرف رینٹل پاور پلانٹس میں کرپشن کے الزامات کے ساتھ وزیراعظم بنے‘ مخدوم امین فہیم کے پاس وزارت قبول کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں چھوڑا گیا اور پیچھے رہ گئے چھوٹے دھڑے تو ان میں سے ہر دھڑا مستقبل کا وزیراعظم تھا اور یوں زرداری صاحب پانچ سال پورے کر گئے‘ ملک میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت نے اقتدار دوسری جمہوری حکومت کے ہاتھ منتقل کیا اور یہ زرداری صاحب کی کامیابی تھی۔
میاں نواز شریف اس معاملے میں کمزور نکلے‘ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں 93 نشستیں زیادہ لے کر ایوان میں پہنچے‘ میاں صاحب کے پاس ٹیم بھی اچھی ہے‘ ملک معاشی لحاظ سے بھی ترقی کر رہا ہے‘ میگا پراجیکٹ شروع ہو چکے ہیں‘ لوڈ شیڈنگ میں بھی کمی ہو رہی ہے‘ روزگار اسکیمیں بھی دھڑا دھڑ سامنے آ رہی ہیں‘ لاء اینڈ آرڈر کی حالت بھی بہتر ہے‘ ڈرون حملے بھی بند ہیں‘ طالبان کا زور بھی ٹوٹ رہا ہے اور پاکستان سے مایوس سرمایہ کار بھی واپس آ رہے ہیں چنانچہ اگر دیکھا جائے تو حکومت کی ایک سال کی کارکردگی غیر تسلی بخش نہیں لیکن اس کے باوجود حکومت کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے اور ہر دوسرا شخص پوچھ رہا ہے ’’کیا میاں صاحب پانچ سال پورے کر لیں گے‘‘ یہ سوال اور یہ تلوار ثابت کرتی ہے‘ حکومت کی حکمت عملی میں کہیں نہ کہیں کوئی خرابی موجود ہے۔
یہ لوگ اپنے لیے بلاوجہ مسائل پیدا کر رہے ہیں‘ ان مسائل کی ایک وجہ حکومت کے اندر موجود گروپنگ ہے‘ چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف فوج کے ساتھ بنا کر رکھنا چاہتے ہیں‘ان کا خیال ہے‘ ہمیں طیب اردگان کی طرح پرفارمنس پر توجہ دینی چاہیے‘ ہم نے اگر عوام کی حالت بدل لی تو ہم بڑی آسانی سے جنرل پرویز مشرف جیسے لوگوں کا احتساب کر لیں گے جب کہ خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق جیسے لوگ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ادارے کو ’’مرد کا بچہ‘‘ بنانا چاہتے ہیں‘ حکومت کے ان دونوں دھڑوں کی چپقلش نے حکومت اور فوج کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا‘ وزیراعظم ابھی یہ آگ نہیں بجھا پائے تھے کہ جیو کا تنازعہ پیدا ہوگیا‘ جیو کا تنازعہ 18 اپریل کو دی نیوز اور جنگ میں چھپنے والی ایک چھوٹی سی خبر سے شروع ہوا‘ 17 اپریل کوقومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس تھا۔
اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی کو ارکان کے سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑا‘ مخبروں کا کہنا ہے‘ خواجہ آصف نے اجلاس کی کارروائی حامد میر کو بتائی تھی اور حامد میر نے یہ معلومات جیو کے رپورٹر اعزاز علی سید کو دے دیں‘ اعزاز سید نے خبر فائل کر دی‘ جنگ گروپ نے یہ خبر جنگ اور دی نیوز کے ’’فرنٹ پیج‘‘ پر نمایاں کر کے شایع کر دی‘ یوں ناراضی پیدا ہوگئی‘ 19 اپریل کے واقعے نے اس ناراضی کو بڑھا دیا‘ ڈی جی آئی ایس آئی پر الزام لگا اور یہ الزام معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے گیا‘ ہمارے چند صحافی بھائیوں کی اطلاع کے مطابق حکومت اور جیو گروپ اس معاملے پر ایک پیج پرتھے‘ حکومت نے 19 اپریل کے واقعے کے بعد عدالتی کمیشن بنا دیا‘ حکومت ڈی جی آئی ایس آئی کو معطل کر کے کمیشن کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتی تھی مگر یہ فوج کے رد عمل کی وجہ سے ایسا نہ کر سکی۔
یہ افواہ کس حد تک درست ہے ہم کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے لیکن 19 اپریل سے 20 مئی تک حکومت کا کردار انتہائی معنی خیز رہا‘ فوج کے دبائو کی وجہ سے 22 اپریل کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے وزارت اطلاعات کے ماتحت ادارے ’’پیمرا‘‘ میں جیو کے لائسنس منسوخ کرنے کی درخواست جمع کرا دی‘ یہ حکومت کی ایک وزارت کی طرف سے دوسری وزارت کو درخواست تھی‘ پیمرا کے کل ارکان کی تعداد 12 ہے‘ ان میں سات ارکان سرکاری ہیں‘ یہ ارکان براہ راست حکومت کے ماتحت ہیں‘ پہلی میٹنگ 23 اپریل کو ہوئی‘ اس میٹنگ میں وزارت اطلاعات کے ماتحت ادارے ’’پیمرا‘‘ نے وزارت قانون سے قانونی رائے مانگ لی۔
سینیٹر پرویز رشید بیک وقت اطلاعات و نشریات اور قانون کی وزارت کے وفاقی وزیر ہیں‘ آپ دلچسپ صورتحال ملاحظہ کیجیے‘ حکومت کی ایک وزارت (دفاع) حکومت کی دوسری وزارت(اطلاعات) کو تحریری شکایت کرتی ہے اور دوسری وزارت یہ معاملہ تیسری وزارت(قانون) کی طرف بھجوا دیتی ہے اور دوسری اور تیسری وزارت کے وزیر ایک ہی ہیں‘ 20مئی کو ’’پیمرا‘‘ کی میٹنگ ہوئی‘ سرکاری ارکان میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے‘ پانچ پرائیویٹ ارکان نے میٹنگ کی اور جیو کے تین لائسنس معطل کر دیے‘ پیمرا کے ترجمان نے بعد ازاں اس فیصلے اور اس میٹنگ کو غیر قانونی قرار دے دیا لیکن حکومت اس معاملے سے لاتعلق رہی‘ حکومت آج بھی لاتعلق ہے‘ کیوں لاتعلق ہے؟ پورا ملک اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہے!۔
میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان جیو تنازعے سے قبل 16 اپریل کو اسلام آباد میں میٹنگ ہوئی‘ آصف علی زرداری نے اس میٹنگ میں میاں نواز شریف کو ہر قسم کی لڑائی سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا‘ زرداری صاحب کا کہنا تھا‘ آپ حکومت پر توجہ دیں‘ آپ جنرل پرویز مشرف کو جانے دیں‘ یہ آپ کی حکومت کو لے کر ڈوب جائے گا‘ زرداری صاحب ہی کے مشورے سے جنرل مشرف کو کراچی شفٹ کیا گیا اور اب زرداری صاحب ہی انھیں ملک سے باہر بھجوائیں گے‘ یہ معاملہ یوں نبٹ جاتا لیکن ’’جیو‘‘ کے تنازعے نے حالات مزید خراب کر دیے‘ یہ تنازعہ اب آہستہ آہستہ حکومت کو نگلتا جا رہا ہے‘مجھے کل کوئی صاحب بتا رہے تھے‘ حکومت بیک وقت دونوں فریقین کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
چوہدری نثار فوج کا ساتھ دے رہے ہیں‘ پرویز رشید ’’جیو‘‘ کا سہارا بن کر کھڑے ہیں اور وزیراعظم خاموش بیٹھ کر صورتحال کو ’’انجوائے‘‘ کر رہے ہیں جب کہ میڈیا ایک دوسرے سے دست و گریبان ہے‘ یہ تنازعہ 20 مئی کو ’’پیمرا‘‘کو لے کر بیٹھ گیا‘ یہ اب وزیراطلاعات اور وزیر دفاع کی طرف بڑھ رہا ہے‘ مجھے خطرہ ہے یہ دونوں کہیں اس بے مقصد لڑائی کے شہید نہ بن جائیں !‘ کاش وزیراعظم 19 اپریل کو ایکٹیو ہو جاتے‘یہ اسکرین سے ڈی جی آئی ایس آئی کی تصویر اتروا دیتے‘ یہ 25 اپریل کو بھی ایکٹو ہو جاتے‘ یہ جیو سے معذرت کرواتے اور آئی ایس آئی اور جیو کی صلح کروا دیتے‘ کاش یہ شائستہ واحدی کی غلطی کے وقت ہی ایکٹو ہو جاتے۔
یہ ایک آدھ دن کے لیے جیو کو ’’آف ائیر‘‘ کر دیتے تو فتوئوں کی نوبت نہ آتی اور کاش یہ 20 مئی کو ہی ایکٹو ہو جاتے تو آج پیمرا کی ساکھ متاثر نہ ہوتی مگر وزیراعظم خاموش ہیں اور مجھے خطرہ ہے ان کی خاموشی کہیں پورے نظام کو ’’ڈی ریل‘‘ نہ کر دے اور پاکستان کی آخری منتخب حکومت گھر نہ چلی جائے‘ وزیراعظم کو فوراً اپنی کھچار سے باہر آنا چاہیے اور وزیراعظم اگر اسی طرح انجوائے کرتے رہے تو پورا ملک تباہ ہو جائے گا‘ وزیراعظم اگر اس نازک وقت پر کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں کر پا رہے تو پھر انھیں اپنے چھوٹے بھائی آصف علی زرداری سے مشورہ کر لینا چاہیے کیونکہ آصف علی زرداری لاٹھی بھی بچا لیتے ہیں اور سانپ بھی مار دیتے ہیں‘ یہ میاں نواز شریف سے زیادہ ماہر ہیں۔
وقت کی ٹرین
جاوید چوہدری پير 19 مئ 2014

ہمارے پاس تین آپشن ہیں۔ہمارا پہلا آپشن جمہوریت ہے‘ ہم سب لوگ‘ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اور ہمارے ملکی اور غیر ملکی دوست دل سے یہ مان لیں جمہوریت دنیا کا بہترین اور فعال نظام حکومت ہے اور پاکستان کا مستقبل بھی امریکا‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس‘ جاپان اور بھارت کی طرح اسی نظام میں مضمر ہے اور ہم اس کے بعد ملک کے اندر اور ملک کے باہر سے جمہوریت کو ’’ڈی ریل‘‘ کرنا بند کر دیں‘ پاکستان کا کوئی ادارہ جمہوریت کے خلاف کوئی حرکت کرے اور نہ ہی ہمارے بیرونی دوست اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے مارشل لاء لگوائیں‘ فوج بھی تسلیم کر لے پاکستان کا مقدر بہرحال جمہوریت ہی ہے‘ ہم عوام بھی دل سے مان لیں ہمارے مسائل کے حل پارلیمنٹ کی درازوں میں ہیں اور ہم جب تک اچھی لیڈر شپ کا بندوبست نہیں کریں گے‘ یہ درازیں نہیں کھلیں گی اور ہمارے سیاسی رہنما بھی مان لیں ہم آمر نہیں ہیں‘ ہم قوم کے خادم ہیں‘ ہم نے قوم کو خدمت سے بنانا ہے۔
ہم اگر جمہوریت کا آپشن استعمال کرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے جمہوری نظام میں چند بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی‘ ہمیں سب سے پہلے یہ ماننا ہو گا‘ پاکستان میں جمہوریت بدترین شکل میں نافذ ہے‘ سیاسی جماعتیں سیاسی پارٹیاں نہیں ہیں‘ یہ سیاسی جاگیریں‘ سیاسی فیکٹریاں اور سیاسی کمپنیاں ہیں‘ یہ منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی طرح وراثت میں اگلی نسل کو منتقل ہوتی ہیں‘ ہمارے سیاسی حلقے بھی سیاسی حلقے نہیں ہیں‘ یہ وراثتیں اور گدیاں ہیں‘ معاشرے کے نامعقول‘ جاہل‘ پھڈے باز اور مطلب پرست لوگ اکثر اوقات سیاست کا سہارا لے کر پورے نظام کو ہائی جیک کر لیتے ہیں‘ یہ نظام کے سر پر بیٹھ کر نظام کو تسلیم نہیں کرتے‘ یہ تھانے میں پیش ہونا‘ عدالت کا سامنا کرنا‘ سڑک پر رکنا‘ ٹیکس دینا‘ قطار میں کھڑا ہونا‘ سرکاری اہلکاروں سے انکار سننا‘ بل ادا کرنا اور میرٹ کا خیال رکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں‘ یہ وزارتیں لے لیتے ہیں لیکن ان میں وزیروں جیسی اہلیت نہیں ہوتی‘ یہ کرپشن‘ لوٹ کھسوٹ اور جرائم کو بھی اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ ہوٹر‘ سائرن اور پروٹوکول کو اپنی زندگی کا نصب العین گردانتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا ہمارا الیکشن سسٹم اس قدر کمزور ہے کہ کوئی بھی شخص‘ کوئی بھی ادارہ اور کوئی بھی مالدار پارٹی اسے آسانی سے ’’ہائی جیک‘‘ کرلیتی ہے چنانچہ ہمیں اپنی جمہوریت تبدیل کرنا ہو گی‘ ہمیں پارٹیوں کو خاندانوں کے پنجے سے آزاد کرانا ہو گا‘ ہمیں حلقوں کو بھی وراثت کے چنگل سے چھڑانا ہو گا‘ ہمیں الیکشن کمیشن میں بھی بھارت جیسی اصلاحات کرنا ہوں گی اور ہمیں ایک ایسا معاشرتی سسٹم بھی بنانا ہو گا جس کی چھلنی سے صرف ایسے لوگ چھن کر پارلیمنٹ ہاؤس پہنچیں جن کی ایمانداری‘ حب الوطنی‘ دانش مندی‘ ذہانت‘ فطانت اور قانون پرستی کی قسم کھائی جا سکے۔
جو مطالعے میں پروفیسر‘ فیصلوں میں جرنیل‘ گفتگو میں وکیل‘ صحت میں مسٹر پاکستان اور شرافت میں ولی ہوں اور جن کے کریکٹر کو بڑے سے بڑے دشمن بھی مانتے ہوں اور ہمیں اگر اس کے لیے پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی طرف بھی جانا پڑے تو ہمیں دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر سیاستدانوں کو سینیٹ کو اعلیٰ ترین دماغوں کا کلب بنا دینا چاہیے‘ سینیٹ میں صرف شاندار دماغ جا سکیں‘ کابینہ کے لیے وفاقی وزراء سینیٹ سے لیے جائیں جب کہ وزیر مملکت قومی اسمبلی سے منتخب کیے جائیں‘ یوں بھی معاملہ خاصی حد تک کنٹرول میں آ جائے گا‘ ہم نے اگر فوری طور پر یہ نہ کیا تو پھر ملک میں جمہوریت بچانا مشکل ہو جائے گا کیونکہ یہ جمہوریت ملک کو نااہلی‘ کرپشن‘ فساد اور خاندانی آمریت کے سوا کچھ نہیں دے رہی‘ یہ حکمرانی کا تاج بادشاہوں کے نااہل بچوں کے سروں پر رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی!۔
ہمارا دوسرا آپشن فوج ہے‘ فوج بلاشبہ ملک کا منظم ترین ادارہ ہے‘ یہ اپنے افسروں کو جسمانی ٹریننگ بھی دیتی ہے اور ذہنی بھی۔ افواج پاکستان کے 95 فیصد افسر ایکسرسائز بھی کرتے ہیں‘ کتابیں بھی پڑھتے ہیں‘ لیڈر شپ کے کورسز بھی کرتے ہیں‘ سیاسی‘ سفارتی اور سماجی موضوعات پر لیکچر بھی اٹینڈ کرتے ہیں اور ملک کے اندر اور بیرون ملک تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں‘ ہمیں یہ ماننا پڑے گاملکی نظام ڈھیلا ہونے کے باوجودفوج میں آج بھی احتساب‘ ٹریننگ اور میرٹ موجود ہے۔
فوج میں جنرل کا بیٹا ہو یا صوبیدار کا یہ ایک ہی عمل سے گزر کر افسر بنتا ہے‘ ملک کے 99 فیصد آرمی چیف مڈل کلاس کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور یہ بڑی جدوجہد کے بعد اعلیٰ ترین منصب پر پہنچے تھے‘ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا ملک میں کرپشن کلچر کے باوجود فوجی افسر اتنے کرپٹ نہیں ہیں جتنے دوسرے شعبوں کے لوگ ہوتے ہیں‘ ہم جنرل پرویز مشرف کے خلاف ہیں لیکن ہمیں تمام تر مخالفت کے باوجود ان کی ’’کمیونیکیشن سکل‘‘ کا اعتراف کرنا پڑے گا‘ یہ جس طرح میڈیا اور بین الاقوامی فورمز سے مخاطب ہوتے تھے‘ ہمارا کوئی دوسرا لیڈر اس گھن گرج اور دلیل سے بات نہیں کر سکتا اور یہ جس طرح بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے رہے ہیں‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اس طرح ہارورڈ اور سٹین فورڈ یونیورسٹی میں کھڑے نہیں ہو سکتے‘ فوج آج بھی ملک کے لیے قربانیاں دے رہی ہے‘ یہ قربانیاں بارڈر پر ہوں یا پھر بارڈر کے اندر ہمیں بہرحال یہ قربانیاں بھی تسلیم کرنا پڑیں گی چنانچہ فوج دوسرا آپشن ہے۔
فوج پانچویں مرتبہ بھی ملک کی عنان اقتدار سنبھال سکتی ہے لیکن یہ عنان پچھلی چار عنانوں سے مختلف ہونی چاہیے‘ فوج کو اقتدار میں آنے سے قبل یہ ماننا ہو گا ملک آج جس نہج تک پہنچا اس کی 80 فیصد ذمے داری فوج پر عائد ہوتی ہے‘ ملک کے ہر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے ذاتی اقتدار کے دوام کے لیے سیاسی جماعت بنائی‘ اس شاہی جماعت نے بعد ازاں ملک سے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا‘ ہمارے یونیفارم صدور اپنے جونیئرز کا حق بھی مار کر بیٹھ گئے اور یوں فوج دس سال بعد اپنے حق کے لیے ان کی قربانی دینے پر مجبور ہو گئی چنانچہ فوج کو پانچویں مرتبہ آنے سے قبل چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے‘ فوجی آمر اقتدار میں آنے کے بعد یونیفارم اتار دے تا کہ اسے یونیفارم بچانے کے لیے پی سی اوز‘ سمجھوتے‘ ایل ایف اوز اور آئین میں بڑی تبدیلیاں نہ کرنی پڑیں‘ یہ حکمران کوئی کنگز پارٹی نہ بنائے‘ فوج اس کی واحد پارٹی ہو‘ یہ سول اداروں میں فوجی بھی تعینات نہ کرے کیونکہ اس سے فوج کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔
فوجی آمر تیس سال تک واپس نہ جائے‘ یہ ان تیس برسوں میں ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کو ڈویلپ ہونے دے‘ ان جماعتوں کو بلدیاتی نظام سے اٹھایا جائے‘ انھیں چھوٹے شہروں اور قصبوں کو ڈویلپ کرنے کا کام دیا جائے‘یہ پولیس اور عدالتوں کا نظام بہتر بنائے‘ ملک میں رول آف لاء ہو‘ تعلیم‘ صحت‘ قانون اور روزگار پر خصوصی توجہ دی جائے‘ سول سروس کو دوبارہ قدموں پر کھڑا کیا جائے اور جب یہ تمام کام ہو جائیں تو ایک جامع عمل کے ذریعے اقتدار سیاستدانوں کو منتقل کر دیا جائے‘ یہ فیصلہ بھی کر لیا جائے فوجی حکمران کے خاندان کا کوئی فرد سیاست‘ صنعت اور کاروبار میں نہیں آئے گا‘ یہ عام پاکستانیوں کی طرح زندگی گزاریں گے‘ فوج اگر یہ فیصلہ کر لے تو درست بصورت دیگر پانچواں مارشل لاء اس ملک کا آخری مارشل لاء ثابت ہو گا کیونکہ اس کے بعد مارشل بچے گا اور نہ ہی لاء۔
ہمارے پاس تیسرا اور آخری آپشن مذہبی جماعتیں ہیں‘ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے ملک پچھلے دس برسوں میں عسکری تنظیموں کے ہاتھوں میں منتقل ہو چکا ہے‘ جب جی ایچ کیو‘ مہران نیول بیس اور کامرہ ائیر بیس کا محاصرہ ہو جائے‘ جب دو بڑی جیلیں ٹوٹ جائیں‘ جب ہیوی مینڈیٹ نامعلوم شخص کے ایک خط پر پھانسی کی سزائیں معطل کر دے اور جب ریاست کمزور پوزیشن سے مذاکرات شروع کر دے تو پھر انکار کی کیا گنجائش بچتی ہے‘ ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا ملک کی کوئی سیاسی جماعت مذہبی دھڑوں کی حمایت کے بغیر اقتدار تک پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی اقتدار سلامت رکھ سکتی ہے‘ مذہبی جماعتیں عوام میں بے انتہا پذیرائی رکھتی ہیں‘ آج کسی ایک مکتبہ فکر کی کوئی جماعت کال دیتی ہے تو پورا ملک بند ہو جاتا ہے۔
کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کا ہولڈ تھا‘ ملک کی کوئی سیاسی جماعت یہ ہولڈ نہیں توڑ سکی‘اگر اس ہولڈ کو کسی نے چیلنج کیا تو یہ مذہبی جماعتیں ہیں‘ ملک میں اگر ایک مذہبی جماعت فتویٰ جاری کر دے تو جیو جیسا چینل بھی بند ہو جاتا ہے‘ یہ لوگ اسٹریٹ پاور بھی رکھتے ہیں‘ طاقت بھی اور اثر و رسوخ بھی۔ یہ ملک میں اسلامی شریعت بھی نافذ کرنا چاہتے ہیں اور جس دن انھوں نے شریعت کے نفاذ کا فیصلہ کرلیا یہ کام اس دن ہو جائے گا اور کوئی ملکی اور غیر ملکی طاقت اسے ہونے سے روک نہیں سکے گی‘ ہمارے پاس یہ آپشن بھی موجود ہے‘ ہم ملک ان کے حوالے کر دیں مگر ہمیں اس سے قبل بھی چند بڑے فیصلے کرنا پڑیں گے۔
ہمارے علماء کو اپنے فروعی اختلافات ختم کرنے پڑیں گے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہومذہبی جماعتوں کے قبضے کے بعد ملک مسلکوں اور فرقوں میں تقسیم ہو جائے اور یہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جائیں‘ ہمیں اس سے قبل اپنے ایٹمی اثاثوں‘ بین الاقوامی معاہدوں‘ 20کروڑ لوگوں کی خوراک‘ ادویات‘ پانی اور بجلی اور فارن ریزروز‘ انٹرنیشنل فلائیٹس‘گیس اور پٹرول کا بندوبست بھی کرنا ہوگا کیونکہ دنیا انقلاب کے آدھ گھنٹے بعد ہم سے یہ ساری سہولتیں چھین لے گی۔
ہمیں اس سے قبل اپنے دو خوفناک ہمسائیوں عبداللہ عبداللہ اور نریندر مودی سے بچاؤ کا بندوبست بھی کرنا ہوگا کیونکہ یہ دونوں اور ان دونوں کے ملک ہمیں زیادہ مہلت نہیں دیں گے اور ہمیں سب سے بڑھ کرملک چلانے کے لیے دو کروڑ پڑھے لکھے ہنر مندوں کی ضرورت بھی پڑے گی‘ ہمیں ان کا بندوبست بھی کرنا پڑے گا اور ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا ہمیں جب اپنے برادر اسلامی ملک تسلیم کرنے سے انکار کردیں گے تو ہم سفارتی دباؤ میں آئیں گے اور یہ سفارتی دباؤ ہمیں ’’گلوبل ویلج‘‘ میں اکیلا کردے گا‘ ہم سفارتی تنہائی سے کیسے نکلیں گے؟۔
ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں‘ ہمیں فوری طور پر ایک آپشن اٹھانا ہو گا‘ ہم نے اگر دیر کردی تو ہمارے پاس یہ آپشن بھی نہیں بچیں گے کیونکہ فرد ہوں یا قومیں وقت کی ٹرین زیادہ دیر تک انتظار نہیں کیا کرتی۔

اصل حکمران
جاوید چوہدری اتوار 18 مئ 2014

آپ پہلی حقیقت ملاحظہ کیجیے۔
ملک میں18 فروری 2008ء کو الیکشن ہوئے‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے مل کر حکومت بنائی‘ عوام نے دل کھول کر اس اتحاد کی تعریف کی‘ عدلیہ کی بحالی پر زرداری صاحب اور میاں صاحب کے درمیان اختلاف پیدا ہوا‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری دبئی میں جیو ٹیلی ویژن کے پروگرام ’’میرے مطابق‘‘ میں شریک ہوئے‘ یہ پروگرام اس وقت ڈاکٹر شاہد مسعود کرتے تھے‘ پروگرام میں آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کے ساتھ عدلیہ کی بحالی کے معاہدے کو سیاسی وعدہ قرار دے دیا۔
یہ سات لفظوں کا فقرہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا جنازہ ثابت ہوا‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا اتحاد ٹوٹ گیا‘ اتحاد ٹوٹتے ہی جیو ٹیلی ویژن نے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی ملاقاتوں کے مختلف کلپ لیے اور ان پر ’’کیا ہوا تیرا وعدہ‘‘ کا گانا چلانا شروع کردیا تھا‘ یہ جمہوری لیڈروں کی تذلیل کا نقطہ آغاز تھا‘ جیو ٹی وی پاکستان میں میڈیا کا لیڈر تھا‘ یہ جو کرتا تھا باقی چینل اس کی پیروی کو اپنا فریضہ سمجھتے تھے چنانچہ ملک کے دوسرے چینلز نے بھی لیڈروں کا مذاق اڑانا شروع کردیا‘ ٹیلی ویژن اسکرین پر گانے بھی چلے‘ کارٹون بھی بنے اور ان کے پرانے کلپ بھی نئے کانٹیسٹ میں دکھائے گئے‘ آصف علی زرداری صدر بنے تو جیو نے این آر او کا ایشو اٹھایا۔
سوئس اکائونٹس کا پنڈورا باکس کھولا ‘ ججز کی بحالی کی تحریک بھی چلائی‘ جمہوری حکومت کے تمام تر دبائو‘ منتوں اور ترغیبات کے باوجود یہ تحریک جاری رہی‘ یہاں تک کہ حکومت میڈیا‘ وکلاء‘ اپوزیشن اور سول سوسائٹی کے سامنے سرنگوں ہوگئی‘ یوسف رضا گیلانی ملک کے پہلے متفقہ وزیر اعظم تھے۔ ’’جیو‘‘ نے درجنوں مرتبہ ان پر گانے چلائے‘ ان کی ڈمی بنا کر دکھائی گئی‘ سیاسی مزاح پر پروگرام بنائے اور دکھائے‘ بریکنگ نیوز کا سیلاب آیا اور یہ سیلاب ہر بار حکومت کا کوئی نہ کوئی ادارہ بہا کر لے گیا‘ حج سکینڈل آیا‘ ایفی ڈرین سکینڈل آیا‘ ای او بی آئی سکینڈل آیا‘ میمو سکینڈل آیا اور رینٹل پاور پلانٹس کا ایشو آیا۔
میڈیا کی مہم جوئی کی وجہ سے اس دوران سپریم کورٹ نے ایک وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو فارغ کردیا جب کہ دوسرے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی نااہلی کے احکامات جاری ہونے لگے‘ یہ سیاسی تذلیل کا پانچ سالہ دور تھا جس میں آصف علی زرداری اور ان کے ساتھی بھی نشانہ بنے‘ میاں نواز شریف بھی اور چاروں صوبوں کی سیاسی حکومتیں بھی۔ ’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی‘‘ یہ شاہکار اسی دور کی مہربانی تھا‘ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت تھی سیاسی قیادتیں 2008ء سے لے کر 2013ء تک میڈیا سے تنگ تھیں‘ یہ میڈیا کو پابند کرنا چاہتی تھیں۔
یہ میڈیا کیلیے ضابطہ اخلاق بھی بنانا چاہتی تھیں اور یہ ’’ریڈ لائین‘‘ پر قدم رکھنے والے اینکرز اور صحافیوں پر بھی پابندی لگانا چاہتی تھیں لیکن یہ لوگ شدید ترین خواہش کے باوجود جیو کے خلاف اپنی ہی وزارت اطلاعات کے ماتحت ادارے ’’ پیمرا‘‘ میں ایک درخواست تک جمع نہیں کرا سکے‘ یہ کیبل آپریٹرز کو کسی میڈیا گروپ کے خلاف استعمال نہیں کر سکے‘ صدر آصف علی زرداری کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت آ گئی۔
اقتدار کی اس تبدیلی کے دوران تذلیل اور مذاق کا تاج میاں نواز شریف کے سر پر آ گیا‘ میاں نواز شریف کے کلپس اور ان کلپس پر گانے چلتے رہے‘ میاں صاحب کی حکومت کو ایک سال گزر گیا‘ یہ بھی میڈیا کو ضابطہ اخلاق کا پابند کرنا چاہتے تھے مگر یہ بھی میڈیا کو اخلاق کے دائرے میں نہ لا سکے‘ یہ خواہش کے باوجود میڈیا کو پسپا ہونے پر مجبور نہ کر سکے‘ میاں صاحب نے زیادہ سے زیادہ یہ کیا‘ یہ بھی پیپلز پارٹی کی طرح ناپسندیدہ چینلز اور اینکرز کا بائی کاٹ کر کے بیٹھ گئے اور بس۔
آپ اب دوسری حقیقت ملاحظہ کیجیے‘ ملک کے مشہور اینکر پرسن حامد میر پر 19 اپریل 2014ء کو کراچی میں حملہ ہوا‘ یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ تھا۔ ’’جیو‘‘ نے خصوصی ٹرانسمیشن شروع کی‘ ٹرانسمیشن کے دوران حامد میر پر حملے کو آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ ’’جیو‘‘ کے دو سینئر کارکنوں نے آئی ایس آئی کے چیف جنرل ظہیر الاسلام سے استعفیٰ مانگ لیا‘ چینل نے جنرل ظہیر الاسلام کی تصویر اسکرین پر لگائی اور ساڑھے آٹھ گھنٹے تک یہ تصویر اسکرین پر ’’چسپاں‘‘ رہی۔
فوج اور آئی ایس آئی کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا مگر جنگ گروپ اپنی غلطی پر اڑ گیا‘ شروع میں اپنی غلطی کو ذمے دارانہ صحافت قرار دیتا رہا‘ جب حکومت کو محسوس ہوا جنگ گروپ غلطی پر ہے تو وزارت دفاع نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے دستخطوں کے ساتھ ’’پیمرا‘‘ میں ’’جیو‘‘ کی بندش کی درخواست دائر کر دی‘ میڈیا جیو کی بندش پر تقسیم ہوا‘ پرائیویٹ چینلز کی اکثریت نے ’’جیو‘‘ کے خلاف خبریں چلانا شروع کر دیں‘ سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی تقسیم ہوئیں‘ یہ بھی ’’جیو‘‘ کے خلاف سڑکوں پر آ گئیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی ’’جیو‘‘ کی محتاط مخالفت کرنے لگی جب کہ ایم کیو ایم اور پاکستان تحریک انصاف نے جیو کے خلاف ’’بولڈ‘‘ اسٹینڈ لے لیا‘ عمران خان نے جیو‘ جنگ اور میر شکیل الرحمن کو للکارنا شروع کر دیا۔
’’جیو‘‘ کی بندش شروع ہوگئی‘ چھائونیوں‘ ڈی ایچ ایز‘ سرکاری اداروں اور عام گھروں میں چینل بند ہوگیا‘ یہ سلسلہ پچھلے 28 دنوں سے جاری ہے لیکن جنگ گروپ نے ابھی تک اپنی غلطی تسلیم نہیں کی‘ یہ آج بھی 19 اپریل کی کوریج کو ذمے دارانہ صحافت قرار دے رہا ہے‘ یہ آج بھی اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے‘ اس دوران ملک ریاض کی مداخلت سے جیو اور فوج کے درمیان صلح کا امکان پیدا ہوا۔
جنگ گروپ افواج پاکستان سے تحریری معذرت کیلیے تیار ہو گیا لیکن پھر جنگ گروپ کی انتظامیہ نے سوچا ہم اپنے اس کارکن کو کیا منہ دکھائیں گے جو ادارے کی وجہ سے سڑکوں‘ پریس کلبوں اور دوسرے ٹیلی ویژن چینلز پر لڑائی کر رہا ہے چنانچہ انھوں نے حتمی صلح سے قبل معذرت سے انکار کردیا‘ آپ ملاحظہ کیجیے‘ یہ میڈیا گروپ اپنی غلطی کے باوجود پاکستان کے اس منظم ترین اور مضبوط ترین ادارے کے سامنے ڈٹ گیا جو آج تک درجنوں حکومتوں کو گھر بھجوا چکا ہے‘ جس کے سامنے کسی سیاسی جماعت کو دم تک مارنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
اور آپ اب تیسری حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے‘ شائستہ واحدی ستمبر 2010ء سے جیو ٹیلی ویژن پر مارننگ شو کر رہی ہیں‘ یہ مارننگ شو پروگرام کم اور سماجی کامیڈی زیادہ ہوتا ہے‘ اس میں بس لائیو طلاقوں‘ لائیو خود کشیوں اور لائیو آبرو ریزیوں کی کمی ہے جب کہ باقی تقریباً تمام کارنامے سرانجام پا چکے ہیں‘ ملک کے زیادہ تر شو غیر سنجیدگی‘ بے ترتیبی اور بے ہودگی کا عظیم شاہکار ہوتے ہیں لیکن شائستہ واحدی اکثر اوقات پہلی پوزیشن حاصل کرلیتی ہیں‘ شائستہ واحدی نے 14 مئی کے شو میں وینا ملک اور ان کے شوہر اسد بشیر خٹک کو (نعوذ باللہ) حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت علی ؓ سے تشبیح دے ڈالی‘ یہ ناقابل برداشت توہین تھی‘ یہ خبر جوں ہی سوشل میڈیا پر آئی لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔
سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے اس گستاخی کے خلاف 15 مئی کو پریس کانفرنس کی اور جیو کو دیکھنا حرام قرار دے دیا‘ یہ فتویٰ آنے کی دیر تھی ’’جیو‘‘ نے فوراً شائستہ واحدی اور اس کی پوری ٹیم کو معطل کردیا‘ چینل کو سب سے زیادہ منافع دینے والا مارننگ شو بند کردیا اور قوم سے معافی کا طلب گار ہوگیا‘ جنگ گروپ پچھلے چار دنوں سے روزنامہ جنگ‘ دی نیوز اور جیو کے تینوں ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے قوم سے معافی مانگ رہا ہے‘ یہ ہر پندرہ منٹ بعد اسکرین پر حدیث مبارکہ دکھاتا ہے اور ساتھ ہی معافی مانگتا ہے‘ اشتہارات بھی دیئے جا رہے ہیں‘ علماء کرام سے معافی کی فضیلت کے بارے میں فتوے بھی لیے جا رہے ہیں اور ملک کے مقبول ترین اینکر پرسن عامر لیاقت حسین کے ذریعے احد کے میدان سے قوم سے درگزر کی درخواست بھی کی جا رہی ہے‘ آپ ملاحظہ کیجیے۔
جیو کو دو جمہوری اور منتخب حکومتیں لیڈروں کی تصویروں پر گانے چلانے‘ ان کے سکینڈل بنانے اور سپریم کورٹ کو ’’ایکٹو‘‘ کرنے سے نہیں روک سکیں یہاں تک کہ انھوں نے ایک وزیر اعظم قربان کر دیا اور دوسرے کے سر پرمعطلی کی تلوار تاننے کی اجازت دے دی‘ فوج جیسا مضبوط ادارہ بھی جیو اور جنگ سے معذرت نہیں کروا سکا مگر یہ ادارہ صرف ایک فتوے کے سامنے اس قدر ڈھیر ہو گیا کہ یہ معافی مانگتے ہوئے نہیں تھک رہا‘ یہ معافی کے بدلے ہر قسم کا ہرجانہ تک ادا کرنے کیلیے تیار ہے۔
آج اگر میر شکیل الرحمان سے کہا جائے آپ اعلان کر دیں‘ آپ روزانہ ہزار بکروں کی قربانی دیں گے اور یہ قربانی دس سال تک جاری رہے گی تو مجھے یقین ہے میر صاحب یہ شرط تسلیم کرتے ہوئے پانچ منٹ لگائیں گے‘ یہ فتوئوں سے بچنے کیلیے اپنے گروپ کے تمام لوگوں کو عمرہ اور حج تک کروا دیں گے چنانچہ پھر آپ خود فیصلہ کر لیجیے‘ اس ملک کے اصل حکمران کون ہیں‘ ملک کی اصل طاقت کس کے ہاتھ میں ہے اور آپ جب تک اس بات کا فیصلہ نہیں کریں گے آپ اس وقت تک ملک کی سمت درست نہیں کر سکیں گے‘ آپ اپنا مستقبل کاشت نہیں کر سکیں گے۔

شاندار ترین انتخابی اصلاح
جاوید چوہدری جمعـء 16 مئ 2014
شیئر

اور ہمارے انتخابی نظام کی سب سے بڑی خامی امیدوار ہیں‘ پاکستان کے انتخابی حلقوں کا 85فیصد حصہ آج بھی دیہات پر مشتمل ہے اور دیہات میں ذات‘ برادری اور دھڑے بندی کا عفریت 2014ء میں بھی حکمرانی کر رہا ہے‘ آپ اگر ن لیگ میں چلے جاتے ہیں تو آپ کا مخالف پاکستان پیپلزپارٹی یا پاکستان تحریک انصاف میں پناہ لے گا‘ آپ پاکستان پیپلز پارٹی میں آ جائیں گے تو آپ کا مخالف دھڑا پاکستان مسلم لیگ ن جوائن کر لے گا‘ آپ اگر سیاسی پارٹی ہیں تو آپ کو بھی حلقے کے کسی ایک مضبوط دھڑے یا برادری کو ٹکٹ دینا پڑیگا۔
آپ 2013ء کے الیکشن کا تجزیہ کر لیجیے‘ پاکستان مسلم لیگ ن نے پچھلے سال 129سیٹس حاصل کیں‘ اس ہیوی مینڈیٹ کی تین وجوہات میں سے ایک وجہ ٹکٹوں کی تقسیم تھی‘ ن لیگ پے درپے الیکشنوں کے بعد حلقوں کی سیاست سمجھ گئی ہے چنانچہ اس نے ٹکٹ جاری کرتے وقت حلقے کی بڑی برادریوں کو ذہن میں رکھا‘ علاقے میں راجپوت زیادہ ہیں تو ٹکٹ راجپوتوں کو ملا‘ گجر زیادہ ہیں تو ٹکٹ گجروں کو عنایت ہوا‘ جاٹوں کے علاقے میں جاٹ‘ آرائیوں کے علاقے میں آرائیوں اور سیدوں کے علاقے میں شاہ صاحب کو ٹکٹ دیا گیا‘ ٹکٹوں کی تقسیم میں علاقے کے مذہبی رجحانات کو بھی مدنظر رکھا گیا‘ سنی اکثریت کے علاقے میں سنی کوٹکٹ ملا اور شیعہ اکثریتی علاقے میں شیعہ امیدوار کو ٹکٹ دیا گیا ‘ میاں صاحب کا یہ طریقہ کار کارآمد ثابت ہوا۔
یہ المیہ صرف حکمران جماعت تک محدود نہیں‘ ملک کی دوسری سیاسی جماعتیں بھی سیاست کی ان حقیقتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی قدیم جب کہ پاکستان تحریک انصاف جدید ترین جماعت ہے‘ عمران خان انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر میدان میں آئے تھے لیکن آپ کو ان کے اردگرد بھی وہ لوگ نظر آئیں گے جو اپنے حلقے میں بھی مضبوط ہیں اور جن کے خاندان دہائیوں سے سیاست کے کاروبار سے وابستہ ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء میں کھمبوں کو ٹکٹ دیے لیکن وہ بھی جلد روایتی اور علاقائی سیاست کے سامنے پسپا ہوگئے‘ یہ روایت ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو اور داماد آصف علی زرداری نے بھی جاری رکھی۔
ملک میں صرف ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی اس بلیک میلنگ سے پاک ہے لیکن آپ اس کا نتیجہ ملاحظہ کیجیے‘ ایم کیو ایم کراچی اور حیدر آباد تک محدود ہے‘ یہ اپنی پالیسی کی وجہ سے سندھ تک میں اپنی جڑیں نہیں پھیلا سکی‘ یہ جس دن ملک گیر جماعت بننے کا فیصلہ کرے گی اسے اس دن حلقوں میں موجود دھڑوں اور برادریوں کے سامنے سر جھکانا پڑے گا‘ اسے اس دن ’’متوسط طبقے کی قیادت‘‘ کا نعرہ بھلانا پڑے گا‘ پیچھے رہ گئی جماعت اسلامی تو آپ اس کی سیاست کا حشر بھی دیکھ لیجیے‘ جماعت اسلامی عموماً پڑھے لکھے‘ ایماندار اور شفاف ماضی کے حامل امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہے‘ اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہےاس کے 80فیصد امیدوار الیکشن ہار جاتے ہیں اور یہ پارلیمنٹ میں زندہ رہنے کے لیے آئی جے آئی جیسے سہارے لینے پر مجبور ہو جاتی ہے.
آپ پھر خود سوچئے‘ سیاست میں جب امیدوار کی واحد کوالی فکیشن اس کی ذات‘ اس کی برادری اور اس کا دھڑا ہوگا تو پھر آپ کو اچھا امیدوار‘ اچھی قیادت کہاں سے ملے گی؟ اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے دھڑے‘ برادری اور ذات کی موجودگی میں میرٹ ہو سکتا ہے‘ ایمانداری‘ کردار اور نہ ہی عدل‘ قانون اور انصاف۔ آپ جب کسی دھڑے کا حصہ بنتے ہیں یا وہ دھڑا آپ کی کامیابی کی بنیاد بنتا ہے تو پھر آپ اقرباء پروری بھی کرتے ہیں‘ میرٹ کی دھجیاں بھی بکھیرتے ہیں‘ آپ اپنے دھڑے کے گندے انڈوں کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔
ان کے پرچے بھی خارج کرواتے ہیں اور آپ انھیں عدالتوں سے بھی بچاتے ہیں اور آپ کوان تمام دھندوں کے لیے اپنا ایس ایچ او بھی چاہیے ہوتا ہے‘ پٹواری بھی‘ تحصیلدار بھی‘ سول جج بھی اور امام مسجد بھی۔ آپ میڈیا سے بچنے کے لیے اپنے علاقے میں اخبارات اور ٹیلی ویژن کے نمایندے بھی اپنے رکھوا لیتے ہیں اور آپ کو یہ سارے کام کرنے کے لیے ایک خاص نوعیت کا مائینڈ سیٹ درکار ہوتا ہے‘ ایک ایسا مائینڈ سیٹ جو جہالت‘ جرم‘ برائی‘ بے انصافی‘ جھوٹ‘ اقرباء پروری‘ فرقہ واریت اور ظلم کو برا نہ سمجھے اور آپ اس مائینڈ سیٹ میں لوگوں کی غلطیوں اورجرائم کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ میرے بندے کا جرم اور مخالف کے بندے کا جرم۔
اور انسان جب کردار کی اس نچلی سطح پر جاتا ہے تو پھر اسے دوسروں کا کتا کتا اور اپنا کتا ٹامی دکھائی دینے لگتا ہے اور ہماری سیاست بری طرح اس ٹامی ازم کا شکار ہے‘میرا دعویٰ ہے اگر ملک میں آج اسلامی انقلاب آ جائے تو اس انقلاب کو بھی کسی نہ کسی وٹو‘ چوہدری‘ وڑائچ‘ گجر‘ شیخ‘ مخدوم‘ سید‘ خواجہ اور خان کی ضرورت پڑ جائے گی اور اسلامی انقلاب کے ان علم برداروں کا تعلق بھی ن لیگ‘ ق لیگ‘ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے ان بزرگوں کے ساتھ ہو گا جن کے ظلم کے رد عمل میں اسلامی انقلاب جنم لے گا۔
ملک میں جب ایوب خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے مضبوط لوگ حلقوں کی ذات‘ برادریوں اور دھڑوں کے ہاتھوں اپنی وردیاں اتروا بیٹھے ہیں تو پھر یہ سیاسی جماعتیں کس کھیت کی مولی ہیں‘ سیاست میں ذات برادری اس قدر مضبوط ہے کہ اگر جمشید دستی جیسا غریب آدمی بھی سیاست میں آئے تو اسے کامیابی کے لیے غربت کو اپنی برادری ڈکلیئر کرناپڑتا ہے اور مولانا فضل الرحمن کلین شیو اکرم درانی کو ہلکی سی داڑھی رکھوا کر خیبر پختونخواہ میں اپنا وزیراعلیٰ بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہ خرابی اگر یہاں تک رہتی تو شاید یہ اتنا خطرناک نہ ہوتا لیکن سیاسی دھڑوں نے اسے مزید برا‘ مزید بدبودار بنا دیا‘ یہ لوگ سیاست کی نکیل اپنے خاندان کے جاہل ترین‘ ظالم ترین اور بدکردار ترین نوجوان کے حوالے کرتے ہیں‘ آپ کسی سیاسی خاندان کا پروفائل نکال کر دیکھ لیجیے‘ آپ کو اس میں پڑھے لکھے لوگ بھی ملیں گے‘ اس میں ڈاکٹر بھی ہوں گے‘ انجینئر بھی‘ وکیل بھی‘ بزنس مین بھی‘ پروفیسر بھی اور عالم دین بھی مگر یہ لوگ سیاست کا قلم دان خاندان کے نالائق‘ ان پڑھ‘ جرائم پیشہ اور بدمعاش بچے کے حوالے کریں گے۔
چنانچہ اس روایت کے نتیجے میں ہماری پارلیمنٹ ہر دور میں ایسے لوگوں کا جمعہ بازار بن جاتی ہے جنھیں کھانے کی تمیز ہوتی ہے‘ بیٹھنے اور اٹھنے کی‘ چلنے پھرنے کی اور نہ ہی بولنے کی‘ یہ زندگی میں اپنا اشتہار تک نہیں پڑھتے‘ ان میں سے ننانوے فیصد لوگ پوری زندگی آئین کا مطالعہ نہیں کرتے اور یہ لوگ اگر وزیر بن جائیں تو ان کی وزارتی صلاحیت صرف دستخط کرنے اور اپنے دھڑے کے نالائق لوگوں کو نوکریاں‘ ٹھیکے اور مراعات دینے تک محدود ہوتی ہے لہٰذا آپ جب تک سیاست کو اس ذات برادری اور دھڑے سے پاک نہیں کرتے‘ آپ خواہ کچھ بھی کر لیں‘ آپ خواہ امریکا‘ کینیڈا‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس اور بھارت جیسا الیکشن کمیشن بنا لیں۔آپ ملک میں فیئر‘ فری اور ٹرانسپیرنٹ الیکشن نہیں کرا سکیں گے اور آپ نے اگر کروا بھی لیے تو بھی قوم اسی زیرو پوائنٹ پر کھڑی ہو گی‘ کیوں؟ کیونکہ الیکشنوں کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے’’ اچھی حکومت‘‘ اور آپ ملک میں خواہ کتنا ہی صاف اور شفاف الیکشن کروا لیں آپ کی پارلیمنٹ تک یہی لوگ پہنچیں گے‘ آپ ایک اسمبلی کے مخدوموں‘ سیدوں‘ میائوں‘ خواجوں‘ سائیوں‘ گجروں‘ وڑائچوں‘ وٹووئں اور چوہدریوں سے جان چھڑانے کے لیے الیکشن کرائیں گے اور آپ کو اگلی اسمبلی میں بھی چوہدری‘ وٹو‘ وڑائچ‘گجر‘ سائیں‘ میاں‘ خواجے‘ سید اور مخدوم نظر آئیں گے‘ فرق صرف ’’میرا وٹو اور تیرا وٹو‘‘ کا ہوگا۔
میں اس ملک کے حکمرانوں کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں‘ یہ اگر ملک سے دھڑے بندی‘ ذات اور برادری کا ڈنک نکالنا چاہتے ہیں تو یہ سرکاری سطح پر ناموں سے برادریوں کا سابقہ یا لاحقہ ختم کرنے کا سلسلہ شروع کریں‘ آپ اعلان کردیں ملک میں اس وقت تک کوئی شخص سیاست میں حصہ نہیں لے سکے گا وہ جب تک اپنے نام سے وٹو‘ خواجہ‘ بٹ‘ میاں‘ زرداری‘ ہاشمی اور مخدوم اور قریشی کا سابقہ اور لاحقہ نہیں ہٹاتا‘ آپ اس وقت تک کوئی ڈگری نہیں لے سکتے‘ آپ سرکاری اور غیر سرکاری جاب نہیں کرسکتے‘ جب تک آپ اپنے نام سے اپنی برادری‘ شہر‘ قبیلے اور فرقے کی شناخت نہیں ہٹاتے۔
خدا کی پناہ ہم بندے سے بعد میں ملتے ہیں اور ہمیں اس کی ذات‘ برادری‘ علاقے‘ سماجی حیثیت اور فرقے کا علم پہلے ہو جاتا ہے‘ یہ کتنی بدقسمتی ہے‘ میاں نواز شریف کی وجہ سے آدھا لاہور میاں ہو جاتا ہے اور باقی لاہور خواجہ‘ بٹ اور امرتسری بن جاتا ہے‘ یہ بدعت اعلیٰ سرکاری افسروں میں بھی موجود ہے‘ آپ کسی دفتر میں داخل ہوجائیں اورافسروں کی نیم پلیٹس پڑھنا شروع کر دیں‘ آپ ملاقات کے بغیر ان سب کی خاندانی‘ سیاسی اور سماجی حیثیت سے واقف ہو جائیں گے‘ آپ کو ڈیوڈ کیمرون اور اینجلا مرکل کے ناموں سے کچھ معلوم نہیں ہوتا مگر آپ میاں نواز شریف کے نام ہی سے سب کچھ جان جاتے ہیں‘ کیا یہ زیادتی نہیں۔
اور عمران خان نیازی صاحب ملک میں جب تک دھڑے‘ برادریاں اور ذاتیں موجود ہیں‘ آپ جتنی چاہیں انتخابی اصلاحات کر لیں پارلیمنٹ میں یہی چراغ جلیں گے‘ اسمبلیوں تک یہی لوگ پہنچیں گے چنانچہ طاقت کے تین ہزار انجیکشنوں کے بعد بھی اگر خچر نے خچر ہی رہنا ہے تو پھر اتنی بھاگ دوڑ کی کیا ضرورت ہے آپ بس اپنے مخدوموں میں ٹاس کرا لیا کریں اور حکومت بنا لیا کریں‘ قوم کے اربوں روپے بھی بچ جائیں گے اور آپ لوگوں کا کام بھی ہو جائے گا اور یہ ملک کے لیے شاندار ترین انتخابی اصلاح ہو گی‘ آپ بھی خوش اور عوام بھی خوش۔
انتخابی منافقت
جاوید چوہدری جمعرات 15 مئ 2014

آپ خواہ آسمان سے چار ہزار فرشتے بلا لیں یا امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس اور جاپان سے الیکشن کے ماہرین بلا لیں‘ آپ پاکستان میں غیر متنازعہ الیکشن نہیں کروا سکتے‘ کیوں؟ آئیے ہم اس کیوں کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
پاکستان میں الیکشن کا عمل الیکشن کمیشن سے شروع ہوتا ہے‘ الیکشن کمیشن کے اندر چند خامیاں ہیں‘ چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کرتے ہیں‘ یہ دونوں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے نمایندے ہوتے ہیں چنانچہ یہ صرف اس شخص کو منتخب کرتے ہیں جو انھیں ’’سوٹ‘‘ کرتا ہے‘ یہ چیف الیکشن کمشنر الیکشن پر پہلا سوالیہ نشان ہوتا ہے‘ الیکشن کمیشن کے باقی چار ارکان کا فیصلہ چار صوبائی حکومتیں کرتی ہیں‘ یہ حکومتیں الیکشن کا حصہ ہوتی ہیں چنانچہ یہ غیر جانبدار لوگوں کا انتخاب کیسے کریں گی؟ یہ دوسرا سوالیہ نشان ہوتا ہے‘الیکشن کی عملی ذمے داری ریٹرننگ آفیسر پر استوار ہوتی ہے۔
یہ ریٹرننگ آفیسر ایڈیشنل سیشن جج ہوتے ہیں‘ یہ لاء کے اسٹوڈنٹس ہوتے ہیں‘ یہ جوڈیشری کا امتحان پاس کر کے جج بنتے ہیں‘ ریاست انھیں پوری زندگی وکلاء کی بحث سننے‘ قانون پڑھنے اور فیصلے کرنے کی ٹریننگ دیتی ہے‘ ہم ان سے یہ توقع کرتے ہیں‘ یہ ایک دن عدالت سے اٹھیں گے‘ الیکشن آفس میں بیٹھیں گے اور آزاد‘ شفاف اور غیر متنازعہ الیکشن کروا کر واپس کورٹ روم میں آ جائیں گے؟یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم نے جب انھیں ایک کام کی ٹریننگ ہی نہیں دی تو ہم ان سے بہتر نتائج کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟ ریٹرننگ آفیسر کے بعد اسٹنٹ ریٹرننگ آفیسر آتے ہیں‘ یہ سول جج‘ اسسٹنٹ کمشنر اور ایجوکیشن آفیسر ہوتے ہیں‘ ان کے نیچے پریذائڈنگ آفیسر اور اسسٹنٹ پریذائڈنگ آفیسر ہوتے ہیں۔
یہ دونوں محکمہ تعلیم سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ استاد ہوتے ہیں اور ریاست انھیں صرف پڑھانے کی ٹریننگ دیتی ہے لیکن آپ ان سے اچانک یہ توقع وابستہ کر لیتے ہیں‘ یہ آپ کو ایک ایماندار اور اہل حکومت بھی بنا کر دیں گے‘ یہ توقع بھی یقینا بے وقوفی ہوگی‘ الیکشن کمیشن کے پاس ایک پولنگ اسکیم ہے‘ کمیشن انتخابات سے تین ہفتے قبل یہ اسکیم ریٹرننگ آفیسرزکو بھجواتا ہے‘ اس اسکیم میں پورے ملک کے پولنگ اسٹیشنز شامل ہیں‘ پاکستان میں2013ء کے الیکشن میں 69 ہزار 875 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے‘ یہ اسکیم بیس سال پرانی ہے‘ الیکشن کمیشن ہر بار پرانی اسکیم آر اوز کو بھجوا دیتا ہے‘ یہ لوگ فیلڈ میں جاتے ہیں توانھیں معلوم ہوتا ہے‘ ہم نے جس بلڈنگ میں الیکشن کروانے ہیں وہ عمارت پچھلے سیلاب یا 2005ء کے زلزلے میں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے یا اس عمارت میں صرف دو کمرے ہیں اور ہم ان دو کمروں میں چار بوتھ نہیں بنا سکتے.
ملک کے ہر الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن کو مختلف پولنگ اسٹیشنوں کے بارے میں شکایات موصول ہوتی ہیں لیکن آج تک ان شکایات کی بنیاد پر فہرستوں میں تبدیلی نہیں کی گئی لہٰذا آپ شفاف پولنگ اسٹیشنوں کے بغیر شفاف الیکشن کیسے کرا سکیں گے؟ الیکشن اسکیم انتخابات سے 3 ہفتے قبل جاری ہوتی ہے‘ پریذائڈنگ آفیسرز کو ٹریننگ کے لیے بلوایا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے‘ ان بے چاروں کی ٹریننگ گھرسے ساٹھ ساٹھ کلومیٹر دور لگا دی گئی‘ آپ خود سوچئے‘ کیا کوئی چھوٹا سرکاری ملازم ساٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے الیکشن کی ٹریننگ لے سکتا ہے اور یہ اگر خاتون ہو تو کیا اس کے لیے یہ ممکن ہو گا؟
چنانچہ یہ لوگ پراپر ٹریننگ نہیں لے پاتے! اسکیم جاری ہوتے ہی پریذائڈنگ آفیسرز کی طرف سے اعتراضات شروع ہو جاتے ہیں‘ ایک حلقے میں تین سو کے قریب پولنگ اسٹیشنز ہوتے ہیں‘ ہر اسٹیشن میں تقریباً چاربوتھ ہوتے ہیں‘ ہر بوتھ پر تین آفیسرز درکار ہوتے ہیں‘ایک سینٹر میں کل بارہ لوگوں کا عملہ ہوتا ہے‘ اسکیم کے بعد معلوم ہوتا ہے‘ زیادہ تر لوگوں کو دور دراز علاقوں میں تعینات کر دیا گیا اور یہ لوگ اس دن وہاں نہیں پہنچ سکتے‘ بالخصوص زنانہ عملے کے لیے یہ ممکن نہیں یوں آراوز ڈیوٹی کی تبدیلی میں مصروف ہو جاتے ہیں‘ یہ تبدیلی محکمہ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہوتی چنانچہ خط بازی‘ میٹنگز اور سفارشوں کا دور شروع ہو جاتا ہے‘ یہ اس عمل سے نکل کر الیکشن کے دن پر پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے بوتھ زیادہ ہیں اور عملہ کم۔
یہ لوگ ریٹرننگ آفیسرز سے رابطہ کرتے ہیں‘ آر او کے پاس ریزرو فہرست ہوتی ہے لیکن ریزرو فہرست کے زیادہ تر لوگ ’’ بیمار‘‘ ہو جاتے ہیں یا خواتین حاملہ نکلتی ہیں یا پھر ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوتا چنانچہ آر اوز پرائیویٹ اسکولوں‘ ایگری کلچرل ڈیپارٹمنٹ‘ فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ اور بینکوں کے لوگوں کی مدد لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ آپ آج 2013ء کے الیکشن میں شامل عملے کا پروفائل نکال لیں‘ آپ کو ان میں دوسروں کے شعبوں کے بے شمار لوگ ملیں گے چنانچہ آپ اگر ان لوگوں سے شفاف الیکشن کی توقع کریں تو یہ توقع غلط ہو گی‘ الیکشن کے ایک حلقے میں تین سو پولنگ اسٹیشنز ہوتے ہیں‘ علاقے پر زورآوروں کا قبضہ ہوتا ہے‘ ہر سینٹر پر ایک یا دو پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں‘ الیکشن اگر فوج بھی کروائے تو یہ کل 70 ہزارپولنگ اسٹیشنوں پر کتنے فوجی تعینات کر لے گی؟
ملک میں قانون کی صورتحال آپ کے سامنے ہے‘ پولنگ اسٹیشن میں اگر کوئی شخص کسی پریذائڈنگ آفیسر کو گولی مار دے تو سال سال تک ایف آئی آر نہیں کٹتی‘ ایف آئی آر کٹ جائے تو لواحقین انصاف کے لیے دھکے کھاتے رہتے ہیں‘ حلقے میں کتنے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی ہوتے ہیں؟ آر او کس کس کو کس کس اسٹیشن پر بھجوائے گا‘ ایک سینٹر سے شکایت آتی ہے‘ آر او ایس ایچ او کو اس طرف بھگاتا ہے‘ وہ ابھی راستے میں ہوتا ہے تو دوسرے سینٹر سے اطلاع آ جاتی ہے‘ دونوں کے درمیان بیس تیس کلومیٹر کا فاصلہ ہے‘ وہ ایس ایچ او دونوں جگہوں پر کیسے پہنچے گا؟ اور اگر پہنچے گا تو کیا اس وقت وہ سب کچھ نہیں ہو چکا ہو گا جس کے لیے اسے بلایا جا رہا ہو گا؟
پریذائڈنگ آفیسرز سینٹروں تک جائیں گے کیسے؟ یہ واپس کیسے آئیں گے؟ یہ بھی ایک مسئلہ ہے ‘کیا آر او تین سو سینٹروں کے تین ہزار عملے کے لیے گاڑیوں کا بندوبست کر سکے گا‘ یہ لوگ تھیلے اور بیلٹ باکس کیسے لائیں گے‘ اگر بڑی گاڑی کا بندوبست کیا جائے گا تو یہ گاڑی کتنے اسٹیشنوں کا عملہ‘ تھیلے اور باکس اکٹھے کرے گی؟ حکومت نے 1970ء میں ووٹنگ کا وقت 8 گھنٹے طے کیا تھا‘ اس وقت بنگلہ دیش کے ووٹروں سمیت کل ووٹر 5 کروڑ 69 لاکھ تھے‘ 2013ء میں صرف مغربی پاکستان کے ووٹروں کی تعداد 8 کروڑ 61 لاکھ ہو گئی‘ آپ 2002ء اور 2013ء کا ڈیٹا بھی دیکھ لیجیے‘ 2002ء میں کل ووٹر7 کروڑ 7 لاکھ تھے‘ 2013ء میں 8 کروڑ 61 لاکھ ہو گئے‘پولنگ اسٹیشنز 2002ء میں بھی فی حلقہ تقریباً تین سو تھے اور یہ آج بھی تین سو ہیں۔
ملک میں دس برسوں میں ووٹروں کی تعداد میں 25 فیصد اضافہ ہو گیا لیکن ووٹ کاسٹ کرنے کا وقت وہی 8 گھنٹے ہے‘ آپ ہزار ووٹروں کو قطار میں کھڑے کر کے آٹھ گھنٹوں میں پرچی سسٹم کے تحت ووٹ ڈال کر دکھائیے؟ پولنگ کے بعد بھی یہ دس بارہ بندے ایک ایک ووٹ کی پڑتال کرتے ہیں‘ کسی ووٹ پر ووٹر نے دو جگہ مہر لگا دی‘ کسی پر مہر کی جگہ انگوٹھا لگا دیا گیا اور کسی جگہ درمیان میں مہر لگا دی گئی‘ پولنگ کے عملے نے یہ تمام متنازعہ ووٹ پولنگ ایجنٹوں کو دکھا کر ان کا فیصلہ کرنا ہے‘ ووٹوں کی گنتی بھی ہو گی‘ رزلٹ شیٹ بھی بنے گی‘ اس شیٹ پر دستخط بھی ہوں گے‘ ووٹوں کو بیگوں میں ڈال کر ان پر سیل بھی لگے گی۔
پریذائڈنگ آفیسر مہر اور رزلٹ جیب میں بھی ڈالے گا اور یہ بیگ ہر صورت اسی رات آر او کے آفس پہنچائے جائیں گے‘ اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس کے بعد ریٹرننگ آفیسر تین سو اسٹیشنوں کا رزلٹ اکٹھا کرے گا‘ اس کی چند گھنٹوں میں پڑتال کرے گا اور اس رزلٹ میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں شامل ہوں گی‘ پڑتال کے دوران دو دن کا تھکا ماندہ عملہ آر او کے دفتر بیٹھا رہے گا‘ ان لوگوں میں وہ خواتین بھی شامل ہوں گی جو ساٹھ کلومیٹر دور اپنے بچوں کو گھروں میں چھوڑ کر آئی ہیں لیکن آر او جب تک ان کے سارے بیگز کی پڑتال نہیں کر لیتا یہ انھیں چھٹی نہیں دے سکتا۔
کیا یہ سارا عمل انسانی لحاظ سے ممکن ہے؟ اور اس عمل میں اگر جعلی مقناطیسی سیاہی بھی شامل ہو جائے تو کیا شفافیت برقرار رکھی جا سکتی ہے؟ اور ہاں یہ پریذائڈنگ آفیسر باقی بچ جانے والی پرچیاں واپس کرنے کے پابند بھی ہیں اور آر او آفس جب تک فالتو پرچیاں گن کر انھیں سر ٹیفکیٹ نہ دے دے یہ لوگ گھر نہیں جا سکتے‘ کیا آر او کا عملہ یہ کام بھی چند گھنٹوں میں سرانجام دے سکتا ہے‘ آپ اگر یہ کر سکتے ہیں؟ تو ذرا کر کے دکھائیے۔
ہمارے الیکشن سسٹم میں ایک اور خرابی بھی ہے‘ ہمارے الیکشن کا عملہ دو بار نتائج کا اعلان کرتا ہے‘ شام کے وقت غیر سرکاری نتائج کا اعلان ہوتا ہے‘ اگلی صبح سارے ووٹ دوبارہ گن کر سرکاری نتیجہ بنایا جاتا ہے اور اس دوران ٹیلی ویژن چینلز بھی ایک نتیجہ نشر کر دیتے ہیں‘ یہ تین نتائج ملک میں کنفیوژن پیدا کر دیتے ہیں‘ دنیا بھر میں الیکشن کے صرف ایک نتیجے کا اعلان کیا جاتا ہے اور یہ اعلان حتمی ہوتا ہے‘ ہم اس طرف کیوں نہیں جاتے‘ بھارت کے حالیہ الیکشنوں میں 52 کروڑ 72 لاکھ لوگوں نے ووٹ ڈالے‘ بھارت میں الیکشن کا جدید ترین سسٹم کام کر رہا ہے لیکن ریاست کو الیکشن کا عمل مکمل کرنے میں 36 دن لگ گئے اور یہ الیکشن بھی صرف قومی اسمبلی کے 543 حلقوں کے تھے جب کہ ہم 9گھنٹوں میں چار صوبائی اسمبلیوں کے 577 حلقوں اور قومی اسمبلی کے 272 حلقوں کے شفاف نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ کیا یہ ممکن ہے؟
چنانچہ آپ خواہ کسی فرشتے کو چیف الیکشن کمشنر بنا دیں یا پھر پورا الیکشن کمیشن امریکا کے حوالے کر دیں آپ ملک میں شفاف اور غیر متنازعہ الیکشن نہیں کرا سکیں گے کیونکہ آپ کی الیکشن بک اور زمینی حقائق کے درمیان مریخ اور زمین جتنا فاصلہ ہے اور اس فاصلے کو درمیان میں رکھ کر غیر متنازعہ الیکشن ممکن نہیں!‘ آپ جب تک الیکشن سسٹم کو اس انتخابی منافقت سے پاک نہیں کریں گے‘ آپ اس وقت تک ملک میں غیر متنازعہ الیکشن نہیں کرا سکیں گے‘ خواہ یہ الیکشن افتخار چوہدری کے آر اوز کروائیں یا پھر یہ کارنامہ چیف جسٹس میاں نواز شریف‘ چیف جسٹس آصف علی زرداری اور چیف جسٹس عمران خان کی نگرانی میں سرانجام دیا جائے‘ نتیجہ ایک ہی نکلے گا‘ دھاندلی‘ دھاندلی اور دھاندلی۔

بات غلط نہیں
جاوید چوہدری منگل 13 مئ 2014

مجھے فرنچ نہیں آتی لیکن اخبار کی تصویر اور اس تصویر کے اوپر چھپے اعداد و شمار سمجھنے کے لیے فرنچ جاننا ضروری نہیں تھا‘ یہ 7 مئی 2012ء کا دن تھا‘ فرانس میں صدارتی الیکشن مکمل ہوئے‘ اخبار میں پولنگ کی تصویریں چھپی تھیں اور ساتھ لکھا تھا 17%۔ میں سمجھ گیا الیکشن میں17 فیصد لوگوں نے ووٹ نہیں دیا‘ میں نے یہ اندازہ کیسے لگایا؟ اس اندازے کی وجہ برادرم عقیل نقوی ہیں‘ عقیل صاحب اسلام آباد کے فرانسیسی سفارت خانے میں کام کرتے ہیں۔
پاکستان کے پچھلے سے پچھلے الیکشن کے دوران فرانس کا ایک نوجوان سفارت کار اسلام آباد میں تعینات ہوا‘ یہ ایمبیسی کے پبلک افیئرز ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا‘ یہ کسی پاکستانی صحافی سے ملنا چاہتا تھا‘ عقیل نقوی نے میری اس سے ملاقات کرا دی‘ گفتگو کے دوران نوجوان سفارت کار نے پوچھا ’’ پاکستان میں الیکشن ہو رہے ہیں‘ ملک میں ٹرن آؤٹ کتنا ہوگا‘‘ میں نے جواب دیا ’’پینتیس سے چالیس فیصد‘‘ اس نے افسوس سے سر ہلایا اور کہا ’’ اگر 60 فیصد لوگ ووٹ نہیں دیں گے تو آپ کے ملک میں جمہوریت کیسے مستحکم ہو گی‘‘ نوجوان سفارت کار نے اس کے بعد انکشاف کیا‘ ہمارے ملک میں الیکشن کے بعد اخبارات میں یہ سرخیاں نہیں لگتیں فرانس کے کتنے ووٹروں نے ووٹ دیے بلکہ ہماری سرخیاں ہوتی ہیں‘ ہمارے کتنے ووٹروں نے ووٹ نہیں دیے اور ہماری حکومت ہر الیکشن کے بعد ووٹ نہ دینے والے شہریوں کا تجزیہ کرتی ہے اور ہم پالیسی بناتے ہیں‘ ہم اگلے الیکشن میں ان ووٹروں کوووٹ کاسٹ کرنے پر کیسے مجبور کریں؟‘‘ نوجوان سفارت کار کی یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی چنانچہ میں اخبار اٹھاتے ہی سمجھ گیا الیکشن میں 17 فیصد لوگوں نے ووٹ کاسٹ نہیں کیے ہیں۔
دنیا کے تمام ممالک ووٹ‘ ووٹروں اور الیکشن کے بارے میں حساس ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ جانتے ہیں‘ عوام جب تک حکومت سازی کے عمل کا حصہ نہیں بنتے ملک میں اس وقت تک اچھی حکومت نہیں آتی اور ملک میں جب تک اچھی حکومت نہ آئے اس وقت تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے چنانچہ تمام ممالک زیادہ سے زیادہ عوام کو حکومت سازی کے عمل میں شریک کرتے ہیں‘ سوائے ہمارے۔ ہم الیکشن‘ ووٹر اور ووٹ پر اتنی توجہ کیوں نہیں دیتے؟ اس سوال کا جواب بہت واضح ہے‘ ہمارا آمرانہ ذہن جانتا ہے‘ ہمارے ملک میں جب بھی انتخابی اصلاحات ہوں گی اس دن ہماری آمرانہ سوچ‘ آمرانہ جمہوریت اور آمرانہ لیڈر شپ کا بستر گول ہو جائے گا‘ ملک میں اس کے بعد فوج آ سکے گی اور نہ ہی خاندانی سیاسی جماعتیں ’’باریاں‘‘ لگا سکیں گی اور یہ ریاستی اداروں کو ’’وارہ‘‘ کھاتا ہے اور نہ ہی شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر لیڈروں کو چنانچہ ملک میں الیکشن اصلاحات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ مجھے پچھلے ماہ بھارت جانے کا اتفاق ہوا‘ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔
بھارت کے 81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹر ہر پانچ سال بعد اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں‘ بھارت کا الیکشن سسٹم خاصا متاثر کن ہے‘ ہم اگر ملک میں فرنچ‘ برٹش‘ امریکن یا آسٹریلین الیکشن سسٹم نافذ نہیں کرسکتے تو نہ کریں مگر ہم اپنے ہمسائے سے بے شمار چیزیں سیکھ سکتے ہیں‘ انڈیا کا الیکشن کمیشن خودمختار بھی ہے اور با اختیار بھی۔ یہ الیکشن کے دوران ہر قسم کا حکم جاری کرسکتا ہے اور سرکاری مشینری اس حکم پر عملدرآمد کی پابند ہوتی ہے‘ بھارت میں الیکشن سے قبل نگران حکومت نہیں بنتی‘ پرانی حکومت چلتی رہتی ہے‘ صدر‘ وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ اپنے عہدوں پر فائز رہتے ہیں‘ یہ خود مختار الیکشن کمیشن کی وجہ سے الیکشن پر ایک فیصد اثر انداز نہیں ہو پاتے‘ انڈیا میں 28 ریاستیں (صوبے) ہیں‘ وفاقی اسمبلی (لوک سبھا) کے الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں‘ موجودہ الیکشن کا پہلا مرحلہ 7 اپریل کو شروع ہوا تھا اور آخری مرحلہ کل 12مئی کو مکمل ہوا‘الیکشن کمیشن 16 مئی کو نتائج کا اعلان کرے گا۔
81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹروں کے انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشان الیکشن کمیشن کے ڈیٹا بینک میں موجود ہیں‘ ووٹر پولنگ اسٹیشن پر جاتا ہے‘ مشین پر اپنی انگلی رکھتا ہے اور اس کا ووٹ کھل جاتا ہے‘ اسکرین پر امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان بھی آ جاتے ہیں‘ یہ انگلی سے کسی ایک انتخابی نشان کو ٹچ کر دیتا ہے اور اس کا ووٹ کاسٹ ہو جاتا ہے‘ یہ اس کے بعد ملک کے کسی حصے میں دوبارہ ووٹ نہیں ڈال سکتا‘ مشین دوسری بار اس کا ووٹ قبول نہیں کرتی‘ کسی سیاسی جماعت کو نتائج پر اعتراض ہو تو یہ فیس جمع کرا کر پورا ڈیٹا دیکھ سکتی ہے‘ ملک کا ایک ایک ووٹ اس کے سامنے آ جاتا ہے‘ سیاسی جماعتیں اور امیدوار حلقے میں بینر لگا سکتے ہیں‘ پوسٹر لگا سکتے ہیں اور نہ ہی چاکنگ کر سکتے ہیں۔ میں چار شہروں میں گیا‘ مجھے کسی جگہ کوئی بورڈ‘ جھنڈا‘ بینر اور پوسٹر نظر نہیں آیا‘ پتہ کیا‘ معلوم ہوا‘ جو امیدوار یہ غلطی کرتا ہے وہ الیکشن سے پہلے الیکشن سے فارغ ہو جاتا ہے.
امیدوار حلقوں میں جلسے بھی نہیں کر سکتے‘ جلوس بھی نہیں نکال سکتے اور ریلیاں بھی منعقد نہیں کر سکتے‘ یہ سہولت صرف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو حاصل ہے‘ یہ مختلف حلقوں میں جاتے ہیں‘ یہ جلسہ کرتے ہیں‘ یہ خطاب کرتے ہیں اور اس حلقے کا امیدوار اس خطاب اور جلسے میں شریک ہوتا ہے‘ یہ صرف اپنے قائد کی موجودگی میں خطاب کرسکتا ہے‘ الیکشن کے دوران تشہیر کا سارا کام ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے ہوتا ہے‘ ملک کی تمام ریاستوں میں مقامی ٹیلی ویژن چینلز ہیں‘ پارٹیاں ان چینلز پر اشتہارات دیتی ہیں‘ قومی سطح کے چینلز پر بھی اشتہارات دیے جاتے ہیں‘ ان اشتہارات پر کوئی قدغن نہیں چنانچہ تمام سیاسی جماعتیں جی بھر کر اس سہولت کا فائدہ اٹھاتی ہیں‘ امیدوار اگر پریس کانفرنس کرنا چاہیں تو یہ صرف سرکٹ ہاؤس میں کر سکتے ہیں‘ امیدوار اپنا منشور بتانے کے لیے حلقے کے صرف ہزار لوگ اکٹھے کر سکتے ہیں‘ اگر تعداد زیادہ ہو جائے تو ان کے خلاف کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔
ہم اگر بھارتی الیکشن کمیشن کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس میں تین خوبیاں نظر آتی ہیں‘ ایک‘ الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں‘ اس سے الیکشن کمیشن کو نتائج جمع کرنے میں سہولت ہوتی ہے‘ یہ ایک مرحلہ مکمل کرنے کے بعد دوسرے مرحلے کی طرف بڑھتے ہیں‘ یوں عملہ بھی کم درکار ہوتا ہے اور وسائل بھی کم خرچ ہوتے ہیں‘ دو‘ بائیو میٹرک سسٹم کی وجہ سے دھاندلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ کم وقت میں زیادہ ووٹ بھگت جاتے ہیں‘ پولنگ اسٹیشنز پر زور آزمائی اور دھونس کے واقعات بھی نہیں ہوتے‘ پولنگ اسٹیشنز پر ووٹوں کی گنتی نہیں ہوتی‘ ووٹ سینٹرل ڈیٹا میں چلے جاتے ہیں اور کمپیوٹر ان کی کاؤنٹنگ کرتا ہے یوں پولنگ اسٹیشنوں پر ہیرا پھیری کا امکان ختم ہو گیا۔
ملک میں غیر حتمی نتائج کا اعلان نہیں ہوتا‘ الیکشن کمیشن ایک ہی مرتبہ اعلان کرتا ہے اور یہ اعلان حتمی ہوتا ہے‘ اس حتمی اعلان سے قبل ہر قسم کا اعلان غیر قانونی ہوتا ہے۔ تین امید وار پوسٹروں‘ بینروں‘ جلوسوں اور جلسوں سے ووٹروں کو متاثر نہیں کرسکتے‘ یہ صرف اور صرف ’’مین ٹو مین‘‘ ریلیشن سے ووٹ مانگ سکتے ہیں‘ یہ الیکشن سے مہینوں اور بعض اوقات برسوں قبل اپنی انتخابی مہم شروع کرتے ہیں‘یہ ایک ایک شخص کے پاس جاتے ہیں یوں یہ اپنے ووٹروں سے واقف ہو جاتے ہیں اور ووٹر ان کی شخصیت سے پوری طرح آگاہ ہو جاتے ہیں چنانچہ امیدوار اور ووٹر کا بانڈ زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے‘بھارت میں لوگ صرف امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے‘ یہ پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اور یوں پارٹی اپنے منشور پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
ہمیں پاکستان میں سنجیدگی کے ساتھ الیکشن اصلاحات کی ضرورت ہے‘ عمران خان کا مطالبہ غلط نہیں‘ ہمارے انتخابی نظام میں حقیقتاً درجنوں سوراخ ہیں اور عوامی مینڈیٹ ہر بار ان سوراخوں سے باہر گر جاتا ہے‘ حکومت کو چاہیے یہ فوری طور پر اعلیٰ سطحی کمیشن بنائے اور یہ کمیشن الیکشن اصلاحات کرے‘ ہمارے نادرا کے پاس جدید ترین نظام اور سافٹ ویئر موجود ہیں‘ حکومت بڑی آسانی سے الیکشن سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کر سکتی ہے‘ الیکشن کمیشن کو آزاد امیدواروں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے‘ امیدواروں کا کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہونا ضروری قرار دیا جائے کیونکہ آزاد امیدوار کامیاب ہونے کے بعد گھوڑے بن جاتے ہیں اور یہ گھوڑے حکومت بننے سے قبل حکومت کو کرپٹ کر دیتے ہیں۔
انتخابی مہم کو بھارت کی طرح ٹیلی ویژن چینلز تک محدود کیا جائے تاکہ ملک بورڈوں‘ جلوسوں، جلسوں، ریلیوں، چاکنگ اور بینروں کی پلوشن سے پاک رہے‘ الیکشن کا عمل تیس چالیس حصوں میں تقسیم کیا جائے‘ صوبوں اور وفاق کے الیکشن الگ الگ ہونے چاہئیں‘ ووٹ کاسٹ نہ کرنے والوں کے لیے جرمانہ طے کیا جائے اور حکومت بنانے کے لیے کم از کم پچاس فیصد ووٹوں کی حد مقرر کی جائے‘ 2013 ء کے الیکشن میں کل ووٹروں کی تعداد 8 کروڑ 61 لاکھ تھی۔
مسلم لیگ ن نے ایک کروڑ 48 لاکھ ووٹ حاصل کیے‘ یہ کل ووٹوں کا 32 فیصد بنتا ہے‘ ہم 32فیصد کو ہیوی مینڈیٹ کہتے ہیں جب کہ 68 فیصد لوگ میاں نواز شریف کو مسترد کر چکے ہیں‘ آج افغانستان میں بھی صدر کے لیے پچاس فیصد ووٹ ضروری ہوتے ہیں مگر ہم 32 فیصد ووٹ لینے والوں کو ہیوی مینڈیٹ دے کر حکومت بنانے کا اختیار دے دیتے ہیں‘ کیا یہ غلط نہیں؟ ہمیں الیکشن کمیشن پر فوری طور پر توجہ دینا ہوگی ورنہ دوسری صورت میں ہمارے ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا الزام بھی لگے گا اور ہماری ہر حکومت کو دھرنوں‘ ریلیوں اور جلوسوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
میاں صاحب اگر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو انھیں محسوس ہو گا عمران خان غلط نہیں کہہ رہے! یہ بات‘ یہ مطالبہ غلط نہیں۔

مجرا
جاوید چوہدری ہفتہ 10 مئ 2014

ہم چائے پینے کے لیے کھوکھے پر رک گئے۔
یہ غریبانہ چائے خانہ تھا‘ آپ کو عموماً اس قسم کے چائے خانے سڑکوں کے کنارے‘ اندرون شہر کی گلیوں‘ محلوں‘ چوکوں‘ بازاروں‘ منڈیوں اور بسوں اور ٹرکوں کے اڈوں پر ملتے ہیں‘ یہ گندے اور بے ترتیب چائے خانے ہوتے ہیں لیکن ان کی چائے‘ ان کی دودھ پتی مثالی ہوتی ہے‘ لوگوں کو ان کی باقاعدہ لت لگ جاتی ہے‘ لوگ سارا سارا دن یہاں گزار دیتے ہیں‘ یہ نہ آئیں تو ان کے آرڈر آتے رہتے ہیں اور چائے خانے کا چھوٹا پورا دن انھیں چائے سپلائی کرتا رہتا ہے‘ میں نے جوانی میں ان چائے خانوں کی ’’کامیابی‘‘ پر خاصی ریسرچ کی تھی‘ مجھے اس کی چار وجوہات معلوم ہوئیں‘ پہلی وجہ ان کی پتیلی ہوتی ہے۔
یہ سارا دن پتیلی دھوتے نہیں ہیں‘ پتیلی میں ایک کے بعد دوسری‘ تیسری اور بیسویں چائے بنتی ہے‘ کثرت استعمال کی وجہ سے پتیلی کے پیندے اور دیواروں پر جلی ہوئی پتی کی تہہ جم جاتی ہے‘ یہ جلی ہوئی پتی ان کی چائے میں ایک خاص خوشبو‘ ایک خاص ذائقہ پیدا کر دیتی ہے‘ لوگ اس ذائقے‘ اس خوشبو کے عادی ہو جاتے ہیں اور یہ اس خوشبو‘ اس ذائقے کے تعاقب میں بار بار چائے پیتے رہتے ہیں‘ چائے بنانے والا اگر پتیلی بدل لے یا یہ غلطی سے دن میں پتیلی دھو لے تو گاہک فوراً اعتراض کرتے ہیں ’’ چاچا چائے کا مزہ نہیں آیا‘ آج چائے کس نے بنائی تھی‘‘ دوسری وجہ چائے کی پتی ہے‘ یہ لوگ برانڈڈ چائے کی بجائے کھلی پتی استعمال کرتے ہیں‘ یہ پتی تیز ہوتی ہے‘ اس میں کیفین کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس کا ذائقہ اور خوشبو بھی مختلف ہوتی ہے۔
لوگوں کو یہ خوشبو اور ذائقہ گھر کی پتی اور چائے میں نہیں ملتا چنانچہ یہ چائے خانوں کی چائے کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ تیسری وجہ دودھ اور چائے کے اُبال ہیں‘ یہ لوگ تازہ دودھ خریدتے ہیں‘ یہ دودھ سارا دن ہلکی آنچ پر گرم ہوتا رہتا ہے‘ دودھ پر بالائی کی موٹی تہہ جم جاتی ہے‘ یہ لوگ بالائی کا چھوٹا سا چھلکا چائے کے کپ میں ڈال دیتے ہیں‘ ہلکی آنچ پر پکنے کی وجہ سے بالائی اور دودھ میں بھی ایک خاص ذائقہ آ جاتا ہے‘ یہ چائے کی پتی کو چھ سات اُبال دیتے ہیں اور ہر اُبال پر پونی (چائے چھاننے والی چھلنی) اور ’’پوے‘‘ (چائے انڈیلنے والا ہینڈ کپ) سے پتی کے پانی کو پتیلی سے باہر نکالتے ہیں اور دھار کی شکل میں دوبارہ پتیلی میں پھینکتے ہیں‘ اس عمل سے چائے کے پانی میں آکسیجن کا اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ آکسیجن بھی اس میں ایک خاص ذائقہ پیدا کر دیتی ہے۔
ہم گھروں میں عموماً چائے کو دم دیتے ہیں جب کہ یہ لوگ دم دینے کی بجائے چائے کو پھینٹتے ہیں اور عمل کا یہ فرق بھی چائے میں فرق پیدا کر دیتا ہے اور آخری وجہ مصالحہ ہے‘ چائے بنانے والے لوگ چائے میں مصالحہ بھی ڈالتے ہیں‘ یہ مصالحہ ان کا خفیہ نسخہ ہوتا ہے‘ یہ لوگ چائے میں دار چینی‘ سونف اور بھنگ کا ایک آدھ پتہ ڈال دیتے ہیں‘ یہ بھنگ کے پتوں کو خشک کر کے پیس لیتے ہیں اور یہ سفوف چائے کی پتی میں ملا دیتے ہیں‘ اس مصالحے کی وجہ سے چائے میں ہلکا سا سرور آ جاتا ہے اور چائے پینے کے بعد گاہک کی تھکاوٹ اتر جاتی ہے‘ یہ ان کھوکھوں‘ ان چائے خانوں کے ٹریڈ سیکرٹ ہیں لیکن یہ ٹریڈ سیکرٹ ہمارا موضوع نہیں ہیں‘ ہمارا موضوع جی ٹی روڈ کا وہ کھوکھا ہے جس پر ہم لوگ چائے کے لیے رک گئے تھے۔
ہم چائے پینے کے لیے کھوکھے پر رک گئے‘ چائے خانہ گندا تھا‘ اندر دھول تھی‘ دھواں بھی تھا‘ گرمی بھی اور بو بھی لیکن ہم اس کے باوجود وہاں رک گئے‘ میں ایسے چائے خانوں کی چائے کا رسیا ہوں‘ مجھے سال چھ ماہ بعد جب بھی موقع ملتا ہے‘ میں ان چائے خانوں میں ضرور جاتا ہوں اور چائے کو انجوائے کرتا ہوں‘ ہم چار لوگ تھے‘ ہم نے چائے منگوائی اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگے‘ گرمی اور حبس تھا‘ ہمیں پسینہ آ رہا تھا‘ میں نے ٹشو پیپر نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا‘ ٹشو پیپر نکالا اور چہرہ صاف کرنے لگا‘ ٹشو پیپر نکالتے ہوئے پچاس روپے کا ایک نوٹ میری جیب سے نکل کر فرش پر گر گیا‘ میں نوٹ کے نکلنے اور گرنے سے واقف نہیں تھا‘ یہ نوٹ اُڑ کر میرے پائوں کے قریب پہنچ گیا‘ میں نے نادانستگی میں نوٹ پر پائوں رکھ دیا۔
دور کونے میں درمیانی عمر کا ایک مزدور بیٹھا تھا‘ وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھا، بھاگتا ہوا میرے پاس آیا‘ زمین پر بیٹھ کر میرا پائوں ہٹایا‘ نوٹ اٹھایا‘ نوٹ کو سینے پر رگڑ کر صاف کیا‘ نوٹ کو چوما‘ آنکھوں کے ساتھ لگایا اور دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مجھے واپس کر دیا‘ ہم چاروں اس حرکت پر حیران بھی تھے اور پریشان بھی۔ ہماری جیبوں سے عموماً نوٹ کر جاتے ہیں‘ دیکھنے والے ان کی نشاندہی کرتے ہیں اور ہم نوٹ اٹھا کر دوبارہ جیب میں رکھ لیتے ہیں لیکن ہم نے زندگی میں کوئی ایسا پاگل نہیں دیکھا تھا جو فرش پر گرے ہوئے نوٹ کے لیے تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھا ہو‘ فرش پر بیٹھا ہو‘ اس نے نوٹ اٹھا کر اپنے سینے سے صاف کیا ہو‘ پچاس روپے کے معمولی سے نوٹ کو چوما ہو‘ آنکھوں سے لگایا ہو اور کسی مقدس ورق کی طرح دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مالک کے حوالے کیا ہو۔
یہ یقیناً حیرت کی بات تھی اور ہم چاروں اس وقت حیران تھے‘ میں نے اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا‘ اس کے لیے بھی چائے کا آرڈر دیا اور اس سے اس تڑپ‘ اس عقیدت کی وجہ سے پوچھی‘ وہ مزدور تھا مگر وہ سدا کا مزدور نہیں تھا‘ وہ بیس سال قبل شہر کے رئیس لوگوں میں شمار ہوتا تھا‘ اس کا والد شہر کے چار بڑے تاجروں میں شامل تھا‘ یہ اس کی واحد نرینہ اولاد تھا‘ یہ ناز و نعم میں پلا تھا‘ گاڑی تھی‘ بینک بیلنس تھا‘ جوانی تھی اور ماں باپ کی اندھی محبت تھی‘ یہ چاروں چیزیں جہاں جمع ہوتی ہیں‘ وہاں بگاڑ ضرور پیدا ہوتا ہے‘ یہ بھی بگڑ گیا‘ اس کی صحبت خراب ہو گئی‘ یہ شراب‘ کباب اور شباب کی لت میں مبتلا ہو گیا تھا‘ اس کے بعد کیا ہوا‘ یہ آپ اس کی زبانی سنیے۔
’’میں جوان تھا‘ امیر تھا اور ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا‘ مجھے برے لوگوں نے گھیر لیا‘ میری صحبت خراب ہو گئی‘ میرے والد کو معلوم ہوا تو انھوں نے مجھے سمجھانا شروع کیا مگر انسان کی زندگی میں جب جوانی‘ شراب اور دولت تین نشے جمع ہو جائیں تو اس کی عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں‘ یہ سمجھنے‘ سمجھانے کی حد کراس کر جاتا ہے‘ میرے ساتھ بھی یہی ہوا‘ میں نے والد کی بات سننے اور ماننے سے انکار کر دیا‘ میری خرابی نے میرے والد کو روگ لگا دیا‘ وہ اس روگ میں چل بسے‘ مجھے ساری زمین‘ جائیداد اور بینک بیلنس مل گیا‘ میں والد کے انتقال پر اداس ہونے کی بجائے دولت ملنے پر خوش تھا‘ میں نے اپنی ماں اور بہنوں کو چھوٹے سے مکان میں شفٹ کیا‘ ان کا ماہانہ خرچ طے کیا اور والد کی حق حلال کی دولت کو انجوائے کرنے لگا۔
میں نے اپنے گھر کو رقص گاہ بنا لیا‘ میں اور میرے دوست روز طوائفوں کو گھر لاتے‘ ساری رات مجرا کراتے‘ شراب پیتے اور شراب کے نشے میں طوائفوں پر نوٹ نچھاور کرتے‘ ہم طوائفوں کو حکم دیتے تھے‘ ہم ان پر جو نوٹ نچھاور کریں گے‘ وہ یہ نوٹ صبح تک فرش سے نہیں اٹھائیں گی‘ وہ ان نوٹوں پر ناچتی رہیں گی‘ مجھے دراصل فرش پر نوٹوں کا قالین اور اس قالین پر ناچتے تھرکتے ہوئے گورے گلابی پائوں اچھے لگتے تھے چنانچہ میری محفل میں ساری رات نوٹ نچھاور ہوتے تھے اور طوائفیں ان نوٹوں پر ناچتی تھیں‘ یہ کام مہینوں جاری رہا‘میری عادت‘ میری حالت سے پورا شہر واقف ہو گیا۔
میرے والد کے ایک دوست کو اطلاع ہوئی تو وہ ایک روز میرے پاس آیا ‘ اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا ‘ بیٹا تمہارے والد لوگوں سے کہا کرتے تھے‘ اللہ تعالیٰ جب کسی سے خوش ہوتا ہے تو یہ اسے دولت سے نوازتا ہے‘ پھر صحت دیتا ہے‘ پھر اولاد عنایت کرتا ہے اور آخر میں اچھے دوست دیتا ہے‘ تمہارے والد کہا کرتے تھے‘ دولت ایمان کے بعد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے‘ لوگوں کی نسلیں اسی نعمت کی دعا کرتے کرتے قبرستان پہنچ جاتی ہیں‘ اللہ بہت کم لوگوں پر خوشحالی کے دروازے کھولتا ہے لیکن جب اللہ کے بندے نوٹوں کو پائوں میں روندتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور یہ دولت کی ناقدری کرنے والوں سے ایمان بھی چھین لیتا ہے‘ عقل بھی‘ صحت بھی اور اچھے دوست بھی۔
والد کے دوست کا کہنا تھا‘ تم نوٹوں کو طوائفوں کے قدموں میں نچھاور کر کے اللہ کی بڑی نعمت کی توہین کر رہے ہو‘ تم تباہ ہو جائو گے‘ تم سنبھل جائو لیکن میں اس وقت نشے کے گھوڑے پر سوار تھا‘ میں نے ان کو یہ کہہ کر روانہ کر دیا ’’آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں‘ آپ اپنے بچوں پر توجہ دیں‘ یہ روز لوگوں کے گریبان پھاڑتے ہیں‘‘۔ وہ چلے گئے‘ میں نے اپنا معمول جاری رکھا‘ میں اور میرے دوست طوائفوں کے قدموں میں نوٹ نچھاور کرتے رہے‘ ایک دن اس غرور کا نتیجہ نکل آیا‘ میں نے نشے کے عالم میں گولی چلا دی‘ ایک طوائف ماری گئی‘ کیس بنا میں سزا سے بچ گیا لیکن میرا سب کچھ چلا گیا اور میں اب فیکٹری میں مزدوری کرتا ہوں‘‘۔
وہ رک گیا اس نے لمبی سانس لی اور بولا ’’میں جب بھی کسی نوٹ کو کسی پائوں میں گرا ہوا دیکھتا ہوں تو میں تڑپ اٹھتا ہوں‘ میں نوٹ کو اٹھا کر صاف کرتا ہوں‘ ہونٹوں اور آنکھوں کے ساتھ لگاتا ہوں اور مالک کو واپس کر دیتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں دنیا کا جو بھی شخص نوٹ کو پائوں میں روندتا ہے یا روندتا ہوا دیکھ کر خاموش رہتا ہے وہ تباہ ہو کر رہ جاتاہے‘‘ اس نے ایک اور لمبی آہ کھینچی اور بولا’’ چوہدری صاحب یہ بات پلے باندھ لیں مجرا کرانے والا کوئی شخص امیر نہیں رہ سکتا‘ یہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اللہ کی نعمت کو گندی عورتوں کے قدموں میں روندتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی نعمت کی یہ تذلیل برداشت نہیں کرتی‘‘۔
فیصلہ حالات کریں گے
جاوید چوہدری جمعـء 9 مئ 2014

میں آپ کو تھوڑا ماضی میں لے جانا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے 23 دسمبر 2012ء کو لانگ مارچ کا اعلان کیا‘ میرے زیادہ تر دوستوں کا خیال تھاآرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے چیف جنرل احمد شجاع پاشا اس لانگ مارچ کے پیچھے ہیں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور چیف جسٹس بھی اس سازش کا حصہ ہیں‘ یہ تمام لوگ مل کر میاں نواز شریف کا راستہ روکنا چاہتے ہیں لیکن مجھے اس سازشی تھیوری سے اختلاف تھا‘ میں جانتا تھا چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف فوج کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک کر چکے ہیں‘ چوہدری صاحب اور میاں شہباز شریف کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ کئی خفیہ اور ظاہری ملاقاتیں ہوئیں اور ان ملاقاتوں میں تمام معاملات طے پا گئے۔
صدر آصف علی زرداری بھی اقتدار جمہوری ہاتھوں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں‘ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی جمہوریت کے خوفناک سپورٹر ہیں‘ یہ دعویٰ کر چکے ہیں ’’ میں پاکستان میں جمہوریت کا آخری مخالف ہوں گا‘‘ چنانچہ میرا خیال تھا یہ لانگ مارچ علامہ طاہر القادری کی سولو فلائیٹ ہے‘ علامہ صاحب اپنے مذہبی اور روحانی حلقے میں بہت پاپولر ہیں‘ لوگ ان کے لیے مال اور جان تک قربان کردیتے ہیں چنانچہ یہ نظام کو صرف اور صرف اپنی مقبولیت اور طاقت دکھانے کے لیے میدان میں اترے ہیں‘ ان کے پیچھے کوئی نہیں مگر اس وقت کسی دانشور نے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کیا‘ پاکستان مسلم لیگ ق‘ پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم بھی شروع میں غلط فہمی کا شکار ہوگئی۔
یہ جماعتیں بھی علامہ صاحب کو فوج کا گھوڑا سمجھ کر ان کی طرف محبت سے دیکھنے لگیں لیکن جب تینوں جماعتوں کو کسی طرف سے ٹیلی فون نہ آیا تو یہ اسپرنگ کی طرح واپس چلی گئیں اور علامہ صاحب لانگ مارچ کے کارزار میں اکیلے رہ گئے‘ یہ 13 جنوری کو اسلام آباد پہنچے ‘ ان کے کارکن سخت سردی میں 17 جنوری تک بلیو ایریا میں بیٹھے رہے‘ اس دوران سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے چند گھنٹوں کے لیے یہ غلط فہمی ضرور پھیلا دی کہ اسٹیبلشمنٹ علامہ صاحب کے ساتھ کھڑی ہے مگر اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے خود ہی یہ تاثر زائل کر دیا‘ علامہ صاحب 17 جنوری کو ایک جعلی معاہدہ لے کر واپس چلے گئے اور یوں یہ لانگ مارچ ختم ہوگیا۔
علامہ صاحب کے بقول وہ لانگ مارچ’’ میری تحریک کی اذان تھا‘ میں نے اب11 مئی کو عوام کو اقامت کی دعوت دے دی ہے‘‘ 11 مئی کو علامہ صاحب کی اقامت شروع ہوگی مگر اس بار عمران خان بھی تقریباً ان کے ساتھ ہیں‘ علامہ طاہر القادری اورعمران خان دونوں الگ الگ احتجاج کر رہے ہیں مگر دونوں کا احتجاج کا دن اور مقصد ایک ہے‘ یہ دونوں نظام بدلنا چاہتے ہیں‘ سیاسی پنڈت اور تجزیہ کار اس بار بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی 11 مئی کی ریلیوں کے پیچھے کھڑی ہے‘ یہ تاثر درست نہیں کیونکہ فوج علامہ طاہر القادری اور عمران خان دونوں پر اعتبار نہیں کرے گی۔
علامہ طاہر القادری عوامی انقلاب لانا چاہتے ہیں جب کہ عمران خان ملک کے تمام فیصلے پارلیمنٹ سے کروانا چاہتے ہیں اور یہ دو خواہشات اسٹیبلشمنٹ کے مائینڈ سیٹ کے خلاف ہیں لہٰذا فوج کبھی اپنے پائوں کاٹنے کے لیے علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے ہاتھ میں کلہاڑا نہیں دے گی لیکن اب سوال یہ ہے‘ عمران خان نے فوج اور آئی ایس آئی کا پرچم اٹھا کر اپنا سیاسی کیریئر داؤ پر کیوں لگا لیا اور علامہ طاہر القادری بھی عین اس وقت ریلی کیوں نکال رہے ہیں جب فوج‘ جیو اور حکومت تینوں آمنے سامنے کھڑے ہیں‘ اس کا واحد جواب ٹائمنگ ہے‘ جنرل پرویز مشرف کے ایشو اور خواجگان کے گرم بیانات کی وجہ سے فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات تھے‘ حامد میر پر حملے کے بعد جیو نے کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کی کوشش کی‘ اس کوشش نے فوج اور جیو کے درمیان بھی اختلافات پیدا کر دیے۔
سہ فریقی لڑائی شروع ہوئی اور اس لڑائی نے ملک میں بحران پیدا کر دیا ‘ علامہ اور عمران خان نے اس بحران کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری دونوں کا خیال ہے یہ ان جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی توجہ حاصل کر لیں گے لیکن میرا نہیں خیال فوج عمران خان یا مولانا کو موقع دے گی چنانچہ یہ تحریک ناکام ہوجائے گی‘ میاں نواز شریف اپنی تمام تر ناقص پالیسیوں اور بے لچک رویوں کے باوجود سیاسی لحاظ سے مضبوط ہیں‘ ان کی گیارہ ماہ کی پرفارمنس بالخصوص اسحاق ڈار کی معاشی کامیابیاں قابل تعریف ہیں‘ ملک میں لوڈ شیڈنگ ہے لیکن عابد شیر علی کی پرفارمنس بری نہیں۔
احسن اقبال‘ خواجہ سعد رفیق اور شاہد خاقان عباسی کی سمت بھی ٹھیک ہے جب کہ ہم لاکھ انکار کریں مگر یہ حقیقت ہے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی پنجاب کی حالت بدل دی ہے‘ چھ سال پرانے پنجاب اور آج کے پنجاب میں بڑا فرق دکھائی دیتا ہے چنانچہ صرف ریلیوں کی مدد سے میاں نواز شریف کی حکومت گرانا آسان نہیں ہوگا‘ ہاں البتہ اگر امریکا اور اس کے یورپی اتحادی چاہیں اور فوج کے ساتھ میاں نواز شریف کے اختلافات انتہا کو چھو لیں یا جیو کا ایشو مزید گھمبیر ہو جائے تو پھر تبدیلی کا امکان ہو سکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں پیالی کا یہ طوفان 11 مئی کی رات ختم ہو جائے گا۔
ہم اب فوج کی طرف آتے ہیں‘ہماری فوج اپنے سابق اور موجودہ چیفس کے معاملے میں بہت حساس ہے‘ یہ چیفس کے انتقال کے بعد بھی انھیں سیکیورٹی دیتی ہے اور ہمیں یہ حقیقت بہر حال ماننا ہو گی‘ فوج اپنے چیفس کے بارے میں کتنی حساس ہے آپ اس سلسلے میں ایک واقعہ ملاحظہ کیجیے‘ جنرل ضیاء الحق 17 اگست 1988ء کو فضائی حادثے میں شہید ہو گئے‘ غلام اسحاق خان اس وقت سینیٹ کے چیئرمین اور جنرل اسلم بیگ سینئر ترین جرنیل تھے‘ غلام اسحاق خان نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا جب کہ جنرل اسلم بیگ آرمی چیف بن گئے۔
غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ دونوں محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے تھے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفوں کو اکٹھا کیا گیا‘ آئی جے آئی بنائی گئی‘ آئی ایس آئی کو بے نظیر بھٹو کو ہرانے کا ٹاسک دیا گیا‘ 14 کروڑ روپے کی رقم ریلیز ہوئی‘ ریاستی طاقت استعمال ہوئی‘ 16 نومبر 1988ء کو الیکشن ہوئے مگر نتائج توقع کے برعکس نکلے‘ آئی جے آئی صرف 56 نشستیں حاصل کر سکی‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 94 ایم این ایز تھے‘40 ارکان آزاد تھے‘ نتیجہ نکل آیامگراسٹیبلشمنٹ نے ہمت نہ ہاری‘ جنرل رفاقت اس وقت صدر کے پرنسپل سیکریٹری تھے۔
جنرل رفاقت کو آزاد ارکان کی حمایت حاصل کرنے اور پی پی پی کو توڑنے کا ٹاسک دیا گیا‘ جنرل رفاقت کے پاس صرف 15 دن تھے‘ دس دن بعد میٹنگ ہوئی‘ صدر کے سامنے ساری پکچر رکھ دی گئی‘ صدر خاموشی سے سنتے رہے‘اٹھے‘ واش روم میں گئے‘ منہ دھویا اور باہر آکر اعلان کر دیا ’’ہم آئی جے آئی کی حکومت نہیں بنا سکیں گے‘ پی پی پی کو حکومت بنانے دیں‘ یہ حکومت چھ ماہ سے زیادہ نہیں نکال سکے گی‘‘ میٹنگ ختم ہو گئی‘ بحریہ ٹائون کے چیئرمین ملک ریاض اس وقت جنرل اسلم بیگ اور جنرل رفاقت کے دوست تھے‘ جنرل رفاقت نے ملک ریاض کو بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے پاس بھجوا دیا۔
ملک ریاض نے بے نظیر بھٹو اور زرداری صاحب کو جنرل بیگ کے گھر ڈنر کی دعوت دی‘ یہ دونوں آرمی ہائوس پہنچ گئے‘ ملک ریاض بھی اس ڈنر میں موجود تھے‘ اس ڈنر کے دوران بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم کا پروٹوکول دے دیا گیا ‘بے نظیر ذاتی کار میں آرمی ہائوس آئیں لیکن سرکاری گاڑیوں میں ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس گئیں‘ ڈنر کے بعد جنرل اسلم بیگ نے محترمہ اور زرداری صاحب کو مبارک باد پیش کی اور ان سے صرف ایک درخواست کی ’’ جنرل ضیاء الحق ہمارے چیف تھے‘ آپ کے ہاتھ سے ان کی فیملی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے‘‘ بے نظیر بھٹو اس وارننگ پر خاموش رہیں‘ بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988ء کو اقتدار سنبھالا‘ جنرل ضیاء الحق نے ان کے والد کی حکومت توڑ ی تھی‘ ملک میں مارشل لاء لگایا تھا۔بھٹو صاحب کو پھانسی پر چڑھایا تھا اور انھیں‘ ان کی والدہ اور ان کے بہن بھائیوں کو جلاوطن ہونے پر مجبور کیا تھا مگر بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد جنرل ضیاء الحق کے خاندان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھا۔
1996 میں اعجاز الحق نے راولپنڈی میں کلاشنکوف لہرا دی‘ جنرل نصیر اللہ بابر اس وقت وزیر داخلہ تھے‘ جنرل صاحب نے اعجاز الحق کو گرفتار کرا دیا‘ جنرل ضیاء الحق کی اہلیہ بیگم شفیقہ ضیاء نے جنرل اسلم بیگ کو فون کیا‘ جنرل بیگ اس وقت تک ریٹائر ہو چکے تھے لیکن یہ اٹھے‘ سیدھے وزیراعظم ہائوس گئے اور محترمہ سے کہا ’’ بی بی میں نے آپ سے درخواست کی تھی‘ آپ ہمارے چیف کی فیملی کو تنگ نہیں کریں گی‘‘ بے نظیر بھٹو نے اسی وقت اعجاز الحق کی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔
حکومت نے جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے کی اصلی کلاشنکوف کو کھلونا کلاشنکوف قرار دیا اور اعجاز الحق کو رہا کر کے گھر بھجوا دیا‘ یہ درست ہے‘ یہ 1996ء کی بات تھی اور آج 2014ء ہے لیکن فوج کی روایات آج بھی قائم ہیں لہٰذا یہ جنرل پرویز مشرف پر آنچ نہیں آنے دے گی‘ یہ فوج کا فیصلہ ہے‘ دوسری طرف میاں نواز شریف نے بھی جنرل پرویز مشرف کو سزا دلانے کا فیصلہ کر رکھا ہے‘ یہ دو فیصلوں کی لڑائی ہے‘ اس لڑائی میں اب جنگ گروپ ‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری بھی کود پڑے ہیں لیکن طاقتیں بہرحال دو ہی ہیں‘ فوج اور میاں نواز شریف۔ یہ جنگ کون جیتے گا یہ فیصلہ حالات کریں گے‘ حالات پلٹا کھا گئے تو میاں نواز شریف فاتح ہوں گے اور اگر حالات فوج کے ساتھ کھڑے ہو گئے تو پھر میاں نواز شریف بدقسمتی سے اپنی تیسری اننگ بھی پوری نہیں کر سکیں گے اور یہ وقت آیا تو اس بار ان کے قریبی ترین ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔
پی آئی اے کے لیے
جاوید چوہدری جمعرات 8 مئ 2014

مجھے دو مہینوں میں چھ بار بین الاقوامی سفر کرنے کا موقع ملا‘ میں اس دوران چھ مختلف ائیر لائینز کا مسافر رہا‘ دو مرتبہ پی آئی اے کا مہمان بھی بنا‘ مارچ میں دی ہیگ کے لیے پی آئی اے کی پیرس کی فلائیٹ لی اور دوسری بار پانچ مئی کو لندن سے پی آئی اے کے ذریعے اسلام آباد آیا‘ پاکستان میں ہر ہفتے ایمریٹس‘ اتحاد اور قطر ائیر ویز کی درجنوں فلائیٹس آتی اور جاتی ہیں‘ یہ ہزاروں پاکستانیوں کو ہرہفتے ملک میں لاتی اور باہر لے جاتی ہیں‘ ان کے کرائے کم و بیش پی آئی اے کے برابر ہیں مگر جہازوں کے سائز‘ سہولتوں اور عملے کی شائستگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
یہ تینوں ائیر لائینز مسافروں کو بہت اچھا کھانا دیتی ہیں‘ جہاز کے اندر انٹر نیٹ کی سہولت بھی ہوتی ہے‘ لوگ دوران پرواز ’’وائبر‘‘ کے ذریعے ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں‘ واش رومز صاف ستھرے ہوتے ہیں‘ فضائی عملہ پانچ مسافروں کے بعد باتھ روم صاف کرتا ہے‘ آپ دس بار پانی‘ چائے‘ کافی یا سافٹ ڈرنک مانگیں‘ فضائی میزبانوں کے ماتھے پر بل نہیں پڑتا۔ جہاز میں سیکڑوں نئی پرانی فلموں‘ ٹی وی ڈراموں اور موسیقی کی چوائس موجود ہوتی ہے۔ کمبل بڑے‘ موٹے اور صاف ستھرے ہوتے ہیں‘ آپ کو کمبل پلاسٹک کے لفافے میں بند ملتے ہیں‘ آپ اپنے ہاتھوں سے کمبل کھولتے ہیں‘ ان تینوں ائیر لائینز کی بزنس کلاس شاندار اور جدید سہولتوں سے مزین ہے‘ نشستیں پورا بیڈ بن جاتی ہیں‘ دو مسافروں کے درمیان عارضی دیوار کھچ جاتی ہے‘ سیٹوں کے درمیان فاصلہ بھی زیادہ ہے۔
ائیر ہوسٹس مسافروں کو ان کے نام سے پکارتی ہیں‘ ناشتے‘ لنچ اور ڈنر کا باقاعدہ مینو کارڈ دیا جاتا ہے اور کھانا تازہ اور زیادہ ہوتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پی آئی اے کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں‘ میری سیٹ پیرس جاتے ہوئے ایمرجنسی ایگزٹ پر تھی‘ واش روم میرے سامنے تھا‘ میں ساڑھے چھ گھنٹے اس واش روم کو بھگتتا رہا‘ مسافر پیرس جا رہے تھے لیکن اکثریت کو واش روم استعمال کرنا نہیں آتا تھا‘ پرواز کے آدھ گھنٹے بعد واش روم کا فرش گیلا ہو گیا‘ کموڈ غلاظت سے بھر گیا‘ واش بیسن کا پائپ بند ہو گیا اور لیکوڈ سوپ کی بوتل فرش پر گر گئی‘ خواتین آتی تھیں‘ واش روم کا دروازہ کھول کر بچوں کو کھڑے کھڑے پیشاب کرواتی تھیں۔
ایک مسافر اندر ہوتا تھا اور دوسرا دروازے کو دھکے دینا شروع کر دیتا تھا‘ لوگ فلش کیے بغیر نکل جاتے تھے‘ ہمارے سیکشن میں بو پھیل گئی تو میں نے ائیر ہوسٹس سے باتھ روم کی صفائی کی درخواست کی‘ ان کا جواب بہت دلچسپ تھا‘ انھوں نے فرمایا ’’ میں سویپر نہیں ہوں‘‘ میں نے ان سے پلاسٹک کا گلوز لیا اور اٹھ کر واش روم صاف کر دیا‘ مجھے اس کام میں صرف پانچ منٹ لگے‘ میں نے باقی تینوں ائیرلائینز میں ائیرہوسٹس کو باتھ رومز صاف کرتے دیکھا۔ میرا خیال تھا یہ معاملات صرف اکانومی کلاس میں ہوتے ہیں چنانچہ میں نے لندن سے اسلام آباد کے لیے بزنس کلاس کا ٹکٹ لے لیا مگر بزنس کلاس کا معیار بھی دوسری ائیر لائینز کے مقابلے میں بہت پست تھا‘ باتھ روم صاف تھا لیکن جہاز میں سوار ہو کر معلوم ہوا مسافروں کے لیے کھانا پاکستان سے آتا ہے۔
یہ کھانا رات کے وقت تیار ہوتا ہے‘ صبح ائیر پورٹ پہنچتا ہے‘ سات آٹھ گھنٹے کی فلائیٹ سے لندن اور پیرس آتا ہے‘ فلائیٹ وہاں دو گھنٹے رکتی ہے‘ مسافرسوار ہوتے ہیں اور جب ڈنر کی باری آتی ہے تو کھانے کو تقریباً چوبیس گھنٹے گزر چکے ہوتے ہیں‘ آپ اس سے کھانے کے معیار کا اندازہ کر سکتے ہیں‘ پی آئی اے بیرون ملک سے صرف عملے کے لیے کھانا خریدتا ہے کیونکہ عملے نے یہ باسی کھانا کھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن مسافروں کو چوبیس گھنٹے پرانا کھانا کھلایا جاتا ہے‘ مسافر تقریباً دو لاکھ روپے میں بزنس کلاس کا ٹکٹ خریدتے ہیں لیکن پی آئی اے انھیں دو ہزار روپے کا تازہ کھانا نہیں دیتی ہے ۔
میں پی آئی اے کے موجودہ انچارج شجاعت عظیم کا دل سے احترام کرتا ہوں‘ یہ میرے دوست طارق عظیم کے بھائی ہیں‘ یہ پی آئی اے کی ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کے لیے خاصا زور لگا رہے ہیں لیکن میری ان سے درخواست ہے‘ یہ نئے جہازوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ موجودہ جہازوں کی حالت اور سروسز کے معیار پر بھی توجہ دیں‘ یہ حالات معمولی سی توجہ اور تھوڑی سی رقم سے ٹھیک ہو سکتے ہیں‘ پی آئی اے اگر سیٹوں کی ایک دو قطاریں ختم کر دے تو اس سے نشستیں کھلی ہو جائیں گی‘ مسافروں کو سہولت ہو جائے گی۔ ائیر ہوسٹس کو پابند کیا جائے یہ ہر دس پندرہ منٹ بعد واش رومز کا چکر لگائیں اور انھیں صاف کریں‘ فضائی عملے کو واش رومز کی صفائی کا مناسب اور جدید سامان بھی فراہم کر دیا جائے‘ پی آئی اے ائیرپورٹس پر ٹرینی عملہ رکھ لے۔
یہ عملہ مسافروں کو واش رومز کے استعمال کے بارے میں بتائے بالخصوص پہلی بار سفر کرنے والے مسافروں‘ بزرگوں اور بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی خواتین کو واش روم کے بارے میں ضرور معلومات دی جائیں‘ یہ مسافروں کو سمجھائے جہاز کے واش روم ہنگامی حالت کے لیے ہوتے ہیں‘ آپ جہاز پر سوار ہونے سے قبل خود بھی لائونج کا واش روم استعمال کریں اور بچوں کو بھی کروا دیں‘ مائیں جہاز میں بچوں کی نیپی تبدیل نہ کریں‘جہاز کی فضا آلودہ ہو جاتی ہے‘ مائیں یہ کام جہاز میں سوار ہونے سے پہلے کر سکتی ہیں‘ ائیر لائین کی سروس کے اسی فیصد کا دارومدار اس کے کھانے پر ہوتا ہے‘ آپ کھانے کے معاملے میں کنجوسی نہ کریں‘ آپ مسافروں سے کھانے کے پیسے وصول کرتے ہیں چنانچہ آپ دوسری ائیر لائینز کے مقابلے میں زیادہ اچھا کھانا دیں۔
پاکستان سے باسی کھانا نہ لائیں‘ لندن‘ پیرس اور نیویارک سے فریش کھانا لوڈ کیا کریں‘ پی آئی اے کے کمبل بہت پتلے‘ چھوٹے‘ سستے اور گندے ہیں‘ آپ یہ کمبل منہ پر لیتے ہیں تو ناف سے لے کر پائوں تک آپ کا دھڑ ننگا ہو جاتا ہے‘ آپ کمبل پائوں پر ڈالتے ہیں تو ناف سے سر تک ننگے رہ جاتے ہیں‘ کمبلوں سے بو بھی آتی ہے‘ آپ فوری طور پر یہ کمبل تبدیل کرا دیں‘ لمبے‘ موٹے اور اعلیٰ کوالٹی کے کمبل خریدیں‘ ایک استعمال کے بعد انھیں استری کرائیں اور یہ کمبل مسافروں کو لفافے میں پیک کرکے دیں‘ جہازوں کا وڈیو سسٹم اپ گریڈ کریں‘ آپ ایمریٹس‘ اتحاد اور قطر ائیر لائینز کی طرح ہر مہینے نئی فلمیں اپ لوڈ کریں تا کہ مسافروں کو تفریح کی زیادہ ورائٹی مل سکے۔
وڈیو گیمز بھی شروع کریں اور دوران پرواز ’’ وائی فائی‘‘ کی سہولت بھی دیں‘ یہ سہولتیں اب بہت سستی ہو چکی ہیں‘ آپ چند ہزار ڈالر خرچ کر کے مسافروں کے سفر کو آرام دہ بنا سکتے ہیں‘ فضائی عملے کو بھی ٹریننگ کی ضرورت ہے‘ آپ انھیں بھی میزبانی کے جدید طریقے سکھائیں‘ چائے اور کافی کا معیار بھی ’’امپروو‘‘ کریں‘ پرواز کے شروع میں انائونسمنٹ ہوتی ہے‘ آپ اگر اس انائونسمنٹ میں جہاز میں دستیاب سہولتوں اور ان سہولتوں کے استعمال کے طریقوں کو بھی شامل کر لیں تو اس سے بھی مسافروں کو سہولت ہو گی۔
میں پانچ مئی کی شام لندن سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا‘ ہیتھرو ائیر پورٹ پرپاکستانی ہائی کمیشن کے چار افسر تین مسافروں کی ایک فیملی کو بے تحاشا پروٹوکول دے رہے تھے‘یہ چاروں سفارت کارفیملی کے بیگ اٹھا کر لائے‘ بک کروائے اوریہ بعدازاں تینوں مسافروں کے چھوٹے بیگ اٹھا کر جہاز میں داخل ہوئے‘ مسافروں کو سیٹوں پر بٹھایا‘ اپنے دست مبارک سے ان کے بیگ بالائی خانے میں رکھے اور ان سے اجازت لے کر جہاز سے باہر گئے‘ یہ سینئر افسر تھے مگر ان کے چہروں پر خوشامد اشتہار بن کر چمک رہی تھی‘ اس وی وی آئی پی فیملی میں دو خواتین اور ایک نوجوان شامل تھا۔
ان تینوں کے پروٹوکول نے جہاز میں سراسیمگی پھیلا دی اور مسافر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے‘ میرے ساتھی مسافر نے فضائی عملے سے فیملی کا حدود اربعہ پوچھا‘ پتہ چلا یہ وزیراعظم کے مشیر خارجہ طارق فاطمی کی اہلیہ ہیں‘ میرے ساتھی مسافر نے عملے سے پوچھا ’’ کیا ان کے پاس بزنس کلاس کا ٹکٹ ہے؟‘‘ عملے نے جواب دینے سے معذرت کر لی مگر جواب اس کے چہرے پر صاف لکھا تھا‘ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے‘ یہ واقعی بزنس کلاس کے مسافر تھے یا پھر انھیں ’’اپ گریڈ‘‘ کیا گیا تھا‘ ہم صرف پروٹوکول کی بات کرتے ہیں‘ کیا ہم نے سفارت خانے مشیروں کی فیملیز کو ائیرپورٹس اور جہازوں میں پروٹوکول دینے کے لیے بنائے ہیں‘ اگرہاں تو پھر ہم سفارت خانوں کو پروٹوکول آفسز اور سفارت کاروں کو پروٹوکول افسرکیوں نہیں بنا دیتے؟
یہ پروٹوکول اگر جائز بھی ہے تو بھی یہ صرف طارق فاطمی کو ملنا چاہیے‘ ان کی غیر موجودگی میں ان کے اہل خانہ کس پوزیشن سے پروٹوکول لے رہے ہیں‘ سفارتی عملہ ان کے بیگ اٹھا کر جہاز میں کیوں رکھ رہا ہے؟ اور اگر یہ درست ہے تو پھر حکومت مہربانی فرما کر ملک کی ان تمام شخصیات اور ان کے خاندانوں کی فہرست جاری کر دے جن کو ہر مناسب اور نامناسب جگہ پر پروٹوکول ملے گا تا کہ قوم کو یہ مناظر دیکھ کر تکلیف نہ ہو‘ میں نے اپنی آنکھوں سے امریکی اور برطانوی سفیروں‘ وزراء اور مشیروں کو ائیرپورٹس پر اپنا بیگ خود اٹھاتے اور جہاز میں سوار ہوتے دیکھا ہے‘ یہ لوگ اکانومی کلاس میں سفر کرتے ہیں جب کہ ہمارے مشیروں اور وزیروں کی فیملیز تک کے نخرے ختم نہیں ہو رہے‘ ہم کس دور میں زندہ ہیں اور ہم اس دور سے کب باہر نکلیں گے جب ہر حکمران ظل الٰہی ہوتا تھا اور اس کے علاوہ پوری مخلوق غلام ہوتی تھی‘ یہ پروٹوکول اس ملک کی جان کب چھوڑے گا۔