جاوید چوہدری

میاں صاحب بھی
جاوید چوہدری جمعرات 6 جون 2013
سید عبدالودود شاہ دو مارچ 2013ء کو انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل بنے‘ میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات اپریل کے آخر میں اسلام آباد ائیرپورٹ پر ہوئی‘ میں لاہور جا رہا تھا‘ راول لائونج میں اچانک افراتفری مچی‘ سول ڈریس میں چار پانچ لوگ دائیں بائیں دوڑے اور اس کے بعد سفید کپڑوں میں ملبوس ایک شخص لائونج میں داخل ہو گیا‘ وہ باریش بھی تھا‘ اس کے ماتھے پر محراب کانشان بھی تھا اور اس کے کندھے بھی عاجزی سے جھکے ہوئے تھے‘ اس نے دائیں بائیں دیکھا اور سیدھا میری طرف آ گیا‘ میں کھڑا ہو گیا‘ اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور بھاری آواز میں بولا ’’ ودود شاہ‘‘ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ ان کے پیچھے کھڑا نوجوان فوراً بولا ’’ ڈی جی آئی بی‘‘ میں نے انھیں خوش آمدید کہا اور وہ میرے ساتھ بیٹھ گئے‘ ملک میں الیکشن جوں جوں قریب آ رہے تھے۔
الیکشنوں کے بارے میں خدشات میں بھی اضافہ ہو رہا تھا‘ سینیٹر اسلام الدین شیخ میرے دوست ہیں‘ یہ ان چند شاندار سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی شرافت اور وضع داری کی ضمانت دی جا سکتی ہے‘ انھوں نے میرے ساتھ شرط لگا لی تھی الیکشن نہیں ہوں گے‘ ایم کیو ایم کے زیادہ تر ایم این ایز اور سینیٹرزبھی یہ دعویٰ کر رہے تھے‘ نگران وزراء بھی میڈیا سے پوچھتے پھرتے تھے‘ کیا الیکشن ہو جائیں گے؟ اے این پی اور جے یو آئی کو بھی الیکشنوں کا یقین نہیں تھا‘ صرف میاں نواز شریف اور عمران خان دو لیڈر تھے جنھیں نہ صرف النوش اں کا یقین تھا بلکہ یہ بھرپور طریقے سے مہم بھی چلا رہے تھے‘ اس فضا میں ڈی جی آئی بی اہم ترین شخص تھا کیونکہ ملک کی سیکیورٹی کی نوے فیصد اطلاعات اس سے ہو کر وزیراعظم اور کابینہ تک پہنچتی ہیں‘ یہ بنیادی طور پر حکومت کی آنکھیں اور کان ہوتا ہے اور اس کی بات کو اعلیٰ سطح پر حتمی سمجھا جاتا ہے۔
میں نے ودود شاہ سے پوچھا ’’ سر الیکشن ہو جائیں گے‘‘ انھوں نے فوراً انکار میں سر ہلایا اور پورے یقین کے ساتھ جواب دیا ’’ ناممکن‘ کبھی نہیں ہو سکتے‘‘ میں پریشان ہو گیا‘ میں نے ان سے وجہ پوچھی‘‘ وہ ابھی وجہ بتانے لگے تھے کہ فلائیٹ انائونس ہو گئی اور ہم دونوں اٹھ کر جہاز میں آ گئے‘ جہاز میں خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ہماری نشست ساتھ ساتھ تھی‘ میں نے فلائیٹ کے دوران اپنا سوال دہرا دیا‘ اس کے جواب میں انھوں نے ایک خوفناک تصویر پینٹ کی ‘ ودود شاہ کا کہنا تھا‘ ملک میں بڑے پیمانے پر فسادات ہونے والے ہیں‘ طالبان جنوبی پنجاب میں داخل ہو چکے ہیں‘ یہ ڈیرہ غازی خان‘ بہاولپور اور ملتان میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی پلاننگ کر رہے ہیں‘ ملک کے تیس بڑے سیاستدان ہٹ لسٹ پر ہیں‘ ان سیاستدانوں میں میاں نواز شریف‘ عمران خان‘ مولانا فضل الرحمن‘ چوہدری نثار علی خان‘ خواجہ آصف‘ حمزہ شہباز شریف‘ اسفند یار ولی‘ ڈاکٹر فاروق ستار‘ امین فہیم‘ سید خورشید شاہ‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ جاوید ہاشمی‘ شاہ محمود قریشی اور بلاول زرداری بھٹو بھی شامل ہیں۔
طالبان ایک ہی وقت میں ان سب پر حملہ کریں گے اور یوں سارا سیاسی نظام تتربتر ہو جائے گا اور الیکشن ملتوی ہو جائیں گے‘ یہ سن کر میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ اس کے بعد کیا ہو گا‘‘ ان کا کہنا تھا ’’ نگران حکومت دو سال تک چلے گی اور اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا ملک کس کے حوالے کرنا ہے‘‘ سید عبدالودود شاہ پورے سفر کے دوران میرے ساتھ اس قسم کی خوفناک اطلاعات شیئر کرتے رہے‘ مجھے یہ تسلیم کرتے ہوئے آج کوئی عار نہیں‘ میں نے ان کی زیادہ تر باتوں پر یقین کر لیا تھا کیونکہ وہ ایک ذمے دار عہدیدار تھے اور ان کی آبزرویشن کے بعد شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی‘ ودود شاہ کے ساتھ اس ملاقات کے بعد میں بڑی حد تک الیکشنوں کے بارے میں شک کا شکار ہو گیا‘ میں اس شک کا برملا اظہار بھی کرتا رہا مگر پھر الیکشن ہو گئے‘ یہ الیکشن پرامن بھی تھے اور بڑی حد تک شفاف بھی اور ان الیکشنوں میں دہشت گردی کی کوئی بڑی واردات بھی نہیں ہوئی‘ میں نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا اور ساتھ ہی ساتھ سید عبدالودود شاہ کو بھی تلاش کرتا رہا مگر وہ اپنا وقت گزار کر ریٹائر ہو گئے۔
ڈاکٹر احمر بلال صوفی نگران حکومت میں وفاقی وزیر قانون تھے‘ میں نے ان سے ڈی جی آئی بی کی آبزرویشن شیئر کی تو انھوں نے ایک نئی کہانی سنا دی‘ انھوں نے آئی بی کے ساتھ دوسرے دو خفیہ اداروں کے نام لیے اور انکشاف کیا‘ ان اداروں کی رپورٹس آئی بی سے بھی زیادہ خطرناک‘ تشویش ناک اور خوفناک تھیں‘ وزیراعظم کھوسو سمیت پوری کابینہ ان رپورٹس کو سیریس لے رہی تھی‘ ہم پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب ہم نے ان رپورٹس کی بنیاد پر نئی اسٹرٹیجی بنانا شروع کر دی‘ وزیراعظم نے مجھے آئینی راستہ نکالنے کی ذمے داری سونپی‘ ان کا خیال تھا ملک کے حالات کیسے بھی ہوں الیکشن ملتوی نہیں ہونے چاہئیں‘ ہم نے آئین کا جائزہ لیا اور سوچا اگر الیکشن کمشنر تھوڑی سی لچک دکھائیں تو ہم صدارتی آرڈیننس کے ذریعے الیکشن رولز میں تبدیلی کر سکتے ہیں‘ ہم عارضی قانون بنا سکتے ہیں اگر کوئی امیدوار الیکشن سے قبل انتقال کر جائے یا دہشت گردی کا شکار ہو جائے تو الیکشن کمیشن ’’ کورنگ امیدوار‘‘ کو اس کی جگہ الیکشن لڑنے کی اجازت دے دے۔
ہم آئین میں اس تبدیلی سے بڑے لیڈروں کی ہلاکت کے بعد بھی الیکشن ممکن بنا سکتے تھے‘ وزیراعظم کھوسو نے یہ تجویز مان لی اور مجھے الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کو قائل کرنے کی ذمے داری سونپ دی‘ میں نے فخرو بھائی سے رابطہ کیا مگر یہ نہ مانے‘ ان کا خیال تھا ہم نے اگر الیکشن سے قبل رولز میں کسی قسم کی تبدیلی کی تو اس سے الیکشن کی ساکھ متاثر ہوجائے گی‘ فخرو بھائی کے انکار کے بعد ہمارے پاس دعائوں کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ‘ ہم گیارہ مئی کی رات تک دعائیں کرتے رہے‘ احمر بلال صوفی کے اس انکشاف نے بھی خفیہ اداروں کی کارکردگی کی قلعی کھول دی‘ یہ انکشاف ان اداروں کی ’’ مہارت‘‘ ثابت کرنے کے لیے کافی ہو گا‘ ملک کے خفیہ ادارے حکومت کی آنکھ‘ ناک اور کان ہوتے ہیں‘ یہ ادارے وزیراعظم اور صدر کو جو رپورٹ بھجواتے ہیں حکومت اس کی روشنی میں پالیسیاں بناتی ہے لیکن اگر ان اداروں کی یہ حالت ہو گی؟ اگر ڈی جی آئی بی حکومت کو پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ بتائے گا طالبان الیکشن سے قبل تیس لیڈروں کو اڑا دیں گے تو اس کے بعد کیا بچتا ہے؟
ہمیں ماننا پڑے گا پچھلے دس پندرہ بیس برسوں میں ملک کے تمام ادارے تباہ ہو چکے ہیں‘ اداروں کی تباہی صرف ریلوے‘ پی آئی اے ‘ اسٹیل مل اور او جی ڈی سی ایل تک محدود نہیں بلکہ خفیہ ادارے بھی اس فہرست میں شامل ہیں‘ یہ ان اداروں کا کمال ہے یہ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کو اس سطح تک لے آئے کہ دونوں ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے لگے‘ انھوں نے 2008ء میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا اتحاد بھی تڑوا دیا اور انھوں نے چیف جسٹس اور صدر کے درمیان شکوک و شبہات کا اتنا بڑا جنگل بھی بو دیا کہ دونوں کو ایک دوسرے کی شکل تک دکھائی نہیں دیتی‘ ان اداروں کی تمام تر مہارت ٹیلی فون ٹیپنگ‘ صحافیوں کی خبروں اور گھریلو ملازموں کی دی ہوئی اطلاعات تک محدود ہے اور یہ ان کی بنیاد پر خوف کے بڑے بڑے ہوائی قلعے تعمیر کر لیتے ہیں‘ حکومت ان قلعوں میں رہنا شروع کر دیتی ہے اور یوں حالات بدتر سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
میاں نواز شریف ایک نئے دور کا آغاز کر چکے ہیں‘ یہ اب تک بڑی مہارت اور ایمانداری سے کھیل رہے ہیں‘ میاں صاحب اگر چاہتے تو یہ مولانا فضل الرحمن کی مدد سے خیبر پختونخواہ میں اپنی حکومت بنا سکتے تھے‘ بلوچستان میں ہر زاویے سے ان کی حکومت بنتی تھی اور یہ اگر آج ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملا لیں تو پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے سندھ میں حکومت کرنا مشکل ہو جائے لیکن میاں نواز شریف نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا‘ انھوں نے خیبر پختونخوا پاکستان تحریک انصاف کے حوالے کر دیا‘ سندھ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر چھوڑ دیا اور بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک جیسے شاندار اور غیر متنازعہ شخص کو وزارت اعلیٰ اور محمود اچکزئی کی پارٹی کو گورنر شپ دے کر ہم جیسے سطحی دانشوروں کو حیران کر دیا اور ہم نہ صرف تالیاں بجانے بلکہ میاں نواز شریف کی تعریف پر مجبور ہو گئے‘ میاں نواز شریف اگر اسی اسپرٹ سے آگے بڑھتے رہے۔
یہ ریاستی اداروں میں بھی ڈاکٹر عبدالمالک جیسے لوگ لاتے رہے‘ یہ پی آئی اے‘ ریلوے‘ اسٹیل مل‘ واپڈا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی اچھے لوگ لے آئے‘ یہ خفیہ اداروں میں بھی ایسے لوگ لے آئے جو حکومت کو ڈرانے کے بجائے اصلی انٹیلی جنس کریں تو ملک ٹریک پر آ جائے گاورنہ دوسری صورت میں تباہی روکے نہیں رکے گی‘ پاکستان مسلم لیگ ن میں ٹیلنٹ اور مہارت کی کمی نہیں‘ ہم چوہدری نثار‘ خواجہ آصف‘ احسن اقبال‘ خواجہ سعد رفیق‘ شاہد خاقان عباسی اور جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ سے سو اختلاف کر سکتے ہیں مگر ہمیں یہ ماننا ہو گا یہ لوگ بے ایمان نہیں ہیں‘ یہ لوگ نالائق بھی نہیں ہیں‘ یہ ماہر بھی ہیں اور ایماندار بھی اور اگر میاں نواز شریف نے انھیں سپورٹ کیا اور یہ ملک کے تمام چھوٹے بڑے اداروں میں ماہر اور ایماندار لوگ لے آئے تو ملک بدل جائے گا ورنہ دوسری صورت میں عبدالودود شاہ جیسے لوگ میاں صاحب کو گھیر لیں گے ‘ خوف حکومت کی پالیسی بن جائے گا اور میاں صاحب بھی صدر زرداری کی طرح اقتدار کی گیند سنبھالتے تاریخ میں گم ہو جائیں گے‘ یہ ماضی کا قصہ بن جائیں گے چنانچہ اختیاط ضروری ہے۔
چند دن بعد
جاوید چوہدری منگل 4 جون 2013
وہ دونوں ایک بینچ پر بیٹھے تھے‘ دونوں کے ہاتھ میں فائل تھی اور دونوں اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے‘ ایک نسبتاً مغرور تھا‘ اس کی گردن میں سریا تھا‘ وہ گردن اکڑا کر ناک کی سیدھ میں دیکھ رہا تھا‘ اس کی ناک پر قیمتی عینک دھری تھی‘ بالوں میں جیل لگا تھا‘ قمیض تازہ استری شدہ تھی‘ پتلون سلوٹوں سے پاک تھی اور بدن سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی‘ دوسرا شخص نسبتاً مسکین تھا‘ اس کی ناک پر پرانی عینک تھی‘ عینک کی کمانی پر میل جمی تھی‘ شرٹ کی سلوٹیں بتا رہی تھیں وہ بغیر دھلے‘ بغیر استری ہوئے تیسری یا چوتھی بار پہنی جا رہی ہے‘ پتلون کثرت استعمال سے جینز بن چکی تھی‘ جوتوں پر مٹی اور کیچڑ تھا جب کہ جسم سے پسینے کی بو آ رہی تھی‘ مسکین شخص ترچھی آنکھوں سے بار بار مغرور شخص کی طرف دیکھتا تھا‘ زیر لب مسکراتا تھا اور پھر گود میں رکھی فائل تھپتھپاتا تھا اور مغرور شخص کی گردن میں اس کے ساتھ ہی تنائو بڑھ جاتا تھا‘ یہ کھیل پچھلے آدھ گھنٹے سے جاری تھا‘ لوگ آ رہے تھے‘ ان کو دیکھ رہے تھے‘ سلام کر رہے تھے اور جا رہے تھے‘ صاحب کا چپڑاسی بھی باہر آتا تھا‘ دونوں کو دیکھتا تھا‘ ذرا سا مسکراتا تھا اور اندر چلا جاتا تھا‘ برآمدے کی ہر چیز‘ ہر حرکت نپی‘تلی اور مستقل تھی حتیٰ کہ دیوار کا کلاک بھی پچھلے آدھ گھنٹے سے ایک ہی جگہ ٹھہرا ہوا تھا‘ اس کی سیکنڈ کی سوئیاں ٹک ٹک کرتی تھیں مگر گھنٹے کی سوئیاں ایک ہی جگہ رکی تھیں‘ وہ آگے کی طرف نہیں سرک رہی تھیں‘ مسکین نے ایک بار پھر فائل تھپتھپائی‘ مغرور نے اس بار گردن گھمائی اور نفرت سے اس کی طرف دیکھ کر بولا ’’کیا بکواس ہے‘ تم کاف ثابت کرنا چاہتے ہو‘‘ مسکین نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’ سر میں اور آپ ایک ہی بینچ پر بیٹھے ہیں‘ ہم دونوں کا فیصلہ تیسرے شخص نے کرنا ہے‘ ہم دونوں اپنے بلاوے کا انتظار کر رہے ہیں‘ میں اس صورتحال کو انجوائے کر رہا ہوں‘‘ مغرور کی ہنسی چھوٹ گئی‘ اس نے پورا منہ کھول کر قہقہہ لگایا‘ اس کے قہقہے کی آواز کوریڈور میں گونجی‘ لوگوں نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا لیکن مغرور شخص حیران نظروں پر توجہ دیے بغیر قہقہے لگاتا جا رہا تھا‘ وہ بار بار مسکین شخص کی فائل بھی تھپتھپا رہا تھا‘ مغرور شخص کے قہقہوں کے دوران مسکین نے بھی ہنسنا شروع کر دیا اور یوں کوریڈور میں قہقہے گونجنے لگے‘ مغرور شخص نے ہنستے ہنستے مسکین کا ہاتھ پکڑا‘ اسے بینچ سے اٹھایا اور چیئرمین کے کمرے کی طرف چل پڑا‘ وہ دروازے پر پہنچا‘ چپڑاسی نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر وہ اسے دھکیل کر اندر داخل ہو گیا‘ اندر چیئرمین تین افسروں کے ساتھ میٹنگ کر رہاتھا‘ اس نے گھبرا کر مغرور شخص کی طرف دیکھا‘ مغرور اور مسکین شخص ابھی تک قہقہے لگا رہے تھے‘ چیئرمین کے ساتھ بیٹھے لوگ بھی حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگے‘ مغرور نے اپنی فائل چیئرمین کی میز پر پٹخی اور ہنستے ہوئے بولا ’’ بخاری صاحب آپ کو دومنٹ کے لیے میری بات سننا ہوگی‘‘ بخاری صاحب نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور سختی سے بولے ’’ میں مصروف ہوں‘ آپ کو باہر انتظار کرنا ہوگا‘‘ مغرور شخص نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’ پھر آپ مہربانی فرما کر باہر بڑا بینچ رکھوا دیں‘ اس بینچ پر صرف دو لوگ بیٹھ سکتے ہیں‘ وہاں تین لوگوں کا بینچ ہونا چاہیے کیونکہ چند دن بعد آپ کو بھی ہمارے ساتھ بیٹھنا ہو گا‘‘ چیئرمین حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ مغرور شخص بولا ’’ یہ شخص‘‘ اس نے مسکین شخص کا ہاتھ آگے بڑھایا ’’ یہ شخص میرا ماتحت تھا‘ اس نے ضابطے کی خلاف ورزی کی‘ میں نے اس کے خلاف انکوائری شروع کرا دی‘ اس نے میرے ساتھ اسی طرح بدتمیزی کی‘ یہ دروازہ کھول کر زبردستی میرے دفتر میں گھس آیا‘ میں ناراض ہو گیا‘ میں نے اس کے خلاف نیب کیس بنوا دیا‘ یہ معطل ہو گیا اور نیب کے دفتروں کے چکر لگانے لگا‘ اس کا کیس مختلف دفتروں‘ ٹیموں اور کمیشنوں سے ہوتا ہوا آخر میں آپ کے پاس آ گیا‘ مجھے پچھلے وزیراعظم نے ایک کام کہا‘ وہ کام میری اوقات سے بڑا تھا‘ میں نے معذرت کر لی‘ وہ مجھ سے ناراض ہو گئے‘ حج کرپشن کا کیس سامنے آیا‘ وزیراعظم نے کسی صحافی کو میرا نام دے دیا‘ اس نے میرے خلاف خبر چلا دی‘ عدالت نے میرا نام بھی انکوائری میں ڈال دیا‘ حکومت نے مجھے معطل کر دیا اور میں بھی نیب کے دفتروں کے دھکے کھانے لگا‘ آپ قسمت دیکھئے‘ ہم دونوں آج آپ کے دروازے کے سامنے ایک ہی بینچ پر بیٹھے تھے‘ میں نے آپ کے چپڑاسی کو تین بار چٹ دے کر بھجوایا مگر آپ نے مجھے اندر نہیں بلایا‘ میں وہ شخص ہوں جس کے دروازے پر لوگ پانچ پانچ گھنٹے بیٹھے رہتے تھے مگر آج میں آپ کے دروازے پر بیٹھا ہوں اور آپ میری بات تک سننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ مجھے آپ کے اس غرور مںے آپ کا مستقبل نظر آ رہا ہے چنانچہ میری آپ سے درخواست ہے آپ کمرے کے باہر بڑا بینچ رکھوا دیں کیونکہ حالات یہی رہے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب آپ بھی ہمارے ساتھ اسی بینچ پر بیٹھے ہوں گے‘ آپ کے ہاتھ میں بھی فائل ہو گی اور آپ بھی ہماری طرح فائل تھپتھپا رہے ہوں گے‘‘ یہ داستان سن کر چیئرمین نیب بھی ہنس پڑا اور اس نے انھیں بیٹھنے کی دعوت دے دی۔
یہ واقعہ چند ماہ پرانا ہے مگر اس کی جڑیں ہزاروں لاکھوں سال کی تاریخ میں گڑی ہیں جب کہ شاخیں اور پتے سیکڑوں ہزاروں سال مستقبل میں جھانک رہے ہیں‘ اس کائنات میں اللہ کے سوا کوئی چیز دائمی نہیں‘ دنیا کی ہر چیز‘ ہر انسان‘ اس کی کامیابی‘ اس کی اچیومنٹ‘ اس کے اختیار‘ اس کے اقتدار‘ اس کے تکبر اور اس کے غرور کی ایک ’’ ایکسپائری ڈیٹ‘‘ ہے‘ اس تاریخ پر پہنچ کر اس کی لائٹ خود بخود آف ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی محتاج اور غنی‘ حکمران اور ماتحت‘ آقا اور غلام‘ افسر اور ملازم‘ سیٹھ اور مزدور اور ظالم اور مظلوم سب ایک ہو جاتے ہیں‘ یہ چند دنوں کا کھیل ہوتا ہے‘ یہ کھیل ختم ہوتے ہی ہر چیز وقت کے معدے میں چلی جاتی ہے اور پھر دلدل میں بنے نشانوں اور ریت کے تراشے بتوں کی طرح اس کا نشان تک نہیں رہتا‘ میاں نواز شریف کل وزیراعظم کا حلف اٹھائیں گے‘ یہ حلف اٹھاتے ہی اس وزیراعظم ہائوس میں چلے جائیں گے جس سے ان کو 12 اکتوبر 1999ء کو گرفتار کر کے نکال دیا گیا تھا‘ میاں صاحب ذرا تصور کریں‘ یہ بارہ اکتوبر 1999ء شام چھ بجے تک دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے سربراہ تھے‘ یہ دو تہائی اکثریت کے مالک بھی تھے‘ یہ آئین میں جو چاہتے ترمیم کر سکتے تھے مگر پھر یہی میاں صاحب شام چھ بجے ملزم بن چکے تھے‘ یہ فوج کے نرغے میں تھے‘ ان پر طیارہ ہائی جیک کرنے کا کیس بن چکا تھا اور اس مقدمے کی سزا موت تھی اور اس کے بعد میاں نواز شریف اور ان کے خاندان پر ابتلاء کا نہ ختم ہونے والا دور شروع ہو گیا‘ یہ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری مصیبت کا شکار ہوتے چلے گئے اور آپ اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو اس دور میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری میں کوئی فرق نہیں تھا‘ یہ بھی جیل میں تھے اور وہ بھی جیل میں‘ یہ جنرل مشرف کے بنائے مقدمے بھگت رہے تھے اور وہ میاں نواز شریف کے تخلیق کردہ کیسزبھگتا رہے تھے‘ آپ ذرا سی تفصیل میں جا کر دیکھیں تو ایک ایسا وقت بھی آیا جب آصف علی زرداری پر مقدمے بنانے والے سیف الرحمن خان دونوں ایک ہی عدالت میں‘ ایک ہی جج کے سامنے پیش ہوئے‘ یہ دونوں ایک ہی قسم کی جیل میں بھی بند تھے جب کہ یہ وزیراعظم ہائوس جس میں کل میاں نواز شریف تیسری بار داخل ہوں گے‘ اس میں چودہ برسوں میں ایک چیف ایگزیکٹو (جنرل پرویز مشرف) اور سات وزراء اعظم آئے اور چلے گئے‘ یہ وزراء اعظم بھی فرعون کے لہجے میں بولتے تھے‘ ایڑیاں بجا بجا کر اللہ کی زمین پر چلتے تھے اور انگلی کے اشارے سے لوگوں کے مقدر بدلنے کا حکم دیتے تھے‘ ان کے ملاقاتیوں کی فہرست بھی بہت لمبی ہوتی تھی اور لوگ ان سے ملنے کے لیے‘ ان کی جھلک دیکھنے کے لیے بھی سارا سارا دن دھوپ میں بیٹھے رہتے تھے لیکن یہ لوگ آج کہاں ہیں‘ یہ لوگ آج زندہ ہونے کے باوجود اقتدار کے یتیم بن چکے ہیں‘ وہ جنرل پرویز مشرف جس کی غرور میں بھیگی پھنکاریں پوری دنیا سنتی تھی اور جس نے یہ دعویٰ کر کے خود کو نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کا مقرب ثابت کرنے کی کوشش کی ’’ میں دوبار خانہ کعبہ کی چھت پر گیا ہوں‘‘ وہ آج اس ایوان اقتدار سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر ’’ ہائوس اریسٹ‘‘ ہے جب کہ باقی وزراء اعظم ٹیلی ویژن پر ارکان اسمبلی کو حلف اٹھاتے اور میاں نواز شریف کو عوام کی طرف ہاتھ ہلاتے دیکھتے ہیں اور یہ وہ وقت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘ ہم اسے لوگوں پر پھیرتے رہتے ہیں‘ یہ وقت کل راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کا تھا اور یہ آج میاں نواز شریف کے دروازے پر کھڑا ہے‘ اللہ تعالیٰ میاں نواز شریف کو اس تکبر سے بچائے جس کے آخر میں بینچ اور فائلیں آتی ہیں‘ اللہ کرے نواز شریف اس بار یہ سمجھ جائیں اقتدار کی ہر چیز موم کی ہوتی ہے‘ یہ زیادہ دیر تک وقت کی تپش برداشت نہیں کر سکتا اور چند دن بعد جنرل مشرف ہوں یا نواز شریف دونوں برابر ہوتے ہیں‘ مجبور‘ لاچار‘ پریشان اور نادم۔کاش میاں صاحب سمجھ جائیں اگر انھوں نے اس بار نہ سمجھا تو وہ وقت آتے دیر نہیں لگے گی جب یہ ایک ہی بینچ پر جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے ساتھ بیٹھے ہوں گے اور صاحب اندر میٹنگ میں مصروف ہو ں گے۔
پانی کے جانور
جاوید چوہدری ہفتہ 1 جون 2013
یہ تاریخ کی ایک بھولی بسری کہانی ہے مگر یہ صرف تاریخ یا ماضی نہیں‘ یہ حال بھی ہے‘ مستقبل بھی اور شاید ہم جب تک اپنے رویئے نہیں بدلتے‘ ہم تاریخ سے سبق نیںٹ سیکھتے‘ یہ کہانی شاید اسی طرح چلتی رہے‘ یہ نئے سورجوں‘ نئے پانیوں اور نئی ہواؤں کی تلاش میں آگے بڑھتی رہے‘ یہ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کی کہانی تھی اور یہ اب چلتے چلتے میاں نواز شریف تک پہنچ گئی ہے اور شاید میاں نواز شریف اس کہانی کے آخری شکار ہوں۔
یہ کہانی ملتان سے شروع ہوئی‘ 1975ء میں لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الحق ملتان کے کور کمانڈر تھے اور ذوالفقار علی بھٹو موجودہ پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر‘ کراچی سے لے کر طور خم تک ذوالفقار علی بھٹو کا طوطی بولتا تھا‘ پورے ملک میں ان کے سامنے اونچی آواز میں سانس لینے والا کوئی شخص نہیں تھا‘ فوج 1971ء کی جنگ کے بعد اپنے زخم سہلا رہی تھی‘ ملتان ملک کا روحانی‘ فیوڈل اور سیاست کا مرکز تھا ‘ یہ آج بھی ہے‘ صادق قریشی ملتان کی عظیم روحانی اور سیاسی شخصیت تھے‘ یہ پنجاب کے گورنر اور وزیر اعلیٰ رہے‘ یہ بھٹو صاحب کے قریبی دوست تھے‘ صادق قریشی نے ملتان میں اپنے گھر میں بھٹو صاحب کے لیے انیکسی بنا رکھی تھی‘ یہ انیکسی قریشی صاحب کے گھر کا حصہ ہونے کے باوجود الگ تھلگ تھی‘ ذوالفقار علی بھٹو جب بھی ملتان آتے تھے، یہ صادق قریشی کی انیکسی میں رہتے تھے۔
بھٹو صاحب ملتان آئے‘ یہ انسیکی میں ٹھہرے‘ ان کے کمرے کی کھڑکی سے انیکسی کا لان نظر آ رہا تھا‘ بھٹو صاحب کمرے میں ملتان کے عمائدین سے ملاقات کر رہے تھے‘ یہ سرکاری اہلکاروں کے ساتھ میٹنگ بھی کر رہے تھے‘ یہ ملاقاتوں کے دوران کھڑکی سے باہر بھی دیکھتے جا رہے تھے‘ انھوں نے دیکھا لان میں ایک فوجی افسر پوری یونیفارم پہن کر ٹہل رہا ہے‘ اس کے کندھے پر لیفٹیننٹ جنرل کے اسٹارز لگے ہیں‘ بھٹو صاحب ملاقاتیں کرتے رہے اور وہ جنرل لان میں ٹہلتا رہا‘ بھٹو صاحب بیڈ روم سے ڈرائنگ روم میں آ گئے‘ وہ ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے بھی اس جنرل کو دیکھتے رہے‘ وزیر اعظم کھانے کے لیے اٹھے تو اس وقت بھی جنرل لان میں ٹہل رہا تھا‘ بھٹو صاحب اسے بار بار دیکھتے تھے اور اس کے بعد کچھ سوچتے تھے‘ شام کے وقت ملتان میں بھٹو صاحب کا جلسہ تھا۔
یہ جلسے کے لیے نکلنے لگے تو وہ گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے رکے‘ نیچے اترے‘ چلتے ہوئے اس جنرل کے قریب آئے اور اس سے پوچھا ’’آپ کا تعارف‘‘ جنرل نے چھڑی بغل میں دبائی‘ وزیر اعظم کو انتہائی اسمارٹ سیلوٹ کیا اور عاجزی سے بولا ’’ضیاء الحق ہیئر سر‘‘ بھٹو صاحب نے پوچھا ’’میں آپ کو صبح سے دیکھ رہا ہوں‘ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں‘‘ جنرل ضیاء الحق نے اپنا پورا جسم پنجوں پر اٹھایا اور عرض کیا ’’ سر آپ ملتان میں ہیں‘ میں ملتان کا کور کمانڈر ہوں‘ آپ کی سیکیورٹی میری ذمے داری ہے‘ میں آپ کی حفاظت کے لیے خود یہاں موجود ہوں‘‘ بھٹو صاحب نے حیران ہو کر کہا ’’جنرل آپ کے کمانڈوز‘ پولیس فورس اور میری ذاتی سیکیورٹی موجود ہے‘ آپ کیوں تکلیف کر رہے ہیں‘‘ جنرل نے عرض کیا ’’سر میں فوجی ہوں‘ میں جانتا ہوں اگر کمانڈنگ آفیسر خود محاذ پر موجود ہو تو اس کی فورس ایکٹو رہتی ہے‘ میرے یہاں رہنے سے کمانڈوز الرٹ بیٹھے ہیں‘‘ بھٹو صاحب انسان تھے اور انسان ہمیشہ خوشامد سے خوش ہوتا ہے‘ بھٹو صاحب بھی خوش ہو گئے۔
انھوں نے جنرل کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس سے کہا ’’آپ شام سات بجے یہاں آ جائیں‘ میں آپ کے ساتھ میٹنگ کرنا چاہتا ہوں‘‘ جنرل نے سیلوٹ کیا اور ذوالفقار علی بھٹو گاڑی میں بیٹھ کر جلسہ گاہ میں چلے گئے‘ جلسہ لمبا ہو گیا‘ جلسے کے بعد ملتان کے مخدوم بھٹو صاحب کو کھانے پر لے گئے‘ وہاں گفتگو شروع ہوئی تو لمبی ہوتی چلی گئی‘ بھٹو صاحب اس کے بعد ملتان کی کاروباری برادری سے بھی ملے‘ انھوں نے بھی وزیر اعظم کا بہت وقت لے لیا‘ یہاں تک کہ رات کے دو بج گئے‘ بھٹو صاحب انتہائی تھکے ہوئے واپس آئے‘ یہ انیکسی میں داخل ہوئے تو جنرل ضیاء الحق سامنے بیٹھے تھے‘ جنرل نے اٹھ کر وزیر اعظم کو سیلوٹ کیا‘ بھٹو صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ’’آپ کب آئے‘‘ جنرل ضیاء الحق نے جواب دیا ’’سر میں پونے سات بجے پہنچ گیا تھا‘‘ بھٹو صاحب نے کہا ’’آپ پونے سات بجے سے یہاں بیٹھے ہیں‘‘ جنرل نے جواب دیا ’’یس سر‘‘ بھٹو صاحب نے پوچھا ’’میں لیٹ تھا تو آپ واپس چلے جاتے‘‘ جنرل ضیاء الحق نے جواب دیا ’’سر آپ نے مجھے آنے کا وقت دیا تھا‘ جانے کا نہیں‘‘ بھٹو صاحب کی ہنسی نکل گئی۔
وہ صادق قریشی اور دوسرے ساتھیوں کی طرف مڑے‘ انھیں گڈ نائیٹ کہا اور جنرل ضیاء الحق کو ساتھ لے کر بیڈ روم میں گھس گئے‘ بھٹو صاحب سوا گھنٹہ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ بیٹھے رہے‘ یہ وہ 75 منٹ تھے جن میں بھٹو صاحب نے وہ فیصلہ کیا جو آگے چل کر ان کی تباہی کا باعث بنا‘ اگلے دن بھٹو صاحب کی اسلام آباد کے لیے فلائٹ تھی‘ یہ جہاز میں داخل ہوئے تو بیگم نصرت بھٹو اور سردار شیر باز خان مزاری وزیر اعظم کے کیبن میں بیٹھے تھے‘ جنرل ضیاء الحق رن وے پر کھڑے تھے‘ بھٹو صاحب اپنی سیٹ پر بیٹھے‘ انھوں نے کھڑکی سے جھانک کر جنرل ضیاء الحق کی طرف دیکھا اور شیرباز مزاری سے کہا ’’مزاری مجھے میرا چیف آف آرمی اسٹاف مل گیا‘‘ یہ وہ فقرہ‘ وہ فیصلہ تھا جو آنے والے دنوں میں بھٹو صاحب کے زوال‘ بھٹو صاحب کے اقتدار کے خاتمے‘ گرفتاری اور پھر پھانسی کا ذ ریعہ بن گیا‘ بھٹو صاحب نے پانچ سینئر جرنیلوں کو مسترد کر کے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا اور پھر ان کے اپنے آرمی چیف نے انھیں پھانسی کے تختے تک پہنچا دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو اگر اس وقت ایک لمحے کے لیے سوچ لیتے جو شخص وزیر اعظم کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پوری یونیفارم پہن کر آٹھ گھنٹے لان میں ٹہل سکتا ہے اور جو وزیر اعظم کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر ایک صوفے پر سات گھنٹے گزار سکتا ہے‘ وہ کس قدر خوفناک اور بے وفا ثابت ہو گا تو شاید وقت کا دھارا بدل جاتا‘ خوشامد اور جی حضوری آرٹ ہے اور جو لوگ اس کے ماہر ہوتے ہیں‘ یہ چند لمحوں میں چاند کو شیشے میں اتار لیتے ہیں‘ آج سے ہزاروں سال قبل چین کے کسی دانشور نے کہا تھا‘ لکڑی کو دیمک اور بادشاہوں کو خوشامد کھا جاتی ہے اور بھٹو صاحب جنرل ضیاء الحق کے جھکے ہوئے سر‘ سینے پر بندھے ہوئے ہاتھوں اور’’سر آپ نے آنے کا کہا تھا‘ جانے کا نہیں‘‘ جیسے کلمات کے طلسم میں آ گئے‘ یہ پھنس گئے اور انھیں اس وقت رہائی ملی جب ان کا بدن رسے پر جھول رہا تھا اور روح راولپنڈی جیل کے پھانسی گھاٹ میں پھڑ پھڑا رہی تھی۔
بھٹو صاحب نے اگر اپنی خوشامد پسندی کو قابو میں رکھا ہوتا‘ یہ غلاموں کی بجائے اہل لوگ تلاش کرتے تو شاید یہ پاکستان کے ماؤزے تنگ‘ چو این لائی‘ مہاتیر محمد اور لی کوان یو ہوتے مگر یہ خوشامدیوں کے ہتھے چڑھ گئے اور یہ خوشامدی انھیں عبرت ناک انجام تک لے گئے‘ میاں نواز شریف کے ساتھ بھی دونوں مرتبہ یہی ہوا‘ یہ 1990ء سے لے کر 1992ء تک اور 1997ء سے لے کر 1999ء تک ذوالفقار علی بھٹو جیسی غلطیاں کرتے رہے‘ یہ اپنے گرد ایسے لوگ اکٹھے کرتے رہے جو خوشامد میں دس دس گھنٹے ان کے دروازے پر بیٹھے رہتے تھے لیکن جب میاں صاحب پر برا وقت آیا تو یہ نہ صرف ان کے پیچھے سے ہٹ گئے بلکہ انھوں نے ان کے خلاف اپنے لشکر بھی بنا لیے‘ جنرل پرویز مشرف کون تھا، یہ جنرل ضیاء الحق کی ایکسٹینشن تھا اور میاں صاحب نے وہی نقطہ سوچ کر اسے آرمی چیف بنایا تھا جس سے مجبور ہو کر بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو میرا آرمی چیف کہا تھا۔
چوہدری صاحبان کون تھے‘ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے گجرات میں میاں نواز شریف کی گاڑی اپنے کندھوں پر اٹھائی تھی‘ پاکستان مسلم لیگ ق کیا تھی‘ یہ ان لوگوں کی جماعت تھی جنھوں نے نواز شریف کی جھولی سے جنم لیا تھا اور میاں نواز شریف کو وہ تمام بیوروکریٹس‘ وہ تمام صحافی اور وہ تمام بزنس مین بھی یاد ہوں گے جو انھیں 1999ء تک سیاست کا امام کہتے تھے مگر یہ لوگ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد گرمیوں میں برف کی طرح غائب ہو گئے‘ یہ سب نئی چرا گاہوں کی طرف کوچ کر گئے ۔
میاں نواز شریف آج تیسری بار حکمران بن رہے ہیں تو میں ایک بار پھر انھیں لوگوں کو ان کے اردگرد دیکھ رہا ہوں‘ یہ لوگ جب شیر آیا‘ شیر آیا اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کے نعرے لگاتے ہیں تو میاں نواز شریف کے چہرے پر طمانیت اور خوشی چمکنے لگتی ہے اور دیکھنے والی ہر آنکھ صاف بھانپ جاتی ہے میاں صاحب کو یہ نعرے اور یہ آوازیں اچھی لگ رہی ہیں‘ میاں صاحب ضرور خوش ہوں لیکن یہ خوش ہوتے ہوئے ایک لمحے کے لیے یہ ضرور سوچ لیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جو کل تک جنرل پرویز مشرف کو دس بار یونیفارم میں صدر منتخب کرانا چاہتے تھے‘ یہ لوگ‘ جو آج آپ کے دروازے پر دس دس گھنٹے بیٹھے رہتے ہیں یہ کل تک کسی اور کو خدا سمجھتے تھے اور آپ جس دن اس کرسی سے ہٹ جائیں گے یہ نئے بھگوان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے‘ یہ پانی کے جانور ہیں‘ یہ ہر لمحہ تالابوں کی تلاش میں رہتے ہیں‘ آپ ہیں تو یہ آپ کے ساتھ ہیں‘ آپ نہیں ہوں گے تو یہ کوئی نیا تالاب کوئی نیا کنواں تلاش کر لیں گے‘ کسی اور کے لیے شیر آیا‘ شیر آیا کے نعرے لگائیں گے‘ یہ لوگ آپ کو جب بھی لان میں ٹہلتے یا دس دس گھنٹے آپ کا انتظار کرتے نظر آئیں تو آپ جان لیں یہ لوگ میرٹ کے درمیان حائل ہوتے ہیں اور آخر میں محسنوں کو کربلا میں چھوڑ کر کوفہ چلے جاتے ہیں۔
پہلا کیل
جاوید چوہدری بدھ 29 مئ 2013
میں آپ کو چند لمحوں کے لیے ذرا سا ماضی میں لے جانا چاہتا ہوں‘ یہ 2009 کا درمیان تھا ‘ راجہ پرویز اشرف پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر تھے‘ ملک مںٹ بجلی کا شدید بحران تھا‘ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی‘ شہر‘ شہر ہنگامے ہو رہے تھے‘ لوگ گاڑیوں اور عمارتوں کو آگ لگا رہے تھے‘ واپڈا کے دفتروں پر حملے ہو رہے تھے اور ملازمین جان بچانے کے لیے ہوائی فائرنگ پر مجبور تھے اور میڈیا بھی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے چیخ رہا تھا‘ راجہ پرویز اشرف سے ان حالات میں لوڈ شیڈنگ کے بارے میں سوال کیا گیا تو راجہ صاحب نے جواب دیا ’’31 دسمبر 2009 تک لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی‘‘ راجہ پرویز اشرف اس کے بعد اپنی ہر تقریر میں یہ دعویٰ دہراتے رہے‘ قوم نے راجہ صاحب کی بات پر یقین کر لیا‘ وقت کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ وہ دریا ہے جو کسی کے کہنے پر رکتا ہے اور نہ ہی چلتا ہے‘ یہ اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق اپنی رفتار سے آگے بڑھتا ہے‘ وقت راجہ پرویز اشرف کے دعوے کی دہلیز پر بھی پہنچ گیا
31 دسمبر آیا اور گزر گیا اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ تو رہا ایک طرف بجلی کے شارٹ فال میں تین ہزار میگاواٹ کا اضافہ ہو گیا اور بجلی کی کمی ساڑھے چھ ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی‘ میڈیا کیونکہ بدتمیز بھی ہے‘ کوتاہ اندیش بھی‘ نالائق بھی اور سازشی بھی چنانچہ میڈیا نے راجہ پرویز اشرف کو’’ ایک سازش‘‘ کے تحت ان کا وعدہ یاد دلانا شروع کر دیا‘ راجہ صاحب نے اس کے دو حل نکالے‘ ایک‘ یہ میڈیا سے غائب ہو گئے‘ انھوں نے ٹاک شوز میں جانا‘ پریس کانفرنس کرنا اور صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینا بند کر دیا‘ دو‘ انھوں نے سپریم کورٹ کو لوڈ شیڈنگ کا ذمے دار قرار دے دیا‘
ان کا کہنا تھا سپریم کورٹ نے رینٹل پاور پلانٹس کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا جس کے رد عمل میں غیر ملکی سرمایہ کار بھاگ گئے‘ رینٹل پاور پلانٹس بھی متحرک نہیں ہو سکے چنانچہ لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہو سکی‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے اس وقت کسی صحافی نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے راجہ پرویز اشرف کے بیانات کا حوالہ دے کر پوچھا تھا’’ لوڈشیڈنگ کب ختم ہو گی‘‘ تو یوسف رضا گیلانی نے ایک لمحے میں وہ جواب دیا تھا جو آج میاں نواز شریف بار بار دے رہے ہیں‘ گیلانی صاحب نے فرمایا‘ راجہ پرویز اشرف نے جوش خطابت میں 31 دسمبر کی تاریخ دے دی تیا‘ انھیں تاریخ نہیں دینی چاہیے تھی‘ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں‘ بجلی کے گردشی قرضے ادائیگی کے دائرے سے نکل چکے ہیں اور ہمارے پاس جادو کی کوئی چھڑی نہیں کہ ہم گھمائیں اور بجلی آ جائے وغیرہ وغیرہ‘ یوسف رضا گیلانی کے اس بیان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے تابوت میں پہلا کیل ٹھونک دیا اور لوگوں نے اس دن کہنا شروع کر دیا‘ پاکستان پیپلز پارٹی اپنی آخری مدت پوری کر رہی ہے۔
امتیاز صفدر وڑائچ میرے دوست بھی ہیں اور یہ ان چند سیاستدانوں میں بھی شمار ہوتے ہیں جو پانچ سال میرے ٹی وی پروگرام میں آتے رہے اور ہر پروگرام کے بعد ہمارے دل میں ان کی عزت میں اضافہ ہوا‘ امتیاز صفدر وڑائچ بلاشبہ ان نصف درجن سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی گردن میں اقتدار کے بعد سریا نہیں آیا‘ یہ وزیر بننے کے بعد بھی انسان رہے جب کہ میرے باقی تمام دوست اپنی جھولی کوئلوں سے بھر کر واپس چلے گئے‘ اس امتیاز صفدر وڑائچ نے ایک بار پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں صدر زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے سامنے کہا ’’ ہم نے اگر لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں الیکشن نہیں جتوا سکے گی‘‘ مگر کسی نے ان کی بات پر یقین نہ کیا کیونکہ اس یقین کے لیے اے سی کے بغیر اندھیرے میں بیٹھنا پڑتا ہے اور ایوان صدر ہو‘ وزیراعظم ہاؤس ہو یا پھر پارلیمنٹ ہاؤس یا پارلٹمن لاجز ہوں یہ تمام لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ تھے لہٰذا ان ہاؤسز میں رہنے والی مخلوق کو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا مگر پھر وہی ہوا‘ الیکشن ہوئے اور جادو کی چھڑی نہ ہونے کا واویلا کرنے اور وزیروں کو جوش خطابت کے طعنے دینے والے بری طرح ہار گئے‘ امتیاز صفدر وڑائچ کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی‘ آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی کو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پیک کر دیا‘ حکومت اگر صرف بجلی لے آتی تو یقین کیجیے آج کے سیاسی حالات بالکل مختلف ہوتے‘ راجہ پرویز اشرف یا یوسف رضا گیلانی ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا رہے ہوتے اور جیالے نعرے لگا رہے ہوتے ’’ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ بھٹو زندہ تھا اور بھٹو مزید زندہ رہ سکتا تھا مگر راجہ پرویز اشرف‘ یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری کی لوڈ شیڈنگ نے بھٹو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مار دیا‘ اسے دفن کر دیا۔
ہم اب آتے ہیں پاکستان کے نئے حکمرانوں کی طرف‘ میاں نواز شریف پوری الیکشن مہم کے دوران عوام سے اپیل کرتے رہے آپ مجھے سمپل میجارٹی دیں ‘ میں ملک سے لوڈشیڈنگ کے اندھیرے ختم کر دوں گا‘ میاں صاحب یہ دعویٰ بھی کرتے رہے‘ ہم بجلی کا بحران دور کر دیں گے‘ میاں صاحب کے ساتھ ساتھ میاں شہباز شریف بھی گلے کا پورا زور لگا کر عوام سے کہتے رہے میں دو سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کردوں گا‘ میں ڈیڑھ سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کر دوں گا‘ اگر میں نے دوسال میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل نہ کیا تو میرا نام شہباز شریف نہیں اور میں چھ ماہ میں لوڈشڈانگ ختم کر دوں گا‘ قوم نے میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف دونوں کی باتوں پر یقین کر لیا چنانچہ میاں صاحب کو سمپل میجارٹی مل گئی‘ میاں صاحب کی ایم این ایز کی تعداد اتحادی جماعتیں ملا کر 190 تک چلی گئی اور یہ تقریباً دو تہائی اکثریت بنتی ہے لیکن میاں صاحب سمپل میجارٹی حاصل کرنے کے ایک ہفتے بعد اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے
انھوں نے 20مئی 2013 کو الحمراء ہال میں اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز سے خطاب کیا اور اس خطاب میں میاں شہباز شریف کے دعوؤں کو جوش خطابت قرار دے دیا‘ میاں صاحب نے یہ بھی کہا ’’خزانہ خالی ہے‘ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا وقت نہیں بتا سکتا‘‘ میاں نواز شریف کا اس نوعیت کا دوسرا بیان 28مئی کو یوم تکبیر کی تقریب سے خطاب کے دوران سامنے آیا‘ میاں نواز شریف نے فرمایا ’’ یہ توقع نہ کریں آج حکومت آئی تو کل بجلی آ جائے گی‘‘ میاں صاحب نے یہ بھی فرمایا ’’ بحران سے نبٹنے کا کوئی فوری حل ہے اور نہ ہی پیسہ‘‘ میاں صاحب کے یہ دونوں بیانات صرف بیانات نہیں ہیں‘ یہ نئی حکومت کے تابوت کا پہلا کیل بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ میاں نواز شریف یہ بیان دینے کے بعد میاں نواز شریف کم اور یوسف رضا گیلانی زیادہ لگتے ہیں‘ بس جادو کی چھڑی کے تین لفظوں کی کمی ہے اور مجھے خدشہ ہے میاں صاحب کی کسی اگلی تقریر میں یہ تینوں لفظ بھی شامل نہ ہو جائیں اور میاں صاحب بھی فرمائیں گے‘ ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ ہم گھمائیں اور ملک کے 65 سال پرانے مسئلے حل ہو جائیں اور میاں نواز شریف کے اس بیان کے ساتھ ہی مستقبل کا کوئی قمر زمان کائرہ میڈیا کے سامنے آئے گا اور کہے گا‘ ہم نے ابھی حلف اٹھایا ہے اور ہمارا میڈیا ٹرائل شروع ہو گیا‘ یہ دو کوڑی کے اینکرز ملک میں جمہوریت نہیں چلنے دے رہے‘ یہ ملک گورن ایبل نہیں رہا‘ پچھلی حکومت اداروں کو برباد کر کے چلی گئی اور ہم بجلی کہاں سے لائیں وغیرہ وغیرہ‘ آپ عنقریب ٹیلی ویژن چزنل پر پرانی فلم نئے اداکاروں کے ساتھ دیکھیں گے‘ حکمرانوں کا وہی غیض و غضب ہو گا‘ میڈیا پر طعنوں کے وہی تیر ہوں گے اور عوام کے لیے وعدوں‘ دعوؤں اور نعروں کی وہی گٹھڑیاں ہوں گی اور ہم یہ گٹھڑیاں اٹھا کر اپنے اپنے راستے پر چل پڑیں گے۔
مجھے لوگ میاں نواز شریف کا سپورٹر سمجھتے تھے‘ میں پچھلے چھ سات برسوں سے ان کے ہاتھوں بکا ہونے کے طعنے بھی سہہ رہا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے میاں نواز شریف کالم میں دو سطر کی گستاخی کی وجہ سے پچھلے دو سال سے مجھ سے ناراض ہیں‘ میں نے دو سال قبل کالم میں لکھ دیا تھا آج اگر صدر زرداری غلط کر رہے ہیں تو کل کو آپ بھی ان کی چھوڑی ہوئی جرابیں پہنیں گے‘ اس پر میاں صاحب ناراض ہو گئے اور یہ ناراضگی آج تک جاری ہے لیکن کیا وہ بات غلط تھی‘ کیا یہ آج سابق حکومت کی چھوڑی ہوئی جرابیں پہننے کی کوشش نہیں کر رہے‘ کیا یہ وہ غلطیاں نہیں کر رہے جن کی وجہ سے پچھلی حکومت ناکام ہوئی‘ انھوں نے تو شروع ہی میں اپنے دعوؤں سے انحراف کر دیا‘ اگر میاں شہباز شریف تین چار سال سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کر رہے ہیں تو ان کے پاس یقیناً کوئی نہ کوئی حل ہو گا
میاں نواز شریف ان سے یہ حل‘ یہ منصوبہ کیوں نہیں لیتے؟ اور اگر میاں شہباز شریف کے پاس کوئی حل نہیں تھا تو پھر یہ دعوے کیوں کرتے رہے اور میاں نواز شریف نے انھیں پہلے دعوے کے بعد روکا کیوں نہیں؟ بڑے میاں صاحب کو چھوٹے میاں صاحب کی جوش خطابت کا اندازہ الیکشن جیتنے کے بعد ہی کیوں ہوا؟ اگر 190 نشستیں حاصل کرنے کے بعد قوم کو یہی جواب ملنا تھا تو پھر یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف میں کیا خرابی تھی‘ وہ بھی تو یہی کہہ رہے تھے‘ قوم کم از کم یہ تو جانتی تھی یہ لوگ دعوے اور کرپشن کر کر کے تھک گئے ہیں‘ یہ شاید اب ڈیلیور کر دیں جب کہ میاں صاحب کی ساری ٹیم نئی ہو گی‘ یہ ٹیم شاید ایشوز کو سمجھنے میں دو سال لگا دے‘ یہ اس نئی ٹیم کا کمال ہے کہ اس نے حکومت سنبھالنے سے پہلے میاں نواز شریف کو اس صف میں لا کھڑا کیا جس میں کل تک یوسف رضاگیلانی اور راجہ پرویز اشرف کھڑے تھے چنانچہ میاں صاحب کے یہ بیان وہ کیل ہیں جو آہستہ آہستہ عوام کی توقعات کو تابوت بنا دیں گے اور اگر یہ تابوت بن گیا تو میاں صاحب کے ساتھ ساتھ پورا ملک ڈوب جائے گا۔
’’ یہ میاں نواز شریف کون ہیں‘‘
جاوید چوہدری پير 27 مئ 2013
میں نے ڈرائیور سے پوچھا ’’ آپ کتنے وزراء اعظم کے ساتھ ڈیوٹی کر چکے ہیں‘‘ اس نے سرکھجایا اور بولا ’’ میں سات وزیراعظموں کا ڈرائیور رہ چکا ہوں‘ میں نے تین درجن سے زائد عالمی لیڈروں کو بھی ائیرپورٹ سے ایوان صدر‘ وزیراعظم ہاؤس اور وہاں سے واپس ائیرپورٹ پہنچایا‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ساتھ بھی کام کیا‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’ دونوں کے ساتھ دونوں ادوار میں کام کیا‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میں کیا فرق تھا‘‘ وہ مسکرایا اور اس نے دونوں کی شخصیت کا تجزیہ شروع کر دیا‘ ہم لوگ پوری دنیا سے چھپ سکتے ہیں‘ ہم خود کو اپنے دوستوں اور دشمنوں تک سے چھپا سکتے ہیں اور ہم دنیا کو جعلی اور نقلی مسکراہٹ سے بھی بہلا سکتے ہیں مگر ہم خود کو اپنے ڈرائیوروں سے نہیں چھپا سکتے‘ ہم لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہیں‘ ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان پر مسکراہٹیں نچھاور کرتے ہیں مگر ہم جوں ہی اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہیں‘ ہم مسکراہٹوں‘ شکریئے اور بائی بائی کے ماسک اتار کر سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں اور ہمارا اصل چہرہ پوری طرح ننگا ہو جاتا ہے‘ ہمارا اصل سامنے آ جاتا ہے اور اس اصل کا پہلا گواہ ہمارا ڈرائیور ہوتا ہے
آپ دنیا بھر کے ڈرائیوروں کی عادتیں نوٹ کیجیے‘ آپ کو ان میں تین چیزیں مشترک ملیں گی‘ آپ جوں ہی گاڑی میں بیٹھیں گے ‘ ڈرائیور بیک مرر سے آپ کے چہرے کو غور سے دیکھیں گے‘ یہ اس وقت آپ کے چہرے کا ننگا پن دیکھ رہے ہوں گے‘ یہ آپ کا اصل روپ دیکھ رہے ہوتے ہیں‘ دو‘ یہ جب بھی کسی جگہ رکتے ہیں‘ یہ گاڑی سے اتر کر دوسرے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور یہ دونوں چند لمحوں میں آپس میں اپنی معلومات کا تبادلہ کر لےتی ہیں‘ یہ اس سفر کے دوران اپنے صاحب کے بارے میں جو محسوس کرتے ہیں‘ یہ نہایت ایمانداری سے وہ سب کچھ اپنے ڈرائیور بھائی کو بتا دیتے ہیں اور وہ یہ معلومات شام تک پورے شہر تک پہنچا دیتا ہے اور تین‘ ڈرائیوروں کی ججمنٹ بہت تیز ہوتی ہے‘ آپ پوری دنیا کو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر آپ اپنے ڈرائیور کو دھوکہ نہیں دے سکتے کیونکہ یہ چہرے پڑھنے کا ماہر ہوتا ہے‘ یہ دھوکے باز‘ جھوٹے‘ فریبی اور اچھے‘ نیک اور ایماندار شخص کو فوراً پہچان جاتا ہے لہٰذا آپ اگر کسی شخص کے بارے میں اصل اور مکمل معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس کے ڈرائیور کو اعتماد میں لینا چاہیے اور وہ آپ کو جو معلومات دے گا وہ سو فیصد سالڈ ہوں گی۔
مجھے چند سال قبل وزیراعظم ہاؤس کے ایک ڈرائیور سے ملاقات کا موقع ملا‘ یہ کسی کام کے سلسلے میں میرے پاس آیا تھا‘ میں نے اسے پاس بٹھا لیا اور اس کے موجودہ اور سابق صاحبوں کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا‘ وہ آہستہ آہستہ بتاتا چلا گیا اور میں حیران ہوتا گیا‘ میں نے اس سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے بارے میں خصوصی طور سے پوچھا‘ اس کا کہنا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو بہت ڈھاڈی(سخت) خاتون تھیں‘ لوگ ان سے بہت ڈرتے تھے‘ وہ درجنوں لوگوں کی موجودگی میں اپنے اسٹاف کو جھڑک دیتی تھیں‘ انھوں نے ایک بار اپنے پرنسپل سیکریٹری کو ایک قمیض دی اور میچنگ دوپٹے خریدنے کا حکم دے دیا‘ وہ بے چارہ اس معاملے میں کورا تھا‘ وہ دو تین دوپٹے خرید لایا مگر محترمہ کو پسند نہ آئے چنانچہ انھوں نے گاڑی میں میرے سامنے انھیں جھاڑ پلا دی‘ وہ ائیر پورٹ جاتے ہوئے راستے میں گاڑی رکوا کر ناپسندیدہ افسروں کو نیچے بھی اتار دیتی تھیں جب کہ میاں نواز شریف ان کے برعکس ایک نرم طبع انسان تھے ‘غصہ پی جاتے تھے‘ میں نے میاں نواز شریف سے متعلق کوئی دلچسپ واقعہ سننے کی درخواست کی
اس نے ہنس کر بتایا‘ یہ 1992ء کا واقعہ ہے‘ سعید مہدی صاحب اس وقت راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر تھے اور میاں نواز شریف وزیر اعظم اور محترمہ بے نظیر بھٹو اپوزیشن لیڈر تھیں‘ بی بی ان دنوں میاں نواز شریف کے خلاف راولپنڈی اور اسلام آباد میں جلوس نکالتی تھںز‘ یہ لانگ مارچ بھی کر دیتی تھیں‘میاں صاحب ان جلوسوں سے بہت تنگ تھے‘ محترمہ نے ایک دن راولپنڈی میں جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا‘ میاں نواز شریف نے سعید مہدی کو حکم دیا ’’ آپ بی بی کو روکیں گے‘‘ سعید مہدی نے پوری کوشش کی مگر بی بی انتظامیہ کو چکمہ دے کر راولپنڈی پہنچ گئیں‘ انٹرنیشنل میڈیا بھی وہاں آ گیا اور اس نے بی بی کو بے تحاشا کوریج دی‘ میاں صاحب سعید مہدی صاحب سے ناراض ہو گئے‘ مہدی صاحب انھیں مل کر اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتے تھے مگر میاں صاحب ان سے ملاقات کے لیے راضی نہیں ہو رہے تھے‘ میاں صاحب کے سیکریٹری مہدی صاحب کے بارے میں سافٹ کارنر رکھتے تھے‘ یہ روز سعید مہدی کا نام وزیراعظم کے ملاقاتیوں کی فہرست میں ڈال دیتے تھے لیکن میاں صاحب ان کا نام کاٹ دیتے تھے‘ سیکریٹری صاحب نے آخر میں میری مدد لی‘ انھوں نے مجھ سے کہا ‘میاں صاحب آج وزیراعظم ہاؤس سے ائیر پورٹ جائیں گے‘ تم نے مہدی صاحب کو گاڑی میں بٹھا لینا ہے
سیکریٹری صاحب کو یقین تھا میاں نواز شریف مہدی صاحب کو کم از کم گاڑی سے نہیں اتاریں گے‘ پروگرام کے مطابق میاں صاحب گاڑی میں بیٹھے اور دوسرا دروازہ کھول کر سعید مہدی بھی اندر بیٹھ گئے‘ اگلی سیٹ پر سیکریٹری صاحب بیٹھ گئے‘ ہم پرائم منسٹر ہاؤس سے باہر نکل آئے‘ پروٹوکول کے مطابق وزیراعظم اور صدر 24 منٹ میں ائیر پورٹ پہنچتے ہیں اور انھیں وقت پر پہنچانا میری ذمے داری ہوتی ہے‘ سعید مہدی صاحب نے گفتگو شروع کر دی‘ میاں نواز شریف نے دوسری طرف منہ پھیر لیا مگر مہدی صاحب بولتے رہے‘ میاں نواز شریف کی عادت ہے یہ جب غصے میں آتے ہیں تو ان کے کان سرخ ہو جاتے ہیں‘ میں بیک مرر میں دیکھ رہا تھا‘ میاں صاحب کے دونوں کان سرخ تھے‘ میں ڈر گیا‘ سیکریٹری صاحب کا رنگ بھی فق تھا مگر سعید مہدی مسلسل بول رہے تھے‘ اس دوران میاں نواز شریف کی برداشت جواب دے گئی‘ وہ مہدی صاحب کی طرف مڑے اور انھوں نے غصے سے کہا ’’ مہدی صاحب آپ کو میرے احسانات یاد نہیں آئے‘ میں نے آپ کو کہاں سے اٹھایا اور کہاں پہنچا دیا‘‘ میاں صاحب اس کے بعد اپنے وہ تمام احسانات دہرانے لگے جو انھوں نے مہدی صاحب پر کیے تھے‘ مہدی صاحب چپ چاپ سنتے رہے
وزیراعظم جب تھک گئے تو مہدی صاحب نے ان کی طرف دیکھا اور میاں صاحب سے مخاطب ہوئے ’’ میاں صاحب یاد رکھیں مجھ پر یہ تمام مہربانیاں میرے اللہ نے کی ہیں‘ آپ صرف وسیلہ تھے‘ میں وسیلا بننے پر آپ کا صرف شکریہ ادا کر سکتا ہوں مگر میرا شکر صرف مریے اللہ کی امانت ہے‘‘ یہ سن کر میاں نواز شریف نے چند لمحوں کے لیے منہ پھیر لیا ‘ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے‘ پھر انھوں نے اچانک میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور حکم دیا’’ گاڑی روک دو ‘‘ ہم لوگ اس وقت فیض آباد کے قریب پہنچ چکے تھے‘ فیض آباد کا پل ابھی نہیں بنا تھا اور راول ڈیم چوک سے لے کر فیض آباد تک ویرانہ ہوتا تھا‘ میں نے گھبرا کر سیکریٹری صاحب کی طرف دیکھا‘ وہ بھی انتہائی پریشان تھے‘ ہم پروٹوکول کے ضابطوں کے مطابق وزیراعظم کی گاڑی راستے میں نہیں روک سکتے تھے چنانچہ میں گاڑی چلاتا رہا‘ میاں صاحب نے مجھے دوسری بار سخت لہجے میں حکم دیا’’ گاڑی روکو‘‘ میں نے سعید مہدی کی طرف دیکھا‘ ان کے چہرے پر سکون اور اعتماد تھا‘ وہ ذہنی طور پر ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے‘ میں نے گاڑی روک دی‘ ہمارے رکتے ہی پروٹوکول اور سیکیورٹی کی تمام گاڑیاں رک گئیں‘ کمانڈوز نے نیچے کود کر پوزیشن سنبھال لی
میاں صاحب گاڑی سے اترے اور سڑک سے نیچے اتر گئے‘ سامنے جھاڑیاں تھیں‘ وہ جھاڑیوں میں چلے گئے‘ ہم خوف اور پریشانی کے عالم میں انھیں دیکھنے لگے‘ وہ جھاڑیوں میں کیکر کے ایک درخت کے قریب رکے‘ کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور نماز شروع کر دی‘ وہ ننگی زمین پر رکوع بھی کر رہے تھے اور سجدے بھی اور ہم لوگ انھیں بلندی سے دیکھ رہے تھے‘ ہم میں سے کسی میں نیچے اترنے کی ہمت نہیں تھی‘ وزیراعظم نے دو نفل پڑھے‘ دعا کی اور واپس آ گئے‘ ان کے کپڑے اور جوتے گندے ہو چکے تھے‘ ہمارا قافلہ چل پڑا‘ گاڑی میں مکمل خاموشی تھی‘ سیکریٹری صاحب نے ذرا سی ہمت کی اور گیلے ٹشوز کا ڈبہ ان کی طرف بڑھا دیا‘ میاں صاحب نے ایک ٹشو اٹھایا اور سعید مہدی سے مخاطب ہوئے ’’ مہدی صاحب میں معافی چاہتا ہوں‘ میں غصے میں بڑا بول بول گیا تھا‘ آپ کی بات درست تھی ہم انسان کسی کو کچھ نہیں دے سکتے‘ ہم صرف وسیلہ بنتے ہیں‘ مجھے محسوس ہوا میں تکبر میں آ گیا ہوں چنانچہ میں نے فوراً توبہ کے دو نفل ادا کیے‘ آپ بھی مجھے معاف کر دیں‘‘۔ یہ سن کر سعید مہدی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ انھوں نے ٹشو اٹھا کر آنکھوں پر رکھ لیا‘ میاں صاحب ائیر پورٹ پر اترے‘ جہاز پر بیٹھے اور لاہور روانہ ہو گئے لیکن یہ واقعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے ذہن میں نقش ہو گیا۔
مجھے یہ واقعہ وزیراعظم ہاؤس کے ڈرائیور نے یوسف رضا گیلانی کے دور میں سنایا تھا‘ آج اس واقعے کو سنے ہوئے چار سال گزر گئے ہیں‘ میاں نواز شریف چند دن بعد تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائیں گے‘یہ وزارت عظمیٰ کا تیسری بار حلف اٹھانے والے پہلے وزیراعظم ہوں گے‘ میں جب بھی ٹی وی یا اخبار میں یہ خبر دیکھتا ہوں تو مجھے یہ واقعہ یاد آ جاتا ہے اور میں سوچتا ہوں ’’ 2013ء کے میاں نواز شریف کون ہیں‘ یہ اکتوبر 1999ء کے وہ میاں نواز شریف ہیں جو دو تہائی اکثریت کے تکبر میں مبتلا ہو کر مینار پاکستان بننے کی کوشش میں لگ گئے تھے یا پھر یہ 1992ء کے وہ نواز شریف ہیں جو تکبر سے بھرے چند فقرے بولنے کے بعد توبہ کے لیے ننگی زمین پر جھک گئے تھے‘ یہ میاں نواز شریف کون ہیں‘ ‘یہ سوال صرف سوال نہیں ہے یہ میاں نواز شریف کا مستقبل بھی ہے‘ اگر میاں نواز شریف نے ابتلاء کے 13برسوں سے یہ سیکھ لیا کہ اختیار اور اقتدار صرف اور صرف اللہ کی دین ہے تو پھر کوئی طاقت میاں صاحب کا راستہ نہیں روک سکے گی اور اگر یہ اس بار بھی مینڈیٹ کے زعم میں مبتلا ہو گئے تو پھر انھیں یوسف رضاگیلانی یا جنرل پرویز مشرف بنتے دیر نہیں لگے گی‘ اللہ کو عاجزی پسند ہے اور ہم عاجزی سے ہی اللہ کو راضی رکھ سکتے ہیں ورنہ بادشاہ تو فرعون بھی تھا اور یہ میاں نواز شریف سے زیادہ مضبوط بھی تھا۔
ٹٹو پر بیٹھ کر
جاوید چوہدری جمعرات 23 مئ 2013
علامہ محمد اسد کے بارے میں عرض کر چکا ہوں‘ یہ پاکستان کے پہلے شہری تھے‘ یہ پاکستان کے پہلے پاسپورٹ ہولڈر بھی تھے اور یہ وہ شخصیت ہیں جس نے اسلامی ریاست کے لیے سیکڑوں راتیں جاگ کر گزار دیں‘ جو آسٹریا چھوڑ کر ہندوستان کی گرمی میں دھکے کھاتے رہے اور پاکستان معرض وجود میں آگیا تو یہ آسٹریا کی شہریت اور پاسپورٹ سرینڈر کر کے مملکت خداد داد کے پہلے شہری بن گئے‘ مجھے پچھلے دنوں علامہ محمد اسد کی ’’ بائیو گرافی‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ یہ کتاب‘ کتاب نہیں‘ یادوں‘ اسلامی فلسفے اور عالم اسلام کی بارات ہے‘ آپ علامہ صاحب کی زندگی کے ورق پلٹتے ہوئے ہر صفحے پر رک جاتے ہیں اور دیر تک سوچتے رہتے ہیں‘ مثلاً آپ علامہ صاحب کے کراچی سے لاہور تک سفر کی روداد ملاحظہ کیجیے‘ اس سفر کی ایک آبزرویشن نے حیران بھی کر دیا او پریشان بھی‘ علامہ اسد 1932ء میں ہندوستان آئے‘ یہ کراچی سے لاہور کے لیے ٹرین میں سوار ہوئے‘ یہ سفر بے آرام بھی تھا اور طویل بھی۔
علامہ صاحب نے لکھا‘ آپ کراچی سے لاہور جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہوں تو آپ شام کے وقت لاہور پہنچتے ہیں‘ آپ اب 1932ء کو ذہن میں رکھئے اور اس کے بعد 2013ء کی صورتحال کا اندازہ لگائیے‘ ہماری ٹرینیں 1932ء میں آٹھ سے دس گھنٹوں میں کراچی سے لاہور پہنچ جاتی تھیں مگر آج 80 سال بعد اس ٹرین کو لاہور پہنچنے میں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں‘ آپ کراچی سے ٹرین میں سوار ہوں اور اگر راستے میں انجن خراب نہ ہو یا پٹڑی سلامت ملے تو آپ ذلیل و خوار ہوتے ہوئے اگلے دن لاہور پہنچتے ہیں‘ ہم نے 80 برسوں میں یہ ترقی کی جب کہ آپ اس کے مقابلے میں چین کو دیکھئے‘ چین 1970ء تک صرف سیفٹی ریزر (شیو کرنے کی سیفٹی)‘ بچوں کے کھلونے‘ کاغذی پھول اور نقلی ریڈیو بناتا تھا‘ یہ ملک دنیا کے لیے اجنبی تھا اور دنیا اس کے لیے نئی‘ دنیا کی کوئی ائیر لائین چین نہیں جاتی تھی‘ صدر ایوب خان پہلے سربراہ تھے جنہوں نے چین کے ساتھ تعلقات استوار کیے‘ ماؤزے تنگ کے لیے جہاز پاکستان نے گفٹ کیا تھا‘ یہ جہاز آج تک چین میں موجود ہے۔
پی آئی اے پہلی ائیر لائین تھی جس نے چین کے لیے سفر شروع کیا‘ چین کے لوگ پاکستان کو جنت سمجھتے تھے‘ کاشغر کے مسلمان پیدل پیر علی اورسست کے برف زار عبور کرتے تھے‘ بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر راولپنڈی پہنچتے تھے اور کالج روڈ کے سامنے چھوٹی چھوٹی سراؤں میں رہتے تھے‘ میں نے خود اپنی آنکھوں سے 1994-95ء میں چین کے حاجیوں کو کالج روڈ پر پھول اور کمبل بیچتے دیکھا‘ چین کے مسلمانوں کو حج اور عمرے کی سہولت حاصل نہیں تھی‘ جنرل ضیاء الحق اور شاہ خالد نے ان پر مہربانی کی‘ ہماری حکومت انھیں پاکستانی پاسپورٹ دے دیتی تھی‘ سعودی عرب اس پاسپورٹ پر حج اور عمرے کے ویزے دے دیتا تھا اور پی آئی اے اور سعودی ائیر لائین رعایتی ٹکٹ پر انھیں حجاز مقدس لے جاتی تھی‘ یہ لوگ زاد راہ کے لیے راولپنڈی اسلام آباد میں کاغذ کے پھول بیچتے تھے اور تین تین‘ چار چار دن اسلام آباد ائیر پورٹ پر ننگے فرش پر لیٹ کرگزار دیتے تھے‘ شاہراہ قراقرم1959ء میں شروع ہوئی‘ چینی مزدور اور انجینئر پاکستانی علاقوں میں آئے تو یہ پاکستان کی خوشحالی اور ہریالی دیکھ کر حیران رہ گئے‘ یہ کھانے پر ٹوٹ پڑتے تھے کیونکہ یہ کھانا انھیں چین میں نصیب نہیں ہوتا تھا مگر آج صرف تیس سال بعد چین دنیا کی معاشی سپر پاور بن چکا ہے‘ آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں‘ آپ کوئی چیز اٹھا کر دیکھیں آپ کو اس کے نیچے میڈ ان چائنا کا سٹکر ملے گا‘ آپ حد ملاحظہ کیجیے‘ ہم عمرے یا حج کے لیے احرام خریدتے ہیں یا مکہ اور مدینہ سے تسبیح خریدیں یا جائے نماز لے لیں ہمیں اس کے ساتھ میڈ ان چائنا کا ٹیگ ملے گا۔
آپ امریکا کی کسی دکان سے امریکا کا جھنڈا خرید لیں‘ آپ کو اس کے ساتھ بھی میڈ ان چائنا ملے گا‘ آج دنیا میں مرسڈیز گاڑیوں کا سب سے بڑا کارخانہ چین میں ہے اور آئی فون‘ آئی پیڈ اور آئی پاڈ ایجاد امریکا میں ہوتا ہے مگر یہ اسمبل چین میں ہوتے ہیں‘ امریکا کی تیز ترین ٹرین کی رفتار 150 میل فی گھنٹہ ہے جب کہ چین کی فاسٹ ٹرین 302 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے‘ چین نے جنوری2012ء میں پندرہ دن میں تیس منزلہ عمارت تعمیر کر کے ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا‘ یورپ میں پچاس ایسے شہر ہیں جن کی آبادی دس لاکھ ہے جب کہ چین میں ایسے شہروں کی تعداد 130 تک پہنچ چکی ہے اور ان میں سے نوے فیصد شہر نئے بنے ہیں‘ میں نے شنگھائی کے مضافات میں تیس پینتیس کلو میٹر لمبا پل دیکھا‘ یہ پل سمندر کے اندر بنا تھا اور آپ جب اس پر سفر کرتے ہیں تو آپ کے دائیں بائیں اور نیچے سمندر موجیں مارتا ہے‘ چین کے موجودہ وزیراعظم لی کی چیانگ نے چین کے صوبے لیونگ کے پانچ بڑے انڈسٹریل زونز ہولو داؤ‘ژنگ کاؤ‘ ڈینگ ڈانگ اور ڈالیان کے دوانڈسٹریل زونز کوساڑھے آٹھ سو کلو میٹر لمبی سڑک سے جوڑ دیا‘ یہ سڑک پانچ سو مربع کلو میٹر کے رقبے کے گرد حصار بناتی ہے‘ یہ پانچوں انڈسٹریل زونز سڑک کے ذریعے ڈالیان بندرگاہ سے منسلک ہیں‘یہ منصوبہ ’’فائیو پوائنٹ ٹو ون لائین‘‘ کہلاتا ہے اور اس نے چین کی معیشت دوگنی کر دی‘ چین کی معیشت ہر آٹھ سال بعد دوگنی ہو جاتی ہے۔
آج 10 چینی بزنس مین فوربز کی ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہیں‘ چین نے امریکا میں دو اعشاریہ چھ ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘ امریکی اس سرمایہ کاری پر بے انتہا پریشان ہیں کیونکہ یہ سمجھتے ہیں جس دن چین نے یہ سرمایہ واپس نکال لیا امریکا اس دن دیوالیہ ہو جائے گا‘ دنیا کے 80 فیصد کھلونے چین میں بنتے ہیں اور چین نے یہ سب کچھ تیس پینتیس برسوں میں حاصل کیا‘ چین پر ایک وقت تھا جب عوام خوراک کی کمی کی وجہ سے گھاس کھانے پر مجبور تھے اور لوگ ان کے پستہ قد اور پیلی رنگت کی وجہ سے انھیں زرد چیونٹیاںکہتے تھے لیکن آج چین کے لوگوں کے قد بھی بڑھ رہے ہیں‘ ان کے رنگ بھی سرخ ہو رہے ہیںاور ان کی جسمانی ساخت بھی بدل رہی ہے اور چین دنیا کا واحد ملک ہے جس کے شہری دوسرے ملکوں کی شہریت چھوڑ کر اپنے ملک واپس آ رہے ہیں جب کہ چین کے مقابلے میں ہم سے ریلوے نہیں چل رہی‘ ہماری ٹرینیں 1932ء کے اسٹینڈر کا مقابلہ نہیں کر پا رہیں‘ ہم شہریوں کو بجلی فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں اور ہم چین کے وزیراعظم کو اسلام آباد ائیر پورٹ سے ایوان صدر پہنچانے کے لیے موبائل فون سروس بند کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ وفاقی دارالحکومت کی ساری سڑکیں بند اور شہر کو فوج کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ ہم چینی وزیراعظم کی رہائش گاہ سرینا ہوٹل کی سیکیورٹی تک چینی حکام کو دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ ہم ایوان صدر‘ وزیراعظم ہاؤس‘ وزیراعظم سیکریٹریٹ‘ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہاؤس کو بچانے کے لیے دس کلو میٹر کے علاقے کو ریڈ زون بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ ہم اس کے گرد خاردار تاریں لگا دیتے ہیں مگر اس کے باوجود ہم خود کو جوہری طاقت بھی کہتے ہیں اور اقوام عالم میں سربلند ہونے کے نعرے بھی لگاتے ہیں‘ کیا ہم شیشے میں اپنی شکل دیکھ سکتے ہیں‘ کیا ہم اپنے ماضی کا سامنا کر سکتے ہیں۔
ہم اب آتے ہیں چین کے ان اصولوں کی طرف جن کی وجہ سے چین چین بنا‘ یہ چار اصول ہیں‘ میرٹ‘ ایمانداری‘ تسلسل اور خود اعتمادی‘ چین نے فیصلہ کر لیا یہ صرف اہل لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر بٹھائے گا چنانچہ چین میں اگر عام سرکاری اہلکار کا بیٹا لی کی چیانگ خود کو اہل ثابت کر دیتا ہے تو سسٹم اسے وزیراعظم بنا دیتا ہے‘ یہ من حیث القوم اپنے ساتھ ایماندار ہیں‘ یہ خود کو دھوکہ نہیں دیتے‘ صبح وقت پر ڈیوٹی کے لیے پہنچتے ہیں اور جب تک کام ختم نہیں ہوتا یہ دفتر‘ فیکٹری اور دکان سے واپس نہیں آتے‘ یہ ہنر کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں چنانچہ آپ کو چین میں کوئی شخص بے ہنر یا بیکار بیٹھا دکھائی نہیں دیتا‘ وہ کچھ بھی نہ جانتا ہو تو بھی وہ بیلچہ اور کَسی چلانا ضرور جانتا ہو گا۔ ان کی شخصیت اور سسٹم میں تسلسل ہے‘ چین میں حکومت بدلنے سے نظام اور منصوبے نہیں بدلتے‘ یہ لوگ دس سال قبل صدر اور پانچ سال پہلے وزیراعظم کا تعین کر لیتے ہیں۔
مستقبل کا صدر موجودہ صدر کے ساتھ کام کرتا ہے اور مستقبل کا وزیراعظم نائب وزیراعظم بن کر موجودہ وزیراعظم کی مدد کرتا ہے یوں پانچ اور دس سال بعد جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو بھی پالیسیوں کا تسلسل قائم رہتا ہے‘ چین کے لوگ خود اعتماد ہیں‘ یہ چینی ہونے پر فخر کرتے ہیں‘ آپ کسی چینی سے بات کر لیں وہ اپنے ملک یا اپنی قوم کو گالی نہیں دے گا‘ بزرگ چینی زیادہ سے زیادہ یہ شکوہ کریں گے ہماری قوم اور ہمارے لوگ ماؤزے تنگ کے فلسفے کو فراموش کر بیٹھے ہیں‘ یہ پیسے کی دوڑ میں لگ گئے ہیں وغیرہ وغیرہ اورچین میں سب سے بڑھ کر لاء اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ نہیں‘ چین میں چوری کی سزا موت ہے‘ چور کے سر میں گولی ماری جاتی ہے اور گولی کی قیمت مجرم کے لواحقین سے وصول کی جاتی ہے‘ چین میں 53 قومیتیں آباد ہیں مگر کوئی قوم کسی دوسری قوم کے خلاف فتویٰ جاری نہیں کر سکتی‘ مذہب آزاد ہے مگر ریاست کسی مذہب کو دوسرے مذہب میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتی اور آپ مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں مگر آپ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے دوسروں کو ڈسٹرب نہیں کر سکتے‘ یہ وہ اصول ہیں جنہوں نے چین کو چین بنایا مگرہم لوگ اصولوں اور ضابطوں کے بغیر اس ملک کو اقوام عالم کا قائد بنانا چاہتے ہیں‘ ہم ٹٹو پر بیٹھ کر جیٹ جہازوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور جب ہمارے ٹٹو ہانپ جاتے ہیں تو ہم اللہ سے شکوہ کرتے ہیں آپ ہماری عرض کیوں نہیں سنتے‘ ہم یہ بھول جاتے ہیں قدرت دوڑنے والوں کا ساتھ دیتی ہے‘ یہ بیٹھے ہوئے سست لوگوں پر مہربانی نہیں کرتی۔
بالکونی
جاوید چوہدری پير 20 مئ 2013
وہ دلہن تھی اور وہ سعودی عرب کے شہر حریملا میں رہتی تھی‘ دلہن کے والدین نے ریاض سے اس کے لیے عروسی جوڑا خریدا‘ یہ جوڑا کوریئر کمپنی کے ذریعے حریملا پہنچنا تھا‘ پانچ دن گزر گئے مگر وہ جوڑا منزل مقصود تک نہ پہنچ سکا یہاں تک کہ شادی دو دن دور رہ گئی‘ دلہن نے ٹویٹر پر کوریئر کمپنی کا چیف ایگزیکٹو تلاش کیا اور اسے پیغام دیا ’’ کیا آپ یہ چاہتے ہیں، آپ کی کمپنی کی وجہ سے ایک دلہن عروسی جوڑے کے بغیر رخصت ہو جائے‘‘
چیف ایگزیکٹو نے فوراً جواب دیا ’’ ہرگز نہیں‘‘ دلہن نے اسے لکھا ’’مگر آپ کی کمپنی یہ چاہتی ہے‘‘ چیف ایگزیکٹو حماد الاکبر نے تحقیقات کروائیں‘پتہ چلا دلہن کا عروسی جوڑا نہیں پہنچا‘ چیف ایگزیکٹو نے جوڑا تلاش کیا‘ اپنی گاڑی میں رکھوایا‘ گاڑی خود ڈرائیو کی‘ حریملا پہنچا اور دلہن کو جوڑا خود پہنچا کر واپس آگیا‘ یہ تین دن پرانا واقعہ ہے‘ یہ اس وقت پوری کارپوریٹ ورلڈ میں ڈسکس ہو رہا ہے‘ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے چیئرمین‘ سی ای اوز اور ڈی جی یہ واقعہ دہرا رہے ہیں اور سعودی عرب کی اس کورئیر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو حماد الاکبر کے اس اقدام کو سراہ رہے ہیں۔
یہ پروفیشنل ازم کی چھوٹی سی مثال ہے‘ اس نوعیت کی مثالیں کمپنیوں‘ اداروں اور محکموں کی کارکردگی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں‘ اس سے اداروں کی اسپرٹ میں اضافہ ہوتا ہے‘ یہ اصول حکومتوں اور سیاستدانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے‘ اگر ملک کا صدر‘ وزیراعظم یا گورنر ہفتے میں ایک آدھ دن اس طرح ’’ بے ہیو‘‘ کرے یا یہ عوامی مسئلے کے حل کے لیے خود نکل کھڑا ہو تو اس سے قوم کے مورال پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔
میں نے چند ماہ قبل انٹرنیٹ پرمشرقی تیمور کے وزیراعظم زنانا گوسماو کی تصاویر دیکھیں‘ یہ گھر سے وزیراعظم آفس جانے کے لیے نکلے‘ راستے میں ٹریفک جام تھی‘ ٹریفک پولیس نہیں پہنچ پائی تھی‘ وزیراعظم زنانا گوسماواپنی گاڑی سے اترے‘ چوک کے درماےن کھڑے ہوئے اور کانسٹبلر کی طرح ٹریفک کنٹرول کرنا شروع کر دی‘ لوگ وزیراعظم کو ٹریفک کانسٹیبل کا کام کرتے دیکھ کر حیران بھی ہوئے اور خوش بھی‘ٹریفک میں پھنسے ایک شخص نے وزیراعظم کی تصاویر کھینچیں اور انٹرنیٹ پر چڑھا دیں‘ یہ تصاویر کروڑوں لوگوں نے دیکھیں‘ ان تصویروں کی بنیاد پر ٹرینر نے مینجمنٹ‘ پبلک ریلیشن اور مورال بوسٹنگ کے درجن بھر نئے پروگرام بنائے‘ یہ اب کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز کو ٹریننگ دیتے ہیں ’’آپ اگر کسی دن آدھ گھنٹے کے لیے واچ مین‘ کار بوائے‘ ڈرائیور یا چپڑاسی کا کام کر دیں گے تو اس سے ورکرز کے مورال میں اضافہ ہو گا‘‘
وینزویلا کے ہیوگو شاویز‘ ملائشیا کے مہاتیر محمد‘ دوبئی کے محمد بن راشد المکتوم‘ ایران کے احمدی نژاد اور جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا کی ساری سیاست اس اصول پر مبنی تھی‘ یہ لوگ گلیوں میں نکل کر عام لوگوں کی طرح کام شروع کر دیتے تھے اور لوگ ان کو دیکھ کر خود بھی کام کرنے لگتے تھے‘ مہاتیر محمد ہر اتوار کو ’’ ملائشین میڈ‘‘ کار میں بیٹھ کر بازار سے سبزی اور فروٹ خریدتے تھے جب کہ ہیوگوشاویز سرکاری بس چلانا شروع کر دیتے تھے‘ لوگوں نے احمدی نژاد کو زلزلے کے بعد ملبہ ہٹاتے دیکھا جب کہ محمد بن راشد المکتوم مارکیٹوں مںز اکیلے نرخ چیک کرتے تھے۔
حکمرانوں کے اس اقدام نے قوم پر خوش گوار اثرات مرتب کیے‘ ان اقدامات کی پیروی دنیا کے ہر اس ملک میں ہونی چاہیے جس میں غریب لوگ ووٹ کے ذریعے اپنے حکمرانوں کا فیصلہ کرتے ہیں‘ ووٹ بادشاہوں اور جمہوری لیڈروں کے درمیان واحد فرق ہوتا ہے‘ عوام بادشاہوں کو منتخب نہںٹ کرتے چنانچہ وہ بلٹ پروف گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہو یا محل کی کھڑکی سے سال میں ایک بار عوام کو اپنا دیدار کرواتا ہو لوگوں کو فرق نہیں پڑتا مگر یہ جب اپنے ووٹ سے منتخب ہونے والے شخص کو بلٹ پروف گاڑیوں کے قافلے میں پچھلی سیٹ پر بیٹھے دیکھتے ہیں‘ یہ ایوان اقتدار میںاسے مزے لوٹتے یا سرکاری جہازوں پر دنیا بھر کی سیر کرتے دیکھتے ہیں تو انھیں بہت تکلیف ہوتی ہے اور یہ لوڈ شیڈنگ کو مزید تپتا اور گیس کو ابلتا محسوس کرتے ہیں لہٰذا منتخب حکمرانوں بالخصوص تیسری دنیا کے منتخب حکمرانوں کو سعودی عرب کی کوریئر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو جیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے‘ انھیں صدام حسین‘ کرنل قذافی‘حسنی مبارک اور زین العابدین بننے کی بجائے ہیوگو شاویز‘ مہاتیر محمد اور احمدی نژاد بننا چاہیے‘ قوم کو اپنی موجودگی اور درد کا احساس دلانا چاہیے۔
میں میاں شہباز شریف کا ’’ فین‘‘ ہوں‘ اس کی بڑی وجہ ان کا عوامی اسٹائل ہے‘ یہ عوامی کپڑے پہنتے ہیں‘ عوامی زبان بولتے ہیں‘ عوام میں اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے ہیں اور عوام کی طرح لوڈ شیڈنگ کا عذاب برداشت کرتے ہیں جب کہ میاں نواز شریف کا طرز زندگی ان سے یکسر مختلف ہے‘ یہ شہزادوں کی طرح رہتے ہیں‘ میاں صاحب کو چاہیے یہ اپنی سوچ کی طرح اپنا طرز زندگی بھی بدل دیں‘ یہ ملک تبدیل ہو چکا ہے‘یہ اب 1999ء سے بہت آگے جا چکا ہے‘ ملک کی 60فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے‘ بے روزگاری‘ مہنگائی‘ لاقانونیت اور پولرائزیشن انتہا کو چھو رہی ہے اور ان سب کے ساتھ ساتھ ملک میں آزاد میڈیا اور مادر پدر آزاد سوشل میڈیا بھی موجود ہے‘ حکمرانوں کی چھوٹی سی غلطی چند لمحوں میں اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں اور دو چار ارب غیر ملکیوں تک پہنچ جاتی ہے‘ سوشل میڈیا چھٹانک بھر دہی کو لیر کا مٹکا بنادیتا ہے‘ آپ ایک غلطی کرتے ہیں تو سوشل میڈیا کے فنکار دنیا بھر کی غلاظت اکٹھی کر کے اسے ماؤنٹ ایورسٹ بنا دیتے ہیں۔
میاں صاحب کو اس تبدیلی کو محسوس کرنا چاہیے اور سب سے پہلے رائے ونڈ کا سفید محل چھوڑنا چاہیے‘ انھیں وزیراعظم ہاؤس سے بھی نقل مکانی کرنی چاہیے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو انھیں کم از کم ان ایوانوں میں تصویریں نہیں بنوانی چاہئیں‘ میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ کے وزراء کو پروٹوکول‘ سائرن اور سیکیورٹی بھی نہیں لینی چاہیے‘ وزیراعظم‘ وزراء اعلیٰ اور گورنرز کے لیے سڑکیں خالی کرانا‘ روٹ لگانا اور تین تین قافلے گزارنا یہ بھی بند ہونا چاہیے‘ ملک میں اگر لوڈ شیڈنگ ہے تو ایوان صدر‘ وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ ہاؤس میں بھی لوڈ شیڈنگ ہونی چاہیے‘ پانی اور بجلی کی وزارت کے کسی محکمے اور کسی دفتر میں جنریٹر نہیں ہونا چاہیے‘ اس وزارت کے ہر اہلکار کو عوام کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کا مزا چکھنا چاہیے۔
پاکستان کی معاشی صورتحال خراب ہے‘ ہم اس معاملے میں سعودی عرب اور چین سے مدد لے سکتے ہیں‘ سعودی عرب کا شاہی خاندان پاکستان سے حقیقتاً محبت کرتا ہے‘ اس کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ اسلام بھی ہے‘ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا اور سعودی شاہی خاندان اس کی وجہ سے پاکستان کی عزت کرتا ہے‘ میاں صاحب اگر شاہ عبداللہ سے ملاقات کریں‘یہ انھیں پاکستان کی مشکلات سمجھائیں تو سعودی عرب کے لیے پاکستان میں دس بیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری بڑی بات نہیں‘ چین نے امریکا میں اڑھائی کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘ ہم اگر چین کو اپنے مسائل سمجھائیں تو یہ بھی پاکستان میں بیس تیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری آسانی سے کر سکتا ہے‘ دوبئی ہر ہفتے صرف ویزوں سے تین سو ملین ڈالر کما رہا ہے‘ ہم بھارتی شہریوں کے لیے سرحد پر ویزے کی سہولت رکھ سکتے ہیں‘ آپ ویزے کے سو ڈالر لیں اور بھارتی شہریوں کو واہگہ بارڈر پر ویزے جاری کر دیں‘ ہم صرف ان ویزوں سے کروڑوں ڈالر کما سکتے ہیں۔
آپ پاکستان کی معیشت کو دو سال کے لیے ٹیکس فری قرار دے دیں‘ ملک میں اربوں ڈالر آ جائیں گے‘ آپ انکم ٹیکس کی شرح دس فیصد تک لے آئیں ملک کے تمام شہری ٹیکس نیٹ میں آ جائیں گے‘ آپ ملک میں چھوٹی چھوٹی کمپنیاں بنوائیں‘ ملک کا جو شہری دولوگوں کو جاب دے اسے ٹیکس میں چھوٹ دیں‘ بیرون ملک سے آنے والے سرمائے کی حوصلہ افزائی کریں‘ ریستورانوں کا جی ایس ٹی معاف کر دیں‘ لوگوں کو نوکری کی بجائے بزنس کی طرف لے کر جائیں‘ ملک میں ایسے بزنس گائیڈنگ سنٹرز بنائیں جو نوجوانوں کو کاروبار کی ٹریننگ دیں‘ جو نوجوانوں کی کاروبار کے لیے رہنمائی کریں‘ توانائی کو کاروبار کی شکل دے دیں‘ لوگوں کو بتائیں ’’ تم لوگ اپنے گھر اور دفتر کے لیے بجلی کیسے پیدا کر سکتے ہو‘‘ دیہات میں بائیو انرجی‘ سولر انرجی اور ندی نالوں سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کرائیں‘ یہ منصوبے بینکوں اور سرمایہ کار کمپنیوں کے ذریعے چلائے جائیں‘ سرمایہ کار کمپنیاں بجلی پیدا کرنے کے یونٹ لگائیں اور بعد ازاں لوگوں سے بل وصول کریں اور لوگوں میں دہشت گردی اور لاقانونیت کے خلاف احساس بیدار کریں تا کہ پوری عوام اس معاملے میں ریاست کی ساتھی بن جائے اور یوں یہ مسئلہ حل ہو جائے لیکن یہ سارے کام صرف اور صرف اس وقت ہو سکتے ہیں جب میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ ایوان اقتدار سے نکل کر عوام کے ساتھ کھڑی ہو‘ آپ اگر بادشاہوں کی طرح محل میں بیٹھ جائیں گے اور مہینے میں ایک بار بالکونی میں کھڑے ہو کر عوام کو اپنا دیدار کروائیں گے تو لوگ آپ سے دور چلے جائیں گے ‘ یہ آپ کی مدد نہیں کریں گے اور جب تک عوام ساتھ نہ ہوں کوئی لیڈر‘ لیڈر نہیں بنتا‘ یہ قوم کی حالت تبدیل نہیں کر سکتا۔
آپ کو کم از کم سعودی عرب کی اس کوریئر سروس کے چیف ایگزیکٹو سے بہتر پرفارم کرنا چاہیے کیونکہ آپ دنیا کی ساتویں نیو کلیئر پاور کے حکمران ہیں‘ قوم نے آپ پر اعتماد کیاہے۔

کتنی دیر
جاوید چوہدری ہفتہ 18 مئ 2013
ہمارے حکمران خاندان پاکستان کے نیرو کلاڈیس سیزر ہیں‘ یہ اس انجام کا شکار ہو رہے ہیں جس سے روم کا شہنشاہ نیرو کلاڈیس 64 عیسوی میں دو چار ہوا تھا یعنی اپنی ہی جلائی ہوئی آگ کا لقمہ۔
رومن ایمپائر دنیا کی پہلی ریاست تھی جس کی حدیں چار براعظموں تک پھیلیں اور اس نے یورپ سے لے کر ایشیا‘ ایشیا سے لے کر افریقہ اور افریقہ سے لے کر منجمد زمینوں (قطب شمالی) تک حکمرانی کی‘ ہندوستان بھی رومن ایمپائر کا حصہ تھا‘ چھوٹی اینٹیں رومیوں نے ایجاد کی تھںج چنانچہ رومی جہاں جہاں گئے وہاں آج آثار قدیمہ سے چھوٹی اینٹ برآمد ہوتی ہے‘ روم دنیا کا پہلا شہر تھا جس کی آبادی 16 قبل مسیح میں دس لاکھ تک پہنچ گئی۔
نیرو 54 عیسوی میں اس سلطنت کا بادشاہ بنا‘ یہ بڑ بولا اور متکبر تھا‘ یہ دولت کا شیدائی بھی تھا چنانچہ اسے دولت کا لالچ اور تکبر اس مقام پر لے گیا جہاں یہ تاریخ کا مکروہ کردار بن گیا‘ دنیا میں آج ہر عورت منہ پر پائوڈر لگاتی ہے‘ یہ فیس پائوڈر نیرو کی بیوی پوپیا نے ایجاد کیا تھا‘ یہ پوپیا کے نام سے منسوب ہوا اور بگڑ کر پائوڈر بن گیا‘ نیرو کو غریب پسند نہیں تھے‘ یہ انھیں زمین کا پھوڑا سمجھتا تھا اور اس کا کہنا تھا یہ لوگ شہروں کے حسن کو گہنا دیتے ہیں مگر اس کی غلط پالیسیوں‘ نالائق مشیروں‘ خاندان کی دولت پرستی اور وزراء کی لوٹ کھسوٹ نے روم کی غربت میں اضافہ کر دیا‘ امراء بھی نان نفقہ چلانے کے لیے زمین جائیداد بیچنے پر مجبور ہو گئے۔
روم شہر میں غریب اور غربت عام ہو گئی لیکن نیرو ان حالات کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے مزید پاگل ہو گیا‘ اس نے ایک دن شہر سے غریب ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے اپنے محل کی چھت پر سازندے اور گلوکار جمع کیے‘ رقص اور سرود کی محفل برپا کی اور اپنے سپاہیوں کو کچی آبادیوں کو آگ لگانے کا حکم دے دیا‘ فوج نے غریبوں کی بستیوں کو آگ لگا دی‘ روم کی کچی آبادیوں سے آہ و بکا‘ دھواں اور آگ کے شعلے اٹھنے لگے‘ یہ آوازیں جب محل تک پہنچنے لگیں تو نیرو نے سازندوں کو ساز کی آواز اونچی کرنے کا حکم دے دیا۔
اُدھر سے شعلے اور بچائو بچائو کی آوازیں اٹھ رہی تھیں اور اِدھر ڈھول‘ تاشے اور نقارے بج رہے تھے اور نیرو شراب‘ اقتدار اور انتقام کے نشے میں جھوم رہا تھا‘ آگ‘ پانی اور زلزلے دنیا کے تین ایسے عذاب ہیں جو زمین کی تہہ سے نکلتے ہیں تو پھر بڑے یا چھوٹے کی تمیز نہیں کرتے‘ روم کی آگ کچی آبادیوں سے شروع ہوئی اور تیزی سے امراء کے محلوں تک پہنچ گئی‘ روم جلنے لگا‘ امراء اور غرباء بلا تمیز گلیوں میں دہائیاں دینے لگے مگر نیرو میوزک سے لطف لیتا رہا یہاں تک کہ آگ شاہی محل تک پہنچ گئی‘ اس نے خود کو آگ اور شعلوں میں گھرا دیکھا تو اسے ہوش آیا اور اس نے پانی کے تالاب میں کود کر جان بچائی۔
روم جل چکا تھا اور خلقت خدا بادشاہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہی تھی مگر نیرو ہمارے حکمرانوں کی طرح یہ ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ یہ اس بحران کو پچھلی حکومتوں اور میڈیا کی کارستانی قرار دے رہا تھا لیکن حقیقت حقیقت تھی‘ بحران تھا اور اس بحران کو ختم کرنا نیرو کی ذمے داری تھی‘ نیرو کو مجبوری کے عالم میں روم کو دوبارہ تعمیر کرنا پڑ گیا‘ اس نے خزانوں کے منہ کھول دیے‘ خزانے ختم ہو گئے مگر روم نہ بنا‘ اس نے عوام پر ٹیکس لگا دیے‘ عوام ٹیکس دے دے کر تھک گئے مگر روم نہ بنا‘ اس نے قومی اثاثے بیچنا شروع کر دیے‘ اثاثے ختم ہو گئے مگر روم نہ بنا اور اس نے آخر میں ٹھیکیداروں کو لوٹنے کھسوٹنے تک کی اجازت دے دی۔
لوٹ کھسوٹ بھی ختم ہو گئی مگر روم نہ بنا یہاں تک کہ پوری عوام نیرو کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی‘ نیرو عوام سے بچنے کے لیے محل سے بھاگ گیا‘ یہ محل سے نکلا تو پورے شہر میں اسے پناہ نہ ملی‘ آخر میں اس کے غلام کو اس پر ترس آ گیا اور اس نے اسے اپنی کوٹھڑی میں پناہ دے دی‘ کوٹھڑی گندی‘ تنگ اور بدبودار تھی‘ نیرو نے غلام سے کہا ’’ کیا ملک کے زیادہ تر لوگ ایسی جگہوں پر رہتے ہیں‘‘ غلام نے ہنس کو جواب دیا ’’حضور آپ جیسے بادشاہ ہوں تو عوام کو ایسے ہی گھر نصیب ہوتے ہیں‘‘ نیرو اس غلیظ کوٹھڑی میں چھپا رہا‘ آخر میں عوام کو علم ہو گیا‘ لوگوں نے کوٹھڑی کا گھیرائو کر لیا اور نیرو نے عوام کے غضب سے بچنے کے لیے استرے سے اپنی شہ رگ کاٹ لی اور غلام کی کھودی ہوئی قبر میں گر کر دم توڑ دیا۔
ہم سب لوگ جزیروں میں رہتے ہیں‘ ہمارے ملک‘ ہمارے معاشرہ جزیرے ہوتے ہیں‘ ہم ان جزیروں میں امارت‘ اقتدار‘ تکبر‘ غربت‘ مظلومیت اور بے بسی کی چھوٹی چھوٹی دیواریں بنا لیتے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں بے بس کی بے بسی‘ مظلوم کی مظلومیت اور غریب کی غربت دیوار پھلانگ کر کبھی ہمارے غرور‘ ہمارے اقتدار اور ہماری امارت کی فصلوں تک نہیں پہنچے گی‘ غریب ہزاروں سال تک دیوار کی دوسری طرف پڑا رہے گا اور ہم کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر مزے لوٹتے رہیں گے مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں جزیروں میں رہنے والے لوگ جسم کی طرح ہوتے ہیں‘ ہونٹ اور مقعد دونوں ایک ہی جسم کا حصہ ہوتے ہیں‘ ناف کی بو‘ پائوں کا پھوڑا اور گھٹنے کا درد پورے جسم کو محسوس ہوتا ہے چنانچہ اگر غریبوں کے محلے میں آگ لگے گی‘ کوئی وبا پھوٹے گی یا وہاں غربت‘ جرم اور بے چینی کی فصل لہلہائے گی تو اس کا اثر امیروں تک ضرور پہنچے گا۔
‘ نیرو نے اگر چین کی بانسری بجانی ہے تو پھر اسے روم کے غریبوں کو بھی بانسری اور چین دینا ہو گا ورنہ دوسری صورت میں کچی آبادیوں کی آگ محل تک پہنچے گی اور نیرو کو جان بچانے کے لیے پانی میں کودنا پڑے گا‘ یہ کوٹھڑیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو جائے گا‘ جزیروں میں رہنے والے لوگ رشتے دار ہوتے ہیں اور آپ رشتے داروں سے قطع تعلق نہیں کر سکتے‘ ناخن ٹوٹنے اور بال کٹنے کے باوجود آپ کے وجود کا حصہ رہتے ہیں‘ آپ کا ڈی این اے ان کے وجود میں سلامت رہتا ہے مگر یوسف رضا گیلانی ہوں‘ راجہ پرویز اشرف‘ مخدوم امین فہیم‘ قائم علی شاہ ہوں یا پھر آصف علی زرداری ہوں یہ نیرو کی طرح یہ حقیقت فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ محل سے باہر سلگائی ہوئی آگ اندر ضرور آئے گی‘ اگر ملک کے اسپتال ٹھیک نہیں ہوں گے تو مرتضیٰ بھٹو وزیر اعظم کا بھائی ہونے کے باوجود طبی امداد کی کمی کے باعث مر جائے گا اور بے نظیر بھٹو کو زخمی حالت میں بھی بالآخر سرکاری اسپتال کے گندے آپریشن تھیٹر میں لایا جائے گا۔
یہ اینٹوں کے بنے تھڑے پر رکھا جائے گا اور مخدوم امین فہیم اور شیری رحمان جیسے لوگوں کو جنرل اسپتال کی گندی سیڑھیوں پر بیٹھنا پڑے گا‘ ملک میں اگر بدامنی‘ دہشت گردی‘ اغواء برائے تاوان ہو گا اور آپ بھر پور اقتدار کے باوجود ان کی بیخ کنی نہیں کریں گے تو علی حد ر گیلانی سابق وزیر اعظم کا صاحبزادہ ہونے کے باوجود اپنے ہی حلقے سے اغواء ہو گا اور صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو الیکشن مہم کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکل سکیں گے‘ صدر کو ایوان صدر میں پناہ لینا پڑے گی۔
ملک کے حالات دہائورں سے خراب تھے‘ عام لوگ روزانہ ان حالات کا تاوان ادا کرتے تھے مگر یہ آگ اب حکمران کلاس تک پہنچی ہے تو یہ چیخ رہے ہیں‘ اس ملک میں 50 ہزار لوگ بم دھماکوں‘ خود کش حملوں‘ مسجدوں‘ قبرستانوں اور امام بارگاہوں میں مارے گئے‘ اغواء برائے تاوان باقاعدہ انڈسٹری بن گئی‘ کراچی شہر میں روزانہ دس بیس بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں‘ بھتے کی پرچی سسٹم کی شکل اختیار کر چکی ہے‘ ملک میں کسی بھی جگہ سے کسی بھی وقت کوئی بھی اٹھایا جا سکتا ہے‘ کسی کو بھی گولی ماری جا سکتی ہے مگر حکمران کلاس نے کبھی معاشرے کی اس چیخ پر توجہ نہیں دی‘ یہ لوگ نیرو کی طرح آنکھ‘ کان اور ناک لپیٹ کر رقص و سرود کے مزے لوٹتے رہے اور یہ بھول گئے یہ آگ کبھی نہ کبھی ان کے گھروں تک بھی پہنچے گی اور انھیں اپنے اور اپنے خاندان کی سیکیورٹی کے لیے ہر آنے والی حکومت کا حصہ بننا پڑ جائے گا۔
یہ لوگ پولیس کی ایک حفاظتی گاڑی اور چند کمانڈوز کے لیے ہر قسم کے سمجھوتے پر مجبور ہو جائیں گے‘ یہ مولانا فضل الرحمٰن اور لغاری برادران کی طرح اس میاں خاندان کے دروازے پر بیٹھ جائیں گے جسے یہ کل تک عذاب الٰہی قرار دے رہے تھے اور یہ لوگ اپنے ضمیر پر پائوں رکھتے وقت یہ بھی بھول جائیں گے معاشروں میں جب آگ لگتی ہے یا ڈینگی کا وائرس پھیلتا ہے تو آپ خود کو اقتدار کے سات پردوں میں لپیٹ لیں تو بھی آپ خود کو حالات کی گرمی اور بدلتے وقت کے عذاب سے نہیں بچا سکتے کیونکہ اس دنیا میں اگر چار براعظموں کا مالک نیرو خود کو نہیں بچا سکا تھا تو آپ دنیا کے دس خطرناک ترین ملکوں کی فہرست میں رہ کر خود کو کتنی دیر محفوظ رکھ لیں گے‘ آپ خود کو معاشرے کی آگ سے کہاں تک بچا لیں گے۔
ہتھکڑی
جاوید چوہدری جمعرات 16 مئ 2013
یہ کہانی فیصل آباد سے شروع ہوئی‘ اس نے اٹک میں قید دیکھی‘ اسلام آباد میں دھکے کھائے اور یہ آخر مں1 ایک بارپھر اسلام آباد پہنچ کر رک گئی۔
میاں نواز شریف کو یقیناً وہ دن نہیں بھولا ہو گا جب یہ لندن سے اسلام آبادپہنچے اور دھکے دے کر انھیں واپس بھجوا دیا گیا‘ یہ دھکے فیصل آباد کی اس کہانی کا کلائمیکس تھے جس نے میاں صاحب کی خوئے سلطانی سے جنم لیا‘ وہ کہانی کیا تھی ہم اس طرف جانے سے پہلے آپ کو اسلام آباد کی اُس شام کی طرف لے جائیں گے جب دوسرے سلطان نے پہلے سلطان کو دھکے دے کر ملک سے باہر نکال دیا‘2007ء میں جنرل پرویز مشرف کی اقتدار پر گرفت کمزور پڑ چکی تھی‘ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی تحریک زوروں پر تھی‘ بے نظیر بھٹو این آر او کی کشتی پر بیٹھ کر پاکستان آ چکی تھیں اور دنیا کے زیادہ تر مبصرین کا خیال تھا محترمہ الیکشن میں بھاری اکثریت حاصل کر لیں گی اور یوں اقتدار فوجی آمر سے لبرل جمہوری پارٹی کو منتقل ہو جائے گا۔
میاں نواز شریف جانتے تھے اگر یہ اس وقت پاکستان نہ پہنچے تو پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی مل کر حکومت بنائیں گی اور یہ دونوں مل کر پاکستان مسلم لیگ ن کو مٹا دیں گے‘ سعودی عرب میاں نواز شریف کا ضامن تھا ‘میاں صاحب نے سعودی شاہ کو اعتماد میں لیا اورپاکستان آنے کا اعلان کر دیا‘ جنرل پرویز مشرف کے لیے میاں نواز شریف قابل قبول نہیں تھے‘ جنرل نے سعودی عرب پر دبائو ڈالا لیکن سعودی عرب نہ مانا‘ جنرل مشرف نے میاں نواز شریف کا دس سال کا معاہدہ عام کر دیا‘ صدر مشرف لبنان کے وزیراعظم رفیق الحریری کے صاحبزادے سعد الحریری کو بھی پاکستان لے آئے‘ الحریری خاندان نے جنرل پرویز مشرف اور شریف خاندان کے درمیان معاہدہ کرایا تھا‘ اس معاہدے میں سینیٹر طارق عظیم کے بھائی شجاعت عظیم نے اہم کردار ادا کیا تھا‘ شجاعت عظیم الحریری خاندان کے پائلٹ تھے‘ جنرل مشرف کی میڈیا ٹیم‘ جس میں اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر محمد علی درانی بھی شامل تھے۔
انھوں نے پروپیگنڈے کا طوفان برپا کر دیا مگر اس کے باوجود میاں نواز شریف10ستمبر 2007ء کو پاکستان پہنچ گئے‘ یہ اسلام آباد ائیر پورٹ پر اترے لیکن یہاں ان کے ساتھ انتہائی توہین آمیز سلوک کیا گیا‘ سیکیورٹی اہلکاروں نے انھیں دھکے بھی دیے‘ ان کے کپڑے بھی پھاڑ دیے اور انھیں تقریباً گھسیٹتے ہوئے دوسرے جہاز میں بھی سوار کرا دیا ‘ یہ معاملہ اگر یہاں تک رہتا تو بھی زیادہ افسوس ناک نہ ہوتا مگر میاں نواز شریف کو دوبارہ سعودی عرب کے حوالے کر دیا گیا اور یہ سلوک اس شخص کے ساتھ ہو ا جو ملک کا دو بار وزیراعظم رہا تھا‘ میاں نواز شریف پاکستان کی معتبر سیاسی شخصیت بھی تھے اور یہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے قائد بھی‘ میاں صاحب نے 1997ء میں ملکی تاریخ میں پہلی بار دو تہائی اکثریت بھی حاصل کی تھی چنانچہ یہ کسی بھی لحاظ سے اس توہین آمزی سلوک کے مستحق نہیں تھے مگر یہ سلوک فیصل آباد کے اس واقعے کا کلائمیکس تھا جس نے میاں صاحب کی خوئے سلطانی سے جنم لیا تھا۔
ہم فیصل آباد کے واقعے کی طرف جانے سے قبل ذرا دیر کے لیے 12 اکتوبر 1999ء کی طرف جائیں گے‘ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کوایوان اقتدار سے اٹھا کراس طرح عقوبت خانوں میں پھینک دیا گیا تھا کہ یہ ایک دوسرے کی سلامتی تک سے آگاہ نہیں تھے‘ ان کے کھانے کی ٹرے دروازے کے نیچے سے اندر دھکیلی جاتی تھی‘ انھیں قرآن مجید تک دینے سے انکار کر دیا گیا‘ یہ جب عدالتوں میں پیش ہونے لگے تو انھیں انتہائی گرمی میں بکتر بند گاڑیوں میں کچہری لایا جاتا تھا‘ انھیں اٹک قلعے کے ایسے کمروں میں رکھا گیا جن میں سانپ اور بچھو تھے‘ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر ہائی جیکنگ کی ایسی دفعات لگا دی گئیں جن کی سزا پھانسی تھی‘ جنرل پرویز مشرف کے اکثر ساتھی ان دنوں دعوے کرتے تھے میاں نواز شریف 2000ء میں ذوالفقار علی بھٹو ہو جائیں گے۔
چوہدری شجاعت حسین‘ چوہدری پرویز الٰہی اور شیخ رشید کا خیال تھا میاں صاحبان کبھی جیل سے زندہ باہر نہیں نکلیں گے اور اگر نکل آئے تو یہ سیاست کے قابل نہیں رہیں گے‘ میاں برادران بھی جانتے تھے جنرل پرویز مشرف اپنی گردن بچانے کے لیے ان کی گردن لے لے گا‘ میاں نواز شریف اٹک قلعے کے دنوں میں ہر روز وہ غلطی تلاش کرنے کی کوشش کرتے تھے یہ سلوک‘ یہ توہین اور یہ خوف جس کی سزا تھا اور ان کا ذہن ہر بار ایک ہی واقعے کے طرف جاتا تھا اور وہ واقعہ فیصل آباد میں مارچ 1997ء میں پیش آیا اور یہ وہ واقعہ تھا جس نے میاں صاحب کو اقتدار سے بھی فارغ کیا اور دربدر بھی۔
ہم ہمیشہ اپنے ساتھ ہونے والے برے سلوک کا ذمے دار دوسرے لوگوں کو ٹھہراتے ہیں‘ ہم دوسروں کو برا بھلا کہتے ہیں مگر حقیقت میں اس کے ذمے دار ہم لوگ ہوتے ہیں‘ ہماری زندگی کے بُرے لوگ قدرت کے محض بُرے ایجنٹ ہوتے ہیں‘ ہم دراصل اپنے تکبر‘ اپنے ظلم اور اپنی زیادتی کی فصل کاٹتے ہیں‘ ہم اپنے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کے ذمے دار خود ہوتے ہیں اور میاں صاحب 12 اکتوبر 1999ء سے لے کر10 ستمبر 2007ء تک کے تمام بُرے واقعات کے خود ذمے دار تھے‘ میاں نواز شریف 17فروری1997ء کو دو تہائی اکثریت لے کر وزیراعظم بنے۔
یہ ایک بڑی کامیابی تھی اور ہمارے جیسے چھوٹے ملکوں میں ایسی بڑی کامیابیاں حکمرانوں کے مزاج کو ساتویں آسمان تک لے جاتی ہیں‘ چوہدری شیر علی فیصل آباد کی بڑی سیاسی شخصیت ہیں‘ یہ میاں برادران کے عزیز بھی ہیں‘ چوہدری شیر علی کا فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کچھ افسروں کے ساتھ تنازعہ چل رہا تھا‘ چوہدری شیر علی نے افسروں کی وزیراعظم سے شکایت کر دی‘ میاں نواز شریف مارچ 1997ء کو فیصل آباد چلے گئے‘ یہ وہاں سات گھنٹے رہے‘ میاں صاحب نے اس دوران ایف ڈی اے کے افسروں کو کھلی کچہری میں بلوا لیا‘ افسروں نے وہاں وزیراعظم سے ’’آرگومنٹ‘‘ کرنے کی کوشش کی‘ میاں نواز شریف ناراض ہو گئے اور انھوں نے ایف ڈی اے کے تین افسروں اشفاق بھٹی ‘ عبدالحلیم اور طاہر رضا بخاری کو ہتھکڑی لگانے کا حکم دے دیا‘ پولیس نے سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں ان کو ہتھکڑی لگا دی۔
یہ واقعہ پاکستان ٹیلی ویژن نے لائیو بھی دکھایا اوررات نو بجے کے خبرنامے میں بھی ‘ یہ اس دور کا انتہائی سنسنی خیز واقعہ تھا‘ آپ قانون کے مطابق کسی شخص کو ایف آئی آر کے بغیر گرفتار نہیں کر سکتے‘ پولیس سرکاری ملازموں کو ہتھکڑی لگا کر پھنس گئی لہٰذا اسے یہ ہتھکڑی ’’جسٹی فائی‘‘ کرنے کے لیے اپنا سات ماہ کا ریکارڈ تبدیل کرنا پڑگیا‘ یہ افسر پانچ ماہ جیل میں رہے اور یہ بعد ازاں سپریم کورٹ کی مہربانی سے رہا ہوئے‘ میاں نواز شریف کو ان تینوں میں سے کسی ایک کی آہ لگ گئی‘ ان کا اقتدار ختم ہوا‘ یہ اٹک قلعہ میں بند ہوئے اور اس کے بعداذیت کے نا ختم ہونے والے سلسلے میں الجھ گئے‘ یہ اٹک کے دنوں میںکراچی لے جائے گئے‘ یہ بکتر بند گاڑی کے ذریعے کامرہ لائے گئے‘ انھیں کامرہ میں فوکر جہاز میں بٹھایا گیا‘ ملٹری آفیسر نے جہاز میں بیٹھتے ہی میاں نواز شریف کو ہتھکڑی لگانے کا حکم دے دیا۔
پولیس کے ایک اہلکار کو یہ ڈیوٹی سونپی گئی‘ اہلکار نوکری بچانے کے لیے ہتھکڑی لے کر آ گیا‘ میاں نواز شریف نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کر دیے‘ پولیس اہلکار نے ان کے ہاتھ باندھے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اوراس کی آنکھوں سے ایک قطرہ پھسل کر میاں نواز شریف کے ہاتھ پر گر گیا‘ ہتھکڑی لگانے کے بعد میاں نواز شریف کی زنجیر سیٹ کے ساتھ باندھ دی گئی‘ وہ جہاز اڑا‘ راستے میں پٹرول لینے کے لیے جگہ جگہ رکا اور پانچ گھنٹے بعد کراچی پہنچا‘میاں نواز شریف اس دوران نشست سے بندھے رہے‘ انھیں ٹوائلٹ تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی‘ ماوں نواز شریف اس سفر کے دوران سوچتے رہے ہم سے اقتدار کے دوران کوئی نہ کوئی ایسی غلطی‘ کوئی نہ کوئی ایسی زیادتی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہم اللہ کی پکڑ میں آ گئے ہیں اور آج ہم پورا خاندان ان حالات کا شکار ہیں۔
میاں نواز شریف کو اس سوچ کے دوران فیصل آباد کا واقعہ یاد آ گیا اور انھیں محسوس ہوا انھوں نے فیصل آباد کے افسروں کے ساتھ زیادتی کی تھی‘ میاں نواز شریف نے اگلی ملاقات پر بیگم کلثوم نواز کو یہ واقعہ سنایا اور ہدایت کی آپ فیصل آباد جائیں اور ان افسروں کے لواحقین سے معافی مانگیں اور وہ لوگ جب تک معاف نہ کریں آپ لوگ واپس نہ آئیں‘ بیگم صاحبہ‘ میاں شہباز شریف کی اہلیہ بیگم نصرت شہباز کو ساتھ لے کر فیصل آباد گئیں اور انھوں نے ان خاندانوں کے گھر جا کر معافی مانگی‘ مجھے یقین ہے شریف فیملی کو پاکستان سے جدہ جانے کی اجازت اس معافی کے بعد ملی تھی۔
پاکستان کے 2013ء کے الیکشنوں سے قبل لوگوں کا خیال تھا میاں نواز شریف اقتدار میں نہیں آ سکیں گے‘ میاں نواز شریف کی سلامتی کے بارے میں ان کا خاندان بھی پریشان تھا‘ نگراں حکومت کو بھی یقین تھا یہ الیکشن نہیں ہو سکیں گے‘ آئی ایس آئی اور آئی بی نے خطرناک رپورٹس دی تھیں اور ان رپورٹس کی وجہ سے نگراں وفاقی وزیر قانون احمر بلال صوفی الیکشن رولز میں ترمیم کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے تھے‘ وزارت داخلہ کا خیال تھا طالبان میاں نواز شریف اور عمران خان سمیت 30 امیدواروں کو ٹارگٹ کریں گے اور اگر ان میں سے آدھے امیدوار بھی مارے گئے تو الیکشن نہیں ہو سکیں گے‘ حکومت نے اس کا یہ حل نکالا‘ ہم آرڈیننس کے ذریعے الیکشن کمیشن کو اجازت دے دیتے ہیں یہ کسی امیدوار کی موت کی صورت میں متبادل امیدوار کو امیدوار تسلیم کر لے تاکہ ہنگامی حالات کے بعد بھی الیکشن ہو سکیں مگر فخر الدین جی ابراہیم نہیں مانے۔
اس انکار پر الیکشن کھٹائی میں پڑتے نظر آئے مگر اللہ نے کرم کیا‘ الیکشن ہوئے اور میاں نواز شریف تیسری بار اقتدار کی دہلیز پر پہنچ گئے‘ یہ دہلیز آج چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے مینڈیٹ ووٹرنہیں دیتے اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور اللہ کو حکمرانوں کی صرف عاجزی بہت محبوب ہے‘ میاں صاحب عاجزی اختیار کریں ورنہ دوسری صورت میں یہ جنرل پرویز مشرف کو دیکھ لیں اور سوچ لیں اللہ تعالیٰ جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تویہ اسے خوف کے پنجرے میں قید کر دیتا ہے‘ یہ اس کے پائوں میں وقت کی بیڑیاں اور حماقتوں کی ہتھکڑیاں ڈال دیتا ہے اور وہ شخص فوج اور امریکا کی بھرپور حمایت کے باوجود اپنے ہی ملک میں اجنبی بن کر رہ جاتا ہے ‘ وہ گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔
نیا پاکستان
جاوید چوہدری بدھ 15 مئ 2013
حاجی غلام احمد بلور پشاور کی بلور فیملی کے معتبر بزرگ ہیں‘ پاکستان کا پہلا انتخابی حلقہ این اے ون بلور فیملی کا مرکز ہے‘ یہ لوگ برسوں سے اس علاقے میں آباد ہیں اور یہ حلقے کے ایک ایک خاندان‘ ایک ایک بزرگ اور ایک ایک بچے کو جانتے ہیں‘ یہ منکسرالمزاج اور خاندانی لوگ ہیں چنانچہ پشاور کے عوام ان کا احترام کرتے ہیں مگر حاجی غلام احمد بلور پانچ سال کی بیڈگورننس‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی سنگت اور صوبہ خیبر پختونخوا میں ہوتی فیملی کی کرپشن کی وجہ سے الیکشن ہار گئے‘ این اے ون ہمیشہ بلوروں کا حلقہ رہا‘ حاجی غلام احمد بلور نے 1993ء میں اسی حلقے سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہرایا لیکن یہ اس بار اپنے حلقے سے ہار گئے‘ حاجی صاحب کے پاس ہارنے کے بعد دو آپشن تھے‘ یہ مولانا فضل الرحمن کی طرح دھاندلی کا الزام لگا دیتے‘ نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے اور کارکنوں کو سڑکیں بلاک کرنے کی ذمے داری سونپ دیتے یا پھر یہ کھلے دل سے اپنی شکست مان لیتے۔
حاجی صاحب نے دوسرا آپشن چنا‘ انھوں نے اپنی شکست مان لی اور عمران خان کو مبارک باد پیش کر دی یوں حاجی صاحب الیکشن2013ء میں ہار ماننے اور کامیاب امیدوار کو مبارکباد پیش کرنے والے پہلے سیاستدان ثابت ہوئے اور اس عظیم جمہوری اور سیاسی ظرف پر حاجی صاحب کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی‘ سیاسی ظرف کا دوسرا مظاہرہ میاں نواز شریف نے کیا‘ الیکشن سے قبل پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان لفظوں کی خوفناک جنگ جاری تھی‘ عمران خان میاں برادران کے گریبان میں ہاتھ ڈالتے رہے اور میاں برادران انھیں کھلاڑی‘ مداری اور زرداری کہتے رہے مگر الیکشن کے تین دن بعد میاں نواز شریف نے عمران خان کی عیادت کے لیے شوکت خانم اسپتال جا کر سیاست کی نئی بنیاد رکھ دی‘ عمران خان نے بھی غصہ تھوک کر مفاہمت کا سلسلہ آگے بڑھا دیا‘ یہ رویہ اب آگے بڑھنا چاہیے۔
میاں نواز شریف کو اب الطاف حسین کو فون کر کے ان کی خیریت بھی معلوم کرنی چاہیے‘ انھیں صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کرنی چاہیے‘ مخدوم یوسف رضا گیلانی کا صاحبزادہ اغواء ہو چکا ہے‘ میاں صاحب کو ان سے بھی اظہار ہمدردی کرنا چاہیے اور میاں نواز شریف کو چوہدری شجاعت حسین‘ مولانا فضل الرحمن اور منور حسن سے بھی ملاقات کرنی چاہیے تاکہ حکومت بننے سے قبل ماضی کے تمام گلے شکوے دفن ہو جائیں اور ملک آگے بڑھ سکے‘ ہم نے سیاست کے گندے پوتڑے دھوتے دھوتے پانچ قیمتی سال برباد کر دیے ‘ ملک کے اگلے پانچ سال اس سیاسی منافرت کی نذر نہیں ہونے چاہئیں‘ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں بچا‘ ملک کے حالات انتہائی خراب ہیں اور اگر حکومت ان پر توجہ دینے کے بجائے پچھلی حکومت کی طرح بیان بازی‘ میڈیا کے ساتھ جنگ‘ عدلیہ سے لڑائی اور سیاسی جماعتوں سے پنجہ آزمائی میں الجھ گئی تو پھر حکمران جماعت کے ساتھ ساتھ ملک کا بیڑا بھی غرق ہو جائے گا۔
ہم نئے پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں اور ہمیں نئے پاکستان کی تبدیلیوں کا اعتراف کرنا ہوگا‘ نئے پاکستان کی پہلی تبدیلی عوامی مینڈیٹ ہے‘ ہمیں ماننا ہو گا پاکستان مسلم لیگ ن سادہ اکثریت حاصل کر چکی ہے‘ اس کامیابی کا اسی فیصد کریڈٹ میاں شہباز شریف کو جاتا ہے‘ اگر میاں شہباز شریف دن رات ایک نہ کرتے اور یہ پنجاب میں گڈ گورننس کی مثال قائم نہ کرتے تو شاید آج میاں نواز شریف وفاق میں حکومت نہ بنا رہے ہوتے‘ مجھے کل پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سینئر قائد بتا رہے تھے ’’ہمارے پاس اگر ایک میاں شہباز شریف ہوتا تو ہم دیکھتے کون مائی کا لال ہمیں الیکشن میں شکست دیتا ہے‘‘ میاں شہباز شریف کو پنجاب دوبارہ مل چکا ہے‘ یہ اب مزید پانچ سال اس صوبے کی خدمت کر سکتے ہیں‘ انھوں نے اگر ان پانچ برسوں میں پنجاب کے ہر شہر کو لاہور بنا دیا تو پاکستان مسلم لیگ ن کا سیاسی سفر جاری رہے گا ورنہ دوسری صورت میں یہ ان کا آخری الیکشن ثابت ہو گا اور یہ 2018ء میں اسی انجام سے دوچار ہو جائیں گے جس کا شکار آج پاکستان پیپلز پارٹی ہوئی۔
نئے پاکستان کی دوسری تبدیلی پاکستان تحریک انصاف ہے‘ پاکستان تحریک انصاف نئی سیاسی قوت بن کر ابھر چکی ہے‘ عمران خان نے الیکشن میں حیران کن کامیابی حاصل کی‘ کروڑوں ووٹروں نے انھیں ووٹ دیے‘ یہ الیکشن میں زیادہ نشستیں حاصل نہیں کر سکے مگر یہ حقیقت ہے ملک کے نوے فیصد حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدوار دوسرے نمبر پر آئے‘ پی ٹی آئی کے 25 امیدوار پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدواروں سے چند سو یا چند ہزار ووٹ پیچھے تھے اور اگر عمران خان الیکشن سے تین دن قبل زخمی نہ ہوتے تو یہ مارجن بھی ختم ہو جاتا اور یوں پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کا فاصلہ مزید کم ہو جاتا لیکن اس کے باوجود عوام نے ملک کا مشکل ترین صوبہ عمران خان کے حوالے کر دیا‘ عمران خان صوبہ خیبرپختونخوا میں اپنا ویژن‘ اپنی اہلیت ثابت کر سکتے ہیں‘ یہ وہاں اپنی حکومت بنائیں‘ اپنے تبدیلی رضا کاروں کو موبلائز کریں اور صوبہ خیبر پختونخوا کی حالت بدل دیں‘ مجھے یقین ہے اگر عمران خان نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کرا دیے‘ لاء اینڈ آرڈر مثالی بنا دیا‘ دہشت گردی ختم کرا دی‘ ڈرون حملے رکوا دیے اورطالبان کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا تو صوبے کی صورتحال آئیڈیل ہو جائے گی‘ یہ آئیڈیل صورتحال عمران خان کی سیاست کو پورے ملک تک پھیلا دے گی اور میاں نواز شریف کی ہر غلطی عمران خان کو مضبوط بنائے گی اور یوں پانچ سال بعد ملک عمران خان کا ہو گا‘ نئے پاکستان کی تیسری تبدیلی پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کا مینڈیٹ ہے‘ عوام نے دونوں جماعتوں کو آخری موقع دے دیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی مگر پانچ سال کی بیڈگورننس اور کرپشن نے قومی پارٹی کو صوبائی پارٹی بنا دیا‘ ایم کیو ایم الیکشن سے قبل کراچی اور حیدر آباد کی واحد سیاسی قوت تھی مگر ان الیکشنز میں پاکستان تحریک انصاف بھی کراچی کی شیئر ہولڈر بن گئی‘ پی ٹی آئی کے کارکن پچھلے چار دنوں سے تین تلوار پر دھرنا دے کر بیٹھے ہیں اور یہ دھرنا ہر گزرتے لمحے ایم کیو ایم کی طاقت کو للکار رہا ہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے پاس خود کو ثابت کرنے کا آخری موقع ہے‘ یہ لوگ ماہر‘ ایماندار اور ویژنری لوگوں کو سامنے لائیں‘ مصطفی کمال جیسے لوگوں کو اقتدار دیں‘ سندھ میں گورننس کا شہباز شریف سے بہتر ماڈل متعارف کروائیں اور ملک گیر جماعت بن جائیں‘ ہم اویس ٹپی پر سو اعتراض کر سکتے ہیں مگر ان میں سندھ کا شہباز شریف بننے کی اہلیت موجود ہے‘ اگر پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے سندھ کو بدل دیا تو میاں نواز شریف اور عمران خان کی سیاسی غلطیاں انھیں توانا کرتی جائیں گی اور یوں یہ ایک بار پھر وفاق تک پہنچ جائیں گی بصورت دیگر اگلا الیکشن ان دونوں پارٹیوں کا آخری الیکشن ثابت ہو گا۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر بلوچستان کی مدد کرنا ہو گی‘ بلوچستان کے مسائل سنجیدہ بھی ہیں اور گھمبیر بھی‘ ہمیں بلوچوں کی آواز پر توجہ دینا ہوگی‘ پاکستان کا ’’ستان‘‘ بلوچستان سے لیا گیا تھا اور ہم نے اگر خدانخواستہ بلوچستان کھو دیا تو پھر ہم صرف ’’ پاک‘‘ رہ جائیں گے اور یہ بنگلہ دیش کے بعد ملک کے دوسرے بازو کی قربانی ہو گی اور یہ حقیقت ہے آپ کی ٹانگیں خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں یہ آپ کا بازو نہیں بن سکتیں اور بلوچستان ہمارا بازو ہے۔
میاں نواز شریف کے پاس بہت اچھے لوگ ہیں‘ مجھے یقین ہے اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس اسحاق ڈار‘ چوہدری نثار علی خان‘ خواجہ آصف‘ خواجہ سعد رفیق‘ احسن اقبال‘ پرویز رشید‘ شاہد خاقان عباسی اور مہتاب عباسی جیسے لوگ ہوتے تو یہ کبھی اس انجام کا شکار نہ ہوتی‘ میاں صاحب کے پاس ایسے اچھے لوگوں کی لمبی فہرست ہے‘ اگر میاں صاحب نے ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں‘ یہ عاجزی‘ انکساری‘ نرمی اور لچک کا مظاہرہ کرتے رہے‘ یہ عدالت اور میڈیا کے جائز کردار کو تسلیم کرتے رہے‘ انھوں نے فوج کے ساتھ محاذ آرائی نہ کی‘ یہ صوبوں کو مرضی کے مطابق کام کرنے کا موقع دیتے رہے‘ انھوں نے اہل لوگوں کو اہم مناصب پر فائز کیا اور انھوں نے محمود اچکزئی جیسے شخص کو قومی اسمبلی کا اسپیکر اور خیبر پختونخوا یا سندھ کے کسی ایم این اے کو ڈپٹی اسپیکر بنا دیا اور عمران خان کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سونپ دی‘ وفاقی محکموں میں اہل اور ایماندار لوگ تعینات کر دیے اور ان لوگوں کو کھل کر کام کرنے کا موقع دے دیا تو کمال ہو جائے گا اور پاکستان واقعی نیا پاکستان بن جائے گا ‘ ورنہ دوسری صورت میں خوشامدی میاں صاحب کو ایک بار پھر خلافت جالندھریہ کی طرف لے جائیں گے اور میاں صاحب اگر ایک بار اس موٹروے پر چڑھ گئے تو پھر ان کی واپسی نہیں ہو سکے گی کیونکہ قدرت ہر بار نرمی نہیں کرتی‘ یہ ہر بار توبہ کے لیے اپنے دروازے نہیں کھولتی۔
عمران خان‘ تھوڑی سی استقامت‘ تھوڑا سا صبر
جاوید چوہدری جمعرات 9 مئ 2013
ہمیں عمران خان کی سیاست سمجھنے کے لیے سوات ایشو کا تجزیہ کرنا ہوگا‘ سوات پاکستان کا خوبصورت ترین علاقہ ہے‘ یہ خطہ سیاحتی صنعت بھی ہے۔ سوات سے ہیرے سے لے کر ماربل تک دنیا کے قیمتی ترین پتھر نکلتے ہیں‘ یہاں تانبے‘ سونے اور لوہے کی کانیں بھی ہیں‘ سوات کے لوگ پرامن اور انسان دوست تھے لیکن پھر ملک کے دوسرے حصوں کی طرح سوات کا سرکاری سسٹم بھی آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگا‘ تھانے اور عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو گئیں‘ گیس کا محکمہ لوگوں کو گیس نہیں دیتا تھا‘ واپڈا کے دفاتر بجلی فراہم نہیں کرتے تھے اور ٹیم فون لگانے والے ٹیلی فون نہیں دیتے تھے‘ کچہریوں میں انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہوتا تھا اور لوگوں کو اسکولوں میں تعلیم اور اسپتالوں میں دوائیں نہیں ملتی تھیں۔
لوگ اس سسٹم کی شکایت لے کر سیاستدانوں کے پاس جاتے تھے تو وہاں جا کر معلوم ہوتا تھا اس نظام کی خرابی کے اصل ذمے دار یہ لوگ ہیں‘ یہ لوگ اپنی مرضی کا ایس ایچ او‘ ڈی ایس پی اور ڈی پی او تعینات کراتے ہیں‘ شہر کا ڈی پی او‘ اسپتال کے ڈاکٹر‘ اسکول کے استاد‘ ٹیلی فون‘ گیس اور بجلی کے اعلیٰ افسر‘ سڑک بنانے والے محکمے کے انجینئر اور چھوٹی عدالتوں کے جج یہ تمام اہلکار ان سیاستدانوں کی مرضی سے تعینات ہوتے ہیں چنانچہ علاقے کے سیاستدان افسروں کی تمام تر نااہلی‘ ظلم اور زیادتی کے ذمے دار ہیں‘ یہ اس برے نظام کے محافظ ہیں‘ عوام الیکشنوں کا انتظار کرتے تھے‘ یہ سوچتے تھے یہ الیکشن میں اپنا نمایندہ بدل دیں گے مگر الیکشن سے قبل ان کا ایم این اے اور ایم پی اے چھلانگ لگا کر اس پارٹی میں چلا جاتا تھا جس نے اگلی بار حکومت بنانی ہوتی تھی، یوں پارٹی بدل جاتی تھی‘ حکومت بھی تبدیلی ہو جاتی تھی مگر ایم این اے اور ایم پی اے وہی رہتا تھا اور اس کے تعینات شدہ افسر بھی اپنی اپنی کرسی پر قائم رہتے تھے لہٰذا علاقے کے ایشو وہیں کے وہیں رہ جاتے تھے‘ اگر ایسا نہ ہوتا‘ پرانے سیاستدان پارٹی تبدیل نہ کر پاتے تو بھی ان کے نئے ایم این اے اور ایم پی اے کے ساتھ رشتے داری ہوتی یا پھر یہ ایک ہی برادری کے لوگ ہوتے چنانچہ یہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے اور یوں ظلم کا سلسلہ جاری اور ساری رہتا‘ اس صورتحال کا فائدہ طالبان نے اٹھایا۔
انھوں نے گلی محلے میں انصاف کی عوامی عدالتیں لگائیں‘ پولیس‘ سول انتظامیہ اور سرکاری محکموں کے افسروں کی گوشمالی کی‘ جرائم پیشہ لوگوں سے نبٹنا شروع کیا اور یوں عام لوگ انھیں قبول کرتے چلے گئے‘ یہاں تک کہ پورے سوات ڈویژن میں ریاست کی رٹ ختم ہو گئی اور ریاست کو یہ رٹ دوبارہ اسٹیبلش کرنے کے لیے فوجی آپریشن کرنا پڑ گیا‘ ہمیں ماننا ہوگا اگر ہم پر عالمی برادری کا دبائو نہ ہوتا‘ اگر امریکا اور یورپ ہمیں سپورٹ نہ کرتا تو ہم نے سوات میں فوجی آپریشن نہیں کرنا تھا اور بقول مولانا فضل الرحمن طالبان اس وقت تک اسلام آباد پر قابض ہو چکے ہوتے‘ کیوں؟ کیونکہ ہمیں تسلیم کرنا ہو گا یہ سسٹم نہیں چل رہا‘ اس سسٹم میں اب ملک کو چلانے کی اہلیت اور طاقت نہیں اور جب کوئی گھر زیادہ عرصے کے لیے خالی رہ جائے تو اس پر قبضہ ہو جاتا ہے‘ اس کا کوئی نہ کوئی ناپسندیدہ مالک پیدا ہو جاتا ہے اور یہ سسٹم خالی اور کھوکھلا ہو چکا ہے اور ہم اب اسے زیادہ عرصے تک بچا کر نہیں رکھ سکیں گے۔
عمران خان نے بھی اس نظام کے خالی اور کھوکھلے پن سے جنم لیا‘ عمران خان نوے کی دہائی تک محض ایک کھلاڑی تھا‘ اس کی واحد اچیومنٹ ورلڈ کپ تھا‘ دنیا میں اس سے بڑے کھلاڑی اور کرکٹر موجود تھے اور ہم اگر عمران خان کو نوے کی دہائی کے ان کرکٹرز کے درمیان کھڑا کرتے تو یہ شاید دسویں یا بارہویں نمبر پر آتا‘ شوکت خانم اس کا دوسرا کارنامہ تھا مگر ہم اس کارنامے کی بنیاد پر بھی اسے پاکستان کا چہرہ قرار نہیں دے سکتے تھے کیونکہ شوکت خانم بنانے کے باوجود یہ اس عبدالستار ایدھی کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا جس نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنا کر پورے گلوب کو حیران کر دیا‘ دنیا میں گیارہ سو ایسے منصوبے ہیں جو شوکت خانم سے بڑے تھے اور لوگ ان منصوبوں کے خالقوں کے ہاتھ چومتے ہیں‘ عمران خان پھر 25اپریل 1996ء کو سیاست میں آ گیا‘ اس نے پاکستان تحریک انصاف کے نام سے چھوٹی سی سیاسی جماعت بنائی۔
یہ جماعت عمران خان کی شخصیت اور شوکت خانم کینسر اسپتال کی وجہ سے میڈیا میں مقبول ہو گئی مگر یہ 2010ء تک عوام میں مذاق بنی رہی‘ لوگ عمران خان اور اس کی جماعت پر ہنستے تھے‘ میں عمران خان سے ہمیشہ یہ کہتا تھا ’’خان صاحب آپ خود کو سیاست میں ضایع کر رہے ہیں‘ آپ فلاحی کام کریں‘ لوگ آپ کو سڑکیوں سال تک یاد رکھیں گے‘‘ مگر عمران خان کہتا تھا ’’ تم دیکھنا ایک وقت آئے گا جب اس ملک میں صرف ایک جماعت ہو گی اور اس کا نام پاکستان تحریک انصاف ہو گا‘‘ ہم لوگ اس دعوے کو دیوانے کا خواب کہتے تھے مگر عمران خان کا سیاسی بیج آہستہ آہستہ جڑ پکڑنے لگا‘ اس کی کونپلیں نکلنے لگیں اور آج ہم مانیں یا نہ مانیں مگر یہ حقیقت ہے عمران خان ملک کا بڑا لیڈر بن چکا ہے اور پاکستان تحریک انصاف ملک کی دوسری یا تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے اور یہ اب وکٹری اسٹینڈ سے زیادہ دور نہیں‘ اب سوال یہ ہے وہ کون سی طاقت تھی جس نے ایک کھلاڑی‘ ایک کرکٹر کو ملک کی ابھرتی ہوئی سیاسی قوت بنا دیا‘ وہ طاقت اس نظام کی وہ کمزوریاں ہیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان نے سوات پر قبضہ کر لیا تھا۔
ملک کے عام لوگ جس طرح اس ظالمانہ نظام کے خلاف ہیں‘ یہ اسی طرح سیاست کے روایتی کھیل کے خلاف بھی اُبل رہے ہیں‘ لوگ اب خاندانی سیاست قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ یہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو کو کیوں منتقل ہو جاتی ہے؟ یہ بے نظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری کوکیوں مل جاتی ہے اور مخدوم امین فہیم‘ یوسف رضا گیلانی‘ سید خورشید شاہ اور جہانگیر بدر جیسے بزرگ اور کہنہ مشق سیاستدان بیس سال کے ناپختہ بلاول کو اپنا لیڈر کیوں مان لیتے ہیں؟ یہ سوچتے ہیں میاں نواز شریف کے نائب میاں شہباز شریف اور ان کے وارث حمزہ شہباز کیوں ہوتے ہیں؟ پارٹی کے سارے عہدے خاندان کے چند لوگوں تک محدود کیوں ہیں اور اگر آرمی چیف بھی بنانا ہو تو میاں صاحب پوری فوج سے صرف بٹ جرنیل کیوں منتخب کرتے ہیں ؟
لوگ یہ بھی سوچتے ہیں‘ ہماری روایتی سیاست کو جب ضرورت پڑتی ہے تو آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف بھائی بھائی بن جاتے ہیں اور جب ضرورت نہیں رہتی تو یہ ’’ میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا‘‘ اور زر بابا چالیس چور ہو جاتے ہیں‘ جب ضرورت ہوتی ہے زرداری صاحب قاتل لیگ کے لیے اپنی باہیں کھول دیتے ہیں اور میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں کو یونی فکیشن اور ہم خیال بنا کر اپنی میز پر بٹھا لیتے ہیں اور جب ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو یہ دونوں کو چوسی ہوئی گنڈیری کی طرح پھینک دیتے ہیں‘ پنجاب میں یونی فکیشن بلاک کے 43 ارکان نے پانچ سال تک پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو سہارا دیے رکھا‘ پارٹی انھیں پانچ سال تک ٹکٹ کا لارا دیتی رہی مگر الیکشن کے قریب پہنچ کر یونی فکیشن بلاک کے چالیس ارکان کو دہلیز سے نیچے دھکیل دیا گیا‘ ہمایوں اختر پاکستان مسلم لیگ ن کی منشور کمیٹی کا حصہ تھے‘ انھوں نے ن لیگ کی اقتصادی پالیسی بھی بنائی لیکن عین وقت میں انھیں جھنڈی کرا دی گئی‘ پاکستان مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف پانچ سال تک اقتدار کی سیاست کا جھنڈا لہراتے رہے لیکن الیکشن کا وقت آیا تو انھوں نے لوٹوں کے لیے سارے دروازے کھول دیے‘ انھوں نے اقتدار کے لیے ہر قسم کی گندگی اپنی جھولی میں ڈال لی‘ حقیقت یہ ہے پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس آج میاں شہباز شریف کی گورننس اور پرفارمنس کے علاوہ عوام کو دکھانے کے لیے کچھ موجود نہیں‘ عوام موٹروے اور ایٹمی دھماکوں کا رونا سن سن کر تنگ آ چکے ہیں اور یہ روایتی سا ست کے وہ رستے ہوئے زخم اور سیاسی نظام کی وہ خرابیاں ہیں جنہوں نے کرکٹر عمران خان کو سیاست دان اور پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی قوت بنا دیا‘ ہماری پولیٹیکل ایلیٹ اس سسٹم کو بچانے کی جتنی کوشش کرے گی عمران خان اور تحریک انصاف کی قوت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
عمران خان سیاسی قوت بن چکا ہے‘ کل انھیں ووٹ بھی ملیں گے اورپارلیمنٹ میں نشستیں بھی مگر حکومت بہرحال میاں نواز شریف ہی بنائیں گے لیکن اس حکومت کے لیے میاں صاحب کو ان لوگوں کو اپنے پہلو میں بٹھانا پڑے گا یہ جن کے خلاف کل تک تقریریں کرتے رہے ہیں یا یہ جنھیں آمر کی باقیات اور ساتھی قرار دیتے تھے‘ میاں صاحب اقتدار کے لیے جوں ہی ان لوگوں سے ہاتھ ملائیں گے، میاں نواز شریف کی ہر غلطی‘ ان کی انا کی ہر جست اور ان کے تکبر کا ہر ٹھڈا عمران خان کو مضبوط بنائے گا اور اگر عمران خان نے خود کو ان تمام غلطیوں اور بے وقوفیوں سے دور رکھ لیا جن کی وجہ سے آج روایتی سیاسی جماعتیں عوام کا اعتماد کھو چکی ہیں تو کل یقیناً عمران خان کا ہو گا کیونکہ یہ الیکشن روایتی سیاست کا آخری الشناً ہے‘ یہ الیکشن پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کا آخری الیکشن ثابت ہو گا، بس عمران خان کو تھوڑی سی مزید استقامت اور تھوڑے سے صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا‘ اسے تھوڑا سا اور پیدل چلنا ہو گا اور یوں یہ پاکستان کو اس دور میں لے جائے گا جس کی پہلی اینٹ افتخار محمد چوہدری نے رکھی تھی۔

اُدھر تم۔ اِدھر ہم
جاوید چوہدری بدھ 8 مئ 2013
شاہ جی نے ہاں کر دی اور یوں میرے لیے صحافت کے دروازے کھل گئے‘ میں آج بیس سال بعد سوچتا ہوں اگر اس دن عباس اطہر صاحب ہاں میں گردن نہ ہلاتے تو کیا میں آج صحافی ہوتا؟ کیا مجھ پر عزت اور شہرت کے دروازے کھلتے؟ میراجواب عموماً ناں ہوتا ہے چنانچہ مجھے عباس اطہر عرف شاہ جی نے صحافی بنایا اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف نہ کرنا احسان فراموشی ہو گی‘ یہ اپریل 1992ء کے دن تھے‘ میں یونیورسٹی سے تازہ تازہ فارغ ہوا تھا‘ میں ایک ایسا نالائق دیہاتی لڑکا تھا جس کے پاس ضد کی حدوں تک پھیلی مستقل مزاجی کے سوا کچھ نہ تھا‘ میں روز آدھ درجن کیلے لے کر نوائے وقت لاہور کے دفتر پہنچ جاتا تھا اور سارا سارا دن استقبالیہ پر بیٹھ کر گزار دیتا تھا‘ میری اس مستقل مزاجی سے استقبالیہ کلرک‘ مجید نظامی صاحب کا ذاتی چپڑاسی اور بعد ازاں نوائے وقت کے کوآرڈی نیشن ایڈیٹر اقبال زبیری کا دل پسیج گیا‘ ان لوگوں نے مجھے موقع دینے کا فیصلہ کیا مگر حتمی منظوری عباس اطہر صاحب نے دینی تھی، یہ نوائے وقت لاہور کے نیوز ایڈیٹر تھے اور ان کے فیصلے کے بغیر کسی نوجوان کو نیوز سیکشن مںظ نوکری نہیں مل سکتی تھی۔
ایڈیٹر کوآرڈی نیشن نے بیل بجائی‘ چپڑاسی اندر آیا اور اقبال زبیری نے شاہ جی کو بلانے کا حکم دیا‘ شاہ جی اس وقت واک کرنے کے لیے سیڑھیاں اتر رہے تھے‘ چپڑاسی انھیں سیڑھیوں سے بلا لایا‘ وہ دفتر آ گئے‘ میں اقبال زبیری صاحب کے دفتر میں پریشان کھڑا تھا‘ زبیری صاحب نے میری طرف اشارہ کیا اور شاہ جی سے پوچھا ’’ کیا اس بغلول کو نوکری مل سکتی ہے‘‘ شاہ جی نے بغلول کی طرف دیکھا‘ مسکرائے اور ہاں میں سر ہلا دیا‘ اس ہاں کے ساتھ ہی میرے لیے صحافت کا دروازہ کھل گیا‘ مجھے آج یہ تسلیم کرتے ہوئے کوئی باک نہیں میں اس شہرت‘ اس عزت اور اس خوشحالی کو ڈیزرو نہیں کرتا تھا‘ یہ اندھوں کا ملک ہے جس کے ہر شعبے‘ ہر فیلڈ میں سے کسی کو ذرا سا نظر آنے لگتا ہے تو وہ ان کا سردار بن جاتا ہے‘ ہماری صحافت بھی اندھوں کے شہر کی اندھی دلہن ہے اور مجھے اللہ کے کرم اور شاہ جی کے رحم کی وجہ سے اس دلہن کے سامنے بیٹھنے کا موقع مل گیا‘ میں ذرا سا مستقل مزاج تھا چنانچہ اس مستقل مزاجی نے مجھے راستہ دکھانا شروع کر دیا اور میں لائم لائٹ میں آ گیا ورنہ میری جھولی میں جہالت کے سو چھید ہیں اور میں روز اپنے پیٹ کو ان چھیدوں سے بچانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔
شاہ صاحب ’’نئے فنکاروں‘‘ کے معاملے میں کھلے دل کے مالک تھے‘ یہ نوجوانوں کو موقع بھی دیتے تھے اور سہارا بھی‘مجھے بھی انھوں نے سہارا دیا‘ میں نوائے وقت کے نیوز سیکشن میں ٹرینی سب ایڈیٹر ہوگیا‘ یہ پڑھے لکھے چپڑاسی کی نوکری تھی‘ میں خبریں جمع کرتا تھا‘ کمپوزنگ سیکشن میں لے جاتا تھا‘ کمپوز شدہ خبروں کا پروف پڑھتا تھا اور اچھے وقت کا انتظار کرتا تھا‘ کبھی کبھار قسمت کی ماری کوئی خبر بھی ہتھے چڑھ جاتی تھی اور میں اس کا لولہ لنگڑا ترجمہ کر دیتا تھا یا اس پر سرخی جما دیتا تھا‘ ایک دن شاہ جی نے میری خبر پڑھی‘ یہ خبر انتہائی کمزور اور ناقابل اشاعت تھی‘ شاہ صاحب اگر روایتی نیوز ایڈیٹر ہوتے تو وہ مجھے اسی وقت نوکری سے برخاست کر دیتے مگر ان کے اندر کیونکہ ایک درویش‘ ایک عظیم انسان چھپا ہوا تھا چنانچہ انھوں نے اس خبر کا انگلش ورژن منگوایا‘ اپنے ہاتھ سے اس کا ترجمہ کیا اور میرے حوالے کر دیا‘ وہ ایک کالم کی خبر میرے لیے مشعل راہ بن گئی‘ میں خبر بنانا سیکھ گیا۔
مجھے عباس اطہر کے ساتھ تین بار کام کا موقع ملا‘ میرا کیریئر ان کے ہاتھ سے اسٹارٹ ہوا‘ دوسرا یہ پاکستان اخبار میں ایڈیٹر بن کر آئے‘ میں اس اخبار میں سب ایڈیٹر تھا‘ شاہ صاحب نے مجھے آخری صف کے آخری بنچ سے اٹھایا اور اس اخبار کا شفٹ انچارج بنا دیا اور ان کے ساتھ تیسری اور آخری بار کام کرنے کا موقع ایکسپریس اخبار میں ملا‘ یہ گروپ ایڈیٹر تھے اور میں اس اخبار کا ادنیٰ کالم نگار۔ شاہ جی صرف اخبار نویس‘ ایڈیٹر‘ کالم نگار یا نیوز ایڈیٹر نہیں تھے‘ یہ تخلیق کار تھے‘ ان کی ذات میں تخلیق موجیں مارتی تھی‘ یہ اپنی تخلیقی قوت سے جس چیز‘ جس فقرے کو چھو لیتے تھے وہ سونا بن جاتا تھا۔ ’’اُدھر تم۔ اِدھر ہم‘‘ شاہ صاحب کی ایسی سرخی تھی جو بھٹو صاحب کی شخصیت اور پاکستان کی تاریخ کا حصہ بن گئی‘ یہ 1971ء کے اس پس منظر کو ظاہر کرتی ہے جس میں کھڑے ہو کر ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو دعوت دی تھی تم مشرقی پاکستان میں حکومت بناؤ اور ہم مغربی پاکستان میں بناتے ہیں اور یوں ’’اُدھر تم۔ اِدھر ہم‘‘ کے نعرے کے ساتھ ملک تقسیم ہو گیا‘ یہ سرخی صرف سرخی نہیں تھی‘ یہ تاریخ کا ایک ایسا نوحہ تھی جو سردی کی چوٹ کی طرح ہر 16دسمبر کو تازہ ہو جاتی ہے‘ آپ اس میں شکست آرزو اور ٹوٹتے ہوئے دو قومی نظریئے کی چیخ سنتے ہیں‘ جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف بنے تو شاہ صاحب نے صرف ایک لفظ کی سرخی نکالی اور وہ لفظ تھا ’’ کرامت‘‘۔ یہ ایک لفظ اس واقعے کا پورا پس منظر اور جنرل جہانگیر کرامت کی آمد کا پورا بیک گراؤنڈ سمجھا جاتا ہے‘ شاہ جی نے 1996ء میں بے نظیر بھٹو کے حوالے سے سرخی لگائی ’’ ہم پھر آئیں گے‘ پھر آئیں گے اور پھر آئیں گے‘‘ یہ سرخی بھی بہت مشہور ہوئی۔
شاہ جی کا کالم ’’ کنکریاں‘‘ بھی اپنے اسلوب کی وجہ سے مقبولیت کی تمام حدیں کراس کر گیا‘ ہم لوگ صرف کالم لکھتے ہیں مگر لوگ شاہ جی کے کالم کا باقاعدہ انتظار کرتے تھے‘ وہ پورے سسٹم‘ پورے معاشرے کو لفظوں کی کنکریاں مارتے تھے اور یہ کنکریاں عہد کہن کو جڑوں سے ہلا دیتی تھیں‘ ہم میں سے بے شمار لوگ صحافی ہیں‘ پاکستان کی صحافت کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ یہ تربوزوں کی فصل ہے جس میں ہر سال سیکڑوں ہزاروں تربوزوں کا اضافہ ہو جاتا ہے اور ہر تربوز خود کو جنت کا میوہ سمجھتا ہے‘ ہمارے ملک میں جب کسی شخص کو کوئی کام نہیں آتا تو وہ صحافی بن جاتا ہے اور روز مانگ تانگ کر پانچ دس کلو آٹا گھر لے جاتا ہے مگر شاہ جی ان سب سے مختلف تھے‘ یہ صرف صحافی نہیں تھے‘ یہ بہادر اور دلیر صحافی تھے‘ یہ اپنی رائے میں ہمیشہ بے لاگ اور بولڈ ہوتے تھے‘ یہ ہمیشہ غیر مقبول لائین لیتے تھے اور اس پر ڈٹ جاتے تھے‘ مثلاً ملک میں طالبان کا ایک ایسا بھی دور گزرا ہے جب میاں نواز شریف تک ان لوگوں کو آئیڈیالائز کرتے تھے‘ میاں نواز شریف ببانگ دہل کہتے تھے‘ ہم ملک میں طالبان جیسا نظام عدل نافذ کریں گے‘ اس دور کے زیادہ تر لکھنے والوں کے قلم نے سر پر عمامہ باندھ لیا تھا مگر شاہ جی نے غیر مقبول لائن لی‘ یہ طالبان کے خلاف لکھنے لگے‘ ہم انھیں روکتے تھے تو یہ کہتے تھے ’’ یہ لوگ زیادہ سے زیادہ کیا کر لیں گے‘ یہ مجھے قتل کر دیں گے‘ کر دیں‘ میں نے بالآخر مر ہی جانا ہے‘ ان کے ہاتھوں سے نہ مرا تو بیماری کے ہاتھوں مر جاؤں گا‘ جب موت برحق ہے تو پھر زندگی کے لیے کمپرومائز کرنے کی کیا ضرورت ہے‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے موجودہ دور میں جب پارٹی کے اپنے لوگ ’’ جئے بھٹو‘‘ کا نعرہ لگاتے وقت شرمندہ ہو جاتے تھے‘ شاہ جی واحد لکھاری تھے جو پاکستان پیپلز پارٹی کا کھل کر ساتھ دیتے تھے اور اس ساتھ پر ٹھیک ٹھاک گالیاں کھاتے تھے مگر وہ کہتے تھے ’’ میں صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کی مرضی کے مطابق کیوں لکھوں؟‘‘۔
عباس اطہر صاحب مجھ سے خوش نہیں تھے‘ یہ میری تحریروں اور پروگراموں کو پسند نہیں کرتے تھے‘ ان کا خیال تھا صحافی کو کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے‘ اسے پانی کے بہاؤ کے خلاف چلنا چاہیے مگر میں ان سے عرض کرتا تھا ہم لوگ ٹیپو سلطان نہیں ہیں‘ ہم معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمیں اس معاشرے کے ساتھ رہ کر آگے بڑھنا ہے‘ وہ اختلاف کرتے تھے مگر اس اختلاف میں انھوں نے کبھی ایڈیٹر کی ویٹو پاور استعمال نہیں کی‘ وہ ضرورت پڑنے پر ہمیشہ میرا ساتھ دیتے تھے‘ یہ شاہ جی کینسر سے ہار گئے‘ یہ 6مئی کو اِس دنیا سے اُس دنیا میں چلے گئے جہاں جانے والے کبھی لوٹ کرنہیں آتے اور جہاں ہم سب نے چلے جانا ہے اور ہم بھی وہاں سے واپس نہیں آئیں گے مگر شاہ جی جاتے جاتے پاکستانی صحافت پر کچھ ایسے نقش چھوڑ گئے ہیں جو اُس وقت تک قائم رہیں گے جب تک پاکستانی صحافت سانس لیتی رہے گی‘ پاکستان میں جب بھی اخباری سرخیوں کا ذکر ہو گا لوگ بے اختیار عباس اطہر کو یاد کریں گے اور یہ یاد شاہ جی کا سب سے چھوٹا احسان ہے‘ وہ اس ملک میں صحافیوں اور صحافتی روایات کی ایسی باقیات چھوڑ کر گئے ہیں جو شاہ جی کو کبھی گمنام نہیں ہونے دیں گی‘ یہ شاہ جی کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی‘شاہ جی اُدھر چلے گئے‘ ہم اِدھر رہ گئے مگر کتنی دیر؟ ہم بھی بالآخر ایک نہ ایک دن اِدھر سے اُدھر چلے جائیں گے اور یوں لائف کا سائیکل پورا ہوتا رہے گا اور یہ سائیکل اس کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہے‘ وہ سچائی جو بھٹو کی بیٹی کو بھی نگل جاتی ہے اور بھٹو کی بیٹی کے لیے نظمیں لکھنے والے عباس اطہر کو بھی اور یہ نظمیں پڑھنے اور سننے والوں کو بھی‘ پیچھے صرف اللہ کا نام رہ جائے گا‘ وہ نام جسے کبھی زوال نہیں ہو گا‘ جو کسی سورج اور کسی ابھرتے ڈوبتے دن کا پابند نہیں‘ یہ دنیا شاہ جی کے بغیر بھی چل رہی ہے اور یہ ہمارے بعد‘ ہمارے بغیر بھی چلتی رہے گی‘ یہ وہ حقیقت ہے جسے ہم دنیا کو اپنے سینگوں پر اٹھاتے ہوئے ہمیشہ بھول جاتے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں اُدھر والے اُدھر چلے جائیں گے اور ہم اِدھر کے لوگ اِدھر رہ جائیں گے اور ہم ہر قبر کو ٹھوکر مار کر اُدھر تم‘ اِدھر ہم کا نعرہ لگائیں گے مگر ایسا نہیں ہوتا‘ اِدھر اور اُدھر والے دونوں کا انجام ایک ہوتا ہے‘ دونوں خاک ہیں اور دونوں خاک میں مل جاتے ہیں۔
صحت
جاوید چوہدری ہفتہ 4 مئ 2013
حضرت موسیٰ تاریخی‘ مذہبی اور ادبی لحاظ سے (نعوذ باللہ) مظلوم ہیں‘ یہ دنیا کی ان چند شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جن کے نام پر ہزاروں غیر مصدقہ واقعات گھڑے گئے اور دنیا میں کوئی شخص ان واقعات کی تردید‘ تصدیق اور وضاحت نہیں کر رہا‘ آپ کوئی مذہبی کتاب اٹھا کر دیکیںی‘ آپ کو اس میں حضرت موسیٰ سے منسوب سیکڑوں واقعات ملیں گے لیکن آپ اگر ان واقعات کے بارے میں تحقیق کریں تو آپ کو ان کا کوئی حوالہ نہیں ملے گا‘ آج حضرت موسیٰ کو دنیا سے رخصت ہوئے ہزاروں سال ہو چکے ہیں‘ دنیا میں موسیٰ کے دور کی کوئی کتاب موجود نہیں‘ حضرت موسیٰ کے دور میں کتابیں لکھی اور شائع نہیں کی جاتی تھیں‘ یہ کاغذ سے پہلے کا زمانہ تھا‘ فرعون پیپرس نامی درخت کی چھال پر اپنے فرامین لکھواتے تھے‘ یہ فرامین اور درختوں کی یہ چھالیں بھی ختم ہو چکی ہیں‘ فرعونوں کے دور کا رسم الحظ اور طرزتحریر بھی آج موجود نہیں‘ ماہرین احراموں کی دیواروں پر کندہ عبارت تک نہیں سمجھ پا رہے۔
چنانچہ حضرت موسیٰ سے منسوب واقعات کی تاریخی لحاظ سے تصدیق ممکن نہیں‘ دوسرا حضرت موسیٰ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہونے والی گفتگو کا کوئی عینی شاہد بھی نہیں‘ حضرت موسیٰ کوہ طور پر تشریف لے جاتے تھے تو آپ کے ساتھی ایک خاص مقام تک پہنچ کر رک جاتے تھے جب کہ حضرت موسیٰ وہاں تک جاتے تھے جہاں اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوتے تھے‘ اس گفتگو میں کوئی تیسرا شخص یا ذی روح شامل نہیں ہوتا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ کے مکالمات کا کوئی عینی شاہد نہیں تھا‘ ہم یہ فرض کر لیتے ہیں حضرت موسیٰ کوہ طور سے واپس آ کر اپنے کسی پڑھے لکھے ساتھی کو اللہ تعالیٰ سے ہونے والا مکالمہ لکھوا دیتے تھے لیکن سوال یہ ہے وہ لکھا ہوا کہاں ہے؟
وہ اگر کتاب کی شکل میں تھا تو وہ کتاب کہاں ہے؟ وہ اگر پتھر پر کندہ ہوا تو وہ پتھر کہاں ہے اور وہ واقعات اگر درختوں کی چھال پر لکھے گئے تھے تو درختوں کی وہ چھال کہاں ہے؟ دنیا میں کسی جگہ ان کا کوئی آثار نہیں ملتا لہٰذا یہاں سوال پیدا ہوتا ہے پھر یہ واقعات کہاں سے آ رہے ہیں؟ اور ان کا پس منظر کیا ہے؟ یہ سوال آج کے اذہان میں بار بار پیدا ہوتا ہے اور لوگوں کو پریشان کرتا ہے‘ ہمارے پاس حضرت موسیٰ کے چند مصدقہ واقعات ہیں‘ یہ انجیل اور قرآن مجید میں درج واقعات ہیں‘ یہ واقعات ہمارے ایمان کا حصہ ہیں چنانچہ ہم ان پر یقین رکھتے ہیں مگر وہ واقعات جو قرآن مجید یا انجیل مقدس میں درج نہیں یا جن کا حوالہ متفقہ احادیث سے نہیں ملتا ہم انھیں کہاں رکھیں گے‘ ہم ان کا کیا کریں گے؟ میری علماء کرام سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر اس معاملے میں ہم گناہ گاروں اور جاہلوں کی رہنمائی فرمائیں۔
یہ پس منظر تھا‘ میں اب اصل موضوع کی طرف آتا ہوں‘ میں نے کسی کتاب میں حضرت موسیٰ سے منسوب ایک واقعہ پڑھا‘ یہ واقعہ غیر مصدقہ ہے مگر یہ اس کے باوجود حیران کن بھی ہے اور دماغ کو گرفت میں بھی لے لیتا ہے‘ لکھنے والے نے لکھا حضرت موسیٰ ؑ نے ایک بار اللہ تعالیٰ سے پوچھا ’’ یا باری تعالیٰ انسان آپ کی نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت مانگے تو کیا مانگے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ صحت‘‘۔ میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میں گنگ ہو کر رہ گیا‘ صحت اللہ تعالیٰ کا حقیقتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور قدرت نے جتنی محبت اور منصوبہ بندی انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے کی اتنی شاید پوری کائنات بنانے کے لیے نہیں کی‘ ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ ہم جب ان پر غور کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے‘ ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔
یہ بیماریاں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں‘ مگر ہماری قوت مدافعت‘ ہمارے جسم کے نظام ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتے رہتے ہیں‘ مثلاً ہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو ہمارے دل کو کمزور کر دیتے ہیں مگر ہم جب تیز چلتے ہیں‘ جاگنگ کرتے ہیں یا واک کرتے ہیں تو ہمارا منہ کھل جاتا ہے‘ ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں‘ یہ تیز تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور یوں ہمارا دل ان جراثیموں سے بچ جاتا ہے‘ مثلاً دنیا کا پہلا بائی پاس مئی 1960ء میں ہوا مگر قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی نالی لاکھوں‘ کروڑوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی‘ یہ نالی نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس ممکن نہ ہوتا‘ مثلاً گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن 17 جون 1950ء میں شروع ہوئی مگر قدرت نے کروڑوں سال قبل ہمارے دو گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے‘ ہماری پسلیوں مںو چند انتہائی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہیں۔
یہ ہڈیاں ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیں مگر آج پتہ چلا دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑے ہوتے ہیں‘ یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں‘ نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں‘ سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور پسلی کی فالتو ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا پسلی کی یہ فالتو ہڈیاں اور نرخرے کی ہڈی ایک جیسی ہیں چنانچہ سرجنوں نے پسلی کی چھوٹی ہڈیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے‘ مثلاً ہمارا جگر جسم کا واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے‘ ہماری انگلی کٹ جائے‘ بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا جب کہ جگر واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ اگ جاتا ہے‘ سائنس دان حیران تھے قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟ آج پتہ چلا جگر عضو رئیس ہے‘ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اس اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے‘ آپ دوسروں کو جگر ڈونیٹ کر سکتے ہیں‘ یہ قدرت کے چند ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں جب کہ ہمارے بدن میں ایسے ہزاروں معجزے چھپے پڑے ہیں اور یہ معجزے ہمیں صحت مند رکھتے ہیں۔
ہم روزانہ سوتے ہیں‘ ہماری نیند موت کا ٹریلر ہوتی ہے‘ انسان کی اونگھ‘ نیند‘ گہری نیند‘ بے ہوشی اور موت پانچوں ایک ہی سلسلے کے مختلف مراحل ہیں‘ ہم جب گہری نیند میں جاتے ہیں تو ہم اور موت کے درمیان صرف بے ہوشی کا ایک مرحلہ رہ جاتا ہے‘ ہم روز صبح موت کی دہلیز سے واپس آتے ہیں مگر ہمیں احساس تک نہیں ہوتا‘ صحت دنیا کی ان چند نعمتوں میں شمار ہوتی ہے یہ جب تک قائم رہتی ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی مگر جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑتی ہے‘ ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی‘ ہم اگر کسی دن میز پر بیٹھ جائیں اور سر کے بالوں سے لے کر پائوں کی انگلیوں تک صحت کا تخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا ہم میں سے ہر شخص ارب پتی ہے‘ ہماری پلکوں میں چند مسل ہوتے ہیں۔
یہ مسل ہماری پلکوں کو اٹھاتے اور گراتے ہیں‘ اگر یہ مسل جواب دے جائیں تو انسان پلکیں نہیں کھول سکتا‘ دنیا میں اس مرض کا کوئی علاج نہیں‘ دنیا کے 50 امیر ترین لوگ اس وقت اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ صرف اپنی پلک اٹھانے کے لیے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں‘ ہمارے کانوں میں کبوتر کے آنسو کے برابر مائع ہوتا ہے‘ یہ پارے کی قسم کا ایک لیکوڈ ہے‘ ہم اس مائع کی وجہ سے سیدھا چلتے ہیں‘ یہ اگر ضائع ہو جائے تو ہم سمت کا تعین نہیں کر پاتے‘ ہم چلتے ہوئے چیزوں سے الجھنا اور ٹکرانا شروع کر دیتے ہیں ‘ دنیا کے سیکڑوں‘ ہزاروں امراء آنسو کے برابر اس قطرے کے لیے کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں‘ لوگ صحت مند گردے کے لیے تیس چالیس لاکھ روپے دینے کے لیے تیار ہیں‘ آنکھوں کا قرنیا لاکھوں روپے میں بکتا ہے‘ دل کی قیمت لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے‘ آپ کی ایڑی میں درد ہو تو آپ اس درد سے چھٹکارے کے لیے لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘ دنیا کے لاکھوں امیر لوگ کمر درد کا شکار ہیں۔
گردن کے مہروں کی خرابی انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے‘ انگلیوں کے جوڑوں میں نمک جمع ہو جائے تو انسان موت کی دعائیں مانگنے لگتا ہے‘ قبض اور بواسیر نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی مت مار دی ہے‘ دانت اور داڑھ کا درد راتوں کو بے چین بنا دیتا ہے‘ آدھے سر کا درد ہزاروں لوگوں کو پاگل بنا رہا ہے‘ شوگر‘ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کی ادویات بنانے والی کمپنیاں ہر سال اربوں ڈالر کماتی ہیں اور آپ اگر خدانخواستہ کسی جلدی مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ جیب میں لاکھوں روپے ڈال کر پھریں گے مگر آپ کو شفا نہیں ملے گی‘ منہ کی بدبو بظاہر معمولی مسئلہ ہے مگر لاکھوں لوگ ہر سال اس پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں‘ ہمارا معدہ بعض اوقات کوئی خاص تیزاب پیدا نہیں کرتا اور ہم نعمتوں سے بھری اس دنیا میں بے نعمت ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ہماری صحت اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے مگر ہم لوگ روز اس نعمت کی بے حرمتی کرتے ہیں‘ ہم اس عظیم مہربانی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے‘ ہم اگر روز اپنے بستر سے اٹھتے ہیں‘ ہم جو چاہتے ہیں ہم وہ کھا لیتے ہیں اور یہ کھایا ہوا ہضم ہو جاتا ہے‘ ہم سیدھا چل سکتے ہیں‘ دوڑ لگا سکتے ہیں‘ جھک سکتے ہیں اور ہمارا دل‘ دماغ‘ جگر اور گردے ٹھیک کام کر رہے ہیں‘ ہم آنکھوں سے دیکھ‘ کانوں سے سن‘ ہاتھوں سے چھو‘ ناک سے سونگھ اور منہ سے چکھ سکتے ہیں تو پھر ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضل‘ اس کے کرم کے قرض دار ہیں اور ہمیں اس عظیم مہربانی پر اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ صحت وہ نعمت ہے جو اگر چھن جائے تو ہم پوری دنیا کے خزانے خرچ کر کے بھی یہ نعمت واپس نہیں لے سکتے‘ ہم اپنی ریڑھ کی ہڈی سیدھی نہیں کر سکتے۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔
آپ اپنی کمر ننگی رکھیں
جاوید چوہدری جمعرات 2 مئ 2013
سلیمان کریموف روسی ریاست داغستان سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ داغستان کی مشہور کاروباری شخصیت تھے‘ سلیمان کریموف نے روس کی سونا اور چاندی کی کانیں کھودنے والی سب سے بڑی کمپنی پولی میٹل میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی‘ ان کے پولس گولڈ نامی کمپنی میں 37 فیصد شیئرز تھے‘ یہ ہوٹل ماسکو‘ اسٹاک ایکسچینج اور روس کے تین بڑے بونک ں کے بھی شیئرز ہولڈر تھے‘ سلیمان کریموف سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تیزی سے ترقی کرنے والے روسیوں میں شامل تھے‘ یہ روس کے ارب پتیوں میں بھی شمار ہوتے تھے‘ سلیمان کریموف 1999ء میں سیاست میں آ گئے‘ یہ 1999ء میں ڈُما ریاست کے ممبر اسمبلی بنے اور یہ 2008ء میں داغستان کی سیٹ سے روسی سینیٹ کے رکن بن گئے‘ یہ سینیٹ میں آئے تو انھوں نے محسوس کیا ’’میری دولت ہمیشہ میری سیاست کے راستے میں حائل رہے گی‘ میں جو بھی قانون بناؤں گا یا قانون کے حق یا مخالفت میں ووٹ دوں گا‘ روس کے لوگ مجھے مشکوک نظروں سے دیکھیں گے‘‘ چنانچہ انھوں نے کمپنی کے چھوٹے چھوٹے ٹرسٹ بنائے اور اپنے تمام ادارے ان ٹرسٹوں کے حوالے کر دیئے اور خود ماسکو آ گئے۔
روس کی پارلیمنٹ نے 27 اپریل2013ء کو غیر ملکی اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کے خلاف قانون پاس کر دیا‘ اس قانون کی زد میں روس کے وہ تمام بزنس مین آ جاتے ہںد جن کے اکاؤنٹس غیرممالک میں ہیں‘ سلیمان کریموف کی کمپنیوں اور ٹرسٹوں کے اکاؤنٹس بھی یورپ اور امریکا میں موجود ہیں‘ سلیمان کریموف نے محسوس کیا لوگ بہت جلد ان اکاؤنٹس پر اعتراض کریں گے‘ سلیمان کریموف کے پاس اب دو آپشن تھے‘ یہ سینیٹر شپ سے مستعفی ہو جاتے اور واپس اپنے بزنس یا اداروں کی طرف چلے جاتے یا پھر یہ کاروبار اور اپنے اداروں کی قربانی دے دیتے‘ سلیمان کریموف نے دوسرا آپشن پسند کیا‘ انھوں نے 30 اپریل 2013ء کو اپنی ساری دولت‘ اپنے سارے اثاثے خیرات میں دے دیئے‘ سلیمان کریموف کے اس اعلان اور ایک دستخط کے بعد ان کے 7.1 بلین ڈالر چیرٹی میں چلے گئے‘ یہ اس اعلان کے بعد دنیا کے ان چند سیاستدانوں میں شمار ہو چکے ہیں جنھوں نے پارلیمنٹ کی نشست کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا‘ سلیمان کریموف کے اس اعلان کے بعد پورا روس ان کی عزت کر رہا ہے‘ لوگ ان کے قدموں میں اپنی پلکیں بچھا رہے ہیں۔
میں جب سلیمان کریموف کی خبر پڑھ رہا تھا تو مجھے بے اختیار حضرت ابو بکر صدیقؓ کا زمانہ یاد آ گیا‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلامی ریاست کے پہلے خلیفہ بننے سے قبل مدینہ منورہ میں کپڑے کا کاروبار کرتے تھے‘ آپؓ خلیفہ بنے تو آپؓ معمول کے مطابق اپنی دکان پر جانے لگے‘ حضرت عمر فاروقؓ نے دیکھا تو آپؓ نے ان سے پوچھا ’’آپ کہاں جا رہے ہیں‘‘ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا ’’اپنی دکان پر‘‘ حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کیا ’’یا امیر المومنین آپ کو یہ کاروبار اب بند کرنا ہو گا‘‘ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے پوچھا ’’ کیوں؟‘‘ حضرت عمر فاروقؓ نے جواب دیا ’’ شہر میں اگر خلیفہ کی دکان ہو گی تو لوگ دوسری دکانوں سے سودا نہیں خریدیں گے‘‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ نقطہ سمجھ گئے چنانچہ آپ نے اسی وقت اپنا جما جمایا کاروبار بند کر دیا‘ یہ واقعہ تاریخ اسلام کی بے شمار کتابوں میں درج ہوا‘ 1500ء میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا‘ استنبول کے سقوط کے بعد آیا صوفیہ سے ہزاروں قلمی نسخے یورپ پہنچے‘ کتابیں شائع ہوئیں‘ ان کتابوں کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے اور ترجموں کے ذریعے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور فرسٹ لیڈی کا کھیر بنانے کا واقعہ یورپ تک پہنچا‘ حضرت عمر فاروقؓ کا دو چادروں اور شراب نوشی کے جرم میں اپنے بیٹے کو کوڑے مارنے کا واقعہ اور دنیا سے رخصتی کے وقت خلفاء راشدین کے اثاثوں کے واقعات یورپ تک پہنچے تو ان کی حکومتوں نے حکمرانوں کے اثاثوں اور احتساب پر کام شروع کر دیا‘ یورپ کے عوام کو حکمرانوں کے اختیارات کنٹرول کرنے اور انھیں احتساب کے کٹہرے میں لانے میں چار سو سال لگ گئے‘ پہلی جنگ عظیم اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم نے طے کر دیا۔
دنیا نے اگر تباہی سے بچنا ہے‘ معاشروں نے اگر ترقی کرنی ہے‘ سلطنتوں کو اگر امن چاہیے اور عوام نے اگر خوشحالی اور سکون کا ذائقہ چکھنا ہے تو پھر انھیں اپنے حکمرانوں کے گرد اصولوں‘ قاعدوں اور قوانین کا جنگلہ لگانا ہو گا‘ قوموں کو بہترین لوگوں کا انتخاب کرنا ہو گا‘ حکومتوں کو اختیارات کی نکیل معاشرے کے بہترین لوگوں کے ہاتھ میں دینی ہو گی اور پھر ان بہترین لوگوں کے اختیارات پر ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ رکھنا ہو گا چنانچہ یورپ اور اس کے بعد امریکا نے حکمرانوں کے لیے کڑے ضابطے اور قوانین بنا دیئے‘ یہ قوانین اور ضابطے اس وقت دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم میں موجود ہیں‘ مثلاً جرمنی میں اگر کوئی بزنس مین‘ کارخانے دار یا سرمایہ کار سیاست میں آتا ہے تو اسے پہلے اپنا کارخانہ‘ بزنس اور سرمایہ کاری کی فرم بند کرنا پڑتی ہے‘ جرمنی کے سسٹم کا خیال ہے اگر کاروباری شخص کاروبار کے ساتھ پارلیمنٹ میں آئے گا تو اس کی قانون سازی اس کے اپنے کاروبار کے اردگرد گھومے گی اور یوں ملک اور قوم کو نقصان ہو گا‘ آپ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا واقعہ ذہن میں رکھئے اور اس کے بعد سوچئے‘ کیا جرمنی کا یہ قانون حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سنت کے قریب نہیں؟ برطانیہ نے قانون بنایا اگر کوئی رکن اسمبلی جھوٹ بولے گا‘ یا اپنے اثاثے چھپائے گا یا پھر غلط انوائس کے ذریعے سرکاری خزانے سے رقم نکالے گا تو اسے سرکاری عہدہ اور پارٹی دونوں سے ہاتھ دھونا ہو گا چنانچہ آپ کو برطانیہ کی تاریخ میں ایسے بے شمار سیاستدان ملتے ہیں جنھوں نے سرکاری خزانے سے پانچ پونڈ نکالے‘ اپنے بچے یا بیوی کو سرکاری فنڈز سے شاپنگ کروائی یا پھر تھری اسٹار کی بجائے فور اسٹار ہوٹل میں ٹھہرے اور عہدے اور سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فارغ ہو گئے۔
آپ سوچئے کیا یہ حضرت عمر فاروق ؓ کی دو چادروں کے واقعے کے قریب نہیں‘ امریکا نے قانون بنایا ہمارے صدر کا فیصلہ ہمیشہ عوام کریں گے اور یہ صدر خواہ کتنا ہی عظیم اور شاندار کیوں نہ ہو یہ تیسری بار صدارتی الیکشن نہیں لڑ سکے گا‘ یہ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد کسی سرکاری عہدے پر بھی فائز نہیں ہو سکے گا اور یہ اگر صدر کی حیثیت سے کوئی بھی خلاف قانون حرکت کرے گا تو یہ صدر نکسن ہو یا بل کلنٹن یہ قانون کے کٹہرے میں کھڑا ہو گا‘ یہ وہ اصول یا ضابطے تھے جنھوں نے آگے چل کر ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ قوموں کے درمیان تقسیم کی لکیر کھینچی‘ آپ اگر ترقی یافتہ ہیں یا آپ ترقی یافتہ ہونا چاہتے ہیں تو پھر آپ کے حکمرانوں کو ان تمام اصولوں کا پابند ہونا پڑے گا جن کی بنیاد خلفاء راشدین نے رکھی تھی‘ پھر آپ کو خلیفہ بننے کے بعد اپنی دکان بند کرنا ہو گی‘ سیکیورٹی اور پروٹوکول کے بغیر فلسطین جانا ہو گا‘ آپ کو اپنے غلام کو اپنے برابر حقوق دینے ہوں گے‘ آپ کو اسے اونٹ پر بٹھا کر خود پیدل چلنا ہو گا‘ آپ کو شوربے میں سخت روٹی ڈال کر کھانی ہو گی اور آپ کو دھوپ میں سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سونا ہو گا۔
صدر اوبامہ کی طرح آپ کو گھسے ہوئے جوتے پہننا ہوں گے اور آپ کو اینجلا مرکل‘ ٹونی بلیئر اور گورڈن براؤن کی طرح عام بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرنا ہو گا اور کمرشل فلائٹس میں بیرون ملک جانا ہو گا‘ ترقی کے یہ اصول اور یہ ضابطے اس قدر مضبوط ہیں کہ 80 سال تک آہنی پردے کے پیچھے رہنے والا سوویت یونین بھی آج انھیں اپنانے پر مجبور ہے‘ آج روس کے ارب پتی سلیمان کریموف بھی دولت اور سینیٹر شپ میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہیں اور انھیں عوامی نمائندگی کے لیے اپنا کاروبار‘ اپنی دولت قربان کرنی پڑ جاتی ہے چنانچہ آپ فیصلہ کیجیے دنیا میں اگر حضرت ابوبکر صدیق ؓ جیسے عظیم انسان خلافت کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی دکان بند کر دیتے ہیں یا جرمنی کے بزنس مینوں کو عوامی نمائندگی اور بزنس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے یا برطانیہ کے سیاستدانوں کو اپنے اثاثے ڈکلیئر کرنا پڑتے ہیں اور اگر سیاست میں آنے کے بعد ان اثاثوں میں اضافہ ہو جائے تو انھیں احتساب کے کڑے عمل سے گزرنا پڑتا ہے‘ اگر امریکا کا مضبوط ترین صدر جوتے خریدنے سے قبل دس دس بار سوچتا ہے اور روس کے سینیٹر سلیمان کریموف کو سینیٹر شپ بچانے کے لیے اپنے 7.1 بلین ڈالر قربان کرنا پڑتے ہیں تو پھر ہم کرپٹ سیاستدانوں‘ کاروباری سیاسی قیادت اور تین تین سو کنال کے گھروں میں رہنے والے حکمرانوں کے ساتھ کیسے ترقی کریں گے؟ ذرا سوچئے!
آپ 2013ء کے الیکشن کو دیکھ لیجیے‘ کیا ہمارے الیکشن کمیشن نے کسی ایک بھی امیدوار کو کرپشن کے الزام میں ’’ڈس کوالی فائی‘‘ کیا؟ اور کیا کسی ایک سیاستدان کو اس کی سابق کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن لڑنے سے روکا گیا؟ پاکستان میں سیاست کھلا کاروبار ہے‘ پارٹیاں دو سے پانچ کروڑ روپے لے کر امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہیں‘ کاروباری‘ سرمایہ دار اور جاگیردار پیسے کے زور پر سیاست میں آتے ہیں اور الیکشن جیت جاتے ہیں اور پارلیمنٹ میں بیٹھ کر پورے سسٹم سے اپنے جوتے صاف کرتے ہیں اور کوئی شخص اور کوئی ادارہ ان کا راستہ نہیں روک سکتا‘ ہماری سپریم کورٹ‘ ہمارا میڈیا پانچ سال کی مسلسل کوشش کے باوجود حج سکینڈل‘ این آئی سی ایل اور اسٹیل ملز کرپشن کے کیک ایک مجرم کو سزا نہیں دلوا سکا اور یہ کرپشن کے میگا سکینڈلز میں ملوث کسی ایک شخص کو الیکشن سے نہیں روک سکا مگر ہم اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا رونا روتے ہیں‘ ہم مہنگائی‘ بے روزگاری‘ خانہ جنگی‘ دہشت گردی اور لاقانونیت پر دہائی دیتے ہیں‘ ہم نے کبھی سوچا ہم جب خود تربوزوں کے ڈھیر پر گیدڑ بٹھائیں گے‘ شہد کے چھتے ریچھوں کے رحم و کرم پر چھوڑیں گے یا وضو کے لوٹے میں نالی کا پانی ڈال دیں گے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ میں ہمیشہ سوچتا ہوں‘ ہم حالات کا شکوہ کیوں کرتے ہیں؟ فالٹ لائین پر گھر بنانے والوں کو زلزلوں کے جھٹکوں کی شکایت نہیں کرنی چاہیے اور چوروں کے محلے میں دکان کھولنے والوں کو لٹنے کی ایف آئی آر نہیں کٹوانی چاہیے‘ آپ اگر ظالموں کو اپنا حکمران بناتے ہیں تو پھر آپ اپنی کمر بھی ننگی رکھیں‘ آپ کوڑے سہنے اور کوڑے برداشت کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں‘ کم از کم چیخنا تو بند کریں۔
بندہ مزدور کی اوقات
جاوید چوہدری بدھ 1 مئ 2013
امریکا کی ریاست کیلیفورنیا میں آج سے پندرہ سال قبل ورکنگ کلاس نے ہڑتال کر دی‘ یہ لوگ مختلف شہروں میں ریلیاں نکال رہے تھے‘ یہ مطالبہ کر رہے تھے کیلی فورنیا میں کم سے کم تنخواہ آٹھ ڈالر فی گھنٹہ ہونی چاہیے‘ کیلی فورنیا میں اس وقت کم سے کم معاوضہ سات ڈالر فی گھنٹہ تھا‘ ورکنگ کلاس کا خیال تھا‘ اس معاوضے میں گھر چلانا ممکن نہیں چنانچہ معاوضے میں فی گھنٹہ ایک ڈالر اضافہ کیا جائے‘ اس وقت جب کیلی فورنیا کی ستر فیصد آبادی ایک ڈالر فی گھنٹہ اضافے کے لیے جنگ لڑ رہی تھی اس وقت اسی ریاست کا ایک شہری 57 کروڑ ڈالر سالانہ تنخواہ لے رہا تھا‘ یہ پونے پانچ کروڑ ڈالر ماہانہ بنتے ہیں اور ہم اگر انھیں روپوں میں تبدیل کریں تو یہ پونے پانچ ارب روپے ماہانہ بن جائیں گے‘ یہ شخص بھی امریکی تھا‘ اس کے پاس بھی وہی شناختی کارڈ‘ وہی پاسپورٹ اور وہی شہریت تھی جو سات ڈالر فی گھنٹہ حاصل کرنے والے لوگوں کے پاس تھی‘ یہ بھی وہی زبان بولتا تھا‘ وہی کھانا کھاتا تھا‘ یہ بھی انھی اسکولوں اور کالجوں میں پڑھا تھا اور یہ بھی اسی فضا میں سانس لیتا تھا جس میں ایک ڈالر فی گھنٹہ اضافے کے لیے احتجاج کرنے والے امریکی مزدور لیتے تھے۔
یہ بھی ان لوگوں کی طرح دس بیس تیس سال قبل ایک عام امریکی شہری تھا اور یہ بھی ان کی طرح سڑکوں پر مارا مارا پھرتا تھا مگر پھر یہ سسٹم کو سمجھ گیا‘ یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت جان گیا‘ یہ جان گیا دنیا آپ کی شخصیت‘ آپ کی کوالی فکیشن‘ آپ کی ضرورت اور آپ کی مظلومیت کا معاوضہ نہیں دیتی‘ یہ آپ کی کارکردگی‘ آپ کی ’’آئوٹ پٹ‘‘ اور آپ کی پرفارمنس کو معاوضہ دیتی ہے‘ آپ اگر کسی شخص‘ ادارے‘ کارپوریشن یا پھر فرم کو ماہانہ دس لاکھ روپے کما کر دے رہے ہیں تو یہ آنکھیں بند کر کے آپ کو ایک لاکھ روپے ماہانہ دے دے گی لیکن آپ اگر ایک لاکھ روپے کما رہے ہیں اور اس کام پر کمپنی کے ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ ہو رہے ہیں تو یہ آپ کو دس ہزار روپے بھی نہیں دے گی‘ وہ جان گیا آپ اگر مزدور ہیں تو آپ کے شب و روز کبھی روشن نہیں ہوں گے‘ آپ کے کمرے کا روشن دان کبھی نہیں کھلے گا‘ آپ خواہ امریکا کی ساری سڑکیں بند کر دیں‘ آپ روز کام چھوڑ ہڑتال کریں یا آپ خواہ خود سوزی کر لیں دنیا آپ کی طرف نظر تک اٹھا کر نہیں دیکھے گی چنانچہ اس نے مزدور سے مالک بننے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے نوکری لینے والوں کی قطار سے نکل کر نوکری دینے والوں کی لائین میں جانے کا عزم کر لیا‘ یہ نیچے کے بجائے اوپر والا ہاتھ بن گیا اور یوں یہ صرف بیس برسوں میں امریکا میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا ملازم ہو گیا‘ اس نے یہ سب کچھ کیسے کیا‘ یہ بھی ایک دلچسپ داستان تھی۔
یہ امیر ہونے کے فیصلے کے بعد سب سے پہلے بزنس اسکول گیا اور بزنس کلاسز لینا شروع کر دیں‘ یہ دن بھر میکڈونلڈ میں کام کرتا تھا اور شام کو بزنس کلاسز لیتا تھا‘ یہ دو سال اسی طرح پڑھتا رہا‘ میکڈونلڈ سے مفت ملنے والے دو برگر‘ ایک کوکا کولا اور ایک کافی اس کی خوراک تھی‘یہ سائیکل پر بزنس اسکول جاتا تھا‘ ایک چھوٹے سے پرائیویٹ ہاسٹل کے گندے سے کمرے میں رہتا تھا‘ لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھتا تھا اور سال میں دو بار کپڑے خریدتا تھا‘ دو سال بعد اسے بزنس کی ڈگری ملی تو یہ امریکا کی درمیانے درجے کی ایک فرم میں ملازم ہو گیا‘ اس نے اس کے ساتھ پانچ سال کا معاہدہ کر لیا‘ یہ ایک خطرناک معاہدہ تھا‘ اس کے دوستوں نے اسے اس معاہدے سے باز رکھنے کی کوشش کی‘ دوستوں کا کہنا تھا’’ تم انتہائی کم معاوضے میں پانچ سال کی غلامی میں جا رہے ہو‘‘ مگر اس کے خواب مختلف تھے‘ اس نے کسی کتاب میں پڑھا تھا مستقل مزاجی اس کائنات کا بنیادی قانون ہے‘ اس کائنات کی ہر چیز‘ ہر فعل مستقل مزاج ہے اور آپ اگر مستقل مزاجی کے ٹریک پر آ جاتے ہیں تو کائنات کی ساری طاقتیں آپ کے ساتھ شامل ہو جاتی ہیں ‘ کائنات کی یہ فورسز آپ کو منزل کی طرف لے جاتی ہیں۔
یہ کائنات غیر مستقل مزاج لوگوں سے نفرت کرتی ہے‘ یہ ان سے انتقام بھی لیتی ہے چنانچہ آپ کبھی غیر مستقل مزاج لوگوں کو کامیاب نہیں دیکھیں گے‘ اس نے کسی جگہ پڑھا ‘مستقل مزاجی کا ہر زینہ پانچ سال کا ہوتا ہے‘ کائنات آپ کو اس وقت تک مستقل مزاج نہیں مانتی جب تک آپ اپنی پروفیشنل لائف کو پانچ پانچ سال کے حصوں میں تقسیم نہیں کرتے‘ آپ جو بھی کام کریں آپ اسے پانچ پانچ سال کے کیلنڈر میں تقسیم کر لیں‘ کائنات دس سے پندرہ برسوں میں آپ کو مستقل مزاج مان لے گی اور یوں آپ کا سفر آسان ہو جائے گا چنانچہ اس نے فیصلہ کیا وہ اس کمپنی کو کسی قیمت پر پانچ سال سے پہلے نہیں چھوڑے گا‘ اس نے کام شروع کیا‘ وہ دن بھر اپنے ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا اور شام اور رات کے وقت سیلز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کا بلامعاوضہ سیکریٹری بن جاتا‘ یہ ڈیوٹی آورز کے بعد اس کا بیگ اٹھا لیتا‘ اس کی میٹنگز طے کرتا‘ اس کے مہمانوں کا استقبال کرتا‘ اس کی گاڑی ڈرائیو کرتا‘ اس کے اگلے دن کا شیڈول طے کرتا اور رات گئے اسے اس کے گھر چھوڑ کر آتا‘ یہ چار پانچ گھنٹے کی نیند کے بعد دوبارہ آفس پہنچ جاتا‘ یہ دو سال سیلز ہیڈ کا فری اسسٹنٹ بنا رہا‘ اس نے ان دو برسوں میں سیلز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کا دل موہ لیا چنانچہ اس نے اسے پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ سے اپنے شعبے میں شفٹ کر لیا‘ وہ سیلز ڈیپارٹمنٹ میں سارا دن باس کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتا تھا اور رات کے وقت وہ سیلز کی نئی تکنیکس سیکھتا تھا۔
وہ اچھے سیلزمین کے پاس بیٹھ کر سیلز کمیونیکیشن سیکھتا تھا‘ وہ پرانے سیلزمین سے خریداروں کی نفسیات سمجھتا تھا اور وہ سیلز کی کلاسز لیتا تھا‘ وہ بہت جلد سیلزمین اور خریداروں کی نفسیات جان گیا چنانچہ اس نے سیلز میں بھی باس کی مدد شروع کر دی‘ وہ فارغ وقت میں بزنس ڈویلپ کرتا‘ باس کے حوالے کرتا اور اس کے بدلے میں اس سے کسی قسم کا معاوضہ طلب نہ کرتا‘ اس کے اخلاص سے بھرے ہوئے اس رویے نے بہت جلد پوری کمپنی کو اپنا گرویدہ کر دیا‘ لوگوں نے اس کا نام اینجل رکھ دیا مگر وہ سر نیچے کر کے کام کرتا رہا یہاں تک کہ پانچ سال پورے ہو گئے؟ اس کے اگلے کانٹریکٹ کا وقت آ گیا‘ کمپنی نے اس کو چار گنا تنخواہ آفر کر دی مگر اس نے کمپنی کو ایک عجیب پش کش کر دی‘ اس نے اپنے باس کو آفر کی‘ آپ مجھے تنخواہ کے بجائے سیلز میں حصہ دار بنا لیں‘ میں آپ سے کوئی تنخواہ نہیں لوں گا‘ میں آپ کی مصنوعات بیچوں گا اور آپ میری بیچی ہوئی مصنوعات کے پرافٹ سے مجھے پانچ فیصد دے دیا کریں۔
یہ ایک انتہائی بے وقوفانہ پیش کش تھی‘ آپ خود سوچئے‘ آپ کسی شخص کو بیس ہزار ڈالر ماہانہ کی پیش کش کر رہے ہوں مگر وہ آپ سے چند ہزار یا چند لاکھ کی سیل پر پانچ فیصد ڈیمانڈ کر رہا ہو تو آپ کو وہ شخص بے وقوف نہیں لگے گا؟ کمپنی نے بھی اس وقت اسے بے وقوف سمجھا‘ اس کی شرط قبول کر لی اور اس کے ساتھ پانچ سال کا معاہدہ کر لیا مگر دو مہینے بعد کمپنی پریشان ہو گئی کیونکہ اس نے سیل میں حیران کن اضافہ کر دیا‘ کمپنی کی مصنوعات دھڑا دھڑ بکنے لگیں یہاں تک کہ کمپنی نے ایک سال بعد پرانا معاہدہ واپس لیا اور اس کے ساتھ دس فیصد شیئر کا نیا سمجھوتہ کر لیا‘ دو سال بعد وہ کمپنی کی ساری سیل میں دس فیصد کا شیئر ہولڈر بن گیا‘ پانچ سال پورے ہوئے تو وہ کمپنی کا نائب صدر بن گیا‘ اگلے دو تین برسوں میں وہ کمپنی کا چیئرمین بھی تھا‘ وہ سیل میں بھی بیس فیصد کا حصہ دار تھا اور وہ امریکا میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا ملازم بھی تھا۔
یہ شخص مزدوروں کے ہر احتجاج پر ہنستا تھا اور اپنے جونیئرز سے کہتا تھا‘ یہ مزدور اس لیے مزدور ہیں کہ انھوں نے خود کو مزدور مان لیا ہے‘ آپ ان کے معاوضے میں دگنا اضافہ بھی کر دیں تو بھی ان کے مسائل میں کمی نہیں آئے گی‘ اس کی بات سو فیصد درست تھی‘ دنیا میں معاوضہ ایشو نہیں ہوتا‘ اسٹیٹس ایشو ہوتا ہے‘ آپ اگر مزدور ہیں تو پھر دنیا کا کوئی معاشرہ‘ کوئی سسٹم اور کوئی حکومت آپ کو خوشحال نہیں بنا سکتی‘ آپ کی زندگی ہر دور میں جبر مسلسل رہے گی‘ آپ کے لیے وقت ناقابل معافی جرم کی سزا بنا رہے گا اور بھٹو آئیں یا بھٹو جائیں آپ کی کوٹھڑی کی چھت ٹپکتی رہے گی اور ملک میں خواہ کمیونزم آ جائے‘ سوشلزم آ جائے‘ سرمایہ داری بلندی کو چھونے لگے یا پھر اسلامی نظام آ جائے آپ کے آٹے کا کنستر اسی طرح خالی رہے گا‘آپ مزدور کے مزدور رہیں گے‘ آپ اگر اپنے حالات تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنا اسٹیٹس بدلنا ہو گا‘ آپ کو مزدور سے راج اور راج سے ٹھیکیدار بننا ہو گا‘ آپ کو شفٹ انچارج‘ منیجر‘ جنرل منیجر اور چیئرمین بننا ہو گا اور آپ اگر یہ بن گئے تو آپ فرعون ہی کے دور میں کیوں نہ ہوں زندگی اپنی تمام تر خوبصورتیوں کے ساتھ آپ پر مہربان ہو جائے گی جب کہ دوسری صورت میں آپ بندہ مزدور رہیں گے اور ہر یکم مئی پر اپنی اوقات پر مرہم لگاتے اور پٹیاں باندھتے رہیں گے۔
نوٹ: ایک خوبصورت نوجوان خون کے سرطان میں مبتلا ہے‘ اسے بون میرو کے لیے پندرہ لاکھ روپے درکار ہیں‘ خوف خدا رکھنے والے حضرات اس نمبر پر رابطہ کریں۔محمد اعجاز: 0341-5106003
دین اور دنیا
جاوید چوہدری اتوار 28 اپريل 2013
میں جب بھی باہر جاتا ہوں میں وہاں کے اسکولوں اور عبادت گاہوں میں ضرور جھانکتا ہوں‘ آپ کسی خاندان کی عادتیں‘ تربیت اور اخلاقیات جانچنا چاہتے ہیں تو آپ اس کا باتھ روم یا ٹوائلٹ دیکھئے‘ آپ اس کا باورچی خانہ دیکھئے‘ آپ اس کے سلیپر دیکھئے اور آپ اس کی کھانے کی میز دیکھئے‘ آپ چند منٹوں میں اس شخص اور اس کے خاندان کی ساری اخلاقیات سمجھ جائیں گے، آپ اسی طرح اگر کسی معاشرے کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ اس کے سرکاری اسکول میں چلے جائیں یا اس کی عبادت گاہ میں چند منٹ گزار لیں‘ آپ اس معاشرے کا ماضی‘ حال اور مستقبل تینوں جان جائیں گے۔
میرا دعویٰ ہے آپ کو دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم کے اسکولوں میں ڈسپلن‘ اطمینان‘ خوبصورتی اور علم دوستی ملے گی‘ آپ کو بچوں کے چہروں پر طمانیت‘ آنکھوں میں کھوج کی چمک اور رویوں میں احترام ملے گا‘ آپ کو اس مقابلے میں دنیا کی ہر ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ قوم کے اسکول ان نعمتوں سے محروم ملیں گے‘ آپ کو ان کے اسکولوں میں بے ترتیبی‘ گندگی‘ بد نظمی‘ بے اطمینانی اور بے علمی ملے گی‘ آپ ان کے بچوں کے چہروں پر تناؤ اور رویوں میں بدتمیزی‘ جہالت اور شدت پائیں گے‘ آپ کو وہاں کے بچے علم سے بیزار اور استاد کتابوں سے مفرور ملںب گے‘ آپ کو غیر ترقی یافتہ اقوام کی عبادت گاہوں میں بھی بد نظمی نظر آئے گی۔
آپ لوگوں کو پرانے سلیپر اور گندے جوتے پہن کر مسجدوں میں آتے دیکھیں گے‘ ان کے غسل خانے‘ استنجا خانے اور وضو خانے صاف نہیں ہوں گے‘ چٹائیوں اور صفوں پر گرد ہو گی‘ امام صاحب کی گفتگو میں شدت اور رویوں میں اختلاف ہو گا‘ آپ کو نمازی دوسرے نمازی کا حلیہ درست کرتا نظر آئے گا جب کہ ترقی یافتہ اقوام کی مساجد‘ چرچ‘ سینا گوگا اور ٹمپل ان کی طرح صاف ستھرے‘ دھمےم‘ خوبصورت اور منظم ہوں گے‘ میں درجنوں بار یورپ گیا‘ میں نے سیکڑوں چرچ دیکھے ہیں‘ میں نے وہاں آج تک کوئی پادری گندے کپڑوں میں ملبوس نہیں دیکھا‘ مجھے کوئی پادری‘ نن یا چرچ کا کوئی کیئر ٹیکر ایسا نہیں ملا جس کے دانت صاف نہ ہوں‘ عالم اسلام میں سعودی عرب‘ یو اے ای‘ ترکی اور ملائشیا کے علماء کرام اور امام حضرات میں ایسی صفائی یا نظم و ضبط ملتا ہے جب کہ باقی عالم اسلام کی مساجد اور علماء میں وہ صفائی نہیں جسے دیکھ کر ہم یہ دعویٰ کر سکیں صفائی ہمارا نصف ایمان ہے‘ بہرحال میں موضوع کی طرف واپس آتا ہوں۔
میری عادت ہے میں غیر ملکیوں کے اسکولوں اور عبادت گاہوں میں جھانک کر دیکھتا ہوں‘ میں آج سے دس سال قبل یونان گیا‘ میں نے یونان میں پانچ دن کا سیاحتی ٹور لے لیا تھا‘ اس ٹور میں ڈیلفی کا قدیم گاؤں آتا تھا اور میٹروا کی قدیم چٹانوں پر بنے پندرہ سو سال پرانے چرچ بھی‘ فادر جوزف سے میری ملاقات میٹروا کے چرچ میں ہوئی‘ یہ درمیانی عمر کا ایک خوبصورت جوان پادری تھا‘ یہ ترکی النسل تھا‘ اس کے آباؤ اجداد استنبول کی فتح کے بعد یونان شفٹ ہوئے اور انھوں نے ترکوں کا سارا دور یونان کے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں گزار دیا‘ یہ اس نسل کا دسواں پادری تھا‘ فادر جوزف میں بے شمار خوبیاں تھیں مگر اس کی ایک خوبی نے مجھے حیران کر دیا‘ وہ اسلام کو مجھ سے زیادہ جانتا تھا۔
اس کا کہنا تھا وہ پچھلے بائیس برسوں سے ہر سال تین ماہ کسی نہ کسی اسلامی ملک میں گزارتا ہے‘ اس نے مصر سے عربی سیکھی اور دبئی میں قرآن مجید پڑھا‘ وہ حسین ہیکل سے لے کر علامہ اسد تک اور مولانا روم سے لے کر علامہ اقبال تک زیادہ تر مسلمان اسکالرز کی تحریریں پڑھ چکا تھا‘ گفتگو کے دوران اس کی ایک بات نے میری روح کو سرشار کر دیا‘ اس نے کہا ’’ آپ اگر دنیا میں اچھا انسان بننا چاہتے ہیں تو آپ کو نیز اکرمؐ کی سیرت پڑھنی چاہیے‘‘ اس کا کہنا تھا ’’ کائنات میں آج تک مسلمانوں کے نبیؐ سے زیادہ اچھا انسان نہیں گزرا‘‘ میں نے اس سے کہا ’’ آپ عیسائی ہو‘ آپ حضرت عیسیٰ ؑ کو دنیا کا سب سے اچھا انسان کیوں نہیں کہتے؟‘‘
اس نے بہت معقول جواب دیا‘ اس نے کہا ’’ ہمارے نبی نے دنیا میں کم وقت گزارا‘ وہ دنیا میں صرف 33 سال رہے اور یہ بھی گم نامی‘ مظلومیت اور پریشانی کا دور تھا چنانچہ وہ ہمیں صرف پریشانی‘ مظلومیت اور ابتلا کے بارے میں سمجھا سکے‘ انسان کا اپنے خاندان کے ساتھ کیا رویہ ہونا چاہیے‘ یہ اچھا خاوند‘ اچھا والد‘ اچھا سپہ سالار‘ اچھا حکمران‘ اچھا فاتح کیسے بن سکتا ہے؟ وہ اچھی ٹیم کیسے بنا سکتا ہے‘ یہ اچھا استاد کیسے بن سکتا ہے اور یہ لوگوں سے لوگوں کی صلاحیتوں کے مطابق کیسے کام لے سکتا ہے‘ حضرت عیسیٰ ؑ کی حیات ان معاملات مں خاموش ہے‘ جب کہ آپ کے نبیؐ نے ہر قسم کی زندگی گزاری اور آپؐ کی حیات ہر قسم کے انسان کی رہنمائی کرتی ہے‘‘ فادر جوزف کی دلیل میرے دل کو لگی۔
میں ایک رات کے لیے فادر جوزف کے پاس رک گیا‘ ہم شام کے وقت چرچ کے لان میں بیٹھ گئے‘ سورج کی سرخ ہوتی کرنیں میٹروا کی پہاڑیوں پر دستک دے رہی تھیں‘ چرچ کے چوبی فرش پر طالب علم پادری آہستہ آہستہ چل رہے تھے‘ ان کے قدموں کی چاپ پھولوں کی خوشبو میں رچ کر ماحول کو زیادہ خوبصورت‘ زیادہ رومان پرور بنا رہی تھی‘ میں نے فادر جوزف سے پوچھا ’’آپ کو اسلامی تاریخ کا کون سا دور زیادہ حیران کرتا ہے‘‘ اس نے میری طرف دیکھا‘ اس کی نظریں چند لمحوں تک میرے چہرے پر گڑی رہیں‘ وہ چند لمحے اس عالم میں رہ کر ٹھنڈے لہجے میں بولا ’’میں سمجھتا ہوں مسلمانوں کے نبیؐ اور چار ابتدائی خلفاء کا دور اسلام کا سنہری ترین عہد تھا‘ مسلمان خواہ جتنی ترقی کر لیں‘ ان کی ترقی خلفاء راشدین کے برابر نہیں ہو سکتی مگر خلفاء راشدین کے ساتھ مسلمانوں کا رویہ مجھے ہمیشہ پریشان کر دیتا ہے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں مسلمان دنیا میں آج جو مار کھا رہے ہیں‘ یہ اس رویئے کا تاوان ہے‘‘۔
میں نے اس سے پوچھا ’’مثلاً‘‘ وہ آگے کی طرف جھکا‘ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہا ’’مثلاً مسلمانوں کو رسولؐ کے وصال کے بعد خلافت کے لیے نہیں لڑنا چاہیے تھا‘ مثلاً حضرت ابوبکرؓ کے دور میں ان مسلمانوں کو زکوٰۃ سے منکر نہیں ہونا چاہیے تھا جنھوں نے رسولؐ کی زندگی میں اسلام قبول کیا تھا‘ مثلاً حضرت عمر فاروقؓ کے صاحبزادے کو شراب نہیں پینی چاہیے تھی‘ مثلاً حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صاحبزادے کو حضرت عثمانؓ کی داڑھی مبارک نہیں پکڑنی چاہیے تھی‘ حضرت عثمان غنی ؓ کو مدینہ منورہ میں قرآن مجید پڑھتے ہوئے شہید نہیں ہونا چاہیے تھا‘ آپؓ کے جنازے میں صرف 18 لوگوں کو شامل تو نہیں ہونا چاہیے تھا‘ حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے درمیان جنگ نہیں ہونی چاہیے تھی‘ حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ کے درمیان بھی لڑائی نہیں ہونی چاہیے تھی اور ان لڑائیوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمان شہید نہیں ہونے چاہیے تھے اور قرآن مجید کے اوراق کو نیزوں پر نہیں پرویا جانا چاہیے تھا اور رسولؐ کے نواسے اور ان کے خاندان کو مسلمانوں کے ہاتھوں شہید نہیں ہونا چاہیے تھا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘۔
میرا چہرہ غصے اور شرم سے سرخ ہو گیا‘ وہ چند لمحوں تک مجھے دیکھتا رہا اور پھر آہستہ آواز میں بولا ’’میں اسلام کے بارے میں لکھی ہوئی ہر کتاب میں پڑھتا ہوں مسلمان اگر دین کے راستے پر آ جائیں تو ان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور ہر بار اس فقرے کے بعد اسلام کی ابتدائی تاریخ میرے ذہن میں آ جاتی ہے اور میں سوچتا ہوں مسلمانوں کی زندگی میں خلفاء راشدین سے بہتر دور نہیں آ سکتا‘ وہ لوگ ایمان کی جس پخیگا اور جس اعلیٰ معیار پر کھڑے تھے آپ میں سے کوئی شخص اس تک نہیں پہنچ سکتا مگر ان کے ادوار میں بھی مکمل امن نہیں تھا‘‘۔
میری برداشت جواب دے گئی‘ میں نے غصے سے تپتپاتی آواز میں پوچھا ’’فادر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں‘‘ وہ بولا ’’میں آپ کو قدرت کا ایک اصول سمجھانا چاہتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ نے ان واقعات کے ذریعے مسلمانوں کو ایک پیغام دیا‘ آپ کو قدرت نے پیغام دیا‘ معاشروں اور قوموں کے لیے صرف مذہب کافی نہیں ہوتا‘ قوموں کو سسٹم بھی درکار ہوتا ہے‘ اگر سسٹم نہ ہو تو جاہل لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب کی طرف لے جاتے ہیں اور غلط فہمیاں حضرت عثمان ؓ جیسی بڑی ہستی کو قرآن مجید کی تلاوت کے دوران شہید کر دیتی ہیں چنانچہ آپ اگر دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو دین کو دنیا کے ساتھ شامل کر لو‘ مسجد بھی آباد کرو اور دنیا کے لیے اچھے نظام بھی بناؤ ورنہ دوسری صورت میں آپ کا حال آپ کے ماضی سے مختلف نہیں ہو گا‘‘۔
اقتدار کے بعد
جاوید چوہدری جمعـء 26 اپريل 2013
جنرل یحییٰ خان کا رد عمل بھی یہی تھا‘ 1971ء میں پاکستان ٹوٹ گیا‘ جنرل یحییٰ خان نے فوجی بغاوت کے خوف سے اقتدار چھوڑ دیا‘ ذوالفقار علی بھٹو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے‘ صدر کا عہدہ سنبھالا‘ جنرل یحییٰ خان کو گرفتار کیا اور اس کا ٹرائل شروع ہو گیا‘ جنرل یحییٰ خان ٹریبونل کے سامنے پیش ہوتا تھا مگر وہ اس کے باوجود خود کو صدر اور آرمی چیف سمجھتا تھا‘ اس کا دماغ یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا ‘ پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے‘ پاکستان جنگ ہار چکا ہے اور اس شکست اور تقسیم کا وہ ذمے دار ہے.
جنرل یحییٰ خان کو کھاریاں کے نزدیک بنی بنگلہ ریسٹ ہاؤس میں قید رکھا گیا تھا‘ وہ ہیلی کاپٹر پر راولپنڈی لایا جاتا‘ ٹریبونل میں پیش کیا جاتا اور اسے ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس بنی ریسٹ ہاؤس پہنچا دیا جاتا‘ سرما کی ایک صبح اسے راولپنڈی لایا گیا‘ جنرل کی واپسی کا وقت ہوا تو وہ ٹریبونل کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اور اس نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس جانے سے انکار کر دیا‘ اس کا کہنا تھا ’’ میں کار کے ذریعے بنی بنگلہ جاؤں گا‘‘ چوہدری سردار محمد (مرحوم) سیکیورٹی انچارج تھے‘بعد ازاں یہ ترقی کرکے پنجاب کے آئی جی بنے‘ چوہدری سردار نے جنرل یحییٰ خان کو سمجھایا ’’ سر لوگ آپ پر حملہ کر دیں گے‘ آپ کی جان کو خطرہ ہے‘‘ جنرل یحییٰ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور غصے سے کہا ’’ میں نے کیا کیا؟ لوگ مجھ پر کیوں حملہ کریں گے‘‘ اس کے بعد وہ پنجابی میں بولا ’’ میں کسی دی کھوتی نوں ہاتھ لایا اے‘‘ (میں نے کسی کی گدھی کو چھیڑا ہے) یہ جواب ایک مطلق العنان آمر ہی دے سکتا تھا.
جنرل یحییٰ خان کی مہربانی سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا‘ پاکستان جنگ ہار چکا تھا‘ ہمارے نوے ہزار فوجی بھارت کی قید میں تھے مگر فوج کا سابق کمانڈر انچیف اور سابق صدر پوچھ رہا تھا ’’ لوگ میرے خلاف کیوں ہیں؟ میں نے کسی کی گدھی کو چھیڑا ہے؟‘‘ پولیس اہلکاروں کا دل چاہا وہ جنرل کو گریبان سے پکڑ لیں مگر ذمے داری نے ہاتھ روک لیے‘ چوہدری سردار نے جنرل یحییٰ خان کو کار میں بٹھایا اور سیکیورٹی جیپس کے ساتھ کھاریاں کے لیے نکل کھڑے ہوئے‘ سہالہ کے مقام پر ریلوے کا پھاٹک بند تھا‘ پولیس کی گاڑیاں پھاٹک پر رک گئیں‘ پھاٹک کے ساتھ چائے کا کھوکھا تھا‘ کھوکھے میں بیٹھے کسی شخص نے جنرل یحییٰ خان کو پہچان لیا‘ اس نے آواز لگائی ’’ وہ دیکھو گاڑی میں یحییٰ خان بیٹھا ہے‘‘ یہ آواز لگانے کی دیر تھی‘ لوگوں نے پتھر اٹھائے اور یحییٰ خان کی گاڑی کی طرف دوڑ پڑے‘ جنرل لوگوں کی وحشت دیکھ کر ڈر گیا اور مدد طلب نظروں سے پولیس کی طرف دیکھنے لگا‘ پولیس خاموش بیٹھی رہی‘ لوگوں نے گاڑی پر پتھر مارنے شروع کر دیے‘ لوگوں کی وحشت چیخ کر کہہ رہی تھی وہ یحییٰ خان کو گاڑی سے نکالیں گے اور اس کی تکہ بوٹی کر دیں گے‘ یحییٰ خان دبک کر بیٹھا تھا‘ اس کی قسمت اچھی تھی ریلوے پھاٹک کھل گیا اور پولیس نے اسے ہجوم سے نکال لیا‘ یحییٰ خان نے اس کے بعد کبھی گاڑی کے ذریعے ٹریبونل میں جانے کی خواہش نہیں کی۔
دنیا کے ہر آمر کا یہی رد عمل ہوتا ہے‘ اس کا خیال ہوتا ہے ‘ عوام اس سے محبت کرتے ہیں اور یہ جب بھی دروازہ کھولے گا عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اس کی دہلیز پر کھڑا ہو گا مگر حقیقت بالکل برعکس ہوتی ہے‘ آمر کا تکبر‘ آمر کا غرور‘ آمر کی پالیسیاں اور آمر کی غلطاھں اسے عوام میں فرعون بنا چکی ہوتی ہیں اور عوام اس کی پرچھائیوں سے بھی نفرت کررہے ہوتے ہیں اور یہ اپنے زعم میں جب عوام کے سامنے آتا ہے تو عوام بھوکے شیروں کی طرح اس پر پل پڑتے ہیں‘ آپ روم کے نیرو سے لے کر اٹلی کے موسہلینی تک اور چلی کے جنرل پنوشے سے لے کر لیبیا کے کرنل قذافی تک تمام آمروں کا انجام دیکھ لیجیے‘ آپ کو یہ تمام آمر یحییٰ خان اور پرویز مشرف جیسی نفسیاتی کیفیات کا شکار ملیں گے.
ہمارے جنرل پرویز مشرف آمروں کے اس دردناک انجام کا تازہ ترین باب ہیں‘ یہ 24 مارچ 2013ء کو یہ سوچ کر پاکستان آئے ‘ انھوں نے پاکستان کو دس برسوں میں زمین سے آسمان پر پہنچا دیا تھااور لوگ آج تک ان کی کارکردگی کو یاد کرتے ہیں‘ یہ ان کا راستہ دیکھ رہے ہیں‘ ان کا خیال تھا ’’میں جوں ہی پاکستان جاؤں گا لوگ گھروں سے نکل کر میرا استقبال کریں گے‘‘.
جنرل مشرف کی اس خوش فہمی میں فیس بک‘ ٹویٹر اور ان کی پبلک ریلیشنز کمپنیاں ہوا بھرتی رہیں‘ یو اے ای اور سعودی عرب کے دوستوں نے انھیں روکنے کی کوشش کی‘ پاک فوج کے چند حاضر اور ریٹائر افسروں نے بھی انھیں باز رہنے کا مشورہ دیا مگر جنرل مشرف نے یہ مشورے رد کر دیے اور یہ پاکستان پہنچ گئے‘ پاکستان پہنچتے ہی ان کے ساتھ وہ ہوا جو جنرل یحییٰ خان کے ساتھ ہوا تھا.
ایم کیو ایم نے سب سے پہلے ان کا ساتھ چھوڑا‘ عوام نے بھی انھیں مسترد کر دیا‘ کراچی جیسے لبرل شہر میں ان کی سیکیورٹی مسئلہ بن گئی‘ عدلیہ نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا اور یوں جنرل مشرف کے تمام مقدمے زندہ ہو گئے‘ جنرل مشرف یکم اپریل 2013ء کو اسلام آباد پہنچے تو ان کی زندگی مشکل ہو گئی‘ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منسوخ کر دی‘ جنرل مشرف کو اپنے فارم ہاؤس سے نکل کر گرفتاری دینا پڑ گئی‘ جنرل مشرف کو اسلام آباد پولیس لائین کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رات گزارنا پڑی‘ یہ بارہ بائی سولہ فٹ کا چھوٹا سا کمرہ تھا‘ یہ وہ کمرہ تھا جس میں رمشا مسیح کو توہین رسالت کے الزام کے بعد پولیس کی حفاظت میں رکھا گیا تھا‘ اسے آفیسر میس میں بٹھایا گیا تو اس نے چھ گھنٹے ایک صوفے پر گزار دیے‘ وہ پریشانی میں دائیں بائیں دیکھتا تھا اور اس کے بعد دوبارہ گہری سوچ میں ڈوب جاتا تھا.
عدالت نے اگلے دن اس پر رحم کھایا اور اس کے گھر کو سب جیل قرار دے دیا‘ جنرل مشرف اپنے فارم ہاؤس میں شفٹ ہو گیا مگر اس کی ذلت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا‘ جیل حکام نے اس کے تین کمروں کے گرد خاردار تاریں لگا دیں‘ جنرل مشرف اپنے گھر کے لان تک میں نہیں جا سکتا اور یہ چھوٹے سے ایریا سے قدم باہر نکالنے کے لیے جیل حکام اور عدالت کی اجازت کا پابند ہے‘ جنرل مشرف کی سیکیورٹی پر مامور لوگ سوئمنگ پول کے قریب بیٹھے رہتے ہیں جس کی وجہ سے گھر کی خواتین کمروں میں بند ہو کر رہ گئی ہیں۔
جنرل مشرف روز سیکیورٹی اہلکاروں اور جیل حکام سے درخواست کرتا ہے آپ مہربانی کر کے پول کا علاقہ خالی کر دیں مگر کوئی اس درخواست کا مثبت جواب نہیں دیتا‘ پولیس کے معمولی آفیسر جنرل مشرف سے ملنے آتے ہیں تو یہ سیلوٹ سے بچنے کے لیے ٹوپیاں گاڑیوں میں چھوڑ آتے ہیں‘ پولیس کے ایس پی لیول کے آفیسرز جنرل مشرف کے سویٹ تک اپنی گاڑی لے کر جاتے ہیں اور عین اس کے برآمدے کے سامنے اترتے ہیں۔
جنرل مشرف سے تحقیقات کے لیے جو ٹیم بنائی گئی اس کا سینئر ترین رکن تھانہ سیکریٹریٹ کا انسپکٹر ہے جب کہ ایس ایچ او اور اے ایس آئی اس ٹیم کے معزز ممبر ہیں‘ یہ تینوں ’’ اعلیٰ افسر‘‘ جنرل مشرف سے سوال کرتے ہیں اور جنرل مشرف بے چارگی سے ان کی طرف دیکھتا ہے‘ منگل 23اپریل کو جنرل پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو قتل کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہونا تھا‘ جنرل مشرف کپڑے جوتے پہن کر بیٹھ گیا لیکن کوئی ادارہ اسے عدالت تک پہنچانے کے لیے تیار نہیں تھا‘ سی پی او راولپنڈی نے ایف آئی اے کو جنرل مشرف کو عدالت تک پہنچانے کا ذمے دار ٹھہرا دیا‘ ایف آئی اے نے جواب دیا ’’ہمارے پاس مناسب بندوبست نہیں‘‘ اس کے بعد اسلام آباد پولیس کو حکم دیا گیا مگر اسلام آباد پولیس نے یہ کہہ کر معذرت کر لی راولپنڈی ہماری حدود میں نہیں آتا اور یوں جنرل پرویز مشرف دو گھنٹے اپنے برآمدے میں باٹھ رہا مگر کوئی ادارہ اسے عدالت تک پہنچانے کے لیے تیار نہ ہوا یہاں تک کہ ساڑھے آٹھ بجے ایلیٹ فورس کا ایک اے ایس آئی اس کے فارم ہاؤس پہنچا‘ اس نے جنرل مشرف کو ’’وصول‘‘ کیا اور رینجرز کے پہرے میں اسے راولپنڈی پہنچایاگیا۔
دو دن قبل اسلام آباد پولیس کا نوجوان اے ایس پی اس کے کمرے میں داخل ہوا‘ اس نے جنرل مشرف کو سیلوٹ کیا‘ جنرل مشرف کے لیے یہ سیلوٹ اس قدر غیر متوقع تھا کہ وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا‘ اس نے اے ایس پی سے ہاتھ ملایا اور اسے اپنے پاس بٹھا کر دیر تک گفتگو کرتا رہا‘ مجھے اس کی ڈیوٹی پر مامور جیل حکام نے بتایا‘ جنرل پرویز مشرف اندر سے ختم ہو چکا ہے‘ یہ دیر تک خلاؤں میں گھورتا رہتا ہے‘ اچانک اس کے خیالات ٹوٹتے ہیں‘ یہ گھبرا کر دائیں بائیں دیکھتا ہے اورکپکپانے لگتا ہے‘ یہ گھنٹوں کھڑکیوں اور دروازوں کی طرف دیکھتا رہتا ہے اور اس کے بعد دوبارہ خلاؤں میں کھو جاتا ہے‘ یہ خوف کے شدید گرداب میں پھنس گیا ہے‘ اسے اپنی موت دکھائی دے رہی ہے‘ یہ سمجھتا ہے اسے طالبان مار دیں گے‘ یہ طالبان کے خوف سے نکلتا ہے تو اسے عدالتوں کا خوف گھیر لیتا ہے اور یہ اس سے نکلتا ہے تو یہ پولیس اور جیل کے عملے کو وحشت سے دیکھنے لگتا ہے‘ یہ ٹیلی فون کے ذریعے دوستوں سے رابطہ کرنا چاہتا ہے مگر کوئی اس سے بات کرنے کے لےی تیار نہیں ہوتا‘ جنرل مشرف کی حالت میسولینی کے اس قول کی طرح ہو چکی ہے جس میں اس نے کہا تھا ‘ آمروں کو اقتدار کی کرسی پر مرنا چاہیے کیونکہ اقتدارچلا جائے تو پھر موت بھی آمروں کی لاش اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتی اور جنرل مشرف اس قول کی زندہ مثال بن چکا ہے۔
آسمان سے الجھتا ہوا اعتماد
جاوید چوہدری پير 22 اپريل 2013
ذوالفقار علی بھٹوآسمان سے الجھتے ہوئے اعتماد کا پہلا ہدف تھے‘ جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگایا‘ ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا‘ انھیںگرفتار کیا اورمری کے گورنر ہائوس میں قید کر دیا‘ ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار ختم ہو چکا تھا مگر بھٹو صاحب اس تبدیلی کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے‘ بھٹو صاحب اس وقت بلاشبہ دنیا کے مشہور لیڈر تھے‘ پاکستان میں لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھے‘ بھٹو صاحب مجمعے میں کھڑے ہو کر لوگوں سے کہتے تھے ’’ لڑو گے‘‘ لاکھوں لوگ ایک آواز میں چلاتے تھے ’’ہاں لڑیں گے‘‘ بھٹو صاحب کہتے تھے ’’ مرو گے‘‘ لاکھوں لوگ فلک شگاف آواز میں کہتے تھے ’’ہاں مریں گے‘‘ بھٹو صاحب جوش میں اپنا کوٹ اتار کر جلسہ گاہ میں پھینک دیتے تھے ‘ لوگ اس کوٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اس کے تعویز بناتے تھے اور اپنے بچوں کے گلوں میں ڈال دیتے تھے اور لوگ بھٹو کی جھلک دیکھنے کے لیے سارا سارا دن سڑکوں پربیٹھے رہتے تھے۔
وہ عالمی فورم بالخصوص اسلامی دنیا میں بھی بہت پاپولر تھے‘ سعودی عرب کا شاہی خاندان انھیں اپنی فیملی کا حصہ سمجھتا تھا‘ یہ کرنل قذافی کے جگری دوست تھے‘ انور سادات‘ سہارتو اور چین کے زعماء ذوالفقار علی بھٹو کو تیسری دنیا کا ہیرو کہتے تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو کی تصویریں ٹائم اور نیوز ویک کے کور پر چھپتی تھیں اور نیویارک ٹائمز‘ واشنگٹن پوسٹ اور ڈیلی ٹریبون ان کی خبریں شائع کرتے تھے‘ بھٹو صاحب سیکیورٹی کونسل میں بولتے تھے تو پوری دنیا سنتی تھی جب کہ ان کے مقابلے میں جنرل ضیاء الحق کمزور شخصیت کا ایک ایسا بے نام جرنیل تھا جو بھٹو صاحب سے ملاقات کے لیے ساری ساری رات ملتان میں صادق قریشی کے لان میں بیٹھا رہتا تھا لہٰذا بھٹو کا خیال تھا پاکستان کے وہ عوام جو ان کے نعروں کے جواب میں آسمان میں شگاف ڈال دیتے تھے اور ان کے وہ بیرونی دوست جو ان کے چہرے پر تیسری دنیا کا ابراہام لنکن دیکھتے تھے یہ انھیں زیادہ دیر تک قید میں نہیں رہنے دیں گے اور بھٹو کی یہ خام خیالی انھیں آنے والے دنوں میں تختہ دار تک لے گئی۔
بھٹو تبدیل ہوتے ہوئے وقت کی چاپ نہ سن سکا‘ وہ یہ نہ سمجھ سکا اقتدار‘ چارم اور مقبولیت کا ایک وقت ہوتا ہے اور یہ وقت جب ڈھل جاتا ہے تو انسان کا اپنا سایہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے‘ یہ اپنی ہی آگ میں جل کر بھسم ہو جاتا ہے‘ میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں ذوالفقار علی بھٹو کونواب محمد احمد خان قصوری کے قتل اور جنرل ضیاء الحق کی آمریت نے پھانسی نہیں دی‘ بھٹو کو اس کا تکبر‘ اس کی ضد اور اس کی خوش فہمی تختہ دار تک لے گئی‘ ذوالفقار علی بھٹو اگر تبدیل ہوتے ہوئے وقت کی چاپ سن لیتا‘ وہ سمجھ جاتا اقتدار اس کی مٹھی سے نکل کر جنرل ضیاء الحق کی جیب میں جا چکا ہے‘ سوویت یونین کی فوجیں افغانستان کی طرف بڑھ رہی ہیں‘ ایران میں انقلاب آ چکا ہے لہٰذا امریکا کو اب پاکستان میں عوامی لیڈر کی بجائے ایسا فوجی آمر چاہیے جو اس کی ہر خواہش پر اسلام کا سبز غلاف چڑھا دے اور ضیاء الحق اس وقت امریکا کے لیے موزوں ترین شخص ہے تو شاید بھٹو کا یہ انجام نہ ہوتا لیکن بھٹو جغرافیائی تبدیلی کو نہ بھانپ سکا۔
بھٹو عوام کے کمزور دلوں کا اندازہ بھی نہ لگا سکا‘ وہ یہ نہ جان سکا عوام ہمیشہ چڑھتے سورجوں کے پچاری ہوتے ہیں‘ یہ بھٹو کو دیکھ کر ’’ بھٹو دے نعرے وجن گے‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں اور یہ جب جنرل ضیاء الحق کو دیکھتے ہیں تو انھیں اس میں صلاح الدین ایوبی نظر آنے لگتا ہے اور یوں بھٹو بے سمجھی میں مارا گیا‘ وہ آمر سے ٹکراتا رہا‘ وہ آمر کی بنائی ہوئی عدالت کے ججوں کو مؤرخ کے قلم سے ڈراتا رہا اور وہ صلح کی ہر پیش کش ٹھکراتا رہا‘ جیل میں بیٹھ کر کروڑوں لوگوں کے نعروں اور کرنل قذافی کے کمانڈوز کا انتظار کرتا رہا مگر کرنل قذافی کے طیارے آئے اور نہ ہی بھٹو کو کال کوٹھڑی سے نکالنے کے لیے عوام کے لشکر راولپنڈی جیل پہنچے اور یوں بھٹو انتظار کرتا کرتا پھانسی پر جھول گیا‘ بھٹو کا آسمان کو چھوتا اعتماد اس کا قاتل ثابت ہوا۔
میاں نواز شریف اس خوش فہمی کا دوسرا شکار تھا‘ میاں صاحب نے 1996ء کے الیکشنوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کی‘ پاکستان کی تاریخ میں کسی لیڈر کو پہلی بار اتنی اکثریت ملی ‘ یہ اکثریت میاں صاحب کو بھٹو جیسی نفسیاتی کیفیت میں لے گیی‘ یہ سمجھنے لگے ملک کے دوتہائی عوام ان کے ساتھ ہیں‘ دنیا بھی تبدیل ہو چکی ہے ‘ یہ دنیا اب کسی آمر اور مارشل لاء کو قبول نہیں کرے گی چنانچہ یہ اعتماد کی اس انتہا کو چھونے لگے جہاں سے انسانوں کی واپسی ممکن نہیں ہوتی‘ یہ اپنے اعتماد کی تلوار سے سومنات کے بت توڑنے لگے‘ انھوں نے1997ء میں سب سے پہلے پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل منصور الحق کو فارغ کیا‘ ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنائے اور ان کا احتساب شروع کر دیا‘ یہ اس کے بعد آرمی چیف کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک معمولی بیان کو جواز بنا کر جنرل جہانگیر کرامت سے استعیٰے لے لیا اور اس کے بعد انھوں نے نصف درجن سینئر جرنیلوں کو مسترد کر کے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا‘ یہ جو کچھ کرنا چاہتے تھے‘ وہ کچھ ہو رہا تھا اور ’’ یہ کچھ‘‘ ان کا حوصلہ اور اعتماد بڑھا رہا تھا یہاں تک کہ 12 اکتوبر 1999ء آ گیا ‘ میاں نواز شریف بھٹو بن گئے‘ میاں نواز شریف پورے خاندان سمیت قید ہوئے اور ان پر دہشت گردی کا مقدمہ بنا دیا گیا‘ اس وقت میاں نواز شریف کے والد میاں شریف حیات تھے‘ یہ انتہائی سمجھ دار اور زیرک انسان تھے‘ یہ جانتے تھے ہم نے اگر جنرل مشرف سے سمجھوتہ نہ کیا تو ہمارا انجام بھٹو سے مختلف نہیں ہو گا لہٰذا جوں ہی امریکا اور سعودی عرب کی طرف سے جلاوطنی کی پیش کش ہوئی‘ میاں صاحبان نے فوراً ہاں کر دی‘ یہ خاندان سمیت سعودی عرب منتقل ہو گئے اور یوں بھٹو کے انجام سے بچ گئے ۔
بے نظیر بھٹو آسمان کو چھوتے اعتماد کی تیسری ہدف تھیں‘ بے نظیر 2007ء میں این آر او کی وجہ سے بدنام ہو چکی تھی‘ ملک میں طالبان طاقت پکڑ چکے تھے‘ ان کی طاقت سے جنرل پرویز مشرف جیسا شخص تک محفوظ نہیں تھا‘ طالبان بے نظیر بھٹو کو سیدھی سادی دھمکی دے چکے تھے مگر بے نظیر بھٹو کا خیال تھا عوام ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے‘ ان کے بین الاقوامی ضامن بھی ان کی حفاظت کریں گے اور پاکستان کی وہ فوج بھی ان کا ساتھ دے گی جس کو اب لبرل ڈیموکریٹ لیڈر کا چہرہ چاہیے‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کو دوستوں نے سمجھایا ’’ پاکستان آپ کے لیے محفوظ جگہ نہیں‘‘ مگر بے نظیر بھٹو نہ مانیں‘ وہ ہر صورت عدلیہ بحالی کی عوامی مہم کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں‘ وہ18 اکتوبر2007 ء کو کراچی آئیں‘ ان پر خود کش حملہ ہوا‘ اس حملے میں 140 لوگ مارے گئے‘ محترمہ کے دوستوں نے انھیں ایک بار پھر سمجھایا لیکن ان کا اعتماد ان کے پائوں کی زنجیر بن گیا چنانچہ 27 دسمبر 2007ء کی وہ شام آ گئی جب محترمہ راولپنڈی میں شہید ہو گئیں‘ ہماری حکومت اور پیپلز پارٹی سمجھتی رہی‘ محترمہ کو طالبان‘ بیت اللہ محسود یا دوسری ملکی اور غیر ملکی طاقتوں نے مارا لیکن میں سمجھتا ہوں محترمہ اپنے اعتماد کے ہاتھوں ماری گئیں‘ ان کا قاتل ان کا اعتماد تھا اور پیچھے رہ گئے جنرل ریٹائر پرویز مشرف‘ یہ اس اعتماد‘ اس ضد بلکہ اس ہٹ دھرمی کا چوتھا ہدف ہیں۔
جنرل پرویز مشرف بے اختیار اور بے توقیر ہو کر 19 اپریل 2009ء کو پاکستان سے رخصت ہو گئے‘ ان کے جانے کے بعد ان کی شاہی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق نے ان کا نام تک لینا چھوڑ دیا‘ جنرل مشرف کو سید پرویز مشرف کہنے والے بھی انھیں آمر کا خطاب دینے لگے اور جنرل مشرف نے 14اگست 2010ء کو اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بنائی‘ لوگ اس جماعت میں شامل ہوئے‘ اپنے اپنے حصے کا دانا کھایا اور غائب ہو گئے یہاں تک کہ تین خواتنپ‘ ایک احمد رضا قصوری اور ایک ریٹائر کرنل جنرل مشرف کا کل اثاثہ رہ گئے مگر اس کے باوجود جنرل مشرف کے اعتماد میں دراڑ نہ آئی‘ ان کی پتنگ اعتماد اور خوش فہمی کے آسمان پر اوپر سے اوپر اڑتی رہی‘ اس دوران جنرل مشرف کے انتہائی قریبی مہربانوں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی مگر یہ پاکستان آنے پر مصر رہے۔
ان کا خیال تھا کروڑوں پاکستانی ان کے لیے بے تاب ہیں اور یہ جب کراچی ائیر پورٹ پر اتریں گے تو لوگ چارلس ڈیگال کی طرح انھیں ہتھیلیوں پر اٹھا لیں گے‘ جنرل مشرف اس غلط فہمی کا شکار بھی تھے کہ یہ سابق آرمی چیف ہیں‘ یہ امریکا‘ سعودی عرب اور یو اے ای کے وفادار اور دوست بھی ہیں چنانچہ پاک فوج‘ ان کے غیر ملکی دوست اور ان کے راستے میں نظریں بچھا کر بیٹھے پاکستانی عوام انھیں جیل نہیں جانے دیں گے مگر ان کا اعتماد بھی کشتی میں لوہا ثابت ہوا اور یہ ایک ہی ماہ میں دلدل میں دھنس گئے‘ یہ اب اپنے ہی گھر میں قیدی بن کر بیٹھے ہیں اور ان کے عالمی دوست ان کی کال ریسیو نہیں کر رہے جب کہ ان کے احتساب سے فوج کا اپنا سیاسی امیج بہتر ہورہا ہے‘ جنرل پرویز مشرف کو کسی بھی وقت آپشن دے دیا جائے گا‘ یہ نواز شریف بن جائیں یا پھر بھٹو بننے کے لیے تیار ہو جائیں‘ یہ بیمار ہو جائیں‘ عدالت انھیں علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دے اور یہ شاہی طیارے پر پاکستان سے نکل جائیں یا پھر یہ بھٹو کی طرح تختہ دار کی تیاری کر لیں‘ فیصلہ اب جنرل مشرف نے کرنا ہے‘ یہ نواز شریف ہیں یا پھر بھٹو کیونکہ ان کا آسمان کو چھوتا اعتماد انھیں اس موڑ پر لے آیا ہے جہاں ہارے ہوئے لیڈروں اور سابق آمروں کے پاس صرف ایک لائف لائین بچتی ہے‘ موت یا زندگی‘ بھٹو یا نواز شریف۔
چوروں کے لیے کوئی تالا نہیں بنا
جاوید چوہدری جمعرات 18 اپريل 2013
کوئک سیٹ امریکا میں چھوٹے تالے بنانے والی ایک کمپنی ہے‘ یہ کمپنی بریف کیس‘ ہینڈ بیگ‘ لیپ ٹاپ کیس‘ چھوٹے سوٹ کیسز اور پرسوں کے لیے تالے بناتی ہے‘ یہ کمپنی 1946ء سے کام کر رہی ہے‘ اس کمپنی کی دوسری نسل 2009ء میں بزنس میں آئی‘ ایڈوولف شوپ کے بیٹے روبرٹ شوپ نے 2009ء میں کمپنی کا انتظام سنبھالا اور یہ بڑے اور مضبوط تالے بنانے کا منصوبہ بنانے لگا‘ روبرٹ کے والد کو جب اس منصوبے کی بھنک پڑی تو اس نے بیٹے کو بلوایا اور اسے ایک دلچسپ نصیحت کی۔
والد نے کہا ’’ بیٹا میرے پاس بھی بڑے اور مضبوط تالے بنانے کا آپشن موجود تھا‘ میں 1946ء میں بڑے تالوں کی فیکٹری لگا سکتا تھا‘ میں نے فیزیبلٹی بنوائی تو مجھے اس کام میں کوئی بزنس چارم نظر نہیں آیا‘‘ بیٹے نے حیران ہو کر والد کی طرف دیکھا اور کہا ’’ آپ کیا فرما رہے ہیں‘ دنیا کے ہر دروازے‘ ہر لاکر‘ ہر مکان‘ ہر گودام اور ہر فیکٹری کو تالا چاہیے‘ لوگ بیگ ایک رکھتے ہیں مگر ان کے گھروں اور دفتروں میں درجنوں ایسی جگہیں ہوتی ہیں جہاں انھیں تالے لگانا پڑتے ہیں مگر آپ فرما رہے ہیں ملک میں بڑے تالوں کی مارکیٹ ہی نہیں‘‘ باپ مسکرایا اور بولا ’’برخوردار تالے شریف لوگوں کے لیے ہوتے ہیں‘ چوروں کے لیے نہیں‘ چور دنیا کا بڑے سے بڑا تالا توڑ لیتے ہیں‘ میں نے چوروں کو چلتی ٹرین سے کرنسی اور سونے کی پوری بوگی چوری کرتے دیکھا۔
میں نے لوگوں کو بینکوں کے سیف ہائوسز کے چھ چھ بڑے تالے توڑتے دیکھا اور میں نے چوروں کو چند سیکنڈ میں ڈیجیٹل لاک بھی ڈس فنکشنل کرتے دیکھا چنانچہ میں سمجھتا ہوں دنیا کا کوئی تالہ چور کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا‘ یہ تالے صرف ہماری نفسیاتی ضرورت ہوتے ہیں‘ میں صرف ایسے تالے بناتا ہوں جو شریف لوگوں کی نفسیاتی ضرورت پوری کر دیں‘ جنھیں شریف لوگ لگائیں اور جن کو شریف لوگ توڑنے کی ہمت نہ کریں‘ یہ وجہ ہے ہمارا بنایا ہوا تالہ کبھی توڑا نہیں جاتا جب کہ دوسروں کے تالے روز ٹوٹتے ہیں اور ان کی مارکیٹ میں بدنامی بھی ہوتی ہے‘ آپ بھی شریف لوگوں کو فوکس کرو‘ آپ کا بزنس کبھی زوال پذیر نہیں ہو گا۔
یہ فارمولا‘ یہ بات صرف تالہ سازی کی صنعت تک محدود نہیں بلکہ تیسری دنیا کا ہر معاشرہ‘ ہر ملک دو قسم کے لوگوں میں تقسیم ہے‘ شریف اور طاقتور‘ ملک کا قانون ہو‘ آئین ہو یا روایات ہوں یا پھر باسٹھ اور تریسٹھ ہوں یہ صرف اور صرف شریف لوگوں کے لیے بنائی جاتی ہیں اور ان پر پوری کی پوری نافذ ہو جاتی ہیں جب کہ طاقتوروں کے لیے کوئی قانون ہوتا ہے‘ کوئی آئین اور نہ ہی باسٹھ تریسٹھ‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ انٹرنیٹ پر جا کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے کل کے مناظر دیکھ لیجیے‘ کل جنرل پرویز مشرف ججز نظر بندی کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے‘ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت میں توسیع سے انکار کر دیا۔
قانون کے مطابق انھیں ہائی کورٹ کے اندر سے گرفتار ہو نا چاہیے تھا مگر جنرل پرویز مشرف عدالت سے باہر نکلے‘ اپنی گاڑی میں بیٹھے اور سرکاری پروٹوکول اور سیکیورٹی میں اپنے گھر چلے گئے‘ آپ جنرل پرویز مشرف کو سیکیورٹی دینے والے ادارے دیکھیں‘ یہ سرکاری ادارے ہیں‘ ان کے گارڈز اور کمانڈوز بھی سرکاری ہیں‘ ان کے ساتھ پولیس کا دستہ بھی تھا‘ آپ اگر قانون اور قاعدہ دیکھیں تو ہائی کورٹ کے فیصلے کے فوراً بعد کمانڈوز اور گارڈز ہی کو پرویز مشرف کو گرفتار کر لینا چاہیے تھا‘ یہ انھیں پکڑتے اور عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے مگر ہوا اس کے برعکس‘ جنرل صاحب کو سرکاری ملازمین سرکاری سیکیورٹی میں عدالت میں لے کر آئے اور عدالتی فیصلے کے بعد سرکاری پروٹوکول کے ساتھ واپس لے گئے اورسرکاری اداروں کی یہ حرکت ثابت کرتی ہے پاکستان میں دو قسم کے قانون ہیں‘ شریف شخص کے لیے الگ قانون ہے جب کہ طاقتور کے لیے علیحدہ قانون‘ شریف شہری کا قانون کہتاہے آپ نے اگر کسی تنور سے روٹی چرائی ہے یا آپ سائیکل چور ہیں تو آپ پر پاکستان کی تمام تعزیرات کا پورا اطلاق ہو جائے گا اور آپ اگر سابق آرمی چیف ہیں اور آپ نے خواہ پورے ملک کا آئین یا قانون توڑ دیا۔
آپ نے پورے ملک کو ایسی جنگ میں جھونک دیا جس کے نتیجے میں ملک کے 50 ہزار لوگ شہید ہو گئے‘ آپ نے خواہ سپریم جوڈیشری کو معطل کر دیا‘ ججز کو گھروں میں قید کر دیا اور آپ نے ایمرجنسی لگا کر خواہ پورا آئین معطل کر دیا اور خواہ آپ کو سپریم کورٹ نے غاصب ڈکلیئر کر دیا ہو‘ آپ عدالتی فیصلے کے باوجود سرکاری سیلوٹوں اور سرکاری رائفلوں کے ساتھ عدالت سے نکل جائیں گے اور کوئی ادارہ آپ کا راستہ نہیں روکے گا۔
ہم آج کے پاکستان کو نیا پاکستان کہتے ہیں‘ یہ درست ہے سپریم کورٹ ماضی سے دس ہزار گنا زیادہ ایکٹو ہے‘ آزاد میڈیا نے کوئی گریبان سلامت نہیں رہنے دیا اور سوشل میڈیا ہر شخص‘ ہر ادارے کا گند عام کر رہا ہے مگر جہاں تک آمروں اور غاصبوں کا معاملہ ہے ہم آج بھی 1960ء‘ 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم نے کل بھی یحییٰ خان کو سلامی دے کر اور پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا تھا‘ جنرل ضیاء الحق کو شہید پاکستان ڈکلیئر کیا تھا‘ ہم نے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کے خلاف مقدمہ قائم نہیں کیا اور ہم آج بھی جنرل پرویز مشرف کو سرکاری سیکیورٹی میں عدالت سے فرار کرا دیتے ہیں‘ ہم آج بھی غاصبوں اور آمروں کے معاملے میں پرانے پاکستان میں زندہ ہیں اور ہر آنے والے والا دن ہمیں یہ پیغام دے جاتا ہے۔
ہم شاید پاکستان کے اس سیاہ پہلو کو کبھی روشن نہ بنا سکیں اور یہ معاملہ صرف فوجی ڈکٹیٹروں اور آمروں تک محدود نہیں بلکہ اس ملک کی پوری اشرافیہ اس دائرے میں آتی ہے‘ آپ غلام ملک کے غلام ریٹرننگ آفیسرز کو دیکھ لیجیے‘ یہ دعائے قنوت نہ سنانے‘ نماز جنازہ نہ آنے‘ بیویوں کی تعداد معلوم نہ ہونے اور چھ کلمے نہ سنانے پر امیدواروں کو ڈس کوالی فائی کرتے رہے مگر انھوں نے قرضے معاف کرانے والے کسی امیدوار کا راستہ نہیں روکا‘ انھوں نے حج‘ ایفی ڈرین اور این آئی سی ایل میں محبوس کسی ملزم کو الیکشن لڑنے سے نہیں روکا‘ ہماری سابق حکومتوں کی بیڈ گورننس‘ کرپشن‘ بے ایمانی اور نااہلی نے پورا ملک برباد کر دیا‘ ہمارے کرپٹ وزراء کی مہربانی سے آج اسٹیل مل‘ پی آئی اے‘ ریلوے‘ لاء اینڈ آرڈر اور انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے‘ ہمارے ملک کی حالت یہ ہے امیدوار ووٹ مانگنے کے لیے حلقے میں آتے ہیں تو خودکش حملوں میں مارے جاتے ہیں۔
ثناء اللہ زہری جیسا مضبوط سردار حملے میں اپنا بھائی‘ بیٹا اور بھتیجا گنوا بیٹھا‘ بلور خاندان کے ساتھ کیا نہیں ہوا‘ یہ خیبر پختونخواہ کا معزز ترین سیاسی خاندان ہے لنکا یہ خاندان بشیر بلور جیسا شخص کھو بیٹھا‘ 16 اپریل کو حاجی غلام احمد بلور جیسے نفیس اور ہمدرد شخص پر حملہ ہوا‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سہم کر بم پروف تہہ خانوں میں چھپی ہے جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت جانتی ہے یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد دہشت گردوں کا اگلا ٹارگٹ ہے مگر ریٹرننگ آفیسروں نے ملک کو اس حد تک پہنچانے والے کسی سیاستدان‘ کسی لیڈر کو الیکشن سے نہیں روکا‘ یہ پورا ملک برباد کرنے کے باوجود صادق اور امین ہیں مگر دعائے قنوت نہ سنانے والے‘ نماز جنازہ کے بارے میں پوری معلومات نہ رکھنے والے اور دوسری بیوی کے حقوق نہ بتانے والے الیکشن کے لیے نااہل ہو چکے ہیں‘ ہمارا الیکشن کمیشن بکریوں کے دانت گنتا رہ گیا جب کہ ہاتھی پوری فصل اجاڑ کر جنگل کی طرف نکل گئے۔
آپ سسٹم کا کمال دیکھئے ملک کی ایک عدالت فیصل صالح حیات‘ عابد امام‘ ایاز امیر اور جمشید دستی کے کاغذات مسترد کر دیتی ہے جب کہ دوسری عدالت ان تمام لوگوں کو بے گناہ‘ معصوم اور صادق و امین قرار دے دیتی ہے‘ آپ شیخ وقاص اکرم کی مثال بھی لے لیجیے‘ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ان کی ڈگری کو جعلی قرار دے دیا‘ ریٹرننگ آفیسر نے اس بنا پر ان کے کاغذات مسترد کر دیے مگر دو دن قبل الیکشن ٹریبونل نے ان کو دوبارہ صادق و امین اور معصوم قرار دے دیا اور یوں انھیں الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی‘ ہمارے ملک میں سیاسی اشرافیہ آنکھ ایک پارٹی میں کھولتی ہے‘ اقتدار کے دوران دوسری پارٹی میں جمپ لگاتی ہے۔
اپوزیشن تیسری پارٹی کے ساتھ گزارتی ہے اور الیکشن کے قریب پہنچ کر پہلی‘ دوسری یا تیسری پارٹی میں چھلانگ لگا دیتی ہے مگر یہ اس کے باوجود صادق اور امین بھی رہتی ہے اور ملک کا کوئی ادارہ‘ کوئی قانون ان کی صداقت اور امانت کا راستہ نہیں روک سکتا‘ یہ لوگ خواہ جنرل ہوں‘ سیاستدان ہوں یا پھر سیاستدانوں کے رشتے دار بیورو کریٹس‘ یہ وہ بڑے چور ہیں جن کے لیے آج تک قانون کا کوئی تالہ ایجاد نہیں ہوا‘ یہ پورے کا پورا آئین توڑنے کے بعد بھی سرکاری مہمان ہوتے ہیں یا پھر سرکار کی مہربانی سے سعودی عرب‘ لندن اور نیویارک کے مہمان اور اگر بدقسمتی انھیں ملک میں لے آئے تو یہ عدالتی احکامات کے باوجودہائوس اریسٹ میں چلے جاتے ہیں جہاں انھیں وہ تمام سہولتیں حاصل رہتی ہیں عوام جن کے سائے تک کے لیے ترستے رہتے ہیں‘ اس ملک میں انصاف بڑوں کے لیے ہے اور قانون چھوٹوں کے لیے اور ہمارا یہ رویہ ہمںک قبر تک لے آیا۔
پروٹو کول
جاوید چوہدری پير 15 اپريل 2013
ہم بل کلنٹن سے اسٹارٹ کرتے ہیں‘ بل کلنٹن کا صدارتی دور انتہائی ہنگامہ خیز تھا‘ بل کلنٹن نے 20 جنوری 1993 کو صدارتی عہدہ سنبھالا، بجٹ خسارہ کم کیا‘26 فروری 1993 کو ورلڈ ٹرید سینٹر میں امریکی تاریخ کا ہولناک ترین بم دھماکا ہوا جس کے بعد القاعدہ سے امریکا کی لڑائی شروع ہو گئی‘روس اور چین کے ساتھ بہتر تعلقات کی کوششیں کیں‘ 1996 کے انتخابات میں دوبارہ فتح حاصل کی‘ 1998 میں وائیٹ ہاؤس کی ملازمہ ’’ مونیکا لیونسکی‘‘ سے غیر اخلاقی تعلقات کا الزام لگا‘کلنٹن نے1999 میں اپنے فعل پر قوم سے معافی مانگی‘ کلنٹن 20 جنوری 2001 کو وائٹ ہاؤس سے نکلا اور آج کلنٹن کو گئے بارہ سال ہو گئے لیکن آج تک اس کی کوئی خبر نہیں آئی‘ یہ میڈیا کے سامنے آیا‘ اس نے کوئی بیان جاری کیا‘ کسی کی مذمت کی اور نہ ہی کسی کی تعریف‘ یہ نیویارک کے علاقے ویسٹ چیسٹر میں ایک عام امریکی شہری جیسی زندگی گزار رہا ہے‘ کتابیں پڑھتا ہے‘ جاگنگ کرتا ہے‘ گالف کھیلتا ہے‘ یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتا ہے اورفلمیں دیکھتا ہے‘ اس کو کسی قسم کا سرکاری پروٹوکول بھی حاصل نہیں‘ یہ اپنی گاڑی خود چلاتا ہے‘ مارکیٹ سے اپنا سودا سلف خود خریدتا ہے اور اپنے صحن کی گھاس بھی خود کاٹتا ہے۔
آپ اس کے بعد جارج بش کی مثال لیجیے‘ یہ بھی آٹھ سال کی ہنگامہ خیز صدارتی مدت گزار کر 20 جنوری 2009 کو ریٹائر ہو ا‘ اس کے دور میں نائین الیون سے لے کر عراق پر حملے تک اور افغانستان پر چڑھائی سے لے کر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ تک دنیا میں کیا کیا نہیں ہوا؟ اور بش ان تمام عالمی واقعات کے دوران ساڑھے چھ ارب لوگوں کی اس دنیا کا مرکز نگاہ تھا‘ اس بش کی دوسری صدارتی مدت 2009 میں ختم ہوئی اور یہ بھی اس کے ساتھ ہی گوشہ گمنامی میں چلا گیا‘ آپ نے چار برسوں سے جارج بش کی کوئی خبر نہیں سنی ہو گی‘ یہ بھی پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر زندگی گزار رہا ہے‘ یہ اپنے فارم ہاؤس میں گھوڑے دوڑاتا ہے‘ گائے کا دودھ دھوتا ہے‘ کتابیں پڑھتا ہے اور اپنی فیملی کے ساتھ گپ لگاتا ہے اور صدر اوبامہ بھی یہی کرے گا‘ یہ اپنی دوسری مدت پوری کرنے کے بعد شکاگو واپس جائے گا اور باقی زندگی ایک عام امریکی شہری بن کر گزار دے گا۔
آپ برطانیہ کے وزراء اعظم کو بھی دیکھ لیجیے‘ برطانیہ کی آئرن لیڈی مارگریٹ تھیچر نومبر 1990 میں ریٹائر ہوئی ‘ یہ 8 اپریل 2013 کو انتقال کر گئی‘ آپ نے ان 23 برسوں میں اس کا کوئی بیان نہیں پڑھا ہو گا‘ یہ 23 برس پس منظر میں رہی‘ جان میجر مئی 1997 میں وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوا‘ یہ آج کل لارڈز میں کرکٹ میچ دیکھتا ہے اور دوستوں کے ساتھ گپ لگاتا ہے‘ آپ نے کبھی اس کا بیان بھی نہیں پڑھا‘ سنا ہو گا‘ ٹونی بلیئر نے جون 2007 میں وزارت عظمیٰ چھوڑی‘ یہ بھی پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر عام شہری کی طرح زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ لندن کی انڈرگراؤنڈٹرین میں سفر کرتے ہیں‘ اپنا بیگ خود اٹھاتے ہیں‘ ٹیکسیوں‘ بسوں اور ریلوں میں سفر کرتے ہیں اور قطار میں کھڑے ہو کر کافی خریدتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو ریٹائر ہونے کے باوجود ریٹائر نہیں ہوتے‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی‘ امریکا میں چند عہدے دار ریٹائر ہونے کے بعد باوجود سابق نہیں ہوتے‘مثلاً امریکا میں صدر عہدہ چھوڑنے کے باوجود صدر کہلاتا ہے‘ یہ سابق صدر نہیں ہوتا‘ امریکا میں ایڈمرل سب سے بڑا فوجی عہدہ ہوتا ہے‘ یہ بھی ریٹائر ہونے کے باوجودایڈمرل رہتا ہے‘ یہ ایڈمرل (ریٹائرڈ) نہیں کہلاتا ہے اور امریکا میں جج بھی ریٹائر نہیں ہوتے۔
امریکا میں کوئی شخص اگر ایک بار جج مقرر ہو جائے تو یہ مرنے تک جج رہتا ہے‘ برطانیہ میں بھی ریٹائر ہونے کے بعد وزیراعظم‘ وزیراعظم ہی رہتا ہے مگر امریکا اور برطانیہ میں حکومت کے سابق سربراہان ریٹائرمنٹ کے بعد عام شہریوں جیسی زندگی گزارتے ہیں‘ انھیں سرکاری گاڑیاں‘ سائرن‘ روٹس اور کمانڈوز کی سہولت حاصل نہیں ہوتی‘ یہ اگر ایک بار عام شہری ہو گئے تو پھر یہ عام شہری ہی رہیں گے جب کہ ان کے مقابلے میں ہماری حکمران کلاس مرنے کے بعد بھی سلطانی سے نہیں نکلتی‘ یہ مدت پوری ہونے کے باوجود خود کو وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ اور صدر سمجھتے ہیں اور انھیں سیکیورٹی اور پروٹوکول کی ضرورت بھی ہوتی ہے‘ یہ لوگ قوم کو سرکاری گاڑیاں‘ سرکاری پٹرول تک معاف نہیں کرتے‘ ملک میں پروٹوکول کی بیماری اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ کل چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم بھی چیخ اٹھے ’’ سابق حکمران خود کو آج تک حکمران سمجھ رہے ہیں‘ یہ آج بھی اختیارات اور مراعات انجوائے کر رہے ہیں‘ یہ جاتے جاتے خود کو تاحیات مراعات دے گئے اور ہم جب ان سے سرکاری گاڑیاں واپس مانگتے ہںا تو یہ برا مان جاتے ہیں‘‘ فخر الدین جی ابراہیم نے سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کی مثال بھی دی‘ الیکشن کمیشن نے ان سے گاڑیاں واپس مانگیں ‘ یہ مائنڈ کر گئے اور انھوں نے سرکاری اہلکاروں کو جواب دے دیا۔
یہ صورتحال اس قدر گھمبیر اور افسوس ناک ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کا سوموٹو نوٹس لے لیا‘ چیف جسٹس نے حکومت سے پوچھا ’’ آپ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ رحمن ملک‘ چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو سیکیورٹی کیوں دے رہے ہیں؟‘‘ آج حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرانا ہے‘ ہم لوگ یہ سوال جب قوم کے خادموں کے سامنے رکھتے ہیں تو یہ فوراً جواب دیتے ہیں ’’ ہم ہائی رسک میں ہیں‘ ہماری جانوں کو خطرہ ہے‘‘ ان لوگوں کا خدشہ سو فیصد درست ہے‘ یہ لوگ واقعی رسک میں ہیں‘ مگر سوال یہ ہے یہ لوگوں رسک میں کیوں ہیں؟ ان کی جانوں کو کیوں خطرہ ہے؟ آخر ان لوگوں نے کیا غلط کیا کہ ان کے اپنے لوگ ان کے خون کے پیاسے ہو گئے جب کہ دہشت گردی کی جنگ چھیڑنے والے بل کلنٹن‘ جارج بش اور بارک حسین اوبامہ کو امریکا میں کوئی خطرہ نہیں؟ ہمارے لیڈر اپنے جلسوں میں خطاب نہیں کر سکتے جب کہ امریکا کو خوفناک جنگ میں دھکیلنے والے بش اور اوبامہ اکیلے ڈرائیو کر رہے ہیں‘ یہ شاپنگ سینٹروں میں شاپنگ کر رہے ہیں اور انھیں ان امریکیوں تک سے کوئی خطرہ نہیں جن کے بچوں کو انھوں نے افغانستان میں مروا دیا‘ برطانیہ کے وزراء اعظم سیون سیون اور امریکا کی اشرافیہ نائین الیون اور اسامہ بن لادن کے قتل کے باوجود محفوظ بھی ہے اور مطمئن بھی‘ کیوں؟ آخر کیوں؟۔
ہم جب ان لوگوں سے یہ پوچھتے ہیں توہمارے لیڈر وزارت داخلہ کی وہ فہرستیں ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں جن کے مطابق ملک کی 30 شخصیات ہائی ویلیو ٹارگٹ ہیں اور یہ اس کے بعد بڑے دعوے سے کہتے ہیں اے این پی خیبر پختونخواہ میں الیکشن مہم نہیں چلا سکتی‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ میں محفوظ نہیں‘ میاں برادران لاہور شہر میں نہیں نکل سکتے اور یوسف رضا گیلانی کمانڈوز کے بغیر ملتان‘ راجہ پرویز اشرف سیکیورٹی کے بغیر گوجر خان اور نواب اسلم رئیسانی مسلح گارڈز کے بغرں کوئٹہ میں نہیں نکل سکتے چنانچہ ان لوگوں کو سرکاری سیکیورٹی اور پروٹوکول ملنا چاہیے‘ ہم لوگ اس دلیل کے جواب میں عرض کرتے ہیں آپ لوگوں کے ساتھ یہ سلوک ہونا چاہیے تھا‘ آپ کو ہائی ویلیو ٹارگٹ بننا چاہیے تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ اور عوام نے آپ کو اقتدار عطا کیا‘ آپ کو قوم کی حالت بدلنے کا موقع دیا مگر آپ قوم کو اس سطح تک لے آئے کہ آج آپ بھی مسلح کمانڈوز کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے‘ آپ ظالم لوگ ہیں اور ظالموں کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے تھا۔
آج اوبامہ‘ بش‘ کلنٹن‘ ٹونی بلیئر اور جان میجر اپنے ملکوں میں اس لیے آزاد اور بے خطر گھوم رہے ہیں کہ انھوں نے نائین الیون اور سیون سیون کے بعد اپنے ملک کو محفوظ ترین بنا دیا تھا‘ انھوں نے اپنے عوام کے گرد غیر مرئی دیوار کھڑی کر دی‘ اس دیوار اور اس سسٹم کی وجہ سے آج امریکا اور برطانیہ کے شہری محفوظ ہیں چنانچہ ان کے صدور اور وزراء اعلیٰ کو سابق ہونے کے بعد پروٹوکول اور سیکیورٹی کی ضرورت نہیں پڑتی جب کہ ہمارے حکمرانوں نے اس ملک کو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ اس میں سابق تو دور نگراں حکمران بھی سیکیورٹی کے بغیر کھڑکی سے باہر نہیں دیکھ سکتے‘ یہ ظالم‘ مفاد پرست اور کوتاہ فہم لوگ ہیں‘ یہ اس سلوک کو ’’ڈیزرو‘‘ کرتے ہیں‘ انھیں سیکیورٹی اور پروٹوکول نہیں ملنا چاہیے تا کہ یہ اپنے دہکائے ہوئے عذاب کی آگ تاپ سکیں‘ یہ اپنی غلطیوں‘ اپنی کوتاہیوں اور اپنے ظلم کی یہ سزا بھگت سکںا‘ سپریم کورٹ کو چاہیے یہ نہ صرف ان سے سیکیورٹی اور پروٹوکول واپس لے بلکہ انھیں ریلوے کے ذریعے سفر اور چھوٹی سڑکوں پر گاڑی چلانے کی سزا بھی دے تاکہ یہ لوگ اپنی پرفارمنس کا مزہ چکھ سکیں‘ یہ جان سکیں یہ کاغذ کی کشتیوں کو ٹائی ٹینک ثابت کرتے رہے ہیں‘ یہ اشتہاروں کے ذریعے آگ کو موم اور پانی کو شربت قرار دیتے رہے ہیں اور ان کے پاکستان اور عوام کے پاکستان میں اتنا ہی فرق ہے جتنا نیویارک اور پتوکی میں ہے۔یہ ظالم ہیں اور ظالموں کو کم از کم سیکیورٹی نہیں ملنا چاہیے۔
مجھے صرف تین منٹ چاہئیں
جاوید چوہدری اتوار 14 اپريل 2013
ہمیں مرے ہوئے تین منٹ ہو چکے تھے لیکن ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا‘ ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا‘ ہم بھی مر سکتے ہیں‘ میرے ساتھ ایک اسمارٹ قسم کا خوبصورت مردہ بیٹھا تھا‘ اس کے بازو‘ ٹانگیں‘ گردن‘ چھاتی پیٹ اور کمر بتا رہی تھی‘ اس نے زندگی کا زیادہ تر وقت جم میں گزارا ہو گا‘ یہ دنیا کی متوازن اور بہترین خوراک کھاتا ہو گا اور اس نے اپنے جسم کو ہر قسم کی آلودگی‘ بیماری اور بدپرہیزی سے بھی بچا کر رکھا ہو گا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم نے کبھی سگریٹ پیا‘‘ اس نے انکار میں سر ہلا دیا۔
میں نے پوچھا ’’ شراب‘ چرس‘ گانجا‘‘ اس کا سر انکار میں ہلتا رہا‘ میں نے پوچھا تم نے کبھی رش ڈرائیونگ کی‘ پانی میں اندھی چھلانگ لگائی‘ تم سڑک پر پیدل چلتے رہے ہو یا تم لوگوں سے الجھ پڑتے ہو‘‘ اس نے انکار میں سر ہلایا اور دکھی آواز میں بولا ’’ میں نے زندگی مںئ کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’ تمہاری عمر کتنی تھی‘‘ اس نے جواب دیا ’’ صرف 32 سال‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’ پھر تم کیسے مر گئے‘‘ اس کا دکھ بڑھ گیا‘ میں بھی اس بات پر حیران ہوں‘ میں اپنے آپ سے مسلسل پوچھ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’ تم مرے کیسے تھے‘‘ اس نے چیخ کر جواب دیا ’’ میں اپنے لائونج میں ٹی وی دیکھ رہا تھا‘ مجھے اچانک سینے میں درد محسوس ہوا۔ میں نے چائے کا کپ میز پر رکھا‘ دُہرا ہوا اور اس کے بعد سیدھا نہیں ہو سکا‘ میں مر گیا‘‘۔
میں نے پوچھا ’’ تمہاری اس وقت سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھا اور بولا ’’ تین منٹ کی زندگی‘ میں صرف تین منٹ کے لیے واپس جانا چاہتا ہوں‘ میرے والد میرے ساتھ خفا تھے‘ میں اپنی بیوی سے بدتمیزی کرتا تھا‘ میں نے اپنے بچوں کو کبھی پیار نہیں کیا‘ میں ملازموں کو وقت پر تنخواہ نہیں دیتا تھا‘ اور میں نے اپنے لان میں گلاب کے پھول لگوائے تھے لیکن میں ان کے پاس نہ بیٹھ سکا اور میں نے ہمیشہ اپنے جسم کو اللہ تعالیٰ کی کبریائی سے مقدم رکھا‘ میں تین منٹ میں سب سے معافی مانگنا چاہتا ہوں اور میں اپنے گلابوں کو چھو کر دیکھنا چاہتا ہوں‘‘ ہم سب سناٹے میں آ گئے‘ پہلوان کی بات ابھی جاری تھی کہ دوسرا بول پڑا۔
یہ ایگزیکٹو قسم کا سیریس مردہ تھا‘ اس کے چہرے پر کامیاب بزنس مین کا اعتماد تھا‘ کامیابی انسانی چہرے پر اعتماد کی چند لکیریں چھوڑ جاتی ہے‘ یہ لکیریں کامیاب لوگوں کو عام اشخاص سے مختلف بنا دیتی ہیں‘ آپ دنیا کے مختلف کامیاب لوگوں کی تصویریں لیں‘ یہ تصویریں مزھ پر رکھیں اور غور سے دیکھیں‘ آپ کو تمام چہروں پر خاص قسم کا اعتماد ملے گا اور وہ خاص اعتماد اس کے چہرے پر بھی موجود تھا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم بھی مر گئے؟‘‘ اس نے افسوس سے سر ہلایا اور جواب دیا ’’ میں بھی اس بات پر حیران ہوں‘ میں دنیا کے بہترین ڈاکٹر‘ اعلیٰ ترین اسپتال اور مہنگی ترین دوائیں افورڈ کر سکتا تھا‘ میں نے دنیا کی مہلک ترین بیماریوں کی ویکسین لگوا رکھی تھی‘ میں امریکا اور یورپ کی بہترین لیبارٹریوں سے ہر چار ماہ بعد اپنے ٹیسٹ کرواتا تھا۔
ہفتے میں دو بار اسٹیم باتھ لیتا تھا‘ میں ڈائیٹ چارٹ کے مطابق خوراک کھاتا تھا‘ ہر ہفتے فل باڈی مساج کرواتا تھا‘ میں کام کا سٹریس بھی نہیں لیتا تھا‘ میں نے ہمیشہ بلٹ پروف گاڑی اور ذاتی جہاز میں سفر کیا‘ میرے پاس پانچ ہزار لوگ ملازم تھے‘ یہ لوگ میرا سارا سٹریس اٹھا لیتے تھے اور میں صرف عیش کرتا تھا مگر پھر مجھے کھانسی آئی‘ میں نیچے جھکا‘ فرش پر گرا اور مر گیا اور میں پچھلے تین منٹ سے یہ سوچ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘ میں نے تو کبھی مرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم اب کیا چاہتے ہو‘‘ اس نے تڑپ کر جواب دیا ’’ تین منٹ کی زندگی‘ میں واپس جا کر اپنی ساری دولت ویلفیئر کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں‘ میں اس سے فری میڈیکل کالج‘ ملک کا سب سے بڑا تھیلیسیمیا اسپتال یا پھر ملک کی سب سے بڑی سائنس یونیورسٹی بنانے کا حکم دوں گا اور پھر واپس آ جائوں گا۔
آپ لوگوں کے پاس‘‘ ابھی اس کی بات جاری تھی تیسرا مردہ بول پڑا‘ یہ مردہ چال ڈھال اور شکل شباہت سے سیاستدان دکھائی دیتا تھا‘ دنیا کے تمام سیاستدانوں کے چہروں پر مکاری ہوتی ہے‘ اس کے چہرے پر بھی مکاری موجود تھی‘ میں نے پوچھا ’’بٹ صاحب آپ بھی فوت ہو گئے‘‘ وہ دکھ میں ڈوبی آواز میں بولا ’’ ہاں اور میں اسی بات پر حیران ہوں‘ سوچ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘ میں تو وہ شخص تھا جس کے ایک نعرے پر لوگ جان دیتے تھے‘ میری گرفتاری‘ میری قید پر میرے ورکر خود سوزی کر لیتے تھے‘ لوگ مجھ سے ٹکٹ لینے کے لیے گیارہ ہزار وولٹ کے کھمبے پر چڑھ جاتے تھے۔
میرے جوتے اٹھا کر سینے سے لگا لیتے تھے اور میں اس وقت تک کوئی چیز کھاتا تھا اور نہ ہی پیتا تھا‘ میرے ڈاکٹر جب تک اس کی تصدیق نہیں کر دیتے تھے‘ میں ہمیشہ بلٹ پروف شیشوں کے پیچھے رہا اور میں تقریر بھی بلٹ پروف کیبن میں کھڑے ہو کر کرتا تھا‘ میں ہر مہینے عمرے کے لیے جاتا تھا اور ہر دوسرے دن دو لاکھ روپے خیرات کرتا تھا مگر آج اچانک میرے سر میں درد ہوا‘ میں نے کنپٹی دبائی‘ میرے دماغ میں ایک ٹیس سی اٹھی‘ میں نے چیخ ماری اور میں مر گیا۔
میرے ڈاکٹر مجھے زندہ کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں مگر میں اب آپ کے ساتھ کھڑا ہوں‘‘ میں نے اس سے بھی پوچھا ’’ آپ کی اس وقت سب سے بڑی خواہش کام ہے‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’ تین منٹ کی زندگی‘ میں اس دنیا کے تمام سیاستدانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں‘ آپ موت سے نہیں بچ سکتے چنانچہ عوام اور اپنے درمیان سے بلٹ پروف شیشے ہٹا دیں‘ خدمت اور تبدیلی وہی ہے جو آپ آج لے آئے‘ اگر آج کی ٹرین مس کر دی تو دوبارہ نہیں پکڑ سکیں گے‘ آپ خادم ہیں تو خدمت کریں نعرے نہ لگائیں‘‘ وہ خاموش ہوا تو چوتھا مردہ بول پڑا۔
یہ مسکین مردہ تھا‘ نائین ٹو فائیو والا مسکین شخص‘ یہ لوگوں کی وہ کلاس ہے جو کندھے پر کوہلو کا شہتیر لے کر پیدا ہوتی ہے اور زندگی ایک دائرے میں گزار دیتی ہے‘ یہ قانون کے اس قدر پابند ہوتے ہیں کہ یہ قانون کی لکیر پر اپنا اور کسی دوسرے کا پائوں نہیں آنے دیتے‘ یہ ناک کی سیدھ میں زندگی گزارتے ہیں اور ناک ٹیڑھی ہونے دیتے ہیں اور نہ ہی زندگی‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم بھی مر گئے‘‘ اس نے کہا ’’ یہ ہی تو پریشانی ہے‘ میں نے زندگی میں کبھی غلطی نہیں کی‘ حرام کو ہاتھ تک نہ لگایا‘ پونے آٹھ بجے دفتر پہنچا‘ چھٹی کے بعد آدھ گھنٹہ دفتر بیٹھا‘ ہمیشہ فائلیں گھر لے کر آیا اور اپنے عزیز ترین شخص کو بھی کوئی رعایت نہیں دی‘ پانچ وقت نماز پڑھی‘ پورے روزے رکھے‘ اپنے ضمیر کو ہمیشہ مطمئن رکھا۔
نفس کو خواہشوں کے ڈنگ سے بچا کر رکھا مگر میں اس کے باوجود مارا گیا‘ میں نے پوچھا ’’ تم کیسے مارے گئے‘‘ اس نے جواب دیا ’’ میں چھت سے اپنی قمیض اتارنے گیا‘ آوارہ گولی آئی‘ سر میں لگی اور میں بیالیس سیکنڈ میں زندگی کی حد کراس کر گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’ تم اب کیا چاہتے ہو‘‘ اس نے فوراً جواب دیا ’’ میں بھی تین منٹ کی اضافی زندگی چاہتا ہوں‘ میں ان تمام سائلوں سے معافی مانگنا چاہتا ہوں جنھیں میں نے جعلی ضابطوں اور جھوٹے اصولوں کی ٹکٹکی پر لٹکائے رکھا‘ میں اپنے کولیگز کو بھی یہ بتانا چاہتا ہوں‘ ضابطے انسانوں کے لیے ہیں‘ انسان ضابطوں کے لیے نہیں‘ آپ کو کسی کے جائز کام کے لیے ضابطے کی ساری کتاب بھی قربان کرنی پڑے تو کر جائیں کیونکہ آپ نے اصول پسندی کی اس جھوٹی ضد کے باوجود اچانک مر جانا ہے‘‘ ابھی اس کی بات جاری تھی کہ مولوی صاحب کا مردہ سیدھا ہو گیا۔
ان کے ماتھے پر زہد اور تقویٰ کا محراب تھا‘ گردن عجز اور انکساری کے بوجھ سے جھکی ہوئی تھی‘ میں نے انھیں پوچھا ’’ حضور آپ بھی مر چکے ہیں‘‘ مولوی صاحب بولے ’’ میں بھی اس بات پر حیران ہوں‘ میں نے زندگی میں سیکڑوں جنازے پڑھائے‘ اپنی ہر تقریر میں موت‘ میدان حشر اور حساب کا ذکرکیا لیکن اس کے باوجود مجھے یقین تھا میں نہیں مروں گا‘ اللہ تعالیٰ مجھے سو سال سے زائد عمر دے گا اور میں جب تک موت کے فرشتے کو اجازت نہیں دوں گا یہ میرے بستر کے قریب نہیں پھٹکے گا مگر ہوا اس سے الٹ‘ میں موٹر سائیکل سے گرا اور ٹرک میرے اوپر سے گزر گیا اور مجھے بھی اب صرف تین منٹ چاہئیں۔
میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں ہم لوگ آپ کو جو مذہب سکھا رہے ہیں‘ یہ غلط ہے‘ آپ کو اللہ‘ کتاب اور رسولؐ کے سواکسی مولوی‘ کسی پیر‘ فقیر کی ضرورت نہیں‘ اللہ سے اپنی غلطیوں‘ گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگو‘ نماز نہیں پڑھتے تو بھی نماز کے وقت قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کرو اور صرف تین سیکنڈ کے لیے اللہ سے کہو‘ یا اللہ میں حاضر ہو گیا‘ مجھے معاف کر دے‘ قرآن مجید ترجمے کے ساتھ پڑھو اور رسولؐ کی کوئی ایک سنت پوری زندگی سنوارنے کے لیے کافی ہے‘ اس کی بات ابھی ادھوری تھی اور وہ لوگ میری طرف مڑے اور مجھ سے پوچھا ’’ اف جاوید چوہدری تم بھی مر گئے‘ تمہیں تو نہیں مرنا چاہیے تھا‘‘۔
مردوں کی اف میری روح میں ترازو ہوگئی‘ میں نے سوچا ’’ واقعی میں کیسے مر سکتا ہوں‘ میں ڈسپلن میں رہنے والا شخص ہوں‘ میں نے تو ابھی مرنے کا منصوبہ ہی نہیں بنایا تھا مگر میں سویا اور صبح اٹھ نہ سکا‘ میری ننھی بیٹیاں مجھے اٹھاتی رہیں‘ یہ میرے اوپر چھلانگیں لگاتی رہیں‘ ان کا خیال تھا میں ان کے ساتھ مذاق کر رہا ہوں‘ میں ابھی بھی اٹھوں گا‘ مگر میں نہ اٹھا اور ان کے قہقہے چیخوں میں بدل گئے‘ میں نے زندگی میں اپنی بچیوں کو کبھی دکھ نہیں دیا‘ میں انھیں زندگی میں پہلی بار روتے‘ چیختے دیکھ رہا ہوں اور ان کی چیخیں میری روح کو تار تار کر رہی ہیں‘ مجھے بھی تین منٹ چاہیے تھے‘ صرف تین منٹ‘ میں ان کی گیلی پلکوں پر بوسہ دینا چاہتا ہوں‘ میں انھیں روز کی طرح اسکول بھجوانا چاہتا ہوں‘ خدا کے لیے مجھے صرف تین منٹ چاہئیں‘ کوئی مجھے یہ تین منٹ دے دے گا؟ خدا کے لیے‘‘۔

گیدڑ
جاوید چوہدری جمعرات 11 اپريل 2013
میں اسلام آباد کا شہری ہوں ‘ مجھے اس شہر سے بہت پیار ہے اور اس کا ہر مسئلہ مجھے پریشان کر دیتا ہے‘ اس شہر کے دوسرے شہروں کی طرح بے شمار مسائل ہیں مگر میری نظر میں اس کا سب سے بڑا مسئلہ گیدڑ ہیں‘ یہ گیدڑ اصل گیدڑ نہیں ہیں‘ یہ نقلی اور عارضی گیدڑ ہیں لیکن انھوں نے شہر کی پوری فضا خراب کر رکھی ہے‘ ہم اسلام آباد کے شہری پچھلے ایک ماہ سے بڑی حد تک ان گیدڑوں سے آزاد ہیں اور ہم شہر میں اطمناکن کا سانس بھی لے رہے ہیں‘ یہ گیدڑ ہوٹر‘ سائرن اور پروٹوکول کی گاڑیوں کی ٹوں ٹوں ہیں اور ہم اسلام آباد کے تمام شہری ان کے ہاتھوں بے انتہا تنگ ہیں‘میرا دفتر مارگلہ روڈ پر ہے ‘ یہ روڈ گیدڑوں کی خصوصی گزر گاہ ہے‘ میں اور میرے دفتر کے لوگ پچھلے آٹھ برسوں سے سائرن اور ہوٹرز کی آوازیں سنتے آ رہے ہیں‘ مارگلہ روڈ سے ہر دس منٹ بعد کوئی اہم شخص گزرتا ہے اور اس کے آنے اور جانے کے دس پندرہ بیس منٹ بعد تک سائرن کی آوازیں ہمارے کانوں کی دیواروں سے چپکی رہتی ہیں۔
ہم لوگ ان آوازوں کو بمشکل اپنے حافظے کا حصہ بنا پاتے ہیں کہ دوسرے اہم یا اہم ترین شخص کے گزرنے کا وقت آ جاتا ہے اور پوری فضا نئے گیدڑوں کی آوازوں سے گونج اٹھتی ہے‘ یہ صورتحال جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے دور میں بھی تھی مگر صدر آصف علی زرداری اور ان کے وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے ادوار میں یہ بیماری بن گئی‘ حکومت کے 65 وزراء تھے اور یہ تمام وزراء پروٹوکول اور سیکیورٹی سے لطف اٹھا رہے تھے‘ حکومت کے مشیروں کے پاس بھی سیکیورٹی تھی‘ حکومت کے سیاسی اتحادیوں کی قیادت بھی سائرن کو انجوائے کرتی تھی‘ مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار ولی‘ چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی بھی پروٹوکول کی پانچ پانچ دس دس گاڑیوں کے ساتھ باہر نکلتے تھے‘ وزراء اور وزیراعظم کے خاندانوں کو بھی سیکیورٹی کی سہولت دستیاب تھی‘ میں نے راجہ پرویز اشرف کے بھتیجوں اور بھانجوں کو بھی سائرن والی گاڑیوں کے ساتھ اسلام آباد میں دوڑتے بھاگتے دیکھا‘ اسٹیڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمینوں‘ اسپیکر‘ ڈپٹی اسپیکر‘ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بھی اس سہولت سے لطف لیتے تھے۔
صدر کا سارا خاندان اور خاندان کے دوست بھی پروٹوکول کے مزے اڑاتے تھے اور رہی سہی کسر غیر ملکی سفیر پوری کر دیتے چنانچہ آپ شہر کی کسی سڑک پر نکل جاتے آپ کو چند گز کے بعد کوئی نہ کوئی اہم ترین شخص سفر کرتا دکھائی دیتا‘ اس کے آگے اور پیچھے کی گاڑیوں میں ننگی رائفلوں والے گارڈز نظر آتے اور ان سے آگے پولیس کی سائرن بجاتی سرخ اور نیلی روشنیوں والی گاڑی ہوتی‘ یہ لوگ صرف سائرن نہیں بجاتے تھے بلکہ یہ اوورا سپیڈنگ بھی کرتے تھے اور ان کے گارڈز سڑک پر موجود گاڑیوں کو ہاتھ کے اشارے سے دائیں بائیں ہونے کا حکم بھی دیتے جاتے تھے‘ گارڈز کا رویہ اس قدر خوفناک اور توہین آمیز ہوتا تھا کہ میں نے کئی بار سہم کر گاڑی کھڑی کر دی اور اس اہم ترین شخص کو گزرنے اور اس کی اڑائی ہو گرد بیٹھنے کا انتظار کرتا رہا مگر اس کے جانے کے فوراًبعد دوسرے اہم ترین شخص کا قافلہ پہنچ گیا اور یوں میرا گزرنا محال ہو گیا۔
جناب پرویز اشرف کی حکومت اور پارلیمنٹ کے خاتمے کی پہلی نشانی گیدڑوں کی خاموشی کی شکل میں نکلی‘ 16 مارچ سے 24 مارچ یعنی نگراں حکومت کے قیام تک اسلام آباد میں کسی جگہ سائرن اور پروٹوکول کی ٹک ٹک کی آواز نہیں آئی‘ میں اس دوران اس عظیم مہربانی پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا رہا‘ نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو کے نام کا اعلان 24 مارچ کو ہوا‘ نئے وزیراعظم کے اعلان کے ساتھ ہی پروٹوکول کی گاڑیاں سڑک سے شاں شاں کر کے گزرنے لگیں‘ میں نے اس وقت تک کھوسو صاحب کی خبر نہیں سنی تھی مگرجوں ہی گیدڑوں کی آواز مرکے کانوں میں پڑی‘ میں نے اپنے اسسٹنٹ سے کہا ’’ مہربانی کر کے ٹی وی آن کر دیں‘ مجھے لگتا ہے نگراں وزیراعظم کا اعلان ہو چکا ہے‘‘ میرے اسسٹنٹ نے ٹی وی آن کیا اور اسکرین پر میر ہزار خان کھوسو کی لمبی مسکراہٹ اور اس کے ساتھ بریکنگ نیوز چل رہی تھی‘کھوسو صاحب کی کامیابی کے 8 دن تک نگراں کابینہ نہ بن سکی چنانچہ اسلام آباد میں صرف وزیراعظم کے گیدڑ بھونکتے اور ہم لوگ اطمینان میں تھے مگر 2اپریل کو نگراں کابینہ نے حلف اٹھایا اور اس کے ساتھ ہی شہر کی فضا سائرنوں کی آوازوں سے آلودہ ہو گئی‘ گو راجہ پرویز اشرف جیسی صورتحال نہیں‘ کابینہ چھوٹی ہے اور ایک مہینے کی مختصر مدت کی وجہ سے وزراء کے بچوں نے سیکیورٹی اور پروٹوکول کا استعمال شروع نہیں کیا لیکن اس کے باوجود شہر میں ٹوں ٹوں کی آوازیں آتی ہیں‘الیکشن کا وقت قریب آتا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی میری نبض اور دل کی دھڑکن تیز ہو رہی ہے کیونکہ الیکشن کے بعد نئی حکومت بنے گی۔
اس حکومت میں بے شمار اہم لوگ ہوں گے اور یہ لوگ خود کو اس وقت تک اہم نہیں سمجھیں گے جب تک ان کی گاڑی کے آگے اور پیچھے پولیس وین نہیں ہوگی‘ اوپن جیپیں نہیں ہوں گی‘ ان جیپوں میں مسلح کمانڈوز نہیں ہوں گے اور یہ کمانڈوز سڑک پر چلنے والی گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں کو اشارے سے ان کے حقیر ہونے کا احساس نہیں دلائیں گے‘ میں اس وقت سے ڈر رہا ہوں کیونکہ میں سولائزڈ دور کے سولائزڈ شہری کی حیثیت سے جانتا ہوں آپ جب سڑک پر چلتے ہیں آپ خود کو باعزت‘ پڑھا لکھا اور قانون پسند شہری بھی سمجھ رہے ہوں اور آپ اچانک گیدڑوں کی آواز سنیں اور اس کے بعد فوراً اوپن جیپ میں بیٹھا کوئی ان پڑھ اور بدتمزت شخص نہایت حقارت سے آپ کی طرف دیکھے اور آپ کو گاڑی سائیڈ پر کرنے کا اشارہ کر دے تو آپ کے دل پر کتنی چوٹ پڑتی ہے اور یہ سلوک آپ کے ساتھ سال میں ایک آدھ بار ہو تویہ قابل برداشت ہے لیکن آپ کو اگر روزانہ یہ عذاب بھگتنا پڑے یا آپ کو دن میں چارپانچ بار مونچھوں والے بھاری بھرکم کمانڈوز ایسے اشارے کریں تو آپ یقیناً بلڈ پریشر کے مریض بن جائیں گے اور آپ کے ساتھ یہ سلوک وہ شخص کر رہا ہے جوکو الیفکیشن‘ تہذیب اور اخلاقیات میں بھی آپ سے بہت پیچھے ہے اور آپ کے مقابلے میں ٹیکس بھی ادا نہیں کرتا ‘ اس شخص کی واحد کوالیفکیشن اہم ترین شخص کی قربت‘ رشتے داری اور خوشامدہے یا پھر یہ والد کی سیٹ پر ایم این اے یا سینیٹر بن کر اسلام آباد آگیا ہے اور اس کے بعد وفاقی دارالحکومت کی فضا مکدر کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے اور ہم اس شہر کے باسی اس رویئے کے عادی اور بلڈ پریشر کے مریض بھی ہو چکے ہیں۔
ہماری نگراں حکومت کی واحد مہربانی گیدڑوں کی کمی ہے‘ یہ اگر مزید مہربانی کریں‘ یہ سپریم کورٹ سے پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بارے میں کوئی ڈائریکشن لے لیں‘ وزیرقانون احمر بلال صوفی یا وزیر داخلہ ملک حبیب سپریم کورٹ چلے جائیں اور چیف جسٹس سے درخواست کریں ہم نے فیصلہ کیا ہے پاکستان کی کوئی حکومت پروٹوکول یا سیکیورٹی کے نام پر عام شہریوں کو ہلکان نہیں کرے گی‘ ملک میں صرف صدر‘ وزیراعظم‘ گورنر اور وزیراعلیٰ کے لیے سائرن بجے گا اور ان کے ساتھ سیکیورٹی کی گاڑیاں چلیں گی تو یہ اس ملک پر بہت بڑی مہربانی ہو گی‘ حکومت سپریم کورٹ کی مدد سے یہ قانون بنا سکتی ہے‘ ان چار عہدوں کے علاوہ کسی شخص کو سرکاری پروٹوکول اور سیکیورٹی نہیں دی جائے گی‘ یہ لوگ ایک گاڑی میں سفر کریں گے‘ ان کے ساتھ گاڑی کے اندر ایک گن مین ہو گا اور یہ اس کے علاوہ سیکیورٹی کی کوئی گاڑی ساتھ نہیں رکھ سکیں گے‘ ان کے لیے کسی جگہ سائرن یا ہوٹر بھی نہیں بجے گا‘ یہ پرائیویٹ گارڈز نہیں رکھ سکیں گے۔
اگر انھیں اپنی جان کا اتنا ہی خطرہ ہے تو یہ عہدہ قبول نہ کریں کیونکہ یہ لوگ اتنے ناگزیر نہیں ہیں کہ ان کے پروٹوکول اور سیکیورٹی پر اس ملک کے غریب عوام کے کروڑوں روپے خرچ کر دیے جائیں‘ یہ لوگ آج سیکیورٹی اور پروٹوکول کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ حلقوں میں الیکشن مہم بھی چلا رہے ہیں اور کسی جگہ ان کی جان کو خطرہ پیش آیا اور نہ ہی ان کی عزت اور مرتبے میں کمی آئی تو یہ اقتدار کے بعد بھی پروٹوکول کے بغیر رہ سکتے ہیں ‘ چیف جسٹس کو چاہیے یہ پروٹوکول پر بھی سوموٹو نوٹس لیں اور حکومت سے پوچھیں ہمارے ملک میں سیکیورٹی اور پروٹوکول کے بغیر زندگی گزارنے والا شخص پارلیمنٹ اور کابینہ میں پہنچ کر اس کے بغیر زندہ کیوں نہیں رہ سکتا؟ اگر آج قمر زمان کائرہ‘ راجہ پرویز اشرف اور مخدوم امین فہیم بلٹ پروف گاڑی کے بغیر زندہ ہیں تو پھر حکومت میں آنے کے بعد بھی انھیں کچھ نہیں ہو گا‘ نگراں حکومت اگر ان گیدڑوں سے ہماری جان چھڑا جائے تو یہ اس کی ہم پر بہت بڑی مہربانی ہو گی‘ صاف اور شفاف الیکشن سے بھی بڑی مہربانی۔
آرٹیکل سکس
جاوید چوہدری بدھ 10 اپريل 2013
چور کی دلیل نے سب کو حیران کر دیا‘ بادشاہ کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا‘ وزیر باتدبیر نے سرجھکا لیا جب کہ درباریوں کے دل دھک دھک کرنے لگے‘ چور نے کہا ’’ حضور آپ کو مجھ سے پہلے ان تمام لوگوں کے ہاتھ قلم کرنے چاہئیں جن کی سستی‘ نااہلی‘ بے وقوفی اور بے احتیاطی نے مجھے چور بنایا‘ یہ لوگ اگر اپنی چیزوں کی حفاظت کرتے‘ یہ احتیاط سے کام لیتے تو آج ملک میں کوئی چور نہ ہوتا‘‘ بادشاہ‘ وزیر باتدبیر اور درباری حیرت سے چور کی طرف دیکھنے لگے۔
آپ اگر معاشرے کو پوری طرح سمجھنا چاہیں‘ آپ اپنی کمزوریوں اور اپنی کوتاہیوں کا اندازہ لگانا چاہیں تو آپ کو ایماندار‘ نیک‘ سمجھ دار اور ذہین لوگوں کے بجائے معاشرے کے برے‘ نالائق اور بے ایمان لوگوں سے مشورہ کرنا چاہیے کیونکہ آپ کو آپ کے بارے میں‘ آپ کے محلے‘ شہر اور ملک کے بارے میں جتنی مکمل اور تفصیلی معلومات یہ لوگ دے سکتے ہیں‘ آپ کو معاشرتی مسائل کا جتنا مکمل اور زبردست حل یہ لوگ دے سکتے ہیں اتنا دنیا کے تمام دانشور‘ ذہین‘ پڑھے لکھے اور ایماندار مل کر بھی نہیں دے سکتے۔
اگر اس ملک میں کبھی کسی حکومت نے میری بات کو سنجیدہ لیا یا کسی حکمران نے مجھ سے مشورہ کیا تو میں اس سے صرف ایک درخواست کروں گا‘ میں اس سے عرض کروں گا آپ جیل میں بند مجرموں‘ سزا یافتہ بدنصیبوں اور تائب شدہ برے لوگوں کی کہانیاں بڑے پیمانے پر شایع کرا دیں‘ ان لوگوں کی زندگی پر ڈاکومنٹری فلمیں بنوائیں اور صحافیوں کو ان تک رسائی دے دیں‘ یہ کہانیاں معاشرے کو بدل دیں گی‘ ہم سب جان جائیں گے ہم میں کیا کیا خرابیاں ہیں اور ہم معاشرے کو کس طرح ٹھیک کر سکتے ہیں‘ مجرم معاشرے کے سب سے بڑے مشیر ہو سکتے ہیں‘ معاشروں کو بس ان سے کام لینا چاہیے‘ وہ چور بھی دانشور مجرم تھا۔
چنانچہ اس نے بادشاہ کو حیران کر دیا‘ چور کا کہنا تھا ’’ میں ایک معصوم اور نیک نوجوان تھا لیکن مجھے لوگوں کی بے پروائی نے مجرم بنا دیا‘‘ اس کا کہنا تھا’’ میں بچپن میں محلے میں نکلتا تھا تو میں دیکھتا تھا لوگ اپنے دروازے کھلے چھوڑ کر باہر نکل جاتے ہیں‘ عورتںو اپنے زیورات میز پر رکھ دیتی ہیں اور لوگوں کے روپوں کی تھیلیاں میزوں پر پڑی ہوتی تھیں‘ یہ کھلے دروازے ‘ یہ روپوں کی لاوارث تھیلیاں اور یہ میزوں پر پڑے زیورات مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے تھے‘ میں نے اس توجہ کا ہاتھ تھام لیا اور چھوٹی موٹی چوریاں شروع کر دیں‘ میری چوریوں پر کسی نے اعتراض نہ کیا‘ میں جن کا مال چوری کرتا تھا وہ اسے معمولی نقصان سمجھ کر خاموش ہو جاتے تھے‘ میں اپنے مال میں سے کچھ حصہ اپنے خاندان کو دے دیتا تھا۔
یہ اپنا حصہ لے کر خاموش رہتے تھے‘ میں کچھ رقم دوستوں یاروں پر خرچ کرتا تھا‘ یہ بھی خوش تھے اور میں کچھ روپے مولوی صاحب کو چندے میں دے دیتا تھا اور یہ میری سخاوت کے گن گاتے تھے‘‘ چورنے کہا ’’ میرے پاس پیسے آنے لگے تو شہر کے معززین مجھے اپنے پہلو میں جگہ دینے لگے‘ عمائدین‘ شہر کی انتظامیہ اوربادشاہ سلامت کے مصاحبین مجھے عزت دینے لگے‘ ان میں سے کوئی مجھ سے یہ نہیں پوچھتا تھا تمہارے پاس رقم کہاں سے آ رہی ہے یا تمہارا ذریعہ معاش کیا ہے؟ یہ سب خاموش تھے اور ان کی یہ خاموشی میرے حوصلے بڑھاتی چلی گئی یہاں تک کہ میں سلطنت کا سب سے بڑا چور بن گیا اور آپ نے مجھے گرفتار کر لیا‘‘ چور نے لمبی سانس لی اور آہستہ سے کہا ’’ آپ بے شک مجھے سزا دیں لیکن میری سزا سے مملکت میں چوری ختم نہیں ہوگی‘ میری جگہ کوئی دوسرا چور آ جائے گا‘ آپ اسے پکڑیں گے۔
اسے سزا دیں گے تو اس کی جگہ کوئی تیسرا چور آ جائے گا اور اس کے بعد کوئی چوتھا‘ آپ چور پکڑتے رہیں گے مگر چوری جاری رہے گی‘‘ چور نے لمبی آہ بھری اور اس کے بعد بولا ’’ آپ اگر چوری ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ مجھ سے پہلے ان تمام لوگوں کے ہاتھ کاٹ دیں جن کی غفلت‘ نااہلی اور بے احتیاطی معاشرے میں چور پیدا کر رہی ہے‘ اس کے بعد میرے ان تمام رشتے داروں اور عزیزوں کے ہاتھ کاٹ دیں جن کی خاموشی مجھ جیسے لوگوں کو چور بناتی ہے اور اس کے بعد میرے ان تمام دوستوں‘ راشی افسروں‘ نام نہاد معززین اور اپنے بے ایمان مصاحبین کے ہاتھ کاٹ دیں جو مجھ جیسے چوروں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں جو مجرموں اور چوروں کو فخر سے اپنے پہلو میں بٹھاتے ہیں اور اس کے بعد اپنے ہاتھ کٹوا دیں کیونکہ آپ نے ایسا آئین‘ ایسا قانون بنایا جو صرف چوروں کو سزا دیتا ہے‘ چوری کو نہیں‘‘ چور خاموش ہو گیا مگر بادشاہ کے چہرے پر جلال کی لکیریں چیخ رہی تھیں‘ اس نے چلا کر حکم دیا ’’ پرویز مشرف جیسے چور پر آرٹیکل سکس کی حد لگا دی جائے‘‘۔
ملزم پرویز مشرف نے قہقہہ لگایا اور بادشاہ سے عرض کیا ’’ جناب میں چور ہوں‘ میں غاصب بھی ہوں‘ میں آمر بھی ہوں اور میں نے اس ملک کا آئین بھی توڑا لیکن کیا وہ تمام لوگ میرے ساتھی‘ میرے شریک جرم نہیں ہیں جن کی نااہلی‘ نالائقی اور کرپشن میرے جیسے آمروں کو تحریک دیتی ہے‘ کیا وہ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو میرے شریک جرم نیںش ہیں جنھیں عوام نے اعتماد دیا مگر انھوں نے اقتدار میں آ کر اپنا کوئی عوامی وعدہ پورا نہیں کیا‘ کیا وہ لوگ میرے شریک کار نہیں ہیں جنہوں نے مجھے اقتدار پر قابض ہونے پر مجبور کیا‘ کیا وہ سولہ سترہ کروڑ عوام میرے شریک کار نہیں ہیں جنہوں نے میرے قبضے کے بعد مٹھائیاں تقسیم کیں‘ مبارک بادیں دیں‘ ’’ مشرف لورز‘‘ کے نام سے جماعتیں بنائیں جو مجھے یونیفارم میں دیکھ کر دیوانہ وار زندہ باد‘ پایندہ باد کے نعرے لگاتے تھے‘ جو میرے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے ایک دوسرے کو دھکے دیتے تھے۔
کیا اس ملک کے وہ تمام سیاستدان میرے شریک جرم نہیں ہیں جو اپنی پارٹیاں چھوڑ کر میری پارٹی میں شامل ہو گئے‘ جنہوں نے میرے ساتھ سیاسی اتحاد بنائے‘ جو پورے ملک میں میرے لیے جلسے کرتے تھے‘ جنہوں نے میرے ساتھ سمجھوتے کیے اور چپ چاپ بیرون ملک بیٹھ گئے‘ جنہوں نے میرے ساتھ این آر او کیے‘ کیا وہ تمام بوسرو کریٹس‘ وہ تمام ٹیکنو کریٹس اور وہ تمام جنرل میرے ساتھ شریک جرم نہیں جنہوں نے میرے قبضے کو چپ چاپ تسلیم کرلیا‘ جو میرے دست و بازو بن گئے‘ جنہوں نے اعلیٰ پوزیشنز حاصل کیں‘ مراعات لیں‘ پلاٹس لیے اور ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ نوکریاں حاصل کیں‘ کیا وہ تمام پارلیمنٹیرینز میرے شریک جرم نہیں جنہوں نے مجھے یونیفارم میں صدر تسلیم کیا‘ جنہوں نے ریفرنڈم میں میری حمایت کی‘ جو مجھے بطور صدر تسلیم کرتے رہے۔
کیا وہ جج میرے شریک جرم نہیں جنہوں نے مجھے تین سال کے لیے اس ملک کا چیف ایگزیکٹو مان لیا اور مجھے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیا‘ کیا میرے وہ ساتھی میرے شریک جرم نہیں ہیں جو مجھ سے عہدے لیتے تھے‘ جو مجھے اس ملک کا مسیحا کہتے تھے اور میری نجی محفلوں میں گانے گاتے اور ڈانس کرتے تھے‘ کیا وہ میڈیا میرا شریک جرم نہیں جو یونیفارم میں میرے انٹرویو‘ میری پریس کانفرنسیں چلاتا تھا اور مجھے جناب صدر‘ جناب صدر کہتا تھا اور کیا وہ تمام لوگ میرے شریک جرم نہیں جنہوں نے میرے ایک اشارے پر بگٹی کو قتل کر دیا اور جو لال مسجد آپریشن کو درست اور بروقت کہتے تھے اور جنہوں نے مجھے چیف جسٹس کو معزول کرنے کی سفارش کی تھی‘‘۔
ملزم پرویز مشرف نے کہا ’’ بادشاہ سلامت آپ جب تک اس ملک کے ان تمام لوگوں کو آرٹیکل سکس کے تحت سزا نہیں دیں گے جو آمروں کی آمد پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں‘ جو ہر آمر کی پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں اور آمر کے جانے کے بعد سیاسی جماعتیں انھیں واپس لے لیتی ہیں‘ جو بیورو کریٹس آمر کا دست و بازو بن جاتے ہیں اور آمر کے وہ تمام رفقاء کار جو اسے آگے بڑھنے اور اقتدار پر قابض ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں‘ بادشاہ سلامت آپ جب تک انھیں سزا نہیں دیں گے‘ اس وقت تک آمروں اور آمریت کا سلسلہ چلتا رہے گا‘ میں چلا جائوں گا‘ مجھے سزا ہو جائے گی مگر میرے بعد دوسرا آمر آئے گا اور وہ بھی یہی کرے گا‘ آپ کتنے پنڈورا باکس کھولیں گے‘ کتنی بلائوں کو سزا دیں گے اور کتنے آمروں کوغاصب قرار دیں گے‘ بادشاہ سلامت آپ دروازوں پر کنڈیاں لگانا شروع کریں‘ چوریاں خودبخود رک جائیں گی‘ آپ آمروں کے ساتھیوں کو ’’ ڈس کوالی فائی‘‘ کریں‘ آپ آمروں کو کندھوں پر اٹھانے والوں کو سزا دیں‘ آمریت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جائے گی ورنہ دوسری صورت میں آپ کتنے مشرف مارو گے‘ ہر مورچے سے مشرف نکلے گا اور لوگ ہر مشرف کو ہار پہنائیں گے‘‘۔
باسٹھ‘ تریسٹھ
جاوید چوہدری پير 8 اپريل 2013
قائداعظم باسٹھ تریسٹھ کے پہلے شکار تھے‘ یہ دسمبر 1916ء میں لکھنؤ کے دورے پر گئے‘ قائد اس وقت تک مسلمانوں کے بڑے اور متفقہ لیڈر بن چکے تھے‘ لکھنؤ اس دور میں تہذیب اور شائستگی کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا مرکز بھی تھا‘ مسجدیں آباد تھیں‘ درگاہوں پر رش ہوتا تھا‘ شہر میں داڑھیاں‘ جبے‘ عمامے اور برقعے عام تھے‘ پالکیاں چلتی تھیں اور معزز گھرانوں کی خادمائیں تک پالکی میں پردے کے پیچھے چھپ کر ایک محلے سے دوسرے محلے جاتی تھیں‘ لکھنؤ کے لوگ انگریزوں کے خلاف تھے چنانچہ یہ انگریزی لباس اور انگریزی طرز رہائش سے نفرت کرتے تھے‘ قائداعظم ان حالات میں لکھنؤ کے دورے پر آ رہے تھے‘ لکھنؤ کی مسلم لیگ نے لوگوں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے شہر بھر میں مولانا محمد علی جناح کے نام سے بڑے بڑے پوسٹرز لگوا دیے اور عوام اسلام کے بطل جلیل کا بے تابی سے انتظار کرنے لگے‘ پروگرام کے مطابق قائداعظم نے بمبئی سے کان پور آنا تھا اور وہاں سے انھیں خصوصی ٹرین کے ذریعے لکھنؤ لایا جانا تھا‘ لکھنؤ مسلم لیگ نے قائد اعظم کے لیے ٹرین بک کروا دی۔
قائداعظم وقت مقررہ پر بمبئی سے کان پور تشریف لے آئے مگر منتظمین ان کا لباس دیکھ کر پریشان ہو گئے‘ قائداعظم نے تھری پیس سوٹ پہن رکھا تھا‘ آپ کے ایک ہاتھ میں فلیٹ ہیٹ تھا اور دوسرے ہاتھ میں سلگتا ہوا سگریٹ‘ منتظمین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے‘ قائداعظم ان کی پریشانی بھانپ گئے‘ آپ نے ان سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو منتظمین میں موجود ایک بزرگ نے آپ سے عرض کیا ’’ لکھنؤ کے لوگ مذہبی ہیں‘ آپ اگر مہربانی فرما کر شیروانی پہن لیں تو عوام آپ کو دیکھ کر زیادہ خوش ہوں گے‘‘ قائداعظم نے فوراً انکار میں سر ہلایا اور فرمایا ’’ میں نے زندگی میں کبھی شیروانی نہیں پہنی چنانچہ میں ایسا لباس پہننے کے لیے تیار نہںی ہوں‘ میں جس میں کمفرٹیبل نہیں رہتا‘‘یہ فرمانے کے بعد قائداعظم اسی لباس میں لکھنؤ پہنچے اور لوگوں نے آپ کا دیوانہ وار استقبال کیا‘ قائداعظم نے وہاں تقریر بھی انگریزی میں کی اور کھانا بھی انگریزی کھایا۔
یہ باسٹھ تریسٹھ کی پہلی کوشش تھی مگر قائداعظم نے یہ کوشش ناکام بنا دی‘ قائداعظم پر اس کے بعد بھی باسٹھ تریسٹھ کے بے شمار حملے ہوئے مگر آپ یہ حملے بھی پسپا کرتے رہے مثلاً آپ پر ایک حملہ 1939ء میں شملہ میں ہوا‘ قائداعظم مسلمانوں سے خطاب کے لیے شملہ پہنچے‘ آپ نے حسب معمول انگریزی سوٹ پہن رکھا تھا‘ آپ کو کھلے رکشے میں بٹھا دیا گیا اور ہزاروں لوگ رکشے کودھکیلنے لگے‘ قائداعظم نے اپنا ہیٹ گھٹنے پر رکھا ہوا تھا اور آپ لوگوں کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے‘ آپ کے ایک ساتھی نے عرض کیا ’’ آپ ہیٹ کو پاؤں میں رکھ لیں‘‘ قائداعظم نے پوچھا ’’ کیوں‘‘ اس نے عرض کیا ’’ شملہ انگریزی تہذیب کا بڑا گڑھ ہے‘ یہاں انگریزوں کی آبادی زیادہ ہے‘ مقامی لوگ انگریزوں کے لباس سے نفرت کرتے ہیں‘ یہ آپ کے ہیٹ کو بھی پسند نہیں کر رہے‘‘ قائداعظم نے غصے سے اس کی طرف دیکھا‘ اپنا ہیٹ گھٹنوں سے اٹھا کر سر پر رکھا اور فرمایا ’’ میں منافق نہیں ہوں‘‘ اور یوں باسٹھ تریسٹھ کا ایک اور وار ضایع ہو گیا‘ قائداعظم پوری زندگی یہ حملے سہتے اور انھیں پسپا کر تے رہے‘ہندوستان کے علماء کرام آپ کے کتوں تک پر اعتراض کرتے رہے مگر قائداعظم آخری عمر تک اپنے کتوں سے پیار کرتے رہے‘ آپ ان کے ساتھ تصویریں بھی بنواتے تھے اور ان کے ساتھ وقت بھی گزارتے تھے‘ لوگ آپ کی نمازیں اور روزے بھی گنتے تھے اور یہ دعوے بھی کرتے تھے آپ کو قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا‘ معترضین نے آپ کی طرز رہائش اور خیالات کی وجہ سے آپ کو نعوذ باللہ کافر اعظم تک کہا مگر آپ اپنی رفتار اور وژن کے مطابق آگے بڑھتے رہے‘ ہمیں یہ مانناپڑے گا قائداعظم نے زندگی بھر عمرہ اور حج نہیں کیا‘ علامہ اقبالؒ نے بھی حج نہیں کیا تھا (نوٹ: مجھے علامہ صاحب سے متعلق کسی کتاب میں حج اور عمرے کا ذکر نہیں ملا‘ اگر کسی صاحب کے پاس ایسی معلومات موجود ہیں تو مہربانی فرما کر مجھے ارسال کر دے)‘ قائداعظم اور علامہ اقبال کی داڑھی بھی نہیں تھی‘ قائداعظم اپنے معمول میں اس قدر سخت تھے کہ آپ کے معالج کرنل الٰہی بخش نے آخری دنوں میں آپ کی سگریٹ نوشی پر پابندی لگا دی لیکن قائداعظم نے یہ کہہ کر یہ پابندی ماننے سے انکار کر دیا ’’ ڈاکٹر میں صرف صحت کے لیے عمر بھر کا معمول نہیں بدل سکتا‘‘۔
قائداعظم کو جب زیارت سے کوئٹہ اور پھر وہاں سے کراچی شفٹ کرنے کا وقت آیا تو قائداعظم نے شیو کے بغیر باہر نکلنے سے انکار کر دیا چنانچہ قائداعظم کی شیو بنائی گئی‘ انھیں نیا کوٹ پہنایا گیا اور ان کے ہاتھ میں نیا ریشمی رومال پکڑایا گیا تو قائداعظم نے اپنا اسٹریچر اٹھانے کی اجازت دی‘ قائداعظم کو شاید دعائے قنوت‘ سورۃ یاسین اور آیت الکرسی بھی زبانی یاد نہ ہو کیونکہ ہمیں کسی کتاب میں اس کا حوالہ نہیں ملتا اور یہ اگر جسارت نہ ہو تو یہ بھی حقیقت ہے آپ پر پارسی خاتون سے شادی کا جھوٹا الزام بھی لگا اور ہندوستان کی پارسی برادری نے آپ پر نابالغ لڑکی کو اغواء کرنے کا جھوٹا مقدمہ بھی بنوایا‘ لوگوں نے آپ کے عقائد کو سنی اور شیعہ خانوں میں ڈالنے کی کوشش بھی کی‘ اللہ معاف کرے لوگوں نے آپ کی صاحبزادی کی شادی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ تک کہہ دیا جو شخص اپنی اکلوتی بیٹی کو نہیں سنبھال سکا وہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو کیسے سنبھالے گا اور یہ تمام اعتراضات ہندوستان کے پارسا‘ متقی‘ عالم اور شریعت کے امیروں نے داغے مگر قائداعظم اس کے باوجود آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ یہ دنیا کی پہلی اسلامی جمہوری سلطنت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ قائداعظم کا کمال تھا‘آپ اب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے آج قائداعظم‘ علامہ اقبال‘ خان لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین اور عبدالرب نشتر حلقہ این اے 48 یا 49 سے الیکشن لڑنا چاہیں توکیا یہ ریٹرننگ آفیسر کے کسی سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ کیا‘ یہ آئین کی دفعہ 62 اور 63 کے مطابق خود کو صادق‘ امین ‘ ایماندار اور شریعت کا پابند ثابت کر سکتے ہیں‘ مجھے خدشہ ہے یہ پانچوں حضرات شاید نظریہ پاکستان کی تعریف بھی نہ کر سکیں‘ علامہ اقبال کو بھی آج جمعیت علماء اسلام کے ان عظیم رہنماؤں کے سامنے کھڑا کر دیا جائے جن کی ڈگریاں جعلی نکل آئی تھیں اور یہ اس وقت مقدمات بھگت رہے ہیں اور ان کا علامہ صاحب سے اسلامی تعلیمات‘ قرآن اور اصول شریعت پر مقابلہ کرایا جائے تو شاید علامہ صاحب ہار جائیں اور اس ملک میں قائداعظم کابھی یہی حال ہو گا کیونکہ یہ ایسا ملک ہے جس میں جنرل پرویز مشرف کراچی اور اسلام آباد میں آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر پورے نہیں اترتے‘ ان کے کاغذات مسترد ہو جاتے ہیں لیکن یہ چترال میں آئین پر پورے اتر جاتے ہیں اور انھیں وہاں الیکشن لڑنے کی اجازت مل جاتی ہے۔
ملک ایک ہے لیکن قانون دو‘ اس ملک میں راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم رہنے کے باوجود حق نمایندگی کھو بیٹھتے ہیں لیکن مسرت شاہین صداقت اور امانت کے تمام اصولوں پر پوری اتر آتی ہے‘ اس ملک میں ایاز امیر جیسا بین الاقوامی صحافی دو کالم لکھنے پر نااہل ہو جاتا ہے مگر جنرل پرویز مشرف کو مارشل لاء لگانے‘ منتخب حکومت توڑنے‘ پورا آئین معطل کرنے‘ دوبار یونیفارم میں صدر بننے‘ عدلیہ کو محصور کرنے‘ ملک کو دہشت گردی کی نہ ختم ہونے والی جنگ میں دھکیلنے اور صدر کی حیثیت میں ڈانس کرنے کے باوجود الیکشن لڑنے کی اجازت مل جاتی ہے‘ اس ملک میں مخدوم امین فہمی این آئی سی ایل کیس میں ملوث ہونے کے باوجود الیکشن کے لیے اہل ہوجاتا ہے مگر جمشید دستی جیسا وہ لوئر مڈل کلاس شخص جس نے اپنے حلقے میں گورننس کا سارا پیٹرن تبدیل کر دیا وہ جیل میں جا گرتا ہے‘ یہ کیسا نظام ہے‘ یہ کیسا آئین ہے جو ایک شخص کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے اور دوسرے کو دوسری سے اور کوئی اس منافقت پر سوال نہیں اٹھاتا۔
شراب اسلام میں حرام ہے اور دنیا کا کوئی شخص اس حرام کو حلال میں نہیں بدل سکتا مگر یہ بھی حقیقت ہے یہ ملک 1947ء میں بنا لیکن شراب 1973ء میں غیر قانونی قرار پائی‘ ہم 26 سال تک خاموش کیوں رہے؟ اور ان 26 برسوں میں قائداعظم‘ خان لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین اور سردار عبدالرب نشتر جیسے لوگوں کی حکومتیں بھی آئیں‘ یہ ملک 1947ء میں بنا‘ متفقہ آئین 1973ء میں آیا لیکن آرٹیکل 62 اور 63 جنرل ضیاء الحق کے دور میں متعارف ہوا‘ ہم نے آئین کو 16سال تک 62 اور 63 سے کیوں محروم رکھا اور اگر یہ دفعات بہت اہم تھیں تو پھر مفتی محمود جیسے لوگوں نے انھیں 1973ء کے آئین میں شامل کیوں نہیں کرایا؟ ہمیں ماننا پڑے گا یہ منافقت ہے اور ہم نے جب تک خود کو ایسی منافقتوں سے پاک نہ کیا‘ ہمارے معاشرے کی اینٹیں اسی طرح ایک ایک کر کے گرتی رہیں گی‘ جنرل مشرف اہل ہوتے رہیں گے اور ایاز امیر نااہل قرار پاتے رہیں گے۔
اپنا متبادل نہیں بنا سکے
جاوید چوہدری اتوار 7 اپريل 2013
جیک ویلچ کی کامیابی کا سفر ماں کے ایک فقرے سے ہوا اور اس کے بعد وہ کسی جگہ رکا نہیں‘ اس کی والدہ عام ہائوس وائف تھی‘ یہ زیادہ پڑھی لکھی بھی نہیں تھی لیکن قدرت نے اسے ویژن سے مالا مال کر رکھا تھا اور یہ اسی ماں کا ویژن سے بھرپور فقرہ تھا جس نے اسے دنیا کا سب بڑا منیجر بنا دیا، یہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا چیف ایگزیکٹو بن گیا‘ جیک اسکول کی ہاکی ٹیم کا حصہ تھا‘ میچ ہوا اور اس کی ٹیم ہار گئی‘ جیک کو غصہ آگیا‘ اس نے ہاکی پھینکی اور اونچی آواز میں چیخنے چلانے لگا‘ اس کی ماں اسٹیڈیم میں موجود تھی‘ وہ سیدھی لاکر روم میں گئی اور جیک کی ٹیم کے سامنے اسے مخاطب ہوئی ’’ اگر تم ہارنا نہیں سیکھو گے تو تم کبھی جیتنا نہیں سیکھ سکو گے‘‘ یہ فقرہ تیر کی طرح جیک ویلچ کے دل میں لگا اور یہ اس کے بعد پوری زندگی ہارتا رہا اورہار کو کامیابی میں بدلتا رہا۔
جیک ویلچ اس صدی کا سب سے بڑا چیف ایگزیکٹو‘ چیئرمین یا منیجر تھا‘ اسے فارچون میگزین نے1999ء میں منیجر آف دی سینچری کا ایوارڈ دیا‘ یہ امریکا کے چار سو امیر ترین شہریوں میں بھی شمار ہوتا ہے‘ اس کی کتاب ’’جیک: اسٹریٹ فرام دی گٹ‘‘ پچھلی صدی میں سب سے زیادہ بکنے والی تین بڑی کتابوں میں شمار ہوتی ہے‘ اب تک اس کی کروڑوںکاپیاں فروخت ہو چکی ہیں‘ اس نے اسی اور نوے کی دہائی میں امریکا اور بعد ازاں پوری دنیا کی مینجمنٹ فلاسفی تبدیل کر دی‘ اس نے ادارے چلانے کی پوری سائنس بدل دی‘ جیک ویلچ کا والد ریلوے میں کنڈیکٹر تھا‘ جکو ویلچ نے 1960ء میں امریکی کمپنی جنرل الیکٹرک جوائن کی‘ یہ کمپنی میں جونیئر کیمیکل انجینئر تھا‘ یہ معمولی جاب تھی اور جیک ویلچ بڑی مدت تک یہ معمولی جاب کرتا رہا۔
اس دوران اس نے تنخواہ میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے نوکری چھوڑنے کا منصوبہ بھی بنایا اور 1963ء میں اس کی غلطی کی وجہ سے فیکٹری کی چھت اڑ گئی اور کمپنی نے بھی اسے فارغ کرنے کافیصلہ کر لیا‘ یہ قدرت کے کسی خفیہ ہاتھ کی وجہ سے جنرل الیکٹرک کا حصہ رہا‘ جنرل الرکٹخک اس وقت امریکا کی بڑی کمپنی تھی‘ اس کمپنی میں جاب عام پڑھے لکھے امریکی کی زندگی کا بڑا خواب ہوتی تھی مگر جیک ویلچ اس خواب کی انتہا چھونا چاہتا تھا‘ یہ کمپنی کا سربراہ بننا چاہتا تھا‘ یہ اپنی ہر ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا آرٹ سھک چکا تھا چنانچہ یہ بارہ سال بعد وائس پریذیڈنٹ بن گیا‘ پانچ سال بعد سینئر وائس پریذیڈنٹ ہوا۔
دو سال بعد وائس چیئرمین اور 1981ء میں بالآخر امریکا کا کم عمر ترین چیف ایگزیکٹو آفیسر اور چیئرمین بن گیا‘ یہ جیک ویلچ کے کیریئر کی بلندی تھی مگر یہ اس سے بھی آگے جانا چاہتا تھا اور یہ گیا‘ اس نے تین کمال کیے‘ یہ جنرل الیکٹرک کا چیئرمین بنا تو کمپنی کا سالانہ منافع 26 بلین 8 سو ملین ڈالر تھا‘ کمپنی اس پر مطمئن تھی‘ بورڈ آف ڈائریکٹرز کا خیال تھا اس منافع میں اضافہ ممکن نہیں چنانچہ بورڈ نے اسے اس منافع کو قائم رکھنے کی ذمے داری سونپ دی لیکن 2001ء میں جیک ویلچ ریٹائر ہوا تو جنرل الیکٹرک کا منافع 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا اور کمپنی کی مارکیٹ ویلیو 14 ارب ڈالر سے 410 ارب ڈالر ہو چکی تھی۔
یہ اس کا پہلا کمال تھا‘ اس کا دوسرا کمال مینجمنٹ کے نئے اصول تھے‘ یہ کہتا تھا آپ نمبر ون رہیں یا نمبر ٹو‘ آپ اگر اس کے بعد ہیں تو پھر آپ کے ہونے یا نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ‘ یہ اپنا ہر وہ پراجیکٹ بند کر دیتا تھا جو نمبر ون اور نمبر ٹو کی دوڑ سے نکل جاتا تھا‘ اس نے کمپنی سے بیورو کریسی ختم کر دی‘ اوپن ڈور پالیسی دی‘ یہ اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا خط خود فیکس کر دیتا تھا‘ اس نے احکامات کے درمیان موجود آفیسر ختم کر دیے‘ یہ خود بھی ملازم کو براہ راست کام کہتا تھا اور دوسروں سے بھی یہی امید رکھتا تھا‘ ایک وقت میں اس نے ایک لاکھ بیس ہزار بیکار ملازم فارغ کیے اور پورے امریکا میں نیوٹرون بم یا نیوٹرون جیک کے نام سے مشہور ہو گیا۔
یہ ہر سال کمپنی کے 20 فیصد بہترین ملازموں کو بونس دیتا تھا اور دس فیصد بدترین ملازموں کو فارغ کرتا تھا‘ اس نے جنرل الیکٹرک کا ہر وہ منصوبہ بند کر دیا جو نمبر ون یا نمبر ٹو نہیں تھا‘ اس منصوبے کے تمام اثاثے بیچ دیے اور ان اثاثوں اور ملازمین سے جو رقم بچی وہ دوسرے شعبوں میں لگا دی اور یوں کمپنی کے منافع میں اضافہ ہو گیا‘ یہ کمپنی کی اوپن میٹنگز بلاتا تھا جس میں کوئی بھی ملازم چیئرمین تک کے احکامات پر اعتراض کر سکتا تھا اور اس کی بات غور سے سنی جاتی تھی‘ یہ اپنے ملازمین کی کارکردگی رپورٹ خود تیار کرتا تھا‘ یہ ملازمین سے براہ راست ملتا تھا اور ان سے کمپنی کے معاملات ڈسکس کرتا تھا اور جیک ویلچ کا تیسرا کمال اپنے متبادل کی تیاری تھا۔
جیک ویلچ 20 سال جنرل الیکٹرک کا چیئرمین رہا‘ اس کے دور میں کمپنی ترقی کرتی رہی لیکن جیک ویلچ یہ سوچتا رہا میں جب اس کمپنی کو چھوڑ کر جائوں گا تو اس کی کیا حالت ہو گی‘ جیک ویلچ سوچتا تھا اگر میرے بعد کمپنی کو مجھ سے بہتر شخص نہ ملا تو میری ساری محنت اکارت جائے گی‘ جنرل الیکٹرک کا ’’ریونیو ڈائون‘‘ ہو جائے گا اور یوں ہماری کامیابی ناکامی میں بدل جائے گی چنانچہ اس نے اپنا متبادل تیار کرنا شروع کر دیا‘ اس نے کمپنی میں اور کمپنی کے باہر موجود بہترین دماغوں کا جائزہ لیا‘ انٹرویوز لیے اورجیفری ایمیلٹ کو اگلے چیئرمین کے لیے چن لیا۔
جیک ویلچ اسے دس سال تک ٹریننگ دیتا رہا‘ یہ اسے ہر میٹنگ میں ساتھ لے کر جاتا تھا‘ یہ اسے کمپنی کی باریکیوں کے بارے میں بتاتا اور اسے ماڈرن مینجمنٹ کے اصول سکھاتا ‘ جیک ویلچ نے 1999ء میں ریٹائر ہو جانا تھا‘ یہ ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچا تو اسے محسوس ہوا جیفری ایمیلٹ ابھی مکمل طور پر ٹرینڈ نہیں ہوا چنانچہ اس نے اپنی ریٹائرمنٹ ڈیڑھ سال کے لیے مؤخر کر دی اور اس نے 2001ء میں اس وقت ریٹائرمنٹ لی جب جیفری ایمیلٹ سو فیصد ٹرینڈ ہو چکا تھا‘ جیفری ایمیلٹ نے ستمبر 2001ء میں کمپنی سنبھالی ‘ یہ اب جیک ویلچ سے زیادہ بہتر ڈیلیور کر رہا ہے اور یہ جیک ویلچ کا سب سے بڑا کمال تھا۔
یہ کمال بعد ازاں ماڈرن مینجمنٹ بن گیا، آج آپ امریکا میں کمپنی کے لیے اپنا متبادل تیار نہیں کر سکتے تو آپ ادارے کے لیے خواہ کتنا ہی ریونیو پیدا کر لیں‘ آپ کتنے ہی تیر چلا لیں آپ ناکام سی ای او سمجھے جاتے ہیں‘ آپ کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا جب کہ ہمارے ملک میں اس کے برعکس ہوتا ہے‘ ہم اپنے اداروں‘ کمپنیوں اور فیکٹریوں میں چن چن کر اپنے سے زیادہ نالائق اور کمزور لوگ بھرتی کرتے ہیں تا کہ کوئی شخص ہماری جگہ نہ لے سکے اور ہماری جاب سلامت رہے‘ ہماری کوشش ہوتی ہے ہم جائیں تو ہمارے پیچھے اندھیرا ہی اندھیرا ہو‘ دفتروں‘ ملوں اور اداروں کو تالے لگ جائیں اور گلیوں میں بے روزگاری کا بھوت تلوار لے کر دوڑرہا ہو‘ ہم لوگ کچھ بھی نہ کریں تو بھی ہم لوگ جاتے جاتے کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈسک نکال کر لے جائیں گے۔
ہم چابیاں گم کردیں گے یا پھر فائلیں ضرور گیلی کر جائیں گے تا کہ ہمارے جانے کے بعد لوگ ہمارا سیاپا کرتے رہیں اور یہ رویہ ہمارا قومی المیہ ہے، ہم دکان سے لے کر حکومت اور مل سے لے کر سیاسی جماعت تک ملک کو اسی رویے کے ذریعے چلا رہے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت دیکھ لیجیے‘ آپ کو یہ لوگ انسان کم اور اژدھے زیادہ نظر آئیں گے کیونکہ انھوں نے آج تک اپنی پارٹی میں متبادل قیادت پیدا نہیں ہونے دی‘ یہ اپنی انا کے گملے میں نالائقوں اور خوشامدیوں کی پنیری لگاتے جا رہے ہیں چنانچہ ہمارے ملک میں جب بھی کسی جماعت کا کوئی قائد فارغ ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی پارٹی بھی تتر بتر ہو جاتی ہے‘ ہماری حکومتیں بھی جاتے ہوئے ایسے شاہکار نگراں مقرر کرجاتی ہیں کہ ہمیں ماضی کے مزار اچھے لگنے لگتے ہیں۔
ہمیں رحمن ملک‘ حفیظ شیخ‘ اسلم رئیسانی‘ قائم علی شاہ اور رانا ثناء اللہ فرشتے دکھائی دینے لگتے ہیں‘ میں اکثر سوچتا ہوں جو لوگ بیس تیس سال کی جہد مسلسل اور سیاسی کوشش کے باوجود اپنا ایک متبادل تیار نہیں کر سکے‘ یہ ملک کو کیا بنائیں گے‘ یہ ملک کو کیا بچائیں گے‘ جو لوگ آج تک بھٹو‘ میاں‘ مفتی محمود اور باچا خاندان سے باہر پارٹی کا قائد تلاش نہیں کر سکے‘ وہ نیا پاکستان کہاں سے تلاش کریں گے‘ یہ چھٹانک بھر کے وہ پرندے ہںے جو اپنے پیدا ہونے والے ہر بچے کو آسمان کا ستون سمجھتے ہیں لیکن اپنے گھونسلے کوبارش تک سے نہیں بچا سکتے۔
توقیر صادق نے سپریم کورٹ کو ہرا دیا
جاوید چوہدری جمعـء 5 اپريل 2013
توقیر صادق پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر بدر کے انتہائی قریبی عزیز ہیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں‘ یہ2004ء میںاوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) کے ڈائریکٹر لیگل تھے‘پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو یہ جہانگیر بدر کی مہربانی سے جولائی 2009ء میں اوگرا کے چیئرمین بن گئے‘ حکومت نے اس وقت تک سی این جی کے نئے لائسنسوں‘ سی این جی اسٹیشنوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور انڈسٹری کے غیر ضروری گیس کنکشن پر پابندی لگا دی تھی مگر توقیرصادق یہ پابندی توڑتے رہے اور انھوں نے نہ صرف تین سوسے زائد نئے سی این جی اسٹیشنز کی اجازت دے دی۔
بلکہ اسٹیشنز کی دوسرے شہروں اور مقامات پر تبدیلی‘ اربوں روپے کے ڈیفالٹرز کو معافی اور گیس کے منصوبوں میں اقرباء پروری کے تمام ریکارڈ توڑ دیے‘ ان کے بارے میں مشہور تھا کوئی بھی شخص انھیں بیس سے تیس لاکھ روپے دے اور جو چاہے کرا لے‘ ایک اندازے کے مطابق توقیر صادق نے 82 ارب روپے کی کرپشن کی‘ توقیر صادق کی تقرری کا ایشو اکتوبر2010ء میں سپریم کورٹ میں گیا اور کورٹ نے 25 نومبر 2011ء کو توقیر صادق کی تقرری کو کالعدم قرار دے دیا اوران کو تنخواہیں اور مراعات واپس کر نے کا حکم جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ نے بعد ازاں اوگرا میں ہونے والی 82 ارب روپے کی کرپشن کا نوٹس لیااور توقیر صادق کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی‘ عدالت نے 5 اکتوبر 2012ء کو توقیر صادق کی گرفتاری کا حکم دے دیا‘ توقیر صادق کا نام ای سی ایل پرڈال دیا گیا‘ ان کا پاسپورٹ بھی منسوخ ہو گیا لیکن یہ طاقتور لوگوں کے رشتے دار اور ساتھی تھے چنانچہ طاقتوروں نے ان کا ساتھ دیا‘ ان کو نیا پاسپورٹ جاری کیا گیااور انھیں ای سی ایل پر ہونے کے باوجود باہر جانے کا موقع دے دیا گیا اور یوں توقیر صادق 10 دسمبر 2012ء کو کراچی سے کھٹمنڈو اور پھر متحدہ عرب امارات چلے گئے۔
سپریم کورٹ کو ان کی بیرون ملک موجودگی کی اطلاع 19 دسمبر2012ء کو ہوئی‘ عدالت نے حکومت کو توقیر صادق کو گرفتار کرنے اور عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا اور یہاں سے وہ کہانی شروع ہوئی جو اس کالم کا محرک ہے اور آپ یہ کہانی پڑھ کر بڑی آسانی سے اندازہ لگا لیں گے‘ ہماری بیورو کریسی اگر نہ چاہے تو سپریم کورٹ ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ریاست کے کسی ادارے سے اپنا حکم نہیں منوا سکتی اور یوں انصاف فائلوں میں بند ہو کر رہ جاتا ہے۔
توقیر صادق ابوظہبی چلا گیا‘ سپریم کورٹ نے حکومت کو سختی سے اس کی گرفتاری کا حکم دیا‘ حکومت اس پر عمل کی پابند تھی چنانچہ اس نے تین رکنی ٹیم بنائی اور اسے یو اے ای بھجوا دیا‘ اس ٹیم نے قانونی طریقہ اختیار کرنے یعنی پاکستان میں یو اے ای کے سفارتخانے‘ ابوظہبی انتظامیہ اور انٹرپول کو اعتماد میں لینے کے بجائے سیر کے ویزے لگوائے اور ابوظہبی چلی گئی‘ یہ ٹیم سیر کے ویزے پر یو اے ای میں کوئی سرکاری کام نہیں کر سکتی تھی‘ یہ اس ٹیم کی پہلی بدنیتی یا نالائقی تھی‘ یہ لوگ ابوظہبی پہنچنے کے بعد ایک پاکستانی ڈاکٹر سے ملے۔
یہ ڈاکٹر صاحب شاہی خاندان کے طبیب ہیں اور یہ اس حیثیت کی وجہ سے مقامی بیورو کریسی میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، ڈ اکٹر صاحب نے یو اے ای کی سی آئی ڈی کے چند درمیانے درجے کے افسروں سے ان کی سفارش کی‘ سی آئی ڈی نے توقیر صادق کو تلاش کیا اور ہماری ٹیم کے ساتھ مل کر اسے 29 جنوری کو گرفتار کر لیا‘ گرفتاری کے بعد ہماری ٹیم اگر یو اے ای کی حکومت کو سپریم کورٹ کا آرڈر دے دیتی یا حکومت کو یہ لکھ کر دے دیتی توقیر صادق کا پاسپورٹ منسوخ ہو چکا ہے‘ یہ جعلی پاسپورٹ پر ابوظہبی میں موجود ہے اور یہ پاکستان سے اشتہاری ہے تو مقامی حکومت توقیر صادق کو اسی وقت ’’ڈی پورٹ‘‘ کر دیتی اور یوں ہماری ٹیم اسے ساتھ لے آتی لیکن ہماری ٹیم اسے یو اے ای میں چھوڑ کر واپس آ گئی اور اس نے پاکستان میں آ کر اعلان کر دیا ’’ توقیر صادق 24 گھنٹے میں پاکستان آ جائے گا‘‘ ہماری ٹیم نے پاکستان آنے کے بعد یو اے ای سے کسی قسم کاکوئی سرکاری رابطہ نہیں کیا۔
چنانچہ ابوظہبی انتظامیہ نے توقیر صادق کو جیل بھجوا دیا‘ ہمارے پاس اس کے بعد صرف ایک آپشن تھا‘ پاکستان اور یو اے ای کے درمیان 2004ء میں تحویل مجرمان کا معاہدہ ہوا تھا‘ ہم اس معاہدے کے تحت توقیر صادق کو پاکستان لا سکتے تھے‘ یو اے ای کی حکومت نے توقیر صادق کے کاغذات یو اے ای انٹرپول کے حوالے کر دیے‘ یو اے ای انٹرپول نے یہ کاغذات پاکستانی انٹرپول کے حوالے کر دیے‘ پاکستانی انٹرپول نے روٹین کے مطابق یہ کاغذات ہماری وزارت خارجہ کو بھجوا دیے، ہماری وزارت خارجہ نے یہ کاغذات وزارت داخلہ کو روانہ کر دیے اور وزارت داخلہ نے یہ کاغذات نیب کے حوالے کر دیے‘ نیب نے ایف آی اے کو دے دیے۔
پاکستان اور یو اے ای کے درمیان تحویل مجرمان کے معاہدے میں 16 نکات ہیں اور ہماری حکومت جب تک یہ 16 نقطے پورے نہیں کرتی یو اے ای ہمارا مجرم ہمارے حوالے نہیں کر سکتی‘ ان نکات میں مجرم کے خلاف مقدمے کی سمری‘ عدالت کا فیصلہ‘ گواہوں کے بیان اور چارج شامل ہیں‘ معاہدے کے مطابق ہماری حکومت یہ تمام مواد عربی میں ترجمہ کر کے اس کی وزارت خارجہ سے تصدیق کرائے گی‘ وزارت خارجہ یہ دستاویزات یو اے ای میں پاکستانی سفارتخانے بھجوائے گی‘ ہمارا سفارتخانہ یہ ڈاکومنٹ یو اے ای کی وزارت خارجہ کے حوالے کرے گی۔
یو اے ای کی وزارت خارجہ یہ کاغذات جسٹس منسٹری بھجوائے گی اور جسٹس منسٹری یہ ڈاکومنٹس عدالت میں پیش کرے گی‘پاکستان نے تحویل مجرمان کے معاہدے کے مطابق یہ سارا عمل پندرہ دن میں مکمل کرنا تھا‘ ایف آئی اے کے حکام اس عمل سے واقف تھے لیکن یہ خاموش بیٹھے رہے‘ حکومت نے توقیر صادق کو 15 فروری کو عدالت میں پیش کرنا تھا‘ ہماری تفتیشی ٹیم بارہ تیرہ فروری تک چپ بیٹھی رہی جوں ہی توقیر صادق کی تاریخ قریب آئی یہ لوگ سپریم کورٹ چلے گئے اور سپریم کورٹ نے انھیں یو اے ای کی عدالت سے نئی تاریخ لینے کا حکم دے دیا‘ ہماری ٹیم عدالتی آرڈر لے کر ابوظہبی پہنچ گئی اور سپریم کورٹ کا حکم سفیر کو پکڑا دیا‘ سفیر جمیل احمد خان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے‘ ہماری تفتیشی ٹیم ان پر جانبداری کا الزام لگا چکی تھی لہٰذا سفیر کو اس حکم میں اپنی جیل صاف دکھائی دے رہی تھی۔
یہ دوڑا‘ اس نے ذاتی اثر و رسوخ استعمال کیا اور یو اے ای عدالت سے مزید 15 دن لے لیے‘ توقیر صادق کی تحویل کی اگلی تاریخ 27 فروری تھی‘ ہماری ٹیم واپس آئی اور دوبارہ سو گئی‘ 24 فروری کو ان لوگوں نے چند کاغذات جمع کیے اور یہ ان کا ترجمہ کرائے بغیر‘ وزارت خارجہ سے تصدیق کرائے بغیر اور سفارتی چینل استعمال کیے بغیر ابوظہبی پہنچ گئے‘ معاہدے کے مطابق نکات بھی پورے نہیں تھے‘ یہ لوگ 27 فروری کو سفیر کو لے کر عدالت میں پیش ہو ئے‘ جج نے کاغذات دیکھے تو وہ ناراض ہو گیا‘ اس نے سفیر اور ہماری ٹیم کی بے عزتی کی‘ کاغذات پورے کرنے اور پراپر چینل استعمال کرنے کا حکم دیا اور 15 اپریل کی تاریخ دے دی‘ یہ آخری تاریخ ہے‘ ہماری تفتیشی ٹیم نے اگر اس تاریخ پر بھی کاغذات مکمل نہ کیے اور انھوں نے پراپر چینل استعمال نہ کیا تو یو اے ای کی عدالت توقیر صادق کورہا کر دے گی اور پھر ہم شاید اسے کبھی پاکستان نہ لا سکیں اور یہ ہماری بیورو کریسی کا کمال ہو گا۔
میں ہرگز ہرگز یہ نہیں کہتا یہ لوگ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں‘ ہو سکتا ہے یہ نااہلی‘ سستی اور نالائقی ہو مگر اس نالائقی‘ سستی اور نااہلی سے پاکستان کا امیج بھی خراب ہو رہا ہے اور توقیر صادق بھی شکنجے سے نکل رہا ہے‘ یو اے ای کی حکومت اور عدالت کاغذات کا انتظار کر رہی ہے جب کہ ہمارے ہاں توقیر صادق کے سمن اس کے لاہور کے گھر میں پھینکے جا رہے ہیں‘ میری سپریم کورٹ بالخصوص چیف جسٹس سے درخواست ہے یہ فوری طور پر پاکستان اور یو اے ای کے تحویل مجرمان کا معاہدہ منگوائیں اور نیب اور ایف آئی اے کو حکم جاری کریں یہ دو دن میں پروسیجر مکمل کر کے یو اے ای میں پاکستانی سفارتخانے بھجوا دیں اور اس کے بعد سفیر کو حکم دیا جائے۔
یہ کاغذات یو اے ای کی وزارت خارجہ پہنچائے‘ کاغذات کا پیچھا کرے‘ یو اے ای کی جسٹس منسٹری کا عمل پورا کرے اور 15 اپریل سے پہلے یہ تمام کاغذات ابوظہبی عدالت میں جمع کرا دے‘ سپریم کورٹ ایف آئی اے اور نیب کی تفتیشی ٹیم سے بھی پوچھے ان لوگوں نے سرکاری چینل استعمال کیوں نہیں کیا؟ یہ وزٹ ویزوں پر یو اے ای کیوں جاتے رہے‘ یہ توقیر صادق کو 29 جنوری 2013ء کو ڈی پورٹ کرا کر پاکستان کیوں نہیں لائے‘ انھوں نے کاغذات پورے کیوں نہںٹ کیے اور یہ صرف آخری دنوں میں سپریم کورٹ اور یو اے ای کی عدالت میں کیوں جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ پوچھے گی تو تفتیشی ٹیم کی نااہلی یا جانبداری کا پول کھل جائے گا اور یوں عدالت کے لیے اگلے فیصلے آسان ہو جائیں گے لیکن سپریم کورٹ نے یہ دس دن بھی ضایع کر دیے‘ توقری صادق کی تحویل کے لیے پراپر چینل استعمال نہ ہوا تو یہ یو اے ای کی جیل سے رہا ہو جائے گا اور شاید اس کے بعد ہم کبھی توقیر صادق کو گرفتار نہ کرا سکیں اور یوں قوم کے 82 ارب روپے بیورو کریسی کی چال بازیوں یا نالائقیوں کی دلدل میں دفن ہو جائیں گے اور انصاف چند چیختے بلبلاتے فیصلوں کا مرثیہ بن کر رہ جائے گا اور جمہوریت کی طرح ہماری آزاد عدلیہ بھی ناکام ہو جائے گی‘ توقیر صادق کاریگر آدمی ہے‘ یہ اب تک سپریم کورٹ کو شکست دے چکا ہے‘ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔
پتہ نہیں
جاوید چوہدری بدھ 3 اپريل 2013
ازبک معاشرے کے چار بڑے کمالات ہیں‘ اس کا پہلا کمال ’’ لاء اینڈ آرڈر‘‘ ہے‘ پورے ملک میں قانون کی پابندی ہوتی ہے‘ حکومت قانون کی کوئی خلاف ورزی برداشت نہیں کرتی‘ پورا ملک اسلحہ سے پاک ہے‘ آپ کو کسی گلی‘ سڑک اور عمارت کے سامنے گارڈ نظر نہیں آتا‘ آپ کو پورے ملک میں چاقو اور ڈنڈا تک دکھائی نہیں دیتا اور آپ سڑکوں پر پولیس کی گاڑیاں بھی نہیں دیکھتے‘ ڈاکٹر رازق داد کے مطابق پچھلے پندرہ برسوں میں انھوں نے چوری کی صرف چار وارداتیں سنیں اور ان میں بھی چور گھر کی کھڑکی توڑ کر چند ہزار روپے مالیت کی اشیا اٹھا کر لے گئے تھے‘ قتل کی واردات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ازبکستان میں پچھلے دس برسوں میں کوئی گاڑی چوری نہیں ہوئی۔
ازبکستان غریب ملک ہے‘ عام لوگوں کی آمدنی سو ڈالر سے زیادہ نہیں ہوتی مگر یہ اس کے باوجود جرائم کی طرف قدم نہیں اٹھاتے کیونکہ یہ جانتے ہیں یہ جرم تو کر لیں گے مگر یہ پولیس اور عدالت سے نہیں بچ سکیں گے چنانچہ یہ روکھی سوکھی کھا لیتے ہیں لیکن کسی کی چیز اٹھانے یا کسی کو لوٹنے کا نہیں سوچتے‘ جرائم کی کمی کی بڑی وجہ مذہبی طبقے پر حکومت کی مضبوط گرفت بھی ہے‘ ملک کی تمام مساجد حکومت کے کنٹرول میں ہیں‘ لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن یہ اپنی آزادی کا دائرہ دوسروں کے عقائد تک نہیں پھیلا سکتے‘ نماز صرف گھر اور مسجد میں ادا کی جا سکتی ہے‘ آپ دفتر یا کھلی جگہ پر نماز نہیں پڑھ سکتے‘ آپ تبلیغ بھی نہیں کر سکتے اور آپ مذہب پر اختلافی کتاب بھی نہیں لکھ سکتے‘ مساجد میں امام کا تعین حکومت کرتی ہے اور امام صرف نماز پڑھا سکتا ہے‘ جمعہ کا خطبہ بھی حکومت طے کرتی ہے لہٰذا کوئی عالم ازبکستان میں اختلافی بات نہیں کرتا اور یوں معاشرہ اختلاف‘ شدت اور ظلم سے آزاد ہے۔
اس چیز نے بھی جرائم کنٹرول کر رکھے ہیں‘ لاء اینڈ آرڈر کی اچھی صورتحال کی وجہ سے لوگوں کے چہروں پر اطمینان ہے‘ آپ کو لوگوں کے چہروں پر ٹینشن‘ پریشانی‘ اذیت یا شدت دکھائی نہیں دیتی‘ یہ مسکراتے ہوئے سڑکوں اور گلیوں میں چل پھر رہے ہوتے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں پاکستان لاء اینڈ آرڈر کی بدترین صورتحال کا شکار ہے‘ آپ کو سڑکوں اور گلیوں میں ہتھیار بردار لشکر نظر آتے ہیں‘ ملک کے تمام شہروں میں سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں کے باہر مسلح گارڈز دکھائی دیتے ہیں‘ آپ شاپنگ سینٹروں‘ دکانوں اور ریستورانوں میں بھی گارڈز دیکھتے ہیں‘ گاڑیوں میں بھی کمانڈوز ہوتے ہیں حتیٰ کہ ملک میں اسلحہ بردار محافظوں کے بغیر اب مسجدوں میں نماز اور قبرستانوں میں جنازہ ممکن نہیں رہا‘ ملک میں گاڑیاں چھیننا‘ اغواء برائے تاوان‘ ڈکیتی‘ چوری اور قتل ہماری زندگی کا معمول بن چکا ہے‘ ہمارے چینلز پر اوسطاً ہرآدھ گھنٹے میں قتل و غارت گری کی ایک خوفناک بریکنگ نیوز آتی ہے‘ان خبروں نے بید پورے ملک کا مزاج بدل دیا ہے جب کہ اسلام آباد سے ایک گھنٹے پچاس منٹ کی فلائٹ کے بعد یہ صورتحال یکسر بدل جاتی ہے۔
ازبکستان کا دوسرا کمال سیاحت ہے‘ حکومت نے ملک کو سیاحوں کے لیے قابل قبول بنا دیا‘ ازبکستان میں غیر ملکی سیاحوں کی ضرورت کی تمام سہولتیں موجود ہیں‘ حکومت نے بخارا‘ سمر قند‘ خیوا اور تاشقند کی پرانی عمارتوں کی تزئین کر کے تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا‘ گرمیوں میں یورپ سے لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں‘ یہ دن بھر پرانی عمارتوں میں ماضی کے آثار تلاش کرتے ہیں اور شام کے وقت ریستورانوں‘ کلبوں اور بارز میں بیٹھ جاتے ہیں‘ ازبکستان میں ہوٹلز‘ ریستوران اور چائے خانے سستے ہیں‘ آپ کو رات کے وقت یہ تمام جگہیں آباد نظر آتی ہیں‘ یہ لوگ موسیقی کے دل دادہ ہیں لہٰذا تمام ریستورانوں میں لائیو میوزک چل رہا ہوتا ہے۔
رقاصوں کے طائفے بھی آتے ہیں اور ازبکستان کا مخصوص رقص پیش کرتے ہیں‘ یہ روایت دنیا کو ازبکستان کا متوازن چہرہ پیش کرتی ہے‘ میرے جیسے لوگ حضرت عثمان غنیؓ کے قرآن مجید اور حضرت امام بخاریؒ‘ حضرت بہاؤالدین نقش بندیؒ اور امام ترمذیؒ کے مزارات پر حاضری دینے کے لیے ازبکستان جاتے ہیں جب کہ یورپ کے لوگ تاریخ اور آج کی حسیناؤں کا رقص دیکھنے کے لیے وہاں پہنچ جاتے ہیں‘ مساجد اور خرابات دونوں آباد ہیں اور کوئی دوسرے پر اعتراض نہیں کر رہا‘ کوئی دوسرے کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا‘ ازبکستان کا تیسرا کمال ازبک لوگوں کی مہمان نوازی اور شائستگی ہے‘ یہ لوگ بہت حلیم‘ سادہ اور خوش مزاج ہیں‘ یہ کھانے کی میز سجانے کے ماہر ہیں‘ آپ ان کی میز پر بیٹھ جائیں تو یہ میز کو کھانے کی درجنوں چیزوں سے بھر دیں گے‘ آپ ریستوران میں چلے جائیں تو آپ کھانے سے قبل سلاد‘ چائے اور ڈرائی فروٹ دیکھ کر پریشان ہو جائیں گے۔
ہم سمرقند ریلوے اسٹیشن کے سامنے کبابوں کی ایک دکان پر رک گئے‘ یہ فضول قسم کا ڈھابہ تھا‘ ہم لوگ اس کے واش روم کے قریب تک سے نہیں گزر سکتے تھے‘ ہم نے وہاں چھ کبابوں کا آرڈر دیا لیکن ان لوگوں نے بھی مختلف قسم کی چٹنیوں‘ سلاد‘ نان اور دہی سے میز بھر دی‘ ہم ریستورانوں میں جاتے تھے تو تین چار گھنٹوں سے پہلے فارغ نہیں ہوتے تھے‘ پورے ازبکستان میں میز پوری دوپہر یا رات گئے کے لیے بک ہوتی ہے اور آپ جب تک چاہیں میز پر بیٹھ سکتے ہیں‘ یہ روایت بھی ازبکستان کو دنیا کے دوسرے ممالک سے ممتاز کرتی ہے‘ دنیا میں لوگ ریستوران میں آتے ہیں‘ کھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن ازبکستان میں آپ ریستوران میں آتے ہیں اور جانا بھول جاتے ہیں اور ازبکستان کا چوتھا کمال ٹرانسپورٹ ہے‘ شہر کی تقریباً تمام گاڑیاں ٹیکسیاں ہیں‘ آپ کسی گاڑی کو اشارہ کریں وہ ایک دو ڈالر لے کر آپ کو آپ کی منزل تک پہنچا دے گی۔
تاشقند شہر میں انڈر گراؤنڈ میٹرو بھی موجود ہے ‘ ٹرام بھی اور بسیں بھی‘ ان کی ریلوے یورپی اسٹینڈرڈ کے برابر نہیں لیکن اس کے باوجود وہاں ٹرینیں وقت پر چلتی ہیں اور ان میں فرسٹ اور سیکنڈ کلاس دونوں موجود ہیں ‘ اپ اپنا ’’کوپے‘‘ بھی بک کروا سکتے ہیں‘ تاشقند سے سمر قند تک بلٹ ٹرین سروس بھی موجود ہے‘ یہ یورپین اسٹینڈرڈ کی برق رفتار آرام دہ ٹرین ہے جو آپ کو سوا دوگھنٹے میں سمر قند سے تاشقند اور تاشقند سے سمر قند پہنچا دیتی ہے‘ ازبکستان ائیر لائنز نے نئے جہاز خریدے ہیں‘ یہ جہاز پوری دنیا مںر جاتے ہیں ‘اندرون ملک بھی ہوائی سفر سستا ہے ‘ آپ پانچ چھ ہزار روپے میں تاشقند سے بخارا جاسکتے ہیں چنانچہ آپ کو ازبکستان میں ٹرانسپورٹ کا کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا جب کہ ہم اس کے مقابلے میں کہیں پیچھے ہیں‘ہمارا ہوائی سفر مہنگا بھی ہے اور غیر یقینی بھی‘ آپ کو اسلام آباد تک میں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ملتی۔
ہماری حکومت اگر سنجیدگی دکھائے‘ازبکستان کے ساتھ سیاحتی معاہدے کرے ‘ ویزے مزید آسان کرائے‘ ٹور آپریٹرز کو سہولتیں دے تو ازبکستان اور پاکستان کے درمیان سیاحتی آمدورفت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے‘ ہم ازبکستان سے بہت کچھ سیکھ بھی سکتے ہیں‘ہمارے پاس ٹیکسلا‘ کٹاس‘ لاہور‘ ملتان‘ ہڑپہ اور موہنجو داڑو جیسی ایسی درجنوں جگہیں ہیں جنھیں ہم بخارا اور سمرقند سے زیادہ بڑی سیاحتی فیکٹری بنا سکتے ہیں‘ ہم اگر ان علاقوں میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر بنا دیں‘ ہم یہاں سیاحتی سہولتیں پیدا کر دیں اور ان سیاحتی مقامات کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کر دیں تو ہم بھی ازبکستان کی طرح لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں‘ ہم اس سے کروڑوں ڈالر سالانہ بھی کما سکتے ہیں اور دنیا میں اپنا بگڑتا ہوا تاثر بھی ٹھیک کر سکتے ہیں مگر ہم شاید سب کچھ ہیں لیکن سمجھ دار اور پاکستانی نہیں ہیں‘ ہم اس ملک کے لیے کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ پتہ نہیں ہم کیا کرنا چاہتے ہیں‘ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں۔
ازبکستان میں دوسری بار
جاوید چوہدری پير 1 اپريل 2013
ظہر کی اذان ہو چکی تھی‘ وضو خانے میں رش تھا‘ ہم نے وضو کیا اور مسجد کی طرف دوڑ پڑے‘ا مام بخاریؒ کی مسجد میں خنکی تھی‘ حامد میر پہلی رکعت میں پہنچ گئے جب کہ میں تیسری رکعت میں نماز میں شامل ہو گیا‘ امام صاحب ثمر قند کے قدیم علماء کے لباس میں ملبوس تھے‘ ان کی تلاوت میں ترنم اور جوش دونوں موجود تھے‘ مجھے امام بخاریؒ کی مسجد میں دوسری بار نماز کی سعادت حاصل ہوئی‘ میں رکوع و سجود کے دوران اس سعادت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہا‘مسجد سے نکلے تو باہر گرمی تھی‘ ہم امام بخاریؒ کے مزار کی طرف چل پڑے‘ مزار پر رش تھا‘ گائیڈ آ رہے تھے اور سیاحوں کو امام بخاریؒ کی شخیتر کے بارے میں معلومات دے رہے تھے اور ہم چپ چاپ سن رہے تھے۔
یہ میرا ازبکستان کا دوسرا سفر تھا‘ عطاء الحق قاسمی اور حامد میربھی ساتھ تھے‘ ہم ازبکستان حکومت کے مہمان تھے‘ ہم 29 مارچ کو اسلام آباد سے روانہ ہوئے اور 31 مارچ کی رات واپس پاکستان پہنچ گئے‘ ازبک ائیر لائین کے حامد محمود اور میرے دوست ڈاکٹر رازق داد بھی ہمارے ساتھ تھے‘ ڈاکٹر رازق داد تاشقند میں کاروبار کرتے ہیں‘ ان کی بیگم ازبک ہیں‘ یہ حکومت کے اسپتالوں میں طبی آلات سپلائی کرتے ہیں اور ازبکستان میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں‘ یہ آج کل جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر پی پی 19 سے ایم پی اے کا الیکشن لڑ رہے ہیں‘ یہ محنتی اور مخلص انسان ہیں اوریہ اسی طرح محنت کرتے رہے تو یہ جیت بھی جائیں گے‘ یہ الیکشن میں مصروف تھے لیکن یہ عطاء الحق قاسمی اور حامد میر کی محبت میں ہمارے ساتھ چل پڑے۔
ہم جمعہ کے دن سیدھے ہست امام گئے اور حضرت عثمان غنیؓ کے اس قرآن مجید کی زیارت کی جس کی تلاوت کے دوران آپؓ کو شہید کر دیا گیا‘ یہ دنیا کا پہلا تحریری قرآن مجید ہے‘ یہ قرآن مجید ہرن کی کھال پر تحریر ہے اور یہ اعراب کے بغیر ہے‘ حضرت عثمان غنی ؓ18 ذوالحجہ 35 ہجری(17 جون 656ء) کو تلاوت کر رہے تھے کہ آپؓ پر حملہ ہوا اور آپؓ کو قرآن مجید پڑھتے ہوئے شہید کر دیا گیا‘ آپؓ کے لہو سے قرآن مجید کے اوراق رنگین ہو گئے‘ حضرت عثمان ؓ کے لہو کے نشان آج تک قرآن مجید پر موجود ہیں‘ یہ نسخہ امیر تیمور کو بغداد کی فتح کے بعد ملا اور یہ تیموری خاندان کی ملکیت رہا‘ ازبکستان پر قبضے کے بعد روسی ثمر قند‘ بخارا اور تاشقند کے تمام مقدس نوادرات ساتھ لے گئے‘ یہ نوادرات بعد ازاں کروڑوں ڈالرز میں بیچ دیے گئے لیکن ازبک لوگوں نے حضرت عثمانؓ کا قرآن مجید ان کی دست برد سے بچا لیا‘ یہ نسخہ تاشقند لایا گیااور اسے ہست امام کے حجرے میں چھپا کر اس کے سامنے دیوار چنوا دی گئی‘ تاشقند کے لوگ تقریباً سو سال تک اس نسخے کی حفاظت کرتے رہے۔
یہ نسخہ1991ء میں ازبکستان کی آزادی کے بعد باہر نکالا گیا‘ حجرے کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا اور یہ قرآن مجید زیارت کے لیے عام کر دیا گیا‘ دنیا میں اس قرآن مجید کی پچاس کاپیاں موجود ہیں‘ ان میں سے ایک کاپی تاشقند کے امیر تیمور میوزیم اور دوسری استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں بھی رکھی ہوئی ہے‘ یہ بھی دیکھنے میں اصل لگتی ہیں لیکن حضرت عثمان غنی ؓ کا اصل نسخہ ہست امام کے کمپاؤنڈ میں موجود ہے‘ میں 21ستمبر 2012ء کو پہلی بار تاشقند آیا تو مجھے اس نسخے کی زیارت کا موقع ملا‘ مجھے یہ سعادت اس ٹور میں دوسری بار نصیب ہوئی‘ میری نگاہوں نے جوں ہی حضرت عثمان غنیؓ کے لہو کے نشانوں کو چھوا‘ میری آنکھیں نم ہو گئیں اور میں حضرت عثمان غنی ؓ کی مظلومیت پر تڑپ اٹھا‘ یہ اسلام اور مسلمانوں کے محسن تھے‘ آپؓ کے گھر نبی اکرمؐ کی دو صاحبزادیاں رہیں لیکن اقتدار کس قدر خوفناک چیز ہوتی ہے آپ اس کا اندازہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت سے لگا لیجیے‘ محسن اسلام او ر داماد رسولؐ مدینہ منورہ میں صحابہؓ کے دور میں دن دیہاڑے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیے گئے اور ان کی نعش تین دن تک قرآن مجید پر پڑی رہی۔
آپ ؓ کو بعد ازاں رات کی تنہائی میں دفن کیا گیا‘ آپؓ کے جنازے میں 15 سے 18 لوگ شامل تھے‘ ظالموں نے جنت البقیع میں آپؓ کی تدفین تک کی اجازت نہ دی‘ آپ ؓ کو جنت البقیع کے قریب کھجوروں کے باغ میں دفن کیا گیا‘ اللہ تعالیٰ کو آپؓ اس قدر محبوب تھے کہ اس نے جنت البقیع کو اس باغ تک پھیلا دیا چنانچہ آپؓ کا مرقد جنت البقیع میں آ گیا‘ حضرت عثمانؓ کی مظلومیت نے ہم پر بھی عظیم احسان کیا‘ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے وہ قریبی ساتھی ہیں جن کی قبر ظاہر ہے اور ہم جیسے گناہ گار نہ صرف اس قبر کی زیارت کر سکتے ہیں بلکہ ہم آپ کے قدموں میں کھڑے ہو کر دعا بھی کر سکتے ہیں‘ مجھے متعدد مرتبہ آپؓ کے مرقد کی زیارت کا موقع ملا‘ مجھے اللہ تعالیٰ نے آپؓ سے منسوب قرآن مجید کے دونوں نسخوں کی زیارت کا اعزاز بھی بخشا‘ میں کل انشاء اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے ان دونوں نسخوں اور حضرت عثمان ؓ کے مرقد مبارک کی تصویر فیس بک اور اپنی ویب سائیٹ پر چڑھا دوں گاتا کہ آپ احباب بھی ان کی زیارت کرسکیں۔
حضرت امام بخاریؒ ہماری دوسری منزل تھے‘ نسل انسانی نے آج تک آپؒ جیسی دوسری شخصیت پیدا نہیں کی‘ آپؒ چالیس سال تک مکہ‘ مدینہ‘ بغداد‘ قاہرہ اور دمشق سے احادیث جمع کرتے رہے‘ آپؒ نے چھ لاکھ احادیث جمع کیں اور بعد ازاں 7275 متفقہ احادیث مرتب کر کے صحیح بخاری جیسی معرکۃ الآراء کتاب میں تحریر کیں‘ یہ احادیث مبارکہ کی مصدقہ اور نابغہ کتاب ہے‘ اس کتاب نے امام بخاریؒ کے نام کو دوام بخش دیا‘ امام بخاریؒ نے ثابت کر دیا‘ انسان کا جذبہ سچا ہو تو یہ ساڑھے گیارہ سو سال پہلے جب اچھی سیاہی اور اچھا قلم بھی ایجاد نہیں ہوا تھا‘ یہ اس وقت بھی نہ صرف چھ لاکھ احادیث جمع کر سکتا ہے بلکہ یہ اس کے حوالے بھی دریافت کر سکتا ہے اور یہ کام اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم کے بغیر ممکن نہیں‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے دوسری بار امامؒ کے مزار پر حاضر ہونے اور آپؒ کی مسجد میں نماز پڑھنے کی سعادت بخشی‘ ہمارے لیے دوسری بار آپؒ کے مزار کا دروازہ کھولا گیا اور ہم آپؒ کی قبر کے ساتھ بیٹھ کر دعا مانگ کر آئے‘ حامد میر بھی میرے ساتھ تھے اور مجھے ان کی آنکھوں میں عقیدت اور محبت کی نمی دکھائی دے رہی تھی۔
میں پچھلی بار حضرت قثم ابن عباسؓ کے مزار پر حاضر ہوا تھا‘ آپؓ نبی اکرمؐ کے چچا حضرت عباسؓ کے صاحبزادے تھے‘ آپؓ نے نبی اکرم ؐ کو لحد میں اتارنے کی سعادت بھی حاصل کی تھی‘ آپؓ دنیا کی واحد شخصیت ہیں جنھیں رسول اللہ ﷺ کی لحد میں اترنے اور آپؐ کا جسد اطہر اٹھا کر لحد کی پاک مٹی پر رکھنے کی سعادت حاصل ہوئی‘ آپؓ جوانی میں ثمر قند تشریف لے آئے اور اس علاقے میں اسلام پھیلانے لگے‘ مقامی لوگ آپؓ کے دشمن ہو گئے چنانچہ آپؓ کو شہید کر دیا گیا مگر لوگوں کا خیال ہے آپؓ کی شہادت کے بعد آپؓ کا جسد اطہر غائب ہو گیا‘ آپؓ کا صرف سر مبارک دنیا میں رہا‘ اس معجزے کی وجہ سے ثمر قند کے لوگ آپ ؓ کو شاہ زندہ کہتے ہیں‘ میں پچھلے سفر میں حضرت قثم ابن عباسؓ کے مزار پر پہنچا لیکن میں مزار کے تعویز تک نہ پہنچ سکا‘ مزار کا کلید بردار اس دن چھٹی پر تھا‘ میں نے جالی کے نزدیک کھڑے ہو کر سلام کاا‘ فاتحہ پڑھی اور صاحب مزار سے عرض کیا‘ آپؓ اگر اجازت دیں تو میں آپؓ کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے دوبارہ حاضر ہو جاؤں‘ میری عرض سن لی گئی چنانچہ میں نہ صرف دوسری بار ثمر قند پہنچا بلکہ اس دن کلید بردار بھی مزار میں موجود تھا‘ ہماری درخواست کے بغیر اس نے مزار کا دروازہ کھول دیا اور میں اور حامد میر اندر داخل ہو گئے‘ ہم نے صاحب مزار کے پاؤں میں بیٹھ کر سلام بھی پیش کیا‘ فاتحہ بھی پڑھی اور دعا بھی کی۔
ہم باہر نکلے تو باہر گمنام قبروں اور مزاروں کا طویل جنگل تھا‘ یہ لوگ شاہی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ امیر تیمور کے خاندان میں پیدا ہوئے اور ان میں سے اکثر لوگ اپنے دور کے راجہ پرویز اشرف‘ صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف تھے مگر پھر وقت نے انھیں خاک اور گم نامی کا پیوند بنا دیا اور آج ان کے مزار اور قبریں تو موجود ہیں لیکن ان کے نام‘ عہدے اور اثاثے گم نامی کا فضلہ بن چکے ہیں‘ یہ خاک میں مل کر خاک ہو چکے ہیں اور تاریخ ان کا نام تک بھول چکی ہے‘ ہم جب حضرت ابن عباسؓ کے مزار کی طویل سیڑھیاں اتر رہے تھے تو ہر مزار ہماری نظروں کا دامن پکڑتا تھا اور گڑگڑا کر کہتا تھا آپ آج کے تمام فرعونوں کو ہمارا پیغام پہنچا دیجیے‘ آپ انھیں بتا دیں تم اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو ابن عباسؓ کے نقش قدم پر چلو تمہاری قبروں کے سائے تاریخ سے لمبے ہو جائیں گے‘ تم مرنے کے بعد بھی شاہ زندہ کی طرح زندہ رہو گے لیکن اگر تم نے ہماری طرح رئیس‘ مصاحب اور منصب دار بننے کی کوشش کی تو پھر دنیا میں تمہاری قبر تو موجود ہو گی مگر نام گم نامیوں کی خاک میں مل کر خواب ہو جائے گا‘ تم بدبو کے جھونکے کی طرح وقت کے حافظے سے محو ہو جاؤ گے۔
خطرناک آدمی
جاوید چوہدری جمعرات 28 مارچ 2013
میں نے کل جسٹس شاکراللہ جان کو فون کیا‘ جسٹس صاحب نئی عدلیہ کے معزز ترین ججوں میں شمار ہوتے ہیں‘ یہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے‘ یہ سپریم کورٹ کے جج بھی بنے‘ یہ سپریم کورٹ کے اس نو رکنی بینچ میں بھی شامل تھے جس نے 2007ء میں جنرل مشرف کو وردی میں الیکشن لڑنے کی اجازت دی مگر جسٹس شاکر اور ان کے دو ساتھی ججوں نے اس فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا۔
بینچ کے چھ جج اس فیصلے کے حق میں تھے چنانچہ جنرل مشرف کو دوسری صدارتی مدت مل گئی اور یہ اس سات رکنی بینچ میں بھی شامل تھے جس نے 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دیا اور یہ عدلیہ کی بحالی کے بعد ملک کے نوے فیصد بڑے عدالتی فیصلوں میں بھی شریک تھے‘ ہمیں یہ ماننا پڑے گا پاکستان میں عدلیہ کے موجودہ وقار میں جسٹس شاکر اللہ جان کا بڑا ہاتھ ہے‘ یہ 24 مارچ 2012ء سے 23 جولائی 2012ء تک چیف الیکشن کمشنر بھی رہے‘ جسٹس صاحب 17 اگست 2012ء کو ریٹائر ہوئے اور اسی دن ان کا نام نگراں وزیراعظم کے لیے بھی سامنے آ گائ‘ اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی پہلے انھیں چیف الیکشن کمشنر بنوانا چاہتے تھے اور بعد ازاں نگراں وزیراعظم۔
چوہدری نثار علی نے 6 مارچ 2013ء کو باقاعدہ ان کا نام نگراں وزیراعظم کے لیے تجویز کر دیا‘ یہ اپوزیشن کی طرف سے پیش ہونے والے تین ناموں میں شامل تھے‘ یہ نام پیش ہونے کے بعد اسلام آباد میں خبر گردش کرنے لگی جسٹس شاکر اللہ جان نگراں وزیراعظم ہوں گے‘ اس خبر کی دو وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ اپوزیشن تھی‘ یہ نام اپوزیشن کی طرف سے آیا تھا چنانچہ اگر حکومت اس نام پر اتفاق کر لیتی تو نگراں وزیراعظم کا مسئلہ ایک دن میں حل ہو جاتا‘ دوسری وجہ صدر آصف علی زرداری تھے‘ صدر کو بھی جسٹس شاکر اللہ جان پر کوئی اعتراض نہیںتھا‘ یہ سمجھتے تھے جسٹس صاحب ایک نیوٹرل شخص ہیں۔
یہ سپریم کورٹ سے تازہ تازہ ریٹائر ہوئے ہیں اور یہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عدلیہ کے درمیان غلط فہمیاں ختم کرانے میں اہم کردار ادا کریں گے‘ یہ معاملہ ٹھیک چل رہا تھا اور کسی بھی وقت ان کے نام کا اعلان متوقع تھا مگر پھر ایک عجیب واقعہ ہوا اور اس واقعے کی تحققب نے مجھے کل جسٹس شاکر اللہ جان سے رابطے پر مجبور کر دیا‘ میں نے جسٹس صاحب کو فون کیا اور ان سے ملاقات کا وقت مانگا‘ جسٹس صاحب نے جواب میں فرمایا ’’ آپ ایک خطرناک آدمی سے کیوں ملنا چاہتے ہیں‘‘ ان کے جواب میں دکھ بھی تھا‘ افسردگی بھی اور شکستگی بھی‘ میرے دل پر چوٹ لگی اور میں نے ان سے عرض کیا ’’ میں آپ سے اسی لیے ملنا چاہتا ہوں‘‘ جسٹس صاحب نے مجھے رات کا وقت دے دیا۔
میں ملاقات سے پہلے آپ کو وہ واقعہ بتاتا چلوں جس کی وجہ سے جسٹس شاکر اللہ جان کا نام ڈراپ ہوا‘ جسٹس شاکر اللہ اس تین رکنی بینچ کے سربراہ تھے جس نے 14 جون 2012ء کو بحریہ ٹائون کے سابق چیئرمین ملک ریاض کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی‘ اس کیس کی سماعت کے دوران ملک ریاض کو وکیل نہیں مل رہا تھا‘ سپریم کورٹ کے تمام وکلاء کی خواہش تھی بینچ پہلی سماعت پر ملک ریاض کے خلاف فیصلہ دے دے لیکن جسٹس شاکر اللہ جان نے ریمارکس دیے‘ عدالت بڑے سے بڑے مجرم کو بھی صفائی کا موقع دیتی ہے‘ ہم ملک ریاض کو بھی موقع دیں گے‘ بینچ نے ملک ریاض کو وکیل کرنے کے تین مواقع دیے مگر کوئی وکیل ملک ریاض کا کیس لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
جسٹس شاکر نے اس دوران پنجاب کے ایک سابق لاء آفیسر کا بندوبست کر لیا ‘ جسٹس صاحب کا خیال تھا اگر ملک ریاض کو وکیل نہیں ملتا تو سپریم کورٹ انھیں اپنی طرف سے وکیل فراہم کر دے گی‘ ڈاکٹر باسط نے اس دوران ملک ریاض کا کیس لے لیا اور یوں ملک ریاض کو عدالت میں صفائی پیش کرنے کا موقع مل گیا‘ ملک ریاض جسٹس شاکر اللہ جان کی اس انصاف پسندی کو نیکی سمجھتے ہیں اور یہ ہر جگہ اس کا کھل کر اظہار کرتے ہیں‘ جسٹس شاکر اللہ جان کا نام جب نگراں وزیراعظم کے لیے سامنے آیا تو ملک ریاض نے صدر کے سامنے اس واقعے کا حوالہ دیا اور جسٹس شاکر کی تعریف کی اور یہ تعریف بعد ازاں جسٹس شاکر کا نام ڈراپ ہونے کی وجہ بن گئی‘ صدر کی میٹنگ میں موجود ایک سینئر وزیر نے یہ واقعہ ایک صحافی کو سنا دیا۔
صحافی نے دوسرے صحافی کو بتایا‘ اس صحافی نے یہ واقعہ ٹویٹر پر شیئر کر دیا اور یوں یہ واقعہ چوہدری نثار اور پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت تک پہنچ گیا‘ چوہدری نثار نے جسٹس شاکر کو ملک ریاض کا ’’ حمایتی‘‘ سمجھ لیا اور ان کا نام فوری طور پر واپس لے لیا‘یہ خبر جب عام ہوئی تو مولانا فضل الرحمن نے چوہدری نثار سے رابطہ کیا‘ چوہدری صاحب نے جواب دیا ’’ جسٹس شاکر اللہ جان کے ایک خطرناک آدمی سے رابطے تھے‘‘ مولانا سے یہ جواب میڈیا تک آ گیا اور یوں جسٹس شاکر اللہ جان شروع میں خطرناک لوگوں کے ساتھی مشہور ہوئے اور بعد ازاں خود خطرناک آدمی بن گئے‘ میں پشاور ہائی کورٹ کی تاریخ کے بہترین چیف جسٹس سے خطرناک آدمی بننے تک کی کہانی سننے کے لیے ان کے پاس حاضر ہوا اور میں یہ سننے کے لیے جسٹس صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔
جسٹس شاکر اللہ جان افسردہ تھے‘ یہ بار بار کہتے ہیں‘ میں چیف الیکشن کمشنر نہیں بننا چاہتا تھا‘ میں نگراں وزیراعظم بھی نہیں بننا چاہتا تھا‘ میری کبھی میاں صاحبان یا چوہدری نثار سے ملاقات نہیں ہوئی‘ میں کبھی صدر زرداری اور ملک ریاض سے نہیں ملا‘ ملک ریاض تین بار میرے بینچ کے سامنے پیش ہوئے اور میں نے انھیں صرف وہ حق دیا جو پاکستان کا آئین ملک کے تمام شہریوں کو دیتا ہے‘ کیا ہم ان کے وکیل کو سنے بغیر انھیں سزا دے دیتے ؟اور وہ اگر اس کے بعد میرے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں تو پھر میرا کیا قصور ہے؟ میں نے مولانا فضل الرحمن کے حسبہ بل کے خلاف فیصلہ دیا تھا لیکن یہ اس کے باوجود میری تعریف کرتے ہیں‘ لوگ اگر اس تعریف پر مجھے مولانا فضل الرحمن کا ساتھی قرار دے دیں تو کیا یہ زیادتی نہیں ہو گی؟
جسٹس شاکر اللہ جان کا کہنا تھا ’’میں نے کیا سے نگراں وزیراعظم بننے کی خواہش نہیں کی ‘ میرا نام اپوزیشن لیڈر نے خود شامل کیا لیکن مجھے ڈراپ کرنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا یہ زیادتی ہے‘ آپ کسی وجہ کے بغیر بھی میرا نام ڈراپ کر سکتے تھے‘ آپ مجھ سے کہہ دیتے‘ میں عاصمہ جہانگیر کی طرح خود معذرت کر لیتا یا آپ یہ بھی کہہ سکتے تھے جسٹس شاکر اللہ جان کی ریٹائرمنٹ کے دو سال پورے نہیں ہوئے چنانچہ ہم ان کا نام واپس لے رہے ہیں لیکن مجھے بلاوجہ خطرناک آدمی کا ساتھی یا خطرناک آدمی ڈکلیئر کردیا گیا اور یہ زیادتی ہے؟
یہ توہین ہے‘ مجھے اس پر افسوس ہے کیونکہ میں اب خطرناک آدمی مشہور ہو چکا ہوں اور میں زندگی میں اب کس کس کو صفائی دوں گا‘‘ جسٹس صاحب کی بات سو فیصد درست تھی‘ ان کی بیگم یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں‘ ان کی تین صاحبزادیاں زیر تعلیم ہیں‘ یہ بھی روز اس الزام کا سامنا کرتی ہیں‘ جسٹس شاکر اللہ جان کی صاحبزادیوں سے ان کی سہیلیاں پوچھتی ہیں آپ خطرناک آدمی کی بیٹیاں ہو اور ان کی بیگم سے بھی پوچھا جاتا ہے ’’ آپ کے شوہر کیا خطرناک کام کرتے ہیں؟‘‘ اور انصاف اور نیک نامی کے طویل کیریئر کے بعد جسٹس شاکر اللہ جیسے انسان اس سلوک کو ڈیزرو نہیں کرتے‘ میرا خیال ہے چوہدری نثار علی اور میاں نواز شریف کو جسٹس شاکر اللہ جان سے معذرت کرنی چاہیے۔
یہ حقیقتاً معزز‘ ایماندار اور نیک نام شخص ہیں‘ یہ واحد جج ہیں جنھیں ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور اور پشاور کی ہائی کورٹ بارنے اعزازی ممبر شپ دی اور انصاف کے عالمی اداروں نے ان کی مہارت اور ایمانداری کی تعریف کی اور صرف سیاست بازی کی وجہ سے ایسے شخص کو خطرناک قرار دے دینا ظلم ہے‘ میاں صاحب اور چوہدری صاحب کو جسٹس شاکر اللہ جان سے معذرت بھی کرنی چاہیے اور میڈیا کے ذریعے ان کا نام ڈراپ کرنے کی وضاحت بھی بیان کرنی چاہےج کیونکہ اچھے اور نیک لوگوں کا دل توڑنا گناہ ہوتا ہے اور ن لیگ سے یہ گناہ سرزد ہواہے ۔
سیاست کا دل کھل رہا ہے
جاوید چوہدری جمعرات 28 مارچ 2013
نجم سیٹھی سیاست میں برداشت اور کھلے دل کی تازہ ترین مثال ہیں۔
یہ 1975ء سے پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالف چلے آ رہے ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں بلوچستان میں قوم پرستوں کے خلاف ملٹری آپریشن شروع کیا‘ نجم سیٹھی نے اس آپریشن کی مخالفت کی‘ بھٹو صاحب مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے چنانچہ سیٹھی گرفتار ہوئے اور1975ء سے 1977ء تک قید میں رہے‘ یہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جناح سے ضیاء تک جیسی متنازع کتاب لکھنے پر بھی گرفتار ہوئے ‘ بے نظیر بھٹو کی 1986ء میں پاکستان آمد کے بعد دوبارہ بھٹو خاندان کے قریب ہو گئے‘ یہ قربت بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کے دوران قائم رہی‘ 1996ء میں صدر فاروق احمد لغاری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تو نجم سیٹھی لغاری صاحب کے کیمپ میں چلے گئے‘ 5 نومبر 1996ء کو ملک معراج خالد کی سربراہی میں نگراں حکومت بنی ‘ نجم سیٹھی اس نگراں حکومت میں سیاسی امور اور احتساب کے مشیر بن گئے‘ ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا‘ یہ اس دور کا اہم ترین عہدہ تھا کیونکہ صدر فاروق احمد لغاری آصف علی زرداری کو اسی گورنر ہاؤس سے گرفتار کروا چکے تھے جس میں کل نجم سیٹھی نے نگراں وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا اور صدر لغاری کے اس اقدام کو قانونی حیثیت دینا نجم سیٹھی کی بھی ذمے داری تھی‘ نجم سیٹھی نے ثابت کرنا تھا بے نظیر بھٹو حکومت واقعی کرپٹ ہے اور صدر نے ان کی حکومت برطرف کر کے درست اقدام کیا ہے‘ سیٹھی صاحب نے یہ کام شروع کر دیا‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے نجم سیٹھی پی ٹی وی پر آتے تھے اور مختلف رنگوں کی وہ چٹیں دکھاتے تھے جن پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری غیر قانونی احکامات جاری کرتے تھے‘ نجم سیٹھی نومبر 1996ء سے فروری1997 ء تک مشیر رہے اور انھوں نے اس دوران محترمہ اور زرداری صاحب کے خلاف ثبوت نکالے ‘ ان ثبوتوں کی بنیاد پر مشہور زمانہ سوئس کیسز شروع ہوئے‘ یہ ثبوت بعد ازاں احتساب بیورو کے اگلے چیئرمین سیف الرحمان کے کام آئے اور انھوں نے آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیربھٹو کے خلاف وہ کارروائیاں شروع کر دیں جن کے اثرات آج تک جاری ہیں‘ محترمہ اور زرداری صاحب اس بنا پر برسوں نجم سیٹھی سے ناراض رہے۔
میاں نواز شریف17 فروری 1997ء کو برسر اقتدار آئے ‘ یہ بھی بہت جلد نجم سیٹھی سے ناراض ہو گئے‘اس کی وجہ مضامین تھے‘ نجم سیٹھی نے 1996ء میں اپنی وزارت کے دوران میاں صاحبان کے خلاف بھی ٹھیک ٹھاک ثبوت جمع کر لیے تھے‘ صدر لغاری بی بی اور میاں صاحب دونوں کے خلاف بیک وقت محاذ نہیں کھولنا چاہتے تھے چنانچہ سیٹھی صاحب نے میاں برادران کے خلاف کارروائی نہیں کی لیکن سیٹھی صاحب نے وزارت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے انگریزی ہفت روزہ فرائیڈے ٹائم میں میاں صاحبان کی کرپشن کی اسٹوریز شایع کرنا شروع کر دیں‘ میاں صاحبان ناراض ہو گئے اور انھوں نے بھارت میں ان کی ایک تقریر کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کر دیا‘ آئی بی نے8 مئی 1999ء کو رات کے وقت ان کے گھر کے دروازے توڑ کر انھیں گرفتار کیا اور انھیں سیف ہاؤس میں پھینک دیا‘ نجم سیٹھی کو گھر سے ادویات تک اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی‘ یہ ان دنوں شدید علیل تھے‘ نجم سیٹھی کی گرفتاری عالمی ایشو بن گئی‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیموں نے نجم سیٹھی کا ساتھ دیا۔
امریکی حکومت نے پاکستان پر دباؤ ڈالا‘ جنرل پرویز مشرف اس وقت آرمی چیف تھے‘ انھیں امریکی وزیرخارجہ میڈلین البرائٹ اور وزیر دفاع ولیم کوہن نے فون کیا‘ جنرل مشرف نے آئی ایس آئی کی مدد سے نجم سیٹھی کو ریکور کیا‘ یہ عدالت میں پیش ہوئے اور سپریم کورٹ نے انھیں جون کے اوائل میں رہا کر دیا تاہم یہ اس دوران دل کے امراض کا شکار ہو گئے‘ جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ جنرل کے قریب بھی رہے‘ جنرل مشرف ان کی گفتگو اور مشوروں کو سنجیدہ لیتے تھے‘ 2008ء کے بعد یہ صدر زرداری اور میاں نواز شریف دونوں کے قریب ہو گئے‘ ملک ریاض نے اس قربت میں اہم کردار ادا کیا‘ نجم سیٹھی ملک ریاض کے قریبی دوست ہیں‘ لوگ ملک ریاض کو نجم سیٹھی کی چڑیا بھی کہتے ہیں کیونکہ ملک ریاض انھیں سیاست کی اندرونی خبریں دیتے رہے ہیں‘ ملک ریاض کی وجہ سے یہ صدر آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کے قریب ہوئے اور یہ بعد ازاں میاں نواز شریف کے بھی قریب ہو گئے‘ عمران خان بھی ان سے مشورے لیتے رہے ہیں اور الطاف حسین بھی ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں۔
ہم اگر نجم سیٹھی کی زندگی کا تجزیہ کریں تو ہمیں ماننا پڑے گا یہ پاکستان کے واحد صحافی ہیں جو ملک کے زیادہ تر لیڈروں کے قریب بھی ہیں اور ان کے عتاب کا نشانہ بھی بنے‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی نے ان کا نام نگراں وزیراعلیٰ کے لیے کیوں پیش کال‘ اس کی تین وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ چوہدری نثار اور ملک ریاض کے اختلافات ہیں‘ ملک ریاض میاں برادران کو دھمکی دے چکے ہیں مجھے اگر اپنی ساری دولت بھی لگانا پڑی میں چوہدری نثار کو الیکشن نہیں جیتنے دوں گا‘ ملک ریاض کو خدشہ ہے چوہدری نثار اس الیکشن کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب بن جائیں گے اور یہ ملک صاحب کے لیے قابل قبول نہیں‘ صدر آصف علی زرداری بھی چوہدری نثار کا راستہ روکنا چاہتے ہیں اور نجم سیٹھی ملک ریاض اور صدر زرداری دونوں کو سوٹ کرتے ہیں‘ دوسرا صدر زرداری کا خیال ہے نجم سیٹھی 1999ء کے دور کو بھولے نہیں ہوں گے چنانچہ اگر انھیں موقع ملا تو یہ میاں نواز شریف سے بدلہ لیں گے اور تیسری وجہ سیاسی برتری تھی‘ صدر آصف علی زرداری نگراں وزیراعظم اور نگراں وزیراعلیٰ پنجاب دونوں معاملے میں پاکستان مسلم لیگ ن کو سیاسی شکست دینا چاہتے تھے۔
انھوں نے نگراں وزیراعظم اور نگراں وزیراعلیٰ دونوں ایشوز میں اپنے کارڈز صفائی سے کھیلے اور ن لیگ کو چت کر دیا اور میاں صاحبان وفاق اور پنجاب دونوں کی نگرانی پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے حوالے کرنے پرمجبور ہو گئے ‘ یہ صدر زرداری کی آخری چالوں کا پہلا مرحلہ ہے‘ صدر زرداری الیکشن کے بعد کامیاب پارٹیوں کو یہ پیش کش کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں آپ ہمیں وزارت عظمٰی دے دیں اور ہم سے تمام وزارتیں لے لیں اور یوں یہ ایک بار پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اگر خدانخواستہ الیکشن نہ ہوئے یا کوئی ’’بزرگ‘‘ اپنی طبعی عمر تک پہنچ گیا یا پھر کوئی بڑا لیڈر دہشت گردی کا شکار ہو گیا اور یہ نگراں سیٹ اپ آگے چل پڑا تو صدر زرداری وفاق اور پنجاب دونوں میں اپنی پوزیشن بہتر بنا لیں گے اور یوں چِت ہو یا پَٹ بازی بہرحال صدر زرداری کے ہاتھ میں رہے گی۔
یہ اس کہانی کا ایک پہلو ہے ‘ ہم اسے سیاہ پہلو یا ڈارک سائیڈ کہہ سکتے ہیں مگر اس کہانی کا ایک اچھا پہلو بھی ہے اور یہ تصویر کی وہ برائٹ سائیڈ ہے جس کا ذکر میں نے کالم کے شروع میں کیا ‘یہ حقیقت ہے پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی دونوں ایک وقت میں نجم سیٹھی کی مخالف رہیں‘دونوں نے انھیں گرفتاربھی کروایالیکن اس کے باوجود نگراں وزارت اعلیٰ کے وقت دونوں جماعتوں نے نجم سیٹھی پر اتفاق کر لیا ‘ یہ چیز ثابت کرتی ہے ہماری سیاست کا دل کھل رہا ہے‘ اس کی برداشت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ آپ اگر 1996ء‘1999 یا2007ء کا تجزیہ کریں تو آپ کو ان ادوار میں یہ اچھائی نظر نہیں آئے گی‘ وہ نفرتوں کے دور تھے‘ ان ادوار میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ نگرانوں کے معاملے میں آخری سطح تک چلی جاتیں اور جب دونوں کی دم اور چونچ ٹوٹ جاتی تو پھروہ آجاتے تھے جو ہمارے ملک میں ہمیشہ اس وقت کا انتظار کرتے ہیں مگر اس بار دونوں جماعتوں نے پہلے میر ہزار کھوسوکے معاملے میں الیکشن کمشن کا فیصلہ مان کر اور بعد ازاں نجم سیٹھی پر اتفاق کر کے سیاست اور جمہوریت کا بھرم بھی رکھ لیا اور بوٹوں سے بھی بچ گئے۔

گیٹ کیپر
جاوید چوہدری پير 25 مارچ 2013
ہماری زندگی کے کچھ مناظر ہمارے ذہن کی دیواروں سے چپک کر رہ جاتے ہیں اور ہم آنے والی زندگی کو ان مناظر کی نظروں سے دیکھتے ہیں‘ یہ منظر محض منظر نہیں ہوتے ‘ یہ ہماری زندگی کی آنکھیں ہوتے ہیں‘ یہ ہماری بینائی ہوتے ہیں‘ میں نے ایک ایسا ہی منظر 1993ء میں دیکھا‘ یہ 26 مئی 1993ء کا گرم دن تھا‘ میربلخ شیر مزاری نگراں وزیراعظم تھے‘ مزاری صاحب پرانے سیاستدان اور ملک کے نامور جاگیر دار تھے‘ یہ 18 اپریل 1993ء کو اس وقت نگراں وزیراعظم بنائے گئے جب صدر غلام اسحاق خان نے اٹھاون ٹو بی کے تحت میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی‘ صدر غلام اسحاق خان نے میربلخ شیر مزاری کو نگراں وزیراعظم بنایا اور انھیں ملک میں آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کرانے کی ذمے داری سونپ دی‘ مزاری صاحب بزرگ انسان تھے‘ انھیں ایڈمنسٹریشن کا تجربہ بھی نہیں تھا چنانچہ ان کا دور سیاسی حماقتوں کا عظیم عہد تھا‘ ان حماقتوں میں ایک حماقت روزانہ صحافیوں کو وزیراعظم ہاؤس بلانا اور ان سے یہ پوچھنا ’’ سپریم کورٹ کہیں میاں نواز شریف کو بحال تو نہیں کر دے گی؟‘‘ اور اس کے جواب میں صحافیوں کی باتوں کو سنجیدگی سے سننا بھی شامل تھا۔
میربلخ شیر مزاری ہر وقت سپریم کورٹ سے خائف رہتے تھے‘ میاں نواز شریف نے اپنی حکومت کی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر رکھی تھی‘نسیم حسن شاہ اس وقت چیف جسٹس تھے اور بلخ شیر مزاری کا خیال تھا سپریم کورٹ میاں نواز شریف کو بحال کر دے گی اور یوں ان کی نگراں حکومت کی نگرانی ختم ہو جائے گی‘ مزاری صاحب اکثر اپنے ملاقاتیوں سے بھی ’’درخواست‘‘ کر جاتے تھے‘ آپ چیف جسٹس سے پوچھیں یہ کیا کرنا چاہتے ہیں‘ اس زمانے میں کوئی بھی شخص خود کو چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کا عزیز‘ رشتے دار یا دوست ڈکلیئر کر کے وزیراعظم کا قرب حاصل کر سکتا تھا‘ یہ معاملہ ابھی چل رہا تھا کہ 26 مئی 1993ء کا دن آگیا‘ میر بلخ شیر مزاری میریٹ ہوٹل میں ایک تقریب کی صدارت کر رہے تھے‘ تقریب میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا موجود تھا‘ سفارت کار بھی شامل تھے‘ یہ تقریب ابھی چل رہی تھی کہ سپریم کورٹ نے اچانک میاں نواز شریف کی حکومت بحال کر دی‘ یہ خبر ہال تک پہنچنے سے قبل وزیراعظم کی سیکیورٹی اور پروٹوکول تک پہنچ گئی چنانچہ وزیراعظم کے اسٹاف نے انھیں وہیں میریٹ ہوٹل میں اسٹیج پر چھوڑا اور وزیراعظم کی اسٹاف کار لے کر پنجاب ہاؤس کی طرف روانہ ہو گیا۔
میں نے اپنی آنکھوں سے وزیراعظم کے اے ڈی سی کو وزیراعظم کے پیچھے سے سرکتے‘ سیکیورٹی کے عملے کو ایک ایک‘ دو ‘ دو کر کے ہال سے نکلتے‘ گاڑیاں اسٹارٹ ہوتے‘ وزیراعظم کی اسٹاف کار سے جھنڈے اترتے‘ سائرن بجتے اور وزیراعظم کے کارواں کو وزیراعظم کے بغیر میریٹ ہوٹل سے نکلتے دیکھا اور یوں چند منٹ میں وزیراعظم نہ صرف سابق ہو گیا بلکہ اس کے پاس گھر جانے کے لیے گاڑی بھی نہیں بچی تھی‘ منتظمین نے تقریب کے خاتمے کا اعلان کاے‘ بلخ شیر مزاری اسٹیج سے اترے اور لفٹ لے کر ذاتی گھر کی طرف روانہ ہو گئے‘ یہ وہی شخص تھا جس کے استقبال کے لیے ایک گھنٹہ قبل درجنوں لوگ میریٹ ہوٹل کے دروازے پر کھڑے تھے‘ جس کی آمد سے قبل پورے ہال کی تلاشی لی گئی تھی‘ پھول تک چیک کیے گئے تھے اور جو ہال میں داخل ہوا تو تمام شرکاء نے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا مگر ایک گھنٹے بعد وہی شخص لفٹ لے کر گھر واپس جا رہا تھا اور اس کے ذاتی منشی کے علاوہ اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔
میری زندگی کا دوسرا منظر مہتاب عباسی سے متعلق ہے‘ میں اس واقعے کا عینی شاہد نہیں ہوں‘ یہ مجھے پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے سنایا‘ میاں نواز شریف کی دوسری حکومت میں مہتاب عباسی صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ تھے‘ مہتاب عباسی حقیقتاً ملک کے چند شاندار‘ سلجھے اور نفیس سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں‘ یہ بارہ اکتوبر کو گلگت کے دورے پر تھے‘ یہ گلگت ائیر پورٹ پر اترے تو گلگت کے کمشنر اور آئی جی نے ان کا استقبال کیا‘ وزیراعلیٰ کو ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا‘ یہ لوکل انتظامیہ اور مقامی سیاستدانوں کے ساتھ میٹنگز کر رہے تھے‘ سہ پہر کے وقت فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا‘ حکومت کی تبدیلی کی خبر جب گلگت پہنچی تو جس آئی جی اور کمشنر نے صبح وزیراعلیٰ کا استقبال کیا تھا‘ اسی نے مہتاب عباسی کو گرفتار کر لیا اور انھیں اسی ریسٹ ہاؤس میں ہاؤس اریسٹ کر دیا گیا‘ مہتاب عباسی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے گلگت گئے تھے لیکن دو دن بعد یہ قیدی کی حیثیت سے پشاور لائے گئے اور اس کے بعد ان کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی‘ یہ دونوں واقعات اقتدار کی بے ثباتی اور بے وفائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں‘ یہ ثابت کرتے ہیں ہم کمزور لوگ ہیں کرسی کو دائمی سمجھ کر اپنی زندگی کی تمام نفرتوں‘ منافقتوں‘ غرور اور انا کا سارا بوجھ اقتدار کے پایوں پر ڈال دیتے ہیں اور پھر ایک دن یہ اقتدار ہوا کے جھونکے کے ساتھ رخصت ہو جاتا ہے اور ہم بوکھلائے ہوئے اونٹ کی طرح صحرا کی ریت کو حیرت سے دیکھتے رہتے ہیں۔
میں نے کل راجہ پرویز اشرف کے ساتھ بھی یہی ہوتے دیکھا‘ 24 مارچ کو الیکشن کمیشن نے میر ہزارخان کھوسو کو نگراں وزیراعظم بنا دیا‘ النکشو کمیشن کا اعلان سامنے آتے ہی وزیراعظم ہاؤس اور اس کا تمام عملہ راجہ صاحب کے لیے اجنبی ہو گیا‘ وزیراعظم کی شاہی سواری‘ پروٹوکول کا عملہ‘ سیکیورٹی‘ اے ڈی سی‘ پرنسپل سیکریٹری اور ملٹری سیکریٹری بلوچستان ہاؤس کی طرف روانہ ہو گئے‘ اسلام آباد کا آئی جی بھی میر ہزار خان کھوسو کو سلام کرنے کے لیے بلوچستان ہاؤس پہنچ گیا اور صرف اس ایک اعلان سے بلوچستان ہاؤس کا وہ عام سا کمرہ وزیراعظم ہاؤس بن گیا جس میں کل تک میر ہزار کھوسو کو ملازمین پانی تک نہیں دیتے تھے‘ یہ دس دس گھنٹیاں بجاتے تھے تو ملازم پہنچتا تھا اور کھوسو صاحب کو ملازم کو بات سمجھانے میں دس دس منٹ لگ جاتے تھے اور وہ اسٹاف‘ وہ گاڑی‘ وہ سائرن‘ وہ سیکیورٹی اور وہ پروٹوکول جو کل تک راجہ پرویز اشرف کے لائف اسٹائل کا حصہ بن چکا تھا اور جو وزیراعظم کے اشارہ ابرو پر دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہو جاتا تھا وہ اندھیرے میں سائے کی طرح ان کا ساتھ چھوڑ گیا۔
راجہ پرویز اشرف اقتدار کی گلیوں کے مسافر بن کر رخصت ہو گئے‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے راجہ صاحب 22 جون 2012ء کو جب وزیراعظم بنے تھے تو گوجرخان کے ہزاروں لوگ انھیں وزیراعظم ہاؤس چھوڑنے گئے تھے‘ وزیراعظم ہاؤس کے دروازے کھول دیے گئے تھے‘ راجہ صاحب نے بالکونی میں کھڑے ہو کر ہجوم کو اپنی جھلک دکھائی تھی اور لوگوں نے دیوانہ وار نعرے مارے تھے لیکن کل رخصتی کے وقت انھیں لینے کے لیے کوئی شخص وزیراعظم ہاؤس کے سامنے موجود نہیں تھا اور یہ اس انجام کو پہنچنے والے پہلے شخص نہیں ہیں‘ آپ محمد خان جونیجو سے لے کر میاں نواز شریف اور میر ظفر اللہ جمالی سے لے کر شوکت عزیز‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف تک کسی سابق وزیراعظم کی رخصتی کا دن نکال کر دیکھ لیجیے‘ یہ آپ کو اقتدار سے اس طرح جاتا ہوا دکھائی دے گا جس طرح طاعون کے مریض اسپتال سے رخصت ہوتے ہیں‘ پاکستان کے عام شہری آج تک یہ نہیں سمجھ سکے وہ حکمران جو ایک دن پہلے تک ملک کی آن‘ بان اور شان ہوتے ہیں وہ جب اقتدار سے فارغ ہوتے ہیں تو قوم انھیں اگلے ہی لمحے بھول کیوں جاتی ہے‘ عام لوگ سوچتے ہیں کیا پوری دنیا میں ایسا ہوتا ہے‘ ہمیں جواب ملتا ہے ہرگز ہرگز نہیں‘ دنیا میں ہیوگوشاویز جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔
فوج نے شاویز کو 11 اپریل 2002ء کواقتدار سے فارغ کر دیا‘ یہ صدارتی محل سے نکلا تو لاکھوں لوگ اس کے استقبال کے لیے محل سے باہر کھڑے تھے‘ ان لوگوں نے شاویز کو کندھے پر اٹھایا اور صرف 47 گھنٹے مںا اسے دوبارہ بحال کرا دیا‘ دنیا میں طیب اردگان‘ عبداللہ گل اور مہاتیر محمد جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں‘ یہ جب بھی اپنی آئینی مدت پوری کرتے تھے (اور ہیں) لوگ ان کے پاؤں زمین پر نہیں آنے دیتے‘ یہ انھیں اپنی ہتھیلیوں پر اٹھا کر دوبارہ اقتدار کی مسند پر بٹھا دیتے ہںم‘ دنیا میں ایسے حکمران بھی تو موجود ہیں‘ اگر یہ حکمران ہیں تو پھر ہمارے راجہ صاحب‘ ہمارے گیلانی صاحب‘ ہمارے شوکت عزیز صاحب اور ہمارے میاں صاحب کیا ہیں‘ عوام ہمارے حکمرانوں کی رخصتی کے وقت ایوان اقتدار کے باہر کھڑے کیوں نہیں ہوتے‘ اقتدار انھیں‘ میر بلخ شیر مزاری کو اور دو ماہ بعد میر ہزار کھوسو کو تقریبات میں اکیلا چھوڑ کر کیوں چلا جاتا ہے‘ شاید یہ لوگ حکمران ہیں اور دنیا میں حکمرانوں کو صرف حکومت ملتی ہے عزت نہیں‘ عزت کے حق دار لیڈر ہوتے ہیں اور ان میں کوئی ایک بھی لیڈر نہیں‘ یہ صرف اقتدار کے گیٹ کیپر ہیں۔
ہم کیا لوگ ہیں
جاوید چوہدری بدھ 20 مارچ 2013
دنیا میں سترہ مزاج کے لوگ ہوتے ہیں‘ ہم لوگ ان میں سے کسی ایک مزاج میں پیدا ہوتے ہیں‘ ہمارا مزاج ہماری وہ فطرت ہوتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے ’’ نیچر کین ناٹ بی چینجڈ‘‘ فطرت تبدیل نہیں ہوسکتی‘ ہم میں سے کچھ لوگ کنجوس ہوتے ہیں‘ یہ کھرب پتی ہو کر بھی کنجوس رہتے ہیں اور لوگ ان کے بارے میں کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا حاجی صاحب پر بہت کرم ہے مگر یہ اپنی گانٹھ نہیں کھولتے‘ ہم میں سے کچھ لوگ فیاض ہوتے ہیں‘ یہ فقیر بھی ہوں تو بھی کسی کو انکار نہیں کرتے‘ ہم میں سے کچھ لوگ بہادر ہوتے ہیں‘ یہ اکیلے پوری فوج سے ٹکرا جاتے ہیں‘ آپ روز انھیں کہیں’’ تم پھڈے سے باز رہا کرو‘‘ یہ آپ سے روز وعدہ کریں گے لیکن انھیں جوں ہی کوئی چیلنج کرے گا یہ سینہ تان کر کھڑے ہو جائیں گے‘ ہم میں کچھ لوگ بزدل ہوتے ہیں‘ یہ دنیا کی سب سے بڑی فوج کے سپہ سالار بن جائیں تو بھی یہ اپنی ٹانگوں پر کھڑے نہیں ہوتے‘ ہم میں سے کچھ لوگ شکی ہوتے ہیں‘ آپ انھیں حرم شریف میں بھی بٹھا دیں مگر ان کا شک نہیں جائے گا۔
ہم میں سے کچھ لوگ غیر مطمئن ہوتے ہیں‘ آپ انھیں جنت میں بھی لے جائیں یہ وہاں بھی کوئی نہ کوئی اعتراض اٹھا دیں گے‘ ہم میں سے کچھ لوگ فراخ دل ہوتے ہیں‘ آپ ان سے ان کی جنت چھین لیں‘ یہ آپ کو معاف کرتے چند سیکنڈ لگائیں گے‘ ہم میں سے کچھ لوگ ہمدرد ہوتے ہیں‘ یہ سڑک پر پڑے شخص کو چار بوتل خون دے دیں گے‘ یہ دشمن کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکیں گے‘ ہم میں سے کچھ لوگ ظالم ہوتے ہیں‘ یہ اپنے والد‘ اپنی والدہ‘ بہن‘ بھائی اور اولاد تک کو ظلم کی چکی میں پیس دیں گے‘ ہم میں سے کچھ لوگ پرامید ہوتے ہیں‘ یہ دوزخ میں بھی جنت میں گھسنے کے منصوبے بناتے رہیں گے۔
ہم میں سے کچھ لوگ مایوس فطرت کے مالک ہوتے ہیں‘ یہ زکام میں مبتلا ہو جائیں تو کینسر کی ادویات سرہانے رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں‘ ہم میں سے کچھ لوگ محتاط ہوتے ہیں‘ یہ آب زم زم بھی ابال کر پیتے ہیں‘ ہم میں سے کچھ لوگ کیئر فری (غیر محتاط) ہوتے ہیں‘ یہ سانپ کا انڈہ تک توڑ کر پی جائیں گے اور گھوڑے کے منہ سے گاجر کھینچ کر کھا جائیں گے‘ ہم میں کچھ لوگ شیخی خور یا خوشامد پسند ہوتے ہیں‘ یہ کھانسنے‘ جمائی لینے اور خارش کرنے کے بعد بھی داد طلب نظروں سے دائیں بائیں دیکھیں گے‘ ہم میں سے کچھ لوگ غلامانہ فطرت لے کرپیدا ہوتے ہیں‘ آپ انھیں امریکا کا صدر بنا دیں مگر یہ اپنے ڈرائیور‘ اپنے پی اے یا ویٹر کو باس بنا لیں گے‘ ہم میں سے کچھ لوگ سازشی ہوتے ہیں۔
یہ کرہ ارض پر اکیلے رہ جائیں تو بھی سازش سے باز نہیں آئیں گے‘ ہم میں سے کچھ لوگ نفاست پرست ہوتے ہیں‘ آپ انھیں کچرا گھر میں پھکنی دیں یہ وہاں بھی کسی نہ کسی طرح ٹشو پیپر تلاش کر لیں گے اور ہم میں سے کچھ لوگ حریص(لالچی) ہوتے ہیں‘ آپ انھیں دنیا جہاں کے خزانے دے دیں‘ آپ قارون کے سات خزانے نکال کر ان کے حوالے کر دیں‘ آپ انھیں پوری دنیا کا سونا‘ تیل پیدا کرنے والے گیارہ ملکوں کا پٹرول اور امریکا کی 36 ہزار کمپنیوں کا سارا سرمایہ دے دیں مگر ان کی ہوس ختم نہیں ہو گی‘ یہ جاتے جاتے آپ کی چھت کا پنکھا اور آپ کے سلیپر لے جائیں گے۔
دنیا جب بھی اپنے لیے حکمرانوں کا تعین کرتی ہے‘ یہ اپنے سماجی اور جغرافیائی حالات سامنے رکھ کر فیصلہ کرتی ہے مثلاً آپ اگر جنگوں کے زمانے میں کسی بہادر شخص کو اپنا حکمران بنا دیں گے تو یہ ملک کو جنگ میں جھونک دے گا‘ آپ ہٹلر‘ میسولینی‘ جاپانی شہنشاہ سوآہیروہیٹو اور صدام حسین کی مثالیں لے سکتے ہیں‘ یہ بہادر لوگ تھے‘یہ غلط وقت میں حکمران بنے اور اپنے ملک تباہ کروا لیے‘مثلاً آپ کے ملک پر جنگ مسلط ہو چکی ہے اور آپ اگر اس وقت کسی بزدل شخص کو حکمران بنا لیتے ہیں تو یہ کیا کرے گا؟
یہ آپ کو پسپائی کی طرف لے جائے گا‘ آپ کو اس وقت ایسے بہادر شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو نتائج کی پرواہ کیے بغیر قوم کو اکٹھا کرے اور دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجا دے‘ آپ اس سلسلے میں چرچل اور روز ویلٹ کی مثال لے سکتے ہیں‘ یہ دونوں دوسری جنگ عظیم میں سامنے آئے اور انھوں نے جرمنی اور جاپان کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا‘ برطانیہ کے لوگوں نے دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد ونسٹن چرچل کو فارغ کر دیا کیونکہ یہ جانتے تھے یہ بہادر شخص ہے اور یہ ہمیں امن سے نہیں رہنے دے گا‘ یہ کوئی نہ کوئی نئی جنگ چھیڑ دے گا۔
سیانی قومیں مالیاتی بحرانوں کے دنوں میں اقتدار کنجوس اور پرامید لوگوں کے حوالے کرتی ہیں‘ یہ کنجوس لوگ سانپ بن کر خزانے کی رکھوالی کرتے ہیں اور یوں معیشت آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگتی ہے‘ قومیں خوش حالی کے زمانے میں فراخ دل اور ہمدرد لوگوں کو حق حکمرانی دیتی ہیں‘ یہ لوگ عام لوگوں کو اس خوشحالی میں شامل کرتے ہیں اور یوں قوم کا بچہ بچہ خوشحالی کا ذائقہ چکھتا ہے۔ قومیں غلامانہ فطرت‘ شیخی خوروں‘ غیر محتاط‘ مایوس فطرت‘ ظالم‘ شکی اور حریص لوگوں کو حکمران نہیں بناتیں۔ انسان نے یہ سبق ہزاروں سال کے تجربے سے سیکھا ہے۔
آپ دنیا کے کسی بھی ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اس ملک میں جب بھی کوئی حریص ‘ کوئی شکی‘ کوئی ظالم‘ کوئی مایوس فطرت‘ کوئی غیر محتاط‘ کوئی شیخی خور‘کوئی خوشامد پرست یا کوئی غلامانہ فطرت کا شخص تخت پر بیٹھا نظر آئے گا آپ اس دور میں اس ملک میں ابتری‘ خانہ جنگی‘ معاشی بدحالی‘ قتل و غارت گری‘ غربت‘ بیماری اور ناانصافی دیکھیں گے‘ آپ کو اس دور میں خلق خدا دہائی دیتی نظر آئے گی‘ آپ کسی ملک کی تاریخ پڑھنا شروع کر دیں۔
آپ کو وہاں جوں ہی کوئی فراخ دل‘ بہادر‘ محتاط اور خوش دل شخص تخت پر بیٹھا نظر آئے گا آپ کو اس ملک کی تاریخ میں وہ دور لق و دق صحرا میں نخلستان دکھائی دے گا اور آپ جوں ہی کسی ظالم‘ حریص یا شیخی خور کو تخت پر قدم رکھتے دیکھیں گے آپ کو خوش حالی اور امن کا وہ نخلستان ریت میں ریت ہوتا نظر آئے گا اور یہ وہ حقیقت ہے جس تک پہنچنے کے لیے انسان کو دس ہزار سال لگ گئے‘ انسان کو اس کی دس ہزار سال کی تحریری تاریخ نے سکھایا‘ انسان کو کبھی اپنا مقدر غلط فطرت کے لوگوں کے حوالے نہیں کرنا چاہیے اور یہ غلطی اگر ہو جائے تو انسان کو اس کی اصلاح میں دیر نہیں کرنی چاہیے ورنہ دوسری صورت میں ملک اور معاشرے کو پاکستان بنتے دیر نہیں لگتی۔
عوام پچھلے ہفتے سے بہت دلچسپ رپورٹس پڑھ رہے ہیں‘ ان رپورٹس میں انکشاف ہوا کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کا اجلاس مسلسل تین دن تک جاری رہا‘ وزیر خزانہ (عارضی) سلیم مانڈی والا نے تین ہفتوں میں 4 کھرب 65 ارب روپے کے منصوبوں کی منظوری دے دی‘ راجہ پرویز اشرف نے اپنی مدت میں روزانہ 20 کروڑ بانٹے‘ وزیر خزانہ نے وزیراعظم کو پہلے صوابدیدی فنڈز کے 27 ارب روپے ریلیز کیے‘ پھر دس ارب روپے دیے اور پھر چار ارب روپے مزید دے دیے اور وزیر خزانہ تین دن تک سمریوں‘ درخواستوں اور منصوبوں کے کاغذات پر دستخط کرتے رہے‘ یہ اطلاع بھی آئی ارب پتی اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے جاتے جاتے خود کو لاکھوں روپے کی مراعات دے دیں۔
انھیں اب تاحیات ایک لاکھ روپے پنشن‘ 1600 سی سی گاڑی‘ ڈرائیور‘ نائب قاصد‘چوکیدار ‘ آپریٹر ‘ پی اے اور غیر معینہ میڈیکل کی سہولیات حاصل رہیں گی اور سندھ اسمبلی نے بھی سابق ہونے والے ارکان اور ان کے اہل خانہ کے لیے تاحیات مراعات کا بل پاس کرا لیا‘ اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی تمام سابق وزراء اعظم کو نواز گئے اور صدر صاحب بھی اب قوم کی پانچ سال تک رہنمائی کا اعزازیہ حاصل کریں گے‘ میں جب بھی یہ رپورٹس یا خبریں پڑھتا ہوں اور اس کے بعد لوگوں کا رسپانس دیکھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔
ہم جب خود حریص‘ سازشی‘ غلامانہ سوچ‘ شیخی خور اور ظالم لوگوں کو منتخب کرتے ہیں‘ ہم جب اپنی نکیل خود اپنے ہاتھوں سے ان کے حوالے کر دیتے ہیں تو ہم پھر چیختے کیوں ہیں؟ ہم اعتراض کیوں کرتے ہیں؟ ہم عجیب لوگ ہیں‘ ہم پہلے ڈھونڈ ڈھانڈ کر جلادوں کو منتخب کرتے ہیں‘ ان کے ہاتھ میں تیز تلوار دیتے ہیں‘ انھیں اپنے سر پر کھڑا کرتے ہیں اور پھر جب یہ تلوار لہراتے ہیں تو ہم چیخنا شروع کر دیتے ہیں‘ ہم دہائیاں دینا شروع کر دیتے ہیں‘ کیوں؟ اپنے ہاتھوں سے زہر پینے والوں کو تو کم از کم اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔
ہمارے حکمران فطرتاً حریص ہیں اور حریص کا پیٹ قبر کی مٹی بھی نہیں بھر سکتی لہٰذا پھر فہمیدہ مرزا ہوں‘ پرویز اشرف ہوں‘ سلیم مانڈی والا ہوں‘ ڈاکٹر عاصم ہوں‘ یوسف رضا گیلانی ہوں یا پھر سندھ اسمبلی کے ارکان ہوں ان کی آنکھیں اور پیٹ کیسے بھریں گے‘ یہ کیسے مطمئن ہوں گے‘ یہ گارے سے بنے لوگ ہیں‘ ان سے خوشبو کیسے آ سکتی ہے؟ یہ انسان نہیں ہیں یہ تھوہر کے کانٹوں سے بنی چادریں ہیں‘ یہ کسی کا تن نہیں ڈھانپ سکتیں اور یہ حکمران نہیں ہیں‘ یہ انگاروں کی فصل ہیں‘ یہ کسی کو رزق نہیں دے سکتی‘ ہم کتنے سادہ لوگ ہیں ہم کانٹوں پر لیٹ کر نیند کی دعا مانگتے ہیں اور پتھروں کو پانی دے کر چاولوں کی فصل کا انتظار کرتے ہیں‘ ہم بھی کیا لوگ ہںں۔
کارکرگی
جاوید چوہدری منگل 19 مارچ 2013
اسلام آباد میں ہمارے آگے اور پیچھے سیکیورٹی گاڑیاں تھیں‘ اسمارٹ کمانڈوز نے بلٹ پروف جیکٹس پہن رکھی تھیں‘ سرپر ہیلمٹ تھے جب کہ ہاتھ میں کلاشنکوفیں تھیں‘ دو کمانڈوز کی رائفلیں ہماری گاڑی کی طرف تھیں‘ دو نے آگے کا راستہ کلیئر کر رکھا تھا اور دو دو کمانڈوز دائیں بائیں نظر رکھے ہوئے تھے۔
ہماری بلٹ پروف گاڑی کے پیچھے بھی اسی قسم کی سیکیورٹی جیپ تھی جب کہ کارواں کے آگے پولیس کی گاڑی تھی‘ پولیس کار کا سائرن اور سرخ اور نیلی روشنیاں آن تھیں‘ سگنل پر پہنچنے سے قبل سارجنٹ کو ہماری اطلاع مل جاتی تھی چنانچہ وہ ٹریفک کنٹرول کر لیتا تھا اور یوں ہم ساں ساں کر کے سگنل پار کر جاتے تھے‘ ہمیں سرینا ہوٹل سے ائیرپورٹ پہنچنے میں صرف دس منٹ لگے‘ ائیرپورٹ پر ہمارے لیے رن وے کا گیٹ کھول دیا گیا‘ کمانڈوز اور پولیس باہر رک گئی مگر ہماری گاڑی جہاز تک پہنچ گئی‘ پروٹوکول آفیسر جہاز کی سیڑھی پر ہمارے بورڈنگ پاس لے کر کھڑا تھا‘ اس نے بورڈنگ کارڈ پی آئی اے کے اہلکار کو تھما دیے‘ اہلکار نے مسکرا کر ہماری طرف دیکھا‘ ذرا سا جھکا‘ ترچھی آنکھ سے بورڈنگ کارڈ دیکھے اور سلپ پھاڑ کر پروٹوکول آفیسر کے حوالے کر دی‘ ہمارے پیچھے اسسٹنٹ سیکریٹری ہمارے بیگ اٹھا کر کھڑا تھا‘ اس نے یہ بیگ کس وقت چیک کرائے‘ ان پر ٹیگ کس وقت لگا یا‘ مجھے اس کی خبر تک نہیں ہوئی‘ ہم بس گاڑی سے اترے اور سیدھے جہاز میں سوار ہو گئے‘ جہاز پرواز کے لیے تیار تھا‘ہمارے بیٹھتے ہی جہاز کے دروازے بند ہو گئے‘ ائیر ہوسٹس نے اناؤنسمنٹ کی‘ ہم نے بیلٹس باندھیں اور جہاز ٹیکائ کرنے لگا۔
یہ اپنی نوعیت کا انوکھا سفر تھا‘ میں وزیر صاحب کے ساتھ دبئی جا رہا تھا‘ مجھے ان کے ڈرائیور نے گھر سے لیا‘ ہم سرینا پہنچے‘ وزیر وہاں ایک تقریب میں چیف گیسٹ تھا‘ میں فنکشن ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا‘ ہماری فلائٹ کا ٹائم ہو گیا مگر وزیر صاحب تقریر فرماتے رہے‘ میرا خیال تھا ہم فلائٹ مس کر چکے ہیں مگر صاحب اور اس کے اسٹاف کے چہرے پر اطمینان تھا‘ فنکشن ختم ہوا‘ ہم باہر گیٹ کی طرف بھاگے‘ ہماری گاڑیاں تیار تھیں اور ہم دس منٹ میں ائیر پورٹ پر تھے‘ وزیر کا اسٹاف اس وقت تک ہمارے پاسپورٹس پر مہریں بھی لگوا چکا تھا‘ ہمارے بورڈنگ پاس بھی نکلوا چکا تھا اور اس نے ہمارے سامان کے لیے ٹیگ بھی لے لیے تھے اور یوں ہم جہاز میں پہنچ گئے۔
ہماری منزل دبئی تھی جہاں ہم نے ایک پناہ گزین سیاسی شخصیت سے ملاقات کرنی تھی‘ میں اس ملاقات کے لیے کیوں جا رہا تھا‘ مجھے اس کی وجہ معلوم نہیں تھی‘ وزیر میرا دوست تھا اور اس نے مجھے عین وقت پر راضی کر لیا‘ میں نے حامی بھر لی‘ ہم دو گھنٹے بعد دبئی پہنچ گئے‘ دبئی کی صورتحال اسلام آباد سے یکسر مختلف تھی‘ ہم جہاز سے اترے‘ ہم نے اپنے بیگ خود اٹھائے‘ ہم جہاز سے اکیلے باہر نکلے‘ ہم امیگریشن کی لائین میں کھڑے ہوئے‘ ہم نے امیگریشن آفیسر کے سامنے اپنے پاسپورٹ رکھے‘ میرے دوست کا پاسپورٹ سرخ تھا مگر آفیسر نے اس کے باوجود وہ پاسپورٹ غور سے دیکھا‘ تصویر میرے دوست کے ساتھ میچ کی‘ آمد کی وجوہات پوچھیں‘ کریڈٹ کارڈ چیک کیا اور باہر جانے کا اشارہ کر دیا‘ میرا پاسپورٹ گرین تھا چنانچہ مجھ سے چند اضافی سوال پوچھے گئے اور آخر میں میرے پاسپورٹ پر مہر لگا کر مجھے بھی باہر جانے کا اشارہ کر دیا گیا۔
ہم باہر نکلے‘ پاکستانی ایمبیسی نے ہمارے لیے گاڑی بھجوانا تھی‘ گاڑی نہیں پہنچی‘ ہم نے ائیرپورٹ سے ٹیکسی لی اور ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے‘ ہمارے آگے پیچھے اور دائیں بائیں پولیس اور کمانڈوز کی کوئی گاڑی نہیں تھی‘ ہم ٹریفک کے سمندر میں یک و تنہا سفر کر رہے تھے‘ ہمیں ہوٹل میں بھی فرنٹ ڈیسک پر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا‘ ہم میٹنگ سے لیٹ ہو رہے تھے‘ ہم نے سامان کمرے میں پھینکا اور میٹرو پر بیٹھ کر میٹنگ کے لیے روانہ ہو گئے‘ ہم میٹرو میں عام لوگوں کے درمیان کھڑے تھے‘ ہم نے مال آف دبئی کے اسٹاپ پر اتر کر دوبارہ ٹیک م لی اور میٹنگ کی جگہ پہنچ گئے‘ یہ اس دن کا آغاز تھا‘ہم دبئی میں تین دن رہے‘ ان تین دنوں میں ہمیں سرکاری سیکیورٹی‘ پروٹوکول اور سرکاری گاڑیوں کی ضرورت نہیں پڑی‘ ہم شہر میں بھی گھومتے رہے‘ ہم ریستورانوں میں بھی گئے‘ ہم نے شاپنگ بھی کی ‘ ہم بیچ پر بھی گئے اور ہم نے ڈیزرٹ سفاری بھی لی مگر ہمیں کسی جگہ سیکیورٹی کی ضرورت نہیں پڑی۔
ہم تین دن بعد اپنا سامان خود اٹھا کر جہاز میں سوار ہوئے جہاز اڑا‘ اسلام آباد پہنچااور ہم نے جوں ہی جہاز سے باہر قدم رکھا‘ سیکیورٹی اور پروٹوکول دونوں جہاز کے باہر کھڑے تھے‘ وزیر کے اسٹاف نے جہاز کے اندر آکر ہمارا سامان اٹھایا‘ اسٹاف آفیسر ہمارے پاسپورٹ لے کر امیگریشن کاؤنٹر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا ، ہماری گاڑی جہاز کے ساتھ کھڑی تھی اور ہم جوں ہی ائیر پورٹ سے باہر نکلے‘ سیکیورٹی کی گاڑیوں نے ہماری گاڑی کو نرغے میں لے لیا۔
میں نے اس وقت سوچا ہمارا ملک کون سا ہے؟ دبئی یا پاکستان‘ ہم اگر پاکستانی شہری ہیں تو پھر ہم اپنے ملک میں اتنے غیر محفوظ کیوں ہیں؟ ہمیں اپنے لوگوں کے درمیان بلٹ پروف گاڑی‘ کمانڈوز‘ پولیس فورس اور پروٹوکول کی ضرورت کیوں پڑتی ہے اور اگر دبئی اجنبی ملک ہے تو پھر ہم خود کو وہاں اتنا محفوظ کیوں سمجھتے ہیں‘ ہم وہاں قطار میں کیوں کھڑے ہو جاتے تھے‘ ہم وہاں پروٹیکشن کے بغیر ٹیکسیوں اور میٹروز میں کیوں پھرتے تھے‘ ہم وہاں اکیلے صحرا میں کیوں چلے جاتے تھے‘ ہم وہاں پیدل کیوں پھرتے ہیں اور ہمیں وہاں اجنبی لوگوں سے ڈر کیوں نہں لگتا ‘ میں جوں جوں شہر کی طرف بڑھتا رہا ‘ یہ سوال سوئیوں کی طرح میرے دماغ میں چبھتا رہا۔
ہم انسان اجنبی جگہوں‘ اجنبی شہروں اور اجنبی لوگوں سے گھبراتے ہیں‘ ہم خود کو اجنبیوں میں غیر محفوظ بھی محسوس کرتے ہیں اور پریشان بھی جب کہ اپنا شہر‘ اپنے لوگ‘ اپنے عزیز‘ رشتے دار اور اپنے دوست ہمیں تقویت دیتے ہیں‘ امریکی خود کو امریکا میں جتنا محفوظ سمجھے گا یہ کسی دوسرے خطے میں خود کو اتنا کمفرٹیبل نہیں پائے گا‘ یورپ کے لوگ‘ جاپان‘ چین‘سنگا پور اور آسٹریلیا کے لوگ بھی خود کو اپنے اپنے ملکوں میں محفوظ اور خوش محسوس کرتے ہیں لیکن ہم لوگ ان سے مختلف ہیں‘ ہم اپنے ملک میں پریشان ہوتے ہیں‘ ہم اپنے لوگوں سے ڈرتے ہیں‘ ہم اپنے بچوں کو ہمسایوں سے ڈراتے رہتے ہیں‘ ہم خوف کی وجہ سے شاپنگ کے لیے نہیں نکلتے‘ ہم خود کو ریستورانوں میں بھی غیر محفوظ سمجھتے ہیں‘ ہم اس وقت تک اطمینان سے نیںت سو سکتے جب تک ہمارے دروازے پر مسلح گارڈ یا چوکیدار نہ ہو‘ لوگ اب گھروں میں شفٹوں میں سوتے ہیں‘ آدھے افراد سوتے ہیں اور باقی آدھے ان ہونی سے بچنے کے لیے جاگتے رہتے ہیں۔
یہ غلط ہے‘ ایسا نہیں ہونا چاہیے‘ ہمیں برطانیہ‘ امریکا‘ جاپان‘ یورپ اور آسٹریلیا کے شہریوں کی طرح خود کو اپنے ملک میں محفوظ سمجھنا چاہیے اور دوسرے ملکوں میں غیرمحفوظ۔ ہمیں دبئی میں سیکیورٹی کی ضرورت پڑنی چاہیے مگر ایساہوتا نہیں‘ ہم وہاں محفوظ ہوتے ہیں اور اپنے ملک میں غیر محفوظ‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ آج کے اخبار پڑھ لیں‘ آپ یہ خبر پڑھ کر حیران رہ جائیں گے حکومت ختم ہوتے ہی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خاندان کے 26 افراد پاکستان سے دبئی شفٹ ہو گئے۔
ان میں مسز گیلانی سے لے کر ان کی تمام صاحبزادیاں‘ ان کے خاوند‘ صاحبزادے اور ان کی بیگمات اور ان کے پوتے‘ پوتیاں اور نواسے نواسیاں شامل ہیں‘ یہ لوگ نگراں حکومت کے ممکنہ احتساب اور سیکیورٹی کی کمی کی وجہ سے دبئی شفٹ ہوئے ہیں‘ ان کو خدشہ ہے نگراں حکومت حج‘ایفی ڈرین اور این آئی سی ایل سکینڈلز میں گیلانی صاحب کے صاحبزادوں کو گرفتار کر لے گی اور حکومت کے خاتمے کے بعد گیلانی فیملی کی سیکیورٹی بھی واپس ہو جائے گی اور یوں انھیں سیکیورٹی حصار اور پروٹوکول کے بغیر بدتمیز عوام میں گھومنا پھرنا پڑیگا اور اقتدار زادوں کواس کی عادت نہیں رہی چنانچہ یہ غیر محفوظ ملک سے محفوظ ملک میں شفٹ ہو گئے ہیں اور یہ حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کا پہلا عملی ثبوت ہے‘ عوام کو اگلا ثبوت اس دن ملے گا جب راجہ پرویز اشرف کا خاندان بھی لندن شفٹ ہو جائے گا۔
رحمن ملک توہین عدالت کی سزا سے قبل بیمار ہو کر کسی انٹرنیشنل اسپتال میں داخل ہو جائیں گے اور قمر زمان کائرہ‘ مخدوم امین فہیم‘ سید خورشید شاہ‘ نوید قمر اور احمد مختار اپنے حلقوں میں واپس نہیں جا سکیں گے۔یہ ایوان صدر میں پناہ لینے پر مجبور ہو جائیں گے اور بلاول زرداری بھٹو لندن میں بیٹھ کر وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پارٹی کی قیادت کریں گے اور ٹیلی فون پر آنٹیوں اور انکلوں سے خطاب کریں گے اور رہ گئے ڈپٹی وزیراعظم تو یہ بھی اسپین کی راہ لیں گے‘ یہ ہے جمہوریت کا وہ انتقام جس کے نتیجے میں آج سابق حکومت کا کوئی وزیر اپنے خاندان کو پاکستان میں محفوظ نہیں سمجھ رہا اور یہ وہ ’’کھپے‘‘ تھا جس کا قوم نے پانچ سال تک انتظار کیا‘ قوم کو یہ کھپے مبارک ہو۔
ہا‘ہا‘ہا
جاوید چوہدری جمعرات 14 مارچ 2013
آپ املیش یادو کی مثال لیجیے‘ املیش بھارتی ریاست اتر پردیش اسمبلی کی رکن تھیں‘ انھوں نے اپریل 2007ئمیں بسائولی کے حلقے سے الیکشن لڑا اور کامیاب ہو گئیں‘ ان کے مخالف امیدوار یوگندرا کمار نے 2011ء میں پریس کونسل میں شکایت کی ‘املیش یادو نے دو اخبارات میں پیسے دے کر اپنی تشہیری خبریں لگوائیں‘پریس کونسل نے تحقیقات کے بعد ان کی شکایت کو درست قرار دیا‘ معاملہ بھارتی الیکشن کمیشن کے سامنے آیا اور الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا’’ املیش یادو نے تشہیری خبریں لگوانے کے لیے اکیس ہزار دو سو پچاس روپے ادا کیے۔
املیش نے یہ رقم اپنے انتخابی اخراجات میں ظاہر نہیں کی چنانچہ الیکشن کمیشن نہ صرف ان کی رکنیت منسوخ کرتا ہے بلکہ انھیں تین برسوں کے لیے نا اہل بھی قرار دیتا ہے‘‘۔ یہ بھارت میں اس نوعیت کی واحد مثال نہیں ‘ بھارتی الیکشن کمیشن کے پاس صدر اور وزیراعظم سے زیادہ اختیارات ہیں اور بھارت میں ان اختیارات کو کوئی چیلنج کر سکتا ہے اور نہ ہی ان سے انحراف‘ ہماری حکومتیں ہر الیکشن سے قبل نگراں حکومت کے لیے دست و گریباں ہوتی ہیں‘ حکومت اور اپوزیشن کی کوشش ہوتی ہے اپنی مرضی کا نگراں وزیراعظم لائیں تاکہ یہ الیکشن میں ان کی مدد کرے مگر بھارت نے آج سے63برس قبل یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔
انڈیا میں الیکشن سے قبل نگراں حکومتیں نہیں بنتیں ‘ الیکشن شیڈول کا اعلان ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومت کے تمام اختیارات الیکشن کمیشن کو منتقل ہو جاتے ہیں اور حکومت اس کے بعد کسی افسر کا چنائو نہیں کرسکتی اور نہ ہی فنڈز جاری کر سکتی ہے۔ انڈیا میں الیکشن کمیشن اس قدر مضبوط ہے کہ ہماچل میں 2012ء کے الیکشن کے دوران بی جے پی کی حکومت نے راشن کارڈ ہولڈرز میں پٹ سن کے ایسے تھیلے تقسیم کرنا شروع کر دیے تھے جن پر واجپائی کی تصویر چھپی تھی ‘ ہماچل میں2007ئسے 2012ء تک بی جے پی کی حکومت رہی۔
حکومت نے اپنے دور میں 16لاکھ لوگوں کو راشن کارڈز الاٹ کیے‘ ان لوگوں کو خوراک میں سبسڈی ملتی تھی‘ یہ بی جے پی کی حکومت کا بڑا کارنامہ تھا چنانچہ حکومت نے پٹ سن کے 16لاکھ تھیلے بنوائے اور یہ تھیلے راشن ڈپو پر رکھوا دیے‘ عوام کو یہ تھیلے مفت دیے جانے تھے ‘ الیکشن کمیشن کو 8 اکتوبر 2012کو ان تھیلوں کی اطلاع ملی‘ الیکشن 4 نومبر کو ہونا تھا‘کمیشن نے فوراً تھیلوں کی تقسیم پر پابندی لگا دی اور حکومت کو وارننگ دی اگر یہ تیلے فوری طور پر ڈپوئوں سے نہ اٹھائے گئے تو الیکشن کمیشن بی جے پی کے تمام امیدواروں کو نا اہل قرار دے دے گا‘ حکومت نے بارہ گھنٹوں میںتمام تھیلے اٹھالیے‘ واجپائی کے دور میں اس نوعیت کا ایک اور واقعہ پیش آیا ‘و اجپائی کے دور میںکسی حلقے میں ضمنی الیکشن ہو رہا تھا‘ الیکشن سے قبل وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ریاستی دورے پر جا رہے تھے۔
اسٹاف نے دورے کے دوران وزیراعظم کااس حلقے میں اسٹاپ اوور رکھ دیا‘ اسٹاف کا خیال تھا وزیراعظم چند لمحوں کے لیے وہاں رک جائیں گے تو بی جے پی کا امیدواریہ الیکشن جیت جائے گا ‘ الیکشن کمیشن کو اطلاع ملی تو اس نے وزیر اعظم کا ’’اسٹاپ اوور‘‘ختم کرا دیااور واجپائی نے الیکشن کمیشن کے حکم کے سامنے سر خم کر دیا‘ بھارت نے 1950ء میں الیکشن کمیشن بنا یا تھا اور یہ اختیارات اسے اسی وقت سونپ دیے گئے تھے‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی الیکشن کمیشن ان اختیارات میں اضافہ بھی کرتا رہا اور اپنی رٹ بھی مضبوط بناتارہا یہاں تک کہ یہ آج اس قدر پاورفل ہو چکا ہے کہ اس نے 2009ء کے الیکشن میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے 3275 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اخراجات کی تفصیل نہ دینے ‘ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے اور کرپشن کے الزامات کی وجہ سے مسترد کر دیے۔
انڈیا کا الیکشن کمیشن دنیا کا سب سے بڑا الیکشن کمیشن ہے‘ اس کے اسٹاف میں 5کروڑ سے زائد لوگ شامل ہیں ‘ یہ ساڑھے آٹھ لاکھ پولنگ اسٹیشن بناتا ہے اور یہ 71کروڑ ووٹروں کو ووٹ کا حق دیتا ہے‘ الیکشن کمیشن اس قدر مضبوط ہے اگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کسی عوامی نمایندے کے بارے میں کرپشن کے ثبوت آجائیں تو یہ ثبوت کمیشن کو بھجوا دیتی ہیں اور الیکشن کمیشن اس پر جو فیصلہ کرتا ہے اسے وزیراعظم ‘صدر حتیٰ کہ پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی تاہم امیدوار سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف ایک اپیل کر سکتا ہے۔
ہمارے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اور ان کے چار ساتھی بھارت کی اس اسپرٹ کے ساتھ 2013ء کے الیکشن کرانا چاہتے ہیں ‘ فخر الدین جی ابراہیم کو لوگ پیارسے فخرو بھائی کہتے ہیں‘ یہ ملک کے نامور قانون دان اور سابق گورنر سندھ ہںا ‘ یہ1981ء میں سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج تھے‘ جنرل ضیاالحق نے 1981ء میں ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا حکم دیا ‘ فخروبھائی نے انکار کر دیا اور یوں ’’نوکری‘‘ سے فارغ ہو گئے ‘یہ انتہائی ایماندار‘ سیدھے اور کھرے انسان ہیں‘ یہ زندگی کی 85 بہاریں دیکھ چکے ہیں مگر یہ اس کے باوجود توانا اور چست و چالاک ہیں‘ فخر الدین جی ابراہیم کا نام الیکشن کمشنر کے لیے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی نے پیش کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے تعین کے لیے12رکنی کمیٹی بنی‘ کمیٹی میں اپوزیشن کے ارکان کی تعدادپانچ تھی ‘حکومتی ارکان 3 تھے جب کہ باقی ارکان کا تعلق دیگر پارٹیوں سے تھا‘ اپوزیشن نے فخرو بھائی کے ساتھ جسٹس(ریٹائرڈ) شاکر اللہ جان اور جسٹس (ریٹائرڈ) ناصر اسلم زاہد کا نام بھی پیش کیا تھا‘ حکومت اقلیت میں تھی یہ اپنا نمایندہ منتخب نہیں کرا سکتی تھی‘ اس نے اپوزیشن کے دیے ناموں ہی سے کسی کا انتخاب کرنا تھا‘ اپوزیشن جسٹس (ریٹائرڈ) شاکر اللہ جان کو الیکشن کمشنر بنوانا چاہتی تھی‘ اس نے فخرو بھائی کا نام پینل کو بڑا اور معتبر بنانے کے لیے شامل کیا تھا‘ حکومت کو اپوزیشن کی خواہش کا علم ہو گیا‘ اس نے تمام ناموں کا تجزیہ کیا تو اسے فخرو بھائی وہ شخصیت نظر آئے جو آنے والے دنوں میں اپوزیشن کے قابو بھی نہیں آسکتے تھے۔
لہٰذا صدر نے سینیٹر اسلام الدین شیخ کو تیار کیا‘ 9 جولائی2012ء کو کمیٹی کا اجلاس ہوا اور اسلام الدین شیخ نے فخرو بھائی کی تائید کر دی‘ اے این پی نے فوراً اتفاق کر دیا اور یوں اپوزیشن کے ارکان منہ دیکھتے رہ گئے‘ فخرو بھائی کہنے کو تو اپوزیشن کے تجویز کردہ ہیں مگر یہ اپنی نوعیت کے آزاد اور خودمختار شخص ہیں چنانچہ آج پاکستان مسلم لیگ ن ان کی الیکشن اصلاحات کا سب سے بڑا ٹارگٹ ہے‘ فخرو بھائی نے کاغذات نامزدگی میں 10 نئے نکات ڈال دیے ہیں‘ ان نکات کے مطابق امیدوار کو اب بینک سے لیے جانے والے 20لاکھ روپے سے زائد کے قرضے بتانا ہوں گے‘ معاف کرائے گئے قرضوں کی تفصیل بتانا ہوگی۔
چھ ماہ پہلے تک کے کریمنل کیسز‘ تین سال کی ٹیکس ادائیگیاں‘اپنے اور اپنے اہل خانہ کے غیر ملکی دوروں‘ زرعی ٹیکس‘ پارٹی ٹکٹ کے لیے دیے گئے پیسوں‘ دوہری شہریت اور اگر امیدوار اس سے قبل رکن اسمبلی رہا تو اسے اپنے دور میں اپنے حلقے میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی تفصیل بتانا ہو گی‘ یہ نکات پاکستانی الیکشن کمیشن کو انڈین الیکشن کمیشن کے برابر لے جا رہے ہیں اور یہ ظاہر ہے ہمارے سیاستدانوں کے لیے قابل قبول نہیں لہٰذا ملک میں کہرام برپا ہوچکا ہے اور اس کہرام میں سب سے اونچی چیخ پاکستان مسلم لیگ ن کے منہ سے نکل رہی ہے کیونکہ اگر الیکشن کمیشن نئے فارموں کے تحت امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ کرتی ہے تو پاکستان مسلم لیگ ن کے وہ تمام امیدوار نا اہل ہو جائیں گے جو الیکشن جیتنے کے چکر میں دوسری پارٹیاں چھوڑ کر دیوانہ وار ن لیگ میں شامل ہورہے ہیں۔
ان میں سے اکثر پر کریمنل کیسز بھی ہیں‘ انھوں نے قرضے بھی معاف کروائے ہیں‘ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم جیسے لوگوں نے پانچ سال ملک سے باہر گزارے ہیں‘ یہ ٹیکس بھی جمع نہیں کراتے رہے‘ ان میں سے اکثریت کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر تک موجود نہیں اور انھوں نے ٹکٹ کے حصول کے لیے پارٹی کو کروڑوں روپے چندہ بھی دیا چنانچہ یہ لوگ الیکشن کمیشن کی پکڑ میں آ جائیں گے ‘ن لیگ فخرو بھائی کی نئی اصلاحات سے سراسیمگی کا شکار ہے جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی بغلیں بجا رہی ہے‘ پیپلز پارٹی کے اکثر وزرا سر عام کہتے دکھائی دیتے ہیں ’’ الیکشن اب نہںگ ہوں گے‘‘ ان سے پوچھا جائے ’’ کیوں‘‘ تو ان کا جواب ہوتا ہے ن لیگ عنقریب اپنے ہی الیکشن کمشنر کے شکنجے میں آ جائے گی اور یہ خود چاہے گی الیکشن ملتوی ہو جائیں۔
مجھے کل حکومت کے ایک اہم نمایندے نے بتایا حکومت نگراں وزیراعظم کے معاملے میں بھی فخرو بھائی جیسا کارڈ کھیلے گی‘ حکومت نے اپوزیشن کے دیے ناموں سے ایک ایسا شخص چن لیا ہے جسے ن لیگ نگراں وزیراعظم نہیں بنوانا چاہتی چنانچہ اپوزیشن نے اگر حفیظ شیخ یا ڈاکٹر عشرت حسین کو قبول نہ کیا تو حکومت ن لیگ کے دیے ناموں میں اس شخص کے نام پر ہاتھ رکھ دے گی اور یوں وہ نگراں وزیراعظم‘ فخر الدین جی ابراہیم کے ساتھ مل کر ن لیگ کا بینڈ بجا دے گا اور اپوزیشن کے پاس اعتراض کی گنجائش بھی نہیں ہو گی‘ میں نے جوں ہی یہ سنا‘ میرے منہ سے قہقہہ نکلا ہا‘ ہا‘ ہا اور میں نے اس سے کہا ’’ پاکستان میں آج تک واقعی آصف علی زرداری سے بڑا سیاستدان پیدا نہیں ہوا‘ جئے بھٹو اور کھپے آصف علی زرداری‘‘۔
سوری رانگ نمبر
جاوید چوہدری بدھ 13 مارچ 2013
یہ فلسفہ ہریانہ کے ایک رئیس سکھ نے ایجاد کیا اور آپ اگر ذرا سی توجہ دیں تو آپ کو یہ فلسفہ اپنے اردگرد چلتا پھرتا دکھائی دے گا‘ یہ رئیس سکھ کاروبار کے سلسلے میں لندن گیا‘ وہاں سے اس نے اپنے گھر فون کیا‘ فون اس کے نوکر نے اٹھایا‘ سکھ نے پوچھا’’ بیگم صاحبہ کہاں ہیں‘‘ نوکر نے جواب دیا وہ صاحب کے ساتھ بیڈ روم میں ہیں‘ سکھ کو آگ لگ گئی اور اس نے نوکر سے کہا ’’ صاحب تو میں ہوں اور میں اس وقت لندن میں ہوں‘‘ نوکر نے جواب دیا ’’ جناب مجھے نہیں پتہ کیونکہ یہ میری جاب کا پہلا دن ہے اور بیگم صاحبہ نے مجھے جس کے بارے میں بتایا میں اسے ہی صاحب سمجھتا ہوں‘‘ سکھ کا غصہ تیز ہو گیا‘ اس نے نوکر سے کہا ’’ تم فوراً ٹیبل کی دراز کھولو‘‘ نوکر نے کھول لی۔
اس نے اس سے کہا ’’کیا اس میں ریوالور ہے‘‘ نوکر نے جواب دیا ’’سر دراز میں کاربین پڑی ہے‘‘ سکھ نے نوکر کو حکم دیا ’’ تم یہ کاربین اٹھائو‘ بیڈ روم کا دروازہ کھلوائو اور جعلی صاحب کو گولی مار دو‘‘ نوکر نے گھبرا کر جواب دیا ’’ جناب یوں تو میں پھنس جائوں گا‘‘ سکھ نے مضبوط لہجے میں کہا ’’تم اس کی فکر نہ کرو‘ تمہیں بچانا میری ذمے داری ہے‘ میں تمہیں کام مکمل ہونے کے بعد بیس لاکھ روپے بھی دوںگا‘‘ نوکر نے فون ہولڈ کروایا‘ کاربین لوڈ کی‘ بیگم صاحبہ کا دروازہ کھٹکھٹایا‘ دروازہ کھلا اور نوکر نے صاحب کو گولی مار دی۔
سکھ نے فون پر گولی چلنے اور بیوی کے چلانے کی آواز سنی اور خوش ہو گیا‘ نوکر واپس آیا‘ اس نے فون اٹھایا اور سکھ سے کہا ’’ جناب آپ کا کام ہو گیا‘‘ سکھ نے نوکر کو حکم دیا ’’ تم اب جعلی صاحب کی نعش اٹھائو اور اسے سوئمنگ پول میں پھینک دو‘‘ نوکر نے چند لمحے سوچا اور اس کے بعد عرض کیا ’’ لیکن جناب گھر میں تو کوئی سوئمنگ پول نہیں؟‘‘ سکھ نے حیران ہو کر پوچھا ’’ کھوتے تم کیا کہہ رہے ہو‘ کیا گھر کے پیچھے سوئمنگ پول نہیں‘‘ نوکر نے کہا ’’ جناب پورے گھر میں کوئی سوئمنگ پول نہیں‘‘ سکھ نے چند لمحے سوچ کر فون نمبر دہرایا اور پوچھا ’’ کیا تمہارا فون نمبر یہ ہے‘‘ نوکر نے جواب دیا’’ جی نہیں سر‘ ہمارے فون کا نمبر دوسرا ہے‘‘ سکھ نے ایک لمبا سانس لیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں بولا ’’ بھا جی سوری‘میرا خیال ہے میں نے رانگ نمبر ڈائل کر دیا ہے‘‘۔
یہ صرف لطیفہ نہیں‘ یہ گہرا فلسفہ بھی ہے اور ہمارے حکمران اس فلسفے پر روز عمل کرتے ہیں‘ یہ روز کسی نہ کسی کی لاش سوئمنگ پول میں پھینکنے کا حکم دیتے ہیں اور آخر میں یہ جان کر کہ گھر میں کوئی سوئمنگ پول نہیں ’’ سوری رانگ نمبر‘‘ کہتے ہیں اور فون بند کر دیتے ہںئ‘ ہماری پوری تاریخ اس سوری رانگ نمبر سے بھری پڑی ہے‘ آپ کس کس کی مثال لیں گے‘ خان لیاقت علی خان نے امریکا کو رام کرنے کے لیے روس کو پاکستان کا دشمن بنا دیا‘ سوری رانگ نمبر‘ ایوب خان نے اقتدار کے لیے جعلی الیکشن کروایا اور محترمہ فاطمہ جناح کو ہروا دیا‘ 1965ء کی جنگ چھیڑ دی اورتاشقند معاہدے کے ذریعے پوری قوم کو ڈی مورلائز کر دیا۔
سوری رانگ نمبر‘ یحییٰ خان نے پاکستان توڑ دیا‘ سوری رانگ نمبر‘ ذوالفقار علی بھٹو نے پرائیویٹ اداروں کو قومیا کر ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا سوری رانگ نمبر‘ جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کے لیے قوم کو روس افغان جنگ میں دھکیل دیا اور تحفے میں دہشت گردی‘ ہیروئن اور کلاشنکوف پائی سوری رانگ نمبر‘ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف اقتدار کی جنگ میں اخلاقیات‘ جمہوریت اور سیاست کا بیڑا غرق کرتے رہے‘ سوری رانگ نمبر‘ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا‘ نواب اکبر بگٹی کو قتل کر دیا‘ لال مسجد پر فوج چڑھا دی اور چیف جسٹس کو معزول کر دیا‘ سوری رانگ نمبر اور صدر آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے بیڈ گورننس کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔
انھوں نے کرپشن کو سیاسی مفاہمت کا حصہ بنا دیا‘ یہ کراچی کو نو ہزار لاشوں کا تحفہ دے گئے‘ ملک میں دہشت گردی کی وجہ سے 40 ہزار لوگ مارے گئے‘ ملکی معیشت کو 70 ارب ڈالر کا نقصان ہوا‘ این آئی سی ایل‘ حج کرپشن‘ ایفی ڈرین اور رینٹل پاور جیسے کرپشن کے بڑے اسکینڈل سامنے آئے‘ ملک کے تمام بڑے ادارے خواجہ عدنان اور توقیر صادق جیسے کرپٹ لوگوں کے حوالے کر دیے گئے اور یہ اربوں روپے لوٹ کر لے گئے‘ غیر ملکی سرمایہ کاری پست ترین سطح پر آ گئی‘ بجلی اور گیس بحران ناقابل حل ہو گیا‘ بے روزگاری‘ کساد بازاری‘ مہنگائی اور لاقانونتی انتہا کو چھونے لگے اور ریلوے‘ اسٹیل مل اور پی آئی اے سفید ہاتھی بن گئے مگر یہ بھی اب سوری رانگ نمبر کہہ کر الیکشن میں بیٹھ رہے ہیں اور انھیں توقع ہے عوام انھیں ایک بار پھر منتخب کر لیں گے۔
کیا اقتدار کے بھرپور پانچ برسوں کے بعد سوری رانگ نمبر کا اعلان کافی ہو گا؟ کیا حکومت میں رہنے والے وزیروں‘مشیروں اور ان کے مشیروں سے ان کے غلط منصوبوں کا حساب نہیں لینا چاہیے؟ آپ کے دور میں پی آئی اے کا خسارہ 34 ارب سے 154 ارب روپے ہوگیا‘ ریلوے کا خسارہ 16 ارب سے 34 ارب ہو گیا اور528 میں سے388 انجن بند ہو گئے اورسو سے زائد ٹرینیں معطل ہو گئیں‘ اسٹیل مل ڈھائی ارب روپے منافع میں تھی‘ یہ آج 130ارب خسارے میں ہے‘ ملکی معاشی نمو 6.81 فیصد تھی‘ یہ اب2.39 فیصد ہے‘ غیر ملکی سرمایہ کاری 5ارب ڈالر تھی‘یہ اب 50 کروڑ ڈالر پر آچکی ہے‘ ڈالر 60 روپے تھا آج سو روپے کا ہے‘ پاکستان کے قرضے چھ ہزارارب روپے تھے۔
یہ آج 13ہزار ارب روپے ہو چکے ہیں‘ آٹا 16 روپے کلو تھا‘ آج 38 روپے ہے اور مہنگائی میں ڈیڑھ سو سے تین سو فیصد تک اضافہ ہوگیا‘ کیا کوئی ان سے اس کا حساب نہیں مانگ سکتا ‘ کیا سندھ کی حکومت سے کراچی کی ساڑھے آٹھ ہزار ہلاکتوں کا حساب نہیں لیا جا سکتا؟ کیا بلوچستان حکومت سے ساڑھے آٹھ سو ارب روپے کا حساب نہیں مانگا جا سکتا؟ کیا خیبر پختونخواہ کی حکومت کا دہشت گردی کے خلاف جنگ پر احتساب نہیں کیا جا سکتا اور کیا پنجاب حکومت سے یہ نہیں پوچھا جا سکتا آپ نے جوزف کالونی کے متاثرین کو 56 کروڑ روپے امداد دی‘ آپ اگر یہ رقم لاہور کی پولیس پر خرچ کرتے‘ آپ اگر ایسی پروٹیکشن پولیس بنا دیتے جو عوام کو اس قسم کے سانحوں سے بچاتی‘ کیا یہ بہتر نہیں تھا۔
کیا پنجاب حکومت سے تنور‘ سستے مکانات اور اجالا جیسے ناکام منصوبوں کا حساب نہیں مانگا جا سکتا؟ ہم لوگ اپنے ڈرائیور کا ایک ایکسیڈنٹ معاف نہیں کرتے‘ اسے دوبارہ گاڑی چلانے کا موقع نہیں دیتے لیکن ہمارے سیاسی نظام میں ناکام منصوبے چلانے اور ان میں قوم کے اربوں کھربوں روپے ضایع کرنے والے لوگ نہ صرف دوسری اور تیسری مرتبہ الیکشن لڑتے ہیں بلکہ یہ اگلی حکومت میں زیادہ بہتر عہدہ حاصل کر لیتے ہیں‘ حفیظ شیخ جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں وزیر خزانہ رہے‘ یہ ناکام ہو ئے‘ انھیں فارغ کر دیا گیا مگر یہ اس حکومت میں وزیر خزانہ بھی بنے اور یہ اب نگران وزیراعظم بننے کی تیاری کر رہے ہیں‘ حنا ربانی کھر شوکت عزیز کی حکومت میں خزانے کی ناکام وزیر مملکت تھیں‘ یہ موجودہ دور میں وزیر خارجہ بن گئیں‘ آپ اس طرح سید قائم علی شاہ اور نواب اسلم رئیسانی کا ٹریک ریکارڈ دیکھ لیں۔
حاجی غلام احمد بلور کے دور میں ریلوے اور سید نوید قمر اور احمد مختار کے دور میں پی آئی اے کا کیا حشر ہوا ؟اور راجہ پرویز اشرف نے وزارت کے دور میں واپڈا کا کتنا حلیہ بگاڑ دیا؟ پرفارمنس کے تمام شاہکار زندہ ہیں مگر یہ لوگ 2013ء کے الیکشن بھی لڑیں گے اور شاید اگلی حکومت کا حصہ بھی ہوں‘ اگر نہ ہوئے تو بھی یہ قومی اسمبلی یا سینیٹ کے معزز ممبر ہوں گے‘ کیا بیڈ گورننس کی ریکارڈ توڑ کارکردگی کے بعد ان کی طرف سے صرف ’’ سوری رانگ نمبر‘‘ کہہ دینا کافی ہو گا‘ ہم لوگ انھیں جعلی ڈگری‘ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے‘ غیر ملکی دوروں اور دوہری شہریت پر آسانی سے پکڑ لیتے ہیں مگر ان کی اس بیڈ گورننس کا کوئی حساب نہیں لیتے جس کے ذریعے یہ خزانے کو اربوں کھربوں روپے کا نقصان پہنچا دیتے ہیں۔
شاید ہم سرکاری خزانے کو ادھار کی سائیکل سمجھتے ہیں ‘یہ اگر چوری ہو جائے توہمارے لیے ایک سوری کافی ہوتی ہے‘ ہم سے تو چین کے وہ قدیم باشندے اچھے تھے جو طبیب کو اس وقت تک فیس ادا نہیں کرتے تھے جب تک مریض صحت یاب نہیں ہو جاتا تھا اور اگر مریض کی حالت مزید بگڑ جاتی تھی تو ڈاکٹر مریض کے علاج کا سارا خرچ اٹھاتا تھا‘ چین کے لوگ ڈاکٹر تک کو ’’ سوری رانگ نمبر‘‘ کہنے کی اجازت نہیں دیتے تھے مگر ہم لوگ نہ صرف رینٹل کے راجائوں کو معاف کر دیتے ہیں بلکہ ہم انھیں سواری کے لیے دوسری‘ تیسری اور چوتھی بار اپنی کمر پیش کر دیتے ہیں اور یہ لوگ جب تک تھکتے نہیں یا پھر خاندان سے کوئی نیا راجہ تیار نہیں کر لیتے یہ ہم پر سوار رہتے ہیں‘ ہمیں اپنے صبر پر اپنے آپ کو مبارک باد پیش کرنی چاہیے۔
شفیق عرف چھیکو
جاوید چوہدری پير 11 مارچ 2013
مولوی مشتاق ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا‘ اس نے چٹکی میں شناختی کارڈ بھی پکڑا ہوا تھا‘ وہ ہاتھ جوڑتا تھا‘ ہجوم کی منتیں کرتا تھا‘ انھیں شناختی کارڈ دکھاتا تھااور پھر دہائیاں دیتا تھا مگر ہجوم جب بپھر جائے تو پھر اسے مشتاق اور جوزف کا فرق نظر نہیں آتا‘ یہ مولوی اور فادر دونوں کی پہچان کھو بیٹھتا ہے اور بادامی باغ کی عیسائی بستی جوزف کا لونی میں بھی اس وقت یہی ہورہا تھا‘ مولوی مشتاق نے اپنے گھر کے دروازے پر ’’ یہ مسلمان کا گھر ہے‘‘ بھی لکھ کر لگا دیا‘ اس نے دیوار پر کوئلے سے اللہ اور رسول کا نام بھی لکھ دیا لیکن ہجوم جنونی ہو چکا تھا اور انسان جنون میں سب سے پہلے انسانیت کھوتا ہے‘ یہ بھول جاتا ہے میں انسان ہوں اور میرے سامنے موجود لوگ بھی انسان ہیں اور ہم سب ایک جیسے ہیں‘ گوشت پوست کے دھڑکتے پریشان ہوتے انسان‘ جنھیں بارش گیلا‘ دھوپ گرم‘ برف ٹھنڈا‘ لوہا دکھی اور آگ جلا دیتی ہے‘ یہ بھول جاتا ہے ہم سب ایک جیسے ہیں‘ دکھی‘ پریشان‘ متکبر‘ اکڑ خان‘ شیخی خور اور کنفیوژ‘۔
ہم سب ایک جیسے ہیں تشکیک کے شکار‘ تھڑ دلے‘ جلد باز‘ چغل خور‘ ناراض اور منافق اور ہم سب ایک جیسے ہیں‘ چیختے‘ چلاتے‘ منتیں کرتے اور اگر ہاتھ میں ڈنڈا ہو تو فرعون۔ مگر جنون میں ہم یہ تمام حقیقتیں فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ ہم دوسرے انسان کا قیمہ بنا دیتے ہیں‘دنیا میں شیر کو شیر نہیں کھاتا‘ کتے پر کتے کا گوشت حرام ہوتا ہے‘ چیلیں چیلوں پر حملہ نہیں کرتیں اور حتیٰ کہ سور بھی سور کو نقصان نہیں پہنچاتا مگر انسان دوسرے انسان کو کھا جاتا ہے‘ یہ دوسرے انسان کو چیر پھاڑ جاتا ہے‘ یہ اس کا قیمہ کر ڈالتا ہے اور یہ اس کے بعد گلے میں جنون کا ڈھول لٹکا کر دیوانہ وار رقص کرتا ہے اور مولوی مشتاق بھی انسانی جنون میں پھنس گیا تھا‘ لوگ اللہ اور رسولؐ کے نعرے لگا رہے تھے‘ یہ غلامی رسول میں موت کی حدیں تک عبور کر جانا چاہتے تھے اور یہ نعرہ بازی کے اس ریلے میں یہ تک بھول گئے ان کے سامنے کوئی عیسائی یا گستاخ نہیں کھڑا‘ ان کے سامنے ان کا ہم مذہب‘ ہم مسلک مولوی مشتاق کھڑا ہے‘ تین جوان بچیوں کا باپ مولوی مشتاق اور یہ ہاتھ جوڑ کر انھیں خدا رسولؐ کا واسطہ بھی دے رہا ہے‘ یہ انھیں کلمہ پڑھ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا یقین بھی دلا رہا ہے لیکن ہجوم نے اسے مولوی اور مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کر دیا‘ ہجوم نے مولوی مشتاق کو دھکا دیا‘ وہ دہلیز سے دور جا گرا‘ ہجوم نے اس کے دروازے کی کنڈی توڑی اور اس کے گھر کو آگ لگا دی‘ مولوی کا گھر اس کی تین بچیوں کے جہیز کے ساتھ جل کر راکھ ہو گیا مگر ہجوم کے دل کو ٹھنڈ نہ پڑی‘ یہ آگے بڑھ گیا اور یوں ہفتہ 9 مارچ کے دن بادامی باغ لاہور کی جوزف کالونی کے 177 گھر اور 16 دکانیں راکھ ہو گئیں‘ دس ہزار سے زائد فرزندان توحید پانچ گھنٹے جوزف کالونی میں جنون کا رقص دہکاتے رہے اور حکومت جی او آر میں اقتدار کے مزے لوٹتی رہی۔
یہ تماشا جمعرات 7 مارچ کے دن دو نشیئوں کی لڑائی سے شروع ہوا‘ اخباری اطلاعات کے مطابق ساون مسیح نشے میں دھت حجام شاہد عمران کی دکان پر آیا‘ دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی‘ دونوں ایک دوسرے کو گالی گلوچ کرنے لگے‘ اس دوران دوسرا نشئی شفیق عرف چھیکو وہاں پہنچا‘ یہ بھی نشے میں دھت تھا ‘ یہ ساون مسیح کا مخالف تھا‘ اس نے شور کر دیا‘ ساون گستاخی کر رہا ہے اور یوں دو لوگوں کی ذاتی لڑائی صلیبی جنگ میں تبدیل ہو گئی‘ یہ معاملہ اگلے دن مسجد تک پہنچ گیا‘ وہاں سے مختلف پریشر گروپس تک آیا اور یوں دس ہزار لوگوں نے جوزف کالونی پر حملہ کر دیا‘ ساون مسیح اس وقت تک بھاگ چکا تھا مگر جوزف کالونی کے 255 خاندان‘ 278 گھر ‘ درجنون دکانیں اور ساڑھے چار ہزار مکین وہاں موجود تھے ‘ ہجوم نے ساون مسیح کی گستاخی کا بدلہ جوزف کالونی سے لینا شروع کر دیا‘ گھروں کو آگ لگا دی گئی‘ سامان لوٹ لیا گا اور دکانیں جلا کر راکھ کر دی گئیں ‘ اسلام کی یہ تصویر اگلے دن پوری دنیا میں ہمارا اشتہار بن گئی‘ پاکستان کی مسیحی برادری دو دن سے ہڑتال پر ہے‘ یہ سڑکوں پر مارچ کر رہی ہے‘ یہ دھرنے دے کر بیٹھی ہے‘ پاکستان کے تمام مشنری اسکول بند کر دیے گئے ہیں اور چرچ کا اسٹاف حکومت کی بے حسی پر بددعائیں دے رہا ہے‘ کیا یہ اسلام ہے؟ اور کیا یہ ہے اللہ کے سچے اور آخری دین کی اصل تصویر؟
ہم آج تک بھارت کے ہندو جنونیوں کو بابری مسجد اور احمد آباد کے مسلمانوں پر حملے کی وجہ سے ظالم اور درندے قرار دیتے ہیں لیکن کیا ہم نے جوزف کالونی پر حملہ کر کے یہ ثابت نہیں کردیا ہم میں اور بھارت کے جنونی ہندوئوں میں کوئی فرق نہیں‘ یہ اگر گودھرا کے مسلمانوں کو قتل کر سکتے ہیں یا یہ بابری مسجد گرا سکتے ہیں تو ہم بھی کم نہیں ہیں‘ ہم بھی ایک شخص کی گستاخی کی سزا پوری بستی‘ پوری کمیونٹی کو دیتے ہیں اور ہمارا جنون جوزف کالونی میں رہنے والے مولوی مشتاق کو بھی نہیں بخشتا‘ ہم مسلمان بچیوں کا جہیز جلا دیتے ہیں‘ ہم مںی اور گجرات کے جنونی ہندوئوں میں کیا فرق ہے؟ پاکستان کے ہر اخبار کا پہلا صفحہ یہ سوال تین دن سے پوچھ رہا ہے اور ٹیلی ویژن کے ہر بلیٹن میں بھی دہرایا جاتا ہے‘ کوئی تو اس کا جواب دے۔
جوزف کالونی کے واقعے نے تین باتیں ثابت کر دیں‘ ایک‘ ہم من حیث القوم جنون کا شکار ہیں‘ یہ ملک ساڑھے سات لاکھ مربع کلو میٹر طویل پاگل خانہ بن چکا ہے اور ہم میں سے ہر شخص نے اس پاگل خانے میں ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجد بنا لی ہے‘ ہماری اس مسجد کے باہر موجود ہر شخص کافر ہے‘ ہر شخص گستاخ ہے‘ ہر شخص غدار ہے اور ہر شخص منافق ہے اور یہ منافق‘ غدار‘ گستاخ اور کافرقابل گردن زنی ہے‘ یہ اگر نہ ملے تو ہم پر اس کا خاندان‘ اس کی زمین جائیداد‘ گھر‘ دکان اور کھیت حلال ہو جاتا ہے‘ ہم دوسرے کے مندر‘ چرچ اور جماعت خانہ تو دور ہم اس کی مسجد تک قبول نہیں کرتے‘ ہم اس کی نماز‘ اس کے روزے‘ اس کے قرآن مجید اور اس کی داڑھی تک کو مشکوک سمجھتے ہیں‘ ہم نے اس ملک میں برادریوں، خاندانوں، قبیلوں، نسلوں،زبانوں اورمسالک کو بھی مسجدوںکی حیثیت دے دی ہے ‘ ہم پٹھان ہیں تو ہماری پٹھانیت ہماری مسجد ہے‘ ہم پنجابی‘ سندھی یا بلوچی ہیں، ہم اردو سپیکنگ یا لبرل ہیں تو یہ ہماری مسجد ہے اور ہم اس مسجد میں کسی غیر کو قبول کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی مسجد کی بغل میں کسی دوسری مسجد کو برداشت کرتے ہیں اور یہ جنون ہمارا لائف اسٹائل بن چکا ہے۔
دوسری حقیقت ‘اس ملک میں غریب کا صرف ایک مذہب ہے اور اس مذہب کا نام غربت ہے‘ کسی ایک غریب بد بخت کی سزا پوری بستی کو ملتی ہے اور اس بستی کا مولوی مشتاق بھی سزا کی زد میں آجاتا ہے اور ریاست جوزف کو بچا سکتی ہے اور نہ ہی مولوی مشتاق کو اور تیسری اور آخری حقتقو‘ہم اس ملک میں ڈگری کے بغیر کسی کا دانت نہیں نکال سکتے‘ ہم گردے کے علاج کے لیے اسپیشلسٹ کے پاس جائیں گے‘ ہم چائے بھی چائے خانے کی پیئں گے اور ہم بال بھی اچھے اور ماہر حجام سے کٹوائیں گے لیکن گستاخی کے فیصلے کے لیے ہم اپنی ذات میں مفتی اعظم ہیں‘ ہم کسی کو بھی‘ کسی بھی وقت گستاخ قرار دے کر اس کے پورے خاندان کو قتل کرنے ‘ اس کی پوری بستی کو آگ لگانے کا حکم دے سکتے ہیں اور پورا شہر اس نیک کام میں ہمارا مقتدی بن جائے گا اور یہ فتوٰی خواہ شفیق عرف چھیکو ہی کیوں نہ دے‘ ہم مرنا اور مارنا اپنے اوپر فرض کر لیں گے ہم اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات فراموش کر دیں گے ‘ ہم قرآن مجید کو طاق میں رکھ کر بھول جائیں گے‘ ہم رسول اللہ ﷺکی کسی سنت پر عمل نہیں کریں گے اور ہم دو دو مہینے مسجد میں داخل نہیں ہوں گے لیکن ہم شفیق عرف چھیکو کی گواہی پر پوری جوزف کالونی جلا دیں گے اور اس کے بعد اللہ سے توقع کریں گے یہ ہمارے اس کارنامے کے صدقے ہمارے تمام گناہ معاف کر دے گا اور یہ ہمیں جوار رحمت میں جگہ دے دے گا اور یہ ہے ہمارا اسلام‘ شفیق عرف چھیکو کا اسلام۔
آپ اپنے بچوں کو بچائیے
جاوید چوہدری ہفتہ 9 مارچ 2013
بہارہ کہو اسلام آباد کے مضافات میں ایک چھوٹی سی بستی ہے‘ بہارہ کہو میں گیارہ سال کی بچی شہزادی رہتی تھی‘ یہ غریب ماں باپ کی بیٹی تھی‘ یہ شام کے وقت زارا مہک کے گھر ٹیوشن پڑھنے جاتی تھی‘ زارا مہک نے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس کر رکھا تھا‘ اس کے والد او جی ڈی سی میں نائب قاصد تھے‘ شہزادی تیرہ فروری کو ٹیوشن پڑھنے گئی اور گھر واپس نہیں آئی‘ والدین نے تھانے میں رپورٹ کرا دی‘ بچی کی لاش تین دن بعد آئی نائین انڈسٹریل ایریا کے ایک گٹر سے ملی‘ بچی کو قتل کر کے اس کی نعش پر پٹرول چھڑک کر اسے جلا دیا گیا تھا۔
نعش سوفیصد جل گی تھی‘والدین نے بچی کو اس کے دانتوں سے پہچانا‘ بچی کے لواحقین نے 17 فروری کو لاش سڑک پر رکھ کر ٹریفک بلاک کر دی‘ میڈیا پر خبر آئی ‘ چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لے لیا‘ ایس پی کیپٹن الیاس نے تفتیش شروع کر دی‘ یہ نوجوان ایس پی الجھے ہوئے کیس حل کرنے میں خصوصی مہارت رکھتا ہے‘ کیپٹن الیاس نے بہارہ کہو اور آئی نائین کے فون ٹاورز کا ڈیٹا نکلوایا‘ بچی کے اغواء کے دن دونوں ٹاوروں سے 40 لاکھ کالز ہوئی تھیں‘ کیپٹن الیاس نے چالیس لاکھ میں سے ایسے لوگ الگ کیے جو اس دن بہارہ کہو اور آئی نائین دونوں جگہوں کے درمیان آتے جاتے رہے۔
یہ پچاس ہزار لوگ تھے‘ ان میں سے ایسے لوگ الگ کیے گئے جو آئی نائین سے بہارہ کہو گئے اور پھر واپس آئی نائین آئے‘ یہ بیس ہزار لوگ تھے‘ ان میں سے ایسے لوگ الگ کیے گئے جو صرف اس دن بہارہ کہو گئے اور واپس آئے اور یہ عام دنوں میں بہارہ کہو نہیں جاتے تھے‘ یہ ساڑھے بارہ سو لوگ تھے‘ پولیس نے ان ساڑھے بارہ سو میں سے ایسے نمبر الگ کیے جو صرف اس دن استعمال ہوئے اور عام دنوں میں بند رہتے ہیں‘ بہر حال قصہ مختصر پولیس ایک نمبر تک پہنچ گئی۔
اس نمبر سے بچی کی ٹیوٹر زارا مہک کے نمبر پر مس کال دی گئی تھی‘ پولیس نے زارا کو گرفتار کر لیا‘ تفتیش کے دوران اس سے اس نمبر کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ گھبرا گئی‘ مزید تفتیش ہوئی تو معلوم ہوا ’’ مشکوک‘‘ فون سے بہارہ کہو کے ایک نمبر پر مسلسل کالز اور ایس ایم ایس آتے تھے‘ یہ زارا مہلک کا دوسرا نمبر تھا‘ پولیس نے یہ فون برآمد کر لیا‘ اس کے بعدپولیس کے سامنے ایک لرزہ خیزا سٹوری آئی۔
زارا مہک 2009ء سے ابرار قاضی کی محبت میں گرفتار تھی‘ ابرار ایم بی اے تھا‘ پڑھا لکھا اور خوبصورت تھا اور یہ آئی نائین کی ایک اسٹیل مل میں ایچ آر منیجر تھا‘ یہ دونوں زندگی میں ’’تھرل‘‘ کرنا چاہتے تھے اور زارا مہک نے اس تھرل میں گیارہ سال کی معصوم بچی ابرار کے حوالے کر دی‘ پولیس اسٹوری کے مطابق زارا نے بچی کا گلا دبایا‘ بچی بے ہوش ہو گئی‘ لڑکا بہارہ کہو پہنچا‘ اس نے بچی کو چادر میں لپیٹا‘ اس کے بعد اسے پلاسٹک کے بڑے بیگ میں ڈالا اور اس کے بعد اسے بوری میں بند کر کے کندھے پر اٹھایا اور ٹیکسی میں بیٹھ گیا‘ راستے میں بچی سانس لینے کی کوشش کرتی تھی تو یہ ٹیکسی کا شیشہ نیچے کر دیتا تھا۔
موبائل پر گانے لگا دیتا تھا اور ٹیکسی ڈرائیور کو باتوں میں الجھا دیتا تھا‘ یہ بچی کو آئی نائین اپنے کمرے میں لے گیا‘ پولیس کا کہنا ہے کہ بچی اس وقت تک مرچکی تھی‘ اس نے مری ہوئی بچی سے زیادتی کی‘ بعد ازاں اسے دوبارہ بوری میں ڈالا‘ جنگل میں گیا اور نعش خشک نالے میں پھینک دی‘ اس نے واپس جاتے ہوئے زارا مہک کو کال کر کے بتایا ’’ میں نے نعش نالے میں پھینک دی ہے‘‘ زارا نے اسے ایس ایم ایس کیا ’’تم نعش کو دفن کر دو یا پھر جلا دو‘‘ یہ پٹرول پمپ پر گیا‘ اس نے وہاں سے پٹرول لیا‘ واپس نالے پر آیا اور نعش کو آگ لگا دی۔
کیپٹن الیاس نے یہ ایس ایم ایس پکڑ لیے اور اس کے بعد کیس کھل گیا۔ پولیس کو تفتیش کے دوران معلوم ہوا یہ ان لوگوں کی اس نوعیت کی پہلی واردات نہیں‘ یہ اس سے قبل ایس پی حاکم علی کی جوان بیٹی کو قتل کر چکے ہیں‘ یہ لڑکی زارا مہک کی سہیلی اور کلاس فیلو تھی‘ یہ عموماً پڑھنے کے لیے زارا مہک کے گھر چلی جاتی تھی اور رات کو اس کے پاس ٹھہر جاتی تھی‘ یہ ایک رات زارا مہک کے پاس رک گئی‘ ابرار رات کے وقت آیا‘ ان دونوں نے اس کا گلا دبایا‘ وہ بے ہوش ہو گئی اور ابرار نے بے ہوشی کے عالم میں اس کے ساتھ زیادتی کی‘ یہ لڑکی بھی مر گئی‘ ابرار واپس چلا گیا۔
پولیس کہانی کہتی ہے کہ زارا مردہ لڑکی کے ساتھ سو گئی اور اس نے صبح اٹھ کر شور مچا دیا، میری سہیلی سوتے ہوئے مر گئی‘ زارا نے بعد ازاں ایس پی حاکم کو بتایا آپ کی بیٹی ڈرگز استعمال کرتی تھی‘ میں اس کو منع کرتی تھی لیکن یہ باز نہیں آتی تھی‘ رات اس نے ڈرگز لیں اور شاید یہ ان ڈرگز کی وجہ سے فوت ہو گئی‘ حاکم علی نے اس کہانی پر یقین کر لیا اور یوں یہ لوگ پولیس سے بچ گئے‘ یہ اس کے علاوہ بھی اس قسم کی وارداتیں کر چکے ہیں لیکن یہ ابھی سامنے نہیں آئیں۔ اب زارا مہک بہارہ کہو کیس میں جیل میں ہے۔
یہ اس نوعیت کا پہلا کیس نہیں‘ ملک میں آئے روز ایسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں‘ والدین ٹیوشن پڑھانے کے لیے بچیوں کو دوسروں کے گھر بھیج دیتے ہیں اور وہاں بچیوں کی عزت بھی چلی جاتی ہے اور بعض اوقات جان بھی۔ ہمارے والدین بالخصوص بچیوں کے والدین کو احتیاط کرنی چاہےہ‘ ہم والدین چھوٹے بچوں کو گھر سے باہر نہ جانے دیں‘ ملک میں ایسے بے شمار گینگ موجود ہیں جوگھروں کے گیٹس یا دہلیز پر کھڑے بچوں کو اٹھا لے جاتے ہیں‘ یہ لوگ موٹر سائیکل پر ہوتے ہیں‘ ایک ملزم موٹر سائیکل چلاتا ہے جب کہ دوسرا پیچھے بیٹھا ہوتا ہے‘ پیچھے بیٹھا ملزم بچے کو اٹھاتا ہے‘ اسے کلورو فارم سونگھاتا ہے‘ بچہ بے ہوش ہو جاتا ہے‘ یہ اسے کندھے کے ساتھ لگالیتا ہے اور یہ دونوں غائب ہو جاتے ہیں‘ چھوٹی بچیاں ان کا خصوصی ہدف ہوتی ہیں۔
یہ واردات اسلام آباد میں عام ہے‘ والدین چھوٹے بچوں کو گیٹ سے باہر نہ نکلنے دیں‘ والدین بچیوں کو ٹیوشن کے لیے بھی دوسروں کے گھر نہ بھجوائیں‘ اگر ضروری ہو تو بچیوں کو گروپ کی شکل میں بھجوائیں‘ تین چار بچیاں اکٹھی جائیں اور اکٹھی واپس آئیں‘ اگر گھر کی کوئی بزرگ خاتون بچیوں کے ساتھ چلی جائے تو زیادہ بہتر ہو گا‘ بچیوں کا دادا یا کوئی بزرگ بھی ساتھ جا سکتا ہے‘ یہ کوئی کتاب یا ریڈیو ساتھ لے جائے اور باہر بیٹھ کر ریڈیو سنتا رہے یا کتاب پڑھتا رہے۔والدین بچیوں کو کسی بھی قیمت پر سہیلی کے گھر رکنے کی اجازت نہ دیں‘ یہ بچیوں کو رات کے وقت کسی عزیز رشتے دار کے گھر بھی ٹھہرنے کی اجازت نہ دیں‘ مائیں بچیوں کے کمروں‘ الماریوں اور بیگز کی تلاشی لیتی رہیں۔
اگرانھیں وہاں کوئی اضافی موبائل ملے تو یہ اسے الارم سمجھیں کیونکہ بچی کو دوسرا موبائل رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کی بچی کے پاس دوسری سم بھی نہیں ہونی چاہیے‘ آپ یہ بھی دیکھئے کیا آپ کی بچی کا لائف اسٹائل‘ اس کے کپڑے‘ اس کے پرفیومز‘ اس کے زیورات اور اس کے جوتے اس کی پاکٹ منی سے میچ کرتے ہیں؟ آپ کی بچی گفٹ لے کرتو گھر نہیں آرہی؟ اس کے پرس سے پیسے تو نہیں نکلتے؟ اور یہ بار بار موبائل سیٹ تو تبدیل نہیں کر رہی؟ اگر ایسا ہے تو آپ تحقیق ضرور کریں‘ آپ بچیوں کو پارٹیوں‘ گیٹ ٹو گیدرز اور سالگروں میں بھی نہ جانے دیں‘ اگر جانا ضروری ہو تو والدہ ساتھ جائے‘ اگر یہ ممکن نہ ہو تو آپ بچی کو خودڈراپ کریں اور خود واپس لے کر آئیں۔
کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد میں آج کل زہریلی منشیات بھی بک رہی ہیں‘ پچھلے دو ماہ میں تین چار سو جوان لڑکے زہریلی چرس اور جعلی شراب پینے سے مر چکے ہیں‘ یہ اعلیٰ خاندانوں کے پڑھے لکھے جوان بچے تھے‘ کراچی میں چند دن قبل ایک خوبصورت باڈی بلڈر نوجوان مر گیا‘ اس نے چرس کا سگریٹ پیا اور درجنوں لوگوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے دی‘ لاہور میں میرے ایک جاننے والا کا اکلوتا جوان بیٹا چرس پینے سے مرگیا‘ یہ بچہ پڑھنے کے لیے باہر جا رہا تھا‘ اگلے دن اس کی فلائیٹ تھی‘ یہ رات کو دوستوں کے ساتھ پارٹی پر گیا۔
وہاں کسی دوست نے اسے چرس کا سگریٹ دے دیا‘ بچے نے دو کش لگائے‘ نیچے گرا اور چار منٹ میں اس کی جان نکل گئی‘ اس چرس میں ہیروئن اور کوکین کے کیمیکل ہوتے ہیں‘ یہ انتہائی مہلک ہے اور ملک بھر میں دھڑا دھڑ نوجوان بچے مر رہے ہیں‘ ملک میں جعلی شراب بھی عام بک رہی ہے‘ یہ بڑے برانڈز کی بوتلوں میں ہوتی ہے اور یہ روزانہ کسی نہ کسی کی جان لے لیتی ہے اور والدین اپنی عزت کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں‘ آپ کو اگر اپنے بچوں سے محبت ہے تو آپ فوراً ان باتوں پر توجہ دیں ورنہ وقت آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور جاتے جاتے آپ کے بیٹے یا بیپ کو بھی ساتھ لے جائے گا۔
خواہ آپ راجے ہی کیوں نہ ہوں
جاوید چوہدری جمعرات 7 مارچ 2013
کاش ہمارے راجہ پرویز اشرف یا ان کے بعد آنے والے ان جیسے راجے ایک بار‘جی ہاں صرف ایک بار وینزویلا کے آنجہانی ہیوگو شاویز کی کہانی پڑھ لیں‘کاش یہ وینزویلا کی گلیوں میں روتے‘بال نوچتے‘ سر میں راکھ ڈالتے اور دھاڑیں مار مار کر ایک دوسرے سے کے گلے ملتے عوام کو دیکھ لیں‘ کاش یہ ایک بار اپنے مرحوم صدر کو اپنا والد قرار دیتے عوام کے تاثرات سن لیں تو شاید‘ شاید اور شاید ان کا ضمیر بھی انگڑائی لے لے‘ یہ بھی جمہوریت کے اصل مفہوم تک پہنچ جائیں‘ یہ بھی ہیوگو شاویز جیسے لیڈر بن جائیں۔
ہیوگو شاویز صدر آصف علی زرداری کی طرح جاگیر دار‘ سرمایہ دار اور صنعت کار کا بیٹا نہیں تھا‘ یہ میاں نواز شریف کی طرح انڈسٹریلسٹ کا بیٹا بھی نیں3 تھا‘ یہ یوسف رضا گیلانی کی طرح کسی گدی نشین کی اولاد بھی نہیں تھا اور یہ کسی راجہ خاندان کا چشم وچراغ بھی نہیں تھا‘ یہ پرائمری اسکول کے معمولی ٹیچر کا بیٹا تھا‘ یہ چھ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا اور اس کی زندگی کا واحد مقصد بیس بال کا قومی کھلاڑی بننا تھا‘ یہ بیس بال کھیلتا تھا‘یہ اچھا کھلاڑی بھی تھا لیکن اسے بتایا گیا وینزویلا تیسری دنیا کا تیسرے درجے کا ملک ہے اور ایسے ملکوں میں ترقی کے لیے سفارش ضروری ہوتی ہے اور خواہ یہ بیس بال ہی کیوں نہ ہو‘ وہ ہر قیمت پر بیس بال کا قومی کھلاڑی بننا چاہتا تھا مگر یہ اس کے اسکول ٹیچر والد کے بس کی بات نہیں تھی
ہیوگو شاویز قد کا ٹھ میں مضبوط تھا چنانچہ اس نے آرمی جوائن کر لی‘ آرمی میں جانے کی وجہ بھی بیس بال تھی‘ اس کا خیال تھا آرمی مضبوط ترین ادارہ ہے اور یہ اس ادارے میں رہ کر خود اپنی سفارش بن جائے گا‘ فوج میں اسے باغیوں کو کچلنے کے لیے بنائی جانے والی اسپیشل فورس میں شامل کر دیا گیا اور یہ دوسرے جوانوں کے ساتھ مل کر ملک بھر میں باغیوں کے خلاف آپریشن کرنے لگا‘ ان آپریشنز نے اس کی آنکھ کھول دی‘ اس نے دیکھا وینزویلا معاشرتی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہے‘ بالائی طبقہ اور زیریں طبقہ‘ بالائی طبقے کو امریکا کی حمایت حاصل ہے‘ یہ لوگ سیاسی جماعتوں‘ فوج‘ بیورو کریسی‘ جاگیرداروں اور صنعت کاروں پر مشتمل ہیں‘ وینز ویلا تیل کی دولت سے مالا مال ہے‘ یہ تیل پیدا کرنے والا دنیا کا 13 واں بڑا ملک ہے‘ بالائی طبقے کو آئل کمپنیوں کی آشیر باد حاصل ہے۔
آئل کمپنیاں حکمران طبقے سے مل کر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں جب کہ زیریں طبقہ بری طرح پس رہا ہے‘ یہ تعلیم‘ صحت‘روز گار اور انصاف جیسی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہے‘ ہیوگو شاویز آپریشن کے لیے نکلتا تھا تو یہ عام لوگوں کی حالت دیکھ کر رونے لگتا تھا‘ وینز ویلا میں ستر اور اسی کی دہائی میں باغی سر اٹھا رہے تھے‘ یہ سرکاری عمارتوں اور سرکاری شخصیات کو نشانہ بناتے تھے۔
جب کہ شاویز کا اسکواڈ ان باغیوں کو کچلتا تھا‘شاویز کو محسوس ہوا یہ باغی بے گناہ ہیں ‘ غربت اور عدم مساوات کی وجہ سے ان کے پاس بغاوت کے سوا کوئی چارہ نہیں چنانچہ کیپٹن شاویز‘ میجر شاویز اور آخر میں کرنل شاویز کے اندر ایک باغی مچلنے لگا‘ یہ اس قدر خوفناک بغاوت تھی کہ یہ بیس بال تک بھول گیا‘ کرنل شاویز نے اپنے باغی جذبوں سے مجبور ہو کر 1992ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی‘ یہ کوشش ناکام ہو گئی‘یہ گرفتار ہوا اور اسے جیل میں پھینک دیا گیا‘ اسے جیل میں اندازہ ہوا جمہوری ملکوں میں فوجی بغاوتوں کی گنجائش نہیں ہوتی‘ اگراس نے تبدیلی لانی ہے تو اسے ووٹ کا سہارا لینا ہو گا۔
وینزویلا میں اس وقت دو سیاسی جماعتیں تھیں‘ یہ میوزیکل چیئر کی طرح آپس میں کرسی بدلتی رہتی تھیں‘ شاویز نے جیل میں اپنی سیاسی جماعت بنائی‘ باہر آیا اور عوام میں کود گیا‘ وہ پانچ سال تک عوام میں اٹھتا‘ بیٹھتا‘ کھاتا اور سوتا رہا‘ اس نے ان پانچ برسوں میں عوام کو یقین دلا دیا ’’ میں وہ شخص ہوں جو عوام کو کبھی دھوکا نہیں دوں گا‘‘ عوام غربت‘ سیاسی منافقت اور طبقاتی تقسیم سے تنگ تھے چنانچہ یہ شاویز کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور یوں یہ 1999ء میں وینزویلا کا صدر منتخب ہو گیا‘ شاویز نے صدر بنتے ہی اپنے وعدے نبھانا شروع کر دیے‘ اس نے تمام صنعتیں‘ پرائیویٹ کمپنیاں قومیا لیں۔
اس نے تیل کی ساری دولت عوامی فلاح پر لگا دی‘ملک میں انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے اسکول بنوائے‘ عالی معیار کے اسپتالوں کے ذریعے عوام کو صحت کی مفت سہولت دی‘ ملک میں ایک لاکھ کو آپریٹو سوسائٹیاں بنوائیں‘ ان سوسائٹیوں نے روزگار کے ذرایع پیدا کیے اور عوام خوش حال ہوگئے‘ ہیوگو شاویز نے جس وقت اقتدار سنبھالا تھا تو اس وقت وینزویلا کی 55 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی‘ بے روزگاری کی شرح 20فیصد تھی لیکن 5مارچ 2013ء کو جب یہ فوت ہوا تو بے روزگاری صرف سات فیصد رہ گئی تھی اور خط غربت سے نیچے آبادی صرف 20فیصد۔ شاویز نے 2002ء میں ملک کی تمام آئل کمپنیاں قومیا لیں‘ اس نے نائن الیون کے بعد امریکا اور جارج بش کو شیطان‘ فاشسٹ اور درندہ کہنا شروع کر دیا‘ یہ اسرائیل کا بہت بڑا مخالف بھی بن گیا۔
اس نے عراق‘ ایران اور شمالی کوریا کی اس وقت حمایت کی جب یہ ملک خود اپنے حقوق کی بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے‘ شاویز نے سلامتی کونسل میں کھڑے ہو کر بش کو شیطان‘ بزدل‘ قاتل‘ نسل کش‘ نشے باز‘ جھوٹا‘ منافق‘ نفسیاتی مریض اور دنیا کا بدترین شخص کہا اور پوری دنیا میں مشہور ہو گیا‘امریکا اور اس کے اتحادیوں نے رد عمل میں اس کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننا شروع کر دیے‘ وینزویلا کی فوج‘ سیاسی جماعتیں‘ صنعت کار‘ سرمایہ کار‘ آئل کمپنیاں اور بیورو کریسی بھی اس کے خلاف ہو گئی‘ امریکا نے ڈالروں کے دروازے کھول دیے جس کے بعد وینزویلا میں 11 اپریل 2002ء کو شاویز کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے‘ فسادات ہوئے اور فوج فسادات کی آڑ لے کر اقتدار پر قابض ہو گئی۔
شاویز کی حکومت ختم ہو گئی‘ امریکا کی کوشش تھی یہ جلد سے جلد الیکشن کرا دے اور وینزویلا میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کر دے لیکن عوام کو صرف اور صرف شاویز چاہیے تھا چنانچہ عوام باہر نکلے‘ انھوں نے فوج‘ سیاسی جماعتوں اور سفارتی علاقے کا گھیرائو کیا اور صرف 47 گھنٹے بعد شاویز کو دوبارہ ایوان صدر میں بٹھا دیا‘ فوج واپس بیرکوں میں چلی گئی اور اس کے بعد شاویز نے واپس مڑ کر نہ دیکھا‘ عوام نے 7 اکتوبر 2012ء کو اسے چوتھی بار صدر منتخب کر لیا‘ اس کا اقتدار 14 ویں برس میں داخل ہوگیا اور یوں یہ دنیا بھر کی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے دنیا کے تین بڑے لیڈروں میں شامل ہو گیا۔
یہ عوامی آدمی تھا‘ یہ عوام میں عوام کی طرح رہتا تھا‘ یہ روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا تھا‘ نیند بھگانے کے لیے روزانہ تیس کپ کافی پیتا تھا‘ عوامی فلاح کے منصوبوں کی خود نگرانی کرتا تھا‘ کرپشن فری تھا‘ خود کسی پلاٹ پر قبضہ کیا اور نہ ہی اپنے کسی بھائی‘ بھتیجے‘ بھانجے اور داماد کو اجازت دی‘ اس نے بس ڈرائیور کو اپنا نائب بنایا اور اس کو باقاعدہ ٹریننگ دی‘ دنیا نے وینزویلا کی امداد بند کر دی‘ غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ لے کر واپس چلی گئیں اور یورپ نے اس کا حقہ پانی بند کر دیا مگر یہ اپنے ملکی وسائل سے لوگوں کی حالت بدلتا رہا یہاں تک کہ آج وینزویلا کے عام لوگ امریکی شہریوں سے اچھی زندگی گزار رہے ہیں‘ لوگ دل سے اس کا احترام کرتے ہیں۔
وینزویلا کا شاید ہی کوئی گھر ہو گا جس میں شاویز کی تصویر نہ ہو یا لوگ جس کے پائوں نہ چھونا چاہتے ہوں‘ آپ اس کی مقبولیت کا اندازہ دو باتوں سے لگالیجیے‘ یہ آخری الیکشن کے دوران بیمار ہوگیا‘ یہ کینسر کا مریض تھا‘ یہ الیکشن جیت گیا مگر بستر مرگ پر شفٹ ہوگیا‘ الیکشن جیتنے کے بعد وینزویلا کے ایک ٹیلی ویژن نے اس کی موت کی خبر چلا دی‘ لاکھوں لوگ فوراً سڑکوں پر نکلے اور انھوں نے اس چینل کا محاصرہ کرلیا اور چینل کے لیے جان بچانا مشکل ہو گئی۔
وینزویلا کے آئین کے مطابق صدر انتخاب کے بعد دس جنوری کو حلف اٹھاتا ہے‘ اگر صدر حلف نہ لے تو 30 دن کے اندر اگلے الیکشن ہوتے ہیں‘ شاویز بیمار تھا‘ یہ حلف نہ اٹھا سکا‘ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو سپریم کورٹ نے عوامی دبائو میں آئین کی یہ دفعہ معطل کر دی اور حلف کی تقریب شاویز کے صحت مند ہونے تک ملتوی کر دی‘ شاویز 5 مارچ 2013ء کو انتقال کر گیا‘ اس کے انتقال نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا ‘ لوگ ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگے۔
کاش یہ مناظر ہمارے حکمران‘ ہمارے راجے مہا راجے بھی دیکھ لیتے اور ان سے صرف اتنا سیکھ لیتے آپ اگر عوام کے سچے خادم ہیں تو پوری لوکل اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ مل کر بھی آپ کا بال بیکا نہیں کر سکتی اور اگر آپ نے عوام کو کچھ نہیں دیا تو آپ پانچ سال پورے کرنے کے باوجود اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے‘ آپ باقی زندگی کنٹینر میں گزاریں گے خواہ آپ زرداری ہوں‘ گیلانی ہوں یا راجے ہوں۔
کتنی دیر
جاوید چوہدری بدھ 6 مارچ 2013
آپ کو ریمنڈ ڈیوس یقیناً یاد ہو گا۔
ریمنڈ ڈیوس امریکی فوج میں ویپن سارجنٹ تھا‘ یہ 1993ء میں فوج میں بھرتی ہوا اور یہ 2003ء میں ریٹائر ہو گیا‘یہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا کی مختلف سیکیورٹی کمپنیوں میں ملازمت کرتا رہا‘ اس کی آخری جاب سیکیورٹی ایجنسی میں تھی‘ یہ ایجنسی کانٹریکٹ پر سی آئی اے کے لے کام کرتی تھی‘ سی آئی اے نے2007ء میں ایجنسی کو پاکستان میں کانٹریکٹ دے دیا‘ ایجنسی نے اپنے ملازم پاکستان بھجوا دیے‘ ریمنڈ ڈیوس بھی ان ملازمین میں شامل تھا‘ یہ 2011ء کے شروع تک نو مرتبہ پاکستان آیا اور ملک کے مختلف حصوں میں کام کرتا رہا‘ یہ 27 جنوری 2011ء کو لاہور میں کسی خفیہ مشن پر تھا۔
یہ دن بارہ بجے کے قریب اپنی گاڑی پر لاہور کے علاقے قرطبہ چوک میں گھوم رہا تھا‘ اسے اچانک محسوس ہوا موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان فہیم اورفیضان اس کا پیچھا کر رہے ہیں‘ یہ گاڑی سے نکلا اور اس نے ان دونوں نوجوانوں کو سر عام گولی مار دی‘ لوگوں نے ریمنڈ ڈیوس کا محاصرہ کر لیا‘ امریکی قونصل خانے کی دوسری گاڑی اسے بچانے کے لیے وہاں پہنچی لیکن اس کی عبادالرحمن کی موٹر سائیکل سے ٹکر ہو گئی‘ گاڑی اسے روندتے اور گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھی لیکن یہ ریمنڈ ڈیوس تک نہ پہنچ سکی‘ عبادالرحمن بھی اس حادثے میں مارا گیا‘ ریمنڈ ڈیوس گرفتار ہو گیا۔
یہ دو پاکستانی نوجوانوں کا سیدھا سادا قاتل تھا‘ امریکی حکومت درمیان میں کود پڑی‘پوری امریکی مشینری جس میں وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن‘ وزیر دفاع رابرٹ گیٹس اور امریکا کے افغانستان میں ایساف کمانڈرڈیوڈ پیٹریاس شامل تھے‘ ان سب نے پاکستان پر دبائو بڑھا دیا‘ صدر اوبامہ نے اسے سفارت کار قرار دے دیا‘ سینیٹر جان کیری ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لیے پاکستان پہنچ گئے‘ امریکا ریمنڈ ڈیوس کو ہر صورت بچانا چاہتا تھا خواہ اسے دنیا میں اپنا سب سے بڑا اور سستا ترین اتحادی پاکستان ہی قربان کیوں نہ کرنا پڑے‘ ریمنڈ ڈیوس کی وجہ سے پاک فوج اور امریکی فوج کے تعلقات خراب ہو گئے‘ امریکی جرنیلوں نے جنرل کیانی کو ’’ کولڈ شولڈر‘‘ دینا شروع کر دیا‘ پاکستان نے جرمنی میں نیٹو کانفرنس میں شریک ہونا تھا مگر ہیلری کلنٹن نے عین وقت پر پاکستان کو کانفرنس سے ڈراپ کر دیا۔
پاکستان کا امدادی چیک بھی روک دیا گیا اور امریکا نے نیٹو میں شامل دوسرے ممالک کے ذریعے بھی پاکستان پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا‘ پاکستانی حکومت دبائو میں آ گئی‘ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو ’’ درمیانی راستہ‘‘ نکالنے کی ہدایت کی گئی مگر شاہ محمود قریشی نے انکار کر دیا‘ وزیر خارجہ نے کردار کا مظاہرہ کیا‘ یہ وزارت سے مستعفی ہوئے اور یہ بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے‘ ہماری حکومت شاہ محمود قریشی کی قربانی کے باوجود امریکی دبائو میں رہی یہاں تک کہ حکومتی اداروں نے 16 مارچ 2011ء کو مقتول فہیم اور فیضان کے لواحقین کو راضی کر لیا‘ انھیں 20 کروڑ روپے خون بہا ادا کیا گیا اور ریمنڈ ڈیوس کو جیل میں امریکی حکام کے حوالے کر دیا گیا‘ امریکی حکام اسے خصوصی جہاز پر بگرام لے گئے‘ وہاں اسے نیا پاسپورٹ دیا گیا اور یہ امریکا واپس چلا گیا۔
آپ اگر ریمنڈ ڈیوس کے ایشو کا تجزیہ کریں تو آپ کے سامنے چار چیزیں آئیں گی‘ایک، افغانستان میں نیٹو فورسز کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان امریکا کے لیے ناگزیر ہے‘ امریکا اور نیٹو فورسز پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں ٹک سکتی ہیں اور نہ ہی کامیاب ہو سکتی ہیں‘ نیٹو فورسز کے لیے پٹرول‘ کھانا‘ پانی‘ ادویات حتیٰ کہ پیمپر تک پاکستان کے ذریعے افغانستان پہنچتے ہیں مگر امریکا نے اپنے صرف ایک شہری کے لیے اپنے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کی جان اور آرام دائو پر لگا دیا۔ دو، پاکستان اور امریکا ایک دوسرے کے پرانے اتحادی ہیں‘ پاکستان نے چین امریکا تعلقات‘ افغان وار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی اوقات سے بڑھ کر امریکا کا ساتھ دیا‘ پاکستان مستقبل میں بھی امریکا کے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ ملک تین عالمی طاقتوں کے درمیان واقع ہے۔
اس کے ایک طرف چین جیسی ابھرتی ہوئی سپر پاور ہے‘ دوسری طرف بھارت جیسا معاشی اور معاشرتی جن ہے اور تیسری طرف روس جیسی سابق سپر پاور موجود ہے اور امریکا پاکستان میں رہ کر ان تینوں طاقتوں کا مقابلہ کر سکتا ہے مگر امریکا نے ریمنڈ ڈیوس جیسے معمولی اور نفسیاتی مریض کے لیے اپنا بہت بڑا سفارتی اتحاد بھی دائو پر لگا دیا اور تین‘ ریمنڈ ڈیوس کی کشمکش نے آگے چل کر امریکا کو شدید مالیاتی نقصان پہنچایا‘ ٹینشن کی وجہ سے امریکا نے سلالہ چیک پوسٹ پرحملہ کر دیا اور پاکستان نے 27 نومبر 2011ء کو نیٹو سپلائی بند کر دی‘ امریکا کو نیٹو سپلائی کے متبادل روٹس پر جانا پڑا اور یوں اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا اور چار، اس واقعے نے ثابت کر دیا امریکی حکومت اور قوم اپنے شہریوں کو خواہ یہ نفسیاتی مریض ہی کیوں نہ ہوں یا یہ اجنبی ملک میں سڑک پر کھڑے ہو کر سر عام دو معصوم شہریوں کو گولی ہی کیوں نہ مار دیں‘ یہ اسے سفارتی اور عسکری تعلقات سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
یہ اس واقعے کا ایک پہلو ہے آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے‘ ریمنڈ ڈیوس پاکستان سے رہا ہونے کے بعد اپنی آبائی ریاست کولوراڈو پہنچ گیا‘ یہ یکم اکتوبر 2011ء کو اپنے قصبے ہائی لینڈ رینج کی ایک مارکیٹ میں گاڑی کھڑی کر رہا تھا‘ وہاں اس کا ایک عام شہری جیف میز کے ساتھ جھگڑا ہو گیا‘ ریمنڈ ڈیوس گاڑی سے اترا اور اس نے جیف کو مکے اور لاتیں مارنا شروع کر دیں‘ پولیس آئی اور اس نے ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار کر لیا‘ اس کے خلاف عوامی مقام پر غنڈہ گردی‘ شہری پر تشدد اور ملکی قانون کو ہاتھ میں لینے کا مقدمہ قائم ہوا۔
یہ مقدمہ ڈیڑھ سال تک چلتا رہا اور عدالت نے آج سے چھ دن قبل یکم مارچ 2013ء کو ریمنڈ ڈیوس کو دو سال قید‘ اینگرمینجمنٹ کی کلاسز لینے اور جرمانے کی سزا سنا دی اور یوں آج وہ ریمنڈ ڈیوس جس کے لیے امریکا نے اپنا سب سے بڑا عسکری اور سفارتی اتحادی ناراض کردیا تھا‘ جس کے لیے شاہ محمود قریشی جیسے ذہین اور ایماندار سیاستدان کا سیاسی مستقبل تباہ ہوگیا اور امریکا کو جسے بچانے کے لیے نیٹو سپلائی تک کی قربانی دینا پڑی وہ ریمنڈ ڈیوس امریکی جیل میں پڑا ہے اور اپنے پولیس سسٹم کو گالیاں دے رہا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کی کہانی کا یہ کلائمیکس ثابت کرتا ہے‘ امریکا اپنے پاگل شہری کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے مگر وہ اپنے ملک میں اس شخص کا معمولی سا جرم بھی برداشت نہیں کرتا‘ ریمنڈ ڈیوس نے پاکستان میں دو لوگ قتل کر دیے تو ہیلری کلنٹن سے لے کر صدر اوبامہ تک پوری امریکی حکومت اس کی سفارشی بن گئی لیکن جب اس نے امریکی سرزمین پر دوسرے امریکی شہری کو دو مکے اور تین لاتیں ماریں تو وائٹ ہائوس‘ وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کا کوئی کلرک تک اس کی مدد کے لیے نہیں آیا اور جیل اس شخص کا مقدر بن گئی جو مارچ 2011ء میں دنیا کے ہر اخبار‘ ہر میگزین اور ہر نیوز چینل کی کور اسٹوری تھا‘ یہ کلائمیکس ثابت کرتا ہے معاشروں کی اصل طاقت قانون ہوتا ہے اور ہمارے ملک میں یہ طاقت نہیں۔
چنانچہ پاکستان میں کوئی غیر ملکی دو شہریوں کو سر عام گولی مارنے کے باوجود باعزت رہا ہو جاتا ہے جب کہ امریکا میں قانون مضبوط ہے چنانچہ وہاں جرم کے بعد ریمنڈ ڈیوس بھی سزا سے نہیں بچ سکتا‘ آپ اس واقعے کو ذہن میں رکھئے اور اس کے بعد کراچی کے عباس ٹائون میں ہونے والے تین مارچ کے واقعے کو دیکھئے‘ عباس ٹائون بم دھماکے میں 50 لوگ مارے گئے‘ سپریم کورٹ نے تڑپ کر اس واقعے کا نوٹس لے لیا‘ چیف جسٹس کراچی میں بیٹھ کر حکومت‘ رینجرز اور پولیس سے جواب مانگ رہے ہیں لیکن حکومت اور حکومتی ادارے برف کی سل پر بیٹھے ہیں۔
ان کے ضمیر کی آنکھ تک گیلی نہیں ہوئی اور یہ وہ بے حسی ہے جس کے پھندے پر کبھی ذوالفقار علی بھٹو جھول جاتا ہے اور کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو سڑک پر ماری جاتی ہیں اور اگر بنکروں میں رہنے والے موجودہ لیڈر بھی خدانخواستہ اس انجام کا شکار ہو جائیں تو اس ملک میں انھیں بھی انصاف نہیں مل سکے گا کیونکہ یہ وہ جنس ہے جو اس ملک میں پائی ہی نہیں جاتی اور اگر ہو گی تو ملے گی کہاں سے؟ آج ریمنڈ ڈیوس ہمارے پورے جسٹس سسٹم پر ہنس رہا ہے وہ کولوراڈو کی جیل میں بیٹھ کر پاکستان کے اٹھارہ کروڑ لوگوں سے پوچھ رہا ہے کیا تم لوگ انصاف کے بغیر زندہ رہ سکو گے‘ اگر ہاں تو کتنی دیر؟ اس سوال کا جواب عباس ٹائون کی پچاس نعشیں اور گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا سرخ کفن دے رہا ہے‘ یہ کہہ رہے ہیں ملک میں جب انصاف نہ ہو تو عباس ٹائون کی نعشوں کو انصاف ملتا ہے اور نہ بے نظیربھٹو کو ‘ تمام مرنے والے مٹی کی ڈھیری ہوتے ہیں۔
تین مارچ
جاوید چوہدری پير 4 مارچ 2013
میں وہاں سے گزر رہا تھا اور یہ میرا واحد جرم تھا۔
میں سندھ کے پسماندہ ترین علاقے تھرپار کر سے تعلق رکھتا ہوں‘ میرے بزرگ نسلوں سے غلام تھے‘ ہم غلام ابن غلام ابن غلام تھے‘ نسلوں کی غلامی آخر میں بغاوت بن گئی اور میری ماں مجھے لے کر کراچی بھاگ آئی‘ یہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی‘ یہ برتن مانجھتی تھی‘ جھاڑو دیتی تھی‘ صاحب لوگوں کے بچوں کے پوتڑے دھوتی تھی اور رات کے وقت دوسروں کے کپڑے سیتی تھی اور اس مشقت سے اسے جو پےسھ ملتے تھے، یہ ان سے مجھے پڑھاتی تھی‘ ہمارے گھر بجلی نہیں تھی‘ ہمارے گھر میں پانی اور سیوریج بھی نہیں تھا‘ ہم نے لوہے کی چادریں جوڑ کر ایک چھوٹا سے ٹوائلٹ بنا رکھا تھا‘ میری ماں رات کے وقت ٹوائلٹ کی غلاظت اپنے ہاتھوں سے اٹھاتی تھی اور میں اسے محلے کے نالے میں پھینک آتا تھا‘ میں میونسپل کمیٹی کے نل کے سامنے برتن رکھ دیتا تھا‘ میرا برتن دوسرے برتنوں کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے سرکتا رہتا تھا اور میں پتھروں کی ڈھیری پر بیٹھ کر اسکول کا سبق یاد کرتا رہتا تھا‘ یہ لمبی مشقت تھی جس کے آخر میں ہمیں کبھی کبھی پانی مل جاتا تھا اور ہمیں جس دن پانی نہیں ملتا تھا ہم اس دن پینے اور پکانے کے لیے ہمسایوں سے پانی ادھار لیتے تھے۔
ہمارے صدر‘ ہمارے وزیراعظم اور ہمارے وزیراعلیٰ کو شاید معلوم ہی نہ ہو ان کی رعایا پانی بھی ادھار لے کر پیتی ہے‘ ہم غربت کی اس نچلی سطح پر زندگی گزار رہے تھے جس میں انسان بیمار ہونے کا رسک بھی نہیں لیتا کیونکہ یہ جانتا ہے یہ اگر بیمار ہوگیا تو یہ ڈاکٹر اور دوا تک نہیں پہنچ سکے گا چنانچہ اس کا جسم بیماریوں کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا‘ دنیا میں صرف وہ لوگ بیمار ہوتے ہیں جو یہ جانتے ہیں ہم اگر بیمار ہوئے تو ہم کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر اور دوا تک پہنچ جائیں گے جب کہ ہمیں یہ توقع ہی نہیں تھی ہم بیمار ہوں گے تو کوئی آگے بڑھ کر ہماری نبض چیک کرے گا چنانچہ ہم نے کبھی بیمار ہونے کا رسک نہیں لیا‘ ہمارا جسم تپنے لگتا تھا مگر ہم خود کو صحت مند سمجھتے تھے‘ ہم دوا نہیں کھاتے تھے‘ میری ماں کی زندگی کا صرف اور صرف ایک مقصد تھا‘ میں پڑھ لکھ جائوں‘ میں ملازمت کروں‘ یہ ملازمت مجھے خوش حالی دے اور یوں میں آزاد ہو جائوں‘ میں نسلوں کی غلامی سے نکل جائوں‘ ہمارے خاندانی آقا نے ہمارے فرار کی سزا میرے والد کو دی‘ اس نے اسے ذاتی جیل میں ڈال دیا اور حکم جاری کیا جب تک ا س کی ’’لوگائی‘‘ اور اس کا ’’ چھور‘‘ واپس نہیں آتا یہ جیل میں کھجور کے پتوں کی چٹائیاں بنائے گا اور میرا والد جیل میں روزانہ پندرہ پندرہ گھنٹے کھجور کے پتے بُنتا تھا‘ ہمیں رشتے داروں کے ذریعے ابا کی خبر ملتی رہتی تھی مگر میری ماں نے میرے مستقبل کے لیے اپنا دل سخت کر لیا‘ اس نے واپس مڑ کر نہیں دیکھا۔
میں سیاہ رنگت کا سہما ہوا دیہاتی بچہ تھا اور کراچی گورے لوگوں کا صاف ستھرا اور با اعتماد شہر‘ میرے دائیں بائیں اور آگے پیچھے روشنیوں کا سمندر بہتا تھا لیکن میں اس سمندر میں غوطے کھا کھا کر اپنا راستہ تلاش کر رہا تھا‘ میں سرکاری اسکولوں میں پڑھ سکتا تھا اور وظیفے لے کر گزارہ کر سکتا تھا چنانچہ میں نے یونیورسٹی تک وظیفوں کے ذریعے تعلیم حاصل کی‘ میں ٹیوشن بھی پڑھاتا رہا‘ میں منڈی میں مزدور کا کام بھی کرتا رہا‘ میں نے راج مستریوں کے ساتھ بھی کام کیا‘ میں نے سمندر پر بھٹے بھی بیچے اور میں نے بسوں اور ویگنوں میں کنڈیکٹر اور کلینر کا کام بھی کیا اور یوں میں زمین کے ساتھ ساتھ رینگ کر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ میں نے کیمسٹری میں ایم ایس سی کر لی‘ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرکاری نوکری تلاش کرتا رہا مگر غلام ابن غلام ابن غلام کو سرکاری نوکری کہاں سے ملتی؟ مجھے سرکاری نوکری نہ ملی ‘میں مایوس ہو کر پرائیویٹ نوکریوں کی تلاش میں نکل گیا۔
میں دن بھر پرائیویٹ لیبارٹری میں کام کرتا‘ شام کے وقت اکیڈمی میں میٹرک کے بچوں کو سائنس پڑھاتا‘ رات کو اصفہانی روڈ کے ایک فلیٹ میں نویں جماعت کی بچی کو ٹیوشن پڑھاتا اور رات ماں کا کھانا لے کر گھر چلا جاتا‘ میں اس مشقت کے بعد پندرہ سولہ ہزار روپے کما لیتا تھا‘ ہم خوشحال ہو چکے تھے چنانچہ ہم کچی آبادی سے نکل آئے‘ ہم نے پانچ ہزار روپے میں دو کمروں کا چھوٹا سا مکان کرائے پر لے لیا‘ یہ مکان محض مکان نہیں تھا‘ یہ جنت تھا کیونکہ اس میں پانی کا نل بھی تھا اور فلش بھی ‘ نل سے تیسرے دن پانی آتا تھا‘ ہم پورے گھر کے برتن بھر لیتے تھے اور یہ پانی ہم دو ماں بیٹے کے لیے کافی تھا‘ ہماری ساری خواہشیں پوری ہو گئی تھیں بس ایک آرزو بچی تھی میں کسی نہ کسی طرح اپنے والد کو وڈیرے کی جیل سے نکالنا چاہتا تھا‘میری تمنا تھی غلام ابن غلام ابن غلام کو ایک بار کراچی شہر دکھا دوں اور میں دن رات چلتے پھرتے اس اسکیم پر کام کرتا رہتا تھا‘ میں اس میں شاید کامیاب بھی ہو جاتا مگر پھر میری زندگی میں 3 مارچ آ گیا اور میرے سارے خواب میرے ساتھ مر گئے‘ میرے سامنے گلی میں کھڑی گاڑی سے ٹرر‘ ٹرر‘ ٹی‘ ٹی کی آوازیں آئیں بالکل شارٹ سرکٹ جیسی آوازیں‘ میں کھڑا ہو کر گاڑی کو دیکھنے لگا‘ مجھے محسوس ہوا گاڑی کی بیٹری میں کوئی خرابی ہے اور اس خرابی سے انجن میں اسپارک ہو رہا ہے۔
میں نے گاڑی کا مالک تلاش کر نا شروع کر دیا لیکن پھر ہلکا سا دھماکا ہوا جیسے بچوں کی پٹاس پھٹتی ہے یا پھر چھوٹی سائیکل کی ٹیوب چلتے چلتے پھٹ جاتی ہے‘ میں ڈر گیا‘ میں نے ڈر کر بھاگنا شروع کر دیا مگر چند سیکنڈ بعد ایک ہولناک دھماکا ہوا‘ زمین دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہو گئی‘ بارود کی ہوا نے مجھے زمین سے اوپر اچھال دیا‘ میں عمارتوں کی کھڑکیوں ‘ دروازوں اور چھتوں سے اوپر اٹھا‘ چند لمحے فضا میں اڑتا رہا اور اس کے بعد ایک فلیٹ کی بالکونی پر گر گیا‘ میں اگر اب ’’میں‘‘ کا صیغہ استعمال کروںگا تو یہ زیادتی ہو گی کیونکہ میں اب میں نہیں رہا تھا‘ میری ٹانگیں اور میرے بازو چھوٹے چھوٹے ذروں میں تقسیم ہو کر اصفہانی روڈ کی دیواروں‘ کھڑکیوں‘ گاڑیوں اور درختوںسے چپک گئے تھے‘ میری گردن آدھی کٹ چکی تھی اور شہ رگ سے نل کے پانی کی طرح شوں شوں کی آواز کے ساتھ لہو باہر گر رہا تھا‘ میری انتڑیاں بالکونی پر بکھری تھیں‘ میری ایک آنکھ کی گولی نکل کر بالکونی کی میز پر عین اس جگہ پڑی تھی جہاں شام کا تازہ اخبار رکھا تھا اور اس اخبار پر ہیڈ لائین چھپی تھی ’’ ہم نے پانچ سال جمہوریت کو کیسے قائم رکھا‘ یہ ہم ہی جانتے ہیں‘ صدر آصف علی زرداری‘‘ میری آنکھ کی گولی اس ہیڈ لائین کے بالکل سامنے پڑی تھی‘ میری دوسری آنکھ اپنے حلقے سے نکل کر ناک کے قریب لٹک رہی تھی اور ناک ٹوٹ کر سینے پر گری تھی اور سینہ چھلنی ہو چکا تھا اور میں اس چھلنی سے بارود کے دھوئیں‘ لوگوں کی آہوں اور سسکیوں اور ایمبولینس کی آوازوں کو آرپار ہوتے محسوس کر رہا تھا‘ مجھے اس وقت معلوم ہوا انسان جب موت اور زندگی کی سرحد پر کھڑا ہوتا ہے تو وہ دیکھنے کے لیے آنکھوں‘ سننے کے لیے کانوں اور سونگھنے کے لیے ناک کا محتاج نہیں رہتا‘ اس کے جسم کا ہر رستا ہوا خلیہ اس کی آنکھ‘ ناک اور کان بن جاتا ہے‘ مجھے اس وقت معلوم ہوا انسان جب دھماکے کی زد میں آتا ہے تو اس کے دکھ‘ اس کے درد کی مدت صرف ایک سیکنڈ ہوتی ہے‘ ایک سیکنڈ بعد وہ ’’ پین فری‘‘ ہو جاتا ہے اور مجھے اس وقت معلوم ہوا انسان کی خواہشیں‘ انسان کی حسرتیں مرنے کے بعد بھی قائم رہتی ہیں۔
میرا جسم اس وقت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بالکونی پر پڑا تھا‘ میں زندگی کے بوجھ سے آزاد ہو چکا تھا مگر اس وقت بھی میری ماں کی مشقتیں‘ میری ماں کی تکلیفیں‘ اس کا اکلاپا‘ اس کی آنکھوں کی مدہم ہوتی بینائی اور میرے والدکی طویل جیل‘ اس کے ہاتھ پر کھجور کے پتوں کے زخم اور میری نسلوں کی غلام ابن غلام ابن غلام نفسیات یہ سب ابھی تک زندہ تھیں اور یہ ملک کے نظام سے پوچھ رہی تھیں‘ اس بیچارے کا کیا قصور تھا‘ یہ تو یہاں سے صرف گزر رہا تھا‘ کیا گزرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ ملزم کے جسم کو اتنے چھوٹے چھوٹے ذروں میں تقسیم کر دیا جائے کہ اس کی ماں بھی اسے شناخت نہ کر سکے‘ یہ مرنے کے بعد بھی دفن ہونے کے حق سے محروم رہے‘ افسوس میں زندہ تھا تو مجھ پر زندگی کو ترس آتا تھا اور میں جب مر گیا تو موت میرے سرہانے کھڑی ہو کر میرا بین کر رہی تھی‘ میں زندہ تھا تو مجھے گھر نہیں ملا اور میں مر گیا تو مجھے قبر نصیب نہیں ہوئی۔
آخرمیرا قصور کیا تھا‘ کیا گزرنا جرم ہے‘زندگی کے اصفہانی روڈ سے گزرنا۔
نوٹ: یہ 3 مارچ 2013ء کی شام اصفہانی روڈ کے عباس ٹائون میں ہونے والے بم دھماکے میں مرنے والے ایک شخص کی داستان ہے جب کہ اس دھماکے میں ایسے 50 لوگ شہید ہوئے‘ ان میں سے ہر شخص جمہوریت کو پانچ سال تک قائم رکھنے والوں سے اپنا جرم پوچھ رہا ہے‘ یہ پوچھ رہا ہے آپ نے تو پانچ سال پورے کر لیے لیکن میرے لواحقین کو کیا ملا‘ بے گور اور بے کفن نعشیں۔
بیوپار
جاوید چوہدری ہفتہ 2 مارچ 2013
شکاگو کینڈی کا راز بہت دنوں بعد کھلا اور ہم یہ راز جان کر حیران رہ گئے‘ وہ روز بیسیوں مرتبہ کینڈی کا ذکر کرتا تھا‘ ایک ہاتھ سینے پر رکھتا تھا‘ سر تھوڑا ساآگے جھکاتا تھا اورمنہ ہی منہ کچھ بدبدا کر کہتا تھا ’’ میں شکاگو کینڈی کا شکریہ ادا کر رہا ہوں‘ وہ نہ ہوتی تومجھے آج یہ بھی پتہ نہ ہوتا ‘‘ ہم سب حیرت سے اس کی طرف دیکھتے تھے اور پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر قہقہہ لگاتے تھے مگر وہ ہمارے مذاق کو ذرا برابر اہمیت نہیں دیتا تھا‘ وہ دس‘ پندرہ اور بیس منٹ بعد کینڈی کو یاد کرتا تھا‘ سےنت پر ہاتھ رکھ کر اس کا شکریہ ادا کرتا تھا اور اگلے ٹاسک میں جت جاتا تھا۔
وہ کھانے کی میز پر چمچ‘ چھری اور کانٹے رکھتے ہوئے‘ نیپکن کو دائیں سے بائیں جانب دھرتے ہوئے‘ ٹشو پیپر کو اٹھا کر جھٹکتے ہوئے‘ نیپکن کو اپنے سینے پر رکھتے ہوئے‘ بائیں ہاتھ میں چھری اور دائیں ہاتھ میں کانٹا اٹھاتے ہوئے‘ دوسرے کی گفتگو کو غور سے سنتے ہوئے‘ مخاطب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ چھری کانٹے سے کھاتے ہوئے‘ میزبان کے لباس‘ اس کے گھر کی سجاوٹ‘ اس کے دفتر میں پڑے ہوئے مینٹل پیس‘ اس کی خوشبو کی تعریف کرتے ہوئے‘ مخاطب کی گفتگو کی غور سے سنتے ہوئے‘ ہاتھ ملانے سے قبل ہاتھ کو ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے‘ ہتھیلی پر عطر لگاتے ہوئے‘ گردن پر خوشبو لگاتے ہوئے‘ تن کر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے‘نرم آواز میں گفتگو کرتے ہوئے‘ ویٹر کو ہاتھ کے اشارے سے بلاتے ہوئے اور اس کے کان میں آہستہ آواز سے بات کرتے ہوئے‘ سگریٹ پینے سے پہلے تمام لوگوں سے اجازت لیتے ہوئے‘ کسی کے گھر داخل ہوتے ہوئے یا کسی سے ملاقات سے قبل چیونگم ڈسٹ بین میں پھینکتے ہوئے‘ دوسرے کے موٹاپے‘ دوسری کی ہکلاہٹ‘ دوسرے کے بھینگے پن اور دوسرے کے لنگ کو ’’اگنور‘‘ کرتے ہوئے اور جمائی یا ڈکار لینے سے پہلے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ ہمیشہ شکاگو کینڈی کا شکریہ ادا کرتا تھا۔
میں نے اس سے سیکھا آپ جب بھی کسی کے گھر یا دفتر جائیں تو زیبائش کی بڑی بڑی چیزوں کے بجائے اس کے میز پر پڑی چھوٹی چوٹی چیزوں کی تعریف کریں کیونکہ میزبان نے یہ چیزیں لمبے سفروں کے درمیان خریدی ہوتی ہیں اور ہر چیز کے ساتھ اس کی یادیں وابستہ ہوتی ہیں‘ آپ اس کے گھر کی آبشار‘ لان کے پودوں اور ٹی وی کی تعریف کریں گے تو اس کو اتنی خوشی نہیں ہوگی جتنی خوشی آپ اس کے چہرے پر اس وقت دیکھیں گے جب آپ اس کے لکڑی کے چھوٹے سے پین‘ چھوٹی سی وال ہینگنگ یا میز پر پڑی چھوٹی سی گڑیا کی تعریف کریں گے‘ لوگ عموماً ملنے والوں کے پرفیوم کے برانڈ سے واقف نہیں ہوتے لیکن آپ جب اس کے پرفیوم کا نام لے کر اس کی تعریف کرتے ہیں تو وہ حیران بھی ہوتا ہے اور خوش بھی۔
مجھے اس نے بتایا ہمارے ملنے والے دس فیصد لوگوں کو دوسروں کے ہاتھوں کے پسینے سے الرجی ہوتی ہے چنانچہ آپ پتلون یا کوٹ کی جیب میں خوشبو دار ٹشو پیپر رکھیں اور دوسروں سے ہاتھ ملانے سے پہلے جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹشو سے ہاتھ صاف کر لیں اور اس کا کہنا تھا اس نے یہ تمام باتیں‘ یہ تمام عادتیں شکاگو کنڈای سے سیکھی تھیں‘ شکاگوکینڈی نے اسے بزنس ڈیل‘ ملازمین کی اقسام‘ دفتر کے لوگوں سے کام لینے کا طریقہ‘ مصنوعات کو بیچنے کا فن اور دولت کے استعمال کا ڈھنگ بھی سکھایا‘ اس نے اسے چھٹیاں گزارنے‘ لیئر ٹائم کو انجوائے کرنے‘ کپڑوں‘ جوتوں‘ ٹائیوں‘ پتلونوں اور کوٹس کی چوائس بھی سکھائی اور اس نے اسے صحت مند رہنے کے گر بھی سکھائے اور اسے مثبت رہنے کا فن بھی سمجھایا اور وہ اچھے شاگرد کی طرح ان احسانات پر ہر دس پندرہ بیس منٹ بعد شکاگو کینڈی کا شکریہ ادا کرتا تھا۔
ہم اس سے شکاگو کینڈی کے بارے میں پوچھتے تھے مگر وہ کہتا تھا میں آپ کو یہ کورس کے آخر میں بتائوں گا‘ ہم شدت سے کورس کے خاتمے کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ وہ دن آ گیا اور ہم ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر شکاگو کینڈی کا راز کھلنے کا انتظار کرنے لگے‘ وہ ہماری بے تابی کو انجوائے کر رہا تھا‘ کھانا ختم ہوا‘ گرین ٹی کا دور شروع ہوا تو ہمارا اصرار بھی بڑھ گیا‘ یہاں تک کہ اس نے ہمارے سامنے سرینڈر کر دیا‘ اس نے جیب سے درمیانے سائز کی ایک تصویر نکالی اور میز پر رکھ دی‘ ہم سب تصویر پر جھک گئے‘ تصویر میں وہ ایک بوڑھی انگریز خاتون کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا تھا‘ خاتون کے چہرے پر جھریاں تھیں لیکن جھریوں سے کامیاب لوگوں کا اعتماد جھلکتا تھا۔
آپ کو یہ اعتماد دنیا کے ہر اس کامیاب شخص کے چہرے پر دکھائی دیتا ہے جو زندگی میں اپنے زیادہ تر گول حاصل کر لیتا ہے‘ جس کا ہاتھ کامیابی کی تھالی تک پہنچ جاتا ہے‘ ہمارا ابتدائی تاثر تھا یہ اس کی والدہ ہو گی یا پھر ہارورڈ یونیورسٹی کی اس کی استاد‘ ہم یہ تاثر لے کر اس کی طرف مڑے‘ اس نے ہماری آنکھوں میں درج یہ سوال پڑھ لیا اور قہقہہ لگا کر بولا ’’ یہ میری پہلی بیوی تھی‘‘ ہم سب کے منہ سے چیخ نکل گئی مگر اس نے قہقہہ لگایا اور اس کے بعد ایک عجیب داستان سنائی‘ اس کا کہنا تھا’’ میں کراچی کی ایک بزنس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں‘ میرے والدین نے مجھے اچھی تعلیم دلائی‘ میں نے 25 سال کی عمر میں ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کر لی‘ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میرے پاس دو آپشن تھے‘ میں واپس آ جاتا اور اپنے والد کی طرح دولت کمانے کی فیکٹری بن جاتا مگر میرا خیال تھا میں کاروبار کر لوں گا۔
میں اس سے دولت بھی کما لوں گا لیکن میں شاید اس دولت کو انجوائے نہ کر سکوں کیونکہ میرے خاندان کے کسی شخص کے پاس دولت انجوائے کرنے کا فن نہیں تھا‘ دولت میرے والد کے پاس بھی تھی اور میرے پاس بھی ہو سیتص تھی چنانچہ یہ آپشن بے معنی تھا‘ دوسرا آپشن امریکا کے کسی ادارے میں نوکری تھی‘ یہ نوکری میری مہارت میں اضافہ کر سکتی تھی‘ یہ مجھے کام‘ ترقی اوردولت کمانے کا فن سکھا سکتی تھی مگر میں دو نسلوں سے دولت مند تھا لہٰذا یہ بھی میرا مقصد حیات نہیں تھا‘ مجھے زندگی کا ڈھنگ سیکھنا تھا‘ مجھے ہالی ووڈ کی فلموں میں دکھائے جانے والے بزنس ٹائی کون جیسا کاروباری شخص بننا تھا‘ میں نے ’’ ڈیول ویئر پراڈا‘‘ بننا تھامگر دنیا کا کوئی ادارہ یہ ڈھنگ نہیں سکھاتا تھا‘ میں پریشان تھا اور میں نے اسی پریشانی میں شکاگو کی ایک خاتون کا انٹرویو پڑھا‘ یہ 59 سال کی بیوہ بزنس وومن تھی‘ یہ امریکا کی سو بڑی کاروباری خواتین میں شمار ہوتی تھی‘ اس نے نہ صرف بزنس میں کمال کیا بلکہ اس کی ایچ آر تھیوریاں یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی تھیں‘ میں اس کے پاس گیا‘ اس سے ملا اور میں نے اس کے ساتھ شادی کر لی‘‘۔
میری عمر اس وقت 26 سال تھی جب کہ میری بیوی 60 سال کی ہو چکی تھی‘ میں نے اس کے ساتھ اس شرط پر شادی کی تھی کہ اگر ہماری علیحدگی ہو جائے یا اس کا انتقال ہو جائے تو میں اس کے اثاثوں سے کسی قسم کا حصہ نہیں لوں گا‘ دوسرا‘ میں اس کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے اخراجات خود اٹھائوں گا لہٰذا اگر دیکھا جائے تو یہ ایک ایسی شادی تھی میں جس میں ہر لحاظ سے خسارے میں تھا لیکن میں جانتا تھا یہ شادی محض شادی نہیں یہ تجربے اور ٹریننگ کی سونے کی کان ہے‘ میں اس خاتون سے وہ کچھ سیکھ سکتا ہوں جو مجھے امریکا کی تمام یونیورسٹیوں کے سارے بزنس اسکول مل کر نہیں سکھا سکتے تھے۔
میرا یہ خیال آنے والے دنوں میں سو فیصد سچ ثابت ہوا‘میری کینڈی نے مجھے چلنے سے لے کر میز کے آداب‘ عام گفتگو سے لے کر بزنس ڈیل کے اصول اور کافی کے کپ سے لے کر ذاتی جیٹ خریدنے تک کے گر سکھا دیے‘ اس نے مجھے زندگی کے تمام رنگ‘ سارے ڈھنگ سکھا دیے‘ مجھے اس سے ملنے کے بعد معلوم ہوا میں اس شادی سے قبل جانوروں جیسی زندگی گزار رہا تھا اور میری زندگی میں اگر وہ نہ آتی تو میں فقط پڑھا لکھا چمپینزی ہوتا‘ یہ شکاگو کینڈی تھی جس نے مجھے انسان بنا دیا‘ وہ 65 سال کی عمر میں انتقال کر گئی مگر مجھے زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھا گئی‘ میں واپس پاکستان آ گیا مگر میں دن میں بیسیوں مرتبہ اسے یاد کرتا ہوں اور اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘ وہ خاموش ہوگیا‘ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے‘ ہم نے اس سے پوچھا ’’ کیا جوانی میں 60 سال کی عورت کے ساتھ رہنا اذیت ناک تجربہ نہیں تھا‘‘۔
اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’ یہ اذیت پوری زندگی جاہل‘ گنوار‘ اخلاقی لحاظ سے پسماندہ اور ناکام رہنے کی اذیت سے بہت کمتر تکلیف تھی‘ آپ کو اگر سیکھنے کے لیے اپنی رومانوی زندگی کے چند سال قربان کرنا پڑیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوتا‘ میں بیوپاریوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور میں نے اس بیوپار میں انویسٹمنٹ سے کئی گنا زیادہ منافع کمایا‘ میری بیس سال کی تعلیم ایک طرف اور میری چھ سال کی وہ ٹریننگ ایک طرف‘‘ ہم نے ہاں میں سر ہلا دیا کیونکہ وہ بیوپاری تھا اور بیوپاری کبھی بیوپار میں گھاٹے میں نہیں رہتے۔

’’ہم نے وہ کیا جو 65 برسوں میں نہیں ہوا‘‘
جاوید چوہدری جمعرات 28 فروری 2013
ہم اس وقت بھی پانی ابال کر پیتے تھے‘ یہ 1993ء کا زمانہ تھا اور شہر تھا اسلام آباد‘ اسلام آباد اس وقت آج کے مقابلے میں زیادہ پرامن‘ آج کی نسبت زیادہ خوبصورت اور دھیما شہر تھا‘ آبادی بھی کم تھی‘ سڑکوں پر رش بھی نہیں تھا اور شہر بھی آج کی نسبت زیادہ صاف ستھرا تھا مگر ہم اس وقت بھی ٹونٹی کا پانی نہیں پی سکتے تھے‘ ہم واٹر سپلائی کا پانی بڑے بڑے پتیلوں میں ڈالتے تھے‘ پانی کو ابالتے تھے‘ ٹھنڈا کرتے تھے اور اس کے بعد پینے کا رسک لیتے تھے‘ میری فیملی نے 1995ء میں مجھے جوائن کیا‘ ہم نے گھر میں پانی کی موٹر لگوا لی‘ ہمیں زمین سے تازہ پانی ملنے لگا‘ میں نے احتیاطاً پانی ٹیسٹ کرایا تو تازہ پانی بھی آلودہ نکلا‘ میںنے وجہ جاننا چاہی تو پتہ چلا شہر کی سیوریج لائنیں پھٹی ہوئی ہیں۔
یہ لائنیں واٹر سپلائی کو بھی آلودہ کر رہی ہیں اور زمین میں موجود تازہ پانی کو بھی چنانچہ اسلام آباد کے شہریوں کو ٹونٹی اور موٹر کا پانی نہیں پینا چاہیے‘ ہم لوگ منرل واٹر پر شفٹ ہو گئے اور یہ مجبوری آج تک چل رہی ہے‘ ہم نے اس دوران پانی کے فلٹر کا تجربہ بھی کیا مگر فلٹروں کا معیار بھی ٹھیک نہیں تھا اور ہمارے پانی میں بھی بعض ایسی آلودگیاں پائی جاتی ہیں جو فلٹرز کو بھی مات دے دیتی ہیں اور سیدھی ہمارے معدے میں پہنچ جاتی ہیں لہٰذا پاکستان کے سب سے اچھے‘ وفاقی دارالحکومت اور کم ترین آبادی کے حامل شہر اسلام آباد کے عوام بھی منرل واٹر پینے پر مجبور ہیں ‘ اسلام آباد کی نوے فیصد آبادی منرل واٹر استعمال کرتی ہے جب کہ باقی دس فیصد لوگ پانی ابال کر پیتے ہیں‘ یہ آلودہ پانی کی وجہ سے ہیپاٹائٹس کا شکار بھی ہیں‘ یہ لوگ صاف پانی کی اسکیموں سے کولرز اور گھڑوں میں پانی لے کر بھی جاتے ہیں‘ میں جب اس صورتحال کا تقابل اپنے بچپن سے کرتا ہوں تو مجھے حالات یکسر مختلف ملتے ہیں۔
میں گائوں میں کھلے کنوئوں کا پانی پیتا تھا‘ ان کنوئوں میں مینڈک بھی ہوتے تھے‘ جانوروں کا گوبر بھی اور جڑی بوٹیوں اور درختوں کے پتے اور چھال بھی‘ ہمارے کنوئیں کی دیواروں پر کائی بھی جمی تھی اور ایک آدھ بار اس سے پانی کا سانپ بھی نکل آیا‘ ہم شہر میں بھی واٹر سپلائی اور نلکے کا پانی پیتے تھے اور ہمیں کبھی پیٹ درد تک کی تکلیف نہیں ہوئی تھی مگر آج اس گائوں اور اس شہر کے لوگ منرل واٹر پینے پر مجبور ہیں‘ یہ کنوئیں اور نلکے کا پانی نہیں پی رہے اور یہ صورتحال گوادر سے لے کر چمن اور کوئٹہ سے لے کر سوست بارڈر تک یکساں ہے‘ آپ ملک کے کسی شہر‘ کسی کونے میں چلے جائیں آپ نلکے اور ٹونٹی کے پانی کا رسک نہیں لے سکتے جب کہ اس کے مقابلے میں آپ کو یورپ‘ امریکا‘ مشرق بعید اور مشرق وسطیٰ کے لوگ نلکے اور ٹونٹی سے پانی پیتے نظر آئیں گے‘ ریستورانوں میں ویٹر گاہکوں سے پوچھتے ہیں آپ کو منرل واٹر چاہیے یا عام پانی اور لوگوں کی بڑی تعداد عام پانی منگواتی ہے‘ یورپ نے صاف پانی کا یہ مسئلہ بڑی مشکل سے حل کیا‘ ہم پاکستان میں جس وقت صاف پانی پیتے تھے‘ یورپ کے لوگ اس وقت پانی ابالتے تھے‘ یورپ کی حکومتوں نے لوگوں کی اس تکلیف کا احساس کیا‘ انھوں نے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے‘ پانی کی لائنیں درست کیں اور آج ان کے ہر شہری کوصاف پانی مل رہا ہے جب کہ ہماری کسی حکومت نے عوام کی اس بنیادی ضرورت پر کوئی توجہ نہیں دی۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے چند دن قبل فرمایا ’’ ہم نے پانچ برسوں میں جتنے کام کیے اتنے 65 برسوں کی تاریخ میں نہیں ہوئے‘‘ ہم عوام وزیراعظم کے فرمان پر ’’ ایمان‘‘ لانے کے لیے تیار ہیں اگر وزیراعظم وفاقی دارالحکومت کی کسی ٹونٹی سے پانی کا گلاس بھر کر پی لیں‘ یہ وزیراعظم ہائوس یا ایوان صدر کی ٹونٹی ہی سے پانی پی لیں!! خدا کا نام لیں جس ملک میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں منرل واٹر پیش کیا جا رہا ہو‘ کیا اس ملک کے وزیراعظم کو یہ دعویٰ سوٹ کرتا ہے؟ جو حکومت وفاقی دارالحکومت کے دس لاکھ لوگوں کو صاف پانی نہ دے سکی ہو‘ اس نے کیا خاک ریکارڈ قائم کیا ہو گا؟ آپ اس کو بھی چھوڑ دیں‘ کیا وزیراعظم سرکاری اسپتال سے اپنا یا اپنے خاندان کا علاج کرا سکتے ہیں‘ کیا یہ سرکاری ڈسپنسری کی دوا کھا سکتے ہیں‘ کیا یہ کسی سرکاری سرجن سے آپریشن کرا سکتے ہیں اور کیا یہ اپنے آبائی حلقے گوجر خان کے کسی اسپتال میں دو دن داخل رہ سکتے ہیں؟ اگر یہ گوجر خان اور وفاقی دارالحکومت کے کسی اسپتال سے اپنا یا اپنے خاندان کا علاج نہیں کرا سکتے تو پھر دعویٰ کس چیز کا؟ تفاخر کس بات کا؟ آپ یہ بھی چھوڑ دیں‘ کیا وزیراعظم صاحب کا کوئی پوتا یا نواسہ اسلام آباد کے کسی سرکاری اسکول میں داخل ہو سکتا ہے‘ کیا یہ اپنا بیٹا یا بیٹی کسی سرکاری یونیورسٹی میں داخل کرا سکتے ہیں اور یہ اس کے بعد اس کی تعلیم سے مطمئن بھی ہوں گے؟
کیا وزیراعظم صاحب خود ڈرائیو کر کے‘ محافظوں اور گارڈز کے بغیر رات کے وقت اسلام آباد یا راولپنڈی میں نکل سکتے ہیں؟ کیا یہ اکیلے گوجرخان جا سکتے ہیں؟ کیا یہ اکیلے اپنے حلقے میں پھر سکتے ہیں؟ کیا یہ اپنے بچوں‘ اپنے بھائیوں کو گارڈز اور پولیس کے بغیر وفاقی دارالحکومت کی سڑکوں یا گلیوں میں بھیج سکتے ہیں؟ کیا یہ اپنے خاندان کو ایک ماہ کے لیے کراچی بھجوا سکتے ہیں‘ کیا یہ انھیں لیاری‘ اورنگی ٹائون‘ لانڈھی‘ کٹی پہاڑی یا کورنگی میں رکھ سکتے ہیں؟ کیا یہ تین دن کوئٹہ میں محافظوں کے بغیر رہ سکتے ہیں؟ کیا یہ اپنے بچوں کو مستونگ‘ ڈیرہ بگٹی اور پسنی بھیج سکیں گے؟ کیا وزیراعظم اسکواڈ یا فوج کے دستوں کے بغیر مردان‘ پشاور اور سوات جا سکتے ہیں؟ کیا وزیراعظم کا خاندان ڈیرہ غازی خان‘ ملتان‘ بہاولپور یا رحیم یار خان میں رہ سکتا ہے؟ کیا یہ اکیلی گاڑی میں شام کے بعد اس سندھ میں سفر کر سکتے ہیں جہاں بھٹو آج بھی زندہ ہے اور جس کے عوام گڑھی خدا بخش کی قبروں کو ووٹ دیتے ہیں‘ کیا وفاقی وزراء اپنے حلقوں میں پولیس گارڈ کے بغیر جا سکتے ہیں؟ کیا یہ عوامی کچہریوں میں بیٹھ سکتے ہیں؟ کیا یہ اپنے سرکاری دفتروں میں عوام کا سامنا کر سکتے ہیں؟ آپ نے اگر واقعی 65 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے تو پھر آپ اعلان کر دیں عوام کے لیے کابینہ کے تمام وزراء کے دروازے کھول دیے گئے ہیں‘ عوام وزیراعظم سے لے کر اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر تک کسی کے دفتر جا سکتے ہیں اورحکومت اس سے باقاعدہ ملاقات کرے گی‘ کیا آپ ٹرین کے ذریعے راولپنڈی سے کراچی جا سکتے ہیں؟ کیا آپ بسوں مںے سفر کر سکتے ہیں؟ کیا آپ راولپنڈی اسلام آباد میں ٹیکسی میں سفر کر سکتے ہیں؟
کیا لاہور کے کسی رکشے میں بیٹھ سکتے ہیں؟ اور کیا آپ عام شہری کی حیثیت سے تھانے میں‘ وفاقی دارالحکومت کے تھانے میں رپٹ لکھوا سکتے ہیں؟ اور آپ دور نہ جائیے آپ صرف پانچ منٹ کے لیے اسلام آباد کی اس فروٹ‘ ویجی ٹیبل اور اناج کی منڈی میں چلے جائیے جس سے نہ صرف پورے شہر کو پھل‘ سبزیاں اور اناج سپلائی ہوتا ہے بلکہ وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر میں بھی یہی سبزیاں اور پھل کھائے جاتے ہیں‘ آپ اسلام آباد کے ان سلاٹر ہائوسز کا معائنہ کر لیں جہاں سے پورے شہر کو گوشت سپلائی ہوتا ہے اور آپ نے اگر ان جگہوں کے دورے کے بعد کبھی گوشت کھا لیا یا آپ نے بازار سے خریدا ہوا فروٹ یا سبزی کھا لی تو ہم مان جائیں گے آپ نے واقعی کمال کر دیا‘ آپ نے پانچ برسوں میں وہ کام کر دکھائے جو 65 برسوں میں کوئی حکومت نہیں کر سیں لیکن اگر آپ پانچ برسوں میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو انٹرنیشنل لیول کی ایک فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل مارکیٹ نہیں دے سکے‘ آپ اس شہر کو صاف پانی‘ بین الاقوامی معیار کے اسپتال‘ اسکول‘ پولیس‘ امن اور سہولتیں نہیں دے سکے تو پھر آپ نے کیا کیا ہے؟ آپ نے کون سے تارے توڑے ہیں جن کے لیے قوم آپ کے گلے میں ہار ڈالے‘ اگر اس ملک میں وزیراعظم اور وزیراعظم کا خاندان سیکیورٹی کے بغیر سڑک پر نہیں نکل سکتا تو پھر جان لیں اس حکومت نے پانچ برسوں میں ملک میں اندھیروں کے سوا کچھ تقسیم نہیں کیا‘ یہ اندھیرے میں اندھیرا جمع کرنے والے ایسے ریاضی دان ہیں جو اس اندھیرے کو سورج ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ کاش یہ لوگ آنکھیں کھول کر‘ ایک بار آنکھیں کھول کر حقائق کا سورج دیکھ لیں‘ کاش ایک بار۔
جنرل کیانی سے ایک ملاقات
جاوید چوہدری پير 25 فروری 2013
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اتوار کے دن ملک کے نامور اینکر پرسنز‘ کالم نگاروں اور ایڈیٹرز کو گفتگو کے لیے جی ایچ کیو دعوت دی‘ یہ سوا چار گھنٹے کا طویل سیشن تھا جس میں آرمی چیف نے الیکشن سے لے کر ملک میں جاری دہشت گردی‘ شدت پسندی‘ کوئٹہ کی صورتحال‘ افغانستان وار اور مسنگ پرسنز کے ایشوز پر گفتگو کی‘ یہ آف دی ریکارڈ گفتگو تھی چنانچہ اس کے اہم نقطے ریکارڈ پر نہیں لائے جا سکتے تا ہم جہاں تک میری آبزرویشن یا ساتھیوں کے سوالوں کا تعلق ہے، وہ آپ کے ساتھ ضرور شیئر کی جا سکتی ہے۔
میں نے جنرل کیانی کی باڈی لینگویج اور گفتگو سے اندازہ لگایا جنرل کیانی نے 2007ء میں فیصلہ کیا تھا‘ یہ اسمبلیاں اور یہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی چنانچہ انھوں نے ان پانچ برسوں میں سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا‘ اگر حکومت کی غلطیوں یا نالائقیوں کی وجہ سے کوئی ڈیڈ لاک پیدا ہوا تو آرمی چیف نے سسٹم کو سپورٹ کیا اور یوں حکومت بحران سے نکل گئی‘ جنرل کیانی 2013ء کے فری اینڈ فیئر الیکشن چاہتے ہیں‘ان کی خواہش ہے یہ الیکشن مکمل طور پر آزاد اور غیر جانبدار ہوں اور یہ اس معاملے میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے لیے تیار ہںن‘ کاشف عباسی نے آرمی چیف کی مزید ایکسٹینشن کے بارے میں سوال کیا‘ آرمی چیف نے اس کا واضح جواب دیا‘ میں نے اس جواب سے نتیجہ اخذ کیا‘ آرمی چیف دوسری بار ایکسٹینشن نہیں لیں گے‘ یہ نومبر 2013ء میں وردی اتار دیں گے اور باقی زندگی ریٹائرمنٹ میں گزاریں گے‘ کوئٹہ اور بلوچستان میں کسی جگہ آرمی آپریشن نہیں ہو رہا‘ ایف سی وفاقی حکومت کے ماتحت ہے‘ اس کے تمام فیصلے وزارت داخلہ کرتی ہے‘ اس کے پاس صرف گرفتاری کے اختیارات ہیں‘ یہ کسی کے خلاف تفتیش کر سکتی ہے‘ اس کا چالان کر سکتی ہے اور نہ ہی اس کا مقدمہ عدالت میں پیش کر سکیف ہے‘ یہ مکمل طور پر سول ایڈمنسٹریشن کی پابند ہے اور حکومت کے سول ادارے اس سے کام نہیں لے رہے۔
حکومت اگر کوئٹہ یا بلوچستان میں آرمی آپریشن کی خواہاں ہے تو فوج آپریشن کے لیے تیار ہے تاہم فوجی آپریشن اس مسئلے کا حتمی حل نہیں کیونکہ فوج آپریشن کے بعد ملزموں کو پولیس اور عدالت کے حوالے کرے گی اورآگے ان کی ذمے داری ہے چنانچہ آپریشن کے بعد بھی مسئلہ جوں کاتوں رہے گا‘ حکومت اور سیاستدانوں کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے‘ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کوئی جامع پالیسی بنانی چاہیے اور یہ پالیسی جب تک نہیں بنتی اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا‘ میں نے جنرل کیانی کی گفتگو سے محسوس کیا یہ چاہتے ہیں اگلی حکومت فوری طور پر اس مسئلے کا کوئی ٹھوس حل تلاش کرے‘ یہ دہشت گردی اور شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے کوئی جوائنٹ سسٹم بنائے اور یہ سسٹم آگے چل کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ مسئلہ حل کر دے‘ یہ دل سے یہ سمجھتے ہیں‘ اگلی حکومت ایسی ہونی چاہیے جس پر قوم اعتماد کا اظہار کرے‘ قوم جس پارٹی یا شخص کو ووٹ دے‘ تمام اداروں اور گروپوں کو اس مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے‘ قوم کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیے۔
میں نے گفتگو سے محسوس کیا جنرل کیانی اور فوج پچھلے پانچ برسوں سے حکومت کی جگہ جگہ مدد کررہی ہے‘ جنرل کیانی اسفند یار ولی کے ساتھ صدر آصف علی زرداری کے پاس بھی گئے‘ انھوں نے صدر کو صوفی محمد کے ساتھ معاہدے کے لیے تیار کیا‘ جنرل کیانی کی خواہش تھی اگر معاہدے کے ذریعے سوات میں امن ہو جائے تو ہم فوجی آپریشن سے بچ جائیں ‘ یہ معاہدہ ہوا‘صوفی محمد اور ان کے حواریوں نے یہ معاہدہ توڑ دیا اور یوں فوجی آپریشن کی راہ ہموار ہو گئی‘ میں نے جنرل کیانی کی گفتگو سے اندازہ لگایا امریکا اور یورپ اس معاہدے سے خوش نہیں تھے لیکن جنرل کیانی نے انھیں سمجھایا اور یوں بین الاقوامی دبائو میں کمی آ گئی‘ مجھے جنرل کیانی کی گفتگو سے اندازہ ہوا فوج بلوچستان میں بھی ملک کے دوسرے حصوں کے ساتھ الیکشن چاہتی ہے چنانچہ کسی بھی وقت بلوچستان سے گورنر راج ختم ہو جائے گا‘ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت بحال ہو جائے گی‘ اپوزیشن لیڈر کا تعین ہو گا‘ یہ دونوں مل کر نگران وزیراعلیٰ کا فیصلہ کریں گے اور یوں بلوچستان میں بھی دوسرے صوبوں کے ساتھ الیکشن ہوں گے۔
گفتگو کے دوران ہمارے ایک ساتھی نے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ڈائریکٹر کرنٹ افیئر اور نامور صحافی مظہر عباس کی ایک خبر کا حوالہ دیا‘ مظہر عباس نے 31جنوری کو ایکسپریس ٹری بیون میں چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کا انٹرویو شایع کیا‘ فخرو بھائی نے اس انٹرویو میں انکشاف کیا ’’جنرل کیانی الیکشن کی تیاریوں کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کے دفتر آئے‘ یہ ڈیڑھ دو گھنٹے میرے ساتھ بیٹھے رہے لیکن میں نے انھیں نہیں پہچانا‘ میں نے میٹنگ کے آخر میں ان سے کہا‘ آپ میری طرف سے جنرل کیانی کا شکریہ ادا کر دیجیے گا‘ ہم ان کی سپورٹ پر ان کے ممنون ہیں‘ جنرل کیانی اس بات پر حیران ہوئے اور انھوں نے چیف الیکشن کمشنر کو بتایا میں ہی جنرل کیانی ہوں‘‘ ہمارے ایک ساتھی نے مظہر عباس کی اس خبر کا حوالہ دے کر جنرل کیانی سے پوچھا ’’ کیا چیف الیکشن کمشنر نے آپ کو واقعی نہیں پہچانا تھا‘‘ اس سوال کے جواب میں جنرل کیانی کا رویہ بہت مثبت تھا‘ انھوں نے تسلیم کیا فخر الدین جی ابراہیم کا یہ انٹرویو انھوں نے بھی پڑھا تھا لیکن ان کا کہنا تھا ’’ہمیں فخر الدین جی ابراہیم کی ذہانت‘ ایمانداری اور استقامت پر اعتماد ہے‘ یہ شاندار انسان ہیں اور مجھے یقین ہے یہ غرر جانبدار اور آزاد الیکشن کرائیں گے‘‘۔
جنرل کیانی اس کے بعد دیر تک فخر الدین جی ابراہیم کی تعریف کرتے رہے‘ میں نے جنرل کیانی کی گفتگو سے محسوس کیا فوج نے حکومتی ہدایت کے بعد سوات سے مشکوک‘ شدت پسند اور دہشت گرد گرفتار کیے لیکن قانون نہ ہونے‘ پولیس میں اہلیت کی کمی اور گواہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ انھیں پولیس اور عدالتوں کے حوالے نہیں کر رہی‘ یہ لوگ ساڑھے تین برسوں سے ان کے پاس ہیں‘ فوج پریشان ہے یہ ان لوگوں کا کیا کرے کیونکہ یہ اگر انھیں چھوڑ دے گی تو یہ دوبارہ مسائل پیدا کریں گے اور یہ اگر انھیں مزید اپنے پاس رکھتی ہے تو یہ خلاف قانون ہو گا‘ فوج حکومت سے مسلسل درخواست کر تی رہی‘ حکومت ان لوگوں کے لیے مناسب قانون بنائے تا کہ انھیں سزا دی جا سکے مگر حکومت تاخیر سے کام لیتی رہی‘ مجھے اس سیشن کے دوران محسوس ہوا‘ حکومت نے 20 فروری کو انسداد دہشت گردی کے لیے جو بل منظور کیا اس بل کی تیاری میں فوج نے حکومت کی بھرپور معاونت کی‘ اس بل کی تیاری کے لیے لافرم کا بندوبست کیا گیا‘ مہینوں بل پر بحث ہوئی‘ وزراء اعلیٰ کو بھی بلوایا گیا‘ ان سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اور بل تیار کرنے کے بعد وزارت قانون کے حوالے کر دیا گیا اور یوں حکومت نے 20فروری کو یہ بل پاس کروا دیا۔
مجھے جنرل کیانی کی گفتگو سے محسوس ہوا ملک کے اندرونی مسائل حکومت اور حکومت کے اداروں نے حل کرنے ہیں‘ فوج بیرونی دشمن سے نمٹنے کے لیے بنائی جاتی ہے‘ اس کی ٹریننگ بیرونی جارحیت کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے‘ جوان کی نظر میں دوست ہوتا ہے یا دشمن‘ اس کی زندگی میں گرے ایریا نہیں ہوتا‘ آئی ایس آئی کا کام بیرونی دشمنوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہے اور ایم آئی صرف اور صرف اس وقت کام کرتی ہے جب کسی جگہ فوجی آپریشن ہو رہا ہو‘ ملک کے اندرونی حالات کی انفارمیشن جمع کرنا پولیس‘ اسپیشل برانچ اور آئی بی کی ذمے داری ہے مگر حکومت ان اداروں کو ٹائٹ کرنے کے بجائے آئی ایس آئی اور ایم آئی کی طرف دیکھتی رہتی ہے اور یہ غلط ہے‘ آئی ایس آئی اور ایم آئی کا یہ کام نہیں‘ حکومت کو دوسرے اداروں کی کارکردگی پر توجہ دینی ہو گی‘ اگر انھیں کسی جگہ کسی سرکاری ادارے بشمول آئی ایس آئی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو حکومت کو اس کے خلاف نوٹس لینا چاہیے‘ حکمران اگر ذاتی معاملات میں خود مختار ہیں اور یہ آزادانہ فیصلے کرتے ہیں تو یہ دہشت گردی کے خلاف بھی فیصلوں میں آزاد ہیں مگر شاید یہ اس نوعیت کے فیصلے نہیں کرنا چاہتے۔
نوٹ: یہ تمام حقائق میرا ذاتی مشاہدہ اور رائے ہیں‘ اس میں غلطی کا احتمال موجود ہے اور اسے جنرل کیانی کی رائے نہ سمجھا جائے۔
کیچڑ
افلا طون اپنے استاد سقراط کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا‘ سقراط نے مسکرا کر پوچھا ’’ وہ کیا کہہ رہا تھا‘‘ افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا ’’ آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا …‘‘ سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا ’’ آپ یہ بات سنانے سے پہلے اسے تین کی کسوٹی پر رکھو‘ اس کا تجزیہ کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے‘‘ افلاطون نے عرض کیا ’’ یا استاد تین کی کسوٹی کیا ہے‘‘ سقراط بولا ’’ کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو بات بتانے لگے ہو یہ بات سو فیصد سچ ہے‘‘ افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا‘ سقراط نے ہنس کر کہا ’’ پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہوگا‘‘ افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا‘ سقراط نے کہا ’’ یہ پہلی کسوٹی تھی‘ ہم اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں‘ ’’مجھے تم جوبات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے‘‘ افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا ’’ جی نہیں یہ بری بات ہے‘‘ سقراط نے مسکرا کر کہا ’’ کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے استاد کو بری بات بتانی چاہیے‘‘ افلاطون نے انکار میں سر ہلا دیا‘ سقراط بولا ’’گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی‘‘ افلاطون خاموش رہا‘ سقراط نے ذرا سا رک کر کہا ’’ اور آخری کسوٹی‘ یہ بتاؤ وہ بات جو تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے‘‘ افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اور عرض کیا ’’ یا استاد یہ بات ہر گز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں‘‘ سقراط نے ہنس کر کہا ’’ اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے‘‘ افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔
سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے چوبیس سو سال قبل وضع کر دیے تھے‘ سقراط کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے‘ وہ گفتگو سے قبل بات کو تین کسوٹیوں پر پرکھتے تھے‘ کیا یہ بات سو فیصد درست ہے‘ کیا یہ بات اچھی ہے اور کیا یہ بات سننے والوں کے لیے مفید ہے‘ اگر وہ بات تینوں کسوٹیوں پر پوری اترتی تھی تو وہ بے دھڑک بات کر دیتے تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا تو وہ خاموش ہو جاتے تھے‘ میں نے مغرب میں زیادہ تر لوگوں کو اس اصول پر کاربند دیکھا‘ ٹیورن اٹلی کا ایک خوبصورت شہر ہے‘ یہ شہر سوئٹزر لینڈ کی سرحد پر واقع ہے اور یہ اپنی اچھی ہمسائیگی کی وجہ سے بہت خوبصورت‘ پرامن اور صحت افزاء شہر ہے‘ یہ دو ہزار سال پرانا شہر ہے‘ شہر کے درمیان سے دریائے پو گزرتا ہے‘ یہ دریا شہر کے حسن میں مزید اضافہ کر دیتا ہے‘ ٹیورن انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا ٹریننگ سینٹر ہے‘ مجھے 2009ء میں اس سینٹر میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن میں چھوٹا سا کورس کرنے کا موقع ملا‘ میں نے وہاں سے کچھ اور سیکھا یا نہیں سیکھا یہ الگ بات ہے۔
لیکن مجھے سقراط کا یہ فارمولا سیکھنے کا موقع ضرور ملا‘ ہمارے تمام اساتذہ اطالوی تھے‘ کورس کی انچارج درمیانی عمر کی خاتون تھی‘ کورس کو آرڈی نیٹر بیس بائیس سال کی نوجوان لڑکی تھی اور مرکزی استاد ہماری عمر کا جوان فلپ تھا‘ یہ بے اتنہا مستعد‘ ہمدرد اور ماہر لوگ تھے‘ میرے گروپ میں آٹھ لوگ تھے‘ ان میں مصر کی درمیانی عمر کی ایک خاتون بھی شامل تھی‘ یہ خاتون لاابالی‘ غیر ذمے دار بلکہ تھوڑی سی بدتمیز بھی تھی‘ یہ عموماً گروپ کو چھوڑ کر کیفے ٹیریا چلی جاتی تھی یا پھر سینٹرکے پب میں بیٹھ جاتی تھی‘ ایک دن فلپ نے مجھ سے پوچھا ’’ آپ کا گروپ کیسا چل رہا ہے‘‘ میں نے پاکستانی روایات کے مطابق گروپ کے لوگوں کی غیبت شروع کر دی‘ میرا سب سے بڑا ہدف مصری خاتون تھی‘ فلپ خاموشی سے سنتا رہا۔
میں نے پیٹ بھر کر غیبت کی اور اس کے بعد سرشاری کے عالم میں فلپ کو دیکھنے لگا‘ فلپ نے میری غیبت پر کسی قسم کا تبصرہ کیے بغیر مجھ سے پوچھا ’’ کیا آپ نے اپنی ریسرچ مکمل کر لی‘‘ میں نے ہاں میں سر ہلایا اور اس کے بعد اسے بتانا شروع کر دیا میرے گروپ کے کس لڑکے اور کس لڑکی نے انٹرنیٹ کی کس کس سائیٹ سے مواد چوری کیا ہے‘ فلپ اس پر بھی خاموش رہا‘ میں سچ بول بول کر تھک گیا تو اس نے مجھے بتایا ہمارے سینٹرمیں وائی فائی کی سہولت بھی موجود ہے اگر آپ کو اس کا پاس ورڈ درکار ہو تو آپ مہربانی کر کے ریسپشن سے لے لیں اور وہ اس کے ساتھ ہی وہاں سے اٹھ کر چلا گیا‘ مجھے اس کا رویہ بہت برا لگا‘ مجھے محسوس ہوا اس نے مجھے ریسپانس نہ دے کر میری توہین کی اور میں بے عزتی کے احساس میں جلنے لگا لیکن پھر مجھے اچانک محسوس ہوا فلپ سقراط کے تین اصولوں کا وارث ہے‘ اس نے دیکھا میری بات کی سچائی مشکوک ہے‘ یہ بات بری ہے اور اس بات کا اسے کوئی فائدہ نہیں چنانچہ اس نے اس میں کسی قسم کا انٹرسٹ ظاہر نہیں کیا ۔
ہاں البتہ وہ مروت یا اخلاقیات کی وجہ سے میری بات سنتا رہا‘ میں نے جرمنی میں ایک بار ایک جرمن صحافی کو ہٹلر کے لطائف سنانا شروع کر دیے‘ میں جوں جوں لطائف سناتا گیا وہ ہنسنے یا قہقہہ لگانے کے بجائے سنجیدہ ہوتا گیا‘ میں شرمندہ ہو گیا اور میں نے اس سے پوچھا ’’ تم میرے لطائف سے لطف اندوز نہیں ہو رہے‘‘ اس نے سنجیدگی سے جواب دیا‘‘ یہ جھوٹے لطائف ہیں‘ ہٹلر ایسا نہیں تھا‘ دوسرا ہٹلر کی باتیں دنیا کے بے شمار لوگوں کو تکلیف دیتی ہیں‘ میں انھیں اچھا نہیں سمجھتا اور تیسرا یہ فضول اور بے معنی چیزیں ہیں‘ ہم ان سے زیادہ اچھی گفتگو کر سکتے ہیں‘ چلو آئو موسم کی بات کرتے ہیں‘ جرمنی میں اس سال سردیاں بہت دیر سے آ رہی ہیں‘ میری شرمندگی میں اضافہ ہو گیا‘ میں نے ایک بار امریکا میں ایک جاپانی سے ناگاساکی کے ایٹمی سانحے کے بارے میں پوچھا‘ اس نے غور سے میری طرف دیکھا اور سنجیدگی سے بولا ’’ ہم جاپانی 1945ء کے واقعے کو برا خواب سمجھتے ہیں چنانچہ ہم اس کا عموماً ذکر نہیں کرتے‘ آپ مجھ سے اچھی باتیں پوچھو‘ آج کل ٹوکیو میں چیری بلاسم کا سیزن ہے۔
ہمارے شہر میں چیری کے پھول کھلے ہوئے ہیں اور میں ان پھولوں پر جان دیتا ہوں‘ میں نے اس سے کہا ’’ تم اس ذکر سے خائف ہو‘ اس نے فوراً جواب دیا ’’ نہیں‘ ہم بہادر قوم ہیں‘ ہم نے دو‘ دو ایٹم بم سہے ہیں‘ آپ پوری دنیا میں جاپان کے بعد کوئی دوسرا ملک بتائو جس نے ایٹم بم کی تباہی سہی ہو مگر ہم اس کے باوجود صرف پندرہ برسوں میں اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے تھے لیکن ہم جاپانی سمجھتے ہیں ہمیں لوگوں کو اپنے دکھ سنا کر ان کا موڈ خراب نہیں کرنا چاہیے‘ ہمیں بے فائدہ باتوں میں بھی اپنا وقت برباد نہیں کرنا چاہیے‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ کیا تم امریکا کو اس کا ذمے دار نہیں سمجھتے‘ کیا جاپانی امریکا سے نفرت نہیں کرتے‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’ میرے بھائی ہماری نفرت دوسری جنگ عظیم کے ساتھ ہی ختم ہو گئی تھی‘ ہم اگر اس نفرت کو ’’ کیری‘‘ کرتے تو ہم آج بھی ناگاساکی اور ہیرو شیما کے ملبے پر بیٹھ کر گریہ و زاری کر رہے ہوتے‘ انسان کو محبت ہی سے فرصت نہیں ملتی کہ یہ نفرت بھی شروع کر دے‘ ہم بے فائدہ یا فضول چیزوں میں نہیں الجھتے‘‘ میری شرمندگی بڑھ گئی۔
یہ میری زندگی کے چند واقعات ہیں جب کہ میں نے درجنوں مرتبہ یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید کے لوگوں کو سقراط کے تینوں اصولوں پر عمل کرتے دیکھا‘ یہ غیبت‘ چغل خوری اور منفی باتوں سے ہمیشہ پرہیز کرتے ہیں جب کہ ہم میں یہ تینوں بری عادتیں موجود ہیں‘ ہم ہر بات کو تبلغر سمجھ کر پھیلاتے ہیں اور ہرگز ہرگز یہ نہیں سوچتے کیا یہ بات سچ بھی ہے‘ ہم یہ بھی نہیں دیکھتے یہ بات اچھی ہے اور ہم یہ بھی اندازہ نہیں کرتے ہمیں یا سننے والے کو اس کا کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے؟ ہم بات کو کسوٹی کے تین اصولوں پر پرکھے بغیر اسے پھیلاتے چلے جاتے ہیں اور ایک لمحے کے لیے نہیں سوچتے ہماری اس حرکت سے کتنے لوگوں کو تکلیف پہنچ رہی ہو گی‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ آج کے ایس ایم ایس دیکھ لیجیے‘ آپ کو ہر دوسرا ایس ایم ایس جھوٹا‘ برا اور بے فائدہ ملے گا‘ آپ کبھی اپنی گفتگو ریکارڈ کر کے سن لیں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے آپ کی زیادہ تر باتیں سنی سنائی‘ بری اور بے فائدہ ہیں‘ ان باتوں کے سننے والے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘ ان سے اس کی پریشانی میں اضافہ ہوتاہے اور یہ باتیں خلاف حقیقت یا غلط بھی ہیں اور ہمارے اس رویے نے پورے معاشرے کو بیمار کر رکھا ہے‘ ہم اگر بات کرتے ہوئے اس بات کو سقراط کے تین اصولوں پر پرکھ لیں تو ہمارے معاشرے کی اینگزائیٹی میں پچاس فیصد کمی آ سکتی ہے‘ ہم اور ہمارے اردگرد موجود لوگ سکھی رہ سکتے ہیں‘ ورنہ دوسری صورت میں ہم بری باتوں کے کیچڑ میں دفن ہو جائیں گے اور بری خبروں کے چنگل میں بری خبر بن کر رہ جائیں گے۔
مفاد پرست کلب
جاوید چوہدری جمعـء 22 فروری 2013
علامہ محمد اسد عالم اسلام کے عظیم مفکر اور دانشور تھے‘ یہ یہودی خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ آسٹریا میں 2 جولائی 1900ء میں پیدا ہوئے‘ ان کے والد یہودیوں کے ربی تھے‘ والد نے ان کا نام لیوپولڈ وائز رکھا‘ علامہ اسد نے بھی یہودیت کی تعلیم حاصل کی اور یہ بھی یہودی عالم بننا چاہتے تھے لیکن ان کے اندر ایک بے چینی‘ ایک بے قراری پائی جاتی تھی‘ یہ بے قراری انھیں چشمہ ہدایت کی طرف لے گئی اور یوں 1926ء میں لیو پولڈوائز نے اسلام قبول کر لیا اور یہ محمد اسد بن گئے‘ علامہ اسد نے عربی بدوئوں کے ساتھ رہنا شروع کر دیا‘ بدوئوں سے عربی سیکھی‘ قرآن مجید کو اصلی عربی کے ساتھ پڑھا‘ صحیح بخاری کا مطالعہ کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ شاہ عبدالعزیز علامہ محمد اسد سے بہت متاثر تھے‘ انھوں نے انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا‘ علامہ صاحب شاہی خاندان کا فرد سمجھے جاتے تھے۔
سعودی شاہی خاندان نے علامہ صاحب کو پوری زندگی عزت بھی دی اور ان کی مالی امداد بھی کی‘ ان کی طبیعت سیلانی تھی‘ یہ 1932ء میں سعودی عرب سے نکل آئے اور اس کے بعد سیاح کی طرح پوری دنیا دیکھ ڈالی‘ یہ برصغیر پاک و ہند پہنچے‘ علامہ اقبال سے ملے‘ دونوں ایک دوسرے کی شخصیت سے متاثر ہوئے اور کئی سال اکٹھے گزار دیے‘ یہ علامہ اقبال کی رحلت کے بعد قیام پاکستان کی تحریک میں شامل ہوگئے‘ علامہ اسد کا خیال تھا پاکستان وہ اسلامی ملک ہو گا جس کا خواب مسلمان 14 سو سال سے دیکھ رہے ہیں‘ علامہ صاحب نے اس خواب کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کر دیے‘ اخبار بھی نکالا‘ کتابیں بھی لکھیں‘ مضامین بھی تحریر کیے‘ جیل بھی بھگتی اور بے روزگاری اور غربت بھی دیکھی لیکن یہ مسلم لیگ کے کارکن بن کر کام کرتے رہے‘ پاکستان بنا تو علامہ اسد کراچی آ گئے‘ یہ اس وقت تک آسٹریا کے شہری تھے‘ یہ آسٹریا کے پاسپورٹ پر سفر کرتے تھے‘ علامہ اسد نے اپنی آسٹرین شہریت ترک کی‘ پاکستان کی شہریت اختیار کی اور پاکستان کے پہلے شہری بن گئے‘ یہ حکومت پاکستان کی طرف سے پہلا پاسپورٹ پانے والے پاکستانی بھی تھے لیکن پاکستانیوں اور پاکستانی حکومت نے علامہ صاحب کے ساتھ بڑا برا سلوک کیا‘ علامہ صاحب کو وزارت خارجہ میں اہم منصب دے کر یو این بھجوایا گیا تھامگر وزارت خارجہ کے بابوئوں نے انھیں اس قدر تنگ کیا کہ علامہ صاحب نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا‘ یہ پاکستان چھوڑنے پر بھی مجبور ہو گئے مگر انھوں نے آخری سانس تک پاکستانی شہریت نہیں چھوڑی‘ یہ 23 فروری 1992ء میں92 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے‘ غرناطہ میں دفن ہوئے اور مرنے کے بعد بھی پاکستانی شہری رہے۔
علامہ محمد اسد 1952ء میں پاکستان سے نکلے‘ ان کی جرمن نژاد تیسری بیگم پولا حمیدہ اسد نے مرنے تک ان کا ساتھ دیا‘ یہ دنیا کے مختلف ملکوں میں رہے‘ یہ اسلام کے بارے میں کتابیں لکھتے رہے‘ لیکچر دیتے رہے‘ تبلیغ کرتے رہے اور اسلام کے بارے میں مغرب میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرتے رہے‘ ان کی ایک کتاب ’’ روڈ ٹو مکہ‘‘ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا‘ یہ ان کے قبول اسلام سے متعلق کتاب تھی‘ اس کتاب میں عربوں کے رہن سہن‘ رسوم و رواج‘ صحرائی زندگی کی خوبصورتیاں اور اسلام کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں‘ یہ کسی نو مسلم مغربی اسکالر کی اس نوعیت کی پہلی کتاب تھی‘ یہ کتاب امریکی پبلشنگ ادارے سائن اینڈ شسٹر نے 1954ء میں شائع کی اور پوری دنیا میں پڑھی گئی‘ یہ آج بھی شائع ہوتی ہے‘ آج بھی پڑھی جاتی ہے اور لوگ آج بھی علامہ صاحب کی خدمات کو سراہتے ہیں۔ ’’ روڈ ٹو مکہ‘‘ کے حوالے سے دو حقائق بہت دلچسپ ہیں‘ ایک‘ یہ کتاب اسلام سے متعلق تھی اور نو مسلم مغربی اسکالر نے لکھی تھی لیکن یہ سب سے پہلے امریکی پبلشر نے شائع کی‘ بعد ازاں برطانیہ کے ادارے میکس رائن ہارٹ نے اسے شائع کیا اور اس کے بعد اس کے ترجمے جرمن‘ ولندیزی‘ سویڈش‘ فرانسیسی‘ جاپانی اور کروشین زبانوں میں شائع ہوئے او ریورپ کے تمام پبلشنگ ہومز نے نہ صرف علامہ صاحب کو کتاب کا معاوضہ دیا بلکہ پوری زندگی انھیں اور ان کی اہلیہ کو اس کی رائلٹی بھی ملتی رہی۔
جرمنی نے تو علامہ صاحب کو تین سال اپنا مہمان بھی رکھا‘ انھیں جرمن زبان سکھائی‘ ان سے ’’ روڈ ٹو مکہ‘‘ کا ترجمہ کرایا اور پھر یہ کتاب شائع کی‘ جرمنی نے اس پر فلم بھی بنائی جب کہ ان کے مقابلے میں پورے عالم اسلام میں یہ کتاب چھپی مگر کسی پبلشر نے انھیں معاوضہ دیا اور نہ ہی ان سے اشاعت کے لیے تحریری اجازت لی‘ علامہ صاحب کی بیگم پولا حمیدہ اسد نے اپنی یاد داشتوں میں لبنان کے ایک پبلشر کا ذکر کیا جس نے نہ صرف اس کتاب کا بلا اجازت ترجمہ شائع کیا تھا بلکہ اس نے کتاب سے صحرائی حصے بھی ایڈٹ کر دیے‘ علامہ صاحب نے جب اس سے اس ایڈیٹنگ کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا لبنان کے لوگوں نے کبھی صحرا نہیں دیکھا چنانچہ ان کے لیے یہ حصے فضول تھے‘ پولا حمیدہ نے اس پر ہنس کر کہا صحرا تو یورپ اور امریکا کے لوگوں نے بھی نہیں دیکھا لیکن انھوں نے کتاب کے اس پورشن پر کوئی اعتراض نہیں کیا‘ دوسری حقیقت‘ علامہ صاحب نے 92 سال کی طویل زندگی پائی‘ صدی تک پھیلی اس زندگی میں انھیں مسلمان ہونے کے باوجود یورپ اور امریکا کے علم پرور طبقے پالتے رہے جب کہ مسلمان بالخصوص پاکستانی مسلمان انھیں اذیت دیتے رہے ‘ ہم نے مرنے کے بعد بھی اپنے پہلے شہری کو عزت نہیں دی‘ ہم نے ان کے نام سے کوئی ادارہ بنایا اور نہ ہی کسی سڑک کو ان کے نام سے منسوب کیا‘ ہم نے اپنی کوتاہ فہمی‘ نالائقی‘ سازشی فطرت اور کنوئیں کے مینڈکوں کی جعلی اکڑ کی وجہ سے دنیا کا بہت بڑا اسکالر کھو دیا‘ علامہ صاحب پاکستان کے پہلے شہری اور پہلے پاسپورٹ ہولڈر تھے لیکن ہم ان کی قبر پر پھول تک نہیں چڑھاتے‘ وہ غرناطہ کے گم نام قبرستان کی کسی گم نام قبر میں پڑے ہیں مگر یہ احسان فراموش قوم ان کا نام تک بھول چکی ہے‘ علامہ صاحب اپنے اس ’’انجام‘‘ سے واقف بھی تھے‘ ان کی اہلیہ نے اپنی خودنوشت میں ایک واقعہ لکھا‘ آپ کے یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے۔
علامہ اسد 1950ء کی گرمیوں میں بر وت میں تھے‘ ایک شام ڈاکٹر ذاکر حسین ملاقات کے لیے ان کے گھر آئے‘ ڈاکٹر صاحب بھارت کی معروف علمی اور سیاسی شخصیت تھے‘ یہ بعد ازاں بھارت کے صدر بھی بنے‘ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس ملاقات کے دوران علامہ اسد کو یاد دلایا ’’ میں نے قیام پاکستان سے قبل آپ سے عرض کیا تھا اگر پاکستان میں ان اصولوں پر عمل کیا گیا جن کے بنیاد پر ملک بنایا جا رہا ہے تو میں آپ کے ساتھ پاکستان جائوں گا لیکن مجھے خطرہ ہے‘ یہ ملک چند لوگوں کے مالی مفادات کے لیے بنایا جا رہا ہے اور آپ کو یہ حقیقت چند برسوں میں معلوم ہو جائے گی‘‘ ڈاکٹر صاحب نے علامہ صاحب کو یہ بات یاد کروائی اور اس کے بعد ان سے پوچھا ’’ کیا میری بات غلط تھی‘‘ علامہ صاحب اس پر خاموش رہے مگر تاریخ آج تک بول رہی ہے‘ہم مانیں یا نہ مانیں مگر اس ملک پر65 برسوں سے چند مفاد پرستوں کا قبضہ چلا آ رہا ہے‘ یہ مفاد پرست اپنے فائدے‘ اپنے اقتدار کے لیے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں خواہ انھیں اس کے لیے ملک تک کیوں نہ توڑنا پڑ جائے‘ یہ مفاد پرستوں کا ایک کلب ہے جو اس ملک میں ترقی کی ایک خاص حد چھونے والے ہر شخص کو اپنا ممبر بنا لیتا ہے اور یہ بھی مفاد کا ٹوکا لے کر ملک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے میں جت جاتا ہے‘ مفاد کے اس کلب کے ممبرکس قدر سنگ دل ہیں آپ اس کا اندازہ کوئٹہ اور کراچی کی صورتحال سے لگالیجیے‘ ان کی نظر میں کوئٹہ اور کراچی کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی ہزارہ کمیونٹی کی ہزار لاشوں اور کراچی کے ساڑھے آٹھ ہزار لوگوں کی اموات کی‘ اگر انھیں کوئی دلچسپی ہے تو وہ پانچ ارب روپے کا محل ہے‘ اپنی مرضی کی نگران حکومت ہے اور اگلے الیکشنز میں کامیابی ہے اور پیچھے رہ گئے۔
عوام تو یہ ماضی میں بھی ان کی ترجیح نہیں تھے‘ یہ آج بھی ترجیح نہیں ہیں اور یہ کل بھی ترجیح نہیں ہوں گے کیونکہ یہ اس ملک کی بنیاد سے لے کر آج کے جمہوری دور تک کبھی ترجیح نہیں رہے‘ یہ محض ووٹر ہیں یا لاشیں ہیں‘ مفاد پرست کلب کے ممبر انتخابی نشانوں پر ان سے انگوٹھا لگواتے ہیں‘ اپنا اقتدار پکا کرتے ہیں‘ پانچ پانچ سال کی باری لگاتے ہیں‘ قوم مایوس ہو جاتی ہے تو خفیہ ادارے شہروں میں نعشوں کی کھیتیاں اگا دیتے ہیں‘ یہ کھیتیاں بو دیتی ہیں تو فوج اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے‘ سیاسی جماعتیں فوج کو بھگانے کے لیے اپنے ووٹروں کو لاشوں میں تبدیل کرنے لگتی ہیں‘ یہ لاشیں عالمی ضمیر کے دروازے پر دستک دیتی ہیں تو فوجی آمروں کے سپورٹر پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور ملک پر مفاد پرست کلب کے سویلین چہرے قابض ہو جاتے ہیں‘ یہ لوگ بندر بانٹ کے ذریعے پانچ سال پورے کرنے میں جت جاتے ہیں اور اس دوران ملک خواہ قبرستان بن جائے انھیں کوئی غرض نہیں ہوتی‘ یہ صرف اور صرف اپنے اقتدار تک محدود رہتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ کوئٹہ کی سڑکوں پر پڑی لاشیں دیکھ لیں یا پھر کراچی کی تڑتڑ کی آوازیں اور گرتی ہوئی لاشوں کی چیخیں سن لیں‘ بلوچستان میں سال بھر سے کوئی حکومت موجود نہیں‘ کراچی میںریاست ناکام ہے‘ وہاں آئی جی پولیس بھی رینجرز کی سیکیورٹی کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا مگر ہمارا مفاد پرست کلب جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی قرار داد پاس کر رہا ہے اور نگران وزیراعظم کے نام پر لڑ رہا ہے‘ آپ صورتحال پر تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو محسوس ہو گا‘ ہم اٹھارہ کروڑ لوگ مفاد پرست کلب کے ممبروں کی آسودگی کے لیے انسانی کھاد ہیں‘ ہم پیدا ہی ان لوگوں کے انتخابی نشانوں پر انگوٹھا لگانے کے لیے ہوتے ہیں یا پھر فوجی آمروں کی خواہش اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جنم لیتے ہیں‘ ہم انگوٹھا لگا دیں تو یہ پانچ ارب کے بم پروف محل سے ہم پر حکمرانی کرتے ہیں نہ لگائیں تو یہ پانچ سال کے لیے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کی جگہ کوئی بندوق علی خان اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے۔
ہم پاکستانیوں کا پاکستان کب بنے گا‘ ہم کب آزاد ہوں گے۔
دھرنا انصاف
جاوید چوہدری جمعرات 21 فروری 2013
فیض آباد بند تھا‘ سڑک پر ہوکا عالم تھا‘ ایک پولیس سارجنٹ چوک میں کھڑا تھا‘ ٹریفک زیادہ تھی‘ گاڑی پر گاڑی چڑھی ہوئی تھی‘بمپر سے بمپر ٹکرا رہا تھا‘ میں نے سارجنٹ سے پوچھا ’’ کوئی راستہ موجود ہے‘‘ اس نے آئی ایٹ کی طرف اشارہ کر دیا‘ میں اسلام آباد کی طرف سے آیا تھا اور اسلام آباد ہی جانا چاہتا تھا چنانچہ میں فوراً آئی ایٹ کی طرف مڑ گیا مگر میں جوں ہی آئی ایٹ کی طرف مڑا مجھے ٹریفک کا بہائو راولپنڈی کی طرف لے گیا‘ سکستھ روڈ پر گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں‘ میں بھی ان میں پھنس گیا‘ پولیس اور ٹریفک پولیس کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا‘ اہل تشیع نے کوئٹہ میں 90 لوگوں کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں دھرنے شروع کر دیے تھے‘ راولپنڈی اور اسلام آباد بھی ان دھرنوں کا ہدف تھا‘ فیض آباد راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخلے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے‘ یہ مقام سب سے پہلے بند ہوا اور دھرنے آہستہ آہستہ اب دوسرے انٹری پوائنٹس کی طرف بڑھ رہے تھے‘ میں اسلام آباد سے آیا تھا اور اسلام آباد ہی جانا چاہتا تھا لیکن مجھے ٹریفک‘ دھرنے اور بدنصیبی راولپنڈی کی طرف لے گئی‘ ہم سکستھ روڈ پر پون گھنٹہ پھنسے رہے‘ وہاں سے مری روڈ پر آئے تو ٹریفک کا بہائو مال روڈ کی طرف لے گیا‘ مال روڈ پر بھی ٹریفک جیم تھی‘ موٹروے کی طرف جانے والا راستہ بند ہو چکا تھا‘ ہم لوگ ائیر پورٹ کی طرف چل پڑے‘ ائیر پورٹ کے قریب پہنچے تو ائیر پورٹ کے سامنے بھی ٹائروں کو آگ لگی تھی اور سڑک پر پتھر رکھ کر راستہ بند کر دیا گیا تھا۔
پولیس وہاں بھی موجود نہیں تھی‘ سامنے سڑک پر بیس پچیس نوجوان ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا کر کھڑے تھے‘ گاڑیاں ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے واپس مڑیں اور ہم وہاں سے راول روڈ پر آگئے‘ راول روڈ پر بھی ہزاروں گاڑیاں کھڑی تھیں‘ یہ آہستہ آہستہ سرکتی ہوئی مری روڈ پرآئیں‘ ہم مری روڈ سے دوبارہ فیض آباد پہنچے مگر فیض آباد تین اطراف سے بند تھی‘ وہاں سے ایک بار پھر سکستھ روڈ آئے اور سکستھ روڈ پر پھنس گئے‘ سکستھ روڈ کے آخر میں ٹرک کھڑے کر کے راستہ بند کر دیا گیا تھا‘ میرے آگے اور پیچھے ہزاروں گاڑیاں تھیں‘ گاڑیوں میں خواتین بھی تھیں‘ بچے بھی اور بزرگ بھی‘ مجھے روڈ پر راستے تلاش کرتے ہوئے تیسرا گھنٹہ شروع ہوچکا تھا‘ میرا شوگر لیول ڈائون ہو رہا تھا‘ پٹرول تیزی سے ختم ہو رہا تھا اور مثانہ پھٹنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔
میں بے بسی اور بے چارگی کا شکار ہو چکا تھا‘ گاڑیاں ایک بار پھر مری روڈ کی طرف مڑنے لگیں‘ میں سڑک کے آخر تک پہنچا‘ آخر میں ٹرک کھڑے تھے اور ٹرکوں کے سامنے دس پندرہ نوجوان ہاتھوں میں ڈنڈے لے کر کھڑے تھے‘ میں دھرنے کے انچارج کے پاس گیا اور اس سے خواتین اور بچوں پر رحم کھانے کی درخواست کی‘ اس نے گھور کر میری طرف دیکھا اور نفرت سے بولا ’’ کوئٹہ میں ہماری عورتیں اور بچے دو دن سے 86 لاشیں سڑک پر رکھ کر بیٹھی ہیں‘ کیا آپ کو ان بچوں اور عورتوں پر رحم آیا ہے؟ آپ کو کھلے آسمان تلے بیٹھی وہ عورتیں اور بچے دکھائی نہیں دے رہے اور گاڑیوں میں بیٹھے بچے اور عورتیں نظر آ رہی ہیں‘‘ میں بے بسی سے دائیں بائیں دیکھنے لگا‘ وہ بولا ’’ آپ لوگ ایک دن اپنے بیٹے یا بھائی یا والد کی نعش سڑک پر رکھ کر بیٹھیں‘ میں اس کے بعد آپ سے پوچھوں گا آپ کو یہ گاڑیاں اور ان میں بیٹھے لوگ دکھائی دیتے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’ لیکن کیرانی روڈ کے سانحے میں ان بے چاروں کا کیا قصور ہے‘ یہ تو بے گناہ ہیں‘‘ وہ بولا ’’ بے گناہوں کے راستے رکیں گے تو انھیں ہم بے گناہوں کے مظالم نظر آئیں گے‘‘ میں چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گیا‘ ہجوم میں موجود ایک نوجوان کو مجھ پر رحم آ گیا‘ اس نے مجھے اشارہ کیا‘ ایک منٹ کے لیے ایک ٹرک ہٹایا اور مجھے راستہ دے دیا‘ میں تین گھنٹے بعد اسلام آباد میں داخل ہوا لیکن دھرنے ابھی باقی تھے‘ میں راستے میں چار دھرنوں پر رکا‘ لوگوں نے مجھ پر رحم کیا اور میں آدھ گھنٹے کی مزید خواری کے بعد دفتر پہنچ گیا۔
میں اکیلا اس صورتحال کا شکار نہیں تھا‘ منگل 19 فروری 2013ء کے دن ملک بھر میں 772 دھرنے ہوئے اور کراچی سے لے کر استور تک ساری سڑکیں بند رہیں‘ ملک میں پہلی بار ائیرپورٹس‘ ریلوے‘ بس سروس‘ ٹیکسی سروس موٹروے اور عام گاڑیاں بند ہوئیں اور لوگ گھروں‘ دفتروں‘ سڑکوں‘ائیر پورٹس‘ ریلوے اسٹیشنز‘ اسکولوں‘ یونیورسٹیوں اور اسپتالوں میں محصور ہو کر رہ گئے‘ ایمبولینسز سڑکوں پر رک گئیں‘ ڈاکٹر سڑکوں پر پھنس گئے اور مریض دہلیز پربیٹھ کر ’’ میڈیکل ہیلپ‘‘ کا انتظار کرتے رہے‘ پورا ملک مفلوج تھا‘ آپ گاڑی سے اتر کر دھرنا دینے والوں کو دیکھتے تھے تو یہ ایک دو درجن لوگ ہوتے تھے اور آپ اس کے بعد پولیس کو تلاش کرتے تھے تو وہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتی تھی اور آپ اپنے آپ سے پوچھتے تھے ’’اسٹیٹ کہاں ہے؟‘‘ آپ کو کوئی جواب نہیں ملتا تھا اور یہ پانچ سال کی مسلسل جمہوریت کا آخری تحفہ تھا‘ یہ درست ہے کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی پر ظلم ہو رہا ہے‘ پچھلے چند سالوں میں ان کے ایک ہزار لوگ مارے گئے‘ 10 جنوری کو تین بم دھماکے ہوئے‘ سو لوگ مارے گئے‘ لواحقین تین دن تک نعشیں سڑک پر رکھ کر بیٹھے رہے لیکن حکومت کان لپیٹ کر سوئی رہی‘ اگر اس وقت علامہ طاہر القادری کے دھرنے کا دبائو نہ ہوتا تو شاید نعشیں مہینوں وہاں پڑی رہتیں۔
حکومت طاہر القادری کے خوف کی وجہ سے کوئٹہ گئی اور لوگ گورنر راج کے عوض نعشیں دفنانے پر تیار ہوئے‘ 16 فروری کو اس نوعیت کا ایک اور واقعہ ہوا‘ اس واقعے میں بھی سو لوگ مارے گئے اور ہزارہ کمیونٹی ایک بار پھر نعشیں سڑک پر رکھنے پر مجبور ہو گئی‘ ملک بھر کے شیعہ حضرات نے ان کا ساتھ دیا‘ پاکستان کے مختلف شہروں میں 772 دھرنے ہوئے اور پاکستان ایک دن کے لیے عملاً مفلوج ہو کر رہ گیا‘ اسٹیٹ منظر سے غائب ہو گئی اور ملک میں کوئی ادارہ‘ کوئی شخص صورتحال کو سنبھالنے‘ مظاہرین سے مذاکرات کرنے‘ سڑکیں کھلوانے اور ٹریفک میں پھنسے بے بس لوگوں کو نکالنے کے لیے آگے نہ آیا اور عام لوگ بے بسی کی تصویر بن کر آسمان کی طرف دیکھتے رہے‘ 19 فروری کو سڑکوں پر کھڑے لوگوں کو محسوس ہو رہا تھا حکومت نے پانچ برسوں میں انصاف کا ایک نیا نظام متعارف کروا دیا ہے‘ یہ دھرنا نظام ہے‘ ملک کا جو بھی شخص بجلی چاہتا ہے‘ گیس چاہتا ہے‘ پٹرول اور روزگار چاہتا ہے‘ جسے ڈاکٹر اور دوا چاہیے‘ جو اپنی تنخواہوں میں اضافہ کروانا چاہتا ہے‘ جو اسکول کا استاد بدلوانا چاہتا ہے‘ جسے ریلوے اور سرکاری بسیں پسند نہیں‘ جو ایس ایچ او‘ پٹواری اور سول جج تبدیل کرانا چاہتا ہے اور جسے عدالت اور سرکاری محکمے انصاف نہیں دے رہے وہ سڑک پر آئے‘ دو ڈنڈے اٹھائے‘ سڑک پر چند پتھر رکھے اور ریاست سے اپنا مطالبہ منوا لے‘ حد یہ ہے ٹرک اور آئل ٹینکرز کے مالکان ہائی ویز پر ٹرک کھڑے کرتے ہیں اور ریاست دو گھنٹے میں ان کے قدموں میں جھک جاتی ہے۔
سی این جی مالکان ہڑتال پر جاتے ہیں‘ پندرہ لاکھ گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی ہو جاتی ہیں اور حکومت ان کے مطالبات ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے‘ پاورپلانٹس کے مالکان اپنا مطالبہ منوانے کے لیے بجلی کی پیداوار کم کر دیتے ہیں اور وزارت خزانہ ان کا بل پے کر دیتی ہے اور آخر میں کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی بھی انصاف کے لیے نعشیں سڑکوں پر رکھنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور اس کے بعد وزیراعظم بھی ایکٹو ہو جاتے ہیں‘ کابینہ کا اجلاس بھی ہو جاتا ہے‘ پارلیمنٹ میں شیعہ کلنگ پر بحث بھی ہو جاتی ہے اور سپریم کورٹ بھی سوموٹو نوٹس لے لیتی ہے‘ کیا ملک کے اٹھارہ کروڑ لوگوں کے لیے یہ پیغام نہیں‘ آپ کو انصاف اس وقت تک نہیں ملے گا آپ جب تک اپنے کسی پیارے کی نعش سڑک پر نہیں رکھتے‘ آپ جب تک ڈنڈے لے کر سڑک پر نہیں آتے یا پھر دھرنا نہیں دیتے‘ ملک کی حالت یہ ہے آج سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی اپنی بات پارٹی قیادت تک پہنچانے کے لیے دھرنے اور میڈیا کے سامنے سینہ کوبی کرنے پر مجبور ہیں اور انھیں بھی ان کی پارٹی اس وقت تک ٹائم نہیں دیتی جب تک یہ کوئی بڑی سڑک بند نہیں کردیتے‘ کل فیصل آباد میں وکلاء نے عدالت کا فرنیچر توڑ دیا‘ ڈی سی او آفس برباد کر دیا اور ضلع چوک میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے اوراس کے بعد ریاستی مشینری ایکٹو ہو گئی‘ کیا ملک میں اب صرف دھرنے سے انصاف ملے گا اور اگر یہ انصاف کا واحد طریقہ رہ گیا تو پھر ہم عوام کہاں جائیں‘ کیا ہمیں بھی سڑک پر نکلنے کے حق کے لیے دھرنا دینا پڑے گا اور ڈنڈے اٹھانا پڑیں گے۔
جنگل کا زمانہ
جاوید چوہدری پير 18 فروری 2013
شیئر
ٹویٹ
تبصرے
مزید شیئر

www.facebook.com/javed.chaudhry
وہ صدر آصف علی زرداری یار اجہ پرویز اشرف کا دور نہیں تھا‘ اس دور میں ڈیجیٹل کمیونی کیشن بھی نہیں تھی‘ موبائل فون‘ انٹرنیٹ‘ ویڈیو کانفرنسنگ‘ سیٹلائٹ فون‘ فیکس اور برق رفتار جیٹ بھی نہیں تھے‘ اس دور میں ملک کے مختلف علاقے چھوٹے انتظامی یونٹوں میں بھی تقسیم نہیں تھے اور ہر یونٹ دوسرے یونٹ سے منسلک بھی نہیں تھا اور اس دور میں ٹرین‘ بس اور کار بھی نہیں تھی‘ وہ پرانا دور تھا جس میں فریادی کو حکومت تک پہنچنے میں کئی سال لگ جاتے تھے اور حکومتی احکامات پر عمل کے لیے اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود بڑھیا شیر شاہ سوری کے دربار تک پہنچ گئی‘ ظلم کی آگ انسان کو یک سو بھی کر دیتی ہے‘ اس میں تسلسل بھی پیدا کر دیتی ہے اور اس کو جرأت مند بھی بنا دیتی ہے‘ بڑھیا کا اکلوتا جوان بیٹا لکڑیاں کاٹنے کے لیے جنگل میں گیا اور اسے کسی نے قتل کر دیا‘ وہ مقامی ناظم کے پاس گئی لیکن اس نے گواہوں کی غیر موجودگی کارونا رو کر معذرت کر لی‘ وہ گورنر کے پاس گئی‘ اس نے بھی مقدمہ داخل دفتر کر دیا چنانچہ بڑھیا جہلم سے پیدل نکلی اور مہینوںکا سفر کرتے ہوئے دارلحکومت پہنچ گئی‘ شیر شاہ سوری ہفتے کے ایک دن دربار عام لگاتا تھا‘ اس دن کوئی بھی فریادی اس کے دربار میں پیش ہو سکتا تھا‘ بڑھیا بھی اپنی باری پر کھڑی ہو گئی۔
بادشاہ نے ماجرا پوچھا‘ بڑھیا کے سارے دکھ آنسوئوں میں بہنے لگے‘ وہ روتی رہی‘ چیختی رہی اور بادشاہ سنتا رہا‘ پتہ چلا بڑھیا کے بیٹے کو کسی نے جنگل میں مار دیا اور پولیس اور انتظامیہ مجرم کا پتہ نہیں لگا سکی‘ بادشاہ نے بڑھیا سے وعدہ کیا میں ایک ہفتے میں تمہارے مجرم تمہارے سامنے پیش کروں گا‘ مدعیہ کو اس کے ساتھ ہی شاہی مہمان خانے میں ٹھہرا دیا گیا‘ دو دن گزرے تو جہلم کے پولیس چیف اور ناظم کو اطلاع ملی چند لوگ جنگل میں درخت کاٹ رہے ہیں‘ یہ فوراً فورس لے کر جنگل پہنچ گئے‘ انھوں نے دیکھا لوگ واقعی دھڑا دھڑ درخت کاٹ رہے ہیں‘ فورس نے جنگل کاٹنے والوں کو گرفتار کر لیا‘ چند لمحے بعد شیر شاہ سوری کی فوج جہلم پہنچی اور اس نے ناظم اور پولیس چیف کو گرفتار کر لیا‘ جنگل کاٹنے والے لوگ بادشاہ کے ملازم تھے‘ ناظم اور پولیس چیف کو برق رفتار گھوڑوں کے ذریعے دربار تک پہنچایا گیا‘ بادشاہ نے ان سے صرف ایک سوال پوچھا ’’ جنگل میں لکڑی کاٹی جا رہی تھی تو تمہیں ایک پہر میں اطلاع مل گئی لیکن انسان قتل ہوا تو تمہیں آج تک گواہ نہیں ملا‘‘ دونوں نے بادشاہ کے سامنے جھک کر تین دن کی مہلت مانگی‘ بادشاہ نے حکم لکھوایا یہ اگر تین دن میں مجرم پیش نہیں کرتے تو ان کی گردن اتار کر نعشیں جہلم شہر کے درمیان لٹکا دی جائیں‘ پولیس چیف اور ناظم واپس بھاگے‘ مجرم ڈھونڈا اور دربار میں بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا‘ مجرم نے اعتراف جرم کیا‘ بادشاہ نے جرم کی وجہ پوچھی‘ وجہ سن کر سنجیدہ ترین بادشاہ کی ہنسی چھوٹ گئی‘بادشاہ نے ہنستے ہنستے مجرم بڑھیا کے حوالے کر دیا اوراس کے ساتھ ہی حکم جاری کیا ہماری سلطنت میں قتل کا مجرم ایک ہفتے کے اندرگرفتار ہونا چاہیے‘ اگر مقامی انتظامیہ سات دن کے اندر مجرم گرفتار نہیں کرتی تو بادشاہ کے حکم کے مطابق ان کا سر اتار دیا جائے اور نعش شہر میں اس وقت تک کے لیے لٹکا دی جائے جب تک مجرم گرفتار نہیں ہوتا‘ اس حکم کے بعد شیر شاہ سوری کے دور میں ہندوستان میں کوئی قتل نہیں ہوا اور اگر ہوا تو مجرم دوسرے دن عدالت کے کٹہرے میں تھا۔
یہ آج سے 472 سال پرانی‘ اس دور کی مثال ہے جب دنیا میں کار تھی‘ بس تھی اور نہ ہی ٹرین‘ انتظامی یونٹس بھی ایک دوسرے کے ساتھ منسلک نہیں تھے‘ ملک بڑے بڑے یونٹس میں تقسیم تھا‘ دنیا میں برق رفتار جہاز‘ فیکس مشین‘ سیٹلائٹ فون‘ ویڈیو کانفرنس کی سہولت‘ انٹرنیٹ اور موبائل فون بھی نہیں تھا‘ ملک میں مجرموں کا ڈیٹا بھی نہیں تھا‘ انگوٹھے کے نشان‘ فنگر پرنٹس‘ ڈی این اے اور فرانزک سسٹم بھی نہیں تھا‘ دنیا میں ریڈوارنٹ کا سسٹم بھی شروع نہیں ہوا تھا‘ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بھی آنکھ نہیں کھولی تھی اور دنیا کے مختلف ممالک میں مجرموں کی تحویل کے ایگریمنٹس بھی نہیں ہوئے تھے‘ پولیسنگ‘ تفتیش اور مجرم سے اعتراف جرم کے نئے طریقے بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے اور شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی نہیں لگے تھے اور اس زمانے میں صرف ایک خوبی تھی‘ اس دور میں راجہ پرویز اشرف‘ آصف علی زرداری اور نواب اسلم رئیسانی جیسے لوگ حکمران نہیں تھے‘ اس دور میں ہندوستان کی حکومت شیر شاہ سوری جیسے وژنری‘ انصاف پسند اور ایماندار شخص کے ہاتھ میں تھی اور اس ایک شخص نے پانچ سال میں نہ صرف پورے ہندوستان کی زمین کی پیمائش کرا دی بلکہ اس نے مالیے کا وہ شاندار نظام بھی وضع کیا جو آج تک اس خطے میں قائم ہے‘ اس نے پانچ برسوں میں دنیا کی سب سے بڑی سڑک یعنی جی ٹی روڈ بھی بنا دی‘ اس نے ہر دس کلو میٹر بعد ایک چھوٹا سا قلعہ‘ ڈاک خانہ‘ سرائے اور میٹھے پانی کا کنواں بھی بنوا دیا۔
شیر شاہ سوری نے ہر شہر میں اپنا ناظم اور پولیس چیف (داروغہ) بھی تعینات کر دیا اور اس نے پورے ہندوستان سے جرائم کی بیخ کنی بھی کر دی لیکن آج کے ڈیجیٹل دور میں کوئٹہ میں سو سو لوگ مارے جاتے ہیں لیکن دنیا کی ساتویں جوہری طاقت مجرم گرفتار کر سکتی ہے اور نہ ہی قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ بند کروا سکتی ہے‘ آپ کوئٹہ میں ہونے والی زیادتی کا ڈیٹا نکال لیجیے‘ کوئٹہ میں پچھلے چار سال میں 800سے زائدافراد دہشتگردی کا شکار ہوچکے ہیں‘ 10 جنوری2013ء کو تین بم دھماکے ہوئے‘ پہلا دھماکہ باچا خان چوک میں ہوا جس میں 25 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوئے جب کہ اسی روز شام کو علمدار روڈ پردو بم دھماکوں میں91 افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہو ئے جس کے بعد لواحقین 86 لاشیں سڑک پر رکھ کر تین دن تک منفی درجہ حرارت میں بیٹھے رہے‘ حکومت نے انھیں اٹھانے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے جب اٹھنے سے انکار کر دیا تو بلوچستان میں گورنر راج لگا دیا گیا۔
گورنر راج لگ گیا مگر حالات اس کے باوجود نہ سنبھل سکے یہاں تک کہ 16فروری کوکوئٹہ میں کیرانی روڈ پر ایک بار پھر ہزارہ ٹائون کی مارکیٹ میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں 110افراد جاں بحق اور 180 زخمی ہو گئے اور لواحقین ایک بار پھر دھرنا دے کر بیٹھ گئے ہیں‘ ان کی حمایت میں ملک کے 12سے زائد شہروں میں دھرنے شروع ہو گئے‘ یہ لوگ کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے بعد صورت حال دلچسپ شکل اختیار کر گئی‘ بلوچستان کی تمام قوم پرست جماعتیں فوج اور ایجنسیوں کو صورتحال کی خرابی کا ذمے دار قرار دے رہی ہیں جب کہ کوئٹہ کی شیعہ یا ہزارہ کمیونٹی فوج کو نجات دہندہ سمجھ کر اقتدار اس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے اور حکومت اور اپوزیشن اسلام آباد‘ کراچی اور لاہور میں بیٹھ کر مرضی کی کیئر ٹیکر حکومت بنانے اور الیکشن میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے‘ ملک کی چھوٹی بڑی جماعتیں میٹرو بس کی مذمت کر رہی ہیں‘ یہ میاں شہباز شریف کا احتساب کرنے کے مطالبے کر رہی ہیں لیکن کوئٹہ میں مرنے والے ہزارہ کے لیے کوئی بات نہیں کر رہا‘ لوگ لشکر جھنگوی کو اس قتل و غارت کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں‘ہو سکتا ہے یہ کام خفیہ طاقتیں ملک میں شیعہ اور سنی فساد کرانا چاہتی ہوں تا کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے اور ہمارے دشمن اس خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاسکیں‘ یہ کوئی نہیں سوچ رہا دنیا کو اس قسم کے واقعات کے ذریعے یہ پیغام دیا جا رہا ہے پاکستان میں ریاست نام کی کوئی چیز موجود نہیں‘ اس ملک میں نوے نوے لاشیں سڑکوں پر پڑی رہتی ہیں مگر ریاست اور حکومت اقتدار کے مزے لوٹتی رہتی ہے‘ یہ لوگ نگران حکومتوں کے لیے سیاست بازی کرتے رہتے ہیں اور یہ بات غلط بھی نہیں کیونکہ اگر ریاست کسی ایک شہر کی کسی ایک کمیونٹی کو نہیں بچا سکتی۔
اگر ریاست بم دھماکے‘ خود کش حملے اور ٹارگٹ کلنگ نہیں روک سکتی تو پھر اس کے ہونے کا کیا فائدہ؟ آپ کراچی میں سڑکوں پر محفوظ نہیں ہیں اور آپ کوئٹہ میں گھر‘ اسکول‘ دفتر اور مارکیٹ میں مار دیے جاتے ہیں اور ریاست لوگوں کو کراچی میں بچا سکتی ہے اور نہ ہی کوئٹہ مںج‘ دنیا میں جو خوراک آپ کو توانائی نہ دے‘ جو پانی آپ کو گیلا نہ کرے اور جو ریاست آپ کو اپنے ہونے کا احساس نہ دلائے وہ ریاست ریاست‘ وہ پانی پانی اور وہ خوراک خوراک نہیں ہوتی‘ اگر شہر لوگوں کا تحفظ نہ کر سکیں تو پھر جنگل شہروں سے بہتر ہوجاتے ہیں اور اگر جنگلوں کے دور میں شیر شاہ سوری جیسے بادشاہ ہوں تو جنگلوں کا زمانہ ڈیجیٹل ایج سے بہتر ہو جاتا ہے‘ یہ ملک اگر جنگل ہے تو کاش اس جنگل کوشیر بھی مل جائے‘ شیر شاہ سوری! وہ شیر شاہ سوری جوانسانی جان کو آئین‘ پارلیمنٹ اور نگران حکومت سے زیادہ اہمیت دے‘ جو انسان کو انسان سمجھے۔
رائے (ٹو)
جاوید چوہدری ہفتہ 16 فروری 2013
میری رائے میں دوسری تبدیلی 2001ء میں آئی‘ میں 2001ء تک کاروباری طبقے‘ صنعت کاروں‘ سرمایہ کاروں اور دولت مندوں سے نفرت کرتا تھا‘ میں انھیں ظالم بھی سمجھتا تھا‘ میں سمجھتا تھا یہ لوگ پرافٹ کے لیے ظلم کی تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے معاشرہ منقسم ہو رہا ہے‘ غریب‘ غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیر‘ امیر سے امیر تر۔ میں اس اس زمانے میں امراء کے درو دیوار ہلا دینا چاہتا تھا اور دہقان کے رزق کے راستے میں حائل گندم کے تمام خوشے جلا دینا چاہتا تھا لیکن پھر 2001ء میں مجھ سے ایک غلطی ہو گئی اور اس غلطی نے سرمایہ کاری اور سرمایہ کاروں کے بارے میں میری رائے بدل دی اور مجھے اس طبقے سے نفرت کی بجائے ہمدردی ہو گئی‘ میں نے 2001ء میں کاروبار شروع کیا۔
میرے بھائی نے یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران ایک چھوٹی سی کمپنی بنائی‘ دفتر کھولا اور مجھے ’’ تبرکاً‘‘ اس کا چیف ایگزیکٹو بنا دیا‘ میں دفتر جانے لگا اور مجھے اس وقت معلوم ہوا‘ پاکستانی معاشرے میں پیسہ کمانا بالخصوص رزق حلال کمانا انتہائی مشکل ہے‘ آپ سسٹم‘ سرکاری محکموں اور معاشرے کی اپروچ کو ایک طرف رکھ دیں‘ آپ صرف ہیومن ریسورس کا ایشو لے لیں، آپ کو صرف یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے کم از کم دو زندگیاں چاہئیں‘ ہمارے تعلیمی ادارے طالب علموں کو صرف ڈگری دے رہے ہیں‘ یہ ان میں صلاحیت پدلا نہیں کرتے‘ یہ انھیں کام کی عادت بھی نہیں ڈالتے اور یہ انھیں نوکری کرنے کا فن بھی نہیں سکھاتے چنانچہ آپ نوجوانوں کی ڈگریاں‘ پوزیشنیں اور نمبر دیکھ کر انھیں ملازم رکھ لیتے ہیں مگر انھیں کام نہیں آتا‘ آپ ان پر محنت کرتے ہیں‘ آپ انھیں کام سکھاتے ہیں اور یہ کام سیکھتے ہی مخدوم ہو جاتے ہیں‘ انھیں گاڑی بھی چاہیے ہوتی ہے‘ ڈرائیور بھی‘ چپڑاسی بھی‘ اسسٹنٹ بھی‘ اے سی بھی‘ ہیٹر بھی‘ لمبی چھٹیاں بھی‘ چھ ہندسوں میں تنخواہ بھی‘ میڈیکل انشورنس بھی اور مکمل اختیارات بھی‘ آپ انھیں یہ سب کچھ دے دیتے ہیں لیکن ایک دن اچانک فون آتا ہے اور یہ آپ کو اطلاع دیتے ہیں‘ مجھے نئی نوکری مل گئی ہے اور میں کل سے آفس نہیں آ رہا۔
یہ اطلاع بھی پانچ فیصد لوگ دیتے ہیں‘ پچانوے فیصد مہربان اطلاع تک دینے کا تکلف نہیں کرتے‘ یہ چھٹی لے کر غائب ہو جاتے ہیں اور آپ کو دس پندرہ دن بعد کوئی دوسرا شخص بتاتا ہے آپ کا فلاں ملازم فلاں کمپنی میں کام کر رہا ہے‘ آپ پریشان ہو کر اسے فون کرتے ہیں تو دوسری طرف سے آواز آتی ہے ’’ آپ کا مطلوبہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں‘‘ اور آپ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں‘ آپ کے ملازم دو‘ دو ماہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھے رہیں گے لنک آپ کو جوں ہی کوئی آرڈر ملے گا یا کام کا وقت آئے گا یہ لوگ بیمار ہو جائیں گے‘ ان کی بہن یا بھائی کی شادی آ جائے گی یا ان کی بیوی زچگی کے عمل سے گزرنے لگے گی یا ان کی گاڑی خراب ہو جائے گی یا پھر یہ تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیں گے اور آپ اپنے ہاتھ پر ’’چک‘‘ مارنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے۔
ہماری فیکٹریوں‘ دفتروں اور ورک پلیسز پر سہولتوں کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے‘ وہ بھی انتہائی تکلیف دہ ہے‘ آپ ملازمین کے لیے اے سی لگواتے ہیں‘ یہ اے سی چلتا چھوڑ کر گھر چلے جاتے ہیں‘ آپ کا کوئی ورکر اے سی بند کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرے گا‘ ہیٹر جلتے جلتے پگھل جاتے ہیں مگر کوئی انھیں بند نہیں کرتا‘ واش روم کی ٹوٹیاں کھلی چھوڑ دیں گے‘ کیچڑ والے بوٹ لے کر قالین پر پھریں گے‘ کوئی شخص لائٹس آف نہیں کرے گا‘ کمپیوٹر چلتے رہیں گے‘ دفتر کے ٹی وی آن رہیں گے‘ اگر بارش کا پانی اندر آ رہا ہے تو کوئی اٹھ کر کھڑکی بند نہیں کرے گا‘ آپ اگر دفتر میں چائے‘ کافی یا کھانے کی مفت سہولت دے رہے ہیں تو کچن میں لڑائیاں شروع ہو جائیں گی‘ پورا دفتر کچن کے ملازمین سے بدتمیزی کرے گا‘ لوگ منرل واٹر سے منہ دھوئیں گے اور دیوار پر ہاتھ رکھ کر سڑےھیاں چڑھیں گے‘ آپ پاکستان کے کسی دفتر کی سیڑھیاں اور بجلی کے بٹن دیکھئے آپ کو کسی سیڑھی کی دیوار اور بجلی کے بٹن صاف نہیں ملیں گے اور یہ تمام گند دفتر کے پڑھے لکھے ملازم مچاتے ہیں‘ آپ دفتر میں جنریٹر لگا دیتے ہیں تو کوئی شخص اس کا آئل تبدیل نہیں کرے گا‘ آپ ملازمین کو گاڑیاں دیتے ہیں تو یہ انھیں دو مہینے میں کھنڈر بنا دیں گے‘ ڈرائیور گاڑی کے پارٹس تک بیچ دیں گے‘ آپ اگر شو روم چلا رہے ہیں تو آپ کے سیلز مین گاہکوں کے ساتھ بدتمیزی کریں گے‘ اوور بلنگ کریں گے‘ ان کا سامان چوری کر لیں گے اور آپ کے گوداموں سے مال غائب کریں گے اور آپ کے پاس رونے دھونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
آپ اب سسٹم کی طرف آئیے‘ آپ اگر کوئی چیز امپورٹ کر رہے ہیں تو آپ 35 محکموں کے 35 سو قصابوں کے ہتھے چڑھ جائیں گے‘ آپ کو مال خریدنے‘ پاکستان لانے اور کسٹم کلیئر کرانے کے لیے اپنے جیسے دس لوگ چاہئیں‘ آپ کا مال پورٹ پر پڑا پڑا ایکسپائر ہو جائے گا اور آپ کے پاس بلڈ پریشر کی دوائیں کھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا‘ آپ مال کلیئر کرا لیں تو آپ کو ٹرک اور ٹرالر نہیں ملتے‘ یہ مل جائیں تو کوئی نہ کوئی لانگ مارچ یا سیلاب انھیں روک کر بیٹھ جاتا ہے‘ مال کارخانے میں پہنچ جائے تو بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ شروع ہو جاتی ہے‘ آپ اس کا بندوبست کر لیں تو ملازمین ہڑتال پر چلے جاتے ہیں‘ آپ انھیں منا لیں تو یہ کوالٹی نہیں دیتے‘ کوالٹی مل جائے تو آرڈر لیٹ ہو چکا ہوتا ہے۔
آپ یہ مسئلہ بھی حل کر لیں تو مال کو بیرون ملک یا مارکیٹ تک پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے اور آپ اگر یہ بھی کر لیں تو لوگ آپ کے پیسے دبا کر بیٹھ جاتے ہیں‘ آپ کو وصولیاں کرنے کے لیے جوتے گھسیٹنا پڑ جاتے ہیں‘ آپ اگر اس مرحلے سے بھی گزر جائیں تو ٹیکس کے محکمے ٹوکے لے کر آپ کے سر پر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ آپ قانون اور قاعدے کے مطابق چلنا چاہیں تو یہ آپ کو اسپتال یا پاگل خانے تک لے جاتے ہیں اور آپ اگر ان تمام مراحل سے بچ جائیں تو آپ کی کامیابی کو صفر کرنے کے لیے آپ کا کوئی سالہ‘ کوئی بہنوئی‘ کوئی بیٹا یا کوئی نالائق بھائی سامنے آ جائے گا‘ آپ کی غیر موجودگی میں کوئی ایک رشتے دار کوئی اندھی ڈیل کرے گا اور آپ کا تورا بورا بن جائے گا۔
ہم لوگوں نے شروع میں گورنمنٹ سیکٹر کے ساتھ کام شروع کیا‘ پتہ چلا اس کے لیے عمر خضر چاہیے‘ آپ چالیس چالیس پریذنٹیشن دیتے ہیں لیکن کام کا فیصلہ کسی اور جگہ ہوتا ہے‘ میں نے ماحولیات کی وزارت میں سترہ میٹنگز بھگتائیں‘ اس دوران تین سیکریٹری تبدیل ہو گئے لیکن کام شروع نہیں ہوا اور یہ کام بھی غیر ملکی امداد سے ہونا تھا‘ ہماری حکومت کا اس میں ایک دھیلا خرچ نہیں ہونا تھا‘ وزیر بھی کام کرنا چاہتا تھا مگر فائلیں مکمل نہیں ہو رہی تھیں چنانچہ اس دوران ڈونر مایوس ہو کر بھاگ گیا‘ ہم نے گورنمنٹ سیکٹر کا کام بند کر دیا‘ ہم پرائیویٹ سیکٹر میں چلے گئے‘ وہاں کے حالات بھی مختلف نہیں تھے‘ یہ لوگ بھی چلا چلا کر مار دیتے تھے‘ تین تین ماہ تک پے منٹس نہیں ہوتی تھیں‘ آپ ٹیم پوری کرتے تھے تو آپ کا ایگری منٹ کینسل ہو جاتا تھا چنانچہ ہم نے پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ بھی کام بند کر دیا اور ہم پاکستان میں انٹرنیشنل فرموں اور غیر ملکی کمپنیوں کو سروسز دینے لگے‘ ہم باہر کے اداروں کے لیے ڈیزائن اور سافٹ ویئر بنانے لگے اور یوں ہماری ٹینشن پچاس فیصد کم ہو گئی لیکن آج بھی جب صبح آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے فلاں ورکر بھاگ گیا ہے اور ساتھ ہی دو گورے کلائنٹس بھی لے گیا ہے اور ہمیں اب وصولی کے لیے فلاں ملک میں وکیل کرنا پڑے گا یا پھر فلاں مہربان نے کمپیوٹر نیٹ ورک میں وائرس پھینک دیا ہے اور ہمیں سسٹم کو دوبارہ ٹریک پر لانے کے لیے دو دن چاہئیں یا پھر ڈیزائن اور سافٹ ویئر چوری ہو چکے ہیں اور آپ چور کو نہیں پکڑ سکتے کیونکہ اس کا چچا ایف آئی اے میں ہے اور اس نے یہ حرکت چچا کی مرضی سے کی چنانچہ ہم پچھلے بارہ برسوں سے ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس کی ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی۔
ہم روز اپنے آپ سے اپنا قصور پوچھتے ہیں اور ہمیں کوئی جواب نہیں ملتا‘ ہم اپنے کام کو مختصر سے مختصر کرتے جا رہے ہیں‘ ہم صرف ٹینشن سے بچنے کے لیے اپنے ملازمین اور کام میں اضافہ نہیں کرتے‘ ان بارہ برسوں کے تجربے نے صنعت کاروں‘ سرمایہ داروں‘ دولت مندوں اور کاروباری طبقے کے بارے میں میری رائے تبدیل کر دی‘ یہ مجھے اب مظلوم نظر آتے ہیں اور میں ان سے نفرت کرنے والے ہر شخص کو مشورہ دیتا ہوں آپ صرف دو لوگوں کو ملازم رکھ لیں‘ آپ کو اگر دو ماہ میں ملک کے تمام سرمایہ کار مظلوم دکھائی نہ دیے تو آپ میرا نام بدل دیجیے گا اور میں ساتھ ہی ساتھ ان تمام کاروباری شخصیات سے بھی ملتا ہوں جو ملک میں مدتوں سے کاروبار کر رہے ہیں‘ میں ان سے ملازمین کی تعداد پوچھتا ہوں‘ اس کے بعد ان سے پوچھتا ہوں آپ کو کتنے ہارٹ اٹیکس ہو چکے ہیں‘ آپ کتنے عرصے سے بلڈ پریشر کے مریض ہیں اور آپ کو پاگل پن کے دورے کتنے عرصے سے پڑ رہے ہیں اور اگر وہ مسکرا کر خود کو صحت مند قرار دے دے تو میں اس کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیتا ہوں کیونکہ اس ملک میں کاروباری ہونا‘ دولت مند ہونا اور اس کے بعد صحت مند ہونا یہ کمال ہے اور یہ کمال کرنے والے نشان حیدر کے حق دار ہیں‘ یہ زندہ شہید ہیں۔

ویلنٹائن
جاوید چوہدری جمعـء 15 فروری 2013
ویلنٹائن ڈے کو سمجھنے کے لیے آپ کو فاسٹ فوڈ چینز کا تصور سمجھنا ہو گا‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں کمرشل ازم کا بوم آ گیا‘ لوگ معاشی دوڑ میں لگ گئے‘ میاں اور بیوی دونوں دو دو شفٹوں میں کام کرنے لگے‘ اس دوڑ نے سب سے پہلے ڈائننگ ٹیبل اور کچن کو متاثر کیا‘ چولہے ٹھنڈے ہو گئے اور کھانے کی میزیں ویران ہو گئیں‘ فاسٹ فوڈ نے اس ویرانی اور ٹھنڈے پڑتے کچنز سے جنم لیا‘ امریکا میں ایسے ریستوران بننے لگے جو گاہک کو کائونٹر پر کھڑے کھڑے خوراک کے پیکٹ دے دیتے تھے اور وہ شخص چلتے پھرتے‘ ٹرین کے پیچھے بھاگتے‘ بس پر سوار ہوتے یا ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے لنچ یا ڈنر مکمل کر لیتا‘ یہ خوراک سستی بھی ہوتی تھی۔
اسے کھانے کے لیے کرسی اور میز کی ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی اور آپ کو آرڈر دے کر انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا تھا‘ امریکا میں یہ ریستوران تیزی سے پھیلنے لگے اور یہ فاسٹ فوڈ دیکھتے ہی دیکھتے امریکی شہریوں کے لائف اسٹائل کا حصہ بن گئی‘ امریکا میں اس وقت فاسٹ فوڈ کی دو سو سے زائد چینز کام کر رہی ہیں‘ وہاں صرف میکڈونلڈ کی ساڑھے تین ہزار شاخیں ہیں اور امریکا کاہر آٹھواں شہری کسی نہ کسی حیثیت سے میکڈونلڈ کا ملازم ہے یا ماضی میں رہا‘ فاسٹ فوڈ کا تصور جب یورپ میں آیا تو یورپین اقوام نے کھل کر اس کی مخالفت کی‘ فرانس‘ برطانیہ‘ جرمنی اور اسپین کے شہریوں کا کہنا تھا فاسٹ فوڈ یورپ کی کھانے کی روایات برباد کر دے گی۔
یہ ریستوران انڈسٹری کو بھی نقصان پہنچائے گی اور پنیر اور تیل کے بے تہاشا استعمال کی وجہ سے لوگوں میں موٹاپے اور بیماریوں میں بھی اضافہ ہوگا لیکن اس مخالفت کے باوجوفاسٹ فوڈ چینز یورپ آئیں اور انھوں نے یورپ میں امریکا سے زیادہ بزنس کیا ‘ان فاسٹ فوڈ کمیوانں نے یورپ میں ایڈجسٹ منٹ کے لیے اپنی مصنوعات کو یورپین رنگ دے دیا‘ امریکا کے لوگ خوش خوراک ہیں‘ وہاں کے لوگ بڑے برگر‘ زیادہ فرنچ فرائز اور سافٹ ڈرنک کے بڑے گلاس پسند کرتے ہیں چنانچہ یہ چینز امریکا میں امریکی گاہکوں کو سامنے رکھ کر خوراک بیچ رہی تھیں جب کہ یورپ کے لوگ امریکا کے مقابلے میں زیادہ کلچرڈ‘ صحت کے بارے میں محتاط اور کم خوراک ہیں چنانچہ ان کمپنیوں نے یورپ میں برگرز‘ فرنچ فرائز اور سافٹ ڈرنگ کے گلاس چھوٹے کر دیے اور جن ملکوں میں یورپ اور امریکا دونوں خطوں کے لوگ رہتے ہیں۔
انھوں نے وہاں گاہکوں کو ریگولر‘ میڈیم اور لارج کا آپشن دینا شروع کر دیا‘ یورپ کے بعد اسلامی دنیا‘ مشرق بعید اور روسی ریاستیں فاسٹ فوڈ کا ہدف تھیں‘ مشرق بعید اور روسی ریاستیں زیادہ مسئلہ نہیں تھیں‘ ان کا اصل مسئلہ اسلامی دنیا تھی کیونکہ اسلامی دنیا میں پورک اور ہیم نہیں کھایا جاتا‘ یہاں حلال جانور بھی اس وقت تک حلال نہیں ہوتے جب تک انھیں اسلامی طریقے سے ذبح نہ کیا جائے اور حلال کی یہ رکاوٹ اسلامی دنیا اور فاسٹ فوڈ کلچر کے درمیان سرحد بن کر کھڑی ہو گئی‘ فاسٹ فوڈ چینز نے دومنٹ میں اس کا حل بھی نکال لیا‘ انھوں نے اسلامی ممالک میں حلال خوراک استعمال کرنے کا اعلان کر دیا اوراس اعلان کے بعد پوری اسلامی دنیا میں فاسٹ فوڈ کے ریستوران کھل گئے۔
آج آپ کسی اسلامی ملک میں چلے جائیں آپ کو وہاں امریکا کے فاسٹ فوڈ ریستوران ملیں گے‘ چین‘ روس‘ جاپان اور جنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک میں بھی یہی ہوا‘ ان کمپنیوں نے اپنی خوراک میں مقامی ذائقے شامل کیے اور وہاں بھی ہزاروں ریستوران کھل گئے‘ یہ صرف ایک مثال ہے‘ آپ اگر سافٹ ڈرنکس‘ انرجی ڈرنکس‘ جینز‘ آڈیو سسٹم‘ وڈیو سسٹم‘ کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ ‘فیس بک اور ٹویٹر کو دیکھیں تو یہ بھی ارتقاء کے انھی مراحل سے گزرے ہیں‘ یہ کمپنیاں بھی مقامی ضرورتوں کو اپنا حصہ بناتی گئیں اور ان کے لیے مختلف ملکوں اور معاشروں کے دروازے کھلتے چلے گئے یہاں تک کہ آج آپ کو یہ تمام چیزیں تمام ممالک میں ملتی ہیں تاہم ملکوں اور قوموں نے اپنے کلچر کے مطابق ان پر فلٹر لگا رکھے ہیں مثلاً عرب ریاستوں میں فحش ویب سائٹس نہیں کھلتیں اور ہم نے اپنی ثقافت کو سامنے رکھ کر یوٹیوب پر پابندی لگا دی ہے لیکن دنیا میں اس وقت کوئی ایسا ملک نہیں جس میں یہ ساری چیزیں موجود نہ ہوں‘ ان رجحانات نے دنیا کو حقیقتاً گلوبل ولیج بنا دیا‘ آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں آپ کو خوراک‘ پانی‘ سافٹ ڈرنکس‘ لباس اور انٹرنیٹ ایک جیسا ہی ملے گا۔
دنیا میں تہواروں کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے‘ امریکی معاشرہ فاسٹ فوڈ‘ سافٹ ڈرنکس‘ فیس بک‘ ٹویٹر اور ای میلز کی طرح نئے نئے تہوار بھی ایجاد کر رہا ہے اور یہ تیزی سے پوری دنیا کے تہوار بن رہے ہیں‘ ہم اگر چند لمحے کے لیے اپنا فکری‘ معاشرتی اور سماجی تعصب ایک طرف رکھ دیں توہمیں آج کے اکثر تہوار اچھے دکھائی دیں گے مثلاً مائوں کا عالمی دن‘ والد کا عالمی دن‘ بچوں کا عالمی دن‘ معذوروں کا عالمی دن‘ سفید چھڑی کا عالمی دن اور مزدوروں کے عالمی دن وغیرہ وغیرہ کو لے لیجیے‘ یہ تمام دن اچھے بھی ہیں اور انھیں منانے میں کوئی حرج بھی نہیں‘ ہم سب رشتوں میں گندھے ہوئے ہیں مگر زندگی کی مصروفیت ہمیں بعض اوقات ان رشتوں سے دور لے جاتی ہے اور یہ دن ہمیں ہمارا فرض اور ہماری رشتے داری دونوں کو یاد کرا دیتے ہیں۔
یہ ہم میں اور ہمارے فرض‘ ذمے داری اور رشتے داری میں ’’ بانڈ‘‘ کا کام کرتے ہیں‘ یہ دن‘ یہ تہوار بھی کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ‘ گوگل‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ جینز‘ سافٹ ڈرنکس اور فاسٹ فوڈ کی طرح طاقتور ہیں اور یہ ہماری بھرپور معاشرتی مخالفت کے باوجود سوسائٹی میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں‘ ہم ہر سال نیو ائیر نائٹ اور ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرتے ہیں‘ ہم لوگ 31 دسمبر کی رات ڈنڈے لے کر سڑکوں پر پھرتے ہیں‘ شہروں میں پولیس ہائی الرٹ ہوتی ہے‘ ہم ہر سال ویلنٹائن ڈے کی مذمت میں مضامین بھی لکھتے ہیں‘ ایس ایم ایس بھی چلاتے ہیں اور مساجد میں تقریریں بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود 31 دسمبر کی رات نوجوان سڑکوں پر نکلتے ہیں‘ یہ موٹرسائیکلوں کے سائلنسر نکال کر پورے شہر میں شور کرتے ہیں۔
نوجوان لڑکیاں اور لڑکے سڑکوں پر ڈانس بھی کرتے ہیں اور 14 فروری کو بڑے شہروں میں گلاب نہیں ملتے لہٰذا ہمیں یہ حقیقت ماننا ہو گی‘ ہم بھرپور مخالفت کے باوجود یہ تہوار نہیں روک پا رہے اور صرف ہم ہی نہیں بلکہ یہ کسی اسلامی ملک میں نہیں رک پا رہے‘ سعودی عرب‘ عراق‘ ایران اور مصر بھی پوری کوشش کے باوجود نیو ائیر نائٹ اور ویلنٹائن ڈے نہیں روک سکے چنانچہ ہمیں ان دنوں کی طاقت اور اپنی نوجوان نسل کی ضرورتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہو گا‘ یہ درست ہے ہم اسلامی ملک اور اسلامی معاشرہ ہیں اور ہم پاکستان میں مغربی دنیا جیسے نیو ائیر اور ویلنٹائن ڈے کی اجازت نہیں دے سکتے لیکن ہم فاسٹ فوڈ‘ سافٹ ڈرنکس اور انٹرنیٹ کی طرح ان تہواروں کو مقامی رنگ بھی دے سکتے ہیں‘ ہم سرکاری سطح پر نیو ائیر نائٹ منائیں۔
حکومت 31 دسمبر کی رات ملک بھر کے اسٹیڈیمز‘ پارکس اور کھلی جگہوں پر نیو ائیر کی تقریبات کا اہتمام کرے‘ وہاں ایک رات کا میلالگوائے‘ کھانے پینے کے اسٹال لگوائے‘ بچوں کے جھولوں کا بندوبست کرے اور رات جوں ہی بارہ بجیں پورے ملک میں تلاوت ہو‘ اٹھارہ کروڑ لوگ پرانے سال کے گناہوں پر توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے نئے سال کے لیے اجتماعی دعا کریں اور اس کے بعد پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی آتش بازی کے مظاہرے ہوں اور پاکستان کے گلو کار تمام شہروں میں اپنے فن کے مظاہرے بیہ کریں‘ آخر اس میں کیا حرج ہے؟ کیا ہم نے باقی زندگی موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر یا نوجوانوں کی گاڑیوں پر ڈنڈے برسا کر گزارنی ہے‘ ہم اسی طرح پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کو شادیوں کا دن ڈکلیئر کر سکتے ہیں‘ پاکستان میں 14فروری کو ہزاروں کی تعداد میں شادیاں ہوں‘ یہ شادیاں عالمی ریکارڈ بن جائیں‘ ہم اس دن کو میاں بیوی ڈے یا اولڈ کپلز ڈے بھی بنا سکتے ہیں۔
پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کے دن میاں بیوی ریستورانوں میں ڈنر کریں‘ شہر بھر کے بوڑھے جوڑوں کے لیے اجتماعی تقریبات منعقد کی جائیں اور ہم اس دن بچوں کی منگنیاں بھی کر سکتے ہیں‘آخر اس میں کیا حرج ہے‘ ہم ان چند اقدامات سے اپنے معاشرے میں ان دونوں دنوں کو اسی طرح ایڈجسٹ کر سکتے ہیں جس طرح ہم نے حلال خوراک کے ذریعے معاشرے میں فاسٹ فوڈ‘ سافٹ ڈرنکس‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ ڈی وی ڈی اور گوگل کی گنجائش پیدا کر لی تھی‘ ہم نے اگر آج ہوش کے ناخن نہ لیے‘ ہم نے دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کو اپنی ثقافت کے ساتھ ایڈجسٹ نہ کیا تو مجھے خطرہ ہے نیو ائیر اور ویلنٹائن ڈے جیسے طاقتور جن اپنی تمام تر خرابیوں کے ساتھ ہمارے معاشرے میں جگہ بنا لیں گے اور ہم اپنی عزت بچانے کے لیے آنکھیں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ جینز کو دیکھ لیجیے‘ ہمارے علماء نے اسی جینز کے خلاف فتوے دیے تھے لیکن آج یہ جینز ہماری مسجدوں میں نظر آتی ہے اور ہمارے علماء خاموش ہیں چنانچہ سوچئے اگر فاسٹ فوڈ حلال ہو سکتی ہے تو ویلنٹائن ڈے حلال کیوں نہیں ہو سکتا۔

راجہ صاحب نے آخری موقع بھی گنوا دیا
جاوید چوہدری بدھ 13 فروری 2013
ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کے وزیراعظم ہیں‘ یہ درمیانے درجے کے ایک اسٹاک بروکر آئن ڈونلڈکیمرون کے صاحبزادے ہیں‘ ان کے والد دونوں ٹانگوں سے معذور تھے‘ یہ چل نہیں سکتے تھے اور انھوں نے زندگی کے 78 سال ویل چیئر پر گزار دیے‘ ڈیوڈ کیمرون نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ‘ سیاست اور اکنامکس میں ڈگری حاصل کی اور 1991ء میں سیاست میں آ گئے‘ یہ 22 برس سے سیاست کر رہے ہیں‘ یہ 11مئی2010ء کو برطانیہ کے وزیراعظم بنے‘ یہ 1980ء کی دہائی میں طالب علم تھے اور ان کے اسکول کا ایک وفد اس وقت کی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر سے ملاقات کے لیے گیا‘ ڈیوڈ کیمرون بھی اسی وفد میں شامل تھے‘ یہ وزیراعظم کی رہائش گاہ 10 ڈائوننگ اسٹریٹ گئے‘ وزیراعظم سے ملاقات ہوئی‘ انھوں نے 10 ڈائوننگ اسٹریٹ کی سیر کی اور یہ واپس آ گئے‘ ڈیوڈ کیمرون کے والد نے اس رات ان سے پوچھا ’’ آپ کا دورہ کیسا رہا؟‘‘ نوجوان ڈیوڈ کیمرون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا ’’ ہم نے 10 ڈائوننگ اسٹریٹ میں بہت انجوائے کیا‘ وزیراعظم نے کافی اور پیسٹریوں سے ہماری تواضع کی‘ وہ ہیںج اپنی طالب علمی کے دور کے لطیفے بھی سناتی رہیں اور ہم نے وزیراعظم کے ساتھ تصویریں بھی کھنچوائیں‘‘۔
ڈیوڈ کیمرون کے والد مسکرائے اور انھوں نے اپنے بیٹے سے پوچھا ’’ کیا تم لوگ وہاں صرف تصویریں اتروانے‘ وزیراعظم کے لطیفے سننے اور پیسٹریاں کھانے گئے تھے؟‘‘ ڈیوڈ کیمرون نے حیران ہو کر والد کی طرف دیکھا‘ آئن ڈونلڈکیمرون نے کہا ’’ بیٹا آپ وزیراعظم کے لطیفے کسی بھی وقت اور کسی بھی عوامی تقریب میں سن سکتے تھے‘ آپ کو پیسٹریاں کوئی بھی کھلا سکتا تھا اور آپ وزیراعظم کے ساتھ تصویر کسی بھی وقت کھنچوا سکتے تھے لیکن آپ ایک کام کسی اور وقت نہیں کر سکتے تھے اور آپ نے یہ موقع ضایع کر دیا‘‘ ڈیوڈ کیمرون نے نے والد سے پوچھا ’’ ڈیڈ وہ کیا کام تھا؟‘‘ کیمرون کے والد نے جواب دیا ’’ آپ ان سے وزیراعظم بننے کا طریقہ سیکھ سکتے تھے‘ آپ ان سے یہ سیکھ سکتے تھے برطانیہ جیسے ملک کی وزیراعظم کام کیسے کرتی ہے‘ اس کی ترقی کا راز کیا ہے‘ برطانیہ کے لوگ وزیراعظم سے محبت کیوں کرتے ہیں اور وزیراعظم برطانیہ کے لوگوں کی بہبود کے لیے منصوبے کیسے بناتی ہے‘‘ والد کی بات ڈیوڈ کیمرون کے دل پر لگی اور اس کے بعد انھوں نے زندگی کا مقصد بنا لیا یہ دنیا کے جس بڑے شخص سے ملیں گے یہ اس سے اس کی کامیابی کا گر سیکھیں گے‘‘۔
ہمارے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اس وقت برطانیہ کے دورے پر ہیں‘ یہ دو دن قبل اسی ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کے لیے 10 ڈائوننگ اسٹریٹ گئے‘ منگل کے تمام پاکستانی اخبارات میں ڈیوڈ کیمرون اور راجہ پرویز اشرف کی خوبصورت تصویریں چھپی تھیں‘ دنیا کے دو عظیم وزیراعظم 328 سال پرانی 10 ڈائوننگ اسٹریٹ کے دروازے پر کھڑے ہو کر مسکرا رہے تھے‘ دونوں وزرائے اعظم کے پیچھے برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ کا معمولی سا دروازہ تھا اور دروازے کے اوپر سفید رنگ میں 10 کا ہندسہ چمک رہا تھا‘اس دروازے اور برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ کی کوئی دیوار اور کوئی کھڑکی بلٹ پروف نہیں‘ وزیراعظم کی رہائش گاہ سڑک سے صاف دکھائی دیتی ہے اور میں عام سیاح کی حیثیت سے درجنوں مرتبہ اس جگہ جا چکا ہوں اور اس دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر تصویر بھی کھنچوا چکا ہوں‘ وزیراعظم ہائوس کے سامنے ایک غیر مسلح گارڈ ہوتا ہے جس کی ذمے داری لوگوں کو دروازے کے سامنے سے ہٹانا اور وزیراعظم کے اسٹاف کو ملاقاتیوں کی آمد کی اطلاع دینا ہے‘ نائین الیون کے بعد برطانوی حکومت نے اس کمپائونڈ کے سامنے حفاظتی جنگلے لگا دیے ہیں لیکن آپ اس کے باوجود سڑک سے ڈائوننگ اسٹریٹ میں جھانک سکتے ہیں‘ یہ تین بیڈروم کی 328 سال پرانی چھوٹی سی رہائش گاہ ہے اور برطانیہ کے 78 وزیراعظم نہ صرف اس رہائش گاہ میں رہے بلکہ انھوں نے دنیا کے سیکڑوں عظیم سمجھوتے‘ اس چھوٹی سی رہائش گاہ میں کیے‘ یہ دنیا کے تمام بڑے لیڈروں سے تین کمروں کے اسی گھر میں ملتے ہیں‘ ہمارے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کاش ڈیوڈ کیمرون سے ہاتھ ملانے‘ تصویر کھنچوانے اور پیسٹری‘ کافی لینے کے بجائے یہ سادگی سیکھ سکتے ‘ یہ ان سے یہ سیکھ سکتے تھے ہم ملک کو کس طرح اتنا محفوظ بنا سکتے ہیں کہ پاکستان کا وزیراعظم بھی تین کمروں کے مکان میں رہ سکے‘ ایک گاڑی میں دو گارڈز کے ساتھ سفر کر سکے اور اس کی جان کوکوئی خطرہ نہ ہو‘ یہ ان سے یہ بھی سیکھ سکتے تھے۔
ہم ملک کے لیے کیا کریں کہ ہمارے صدر کو کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد میں دو‘ دو سو ایکڑ کے بم پروف محلات میں نہ چھپنا پڑے‘ یہ ملکہ یا بادشاہ سلامت کے لائف اسٹائل کے بجائے صدر اوبامہ کی طرح عام زندگی گزاریں‘ لائین میں لگ کر کافی اور سینڈوچ خریدیں‘ ہمارے وزیراعظم برطانوی وزیراعظم سے پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک ایسا سسٹم بھی سیکھ سکتے تھے جس کے ذریعے وزیراعظم‘ کابینہ کے وزراء اور ارکان پارلیمنٹ عام لوگوں میں بیٹھ کر سفر کریں اور ان کی جان کو کسی سے کوئی خطرہ نہ ہو‘ ہمارے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سے وہ اعتماد بھی حاصل کر سکتے تھے جس کے ذریعے یہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اکانومی کلاس میں بیٹھ کر اسپین میں چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں‘ تھری اسٹار ہوٹل میں رہتے ہیں‘ سڑک پر بنی کافی شاپس میں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کافی پیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی شان میں کمی واقع نہیں ہوتی‘ یہ ان سے ریلوے کا ایک ایسا نظام بنانے کا طریقہ بھی سیکھ سکتے تھے جس کے ذریعے ہمارے وزیراعظم ریل میں بیٹھ کر اسی طرح گوجرخان‘ گجرات اور گوجرانوالہ جا سکتے جس طرح یہ چند دن قبل لندن سے بریڈ فورڈ گئے تھے اور انھیں اپنی حفاظت کے لیے سیکیورٹی گارڈز اور پروٹوکول کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔
ہمارے وزیراعظم برطانوی وزیراعظم سے وہ سسٹم بھی سیکھ سکتے تھے جس کے ذریعے ایک عام‘ معذور اور لوئر مڈل کلاس والد کا بیٹا صرف اور صرف محنت کے ذریعے دنیا کی چھٹی بڑی معیشت کا وزیراعظم بن سکتا ہے اور اسے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کسی پارٹی سربراہ کے جوتے سیدھے کرنا پڑتے ہیں اور نہ ہی فوج اور عدلیہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت پڑتی ہے‘ ہمارے وزیراعظم برطانوی وزیراعظم سے وہ وژن بھی سیکھ سکتے تھے جس کے ذریعے یہ روزانہ کتابیں پڑھتے ہیں‘ ہر ہفتے فلم دیکھتے ہیں‘ روز صبح ایک گھنٹہ جاگنگ کرتے ہیں‘ اپنی ٹیکس ریٹرن وقت پر جمع کراتے ہیں‘ دنیا کے ہر معاملے میں وقت کی پابندی کرتے ہیں‘ یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے ہیں اور طالب علم ان کے علم اور مطالعے پر حیران رہ جاتے ہیں‘ یہ برطانیہ کے شہریوں کو بہتر سے بہتر معیار زندگی دے رہے ہیں‘ یہ عام استعمال کی چیزوں کی قیمتیں کنٹرول کر رہے ہیں‘ انھوں نے دہشتگردی کا دوسرا بڑا ہدف ہونے کے باوجود برطانیہ کو دہشت گردوں سے کیسے بچا کر رکھا ہے‘ لندن میں7 جولائی 2005ء کو دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا لیکن برطانوی حکومت نے اس کے بعد اس نوعیت کا کوئی دوسرا واقعہ نہیں ہونے دیا‘ برطانیہ میں لوڈ شیڈنگ کیوں نہیں ہوتی‘ سردیوں میں گیس کا پریشر کم کیوں نہیں ہوتا‘ لندن‘ مانچسٹر اور برمنگھم میں پٹرول اور سی این جی کی لمبی لمبی لائنیں کیوں نہیں لگتیں‘ برطانیہ میں پائونڈ کی ویلیو اچانک کم کیوں نہیں ہوتی‘ وہاں این آئی سی ایل جیسے اسکینڈلز کے بعد ملزمان قانون سے کیوں نہیں بچ پاتے‘ وہاں میمو اسکینڈل کیوں نہیں ہوتا‘ وہاں سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ منوانے کے لیے زور کیوں نہیں لگانا پڑتا‘ وہاں کینیڈین شہری اچانک آ کر پورے ملک کا بھٹہ کیوں نہیں بٹھا دیتے‘ وہاں وزیراعظم گرفتاری کے حکم کے بعد وزیراعظم کیوں نہیں رہتا‘ وہاں رینٹل پاور کیس کے فیصلوں کے بعد وزیروں کو وزیراعظم کیوں نہیں بنایا جاتا اور لوگ وہاں وزیراعظم کے سابق ہونے کے باوجود اس کی عزت کیوں کرتے ہیں۔
ہمارے وزیراعظم کو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سے یہ سب کچھ سیکھنا چاہیے تھا لیکن یہ 10 ڈائوننگ اسٹریٹ میں ڈیوڈ کیمرون سے ہاتھ ملا کر‘ تصویر کھنچوا کر‘ پیسٹری کھا کر اور کافی پی کر واپس آ گئے‘ یہ راجہ بن کر لندن گئے تھے اور مہا راجہ بن کر واپس آ گئے‘ یہ ڈیوڈ کیمرون سے وزیراعظموں کی طرح مسکرانے کا آرٹ تک نہ سیکھ سکے‘ یہ اس سے پاکستان کے کسی ایک شہر‘ جی ہاں ایک شہر کو برطانوی شہر بنانے کا فن نہ سیکھ سکے‘ کاش راجہ صاحب ڈیوڈ کیمرون سے وہ سیکھ آتے جو انھیں صرف اور صرف کیمرون ہی سکھا سکتا تھا مگر یہ گئے‘ تصویر کھنچوائی اور واپس آ گئے‘ تاریخ نے ہمارے راجے کو اصلی وزیراعظم بننے کا موقع دیا لیکن یہ مہاراجہ بن کر واپس آ گئے‘ انھوں نے آخری موقع بھی گنوا دیا۔