جاوید چوہدری

پٹ سن کی سڑکیں
جاوید چوہدری پير 11 فروری 2013
کل لاہور میں میٹرو بس سروس کا افتتاح تھا‘ میں نے افتتاح کی پوری تقریب ٹیلی ویژن چینلز پر دیکھی‘ یہ تقریب اس منصوبے کی طرح شاندار تھی‘ تقریب میں ڈھول بھی تھے‘ غبارے بھی‘ ناچتے ‘گاتے اور اچھلتے کودتے لوگ بھی اور بس سروس کو انجوائے کرتے لاہوری بھی۔ یہ شاندار منصوبہ ہے اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں‘ ترقی کا کمیونیکیشن سے گہرا تعلق ہوتا ہے‘ آپ انفرادی اور ملکی سطح پراس وقت تک ترقی یافتہ نہیں ہوتے جب تک آپ کے پاس اچھی اور کھلی سڑک‘ اچھی گاڑی‘ پبلک ٹرانسپورٹ کا جدید نظام‘ موبائل‘ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نہیں ہو تا‘ آپ دنیا کے جدید اور ترقی یافتہ ممالک کا ڈیٹا نکال لیں، آپ کو ان تمام ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ کا شاندار نظام ملے گا‘ آپ کو ان میں بڑی بڑی ہائی ویز‘ انڈر گرائونڈ ٹرینز‘ ریپڈ ٹرانزٹ بس سروس اور سستی اور شاندار ٹیکسی سروس ملے گی۔
آپ اس کے بعد غیر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست بھی سامنے رکھ لیں، آپ ان ممالک میں کمیونیکیشن کی ان تمام سہولتوں کا فقدان دیکھیں گے‘ آپ کو چاڈ‘ مالی‘ صومالیہ‘ افغانستان‘ سوڈان‘ کانگو‘ اورایتھوپیا میں یہ سہولتیں نہیں ملیں گی چنانچہ ہم نے اگر ترقی کرنی ہے تو پھر ہمیں ملک میں بین الاقوامی معیار کی سڑکیں‘ انڈر گرائونڈ ٹرین سروس‘ میٹرو بس سروس اور بلٹ ٹرین سروس چلانی ہو گی‘ لندن تین ہزار سال سے لندن تھا لیکن یہ دنیا کا لیڈر آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے اس وقت بنا جب اس میں انڈر گرائونڈ ریل سروس شروع ہوئی‘ برطانیہ کا ریل سسٹم اس قدر سبک رفتار ‘آرام دہ اور محفوظ ہے کہ ہمارے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف دس فروری کو ٹرین پر لندن سے بریڈ فورڈ تشریف لے گئے اور ان کی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی‘ استنبول کی ریپڈ ٹرانزٹ بس سروس نے یورپ کے مرد بیمار کو دنیا کے جدید ترین شہروں میں شامل کر دیا‘ استنبول میں روزانہ ساڑھے تین سو بسیں چلتی ہیں اور ان بسوں پر ہر سال کروڑ سے زائد سیاح سفر کرتے ہیں‘ ہم میاں شہباز شریف پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن ہمیں اس منصوبے کو برا نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ ترقی کا نقطہ آغاز ہے اور پوری دنیا نے اسی قسم کے سسٹمز سے ترقی کی مگر ان تمام خوبیوں کے باوجود مجھے لاہور بس سروس کی بسوں اور اس کے ٹریک سے دوسرے صوبوں کی محرومی کی بو بھی آتی ہے۔
آپ کو یاد ہو گا 1971ء سے قبل مشرقی پاکستان پسماندگی‘ قحط اور سیلاب کی بدترین مثال ہوتا تھا‘ چٹا گانگ کے لاکھوں لوگ ہر سال سمندری طوفان میں غرق ہو جاتے تھے‘ بے روزگاری‘ بدامنی اور غربت انتہا کو چھو رہی تھی‘ بنگالی روزگار کی تلاش میں کراچی‘ لاہور اور راولپنڈی آتے تھے تو یہاں کی شان و شوکت ان کی آنکھوں کو خیرا کر دیتی تھی‘ اس دور میں اسلام آباد بن رہا تھا‘ غیر ملکی کمپنیاں وفاقی دارالحکومت کی پلاننگ کر رہی تھیں‘ اسلام آباد کی سڑکیں بھی غیر ملکی فرموں نے بنائی تھیں‘ یہ پاکستان کی شاندار ترین سڑکیں تھیں‘ بنگالی جب ان چمکتی دمکتی اور رواں سڑکوں پر قدم رکھتے تھے تو انھیں ان سے پٹ سن کی بو آتی تھی اور یہ واپس جا کر اپنے ہم وطنوں کو بتاتے تھے ہمارے خون سے مغربی پاکستان کی سڑکیں بنائی جا رہی ہیں اور بنگالیوں کی محرومیاں اور پریشانیاں اس بات کو فوراً مان لیتی تھیں‘ محروم شخص کو اپنی پسماندگی کے استروں کی مالہ کے لیے ہمیشہ گردن چاہیے ہوتی ہے‘ یہ ہمیشہ اپنا مجرم تلاش کرتی ہے‘ اس سے اس کی محرومی کم نہیں ہوتی لیکن اسے ریلیف ضرور مل جاتا ہے اور بنگالیوں نے مغربی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کو اپنا نفسیاتی ریلیف بنا لیااور اس ریلیف نے پورے مغربی پاکستان کو پنجابی ڈکلیئر کر دیا‘ بنگالی مغربی پاکستان کے ہر شخص کو پنجابی سمجھ کر اسے اپنا دشمن سمجھنے لگے‘ نفرت کی اس آگ کو بنگالی لیڈروں نے ہوا دی یہاں تک کہ 16 دسمبر 1971ء کا دن آ گیا جب ہمارا مشرقی بازو بنگلہ دیش بن گیا‘ ملک توڑتے وقت کسی بنگالی نے یہ نہیں سوچا اس کی محرومی کی وجہ پنجاب (مغربی پاکستان) کے لوگ یا لیڈر نہیں بلکہ وہ بنگالی لیڈر ہیں جو انھیں سکول‘ اسپتال‘ سڑک اور روزگار نہیں دے سکے۔
بنگالی یہ بھول گئے مشرقی پاکستان کی ڈویلپمنٹ مغربی پاکستان کے لیڈروں کی نہیں بنگالی لیڈروں کی ذمے داری تھی‘ ان کا وزیر اعلیٰ کام نہیں کر رہا تو یہ ان کا فالٹ ہے اور اگر مغربی پاکستان کا وزیر اعلیٰ دن رات کام کر رہا ہے تو یہ مغربی پاکستان کے عوام کی خوش قسمتی ہے‘ بنگالی لیڈر بھی اپنی خفٹ مٹانے اور نالائقی چھپانے کے لیے پٹ سن کی سڑکوں کا واویلا کرتے رہے‘ بنگلہ دیش بنا تو لوگ اپنی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو پٹ سن کی شاہرائوں میں تبدیل ہونے کا انتظار کرنے لگے مگر مجیب الرحمن کے پاس بیچنے کے لیے نفرت کے علاوہ کچھ نہیں تھا‘ وہ آزادی کے بعد بھی پنجاب کو گالی دیتا رہا یہاں تک کہ لوگ تنگ آ گئے اور انھوں نے15 اگست 1975ء کو بنگلہ دیش کو آزادی دینے والے مجیب الرحمن کو اس کی بیوی اور بچوں سمیت گھر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا ‘ کاش مجیب الرحمن نے نفرت کی سیاست کی بجائے گورننس پر توجہ دی ہوتی تو وہ اس انجام کا شکار نہ ہوتا۔
ہمارے ملک کو جس طرح 1960ء کی دہائی کے آخر میں اسلام آباد کی سڑکوں نے تقسیم کر دیا تھا‘ بالکل اسی طرح یہ میٹرو بس سروس بھی ملک کو ’’ ڈیوائیڈ‘‘ کر دے گی کیونکہ آج کے بعد سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کا جو شہری لاہور میں داخل ہو گا اسے اپنے صوبے اور پنجاب میں بڑا فرق دکھائی دے گا اور تونےں صوبوں کے لیڈرز اس فرق کو نفرت میں بدلتے چلے جائیں گے‘ آج سے ڈیڑھ ہفتہ قبل میری وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبا زشریف سے ملاقات ہوئی‘ میاں شہباز شریف نے روندھے ہوئے لہجے میں کہا ’’ کاش یہ منصوبہ لاہور سے پہلے کراچی میں شروع ہوا ہوتا‘‘ میں نے ان سے اتفاق کیا‘ کراچی واقعی لاہور سے قبل میٹرو بس سروس کو ’’ڈیزرو‘‘ کرتا تھا‘ یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے‘ دو کروڑ سے زائد آبادی ٹرانسپورٹ کی کمی کا شکار ہے‘ کراچی شہر کی پرائیویٹ بسیں پرانی‘ چھوٹی اور گندی ہیں‘ ٹیکسیوں اور رکشوں کی حالت بھی بہت پتلی ہے‘ شہر میں ٹرانسپورٹ کی ہڑتالوں کی وجہ سے بھی حالات دگر گوں ہو جاتے ہیں‘ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جو دو کروڑ کی آبادی تک پہنچ کر بھی پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم ہے‘ کوئٹہ اور پشاور کی حالت بھی خراب ہے‘ کوئٹہ شہر اور پشاور میں بھی ریپڈ ٹرانزٹ بس سروس ہونی چاہیے‘ راولپنڈی اسلام آباد میں بھی یہ سروس ضروری ہے لیکن میٹرو بس سروس کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ سے قبل لاہور میں شروع ہو گئی گو اس کے ذمے دار سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے وزراء اعلیٰ ہیں‘ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی حکومت ہے‘ یہ دونوں وفاق میں بھی پارٹنر ہیں ‘ یہ اگر کراچی کی حالت بدلنا چاہتے تو ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی‘ وفاقی حکومت نے بلوچستان کو ساڑھے چار سال میں ساڑھے آٹھ سو ارب روپے دیئے‘ بلوچستان کو اپنی تاریخ میں کبھی اتنا سرمایہ نہیں ملا‘ اگر نواب اسلم رئیسانی اس رقم کا 25 فیصد بھی گرائونڈ میں لگا دیتے تو بلوچستان ملک کا ترقی یافتہ ترین صوبہ ہوتا‘ صوبہ خیبر پختونخواہ کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ این ایف سی ایوارڈ اور پانی اور بجلی کی رائیلٹی کی مد میں کھربوں روپے ملے‘ یہ سرمایہ بھی اگر عوامی بہبود پر خرچ ہوتا تو آج خیبر سے اٹک تک پورے صوبے کی حالت بدل گئی ہوتی لیکن یہ ان صوبوں کی صوبائی قیادت کی نالائقی‘ کرپشن اور مس گورننس ہے جس کی وجہ سے پنجاب دوسرے صوبوں سے آگے نکل گیا مگر عوام ان باریکیوں سے واقف نہیں‘ انھیں صرف پنجاب اور لاہور دکھائی دے رہا ہے چنانچہ مجھے خطرہ ہے سندھ‘ خیبر پختونخواہ اور کوئٹہ کے لوگوں کو آنے والے دنوں میں اس میٹرو بس سروس سے اپنی محرومیوں کی بو آنے لگے گی اور یہ بو صوبائیت کی تقسیم در تقسیم میں الجھے ملک کو مزید تقسیم کر دے گی۔
ہمارے ملک کے حکمرانوں کے دل میں اگر ذرا سا بھی خوف خدا ہے یا یہ اس ملک سے رتی بھر محبت کرتے ہیں تو انھیں کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ میں بھی ایسے منصوبے شروع کر دینے چاہئیں‘یہ اگر الیکشن کی وجہ سے ممکن نہیں تو انھیں کم از کم ان منصوبوں کو اپنے منشور کا حصہ ضرور بنا لینا چاہیے اور اس کا آغاز پاکستان مسلم لگ ن کو کرنا چاہیے‘ اسے فوری طور پر تینوں صوبوں میں میٹرو بس کی اسٹڈی شروع کروا دینی چاہیے اور یہ اعلان کرنا چاہیے اگر ان کی حکومت آ گئی تو یہ ایک سال میں تینوں صوبائی دارالحکومتوں میں یہ بس سروس شروع کریں گے‘ اگر مسلم لیگ ن یہ اعلان نہیں کرتی یا اگلے ایک دو برسوں میں تینوں صوبوں میں یہ منصوبہ شروع نہیں ہوتا تو یہ میٹرو بس سروس آنے والے دنوں میں صوبائیت بڑھا دے گی اور یہ پولرائزیشن پٹ سن کی نئی سڑکوں کی بنیاد ثابت ہوگی۔
رائے
جاوید چوہدری ہفتہ 9 فروری 2013
مجھے بے وقوفی کا پہلا احساس 1990ء میں ہوا‘ 1993ء میں یہ احساس شدت اختیار کر گیا مگر دوسرے احساس کی نوعیت پہلے سے یکسر مختلف تھی‘ میں 1990ء میں بہاولپور میں پڑھتا تھا‘ میرا ایک دوست راولپنڈی میں رہتا تھا‘ یہ دوست مجھ سے عمر میں سینئر بھی تھا‘ شادی شدہ بھی اور بال بچوں والا بھی‘ میں سردیوں کے دنوں میں اس سے ملاقات کے لیے راولپنڈی آ گیا‘ ہمارا پروگرام تھا ہم دونوں چند دن راولپنڈی رہیں گے‘ اس کے بعد برف باری دیکھنے کے لیے مری چلے جائیں گے اور میں ایک ہفتہ گزار کر واپس بہاولپور آ جائوں گا‘ میں دس گھنٹے کے طویل سفر کے بعد شام کے وقت راولپنڈی پہنچا‘ شہر شدید سردی کی لپیٹ میں تھا‘ میں رکشہ لے کر دوست کے گھر پہنچ گیا‘ اس نے دروازے پر میرا استقبال کیا‘ میں گرم جوشی سے اس سے لپٹ گیا‘ وہ بھی مجھے گلے ملا لیکن میں نے محسوس کیا اس کے معانقے میں گرم جوشی نہیں‘ وہ مجھے اپنی بیٹھک میں لے گیا‘ اس نے چائے کا بندوبست کیا اور میرے سامنے بیٹھ گیا‘ میں اس سے بلا تکان گفتگو کرتا رہا مگر وہ گفتگو میں میرا ساتھ نہیں دے رہا تھا‘ وہ بات چیت کے دوران کھو جاتا تھا‘ میں اس کی غیر حاضر دماغی پر خاموش ہو جاتا تو اسے بڑی دیر تک میری چاپ کا اندازہ نہیں ہوتا تھا‘ اس نے میرے سفر کے بارے میں بھی نہیں پوچھا‘ میرے لیے اس کا یہ ٹھنڈا رویہ پریشان کن تھا‘
میری پریشانی اس وقت مزید بڑھ گئی جب اس نے مجھ سے پوچھا ’’ آپ خیریت سے راولپنڈی آئے ہیں‘‘ میرے لیے اس کا سوال بم ثابت ہوا کیونکہ میں اس کی دعوت پر راولپنڈی آیا تھا‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا‘ اس نے دوسرا سوال پوچھا ’’ آپ کتنے دن راولپنڈی میں ہیں اور کہاں رہیں گے‘‘ میری پریشانی انتہا کو چھونے لگی کیونکہ میں اس کے گھر ٹھہرنے کے لیے آیا تھا‘ میرا سامان تک اس کے ڈرائنگ روم میں پڑا تھا‘ میں پریشانی کے عالم میں اسے دیکھتا رہا اور وہ کھوئے ہوئے انداز میں مجھے گھورتا رہا‘ مجھ سے کوئی بات نہ بن پائی تو میں نے جواب دیا ’’ میں ویسے ہی ایک دن کے لیے راولپنڈی آیا ہوں‘ کل واپس چلا جائوں گا اور ہوٹل میں رہوں گا‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور نہایت روکھے انداز میں کہا ’’ آپ اگر مزید ایک دن رک جائیں تو ہم کھانا اکٹھا کھائیں گے‘‘ میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا‘ چائے کا کپ میز پر رکھا‘ اپنا بیگ اٹھایا اور بیٹھک سے باہر نکل گیا‘ وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر مجھے جاتے ہوئے دیکھتا رہا‘ اس نے مجھے خدا حافظ تک کہنا مناسب نہ سمجھا‘ میں شدید غصے میں تھا‘ میں وہاں سے مری روڈ پر آیا‘ وہاں سستاسا ہوٹل لیا‘ نیند کی گولی کھائی اور گہری نیند سو گیا۔
میں اگلے دن بہاولپور واپس آ گیا مگر مجھے دوست کے رویے نے اندر سے بری طرح توڑ دیا‘ میں اس شخص کو دنیا کا بدتمیز ترین‘ غیر مہذب ترین اور مطلبی سمجھنے لگا‘ میں اپنے آپ کو بے وقوف بھی سمجھتا تھا اور اس بے وقوفی پر اپنے اوپر لعن طعن بھی کرتا تھا‘ میں دو ڈھائی سال تک اپنے ملنے والوں کو یہ واقعہ سناتا رہا اور لوگ مجھ سے ہمدردی اور اس شخص سے نفرت کرتے رہے‘ آپ بھی اگر اس صورتحال کا تجزیہ کریں تو آپ کو بھی مجھ سے ہمدردی اور اس شخص سے نفرت ہو جائے گی۔ میں نے اس واقعے کے بعد فیصلہ کیا میں کسی دوست‘ عزیز رشتے دار اور جاننے والے کے ساتھ سیر تفریح کا کوئی پروگرام نہیں بنائوں گا‘ میں اپنے پروگرام کا اکیلا ممبر ہوں گا اور اسے اکیلا ہی انجوائے کروں گا‘ دوسرا میں کبھی کسی رشتے دار یا دوست کے گھر نہیں رہوں گا‘ میں ہوٹل میں کمرہ لوں گا اور اس کے بعد ملاقات کے لیے دوست یا رشتے دار کے گھر جائوں گا‘ میں اپنا یہ معمول 23 سال سے نبھا رہا ہوں اور زندگی خوشی اور مسرت سے گزار رہا ہوں لیکن یہ خوشی اور مسرت اس کالم کا موضوع نہیں‘ اس کالم کا موضوع میرا وہ دوست ہے جس نے مجھے راولپنڈی بلا کر شدید سردی میں بے یارومدد گار چھوڑ دیا تھا‘ میں طویل عرصے تک اپنے دل میں اس دوست کے خلاف نفرت پال کر پھرتا رہا لیکن پھر اس نفرت کا عجیب ڈراپ سین ہوا‘ میں یونیورسٹی سے فارغ ہو کر صحافت میں آگیا اور ایک دن وہ دوست ہمارے ایک مشترکہ دوست کے ساتھ میرے دفتر آ گیا‘ میں اسے دیکھتے ہی غصے سے ابل پڑا مگر وہ میرے گلے لگا اور نرم آواز میں بولا ’’آپ اپنے غصے کو چند منٹ کے لیے سائیڈ پر رکھ دو اور میری بات سن لو‘ اگر تم اس کے باوجود مجھے غلط سمجھو تو پھر تم اپنی نفرت کا سلسلہ جاری رکھ لینا‘ میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا‘ وہ بولا ’’ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں‘ میری چھ بہنیں تھیں‘ والدین نے میری شادی 20 سال کی عمر میں کر دی‘
میرے والدین پوتا چاہتے تھے لیکن شاید اللہ کو منظور نہیں تھا‘ میرے ہاں اوپر تلے تین بیٹیاں پیدا ہو گئیں مگر میں مایوس نہ ہوا‘ میں اپنے والدین کی خواہش پوری کرنا چاہتا تھا‘ میں 25 سال کی عمر میں چوتھی بار باپ بن گیا ‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد نرینہ سے نوازا‘ میرا پورا خاندان خوش ہو گیا‘ میرا بیٹا خاندان بھر کی گود میں پل کر دو سال کا ہوا لیکن پھر اسے تیز بخار ہوا اور وہ میری گود میں بیٹھا بیٹھا فوت ہو گیا‘ میرے پورے خاندان کی جان نکل گئی‘‘ وہ خاموش ہوا اور میری طرف دیکھنے لگا‘ میرا غصہ ہمدردی میں بدلنے لگا‘ اس نے پوچھا ’’ جاوید صاحب آپ جانتے ہیں وہ بچہ کس دن فوت ہوا تھا‘‘ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا ۔ وہ بولا’’ وہ بچہ عین اس وقت فوت ہوا جب آپ رکشے سے اپنا سامان اتاررہے تھے‘‘ میری کنپٹی میں آگ لگ گئی‘ اس نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا ’’ میرے پاس اس وقت دو آپشن تھے‘ میں آپ کو اپنے دکھ میں شریک کرلیتا‘ آپ بھی ہمارے ساتھ سوگوار ہوجاتے اور آپ کی چھٹیاں خراب ہوجاتیں‘ دوسرا‘ میں آپ سے یہ خبر چھپا لیتا‘ آپ کو ہوٹل جانے پر مجبور کردیتا‘ آپ مجھ سے وقتی طور پر ناراض ہو جاتے لیکن آپ کی چھٹیاں اور وقت برباد نہ ہوتا‘ میں دوسرے آپشن پر چلا گیا‘ میں نے اپنے خاندان سے کہا میرا مہمان آیا ہے آپ کے رونے کی آواز بیٹھک تک نہیں جانی چاہیے‘ میں اسے واپس بھجواتا ہوں اور ہم اس کے بعد اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو اطلاع دیں گے‘‘وہ رکا‘ اس نے لمبی سانس لی اور بولا’’ میں نے آپ کے لیے ان حالات میں چائے کیسے تیارکروائی آپ اندازہ نہیں کرسکتے‘ میری بیوی‘ میری ماں اور میری بہنیں اندر منہ پر سرہانے رکھ کر رورہی تھیں اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا‘ میں بار بار اندر جاکر انھیں چپ کرانے کی کوشش بھی کررہا تھا‘ میں اس وقت گہرے صدمے میں تھا چنانچہ مجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں‘ آپ جب ناراض ہوئے اور آپ نے اپنا سامان اٹھایا تو میری ٹانگیں بے جان ہو گئیں‘ میںآپ کے ساتھ اُٹھ کرباہر تک نہ جاسکا‘ میں کرسی پر بیٹھا رہا‘ آپ جوں ہی گلی سے باہر نکلے‘ میرے اندر سے چیخ نکلی اور اس کے بعد میرے پورے خاندان نے ماتم شروع کردیا‘ یہ گہرا صدمہ تھا‘ اس صدمے نے پہلے میری ماں کی جان لی اور اس کے چند ماہ بعد میرے والد بھی فوت ہوگئے‘ پھر میری بیوی بیمار ہوگئی اور میں پے درپے صدموں کا شکار ہوتا چلا گیا‘ میں اب ذرا سا سنبھلا ہوں تو میں اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کے لیے آپ کے پاس آگیا‘‘۔ وہ خاموش ہوا تو میری آنکھیں برسنے لگیں‘ میں اس کے صبر‘ اس کی ہمت پر حیران تھا‘ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی نعش اندر چھوڑ کرمیری خدمت کرتا رہا اور میں ڈھائی سال تک اسے مطلبی‘ جاہل‘ ظالم اور بدتمیز سمجھتا رہا‘ میں اس سے نفرت کرتا رہا اور مجھے اس وقت دوسری بار اپنے بے وقوف ہونے کا احساس ہوا۔
ہم دوسروں کے بارے میں اتنی دیر میں رائے قائم کرلیتے ہیں جتنی دیر میں مرغی کا انڈا بوائل نہیں ہوتا‘ دنیا کے ہر انسان کے چوبیس پہلو ہوتے ہیں اور یہ پہلو ہر دس پندرہ بیس منٹ بعد تبدیل ہوجاتے ہیں مگر ہم جس پہلو کو دیکھتے ہیں ہم اسے حتمی سمجھ کر رائے قائم کرلےتں ہیں اور اس عارضی رائے کی بنیاد پر اس پوری شخصیت کو رد کردیتے ہیں یا پھر اسے اپنا محبوب بنالیتے ہیں‘ ہم کسی شخص کو کسی کمزور لمحے میں کسی سے لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہم اسے لڑاکا یا جھگڑالو سمجھ لیتے ہیں‘ کسی کو بھاؤ تائو کرتے دیکھتے ہیں تو اسے کنجوس، بخیل یا جھوٹا سمجھ لیتے ہیں ‘ کسی کو کسی خاتون کی تعریف کرتے دیکھتے ہیں تو اسے ٹھرکی سمجھ لیتے ہیں اور اگر کوئی اہم شخص کسی وقت ہمارے سلام کا جواب نہ دے یا پھر ہم سے جھک کر نہ ملے یا پھر ہمارا فون بند کردے تو ہم اسے منافق کا ٹائٹل دے دیتے ہیں‘ہم اسے مغرور یا انا پرست سمجھ لیتے ہیں یا ہم کسی کو کسی حادثے کے وقت فرار ہوتے دیکھ لیں تو ہم اسے بزدل یا کمزور لوگوں کی فہرست میں ڈال دیتے ہیں اوریہ بھول جاتے ہیں فقط یہ ایک لمحہ ہے ‘ یہ پوری شخیتد یا پوری زندگی نہیں‘ اللہ تعالیٰ انسان کوموت کے دھانے تک توبہ کرنے‘ خود کو ٹھیک کرنے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کا موقع دیتا ہے لیکن ہم دوسروں کی زندگی کا ایک لمحہ، ایک پہلو دیکھ کر نہ صرف رائے قائم کر لیتے ہیں بلکہ اس رائے کو حتمی بھی سمجھ بیٹھتے ہیں اور یہ فراموش کر بیٹھتے ہیں اس ایک لمحے کے پیچھے خداجانے کتنی خوفناک کہانیاں چھپی ہوں‘ یہ شخص ہو سکتا ہے ابھی اپنے کسی چاہنے والے کو دفنا کر آیا ہو اور اپنے حواس میں نہ ہو‘ میں آج بھی جب کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے لگتا ہوں تومجھے میرا وہ دوست یاد آجاتا ہے اور میں اپنی رائے کی چاردیواری کھلی چھوڑ دیتا ہوں‘ میں اس پر دروازہ اور تالہ نہیں لگاتا کیونکہ ہو سکتا ہے میری رائے کی دیوار کے پیچھے کوئی اور کہانی چھپی ہو اور یہ کہانی مجھے مزید بے وقوف ثابت کر دے۔

میں شہباز شریف کی تعریف کرنا چاہتا ہوں
جاوید چوہدری جمعرات 7 فروری 2013
آپ کو یاد ہو گا جولائی 2012ء میں برماسے 30 ہزار مسلمانوں کے قتل کی خبریں آنا شروع ہوئیں‘ مسلمانوں کی نعشوں کی تصویریں انٹرنیٹ تک پہنچیں اور تیزی سے پھیلتی چلی گئیں‘ پاکستان میں یہ تصویریں ایک ہفتے میں کروڑوں کی تعداد میں دیکھی گئیں‘ یہ تصویریں اور خبریں جوں جوں پھیلتی رہیں لوگوں کی طرف سے میڈیا پر الزامات کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا گیا‘ لاکھوں لوگ سوشل میڈیا پر پاکستانی میڈیا کو اس بے حسی‘ خاموشی اور لاتعلقی پر گالیاں دینے لگے‘ مجھے روز فیس بک‘ ای میل اکائونٹ اور موبائل پر لاکھوں پیغام ملتے اور ہر پیغام میں مجھے بے غیرتی اور بے شرمی کا طعنہ دیا جاتا‘ لوگوں کا اصرار تھا مجھے فوری طور پر اس ظلم کے خلاف قلم اور کیمرہ اٹھانا چاہیے‘ میں ان سے عرض کرتا تھا ان تصویروں اور ان خبروں کی ابھی تصدیق نہیں ہو سکی‘ ہم اپنے ذرایع سے تصدیق کی کوشش کررہے ہیں۔
لیکن ہمیں ثبوت نہیں مل رہے چنانچہ میں صرف سنی سنائی بات یا سوشل میڈیا پر گردش کرتی چند تصویروں کی بنیاد پر کیسے لکھ دوں‘ کیسے پروگرام کر دوں‘ میں ان سے یہ بھی عرض کرتا تھا دنیا میں 58 اسلامی ملک ہیں‘ مسلمان ملکوں کی عالمی تنظیمیں بھی ہیں‘ یہ ملک اور یہ تنظیمیں اس ظلم پر کیوں خاموش ہیں‘ اگر برما کے مسلمانوں پر واقعی ظلم ہوا اور اس کی تصدیق ہو چکی ہے تو پھر او آئی سی یا سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ ترکی یا پھر ملائشیا کیوں نہیں بول رہا؟ کیا برما کے مسلمان صرف ہمارے بھائی ہیں؟ کیا ہمارے علاوہ 57 مسلمان ملکوں کا کوئی فرض نہیں ؟ اور کیا پاکستانی میڈیا حکومت ہے‘ یہ ایوان صدر‘ وزیراعظم ہائوس یا وزارت خارجہ ہے؟ ہم سے پہلے حکومت کو بولنا چاہیے‘ میں ان سے یہ بھی عرض کرتا تھا ہمارے ملک میں چالیس ہزار پاکستانی مسلمان دہشت گردی کا شکار ہو گئے‘ ہمارے ساڑھے تین ہزار جوان اور افسر شہید ہو گئے‘ ہمارے کراچی شہر میں اوسطاً 15 لوگ روزانہ مارے جاتے ہیں اور اس بدنصیب شہر میں پچھلے چار برسوں میں سات ہزار پاکستانی مسلمان پاکستانی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
لیکن ہم میں سے کسی نے ان پاکستانی مسلمان بھائیوںکے لیے سوشل میڈیا پر کمپین نہیں کی‘ کسی نے آج تک ان چالیس ہزار ہلاکتوں پر میڈیا کو غیرت نہیں دلائی لیکن ہم انٹرنیٹ کی چند غیر مصدقہ تصویروں پر سیخ پا ہیں اور وہ لوگ میڈیا کو بے حسی کا طعنہ دے رہے ہیں‘ جنھیں یہ تک معلوم نہیں دنیا کے نقشے پر برما کہاں واقع ہے اور اس کا دوسرا نام کیا ہے؟ ہماری پہلی ذمے داری ہمارے لوگ ہیں مگر ہم صحن میں نعشیں چھوڑ کر غیر مصدقہ اور پرائی موت کا سیاپا کر رہے ہیں۔
میرے پاکستانی مسلمان بھائیوں نے میری رائے مسترد کر دی اور یہ مجھے مسلسل برما کے مسلمانوں کے لیے کھڑے ہونے کی ترغیب دیتے رہے‘ میری صحافتی تربیت کام آئی اور میں حقائق کی تصدیق کا انتظار کرتا رہا اور یوں غلط حقائق پھیلانے سے بچ گیا مگر میرے چند دوست گالیوں کے سیلاب میں بہہ گئے‘ یہ سوشل میڈیا کے پریشر میں آئے‘ انھوں نے پروگرام بھی کیے‘ کالم بھی لکھے اور سوشل میڈیا کے ذریعے برما کے ظالموں پر تبریٰ بھی کیا لیکن آج وہ ایشو کہاں ہے؟ وہ تصویریں اور برما کے مسلمانوں پر ہونے والا ظلم کہاں چلا گیا؟ یہ میڈیا پر سوشل میڈیا اور عوام کے دبائو کی ایک مثال ہے‘ یہ مثال ثابت کرتی ہے دنیا ہمیں آزاد بلکہ شتر بے مہار سمجھتی ہے لیکن ہم سوشل میڈیا‘ ایس ایم ایس اور عوام کے ہاتھوں میں غلام ہیں‘ عوام روزانہ سوشل میڈیا اور ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ہم پر پریشر ڈالتے ہیں اور ہم لوگ اکثر اوقات اس دبائو میں آ بھی جاتے ہیں۔
میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محسوس کر رہا ہوں میڈیا بری طرح عوامی خواہشات کا غلام بن گیا ہے‘ لوگ ہم سے جو سننا چاہتے ہیں ہم وہ بولنے یا لکھنے پر مجبور ہیں اور ہم اگر کبھی عوامی رائے کے برعکس ذاتی معلومات اور ضمیر کے مطابق لکھ دیں تو لوگ ہمارے ساتھ شہر میں پھنسے آوارہ گدھے جیسا سلوک کرتے ہیں‘ آپ عوامی دبائو کا اندازہ لگائیے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے ظلم کی بات نہیں کر سکتے‘ ہم اولیاء کرام کا ذکر نہیں کر سکتے کیونکہ لوگ ہمیں مردہ پرست قرار دے کر گالیاں دیتے ہیں‘ ہم عاصمہ جہانگیر اور ملک ریاض کی بات نہیں کر سکتے کیونکہ لوگ ہمیں بے ایمان اور غدار سمجھنے لگتے ہیں‘ ہم پرویز مشرف کے اس انٹرویو کی تعریف نہیں کر سکتے جس میں اس نے پورے انڈین میڈیا کو خاموش کرا دیا اور تن تنہا پوری پاکستانی قوم اور فوج کا دفاع کیا‘ ہم ایم کیو ایم کے ڈسپلن اور کراچی میں مصطفی کمال کے ترقیاتی منصوبوں کی تعریف نہیں کر سکتے‘ ہم مولانا فضل الرحمن کی سیاسی استقامت کی داد نہیں دے سکتے‘ ہم چوہدری صاحبان کی عاجزی‘ محبت اور رواداری کی تعریف نہیں کر سکتے۔
ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جمہوریت کے استحکام میں جنرل کیانی اور فوج کے کردار کی تعریف نہیں کر سکتے‘ ہم 125 ارکان کے ساتھ پانچ سال پورے کرنے پر صدر آصف علی زرداری کو مبارک باد پیش نہیں کر سکتے اور ہم علامہ طاہر القادری کے دھرنے کی تعریف اور عمران خان کی سیاسی حماقتوں کی مذمت بھی نہیں کر سکتے کیونکہ لوگ مائنڈ کر جاتے ہیں او یہ سوشل میڈیا کو میدان جنگ بنا دیتے ہیں‘ میں روزانہ یہ صورت حال دیکھتا ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے دنیا جس میڈیا کو آزاد سمجھتی ہے یہ عوامی رائے اور اس رائے کے پھیلتے ہوئے خوف کا غلام بن چکا ہے اور ہم بھی اب ماضی کی عدالتوں کی طرح کھڑکی سے باہر جھانک کر رائے دیتے ہیں اور یہ رویہ ملک کو مزید بربادی کی طرف لے جا رہا ہے۔
آپ میری احتیاط پسندی اور خوف کا اندازہ لگائیے، میں پچھلے ایک سال سے لاہور کے میٹرو بس منصوبے پر میاں شہباز شریف کو مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں ہمت پیدا نہیں ہو رہی‘ یہ حقیقت ہے پچھلے پانچ برسوں میں میاں شہباز شریف واحد وزیراعلیٰ تھا جس نے کام کیا اور پنجاب ملک کا واحد صوبہ تھا جس میں ترقیاتی کام ہوتے ہوئے نظر آئے‘ یہ درست ہے پنجاب جنت کا ٹکڑا نہیںمگر یہ بھی حقیقت ہے میاں شہباز شریف نے پنجاب کی حالت بدل دی‘ انھوں نے پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں تعلیم‘ صحت اور سڑکوں پر بے تحاشہ کام کیا‘ ہم لیپ ٹاپ اسکیم پر جتنی چاہیں تنقید کر لیں مگر ہمیں ماننا پڑے گا اس اسکیم سے ان طالب علموں کو لیپ ٹاپ ملے جو شاید زندگی بھر یہ سہولت حاصل نہ کر پاتے‘ اب طالب علموں کو سولر لپسے بھی مل رہے ہیں‘ دانش اسکولوں کی شکل میں غریب بچوں کو کوالٹی ایجوکیشن بھی ملی اور اگر ان سہولتوں سے پنجاب کے صرف دس فیصد طالب علم فائدہ اٹھا لیں تو یہ انقلاب ہو گا۔
یہ درست ہے پنجاب کے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال آئیڈیل نہیں لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے پنجاب کے کسی شہر میں روزانہ دس پندرہ لوگوں کو سرے عام گولی نہیں ماری جاتی اور ریاستی ادارے اس قتل و غارت گری پر کان لپیٹ کر نہیں بیٹھے رہتے‘ آج آپ بلوچستان‘ خیبر پختونخواہ اور سندھ میں نہیں جا سکتے لیکن آپ خواہ پٹھان ہوں‘ بلوچی ہوں یا سندھی آپ پنجاب کے کسی بھی شہر میں جا سکتے ہیں‘ آپ وہاں آزادانہ گھوم سکتے ہیں اور کوئی آپ کا راستہ نہیں روکے گا اور ان حالات میں جب سید قائم علی شاہ پانچ برسوں میں وزیراعلیٰ ہائوس کی سڑک نہیں بنوا سکے‘ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سڑک پر پڑی اسی لاشیں نہیں اٹھا سکے اور وفاقی حکومت پانچ سال میں اسلام آباد میں داخلے کی دو سڑکیں مکمل نہیں کروا سکی‘ ان میں وزیراعلیٰ پنجاب نے گیارہ ماہ میں لاہور میں میٹروبس چلا دی‘ یہ منصوبہ استنبول میں اڑھائی سال مںہ مکمل ہوا لیکن میاں شہباز شریف نے یہ گیارہ ماہ میں مکمل کیا اور اس میں نو کلو مرٹل کا پاکستان کا سب سے بڑا پل بھی شامل ہے‘ یہ واقعی کمال ہے اور اس کمال کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہو گی‘ یہ بس سروس پاکستان میں ویسا ہی سماجی انقلاب ہے جیسا 1997ء میں موٹروے کی تکمیل کے بعد آیا تھا۔
کاش محترمہ بے نظیر بھٹو موٹروے کا منصوبہ جاری رکھتیں تو آج پورا ملک موٹروے سے جڑا ہوتا اور ہم نہ صرف دس گھنٹوں میں اسلام آباد سے کراچی پہنچ جاتے بلکہ صوبوں کے درمیان دوریاں بھی پیدا نہ ہوتیں‘ میٹرو بس سے عام لوگوں کا سفر آسان ہو جائے گا اور یہ نیکی بھی ہے اور سیاسی خدمت بھی۔ میں اس پر میاںشہبازشریف کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن ڈرتا ہوں میں نے اگر اس مثبت کام کی تعریف کر دی تو پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اسکواڈ میرے اوپر حملہ کر دے گا‘ یہ مجھے میاں شہباز شریف کا چمچہ قرار دے دے گا اور یوں میرے پاس ان لوگوں کی خواہشوں کے انڈوں سے ہاتھی کے بچے نکالنے کے سوا کوئی چوائس نہیں ہو گی‘ میں عوامی رائے اور سوشل میڈیا کا ایک ایسا مغوی صحافی ہوں جو لوگوں کو خوش کرنے کے لیے سیاپے کی نین بن چکا ہے اور اس کا بس ایک ہی کام ہے‘ دوسروں کی ذات کے کیڑے تلاش کرنا‘ ان کا پلائو پکانا اور قوم کے سامنے رکھ دینااور قوم کی تالیوں کا انتظار کرنا۔

دو لوگ
جاوید چوہدری منگل 5 فروری 2013
آپ دو منظر ملاحظہ کیجیے‘ وزیراعظم(سابق) یوسف رضا گیلانی 19 جنوری 2012ء کو پہلی بار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے‘ وزیراعظم کی آمد سے قبل آئی بی‘ اسپیشل برانچ‘ ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کے اہلکار سپریم کورٹ پہنچے‘ انھوں نے گیٹ سے لے کر پارکنگ اور استقبالیہ سے لے کر کورٹ روم تک پوری عمارت کی تلاشی لی‘ عمارت کلیئرکی اور اس کے بعد وزیراعظم کو سپریم کورٹ جانے کا سگنل دیا‘ وزیراعظم کی آمد سے قبل شاہراہ دستور بند کر دی گئی‘ ٹریفک ریڈیو پاکستان‘ پارلیمنٹ ہائوس‘ بری امام اور کنونشن سینٹر چاروں مقامات پر روک دی گئی‘ سپریم کورٹ کی سیکیورٹی وزیراعظم ہائوس اور آئی بی کے اسپیشل ونگ نے اپنے ہاتھ میں لے لی‘ سپریم کورٹ میں صرف خصوصی کارڈ ہولڈرز کو داخلے کی اجازت مل رہی تھی‘ سینئر وکلاء کو بھی عدالت سے دور روک لیا گیا۔
وزیراعظم سپریم کورٹ آئے تو ان کی آمد سے قبل دو گورنر‘ تین وزراء اعلیٰ ‘ 15 وفاقی وزراء‘40 ارکان پارلیمنٹ‘ اتحادی جماعتوں کے سربراہان جن میں چوہدری شجاعت حسین اور اسفند یار ولی بھی شامل تھے کورٹ روم پہنچ گئے‘ ملک بھر سے چیدہ چیدہ جیالے بھی سپریم کورٹ آ گئے‘ یہ لوگ عمارت کے سامنے کھڑے ہو گئے‘ وزیراعظم کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے اور وزیراعظم کے صاحبزادے‘ دوست احباب اور اسٹاف بھی سڑک پر کھڑے تھے‘ وزیراعظم سپریم کورٹ پہنچے تو لوگوں نے ان کی گاڑی کو نرغے میں لے لیا‘ ہر شخص ان سے ہاتھ ملانے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا‘ سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے کیمرے لگے تھے اور تمام ٹیلی ویژن چینلز وزیراعظم کی آمد براہ راست دکھا رہے تھے۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جیالوں کے نعروں ’’گیلانی تیرے جاں نثار ہزار‘‘ اور پھولوں کی برستی پتیوں میں ہاتھ ہلاتے ہوئے سپریم کورٹ کے اندر چلے گئے‘ یہ واپس باہر آئے تو لوگوں نے اسی جوش و خروش سے ان کا استقبال کیا‘ کابینہ کے ہر وزیر کی کوشش تھی وہ بڑھ چڑھ کر ٹی وی پر وزیراعظم گیلانی کے حق میں کلمہ گوئی کرے‘ وزیر مائیک چھین رہے تھے اور کیمروں کے طرف دیکھ کر وی کا نشان بنا رہے تھے‘ یوسف رضا گیلانی دوسری بار 13 فروری 2012ء کو سپریم کورٹ تشریف لائے تو اس دن بھی یہی منظر تھا‘ لوگ اسی طرح ان کے حق میں نعرے لگا رہے تھے‘ وفاقی کابینہ‘ قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور تین اسمبلیوں نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا اور یہ ملک میں جمہوریت اور استحکام کا سمبل بن گئے۔
آپ اب دوسرا منظر ملاحظہ کیجیے‘ یہ یوسف رضا گیلانی دو فروری 2013ء کو نظر ثانی پٹیشن دائر کرنے کے لیے تیسری بار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے مگر اس بار یہ اپنی گاڑی خود چلا رہے تھے اور ان کے ساتھ صرف دو لوگ تھے‘ ایم این اے نسیم چوہدری اور وفاقی نظامت تعلیمات کے سابق ڈائریکٹر جنرل عاطف کیانی۔ یوسف رضا گیلانی کے لیے کوئی ہوٹر بجا‘ کسی نے انھیں ایسکارٹ کیا‘ کسی نے انھیں سیکیورٹی دی‘ کسی نے ان کے لیے دروازہ کھولا‘ کسی نے ان کے حق میں نعرہ لگایا‘ کسی نے ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے‘ کسی نے ٹریفک روکی‘ کسی چینل نے انھیں لائیو کوریج دی اور نہ ہی کسی نے عام لوگوں کو ان سے دور ہٹانے کی کوشش کی‘ یہ عام سائلوں کی طرح سپریم کورٹ پہنچے‘ پٹیشن دائر کی اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ سپریم کورٹ سے باہر آ گئے۔
اس دوران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ کو اطلاع ہو گئی‘ یہ بھاگتے ہوئے سپریم کورٹ پہنچے اور گیلانی صاحب سے مخاطب ہوئے ’’ گیلانی صاحب آپ نے بتایا ہی نہیں آپ سپریم کورٹ آ رہے ہیں‘‘ یوسف رضا گیلانی اس کمنٹ پر خاموش رہے لیکن دل ہی دل میں انھوں نے ضرور کہا ہو گا ’’ میں نے تو پچھلی بار بھی کسی کو اطلاع نہیں دی تھی لیکن لوگ بغیر اطلاع یہاں پہنچ گئے تھے‘‘ یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ سے واپس آ گئے لیکن سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر عبرت کی ایک نہ مٹنے والی تحریر چھوڑ آئے‘ یہ تحریر پوچھتی ہے کیا یوسف رضا گیلانی وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹنے کے بعد یوسف رضا گیلانی نہیں رہے؟ اگر یہ یوسف رضا گیلانی اصلی یوسف رضا گیلانی ہیں تو پھر وہ یوسف رضا گیلانی کون تھے جن کے ساتھ اقتدار کا پورا میلا چلتا تھا‘ جن کے لیے ٹریفک بھی بلاک ہوتی تھی‘ جن کے لیے نعرے بھی لگتے تھے اور لوگ جن کے لیے پھولوں کے ہار لے کر بھی دوڑتے تھے‘ اگر یہ دونوں یوسف رضا گیلانی ایک ہی ہیں تو پھر اتنا فرق کیوں؟ سات ماہ اوربیس دن بعد اتنی تبدیلی کیوں؟
اگر یہ فرق‘ یہ تبدیلی اس اقتدار کا حصہ ہے تو پھر ہمارے حکمرانوں کی گردنیں اتنی جلدی کیوں تن جاتی ہیں؟ یہ اقتدار پانے کے بعد خود کو لوہے کا کیوں محسوس کرنے لگتے ہیں؟ یہ خود کو زوال کی ہوائوں سے محفوظ کیوں سمجھنے لگتے ہیں؟ یہ اقتدار کی برف کو دائمی کیوں جان لیتے ہیں اور یہ کیوں سمجھتے ہیں لوگ اقتدار کا سورج رخصت ہونے کے بعد بھی انھیں یاد رکھیں گے؟ یہ کیوں نہیں جان لیتے چڑھتے سورجوں کی زمین پر روشنی غروب ہوتی ہے تو سائے بھی غائب ہو جاتے ہیں‘ اس زمین پر اقتدار خواہ فرعون ہی کا کیوں نہ ہو وقت اسے چاٹ جاتا ہے اور اس کی خدائی کے قصے صرف عبرت بن کر باقی رہتے ہیں۔
اللہ کی اس زمین پر صرف احسان زندہ رہتے ہیں‘ آپ نے اگر اپنی طاقت‘ دولت‘ اختیار اور اقتدار کو احسان میں بدل لیا‘ آپ نے اگر اسے عام‘ محروم اور دکھی انسانوں کی فلاح کا ذریعہ بنا لیا تو آپ کا نام دائمی ہو گیا اور لوگ آپ کے مرنے کے بعد بھی آپ کو یاد رکھیں گے ورنہ آپ سورج کے ساتھ ہی ڈوب جائیں گے‘ اشوک اعظم کو دنیا سے رخصت ہوئے دو ہزار دو سو اکتالیس سال ہو گئے‘ سکندر اعظم کو گئے دو ہزار تین سو چھتیس سال ہو گئے‘ آپ دور نہ جائیے آپ شیر شاہ سوری کو دیکھ لیجیے‘ یہ 22مئی 1545ء میں انتقال کر گیا لیکن آج بھی برصغیر کا جو شخص جی ٹی روڈ پر قدم رکھتا ہے وہ شیر شاہ سوری کے نام کو ہونٹوں سے دور نہیں رکھ سکتا‘ ایوب خان کو رخصت ہوئے 39 سال ہو گئے لیکن یہ آج بھی ڈیم‘ بجلی‘ سڑک‘ کارخانے‘ ٹیلی ویژن اور گیس کی شکل میں زندہ ہے‘ لوگ آج بھی ایوب خان کے دور کو پاکستان کا سنہری ترین دور کہتے ہیں‘ ایوب خان کا آئین رخصت ہو گیا‘ اس کا بی ڈی سسٹم بھی ختم ہو گیا‘ اس کی بنائی ہوئی اسمبلیاں بھی چلی گئیں‘ اس کے تراشے ہوئے سیاسی بت بھی ٹوٹ گئے اور اس کی فیلڈ مارشلی بھی چلی گئی مگر اس کے عوامی منصوبے آج بھی زندہ ہیں‘ یہ آج فوج کی ہر بیرک‘ ڈیموں کے ہر سپل وے‘ بجلی کے ہر پرانے کھمبے‘ گیس کی ہر پائپ لائن اور ملک کے نئے پرانے انڈسٹریل زونز میں زندہ ہے اور یہ ملک جب تک سلامت رہے گا ایوب خان کا نام بھی قائم رہے گا۔
آئین بنتے ہیں‘ ٹوٹتے ہیں‘ ان میں ترمیمیں بھی ہوتی ہیں‘ صوبوں کے اختیارات میں بھی اضافے اور کمیاں ہوتی رہتی ہیں‘ اٹھارہویں کے بعد انیسویں ترمیم آ جاتی ہے اور انیسویں کے بعد بوسںیں‘ اکیسویں اور بائیسویں ترمیم آ جاتی ہے مگر لوگ انھیں اگلے ہی دن بھول جاتے ہیں لیکن عوام اپنے ہاتھ سے نکلے نوالے‘ اپنی کھوئی ہوئی نوکری‘ اپنی محرومی میں ہوتے اضافے اور اپنے گھروں پر اترتے اندھیروں کو نہیں بھولتے‘ یہ اندھے گھروں کو بینائی دینے‘ نسلوں کی پھلتی پھولتی محرومی‘ رزق کے نئے ذرایع اور اشیائے ضرورت کی فراہمی اور اس کی قیمتوں میں کمی کرنے والوں کو بھی نہیں بھولتے‘ لوگ وزیراعظموں اور صدور کو بھول جاتے ہیں لیکن یہ اس اے سی یا ڈی سی کو پوری زندگی یاد رکھتے ہیں جس نے ان کے گھر تک سڑک بچھائی تھی یا جس نے ان کے بچوں کے لیے اسکول بنایا تھا اور یوسف رضا گیلانی اس میں ناکام ہو گئے‘ انھوں نے بے شمار ترامیم کیں لیکن یہ عام انسان کی زندگی میں بہتری نہیں لا سکے‘ یہ انھیں کچھ نہ دے سکے چنانچہ یہ آج عبرت کی نشانی بن کر پھر رہے ہیں اور کوئی ان کے ساتھ سپریم کورٹ تک جانے کے لیے تیار نہیں۔
آج کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی اگلی حکومت پاکستان مسلم لیگ ن کی ہو گی‘ یہ اچھی بات ہے لیکن میاں نواز شریف کو حکومت قبول کرنے سے قبل ایک بار یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالوں کا تجزیہ ضرور کرنا چاہیے اور یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے اگر میاں صاحب نے بھی گورننس کا یہ طریقہ رکھا تو قوم نے صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو تو چار ساڑھے چار سال دے دیے تھے‘ یہ میاں صاحب کو چھ مہینے برداشت نہیں کرے گی اور اگر قوم نے میاں صاحب کو اپنی نظروں سے گرا دیا تو شاید ان کے ساتھ اس بار دو لوگ بھی نہ ہوں اور یہ عبرت کی یوسف رضا گیلانی سے بڑی تصویر بن جائیں۔
قومیں
جاوید چوہدری ہفتہ 2 فروری 2013
یہ جرمنی کا واقعہ ہے‘ میرے ایک دوست اسّی کی دہائی میں جرمنی میں کام کرتے تھے‘ یہ زرعی آلات کی فیکٹری تھی ‘ میرا دوست صبح سات بجے فیکٹری جاتا تھا اور شام پانچ بجے واپس آ جاتا تھا‘ یہ روز کا معمول تھا‘ ایک رات یہ گھر میں بیٹھا تھا‘ فیکٹری سے اس کے جرمن کولیگ کا فون آ گیا‘ کولیگ کو ڈیزائن کی فائل نہیں مل رہی تھی‘ میرا دوست رات کو کولیگ کا فون سن کر حیران رہ گیا‘ وہ جرمن کولیگ اس کے ساتھ دفتر سے گھر گیا تھا چنانچہ اس کا دوبارہ دفتر جانااوررات دس بجے اسے فون کرنا اچنبھے کی بات تھی ‘ میرا دوست گھر سے فیکٹری چلا گیا‘ وہ فیکٹری پہنچا تو وہ وہاں کا ماحول دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ فیکٹری کی تمام لائٹس آن تھیں‘ مشینیں چل رہی تھیں‘ دفتر کھلا تھا اور جرمن مزدور دھڑا دھڑ کام کر رہے تھے۔
میرے دوست نے فائل نکالی‘ اپنے کولیگ کو دی اور اس سے پوچھا ’’تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو‘‘ جرمن کولیگ نے حیرت سے کہا ’’کیا تم نہیں جانتے ہم جرمن شام کے کھانے کے بعد دوبارہ فیکٹری آتے ہیں اور رات بارہ بجے تک کام کرتے ہیں‘‘ میرے دوست کو یہ معلوم نہیں تھا‘ اس نے معذرت کر لی‘ جرمن کولیگ بولا ’’ہم جرمن پورے ملک میں رات کے وقت بھی دو‘ تین گھنٹے کام کرتے ہیں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’کیا یہ اوور ٹائم ہوتا ہے؟‘‘ اس نے جوا ب دیا ’’نہیں‘ہم یہ کام مفت کرتے ہیں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’اور کیا یہ تمام جرمنوں کی عادت ہے‘‘ اس نے جواب دیا ’’ہاں یہ پورے جرمنی میں‘ تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ہوتا ہے‘ ہم لوگ شام کے وقت گھر جاتے ہیں‘ بچوں سے ملتے ہیں‘ کھانا کھاتے ہیں‘ چائے کافی پیتے ہیں اور دوبارہ دفتر آ جاتے ہیں‘ کام کرتے ہیں اور رات گئے واپس گھر چلے جاتے ہیں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’تمہیں اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’ہم یہ کام مالی فائدے کے لیے نہیں کرتے‘ یہ نیشنل سروس ہے ‘ اس کا فائدہ پوری قوم کو ہوتا ہے‘ دوسرا ایکسٹرا کام کی وجہ سے ہماری مہارت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے‘ ہم اپنے کام میں زیادہ ماہر ہو جاتے ہیں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’لیکن آپ لوگ ہم غیر ملکیوں کو اس سروس میں شامل کیوں نہیں کرتے‘‘ اس نے جواب دیا ’’آپ ہمارے مہمان ہیں‘ آپ پیسے کمانے کے لیے جرمنی آئے ہیں‘ ہم آپ پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے ‘ہم جرمن بھی اس کے پابند نہیں ہیں‘ ہم اگر رات کی شفٹ میں فیکٹری نہںٹ آتے تو ہمیں کوئی پوچھ نہیں سکتا مگرہم میں سے اکثریت اسے اپنی ذمے داری سمجھ کر یہاں آ جاتی ہے‘‘
میرے دوست نے اس سے آخری سوال پوچھا ’’لیکن تمہارے ایکسٹرا کام کا فائدہ فیکٹری مالک کو ہوتا ہے‘ اس کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے‘ تم فائدے میں شیئرز طلب کیوں نہیں کرتے؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’میں کمائوں یا میرا مالک کمائے فائدہ بہرحال جرمن قوم کو ہوگا‘ میرے کام سے میرے مالک کو زیادہ بچت ہو گی‘ یہ اس بچت سے دوسری فیکٹری لگا ئے گا‘ اس فیکٹری میں نئی جابز نکلیں گی اوران جابز سے میرے کسی بھانجے‘ بھتیجے‘ بھائی‘ بہن یا بچی کو فائدہ ہو گا لہٰذا مجھے اس معاملے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے‘‘ یہ دلائل سن کر میرے دوست کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔
میرے دوست کے لیے حیرانی کی دوسری بات ڈیوٹی کی پابندی تھی‘ وہ بار بار دیکھتا تھا اس کے جرمن کولیگز رات دو بجے تک شراب پیتے ہیں‘ ڈسکو کلبز میں ڈانس کرتے ہیں‘ بڑی مشکل سے گرتے پڑتے‘ ٹیکسیوں اور بسوں پر گھر پہنچتے ہیں لیکن صبح آٹھ بجے وقت مقررہ پر دفتر ہوتے ہں‘۔میرا دوست انھیں جب بھی نشے میں دیکھتا تھا یہ سمجھتا تھا یہ صبح وقت پر نہیںاٹھ سکیں گے لیکن یہ نہ صرف وقت پر اٹھتے تھے بلکہ یہ کام پر بھی پہنچتے تھے اور معمول کے مطابق کام بھی کرتے تھے‘ میرے دوست نے جرمنوں کی یہ دونوں عادتیں بتائیں تو مجھے اس کے ساتھ ہی جاپانی قوم یاد آ گئی۔ جاپانی قوم بھی کام کے معاملے میں ان تھک ہے‘ جاپانی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی تاجر بتاتے ہیں ہم جس وقت جاپان فون کرتے ہیں ہمیں ان کے دفتر کھلے ملتے ہیں اور دوسری طرف سے باقاعدہ رسپانس بھی ملتا ہے۔
مجھے چند دن قبل لاہور کے ایک دوست نے دلچسپ بات بتائی‘ یہ دوست جاپان سے کاغذ امپورٹ کرتا ہے‘ دوست نے بتایا‘ مجھے جاپان سے اکثر رات کے وقت فون آ جاتا ہے ‘ وہ لوگ مال کے بارے میں پوچھتے ہیں یا پھر بتاتے ہیں‘ میں نے ایک دن ان سے پوچھ لیا’’آپ لوگ کام کس وقت اسٹارٹ کرتے ہیں‘‘ انھوں نے جواب دیا’’ ہم صبح ساڑھے چھ بجے دفتر آ جاتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’واپس کب جاتے ہیں‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’عموماً رات کے سات آٹھ بج جاتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا دفتر کے تمام لوگ اسی وقت آتے ہیں‘‘ اس نے جواب دیا ’’نہیں‘ بعض لوگ صبح پانچ ‘ساڑھے پانچ بجے آ جاتے ہیں اور ہمارے بعد گھر جاتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا ان لوگوں کو اوور ٹائم ملتا ہے‘‘ اس نے جواب دیا ’’نہیں‘ ہم اوور ٹائم نہیں لیتے‘ ہم کام ختم کرنا اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں‘ ہم میں سے جو شخص کوئی کام شروع کرتا ہے وہ اس وقت تک گھر نہںپ جاتا جب تک وہ کام مکمل نہیں ہو جاتا‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن تمہیں اس مشقت سے کیا ملتا ہے‘‘ اس نے جواب دیا ’’تسکین‘ اطمینان اور خوشی‘‘۔
یہ جرمنی اور جاپان دو ایسے ملکوں کی مثالیں ہیں جو دوسری جنگ عظیم میں مکمل طور پر تباہ ہو گئے‘ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کو آپس میں تقسیم کر لیا‘ کساد بازاری اور افراط زر کی حالت یہ تھی چائے کیتلی سے کپ میں گرتے گرتے مہنگی ہو جاتی تھی‘ لوگ بوریوں میں نوٹ بھر کر لے جاتے تھے اور بڑی مشکل سے ایک کلو آلو ملتے تھے‘ جرمنی کا ہر دوسرا مرد قبرستان میں تھا اور پہلا زخمی اور جنگ کے دس سال بعد تک خواتین کو شادی کے لیے مرد نہیں ملتے تھے‘ جاپان کی حالت اس سے بھی پتلی تھی‘ جاپان کے دو جدید اور صنعتی شہر ناگا ساکی اور ہیروشیما ایٹم بم سے تباہ ہو گئے۔
جنگ میں ناکامی کی وجہ سے پوری قوم ڈی مورلائزڈ تھی‘ امریکیوں نے جاپان کے تمام وسائل پر قبضہ کر لیا‘ فوج ختم کر دی ‘ ہتھیار ضبط کر لیے اور شہریوں کو جبری مشقت پر لگا دیا لیکن صرف دس برسوں میں جاپان اور جرمنی نہ صرف اپنے قدموں پر کھڑے تھے بلکہ یہ ترقی کی دوڑ میں سر پٹ بھاگتے ملکوں کی فہرست میں بھی شامل تھے‘ ہم آج جرمیے اور جاپان کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو ہماری ٹوپیاں فرش پر آ جاتی ہیں اور ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں ’’کیا کبھی ہم بھی جاپان یا جرمنی بن سکیں گے‘‘ اور اس کے ساتھ ہی ہمارے ذہن میں ہمالیہ جتنا بڑا’’نہیں‘‘ جگمگانے لگتا ہے‘ ہم جرمنی اور جاپان کیوں نہیں بن سکتے اس کی واحد وجہ ہمارا رویہ ہے‘ ہم کام نہیں کرتے ‘ ہم اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے نوے فیصد لوگ کام کو توہین سمجھتے ہیں اور باقی جو دس فیصد کام کرتے ہیں یہ بھی کام کو بوجھ سمجھ کر سر سے پٹختے رہتے ہیں‘ آپ صبح دفتروں کا چکر لگا کر دیکھ لیجیے‘ ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری دفتروں میں دس ساڑھے دس بجے تک حاضری پوری نہیں ہوتی اور لوگ چار بجے سے پہلے گھروں کو رخصت ہو چکے ہوتے ہیں اور ان چار ‘ساڑھے چار گھنٹوں کے درمیان چائے‘ لنچ اور دو نمازوں کے وقفے بھی آتے ہیں‘ ہم مسلمان ہیں‘ ہم پر نماز فرض ہے لیکن کیا ڈیوٹی چھوڑ کر‘ کام چھوڑ کر اور سائلوں کو سخت سردی اور گرمی میں بیٹھا کر ڈیوٹی ٹائم کے دوران نماز پڑھنا ٹھیک ہے؟‘
آپ کو دنیا کے کسی ملک میں دفتروں‘ فیکٹریوں یا ورک پلیسز پر مندر‘ چرچ یا سینا گوگا نہیں ملے گا کیونکہ لوگ ڈیوٹی کے دوران عبادت کو اچھا نہیں سمجھتے‘ ہمیں نماز ضرور پڑھنی چاہیے لیکن ہمیں نماز کے وقت کے برابر اپنی ڈیوٹی بڑھا لینی چاہیے ‘ ہمیں پانچ کے بجائے ساڑھے پانچ یا چھ بجے تک ڈیوٹی کرنی چاہیے تا کہ ہم اپنا وہ وقت پورا کر سکیں جس کا ہم معاوضہ لے رہے ہیں‘ اسی طرح ہم لوگ صرف ڈیوٹی پر آنے کا معاوضہ لیتے ہیں‘ ہم کام‘ کام کی تکمیل اور کام کی نفاست کا معاوضہ نہیں لیتے چنانچہ ہم دفتروں اور فیکٹریوں سے یوں بھاگ کر باہر نکلتے ہیں جیسے وہاں آگ لگ گئی ہو‘ہم اپنے کام کو دوسرے کا کام سمجھتے ہیں اور ہمارا یہ رویہ بھی ملک کو معاشی قدموں پر کھڑا نہیں ہونے دے رہا‘ ہم اگر اس ملک کو جرمنی یا جاپان دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں جاپانیوں اور جرمنوں کی طرح کام کرنا ہوگا ورنہ ہم اسی طرح بھیک مانگتے رہیں گے۔
آنسوئوں کی پہاڑی
جاوید چوہدری جمعرات 31 جنوری 2013
غرناطہ سے باہر آنسوئوں کی وہ پہاڑی ہے جہاں کھڑے ہو کر اسپین کے آخری مسلمان بادشاہ ابو عبداللہ محمد نے الحمرا کی طرف دیکھا اور وہ اپنے آنسو نہ سنبھال سکا‘ میں تین بار اس پہاڑی پر چڑھا اور تین بار وہاں سے الحمرا دیکھنے کی کوشش کی لیکن میں وہ جگہ تلاش نہ کر سکا جہاں سے ابو عبداللہ محمد نے اپنی ڈوبتی سلطنت دیکھی اور وہ ننگی سخت زمین پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا ‘ میں ہر بار وہاں جاتا ہوں‘ جگہ بدل بدل کر الحمرا کی طرف دیکھتا ہوں مگر مجھے وہ زاویہ‘ وہ اینگل نہیں ملتا جہاں سے ابو عبداللہ نے نیچے گہرائیوں کی طرف جھانکا ‘ میںشاید وہ جگہ کبھی تلاش نہ کر سکوں کیونکہ میں ابو عبداللہ محمد نہیں ہوں‘ میں الحمرا کی جنت ارضی کا مالک بھی نہیں ہوں‘ مجھ سے میرا ہسپانیہ بھی نہیں چھنا اور میں جلاوطن بھی نہیں ہوا‘ میں سیاح ہوں اور سیاحوں کو وہ زاویئے‘ وہ اینگل کبھی نہیں ملتے جو سخت دل بادشاہوں کی آنکھوں کو رونے پر مجبور کر دیتے ہیں‘ رونے کے لیے احساس زیاں چاہیے اور سیاح اس احساس سے آزاد ہوتے ہیں۔
ابو عبداللہ محمد اس پہاڑی سے ایک بار گزرا‘ وہ اس پر ایک ہی بار ٹھہرا‘ اس نے ایک ہی بار پیچھے مڑ کر دیکھا اور اس کی آنکھوں نے ایک ہی بار آنسوئوں کے ذائقے چکھے مگر وہ پہاڑی اور اس کی اترائیوں‘ درختوں کے جھنڈوں اور ہزاروں سال پرانی چٹانوں میں گم اس زاویئے نے اس ایک بار میں آب حیات پی لیا‘ وہ ابد ہو گیا اور دنیا میں اب جب تک الحمرا جیسے محلات کے مقیم بدلتے رہیں گے‘ جب تک غرناطہ جیسے شہر فتح ہوتے رہیں گے اور جب تک ہسپانیہ جیسے ملک حکمرانوں کی نالائقی سے تاریخ کے قبرستانوں میں گم ہوتے رہیں گے آنسوئوں کی پہاڑی اس وقت تک قائم رہے گی‘ لوگ اس وقت تک اس پہاڑی پر آتے اور ابو عبداللہ محمد کے آنسوئوں کے نشان تلاش کرتے رہیں گے‘ بادشاہوں کی نالائقیوں کا تاوان الحمرا جیسے محل اور آنسوئوں کی پہاڑیاں ادا کرتی ہیں اور غرناطہ کی وہ پہاڑی صدیوں سے یہ قرض چکا رہی ہے اور میں جب بھی غرناطہ جاتا ہوں‘ میں اس پہاڑی پر ضرور چڑھتا ہوں اور وہاں سے سبزے میں چھپے سفید الحمرا کو کھوجنے کی کوشش کرتا ہوں اور ہر بار‘ جی ہاں ہر بار مجھے اپنے کندھوں پر مادر ملکہ کا ہاتھ محسوس ہوتا ہے‘ ابو عبداللہ محمد‘ ہسپانیہ کے آخری پارہ صفت‘ نالائق اور کوتاہ فہم کی بدنصیب ماں کا ہاتھ جس نے بیٹے کو گھوڑے سے اترتے‘ زمین پر بیٹھتے اور پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا تو اس کے اندر کی زخمی عورت بھڑک اٹھی‘ اس نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور دکھ میں بھیگی آواز میںکہا بدنصیب بادشاہ تم جس سلطنت کو مردوں کی طرح بچا نہیں سکے عورتوں کی طرح اب اس کے لیے آنسو نہ بہائو اور اس فقرے کے ساتھ ہی وہ ملکہ‘ اس کا فقرہ‘ بادشاہ کے آنسو اور وہ بدنصیب پہاڑی تاریخ کا حصہ بن گئی اور ہر سال ہزاروں سیاح تاریخ کی سسکیوں سے بھیگا یہ فقرہ سننے غرناطہ جاتے ہیں‘ الحمرا کے بہشتی باغات دیکھتے ہیں‘ شاہ کی شاہانہ آرام گاہ دیکھتے ہیں‘ ’’کنگ چیمبر‘‘ میں پانی کا تالاب اور سنگی شیر دیکھتے ہیں اور اس کے بعد اس پہاڑی کی طرف نکل جاتے ہیں جہاں سے بدنصیب بادشاہ کے خاندان نے غرناطہ کی آخری شام کو ڈھلتے ہوئے‘ یورپ کی سب سے بڑی مسلم سلطنت کو تاریخ کی گرد میں گم ہوتے ہوئے اور عبرت کو ضرب المثل بنتے دیکھا تھا‘ جہاں سے مسلم تاریخ نے یوٹرن لیا اور اس کے بعد کبھی واپس نہیں آئی۔
کاش جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز سمیت ہمارے ملک کے تمام موجودہ اور سابق بادشاہ آنسوئوں کی یہ ہسپانوی پہاڑی دیکھ لیں‘ کاش انھوں نے ایک بار جی ہاں ایک بار تاریخ کی چاپ سنی ہوتی تو شاید یہ لوگ بھی ابو عبداللہ محمد جیسی غلطیاں نہ کرتے‘ یہ اس ملک کو غلطیوں کی کتاب نہ بناتے‘ میں آج کل جنرل شاہد عزیز کی کتاب ’’ یہ خاموشی کہاں تک‘‘ پڑھ رہا ہوں‘ جنرل شاہد عزیز اس وقت آئی ایس آئی کے ڈی جی اینالیسز تھے جب آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے کارگل آپریشن لانچ کیا‘ جنرل شاہد عزیز بعد ازاں چیف آف جنرل اسٹاف بنے‘ یہ کور کمانڈرلاہور بھی رہے اور یہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نیب کے چیئرمین بھی بنے‘ جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کارگل ایک ایسا ناکام آپریشن تھا جس کی وجہ سے پاکستان آرمی بھی بدنام ہوئی اور پاکستان بھی جنگ کے دھانے پر پہنچ گیا۔
جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا یہ آپریشن جنرل پرویز مشرف کا برین چائلڈ تھا اور ان کے علاوہ جنرل عزیز‘ جنرل جاوید حسن اور جنرل محمود کو اس آپریشن کے بارے میں اطلاع تھی جب کہ یہ باقی فوج سے خفیہ رکھا گیا‘ جنرل شاہد عزیز کے بقول چار جرنیلوں کی غلطی کی وجہ سے پاکستان فوج کے سیکڑوں جوان شہید ہو گئے‘ میں سب سے پہلے جنرل شاہد عزیز کی اس کتاب کو سراہنا چاہتا ہوں کیونکہ شاہد عزیز پہلے جرنیل ہیں جنہوں نے انگریزی کے بجائے اردو میں کتاب لکھی‘ جرنیل عموماً انگریزی میں کتاب لکھتے ہیں اور برسوں بعد اس کا لولہ لنگڑا ترجمہ مارکیٹ میں آتا ہے‘ دوسرا شاہد عزیز پہلے جنرل ہیں جنہوں نے جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کی حکمت عملی کی ناکامی کا کھل کر اعتراف کیا مگران دونوں خوبیوں کے باوجود مجھے جنرل شاہد عزیز آنسوئوں کی پہاڑی پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں اور میرا دل چاہتا ہے میں ان سے عرض کروں آپ جس سلطنت کی مردوں کی طرح حفاظت نہیں کر سکتے‘ آپ اس کے لیے اب عورتوں کی طرح آنسو نہ بہائیں۔
کارگل غلط تھا تو جنرل شاہد عزیز جیسے لوگوں کو جنرل پرویز مشرف کو روکنا چاہیے تھا‘ جنرل مشرف نہ رکتے تو انھیں اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینا چاہیے تھا‘ اگر یہ آپریشن ناکامی تھا تو آج جنرل شاہد عزیز جیسے عہدیداروں کو جنرل پرویز مشرف کے احتساب‘ ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنا چاہیے‘ ہم آخر کب تک تاریخ کے کچرے پر سفید میز پوش بچھاتے رہیں گے‘ سچ اگر وقت پر نہ بولا جائے تو یہ غداری ہوتا ہے اور اگر مکا لڑائی کے دوران استعمال نہ ہو تو یہ بے وقوفی ہوتا ہے اور ہم بے وقوف بھی ہیں اور تاریخ کے غدار بھی۔ جنرل شاہد عزیز اور ان کے کولیگز جنرل پرویز مشرف کو کارگل آپریشن سے روک سکتے تھے‘ یہ کور کمانڈرز کی میٹنگ میں معاملہ اٹھا سکتے تھے اور کہہ سکتے تھے کہ فوج اس وقت تک کوئی آپریشن نہیں کرے گی جب تک کور کمانڈرز اس کی اجازت نہ دیں اور فوج پوری طرح اس کی تیاری نہ کر لے لیکن خاموشی اختیار کی گئی۔یوں ملک کا ہر آپریشن‘ ہر جنگ شروع میں کامیاب اور آخر میں کارگل ثابت ہوتی رہی۔
ہر مارشل لاء پر مٹھائی بٹی اور مارشل لاء کے آخر میں پاکستان پولرائزیشن کا شکار ہوا‘ ملک ٹوٹا‘ ملک میں کلاشنکوف اور ہیروئن آئی اور ملک دہشت گردی کا شکار ہوا‘ وقت پر سچ نہ بولنے کا یہ کلچر سیاسی جماعتوں اور سیاسی حکومتوں کا حصہ بھی ہے‘ وہاں بھی دو‘ دو‘ تین تین سیاسی لیڈر فیصلہ کرتے ہیں اور قوم ان کا خمیازہ بھگتتی ہے اور تاریخ میں ہر سال آنسوئوں کی کسی نئی پہاڑی کا اضافہ ہو جاتا ہے‘ ہماری صفوں سے ہر سال ایک نیا عبداللہ محمد باہر نکلتا ہے اور پوری قوم کو رونے پر مجبور کر دیتا ہے‘ میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا اگر ہمارے پاس ضمیر ہے اور اگر یہ زندہ ہے تو پھر یہ اس وقت کیوں نہیں بولتا‘ یہ اس وقت اپنے زندہ ہونے کا ثبوت کیوں نہیں دیتا جب اس کی ضرورت ہوتی ہے‘ ہم اگر من حیث القوم زندہ ہیں تو پھر جنرل شاہد عزیز جیسے لوگوں کو اس وقت بولنا چاہیے جب اس کی ضرورت ہو‘ ورنہ دوسری صورت میں آنسوئوں کی پہاڑیاں بنتی رہیں گی‘ ہم ان پہاڑیوں پر بیٹھ کر روتے رہیں گے اور تاریخ ہم سے یہ شکوہ کرتی رہے گی’’ آپ لوگ جس سلطنت کو مردوں کی طرح نہیں بچا سکے آپ اب اس کے لیے عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہا رہے ہیں‘‘ یہ تاریخ ہے جنرل صاحب اور تاریخ اور سلاںب کا پانی صرف رونے سے نہیں رکتا‘ اس کے لیے پشتے بنانے پڑتے ہیں‘ اپنی انا‘ عہدے اور جان کے پشتے ورنہ دوسری صورت میں آنسوئوں کی پہاڑیاں بنتی ہیں اور نسلیں ان پہاڑیوں پر بیٹھ کر اپنے آبائو اجداد کا سیاپا کرتی ہیں۔
جس دن
جاوید چوہدری پير 28 جنوری 2013
اسکردو پاکستان کا خوبصورت ترین ضلع ہے‘ آپ اگر قدرتی حسن دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو زندگی میں ایک بار‘ کم از کم ایک بار اسکردو شہر‘ شنگریلا‘ کچورا جھیل‘ خپلو‘ شگر اور دیوسائی ضرور جانا چاہیے کیونکہ ان کے بغیر دنیا کا حسن مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی قدرت کی صناعی۔ میری خواہش ہے میں زندگی کے آخری دن شنگریلا میں کچورا لیک کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر گزار دوں اور میں اس عالم میں فوت ہو جائوں تو مجھے شنگریلا کے کسی گم نام قبرستان میں دفن کر دیا جائے تاکہ میری قبر سردیوں میں برف میں گم ہو جائے‘ بہار آئے تو بادام کے نیم سفدے پتے قبر کو ڈھانپ لیں‘ گرمیوں میں انگور کی بیلیں اس پر سایہ کر دیں اور خزاں کے موسموں میں چنار کے سرخ پتے قبر کے دائیں بائیں دوڑتے رہیں‘ چاند کی لمبی راتوں میں جب چاند کچورا لیک میں غسل کے لیے آئے تو وہ ایک لمحے کے لیے‘ ہاں صرف ایک لمحے کے لیے میری قبر پر رک جائے اور اس کے بعد جو بھی عذاب آئے‘ آئے اور ہوائیں جب دنیا کے بلند ترین صحرا کی ریت ساتھ لے کراڑیں تو یہ بھی چند سکینڈ کے لیے وہاں رک جائیں اور میں چند لمحوں کے لیے ہی سہی اڑتے ہوئے تیز ذروں کی سائیں سائیں محسوس کروں اور جب سردیوں کی ٹھنڈی بدمست ہوائیں آنے والے دنوں کی نمی لے کر دوڑیں‘ یہ نمی بھی ایک پہر کے لیے قبر کی سل پر ٹھہر جائے اور میرا متروک‘ بے جان اور بے رنگ بدن اس نمی کو محسوس کرے اور اس کے ساتھ ہی گئے زمانوں کے سارے ذائقے اپنی خوشبو کے ساتھ قبر میں زندہ ہو جائیں اور کوئی شخص‘ گزرتا ہوا کوئی سیاح قبر کے ساتھ بیٹھ کر کافی پیئے اور جاتے ہوئے کافی کا خالی مگ وہاں بھول جائے جس طرح میں 2006ء میں اپنا مگ ایک بے نام قبر کے سرہانے بھول آیا تھا اور یہ مگ مجھے آج بھی سات سال پیچھے لے جاتا ہے‘ ان سات سالوں میں جب میں نے زندگی میں پہلی بار کچے بادام کا ذائقہ چکھا تھا‘ کھٹے انگور کھائے تھے اور جب میں نے اپنی سرخ شرٹ کا جھنڈا بنا کر قبر کے پائوں میں گاڑھ دیا تھا‘ سیاحت‘ حسن اور یاد شنگریلا کے بغیر مکمل نہیں ہوتی‘ اسکردو کا شنگریلا پہلے بوسے کی طرح ہے جسے انسان نوے سال کی عمر میں بھی بھول نہیں سکتا۔
میں 2006ء میں اسکردو گیا اور اپنا بچا کھچا دل وہیں کہیں چھوڑ آیا لیکن میرا دل‘ اس کی بچی کھچی حسرتیں اور خپلو‘ شگر اور دیوسائی کی صبحیں‘ دوپہریں اور شامیں اور راستے کے ٹینٹ ہوٹلوں کی بد ذائقہ چائے اور دریائے سندھ کی بدمست لہریں اور اسکردو کی جھیلوں میں سلیے پہاڑوں کے سائے یہ ہمارا موضوع نہیں‘ ہمارا موضوع اسکردو میں پروان چڑھنے والی سوچ ہے‘ میں 2006ء میں وہاں گیا‘ مقامی لوگوں نے پی ڈی سی میں شام سجائی‘ موضوع ’’طالبان‘‘ تھا‘ میں گفتگو شروع کرنے لگا تو اسکردو کے نوجوان ڈی سی میرے کان پر جھکے اور آہستہ آواز مںش مشورہ دیا ’’ آپ اپنی گفتگو میں ایک شخصیت کا بہت ذکر کرتے ہیں‘ آپ یہاں یہ ذکر نہ کیجیے گا‘‘ میں نے حیران ہو کر ان کی طرف دیکھا‘ انھوں نے بتایا ’’ حاضرین شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ بعض اوقات ’’ ری ایکٹ‘‘ کر دیتے ہیں اور یوں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بن جاتا ہے‘ آپ مہربانی کر کے کوئی متنازعہ بات نہ کیجیے گا‘‘ میرے دل کے اندر دور گہرائی میں کوئی چیز ٹوٹ گئی اور میں گفتگو کے دوران اس ٹوٹی ہوئی چیز کی کرچیاں جمع کرتا رہ گیا‘ میں اس سے اگلے سال فیصل آباد گیا‘ وہاں چناب کلب میں احباب جمع تھے‘ میں گفتگو شروع کرنے لگا تو مقامی دوست نے کان میں مشورہ دیا‘ آپ بار بار شعیہ کا ذکر کرتے ہیں لیکن یہاں اس سے پرہیز کیجیے گا‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’ کیوں‘‘ اس نے جواب دیا‘ حاضرین میں اہل حدیث اور بریلوی حضرات کی اکثریت ہے‘ یہ لوگ جھنگ‘ چنیوٹ اور سرگودھا سے آئے ہیں‘ ان کی شیعہ کمیونٹی کے ساتھ لڑائی چل رہی ہے‘ مجھے خطرہ ہے آپ کویہ کہیں شیعہ یا شیعوں کا حامی نہ سمجھ لیں اور یوں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بن جائے گا‘ میرے اندر ایک بار پھر کوئی چیز ٹوٹی اور میں آج تک اس کی کرچیاں بھی جمع کرتا رہا ہوں۔
میں سولہ سال سے کالم لکھ رہا ہوں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کالم لکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے‘ لوگ کالموں میں کالم نگاروں کا فرقہ تلاش کرتے ہیں اور انھیں جوں ہی اس کے سنی‘ اہل حدیث‘ بریلوی‘ وہابی‘ دیوی بندی یا شیعہ ہونے کا احساس ہوتا ہے یہ اسے گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں‘ میرے تمام دوست‘ میرے زیادہ تر قارئین اصرار کرتے ہیں میں کالموں اور گفتگو میں اسلام‘ مقدس ہستیوں اور قرآن کا حوالہ نہ دوں‘ میں ان سے پوچھتا ہوں کیا اللہ تعالیٰ اسلام‘ نبی اکرمؐ اور قرآن مجید پر میرا کوئی حق نہیں‘ یہ لوگ اس جواب پر مائینڈ کر جاتے ہیں‘ میں قرآن مجید کا ترجمہ اٹھاتا ہوں تو لوگ مترجم کا نام دیکھ کر مجھے کسی نہ کسی فرقے کی فہرست میں ڈال دیتے ہیں‘ مجھے نماز کے دوران یہ اندیشہ رہتا ہے کہیں میرے رکوع و سجود پر کفر کا فتویٰ نہ لگ جائے‘ مجھے روز شیعہ کمیونٹی اور سنی مکتبہ فکر کی طرف سے درجنوں متنازعہ ایس ایم ایس موصول ہوتے ہیں‘ اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک میں کوئی بھی شخص کسی بھی وقت مجھے کافر‘ منافق‘ دہریہ‘ لادین‘ امریکی ایجنٹ اور گستاخ قرار دے سکتا ہے اور میں دل پر ہاتھ رکھنے اور اپنے اللہ سے شکوے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا‘ میں 42 سال کی عمر اور 22 سال کی مسلسل صحافت کے باوجود آج تک خود کو مسلمان‘ پاکستانی اور پڑھا لکھا ثابت نہیں کر سکا‘ لوگ مجھے سفر کرنے‘ کتابیں پڑھنے‘ فلمیں دیکھنے‘ موسیقی سننے‘ شیو کرنے‘ سوٹ پہننے‘ جاگنگ کرنے‘ ریستوران میں کھانا کھانے اور کافی شاپ میں کافی پینے پر گالی دیتے ہیں‘ لوگوں کے لیے میرا مسلمان ہونا کافی نہیں‘ یہ مجھے کسی پیر صاحب کی بیعت میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں‘ یہ میرے سر پر سیاہ یا سبز پگڑی بھی چاہتے ہیں‘ یہ مجھے رائے ونڈ کے اجتماع‘ داتا صاحب کے مزار‘ محرم کے تعزیئے اور گیارہویں کی نیاز میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور میں اگر اللہ‘ اس کے رسولؐ اور قرآن مجید کو اپنے لیے کافی سمجھتا ہوں یا پھر اللہ کے حکم پر دین میں تحقیق کی کوشش کرتا ہوں تو یہ مجھے گالی بھی دیتے ہیں‘ میں پانچ ہزار سال سے اس خطے میں رہ رہا ہوں‘ میری سیکڑوں ہزاروں نسلوں نے اس مٹی میں جنم لیا اور اس کا رزق بن کر ختم ہوگئیں لیکن میں‘ میرا ایمان اور میرے خیالات اس خطے میں محفوظ نہیں ہیں‘ میں لوگوں کے چہرے‘ حلیے اور خیالات دیکھ کر گفتگو کرتا ہوں اور یہ میرے ملک میں میری صورتحال ہے لیکن قوم اس شاہ رخ خان کو بھی پاکستان شفٹ ہونے کی دعوت دے رہی ہے جس نے امریکی جریدے آئوٹ لک ٹرننگ پوائنٹس میں اپنے ایک آرٹیکل میں فرسٹریشن میں کہہ دیا میں ہندوستان میں ہندو شدت پسندوں کے ہاتھوں تنگ ہوں‘ یہ مجھے پاکستانی جاسوس سمجھتے ہیں اور مجھے انڈیا چھوڑ کر پاکستان جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔
شاہ رخ خان مسلمان ہے‘ یہ اگر پاکستان میں آ جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن سوال یہ ہے‘ کیا ہمارے لیے صرف مسلمان شاہ رخ خان کافی ہو گا‘ کیا اسے پاکستان آنے کے بعد اپنی بریلویت‘ وہابیت‘ سنیت اور شیعت کا امتحان پاس نہیں کرنا پڑے گا‘ کیا ہم اس کی ہندو بیوی اور مسلمان ہندو بچے قبول کر لیں گے‘ کیا اسے اپنا اسلام ثابت کرنے کے لیے پہلے شلوار کا سائز‘ داڑھی کا رنگ اور ہاتھ باندھ کر یا چھوڑ کر نماز پڑھنے کا فیصلہ نہیں کرنا ہو گا‘ کیا اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ اس کا شناختی کارڈ نہیں کرے گا اور کیا اسے پہلے حرام فلموں کی حرام کمائی کا حساب نہیں دینا ہو گا؟ ہم شاہ رخ خان کو پاکستان آنے کی دعوت دے رہے ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا یہ پاکستان آ کر کرے گا کیا؟ یہ وحشی گجر کے نام سے بننے والی کسی فلم میں کام کرے گا؟ کیا یہ لہری کی طرح علاج کو ترستا ہوا مرے گا‘ کیا یہ لوگوں کی شادیوں میں ناچ کر گھر چلائے گا یا پھر یہ ٹی وی ڈراموں میں کام کرے گا اور معاوضے کے لیے در در بھٹکے گا‘ ہم چاہتے ہیں یہ اس بھارت سے جس نے اسے دنیا کا بڑا اسٹار بنایا اس پاکستان میں آ جائے جس میں آج بھی راحت فتح علی خان‘ علی ظفر‘ عاطف اسلم‘ عدنان سمیع خان‘ غلام علی اور شفقت امانت علی کو روزی کمانے کے لیے سرحد پار کرنا پڑتی ہے‘ جس میں آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا موسیقی حرام ہے یا حلال ‘ جس کا قومی ترانہ ساز اور آواز میں ہے لیکن موسیقی حرام ہے‘ جس میں آج بھی کوئی غیر مسلم پاکستان کا وزیراعظم یا صدر نہیں بنا‘ جس میں عسابئیوں کی پوری پوری بستیاں جلا دی جاتی ہیں‘ جس میں تین برسوں میں تھرپارکر کے چار ہزار خاندان مسلمانوں کے جبر کے ہاتھوں بھارت نقل مکانی کر گئے اور جس میں میلاد اور محرم کے جلوسوں کو بچانے کے لیے موبائل سروس بند کرنا پڑتی ہے اور جس میں لوگ نماز کے لیے مسجد جانے سے ڈرتے ہیں اور جس میں لوگوں نے صحابہ کرام ؓ بھی آپس میں تقسیم کر لیے ہیں۔
آپ ایک لمحے کے لیے سوچئے اور جواب دیجیے اگر دلیپ کمار‘ شاہ رخ خان‘ سلمان خان‘ عامر خان اور اے آر رحمان پاکستان میں ہوتے تو کیا یہ اتنے ہی بڑے اسٹار ہوتے؟ اور وہ بھارت جس میںچار مسلمان صدر گزرے ہیں اور جس میں اس وقت سکھ وزیراعظم‘ اطالوی خاتون کانگریس کی چرئوپرسن‘ سکھ آرمی چیف ‘ مسلمان چیف جسٹس اور مسلمان وزیر خارجہ ہے‘ کیا وہ سماجی‘ سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے ہم سے بہتر نہیں؟ کیا ہم کسی پاکستانی ہندو‘ عیسائی یا پارسی کو اپنا صدر یا وزیراعظم برداشت کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیا پھر ہمیں شاہ رخ خان سے ہمدردی کا کوئی حق ہے؟ وہ مسلمان ہو کر ہندو بیوی کے ساتھ ہندوستان میں رہ رہا ہے‘ ہندو پروڈیوسرز کی فلموں میں کام کر رہا ہے اور کروڑوں ہندو شائقین اس کی فلمیں دیکھتے ہیں‘ کیا یہ کافی نہیں؟ ہم نے جس دن اس ملک میں شیعہ کوسنی اور سنی کو شیعہ سے بچا لیا اور لبرل سے مولوی اور مولوی سے لبرل کو بچا لیا‘ ہمیں اس دن کسی شاہ رخ خان کو پاکستان آنے کی دعوت نہیں دینا پڑے گی‘ یہ لوگ اور ان کے ہندو خاندان سرحد پار کرنے میں چند سکینڈ لگائیں گے لیکن جب تک یہ نہیں ہوتا اس وقت تک شاہ رخ خان کو ہندوستان رہنا چاہیے کیونکہ یہ ہندوستان میں ہندوئوں سے بچ جائے گا لیکن پاکستان میں مسلمانوں سے نہیں بچ سکے گا۔
ٹین کے خالی ڈبے
جاوید چوہدری اتوار 27 جنوری 2013
سلیم الزمان صدیقی پاکستان کے سب سے بڑے سائنس دان تھے‘ ہم ہر الیکشن میں ایک مخصوص سیاہی کے ذریعے ووٹر کا انگوٹھا سیاہ کرتے ہیں‘ یہ ان مٹ سیاہی ہوتی ہے جس کا مقصد الیکشن کے عمل کو جعلی ووٹوں اور ووٹروں سے بچانا ہوتا ہے‘ الیکشن کمیشن کا عملہ ووٹ ڈالتے وقت ووٹر کے انگوٹھے پر سیاہی لگا دیتا ہے‘ یہ سیاہی دو تین دن تک صاف نہیں ہوتی‘ یہ سیاہی ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی نے 1946ء میں ایجاد کی تھی اور یہ اس وقت سارک کے ساتوں ممالک میں استعمال ہوتی ہے‘ ڈاکٹر صاحب نے ہندوستان کے نامور طبیب حکیم اجمل کے ایک نسخے پر ریسرچ کر کے اجملین نام کی ایک دوا بنائی‘ یہ بلڈ پریشر کا شاندار نسخہ ہے‘ ڈاکٹر صاحب کی ریسرچ پر سوئٹزر لینڈ کی ایک فارما سوٹیکل کمپنی نے بلڈ پریشر کی دوا بنائی اور یہ دوا اس وقت دنیا بھر میں استعمال ہو رہی ہے‘ ڈاکٹر صاحب قیام پاکستان کے بعد دہلی سے کراچی شفٹ ہوئے اور اپنی زندگی ملک میں سائنس کی ترقی اور ترویج پر لگا دی۔
انھوں نے زندگی میں سیکڑوں ہزاروں شاگرد بنائے اور یہ لوگ اس وقت ملک بھر کی یونیورسٹیوں‘ لیبارٹریوں‘ دوا ساز کمپنیوں اور عالمی اداروں میں کام کر رہے ہیں‘ سائنس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کا کمال ان کی طویل العمری تھا‘ ڈاکٹر صاحب نے ماشاء اللہ 97 سال عمر پائی اور یہ آخری سانس تک کام کرتے رہے‘ انھیں لیبارٹری میں کام کرتے ہوئے دل پر بوجھ محسوس ہوا‘ یہ اسپتال لے جائے گئے اور یہ مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے‘ طویل العمری اللہ کی نعمت ہوتی ہے لیکن انسان کو اس نعمت کے لیے بڑی جدوجہد کرنا پڑتی ہے‘ لوگ ایکسرسائز کرتے ہیں‘ کھانے میں پرہیز کرتے ہیں‘ دوائیں استعمال کرتے ہیں‘ وقت پر کام شروع کرتے ہیں اور وقت پر چھٹی کر کے آرام کرتے ہیں‘ لوگ صحت مند زندگی کے لیے سگریٹ‘ شراب اور نسوار سے بھی بچتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے طویل العمری کے لیے ان میں سے کسی اصول پر عمل نہیں کیا‘ وہ ایکسرسائز نہیں کرتے تھے‘ کھانے میں بھی بدپرہیزی کرتے تھے‘ وقت پر دوا نہیں لیتے تھے اور دن کا زیادہ تر وقت لیبارٹری میں گزار دیتے تھے‘ ڈاکٹر صاحب نے پانچ سال کی عمر میں سگریٹ پینا شروع کی اور آخری دن تک سگریٹ پیتے رہے‘ وہ چین سموکر تھے‘ ایک سگریٹ بجھتا تھا تو وہ دوسرا جلا لیتے تھے‘ وہ دن میں تین چار ڈبی سگریٹ پی جاتے اور انھوں نے یہ معمول مذہبی فریضے کی طرح نبھایا‘ مگر اس تمام تر بدپرہیزی اور غیر صحت مندانہ سرگرمیوں کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے 97 سال زندگی پائی او وہ آخری لمحے تک لیبارٹری میں کام بھی کرتے رہے‘ کیوں اور کیسے؟ یہ کیوں اور کیسے اس کالم کا اصل موضوع ہے‘ ہم میں سے ہر شخص طویل زندگی بھی چاہتا ہے اور ہم آخری سانس تک اپنے قدموں پر بھی کھڑا رہنا چاہتے ہیں‘ اپنی آنکھوں سے دیکھنا‘ اپنے کان سے سننا‘ اپنے ہاتھ سے چیزیں پکڑنا اور اپنے دانتوں سے چبانا چاہتے ہیں‘ ہم زندگی کی آخری سانس تک اپنے دفتر‘ اپنی دکان‘ اپنی فیکٹری اور اپنے کھیتوں میں بھی جانا چاہتے ہیں اور ہم اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے ہزاروں جتن بھی کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ہماری یہ خواہش پوری نہیں ہوتی‘ ہم سگریٹ‘ شراب‘ نسوار سے بھی پرہیز کرتے ہیں‘ ہم کھانے میں بھی احتیاط کرتے ہیں‘ ڈاکٹروں‘ دندان سازوں اور جوڑوں کے ماہرین کی مدد بھی لیتے ہیں اور ایکسرسائز بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے دانت جھڑ جاتے ہیں‘ سرننگا ہو جاتا ہے‘ آنکھیں کمزور ہو جاتی ہیں‘ ہم پائوں رکھتے کہیں ہیں اور یہ پڑتا کہیں ہے اور ہمیں سننے میں بھی پریشان ہوتی ہے مگر ڈاکٹر سیلم الزمان صدیقی ہم سے مختلف انسان تھے‘ وہ اپنی خواہش کو تکمیل تک لے گئے اور انھوں نے کوئی پرہیز بھی نہیں کیا‘ کیسے؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
یہ سوال ڈاکٹر صاحب سے ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر مشتاق اسماعیل نے بھی پوچھا تھا‘ ڈاکٹر مشتاق اسماعیل بھی سائنس دان ہیں اور یہ ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی کے ساتھ کام کرتے تھے‘ ڈاکٹر صاحب اس وقت سگریٹ کا آخری کش لگا رہے تھے اور ان کا چپڑاسی اگلا سگریٹ سلگا رہا تھا‘ ڈاکٹر صدیقی نے پرانا سگریٹ بجھایا اور نیا پکڑ لیا اور ہنس کر بولے ’’ میری طویل العمری کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے‘ میں کسی سے حسد نہیں کرتا‘‘ یہ جواب ڈاکٹر مشتاق اسماعیل کے لیے بھی حیران کن تھا اور میرے لیے بھی کیونکہ دنیا میں لمبی اور صحت مند زندگی کی جتنی کتابیں ہیں یہ نسخہ ان میں سے کسی کتاب میں موجود نہیں‘ دنیا بھر کے کئی ڈاکٹر‘ دنیا بھر کے کئی غذائی ماہر اور دنیا بھر کے ٹرینر ہمیں لمبی اور صحت مند زندگی کے لیے متوازن خوراک‘ پوری نیند‘ ایک گھنٹہ ایکسرسائز اور فکروں سے آزادی کا مشورہ دیتے ہیں‘ آج تک کسی نے نہیں بتایا حسد انسان کی عمر اور صحت کو کم کرتا ہے‘ آپ خوراک میں جتنا چاہیں اعتدال پیدا کر لیں‘ آپ جتنی چاہیں ایکسرسائز کر لیں اور آپ خود کو فکر اور پریشانی سے خواہ کتنا آزاد کر لیں لیکن آپ کے اندر اگر حسد کا بیج موجود ہے تو یہ بیج کھیتی ضرور بنے گا اور یہ کھیتی آہستہ آہستہ آپ کی صحت اور عمر دونوں کو کھا جائے گی‘ دنیا بھر کے ایکسپرٹ اس حقیقت سے واقف نہیں مگر ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی اس سے آگاہ تھے چنانچہ انھوں نے اس نسخہ کیمیا کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا‘ انھوں نے خود کو ہمہشں حسد اور رقابت سے پاک رکھا اور یوں 97 سال لمبی اور صحت مند زندگی پائی۔
ہماری کاغذی زندگی کے لیے حسد‘ رقابت اور غیبت آگ کی حیثیت رکھتی ہے‘ ہم جب اپنی زندگی میں یہ آگ دُھکا لیتے ہیں تو ہماری عمر اور صحت آہستہ آہستہ پگھلنے لگتی ہے اور ہم دیکھتے ہی دیکھتے بیمار ہو جاتے ہیں‘ میرے ایک دوست پانچ وقتہ حاسد ہیں‘ یہ کسی انسان کی خوشی کو ہضم نہیں کر سکتے‘ ان کا کوئی کولیگ اچھے کپڑے پہن کر دفتر آ جائے‘ کوئی نئی گاڑی خرید لے‘ کوئی اپنے گھر میں نیا پینٹ کرا لے‘ کوئی لوگوں میں بیٹھ کر ہنس لے‘ کسی کا بچہ اسکول میں اچھی پوزیشن لے لے یا ان کے راستے میں کوئی شخص اپنی پرانی دکان گرا کر نئی تعمیر شروع کر دے یہ حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں‘ یہ شروع شروع میں اس شخص کی کامیابی یا خوشی سے آنکھ چرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب تعریف پر مجبور ہو جاتے ہیں تو یہ اس کے دودھ میں ایسی ایسی مینگنیاں ڈالتے ہیں کہ وہ شخص دل پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے‘ ان کا حسد صرف ان کے ماحول یا دائیں بائیں تک محدود نہیں بلکہ اس کی حدود بین الاقوامی ہیں‘ یہ دوسری اقوام اور غیر ملکیوں کی کامیابیوں میں بھی ایسے کیڑے نکالتے ہیں کہ بعض اوقات کیڑے بھی پریشان ہو جاتے ہیں مثلاً وہ پچھلے دس برسوں سے بل گیٹس کو دنیا کا امیر ترین اور وارن بفٹ کو دوسرا امیر ترین شخص ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ یہ جب بھی ان دونوں کے خلاف کوئی خبر پڑھتے ہیں تو یہ اخبار اٹھا کر ہمارے پاس آ جاتے ہیں اور ہمیں بڑے فخر سے وہ خبر سناتے ہیں اور اس وقت ان کے چہرے پر عجیب قسم کا تفاخر ہوتا ہے‘ ہمیں اس وقت محسوس ہوتا ہے جیسے وارن بفٹ اور بل گیٹس کو ’’ غریب‘‘ بنانے میں ہمارے اس دوست نے دن رات کام کیا‘ ہمارا یہ دوست حسد کی اس آگ کی وجہ سے چالیس سال کی عمر میں دنیا بھر کے مہلک امراض میں مبتلا ہو چکا ہے‘ یہ دل کا مریض بھی ہے‘ یہ بلڈ پریشر‘ شوگر اور جوڑوں کے عارضے کی گرفت میں بھی ہے اور یہ جوں جوں ان کا علاج کراتا ہے اس کا مرض بڑھتا جا رہا ہے‘ یہ روزانہ ایکسرسائز بھی کرتا ہے‘ خوراک میں بھی اعتدال سے کام لیتا ہے اور ڈاکٹروں کی ہدایات پر بھی عمل کرتا ہے لیکن اس کے باوجود چالیس سال کی عمر میں ساٹھ سال کا بوڑھا دکھائی دیتا ہے اور اس کی واحد وجہ اس کا حسد ہے‘ حسد ہماری زندگی میں شک پیدا کرتا ہے اور شک ہماری خوشیاں‘ ہماری زندگی کی تمام لذتیں نگل جاتا ہے اور ہمارا یہ دوست اسی برائی کا شکار ہے مگر ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی اس حقیقت سے آگاہ تھے چنانچہ انھوں نے اپنے دل کو حسد سے پاک کر لیا‘ ڈاکٹر صاحب کے دل میں حسد نہیں تھا چنانچہ ان میں شک اور غیبت بھی نہیں تھی لہٰذا ان کی عمر لمبی اور جسم صحت مند تھا‘ وہ جانتے تھے جس دن انھوں نے حسد کیا اس دن صحت اور عمر دونوں رخصت ہو جائیں گی‘ وہ اس دن ٹین کا خالی ڈبہ بن جائیں گے ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح جو اس ملک میں ہمارے دائیں بائیں پھر رہے ہیں۔
کامران فیصل کے بعد کس کی باری ہے
جاوید چوہدری بدھ 23 جنوری 2013
کامران فیصل 34 سال کے ایک نوجوان افسر تھے‘ یہ میاں چنوں سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ 2006 ء میں نیب میں بھرتی ہوئے اورنیب کوئٹہ اور ایف آئی اے سے ہوتے ہوئے مئی 2012ء میں نیب اسلام آباد آگئے‘ یہ ایماندار‘ بے لچک اور سیدھے سادے افسر تھے‘ یہ مئی 2012ء میں رینٹل پاور کرپشن کیس کی تین رکنی تفتیشی ٹیم کے رکن بنے‘ ٹیم نے 15 جنوری کو رینٹل پاور کرپشن کی تفتیشی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی‘ اس رپورٹ کا اسی فیصد حصہ کامران فیصل نے لکھا تھا‘ یہ چشم کشا رپورٹ تھی جس میں انکشاف ہوا رینٹل پاور پلانٹس کے ذریعے20 لوگ قوم کے اربوں روپے کھا گئے‘ یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا اسکینڈل تھا اور اس اسکینڈل میں شامل ملزموں میں پانی اور بجلی کے سابق وفاقی وزیر اور موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی شامل تھے‘ سپریم کورٹ نیب کو ملزمان کے خلاف کارروائی کی ہدایت کرتی آ رہی تھی لیکن ایک درجن سے زائد سماعتوں کے باوجود مقدمے پر پیش رفت نہ ہوئی‘ 15 جنوری کو کامران فیصل رپورٹ عدالت میں آئی اور عدالت نے اس دن راجہ پرویز اشرف سمیت 19 ملزمان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔
یہ حکم بم کی طرح پھٹا کیونکہ علامہ طاہر القادری اس وقت ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے تھے اور عین اس نازک وقت پر وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آ گیا جس کے بعد راجہ پرویز اشرف اور حکومت دونوں فارغ ہوتے دکھائی دیے‘ اس نازک وقت میں میاں نواز شریف نے حکومت کو سہارا دیا‘ انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کیا اور دس اپوزیشن جماعتوں نے علامہ طاہر القادری کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں فیصلہ دے دیا‘ اس اعلان سے راجہ پرویز اشرف کو اپنے پائوں زمین پر ٹکانے کا موقع مل گیا‘ سپریم کورٹ نے بھی 17 جنوری کی شام رینٹل پاور پلانٹس کیس کی سماعت 23 جنوری تک مؤخر کر دی‘ اس التواء کی وجہ سے حکومت اور علامہ طاہر القادری کے مذاکرات کامیاب ہو گئے‘ اگر سپریم کورٹ اس وقت وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دے دیتی یا چیئرمین نیب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیتی تو علامہ طاہر القادری نے مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دینا تھا اور یوں اسلام آباد کی صورتحال مزید خراب ہو جاتی چنانچہ اگر دیکھا جائے تو 17 جنوری کو راجہ پرویز اشرف کی حکومت پر سپریم کورٹ اور میاں نواز شریف دونوں نے احسان کیا اور یہ اس خوفناک بحران سے نکل آئے جسے رحمن ملک ہوا دے رہے تھے۔
یہ حقائق اب سامنے آ چکے ہیں‘ رحمن ملک 16 اور 17 جنوری کی رات علامہ طاہر القادری کے خلاف آپریشن لانچ کرنا چاہتے تھے مگر چیف کمشنر اسلام آباد اور بعد ازاں فوج نے اس کی اجازت نہیں دی‘ ملک ریاض کو متحرک کیا گیا‘ ملک ریاض نے چوہدری شجاعت حسین کی مدد لی‘ چوہدری شجاعت حسین نے صدر آصف علی زرداری کو فون کیا اور یوں یہ آپریشن رک گیا‘ اگر یہ آپریشن ہو جاتا‘ پولیس‘ ایف آئی اے‘ آئی بی اور رینجرز علامہ طاہر القادری کو گرفتار کر لیتے تو علامہ صاحب کے زائرین بلیو ایریا کو آگ لگا دیتے اور اس کے بعد کیا ہوتا؟ یہ پوری دنیا جانتی ہے لیکن بہرحال میاں نواز شریف‘ سپریم کورٹ اور چوہدری شجاعت حسین نے راجہ پرویز اشرف پر مہربانی کی‘ انھوں نے حکومت کو سپورٹ دی اور یوں اسلام آباد اور راجہ پرویز اشرف دونوں بچ گئے لیکن پھر 18 جنوری کی صبح10 اور 11 بجے کے درمیان کامران فیصل فیڈرل لاجز میں اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے‘ ان کی نعش پنکھے سے لٹکی ہوئی تھی‘ نیب نے پولیس کی مدد سے اس ہلاکت کو خودکشی ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن کامران فیصل مرنے سے قبل چند ایسے سوال چھوڑ گئے جنہوں نے کیس کو الجھا دیا او یہ کیس اب چیئرمین نیب فصیح بخاری سمیت بے شمار لوگوں کے گلے کا پھندا بنتا جا رہا ہے‘ کامران فیصل کے ساتھیوں کے بقول کامران پر ڈی جی ایچ آر کوثراقبال ملک سمیت بعض افسروں کا بے تحاشا دبائو تھا‘ یہ لوگ ان سے پچھلی تاریخوں میں بیان حلفی لینا چاہتے تھے‘ یہ انھیں کیس سے دستبردار ہونے کا حکم بھی دے رہے تھے‘ کامران فیصل کی آخری اور طویل ملاقات انھی لوگوں کے ساتھ ہوئی تھی‘ کامران فیصل کے موبائل کا ڈیٹا بھی نکال لیا گیا ہے اور یہ ڈیٹا بھی ایشو کو گھمبیر بنا رہا ہے‘ کامران فیصل کی موت کے بعد سب سے پہلے نیب کے حکام ان کے کمرے میں پہنچے‘ یہ لوگ ان کے کمرے سے فائلیں اور لیپ ٹاپ لے گئے اور پولیس کو اس کے بعد بلوایا گیا‘ کامران فیصل کا وزن اسی کلو گرام سے زیادہ تھا‘ آج کے پنکھے اتنا وزن نہیں سہار سکتے اور اگر پھندا بھی آزار بند کا ہو تو یہ ممکن نہیں۔
خودکشی کرنے والا شخص آخری وقت بری طرح تڑپتا ہے‘ اس تڑپ کی وجہ سے اس کے پائوں کرسی یا میز سے لگ جاتے ہیں یا پھر پنکھا ٹوٹ کر گر جاتا ہے یا اس کے پر ٹیڑھے ہو جاتے ہیں‘ کامران فیصل کے معاملے میں پنکھا سلامت رہا‘ یہ ممکن نہیں‘ ہمارے پنکھے چالیس پچاس کلو سے زیادہ وزن نہیں سہار سکتے‘پولیس کمرے میں پہنچی تو کامران کے پائوں میز پر تھے‘ یہ بھی غیر معمولی صورتحال ہے اور اس کے موبائل پر رات دس بجے کے بعد کوئی کال آئی اور نہ ہی ایس ایم ایس‘ یہ بات بھی غیر معمولی تھی‘ کامران فیصل کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی تھے اور اس کی کلائیوں پر بھی بندش کے نشان تھے‘ کوئی شخص اپنے ہاتھ باندھ کر خودکشی کیسے کر سکتا ہے؟کامران فیصل ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا‘ یہ خودکشی کے ایسے درجنوں طریقے نکال سکتا تھا جن کے ذریعے یہ آسانی سے جان دے سکتا تھا لہٰذا پھر اسے پھندے کا اذیت ناک طریقہ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی اور سب سے بڑھ کر حکومت نے کامران فیصل کی موت کا تعین کرنے کے لیے فوری طور پر اپنی مرضی کا کمیشن بنا دیا‘ حکومت کو کمیشن بنانے کی جلدی کیا تھی؟ اور اس کے لیے جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال ہی کیوں؟ یہ تمام حقائق یہ ثابت کر رہے ہیں دال اتنی بھی صاف نہیں جتنی حکومت اور نیب ثابت کرنا چاہ رہی ہے ۔
ہم اب آتے ہیں کامران فیصل کیوں مارے گئے؟ وجہ بہت سیدھی ہے‘رینٹل پاور پلانٹس میں اربوں روپے دائیں بائیں ہوئے‘ سپریم کورٹ کی کارروائیوں کی وجہ سے ان درجن بھر لوگوں کو شدید مالیاتی نقصان ہوا جو رینٹل پاور پلانٹس سے کروڑ روپے روزانہ کما رہے تھے‘ یہ لوگ اس وقت زخمی سانپ کی طرح لوٹ رہے ہیں چنانچہ یہ ہر اس شخص کو ڈسنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا قدم ان کے مفادات کی دم پر آیا‘ یہ لوگ کون ہیں اور ان کے ساتھ کون کون ملا ہوا ہے یہ جاننے کے لیے ہمیں گھڑی کی سوئیوں پر نظریں جما کر بیٹھنا ہو گا لیکن یہ طے ہے یہ لوگ اپنے آپ اور اپنے سرمائے کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور کامران فیصل اس حد کا پہلا شکار تھے‘ رینٹل پاور پلانٹس‘ ایل پی جی اور سی این جی کے چشمے سے فیضیاب ہونے والوں نے مافیا قائم کر رکھا ہے‘ یہ مافیا لوگوں کو ڈرا بھی رہا ہے‘ قتل بھی کر رہا ہے اور خریدنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔
رینٹل پاور پلانٹس کیس میں مخدوم فیصل صالح حیات اور خواجہ محمد آصف نے مرکزی کردار ادا کیا‘ فیصل صالح حیات نے حکومت میں شامل رہتے ہوئے راجہ پرویز اشرف کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی‘ یہ معاملے کو عدالت تک بھی لے کر گئے اور یہ اپنے اس اصولی موقف کی وجہ سے راجہ پرویز اشرف کی کابینہ میں بھی شامل نہیں ہوئے‘ خواجہ محمد آصف نے بھی کردار اور بہادری کا مظاہرہ کیا‘ یہ سپریم کورٹ گئے اور انھوں نے حقائق کے ذریعے قوم اور کورٹ کی آنکھیں کھول دیں‘ رینٹل پاور پلانٹس کارٹل خواجہ آصف کو خاموش کرنے کے لیے 5 ملین ڈالر کی پیشکش کررہے ہیں‘ یہ پچاس کروڑ روپے بنتے ہیں مگر خواجہ محمد آصف نے انھیں جواب تک دینا پسند نہیں کیا‘ یقیناً فیصل صالح حیات کی بولی بھی لگ رہی ہو گی اور میرا خیال ہے فیصل صالح حیات بھی عصر کے وقت روزہ توڑنے کی غلطی نہیں کریں گے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ طاقتور لوگ اس انکار کے بعد خاموش رہیں گے‘ میرا خیال ہے نہیں کیونکہ یہ لوگ اگر کامران فیصل کو انکار کی سزا دے سکتے ہیں تو یہ اپنے مفادات ہاتھیوں کے منہ سے گنا چھیننے کے جرم میں فیصل صالح حیات اور خواجہ آصف کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں‘ چنانچہ فیصل صالح حیات اور خواجہ آصف دونوں کو اپنی سیکیورٹی بڑھا دینی چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے خطرہ اب ان کی طرف بڑھ رہا ہو‘ یہ ظالم لوگ ہیں‘ یہ الیکشن سے قبل اس کیس کا فیصلہ نہیں ہونے دیں گے‘ خواہ انھیں کچھ بھی کرنا پڑے‘ جی ہاں ’’ کچھ بھی‘‘۔

چلانے کے لیے بھی اکٹھے ہوجائیں
جاوید چوہدری پير 21 جنوری 2013
یہ بودھ مت کی قدیم کہانی ہے اور یہ کہانی صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سمیت دنیا کے ہر اس لیڈر کے لیے لکھی گئی جو زندگی میں سیدھے کان کو الٹے ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور آخر میں کان بچتا ہے اور نہ ہی ہاتھ اور اس کے ساتھ نام اور عہدہ بھی تاریخ کے کباڑ خانے میں گم ہو جاتا ہے‘ بودھوں کا ایک بزرگ لکڑی کے خشک تنے پر بیٹھ کر عبادت کر رہا تھا‘ گیان کے اس عالم میں اسے بیس سال گزر گئے ‘ ان بیس برسوں میں اس پر بارشیں بی برسیں‘ اسے برف نے بھی ڈھانپا‘ اس کے دائیں بائیں جنگلی بوٹیاں‘ جھاڑیاں اور بیلیں بھی اگیں‘ وہ خزاں کا شکار بھی ہوا اور اس پر تپتی دوپہریں اور گرم دنوں کی گرمیاں بھی اتریں مگر وہ اسی جگہ بیٹھ کر گیان کرتا رہا‘ ایک دن ایک دنیا دار کا وہاں سے گزر ہوا‘ اس نے بودھ بزرگ کو دیکھا‘ اس کا انہماک دیکھ کر حیران ہوااور لوگوں سے پوچھا ’’ یہ بزرگ یہاں کیوں بیٹھے ہیں‘‘ لوگوں نے بتایا ’’ یہ بیس سال سے اس خشک تنے پر بیٹھ کر عبادت کر رہے ہیں‘ ان کا خیال ہے اللہ تعالیٰ جس دن ان کی عبادت سے خوش ہو گا اس دن یہ خشک تنا ہرا ہو جائے گا‘‘ وہ دنیا دار شخص بزرگ سے بہت متاثر ہوا‘ اس نے ان کے ہاتھوں کو بوسا دیا‘ اپنا گھر بار چھوڑا‘ خشک لکڑی کا تنا لیا اور بزرگ سے چند فٹ کے فاصلے پر رکھ کر بیٹھ گیا اور عبادت شروع کر دی۔
اسے بیٹھے ہوئے چند دن گزرے تھے کہ اس نے شور سنا‘ اس نے سر اٹھا کر دیکھا‘ سامنے ندی میں چھ سات برس کی ایک بچی ڈوب رہی تھی اور بچی کی رشتے دار خواتین مدد کے لیے چلا رہی تھیں‘ دنیا دار شخص کا دل تڑپ اٹھا‘ اس نے بزرگ کو بچی کی طرف متوجہ کیا اور عرض کیا ’’ حضور ہمیں بچی کو بچانا چاہیے‘‘ بزرگ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا‘ منہ پر انگلی رکھی اور کہا ’’ یہ بچی بچی نہیں‘ یہ دنیا کے وہ فریب ہیں جو ہماری توجہ خدا سے بھٹکا رہے ہیں‘ تم خدا سے لو لگائو اور صرف اور صرف عبادت پر دھیان دو‘‘ دنیا دار نے آنکھیں بند کیں اور دوبارہ گیان میں گم ہو گیا لیکن بچی کی چیخوں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا‘ اس نے گیان توڑا‘ اپنی جگہ سے اٹھا‘ دوڑتا ہوا ندی تک گیا‘ پانی میں چھلانگ لگائی‘ بچی کو باہر نکالا‘ اسے ماں کے حوالے کیا اور واپس گیان میں ڈوب گیا‘ اسے اچانک اپنے دائیں بائیں سرسراہٹ محسوس ہوئی‘ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں تو وہ حیران رہ گیا‘ اس کی خشک لکڑی پر سیکڑوں کونپلیں پھوٹ چکی تھیں‘ اس کی تمنا کا خشک تنا سبز ہو چکا تھا‘ اس نے پریشان ہو کر بیس سال سے گیان میں ڈوبے بزرگ کی طرف دیکھا‘ وہ ابھی تک اپنے گیان کو خدا سے جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا ‘ دنیا دار شخص نے قہقہہ لگایا‘ اپنا تھیلا اٹھایا اور دنیا داری میں واپس چلا گیا۔
یہ کہانی میاں نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری سمیت دنیا کے ہر اس لیڈر کے لیے مشعل راہ ہے جو جمہوریت کی خشک لکڑی کو صرف گیان سے ہرا کرنا چاہتے ہیں‘ جمہوریت دنیا کا بہترین سسٹم ہے‘ انسان دس ہزار سال کی دن رات کی محنت کے بعد اس سسٹم تک پہنچا‘ یہ سسٹم دنیا کے 245 میں سے دو سو ملکوں میں رائج ہے جب کہ باقی 45 ملکوں میں جمہوریت کی جنگ جاری ہے‘ دنیا میں جس طرح پانی ‘ہوا اور سبزا بُرا نہیں ہوتا بالکل اسی طرح جمہوریت بھی بری نہیں ہو سکتی مگر اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے جمہوریت ہمیشہ اس ڈوبتی ہوئی بچی کو بچانے سے شروع ہوتی ہے جو آپ کے سامنے پانی میں غوطے لے رہی ہے ‘ آپ صرف جمہوریت کی مالا جپ کر مرادوں کی شاخ ہری نہیں کر سکتے‘ آپ کی اپروچ‘ آپ کا طریقہ کار غلط ہے اور آپ اگر اس طرح مزید 65 سال بھی عبادت کرتے رہے تو بھی آپ کی شاخ ہری نہیں ہو گی‘ بات بہت سیدھی اور سادی ہے‘ علامہ طاہر القادری 13 جنوری کو لانگ مارچ لے کر نکلے‘ یہ 14جنوری کو وفاقی دارالحکومت پہنچے اور 17 جنوری تک اسلام آباد میں رہے‘ ان پانچ دنوں نے قیادت کو گھبرا دیا چنانچہ میاں نواز شریف نے رائے ونڈ میں اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دی اور صدر آصف علی زرداری نے اتحادی جماعتوں کا اجلاس بلا لیا‘ اپوزیشن کی 10 جماعتوں کا 16جنوری کو اجلاس ہوا اور ان جماعتوں نے شام کے وقت دس نکاتی ایجنڈے کا اعلان کر دیا۔
یہ اپوزیشن جماعتوں کا جمہوریت کے حق میں اعلان جہاد تھا‘ حکومت کے اتحادیوں نے بھی یہی فیصلہ کیا اور یوں حکومت اور اپوزیشن کا جمہوری جہاد ایک نقطے پر جمع ہو گیا اور یہ متفقہ نقطہ آگے چل کر لانگ مارچ کے خاتمے کا باعث بنا‘ یہ جمہوری جہاد ثابت کرتا ہے اگر میاں نواز شریف جمہوریت بچانے کے لیے ان تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے گھر جمع کر سکتے ہیں جو عام حالات میں ایک دوسرے سے سلام تک لینا پسند نہیں کرتیں‘ اگر صدر آصف علی زرداری حکومت کے خاتمے کے قریب پہنچ کر بھی اپنے ان اتحادیوں کو ایک نقطے پر اکٹھا بٹھا سکتے ہیں جو اگلے الیکشن کے لیے نئے اتحادیوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں تو کیا یہ لوگ جمہوریت چلانے کے لیے اکٹھے نہیں ہو سکتے؟ یہ جمہوریت کو ثمر آور اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے اکٹھے نہیں ہوسکتے؟ یہ بجلی‘ گیس‘ روز گار‘ دہشت گردی‘ انڈسٹری‘ کرنسی کے استحکام‘ قومی یکجہتی اور تعلیم کے لے اکٹھے نہیں ہوسکتے؟ یہ اگر مل کر جمہوریت بچا سکتے ہیں تو کیایہ مل کر جمہوریت نہیں چلا سکتے؟ اگر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں ہم جمہوریت کے خلاف ہر اقدام کا مل کر مقابلہ کریں گے تو کیا یہ لوگ یہ فیصلہ نہیں کرسکتے۔
ہم میں سے جس شخص نے ٹیکس بچایا یا ٹیکس چھپایا ہم اسے پارٹی اور سیاست دونوں سے فارغ کر دیں گے‘ ہم میں سے جس نے میرٹ کی خلاف ورزی کی‘ جس نے قانون توڑا‘ جس نے دہری شہریت لی‘ جس نے اپنا سرمایہ اور اپنے بچے ملک سے باہر سیٹل کرائے‘ جس نے تیسری بار پارٹی کی قیادت سنبھالی‘ جس نے پارٹی قیادت اپنے خاندان کے اندر رکھنے کی کوشش کی‘ جس نے غلط ایف آئی آر کٹوائی‘ جس کے خلاف سچا مقدمہ قائم ہوا‘ جس نے کرپشن کی‘ جس نے قرضہ معاف کیا‘ جس نے ایفی ڈرین کا کوٹہ بیچا‘ جس نے رینٹل پاور پلانٹس میں کمیشن کھایا‘ جس نے این آئی سی ایل کے پیسے لوٹے‘جس نے میمو لکھا‘ جس نے ریلوے‘ پی آئی اے اور اسٹیل مل برباد کی‘ جس نے عدنان خواجہ اور توقیر صادق جیسے لوگوں کو تعینات کیا‘ جس نے عدالت کا فیصلہ نہ مانا‘ جس کی غلط پالیسی کی وجہ سے سستی روٹی جیسے منصوبے تباہ ہوئے‘ جس نے امریکا کو ڈرون حملوں کی اجازت دی اور جس نے نااہل لوگوں‘ جعلی ڈگری ہولڈروں اور دہری شہریت کے مالک امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہم ان تمام لوگوں کو سیاست اور پارٹی سے فارغ کر دیں گے اور کوئی سیاسی جماعت اس کے بعد انھیں اپنی پارٹی میں شامل نہیں کرے گی‘ کیا یہ لوگ مل کر کشمیر کے مسئلے‘ افغانستان کے ساتھ ایشوز اور ایران کے ساتھ تنازعوں کا کوئی حل تلاش نہیں کر سکتے؟ کیا یہ لوگ ملک کے لیے پچیس سال کا معاشی روڈ میپ تشکیل نہیں دے سکتے اور کیا یہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کا کوئی ٹھوس حل تلاش نہیں کر سکتے؟ یہ لوگ اگر جمہوریت کی پرفارمنس ‘ یہ جمہوریت کے سقم دور کرنے ‘ یہ اپنی اپنی ٹوکری کے گندے انڈے نکالنے اور ملکی نظام کی خرابیاں دور کرنے کے لیے اکٹھے ہونے کے بجائے صرف اور صرف علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ پر اکٹھے ہوں گے تو کیا یہ خود کو لوگوں سے مزید دور کر لیں گے‘کیا لوگ انھیں ایسا مفاد پرست نہیں سمجھیں گے جو عام حالات میں ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں لیکن جوں ہی ان کے اجتماعی مفاد کو نقصان پہنچنے لگتا ہے تو یہ ذاتی اختلافات بھلا کر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ جمہوریت وہ خشک لکڑی ہے جو صرف اس وقت ہری ہوتی ہے جب جمہوریت زادے عام انسانوں کو بچانے کے لیے اپنی کرسی چھوڑ دیتے ہیں‘یہ ایسا خشک تنا ہے جس سے نعروں اور دعوئوں سے کونپلیں نہیں نکلتیں‘ اس کے لیے عام آدمی پر رحم کھانا پڑتا ہے‘ میاں صاحب اور زرداری صاحب نے جمہوریت بچالی‘ انھیں اب جمہوریت چلانے کے لیے بھی اکٹھا ہونا چاہیے ورنہ دوسری صورت میں جمہوریت کے خشک تنے میں پنپنے والی دیمک انیںں بھی چاٹ لے گی‘ یہ بھی آہستہ آہستہ لکڑی کے ساتھ ختم ہو جائیں گے۔
آسان ترین
جاوید چوہدری ہفتہ 19 جنوری 2013
کل ایک عالم دین سے گفتگو ہو رہی تھی‘ بات دوران گفتگو اسلام کی نشر واشاعت کی طرف نکل گئی‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ نبی اکرمؐ دنیا کے واحد نبی ہیں جنھوں نے زندگی میں اپنے دین کو پھیلتے دیکھا‘ آپؐ نے صرف 23 سال تبلیغ کی‘ تیرہ سال مکہ اور دس سال مدینہ‘ ہم اگر اس عرصے کا باقی انبیاء کرام کے عرصہ تبلیغ سے موازنہ کریں تو ہمیں یہ مدت بہت کم لگے گی لیکن اس عرصے میں اسلام نہ صرف پورے حجاز میں پھیل چکا تھا بلکہ یہ دوسری مملکتوں کے دروازوں پر بھی دستک دے رہا تھا‘ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں اور گورنرز تک نبی اکرم ؐ کے خطوط پہنچ چکے تھے‘ آپؐ کے صحابہؓ کی تعداد اس قدر بڑھ چکی تھی کہ آخری خطبہ شروع ہوا تو لوگوں تک آواز نہیں پہنچ رہی تھی چنانچہ بلند آواز کے مالک صحابہؓ بات سنتے‘ اونچی آواز میں دہراتے اور یوں یہ پیغام آخری قطار تک پہنچتا جب کہ آپؐ کے مقابلے میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء پچاس‘ ساٹھ‘ ستر اور سو سال تک تبلیغ کرتے رہے لیکن اکثر کے گھر والے بھی حلقہ بگوش نہیں ہو سکے۔
بنی اسرائیل حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی میں مذہب سے منحرف ہوئے‘ حضرت عیسیٰ ؑ کی پوری تبلیغ کے نتیجے میں صرف گیارہ لوگ سامنے آئے‘ حضرت ابراہیم ؑ‘ حضرت لوط ؑ اور حضرت ذکریا ؑ ہمارے سامنے ایسے ہزاروں انبیاء کی مثال موجود ہے جن کی اکثریت اپنی امت کوپھلتے پھولتے نہیں دیکھ سکی لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات میں اسلام کو حجاز سے عجم کی طرف جاتے دیکھا۔ ’’ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے‘‘ میرے عالم دین نے اسے نبی اکرمؐ کا معجزہ قرار دیا‘ میں نے ان سے اتفاق کیا لیکن عرض کیا اللہ کا ہر نبی معجزوں کا مالک تھا اور اگر گستاخی نہ ہو تو ان کے پاس عقل کو حیران کر دینے والے معجزے تھے جب کہ ان کے مقابلے میں نبی اکرمؐ نے کسی مردے کو زندہ نہیں کیا‘ اپنے عصا کو سانپ نہیں بنایا‘ سمندر کو دو حصوں میں تقسیم نہیں کیا‘ پرندوں کے قیمے کو دوبارہ پرندہ نہیں بنایا اور آپ ؐ نے دنیا کی سب سے بڑی کشتی بھی نہیں بنائی‘ ہمارے رسولؐ نے انکساری‘ عجز‘ برداشت اور محبت کی زندگی گزاری‘ اگر معجزے اسلام کے پھیلاؤ کی واحد وجہ ہوتے تو عیسائیت اور یہودیت اسلام سے زیادہ تیزی سے پھیلتی اور اگر گستاخی نہ ہو تو شاید شاید اسلام کی ضرورت ہی نہ پڑتی‘ انھوں نے فرمایا ’’ یہ مذہب انسان کی فطرت کے قریب تھا‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’ اللہ تعالیٰ کا ہر پیغام‘ ہر مذہب انسان کی فطرت کے قریب تھا‘ اللہ تعالیٰ کی ذات ارتقاء سے بالاتر ہے‘ اگر اللہ تعالیٰ نے بھی (نعوذ باللہ) غلطیوں سے سیکھنا ہے‘ اپنی اصلاح کرنی ہے اور طویل ارتقائی عمل سے گزر کر اسلام تک پہنچنا ہے تو پھر انسان اور اللہ تعالیٰ میں کیا فرق رہا؟ یہ سوچ توہین خدا ہے‘ ہمارا اللہ اور اس کا پیغام قطعی ہے چنانچہ حضرت آدم ؑ سے لے کر نبی اکرمؐ تک اللہ کا پیغام ایک ہی تھا‘ اس میں بال برابر فرق نہیں آیا‘‘۔
مولانا نے اتفاق کیا اور فرمایا ’’ آپ بتا دیجیے‘ ہم وقت کیوں ضایع کریں‘‘ میں نے عرض کیا ’’ حضور یہ دنیا کا آسان ترین دین تھا‘ دنیا میں اس سے آسان دین ہو نہیں سکتا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے اسے آخری دین بھی قرار دے دیا‘‘ مولانا نے فرمایا ’’ کیسے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’ مثلاً آپ نے اگر یہودی ماں کے بطن سے جنم نہیں لیا تو آپ یہودی نہیں ہو سکتے‘ آپ اگر ابراہیمی ہیں تو آپ کی پوری زندگی عبادت و ریاضت میں گزرے گی‘ آپ اگر عیسائی مبلغ یا مبلغہ ہیں تو آپ اپنی زندگی چرچ کی چار دیواری سے بیاہنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ آپ شادی نہیں کر سکیں گے‘ آپ عام عیسائی ہیں تو آپ دوسری شادی نہیں کر سکیں گے‘ بیوہ بیوہ ہونے کے بعد مرنے تک خاوند کے بغیر زندگی گزارے گی‘ آپ اگر بودھ ہیں تو زندگی کی نوے فیصد لذتیں آپ پر حرام ہو جاتی ہیں‘ آپ سردی ہو یا گرمی دو چادروں میں زندگی گزارتے ہیں‘ لکڑی کی چپل پہنتے ہیں اور مانگ کر کھانا کھاتے ہیں‘ آپ اگر ہندو ہیں تو برہمن کا بیٹا پنڈت ہو گا ‘ آپ اگر بدقسمتی سے شودر پیدا ہو گئے تو آپ دنیا کے نیک ترین شخص بننے کے بعد بھی برہمنوں کے مندر میں داخل نہیں ہوسکیں گے‘ آپ اوتار بن سکتے ہیں لیکن آپ پنڈت نہیں بن سکیں گے اور آپ پتھر کی مورتی کے سامنے آگ جلائے بغیر عبادت نہیں کر سکیں گے جب کہ اس کے مقابلے میں اسلام آسان ترین دین ہے‘ اس دین کو بادشاہ بھی قبول کر سکتا ہے اور غلام بھی اور یہ دونوں کلمہ پڑھنے کے بعد برابر ہو جاتے ہیں۔
آپ عیسائی ماں کے بطن سے جنم لیں یا یہودی‘ بودھ‘ ہندو یا لادین ماں کے بچے ہوں‘ آپ کسی بھی وقت اسلام قبول کر سکتے ہیں اور کوئی آپ سے آپ کا بیک گرائونڈ نہیں پوچھے گا‘ اسلام دنیا کا واحد دین ہے جس میں کوئی چیز حلال نہیں اور کوئی حرام نہیں‘ تمام حلال اور حرام صورتحال (کنڈیشن) ہیں‘ آپ روزہ سے ہیں تو آپ پر دنیا کے تمام حلال حرام ہو جاتے ہیں اور آپ اگر زندگی اور موت کی کشمکش سے گزر رہے ہیں تو دنیا کے تمام حرام آپ پر حلال ہو جاتے ہیں‘ یہ دنیا کا واحد دین ہے جس کے لیے کوئی خاص حلیہ‘ کوئی خاص نسل‘ کوئی خاص زبان اور کوئی خاص شہریت نہیں چاہیے‘ آپ ہر حلیے میں مسلمان ہو سکتے ہیں اور کوئی شخص آپ کی مسلمانیت کینسل نہیں کر سکتا‘ یہ دنیا کا واحد دین ہے جس میں عبادت کے لیے عبادت گاہ لازم نہیں‘ آپ مسجد اور مسجد سے باہر کسی بھی جگہ نماز ادا کر سکتے ہیں‘ حج مشکل عبادت ہے چنانچہ یہ صرف ایک بار فرض ہے اور وہ بھی اس شخص کے لیے جو حیثیت رکھتا ہو‘ آپ مقروض ہیں‘ آپ بیمار ہیں‘ آپ پر اہل خانہ کی کفالت کا بوجھ ہے یا پھر آپ کسی سخت گیر شخص کے ملازم یا غلام ہیں تو آپ پر حج ساقط ہو جاتا ہے‘ آپ اپنی صورتحال کے مطابق نماز کے اوقات اور رکعتوں میں بھی کمی کر سکتے ہیں‘ آپ قضا پڑھ سکتے ہیں‘ آپ سفر کے دوران رکعتیں کم کر سکتے ہیں‘ پانی موجود نہ ہو تو تیمم کر سکتے ہیں‘ کعبے کی سمت معلوم نہ ہو تو گمان سے سمت طے کر سکتے ہیں‘ آپ اکیلے ہیں تو اکیلے نماز ادا کر سکتے ہیں‘دو یا تین ہیں تو کسی بھی مسلمان شخص کو اپنا امام بنا کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔
آپ کے اعمال تین حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں‘ گناہ‘ حرام اور جرم‘ ان تینوں اعمال میں دو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھ لیے جس کے بعد آپ کے اعمال کا 66 فیصد حصہ آپ اور اللہ تعالیٰ کا معاملہ بن گیا‘ آپ گناہوں پر معافی مانگیں‘ توبہ کریں‘ اللہ تعالیٰ آپ کا حساب زیرو کر دیتا ہے‘ آپ حرام پر بھی اللہ سے توبہ کریں‘ آئندہ باز رہنے کا وعدہ کریں‘ اللہ تعالیٰ یہ بھی معاف کر دیتا ہے اور باقی رہ گئے جرم تو اس میں بھی تعزیرات سے قبل معافی‘ نقصان کے ازالے اور خون بہا جیسی دفعات شامل کر دی گیںت‘ چور سامان واپس کر کے مدعی سے معافی مانگ سکتا ہے‘ قاتل خون بہا دے کر معافی لے سکتا ہے اور پیچھے رہ گیا زنا تو اس کی بعض حالتوں میں دونوں فریقوں کے نکاح سے سزا ٹل جاتی ہے جب کہ اسلام کے مقابلے میں دوسرے تمام مذاہب ان معاملات میں بے لچک ہیں‘ آپ چرچ‘ سینا گوگا اور مندر کے بغیر عبادت نہیں کر سکتے‘ ان میں پنڈت‘ ربی اور پادری کے بغیر عبادت نہیں ہوتی‘ ان میں گناہ اور حرام بھی جرم ہیں اور ان کی کڑی سزائیں ہیں‘ آپ دوسری شادی نہیں کر سکتے اور پہلی بھی پادری اور پنڈت کی موجودگی میں ہو گی‘ آپ مذہب تبدیل نہیں کر سکتے‘ آپ کو خاص حلیہ رکھنا پڑتا ہے اور آپ اگر حلیہ بدلتے ہیں تو آپ مذہب کے دائرے سے نکل جاتے ہیں چنانچہ یہ مذاہب انسان کے لیے مشکل ہیں۔
میں نے عرض کیا جب کہ اسلام ان کے مقابلے میں آسان ترین ہے‘ یہ مذہب بنیادی طور پر لوگوں کی اجتماعی دعائوں کا نتیجہ تھا‘ اللہ تعالیٰ انسانوں پر مذاہب اتارتا رہا‘ لوگ ان پر اعتراض کرتے رہے‘ ان کی سختیوں کی وجہ سے ان سے بھاگتے رہے‘ اللہ تعالیٰ سے شکوے کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک دن یہ سارے شکوے سن لیے‘ انسانوں پر مہربانی کی اور دنیا میں اسلام جیسا آسان دین بھجوا دیا اور ساتھ ہی فرمایا‘ یہ آخری دین اور آخری نبیؐ ہیں کیونکہ ان سے اچھا‘ حلیم‘ شائستہ اور انسان دوست نبی کوئی اور نہیں ہو سکتا اور اسلام سے زیادہ آسان دین بھی ممکن نہیں چنانچہ میں اس کے بعد مذہب اور نبوت دونوں کا سلسلہ بند کر رہا ہوں‘ تم اگر اس کے بعد بھی میرے نہیں بنتے‘ تم مجھے نہیں پہچانتے تو پھر تمہارا اور میرا راستہ جدا ہے اور اس پیغام کے ساتھ ہی اپنے ظرف کو حشر تک وسیع کر دیا‘ انسان کو قیامت تک کا وقت دے دیا‘ آپ پچھلے چودہ سو سال کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے‘ اللہ تعالیٰ نے پچھلے چودہ سو سال میں کسی قوم کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹایا‘ کسی قوم پر کوئی ایسا عذاب نہیں اترا جس میں وہ پوری قوم ختم ہو گئی ہو لیکن ہم نے۔۔۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’ لیکن ہم نے دنیا کے آسان ترین دین کو نہ صرف مشکل بنا دیا بلکہ ہم اسے مشکل ترین بناتے جا رہے ہیں اور میرا خیال ہے اگر اللہ تعالیٰ نے کبھی اپنے عذاب کی پالیسی پر نظر ثانی کی تو یہ ان تمام لوگوں کو غرق کر دے گا جو اس کے بندوں اور اس کے درمیان حائل ہو رہے ہیں اور جنھوں نے سیدھے سادے پیغام کو دوبارہ مشکل بنا دیاتھا۔
یہ الارم تھا لانگ مارچ نہیں
جاوید چوہدری جمعرات 17 جنوری 2013
رات کے پچھلے پہر میری آنکھ کھل گئی‘ کمرے میں شدید سردی تھی‘ شاید گیس کے پریشر میں کمی کی وجہ سے ہیٹنگ سسٹم بند ہو گیا تھا‘ کھڑکی کے باہر کہرا اور دھند تھی‘ سردی کی شدت سے کتے بھی لان کے کونوں میں دبک گئے تھے‘ میں نے الماری سے دوسرا کمبل نکالا‘ دو کمبل جوڑ کر اوپر لے لیے‘ پھر اچانک بچوں کا خیال آیا‘ میں بچوں کے کمروں میں گیا‘ ان کی الماریوں سے بھی کمبل نکالے اور ان کے اوپر بھی کمبل ڈال دیے‘ میں واپس بیڈ روم میں آیا‘ گرم جرابیں پہنیں اور دہرے کمبل میں گھس گیا‘ میں ایک بار پھر نیند کی سرحد پر پہنچ گیا لیکن پھر اچانک خیال آیا اور میں کمبل اتار کر ٹھنڈے کمرے میں پھرنے لگا‘ مجھ سے دوکلو میٹر کے فاصلے پر اس سرد رات میں ہزاروں لوگ کھلے آسمان کے نیچے پڑے تھے‘ ان لوگوں میں خواتین بھی تھیں‘ چھوٹے معصوم بچے بھی‘ ضعیف مرد بھی اور نوجوان بھی‘ یہ ہزاروں لوگ ٹھنڈی سڑک پر‘ بے مہر موسم میں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں اور انھیں کمبل دینے والا بھی کوئی نہیں تھا‘ میں جوں جوں سوچتا جاتا میری ریڑھ کی ہڈی ٹھنڈی ہوتی چلی گئی‘ مجھے اپنے آپ سے گھن آنے لگی اور میں خود کو اس استعماری‘ ظالمانہ اور بے حس نظام کا حصہ محسوس کرنے لگا۔
مجھے علامہ طاہر القادری کی شخصیت سے ہزاروں اختلافات ہیں‘ ہم ان کی کینیڈین شہریت پر بھی انگلی اٹھاتے ہیں‘ ہم ان کے بیانات کے تضادات پر بھی تنقید کرتے ہیں لیکن جہاں تک ان کے لانگ مارچ اور دھرنے کا معاملہ ہے علامہ طاہر القادری اس میں ٹھیک بھی ہیں اور کامیاب بھی۔ وقت نے ثابت کر دیا یہ لانگ مارچ علامہ طاہر القادری کی سولو فلائٹ تھی‘ اس کے پیچھے فوج اور عالمی طاقتیں نہیں تھیں‘ اگر فوج ان کے پیچھے ہوتی تو ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ ق کبھی ان کا ساتھ نہ چھوڑتیں اور اسٹیبلشمنٹ کی چند دوسری جماعتیں بھی ان کی تحریک کو جوائن کر لیتیں‘ ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ ق دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح شروع میں اس غلط فہمی کا شکار تھیں کہ فوج اور عالمی کھلاڑی علامہ کے ساتھ ہیں چنانچہ یہ دونوں جماعتیں والہانہ انداز سے ان کی طرف بڑھیں اور آخری دم تک ان کا ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا لیکن لانگ مارچ کے قریب پہنچ کر انھیں اندازہ ہوا ملکی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ میں علامہ اکیلے ہیں چنانچہ پاکستان مسلم لیگ ق نے مذاکراتی کوٹ پہن لیا جب کہ ایم کیو ایم دہشت گردی کا بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ گئی۔
تجزیہ کاروں اور حکومتی دانشوروں نے اس سیاسی تبدیلی پر بغلیں بجانا شروع کر دیں‘ ان کا خیال تھا علامہ اب لانگ مارچ نہیں کر سکیں گے‘ پنجاب حکومت بھی ایکٹو ہو گئی‘ پنجاب بھر کے ڈی سی اوز نے بسیں روک لیں‘ تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کو گرفتار کر لیا اور راستے بند کر دیے‘ وفاقی حکومت نے دہشت گردی کے خوف کو لانگ مارچ کی رکاوٹ بنا دیا لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر طاہر القادری لاہور سے نکلے‘ ان کے ساتھ لوگ بھی چلے‘ یہ لوگ اسلام آباد بھی پہنچے اور انھوں نے خواتین اور بچوں کے ساتھ شدید سردی میں چار دن دھرنا بھی دیا‘ پاکستان میں اس سے قبل ایسی مثال نہیں ملتی‘ ہمیں اس پر علامہ طاہر القادری کو داد دینا ہو گی‘ علامہ صاحب کے دھرنے کے دوران کسی غیر ملکی اور کسی عالمی تنظیم نے بھی ان کی تحریک کے حق میں بیان نہیں دیا‘ آپ اس کے مقابلے میں تیونس‘ مصر‘ لیبیا اور شام کی تحریکوں کی مثال لے لیجیے‘ ان ممالک میں جب عوام سڑکوں پر آئے یا انھوں نے دھرنا دیا تو یورپ اور امریکا نے ان دھرنوں کو سراہنا شروع کر دیا‘ حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں نے بھی ان کے حق میں بیانات جاری کیے ‘ یہ ستائش اور ان بیانات نے ثابت کیا ان چاروں ممالک میں ہونے والی ’’ اپ رائزنگ‘‘ کو امریکا اور یورپ کی حمایت حاصل تھی لیکن علامہ کے معاملے میں یورپی ممالک بھی خاموش رہے اور عالمی تنظیمیں بھی۔ یہ خاموشی ثابت کرتی ہے علامہ کو عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل نہیں تھی‘ ہم اب آتے ہیں علامہ کے مطالبات کی طرف۔ علامہ طاہر القادری کے مطالبات غلط نہیں ہیں‘ یہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے مطالبات ہیں‘ میاں نواز شریف بھی چار پانچ سال سے یہی مطالبات کر رہے ہیں‘ پاکستان تحریک انصاف کا موٹو بھی یہی ہے‘ ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ ق بھی یہی مانگ رہی تھی اور پاکستانی عوام بھی یہی مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔
کیا یہ سچ نہیں پاکستان کے موجودہ الیکشن سسٹم سے صرف کرپٹ‘ طاقتور‘ ان پڑھ اور قبضہ گروپ پارلیمنٹ تک پہنچتے ہیں‘ کیا یہ درست نہیں انتخابات کے دوران صرف وہ امیدوار سامنے آتے ہیں جو آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر پورے نہیں اترتے اور جب ان کی اہلیت پر اعتراض کیا جاتا ہے تو اسمبلیوں کی مدت ختم ہو جاتی ہے لیکن ان کے خلاف فیصلہ نہیں ہوتا‘ حالت یہ ہے الیکشن کمیشن آج تک ان امیدواروں کے بارے میں فیصلے نہیں دے سکا جو 2002ء میں منتخب ہوئے تھے‘ وہ اسمبلیاں 2007ء میں مدت پوری کر کے ختم ہو گئیں‘ جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز تاریخ کا حصہ بن گئے لیکن امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا‘ کیا یہ درست نہیں الیکشن کمیشن اور نگران حکومت دو بڑی سیاسی جماعتوں کا مک مکا ہے ‘ پیپلز پارٹی اور ن لیگ فیصلہ کرے گی نگران وزیراعظم کون ہو گا اور الیکشن کمیشن کے چار ارکان کا فیصلہ بھی انھوں نے کیا اور کیا یہ درست نہیں حکومت اپنی رٹ کھو چکی ہے‘ کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی کو انصاف کے لیے 86 نعشیں سڑک پر رکھ کر چار دن تک دھرنا دینا پڑتا ہے اور باڑہ میں مارے جانے والے 19 لوگوں کے لواحقین نعشیں لے کر گورنر ہائوس کے سامنے پہنچ جاتے ہیں اور انھیں منتشر کرنے کے لیے پولیس اور ایف سی ہوائی فائرنگ بھی کرتی ہے اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی‘ ملک میں بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ روزگار‘ امن‘ تحفظ اور انصاف دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئی ہیں مگر حکومت بے حسی کا کمبل لپیٹ کر مزے سے سو رہی ہے چنانچہ علامہ طاہر القادری کی کون سی بات غلط تھی۔
یہ درست ہے علامہ طاہرالقادری کا ماضی ٹھیک نہیں‘ یہ ماضی میں سیاسی غلطیاں کرتے رہے اور یہ کینیڈین نیشنل بھی ہیں لیکن کیا ہم ان کی غلطیوں کی وجہ سے ان کے ٹھیک موقف کو بھی رد کر دیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ان کا لانگ مارچ اور دھرنا دونوں پرامن تھے اور ان کی بات پورے ملک نے چار چار گھنٹے سنی‘ میں خود دوبار ان کے دھرنے میں گیا‘ میں نے لوگوں سے گفتگو بھی کی اور مجھے ماننا پڑا دھرنے میں علامہ کے مریدوں اور طالب علموں کے علاوہ وہ عام لوگ بھی شامل تھے جنھیں ان کے دکھ اس جلسہ گاہ تک لے آئے‘ یہ عام لوگ بھی علامہ کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے‘ یہ لوگ اور ان کے نعرے ثابت کرتے ہیں لوگ موجودہ نظام سے مایوس ہو چکے ہیں اور ہم نے اگر اس نظام کو ٹھیک نہ کیا تو اس قسم کے لانگ مارچ ہوتے رہیں گے اور ہر آنے والا لانگ مارچ پہلے سے زیادہ بے لچک‘ ضدی اور شدت پسند لوگوں کو سامنے لائے گا‘ آپ تصور کیجیے کل اگر ایسے لوگ باہر آ گئے جو شناختی کارڈ چیک کر کے گولی مارنا عین عبادت سمجھتے ہیں تو ملک کی کیا صورتحال ہو گی‘ ہم اس لانگ مارچ سے اس خطرے کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں‘ مجھے خدشہ ہے اگر وہ لوگ آئے تو عوام ان کے ساتھ بھی شامل ہو جائیں گے اور وہ لانگ مارچ علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ کی طرح پرامن نہیں ہو گا۔
یہ لانگ مارچ کتنا کامیاب تھا اس کے لیے میں ذاتی زندگی سے دو مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘ میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات خود کمبل چھوڑ کر بیٹھ گیا اور خود کو مجرم سمجھنے لگا‘ مجھے اس ایک لمحے نے لانگ مارچ میں شامل ہر بچے اور ہر خاتون کا مجرم بنا دیا‘ مںھ بزدل شخص ہوں‘ اگر میں تھوڑا سا بہادر ہوتا تو میں اپنے دونوں کمبل لے کر اسی وقت دھرنے میں شامل ہو جاتا کیونکہ مں نے اس وقت اندازہ لگایا یہ علامہ طاہر القادری کا دھرنا نہیں یہ پاکستان کے ہر شہری کا دھرنا تھا اور ہر شہری کو اس دھرنے میں شریک ہونا چاہیے تھا‘ دوسری مثال میری بوڑھی والدہ اور والد ہیں‘ یہ دونوں پانچ دن تک ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے رہے ‘ یہ دونوں بار بار دھرنے میں شریک ہونے کی ضد کرتے تھے اور میرے خاندان نے دروازے پر تالا لگا کر انھیں روکا۔ یہ دونوں عام اور ان پڑھ لوگ ہیں‘ یہ علامہ طاہر القادری سے واقف نہیں ہیں‘ انھوں نے کبھی علامہ صاحب کی کوئی کتاب پڑھی اور نہ ہی ان کی تقریر سنی‘ انھیں علامہ صاحب کے بلٹ پروف کیبن پر بھی اعتراض تھا اور یہ ان کے بیانات کے تضادات پر بھی پریشان ہوتے تھے لیکن جب انھیں دھرنے میں شامل خواتین اور بچے نظر آتے تھے تو یہ بے تاب ہو جاتے۔
یہ لوگوں کے تاثرات کو سچا اور ان کے مسائل کو حقیقی سمجھتے تھے اور یہ علامہ طاہر القادری کے ایجنڈے سے بھی اتفاق کرتے تھے‘ یہ دونوں مثالیں ثابت کرتی ہیں ہمارے باہر کا موسم بدل چکا ہے اور ہم اندر بیٹھے لوگوں نے اگر اس موسم کی شدت کو محسوس نہ کیا‘ ہم نے اگر مسائل کا حل تلاش نہ کیا تو کوئٹہ سے لے کر اسلام آباد تک لوگ نعشیں سڑکوں پر رکھ کر بیٹھے ہوں گے اور ان میں سے کسی ایک نعش کا وارث اٹھ کر کفن کو جھنڈا بنا لے گا اور اس پورے ملک میں ہمیں اس شخص کو روکنے والا نہیں ملے گا‘ علامہ طاہر القادری کا لانگ مارچ اس صورتحال کا الارم تھا‘ ہمیں اس الارم پر آنکھ ضرور کھول لینی چاہیے ورنہ دوسری صورت میں ہم دو‘ دو کمبلوں والے لوگ آنکھ کھولنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ علامہ طاہر القادری کا لانگ مارچ نہیں تھا‘ یہ عام پاکستانی کا لانگ مارچ تھا اور یہ عام پاکستانی اگلے لانگ مارچ میں اپنے سارے بچے لے کر باہر آ جائے گا اور اس وقت تک واپس نہیں جائے گا جب تک انھیں محروم رکھنے والے لوگ دنیا سے رخصت نہیں ہو جاتے۔
ٹشو پیپر کے ٹرک
ایڈیٹوریل / جاوید چوہدری پير 14 جنوری 2013
آج سے چند برس قبل ملک کے ایک نامور سیاستدان کو اپنے بچوں کے لیے کسی ایسی کتاب کی تلاش تھی جو بچوں کی کردار سازی‘ علم اور ذہانت میں اضافہ کر سکے‘ وہ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا ’’کوئی ایک ایسی کتاب بتا دیں جس میں تمام خوبیاں ہوں‘‘ میں نے کاغذ کا ایک ٹکڑا لیا اور اس پر’’ تاریخ فرشتہ‘‘ لکھ کر ان کے حوالے کر دیا‘ وہ ملک کے لاکھوں لوگوں کی طرح ’’تاریخ فرشتہ‘‘ سے واقف نہیں تھے‘ انھوں نے پوچھا ’’کیا یہ کوئی روحانی یا دینی کتاب ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’جی نہیں‘ یہ ہندوستان کی مسلم تاریخ کا آئینہ ہے‘ پاکستان کے ہر سیاستدان‘ ہر جرنیل اور ہر بیوروکریٹ کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے تا کہ یہ تاریخ کی وہ غلطیاں نہ دہرا سکیں جن کا مطالعہ یہ سرزمین سیکڑوں سال سے کر رہی ہے‘‘ وہ تشریف لے گئے‘ چند دن بعد ان کا فون آیا اور وہ دیر تک کتاب کی تعریف کرتے رہے ۔
’’تاریخ فرشتہ ‘‘ حقیقتاً تعریف کے قابل ہے‘ یہ کتاب1606ء میں محمد قاسم فرشتہ نام کے ایک سچے اور کھرے مورخ نے لکھی اور کمال کر دیا‘ یہ کتاب ملک کے ہر سیاستدان‘ فوجی افسر‘ بیوروکریٹ اور جج کے سرہانے ہونی چاہیے اور اسے روزانہ اس کا ایک باب پڑھ کر سونا چاہیے تا کہ یہ اگلے دن اٹھے تو یہ وہ غلطیاں نہ کرے جو اس خطے میں پچھلے دو ‘دو ہزار سال سے ہو رہی ہیں اور ہر غلطی کا نتیجہ وہ نکلا جو اس وقت پاکستان میں صاف نظر آ رہا ہے۔
’’تاریخ فرشتہ‘‘ کی بارہ ابواب پر مشتمل چار جلدیں ہیں اوراس کا ہر باب انسان کے بارہ طبق روشن کر دیتا ہے ‘ اسے پڑھتے ہوئے تاریخ کے تمام کردار آپ کو اپنے آگے پیچھے چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں‘ مثلاً آپ قطب الدین مبارک شاہ خلجی کو لے لیجیے‘ یہ علائوالدین خلجی کے بعد ہندوستان کا بادشاہ بنا‘ اس کی سلطنت دوتہائی ہندوستان پر پھیلی ہوئی تھی‘ یہ مذہباً مسلمان تھا لیکن اس کی حرکات انسانیت کی تمام حدیں کراس کر گئیں‘ یہ مک مکا کا ماہر تھا‘ اس نے ملک کے تمام اہم لوگوں کو خطاب‘ اعزازات‘ جاگیر یں اور وزارتیں دے کر اپنے ساتھ ملا لیا‘ ملک کے تمام حق گو‘ ایماندار اور بااثر لوگوں کو ایک ایک کر کے قتل کرا دیا‘ ملک کا جو بھی شخص اس کو چیلنج کرتا تھا یہ اسے دولت کے ذریعے خرید لیتا تھا یا پھر قتل کرا دیتا تھا‘ یہ معاملہ اس حد تک رہتاتودرست تھا کیونکہ دنیا کے زیادہ تر بادشاہ یہی کرتے ہیں لیکن وہ فطرتاً ایک مکروہ کردار تھا‘ وہ ہم جنس پرست تھا‘ وہ گجرات کاٹھیاواڑ کے ایک نوجوان ہندو لڑکے پر عاشق ہو گیااور اس نے اس لڑکے کو اپنی ذمے داری میں لے لیا‘ اسے خسرو خان کا خطاب دیا‘ وزیر بنایا اور اس کے ساتھ رہنے لگا‘ بادشاہ سلامت ہرروز خسرو خان کے ساتھ شادی کرتے تھے ‘ یہ ایک دن خسرو خان کا دولہا بنتے ‘ باقاعدہ بارات تیار ہوتی‘ ملک کے تمام عمائدین لباس فاخرہ پہن کر اس بارات میں شامل ہوتے ‘ شامیانے لگتے ‘ باراتیوں کو کھانا کھلایا جاتا ‘ قاضی صاحب آتے اور بادشاہ سلامت کا خسرو خان کے ساتھ نکاح پڑھایا جاتا اور اس کے بعد ڈولی رخصت ہوجاتی‘ اگلے روز خسرو خان دولہا بنتااور بادشاہ سلامت قطب الدین مبارک شاہ خلجی اس کی دولہن بنتے اور اس تقریب میں بھی عمائدین سلطنت باقاعدہ شرکت کرتے تھے‘ اس ’’نکاح‘‘ کا ولیمہ بھی ہوتا تھا‘ بادشاہ سلامت نے ملک میں حسن فروشی اور شراب نوشی کی کھلی اجازت دے دی‘ انھوں نے اپنے محلات کے دروازے سستی عورتوں پر کھول دیے‘ وہ دربار میں سرعام برہنہ بھی ہو جاتے تھے اور درباریوں کو بھی اطاعت کا حکم جاری کر دیتے تھے‘ بادشاہ سلامت دربار میں زنانہ کپڑے اور زیورات پہن کر بھی تشریف لے آتے تھے اور درباری ان کے جمال کی کھل کر تعریف کرتے تھے۔ قطب الدین مبارک شاہ نے ہندوستان پر چار سال‘ چار ماہ حکومت کی‘ اس دوران خسرو خان اس کی کمزوری بن گیا‘ خسرو خان نے اس کمزوری کا فائدہ اٹھایا‘ اس نے بادشاہ کے کان بھر بھر کر اس کے تمام وفادار ساتھی قتل کروا دیے‘ عزیز رشتے داروں کو جیلوں میں پھینکوا دیا‘ محل اور دربار میں اپنی برادری کے لوگ لگوا دیے اور پھر ایک دن بادشاہ کو عین اس وقت قتل کر دیا جب وہ زنانہ کپڑے پہن کر خسرو خان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا‘ بادشاہ کا سر محل سے باہر پھینک دیا گیا اور خواجہ سرا خسرو خان ہندوستان کا بادشاہ بن گیا‘ خسرو خان نے اقتدار سنبھالتے ہی محل میں موجود قرآن مجید جمع کروائے اور (نعوذباللہ) انھیں دربار کی کرسیاں بنا دیا‘ مسلمان عمائدین کو ان پر بیٹھنے کا حکم دیا اور یہ لوگ ان کرسیوں پر بیٹھتے بھی رہے‘ نیا بادشاہ دربار میں درباریوں پر پاش ب بھی کر دیتا تھا‘ یہ حرکات اس قدر بڑھ گئیں کہ لوگوں نے خدا اور رسول ؐ کا واسطہ دے کر دیپالپور کے امیر غازی ملک کو دلی آنے کی دعوت دی‘ غازی ملک نے دلی فتح کی‘ خسروخان کو قتل کیا اور سلطان غیاث الدین تغلق کے نام سے حکومت شروع کر دی۔
قطب الدین مبارک شاہ اور خسرو خان محمد قاسم فرشتہ کی 1300 صفحات کی کتاب کے دو کردار تھے جب کہ اس کتاب میں سیکڑوں اچھے برے کردار موجود ہیں‘ قاسم فرشتہ کا دعویٰ ہے ہندوستان میں جب بھی کوئی اچھا حکمران آیا‘ اس خطے نے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی لیکن جونہی قطب الدین مبارک شاہ جیسا کوئی کردار تخت نشین ہوا‘ یہ ملک تباہی اور بربادی کا منظر پیش کرنے لگا‘ آج اگر محمد قاسم فرشتہ زندہ ہوتا اور اس کی تاریخ نویسی جاری ہوتی تو یہ یقیناً آج کے پاکستان کے چند کردار بھی اپنی کتاب میں شامل کر لیتا اور ان کرداروں میں یقیناًنواب اسلم رئیسانی جیسا جید سیاستدان بھی شامل ہوتا‘ پاکستان نے تاریخ میں ایک سے ایک بڑا نمونہ بھگتا ہے لیکن نواب اسلم رئیسانی مدظلہ العالی کا کوئی جواب نہیں‘
نواب صاحب 9اپریل 2008ء میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے اور اس کے بعد انھوں نے اسلام آباد کو اپنا دارالخلافہ بنا لیا‘ یہ مہینے میں اوسطاً 22 دن اسلام آباد میں قیام کرتے‘ سڑک پر ہیوی موٹر بائیک چلاتے‘ اسپورٹس کار میں جلوے دکھاتے‘ ریمورٹ کنٹرول سے حکومت چلاتے اور ٹیلی ویژن پر حیران کن بلکہ بعض اوقات شرمناک بیانات جاری کرتے مثلاً’’ ڈگری ڈگری ہوتی ہے جعلی ہویا اصلی‘ کرسی کرسی ہوتی ہے لکڑی کی ہو یا پلاسٹک کی ‘ جس میں ہمت ہے مجھے ہٹائے 10روپے انعام دوں گا‘ جس کو بخار ہوا اسے اسپرین دیں گے ‘ اسپرین سے آرام نہ ہوا تو انجکشن لگا لیں گے‘ جب سردی ہو گی تو میں آپ کو دھوپ میں کھڑا کر دوں گا اور مئی جون میں چھائوں میں کھڑا کر دوں گا‘‘وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام بیانات ان کی ذہانت اور دماغی زرخیزی کا ادبی نمونہ ہیں مگر کوئٹہ میں 10جنوری کو 120لوگوں کی ہلاکت کے بعد ان کے بیانات بین الاقوامی ادب تک پہنچ گئے ‘ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے ہزاروں سوگوار 86 میتیں سڑک پر رکھ کر بیٹھ گئے‘ یہ لوگ بلوچستان حکومت کی برطرفی اور کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن نواب صاحب اس وقت لندن میں تشریف رکھتے ہیں‘ میڈیا نے ان سے رابطہ کیا تو نواب صاحب کے خیالات نے ہر دکھی دل کو رلا دیا‘ نواب صاحب نے پہلے بیان جاری کیا ’’میں کوئٹہ کے سوگواروں کے لیے ٹشو پیپرز کے دو ٹرک بھجوا رہا ہوں‘ یہ ان سے اپنے آنسو پونچھ لیں ‘‘اور اس کے بعد فرمایا ’’میں نے لندن میں ہوٹل کا کرایہ ادا کر دیا ہے‘ میں ہوٹل چھوڑ کر کوئٹہ کیسے آ جائوں‘‘۔ یہ بیانات خسرو خان اور قطب الدین مبارک شاہ کی حرکتوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ‘ آپ بے حسی ملاحظہ کیجیے‘ لوگ 86لاشیں سڑک پر رکھ کر شدید سردی اور بارش میں بیٹھے تھے‘ ملک بھر میں دھرنے ہو رہے تھے‘ لوگ ملک کے 112 شہروں میں بچوں کو ساتھ لے کر سڑکوں پر بیٹھے تھے اور وزیراعلیٰ بلوچستان فرما رہے ہیں میں نے ہوٹل کے کمرے کا کرایہ دے دیا ہے‘ میں کیسے واپس آ جائوں یا میں دو ٹرک ٹشو پیپرز بھجوا رہا ہوں۔ دنیا میں اس سے زیادہ ستم گری اور سنگدلی کیا ہو سکتی ہے‘ آپ وفاقی حکومت کا رویہ دیکھ لیجیے ‘ صدر آصف علی زرداری تین ہفتوں سے کراچی میں بیٹھے ہیں‘ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اپنے صاحبزادے کی شادی کی تقریبات میں مصروف ہیں اور کابینہ کراچی‘ لاہور اور آبائی حلقوں کے درمیان گم ہو چکی ہے‘ وزیراعظم تیسرے دن ایکٹو ہوئے اور انھوں نے آئین کی دفعہ 234 کے تحت بلوچستان حکومت ختم کرکے وہاں گورنر راج لگا دیا اور یہ وہ وزیراعظم ہیں جنہوںنے سپریم کورٹ کے 31 اکتوبر 2012ء کے فیصلے بلوچستان حکومت اپنا حق حکمرانی کھو چکی ہے اس کی شدید مذمت بھی کی تھی اور اس فیصلے کو عوامی مینڈیٹ کی توہین بھی قرار دیاتھا لیکن 86 لاشوں کے بعد حکومت نے نہ صرف عوامی مینڈیٹ کی توہین قبول کر لی بلکہ وہ کام بھی کیا جس کا مطالبہ سپریم کورٹ کر رہی تھی۔اگریہ جمہوریت ہے‘ اگر یہ عوامی مینڈیٹ ہے اور اگر یہ وہ سسٹم ہے جس کے تحفظ کا دعویٰ صدر‘ وزیراعظم اور میاں نواز شریف کر رہے ہیں تو پھر عوام کو اسے ایک لمحے میں مسترد کر دینا چاہیے‘ اگر بیلٹ باکس سے اسلم رئیسانی جیسے لوگوں نے نکلنا ہے اور اگر حکومت نے پانچ برس بعد لاشیں اٹھانے کے لیے گورنر راج لگانا ہے تو پھر ہم جمہوریت کے اہل ہی نہیں ہیںپھر علامہ طاہر القادی سمیت اس ملک کا ہر وہ شخص سچا ہے جو چوراہوں کو پھانسی گھاٹ بنانا چاہتا ہے اور سڑکوں کو پارلیمنٹ۔
مجھے خطرہ ہے اگر علامہ طاہر القادری ناکام ہو گئے تو اس کے بعد وہ لوگ مارچ کریں گے جو گولی پہلے ماریں گے اور مقدمہ بعد میں سنیں گے کیونکہ ہمارے حکمران ٹشو پیپرز کے ٹرک ہیں ‘یہ سب اسلم رئیسانی ہیںاور یہ ملک اب اسلم رئیسانیوں کے ذریعے نہیں چل سکے گا۔
ایک انتظار کی موت
جاوید چوہدری اتوار 13 جنوری 2013
کمرے میں اداسی بُو کی طرح پھیلی تھی‘ اُس دیوار سے اس دیوار تک اور فرش سے لے کر چھت تک اداسی ہی اداسی تھی‘ خوشی میںخوشبو اور غم میںبو ہوتی ہے‘ آپ خوش ہیں تو آپ کے دائیں بائیں، آگے پیچھے خوشبو ہلکورے لے گی اور آپ کو دیکھنے‘ آپ کو ملنے والے لوگ اس خوشبو سے مست ہو جائیں گے اور جب غم آئے گا تو آپ کے وجود سے ہلکی ہلکی بو نکلے گی اور یہ آہستہ آہستہ آپ کے پورے ماحول کو آلودہ کر دے گی اور یہ آلودگی آپ کے ارد گرد موجود چیزوں کی ہیئت‘ رنگ اور روشنی پر اثر انداز ہوگی‘ آپ کی روشنیاں مدہم ہو جائیں گی‘ آپ کے رنگوں کا رنگ اڑ جائے گا اور آپ کی چیزوں کی شیپ خراب ہونے لگے گی۔
میں اس کے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں اداسی کی بو پھیلی تھی اور وہ اس بدبو میں لاش بن کر ایزی چیئر پر بیٹھا تھا‘ چیئر آہستہ آہستہ آگے پیچھے ہو رہی تھی‘ اس کی روسی بلی اس کے قدموں میں بیٹھ کر اس کو حیرت سے دیکھ رہی تھی اور اس کی گھڑی معاف کیجیے گا وال کلاک کی ٹک ٹک ماحول کو مزید اداس‘ مزید دکھی بنا رہی تھی‘ ہماری جذباتی کیفیت کو سب سے پہلے ہمارے پالتو جانور پہچانتے ہیں‘ آپ خوش ہیں تو آپ کو اس خوشی کی جھلک سب سے پہلے آپ کے کتے‘ آپ کی بلی‘ آپ کے طوطے اور آپ کے گھوڑے کی آنکھوں میں ملے گی اور آپ دکھی‘ اداس یا افسردہ ہیں تو آپ کے پالتو جانوروں کی گردنیں فوراً لٹک جائیں گی اور ان کی آنکھوں میں حیرت اور اداسی موجیں مارنے لگے گی‘ اس کی وجہ جذبات ہیں‘ ہمارا اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ جذبات کا تعلق ہوتا ہے چنانچہ یہ جانور ہمارے جذبات میں آنے والی ہر تبدیلی بھانپ لیتے ہیں۔
آپ کسی بھی شخص سے ملاقات سے قبل چند لمحوں کے لیے اس کے پالتو جانوروں کے پاس رک جائیں‘ وہ آپ کو اپنے مالک کی جذباتی کیفیت سے آگاہ کر دیں گے‘ ہماری اداسی اور ہمارے دکھ کا وال کلاک کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہوتا ہے‘ ہم زندگی کے عام دنوں میں وال کلاک کی ٹک ٹک پر توجہ نہیں دیتے لیکن جونہی ہم پر غم اترتا ہے ہمیں ٹک ٹک کی آوازیں گھیر لیتی ہیں اور یہ آوازیں آہستہ آہستہ ماحول میں موجود آوازوں پر حاوی آ جاتی ہیں‘ گھڑی کی ٹک ٹک اور اداسی کا آپس میں کتنا گہرا تعلق ہے آپ اس کا اندازا فلموں سے لگا لیجیے ‘ دنیا کی تمام فلموں میں جب کردار اداس یا دکھی ہوتے ہیں تو فلم میکرز گھڑی کی ٹک ٹک سناتے ہیں اور کمرے میں بھی گھڑی کی ٹک ٹک تمام آوازوں پر بھاری تھی‘ میں کمرے میں داخل ہوا‘ کرسی کھینچی اور چپ چاپ اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
ہم بڑی دیر تک اداسی کی بو اور وال کلاک کی ٹک ٹک میں چپ چاپ بیٹھے رہے، اس کی روسی بلی کبھی اس کی طرف دیکھتی تھی اور کبھی میرے پائوں چاٹنے کی کوشش کرتی تھی اور میں حیرت سے کبھی دائیں دیکھتا تھا اور کبھی بائیں۔ یہ شخص میرا دوست تھا‘ یہ ملک کا نامور تخلیق کار تھا‘ اس کی نظمیں‘ اس کے افسانے‘ اس کے کالم اور اس کے ڈرامے ملک کے لاکھوں لوگوں کی ذہنی غذا تھے‘ یہ جذبوں کو لفظ دینے کا ماہر تھا‘ لوگوں کی زبانیں جب بات کرتے کرتے تھک جاتی تھیں تو اس کے فقرے‘ اس کی تحریر آگے بڑھ کر اس کے ابلاغ کی انگلی پکڑ لیتی تھی‘ یہ انسان کے چھوٹے جذبوں اور گونگے احساسات کا ترجمان تھا‘ یہ انسان کے ٹوٹتے ارادوں کی خاموشی تک محسوس کر لیتا تھا، انھیںبعدازاںآواز دے دیتا تھا لیکن پھر یہ خاموش ہوگیا‘ اس کی نظمیں‘ اس کے افسانے‘ اس کے ڈرامے اور اس کی ہدایت کاری چپ ہو گئی اور یہ گھر کے ایک کمرے تک محصور ہو کر رہ گیا۔
ڈاکٹر آتے رہے ‘ ڈاکٹر جاتے رہے‘ دوائیں آتی رہیں اور خرچ ہوتی رہیں‘ بیوی بچے اپنا اپنا زور لگا کر تھک گئے لیکن اس کی اداسی‘ اس کی چپ کی برف نہ پگھلی یہاں تک کہ اس کی بیوی نے مجھے فون کیا اور میں اس کے کمرے میں اترنے پر مجبور ہو گیا۔ وہ کمرہ کمرہ نہیں تھا، وہ زندہ انسان کی زندہ قبر تھی اور وہ اس قبر کے ایک کونے میں ایزی چیئر پر پڑا تھا‘ ہم بڑی دیر تک چپ بیٹھے رہے یہاں تک کہ اس نے بولنا شروع کر دیا۔ انسان کی موجودگی دنیا کی سب سے بڑی دوا ہوتی ہے‘ انسان جب بیمار کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے تو بیمار کا حال اچھا ہونے لگتا ہے‘ یہی وجہ ہے دنیا کے تمام مذاہب نے عیادت کا حکم دے رکھا ہے‘ آپ کسی چپ مریض کے پاس بیٹھ جائیں، وہ چند لمحے بعد بولنا شروع کر دے گا اور اس نے بھی یہی کیا مگر اس کی آواز صدیوں پرانی غار سے آ رہی تھی‘ مجھے اس آواز میں بند غار کی پھپھوندی کی بو تک محسوس ہو رہی تھی۔
وہ بولا ’’میں نے بیس سال انتظار کیا‘ یہ انتظار روز دروازے کی دستک بن کر میرا کواڑ بجاتا تھا‘ میں ہر ڈوربیل کو‘ اپنے کمرے کے دروازے پر ہونے والی ہر دستک کو‘ اپنے فون کے ہر ایس ایم ایس اور ہررِنگ کو اس کی آواز سمجھتا تھا اور پورے اشتیاق‘ پوری لگن سے دروازہ کھولتا تھا‘ میں ہر ایس ایم ایس کو بے تابی سے پڑھتا تھا اور ہر فون کو اس کا فون سمجھ کر اٹھاتا تھا‘ میں ہر آہٹ کو اس کے قدموں کی آواز اور ہر ہیلو کو اس کا ہیلو سمجھتا تھا‘ مجھے ہرپیلا دوپٹہ اس کا دوپٹہ‘ ہر گلابی سویٹر اس کا سویٹر‘ ہر آہستہ آہستہ پھیلنے والی خوشبو اس کی خوشبو اور ہر دوسرا‘ تیسرا چہرہ اس کا چہرہ لگتا تھا‘ میں کافی کے ہر کپ میں اس کی انگلیوں کی مٹھاس تلاش کرتا تھا اور چنار کے ہر گرتے پتے کو اس کے پائوں کی چاپ سمجھ کر چونک اٹھتا تھا‘ مجھے فائرپلیس کی ہر چٹختی چنگاری اس کی سرگوشی محسوس ہوتی تھی۔
مجھے پہاڑوں پر گرتی ہوئی برف میں اس کے سانسوں کی گرمی محسوس ہوتی تھی‘ میں ٹرین کی سیٹی اور چھک چھک میں اسے محسوس کرتا تھا‘ میں ایئرپورٹس پر‘ جہاز کے اندر موجود مسافروں میں‘ ڈیوٹی فری شاپس پر اور ٹرانزٹ ہالز کے ریستورانوں میں اسے تلاش کرتا تھا‘ مجھے خطوں کے انبار میں دبے کسی ایسے خط کا انتظار تھا جو کھلے اور کھلتے ہی اس کی آمد کا پیغام دے دے‘ میں گیندے کے پھولوں کے موسم میں اسے تلاش کرتا تھا اور گلاب کی جھاڑیوں کے قریب بیٹھ کر اس کی باتیں‘ اس کے قہقہے یاد کرتا تھا‘ مجھے دیوسائی کی جھیلوں میں اس کے پائوں کا عکس نظر آتا تھا اور میں ہر سال اس کی یاد منانے کے لیے شگر‘ شنگریلا‘ پیرس اور کیپری جاتا تھا اور گھنٹوں جھیلوں‘ دریائوں اور آبشار کے پاس بیٹھا رہتا تھا‘ میں نے اس کی پسند کی ایک ایک فلم سیکڑوں بار دیکھی اور اس کی پسند کے گیت ہزاروں بار سنے۔
میرا دل کہتا تھا کوئی ایک دن اسے واپس لے کر آئے گا اور اس کی واپسی میری زندگی کے ٹوٹے ہوئے دھاگے پر دوبارہ گرہ لگا دے گی‘ زندگی کا پل دوبارہ بن جائے گا اور میرے جذبے اس پل پر چھوٹے بچوں کی طرح چھلانگیں لگائیں گے‘ ‘ وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور دوبارہ گویا ہوا ’’میں بیس سال تک اس کا انتظار کرتا رہا‘ یہ انتظار جنون بن گیا اور مجھے اس جنون میں ٹی وی کے ہر اشتہار میں وہی نظر آتی تھی‘ انتظار تخلیق کی کھاد ہوتا ہے‘ یہ تخلیق کاروں کی تخلیق کی کھیتیاں لہلہاتا ہے ‘ میری تخلیق بھی اس کے انتظار کی دین تھی ‘میرا انتظار میری کل تخلیق تھا‘ میں نے اس انتظار کی انگلی پکڑ کر سیکڑوں نظمیں‘ درجنوں افسانے‘ بیسیوں ڈرامے لکھے‘ یہ انتظار میری گفتگو کی گہرائی بھی تھا‘ یہ میری ذات‘ میری شخصیت کی کل عمارت بھی‘ میں سر سے پیر تک اور کام سے آرام تک انتظار تھا اور اس انتظار نے مجھے ائر پورٹ کی آمدورفت کا بورڈ‘ ٹرین آنے سے پہلے کی بے چینی اور چائے کی پتیلی میں ابال جیسی افراتفری بنا دیا تھا۔
میرے کان‘ میری آنکھیں‘ میرا لمس اور میرے ذائقے سب انتظار میں ڈھل چکے تھے لیکن پھر اچانک ‘‘اس نے ایک لمبی اور ٹھنڈی سانس بھری ’’لیکن پھر پچھلے مہینے یہ انتظار ختم ہو گیا‘ میری ڈوربیل بجی‘ میرے دروازے پر دستک ہوئی اور وہ میرے دروازے پر کھڑی تھی ‘ میںجس کا بس سال سے انتظار کر رہا تھا‘ میرے دروازے پر کھڑی عورت صرف عورت نہیں تھی ‘وہ میرے انتظار کی نعش تھی‘ برائون بال سفید ہو چکے تھے‘ اس کے موتیوں جیسے دانتوں پر وقت کی بدبودار پیلاہٹ اتر چکی تھی‘ اس کی گردن کی جلد لٹک رہی تھی‘ چہرے کی سرخی بیمار زردی میں ڈھل چکی تھی‘ چال میں واضح لڑکھڑاہٹ تھی‘ اس کی باتوں کے ربط کو ختم ہوئے جیسے صدیاں گزر چکی تھیں۔
وہ بات کرتے کرتے بات کا سرا کھو بیٹھتی تھی اور پھر کئی منٹ تک لفظوں کے کاٹھ کباڑ سے پچھلی بات کا سرا تلاش کرتی رہتی تھی‘ ذات کی خوشبواوررنگ دونوں اڑ چکے تھے‘ وہ ٹرین کے بعد اسٹیشن کا سناٹا بن چکی تھی اور میں اپنی پوری زندگی کو جس کی امانت سمجھتا رہا تھا،وہ مجھ سے صرف چالیس ہزار روپے مانگنے آئی تھی‘ اس نے بچے کی فیس ادا کرنا تھی اور اس کے اس مطالبے کے ساتھ ہی میرا انتظار ختم ہو گیا اور اس انتظار کے ساتھ ہی میری تخلیقات کی روح بھی مر گئی‘ میں شاعر سے دیوالیہ پنساری بن گیا‘‘ اس نے لمبی آہ بھری اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا‘ اس کی بلی نے انگڑائی لی‘ گردن اوپر اٹھائی اور لمبی کڑلاہٹ بھری‘ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی بلی کو انسان کی طرح کرلاتے دیکھا تھا۔
اگر ہم جیت گئے
جاوید چوہدری جمعـء 11 جنوری 2013
یہ خالصتان موومنٹ کا واقعہ ہے‘ سکھوں کے رہنما کینیڈا میں جمع ہوئے اورخالصتان کو چلانے کی منصوبہ بندی کرنے لگے‘ منصوبہ بندی کے دوران ملک کے معاشی مسائل کے حل کا مرحلہ آ گیا‘ سکھ لیڈروں کا خیال تھا خالصتان کو شدید معاشی مسائل کا سامنا ہو گا کیونکہ یہ ملک پاکاتھن اور بھارت جیسے دو دشمنوں کے درمیان ہو گا‘ سکھوں نے 1947ء میں مسلمانوں پر بے تحاشا ظلم کیے‘ پاکستان کے لوگ ابھی تک یہ مظالم نہیں بھولے ‘ یہ بھارت سے لڑ کر نیا ملک حاصل کریں گے چنانچہ انڈیا بھی خالصتان سے خوش نہیں ہو گا چنانچہ خالصتان دو دشمنوں کے درمیان ’’ لینڈ لاکڈ‘‘ ملک ہو گا اور یوں اسے شدید مالیاتی بحرانوں کا سامنا کرنا ہو گا‘ سکھ رہنمائوں کا خیال تھا ہمیں ملک سے پہلے معاشی استحکام کا فارمولہ بنا لینا چاہیے تا کہ ہم آزادی کے بعد آرام سے ملک چلا سکیں‘ سکھ اس کے بعد معاشی پلاننگ کرنے لگے‘ کسی نے کہا‘ ہم ٹورازم کو بہتر بنائیں گے‘ دنیا جہاں سے سیاح آئیں گے اور یوں خالصتان امیر ہو جائے گا لیکن سوال پیدا ہوا پنجاب میں دیکھنے والی کوئی خاص چیز نہیں لہٰذا سیاح کیوں آئیں گے‘ کسی نے مشورہ دیا ہم انڈسٹری ڈیویلپ کریں گے لیکن پھر سوال اٹھا ہم اپنی مصنوعات کس کو بیںے گے‘ پاکستان اور انڈیا دونوں ہماری پراڈکٹس نہیں خریدیں گے۔
کسی نے تجویز دی ہم اپنی زراعت کو مزید بہتر بنا لیں گے لیکن پھر اعتراض آیا انڈیا اور پاکستان دونوں ہمارے گنڈے پیاز نہیں خریدیں گے چنانچہ خالصتان زرعی پیداوار کے باوجود خوشحال نہیں ہو سکے گا۔ میٹنگ کے دوران خالصتان کی خوشحالی کا معاملہ الجھ گیا‘ سکھوں کے سرپنچ نے اچانک سر اٹھایا اور حاضرین کو مخاطب کر کے بولا ’’ میں نے مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا‘‘ سکھوں نے پوچھا ’’چاچا وہ حل کیا ہے‘‘ سرپنچ نے جواب دیا ’’ ہم ملک بناتے ہی امریکا سے جنگ چھیڑ دیں گے اور خوشحال ہو جائیں گے‘‘ نوجوان سکھ لیڈروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا‘ گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر سرپنچ کی طرف دیکھ کر بولے ’’ چاچا بات پلے نہیں پڑی‘‘ سرپنچ نے مسکرا کر جواب دیا ’’بے وقوفو! تم تاریخ پڑھو‘ امریکا نے آج تک جس ملک کو جنگ میں ہرایا‘ یہ اسے قدموں پر کھڑا کر کے وہاں سے نکلا‘‘ نوجوان دلچسپی سے سرپنچ کو دیکھنے لگے‘ سرپنچ نے بتایا ’’امریکا نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست دی اور جرمنی میں بیٹھ گیا اور جرمنی جب تک اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہوا، امریکا اس وقت تک اس کی مدد کرتا رہا‘ امریکا نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کو بھی تباہ کر دیا مگر یہ اس کے بعد وہاں رہا اور جاپان جب تک معاشی اور صنعتی لحاظ سے کامیاب نہیں ہوا، امریکا اس کی مدد کرتا رہا‘ آپ لوگ اسی طرح پانامہ‘ چلی اور میکسیکو کو لے لو‘ آپ ویتنام کی مثال بھی لے لو اور آپ عرب ملکوں کو بھی دیکھ لو، امریکا نے اپنے ہر مفتوح ملک کو سپورٹ کیا چنانچہ ہم خالصتان بنانے کے فوراً بعد امریکا سے جنگ چھیڑ لیں گے‘ امریکا ہمیں فتح کرے گا اور اس وقت تک خالصتان میں بیٹھے گا جب تک ہم اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو جاتے‘‘ تمام شرکاء نے تالیاں بجا کر تجویز کا خیر مقدم کیالیکن میٹنگ میں موجود ایک نوجوان خاموشی سے گردن کھجاتارہا‘ سرپنچ اس کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا ’’ ہیپی سنگھ کیا تمہیںیہ تجویز پسند نہیں آئی‘‘ نوجوان سکھ نے گردن کھجاتے کھجاتے عرض کیا ’’ بھا جی میں سوچ رہا ہوں ہم اگر امریکا سے جنگ جیت گئے تو پھر ہمارا کیا بنے گا‘ ہم تو بھوکے مر جائیں گے‘‘۔
یہ واقعہ لطیفہ ہے اور ہم یقیناً اس لطیفے پر ہنسیں گے لیکن دنیا کے تمام لطائف محض لطائف نہیں ہوتے یہ اپنی ذات میں گہرا فلسفہ بھی ہوتے ہیں‘ آپ اگر زندگی میں مسائل کا شکار ہو جائیں اور آپ کو ان مسائل کا کوئی حل نہ مل رہا ہو تو آپ لطائف کی کتابیں خریدیں اور ان کا مطالعہ شروع کر دیں‘ آپ کو ان کتابوں میں اپنے ہر مسئلے کا حل مل جائے گا‘ یہ نسخہ دنیا جہاں کے لیڈرز‘ ورلڈ کلاس بزنس ٹائی کونز اور دنیا کے بڑے سائنس دان اور فلاسفر بھی استعمال کرتے ہیں اور اس سے بھرپور فائدہ بھی اٹھاتے ہیں‘ یہ لطیفہ بھی دنیا کی بڑی بڑی سیاسی کنفیوژن کا حل پیش کرتا ہے‘تیسری دنیا کی اکثر تحریکیں نتائج کا اندازہ لگائے بغیر شروع ہو جاتی ہیں اور معاشروں کو مزید بحرانوں کا شکار کر دیتی ہیں مثلاً‘ آپ آج کے واقعات کو لے لیجیے‘ علامہ طاہر القادری تین دن بعد لانگ مارچ کے ساتھ اسلام آباد تشریف لا رہے ہیں‘ ہم اگر سیاسی اور گروہی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سچے دل سے فیصلہ کریں تو ہمیں علامہ طاہر القادری کے مطالبات غلط نہیں لگیں گے۔
یہ حقیقت چار سو فیصد درست ہے ہماری جمہوریت‘ ہمارا آئین‘ ہماری پارلیمنٹ اور ہمارا سسٹم عوام کو کچھ نہیں دے رہا‘ ہمارے انتخابی نظام سے صرف اور صرف طاقتور‘ رئیس‘ جاگیردار‘ سرمایہ دار‘ مجرم اور کرپٹ لوگ ہی جنم لے سکتے ہیں‘ آپ کی ڈگری جعلی ہے‘ آپ پر خواہ قتل اور لوٹ کھسوٹ کے درجنوں پرچے درج ہیں یا پھر آپ نے کرپشن کی انتہا کو چھو لیا ہو آپ اگر مضبوط ہیں تو آپ کو یہ سسٹم ایم پی اے‘ ایم این اے یا سینیٹر بننے سے نہیں روک سکے گا‘ یہ حقیقت بھی چار سو فیصد درست ہے ہماری سیاسی جماعتیں فیکٹریوں اور جاگیروں کی طرح چل رہی ہیں‘ آپ اگر سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور آپ کی پارٹی نے پانچ نشستیں جیت لی ہیں تو آپ گویا پانچ ملوں یا پانچ مربع کمرشل زمین کے مالک بن گئے ہیں اور آپ کو ہر ایم این اے‘ ہر ایم پی اے فیکٹری یا زمین کی طرح کما کر دے گا اور یہ حقیقت بھی چار سو گنا درست ہے ہم جب تک پورا نظام تبدیل نہیں کریں گے‘ ہم جب تک اعلیٰ عہدوں پر اہل ترین لوگوں کو نہیں بٹھائیں گے، ملک کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوں گے‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کربتائیے ہمارے موجودہ حکمرانوں میں کوئی ایک شخص دنیا کی ساتویں جوہری طاقت کی قیادت کا اہل ہے؟ کیا ان میں کوئی ایک وزیر وزارت کے قابل ہے‘ اگر نہیں تو پھر علامہ طاہر القادری کا ہر اعتراض‘ ہر مطالبہ درست ہے لیکن علامہ صاحب کی تمام تر سچائی کے باوجود جہاں تک مارچ کا معاملہ ہے، یہ سکھوں کی فلاسفی دکھائی دیتا ہے‘ علامہ صاحب نے لانگ مارچ کا منصوبہ بناتے ہوئے ہرگز یہ نہیں سوچا ہم اگر کامیاب ہو گئے تو ہمارا کیا بنے گا؟
ہم اگر دس بیس لاکھ لوگوں کو اسلام آباد لے گئے‘ ان میں سے ایک دو لاکھ لوگوں نے دھرنا دے دیا‘ حکومت لرز گئی‘ صدر اور وزیراعظم نے ہجوم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور فوج اور عدلیہ نے علامہ صاحب کی حمایت کر دی تو کیا بنے گا؟ کیا ہمارے پاس کوئی متبادل نظام موجود ہے؟ کیا ہم آئین میں اصلاحات کر سکیں گے‘ ہم کن لوگوں کو نگران بنائیں گے اور کیا یہ نگران ملک کو بنیادی مسائل سے نکال سکیں گے‘ یہ نگران کب تک حکمران رہیں گے اور نگرانوں کے بعد جب الیکشن ہونگے اور ان الیکشنوں میں اگر یہی لوگ دوبارہ منتخب ہو کر آ گئے تو ملک کا کیا بنے گا؟ لانگ مارچ میں بم دھماکے ہو گئے‘ سیکیورٹی جواب دے گئی یا پھر ملک کے ایک دو بڑے رہنما قتل ہو گئے اور اس قتل کے بعد خانہ جنگی شروع ہو گئی تو ملک کو کون بچائے گا اور اگر اس افراتفری یا لانگ مارچ کی وجہ سے ملک میں مارشل لاء لگ گیا تو اس کا ذمے دار کون ہو گا؟ قوم کو اس مارشل لاء سے جان چھڑانے کے لیے کتنے سال جدوجہد کرنا ہوگی اور اس مارشل لاء کے بعد بھی اگر بلاول بھٹو زرداری یا حمزہ شہباز وزیراعظم بن گئے تو کیا ہوگا؟ کیا علامہ صاحب نے اس کے بارے میں بھی سوچا؟ انقلاب ضرور آنا چاہیے کیونکہ ہمیں واقعی انقلاب کی ضرورت ہے مگر انقلاب کے لیے مکمل بندوبست بھی ہونا چاہیے‘ ہمیں باقاعدہ پلاننگ بھی کرنی چاہیے کیونکہ انسان کے پاس اگر متبادل سسٹم نہ ہو تو اس کی فتح شکست سے بڑا بحران ثابت ہوتی ہے‘ یہ جیت کر عذاب کا شکار ہو جاتا ہے اور مجھے علامہ صاحب کی تحریک سے اسی خطرے کی بو آ رہی ہے‘ یہ ناکام ہو گئے تو بھی ملک تباہ ہو جائے گا اور یہ کامیاب ہو گئے تو بھی ملک برباد ہو جائے گا کیونکہ ان کے پاس ناکامی سے نبٹنے کا کوئی فارمولہ ہے اور نہ ہی کامیابی کو ہضم کرنے کا کوئی منصوبہ۔
غلام بادشاہ
جاوید چوہدری بدھ 9 جنوری 2013
گائوں‘ پورا گائوں خشک سالی کا شکار تھا‘ زمین زخم کا کھرنڈ بن گئی‘ ہریالی رخصت ہوئی تو سبز رنگ بھی ساتھ ہی لے گئی‘ گائوں کے لوگوں کو سبز رنگ دیکھے مدتیں ہو گئیں‘ آسمان پگھلا ہوا تانبا بن گیا اور یہ تانبا رات کے اندھیرے میں بھی سلگتا رہتا تھا‘ کتے‘ بلیاں اور لومڑ ڈھور ڈنگروں کو کھانے لگے‘ انسان کتے‘ بلیوں اور لومڑوں کو کھانے لگا اور ڈھور ڈنگر انسانی غلاظت پر منہ مارنے لگے‘ گائوں سے اناج یوں ختم ہوا جیسے کہرا سورج کو نگل جاتا ہے یا سورج کی تیز شعاعیں رات کی ٹھٹھری سہمی شبنم کو پی جاتی ہیں یا پھر باریک ریت ہوا کے رخ پر دوڑتے دوڑتے افق کے پار گم ہو جاتی ہے‘ پیچھے رہ گیا پانی تو پانی انسان کے حلق تک سے غائب ہو گیا‘ گائوں کے مثانے تک خشک ہو گئے اور لوگوں کو بعض اوقات محسوس ہونے لگتا جیسے پانی تک میں پانی نہیں رہا‘ وہ لوگ کیچڑ کو کپڑے میں لپیٹ کر چوستے تھے اور انھیں غلیظ حرکت کے دوران بدبو اور کڑواہٹ کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔
یہ ہندوستان کا گائوں تھا اور دور تھا اکبر اعظم کا‘ راجستھان میں قحط پڑا اور یہ قحط آہستہ آہستہ اس گائوں میں بھی پہنچ گیا‘ خشک سالی‘ قحط اور غربت جب حد سے گزر گئی اور نوبت انسان کے انسان کو کھانے تک آ گئی تو گائوں کے مکھیا نے بادشاہ کے دروازے پر دستک دینے کا فیصلہ کیا‘ وہ گائوں سے نکلا اور دلی پہنچ گیا‘ وہاں جا کر معلوم ہوا بادشاہ دلی سے فتح پور سیکری منتقل ہو چکا ہے‘ مکھیا وہاں پہنچ گیا‘ بادشاہ ہفتے کے ایک دن عام لوگوں سے ملتا تھا‘ اکبر اعظم محل سے نکلتا تھا‘ دیوان عام میں بیٹھ جاتا تھا اور شام تک سلطنت کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے عام لوگوں کی درخواستیں سنتا تھا‘ گائوں کا مکھیا فتح پور سیکری پہنچا اور دیوان عام کھلنے کا انتظار کرنے لگا‘ ہفتہ گزر گیا‘ دوسرا ہفتہ بھی گزر گیا اور تیسرا ہفتہ چڑھ گیا لیکن دیوان عام نہ کھلا‘ مکھیا کی پریشانی اذیت میں بدل گئی کوئنکہ وہ جانتا تھا اس کے گائوں کے سیکڑوں لوگ موت اورحیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں‘ یہ لوگ دلی کے راستے پر نظریں جما کر بیٹھے ہیں مگر بادشاہ دیوان عام بنا کر اس کے دروازے کھولنا بھول گیا ہے‘ وہ روز دیوان عام جاتا‘ اس کے دروازے پر کھڑے سپاہیوں کو دیکھتا‘ مایوس ہوتا اور خیراتی سرائے میں واپس آ جاتا‘ خیراتی سرائے میں اسے رہنے کی جگہ بھی مل جاتی‘ کھانا بھی‘ پانی بھی اور پوجنے کے لیے آگ بھی مگر گائوں کے لوگوں کی تکلیف اسے آرام سے نہیں بیٹھنے دیتی تھی‘ وہ آگ پر گرے سانپ کی طرح لوٹتا تھا اور زخمی اونٹ کی طرح بلبلاتا تھا لیکن بادشاہ بادشاہ ہوتے ہیں‘ یہ دوسروں کی تکلیف سے آگاہ نہیں ہوتے‘ وہ ایک دن تنگ آ گیا اور اس نے تخت اور تختے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ شاہی محل گیا‘ دہلیز پر بیٹھا اور اس نے اٹھنے سے انکار کر دیا‘ شاہی محافظوں نے اسے نیزے اور برچھیاں چبھوئیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا‘ یہاں تک کہ محافظوں کا دل پسیج گیا‘ وہ اسے سلیم درویش کی درگاہ پر لے گئے‘ بادشاہ کا زیادہ تر وقت سلیم درویش کی درگاہ پر گزرتا تھا‘ یہ فتح پور سیکری کے درویش تھے‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا سے مغل اعظم کو ولی عہد کی نعمت سے نوازا تھا‘ بادشاہ کے گھر شہزادے سلیم نے جنم لیا اور بادشاہ اس مہربانی سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے اپنا پایہ تخت دلی سے فتح پور سیکری منتقل کر دیا‘ سلیم درویش کی درگاہ کے سائے میں آگرہ کے نام سے نیا شہر آباد کیا‘ وہ شہزادے کو لے کر روزانہ درویش کی محفل میں شریک ہو جاتا اور سلیم درویش جب تک بادشاہ کو اجازت نہ دیتا وہ ان کی محفل میں بیٹھا رہتا‘ محافظوں نے مکھیا پر ترس کھا کر اسے سلیم درویش کی محفل میں پہنچا دیا‘ وہ وہاں پہنچا تو اس نے وہاں عجیب منظر دیکھا‘ اس نے دیکھا درویش تخت پر فروکش ہے‘ بادشاہ شہزادے کے ساتھ اس کے پائوں میں بیٹھا ہے‘ درویش کا ایک پائوں بادشاہ کے ہاتھوں میں ہے اور بادشاہ اسے مخملی موزے چڑھا رہا ہے‘ مکھیا نے یہ منظر دیکھا تو وہ الٹے قدموں واپس لوٹ گیا‘ اس نے فتح پور سیکری کے باہر کھڑے ہو کر اوم کا جاپ کیا اور اپنے گائوں کی طرف چل پڑا۔
وہ دو مہینوں کے سفر کے بعد گائوں لوٹا تو لوگ اسے خالی ہاتھ دیکھ کر پریشان ہو گئے‘ لوگوں نے ناکامی کی وجہ پوچھی‘ اس نے لوگوں کو جمع کیا اور دکھی لہجے میں بولا ’’ ہم اپنے بادشاہ کو بھگوان کا اوتار سمجھتے ہیں‘ ہمارا خیال ہے ہمارا بادشاہ چاہے تو ہم پر بارش بھی برس سکتی ہے‘ ہماری کھیتیاں بھی ہری ہو سکتی ہیں‘ ہمارے جانور بھی پھل پھول سکتے ہیں‘ ہمارے مال و دولت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور ہم سے مصیبتیں بھی کم ہو سکتی ہیں‘ میں اس اوتار کی تلاش میں پہلے دلی گیا‘ وہاں سے فتح پور سیکری پہنچا اور اوتار کی زیارت کے لیے تین ہفتے آگرہ میں انتظار کرتا رہا‘ مجھے اس طویل انتظار‘ لمبے سفر اور خواہشوں کی وسیع تھکاوٹ کے بعد اوتار کی زیارت نصیب ہوئی تو میں نے اسے ایک کمزور انسان کے قدموں میں بیٹھے دیکھا‘ مجھے اس وقت احساس ہوا جو شخص اپنے ولی عہد کے لیے دوسرے انسان کا محتاج ہے اور جس شخص کی نظر میں اپنے پیر کے موزے ہمارے جیسے سیکڑوں ہزاروں مجبوروں کے قحط سے زیادہ بڑے ہیں اور جو جنتا کی خدمت کا زیادہ تر حصہ اپنے پیر کی خدمت میں خرچ کر دیتا ہے وہ مجبور‘ لاچار اور غریب شخص ہمیں کیا دے گا‘ وہ ہمارے دکھ کیسے ختم کرے گا چنانچہ میں آگرہ سے خالی ہاتھ واپس آ گیا‘‘ لوگ حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے وہ بولا ’’ ہمارے بادشاہ ہم سے زیادہ لاچار ہیں‘ ہم لوگ بھوک اور قحط کے باوجود کسی انسان کے قدموں میں نہیں جھکتے مگر ہمارے بادشاہ صرف اقتدار کے لیے‘ صرف ولی عہد کے لیے انسانوں کے قدموں میں بیٹھ جاتے ہیں‘ یہ انھیں سجدے تک کر جاتے ہیں‘ یہ لاچار لوگ ہمیں کیا دیں گے‘ چلو آئو اس بھگوان سے دعا کریں جو ہمارے بادشاہ کا بھی بھگوان ہے اور بادشاہ کے اس پیر کا خدا بھی جس کے پائوں میں نے بادشاہ کی گود میں دیکھے‘‘۔
یہ تاریخ کا گم نام واقعہ تھا جو میں نے برسوں پہلے مغل ہسٹری کی کسی کتاب میں پڑھا ‘ یہ واقعہ دماغ کی کسی دیوار کے ساتھ چپک گیا اور کل صدر آصف علی زرداری سے متعلق ایک چھوٹی سی خبر کے ساتھ دوبارہ زندہ ہوگیا‘ یہ خبر خبر کم اور تہلکہ زیادہ تھی‘ رپورٹر کے مطابق صدر آصف علی زرداری کے پیر صاحب نے انھیں 20 دسمبر سے 10 جنوری تک پہاڑوں سے دور اور سمندر کے قریب رہنے کی ہدایت کی اور صدر صاحب اس ہدایت پر 19 دسمبر کو اسلام آباد سے کراچی شفٹ ہو گئے‘ یہ 23 دنوں سے کراچی میں ہیں اور یہ اس وقت تک سمندر کے قریب رہیں گے جب تک ان کے اقتدار سے پہاڑوں کا سایہ نہیں ٹل جاتا‘ یہ خبر محض خبر رہتی اگر میں نے مختلف لوگوں سے ان کے پیر صاحب کے بارے میں سنا نہ ہوتا‘ مجھے پاکستان مسلم لیگ ن‘ اے این پی اور جے یو آئی کے مختلف لوگ پیر صاحب کے بارے میں بتا چکے ہیں‘ یہ پیر صاحب اتحادیوں کی میٹنگ‘ غیر ملکی سربراہوں کے ساتھ صدر صاحب کی ملاقات اور اہم فیصلوں سے پہلے صدارتی ہال اور صدارتی دفتر میں تشریف لاتے ہیں‘ وہاںپڑھ کر کچھ پھونکتے ہیں اور اس کے بعد صدر صاحب وہاں تشریف لاتے ہیں اور یوں میٹنگ کی کارروائی شروع ہوتی ہے‘ میں روحانی بزرگوں کا دل سے احترام بھی کرتا ہوں اور ان سے ملاقاتوں کا موقع بھی ڈھونڈتا رہتا ہوں‘ میں یہ تسلیم کرتا ہوں نگاہ مرد مومن سے زنجیریں بھی کٹ جاتی ہیں اور دلوں کا حال بھی بدل جاتا ہے لیکن انسان اس کے باوجود انسان ہی رہتا ہے‘ یہ خدا نہیں بنتا‘ یہ اللہ کی مرضی کے خلاف کسی کو زندگی‘ عزت‘ دولت اور اقتدار نہیں بخش سکتا‘ میں نے ایک بار ایک درویش سے پوچھا ’’ کیا آپ کسی کو خوشحال بنا سکتے ہیں‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’ ہم بالکل نہیں بنا سکتے لیکن ہم اسے خوشحالی کا گُر ضرور سکھا سکتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’ اور کیا آپ کسی کو تخت پر بٹھا سکتے ہیں‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’ ہم اسے صرف تخت کی طرف جانے کا راستہ دکھا سکتے ہیں‘ ہم اسے تخت پر نہیں بٹھا سکتے‘‘ میں نے پوچھا ’’ آپ کون لوگ ہیں‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’ ہم اللہ کے ایسے بندے ہیں جو بندگی میں اللہ کو اتنا راضی کر لیتے ہیں کہ یہ ہمیں بندوں کی حاجت سے رہائی دے دیتا ہے‘ یہ ہمیں دولت‘ شہرت اور اقتدار کی ہوس اور زندگی‘ رتبے اور مال کے خوف سے آزاد کر دیتا ہے اور یہ کل روحانیت ہے‘‘ مگر حکمران ان پیروں کو اپنے اقتدار کا محافظ اور اقتدار کی طرف بڑھتے خطروں کی ڈھال سمجھ بیٹھتے ہیں‘ ہم کیسے بے بس لوگ ہیں ‘ ہم سورۃ اخلاص کے پیغام کو پوری طرح نہیں سمجھتے‘انسان جو اللہ کی رضا کے بغیر ایک لقمہ نہیں نگل سکتا اور اگر نگل لے تو اسے ہضم نہیں کر سکتا‘ ہم اسے سب کچھ سمجھ لیتے ہیں‘ہم کیسے بے بس لوگ ہیں ‘ہم مکھی کا پر نہیں بنا سکتے لیکن مجبور اور لاچار انسانوں سے ناقابل یقین توقعات وابستہ کر لیتے ہیں‘ ہم بادشاہ ہو کر بھی غلامی سے آزاد نہیں ہوتے‘ ہم اللہ کا کرم چھوڑ کر مسکین‘ لاچار اور کمزور لوگوں کے دامن میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں‘ ہم کیسے لوگ ہیں‘ اللہ نے ہمیں بادشاہ بنایا لیکن ہم نے یہ بادشاہت انسانوں کی غلامی میں دے دی‘ ہم بادشاہ بن کر بھی غلام رہے۔

قاضی صاحب
جاوید چوہدری پير 7 جنوری 2013
مجھے قاضی حسین احمد کو قریب سے دیکھنے کا موقع 2003ء میں ملا‘ میں ان دنوں ’’ سیلف میڈ‘‘ کے نام سے دستاویزی فلمیں بنا رہا تھا‘ ہم نے ملک بھر سے ایسے 38 لوگ منتخب کیے جن کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھامگر یہ نامساعد حالات کے باوجود آگے بھی آئے اوریہ اپنے اپنے شعبے کے لیڈر بھی بن گئے‘ ہم اس شخصیت کو اس کی جائے پیدائش پر لے کر جاتے تھے اور یہ وہاں سے جہاں جہاں گیا‘ جہاں جہاں رہا اور اس نے جہاں جہاں کام کیا ہم اسے وہاں ٹریول کراتے تھے‘ اس کی شوٹنگ بھی ہوتی تھی اور اس کی آواز میں اس کی کہانی بھی ریکارڈ کی جاتی تھی‘ یہ مہنگا اور بڑا منصوبہ تھا‘ میرے پاس سرمایہ بھی کم تھا اور تجربہ بھی نہیں تھا چنانچہ یہ منصوبہ راستے ہی میں دم توڑ گیا‘ یہ میری ساری جمع پونجی بھی کھا گیا۔
قاضی حسین احمد بھی ان 38 لیڈنگ پاکستانیوں میں شامل تھے‘ ہم نے قاضی صاحب کے آبائی گائوں زیارت کاکا صاحب میں تین شوٹنگز کیں‘ ایک شوٹنگ میں قاضی صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے‘ ہم نے منصورہ میں بھی شوٹنگ کی اور اسلام آباد میں ان کے آفس کم گھر میں بھی۔ ہماری ٹیم میں ایک خاتون بھی شامل تھی‘ یہ خاتون شکل وشباہت اور لباس سے انگریز لگتی تھی لیکن یہ خالصتاً پنجابی تھی‘ ہم ریکارڈنگ کے لیے منصورہ گئے‘ قاضی صاحب کے سامنے کیمرے لگائے لیکن ریکارڈنگ سے قبل قاضی صاحب اٹھ کر اپنی اسٹڈی میں چلے گئے‘ ہم لوگ پریشان ہو گئے کیونکہ اس چھوٹی سی ریکارڈنگ پر ہمارا ٹھیک ٹھاک سرمایہ لگا ہوا تھا‘ میں قاضی صاحب کو منانے اندر گیا‘ قاضی صاحب ناراض بیٹھے تھے‘ میں نے وجہ پوچھی تو وہ ناراض لہجے میں بولے ’’ آپ اپنے ساتھ ایسی انگریز عورت کو لے آئے ہیں جسے لباس تک پہننے کی تمیز نہیں‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’ کون سی انگریز عورت اور کون سا لباس ‘‘ قاضی حسین صاحب نے فرمایا ’’ وہ نوجوان لڑکی جو آپ کے ساتھ ہے‘ اس کے بازو ننگے ہیں‘ مجھے اسے دیکھ کر شرم آ رہی ہے‘‘ میں نے بڑی مشکل سے ہنسی ضبط کی اور قاضی صاحب کو بتایا ’’ یہ لڑکی انگریز نہیں خالص پنجابی ہے‘‘ قاضی صاحب مزید ناراض ہو گئے اور انھوں نے فرمایا ’’ پھر اسے شرم آنی چاہیے یہ کس قسم کا لباس پہن کر منصورہ آ گئی ‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’قاضی صاحب یہ لڑکی پچھلے ایک ہفتے سے ہمارے ساتھ پھر رہی ہے لیکن ہم میں سے کسی نے نوٹ نہیں کیا اس کے بازو ننگے ہیں مگر آپ ایک ہی نظر میں برائی کی جڑ تک پہنچ گئے‘ مںں آپ کی باریک بینی کی داد دیتا ہوں‘‘۔
قاضی صاحب نہایت سنجیدہ انسان تھے لیکن میری بات پر ان کی ہنسی نکل گئی‘ انھوں نے علامہ اقبال کا ایک غیر معروف سا شعر پڑھا‘ مجھے وہ شعر تو یاد نہیں مگر اس کا لب لباب ابھی تک ذہن میں ہے‘ اس شعر کا مطلب تھا نگاہ مرد مومن سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی‘ قاضی صاحب نے اس کے بعد اپنے گھر سے چادر منگوائی‘ ہم نے وہ چادر خاتون کو دی‘ خاتون نے اس چادر کی بکل ماری اور قاضی صاحب اس کے بعد ریکارڈنگ کے لیے باہر آئے۔یہ بظاہر چھوٹا سا واقعہ تھا لنکک اس واقعے میں میری نسل کے لیے بے شمار سبق چھپے ہیں‘ یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے انسان کو اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے‘ آپ کو اپنے اصولوں پر شرمندہ بھی نہیں ہونا چاہیے اور حالات کسی بھی قسم کے ہوں آپ کو اپنی بات منوانی چاہیے۔
ہم لوگ زیارت کاکا صاحب کے اس چھوٹے سے گھر میں بھی گئے جہاں قاضی حسین احمد پیدا ہوئے تھے‘ یہ دو کمروں کا چھوٹا سا پرانا گھر تھا‘ ہم نے ان چھوٹی چھوٹی گلیوں کی شوٹنگ بھی کی جن میں قاضی صاحب کا بچپن گزرا تھا اور ہم نے اس قدیم مسجد کے شارٹس بھی لیے جس میں قاضی صاحب نعتیں پڑھتے تھے‘ ہم پشاور میں ان کے اس گھر بھی گئے جہاں ان کی جوانی گزری اور ہم نے ان جگہوں کے شارٹس بھی لیے جہاں قاضی صاحب کا چھوٹا سا میڈیکل اسٹور ہوتا تھا‘ یہ ناکام منصوبہ اور اس منصوبے کی ناکام شوٹنگ قاضی صاحب اور میرے درمیان تعلق کا مضبوط ذریعہ بن گئی‘ میں جب بھی قاضی صاحب سے ملتا قاضی صاحب اس ڈاکومنٹری کا ذکر کرتے‘ ہماری محنت کی تعریف کرتے اور لوگوں کو بتاتے اس نے چھوٹے چھوٹے شارٹ کے لیے بڑی محنت کی ‘ یہ دس دس بار سائیٹس پر گیا اور میں نے کسی کو اتنی محنت کرتے نہیں دیکھا وغیرہ وغیرہ‘ یہ اپنی محفلوں میں بھی اس ڈاکومنٹری کا ذکر کرتے تھے‘ میں پچھلے دس برسوں میں اس ناکام پراجیکٹ کو بھول گیا مگر قاضی صاحب نہیں بھولے‘ وہ 2012ء کے آخر تک اس کا ذکر کرتے رہے‘ یہ ان کا بڑا پن تھا‘ انسان اپنی بڑی بڑی عادتوں سے بڑا نہیں ہوتا‘ یہ چھوٹے چھوٹے واقعات پر اپنے بڑے پن سے بڑا بنتا ہے اور قاضی صاحب کا دل اس معاملے میں واقعی بہت بڑا تھا۔
قاضی حسین احمد آج ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی اچھائیاں ہمیشہ قائم رہیں گی‘ ہم سب انسان عارضی ہیں‘ ہم موسیٰ ہوں یا فرعون‘ ہم بادشاہ ہوں یا غلام اور ہم کامیاب ہوں یا ناکام‘ ہم سب اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں‘ اس دنیا کو خدائی کا دعویٰ کرنے والا فرعون بھی چھوڑ جاتا ہے اور سچے خدا کی سچائی ثابت کرنے والے حضرت موسیٰ ؑ بھی لیکن ہمارا کنٹری بیوشن‘ ہماری خدمات دنیا میں مدت تک زندہ رہتی ہیں‘ فرعون مر گیا لیکن فرعونیت ہمیشہ قائم رہے گی اور کوئی فانی شخص جب بھی غیر فانی دعوے کرے گا فرعونیت کا تاج خود بخود اس کے سر پر رکھ دیا جائے گا‘ اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن کلیمی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا میں رہ گئی‘ دنیا کا کوئی شخص جب بھی بے سروسامانی کے باوجود فرعون وقت کے سامنے کلمہ حق کہے گا‘ حضرت موسیٰ ؑ کا عصا خود بخود اس کے ہاتھ میں چلا جائے گا‘ اسی طرح یزید بھی دنیا سے چلا گیا اور حضرت امام حسین ؓ بھی شہادت پا گئے لیکن جب بھی آمر وقت کے سامنے کوئی کھڑا ہو گا لوگ اس کا نام بے اختیار شبیری فہرست میں درج کر دیں گے اور جب بھی کوئی شخص اقتدار کے نشے میں مظلوموں کے خیموں کا محاصرہ کرے گا لوگ اسے شمر‘ ابن زیاد اور یزیدی ضرور قرار دیں گے‘ یہ وہ کنٹری بیوشن ہے جو ہمارے مرنے کے بعد بھی قائم ہے اور قائم رہے گا۔
قاضی حسین احمد کا کنٹری بیوشن بھی زیارت کاکا صاحب کے قبرستان سے باہر مدت تک زندہ رہے گا‘ یہ جماعت اسلامی کے لبرل لیڈر تھے‘ انھوں نے جماعت اسلامی کے کٹڑ تصور کو سافٹ بنانے کے لیے بڑا کام کیا‘ یہ جماعت اسلامی کو مدارس اور مساجد سے نکال کر اس دوراہے پر لے آئے جہاں سے سیاست اور مدرسہ دونوں ایک ایک ہاتھ کے فاصلے پر ہیں‘ قاضی صاحب نے موسیقی‘ ادب‘ فلم اور تھیٹر کو حلال قرار نہیں دیا تو انھوں نے اسے حرام بھی نہیں رہنے دیا‘ یہ اسے کھینچ کر جماعت اسلامی کے قریب لے آئے یا پھر جماعت اسلامی کو دھکیل کر اس کے قریب لے گئے‘ قاضی صاحب نے جماعت اسلامی کی سیاسی کنیومژن دور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا‘ جماعت اقتدار چاہتی تھی لیکن اقتدار کے قریب پہنچ کر اس کی ہنسی نکل جاتی تھی مگر قاضی صاحب نے یہ کنفیوژن دور کر دی یوں جماعت اسلامی پانچ سال تک صوبہ سرحد( خیبر پختونخوا) میں ایم ایم اے کے ساتھ اقتدار میں رہی‘ قاضی صاحب نے اقتداری سیاست کے ساتھ ساتھ اقداری سیاست بھی کی‘ انھوں نے 2007ء میں الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو یہ اس پر قائم بھی رہے‘ یہ پاکستان مسلم لیگ ن کی طرح اپنے وعدے سے منحرف نہیں ہوئے۔
قاضی صاحب اکثر کہتے تھے چوہدری نثار علی اور جاوید ہاشمی نے2007ء میں اعلان کیا تھا اگر میاں نواز شریف نے بائیکاٹ کا وعدہ توڑا تو ہم پارٹی چھوڑ دیں گے‘یہ اپنا وعدہ پورا کریں‘ قاضی صاحب ملک کے ان چند لیڈروں میں بھی شمار ہوتے تھے جنہوں نے مقبولیت کی انتہا پر پہنچ کر بھی سادگی نہیں چھوڑی‘ یہ پوری زندگی منصورہ کے دو کمروں کے چھوٹے سے فلیٹ میں رہے ‘ یہ پشتون تھے اور پشتونوں کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ یہ اگر ولی بھی ہوں تو بھی یہ ہوائی فائرنگ سے باز نہیں رہ سکتے‘ قاضی صاحب بھی جلد ناراض ہو جاتے تھے لیکن یہ اس سے کہیں جلدی راضی بھی ہو جاتے تھے‘ ان کے اندر بچوں جیسی سادگی اور بزرگوں جیسی شفقت تھی اور یہ اس کے استعمال کا ڈھنگ بھی جانتے تھے۔
یہ اختلاف کو دشمنی اور دشمنی کو خاندانی دشمنی نہیں بننے دیتے تھے‘ یہ کڑی سے کڑی مخالفت کے باوجود مخالفوں کی شادی غمی میں شریک ہوتے تھے اور انھیں اپنی اخلاقی مدد کا یقین بھی دلاتے تھے اور یہ ان کی وہ عادتیں تھیں جو مرنے کے بعد بھی ان کی یاد کو زندہ رکھیں گی‘قاضی چلے گئے لیکن ان کی شفقت اورا ن کی کلمہ گوئی کی عادت ہمیشہ زندہ رہے گی‘ یہ کبھی نہیں مرے گی کیونکہ مرتے صرف لوگ ہیں‘ ان کی اچھی عادتیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور قاضی صاحب کی عادتیں انھیں ہماری ذات میں ہمیشہ قائم رکھیں گی۔
مالک یوم الدین
جاوید چوہدری ہفتہ 5 جنوری 2013
میری چند دن قبل ملک کی نامور مذہبی اور روحانی شخصیت سے ملاقات ہوئی‘ ملاقات کے دوران قرآن مجید پر گفتگو شروع ہو گئی‘ میں نے انھیں بتایا میں آج کل قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ رہا ہوں اور میں جوں جوں ترجمہ پڑھتا جا رہا ہوں میری حیرت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ انھوں نے پوچھا ’’ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ اگرقرآن مجید کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو قرآن مجید کو کتاب کی طرح پڑھنا ہو گا‘ اللہ کا کلام آہستہ آہستہ آپ پر کھل جائے گا‘‘ انھوں نے ہنس کر فرمایا ’’آپ کی بات سو فیصد درست ہے‘ قرآن مجید کتاب ہے لیکن ہم اسے کبھی کتاب کی طرح نہیں پڑھتے چنانچہ ہم قرآن کے مطالب تک نہیں پہنچ پاتے‘‘ میں نے عرض کیا ’’دوسری بات قرآن مجید کا ترجمہ ہے.
قرآن مجید دنیا کی بلیغ ترین زبان عربی میں اترا‘ عربی کی بلاغت کا انداز یہ ہے اس میں اونٹ کی چالیس قسمیں ہیں اور ہر قسم کے لیے الگ لفظ استعمال ہوتاہے‘ عرب اونٹی کے نوزائیدہ بچے کو نتیجہ کہتے ہیں چنانچہ آپ اس وقت تک نتیجہ جیسے لفظ کو نہیں سمجھ سکتے جب تک آپ اونٹی کے زچگی کے عمل اور اس کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھ جاتے جب کہ عربی کے مقابلے میں اردو ایک نئی زبان ہے‘ اس کے لسانی کلیے تک 1810ء میں فورٹ ولیم کالج میں انگریزوں نے طے کیے تھے ‘ اردو کے زیادہ تر لفظ دوسری زبانوں سے مستعار لیے گئے ہیں لہٰذا اردو دنیا کی قدیم اور بلیغ ترین زبان میں اتارے گئے قرآن مجید کے مطالب کا احاطہ نہیں کر پاتی‘ اس کے پاس قرآن مجید کے مطالب کے لیے مناسب الفاظ ہی نہیں ہیں اور یوں ہمارے ذہن میں کنفیوژن پیدا ہو جاتی ہے.‘‘
وہ مسکرائے اور فرمایا ’’مثلاً‘‘ میں نے عرض کیا ’’مثلاً آپ جنت کی دودھ اور شہد کی نہروں اور حوروں کو لے لیجیے‘ اللہ بہشت‘ دودھ‘ شہد‘ شراب طہورہ اور حور سے کیا مراد لے رہا ہے‘ ہم اس وقت تک نہیں سمجھ سکیں گے جب تک عربی زبان پوری طرح ہماری گرفت میں نہیں آتی چنانچہ ہمارے سامنے جب بھی حلیب کا لفظ آئے گا ہم اس کا ترجمہ دودھ کر دیں گے اور دودھ کے ساتھ ہی ہمارے ذہن میں بھینس اور گائے آ جائے گی اور اس کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوجائے گا کیا جنت میں جانور بھی ہوں گے‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’نکتے کی حد تک آپ کی بات درست ہے لیکن کیا آپ اردو کے ترجموں کو ناقص سمجھتے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’ہر گز نہیں‘ اردو کے ترجمے اچھے ہیں‘ میں اردو ترجمے ہی پڑھ رہا ہوں مگر اس کے ساتھ ساتھ مجھے محسوس ہوتا ہے انگریزی اور فرنچ زبان کے ترجمے زیادہ بلیغ ہیں‘ انگریز مسلم اسکالر اور فرنچ اسکالر جس خوبصورتی سے قرآن مجید کے مطالب بیان کرتے ہیں وہ اردو زبان میں ممکن نہیں‘ فرانسیسی اور انگریزی دونوں عربی کی طرح قدیم زبانیں ہیں‘ ان کے پاس اردوسے زیادہ الفاظ اور مترادفات ہیں‘ مثلاً سورۃ اخلاص کا جتنا اچھا ترجمہ انگریز مسلم اسکالرز نے انگریزی میں کیا یہ اردو میں ممکن ہی نہیں ‘‘۔
انھوں نے میرا نکتہ تسلیم کیا اور انگریزی کے چند تراجم کا حوالہ بھی دیا‘ یہ تراجم ایسے لوگوں نے کیے تھے جو بیک وقت عربی اور انگریزی کے عالم تھے‘ اللہ نے کرم کیا ‘یہ مسلمان ہو گئے اور انھوں نے دنیا کی ایک قدیم زبان کا بیان دوسری قدیم زبان میں ڈھال دیا اورآج یورپ کا جو شخص یہ ترجمہ پڑھتا ہے اس کے دل میں ایمان کا بیج جڑ پکڑ لیتا ہے۔وہ فرمانے لگے ’’آپ نے اب تک قرآن مجید سے کیا سیکھا‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں نے اسلام کا مطالعہ چار سال پہلے شروع کیا تھا اور ترجمہ پچھلے مہینے سے پڑھ رہا ہوں‘ میں اس لحاظ سے نو مسلم ہوں لہٰذا میری رائے ہر گز ہر گز قطعی نہیں‘ یہ لولے لنگڑے خیالات ہیں جنھیں میں روز ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا رہتاہوں‘‘ انھوں نے فرمایا ’’آپ بیان کریں‘ گھبرائیں نہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’مثلاً ہم لوگ اپنی روز مرہ زبان میں کافر کا لفظ استعمال کرتے ہیں‘ میں لفظ کافر کا مطلب تلاش کررہا تھا‘ مجھے یہ مطلب قرآن مجید کی ابتدائی آیات میں ملا.
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کافر وہ ہیں جو انکار کرتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں‘ یہ پڑھنے کے بعد مجھے پہلی بار معلوم ہوا انکار اور تکبر جب تک دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوتے کوئی شخص اس وقت تک کافر نہیں ہو سکتا‘ میں اب انکار اور تکبر کے اصل معانی تلاش کر رہا ہوں‘ میں اس جستجو میں ہوں اللہ کس کو انکار سمجھتا ہے اور کس کو تکبر‘ مجھے جس دن ان دونوں لفظوں کے معانی مل جائیں گے مجھے کفر اور کافر کی سمجھ آ جائے گی‘‘ وہ مسکرائے‘ میرے کندھے پر تھپکی دی اور فرمایا ’’آپ کی سمت ٹھیک ہے‘‘ ذرا سے رکے اور فرمایا ’’اللہ نے اس کے علاوہ آپ کو کیا سکھایا‘‘ میں نے عرض کیا ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خود کو مالک یوم الدین قرار دیا‘ ہمارے علماء یوم الدین کا ترجمہ یوم حشر کرتے ہںم‘ میں اس پر تھوڑا سا کنفیوژ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس لفظوں کی کمی نہیں ‘ وہ اگر یوم الدین کو یوم حشر کہنا چاہتا تو وہ یوم حشر‘ یوم قیامت کے لفظ نازل فرمادیتا‘ اسے اس دن کو یوم الدین کہنے کی کیا ضرورت تھی‘‘ انھوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا ’’پھر آپ نے کیا نتیجہ نکالا‘‘ میں نے عرض کیا ’’میرے رائے حتمی نہیں‘ یہ ابھی محض ایک سوچ ہے اور اس کے غلط ہونے کے سو فیصد امکانات ہیں‘‘ انھوں نے فرمایا ’’آپ اپنی رائے پیش کریں‘ اس کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا‘‘ میں نے عرض کیا ’’عبادت اور اخلاقیات ایک جگہ جمع ہوتی ہیں تو یہ دین بن جاتی ہیں‘ اسلام میں عبادت کا شیئر دس فیصد اور معاشرے یعنی اخلاقیات کا نوے فیصد ہے.
ہم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے ہم جب تک اخلاقیات کے اعلیٰ معیارکو نہیں چھو لیتے ہیں اور ہم اس وقت تک مسلمان بھی نہیں ہو سکتے جب تک ہماری زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ نہیں ہوجاتا چنانچہ ایک مسلمان صرف کلمہ‘ نماز‘ زکوٰۃ‘ روزے اور حج کی بنیاد پر یوم الدین کا امتحان پاس نہیں کر سکے گا‘ اسے عبادت کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کے تمام پرچے بھی پاس کرناہوں گے‘یہ جب تک نرم آواز میں نہیںبولے گا‘ یہ جب تک دوسرے انسانوں کو رنگ‘ نسل‘ مذہب اور زبان سے بالاتر ہو کر اپنے جیسا انسان نہیں سمجھے گا‘ یہ معاشرے میں انصاف قائم نہیں کرے گا‘ یہ پورا نہیں تولے گا‘ یہ پورا نہیں ناپے گا‘ یہ ملاوٹ سے نہیں بچے گا‘ یہ گھر کے دودھ کو بھی پانی سے نہیں بچائے گا‘ یہ قانون کو سب کے لیے برابرنہیں کرے گا‘یہ ادویات اور خوراک کی کوالٹی کی ضمانت نہیں دے گا‘ یہ صفائی کو نصف ایمان ثابت نہیں کرے گا‘ یہ بچوں کو شفقت‘ خواتین کو احترام‘ بوڑھوں کو محبت اور ملازموں کو عزت نہیں دے گا‘یہ جانوروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھے گا‘ یہ دوسروں کے خیالات برداشت نہیں کرے گا‘ یہ خود کو دوسروں کے خدائوں کو برا کہنے سے باز نہیں رکھے گا‘ یہ پبلک پراپرٹی کو ذاتی پراپرٹی سے زیادہ اہمیت نہیں دے گا‘ یہ خود کو دوسروں کی ذاتی زندگی سے دور نہیں رکھے گا‘یہ غیبت‘ نفرت‘ منافقت سے پرہیز نہیں کرے گا‘ یہ اپنی زندگی فلاح عام کے لیے وقف نہیں کرے گا‘ یہ یتیموں‘ بیوا=ں‘ مسکینوں اور بیماروں کا خیال نہیں رکھے گا‘ یہ فٹ پاتھ کے حقوق بھی نہیں سمجھے گا‘یہ عام آدمی کو سڑک پر چلنے کا حق نہیں دے گا‘ یہ لوگوں کے ساتھ شائستگی‘ رواداری اور اخوت کا مظاہرہ نہیں کرے گا اور یہ دنیا کے ہر مظلوم کے لیے اٹھ کرکھڑا نہیں ہو گاتو یہ اس وقت تک یوم الدین کا امتحان پاس نہیں کر سکے گا جس کا مالک خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس دن کو یوم الدین اس لیے قرار دیا کہ وہ اس دن صرف عبادت کا حساب نہیں لے گا یہ دین کا حساب مانگے گا اور دین دنیاوی اخلاقیات کے بغیر مکمل نہیں ہوتا‘ ہم صرف کلمے‘ نماز‘ روزے‘ زکوٰۃ اور حج کی بنیاد پر اپنے اللہ کو راضی نہیں کر سکیں گے‘‘ ۔وہ مسکرائے‘ میری طرف غور سے دیکھا اور فرمایا ’’آپ کی بات بڑی حد تک درست ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کیا دنیا میں کوئی ایسا معاشرہ موجود ہے جو اس کسوٹی پر پورا اترتا ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’جناب منہ چھوٹاہے لیکن بات بڑی کرنے لگا ہوں‘آپ معاف فرما دیجیے گا‘ یہ حقیقت ہے یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید کے ممالک اخلاقیات کے معیار پر پورے اتر رہے ہیں‘ وہاں وہ اخلاقیات ہیں جن کی توقع اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں سے کرتا ہے لہٰذا ہم اگر غیر جانبداری سے دیکھیں تو وہاں نوے فیصد دین موجود ہے بس اگر وہ لوگ کلمے‘ نماز‘ روزے‘ زکوٰۃ اور حج کا دس فیصد اسلام اپنالیں تو یہ یوم الدین کی کسوٹی پر پورا اتر جائیں گے جب کہ ان کے مقابلے میں ہم صرف دس نمبروں پر کھڑے ہیں اور ہمیں یہ امتحان پاس کرنے کے لیے مزید 90 نمبر درکارہوں گے ‘ ہمارا ایمان ہے اللہ کی ذات جو چاہے کرتی ہے اور ہم اس سے حساب نہیں مانگ سکتے چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ نے یوم الدین کے موقع پر گوروں کو دس نمبروں کی رعایت دے دی توکیا ہم تمام پرہیزگاری کے باوجود مارے نہیںجائیں گے‘ کیاگورے ہم سے آخرت میں بھی آگے نہیںنکل جائیں گے کیونکہ یہ اخلاقیات کے پورشن میں ہم سے نوے فیصد آگے ہیں‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا‘ مجھے تھپکی دی اور رخصت ہو گئے۔
ویکیوم
جاوید چوہدری جمعرات 3 جنوری 2013
ہٹلر کو مرے ہوئے 67 سال ہو چکے ہیں لیکن ہٹلر کی ذاتی‘ سیاسی اور جنگی تھیوریز آج بھی زندہ ہیں‘ آج بھی یورپ اور امریکا میں یہ بحث جاری ہے اگر بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہٹلر نہ ابھرتا تودنیا دوسری عالمی جنگ سے بچ جاتی‘ دنیا کے بے شمار جنگی ماہرین اور سماجی دانشوروں کا خیال ہے ہٹلر نہ ہوتا‘ اگر وہ ’’ جرمن قوم سپریم ہے‘‘ کا نعرہ نہ لگاتا تو دنیا کے تین کروڑ لوگ موت سے بچ جاتے مگر ان کے ساتھ ساتھ دنیا میں ایسے ماہرین کی تعداد بھی کم نہیں جو یہ سمجھتے ہیں ہٹلر مخصوص عالمی حالات کی پیداوار تھا‘ دنیا کے حالات خراب ہو چکے تھے‘ یورپ پچیس ممالک میں تقسیم تھا اور ہر ملک دوسرے ملک کا جانی دشمن تھا‘ برطانیہ اور فرانس کے درمیان چھوٹی سی آبی خلیج ہے لیکن یہ دونوں ملک سماجی لحاظ سے اتنے دور تھے کہ فرانسیسی شہری انگریزی بولنا گناہ سمجھتے تھے اور انگریز فرنچ لوگوں کے ساتھ گفتگو کے بعد مائوتھ واش سے قلی کرتے تھے۔
جرمن لوگ اپنی حدود کو ماسکو تک پھیلا دیتے تھے اور اسپین‘ اٹلی اور پرتگال ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے‘ دنیا معاشی لحاظ سے بھی خوفناک دور سے گزر رہی تھی‘ خوراک کا بحران شروع ہو چکا تھا‘ تیل کی دولت پر قبضے کی دوڑجاری تھی‘ یورپ میں چرچ اور پادری کی سیاسی دست درازیاں بھی انتہا کو چھو رہی تھیں‘ فوجیں سیاست اور سیاستدانوں سے مضبوط ہو چکی تھیں‘ مزدور اور کسان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے پنجے میں جکڑا ہوا تھا اور نو آبادیاتی نظام اور امیر خطوں پر قبضوں کا سلسلہ بھی آخری فیز میں داخل ہو چکا تھا اور یہ سارے حالات دنیا کو ایسے مقام پر لے آئے تھے جہاں کسی نہ کسی ہٹلر کا جنم ناگزیر تھا‘ یہ ہٹلر اگر جرمنی میں پیدا نہ ہوتا تو اس نے برطانیہ‘ فرانس‘ ماسکو‘ روم‘ لزبن یا میڈرڈ میں آنکھ کھول لینا تھی اور اس نے بھی وہی کرنا تھا جو ایڈوولف ہٹلر نے کیا‘ وہ بھی دنیا کو اسی قسم کی مہلک جنگ کے دہانے پر لے جاتا جس کے بعد موت کے سائے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے اور اس تباہ کن جنگ کے بعد دنیا امن کے ایک ایسے دائمی راستے پر چل پڑتی جس کے درمیان میں دنیا کے 68 غلام ملک آزاد ہو جاتے‘ یورپ اپنی سرحدیں ختم کر دیتا‘ یورپ کی کرنسی اور ویزہ ایک ہو جاتا‘ دنیا کے درمیان موجود بلاک اور آہنی پردے گرنے لگتے اور کرہ ارض انسانی حقوق کو اپنا آئین بنا لیتے‘ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہٹلر بہر حال ناگزیر تھا‘ دنیا نے ہر حال میں بدترین آمر‘ جنگی جنونی اور انا کے ہمالیہ پر بیٹھا خوفناک درندہ ضرور دیکھنا تھا‘ یہ آرگومنٹ بڑی حد تک درست ہے کیونکہ ابتر سیاسی حالات ہمیشہ ’’ویکیوم‘‘ پیدا کرتے ہیں اور ہٹلر جیسے لوگ اس ویکیوم سے جنم لیتے ہیں‘ یہ لوگ ایک لحاظ سے معاشروں کے محسن بھی ہوتے ہیں کیونکہ ان کے بعد معاشرے عموماً ٹھیک ہو جاتے ہیں‘ یہ لوگ اگر نہ ہوں تو شاید معاشرے تبدیل نہ ہوں‘ شاید انسانوں کی زندگی نہ بدلے‘ شاید بہتری کی فصلیں لہلہانا شروع نہ کریں اور اگر یہ نہ ہوں تو شاید انسان کی غفلت کی نیند کھلنے میں سیکڑوں سال لگ جائیں۔
پاکستان آج ایسے ہی سیاسی‘ سماجی اور نظریاتی دور سے گزر رہا ہے‘ ملک گروپوں اور مافیاز میں تقسیم ہے ‘ ہر گروپ قانون‘ آئین اور اخلاقیات سے مضبوط ہے‘ یہ مافیاز اپنی مرضی کے قانون بھی بنا لیتے ہیں اور آئین میں ترمیم بھی کر لیتے ہیں‘ ملک اس پولرائزیشن کی وجہ سے دو طبقوں میں تقسیم ہو چکا ہے‘ مالک اور غلام۔ مالک طبقہ ضرورت پڑنے پر سمجھوتہ کر کے سعودی عرب اور لندن چلا جاتا ہے‘ یہ کرپشن کے واضح ثبوتوں کے باوجود قانون کے شکنجے سے بچ جاتا ہے‘ یہ این آر او بھی کر لیتا ہے‘ یہ میثاق جمہوریت کے نام پر ایک دوسرے کا ہاتھ بھی تھام لیتا ہے‘ یہ ایم کیو ایم‘ پاکستان مسلم لیگ ق‘ یونی فکیشن بلاک اور ہم خیالوں کا دامن بھی تھام لیتا ہے‘ یہ ذاتی مفاد کے لیے اٹھارہویں‘ انیسویں‘ بیسویں اور اکیسویں ترمیم بھی پاس کر لیتا ہے اور یہ مفاہمت کے نام پر اخلاقیات تک کی قربانی دے دیتا ہے‘ اس گروپ میں کل تک صرف فوج‘ سیاستدان‘ جاگیردار اور سرمایہ دار ہوتے تھے لیکن آج اس میں مذہبی گروپ‘ میڈیا ایمپائرز اور وکلاء بھی شامل ہو چکے ہیں اور آج ملک میں وکیلوں‘ صحافیوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف بھی کارروائی ممکن نہیں جب کہ ان کے مقابلے میں غلام لوگ بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں‘ ملک میں بجلی‘ گیس‘ نوکری‘ تعلیم اور صحت تو رہی دور عام انسان زندگی تک کے حق سے محروم ہو چکے ہیں‘ کراچی سے لے کر پشاور تک ملک میں کسی بھی عام شخص کو گولی مار دی جاتی ہے اور پولیس ایف آئی آر تک درج کرنا گوارا نہیں کرتی‘ نوکریاں موجود نہیں ہیں‘ اگر ہیں تو میرٹ نہیں‘ کرنسی روزانہ کی بنیاد پر ’’ڈی ویلیو‘‘ ہو رہی ہے‘ عوام سے متعلقہ تمام محکمے اور تمام ادارے زوال پذیر ہیں‘ انتہا پسندی آخری حدوں کو چھو رہی ہے‘ حکومت کو محرم کے جلوس نکالنے کے لیے سو سو شہروں کی موبائل فون سروس بند کرنا پڑ جاتی ہے‘ ملک میں شناختی کارڈوں اور ناموں کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے اور ریاست خاموشی سے تماشا دیکھتی ہے‘ اس تقسیم‘ اس پولرائزیشن نے ملک میں وسیع سیاسی خلا پیدا کر دیا ہے اور جو شخص اس خلا میں قدم رکھ دیتا ہے لوگ دیوانہ وار اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں‘ وہ شخص خواہ چوہدری اعتراز احسن ہو‘ عمران خان ہو یا پھر علامہ طاہر القادری ہوں لوگ اس کو نجات دہندہ سمجھ کر اس کا پرچم تھام لیتے ہیں۔
ہم اگر چند لمحوں کے لیے علامہ طاہر القادری کا ماضی بھول جائیں‘ انھوں نے ماضی میں کیا کیا غلطیاں کیں‘ یہ سیاسی لحاظ سے ناکام شخص ہیں اور انھوں نے کینیڈین شہریت لے رکھی ہے‘ ہم اگر چند لمحوں کے لیے یہ اعتراضات سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیں تو پھر ہمیں یہ ماننا پڑے گا علامہ صاحب کے مطالبات غلط نہیں ہیں‘ یہ حقیقت ہے ملک کا نظام فیل ہو چکا ہے‘ ہمارا سیاسی نظام صرف اور صرف کٹھ پتلیاں پیدا کررہا ہے ‘ سیاسی جماعتیں جاگیردارانہ سوچ کی انتہا کو چھو رہی ہیں‘ ملک میں کوئی اچھا‘ پڑھا لکھا‘ ایماندار اور سمجھ دار شخص موجودہ سیاسی نظام کے ذریعے سامنے نہیں آ سکتا‘ یہ حقیقت ہے اس نظام میں رہ کر پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کو گلے لگانے پر مجبور ہو جاتی ہے‘ پاکستان مسلم لیگ ن مسلم لیگ ق کے ارکان کو جنرل مشرف کے اچھے ساتھیوں اور برے ساتھیوں میں تقسیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور اس میں عمران خان جیسا سونامی بھی ان لوگوں کو اپنے دائیں بائیں بٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے ہمارے موجودہ سیاسی نظام میں جمشید دستی‘ زاہد اقبال اور موسیٰ گیلانی ایفی ڈرین‘ دوہری شہریت اور جعلی ڈگری کے الزامات کے باوجود الیکشن لڑتے ہیں اور قوم انھیں دوسری بار بھی منتخب کر کے ایوان میں بھجوا دیتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے اگر موجودہ سسٹم کے تحت الیکشن ہوتے ہیں تو وہی لوگ دوبارہ ایوانوں میں آ جائیں گے جنہوں نے پچھلے پانچ برسوں میں ملک کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا ‘ جو ملک کو ڈیفالٹ تک لے گئے ہیں چنانچہ علامہ طاہر القادری کا سیاست کے بجائے ریاست بچائو کا نعرہ غلط نہیں ہاں البتہ یہ بات تحقیق طلب ہے علامہ صاحب اپنے مطالبے میں کس قدر سنجیدہ ہیں‘ کیایہ واقعی ریاست بچانا چاہتے ہیں یا پھر یہ بھی سیاست بازی فرما رہے ہیں‘ یہ لانگ مارچ کے ذریعے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان پہنچانا چاہ رہے ہیں اور کیا ان کا ماضی ان کے حال سے مختلف ہو گا؟ رہی ٹائمنگ کی بات تو علامہ طاہر القادری کی ٹائمنگ بہت زبردست ہے‘ یہ واقعی درست وقت پر پاکستان آئے ہیں۔
ملک میں زرداری کی مفاہمتی سیاست‘ میاں صاحب کی اقدار کی سیاست اور عمران خان کی سونامی سیاست بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور ان ناکامیوں نے سیاسی خلا پیدا کر دیا ہے اور علامہ صاحب اس ویکیوم میں ٹھیک وقت پر لینڈ ہوئے ہیں‘میرا خدشہ ہے اگر ہماری سیاسی جماعتوں نے اس وارننگ پر توجہ نہ دی تو یہ سیاسی خلا کسی خوفناک ہٹلر کو جنم نہ دے دے اور وہ ہٹلر ملک کی اینٹ سے اینٹ نہ بجا دے ‘ یہ ہٹلر فوجی بھی ہو سکتا ہے‘ سابق فوجی بھی اور عوام کے غیض و غضب کا وہ عفریت بھی جو کلین شیو اور خوشبو لگانے والے ہر شخص کو اپنا دشمن سمجھے گا اور یہ اس سے پورا پورا بدلہ لے گا۔ علامہ طاہرالقادری سیاسی ویکیوم کی پیداوار ہیں‘ اگر ہم نے یہ موقع ضایع کر دیا تو اس ویکیوم کو ان سے زیادہ خطرناک لوگ پر کریں گے اور ہمارے سیاستدان شاید ان لوگوں کے خلاف بیان تک جاری کرنے کی جرأت نہ کر سکیں‘ وہ لوگ شاید گردن پہلے اتاریں اور جرم بعد میں پوچھیں۔
ہم فیصلہ کر لیں
جاوید چوہدری بدھ 2 جنوری 2013
نیا سال دنیا بالخصوص یورپ کی سب سے بڑی سماجی تقریب ہوتا ہے‘ یورپ‘ امریکا‘ مشرق بعید‘ آسٹریلیا اور روسی ریاستوں میں نئے سال کی تقریبات کا بڑی شدت سے انتظار کیا جاتا ہے‘ لندن میں یورپ کی نئے سال کی سب سے بڑی تقریب ہوتی ہے اور میں اس سال یہ تقریب دیکھنے کے لےش لندن گیا‘ یہ لائف ٹائم تجربہ تھا اور مجھے اس تجربے کے دوران بے شمار نئی چیزیں سیکھنے کا موقع ملا‘ دسمبر کے آخری عشرے میں لندن کو خصوصی طور پر سجا دیا جاتا ہے‘ شہر کی تمام عمارتوں میں مصنوعی کرسمس ٹری لگا دیے جاتے ہیں‘ گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں میں چھوٹے چھوٹے برقی قمقمے لگا دیے جاتے ہیں جب کہ بازاروں‘ مارکیٹوں‘ پارکس اور سڑکوں پر بھی برقی قمقمے لگا دیے جاتے ہیں‘ یہ قمقمے ماحول کو خوبصورت بنا دیتے ہیں‘ یہ سلسلہ نئے سال کی تقریبات تک جاری رہتا ہے‘ لندن میں نئے سال کی سب سے بڑی تقریب دریائے ٹیمز کے کنارے منائی جاتی ہے‘ ’’ لندن آئی‘‘ پر فائر ورکس کے لیے ہوائیاں نصب کر دی جاتی ہیں‘ ’’ لندن آئی‘‘ کے سامنے بیس منزلہ عمارت ہے‘ اس عمارت پر ’’ ملٹی میڈیا‘‘ کے ذریعے دیوقامت گھڑی بنا دی جاتی ہے‘ گھڑی کی سوئیاں پورے شہر سے دکھائی دیتی ہیں۔
نیو ائیر کی تقریب دیکھنے کے لیے پورے ملک‘ یورپ اور دوسرے ممالک سے لوگ لندن آ جاتے ہیں‘ ہوٹل پیک ہو جاتے ہیں‘ 31 دسمبر کی شام لوگ ٹولیوں کی شکل میں لندن برج‘ ٹاور برج اور دریائے ٹیمز کے کنارے جمع ہونے لگتے ہیں‘ لندن آئی ان لوگوں کا خصوصی ٹارگٹ ہوتی ہے‘ یہ لوگ دریا کے کنارے جمع ہوتے ہیں‘ اسپیکر کے ذریعے موسیقی کی دھنیں سنائی جاتی ہیں‘ رات پونے بارہ بجے موسیقی کی آواز بلند ہو جاتی ہے‘ لوگ موسیقی کی دھن پر دیوانہ وار ناچنا شروع کر دیتے ہیں‘ بارہ بجنے سے چند سیکنڈ قبل موسیقی بند ہو جاتی ہے‘ لاکھوں لوگ گھڑی کی سوئیوں پر نظریں جما کر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ الٹی گنتی گنی جاتی ہے اور ٹھیک بارہ بجے فضا آتشبازی سے منور ہو جاتی ہے‘ لندن آئی کے جھولوں سے لاکھوں پٹاخے‘ شرلیاں‘ آتشی انار اور ہوائیاں چھوڑی جاتی ہیں اور آسمان ان کے رنگوں سے منور ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی لوگ ناچتے‘ کودتے اور تصویریں بناتے ہیں۔
اس 31 دسمبر کو بھی یہی ہوا‘ شام سات بجے کے بعد سینٹرل لندن کی تمام سڑکیں ٹریفک کے لیے بند کر دی گئیں‘ لوگوں نے اپنی گاڑیاں سینٹرل لندن سے باہر کھڑی کیں اور پیدل دریائے ٹیمز کی طرف چلنے لگے‘ یہ ٹولیوں میں دریا کی طرف بڑھ رہے تھے‘ شہر کی گلیاں لوگوں کا سمندر محسوس ہوتی تھیں اور یہ سمندر سینٹرل لندن کی طرف بڑھتا جا رہا تھا‘ سینٹرل لندن میں سیکیورٹی کا خصوصی بندوبست اور پولیس کے دستے دکھائی دیتے تھے‘ رات دس بجے دریا کو جانے والے راستے لوگوں کے لیے بند کر دیے گئے‘ لاکھوں لوگ لندن آئی سے چند گز دور ٹھہرنے پر مجبور ہو گئے‘ ان کے راستے میں ’’ کرائوڈ سیکیورٹی‘‘ کے لوگ کھڑے تھے اور کسی کو انھیں دھکا دینے یا انھیں کراس کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی‘ لندن کی انتظامیہ ایسے ہنگامی حالات میں مختلف پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں کے کارکنوں کو ایک یا دو دن کے لیے طلب کر لیتی ہے‘ ان لوگوں کو ’’ کرائوڈ سیکیورٹی‘‘ کی جیکٹس پہنا دی جاتی ہیں‘ یہ پولیس جیکٹ ہوتی ہے لیکن اس کی پشت پر کرائوڈ سیکیورٹی کے لفظ چھپے ہوتے ہیں‘ یہ لفظ ثابت کرتے ہیں یہ پولیس کے ریگولر سپاہی نہیں ہیں لیکن انھیں لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے عارضی اختیارات دے دیے گئے ہیں‘ مجھے ان میں درجنوں پاکستانی نوجوان ملے‘ یہ عمدہ بندوبست ہے‘ پاکستان میں بھی حکومت ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے ایسا انتظام کر سکتی ہے‘ یہ جلسوں اور جلوسوں کے دوران پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں کے کارکنوں کی مدد لے لے‘ یہ انھیں پولیس کی جیکٹ پہنا کر راستوں میں کھڑا کر دے‘ اس سے عام پولیس پر دبائو بھی کم ہو جائے گا اور ہجوم بھی کنٹرول ہو جائیں گے‘ لندن میں سیکیورٹی کے دس بارہ نوجوانوں کے پیچھے ریگولر پولیس کا ایک آدھ نوجوان کھڑا تھا اور یہ لوگ ہزاروں لوگوں کو کنٹرول کر رہے تھے‘ ہم دس بجے لندن آئی کے قریب پہنچے تو راستے بند ہو چکے تھے‘ ہم مایوس ہو کر واپس پلٹنے لگے لیکن سیکیورٹی میں موجود پاکستانیوں نے مجھے پہچان لیا چنانچہ انھوں نے ہماری انٹری کے لیے خصوصی اجازت لے لی اور یوں ہم لندن آئی تک پہنچ گئے۔
لندن آئی اور دریائے ٹیمز کے کناروں پر پانچ‘ دس لاکھ لوگ جمع تھے‘ یہ لوگ شراب بھی پی رہے تھے اور ہم ان شرابیوں کے درمیان کھڑے تھے لیکن مجال ہے کسی طرف سے کوئی دھکا پڑا ہو‘ کسی نے کسی کو چھیڑنے کی کوشش کی ہو یا کسی نے کسی کو تنگ کیا ہو‘ ہجوم میں عورتیں اور بچے بھی تھے اور یہ بھی ان بدمست لوگوں کے عین درمیان کھڑے تھے لیکن انھیں بھی کسی قسم کا گزند نہیں پہنچا‘ دس لاکھ لوگوں کے اس مجمعے میں کسی نے کسی کے پائوں تک پر پائوں نہیں رکھا‘ لوگ نشے کی حد پار کرنے کے باوجود تہذیب کی حدود میں تھے اور ہم ان کے اس ڈسپلن پر ان کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکے‘ یہ پانچ دس لاکھ لوگ خوش بھی تھے‘ ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے‘ ان کی آنکھوں میں مسرت کی چمک اور چہرے پر خوشی کا سرخ خون دوڑ رہا تھا‘ ان کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا نیا سال ان کے لیے واقعی خزانے کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ اس خزانے کی جستجو میں ہزاروں میل کا سفر طے کر کے یہاں آئے ہیں‘ مجمعے میں نوجوان بھی تھے‘ بوڑھے بھی اور انتہائی بوڑھے بھی‘ میں نے وہاں وہیل چیئر پر بابے اور مائیاں دیکھیں‘ یہ وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے تھرک رہے تھے اور ان کے چہرے بھی خوشی سے دمک رہے تھے‘ نیو ائیر کی آتش بازی شروع ہوئی تو تمام لوگ بڑے انہماک سے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے اور آتش بازی کے ہر مظاہرے کی دل کھول کر داد دے رہے تھے‘ آتش بازی ختم ہوئی تو ہجوم تہذیب کے ساتھ منتشر ہونے لگا‘ کسی نے کسی پر بوتل نہیں پھینکی‘ کسی نے کسی کو گالی نہیں دی اور کوئی کسی سے الجھا نہیں‘ یہ لوگ خود بخود آہستہ آہستہ ٹیوب اسٹیشنوں کی طرف بڑھنے لگے۔
لندن کی انتظامیہ نے لوگوں کو گھروں تک پہنچانے کے لیے بسوں کی خصوصی سروس کا انتظام کیا تھا‘ یہ بسیں مفت تھیں اور پورے لندن کے لیے چل رہی تھیں‘ انڈر گرائونڈ ٹرین سروس بھی ساری رات جاری رہی‘ ہم نے واپسی میں ہجوم میں بچے بھی دیکھے‘ والدین بچوں کو ’’ پرام‘‘ میں ڈال کر لے جا رہے تھے اور بچے ہجوم سے خوفزدہ تھے اور نہ ہی لوگ بچوں کو تنگ کر رہے تھے‘ لوگ نشے میں دھت تھے لیکن ایک دوسرے کے بازو سے بازو مس ہونے یا راستہ رکنے پر ایک دوسرے سے معذرت کرتے تھے اور آگے چل پڑتے تھے‘ راستے میں کافی شاپس‘ ریستوران‘ چھوٹی دکانیں‘ پیزا اور ڈسکو کھلے تھے اور ہجوم ان پر بھی کسی قسم کا کوئی حملہ نہیں کر رہا تھا‘ میں نے دس لاکھ لوگوں کے اس مجمعے میں کوئی بورڈ‘ کوئی اشارہ یا کوئی شیشہ ٹوٹتے نہیں دیکھا‘ چوری اور جیب تراشی کی واردات بھی نہیں ہوئی اور کسی کو دوسروں سے پٹتے بھی نہیں دیکھا‘ لوگ جس شائستگی کے ساتھ اکٹھے ہوئے تھے اسی ترتیب اور نظم کے ساتھ گھروں یا ڈسکوز میں چلے گئے اور ٹھیک ایک گھنٹے بعد لندن آئی کا علاقہ ایسا لگتا تھا جیسے یہاں کوئی کبھی نہیں آیا ہاں البتہ سڑکوں پر ٹن‘ بوتلیں اور ریپر دکھائی دیتے تھے لیکن اتنے نہیں جتنے ہمارے ملک میں ہزار دو ہزار لوگوں کے مجمعے کے بعد جمع ہو جاتے ہیں‘ لوگوں نے راستے میں کوئی پھول‘ کوئی پودا تک نہیں توڑا‘ یہ برٹش کریکٹر ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا کریکٹر دکھائی نہیں دیتا‘ ہماری حکومتوں میں ایسا کریکٹر پیدا کرنے کی اہلیت نہیں‘ کاش ملک کی ایک آدھ یونیورسٹی یا اس کے طالب علم یہ ذمے داری اٹھا لیں‘ یہ ہجوم کو ٹرینڈ کریں‘ یہ لوگوں کو بتائیں ہم سیم باسیل کی گستاخی کی سزا اپنے شیشوں‘ اپنے سگنلز اور اپنی پولیس کو دیتے ہیں اور اس سے ہمارا ہی نقصان ہوتا ہے‘ کاش یہ بچے مجمعے کو ماحول صاف رکھنے کی ٹریننگ بھی دیں‘ ملک اسی سے ٹھیک ہو گا۔
ہمیں گوروں سے ہزاروں اختلاف ہو سکتے ہیں لیکن جہاں تک ان کی خوش رہنے اور خوش رکھنے کی عادت ہے ہمیں اسے ماننا ہو گا یہ لوگ حقیقتاً خوشی کو سمجھتے ہیں جب کہ ہم لوگوں کو خود خوش ہونا آتا ہے اور نہ ہی ہم دوسروں کو خوش دیکھ سکتے ہیں‘ ہم نے زندگی کو قربان گاہ‘ کمرہ امتحان یا کانٹوں کا بستر بنا لیا ہے اور اس اپروچ کی وجہ سے ہماری زندگی زندگی نہیں رہی قید بامشقت بن گئی ہے‘ میں آج تک نہیں سمجھ سکا نئے سال کی تقریبات میں کیا خرابی ہے‘ ہم بسنت‘ جشن بہاراں‘ میلوں اور نمائشوں کے کیوں خلاف ہیں‘ یہ ٹھیک ہے تقریبات کو حد مں رہنا چاہیے‘ ہم مسلمان ہیں‘ ہم شراب نوشی اور ہلڑ بازی کی اجازت نہیں دے سکتے لیکن ہم اپنی معاشرتی حدود میں رہ کر بھی تو تقریبات منا سکتے ہیں‘ ہم ملک کے بڑے پارکس اور اسٹیڈیم میں نئے سال کی تقریب منائیں‘ ہم آتش بازی کا مظاہرہ کریں‘ کھانے پینے کے چھوٹے چھوٹے اسٹالز لگائیں‘ بچوں کے لیے جھولوں کا بندوبست کریں‘ بسنت کی حدود بھی طے کر دی جائیں‘ لوگوں کے گلے کاٹنے یا زخمی کرنے والی ڈور پر پابندی ہو‘ جو یہ پابندی توڑے اسے کڑی سزا دی جائے‘ پتنگ اڑانے کے دن طے کر دیے جائیں‘ پارکوں اور اسٹیڈیمز میں پتنگ بازی کی جائے‘ چھتوں پر پتنگ اڑانے پر پابندی لگا دی جائے‘ ملک بھر میں میلے بھی لگیں اور نمائشیں بھی ہوں تا کہ لوگوں کو سانس لینے کا موقع ملے‘ یہ خوش ہو سکیں۔
ہم کتنے عجیب لوگ ہیں‘ ہم نے ملک میں لوگوں کو سرے عام مارنے کی اجازت دے رکھی ہے‘ ہم روزانہ بیسیوں لاشیں اٹھاتے ہیں لیکن نئے سال اور بسنت پر پابندی ہے جب کہ پوری دنیا میں نیو ائیر نائٹ منائی جاتی ہے‘ ہم آج فیصلہ کر لیں ہم عقل مند ہیں یا پھر وہ لوگ‘ ہم اچھے ہیں یا پھر وہ لوگ جو خود بھی خوش ہو رہے ہیں اور دوسروں کو بھی خوشی کا موقع دے رہے ہیں‘ ہم فیصلہ کر لیں ہم نے صرف لاشیں اٹھانی ہیں یا پھر ہم نے زندگی کو زندگی کی طرح گزارنا ہے۔
دنیا ایک اسٹیج ہے
جاوید چوہدری اتوار 30 دسمبر 2012
اسٹارٹ فورڈ برمنگھم شہر کے مضافات میں ایک چھوٹا سا ٹائون ہے‘ یہ ٹائون ولیم شیکسپیئر کی وجہ سے دنیا کے 245ممالک میں مشہور ہے‘ دنیا میں اس وقت ساڑھے چھ ارب لوگ بستے ہیں‘ ہم اگر دنیا کی ابتداء سے اب تک کی آبادی کا تخمینہ لگالیں تو کرہ ارض کی چھاتی پر قریباً بارہ ارب لوگوں نے قدم رکھا ہوگا‘ دنیا میں دس ہزار سال سے لٹریچر‘ شاعری اور تحریری زبان بھی چل رہی ہے‘ لوگ سات ہزار سال سے تھیٹر بھی دیکھ رہے ہیں اور لوگ آٹھ نو ہزار سال سے ایک دوسرے کو کہانیاں‘ داستانیں اور کہاوتیں بھی سنا رہے ہیں لیکن دنیا کی دس ہزار سال کی تحریری تاریخ میں ولیم شیکسپیئر ایک ہی تھا اور شائد ایک ہی رہے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہانی بننے‘ کہانی کہنے‘ ڈائیلاگ گھڑنے اور جذباتی صورتحال کو لفظوں میں پینٹ کرنے کا جتنا بڑا کمال ولیم کو عطا کیا تھا وہ کرہ ارض کے کسی دوسرے تخلیق کار کو نصیب نہیں ہوا‘ شیکسپیئر کے لفظ محض لفظ نہیں یہ ادب کی آیات ہیں اور یہ آیات اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم کے بغیر ممکن نہیں۔
ہم نے اور آپ نے یہ فقرہ اکثر سنا ہوگا اس نے لکھا اور قلم توڑ دیا‘ یہ فقرہ شیکسپیئر کے علاوہ دنیا کے ہرشخص کے لیے فقط فقرہ ہے کیونکہ یہ دنیا کا واحد تخلیق کار تھا جو اس آسمانی فقرے کی کسوٹی پر پورا اترتا تھا‘ اس نے حقیقتاً لکھا اور تخلیق کا قلم توڑ کر دنیا سے رخصت ہو گیا اور پیچھے دنیا کے بیس ماسٹر پیس‘ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پھیلی دنیا کا عظیم اسٹیج اور کروڑوں اربوں چاہنے والے چھوڑ گیا اور ان چاہنے والوں میں سے پانچ لاکھ ہر سال اس کے گائوں اسٹارٹ فورڈ کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور اس سال میں بھی ان پانچ لاکھ زائرین میں شامل تھا۔ لندن میں میاں گلزار میرے دوست ہیں‘ ہم تین‘ میں ‘میاں گلزار اور بھائی مجید 27دسمبر کو اسٹارٹ فورڈ پہنچے۔لندن سے لے کر اسٹارٹ فورڈ تک سردی‘ دھند‘ بارش اور اداسی پھیلی تھی‘ برطانیہ کا دسمبر پرانی یاد کی طرح اداس ہوتا ہے‘ یہ آہستہ آہستہ آپ کو اندر سے کاٹتا ہے اور آپ کی بینائی کو دھندلا جاتا ہے‘ اسٹارٹ فورڈ بھی اداسی اور بارش کی دھند میں لپٹا ہوا تھا۔ ولیم شیکسپیئر 1564ء میں اس گائوں میں پیدا ہوا‘ یہ برطانیہ میں موت کا دور تھا‘ فضا میں بخار کے چودہ قسم کے جراثیم تھے‘ انسان فلو کے باار سے بچتا تھا تو ٹی بی کے بخار کا شکار ہو جاتا تھا‘ اس سے بچ جاتا تھا تو ملیریا‘ چیچک‘ خناق‘ کالی کھانسی کے ہاتھوں مر جاتا تھا اور اگر ان سے بچ جاتا تھا تو طاعون پورے شہر کو چاٹ جاتی تھی اور اگر انسان طاعون سے بھی بچ جاتا تھا تو یہ پادریوں کے احکامات کی نذر ہو جاتا تھا‘ کیتھولک پادری کسی بھی شخص کو مرتد قرار دے دیتے تھے اور عام لوگ اس شخص کو سرے عام قتل کر دیتے تھے۔
ولیم شیکسپیئر نے اس سیاہ ترین دور میں آنکھ کھولی‘ اس کا اصل کمال کنگ لیئر اور ہملٹ جیسے شاہکار تخلیق کرنا نہیں تھا‘ اس کا کمال بچپن میں موت کے جراثیم سے بچنا اور پھر جوانی میں ایسے پادریوں کی موجودگی میں شہ پارے تخلیق کرنا تھا جو انجیل کے علاوہ ہر تحریر کو بدعت‘ دوزخ کا ایندھن اور ناقابل معافی جرم سمجھتے تھے اور یہ شاعروں‘ ادیبوں اور ڈرامہ نگاروں کے قتل کا فتویٰ جاری کرتے پانچ منٹ لگاتے تھے۔ ولیم شیکسپیئر کا والد دستانے بناتا تھا‘ اس کے آٹھ بچے تھے‘ ولیم اس دستانے ساز کا تیسرا بچہ تھا‘ ہم ساڑھے تین بجے شیئر کے گھر میں داخل ہوئے‘ یہ چھوٹا سا دو منزلہ لکڑی کا گھر تھا‘ گھر کا ایک کمرہ دستانے بنانے کی ورکشاپ تھا‘ ولیم کا والد اس ورکشاپ میں چمڑے کے دستانے بناتا تھا‘ ورکشاپ کی ایک کھڑکی بازار کی طرف کھلتی تھی‘ یہ اپنے دستانے کھڑکی کے اندر لٹکا دیتا تھا‘ گاہک آتے تھے اور یہ اس کھڑکی کے ذریعے دستانے بیچ دیتا تھا‘ گھر کے اندر ایک چھوٹا سا ڈائیننگ روم ہے‘ ایک چھوٹا سا اوپن کچن ہے‘ بالائی منزل رہائشی علاقہ تھا‘ یہاں دو کمرے ہیں‘ ایک کمرہ بچوں کا اور دوسرے کمرے میں والدین رہتے تھے‘ چھت اور کھڑکیوں سے روشنی کا بندوبست ہے‘ فرش چوبی ہیں اور دیواریں لکڑی اور گارے سے بنائی گئی ہیں‘ گھر کے پچھواڑے میں سبزیوں اور فروٹ کا چھوٹا سا گارڈن ہے اور پورے کمپائونڈ میں دانش اور فکر کی مہک ہے‘ حکومت نے ولیم کی جائے پیدائش کے دائیں بائیں گھر خرید کر انھیں میوزیم میں تبدیل کر دیا ہے‘ آپ میوزیم میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو ملٹی میڈیا کے ذریعے شیکسپیئر کے تخلیق کردہ ڈراموں کے مختلف کردار دکھائے جاتے ہیں‘ پھر پرانا اسٹارٹ فورڈ دکھایا جاتا ہے‘ پھر اس کی سولہویں صدی میں چھپنے والی کتاب دکھائی جاتی ہے اور پھر اس کے گھر کے پچھواڑے سے گزار کر اس کے مکان کے اندر لایا جاتا ہے اور پھر آپ پست قامت چھتوں اور چوبی فرشوں سے ہوتے ہوئے اس کا سارا گھر دیکھتے ہیں‘ آپ فرش پر چلتے ہیں تو آپ کو پرانی لکڑی کی چیں چیں ماضی میں لے جاتی ہے اور آپ ہملٹ کے کرداروں کو اپنے دائیں بائیں سرگوشیاں کرتے محسوس کرتے ہیں اور آپ اس شیکسپیئر کے تخلیقی دماغ کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے جس نے چار سو سال قبل انسان کی لاکھوں سال پرانی جبلت لفظوں کے ذریعے پینٹ کی اور ہم آج جب اپنے جذبات‘ اپنے احساسات اور اپنی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو ہم بے اختیار شیکسپیئر کی مدد لےنس پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
’’دنیا ایک اسٹیج ہے‘‘ کیا آپ انسانی زندگی کو اس سے زیادہ خوبصورتی سے بیان کر سکتے ہیں؟ آپ اپنے دائیں جانب دیکھیے‘ بائیں دیکھیے اور آگے اور پیچھے دیکھیے‘ کیا آپ کو دنیا ایک وسیع اسٹیج اور اسٹیج پر چلتے پھرتے لوگ کردار دکھائی نہیں دیتے اور کیا آپ خود کو بھی ان کرداروں میں سے ایک کردار محسوس نہیں کرتے۔ ’’محبت کرو اور خاموش رہو‘‘ یہ محبت جیسے جذبے کے نتائج بھگتنے کا انتہائی خوبصورت طریقہ ہے اور ’’گلاب کو کوئی بھی نام دے دیں یہ گلاب ہی رہتا ہے‘‘ یہ نیکی کا کیا خوبصورت جواز ہے‘ دنیا میں بے شمار دانشور‘ ادیب‘ شاعر اور ڈرامہ نگار گزرے ہیں لیکن شیکسپیئر ان چند خوش نصیب لکھاریوں میں شمار ہوتا ہے جس کا ہر دوسرا فقرہ ضرب المثل‘ محاورہ یا فلسفہ بنا اور یہ اللہ کا اس پر خصوصی کرم تھا۔
اسٹارٹ فورڈ میں ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی‘ ہم ولیم کے گھر سے نکلے اور گلی کی دوسری سائیڈ پر ریستوران میں گھس گئے‘ کائونٹر پر خوبصورت نوجوان کھڑا تھا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’آپ کا نام ہیری ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’جی نہیں‘ میں ولیم ہوں‘‘ میں نے کہا ’’لیکن تمہاری شکل پرنس ہیری سے ملتی ہے‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’ولیم کے گائوں کا ہر دوسرا مرد ولیم ہے‘ آپ گلی میں کھڑے ہو کر اونچی آواز میں ولیم کا نعرہ لگائیں‘ گلی کے آدھے سے زائد مرد مڑ کر آپ کی طرف دیکھیں گے‘‘ یہ شیکسپیئر کے گائوں کا ولیم کے لیے معمولی سا خراج تحسین تھا۔ میں اسٹارٹ فورڈ سے واپسی کے وقت ایک لمحے کے لیے ولیم کے گھر کے سامنے رکا‘ گھر کے باہر جنگلہ تھا اور جنگلہ کے پیچھے چار سو سال پرانی کھڑکیاں اور دروازے اور وقت کی سیاہی میں چھپی ہوئی دیواریں اور چار سو برفوں اور دھوپوں اورخزائوں اور بہاروں میں پکی ہوئی چھت تھی اور لاکھوں کروڑوں عقیدت مندوں کی نظروں میں پلی ہوئی خزاں رسیدہ بیلیں تھیں اور اربوں رکے‘ تھمے اور عقیدت سے ڈگمگاتے قدموں کے نشان لیے ڈیڑھ دو سو سال پرانی اینٹیں تھیں اور آسمان سے اترتے ہوئے نرم‘ ٹھنڈے اور سبک قطرے تھے اور الہام کی طرح اترتی گدگداتی ٹھنڈی ہوا تھی اور اس گیلی ٹھنڈی ہوا میں دروازے کے سامنے کھڑے ہوئے سیاح تھے اور ان سیاحوں کے کیمروں کے فلش تھے اور فلش کی ان کڑکتی‘ جلتی اور بجھتی روشنیوں میں گلی کے اس موڑ سے اس موڑ تک ایک سوال گردش کر رہا تھا‘ ولیم کے دائیں جانب کون رہتا تھا‘ بائیں جانب اور پیچھے اور آگے کس کا گھر تھا‘ ولیم کے زمانے میں اسٹارٹ فورڈ کس کی جاگیر تھا‘ گائوں میں کون کون خوشحال تھا اور وقت کے گھوڑے کی لگام کس کے ہاتھ میں تھی‘ ان سب کے نام‘ نشان اور خدوخال گزرتے وقت کی ہوائوں میں تقسیم ہو گئے‘ یہ سب ماضی کی اندھی قبر میں دفن ہو گئے اور ان کی قبروں پر گمنامی کی مہر لگ گئی.
ولیم کے دور کے شہزادے‘ شہزادیاں‘ ملکائیں اور بادشاہ تک بے نام مر گئے لیکن ولیم‘ اس کا نام اور اس کا گھر نہ صرف آج تک سلامت ہے بلکہ ہر سال پانچ لاکھ لوگ اس کی جائے پیدائش کی زیارت کے لیے بھی آتے ہیں‘ کیوں؟ یہ صرف اور صرف لکھے ہوئے حرف کی برکت ہے‘ یہ تخلیق کی قوت ہے‘ کتاب اللہ کی عنایت ہے‘ دنیا میں دولت مندوں کی دولت‘ اقتدار زادوں کا اقتدار اور جاگیرداروں کی جاگیر ختم ہو جاتی ہے لیکن صاحبان کتاب کی کتابیں سلامت رہتی ہیں اور ان کتابوں کے ساتھ ساتھ لکھنے والوں کے نام بھی کیونکہ اللہ کی کسی عنایت کو زوال نہیں آتا اور یہ ولیم شیکسپیئر کے گائوں کا دنیا کے ہر اس شخص کے نام پیغام تھا جو دولت‘ زمین‘ جائیداد اور اقتدار کو علم پر فوقیت دیتا ہے جو کنگ لیئر کا خالق بننے کے بجائے کنگ لیئر بننے کی ہوس میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ہم اس پیغام کے ساتھ ہی اسٹارٹ فورڈ کی نرم بارش اور یخ دھند ولیم کے دروازے پر چھوڑ کر لندن آ گئے‘ اس لندن جہاں ولمب شیکسپیئر کے کردار جدید لباس میں گلیوں اور سڑکوں پر پھر رہے تھے۔
دنیا ایک وسیع اسٹیج ہے اور ہم سب اس اسٹیج کے چھوٹے چھوٹے کردار‘ اللہ کی قلم سے لکھے ہوئے کردار جنھیں شیکسپیئر نے چار سو سال پہلے پڑھ لیا تھا اور ہمارے پڑھنے کے لیے دنیا میں چھوڑ گیا۔

پیرس کی کرسمس
بشیر بلور صاحب کے انتقال کی خبر فرینکفرٹ میں ملی‘ عاطف نے نیپلز سے فون کر کے اطلاع دی‘ بشیر بلور خود کش حملے میں جاں بحق ہو گئے ہیں‘ یہ پاکستان سے باہر پاکستان کے بارے میں پہلی بری خبر تھی‘ میں دکھ میں چلا گیا‘ بشیر بلور شاندار انسان تھے‘ یہ متحرک بھی تھے‘ جی دار بھی اور گفتگو میں سیدھے بھی۔ بلور برادران محبت کرنے والے وضع دار لوگ ہیں‘ سینیٹر الیاس بلور سے پچھلے سال پیرس کے ایک ریستوران میں ملاقات ہوئی‘ میں ریستوران سے باہر نکلا‘ الیاس بلور نے آواز دے کر واپس بلوایا‘ اپنا مفلر اتار کر میری گردن پر لپیٹا اور بڑے پیار سے کہا ’’ باہر سردی ہے‘ اپنی گردن اور کان کور کر کے باہر نکلو‘‘ یہ بظاہر معمولی بات تھی لیکن اچھے لوگ ایسی معمولی باتوں ہی سے پہچانے جاتے ہیں اور یہ وضع داری اور یہ محبت بلور برادران کی خاندانی عادت ہے، آپ نے حاجی غلام احمد بلور کے بیانات بھی پڑھے اور سنے ہوں گے، یہ اپنی کھری اور سچی باتوں کی وجہ سے ہمیشہ میڈیا پرسنز کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔
آپ ریلوے کے بارے میں ان کے بیانات یاد کیجیے یا پھر سیم باسیل کی توہین آمیز فلم کے بعد غلام احمد بلور کا رد عمل دیکھئے‘ آپ ان کی جرأت کو سلام کرنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ پاکستان عاشقان رسولؐ سے بھرا ہوا ہے‘ آپ کو پاکستان میں ایسے کروڑوں لوگ مل جائیں گے جو رسولؐ کے نام پر دیوانہ وار نعرے بھی لگاتے ہیں اور غلامی رسولؐ میں جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں لیکن سیم باسیل کی فلم پر اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک میں غلام احمد بلور واحد مسلمان تھے جنہوں نے سیم باسیل کو قتل کرنے والے کو ایک لاکھ ڈالر کا انعام دینے کا اعلان کیا تھا اور اس کے ردعمل میں ان پر امریکا اور برطانیہ آنے پر پابندی لگ گئی‘ یہ بیان اور یہ پابندی بلور برادران کی دین سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ بشیر بلور بھی ایک ایسے ہی انسان تھے‘ یہ بھی وضع دار تھے‘ یہ بھی جرأت مند تھے اور یہ بھی دین کی محبت سے مالا مال تھے‘ یہ اس وقت طالبان کو للکارتے رہے جب پورے صوبہ خیبر پختونخواہ میں کوئی لیڈر طالبان کا نام تک نہیں لیتا تھا، ہمیں یہ ماننا پڑے گا خیبر پختونخواہ میں سیاست اس وقت کانٹوں کا بستر ہے‘ صوبے کی قیادت چاروں اطراف سے خطرات میں گھری ہوئی ہے اور ان خطرات میں خاندان سمیت سروائیو کرنا انتہائی مشکل ہے مگر یہ لوگ ان مشکل بلکہ خطرناک ترین حالات میں بھی لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔
آپ میاں افتخار حسین کی مثال لے لیجیے‘ میاں افتخار حسین کا صاحبزادہ میاںراشد حسین اسی قسم کے حملے میں شہید ہو گیا‘ یہ میاں صاحب کا اکلوتا بیٹا تھا لیکن میاں افتخار حسین اکلوتے جوان بیٹے کی شہادت کے باوجود آج تک خیبر پختونخواہ میں کام بھی کر رہے ہیں اور ان کے اعصاب بھی بحال ہیں اور ہم اگر اتنی قربانیوں کے بعد ان لوگوں کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتے تو یہ زیادتی ہو گی‘ بشیر بلور کی شہادت صرف بلور خاندان کا نقصان نہیں بلکہ یہ پورے ملک کا نقصان ہے اور ہم نے اگر نقصان کا یہ عمل نہ روکا تو یہ ملک برائلر مرغوں کا ایک ایسا پنجرہ بن جائے گا جس کا ہر باسی پروں میں سرچھپا کر اپنے ذبح ہونے کا انتظار کرتا رہتا ہے‘ پنجرے کا دروازہ کھلتا ہے‘ خون میں لتھڑا ہوا ایک ہاتھ اندر آتا ہے‘ مظلوم مرغوں میں سے کسی ایک کو دبوچتا ہے‘ اس کے گلے پر چھری پھیر کر اسے پھڑ پھڑانے کے لیے ڈبے میں پھینک دیتا ہے اور دوبارہ پنجرے کی طرف چل پڑتا ہے اور اس سارے عمل کے دوران زندہ مرغے سرجھکا کر مرنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
فرینکفرٹ اور پیرس کی کرسمس اپنے جوبن پر تھی‘ فرینکفرٹ کا ڈائون ٹائون خصوصی طور پر سجایا گیا تھا‘ سڑکوں پر قمقموں کے جال لگا کر ستاروں کا سایہ کر دیا گیا تھا‘ آپ سڑکوں اور گلیوں سے گزرتے تھے تو آپ کے سروں پر مصنوعی ستاروں کی میلوں لمبی کہکشاں چلتی تھی‘ سڑکوں‘ گلیوں اور بازاروں میں دائیں بائیں سیکڑوں کرسمس ٹری ایستادہ تھے‘ ان مصنوعی درختوں پر چھوٹے بچوں کے لیے تحفے لٹکے تھے‘ فٹ پاتھوں پر مصنوعی برف باری بھی کی گئی تھی‘ یہ سفید روئی تھی جو دور سے برف کا تاثر دیتی تھی‘ شہر میں جگہ جگہ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کے دن کا منظر بنایا گیا تھا‘ یہ مومی مجسموں کا کارنر ہوتا ہے جس میں بیت اللحم کے ان گڈریوں کے مجسمے لگائے جاتے ہیں جو حضرت مریم ؑ کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے‘ حضرت مریم ؑ کا مجسمہ کھجوروں اور انجیر کے جھنڈوں تلے دکھایا جاتا ہے اور حضرت عیسیٰ ؑ حضرت مریم ؑ کی گود میں ہوتے ہیں اور یہ گڈریوں سے گفتگو کر رہے ہوتے ہیں‘ حضرت عیسیٰ ؑ کا یہ کارنر جگہ جگہ بنا تھا اور لوگ یہاں رک رک کر اپنے بچوں کو حضرت عیسیٰ ؑ‘ حضرت مریم ؑ ‘ حضرت جبرائیل ؑ اور یہودیوں کے کردار کے بارے میں معلومات دے رہے تھے۔
یورپ کی یہ کرسمس گرم تھی کیونکہ اس سال یورپ کے بڑے شہروں میں کرسمس پر برف نہیں پڑی‘ یہ لوگ گرم کرسمس کو خدا کی ناراضی گردانتے ہیں اور کرسمس کے دن اللہ سے خصوصی معافی مانگتے ہیں‘ فرینکفرٹ میں کرسمس کے خصوصی بازار لگے تھے‘ یہ ہماری عیدوں جیسے خیمہ اور ہٹ بازار تھے لیکن ان میں ایک خاص قسم کا سلیقہ‘ ترتیب اور خوبصورتی تھی‘ لوگ اپنے بچوں کے ساتھ ان بازاروں میں پھر رہے تھے اور کرسمس کو انجوائے کر رہے تھے‘ ہم 23 دسمبر کی رات پیرس آ گئے‘ پیرس کرسمس کے لیے خصوصی طور پر سجایا گیا تھا‘ پوری شانزے لیزے پر سفید براق قمقموں کی چھت سی بنائی گئی تھی‘ آپ سڑک کے سرے پر کھڑے ہو کر سڑک کی طرف دیکھتے تھے تو آپ کو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آسمان سے مسلسل برف برس رہی ہے اور یہ برف سڑک سے دس فٹ کی اونچائی پر پہنچ کر رک گئی ہے۔
شانزے لیزے کے آخری کنارے پر لوو میوزیم کی طرف کرسمس میلا لگا تھا‘ سڑک کے دونوں اطراف لکڑی کے سیکڑوں ہٹس تھے اور ان ہٹس میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بک رہی تھیں‘ یہ کرسمس سے متعلق اشیاء کے اسٹال تھے‘ ان میں کھانے پینے کی اشیاء کے اسٹالز بھی تھے‘ لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر کھا پی رہے تھے‘ میلے میں بچوں کے جھولے بھی تھے، اسکیٹنگ کا مصنوعی برفانی میدان بھی تھا اور فلک بوس گول جھولے بھی‘ پیرس کے ہزاروں خاندان بچوں سمیت اس جگہ موجود تھے لیکن کسی طرف کسی قسم کی ہڑبونگ یا افراتفری دکھائی نہیں دیتی تھی۔ پیرس کی کارپوریشن نے فٹ پاتھ پر پلاسٹک کا فرش بھی ڈال دیا تھا‘ اس فرش کی وجہ سے لوگوں کو چلنے پھرنے میں سہولت ہو رہی تھی‘ میلے کے دائیں بائیں انتہائی خوبصورت‘ دیدہ زیب اور جمالیاتی ذوق سے بھرپور لائٹنگ کی گئی تھی‘ میلے میں جا کر معلوم ہوا پیرس میں لکڑی کے ہٹس کی مختلف کمپنیاں کام کرتی ہیں۔
یہ کمپنیاں میلوں کی جگہ پر لکڑی کے ہٹس رکھ جاتی ہیں اور مختلف لوگ اپنی مصنوعات کی فروخت اور مشہوری کے لیے یہ ہٹس کرائے پر لے لیتے ہیں‘ میلے کے آخر میں یہ لوگ اپنی پراڈکٹس گاڑیوں میں بھر کر اپنی دکان‘ گودام یا گھر لے جاتے ہیں اور ہٹس کمپنیاں اپنے ہٹس اٹھا کر لے جاتی ہیں‘ پاکستان میں بھی ہر سال دونوں عیدوں پر ایسے میلے لگتے ہیں‘ حکومت کو چاہیے یہ بڑے شہروں کی کارپوریشنز کے لوگوں کو ایسے میلوں میں بھجوائے‘ یہ لوگ ان انتظامات کا جائزہ لیں اور اس کے بعد دونوں عیدوں کے موقع پر پاکستان میں بھی ایسے ہٹس بازار لگا دیے جائیں‘ اس سے عوام کو تفریح کا موقع بھی ملے گا‘ یہ خرید وفروخت بھی کر سکیں گے اور کاروباری مواقع بھی بڑھیں گے۔
عیسائی دنیا کرسمس کی رات (چوبیس اور پچیس دسمبر کی درمیانی رات) اپنے گھروں میں گزارتی ہے‘ پورا خاندان اس رات اکٹھا ہوتا ہے اور یہ اکٹھے کھانا کھاتے ہیں‘ یہ لوگ اس رات ٹرکی کا سالن پکاتے ہیں‘ پورا خاندان ٹرکی کا سالن کھاتا ہے‘ خصوصی طور پر وائن پیتا ہے‘ یہ لوگ اس رات کو ’’ فیملی ری یونین‘‘ کے طور پر مناتے ہیں‘ عیسائی دنیا میں کرسمس کے دنوں میں فلائیٹس اور ٹرینوں کے ٹکٹ ملنا مشکل ہو جاتے ہیں‘ تمام ٹرینیں اور فلائیٹس ’’پیک‘‘ ہوتی ہیں‘ اس کی وجہ کرسمس نائیٹ کا کھانا ہوتا ہے‘ بڑی بوڑھیاں اپنے گھروں میں اپنے بچوں‘ پوتوں پوتیوں اور نواسوں نواسیوں کا انتظار کرتی ہیں‘ ہم لوگ 23 دسمبر کی رات پیرس ریلوے اسٹیشن پر اترے تو بے شمار بوڑھے اور بوڑھیاں اپنے اپنے بچوں کا انتظار کر رہی تھیں‘ یہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو دیکھ کر ان کے ساتھ لپٹ جاتی تھیں اور پھر بڑی دیر تک نواسے‘ نواسیوں اور پوتے پوتیوں کو چومتی رہتی تھیں‘ یہ منظر دیکھ کر محسوس ہوتا تھا مشرق ہو یا مغرب انسان کے جذبات ایک جیسے رہتے ہیں‘ یہ تبدیل نہیں ہوتے‘ یہ لوگ کرسمس کی رات کرسمس ٹری پر بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے تحفے لٹکا دیتے ہیں۔
عیسائی بچوں کا عقیدہ ہے رات کے پچھلے پہر سانتا کلاز آسمان سے اترتا ہے اور ان کے ٹری پر ان کے لیے تحفے لٹکا جاتا ہے چنانچہ بچے سونے سے قبل اپنے گھر کی کوئی نہ کوئی کھڑکی کھلی چھوڑ دیتے ہیں تا کہ سانتا کلاز آسانی سے ان کے گھر داخل ہو سکے۔ پیرس اور فرینکفرٹ کے تمام گھروں کے صحنوں میں کرسمس ٹری موجود تھے‘ ان درختوں پر روئی سے مصنوعی برف باری بھی کی گئی تھی اور 25 دسمبر کی صبح ہم نے ان پر چھوٹے چھوٹے تحفے بھی لٹکے ہوئے دیکھے‘ یورپ کے بچے کرسمس کے دن سفید پھندے والی مسیحی ٹوپی بھی پہنتے ہیں‘ یہ سانتا کلاز کی ٹوپی ہوتی ہے اور بچے یہ ٹوپی پہن کر بہت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں‘ کرسمس کی رات پیرس میں پھرتے ہوئے اور کرسمس کے ویک میں فرینکفرٹ کے ڈائون ٹائون میں چہل قدمی کرتے ہوئے مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کا مشورہ اچھا لگا‘ یورپ کی کرسمس واقعی لائف ٹائم تجربہ ہے اور اگر آپ کے پاس وسائل ہیں تو آپ کو یہ تجربہ ضرور کرنا چاہیے کیونکہ اس سے ہم کچھ اور سیکھیں یا نہ سیکھیں ہم خوش رہنا ضرور سیکھ سکتے ہیں‘ خوشی‘ سکون اور آرام ہماری زندگی کی تین بڑی منزلیں ہوتی ہیں اور ہمیں یہ تینوں منزلیں یورپ میں عام ملتی ہیں‘ گورے کو آرام سے رہنا‘ سکون کے ساتھ زندگی گزارنا اور خوش رہنا آتا ہے اور ہم اس سے یہ سیکھ سکتے ہیں۔
اسحاق ڈار آپشن
جاوید چوہدری ہفتہ 22 دسمبر 2012
آج سے دو ہفتے قبل میں لاہور سے اسلام آباد آ رہا تھا‘ جہاز میں ڈاکٹر عبدالقدیر ہم سفر تھے‘ ڈاکٹر صاحب نے راستے میں یورپ کی یادیں تازہ کرنا شروع کر دیں‘ انھوں نے اپنے ہالینڈ کے اس قیام کا ذکر کیا جب یہ طالب علم تھے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ہالینڈ کی زندگی کو بھی انجوائے کر رہے تھے‘ انھوں نے اپنے برلن کے قیام کی باتیں بھی دہرائیں‘ انھوں نے بتایا یہ مغربی برلن میں رہ رہے تھے‘ یہ اور ان کی اہلیہ شام کے وقت دریا کے کنارے واک کرتے تھے‘ یہ دیوار برلن کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دور نکل جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے زمانے میں غرر ملکی طالب علم ویزے کے بغیر مشرقی برلن جا سکتے تھے‘ یہ ’’ویک اینڈ‘‘ پر مشرقی جرمنی چلے جاتے تھے‘ اس دور میں مشرقی جرمنی بے انتہا پسماندہ تھا‘ سردی میں عمارتیں گرم رکھنے تک کی سہولت نہیں تھی‘ مشرقی جرمنی کی ٹرینیں‘ بسیں اور سڑکیں بھی خراب تھیں جب کہ اس کے مقابلے میں مغربی جرمنی اور مغربی برلن تیزی سے ترقی کر رہا تھا‘ ڈاکٹر صاحب ہر ہفتے ‘دس دن بعد شہر کے دونوں حصوں کا مشاہدہ کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کے دوران یورپ کی کرسمس کا ذکر چھیڑ دیا‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا آپ اگر اصل یورپ دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو کرسمس کے دنوں میں یورپ جانا چاہیے‘ آپ فرینکفرٹ جائیں‘ برسلز‘ ایمسٹرڈیم اور پیرس جائیں‘ آپ لندن دیکھیں‘ آپ کو ایک نیا یورپ ملے گا۔اس گفتگو کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے پوچھا ’’آپ کبھی کرسمس یا نیو ایئر پر یورپ گئے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں گرمی کا جانور ہوں‘ میں سردی اور برف میں ایزی فیل نہیں کرتا‘‘ ڈاکٹر صاحب نے قہقہہ لگایا اور حکم دیا ’’آپ کو یورپ کی کرسمس اور نیو ایئر نائٹ ضرور دیکھنی چاہیے‘ یہ لائف ٹائم تجربہ ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا ’’آپ کرسمس کی تقریبات اور اہتمام سے یورپی اقوام کے دل میں موجود مذہب کی محبت کا انداز کر سکتے ہیں‘ آپ دیکھیں گے یہ لوگ کس طرح پورے پورے شہر کو سجا دیتے ہیں‘ کرسمس ٹری پر چھوٹے بچوں کے لیے تحفے کسےی لٹکا دیتے ہیں‘ سانتاکلاز کا سوانگ کیسے بھرا جاتا ہے اور یہ لوگ کرسمس کی شام کس طرح اکٹھے ہوتے ہیں اور پورا خاندان مل کر کھانا کھاتا ہے۔ آپ کرسمس پر یورپ کی سیل بھی دیکھیں‘ یہ لوگ کس طرح اپنی اشیاء کے نرخ کم کر دیتے ہیں تا کہ غریب سے غریب شخص بھی اچھی کرسمس منا سکے‘‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا ’’آپ نیوایئر نائٹ بھی دیکھیے‘ آپ دیکھیے یہ لوگ کس طرح ٹوٹ کر نئے سال کا استقبال کرتے ہیں‘‘۔
مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کی تجویز اچھی لگی‘ میں واقعی سردی میں کبھی یورپ نہیں آیا چنانچہ میں نے کرسمس اور نیوایئر کی تقریبات دیکھنے کے لیے یورپ جانے کا فیصلہ کر لیا‘ چوہدری عبدالمجید میرے دوست اور کزن ہیں‘ ہم انھیں مجید بھائی کہتے ہیں‘ یہ مجھ سے بارہ‘ تیرہ سال بڑے ہیں‘ اسلام آباد میں کاروبار کرتے ہیں اور نیک انسان ہیں‘ میں نے انھیں بھی تیار کر لیا‘ یہ بھی روتے دھوتے میرے ساتھ تیار ہو گئے اور یوں ہم جمعہ کی شام فرینکفرٹ آ گئے‘ فرینکفرٹ میں ٹھنڈ ہے لیکن شہر کرسمس کی تیاریوں میں جتا ہوا ہے‘ گھروں کے صحنوں‘ دروازوں کے باہر‘ گلیوں‘ بازاروں‘ دکانوں کے شوکیسز‘ شاپنگ سینٹرز‘ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کرسمس ٹری بنے ہوئے ہیں اور ان پر بچوں کے لیے گفٹ بھی لٹک رہے ہیں‘ سانتاکلاز بھی گلیوں‘ بازاروں اور محلوں میں گھوم رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے اس کی ٹانگوں‘ اس کے بازوئوں کے ساتھ جھول رہے ہیں‘ لوگ شام کے وقت کرسمس کی شاپنگ کے لیے نکلتے ہیں اور بازاروں میں کھوے سے کھوا جھلتا ہے‘ لوگ ریستورانوں‘ کلبوں اور بارز میں بھی خوش ہیں اور ان کے قہقہے دور دور تک سنائی دیتے ہیں‘ یورپ بالخصوص فرینکفرٹ کو سردی میں دیکھنے کا واقعی اپنا مزہ ہے کیونکہ آپ جب بات کرنے کے لیے منہ کھولتے ہیں تو لفظوں سے پہلے آپ کے منہ سے بھاپ نکلتی ہے اور یہ بھاپ بات ختم ہونے کے بعد بھی دیر تک فضا میں رہتی ہے ۔کرسمس اور نیو ایئر کا سفر ابھی شروع ہوا ہے‘ میں آپ کو اس سفر کے مشاہدات ساتھ ساتھ بتاتا جائوں گا‘ ہم ان مشاہدات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
یورپ بعض معاملات میں ہم سے بہت آگے ہے اور ہم اگر معاشی‘ سماجی اور اخلاقی لحاظ سے ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان تجربات میں خوشی‘ تقریبات‘ حوصلہ‘ برداشت اور دوسروں کی رائے کا احترام مرکزی حیثیت رکھتا ہے‘ میں نے جرمنی آنے سے قبل اپنے فیس بک پر اس سفر کا ذکر کیا تو حسب روایت مہربان دوستوں نے گالی دینے کا سلسلہ شروع کر دیا‘ میرے قریبی دوست میری اس عادت کے خلاف ہیں‘ ان کا مشورہ ہے مجھے ایسے تمام سفر اور اپنے ذاتی شوق خفیہ رکھنے چاہئیں‘ میں ان سے پوچھتا ہوں ’’کیوں؟‘‘ اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں ہمارے لوگ ذہنی لحاظ سے پختہ نہیں ہیں‘ یہ سفر کو عیاشی سمجھتے ہیں‘ ان کی نظر میں خوشی گناہ ہے اور یہ سمجھتے ہیں انسان کو اپنی خوشی‘ اپنے شوق اور سفر پر پیسہ برباد نہیں کرنا چاہیے‘ میں ان سے ہمیشہ عرض کرتا ہوں ’’میں جس دن لوگوں کے خوف‘ مخالفت یا گالیوں کی وجہ سے اپنے معاملات چھپائوں گا مجھے اس دن صحافت چھوڑ دینی چاہیے‘ صحافی یا لکھاری کی ذمے داری ہوتی ہے، یہ عوام کو اپنے مشاہدات میں شامل رکھے اور میں اگر خوف کی وجہ سے اس ذمے داری سے بچنے کی کوشش کروں گا تو یہ اس پروفیشن سے غداری ہو گی‘‘ دنیا دیکھنا‘ سفر کرنا صرف شوق نہیں‘ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے وہاں دنیا کی سیر کرنے کی ہدایت بھی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور اس ہدایت پر عمل غلط نہیں ہو سکتا‘ یقین کیجیے میں نے سفر کے ذریعے آج تک جو کچھ سیکھا یہ شاید میں ایسی چار زندگیوں اور دو لاکھ کتابوں سے بھی نہ سیکھ سکتا‘ آپ کو بھی سفر کرنا چاہیے‘ آپ اگر ملک سے باہر نہیں جا سکتے تو آپ ملک کے اندر گھوم سکتے ہیں‘ یہ سفر آپ کا وژن‘ آپ کی تخلیقی طاقت‘ کام کرنے کی استطاعت اور برداشت میں اضافہ کرے گا‘ آپ زیادہ بہتر زندگی گزار سکیں گے۔
میں جب پاکستان سے آ رہا تھا تو اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی بڑی شدت کے ساتھ سینیٹر اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنانے کی کوشش کر رہی تھی‘ حکومت کے بعض سینئر وزراء اپنی نجی محفلوں میں کہہ رہے تھے ہماری طرف سے ایک ہی امیدوار ہو گا اور یہ امیدوار اسحاق ڈار ہوں گے‘ یہ اسحاق ڈار کو وزیراعظم بنانے کی چوتھی کوشش ہے‘ پاکستان پیپلزپارٹی نے ملک ریاض کے ذریعے جنوری2010ء میں میاں نواز شریف کو پیغام پہنچایا تھا، ہم یوسف رضا گیلانی کو فارغ کر دیتے ہیں‘ آپ اسحاق ڈار کو ایم این اے منتخب کرا کر وزیراعظم بنا لیں‘ ہم انھیں ووٹ دے دیں گے لیکن میاں صاحب اور چوہدری نثار نہیں مانے‘ 27جون 2011ء کو جب ایم کیو ایم حکومت سے نیل‘ اور یہ اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھ گئی تو ایم کیو ایم نے بھی اسحاق ڈار سے رابطہ کیا‘ یہ اسحاق ڈار کو کراچی سے ایم این اے کی سیٹ تک دینے کے لیے تیار تھی لیکن ڈار صاحب نے انکار کر دیا۔2مارچ 2012 ء کو سینیٹ کے الیکشن سے قبل ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بھی اسحاق ڈار کو وزیراعظم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا‘ دو جنرل اسحاق ڈار سے ملے مگر ڈار صاحب اور میاں صاحب راضی نہیں ہوئے اور چوتھی بار پاکستان پیپلزپارٹی انھیں نگران وزیراعظم بنانا چاہتی ہے‘ حکومت کو اس معاملے میں بیرونی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے کیونکہ آئی ایم ایف موجودہ حکومت کو قرضے کی قسط جاری کرنے کے لیے تیار نہیں اور ملک اس قسط کے بغیر مالیاتی بحران کا شکار ہو جائے گا تا ہم آئی ایم ایف اور دوسرے ڈونرز اسحاق ڈار پر اعتماد کے لیے تیار ہیں‘ حکومت کی خواہش ہے اسحاق ڈار حکومت سنبھالیں‘ یہ معیشت کو سنبھالا دیں اور اس کے بعد الیکشن کرا دیے جائیں‘ معیشت کی بحالی میں اگر الیکشن سال‘ چھ مہینے کے لیے موخر بھی کرنا پڑتے ہیں تو کر دیے جائیں‘ یہ منصوبہ اس وقت اسلام آباد میں گردش کر رہا ہے تاہم جب تک میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار اس کی منظوری نہیں دیتے، یہ اس وقت تک قابل عمل نہیں ہو سکے گا‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک بڑے لیڈر اس منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں‘ یہ صاحب اسحاق ڈار کی جگہ لینا چاہتے ہیں چنانچہ یہ راضی نہیں ہیں‘ میاں صاحبان اور حکومت کو انھیں بھی راضی کرنا ہوگاجو اس وقت بظاہر مشکل دکھائی دے رہا ہے ۔یہ آپشن قابل عمل ہے یا نہیں مگر یہ آپشن ہے اچھا کیونکہ اس سے سیاست بھی بچ جائے گی‘ جمہوریت بھی اور ملک بھی ورنہ دوسری صورت میں اگلے الیکشن ملک کو مزید تباہی تک لے جائیں گے۔ میاں صاحبان اور صدر زرداری کو اس نازک وقت میں ایک بڑا فیصلہ کرنا ہوگا اور اسحاق ڈار آپشن اچھا اور بڑا فیصلہ ہے کیونکہ ان پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا‘ یہ تمام پارٹیوں میں مقبول ہیں۔
ڈھائی سو روپے کی مجرم
جاوید چوہدری جمعرات 20 دسمبر 2012
مدیحہ‘کراچی کی اٹھارہ سالہ مدیحہ کے سر پر میڈیا کا ہاتھ نہیں ‘ حکومت نے بھی اس کے قتل پر توجہ نہیں دی اور انٹرنیشنل کمیونٹی کی آنکھ بھی اس بے چاری کے لیے نم نہیں ہوئی چنانچہ اس کا نامراد خون کراچی کی زمین میں جذب ہو کر ماضی کا رزق بن گیا اور ہم نے اس مفلوک الحال بچی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فراموش کر دیامگر مدیحہ کی ماں نے ہار نہیں مانی ‘ یہ بدستور اس ملک کے سسٹم‘ اس ملک کی حکومت اور اس دم توڑتی ریاست سے انصاف مانگ رہی ہے ‘یہ جانتی ہے بے انصاف زمینوں پر صرف ان کے لیے عدل کاشت ہوتا ہے جن کے شجرہ نسب میں کسی بڑے کا نام درج ہو یا پھر چیف جسٹس اس کی موت کو بھی انسانی موت قرار دے دے یا پھر دنیا کے بڑے اسے ملالہ سمجھ لیں‘ مدیحہ کی ماں رخسانہ بی بی جانتے بوجھتے بے وقوف ہے‘ یہ غربت جیسی حقیقت سے سمجھوتہ نہیں کر رہی ‘ یہ کراچی گلشن بونیر کی گلیوں میں دیوانہ وار انصاف انصاف کی دہائیاں دے رہی ہے‘ یہ سمجھ ہی نہیں رہی طاقت کی کوکھ سے جنم لینے والے سورجوں کی زمین پر بھوکے ننگوں کی جھولی میں تاسف کی راکھ کے علاوہ کچھ نہیں ڈالا جاتا اور اس کی انصاف مانگتی جھولی میں بھی بالآخر ایسی ہی نامراد راکھ ڈال دی جائے گی اور یہ باقی زندگی اس راکھ کو آنسوئوں سے سیج سیج کر گزارے گی۔ مدیحہ بے مراد لڑکی تھی‘ اس کا بے مراد لہو گلشن بونیر کی بے مراد زمین میں جذب ہو گیا اور یہ خون آج کے بعد کسی آستین میں نہیں بولے گا‘ یہ وقت کی اندھی سرنگ میں غائب ہو جائے گا اور اس کالم کے بعد اس نامراد لڑکی کو کوئی یاد نہیں کرے گا‘ اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس جنگل میں مدیحہ کے لیے کوئی آنکھ گیلی نہیں ہوگی‘ کوئی ہچکی حلق تک نہیں آئے گی اور کوئی ہاتھ تاسف کی میل نہیں جھاڑے گا‘ یہ اور اس کی کہانی اس ملک کے مقدر پر تنی ظلمت کی دبیز چادر میں گم ہو جائے گی لیکن مدیحہ کی آنکھ میں چمکتا ہوا آخری سوال‘ جی ہاں چمکتا‘ تڑپتا اور لو دیتا سوال ہمیشہ زندہ رہے گا کیونکہ یہ ہر اس شخص کی آنکھ کا سوال ہے جو روزانہ اس ملک کی سڑکوں پر اندھی گولیوں کا نشانہ بنتا ہے اور اسے کفن تک ایدھی فائونڈیشن پہناتی ہے اور پولیس‘ حکومت اور عدالت کا فرض صرف ایک کاغذ پر اس کا نام درج کرنا اور اس کاغذ کو کاغذوں کے انبار میں دفن کر دینا رہ گیا ہے۔
مدیحہ کی کہانی کیونکہ آخری بار سنائی جا رہی ہے چنانچہ میں چاہتا ہوں آپ اسے آخری بار پورا سن لیں‘ ہو سکتا ہے صرف کہانی لکھنے‘ سننے اور پڑھنے سے اس کی آنکھ کا آخری سوال بجھ جائے‘ اس کا مردہ سینہ ٹھنڈا ہو جائے ۔ مدیحہ کے لیے زندگی ہمیشہ حسرت کی لہلہاتی فصل تھی‘ اس کی غربت صرف غربت نہیں تھی‘ ایکسٹریم غربت تھی‘ یہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی‘ والد بیمار تھا ‘ اس نے زندگی کا زیادہ تر حصہ چارپائی پر گزار دیا چنانچہ گھر کی ساری ذمے داریاں اس کی ماں رخسانہ اور اس کے کندھوں پر آ گئیں‘ یہ دونوں ماں بیٹی پولیو ورکرز بن گئیں‘ یہ پولیو مہم کے دوران گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلاتی تھیں‘ دن بھر کی اس مشقت کے بعد مدیحہ اور اس کی ماں کو ڈھائی‘ ڈھائی سو روپے ملتے تھے اور یہ رقم ان کی کل کمائی تھی‘ مدیحہ کا پورا خاندان پولیو مہم سے وابستہ تھا‘ اس کی خالہ گلناز اور اس کی ممانی فہمیدہ کا ذریعہ آمدن بھی پولیو کے قطرے تھے‘ یہ بھی ڈھائی سو روپے میں گلی گلی‘ گھر گھر جا کر چھوٹے بچوں کو قطرے پلاتی تھیں اور شام کو ڈھائی سو روپے پلو میں باندھ کر گھر چلی جاتی تھیں۔ مدیحہ‘ اٹھارہ سال کی مدیحہ منگل کے دن اپنی ممانی فہمیدہ کے ساتھ ڈیوٹی کے لیے نکلی‘ یہ دونوں کراچی کے گلشن بونیر میں بچوںکو قطرے پلا رہی تھیں‘ یہ ایک مکان سے باہرنکلیں تو انھیں گلی میں روک لیا گیا‘ ان کے سروں پر پستول رکھے گئے اور انھیں آباد گلی میں درجنوں لوگوں کے سامنے گولی مار دی گئی‘ یہ دونوں گلی میں گریں‘ تڑپیں اور کھلی آنکھوں میں سلگتے‘ چیختے‘ لو دیتے سوال چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ مدیحہ کی ممانی فہمیدہ کے پانچ بچے ہیں‘ یہ ان پانچ بچوں کی واحد کفیل تھی‘ یہ بھی مدیحہ کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئی اور اس کے پانچ بچے اس بے مہر دنیا میں رہ گئے جس میں پولیو کے قطرے پلانا جرم ہو چکا ہے اور جس میں قاتل پولیو ورکرز کو بھی کھلے عام گولی مار دیتے ہیں۔ مدیحہ کیونکہ غریب اور بے بس لڑکی تھی چنانچہ ریاست شام تک اس کا نام تک بھول گئی‘ کاش آج وہ جونس سالک زندہ ہوتا جس نے1952 میں دنیا کو پولیو سے بچانے کے لیے ویکسین ایجاد کی‘ کاش آج وہ امریکی طبی سائنسدان البرٹ سبین بھی زندہ ہوتا جس نے 1957 میں اس ویکسین کو ٹیکے سے قطروں میں تبدیل کیا‘ کاش آج وہ تمام لوگ زندہ ہوتے جنہوں نے 1962ء میں فیصلہ کیا ہم پوری دنیا کو پولیو کے مرض سے پاک کریں گے‘ کاش آج وہ تمام لوگ موجود ہوتے جنہوں نے 1980ء میں دنیا کے 125 ممالک میں پولیو دیکھی تو انھوں نے اعلان کیا ہم دنیا کے 125 ممالک کو پولیو سے رہائی دیں گے اور انھوں نے یہ ویکسین مفت بنا کر دنیا کو فراہم کرنا شروع کر دی۔ کاش آج وہ لوگ بھی ہماری اپروچ میں ہوتے جنہوں نے 1988ء میں دیکھا دنیا میں تین لاکھ پچاس ہزار لوگ پولیو سے متاثر ہیں اور ہم نے باقی دنیا کو اس انجام سے بچانا ہے‘ کاش آج وہ لوگ ہماری دسترس میں ہوتے جنہوں نے 1988ء میں اپنی زندگیاں‘ مال اور آرام اس مرض کے خلاف جنگ میں جھونک دیا اور ان کی شبانہ روز کوششوں سے 2007ء میں دنیا میں پولیو کے صرف 1652 مریض رپورٹ ہوئے‘ کاش آج وہ بل گیٹس بھی ہماری دسترس میں ہوتا جس نے محسوس کیا پولیو صرف پاکستان‘ افغانستان اور نائیجریا میں بچ گیا ہے چنانچہ اس نے اپنی دولت کے دروازے ان تینوں ممالک پر کھول دئیے‘ اس نے ویکسین بنوائی اور تینوں ممالک کو مفت فراہم کرنا شروع کر دی اور کاش عالمی ادارہ صحت کے وہ لوگ بھی ہماری دسترس میں ہوتے جنہوں نے پاکستان کو پولیو فری بنانے کے لیے اپنا سارا فوکس ہم پر لگا دیاتھا۔ یہ لوگ آج ہماری دسترس میں ہوتے تو ہم ان پر مدیحہ کے قتل کا مقدمہ قائم کر دیتے کیونکہ ان لوگوں کو کس نے حق دیا تھایہ ہمیں پولیو سے بچائیں‘ یہ سب مدیحہ‘ فہمیدہ‘ کنیز‘ فرزانہ اور نسیم کے قاتل ہیں‘ یہ ان تمام پولیو ورکرز کی تکالیفوں کے ذمہ دار ہیں جو پورے ملک میں تین دن سے ان قاتلوں کا نشانہ بن رہی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں ہمارے بچے جب تک پولیو کا شکار نہیں ہوں گے ہمارا اسلام اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا‘ جو آج بھی پولیو کی ویکسین کو غیر شرعی سمجھتے ہیں اور جن کا خیال ہے یہ مرد بچوں کو نامرد اور عیسائی بنانے کی یہودی سازش ہے‘ جو آج بھی ایس ایم ایس کرتے ہیں امریکا اور برطانیہ کے بچوں کو پولیو کی ویکسین کیوں نہیں پلائی جاتی اور جو آج بھی پولیو کی ویکسین پلانے والی ان خواتین کو گولی مار دیتے ہیں جنھیں زندگی کا دوزخ ڈھائی سو روپے میں گھر کی دہلیز پار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے‘ جو آج بھی یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیںہیں پولیو جب بچوں کی ٹانگیں اور بازو چاٹ جاتی ہے تو یہ بچے اچھے مسلمان تو دور انسان بھی نہیں رہتے ۔ کاش کوئی ان لوگوں کو سمجھائے آپ اگر بل گیٹس کی فراہم کردہ ویکسین سے مطمئن نہیں ہیں تو آپ کوئی اپنی روحانی‘ عرفانی یا وجدانی ویکسین بنا لیجیے‘ آپ پولیو کی کوئی دیوبندی ‘ بریلوی ‘ اہل حدیث اورشیعہ ویکسین بنائیے اور مدارس کے بچوں کے ذریعے یہ ویکسین چھوٹے بچوں تک پہنچائیے کیونکہ بچوں کو صحت مند رکھنا ہماری ذمے داری ہے اور ہم نے اگر یہ ذمے داری پوری نہ کی تو عالمی ادارہ صحت ہمیں پولیو رسک کنٹری قرار دے دے گا اور اس کے بعد ہم میں سے کوئی شخص ملک سے باہر جا سکے گا‘ ہماری کوئی پراڈکٹ ملک سے برآمد ہوسکے گی اور نہ ہی کوئی ہمارے ملک میں آئے گا۔ ہم اگر ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں تو پھر ہمںک ہر اس مدیحہ کو قتل کر دینا چاہیے جو صرف ڈھائی سو روپے دیہاڑی پر ہمارے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا رہی ہے۔
کاش آج اس ملک میں انصاف زندہ ہوتا تو مدیحہ جیسی بچیاں ڈھائی سو روپے کے لیے گھروں سے نہ نکلتیں اور اگر نکلتیں تو کوئی سفاک شخص ان سے زندہ رہنے کا حق نہ چھینتا۔ آپ یقین کیجیے اس ملک میں مدیحہ نہیں مری آج اس ملک میں انصاف‘ حق اور احساس مر گیا ہے اور جس معاشرے کا احساس‘ حق اور انصاف مر جائے کیا ہم اس معاشرے کو زندہ کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہمیں اس معاشرے کو بھی ایدھی فائونڈیشن کا خیراتی کفن نہیں پہنا دینا چاہیے۔۔!!
اسلام آباد کا محسن
جاوید چوہدری بدھ 19 دسمبر 2012
سید پور اسلام آباد کا قدیم گائوں ہے‘ اورنگزیب عالمگیر کے دور کے تذکروں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے‘ پاکستان بننے سے پہلے اس گائوں میں مسلمان‘ ہندو اور سکھ اکٹھے رہتے تھے‘ 1947ء میں ہندو اور سکھ بھارت شفٹ ہو گئے لیکن اپنا مندر پیچھے چھوڑ گئے‘ یہ گائوں اسلام آباد کے مہنگے ترین علاقے میں واقع ہے‘ یہ مارگلہ روڈ پر چڑیا گھر اور جاپانی پارک کے بالکل ساتھ پہاڑ کی اترائی پر آباد ہے‘ اس کے سامنے مارگلہ روڈ‘ ایف سکس اور ایف سیون سیکٹر ہے جب کہ اس کی پشت مارگلہ کی پہاڑیوں سے جڑی ہوئی ہے‘ یہ گائوں آج سے چھ سات سال پہلے تک اسلام آباد کے چہرے کا گرہن تھا‘ گائوں کی گلیاں اور عمارتیں افلاس‘ بے ترتیبی اور گندگی کا خوفناک نمونہ تھیں‘ آپ مارگلہ روڈ سے سید پور گائوں کی طرف مڑتے تھے تو آپ کو ایک منٹ بعد محسوس ہوتا تھا آپ پانچ سو سال پیچھے چلے گئے ہیں۔
آپ سید پور کے کسی مکان کی چھت سے ایف سکس اور ایف سیون کی طرف دیکھتے تھے یا آپ ایف سیون کے کسی گھر کی بالکونی سے سید پور گائوں کی طرف دیکھتے تھے تو آپ کو آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب اور مشرق کا فرق دکھائی دیتا تھا لیکن پھر اس گائوں کی حالت بدل گئی‘ گائوں کی درمیانی سڑک‘ درمیانی دیوار‘ گائوں کے نالے کا بند‘ گاؤں کا قدیم مندر‘ قدیم مسجد‘ قدیم درگاہ‘ گاؤں کے مکانوں کے دروازے‘ کھڑکیاں‘ بیرونی دیواریں‘ جھروکے اور گائوں سے مارگلہ کی طرف جانے والی پگڈنڈیاں سب ماڈرن ہو گئیں‘ گائوں کے درمیان ریستوران‘ کافی شاپس‘ ہڈنںی کرافٹس کی دکانیں‘ پینٹنگز کے اسٹوڈیوز اور ہوزری کی دکانیں کھل گئیں اور گائوں سیروتفریح کا مقام بن گیا‘ آج آپ شام کے وقت سید پور گائوں میں داخل ہوں تو آپ کو محسوس ہوگا آپ 2012ء کی سہولت کے ساتھ 1512ء کے زمانے میں چلے گئے ہیں ‘ آپ کو مارگلہ کی وادیوں میں باقاعدہ مغلوں کی فوجیں مارچ کرتی ہوئی محسوس ہوں گی‘ میں اکثر سید پور گاؤں جاتا ہوں اور میں جب تک وہاں رہتا ہوں میں کامران لاشاری کو دعائیں دیتا ہوں کیونکہ یہ وہ شخص تھا جس نے سید پور جیسے گرہن کو اسلام آباد کا چمکتا ہوا چاند بنا دیا اور آج یہ گائوں نہ صرف اسلام آباد کے شہریوں کے لیے سکون کی جگہ ہے بلکہ اسلام آباد آنے والے غیر ملکی شہریوں اور سفارت خانوںکے عملے کے لیے بھی زیارت گاہ ہے‘ یہاں لوگ آتے ہیں اور اچھی شامیں گزار کر جاتے ہیں۔
کامران لاشاری بیوروکریٹ ہیں‘ معذرت چاہتا ہوں یہ بیوروکریٹ تھے کیونکہ یہ آج 20 دسمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں‘ مجھ سمیت اس ملک کے ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد لوگ بیورو کریسی کو برا سمجھتے ہیں‘ ہمارا خیال ہے یہ دیسی بابو ہیں جن کے تین کام ہیں‘ انگریزی بولنا‘ عام شہری پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنا اور حکمرانوں کے لیے رکھیل کی خدمات سرانجام دینا‘ یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے‘ مجھے آج تک کوئی ایسا سرکاری افسر نہیں ملا جس نے اپنے سینئر یا اپنے حکمران کو تاریخی شخصیت قرار نہ دیا ہو‘ جس نے یہ نہ کہا ہو ’’سائیں کی قیادت میں ملک دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرے گا‘‘ اور جس نے ریٹائر سینئر یا ماضی کی حکومت کو ڈیزاسٹر ثابت نہ کیا ہو‘ جس نے پہلی پیشی پر کسی عام شخص کا جائز کام کر دیا ہو اور جس نے انگریزی کو اپنا کل اثاثہ نہ سمجھا ہو‘ یہ درست ہے اس ملک کو مارشل لائوں اور کرپٹ سیاستدانوں نے تباہ کیا ہے مگر اس تباہی کا ستر فیصد کریڈٹ بیورو کریسی کو جاتا ہے کیونکہ یہ لوگ اگر ان لوگوں کا ساتھ نہ دیتے تو یہ ملک کبھی تباہی کے اس دہانے پر نہ پہنچتا لیکن بیورو کریسی کی کوئلے کی اس کان میں کامران لاشاری جیسے لوگ بھی ہیں اور ہم اگر ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتے تو یہ احسان فراموشی ہو گی۔ کامران لاشاری ڈیلیور کرنے والے وژنری بیورو کریٹ تھے‘ یہ لاہور میں تھے تو انھوں نے فوڈ اسٹریٹ بنا کر پورے ملک کی توجہ کھینچ لی‘ اس دور میں لاہور آنے والا ہر شخص فوڈ اسٹریٹ ضرور جاتا تھا اور گوالمنڈی کا یہ چھوٹا سا علاقہ لاہور کا سیاحتی علاقہ بن گیا تھا‘ یہ نومبر 2003ء میں سی ڈی اے کے چیئرمین بنے اور انھوں نے پورے اسلام آباد کا نقشہ بدل دیا‘ مارگلہ کی پہاڑی کا چارج شام کے بعد ڈاکوئوں کے ہاتھ میں چلا جاتا تھا‘ کامران لاشاری نے نئی سڑک بنائی‘ اس پر لائٹس لگائیں‘ دامن کوہ کو خوبصورت بنایا‘ منال ریسٹورنٹ بنایا اور سڑک پر جگہ جگہ ویو پوائنٹس بنا کر اس پوری سڑک کو تفریح گاہ بنا دیا‘ یہ سڑک آج رات کے آخری پہر تک آباد رہتی ہے‘ ریسٹورنٹس اور کافی شاپس میں رات دو دو بجے تک رش رہتا ہے اور لوگ ویو پوائنٹس پر کھڑے ہو کر رات رات بھر اسلام آباد کا نظارہ کرتے ہیں‘ کامران لاشاری نے راول لیک کو بھی رونق بخش دی‘ آج سے پانچ سال پہلے لوگ شام کے وقت راول لیک نہیں جاتے تھے لیکن آج یہاں رات گئے تک رونق رہتی ہے‘ لوگ فیملیز کے ساتھ آتے ہیں ‘ رات دیر تک واک کرتے ہیں‘ کھاتے پیتے ہیں اور بچوں کے ساتھ بھاگتے دوڑتے ہیں‘ کامران لاشاری کے دور سے قبل ایف نائین پارک بے ترتیب جنگل تھا اور خواتین اور بچے شام چار بجے کے بعد اس پارک میں پائوں نہیں رکھتے تھے لیکن انھوں نے پارک کی شکل بدل دی اور آج لوگ رات کے دو دو بجے پارک میں چہل قدمی کرتے ہیں‘ کامران لاشاری نے اسلام آباد کی تمام پرانی سڑکیں دوبارہ تعمیر کروائیں‘ انڈر پاسز بنوائے‘ شہر کے مختلف سیکٹرز میں چھوٹے چھوٹے پارکس بنوائے‘ مارکیٹوں کا حلیہ درست کیا‘ مارکیٹوں کے اندر بیٹھنے کی جگہیں بنوائیں‘ واکنگ ٹریکس ٹھیک کرائے اور اسلام آباد کو پھولوں کا شہر بنا دیا‘ اسلام آباد کے شہری اس شہر کو کامران لاشاری سے پہلے اور کامران لاشاری کے بعد دو ادوار میں تقسیم کرتے ہیں اور لاشاری صاحب کو اپنا محسن سمجھتے ہیں‘ اسلام آباد کا ہر شہری کامران لاشاری کا قرض دار ہے‘ انھوں نے اس شہر کے لوگوں پر بے شمار احسانات کیے اور ہم اگر یہ احسانات نہ مانیں تو یہ احسان فراموشی ہو گی۔
کامران لاشاری پرفارمنس‘ ڈیلیوری اور حس جمال کا خوبصورت امتزاج ہیں‘ یہ اس معاشرے میں زندگی کی دلیل بھی ہیں کیونکہ انھوں نے ثابت کردیا آپ اگر اس ملک میں کام کرنا چاہیں تو آپ نہ صرف کام کر سکتے ہیں بلکہ آپ ڈیلیور بھی کر سکتے ہیں اور خرابی کی طرف مائل چیزوں کو ٹھیک بھی کر سکتے ہیں‘ لاشاری صاحب نوجوان افسروں کے آئیڈیل تھے‘ آج سے پانچ چھ سال پہلے میں نوجوان افسروں سے پوچھتا تھا ’’آپ کیا بننا چاہتے ہیں‘‘ تو یہ آغا شاہی اور کامران لاشاری کا نام لیتے تھے لیکن جب موجودہ حکومت نے کامران لاشاری کو عہدے سے ہٹایا‘ ان پر عجیب و غریب مقدمے بنے‘ یہ او ایس ڈی ہوئے اور انھیں اپنے حق کے لیے عدالتوں کے دھکے کھانا پڑے اور ان کے کولیگز ان سے ہاتھ تک ملانے کے روادار نہیں رہے تو میں نے نوجوان افسروں کو کہتے سنا ہم کامران لاشاری کی جگہ سلمان صدیق‘ آفتاب معین‘ خوشنود لاشاری‘ توقیر صادق اور عدنان خواجہ بننا چاہیں گے‘ میں وجہ پوچھتا تو یہ لوگ جواب دیتے ’’ یہ ملک کامران لاشاری کو ڈیزرو نہیں کرتا‘ آپ اگر پاکستان میں عزت اور مال بچانا چاہتے ہیں تو آپ کو سلمان صدیق ہونا چاہیے‘‘ نوجوان افسروں کی بات غلط نہیں کیونکہ ہم کامران لاشاری جیسے لوگوں کی قدر نہیں کر رہے‘ ہم انھیں تحفظ بھی نہیں دے رہے‘ عزت بھی نہیں دے رہے اور انھیں کام کرنے کا موقع بھی فراہم نہیں کر رہے چنانچہ پھر بیورو کریسی کے پاس کیا آپشن بچتا ہے‘ یہ بے چارے اگر خوشامد اور جی حضوری کو اپنا شعار نہ بنائیں اور کرپٹ حکومتوں کا ہراول دستہ بن کر زندگی اور ملازمت کی مدت پوری نہ کریں تو کیا کریں‘ ہمارے ملک میں اگر کامران لاشاری جیسے لوگوں کو عزت اور تحفظ مل رہا ہوتا تو شاید آدھی بیورو کریسی کامران لاشاری بن جاتی لیکن ہم جب ان جیسے افسروں کو عبرت کا نشانہ بنا دیں گے تو نئے لوگ کام کی کیسے ہمت کریں گے؟
کامران لاشاری آج ریٹائر ہو گئے‘ ہم ان کے پوٹینشل کا پورا فائدہ نہیں اٹھا سکے ‘ یہ آرٹسٹ بیورو کریٹ تھے‘ یہ اداروں کی پوری شکل بدل سکتے تھے‘ یہ پی آئی اے‘ ریلوے اورتباہ ہوتی سیاحتی انڈسٹری کو زندگی دے سکتے تھے مگر ہم نے انھیں ضایع کر دیا‘ قوم حکمران اور ہمارا سسٹم ان کی قدر نہیں کر سکا مگر ہم اسلام آباد کے شہری ان کے احسان مند ہیں کیونکہ ہم میں سے جو بھی شخص اپنے گھر سے نکلتا ہے یہ لاشاری صاحب کا شکریہ ادا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور شکریہ ادا کرنے کا یہ سلسلہ ہماری زندگیوں تک جاری رہے گا‘ میں اسلام آباد کے شہریوں سے درخواست کرتا ہوں ہم سب آج سے مارگلہ کی پہاڑی پر جانے والی سڑک کو کامران لاشاری روڈ کا نام دے رہے ہیں‘ یہ نام اس شہر کے لوگوں کی طرف سے اسلام آباد کے محسن کے لیے حقیر ترین تحفہ ہو گا کیونکہ ان کے احسانات اس سے کہیں زیادہ ہیں‘ آئیے آج سے مارگلہ پہاڑی پر جانے والی سڑک کو کامران لاشاری روڈ کہیں اور اس وقت تک کہتے رہیں جب تک سی ڈی اے خود اس سڑک پر کامران لاشاری کا نام نہیں لکھ دیتا۔
تقرر اور تبادلے…حل
جاوید چوہدری جمعرات 13 دسمبر 2012
میرے ایک دوست ہیں‘ ڈی آئی جی احمد مبارک‘ میں پچھلے پندرہ برسوں سے انھیں جانتا ہوں‘ یہ مجھے جب بھی فون کرتے ہیں‘ میں ان سے پوچھتا ہوں ’’آپ آج کل کہاں پوسٹ ہیں ‘‘اور یہ ہر بار کسی نہ کسی نئی جگہ‘ کسی نہ کسی نئے عہدے کا حوالہ دے دیتے ہیں‘ یہ مجھے افسر کم اور فٹ بال زیادہ محسوس ہوتے ہیں کیونکہ یہ سال چھ ماہ سے زیادہ کسی جگہ ٹک کر سروس نہیں کر سکے‘ یہ پوسٹ ہوتے ہیں‘ کسی نہ کسی معاملے پر ان کا سینئرز‘ مقامی ایم این اے‘ ایم پی اے یا پھر کسی وزیر یا وزراء اعلیٰ سے پھڈا ہوتا ہے اور یہ اگلے ہی دن ٹرانسفر ہو جاتے ہیں‘ آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے‘ کیا کوئی شخص ہر سال اپنے پورے خاندان کے ساتھ نئی جگہ ایڈجسٹ ہوسکتا ہے‘ کیا یہ اس خانہ بدوشی کے عالم میں اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتے ہیں۔
کیا یہ اپنے خاندان کو پال سکتے ہیں‘ کیا یہ بار بار کی ٹرانسفرزسے اپنی نفسیات کو بگڑنے سے بچا سکتے ہیں اور کیا یہ ایک سال میں کسی ڈسٹرکٹ یا ڈویژن کو پوری طرح سمجھ سکتے ہیں اور اگر یہ سمجھ جاتے ہیں تو کیا یہ زیادتی نہیں آپ اس شخص کو اس عہدے سے ہٹا رہے ہیں جس نے سال بھر کی محنت کے بعد علاقے کے مزاج اور جرائم کی وجوہات کو سمجھ لیا اور یہ جب ڈیلیور کرنے کی پوزیشن میں آیا تو آپ نے اسے ہٹا کر اس کی جگہ پر ایک ایسا شخص لگا دیا جس کو اب اس علاقے کو سمجھنے کے لییلیے سال بھر کا عرصہ چاہیے اور آپ اس کو بھی سال چھ مہینے بعد فارغ کر دیں گے‘ کیا یہ گورننس ہے؟ کیا اسے اچھی ایڈمنسٹریشن کہا جائے گا؟ یہ ایس ایس پی اور ڈی آئی جی رینک کے آفیسرز کی حالت ہے‘ آپ اگر ایس ایچ اوز کا ڈیٹا نکالیں تو آپ کو لاہور جیسے شہرکا ڈیٹا حیران کر دے گا‘ لاہور میں ایس ایچ او کی او سطاً پوسٹنگ ایک ماہ ہے۔
ایس ایچ او بمشکل کسی تھانے کا چارج لیتا ہے اور اگلے دن اس کی معطلی یا پوسٹنگ کا حکم آ جاتا ہے‘ آپ خود سوچئے جس افسر کو یہ اعتماد نہیں ہو گا کہ میں اس علاقے یا اس عہدے پر اتنے سال کے لییلیے آیا ہوں اور کوئی ایم پی اے‘ ایم این اے یا وزیر میرا تبادلہ نہیں کر سکتا وہ اطمینان کے ساتھ کیسے کام کرے گا؟ ملک کی حالت یہ ہے جب بھی کوئی ایم پی اے یا ایم این اے سیاسی جماعت تبدیل کرتا ہے تو وہ ’’خریدار جماعت‘‘ سے اپنے حلقے کے ایس ایچ اوز‘ ڈی ایس پی‘ پٹواری اور نائب تحصیلدار اور تحصیلدار تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور اس سیاسی قلابازی کا نتیجہ سرکاری افسروں کے تبادلے اور تعیناتی کی شکل میں نکلتا ہے۔
آپ جب پولیس اور محکمہ مال کی تعیناتیاں ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دیں گے جو اس سے براہ راست فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو آپ اس علاقے کی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں اور ہمارے ملک میں یہ کھیل روزانہ ہوتا ہے اور اس کھیل کے نتیجے مںن مظلوم لوگ ایف آئی آر کٹوانے‘ ملزم کو گرفتار کرانے‘ اپنے بے گناہ عزیز کو چھڑوانے‘ زمین کا فرد لینے اور اپنی زمین کا قبضہ لینے کے لیے تھانے یا کچہری نہیں جاتے‘ یہ ایم پی اے یا ایم این اے کے ڈیرے جاتے ہیں اور وہاں سے جس شخص کے بارے میں فون آ جاتا ہے پولیس اس کے لیے تھانے کے دروازے کھول دیتی ہے جب کہ باقی مظلوم تھانے کے باہر بیٹھے رہتے ہیں۔
آپ اس صورتحال پر غور کیجیے اور اب فیصلہ کیجیے ہمارے سرکاری ملازمین بالخصوص پولیس اور ڈی ایم جی کے پاس اب کیا آپشن بچتا ہے؟ کیا یہ سسٹم انھیں یہ پیغام نہیں دے رہا‘ آپ اگر او ایس ڈی نہیں بننا چاہتے‘ آپ اگر اپنی پوسٹنگ بچانا چاہتے ہیں اور آپ اگر ملک کے دور دراز علاقوں میں تبادلے سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس ایک ہی راستہ ہے آپ ملک اور عوام اپنے سینئرز‘ سیاستدانوں‘ حکمران جماعت اور طاقتور اداروں کی غلامی میں چلے جائیں اور آپ کا سینئر‘ آپ کی حکمران جماعت اور آپ کا ایم پی اے یا ایم این اے آپ کو جو حکم دے آپ اچھے غلام کی طرح اس پر چپ چاپ عمل کریں‘ ہماری بیورو کریسی نے یہ پیغام نہ صرف سن لیا ہے بلکہ یہ اس کو سمجھ بھی گئی ہے اور یہ اس پر عمل بھی کر رہی ہے اور ’’یس سر‘‘ کے اس سسٹم کی سزا اب عام شخص کے ساتھ ساتھ اقتدار سے بے دخل حکمرانوں کو بھی ملتی ہے۔
حکومتی پارٹی اب قانون کے رکھوالوں کو حکم دیتی ہے تو یہ میاں نواز شریف کے والد کو دفتر سے کرسی سمیت اٹھا لیتے ہیں‘ یہ فاروق لغاری کو سرِعام تھپڑ ماردیتے ہیں‘ یہ نصرت بھٹو پر لاٹھیاں برسا دیتے ہیں‘ یہ بے نظیر بھٹو کو سڑکوں پر گھسیٹتے ہیں‘ یہ شریف فیملی کو اٹک قلعے میں پھینک دیتے ہیں‘ یہ آصف علی زرداری کی زبان کاٹ دیتے ہیں‘ یہ میاں نواز شریف کو دھکے دے کر اسلام آباد ائیر پورٹ سے جدہ پہنچا دیتے ہیں‘ یہ بے نظیر بھٹو کی جائے شہادت دھو دیتے ہیں اور یہ چیف جسٹس کو بھی بالوں سے پکڑ لیتے ہیں اوریہ اس غلامانہ سوچ کا نتیجہ ہے جس کے ذریعے ہمارے حکمرانوں نے پولیس کو ذہن نشین کرا دیا تم نے قانون کے بجائے اپنے آقا کی پیروی کرنی ہے۔
چنانچہ یہ پوسٹنگ بچانے اور تبادلے سے بچنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں آقا کے حکم کی بجا آوری میں لگا دیتے ہیں اور اس کا خمیازہ عام شخص کے ساتھ ساتھ حکمران طبقہ بھی بھگتتا ہے‘ مجھے یقین ہے آج اگر ملک میں مارشل لاء لگ جائے اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر پولیس کو آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف‘ راجہ پرویز اشرف اور سپریم کورٹ کے ججوں کو ڈنڈے مارنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کا حکم دے دے توپولیس چند لمحوں میں کر گزرے گی کیونکہ ان کا آقا بدل چکا ہو گا اور انھوں نے اس آقا سے بھی اپنی پوسٹنگ بچانی ہے۔
ہم آتے ہیں اب اس کے حل کی طرف‘ اس کے تین حل ہیں‘ پاکستان کی تمام فیلڈ پوسٹنگز تین سال کے لیے کر دی جائیں‘ یہ قانون اگر پہلے سے موجود ہے تو اس پر سختی سے عمل کیا جائے‘ ان تین برسوں میں کوئی سینیٹر یا کوئی سیاستدان کسی افسر کو اس کی جگہ سے نہ ہٹا سکے‘ اگر کوئی افسر مس کنڈکٹ کا مرتکب ہویا قانون کی خلاف ورزی کرے‘ یہ کسی کو فیور دے یا کسی کو بلاجواز نقصان پہنچائے تو محکمہ اس کا کیس باڈی کو بھیج دے‘ ملک کے تمام صوبوں اور وفاق میں سرکاری افسروں کے لیے اسپیشل باڈیز بنائی جائیں‘ ان باڈیز میں ریٹائر سینئر بیورو کریٹس‘ ریٹائر ججز حضرات‘ سینئر پروفیسرز اور سینئر بزنس مین شامل ہوں‘ یہ کیس کا جائزہ لیں اور ایک ہفتے کے اندر اندر فیصلہ دے دیں۔
محکمے کا سینئر اگر اسپیشل باڈی کے سامنے کسی جونیئر پر لگائے جانے والے الزام ثابت نہ کر سکے تو یہ اسپیشل باڈی اس کی اے سی آر میں نیگیٹو پوائنٹ دے دے اور یہ افسر پانچ چھ نیگیٹو پوائنٹس کے بعد ترقی کی فہرست سے باہر ہو جائے‘ کابینہ‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم اور صدر کا پوسٹنگز اور تبادلوں کا صوابدیدی اختیار فوری طور پر ختم کر دیا جائے‘ ملک کے تمام محکموں کے رولز دیکھے جائیں‘ ان رولز کے مطابق میرٹ بنے اور تمام سرکاری ملازم اس میرٹ لسٹ اور رولز کے مطابق ترقی پائیں اور ان کی پوسٹنگز اور تبادلے ہوں‘ کوئی افسر اس لسٹ میں اچانک شامل نہ ہو سکے اور کسی کو خاص پروسیجر کے بغیر فہرست سے خارج نہ کیا جا سکے‘ انیس سے بائیسویں گریڈ کی تمام تقرریوں کا فیصلہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کرے‘ حکومت کسی کو ہٹا سکے اور نہ ہی لگا سکے اور سپریم کورٹ ایڈہاک‘ ایکٹنگ چارج اور ایکسٹینشن پر قطعی پابندی لگا دے۔
ہماری حکومتیں ایکسٹینشن‘ ایکٹنگ چارج اور ایڈہاک سے بھی جی بھر کر فائدہ اٹھا رہی ہیں‘ یہ مرضی کے ملازموں کو ایکٹنگ چارج دے دیتے ہیں‘ ان کی مدت ملازمت میں اضافہ کر دیتے ہیں یا پھر انھیں ایڈہاک پر اہم عہدوں پر لے آتے ہیں‘ سپریم کورٹ پابندی لگا دے گی تو یہ راستہ بند ہو جائے گا‘ سپریم کورٹ حکم جاری کر دے تمام محکمے کسی تبادلے یا ریٹائرمنٹ سے پہلے اس پوزیشن پر نیا عہدیدار تعینات کریں گے تاکہ وہ عہدہ خالی نہ رہ سکے‘ کوئی افسر چھٹی پر جائے تو اس کے اختیارات جونیئر افسر کو منتقل ہو جائیں لیکن وہ صرف محدود پیمانے پر عارضی احکامات جاری کر سکے۔ ان کی حتمی توثیق وہ افسر واپس آ کر کرے اور اگر وہ حکم واپس لینا چاہے تو وہ پرانا فیصلہ معطل بھی کر سکے گا۔
سپریم کورٹ کو ان ایشوز کا بھی نوٹس لینا چاہیے ورنہ ہماری غلام بیورو کریسی مزید غلام ہو جائے گی اور یہ کسی دن کسی بھی طاقتور شخص کے حکم پر صدر‘ وزیراعظم اور چیف جسٹس کو گرفتار کر لے گی اور ان پر بھینس چوری کا مقدمہ بنا دے گی کیونکہ بیورو کریسی جب قانون کے طاق سے اتر کر حکمرانوں کی انا کی غلام بنتی ہے تو پھر کسی عزت دار شخص کی عزت محفوظ نہیں رہتی‘ پھر ہر چڑھتا سورج سجدہ گاہ بن جاتا ہے اور ہر گزرا حکمران کچرا گھر۔

افسروں کو آزاد کون کرے گا
جاوید چوہدری بدھ 12 دسمبر 2012
آپ اگر دنیا کے تمام بڑے انقلابات میں جھانک کر دیکھیں تو آپ کو ان کے پیچھے کوئی گم نام شخص نظر آئے گا‘ وہ گم نام شخص شانزے لیزے کا وہ مفلوک الحال شخص بھی ہو سکتا ہے جس نے فرانس کے ایک رئیس کا دامن پکڑ لیا اور اس نے اسے سر عام کوڑے مارنا شروع کر دیے اور یہ کوڑے چند گھنٹوں میں انقلاب فرانس کا نقطہ آغاز بن گئے۔ وہ گم نام شخص بیجنگ کا وہ سرپھرا بھی ہو سکتا ہے جس نے چین کے شاہی محل کے سامنے آزادی کا نعرہ لگادیا‘ شاہی فوج نے اسے گولی مار دی اور یہ گولی آگے چل کر چینی انقلاب بن گئی۔ وہ گم نام شخص تہران کا وہ باغی بھی ہو سکتا ہے جس نے شاہی دربار میں کھڑے ہو کر ’’ شاہ نامنظور‘‘ کا نعرہ لگایا‘ ایران کی خفیہ ایجنسی نے اسے اٹھایا‘ اگلی شام اس کی کٹی پھٹی لاش تہران کے مضافات سے ملی اور یہ نعش آگے چل کر انقلاب ایران بن گئی اور وہ گم نام شخص تیونس کا وہ ریڑھی بان بھی ہو سکتا ہے جس نے غربت سے تنگ آ کر خودسوزی کر لی‘ وہ قاہرہ کا وہ گم نام نوجوان بھی ہو سکتا ہے جس نے حسنی مبارک کے خلاف فیس بک کا پیج بنایا‘ طرابلس کی وہ گم نام لڑکی بھی جس نے کرنل قذافی کے خلاف پہلی آواز بلند کی اور شام کا وہ دس سال کا بچہ بھی جس نے دمشق کی دیواروں پر نعرہ لکھ دیا ’’ شام اسد خاندان کا غلام نہیں‘‘۔ یہ سب لوگ تاریخ کے شاندار انقلابوں کی وہ گم نام دیا سلائی تھے جنہوں نے انقلاب کو مشعل بنا دیا‘ یہ لوگ دیا سلائی کی طرح جل کر بجھ گئے لیکن انقلاب کی مشعل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روشن ہو گئی۔ دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ کا متفقہ فیصلہ ہے دنیا کے بڑے انقلابوں کا محرک ہمیشہ چھوٹا‘ گم نام اور عام شخص ہوتا ہے‘ وہ شخص سائوتھ افریقہ کے ریلوے کا وہ گم نام ٹی ٹی بھی ہو سکتا ہے جس نے بیرسٹر کرم چند گاندھی کو ریلوے اسیشنن پر پھینک دیا تھا اور اس ہتک نے کرم چند کو مہاتما گاندھی بھی بنا دیا اور ہندوستان کی آزادی کی پہلی اینٹ بھی رکھ دی۔ وہ شخص بمبئی کا وہ گم نام بنیا بھی ہو سکتا ہے جس نے قائداعظم کو وکیل کر لیا لیکن بھرشٹ ہونے کے خوف سے ان کے ساتھ کھانے سے انکار کر دیا اور یہ انکار آگے چل کر پاکستان کی بنیاد بنا اور وہ شخص اسلام آباد کا وہ اسسٹنٹ کمشنر بھی ہو سکتا ہے جس نے مارچ2007ء میں اپنے سینئر کے حکم کی خلاف ورزی کی‘ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو سپریم کورٹ پہنچنے دیا اور پاکستان میں عدالتی انقلاب آ گیا‘ چیف جسٹس سمیت ملک کی اشرافیہ اور سیاستدان اس کا نام تک نہیں جانتے لکنک اس شخص کے ایک فیصلے نے ملک میں نئے انقلاب کی بنیاد رکھ دی‘ وہ نوجوان آفیسر آج بھی اس فیصلے کا خمیازہ بھگت رہا ہے‘ یہ آج بھی فٹ بال بنا ہوا ہے لیکن یہ اس کے باوجود خوش ہے کیونکہ یہ شام‘ لیبیا‘ تیونس اور مصر کی طرح ملک میں ایک انقلاب کو پروان چڑھتا دیکھ رہا ہے اور یہ اس انقلاب کا محرک ہونے پر نازاں ہے۔
یہ نوجوان آفیسر ڈاکٹر احتشام انور تھا‘ یہ 13 مارچ 2007ء کو اس دن اسلام آباد میں اسسٹنٹ کمشنر رولر تھا جس دن معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنی رہائش گاہ سے پیدل سپریم کورٹ کی طرف چل نکلے‘ پولیس نے انھیں راستے میں روک لیا اور میڈیا پر بعد ازاں پولیس کی زیادتی کی فوٹیج چلی‘ اسلام آباد انتظامیہ چیف جسٹس کو بلوچستان ہائوس لے گئی‘ بلوچستان ہائوس میں سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی حکومت اور چیف جسٹس کے درمیان ثالث بن گئے‘ یہ طے ہوا چیف جسٹس ظفر اللہ جمالی کی گاڑی میں سپریم کورٹ جائیں گے‘ یہ ظفر اللہ جمالی کا منصوبہ تھا جب کہ اسلام آباد کی انتظامیہ نے حکومت کے ساتھ مل کر دوسرا منصوبہ بنایا‘ جمالی صاحب اور چیف جسٹس کی سرکاری گاڑی بلوچستان ہائوس سے ایک ساتھ باہر نکلنا تھی‘ ڈاکٹر احتشام کو ڈی چوک میں کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا‘ اسے کہا گیا یہ جمالی صاحب کی گاڑی کو ایمبیسی روڈ کی طرف بھجوا دے گا‘ یہ گاڑی ریڈیو پاکستان سے ہوتی ہوئی پچھلے دروازے سے سپریم کورٹ پہنچ جائے گی جہاں جنرل پرویز مشرف کا جوڈیشل کمیشن تیار بیٹھا تھا‘ یہ کمیشن چیف جسٹس پر چارج لگائے گا اور انھیں فارغ کر دے گا جب کہ دوسری گاڑی سپریم کورٹ کے سامنے آ کر رک جائے گی‘ میڈیا‘ وکلا اور سول سوسائٹی یہ سمجھے گی چیف جسٹس اس گاڑی میں ہیں‘ یہ اس طرف آ جائیں گے اور یوں حکومت کو چیف جسٹس کے خلاف کارروائی کا موقع مل جائے گا۔ یہ منصوبہ تیار تھا‘ گاڑیاں منصوبے کے مطابق ڈی چوک پہنچیں لیکن ڈاکٹر احتشام نے عین وقت پر اپنے سینئرز کے ساتھ ’’ غداری‘‘ کر دی‘ اس نے خالی کار ایمبیسی روڈ کی طرف موڑ دی اور جمالی صاحب کی گاڑی سپریم کورٹ کے مین گیٹ کی طرف بھجوا دی‘ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے سامنے اترے‘ لوگوں نے انھیں کندھوں پر اٹھا لیا اور اس کے بعد انھیں نیچے نہیں اترنے دیا یوں ایک نوجوان افسر کے صرف ایک قانونی قدم نے پورے ملک کی قانونی اور سیاسی صورتحال بدل دی‘ اگر اس دن ڈاکٹر احتشام اپنے سینئرز کے ساتھ ’’ غداری‘‘ نہ کرتاتو شاید جنرل پرویز مشرف آج بھی ملک کے حکمران ہوتے ‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف بدستور جلا وطن ہوتے اور شاید چیف جسٹس ماضی کا قصہ بن چکے ہوتے لیکن ایک شخص کے احساس ذمے داری نے پوری صورتحال بدل دی۔

یہ مثال سرکاری ملازم کی اہمیت کے لیے کافی ہو گی ‘ ایک سرکاری افسر پوری صورتحال بدل سکتا ہے لیکن 99 فیصد سرکاری ملازم رسک نہیں لیتے کیونکہ یہ ملازمت‘ ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں‘ ہم‘ ہماری حکومت یا ہماری عدلیہ اگر صرف سرکاری ملازمین کو تحفظ دے دے‘ یہ اگر انھیں یقین دلا دے ان کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر صرف اور صرف میرٹ پر ہو گی اور کوئی سرکاری اور سیاسی شخصیت انھیں مقرر کروا سکے گی اور نہ ہی ٹرانسفر توپاکستان کا ہر دوسرا افسر ڈاکٹر احتشام ثابت ہو سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہو رہا‘ کیوں نہیں ہو رہا؟ ڈاکٹر احتشام اسلام آباد میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل تھے‘ انھیں جنوری 2012ء میں ہٹا دیا گیا اور اس عہدے کا اضافی چارج اے ڈی سی آر کو دے دیا گیا ‘ یہ عہدہ اکتوبر تک خالی رہا‘ اکتوبر میں مریم خان اس عہدے پر تعینات ہوئیں‘ یہ بھی اعلیٰ حکام کی خواہشات کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہوئیں چنانچہ حکومتی دبائو میں انھیں تقرری کے ایک مہینے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا‘ اس دوران ایک دوسری اسسٹنٹ کمشنر رابعہ اورنگزیب کو بھی اسلام آباد کی قیمتی پراپرٹی پر قبضے کے لیے کوشاں دو فریقین کے تنازعے کی وجہ سے ہٹا دیا گیا‘ یہ ایشو چل رہے تھے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی ایس آئی کے سابق ڈپٹی ڈی جی میجر جنرل (ریٹائر) نصرت نعیم کے خلاف بوگس چیک کے الزام میں گرفتاری کا حکم جاری کر دیا‘ ایس پی انڈسٹریل ایریا خرم رشید کو عدالتی حکم پر عملدرآمد سے روکا گیا لیکن خرم رشید اور ایس ایچ او انسپکٹر شفیق احمد نے عدالتی حکم پر عمل کیا اور اس کے ردعمل میں ایس پی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا جب کہ ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا‘ سپریم کورٹ نے ان تینوں واقعات کا نوٹس لیا جب کہ رابعہ اورنگزیب کے تبادلے پر انکوائری کا حکم جاری ہو گیا‘ سپریم کورٹ حکم جاری کر چکی ہے کسی سرکاری ملازم کو اس کی مدت پوری ہونے سے قبل عہدے سے نہیں ہٹایا جا سکے گا لیکن حکومت مسلسل اس حکم کی خلاف ورزی کر رہی ہے‘ سپریم کورٹ نے ان خلاف ورزیوں کا نوٹس لے لیا ہے اور چند دنوں میں بڑا فیصلہ بھی سامنے آ جائے گا‘ یہ انتہائی اچھی شروعات ہیں مگر سپریم کورٹ کو اب مہربانی فرما کر اسلام آباد پولیس کے معاملات بھی اس کیس کا حصہ بنا دینے چاہئیںکیونکہ پولیس کورٹ کے احکامات کی زیادہ بڑی توہین کر رہی ہے‘ اسلام آباد کے آئی جی بنیامین ڈیڑھ سال سے ایکٹنگ چارج پر ہیں‘ یہ ڈی آئی جی آپریشنل تھے‘ حکومت نے 20 جون2011ء کو آئی جی واجد درانی کے تبادلے کے بعد انھیں اضافی چارج دیا اور یہ18 ماہ سے ایکٹنگ چارج پر چلے آ رہے ہیں اور حکومت ان کی اس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے‘ یہ حکمرانوں کے ہر جائز اور ناجائز حکم پر آنکھیں بند کر کے عمل کرتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ پچھلے دو سالوں میں اسلام آباد کے 18 تھانوں کے ایس ایچ اوز کی تبدیلیوں کا ریکارڈ منگوا لیں‘ آپ حیران ہو جائیں گے‘ میں چھ تھانوں کا ریکارڈ آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘ رمنا پولیس اسٹیشن میں ستمبر 2011ء سے دس دسمبر 2011ء تک 15 ماہ میں چار ایس ایچ تبدیل ہوئے‘ کوہسار پولیس اسٹیشن میں دو برسوں میں 8 ایس ایچ او‘ شالیمار تھانے میں 9 ایس ایچ او‘ آبپارہ تھانے میں 11 ایس ایچ او‘ بھارہ کہو میں 7 ایس ایچ او اور شہزاد ٹائون میں بیس ماہ میں 11 ایس ایچ او تبدیل ہوئے‘ ہم اگر ایس ایچ اوز کی تبدیلی کی اوسط نکالیں تو یہ دو ماہ بنتے ہیں جب کہ پولیس کو کسی ملزم کو نامعلوم قرار دینے کے لیے بھی کم از کم تین ماہ درکار ہوتے ہیں‘ اگر اسلام آباد جیسے شہر میں قانون کی اتنی بڑی خلاف ورزی ہو گی تو آپ باقی ملک کا اندازہ خود لگا لیجیے ‘ یہ تبادلہ اور معطلی کی فقط ایک مثال ہے جب کہ ملک میں ان دو ہتھیاروں نے پوری بیوروکریسی کو غلام بنا رکھا ہے‘ یہ لوگ سینئرز اور حکومت کے غلام بن چکے ہیں اور ان کے پاس نوکری اور پوسٹنگ بچانے کے لیے بڑوں کی ہاں میں ہاں ملانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا‘ آج ملک کا ہر آزاد شہری پوچھ رہا ہے ان لوگوں کو غلامی سے کون آزاد کرے گا۔
جھرلو
جاوید چوہدری پير 10 دسمبر 2012
یورپ کے پرانے کاروبار وائین اور پنیر ہیں‘ یورپ میں ہزاروں سال سے انگور کاشت ہو رہے ہیں‘ ان انگوروں کی شراب بنائی جاتی ہے اور یہ شراب بعدازاں بیچی جاتی ہے‘ وائن میکنگ یورپ کے قصبوں کا باقاعدہ تہوار بھی ہے‘ یہ لوگ انگور پکنے کا انتظار کرتے ہیں‘ سرخ انگور اتارے جاتے ہیں‘ قصبے کے درمیان لکڑی کی بیس بیس‘ تیس تیس فٹ قطر کی کڑاہیاں رکھ دی جاتی ہیں‘ انھیں انگوروں سے بھر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد قصبے کی خوبصورت اور جوان لڑکیاں مختصر لباس میں ننگے پائوں کڑاہی میں اتر جاتی ہیں‘ سازندے ساز بجاتے ہیں اور لڑکیاں انگوروں سے بھری کڑاہیوں میں اچھل کود شروع کر دیتی ہیں‘ اس اچھل کود کے دوران انگوروں کا رس نکلتا ہے اور اس رس سے بعد ازاں شراب بنائی جاتی ہے‘ مشرقی یورپ کے اکثر قصبے اپنی شراب کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں‘ اس میں چالیس کنواریوں کی خوشبو بسی ہے‘ یہ خوشبو کنواریوں کی نہیں‘ ان کے پائوں کی ہوتی ہے اور بے وقوف شرابی شراب کے ساتھ پائوں کی خوشبو بھی پی جاتے ہیں۔ یورپ کا دوسرا کاروبار پنیر ہے‘ یورپ کے دیہات اور قصبوں میں ہزاروں سال سے پنیر بنایا جا رہا ہے‘ یہ پنیر دیہات اور قصبوں کی خوراک بھی ہے اور تجارت بھی‘ پنیر اور چوہوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے‘ یورپ میں محاورہ ہے جہاں پنیر ہو گی وہاں چوہے بھی ہوں گے‘ پنیر چوہوں کی مرغوب ترین غذا ہے‘ یہ پنیر تک پہنچنے کے لیے آدھ کلو میٹر لمبی سرنگیں بنا لیتے ہیں‘ یہ مٹکے‘ ٹوکریاں اور برتن تک توڑ دیتے ہیں اور پنیر لے کر غائب ہو جاتے ہںا‘ چوہوں اور پنیر کی اس لڑائی کی وجہ سے یورپ میں بے شمار محاورے‘ بے شمار کہاوتیں اور بے شمار کہانیاں بنیں‘ یہ کہانیاں محض کہانیاں نہیں ہیں‘ یہ دانش اور ذہانت کا شاہکار بھی ہیں‘ مثلاً مجھے برسوں پہلے پنیر اور چوہوں کی ایک پولش داستان پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ داستان کے مطابق پنیر سازوں کے ایک خاندان پر چوہوں نے یلغار کر دی‘ خاندان نے پنیر کو چوہوں سے بچانے کے ہزاروں جتن کیے‘ یہ رات بھر جاگتے رہتے‘ چوہے پکڑنے کی ٹکٹکیاں بھی لگائیں‘ گودام میں جگہ جگہ چوہے مار گولیاں بھی بکھیر دیں‘ یہ غلیلوں سے بھی چوہے مارتے رہے‘ پنیر کے مرتبانوں کے ڈھکن بھی ٹائیٹ کر دیئے اور انھوں نے مرتبان بھی بدل دیئے لیکن چوہوں کا مسئلہ حل نہ ہوا چنانچہ انھوں نے گائوں کے سیانے سے رابطہ کیا‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’ تم لوگ مرتبان بدلتے رہے‘ غلیلیں چلاتے رہے‘ گولیاں بکھیرتے رہے اور ٹکٹکیاں لگاتے رہے لیکن تم نے چوہوں کی آمدورفت کا راستہ بند نہیں کیا‘‘ گھر کے لوگوں نے حیرانی سے پوچھا ’’ کیا مطلب‘‘ سیانا بولا ’’ چوہوں نے گودام کے فرش میں درجنوں سرنگیں بنا رکھی ہیں‘ یہ ان سرنگوں سے گودام پر حملہ آور ہوتے ہیں‘ تم یہ سرنگیں جب تک بند نہیں کرو گے تمہاری پنیر محفوظ نہیں ہو گی‘‘ گھر والوں نے پوچھا ’’ ہم کیا کریں‘‘ سیانے نے جواب دیا ’’ تم فرش میں پتھر لگا دو‘ چوہوں کی سرنگیں بند ہو جائیں گی اور یوں تمہاری پنیر محفوظ ہو جائے گی‘‘ اس کہانی کے آخر میں پولش محاورہ لکھا تھا ’’جب تک فرش پکے نہیں ہوتے پنیر محفوظ نہیں ہوتی‘‘۔
یہ کہانی دانش تھی اور دانش ہوا اور سورج کی طرح ہوتی ہے‘ یہ کسی ایک شخص‘ قبیلے یا خاندان کی ملکیت نہیں ہوتی یہ پوری دنیا کی امانت ہوتی ہے‘ یہ پولش دانش بھی دنیا کے ہر اس انسان کا ورثہ ہے جس کی پنیر چوہے کھا جاتے ہیں اور وہ صرف فرش پکا کر کے اس نقصان سے بچ سکتا ہے‘ ہم اس کہانی یا دانش کا کینوس اب ذرا سا بڑا کرتے ہیں‘ ہم پاکستان کے سیاسی حالات کو اس کے سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں‘ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کل فیصل آباد میں خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا‘ اصغر خان کیس نے سارے چہرے بے نقاب کر دیئے اور اب کوئی ملک میں جھرلو نہیں پھیر سکے گا‘ کوئی تحصیل دار اور پٹواری کچھ نہیں کر سکے گا اور کوئی دھاندلی نہیں ہوگی‘ وغیرہ وغیرہ۔ وزیراعظم شاید یہ فرمانا چاہتے ہیں‘ سیاست سے فوجی مداخلت ختم ہو چکی ہے‘ مجھے یہ بیان ہاتھی کو ٹکٹکی کے ذریعے پکڑنے کی کوشش محسوس ہوا‘ دنیا کے سو ممالک کی سیاست میں فوجی مداخلت تھی لیکن ان ممالک نے ستر برسوں میں آہستہ آہستہ فوجی ہاتھی کو اقتدار کے ڈرائنگ روم سے نکال دیا‘ ہم اگر جاپان سے لے کر جرمنی تک اور اٹلی سے لے کر ترکی تک ان سو ممالک کا مشاہدہ کریں تو ہمیں فوج کو سیاست سے بے دخل کرنے کے صرف دو طریقے ملیں گے‘ اول جرمنی اور جاپان ماڈل‘ ان دونوں ملکوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد فوجیں ختم کر دیں ‘ بانس ختم ہو گیا تو بانسریاں بھی خاموش ہو گئیں ‘ جاپان میں پچھلے ساٹھ برسوں میں 31 حکومتیں تبدیل ہوئیں لیکن اس کے باوجود ان کا سسٹم چل رہا ہے‘ جاپان کے تیس فیصد لوگ اپنے وزیراعظم کے نام تک سے واقف نہیں ہوتے‘ ان سے وزیراعظم کا نام پوچھا جاتا ہے تو یہ پچھلے یا اس سے پچھلے وزیراعظم کا نام بتا دیتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہی نہیں ہوتا ان کا وزیراعظم کس وقت تبدیل ہو گیا۔ جرمنی نے سیاست کو عبادت کی شکل دے دی چنانچہ وہاں کوئی بے ایمان شخص منتخب نہیں ہو سکتا اور اگر ہو جائے تو وہ زیادہ دیر تک اقتدار میں ٹھہرنہیں سکتا۔ دوسرا ماڈل گورننس تھا‘ سیاستدان اہل ترین لوگوں کو اقتدار میں لے کر آئے‘ انھوں نے فوج سے بہتر گورننس دی اور یوں فوج سیاست سے پسپا ہو گئی۔ آپ اس ضمن میں ملائشیا اور ترکی کی مثال لے سکتے ہیں‘ مہاتیر محمد1981ء میں اقتدار میں آئے اور انھوں نے ملک کی ہیئت تبدیل کر دی‘ ملائشیا ایشین ٹائیگر بن گیا جب کہ اس سے قبل وزیراعظم کا فیصلہ فوج کرتی تھی اور یہ ہی اسے فارغ کرتی تھی۔ ترکی سویلین گورننس کی تازہ ترین مثال ہے‘ عبداللہ گل اور طیب اردگان نے 2002ء میں اقتدار سنبھالا اور کمال کر دیا‘ طیب اردگان سے قبل فوج ترکی کی بلاشرکت غیرے مالک ہوتی تھی‘ استنبول کے سینیٹری ورکرز تک کا فیصلہ کور کمانڈر کرتاتھا لیکن طیب اردگان اور عبداللہ گل آئے اورملک کے تمام چھوٹے بڑے مسئلے حل کر دیئے اور فوج کے پاس پسپائی کے سوا کوئی راستہ نہ بچا‘ آج ترکی میں تین سو اعلیٰ فوجی افسر سیاسی حکومت کے خلاف سازش اور الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں اور دھڑا دھڑ سزا بھی پا رہے ہیں۔
ہمارے پاس بھی سیاسی جھرلو سے بچنے کے دو ہی آپشن ہیں‘ ہم فوج ختم کر دیں‘ یہ ناممکن ہے کیونکہ فوج ملک کا واحدمنظم ادارہ ہے‘ ہم تین اطراف سے دشمن میں بھی گھرے ہوئے ہیں چنانچہ ہم فوج کے بغیر سروائیو نہیں کر سکتے‘ دوسرا طریقہ گورننس ہے‘ ہم لوگوں کو جب تک میرٹ پر نہیں لگائیں گے ہم میرٹ پر فیصلے نہیں کریں گے‘ ہم گورننس بہتر نہیں بنائیں گے‘ ہم سیاست کو کرپشن سے پاک نہیں کریں گے اور ہمارے سیاسی رہنما ذاتی مفادات سے بالاتر نہیں ہوں گے‘ ہم اس وقت تک جھرلو‘ انتخابی دھاندلی اور الیکشن میں تحصیلدار‘ پٹواری اور تھانے دار کا عمل دخل ختم نہیں کر سکیں گے‘ یہ کیسے ممکن ہے آپ تین ماہ میں 22 ارب روپے کا صوابدیدی کوٹہ خرچ کر دیں‘ آپ سی ڈی اے کو ٹکسال بنا دیں‘ آپ کے بھائی اور صاحبزادے سیاسی ڈیلر بن جائیں اور سیاست جھرلو سے پاک ہو جائے‘ آپ ملک کو بجلی فراہم نہ کریں‘ ملک میں سی این جی کی چار چار کلو میٹر لمبی لائنیں لگی ہوں اور آپ اپنے پیر صاحب کو سلام کرنے کے لیے تین تین سرکاری ہیلی کاپٹر لے جائیں اور ملک جھرلو سے بھی آزاد ہو جائے‘ ہم اس وقت تک جمہوریت کی پنیر نہیں بچا سکیں گے ہم جب تک فرش میں گورننس‘ میرٹ اور اہلیت کے پتھر نہیں لگاتے‘ ہم جب تک اپنے بھائیوں اور بچوں کو اقتدار کے کیک سے دور نہیں ہٹاتے‘ ہم اگر اقتدار کو اپنے خاندان کے جھرلو سے نہیں بچا سکتے تو پھر ہم پوری سیاست کو جھرلو سے کیسے نکالیں گے۔
وزیراعظم نے کبھی یہ سوچا‘ شاید نہیں کیونکہ یہ آج بھی اقتدار کو اتفاق یا لاٹری سمجھ رہے ہیں اور لاٹریوں میں نکلنے والے وزیراعظموں سے بڑا جھرلو کوئی نہیں ہوتا اور جھرلو جھرلو کو ختم نہیں کر سکتا۔
ساتھ ساتھ
جاوید چوہدری ہفتہ 8 دسمبر 2012
میں اکتوبر کے آخر میں سمرقند سے واپس آ گیا لیکن سمر قند کی دو قبریں‘ دو مقبرے بھی میرے ساتھ آ گئے اور میں کوشش کے باوجود ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکا‘ میں آج تک ان کے سحر میں گرفتار ہوں۔ سمرقند کی شام گہری اور سرخ تھی‘ سورج بی بی خانم مسجد کے مغربی مینار پر پہنچ کر ٹھہر گیا اور اس کی کند کرنیں سمرقند کے لوگوں کو شام کا پیغام دینے لگیں‘ ہم عین اس وقت حضرت قثم بن عباس ؓ کے مزار میں داخل ہو رہے تھے‘ یہ نبی اکرمﷺ کے کزن بھی تھے اور انھوں نے نبی رسالتﷺ کو لحد میں اتارنے کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا۔
ہم مزار پر فاتحہ کے بعد باہر نکلے تو مزار کے دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر بائیں جانب ایک انتہائی خوبصورت مقبرہ تھا‘ مقبرے کی خوبصورتی دیکھنے والے کی نظروں کو جکڑ لیتی تھی‘ میں اس مقبرے کے سامنے رک گیا اور اپنی گائیڈ سے پوچھا ’’یہ کس کا مزار ہے‘‘ اس نے افسوس سے گردن ہلائی اور دکھ بھری آواز میں بولی ’’یہ مقبرہ دنیا کے عظیم المیوں میں سے ایک المیہ ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ روسی گائیڈ نے جواب دیا ’’یہ امیر تیمور کی سب سے چھوٹی اور بارہویں بیوی کا مقبرہ ہے‘ یہ انتہائی خوبصورت اورلاڈلی تھی اور انقلابی خاتون تھی‘ امیر تیمور اس سے بے تحاشا محبت بھی کرتا تھا اور اس کی وہ باتیں بھی مان جاتا تھا جس کے اظہار تک کی دوسروں کو جرات نہیں ہوتی تھی۔
یہ تیمور کے حرم کی پہلی خاتون تھی جو پردے کے بغیر گھر سے باہر نکلی‘ جس نے شہر کے لیے‘ شہر کی خواتین کے لیے بے شمار کام کیے اور جو تنِ تنہا شہر اور اس کے مضافات میں چلی جاتی تھی اور امیر تیمور اس کی یہ گستاخی برداشت کر جاتا تھا‘ وہ سرخ بالوں والی‘ چھوٹے سے قد کی بھرپور عورت تھی جس کی ایک جھلک دیکھنے والوں کو دیوانہ بنا دیتی تھی۔ وہ حضرت قثم بن عباسؓ کی معتقد تھی‘ اس کی خواہش تھی وہ ان کے مزار کی دہلیز پر دفن ہو چنانچہ اس نے ابن عباسؓ کے مزار کے سامنے اپنے مقبرے کی تعمیر شروع کرا دی‘ اس نے مقبرے کی تعمیر کے لیے ڈیزائننگ کا فن سیکھا‘ زمانے کے شاندار ترین تعمیراتی ماہر جمع کیے اور انھیں مقبرے کی تعمیر کا کام سونپ دیا‘ وہ مقبرے کی تعمیر کے دوران روزانہ سائٹ کا وزٹ کرتی تھی۔
وہ ماہرین کو مشورے بھی دیتی تھی اور ان کے ساتھ کام بھی کرتی تھی‘ اس نے مقبرے کے ساتھ مدرسہ بھی بنوایا‘ اس مدرسے میں دو سو طالب علم تعلیم حاصل کر سکتے تھے‘ مقبرے کی تعمیر کے دوران امیر تیمور کا انتقال ہو گیا‘ حکومت تیمور کے صاحبزادے شاہ رخ مرزا کے پاس چلی گئی لیکن چھوٹی ملکہ اپنا مقبرہ بنواتی رہی‘ یہ مقبرہ کئی برسوں کی محنت اور اس دور کے ہزاروں طلائی سکوں کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچ گیا‘ ملکہ نے مقبرے کے عین درمیان اپنی قبر بنوا دی‘ یہ سنگ مر مر کی خوبصورت قبر تھی جس کے اوپر ملکہ کے نام کا تعویذ رکھ دیا گیا‘ ملکہ کا خیال تھا یہ جب فوت ہو گی تو اس کی تدفین کے وقت قبر کی سل اٹھائی جائے گی‘ اس کی میت قبر کے اندر اتاری جائے گی اور سل دوبارہ قبر کے منہ پر رکھ دی جائے گی اور یوں اس کا مقبرہ مکمل ہو جائے گا لیکن آپ قسمت کے رنگ دیکھئے‘ ملکہ کو پے در پے شورشوں کی وجہ سے سمر قند چھوڑنا پڑا۔
یہ مزار شریف چلی گئی اور وہیں کسی وقت خاموشی سے فوت ہو گئی اور اس کی نعش مزار شریف کے کسی گم نام قبرستان کی کسی گم نام قبر میں دفن کر دی گئی‘ اس بیچاری کو اپنی وہ قبر تک نصیب نہ ہوئی جس کو اس نے ایک ایک اینٹ رکھ کر بنایا تھا چنانچہ یہ مقبرہ دنیا کے ان چند بد نصیب مقبروں میں شمار ہوتا ہے جن میں صاحبان مزار دفن نہیں ہیں‘‘۔ گائیڈ کی گفتگو ختم ہوئی تو میں نے دوبارہ مقبرے کی طرف دیکھا‘ مقبرے کا شکوہ چھ سو سال بعد قائم تھا لیکن وہ بدنصیب ملکہ کہاں دفن ہے کوئی نہیں جانتا اور شاید جان بھی نہ سکے اور اس کے ساتھ ہی وہ مقبرہ اپنی جڑوں سے اٹھا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے ساتھ چل پڑا اور میں اب جہاں بھی جاتا ہوں یہ مقبرہ میرے ساتھ ساتھ جاتا ہے۔
سمر قند کا دوسرا مقبرہ اس سے کہیں زیادہ سلگتی ہوئی یاد ہے اور یہ یاد بھی شاید اب مجھے کبھی اپنے حصار سے نہ نکلنے دے۔ آپ اگر حضرت ابن عباسؓ کے مزار کے سامنے گلی میں کھڑے ہوں تو سمر قند شہر آپ کی پشت پر ہو گا‘ دائیں ہاتھ حضرت ابن عباسؓ کا مزار ہو گا‘ بائیں جانب چھوٹی ملکہ کا مقبرہ اور آپ کے بالکل سامنے ایک قدیم مقبرہ ہوگا‘ یہ مقبرہ کس کا ہے کوئی نہیں جانتا کیونکہ اس کے دروازے‘ اس کے تعویذ اور اس کی دیواروں پر کوئی نام‘ کوئی نشان نہیں کھدا۔ یہ تیمور خاندان یا اس کے وزراء میں شامل کسی ایسے اہم وزیر کا مقبرہ ہے جسے زمانے نے بھلا دیا‘ اس جگہ ایسے سیکڑوں مقبرے بکھرے ہوئے ہیں‘ کچھ مقبرے مکمل مقبرے ہیں‘ قبروں پر سیاہ‘ سفید یا سبز سنگ مرمر لگا ہے‘ بلند چھت سے روشنی کی آمد کا مناسب بندوبست ہے‘ دروازوں اور کھڑکیوں پر کنندہ کاری ہے اور اینٹیں بھی باقاعدہ فنکاری اور نفاست کے ساتھ جوڑی گئی ہیں۔
یہ سمر قند کی تاریخ کے شاندار‘ مضبوط اور رئیس لوگوں کے مقبرے ہیں‘ ان مقبروں کے بعد رئوسا کے قبرستان کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے‘ سمر قند کے اس قبرستان میں سیکڑوں قبریںہیں اورہر قبر ہنر کاری کا خوبصورت ترین نمونہ ہے اور فن کے ان نمونوں کے درمیان اس گمنام مقبرے کی کیا حیثیت ہے؟ یہ سوال اس وقت یقیناً آپ کے دماغ میں گردش کر رہا ہوگا‘ اس مقبرے کی اہمیت اس کے دروازے پر درج ایک چھوٹا سا فقرہ ہے‘ مقبرے کے مالک نے مرنے سے قبل دروازے کی آرچ پر نیلے پتھروں سے ایک فقرہ لکھوایا اور اس فقرے نے اس مقبرے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندگی دے دی۔ میں نے یہ فقرہ پڑھا‘ گائیڈ سے اس کا ترجمہ کروایا اور چند لمحوں کے لیے سن ہو کر رہ گیا۔
مقبرے کے دروازے پر درج تھا ’’آپ خواہ چین کے بادشاہ ہوں‘ یا مصر کے فرمانروا آپ نے آنا بہرحال اسی جگہ ہے‘‘ میں نے موت کی حقیقت کے بارے میں سیکڑوں فقرے پڑھے ہیں لیکن اس فقرے نے مجھے جکڑ لیا‘ آپ بھی ایک لمحے کے لیے سوچیے آپ کیا ہیں؟ آپ صدر آصف علی زرداری ہوں گے‘ راجہ پرویز اشرف ہوں گے‘ میاں نوازشریف‘ چوہدری شجاعت حسین‘ مولانا فضل الرحمان یا الطاف حسین ہوں گے یا پھر آپ ان سے بھی کہیں زیادہ طاقتور‘ امیر‘ خوبصورت اور بااثر ہوں گے‘ آپ اوباما بھی ہو سکتے ہیں‘ ملکہ الزبتھ بھی ہو سکتے ہیں‘ سعودی شاہ بھی ہو سکتے ہیں‘ آپ بل گیٹس یا وارن بفٹ بھی ہو سکتے ہیں اور آپ بشار الاسد بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس ساری جدوجہد‘ اس ساری کوشش‘ اس ساری افراتفری اور اس سارے تام جھام کا اختتام کیا ہوگا؟
ہم اپنی کامیابیوں سے کتنی دیر لطف اندوز ہو سکیں گے‘ ہم خواہ دس لاکھ لوگوں کی کھوپڑیوں پر تخت بچھا کر بیٹھ جائیں لیکن ایک نہ ایک دن اس تخت نے ٹوٹناہے اور اس سے قبل ہم نے اس دنات سے رخصت ہو جانا ہے اور ہماری کھوپڑی نے بھی دوسری کھوپڑیوں کے ساتھ مٹی کا رزق بن جانا ہے‘ ہم نے بھی ان کروڑوں‘ اربوں لوگوں کی طرح گم نام ہڈیاں بننا ہے جو ہم سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور ان کے پیاروں نے انھیں مٹی کے سپرد کر دیا۔ یہ دنیا عجیب جگہ ہے اس میں فرعون بھی مر جاتا ہے اور حضرت موسیٰؑ کا وقت بھی پورا ہو جاتا ہے‘ اس میں نمرود کی خدائی بھی ختم ہو جاتی ہے اور حضرت ابراہیمؓ بھی اس سے رخصت ہو جاتے ہیں اور اس سے حضرت امام حسینؓ بھی چلے جاتے ہیں اور یزید بھی انتقال کر جاتا ہے اور پیچھے اچھائی اور برائی کی صرف کہانیاں رہ جاتی ہیں۔ آپ صدیقؓ بن جاتے ہیں یا ابوجہل کہلاتے ہیں۔
موت دنیا کی دلچسپ ترین حقیقت ہے‘ اس میں دو خوبیاں ہیں۔ ایک‘ دنیا کا ہر جاندار وہ خواہ کتنا ہی اہم‘ مضبوط اور عظیم کیوں نہ ہو جائے اسے موت ضرور آتی ہے اور دو‘ یہ صرف ایک بار آتی ہے‘ دنیا میں کوئی شخص دوسری یا تیسری بار نہیں مرتا‘ہم نے مرنا صرف ایک بار ہے اور اس مقبرے کے سامنے کھڑے ہو کر میں نے سوچا جس موت نے ضرور آنا ہے ہم اس کے بارے میں سنجیدگی سے کیوں نہیں سوچتے اور جس زندگی نے ہر صورت چلے جانا ہے ہم اس کے بارے میں اتنے سنجیدہ کیوں ہوتے ہیں‘ ہم اس کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کیوں کرتے ہیں اور ہم اس کے لیے ہر حد کیوں پار کر جاتے ہیں۔۔!
دنیا میں جب چین اور مصر کے بادشاہ گم نام قبروں میں اتر گئے تو ہم‘ ہماری انا اور ہمارے اقتدار کی کیا حیثیت ہے؟ ہم دنیا میں کتنی دیر رہ لیں گے‘ ہم اپنی انا کو کتنی دیرتک دوسروں کا ناحق خون پلا لیں گے اور ہم معصوم لوگوں کو کتنی دیر بے وقوف بنا لیں گے کیونکہ ہم نے بالآخر جانا اسی گم نام قبر میں ہے جس میں سمرقند کا وہ بے نام شہزادہ دفن ہے جس نے اپنے دروازے پر لکھ کر لگا دیا میں یہاں آ گیا اور تم نے بھی یہاں آنا ہے خواہ تم چین یا مصر کے بادشاہ ہی کیوں نہ ہو۔
میں سمر قند سے واپس آ گیا لیکن یہ دو مزار‘یہ دو مقبرے بھی میرے ساتھ آ گئے اور یہ شاید اب پوری زندگی میرے ساتھ رہیں گے۔
جھاکا
جاوید چوہدری جمعرات 6 دسمبر 2012
شیئر
پنجابی کا ایک بہت خوبصورت لفظ ہے ’’ جھاکا‘‘۔ میں پچھلے دس برس سے اردو‘ انگریزی اور فرنچ میں اس کا نعم البدل تلاش کر رہا ہوں مگر مجھے نہیں مل رہا۔ یہ لفظ محض لفظ نہیں بلکہ ایک پوری نفسیاتی کیفیت ہے اور آپ جب تک اس کیفیت سے نہیں گزرتے، آپ اس وقت تک اس لفظ کی گہرائی اور گیرائی سے واقف نہیں ہو سکتے مثلاً ہم میں کچھ لوگ پانی سے ڈرتے ہیں لیکن یہ کسی دن حادثاتی طور پر یا پھر کسی مہربان کی مہربانی سے پانی میں گر جاتے ہیں‘ یہ چند غوطے کھاتے ہیں‘ پانی سے باہر آتے ہیں اور ان کا خوف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے‘ پانی کا یہ خوف ’’جھاکا‘‘ تھا اور اس خوف کا خاتمہ ’’ جھاکا اترنا‘‘ تھا مگر اس مثال کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں‘ آپ جھاکا کو فوبیا سمجھ لیں کیونکہ فوبیا اس کے وسیع تر معانی کا ایک فیصد بھی کور نہیں کرتا‘ جھاکا فوبیا سے کئی گنا بڑا لفظ ہے اور یہ ہر اس جگہ استعمال ہو سکتا ہے جہاں آپ چیزوں کے احترام‘ خوف‘ کشش اور حصول کی جدوجہد سے باہر نکل جاتے ہیں۔
آپ جھاکا کو ایک لمحے کے لیے سائیڈ پر رکھیے اور آپ پاکستان کی تاریخ کے شاندار ترین دن یعنی بارہ اکتوبر کی طرف آئیے‘ یہ ایک حیران کن دن تھا‘ اس دن معطل آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ہوا میں مارشل لاء لگا دیا‘ راولپنڈی سے ٹرپل ون بریگیڈ کا ایک میجر دو ٹرکوں کے ساتھ وزیراعظم ہائوس پہنچا اور میاں نواز شریف دو تہائی عوامی اکثریت کے باوجود اقتدار سے فارغ ہو گئے اور اس کے بعد ملک کے وہ تمام حقائق سامنے آگئے جو 52 برس سے چھپے ہوئے تھے‘ اس دن نے چند لمحوں میں قوم کی آنکھوں سے تمام پٹیاں اتار دیں مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آرمی چیف خواہ معطل ہی کیوں نہ ہو اور یہ ہوا ہی میں کیوں نہ ہو‘ یہ مارشل لاء لگا سکتا ہے۔
مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا جمہوری حکومت خواہ دو تہائی اکثریت لے کر آئے اسے فارغ کرنے کے لیے دو ٹرک اور تین درجن جوان کافی ہوتے ہیں‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ نے اگر دو تہائی اکثریت حاصل کی ہے تو اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں قوم یا عوام بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں‘ آپ جب اقتدار سے فارغ ہوں گے یا کر دیے جائیں گے تو آپ کو شیر پنجاب کا ٹائٹل دینے والے بھی غائب ہو جائیں گے اور زندہ ہے بھٹو زندہ کے دعوے کرنے والے بھی‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا یہ ملک ایسی زمین پر بنا ہے جس کا سورج ہمیشہ برسراقتدار شخص کی جیب سے طلوع ہوتا ہے اور یہ شخص جس دن مسند اقتدار سے فارغ ہوتا ہے اس دن اس کا سورج بھی رخصت ہو جاتا ہے‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہی کیوں نہ ہوں‘ آپ ملک کے دس بڑے صنعتی گروپوں میں شامل کیوں نہ ہوں اور آپ کھرب پتی ہی کیوں نہ ہوں‘ آپ کسی بھی وقت پورے خاندان سمیت گرفتار ہو سکتے ہیں۔
آپ قید ہو سکتے ہیں اور آپ کو ملک کا کوئی قانونی ادارہ‘ کوئی عدالت انصاف نہیں دے گی‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ خواہ ملک کے طاقتور ترین شخص کیوں نہ ہوں‘ آپ نے ایٹمی دھماکے کیوں نہ کیے ہوں اور آپ نے موٹروے ہی کیوں نہ بنائی ہو‘ آپ پر جہاز کے اغواء کا مقدمہ بن سکتا ہے‘ آپ کے خلاف گواہ بھی مل سکتے ہیں اور آپ کو اس کیس میں سزا بھی ہو سکتی ہے‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا، آپ اگر سزایافتہ بھی ہیں اور آپ کو عدالت سے (غلط یا صحیح) عمر قید ہو چکی ہے لیکن اگر امریکا‘ برطانیہ یا سعودی عرب کا شاہی خاندان آپ کا دوست ہے تو آپ کے لیے شاہی طیارہ اسلام آباد آ سکتا ہے‘ آپ کو جیل میں پاسپورٹس مل سکتے ہیں اور آپ خاندان سمیت جدہ شفٹ ہو سکتے ہیں۔
مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا اگر انٹرنیشنل کھلاڑی آپ کے ساتھ ہیں تو آپ کو جدہ میں محل مل سکتا ہے اور آپ جدہ میں رہ کر سعودی عرب اور برطانیہ میں کاروبار اور سیاست کر سکتے ہیں‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ اگر لندن میں جائیداد اور کاروبار کے مالک ہیں تو آپ معاہدے کے باوجود سعودی عرب سے لندن شفٹ ہو سکتے ہیں اور آپ اپنے کاروبار اور سیاسی جماعت دونوں کو دوبارہ قدموں پر کھڑا کر سکتے ہیں‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ اگر اقتدار سے فارغ ہو چکے ہیں تو آپ کے قریبی ترین ساتھی آپ کو چھوڑ جائیں گے اور یہ ق لیگ بھی بنائںف گے اور چڑھتے سورج کی پوجا بھی کریں گے‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ اگر انٹرنیشنل کھلاڑیوں اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر پاکستان آئیں گے تو آپ کو ائیر پورٹ سے دھکے دے کر واپس بھجوا دیا جائے گا‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا پاکستان میں سیاسی اختلافات محض کاغذی‘ بیاناتی اور ذاتی ہوتے ہیں اور اگر میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں جلا وطن ہیں تو انھیں ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے‘ میثاق جمہوریت کرتے اور رحمن ملک کے گھر جاتے دیر نہیں لگے گی۔
بارہ اکتوبر کی برکتیں صرف یہاں تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس دن نے یہ بھی ثابت کر دیا اقتدار ہماری سیاست کا سب سے بڑا مقصد ہے اور اگر سیاستدانوں کو اقتدار نظر آ رہا ہو تو یہ فوجی حکمرانوں سے ملاقات کرنے‘ این آر او کرنے اور میثاق جمہوریت توڑنے میں دیر نہیں لگاتے‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ کو اگر سعودی عرب‘ یو اے ای‘ برطانیہ اور امریکا کی آشیر باد حاصل ہو تو آپ دس سال کے معاہدوں کے باوجود ملک مںو واپس آ سکتے ہیں اور آپ دوسری سیاسی جماعتوں سے معاہدہ توڑ کر الیکشن بھی لڑ سکتے ہیں‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ نے اگر یونیفارم اتار دی تو آپ کو دس دس بار یونیفارم میں الیکٹ کرانے کا دعویٰ کرنے والے چند منٹ میں آنکھیں پھیر لیں گے‘ یہ آپ کو ایوان صدر مںن اکیلا چھوڑ دیں گے‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ کو اگر پنجاب میں اقتدار مل رہا ہو تو آپ ان لوٹوں کو بھی قبول کر لیں گے جو پانچ سال تک آپ اور آپ کے خاندان کو گالی دیتے رہے اور جنھیں آپ ننگ سیاست کہتے تھے‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ کو اگر اقتدار مل رہا ہو تو آپ اس زرداری کے بڑے بھائی بن جائیں گے۔
جس کے خلاف آپ نے مقدمے بنائے تھے اور جس نے رحمن ملک کے ذریعے آپ کے والد کو دفتر سے کرسی سمیت اٹھوایا تھا‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ کو اگر اقتدار نظر آ رہا ہو تو آپ اس پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی اتحاد کر لیں گے جس کے مسلح گروپ نے آپ کے والد کو قتل کروایا تھا اور وہ پیپلز پارٹی بھی آپ کو گلے لگا لے گی جس کے چیئرمین کے ڈیتھ وارنٹ کا پین آپ اپنے ڈرائنگ روم میں سجا کر رکھتے تھے‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا پاکستان کے تمام سیاسی اختلافات محض اقتدار کا اختلاف ہیں‘ آپ کو اگر کسی کو گالی دے کر اقتدار ملے گا تو آپ گالی دے دیں گے اور آپ کو اگر اس شخص کو گلے لگا کر اقتدار ملے گا تو آپ اسے گلے لگا لیں گے‘ مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا سیاسی وفاداری ملک میں سب سے بڑی بے وقوفی ہے‘ آپ اگر خواجہ آصف‘ جاوید ہاشمی‘ احسن اقبال‘ مہتاب عباسی‘ شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ سعد رفقا اور اقبال ظفر جھگڑا ہیں تو آپ نادان ہیں۔
آپ گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں اور جس دن میاں نواز شریف واپس آئیں گے آپ اس دن پچھلی سیٹوں پر چلے جائیں گے اور آپ کی جگہ پاکستان مسلم لیگ مشرف کے لوگ بیٹھ جائیں گے‘مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا پاکستان میں اقدار نعرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں اور آپ کو اگر النکشا جیتنے کے لیے ہم خیال‘ امیر مقام‘ خواجہ ہوتی‘ ماروی میمن‘ طارق عظیم‘ سمیرا ملک اور زاہد حامد کو بھی ساتھ ملانا پڑے تو آپ ملا لیں گے‘ مثلاًاس دن نے ثابت کر دیا ہماری سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتیں نہیں ہیں یہ وراثتی زمینیں اور وراثتی فیکٹریاں ہیں‘ یہ ترکے اور وراثت میں خاندانوں میں تقسیم ہوتی ہیں اور خواجہ آصف‘ احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کچھ بھی کر لیں‘ یہ خواہ وفاداری‘ اہلیت اور ایمانداری کی جس بلندی پر چاہیں بیٹھ جائیں پارٹی کی مسند پر بہرحال میاں شہباز شریف‘ حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز شریف ہی بیٹھیں گی اور خورشید شاہ‘ مخدوم امین فہیم اور صفدر عباسی خواہ کتنے ہی وفادار اور اہل کیوں نہ ہو جائیں تاج بہرحال بھٹو خاندان ہی میں رہے گا اور اس دن نے ثابت کر دیا آپ اگر فوج کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے تو آپ اقتدار کے بعد محفوظ بھی رہیں گے‘ مسرور بھی اور مطمئن بھی‘ آپ خواہ لندن میں بیٹھیں‘ دوبئی میں یا پھر نیویارک میں کوئی آپ کا بال تک بیکا نہیں کر سکتا۔
یہ دن یعنی 12 اکتوبر ہماری تاریخ کا وہ دن ہے جس نے قوم کے سارے جھاکے اتار دیے ہیں اور یہ دن اگر نہ ہوتا تو شاید ہمیں اپنے قومی ادراک تک پہنچنے میں مزید پچاس سال لگ جاتے‘ ہم مزید کئی دہائیوں تک غلط فہمیوں کے سمندروں میں ڈبکیاں لگا تے رہتے چنانچہ قوم کو بارہ اکتوبر اور اس کے بعدجنرل پرویز مشرف‘ میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری‘ چوہدری صاحبان اور دوسری سیاسی جماعتوں کی قیادت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ اگر یہ لوگ مہربانی نہ کرتے تو ہم آج بھی غلط فہمی کا شکار رہتے‘ ہم آج بھی کوئوں کے سفید ہونے کاا نتظار کرتے رہتے۔
فوج ضرور آ ئے گی
جاوید چوہدری بدھ 5 دسمبر 2012
گجرات کے این اے 107 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ملک حنیف مضبوط امیدوار تھے‘ یہ بی اے نہ ہونے کی وجہ سے 2008ء کا الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے‘ انھوں نے ہالینڈ سے اپنا بی اے پاس بھتیجا امپورٹ کیا‘ بھتیجے ملک جمیل اعوان نے الیکشن لڑا‘ یہ جیت گیا۔یوں امپورٹیڈ بھتیجا قومی اسمبلی میں حلقے کی نمایندگی کرنے لگا‘ پارٹی کا خیال تھا۔
پانچ سال پورے ہونے کے بعد امپورٹیڈ ایم این اے ہالینڈ واپس چلا جائے گا‘ پاکستان مسلم لیگ ن ملک حنیف کو ٹکٹ دے گی‘ ملک حنیف الیکشن جیتیں گے اور یوں حق دار کو حق مل جائے گا لیکن بدقسمتی سے سپریم کورٹ نے دہری شہریت کے خلاف فیصلہ دے دیا‘ ملک جمیل اعوان اس فیصلے کی زد میں آگئے‘یہ قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوگئے‘ پاکستان مسلم لیگ ن نے ملک حنیف کو ٹکٹ دیا‘ 4 دسمبر کو ضمنی الیکشن ہوا اور چچا نے بھتیجے کی جگہ لے لی۔
آپ اسی طرح پی پی 26 جہلم کی مثال لیجیے‘ یہ حلقہ چوہدری خادم حسین کی اجارہ داری میں ہے‘ یہ بزرگ بھی ہو چکے ہیں‘ بیمار بھی ہیں اور یہ بی اے پاس بھی نہیں ہیں چنانچہ انھوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اپنے بیٹے چوہدری ندیم خادم کو الیکشن لڑا دیا‘ یہ الیکشن جیت گئے‘ یہ بھی دہری شہریت کے ملزم نکلے‘ چوہدری خادم حسین نے بیٹے کی سیٹ پر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور جیت گئے اور جیتنے کے بعد دوبارہ پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے‘ آپ صورتحال ملاحظہ کیجیے‘ 4 دسمبر سے قبل دہری شہریت کا حامل صاحبزادہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر حلقے کا مالک تھا اور 4 دسمبر 2012ء کے بعد والد حلقے میں پاکستان مسلم لیگ ن کا نمایندہ ہو گیا اور یہ نمایندہ اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ ق کا ایم پی اے اور وزیر تھا۔
یہ اگر سلامت نہ رہے یا انھوں نے 2013ء میں سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا تو ان کے برطانیہ پلٹ بھائی چوہدری لال حسین ن لیگ‘ ق لیگ یا پی پی کے ٹکٹ پر ان کی جگہ حلقہ سنبھال لیں گے اور یوں پارٹی آئی‘ پارٹی چلی گئی‘ ایم پی اے آیا‘ ایم پی اے چلا گیا اور اس کی جگہ نیا ایم پی اے آ گیا مگر حلقہ پی پی 26 کے عوام کا مقدر اسی طرح جھاڑیوں میں اٹکا رہا‘ عوام ایک ہی خاندان کے غلام رہے‘ ان کے مقدر کے صرف ندیم‘ خادم اور لال تبدیل ہوئے ان کا چوہدری وہیں قائم رہا اور یہ نوکری‘ انصاف اور آزادی کے لیے ایک ہی ڈیرے کے خادم بنے رہے۔
آپ اب چیچہ وطنی کے حلقہ این اے 162 کی مثال بھی لے لیجیے‘ 2008ء میںچوہدری زاہد اقبال اس حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے‘ ان کی شہریت بھی دہری نکلی‘ انھوں نے استعفیٰ دیا‘ اپنی دوسری شہریت چھوڑ دی‘ پاکستان پیپلز پارٹی نے زاہد اقبال کو دوبارہ ٹکٹ دے دیا‘ زاہد اقبال نے14 اکتوبر 2012ء کو چھلانگ لگائی اور پاکستان مسلم لیگ ن میں چلے گئے‘ ن لیگ نے انھیں ٹکٹ دیا اور زاہد اقبال 4 دسمبر کو ایم این اے منتخب ہو گئے‘ کیا ہم اس تبدیلی کو بھی تبدیلی کہیں گے۔
کیا یہ تبدیلی ہے کہ کل جس مکان پر پاکستان پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہرا رہا تھا آج وہاں پاکستان مسلم لیگ ن کا جھنڈا لگا ہے اور اگر کل ہوا نے رخ بدل لیا تو اس مکان پر پاکستان مسلم لیگ ق کا جھنڈا لگ جائے گا یا پھر کسی نئی جرنیلی پارٹی کا نشان چمکنے لگے گا‘ کیا یہ تبدیلی ہے؟ اور کیا ہم اس طرح بھینسے کے سنگوپں کا رنگ بدل کر اسے ہرن بنا سکتے ہیں ؟کیا آپ اس طرز سیاست کے ساتھ ملک کو بحرانوں سے نکال سکیں گے؟ اور آج اگر ان نمایندوں کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی فیل ہو گئی ہے تو کیا کل میاں نواز شریف بھی اسی انجام کا شکار نہیں ہو جائیں گے؟؟ یہ ضمنی الیکشن قوم کے دماغ میں یہ سلگتے ہوئے سوال چھوڑ گیا۔
آپ ذرا ٹھنڈے دل سے صدر آصف علی زرداری کی مجبوری کا تجزیہ کیجیے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 2008ء میں 124 نشستیں تھیں‘ حکومت بنانے کے لیے انھیں مزید 48 نشستیں درکار تھیں‘ صدر آصف علی زرداری کے پاس اس وقت دو آپشن تھے‘ یہ اپوزیشن میں بیٹھ جاتے اور جنرل پرویز مشرف پاکستان مسلم لیگ ق‘ ایم کیو ایم‘ اے این پی‘ مسلم لیگ فنکشنل‘ فاٹا اور آزاد ارکان کو ملا کر حکومت بنا لیتے‘ اگر کوئی کمی رہ جاتی تو یہ پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر یونی فکیشن یا ہم خیال بلاک بنواتے اور حکومت شروع کر دیتے‘ یہ صوبائی حکومتوں کے لیے نوٹوں کے بکسے بھجواتے اور وہاں بھی ان کی مرضی کی حکومتیں بن جاتیں۔
دوسرا آصف علی زرداری مفاہمتی سیاست کی طرف جاتے‘ یہ سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملاتے‘ جنرل پرویز مشرف کو نکالتے اور ملک کو جیسے تیسے آگے بڑھانے لگتے‘ آصف علی زرداری دوسرے آپشن کی طرف چلے گئے‘ مفاہمت کے اس آپشن کے نتیجے میں ملک میں جمہوریت تو چلتی رہی‘ اسمبلیاں بھی اپنی مدت پوری کر گئیں لیکن ملک کا بیڑا غرق ہو گیا کیونکہ حکومت کا ہر اتحادی اپنی بلیک میلنگ پاور سے واقف تھا اور یہ پانچ سال تک اس پاور کا بھرپور فائدہ اٹھاتا رہا‘ اس نے مرضی کی وزارتیں بھی لیں‘ مرضی کے صدارتی احکامات بھی جاری کروائے‘ مرضی کی پوسٹنگز اور ٹرانسفرز بھی کرائیں اور مرضی کے ترقیاتی فنڈز اور پرمٹ بھی لیے اور اس مرضی کے نتیجے میں حکومت کا ہر اتحادی کھرب پتی ہو گیا مگر ملک بھکاری بن گیا۔
یہ ایک خوفناک صورتحال تھی مگر اس صورتحال کے دو اچھے نتائج نکلے‘ ایک، کمزور جمہوریت کی کوکھ سے جنم لینے والی کمزور ترین اسمبلیاں پانچ سال پورے کر گئیں اور دو‘ فوج بھرپور عوامی مطالبے اور خواہش کے باوجود اقتدار پر قابض نہ ہو سکی لیکن اب سوال یہ ہے‘ کیا یہ ملک اس نوعیت کی ایک اور حکومت افورڈ کر سکتا ہے؟ ملک کے ہر حلقے میں جب کوئی نہ کوئی خادم حسین‘ کوئی نہ کوئی ملک حنیف اعوان اور کوئی نہ کوئی زاہد اقبال بیٹھا ہو اور ہماری سیاسی اخلاقیات کی حالت یہ ہو حنا ربانی کھر پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر منتخب ہوتی ہوں‘ یہ وزیر بنتی ہوں‘ یہ اگلی بار پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن جیتتی ہوں اور دوبارہ وزیر بن جاتی ہوں اور یہ اگر آج پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف ہاتھ بڑھا دیں تو انھیں ن لیگ بھی ٹکٹ دے دے گی اور یہ پاکستان مسلم لیگ ن کی وزیر بھی ہوجائیں گی لہٰذا ملک میں حکومتیں تبدیل ہو رہی ہیں۔
ملک میں ایک کے بعد دوسری پارٹی برسر اقتدار آ رہی ہے لیکن این اے 177 کے عوام کی ’’ بی بی جی‘‘ ایک ہی ہیں‘ یہ نہیں بدل رہیں‘ ہماری حالت یہ ہے انجینئر امیرمقام 2008ء تک پرویز مشرف کے بھائی تھے‘ یہ مئی 2011ء میں پاکستان مسلم لیگ ق کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے‘ انھوں نے وزارت بھی قبول کر لی لیکن مرضی کی وزارت نہ ملنے پر یہ ن لیگ میں شامل ہو گئے اور اب میاں نواز شریف ان کے بھائی ہیں۔ خواجہ محمد ہوتی کل تک اس اے این پی کے رکن تھے جوقیام پاکستان سے پہلے پاکستان مسلم لیگ کی مخالفت میں الیکشن لڑتی آ رہی ہے‘ یہ پھر سونامی میں شامل ہوئے اور یہ اب پاکستان مسلم لیگ ن میں ہیں اور میاں نواز شریف ان کے مشن کو اپنا مشن قرار دے رہے ہیں‘ہماری سیاسی بداخلاقی کا معاملہ یہاں تک محدود نہیں‘ ہماری آج کی پوری سیاسی تاریخ ایسی سیکڑوں مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
چنانچہ اگر ان حالات میں الیکشن ہوتے ہیں تو کیا ہو گا؟ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے اُن اتحادیوں کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آ جائے گی جنہوں نے اسے پچھلے پانچ برسوں میں چلنے نہیں دیا چنانچہ یہ سسٹم چھ ماہ بعد مکمل طور پر بیٹھ جائے گا اور فوج کو آگے آنا پڑ جائے گا اور یوں جمہوریت ایک بار پھر دس سال پیچھے چلی جائے گی اور میاں نواز شریف تھوڑی سی زیادہ نشستوں کے ساتھ کامیاب ہو جائیں گے اور یہ بھی صدر آصف علی زرداری کی طرح ایم کیو ایم‘ اے این پی‘ جے یو آئی‘ جماعت اسلامی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے ساتھ حکومت بنانے پر مجبور ہو جائیں گے اور یوں ان کا حشر بھی وہی ہو گا جو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کا ہوا‘ ملک چھ ماہ بعد اس بند گلی میں آ جائے گا جہاں فوج مداخلت پر مجبور ہو جائے گی چنانچہ پیپلز پارٹی حکومت بنائے یا ن لیگ ان الیکشنوں کا نتیجہ فوجی مداخلت کی شکل ہی میں نکلے گا‘ ہمارے پاس اس صورتحال سے بچنے کا کیا طریقہ ہے؟
اس کا واحد طریقہ لمبی کیئر ٹیکر یا ٹیکنوکریٹس کی حکومت ہے‘ سیاسی جماعتوں کو چاہیے یہ خود ہی ایسی حکومت بنا لیں‘ یہ نہیں بناتے تو سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن بنائے‘ یہ حکومت سسٹم کو کلین کرے‘ سیاستدان اس دوران اپنی صفیں درست کر لیں‘ یہ صدارتی نظام پر اتفاق کر لیں یا نئی حلقہ بندیاں کر لیں‘ حلقوں سے اجارہ داریاں توڑ دیں‘ سیاسی لوٹوں کو جماعتوں سے نکال دیں اور یہ فیصلہ کر لیں پارٹیوں میں وراثتی سیاست نہیں ہو گی‘ باپ کی جگہ بیٹا اور بیٹے کی جگہ بھتیجا تخت پر نہیں بیٹھے گا‘ اہل ہی کو اقتدار ملے گا‘ یہ لوگ اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر قوم فوجی مداخلت سے پاک ملک کے خواب دیکھنا بند کر دے‘ پھر فوج ضرور آئے گی اور اگر نہ آئی تو ملک میں انارکی آئے گی اور یہ انارکی ملک کو روانڈا بنا دے گی۔
جمہوریت ۔ حل صدارتی نظام
جاوید چوہدری پير 3 دسمبر 2012
میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ پارٹی کے قائد ہیں‘ پارٹی آپ کے نام سے منسوب ہے‘ آپ اگر خدانخواستہ کل انتقال کر جائیں تو پارٹی کا کون سا شخص آپ کی جگہ لے سکے گا‘‘ انھوں نے چند لمحے سوچا اور اس کے بعد خاندان کے چند لوگوں کے نام دہرا دیے‘ میں نے خاندان کے ان لوگوں کی کمزوریاں ان کے سامنے رکھ دیں‘ وہ خاموشی سے سنتے رہے اور آخر میں بولے ’’ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ قیادت کا بہتر فیصلہ کرے گا‘‘ میں نے عرض کیا ’’گویا آپ کے پاس اپنی کوئی ری پلیس منٹ نہیں‘‘ وہ خاموش رہے‘ میں نے عرض کیا ’’جناب جو شخص 30 سال کی قیادت میں اپنی ری پلیس منٹ تیار نہیں کر سکا‘ وہ پوری قوم کیسے تیار کرے گا‘‘ وہ یہ سن کر ناراض ہو گئے۔
ان کی ناراضی اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک ایک شخص کے ناتواں کندھوں پر قائم ہیں‘ آج اگر صدر آصف علی زرداری یا بلاول بھٹو زرداری دنیا میں نہیں رہتے‘ آج میاں نواز شریف‘ چوہدری شجاعت حسین‘ اسفند یار ولی‘ مولانا فضل الرحمن‘ الطاف حسین اور عمران خان دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ہی ان کی سیاسی جماعت بھی دفن ہو جائے گی کیونکہ بدقسمتی سے کسی پارٹی میں کسی قائد کی ری پلیس منٹ موجود نہیں چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے جو پارٹی اپنے لیے قائدین کا بندوبست نہیں کر سکی وہ پارٹی ملک کے اٹھارہ کروڑ لوگوں کے لیے وسائل کہاں سے پیدا کرے گی‘ میاں نواز شریف اس بدقسمتی کی سب سے بڑی مثال ہیں‘ یہ 2007ء میں اقتدار کے بجائے اقدار کی سیاست کا نعرہ لگا کر پاکستان آئے‘ مجھ سمیت اس ملک کی اکثریت نے ان کا ساتھ دیا لیکن پھر میاں صاحب کی اقدار کا قلعہ آہستہ آہستہ گرنے لگا‘ میاں صاحب نے پنجاب کا اقتدار بچانے کے لیے پہلے پاکستان مسلم لیگ ق کے ان ایم پی ایز کو اپنا لیا جو 2007ء میں جنرل پرویز مشرف کو نو بار وردی میں صدر منتخب کرانا چاہتے تھے اور جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں صدر پرویز مشرف اور ان کی وردی کے حق میں باقاعدہ قرارداد پاس کی تھی‘ پاکستان مسلم لیگ ن کی آشیر باد پر ان بھگوڑوں کا یونی فکیشن گروپ بنا۔
اس نے میاں شہباز شریف کی حمایت کی اور اس کے بدلے ان لوگوں کے حلقوں میں ان کی مرضی کے ڈی سی اوز‘ ڈی پی اوز اورتحصیلدار تعینات ہونے لگے اور انھیں خاموش کرپشن کی اجازت بھی مل گئی‘ میاں صاحب نے اس کے بعد چوہدری نثار اور میاں شہباز شریف کو ’’ برے سپاہی‘‘ کا رول دے دیا‘ یہ دونوں صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو علی بابا چالیس چور بھی کہتے تھے‘ یہ زرداری کو صدر نہ ماننے کے نعرے بھی لگاتے تھے‘ یہ پارلیمنٹ سے واک آئوٹ بھی کرتے تھے اور یہ حکومت کی تمام ترامیم کی حمایت بھی کرتے تھے جب کہ میاں نواز شریف صدر زرداری کی خاموش حمایت کرتے رہے اور یوں اس کرپٹ دور نے جمہوریت کے نام پر پانچ سال پورے کر لیے ‘ میاں نواز شریف نے اس کے بعد ہم خیال اور پرویز مشرف کے ’’ اچھے ساتھیوں‘‘ کے لیے اپنے دروازے کھول دیے‘ آج حالت یہ ہے جنرل پرویز مشرف کے وزراء ایک ایک کر کے پاکستان مسلم لیگ ن جوائن کر رہے ہیں۔
وزارت عظمیٰ کے دائمی امیدوار ہمایوں اختر پاکستان مسلم لیگ ن کے منشور اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں اور میاں نواز شریف خواجہ محمد ہوتی کو ن لیگ میں شامل کر کے یہ اعلان کر رہے ہیں خواجہ ہوتی کا مشن میرا اصل مشن ہے اور ساتھ ہی میاں صاحب یہ اعتراض بھی کرتے ہیں لوگ ان کی اقدار کی سیاست کی تعریف کیوں نہیں کر رہے‘ میں جب بھی پاکستان مسلم لیگ ن کی یہ حالت دیکھتا ہوں تومیرے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ جو کچھ میاں نواز شریف اب کر رہے ہیں ‘یہی کرنا تھا تو یہ 2008میں ہی کر گزرتے توملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔وہ 2008ء میں پوری ق لیگ کو گود لے لیتے تو انھیں ایک ایک کر کے اس گندکو جھولی میں ڈالنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ ایسا ہو کیوں رہا ہے؟ اس کی وجہ بہت سیدھی ہے‘پاکستان میں میاں نواز شریف ہوں‘ آصف علی زرداری ہوں یا پھر عمران خان یہ اس وقت تک اقتدار میں نہیں پہنچ سکتے جب تک ان کے پاس تگڑے امیدوار نہیں ہوں گے اور تگڑے امیدوار اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر کریکٹر لیس لوگ ہیں‘ یہ ان پڑھ بھی ہیں‘ جاہل بھی‘ کرپٹ بھی‘ ظالم بھی‘ دھڑے باز بھی اور برادری ازم کا شکار بھی۔ ہمارے ملک کی حالت یہ ہے گوجروں کے حلقے سے آرائیں نہیں جیت سکتا‘ آرائیوں کے حلقوں سے جاٹ اور راجپوت نہیں جیت سکتا اور شیعہ اکثریت سنی کو ووٹ نہیں دیتی اور سنی کسی شیعہ امیدوار کو تسلیم نہیں کرتے‘ عوام آج بھی ڈنڈے کی زبان سمجھتے ہیں چنانچہ انھیں ایسا ایم پی اے اور ایم این اے چاہیے ہوتا ہے جس کا ڈنڈہ مضبوط ہو چنانچہ آج پارٹیاں برادریوں‘ فرقوں اور دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہیں‘ آپ حد ملاحظہ کیجیے پاکستان پیپلزپارٹی سندھیوں کی جماعت ہو چکی ہے‘ ن لیگ کشمیریوں کی جماعت بن چکی ہے‘ ق لیگ جاٹوں کی جماعت ہے‘ ایم کیو ایم کراچی اور حیدرآباد کے مہاجروں کی جماعت ہے‘ جے یو آئی مولویوں کی جماعت بن چکی ہے۔
جماعت اسلامی مولانا مودودی کے ماننے والوں کی جماعت ہے اور عمران خان ملک کے نوجوانوں اور پڑھے لکھے بے اثر لوگوں کے لیڈر ہیں‘ یہ جماعتیں ’’تگڑے‘‘ امیدواروں کے ذریعے الیکشن لڑتی ہیں‘ الیکشن میں اکثریت حاصل نہیں کر پاتیں تو انھیں اتحاد بنانا پڑتا ہے اور یہ سیاسی اتحاد کرپشن‘ لوٹ کھسوٹ‘ اقرباء پروری‘ بیڈ گورننس اور بدمعاشی کا بہت بڑا کمپرومائز ہوتا ہے‘ آپ آج چاہیں بھی تو کراچی کے حالات ٹھیک نہیں کر سکتے‘ آپ کالاباغ ڈیم نہیں بنا سکتے‘ آپ ریلوے اور پی آئی اے بھی ٹھیک نہیں کر سکتے کیونکہ ان ایشوز پر آپ کے اتحادی بٹھے ہیں اور یہ اتحادی اداروں میں ریفارمز نہیں چاہتے چنانچہ آصف علی زرداری ہوں یا میاں نواز شریف ہوںیہ دونوں ’’ ہیلپ لیس‘‘ ہیں اور آپ ان کی جگہ کوئی فرشتہ بٹھا دیں گے تو وہ بھی چھ ماہ میں ناکام ہو جائے گا ‘ میچ جیتنے کے لیے صرف اچھا کپتان ضروری نہیں ہوتا‘ ٹیم بھی درکار ہوتی ہے اور سیاسی جماعتوں کی ٹیمیں ایسے نااہل‘ ان پڑھ‘ جاہل اور کرپٹ امیدواروں پرمشتمل ہیں جو اپنی تمام تر کرپشن اور نالائقی کے باوجود الیکشن جیت سکتے ہیں اور سسٹم کی یہ جلی سڑی اینٹیں ملک کے ماتھے پر لگائی جاتی ہیں اور یہ ماتھا بعد ازاں پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بنتا ہے۔
ہم اب آتے ہیں اس کے حل کی طرف‘ پاکستان کو بچانے کااب واحد دستوری طریقہ صدارتی نظام ہے‘ ملک کو پارلیمانی سے صدارتی نظام پرشفٹ کر دینا چاہیے‘ پاکستان میں آئین بے شک یہی رہے لیکن حکومت سازی کے تمام اختیارات وزیراعظم سے صدر کو منتقل کر دیے جائیں‘ قوم امریکا کی طرح صدر اور نائب صدر کو براہ راست یا ایم پی اے اور ایم این اے کے ذریعے منتخب کرے اور صدر ملک کے کسی بھی شخص کو وزیر یا مشیر بنا سکے‘ ملک کا سارا تر ترقیاتی بجٹ یونین کونسلز کے حوالے کر دیا جائے اور صدر ایم پی اے اور ایم این اے کی کوئی درخواست قبول نہ کرے‘ مجھے یقین ہے ملک بحرانوں سے نکل جائے گا کیونکہ صدر کابینہ کے لیے بہترین لوگوں کا انتخاب کر سکے گا‘ ایم این اے اور ایم پی اے کی مناپلی ٹوٹ جائے گی‘ ترقیاتی بجٹ اور نوکریاں سیاستدان کے ہاتھ سے نکل کر اداروں کے پاس چلی جائیں گی اور یوں مفاد پرست لوگوں کے لیے الیکشن میں کوئی کشش نہیں رہے گی۔
یہ لوگ الیکشن نہیں لڑیں گے چنانچہ ان کی جگہ پڑھے لکھے اور ایماندار لوگ آگے آجائیں گے اور ملک ترقی کی پٹڑی پر آ جائے گا‘ پاکستان کی فلاح بہرحال صدارتی نظام میں چھپی ہے اور ہمیں جلد یا بدیر اس نظام پر جانا ہو گا‘ میری تجویز ہے یہ حکومت پانچ سال پورے کر لے تو کیئر ٹیکر حکومت بنائی جائے‘ یہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت ہو‘ یہ دو سے تین سال اقتدار میں رہے‘ یہ ملک میں کڑا احتساب کرے‘ اداروں کی بحالی کے لیے کام کرے‘ ملکی معیشت‘ لاء اینڈ آرڈر اور ملک کا بین الاقوامی امیج ٹھیک کرے‘ ملک کو پارلیمانی سے صدارتی نظام پر لائے‘ پارٹیوں کے اندر جمہوریت لائے اور دو سے تین سال بعد الیکشن کرا دے‘ اس سے ملک بچ جائے گا ورنہ دوسری صورت میں یہ الیکشن ملک کو برباد کر دیں گے کیونکہ ان الیکشنوں میں کوئی جماعت سنگل میجارٹی حاصل نہیں کر سکے گی‘ الیکشن کے بعد گدھوں اور گھوڑوں کی بولی شروع ہو جائے گی اور یہ بولی ملک کو تباہ کر دے گی ہمارے اگلے الیکشن ملک کو بریک یا میک پر لے جائیں گے اور مجھے خطرہ ہے تباہی کا یہ ہار کہیں میاں نواز شریف کے گلے نہ پڑ جائے‘ یہ کہیںتاریخ کے بیلنے میں نہ آ جائیں۔
چیری کے پتوں پر ٹھہری زندگی
جاوید چوہدری ہفتہ 1 دسمبر 2012
آخری سانس سے قبل اس نے کھڑکیوں کے پردے ہٹانے کا حکم دیا‘ کمرہ اس کے شاگردوں سے بھرا ہوا تھا‘ ان میں میڈیکل پروفیسر بھی تھے‘ ڈاکٹر بھی‘ جونیئر کلرک بھی اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے لوگ بھی۔ یہ سب جوزف کے چاہنے والے تھے اور یہ تمام لوگ اس کی زندگی کے آخری لمحات میں اس کے بیڈ کے پاس رہنا چاہتے تھے‘ یہ چاہتے تھے پروفیسر آخری بار آنکھ کھولے تو ان کی عقیدت اس کی مرتی ہوئی‘ بجھتی ہوئی پتلیوں میں ٹھہر جائے اور وہ ان کے چہرے ساتھ لے کر دنیا سے رخصت ہو لیکن اس نے عین وقت پر کھڑکیوں کے پردے ہٹانے کا حکم دے دیا‘ درجنوں قدم کھڑکیوں کی طرف دوڑے اور اس سے کہیں زیادہ ہاتھ پردوں تک پہنچ گئے‘ کمرے میں پردوں کی ریلنگ کی چرر کی آواز آئی اور کھڑکیوں کے پٹوں پر دھری روشنی نے کمرے میں پھیلی موت کے چہرے پر چھلانگ لگا دی‘ کھڑکی سے باہر تاحد نظر چیری کے درخت تھے اور ان درختوں کی ٹہنیوںپر نومبر کی سرد راتوں کا کہرا لٹک رہا تھا اور دور افق پر روشنی کی لکیر دستک دے رہی تھی اورموت اس کے فالج زدہ جسم میں آہستہ آہستہ سرائیت کر رہی تھی‘ موت کا یہ تجربہ اس کی زندگی کی آخری ’’میڈیکل ریڈنگ‘‘ تھی‘ اس نے محسوس کیا موت فالج زدہ جسم کے جس جس حصے سے گزرتی ہے اس میں چنگاریاں سی بھر جاتی ہیں‘ یوں لگتا ہے جیسے کسی نے نوکیلی تار نیم خوابیدہ گوشت میں اتار دی ہو اور پھر ایک جھٹکے سے اس تار کو کھینچ لیا گیاہو‘ وہ اپنے اسٹوڈنٹس کو اپنی آخری میڈیکل ریڈنگ بتانا چاہتا تھا لیکن اس کی زبان اس کے تالو کے ساتھ چپک گئی‘ اس نے محسوس کیا زندگی کے آخری لمحے میں انسان کی زبان بے جان لوتھڑا بن کر تالو کے ساتھ چپک جاتی ہے اور انسان کو اللہ کو یاد کرنے‘ کلمہ پڑھنے یا وصیت کرنے کا موقع بھی نہیں ملتا‘ اس نے کمرے پر آخری نظر دوڑائی‘ اس کے تمام جونیئر وہاں موجود تھے اور ان جونیئرز کے پیچھے دیوار پر سرخ رنگ کا چھوٹا سا کلاک لگا تھا اور کلاک کی سوئیاں ایک دوسرے کے پیچھے سرپٹ دوڑ رہی تھیں‘ اس نے کلاک پر نظریں جما دیں‘ کلاک چمکا‘ ڈی فوکس ہوا‘ بجھا‘ پھر چمکا‘ پھر ڈی فوکس ہوا‘ پھر بجھا اور پھر کلاک اور اس کی نظروں کے درمیان دھند کی گہری چادر تن گئی‘ اس نے آخری سانس لیا اور کمرے میں مشینوں کی ٹی ٹی‘ سی سی کی آوازیں گونجنے لگیں‘ پروفیسر ڈاکٹر جوزف مرے انتقال کر چکا تھا۔
ہم اگر پاپانیوگنی سے نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا سے الاسکا اور سائبریا سے لے کر مراکش تک دنیا کے تمام محسنوں کی فہرست بنائیں تو پروفیسر جوزف مرے کا نام اس فہرست کے ابتدائی دس ناموں میں آئے گا‘ دنیا کی میڈیکل ہسٹری نے آج تک صرف 350 ایسے لوگ پیدا کیے ہیں جنھیں یہ سائنس انسانیت کا محسن سمجھتی ہے‘ پروفیسر جوزف مرے ان 350 لوگوں میں شامل تھا‘ یہ دنیا کا پہلا ڈاکٹر تھا جس نے انسانی گردہ ٹرانسپلانٹ کیا‘ دنیا کو جس نے بتایااگر کوئی زندہ انسان کسی دوسرے کو گردہ عطیہ کر دے تو وہ بچ سکتا ہے‘ پروفیسر جوزف مرے کی اس ریسرچ سے قبل دنیا میں جس شخص کے گردے فیل ہو جاتے تھے موت اس کامقدر بن جاتی تھی لیکن جوزف مرے نے ان لوگوں کو زندگی کا راستہ دکھا دیا‘ اس نے دنیا کو پیوند کاری کی سائنس عنایت کر دی جس کے بعد اب انسانی جسم کے ساٹھ فیصد اعضاء تبدیل کیے جا سکتے ہیں یا انھیں دوبارہ بحال کاے جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر جوزف مرے 1919ء میں میسا چوسٹس کے علاقے ملفورڈ میں پیدا ہوا‘ یہ جسامت کے لحاظ سے اسپورٹس مین تھا‘ یہ بچپن میں اتھلیٹ بن گیا‘ پھر آئس ہاکی کھیلی‘ پھرفٹ بال اور آخر میںبیس بال کا کھلاڑی بن گیا‘ پھر فلسفے اور انگریزی لٹریچر کی طرف چلا گیا‘ 1940ء میں انگلش لٹریچر اور فلسفے میں ڈگری لی پھر اچانک احساس ہوا دنیا میں انسانی جسم سے بڑا کوئی ماسٹر پیس نہیں‘ انسان کا بدن فلسفہ بھی ہے اور لٹریچر بھی چنانچہ اس نے ہاورڈ میڈیکل اسکول میں داخلہ لے لیااور دنیا کا محسن بن گیا۔ سات براعظموں پر پھیلی اس دناں کے چند محسن ہیں۔
ہم آج اپنے گھروں میں آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم ایک گولی‘ ایک کیپسول یا ایک انجکشن سے اپنا علاج کر لیتے ہیں‘ ہمارے گھر سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے ہوتے ہیں‘ ہم ہزاروں میل کا سفر چند گھنٹوں میں اور سیکڑوں میل لمبے فاصلے آرام دہ سیٹ یا ڈائیننگ ٹبلچ پر بیٹھ کر طے کر لیتے ہیں‘ دنیا کے ساڑھے چھ ارب لوگوں کو صبح کے وقت ناشتا‘ دوپہر کے وقت لنچ اور رات کے وقت ڈنر ملتا ہے‘ ہم سب روزانہ گندم کھاتے ہیں‘ روز گوشت یا مرغی کھاتے ہیں‘ ہمیں سبزیاں اور دالیں ملتی ہیں اور ہمیں صاف پانی‘ تازہ جوس‘ چائے‘ کافی اور دودھ ملتا ہے‘ یہ ساری نعمتیں دنیا کے چند لوگوں کی مہربانی ہے‘ اللہ تعالیٰ اگر ان لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہ ڈالتا‘ یہ لوگ آئیڈیا کو حکم الٰہی نہ سمجھتے اور یہ اپنی زندگیاں ہماری زندگی کو آسان بنانے میں نہ لگاتے تو ہم آج خوراک کی کمی‘ بیماری‘ سردی‘ گرمی اور حادثوں میں مر گئے ہوتے‘ یہ لوگ دنیا کے اجتماعی محسن ہیں اور ہم سب کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے‘ مثلاً کیلیفورنیا کا وہ گمنام شخص ہم سب کا محسن ہے جس نے 1956ء میں پہلی برائلر مرغی بنائی تھی‘آج ہم اگر انڈے اور مرغیاں کھا رہے ہیں تو یہ اس گمنام شخص کی مہربانی ہے‘ اگر وہ یہ مہربانی نہ کرتا تو آج انڈہ اور مرغی صرف امیروں کے دسترخوانوں تک محدود ہوتی۔ مثلاً میکسیکو کا وہ زرعی ماہر ہم سب کا محسن ہے جس نے 1960ء میں گندم کا وہ بیج بنایا جس نے گندم کی پیداوار میں چھ گنا اضافہ کر دیا‘ وہ اگر مہربانی نہ کرتا تو آج پاکستان میں ’’میکسی پاک‘‘ گندم نہ ہوتی اور ہم قحط کا شکار ہو گئے ہوتے۔ اسی طرح جزام‘ چیچک‘ طاعون‘ ملیریا‘ ٹی بی‘ پولیو‘ ہیپاٹائٹس اور کینسر کی ویکسین بنانے والے پوری دنیا کے محسن ہیں‘ کمپیوٹر ایجاد کرنے‘ گوگل بنانے اور گاڑیاں‘ ہوائی جہاز اور دنیا کو ٹچ اسکرین کا تحفہ دینے والے لوگ ہمارے اجتماعی محسن ہیں‘ یہ اگر نہ ہوتے‘ یہ اگر محنت نہ کرتے تو ہم آج اتنی آرام دہ اور آسان زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔
پروفیسر جوزف مرے بھی ان لوگوں میں شامل تھا‘ اس نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی‘ پلاسٹک سرجری کے شعبے میں گیا‘ ویلی فورج جنرل اسپتال پنسلوانیا سے وابستہ ہوا‘ دوسری جنگ عظیم کے دوران زخمی فوجیوں کے ہاتھوں اور چہروں کی پلاسٹک سرجری کی‘ اسی دوران اسے معلوم ہوا دنیا کے زیادہ تر لوگوں کے خوف‘ حادثے‘ پریشانی اور وائرس کی وجہ سے گردے فیل ہو جاتے ہیں اور اگر انسان گردے سے محروم ہو جائے تو موت اس کا مقدر بن جاتی ہے‘ اس نے اپنی زندگی انسانی گردوں کے لیے وقف کر دی۔ پروفیسر جوزف مرے نے تحقیق کی تو پتہ چلا اگر انسان اپنا ایک گردہ کسی دوسرے کو عطیہ کر دے تو بھی یہ آرام سے زندگی گزار سکتا ہے‘ اس نے گردوں کو ٹرانسپلانٹ کرنے کا طریقہ ایجاد کر لیا‘ 1954ء میں اس کے پاس گردے کا ایک مریض آیا‘ اس کا جڑواں بھائی اسے گردہ دینے کے لیے تیار تھا‘ ڈاکٹر جوزف مرے نے 23 دسمبر1954ء کو دونوں بھائیوں کا آپریشن کیا‘ آپریشن کامیاب ہوگیا اور یوں دنیا میں آرگن ٹرانسپلانٹ کی سائنس کا آغاز ہوگیا۔ ڈاکٹر جوزف مرے نے 1959ء میں انسانی خلیوں‘ ٹشوز اور جسم کے دیگر اعضاء کی ٹرانسپلانٹ شروع کی‘ اس نے 1962ء میں دنیا کا پہلا’’ CADAVERIC RENAL‘‘ ٹرانسپلانٹ کیا اور یہ اس کے ساتھ ہی ٹرانسپلانٹیشن بائیالوجی سائنس کا عالمی لیڈر بن گیا‘ اس نے 1965ء میں دنیا بھر کے فزیشنز اور سرجنز کو ٹرانسپلانٹیشن کی ٹریننگ دینا شروع کر دی اور یوں پوری دنیا میں آرگن ٹرانسپلانٹ شروع ہو گیا۔ آج دنیا میں جس جگہ کسی انسان کا کوئی عضو ٹرانسپلانٹ ہوتا ہے اس کا ثواب براہ راست ڈاکٹر جوزف مرے کے کھاتے میں درج ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر جوزف مرے کو 1990ء میں نوبل انعام ملا لیکن میڈیکل سائنس اسے 1960ء ہی میں دنیا کا عظیم ترین سرجن تسلیم کر چکی تھی‘ ڈاکٹر جوزف 1986ء میں ہاورڈ میڈیکل اسکول سے ریٹائر ہوا اوراس نے باقی زندگی انسانی فلاح‘ انسانی صحت اور ٹرانسپلانٹ سائنس کی ترقی اور ترویج پر لگا دی۔ یہ 26نومبر 2012ء کو 93سال کی عمر میں ایک بھرپور ہنگامہ خیز اور شاندار زندگی گزار کر انتقال کر گیا‘ اس نے زندگی کی آخری سانس بوسٹن کے اس برگھم اسپتال میں لی جس میں اس نے 1954ء میں پہلا ٹرانسپلانٹ کیا تھا۔ ڈاکٹر جوزف مر گیا لیکن اس کی تخلیق کردہ سائنس کبھی نہیں مرے گی ‘دنیا کے کسی بھی کونے میں جب بھی کسی انسان کو کوئی عضو لگایا جائے گا ڈاکٹر جوزف مرے اس انسان کی سانس‘ اس انسان کے خون کی دھڑکن میں زندہ ہوجائے گا اور یہ دنان کے ہر اس ڈاکٹر کی سانسوں‘ انگلیوں‘ آنکھوں اور دماغ میں زندہ رہے گا جو کسی انسان کا کوئی عضو ٹرانسپلانٹ کرے گا۔
ڈاکٹر جوزف مرے کی لاش دفن کر دی گئی لیکن اس کے کمرے کی کھڑکی کے پردے ابھی تک کھلے ہیں اور پٹوں پر رکی ہوئی روشنی ابھی تک کمرے کے ٹھنڈے بدن پر اتر رہی ہے اور چیری کے پتوں پر سرد راتوں کا کہرا بھی اسی طرح نازل ہو رہا ہے اور جب تک یہ کہرا نازل ہوتارہے گا اور پٹوں پر دھری روشنی کمروں میں اترتی رہے گی اس وقت تک ڈاکٹر جوزف مرے جیسے لوگ زندہ رہیں گے کیونکہ موت کبھی زندگی کے محسنوں کو نہیں مار سکتی ۔

صحت اور انصاف ۔ حل
جاوید چوہدری جمعـء 30 نومبر 2012
صحت اور انصاف بھی ہمارے مسئلے ہیں‘ دنیا دس ہزار سال کی تحریری تاریخ میں اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے معاشرے میں جب تک انصاف نہیں ہو تا اور لوگ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے صحت مند نہیں ہوتے ملک اور معاشروں میں اس وقت تک استحکام نہیں آ تا مگر ہمارے ملک میںبدقسمتی سے یہ دونوں شعبے زوال پذیر ہیں‘ سرکاری اسپتالوں‘ شفاخانوں اور ڈسپنسریوں کی یہ حالت ہے راولپنڈی کے ہولی فیملی اسپتال میں چند دن قبل دو نومولود بچوں کو چوہے کاٹ گئے‘ اس حادثے میں ایک بچہ جاں بحق ہو گیا جب کہ دوسرا شدید زخمی ہے‘ لاہور میں 25 افراد کھانسی کا شربت پینے سے جاں بحق ہو گئے جب کہ جنوری 2012ء میں لاہور میں دل کے 100 سے زائد مریض دوائی میں ملاوٹ کی وجہ سے ہلاک ہو گئے ‘ پاکستان میں آخری ڈرگ ریگولیٹری ایکٹ 1976ء میں پاس ہوا تھا اور یہ اب 36 سال بعد ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی ان تھک محنت کے بعد دوبارہ پاس ہوا۔
آج بھی ملک کے 1206 لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر ‘1665 مریضوں کے لیے اسپتال کا ایک بیڈ اور 1667 لوگوں کے لیے ایک نرس دستیاب ہے‘ سرکاری اسپتالوں میں کاکروچ‘ چھپکلیاں‘ چوہے اور بلیاں عام پھرتی ہیں‘ ملک میں جعلی ڈاکٹروں کی بھرمار ہے‘ ملک میں ہومیو پیتھک ڈاکٹروں اور حکیموں کے نام پر ہزاروں قصاب پھر رہے ہیں اور ملک میں عام چاقو سے بچے پیدا کر دیئے جاتے ہیں اور آنکھوں کے آپریشن ہو جاتے ہیں‘ صحت کا بجٹ آج بھی جی ڈی پی کا 0.27 فیصد ہے اور پنجاب جیسا دس کروڑ لوگوں کا صوبہ پونے پانچ سال سے وزیر صحت کے بغیر چل رہا ہے اور مریض اسلام آباد کے سب سے بڑے اسپتال پی آئی ایم ایس کے کوریڈورز اور لانوں میں پڑے ہوتے ہیں اور یہ صورتحال اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم اس مسئلے کی سنگینی کو نہیں سمجھیں گے۔
ہمارے پاس اس مسئلے کے تین چار حل ہو سکتے ہیں‘ پہلا حل‘ حکومت اسپتال‘ ڈسپنسریاں اور بی ایچ یو چلانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے چنانچہ صحت کو مکمل طور پر پرائیوٹائز کر دیا جائے‘ سرکاری اسپتالوں کو پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کر دیا جائے‘ یہ کمپنیاں اسپتال بنائیں اور چلائیں‘ ملک بھر کے ڈاکٹرز اور ان کے کلینکس کے لیے ایک باڈی بنا دی جائے‘ یہ باڈی جب تک تحریری اجازت نہ دے کوئی ڈاکٹر اس وقت تک پرائیویٹ پریکٹس نہ کر سکے‘ یہ باڈی ڈاکٹروں کی تعلیم‘ تجربے اور مہارت کو دیکھ کر ان کا فیس پیکیج تیار کرے‘ یہ ہوٹلز کی طرح کلینکس کا معیار بھی طے کرے اور کڑی چھان بین کے بعد انھیں ون اسٹار‘ ٹو اسٹار‘ تھری اسٹار‘ فور اسٹار اور فائیو اسٹار کے درجوں میں تقسیم کرے‘ یہ کلینکس ان اسٹارز کے مطابق کمروں‘ آپریشن تھیٹرز‘ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹروں کی فیس چارج کریں‘ یہ باڈی پرائیویٹ نرسز‘ وارڈ بوائز اور لیبارٹری ٹیکنیشنز کا معیار اور کوالیفکیشن بھی طے کرے‘ میڈیکل باڈی کے رولز ’’فکس‘‘ ہوں اور کوئی شخص ان رولز میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کر سکے‘ میڈیکل لیبارٹریز کے لیے بھی معیار طے ہوں۔
انھیں بھی ون سے لے کر فائیو اسٹار تک کیٹگریز میں تقسیم کیا جائے اور ان کے نرخ بھی ان کیٹگریز کے مطابق طے کیے جائیں‘ ان اقدامات کے بعد ملک کے ہر شہری کی ہیلتھ انشورنس کر دی جائے‘ ملک کا ہر وہ شہری جس کے پاس شناختی کارڈ ہے یا جو بی فارم میں شامل ہے اس کی ہتھر انشورنس لازم ہو ‘ پاکستان کا کوئی بچہ اس وقت تک اسکول میں داخل نہ ہو سکے‘ یہ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک امتحان نہ دے سکے‘ یہ اس وقت تک شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ‘ ڈرائیونگ لائسنس اور بینک اکائونٹ کی سہولت حاصل نہ کر سکے جب تک اس کی ہیلتھ انشورنس نہیں ہو جاتی‘ ملک کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ ادارے بھی اپنے ملازمین کی ہیلتھ انشورنس کے ذمے دار ہوں اور یہ ادارے جب تک بینکوں کو انشورنس سر ٹیفکیٹ نہ دے دیں بینک ان کے ملازمین کو تنخواہ ٹرانسفر نہ کریں‘ یہ ہیلتھ انشورنس آگے چل کر ملک کے ہر شہری کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرے گی۔
یہ لوگ اضافی رقم کے بغیر پرائیویٹ کلینکس اور اسپتالوں میں اپنا علاج کرا سکیں گے‘ حکومت بڑی آسانی سے ادویات ساز اداروں کا معیار بھی بڑھا سکتی ہے‘ ملک کی تمام ادویات ساز کمپنیاں دوا سازی کے لیے لیبارٹریاں بناتی ہیں‘ ان کے بجٹ کا ستر اسی فیصد حصہ ان لیبارٹریوں پر خرچ ہو جاتا ہے ‘اگر چاروں صوبوں کی حکومتیں سرکاری سطح پر انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کی لیبارٹریاں بنا دیں اور فارماسوٹیکل انڈسٹری ان لیبارٹریوں سے فائدہ اٹھا لے تو حکومت اور فارما سوٹیکل انڈسٹری دونوں کو فائدہ ہو گا‘ ادویات کی کوالٹی کا ایشو بھی حل ہو جائے گا اور حکومت بھی معیار پر نظر رکھ سکے گی۔
انصاف کا مسئلہ بھی اسی طرح حل کیا جا سکتا ہے‘ ملک میں خاندانی لڑائیاں یا شخصی انا‘ پولیس کی غلط رپورٹنگ‘ وکلاء کے تاخیری حربے اور عدالتوں کی کمی یہ چار وجوہات ہیں جن سے انصاف کا عمل متاثر ہو رہا ہے لیکن ہم بڑی آسانی سے یہ چاروں مسئلے حل کر سکتے ہیں‘ حکومت ملک کے تمام علاقوں میں ثالثی عدالتیں بنا دے‘ یہ علاقے کے معزز لوگوں پر مشتمل ہوں اور پولیس باہمی جھگڑوں کے تمام مقدمے ان کے حوالے کر دے‘ یہ لوگ دونوں فریقین کو سنیں اور ان کے درمیان صلح کروا دیں‘ قوانین میں تبدیلی کی جائے ‘ قانون میں سے شک کی بنیاد پر گرفتاری کی تمام دفعات نکال دی جائیں‘ پولیس کے اندر لاء برانچ بنائی جائے‘ اس برانچ میں وکلاء بھرتی کیے جائیں‘ یہ برانچ مقدمات اور ملزمان کو عدالت میں پیش کرنے کی ذمے دار ہو تا کہ عام پولیس کچہری کے عمل سے باہر ہو جائے اور یہ صرف لاء اینڈ آرڈر اور تفتیش پر توجہ دے سکے‘ عدالت جس مقدمے میں ملزمان کو بری کر دے پولیس ڈیپارٹمنٹ وہ مقدمات بنانے اور تفتیش کرنے والے پولیس افسروں کی اے سی آر روک لے اور اس کا ان کی پروموشن پر اثر ہو‘ ملک میں وکلاء عدالتیں بنائی جائیں‘ عدالتیں سماعت سے قبل مقدمے وکلاء عدالتوں میں بھجوا دیں‘ وہاں دونوں فریقین کے وکلاء بیٹھ کر سمجھوتے کی کوشش کریں۔
اگر دونوں میں صلح ہو جائے تو وکلاء مقدمہ واپس لے لیں‘ اس سے عدالت‘ موکل اور وکلاء تینوں کا وقت بچے گا‘ عدالت ہر مقدمے کی ’’کاسٹ‘‘ طے کرے اور جو فریق مقدمہ ہار جائے یہ کاسٹ اس سے وصول کی جائے‘ اس سے مقدمے بازی کے رجحان میں کمی آ جائے گی‘ مقدمات کی مدت طے کر دی جائے‘ عدالتوں کو پابند بنایا جائے یہ ایک سے چھ ماہ کے اندر مقدمے کا فیصلہ کریں ‘ ملک میں سیکڑوں کی تعداد میں آنریری جج تعینات کیے جائیں‘ یہ جج تنخواہ اور دفتر کے بغیر ہوں‘ یہ وکیل ہوں یا ریٹائر جج ہوں‘ عدالتیں معمولی نوعیت کے مقدمات ان کو ’’ ریفر‘‘ کر دیں‘ جیلوں کے اندر سول اور سیشن جج تعینات کیے جائیں‘ یہ جیل جج کہلائیں اور یہ جیلوں میں بند ملزموں اور مجرموں کے بارے میں فیصلے کریں‘ یہ معمولی جرائم میں بند مجرموں کو رہا کر سکیں‘ یہ مجرموں کی سزا میں کمی اور اضافہ کر سکیں اور یہ طویل مدت سے جیل میں بند مجرموں کی ضمانت لے سکیں۔
جیلوں کے اندرا سکول‘ ووکیشنل ادارے اور زبانیں سکھانے کے ادارے بنائے جائیں‘ یہ ادارے ملزموں اور مجرموں کو تعلیم دیں‘ فرانس کی بڑی کمپنیوں نے جیلوں میں اپنے گودام اور چھوٹی ورکشاپس بنا رکھی ہیں‘ یہ کمپنیاں اپنی مصنوعات جیل بھجوا دیتی ہیں‘ قیدی یہ مصنوعات پیک کرتے ہیں اور یہ مصنوعات جیل سے براہ راست مارکیٹ چلی جاتی ہیں‘ اس سے قیدیوں کو روزگار مل جاتا ہے‘ کمپنیوں کو سستا ہیومین ریسورس دستیاب ہو جاتا ہے اور جیل کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے‘ حکومت پاکستان بار کونسل کے ساتھ مل کر وکلاء کی فیس بھی طے کر دے‘ وکلاء کو بھی ون سے فائیو تک اسٹار میں تقسیم کیا جائے اور ان کی فیسیں ان اسٹارز کے مطابق طے کی جائیں کیونکہ ملک میں اس وقت مظلوم کو انصاف حاصل کرنے کے لیے اپنا رہا سہا اثاثہ وکیل کے نام کرنا پڑتا ہے اور یہ معاشی مجبوری بھی انصاف کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ ہے‘ ہمیں ملک میں سزائوں کو بھی ’’ری وزٹ‘‘ کرنا چاہیے‘ ہمیں جیلوں کے بجائے جیبوں پر دبائو بڑھانا ہو گا‘ یورپ میں مجرموں کو جیل بھجوانے کے بجائے بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں‘ ہم بیں جرمانے پر جا سکتے ہیں۔
ہم قتل‘ آبروریزی‘ ڈکیتی اور فراڈ کے علاوہ باقی جرائم کو جرمانے پر شفٹ کر دیں‘ عدالت مجرموں کو لاکھوں روپے جرمانے کرے‘ ان کی جائیداد ضبط کر لے اور ان کے دو تین سال کے لیے شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ اور ڈگریاں ضبط کر لے‘ یورپ میں چھوٹے جرائم پر سوشل سروس لی جاتی ہے‘ ہم بھی چھوٹے مجرموں کو بس اسٹاف‘ ریلوے اسٹیشن‘ پبلک باتھ رومز کی صفائی‘ ٹریفک پولیس ‘ بچوں کو پڑھانے‘ سڑکوں پر جھاڑو دینے‘ اولڈ پیپل ہوم میں کام کرنے یا ایدھی فائونڈیشن میں خدمات سرانجام دینے کی سزا دے سکتے ہیں اور ہم بے گناہوں کے قاتلوں کو اس وقت تک مظلوم خاندان کی مالی مدد کرنے کی سزا دے سکتے ہیں جب تک یہ خاندان اپنے قدموں پر کھڑا نہیںہو جاتا اور ہم مصر کی طرح پولیس اسٹیشنز میں پولیس اسپتال بھی بنا سکتے ہیں تا کہ پولیس کو ان تمام کیسز میں اسپتالوں کے دھکے نہ کھانا پڑیں جن میں انھیں میڈیکل رپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے‘ یہ تمام تجاویز پریکٹیکل ہیں۔
(نوٹ: یہ ماڈل بھی اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں کامیابی سے چل رہے ہیں‘ کوئی صاحب یا ادارہ اس پرپالیسی بنانا چاہے تو اس پر بھی تفصیلی بات ہو سکتی ہے ۔)
ٹرانسپورٹ ۔ حل
جاوید چوہدری بدھ 28 نومبر 2012
ٹرانسپورٹ ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ ہے‘ یہ مسئلہ ملک میں توانائی کا بحران بھی پیدا کر رہا ہے‘ ہم دنیا میں فی کس پٹرول خرچ کرنے والی بڑی قوموں میں شمار ہوتے ہیں‘ دنیا کے بے شمار ممالک نے معمولی تردد سے اس مسئلے پر قابو پا لیا مثلاً آپ ایران کی مثال لے لیجیے‘ تہران شہر میں 30 لاکھ گاڑیاں ہیں‘ یہ گاڑیاں صبح اور شام کے وقت پورے شہر کی ٹریفک جام کر دیتی تھیں‘ تہران کی کارپوریشن نے اس کا بہت دلچسپ حل نکالا‘ اس نے شہر کی تمام گاڑیوں کو دو حصوں میں( اے اور بی یا آڈ اور ایون) نمبروں میں تقسیم کیا اور پابندی لگا دی‘ ایک دن میں صرف اے نمبر کی گاڑیاں سڑک پر آئیں گی اور دوسرے دن بی نمبر کی گاڑیاں‘ اس اقدام سے تہران کی ٹریفک یک لخت آدھی رہ گئی اور ٹریفک کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔
پٹرول اور سی این جی کی کھپت بھی آدھی ہو گئی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کا رجحان بھی بڑھ گیا اور لوگوں نے آمد و رفت کے لیے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بھی ٹھیک کر لیے ۔آپ یورپ کے 25 ممالک کی مثال بھی لیجیے‘ یورپ میں صبح آٹھ بجے ٹریفک جام رہتی تھی کیونکہ سڑک پر اسکول اور دفتروں دونوں کا رش ہو جاتا تھا‘ 25 ممالک کی حکومتوں نے اسکولوں اور دفاتر کی ٹائمنگ میں بتدریج ایک گھنٹے کا فرق پیدا کر دیا اور یوں سڑکوں پر ٹریفک کا رش کم ہو گیا‘ ہم بھی یہ مسائل اسی آسانی سے حل کر سکتے ہیں‘ ملک میں ٹرانسپورٹ قطعی کوئی مسئلہ نہیں‘ ہمارے ملک میں صبح آٹھ سے دس بجے کے دوران چار کروڑ لوگ سڑکوں پر آتے ہیں اور یہ لوگ کسی نہ کسی طرح اپنی اپنی منزلوں پر بھی پہنچتے ہیں‘ اس کا یہ مطلب ہوا ملک میں ٹرانسپورٹ موجود ہے‘ ہم نے بس اس میں ترتیب پیدا کرنی ہے تا کہ عام شہریوں کی تکالیف کم ہو سکیں۔
ہم اس سلسلے میں چند اقدامات کر سکتے ہیں‘ ہمارے ملک میں ذاتی سواری جنون کی شکل اختیار کر چکی ہے‘ ہم چپڑاسی سے لے کر سیٹھ تک سب اپنی گاڑی خریدنا چاہتے ہیں‘ یہ جنون اگر ایک گاڑی تک محدود ہوتا تو درست تھا کیونکہ سواری ترقی اور خوشحالی کا سمبل ہوتی ہے لیکن اب ملک میں ہر شخص کو دوسری اور تیسری گاڑی کی ضرورت پڑگئی ہے‘ ایک اپنے لیے‘ دوسری بچوں کے لیے اور تیسری مہمانوں یا ایمرجنسی کے لیے‘ ہم اگر دوسری اور تیسری گاڑی پر ٹیکس بڑھا دیں اور یہ آمدنی ماحولیات پر خرچ کریں تو اس سے گاڑیوں کا جنون بھی کم ہو جائے گا‘ ماحولیاتی آلودگی بھی کم ہو جائے گی اور ٹریفک بھی کنٹرول ہونے لگے گی‘ ملک کے سرکاری اور پرائیویٹ ادارے (پولیس‘ اسپتال اور فائر بریگیڈ کے سوا) ملازمین کو گاڑیاں دینا بند کر دیں‘ ٹرانسپورٹ پول میں پانچ گاڑیاں موجود ہوں ‘ یہ صرف ایمرجنسی میں استعمال ہوں‘ تمام ادارے ملازمین کو پک اینڈ ڈراپ سروس دیں‘ اس کے لیے اچھی کوچز‘ بسیں اور وینز خریدی جائیں اور چپڑاسی سے سیکریٹری تک ان کوچز میں دفتر آئیں‘ اس سے دفتروں کے اندر ڈسپلن قائم ہو گا‘ دفتر وقت پر لگیں گے۔
وقت پر بند ہوں گے اور سڑکوں سے پریشر بھی کم ہو جائے گا‘ تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کوا سٹوڈنٹس کی پک اینڈ ڈراپ سروس پر مجبور کیا جائے‘ پرائیویٹ اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں بینکوں کے ذریعے بسیں اور کوچز لیں یا پھر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کریں اور ان کے طالب علم صرف اور صرف ان گاڑیوں پر تعلیمی ادارے آئیں‘ اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ اسکول کے گیٹ پر روزانہ ڈھائی ہزار گاڑیاں آتی ہیں‘ یہ ڈھائی ہزار گاڑیاں ٹریفک کے مسائل بھی پیدا کرتی ہیں اور پٹرول بھی ضایع ہوتا ہے‘ ان کی جگہ اگر بسیں ہوں گی تو پچاس بسیں بڑی آسانی سے اسکول کی ٹرانسپورٹ کا بوجھ اٹھا لیں گی‘ اس سے بچوں کی سیکیورٹی کا ایشو بھی حل ہو جائے گا‘ والدین کی مشقت بھی کم ہو جائے گی اور ٹرانسپورٹ اور توانائی کی بچت بھی ہو گی‘ ملک میں ٹیکسیوں کے رجحان میں بھی اضافہ کیا جائے‘ ملک میں ریڈیو کیب کے بزنس کو دس سال کے لیے ٹیکس فری کر دیا جائے‘ کیب کمپنیاں تین قسم کی ٹیکسیاں متعارف کروائیں‘ سستی‘ درمیانی اور مہنگی‘ حکومت ٹیکسیوں کو آدھی قیمت میں پٹرول فراہم کرے۔
اس سے کرائے بھی کنٹرول ہو جائیں گے اور لوگ ذاتی سواری کی دوڑ سے بھی نکل جائیں گے‘ آپ اس سلسلے میں دبئی‘ لندن اور نیویارک کی مثال لے سکتے ہیں‘ ان تینوں شہروں میں ٹیکسیاں ٹرانسپورٹ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور ہزاروں پڑھے لکھے اور امیر لوگ فالتو وقت میں ٹیکسیاں چلاتے ہیں‘ حکومت کو پبلک ٹرانسپورٹ مثلاً انڈر گرائونڈ میٹرو‘ میٹرو بس اور مانوریل کو فوری اہمیت دینی چاہیے لیکن جب تک یہ منصوبے شروع نہیں ہوتے حکومت اس وقت تک شہروں میں موجود وینوں اور بسوں کو ’’اسٹریم لائن‘‘ کر لے۔ آپ راولپنڈی کی مثال لیجیے‘ راولپنڈی شہر میں دو ہزار پرائیویٹ ویگنیں ہیں‘ حکومت چھوٹا سا ادارہ بنائے‘ ان ویگنوں کو روٹس کے لحاظ سے دوتین قسم کے رنگ کروائے‘ ان کے ایک سے لے کر دو ہزار تک نمبر لگوائے‘ ان کے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹرز کے لیے یونیفارم لازم قرار دے‘ ہر ایک کلومیٹر کے بعد بس اسٹاپ بنائے‘ ان بس اسٹاپوں پر ایسی ڈیجیٹل اسکرین لگائے جس پر اگلی ویگن کا نمبر اور وقت ڈسپلے ہو رہا ہو‘ بس اسٹاپوں پر ٹکٹ مشین لگا دے‘ مسافر بس اسٹاپ سے ٹکٹ لیں۔
یہ ٹکٹ کنڈیکٹر کو دے دیں اور کنڈیکٹر شام کے وقت دن بھر کے ٹکٹ واپس کر کے سینٹرل پوائنٹ سے رقم لے لے‘ ویگن کی صفائی‘ سیٹوں کے کشن ‘ دروازوں اور کھڑکیوں کی روزانہ دیکھ بھال لازم قرار دے دی جائے اور ویگن میں سیٹوں سے زیادہ مسافر نہ بٹھائے جائیں تو یہ مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہو جائے گا‘ ویگن جب اپنے نمبر اور وقت پر چلے گی‘ مسافر ڈیجیٹل اسکرین پر دیکھ رہا ہو گا اگلی وین صرف ایک منٹ بعد اسٹاپ پر پہنچ جائے گی اور دو وینوں کے درمیان صرف ایک منٹ کا فاصلہ ہے تو مسافروں اور ڈرائیوروں دونوں کی افراتفری ختم ہو جائے گی‘ ٹکٹ کی وجہ سے کنڈیکٹر مالک کی رقم نہیں مار سکے گا‘ ڈسپلن کی وجہ سے ویگنوں کے پھیروں میں اضافہ ہو جائے گا اور ویگنوں کی صفائی ستھرائی اور ٹائمنگ کی وجہ سے مڈل کلاس اور شریف لوگ بھی ویگنوں میں بیٹھ سکیں گے‘ ملک سے منہ مانگے کرایوں کا ایشو بھی ختم ہو جائے گا اور حکومت آسانی سے کرایوں میں ردوبدل بھی کر سکے گی‘ حکومت اس ماڈل کو چھوٹے شہروں اور کم فاصلے کے سفر تک بھی پھیلا سکتی ہے۔
دنیا میں ریل سب سے بڑا اور محفوظ ترین سفر ہے لیکن یہ ذریعہ بدقسمتی سے پاکستان میں شرم ناک حد تک زوال پذیر ہے اور ہمارے پاس ریل کو پائوں پر دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے سرمایہ بھی نہیں مگر ہم اس کے باوجود سرمائے کے بغیر اسے ازسر نو استوار کر سکتے ہیں‘ ہم ریل کے مختلف سیکشن پرائیویٹائز کر دیں‘ ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں ریل کے مختلف سیکشنز میں سرمایہ کاری کریں‘ حکومت صرف ٹکٹ پر سولہ فیصد سیلز ٹیکس وصول کرے تو یوں ریل دوبارہ ٹریک پر آجائے گی‘ ہم بتدریج اجناس‘ کھانے پینے کی اشیاء اور پٹرول کی نقل و حمل ریلوے پر شفٹ کر سکتے ہیں‘ ہم اگر صرف پٹرول اور ڈیزل کی نقل و حمل ریلوے پر شفٹ کر دیں تو اس سے بھی ریلوے اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا‘ ہم بھارت کی طرح یہ قانون بھی بنا سکتے ہیں کوئی کمپنی ایک خاص وزن سے زیادہ کا سامان ٹرک کے ذریعے ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں لے جا سکتی‘ یہ قانون بھی تجارتی کمپنیوں کو ریلوے پر انحصار کے لیے مجبور کر دے گا‘ میں نے چیک ری پبلک میں اسٹوڈنٹس ٹرین دیکھی‘ یہ ٹرین چیک کے ایک عام بزنس مین نے چلائی تھی‘ اس نے عدالت میں طویل مقدمہ لڑ کر اس ٹرین کی اجازت لی‘ نوجوان بالخصوص اسٹوڈنٹس کے لیے ٹرین چلائی اور یہ ٹرین آہستہ آہستہ پورے چیک ریلوے کو ٹریک پر لے آئی‘ ہم بھی اس تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
(نوٹ: یہ ماڈل بھی اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں کامیابی سے چل رہے ہیں‘ کوئی صاحب یا ادارہ اس پر پالیسی بنانا چاہے تو اس پر بھی تفصیلی بات ہو سکتی ہے ۔)
غربت ۔ حل
جاوید چوہدری پير 26 نومبر 2012
یورپ کے اکثر قصبوں میں دلچسپ روایت چلی آ رہی ہے‘ قصبوں کی کافی شاپس اور ریستورانوں میں دیوار پر وائٹ بورڈ نصب ہوتا ہے۔
ریستوران اور کافی شاپ کے گاہک اپنے لیے چائے‘ کافی اور کھانا منگواتے ہوئے ویٹر کو ایک چائے وائٹ بورڈ کے لیے‘ ایک کافی وائٹ بورڈ کے لیے یا فلاں کھانا وائٹ بورڈ کے لیے بھی آرڈر کر دیتے ہیں‘ ویٹر ان کا آرڈر انھیں سرو کر دیتا ہے اور اضافی کھانے‘ چائے یا کافی کی ’’سلپ‘‘ وائٹ بورڈ پر چپکا دیتا ہے‘لوگ کھانا کھاتے ہیں‘ چائے کافی پیتے ہیں اور آخر میں بل کے ساتھ اس کھانے‘ چائے اور کافی کی ادائیگی بھی کر دیتے ہیں‘ کھانے‘ کافی اور چائے کی یہ چٹیں قصبے کے ان لوگوں کے لیے ہوتی ہیں جو چائے‘ کافی یا کھانا ’’ افورڈ‘‘ نہیں کر سکتے‘ یہ غریب لوگ بھی عام گاہک کی طرح ریستوران یا کافی شاپ میں آتے ہیں‘ وائٹ بورڈ کے پاس رکتے ہیں‘ اپنی مرضی کی چٹ اتارتے ہیں‘ میز پر آ کر بیٹھتے ہیں‘ ویٹرکو وہ چٹ تھما دیتے ہیں اور ویٹر عام گاہکوں کی طرح انھیں بھی احترام کے ساتھ کھانا‘ چائے اور کافی سرو کر دیتے ہیں‘ یہ لوگ اگر وائٹ بورڈ سے خود چٹ نہ اتارنا چاہیں تو یہ ویٹر کے کان میں سرگوشی کر دیتے ہیں ’’ مجھے وائٹ بورڈ کی ایک کافی دے دو‘‘ اور ویٹر وائٹ بورڈ سے خود چٹ اتارکر انھیں کافی‘ چائے اور کھانا دے دیتے ہیں‘ یہ بھوکوں کو کھانا ‘ چائے اور کافی پلانے کا مہذب ترین طریقہ ہے‘ ہم بھی ملک میں یہ طریقہ رائج کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی 60 فیصد آبادی غریب ہے‘ ان میں سے نصف انتہائی غربت کا شکار ہے‘ یہ لوگ کھانے پینے‘ ادویہ اور کپڑوں جوتوں تک سے محروم ہیں‘ یہ لوگ صرف غریب نہیں ہیں یہ مسکین بھی ہیں‘ غربت اور مسکینی میں فرق ہوتا ہے‘ مسکین گزارا نہیں کر سکتا جب کہ غریب رو دھو کر گزارا کر لیتے ہیں‘ ہم بحیثیت معاشرہ ان مسکینوں کے ذمے دار ہیں اور ہم میں سے ہر صاحب استطاعت شخص کسی نہ کسی حد تک ان مسکینوں اور غریبوں کی مدد بھی کرتا ہے‘ پاکستان چیریٹی کرنے والے دنیا کے پانچ بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں مسکینوں اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کی وجہ سسٹم ہے‘ ہم لوگ چیریٹی کرتے ہیں لیکن یہ چیریٹی آرگنائزڈ نہیں ہوتی چنانچہ ملک سے غربت اور مسکینی ختم نہیں ہو رہی‘ ہمیں اس کے لیے دو سطح پر کام کرنا ہو گا‘ پہلی سطح فوری امداد ہے‘ ہمیں مسکینوں کے لیے کھانے پینے‘ سودا سلف ادویات اور کپڑوں کا فوری بندوبست کرنا چاہیے‘ ہم اس سلسلے میں یورپ کے ماڈل کی مدد لے سکتے ہیں‘ ہم ملک کے تمام چھوٹے بڑے ریستورانوں‘ چائے خانوں‘ پرچون کی دکانوں‘ جوتوں کی شاپس‘ کپڑوں‘ درزی خانوں اور سبزی کے ٹھیلوں پر وائٹ بورڈ لگوا دیں‘ ہم میں سے خریداری کے لیے جانے والے لوگ اپنی استطاعت کے مطابق وہاں اضافی رقم جمع کروا دیں‘ دکاندار وائٹ بورڈ پر اضافی رقم کی چٹ لگا دے۔
مسکین اور غریب لوگ آئیں اور دکاندار سے ایک دن کی ضرورت کا سامان لے جائیں‘ یہ دکانیں اور ٹھیلے محلوں میں ہوں گے‘ دکاندارضرورت مندوں کو ذاتی طور پر جانتے ہوں گے‘ اس سے فراڈ کے امکان کم ہو جائیں گے ہاں البتہ چائے اور کھانا کوئی بھی شخص کھا سکے گا‘ کھانے اور چائے کے لیے ریستوران کے ملازمین ایک خصوصی اہتمام کریں‘ یہ مسکینوں اور غریبوں کو واش روم لے کر جائیں‘ ان کے ہاتھ اور منہ دھلوائیں‘ کنگھی کروائیں اور اس کے بعد انھیں ڈائننگ ٹیبل پر بٹھا کر کھانا کھلائیں‘ اس سے ان لوگوں کو ہاتھ‘ منہ دھونے‘ صاف ستھرا رہنے اور میز پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی عادت بھی ہو جائے گی اور یہ بہت بڑا انقلاب ہو گا‘ مخیر حضرات ادویات کی دکانوں پر بھی اضافی پے منٹ کر سکتے ہیں‘ کیمسٹ حضرات ضرورت مندوں کو اس پے منٹ سے مفت ادویات دے سکتے ہیں تاہم یہ خصوصی اہتمام کریں‘ یہ ضرورت مند مریضوں کو صرف ایک یا دو دن کی دوا دیں‘ سیرپ‘ انجیکشن‘ کیپسول اور گولی کی پیکنگ پھاڑ دیں یا ڈھکن کی سیل توڑ دیںتا کہ مریض یا جعلی مریض یہ ادویات بازار میں فروخت نہ کر سکیں‘ اس سے مسکین مریضوں کو ادویات بھی مل جائیں گی اور مخیر حضرات کی امداد بھی صحیح جگہ پر لگ جائے گی‘ کپڑوں کے معاملے میں اہل خیر کپڑا خرید کر درزیوں کے حوالے کر دیں یا پھر بوتیکس کو امدادی رقم دے دیں‘ درزی مسکینوں کے ناپ کے مطابق کپڑے سی کر دیں اور بوتیکس کے مالکان ضرورت مندوں کو لیبل اتار کر کپڑے دیں‘ اس سے بھی فراڈ کم ہو جائے گا اور ضرورت مندوں کی باقاعدہ مدد بھی ہو جائے گی۔
ہمیں دوسرے اسٹیج پر مسکینوں کو غریبوں کی فہرست اور غریبوں کو لوئر مڈل کلاس میں لانے کے لیے کام کرنا ہو گا‘ ملک کے تمام قصبوں اور شہروں کے مخیر حضرات اپنی اپنی سطح پر روزگار اسکیمیں بنا سکتے ہیں‘یہ فنڈ جمع کریں‘ سروے کریں‘ علاقے میں کتنے لوگ مسکین اور غریب ہیں‘ یہ اسٹڈی کریں ان لوگوں کا خاندانی پیشہ کیا تھا کیونکہ غربت اور مسکینی کا پیشوں کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے‘ معاشرے میں جب بھی کوئی پیشہ دم توڑتا ہے تو یہ بیسیوں خاندانوں کو غریب کر جاتا ہے‘ مثلاً آج سے بیس سال پہلے پاکستان کے ہرشہر میں تانگے ہوتے تھے‘ یہ تانگے شہروں کے بیسیوں خاندانوں کا ذریعہ روزگار تھے‘ یہ ختم ہوئے تو یہ سیکڑوں ہزاروں خاندانوں کو غریب اور مسکین بنا گئے‘ ملک میں اسی طرح موچیوں‘ نائیوں اور ترکھانوں کا فن زوال پذیر ہوا‘ قصبوں میں ڈھول اور باجوں والے ہوتے تھے۔
اسٹریٹ تھیٹرز ‘ مداری اور اسٹریٹ سرکس سے بھی ہزاروں لوگ وابستہ ہوتے تھے‘ گلیوں اور محلوں میں چائے خانے ہوتے تھے‘ یہ چائے خانے بھی ختم ہو گئے‘ شہروں سے کھوتی ریڑھی بھی ختم ہو گئی اور چنے اور بھٹے والے بھی بے روزگار ہو گئے‘ سوئیاں بنانے‘ اچار چٹنی اور مربے والے بھی بے روزگار ہوگئے اور تنور والے بھی غربت میں چلے گئے‘ یہ تمام فن شہر بھر کا روزگار ہوتے تھے‘ قصبوں اور شہروں کے مخیر حضرات یہ فن دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں‘ ہم سب کے گھروں میں روٹی پکتی ہے‘ ہم اگر ایک روٹی پر خرچ ہونے والی توانائی‘ وقت اور سرمائے کا تخمینہ لگائیں تو یہ بازار سے ملنے والی روٹی سے دگنی اور تین گنا مہنگی نکلے گی‘ ہمارے مخیر حضرات اگر ہر محلے میں تنور لگوائیں‘ یہ تنور مسکین فیملیوں کو دے دیں اور یہ فیصلہ کر لیں تمام لوگ ان تنوروں سے روٹی خریدیں گے تو چند ماہ میں قصبے کے سیکڑوں لوگ مسکینی سے نکل آئیں گے۔
ہم ان تنوروں پر چولہے رکھوا کر چپاتی بھی بنوا سکتے ہیں‘ پراٹھے بھی‘ نان بھی اور مولی اور ساگ والی روٹیاں بھی۔ مخیر حضرات شہر میں موچیوں کی گلی آباد کرا سکتے ہیں یا چھوٹا سا موچی بازار بنوا سکتے ہیں اور یہ فیصلہ کر لیں قصبے کا ہر خاندان ہر مہینے ان سے ایک جوتا خریدے گا‘ بڑے شہروں اور بیرون ملک سے آنے والے لوگ جوتوں کے نئے ڈیزائن لے آئیں اور موچیوں کو یہ ڈیزائن کاپی کے لیے دے دیں‘ قصبے کے لوگ فیصلہ کر لیں قصبے کی ہر شادی اور ہر تقریب میں صرف اور صرف مقامی ڈھولچی ہی ڈھول بجائیں گے‘ قصبے یا شہر میں ہر ہفتے کی شام اسٹریٹ تھیٹرز کا بندوبست کیا جائے‘ یہ تھیٹر سرکس‘ مداری تماشا‘ گانے بجانے اور جمناسٹک کے کھیلوں پر مشتمل ہو‘ اس سے قصبے اور شہر بھر کو تفریح بھی ملے گی اور ان پیشوں سے وابستہ لوگوں کے چولہے بھی جلنے لگیں گے‘ پاکستان میں صدیوں سے چائے خانوں کی روایت چلی آ رہی تھی‘ ملک کے تمام شہروں اور قصبوں میں درجنوں چائے خانے ہوتے تھے‘ لوگ شام کے وقت ان چائے خانوں میں بیٹھ جاتے تھے‘ گپ لگاتے تھے‘ ریڈیو سنتے تھے اور تاش اور شطرنج کھیلتے تھے‘ یہ چائے خانے تفریحی اور سوشل گیدرنگ کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہوتے تھے اور شہر کے غریبوں کی آمدنی کا بھی‘ یہ چائے خانے اب ختم ہو گئے ہیں۔
شہر کے مخیر حضرات کو ہر گلی‘ ہر محلے میں ایسے چائے خانے بنوانے چاہئیں‘ میونسپل کمیٹیاں اور سیاستدان بھی یہ ’’ اینی شیٹو‘‘ لے سکتے ہیں‘ مخیر حضرات قصبوں کے انتہائی غریب خاندانوں کے بچوں کے لیے ووکیشنل ٹریننگ کا بندوبست بھی کر سکتے ہیں‘ یہ اس سلسلے میں سرکاری اسکولوں کی مدد لے سکتے ہیں‘ ہمارے سرکاری اسکول دو بجے کے بعد بند ہو جاتے ہیں‘ مخیر حضرات ان اسکولوں میں شام چار بجے سے آٹھ بجے تک ووکیشنل کلاسز شروع کرا دیں‘ ان کلاسز میں مسکین اور غریب خاندانوں کے بچوں اور خواتین کو مختلف کام سکھائے جائیں‘ مخیر حضرات ’’اخوت‘‘ کی طرح چھوٹے قرضوں کی اسکیمیں بھی شروع کر سکتے ہیں‘ یہ قرضے صرف علاقے کے لوگوں کو دیے جائیں‘ ان کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کرائے جائیں تاکہ یہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں‘ شہر کے مزدوروں‘ ترکھانوں‘ لوہاروں اور مستریوں کو دس‘ دس پندرہ پندرہ دنوں کی جدید ٹریننگ دلائی جائے اور یہ فیصلہ کیا جائے شہر یا قصبے کی تمام تعمیرات انھیں لوگوں سے کرائی جائے گی تاہم شہر بھر کے لیے ان کے ریٹس ضرور طے کر دیے جائیں ‘ شہر اور قصبے کے اندر بگھی یا جدید طرز کے تانگے چلائے جائیں‘ اس سے پلوشن بھی کنٹرول ہو گا‘ تیل اور گیس کی بچت بھی ہو گی اور روزگار کے نئے ذرایع بھی پیدا ہوں گے۔
اگر یورپ کے شہروں میں تانگے اور بگھیاں چل سکتی ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے اور شہر کے تمام مخیر حضرات اپنی دکانوں‘ گھروں اور ورکشاپس پر غریب اور مسکین خاندانوں کے بچوں کو نوکری دیں‘ یہ ان کی تعلیم کا بندوبست بھی کریں‘ انھیں کوئی ہنر بھی سکھائیں اور ان کی تنخواہ کا بندوبست بھی کریں‘ اس سے بھی غربت کم ہو جائے گی۔
(نوٹ: یہ ماڈل بھی اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں کامیابی سے چل رہے ہیں‘ کوئی صاحب یا ادارہ اس پرپالیسی بنانا چاہے تو اس پر بھی تفصیلی بات ہو سکتی ہے ۔)
دہشت گردی ۔ حل
جاوید چوہدری جمعـء 23 نومبر 2012
دہشت گردی ہمارا تیسرا بڑا مسئلہ ہے‘ یہ مسئلہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوا اور یہ اب ہمارے لائف کا حصہ بن چکا ہے۔
آپ کسی دن کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیجیے‘ آپ کو اس میں دس بیس پچاس ہلاکتوں کی خبر ضرور ملے گی‘ یہ لوگ ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے ہوں گے‘ فرقہ واریت میں جاں بحق ہوئے ہوں گے یا پھر بم دھماکے اور خودکش حملے کا رزق بن گئے ہوں گے‘ اگر کسی دن کوئی ایسی خبر نہ آئے تو قوم کو روڈ ایکسیڈنٹ‘ پاک افغان سرحد یا پھر کوئی خاندانی دشمنی دس بیس لوگوں کی نعشوں کا تحفہ دے جاتی ہے‘ ہم چالیس سال سے موت کی یہ خبریں پڑھ‘ سن اور دیکھ رہے ہیں‘ ان خبروں نے ہماری اجتماعی نفسیات تبدیل کر دی ہے‘ ہمارے اندر سے زندگی کی محبت اور موت کا افسوس نکل گیا ہے‘ ہم اب بم دھماکوں‘ خودکش حملوں‘ روڈ ایکسیڈنٹس‘ فرقہ وارانہ اور خاندانی دشمنیوں کی ہلاکتوں کو ڈرامے کی طرح دیکھتے ہیں‘ ہم نعشوں کے قریب سے گزر کر ولیمے کی دعوتوں میں چلے جاتے ہیں ۔
وہاں پاگلوں کی طرح قہقہے لگاتے ہیں اور پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں‘ زندگی سے محبت اور موت پر افسوس کی اس کمی نے ہمیں اندر سے اداس کر دیا ہے‘ ہم خوش ہونا‘ مطمئن ہونا اور اللہ کی نعمتوں سے لطف لینا بھول چکے ہیں‘ ہم سب کے چہروں سے تازگی اڑ چکی ہے‘ آنکھوں کی چمک ماند پڑ چکی ہے اور ہم میں آگے بڑھنے اور زندگی کو خوبصورت بنانے کا جذبہ بجھ گیا ہے‘ آپ اس ملک کے کسی شہری کے چہرے کو غور سے دیکھئے‘ آپ کو اس پر ڈپریشن‘ بے زاری اور لاتعلقی کی درجنوں لکیریں ملیں گی‘ ہم سب گہری نحوست کے قبضے میں ہیں‘ مجھے اس نحوست پر اکثر مولانا روم کا ایک واقعہ یاد آجاتا ہے‘ مولانا روم کا دور دنیا کا بدترین عہد تھا‘ تاتاریوں نے پوری دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور منگولیا سے لے کر بغداد تک دنیا راکھ‘ خاک اورجلی ہوئی ہڈیوں کا ڈھیر بن گئی تھی۔
اس دور میں ایران کا ایک زمین دار مولانا روم کے پاس آیا اور ان کا دامن پکڑ کر رونے لگا‘ مولانا نے پوچھا کیا ہوا؟ اس نے جواب دیا ہمارا پورا علاقہ تباہ ہو گیا‘ مولانا نے پوچھا‘ کیا تمہارا خاندان بھی تباہ ہو گیا؟ اس نے سر اٹھا کر جواب دیا ’’ نہیں میرے خاندان کے تمام لوگوں کی جانیں ‘باغ‘ فصلیں اور گھر محفوظ ہیں‘‘ مولانا نے پوچھا ’’ پھر تم کیوں رو رہے ہو‘‘ اس نے جواب دیا ’’ حضور یہ قتل و غارت گری میری خوشی کھا گئی ہے‘ میں خوش ہونا بھول گیا ہوں‘‘ یہ سن کر مولانا روم کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔
پاکستان میں قتل و غارت کے اس کھیل سے صرف اشاریہ ایک فیصد لوگ براہ راست متاثر ہوئے لیکن یہ کھیل باقی ننانوے اشاریہ ننانوے فیصد عوام کی خوشی کھا گیا‘ مجھے یقین ہے صدر آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف اور راجہ پرویز اشرف بھی اب خوش نہیں ہوں گے کیونکہ اس ملک میں خوشی زخمی ہو چکی ہے اور اس زخم کی تکلیف ملک کے کسی شخص کو آرام سے سونے نہیں دے رہی‘ یہ لوگ اب اقتدار میں بھی خوش نہیں رہ سکتے چنانچہ ہم اگر اس ملک میں رہنا چاہتے ہیں‘ ہم اگر اس کو آگے چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں فوری طور پر قتل و غارت گری کا یہ کھیل ختم کرنا ہو گا ورنہ دوسری صورت میں یہ ملک نہیں چل سکے گا‘ ہمیں ملک کو قتل و غارت گری سے نکالنے کیلیے چند فوری اور بڑے فیصلے کرنا ہوں گے‘ ملک میں چار قسم کے قتل ہو رہے ہیں‘ دہشت گردی‘ خاندانی دشمنیاں‘ فرقہ واریت اور ٹریفک حادثے۔
ہمیں ان سب کا سد باب کرنا ہوگا۔ ہمیں سب سے پہلے یہ ماننا پڑے گا پولیس اب اکیلی ملک میں امن قائم نہیں کر سکتی‘ پولیس کی تعداد کم بھی ہے‘ بھرتیاں بھی میرٹ پر نہیں ہوتیں‘ سیاسی مداخلت کی وجہ سے اس کی ایفی شینسی بھی ختم ہو چکی ہے اور اس کے منہ کو کرپشن کی چاٹ بھی لگ چکی ہے چنانچہ پولیس سے اب بڑی بڑی توقعات وابستہ کرنا غلط ہو گا لہٰذا حکومت کو فوری طور پر خفیہ اداروں‘ رینجرز اور عدلیہ کو پولیس سروس کا حصہ بنانا پڑے گا‘ حکومت دس سال کے لیے تمام خفیہ اداروں اور رینجرز کو پولیس سروس کا حصہ بنا دے‘ تینوں شعبوں کو ملا کر ’’ لاء اینڈ آرڈر ڈویژن‘‘ بنائی جائے ‘ پولیس قانونی کارروائی کرے‘ ایف آئی آر کاٹے‘ چالان کرے‘ رینجرز آپریشن کریں اور خفیہ ادارے تفتیش کریں‘ یہ ڈویژن چھ ماہ میں مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ذمے دار ہو‘ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ اور چاروں صوبوں کے چیف جسٹس کو باقاعدہ اعتماد میں لیا جائے اور ان کی مدد سے اسپیشل کورٹس بنائی جائیں‘ پورے ملک میں اسلحہ پر پابندی لگا دی جائے‘ تمام اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیئے جائیں ۔
فوج کی مدد سے ملک بھر سے اسلحہ جمع کر لیا جائے اور اس کے بعد جس شخص سے بھی اسلحہ برآمد ہو اسے کم از کم دس سال کی سزا سنا دی جائے‘ اسلحہ رکھنا‘ فروخت کرنا اور خریدنا تینوں ناقابل ضمانت جرائم ہوں اور اس جرم میں کسی شخص کو استثنیٰ حاصل نہ ہو‘ ڈی سی اوز کو علاقے کی خاندانی دشمنیاں ختم کرانے کا ٹاسک دے دیا جائے‘ یہ پنچایت بنوائیں‘ خاندانی دشمنیاں ختم کروائیں اور علاقے کے معززین سے ضمانت لیں یہ لوگ آیندہ ایک دوسرے سے نہیں الجھیں گے اور اگر یہ لوگ لڑے یا کسی پر حملہ کیا تو ان کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد ضبط کر لی جائے‘ ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی ضبط کر لیے جائیں‘ ملک میں فرقہ واریت کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے‘ ملک میں تمام متنازعہ کتابوں کی اشاعت‘ درآمد اور خریدوفروخت پر پابندی لگا دی جائے‘ یوٹیوب پر موجود متنازعہ تقریریں ہٹا دی جائیں‘ متنازعہ گفتگو‘ تحریر اور تقریر پر پابندی لگا دی جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے کم از کم دس سال قید ہو اور ان کی جائیداد بھی ضبط کر لی جائے‘ متنازعہ گفتگو کا بہتان لگانے والے کو بھی یہی سزا دی جائے۔
ملک میں فوری طور پر مساجداورامام بارگاہوںکا ڈیٹا جمع کیا جائے‘ حکومت کی اجازت کے بغیر ملک میں کوئی عبادت گاہ نہ بن سکے‘ ملک کی تمام مساجد کے لیے امام حکومت کی اجازت سے تعینات کیے جائیں‘ لائوڈ اسپیکر پر پابندی لگا دی جائے۔جمعہ کا خطبہ آدھ گھنٹے سے زیادہ نہ ہو‘خطیبوں کے لیے باقاعدہ ’’ ریڈ لائین‘‘ لگا دی جائے اور انھیں پابند کیا جائے وہ اس ریڈ لائین پر قدم نہیں رکھیں گے ‘ ملک میں ہر قسم کے چندے‘ کھالیں جمع کرنے اور صدقات کی اپیل پر پابندی لگا دی جائے‘ تمام ادارے اپنے اکائونٹس کھلوائیں اور اگر کسی نے انھیں امداد دینی ہو تو وہ یہ رقم براہ راست ان کے اکائونٹ میں جمع کرائی جائے۔
مذہبی اداروں پر غیر ملکی امداد لینے پر پابندی لگا دی جائے‘ مدارس کے لیے کمپیوٹر‘ انگریزی اور سائنس کے مضامین لازمی قرا دے دیئے جائیں‘ سنی مدارس پچیس فیصد شیعہ طالب علموں کو داخلہ دینے کے پابند ہوں اور شیعہ مدارس پچیس فیصد سنی طالب علموں کو داخلہ دیں‘ علماء کرام کو ٹیکس میں چھوٹ دے دی جائے لیکن یہ ہرسال ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے پابند ہوں اور ملک کے تمام شہروں میں ہیلپ لائن لگا دی جائے اور عوام سے اپیل کی جائے ان کے محلے میں اگر کوئی مشکوک شخص موجود ہے یا یہ کوئی مشکوک سرگرمی دیکھ رہے ہیں تو یہ اس ہیلپ لائن پر فوری اطلاع دیں ۔
آپ اب آئیے ٹریفک کے ہاتھوں قتل ہونے والے شہریوں کی طرف‘ ملک میں ٹریفک کے قوانین پر فوری عمل شروع کرا دیا جائے‘ تمام ڈرائیور ڈرائیونگ لائسنس‘ گاڑی کا فٹنس سرٹیفکیٹ اور انشورنس ونڈاسکرین کے ساتھ ڈسپلے کریں‘ گاڑی کے لیے انشورنس لازمی قرار دے دی جائے‘ انشورنس کمپنیوں کو گاڑیوں کی ماہانہ فٹنس کا ذمے دار ٹھہرایا جائے اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرے اس کی گاڑی ایک مہینے کے لیے رینٹ اے کار کمپنیوں کے حوالے کر دی جائے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی ٹریفک پولیس کے اکائونٹ میں جمع کرا دی جائے‘ ٹریفک پولیس کو خود مختار بنا دیا جائے‘ ٹریفک چالان سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی انھیں دے دی جائے‘ ٹریفک حادثے کا باعث بننے والے ڈرائیوروں کا لائسنس ہمیشہ کے لیے منسوخ کر دیا جائے‘ ٹریفک پولیس ہائی وے پر ہر بیس کلو میٹر بعد ایمرجنسی ڈسپنسری اور ہر پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر بیس بیڈز کا اسپتال بنائے‘ اسپتال میں آپریشن تھیٹر اور میٹرنٹی ہوم کی سہولت بھی موجود ہو‘ ان اسپتالوں کے اخراجات ٹول پلازوں کی آمدنی سے پورے کیے جائیں اور ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرنے والے ہر ڈرائیور سے جرمانے کے ساتھ ساتھ ایک بوتل خون بھی وصول کیا جائے‘ یہ خون ٹریفک حادثوں کے شکار زخمیوں کو لگایا جائے۔
نوٹ: یہ تمام ماڈلر بھی دنیا کے مختلف ممالک میں کام کر رہے ہیں‘ کوئی ان پر عمل کرنا چاہے تو اس پر تفصیل سے بات ہو سکتی ہے۔

تعلیم…حل
جاوید چوہدری بدھ 21 نومبر 2012
روزگار کے بعد تعلیم ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ ہے‘ ہمیں اس مسئلے کے حل کے لیے سب سے پہلے کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا ہو گا۔
حکومت اب سرکاری اسکول اور کالج نہیں چلا سکتی‘ ہمارا سرکاری سلیبس‘ سرکاری استاد‘اسکولوں کی سرکاری عمارتیں اور سرکاری سوچ پرانی ہو چکی ہے‘ حکومت اگر آج اسکولوں کی عمارتوں کی مرمت کرنا چاہے‘ یہ اسکولوں میں واش رومز‘ پلے گرائونڈز‘ لائبریریاں‘ لیبارٹریاں اور کلاس رومز بنانا چاہے توہمیںدو سال کا پورا قومی بجٹ چاہیے‘ ہمیں صرف عمارتوں کی مرمت کے لیے فوجی بجٹ کے برابر رقم درکار ہے اور یہ ظاہر ہے ممکن نہیں۔
دوسرا‘ ہمارے سرکاری اسکول روایتی لحاظ سے 1960 کی دہائی سے آگے نہیں نکل سکے جب کہ زمانہ بل گیٹس اور سٹیو جابز کے دور میں داخل ہو چکا ہے‘ آج کمپیوٹر‘ آئی پیڈ اور آئی فون‘ ڈیجیٹل لائبریری‘ ملٹی میڈیا اور ای لائبریری کے بغیرتعلیم ممکن نہیں اور ہمارے قصباتی اور دیہاتی اسکول ان سہولتوں سے صدیوں دور ہیں‘ ہم دنیا بھر سے سالانہ پانچ ارب ڈالر لے لیں تو بھی ہم ملک کے تمام سرکاری اسکولوں کو یہ سہولتیں فراہم نہیں کر سکتے۔
تیسرا‘ سرکاری اسکولوں سے جنم لینے والے بچوں اور پرائیویٹ اداروں سے فارغ ہونے والے اسٹوڈنٹس میں کلچر‘ سوچ‘ اعتماد اور علم کا دس ہزار کلومیٹر طویل فرق ہے‘ یہ دونوں صدیوں کی دوری پر ہیں‘ اس دوری کے دو نقصان ہو رہے ہیں‘ ہمارے سرکاری اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسیورں سے نکلنے والے نوجوان ڈگریوں کے باوجود بے روزگار رہتے ہیں جب کہ پرائیویٹ اداروں سے جدید تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کو یورپ‘ امریکا اور عرب ریاستیں بھاری تنخواہوں پر لے جاتی ہیں اور یوں ملک میں خلا پیدا ہو رہا ہے۔
دو‘ یہ نام نہاد پڑھے لکھے‘مایوس غریب نوجوان نوکریاں چاہتے ہیں لیکن ان میں جدید زمانے کی نوکریوں کی اہلیت نہیں ہوتی اور ان کی یہ مایوسی ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جا رہی ہے چنانچہ ہمیں کھلے دل سے ماننا پڑے گا ہمارے ملک میں اب کوئی حکومت سرکاری اسکول نہیں چلا سکے گی اور کوئی حکومت پرائیویٹ ادارے بھی بند نہیں کر سکے گی مگر اب سوال یہ ہے اس صورتحال کا حل کیا ہے‘ اس کا حل بہت سیدھا اور آسان ہے۔
حکومت کو چاہیے یہ فوری طور پر پرائمری سے یونیورسٹی تک تمام تعلیم پرائیویٹائز کر دے‘ ملک میں پانچ ہزار تعلیمی کمپنیاں بنائی جائیں‘ یہ کمپنیاں سرمایہ جمع کریں اور پورے ملک میں اسکول اور کالج کھولیں‘ حکومت پورے ملک یا پورے صوبے کے لیے جدید ترین یکساں تعلیمی بنوائے اور پورے ملک یا پورے صوبے کے تمام پرائیویٹ اسکولوں میں صرف اور صرف یہ سلیبس پڑھایا جائے‘ تعلیمی کمپنیاں ہر محلے میں‘ ہر گائوں میں یا پھر ہر اس علاقے میں جہاں پانچ سو بچے موجود ہیں وہاں اسکول کھولیں‘ اسکول کی عمارت اور سہولتیں پورے ملک میں ایک جیسی ہوں اور محلے اور گائوں کے بچے صرف اپنے محلے کے اسکول میں داخلہ لے سکیں‘ یہ دوسرے محلے یا گائوں کے دوسرے اسکول میں داخل نہ ہو سکیں۔
یہ اسکول پچاس فیصد طالب علموں سے پوری فیس لیں‘ پچیس فیصد طالب علموں سے آدھی فیس لی جائے اور پچیس فیصد ایسے طالب علم جو فیس ادا نہیں کر سکتے‘ ان کی تعلیم مفت ہو۔ اس اقدام سے پورے ملک کے بچے ایک ہی قسم کی تعلیم حاصل کریں گے جس سے طبقاتی نظام تعلیم ختم ہو جائے گا‘ بچے محلے کے اسکول میں پیدل جائیں گے‘ جس سے والدین بچوں کو اسکول چھوڑنے کی زحمت سے بھی بچ جائیں گے اور ٹریفک اور پٹرول کا خرچ بھی کم ہو جائے گا اور غریب طالب علم بھی جدید تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ حکومت سرکاری اساتذہ کو پرائیویٹ اسکولوں میں شفٹ کر سکتی ہے جس سے اساتذہ کی نوکریاں بھی بچ جائیں گی۔
ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے حکومت تعلیمی بجٹ کا کیا کرے ؟ حکومت فوری طور پر تعلیم اور اسپورٹس کا بجٹ ایک جگہ اکٹھا کرے‘ اس بجٹ سے انڈومنٹ فنڈ قائم کر لے‘ اس فنڈ میں ہر سال تعلیم اور اسپورٹس کا بجٹ ڈال دیا جائے یوں اس فنڈ میں ہر سال اضافہ ہوتا رہے گا‘ حکومت اس فنڈ سے سلیبس پر ریسرچ کرائے‘ پورے صوبے کے ٹیچرز کو جدید ٹریننگ دے‘ مفت تعلیم پانے والے بچوں کو یونیفارم‘ جوتے اور کتابیں فراہم کرے‘ ملک میں سستے آئی پیڈ‘ لیپ ٹاپ‘ ڈیجیٹل لائبریریاں اور ای لائبریریاں تیار کروائے اور طالب علموں کو فراہم کرے‘ دنیا کی مشہور کتابیں بڑے پیمانے پر شایع کروا کر طالب علموں میں تقسیم کرے۔
پانچ سو گھروں کے درمیان ایک چھوٹا اسپورٹس اسٹیڈیم‘ چھوٹا سا پارک اور چھوٹی سی لائبریری بنوائے ‘ حکومت امتحانات کا سسٹم اپنے ہاتھ میں رکھے‘ پورے ملک یا پورے صوبے میں ایک مضمون کا امتحان ایک ہی دن ہو اور یہ دن کسی بھی صورتحال میں تبدیل نہ کیا جائے‘ اس سے ملک یا صوبے بھر کے والدین کو بھی اپنا شیڈول تیار کرنے میں سہولت ہو جائے گی اور بچے بھی داخلے سے قبل امتحان کے دنوں سے واقف ہوں گے۔
حکومت اس فنڈ سے دیہاتی علاقوں میں کام کرنے والے اساتذہ کو مکان بنوا کر دے اور انھیں دو‘دو ایکڑ مفت زمین بھی دے یوں استاد خوشی سے شہروں سے دیہات میں چلے جائیں گے‘ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کو لیپ ٹاپ پر شفٹ کر دیا جائے‘ کوئی طالب علم اس وقت تک کالج میں داخل نہ ہو سکے جب تک اس کے پاس لیپ ٹاپ نہ ہو‘ اس اقدام سے ملک میں تعلیم کے معیار میں بھی اضافہ ہو گا اور ملک میں لیپ ٹاپ انڈسٹری بھی ڈویلپ ہو گی اور اس سے نئی جابز کھلیں گی۔
میں ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں جاتا رہتا ہوں‘ میں وہاں طالب علموں کی ذہنی اور علمی صورتحال دیکھ کر شدید افسوس کا شکار ہوتا ہوں‘ ہمیں یہ ماننا پڑے گا ہمارا یونیورسٹی کا طالب علم نالج‘ ٹیکنالوجی اور اعتماد میں یورپ کے پرائمری کے طالب علم تک کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ میں ہر کلاس سے پوچھتا ہوں ’’آپ میں کتنے لوگ کتاب اور اخبار پڑھتے ہیں‘‘ پوری کلاس سے بمشکل ایک آدھ ہاتھ اٹھتا ہے اور اس کا مطالعہ بھی چند سطحی ناولوں تک محدود ہوتا ہے۔
یہ لوگ کورس میں شامل کتابیں تک نہیں پڑھتے‘ ان کا کورس نالج نوٹس تک محدود ہوتاہے اور یہ نوٹس بھی یونیورسٹیوں میں دس دس‘ پندرہ پندرہ سالوں سے فوٹو اسٹیٹ ہو رہے ہیں‘ حکومت کو فوری طور پر گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کا معیار بڑھا دینا چاہیے‘ گریجویشن کے کورس اور امتحانات اتنے سخت ہونے چاہئیں کہ کالج میں داخل ہونے والے صرف تیس فیصد طالب علم گریجویشن کر سکیں باقی طالب علم ایف اے یا ایف ایس سی کے بعد کام یا کاروبار کریں‘ یونیورسٹیوں کا پورا سلیبس ریسرچ پر شفٹ کر دیا جائے۔
یونیورسٹی میں کسی طالب علم کا امتحان نہ ہو‘ یہ پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹس کی طرح کسی ایک موضوع پر ریسرچ کریں‘ ملک کے اعلیٰ ترین دماغ ان کا طویل انٹرویو لیں‘ ان کی ریسرچ کی پڑتال کریں اور جس کی محنت اور کام سے مطمئن ہوں صرف اسے ڈگری دی جائے ‘یونیورسٹی کو یونیورسٹی ہونا چاہیے ڈگریاں تقسیم کرنے اور بے روزگاری پھیلانے کی فیکٹری نہیں۔ ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے انڈوومنٹ فنڈز ہونے چاہئیںاور یونیورسٹیوںکو اپنے اخراجات ان فنڈز سے پورے کرنے چاہئیں۔
یونیورسٹیوں کی تعلیم مہنگی بھی ہونی چاہیے تاہم جو طالب علم اپنی ذہانت اور محنت ثابت کرتا جائے اس کی فیس معاف ہوتی جائے اور آخر میں اسے حکومت یا یونیورسٹی کی طرف سے رول ماڈل اسکالر شپ دیا جائے ۔ یونیورسٹی میں بھی اسکولوں اور کالجوں کی طرح پچاس فیصد طالبعلم بھاری فیس ادا کریں‘ پچیس فیصد کی فیس آدھی ہو جب کہ باقی پچیس فیصد غریب مگر ذہین طالب علموں کی فیس معاف کر دی جائے۔ یونیورسٹیوں میں کسی ڈیپارٹمنٹ کے کسی سیشن میں تیس سے زائد طالب علم نہ لیے جائیںاور یونیورسٹی میں داخلے کے لیے عمر کی حد بھی ختم کر دی جائے‘ کوئی بھی شخص مرنے تک یونیورسٹی میں داخل ہو سکے۔
اس سے بھی صرف اہل لوگ یونیورسٹی آ سکیں گے‘ حکومت پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک ہر کلاس کے لیے لٹریچر‘ نان فکشن‘ آٹو بائی گرافی اور سائنس کی دس کتابیں لازم قرار دے دے‘ پہلی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک دنیا کا قدیم لٹریچر پڑھایا جائے اور دسویں کے بعد یونیورسٹی تک جدید ترین بیسٹ سیلر کتابیں پڑھائی جائیں‘ ان کتابوں کا بے شک امتحان نہ ہو لیکن طالب علموں کے لیے یہ کتابیں پڑھنا ضروری ہوں‘ اسکولوں میں اسپورٹس لازم ہو۔
تمام طالب علم کوئی نہ کوئی کھیل کھیلیں اور ہر سال کھیلوں کے میلے ضرور ہوں اور ان میں تمام تعلیمی ادارے حصہ لیں‘ تمام سرکاری اسکولوں کو ووکیشنل اداروں میں تبدیل کر دیا جائے ‘ یہ اسکول چیمبر آف کامرس‘ شہر کے تاجروں اور انڈسٹریل زونز کے حوالے کردیے جائیں‘ حکومت جدید ترین ووکیشنل سلیبس بنوائے اور شہروں کے تاجر اسکولوں کی عمارت میں بے کار نوجوانوں کو ووکیشنل تعلیم دلوانا شروع کر دیں‘ ہائی اسکول کے طالب علموں کے لیے بھی ان اداروں میں دو گھنٹے ٹریننگ لازمی ہو۔
طالب علم ان اداروں میں صرف سائیکل پر آ سکیں‘ اس سے کلاس ڈیفرنس بھی ختم ہو گا‘ طالب علموں کی ورزش بھی ہو جائے گی‘ ملک میں سائیکل کی انڈسٹری بھی فروغ پائے گی اور پٹرول کی بچت بھی ہو گی‘ ہر ووکیشنل سینٹر کوئی ایک انڈسٹری بھی پروان چڑھائے ‘ اس سے طالب علموں کو ٹیکنیکل نالج بھی ملے گا‘ اسپیشلائزیشن بھی ہو گی اور انڈسٹری بھی ترقی کرے گی۔
(نوٹ: تعلیم کے یہ تمام ماڈل اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں کامیابی سے چل رہے ہیں‘ کوئی ادارہ‘ کوئی صوبائی‘ ضلعی یا وفاقی حکومت اس پر پالیسی بنانا چاہے تو اس پر بھی تفصیلی بات ہو سکتی ہے ۔)
روز گار حل
جاوید چوہدری منگل 20 نومبر 2012
شیئر
روز گار کے بغیر فرد چل سکتا ہے اور نہ ہی معاشرہ لہٰذا معاشی خوش حالی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے‘ خوش حالی کے لیے ہمیں انفرادی اور قومی دونوںسطحوں پر کام کرنا ہوگا‘ میں پہلے انفرادی حل تجویز کرتا ہوں۔
آپ یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید کے ترقی یافتہ ممالک کو اسٹڈی کر لیجیے‘ وہاں والدین اس وقت تک بچے کے نان نفقے کے ذمے دار ہوتے ہیں جب تک اس کی جیب میں شناختی کارڈ نہیں آ جاتا‘ امریکا اور یورپ میں ٹیکسی ڈرائیور کا بچہ ہو یا پھر وہ کسی ارب پتی شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہو‘ وہ جانتا ہے میں جس دن جوان ہو جائوں گا مجھے اپنی پاکٹ منی‘ اپنی رہائش اور اپنی سواری کا خود بندوبست کرنا ہو گا چنانچہ یہ بچے جوان ہونے سے پہلے ہی پارٹ ٹائم کام شروع کر دیتے ہیں‘ میں یورپ کے ایسے بے شمارگھروں میں گیا جن میں جوان بچے اپنے ہی والدین کے پے اینگ گیسٹ تھے‘ وہ والدین کے گھر میں رہتے تھے لیکن وہ کمرے کا کرایہ اور کھانے کا بل ادا کرتے تھے۔ یورپ کے تمام بچے جوان ہونے کے بعد جاب کرتے ہیں اور جاب کے لیے ظاہر ہے ہنر درکار ہوتا ہے چنانچہ یہ بچپن ہی سے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ لیتے ہیں اور اس عمل میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں برابر ہوتے ہیں۔
ہم بھی آج سے فیصلہ کر لیں‘ ہم اپنے بچوں کا بوجھ صرف اٹھارہ برس تک اٹھائیں گے‘ یہ اس کے بعد خود کمائیں گے‘ بچیاں گھروں میں رہ کر کوئی نہ کوئی ایسا کام کریں جس سے یہ اپنا اور خاندان کا معاشی بوجھ اٹھا سکیں اور بچے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کوئی ہلکی پھلکی جاب کریں یا کوئی چھوٹا موٹا بزنس کریں‘ اس سے بچوں میں اعتماد بھی پیدا ہو گا‘ انھیں جاب کرنے کی ٹریننگ بھی ملے گی‘ انھیں پیسے کی اہمیت کا اندازہ بھی ہو گا‘ خاندان پر معاشی دبائو بھی کم ہو گا اور معاشرے میں نئی جابز بھی نکلیں گی ۔دو‘ ہم اور ہمارے بچے صرف جاب کے لیے تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں ہم پڑھیں لکھیں گے اور پھر بڑے عہدیدار بن جائیں گے ‘ اس سوچ کے نتیجے میںملک میں دو کروڑ بے روزگار ڈگری ہولڈر موجود ہیں اور ان میں ہر سال دس لاکھ لوگوںکا اضافہ ہو جاتا ہے ‘ ہمیں فوری طور پر اس اپروچ کو تبدیل کرنا ہو گا‘ ہمںں فیصلہ کرنا ہو گا تعلیم روزگار کے لیے نہیں‘ شعور کے لیے ہوتی ہے اور ہم نوکری کے بجائے کاروبار کریں گے ‘ ہم پانچ دس ہزار روپے سے کوئی معمولی کام شروع کریں گے اور اپنی محنت سے اس کام کو لاکھوں کروڑوں روپے کے اثاثوں تک لے جائیں گے۔
آپ فرض کیجیے ایک شہر میں لاکھ لوگ رہتے ہیں‘ یہ لاکھ لوگ صرف لوگ نہیں ہیں‘ یہ ایک لاکھ گاہک یا صارف بھی ہیں اور آپ کو اگر ان میں سے ایک ہزار گاہک مل جائیں اور آپ ہر گاہک سے صرف ایک روپیہ کمائیں تو آپ روزانہ ہزار روپے کما سکتے ہیں اور 20‘ 25 سال کے نوجوان کے لیے یہ اچھی خاصی رقم ہے‘ بس آپ کو ایک اچھا بزنس آئیڈیاچاہیے اور آپ تعلیم کی بدولت یہ آئیڈیا چند دنوں میں حاصل کر سکتے ہیں‘ کاروبار سنت بھی ہے اور ترقی کی چابی بھی۔ آپ ملازمت میں دس لاکھ روپے تنخواہ لے لیں تو بھی آپ ملازم ہی رہتے ہیں چنانچہ ہمیں پڑھے لکھے بچوں کا دماغ ملازمت سے کاروبار کی طرف شفٹ کرنا ہو گا‘ اس سے ہمارے بچے بھی خوشحال ہو جائیں گے‘ ملک میں ان پڑھ اور بے ہنر لوگوں کے لیے نوکریاں بھی نکلیں گی اور حکومت پر جابز کا دبائو بھی کم ہو جائے گا اور تین‘ ہم میں سے ہر شخص کے پاس کوئی نہ کوئی ہنر ہونا چاہیے‘ ہم خواہ پی ایچ ڈی ہوں‘ ہم خواہ ارب پتی ہوں اور ہم خواہ وزیراعظم ہوں‘ ہمیں کوئی نہ کوئی کام‘ کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سیکھنا چاہیے‘ اس سے ہم کام کی عظمت سے بھی آگاہ ہوں گے اور ہمارے دل میں کام کرنے والوںکااحترام بھی پیدا ہوگا‘ امریکا میں ہر شخص کے پاس اپنا ’’ٹول باکس‘ ہوتا ہے اور یہ عموماً گھر کے نلکے سے لے کر چھتوں کی مرمت تک خود کرتا ہے‘ اس وجہ سے امریکا میں موچی‘ نائی‘ ترکھان‘ لوہار اور سویپر کو بھی عزت دی جاتی ہے کیونکہ وہاں جارج بش اور براک حسین اوباما بھی یہ کام جانتے ہیں۔
آپ اب آئیے اسٹیٹ کی طرف۔ حکومت کو فوری طور پر تمام سرکاری اسکولوں کو ووکیشنل اداروں میں تبدیل کر دینا چاہیے۔( میں عام تعلیم کے لیے اگلے کالم میں حل تجویز کروں گا‘ عام تعلیم کے لیے حکومت کو نئے اسکول بنانا پڑیں گے اور نہ ہی بجٹ دینا پڑے گا )اور پاکستان میں ہاتھ سے کام کرنے والے ‘ ہر پیشے کے لیے کم از کم چار سال کا کورس لازمی قرار دے دیا جائے۔ ہم اس ضمن میں جرمنی کی مثال لے سکتے ہیں‘ جرمنی میں کوئی شخص اس وقت تک ترکھان‘ لوہار‘ درزی‘ موچی اور نائی کا کام نہیں کر سکتا جب تک وہ چار پانچ سال کا کورس نہ کر لے اور جرمنی کی وزارت تعلیم اسے باقاعدہ سرٹیفکیٹ جاری نہ کر دے۔ جرمنی میں ہر بچے کے لیے روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی ایک پیشے کی تعلیم ضروری ہے چنانچہ جرمنی کا چانسلر اور وزیراعظم سیاسی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ ترکھان‘ موچی‘ نائی یا پھر لوہار بھی ہوتا ہے۔
اگر جرمی یہ کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ حکومت پاکستان آج سے قانون بنا دے ملک میں تمام پیشوں سے منسلک 35 سال سے کم عمر ہنر مند ووکیشنل اداروں سے تعلیم حاصل کریں گے‘ ان لوگوں کو پانچ سال دیے جائیں‘ ان میں سے جو شخص کورس کر لے اسے کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے اور جونہ کرے اس پر پابندی بھی لگا دی جائے اور اسے سخت ترین سزا بھی دی جائے۔ حکومت بے روزگار نوجوانوں اور بچوں کو دن کے وقت ووکیشنل ٹریننگ دے اور برسرروزگار لوگوں کے لیے شام اور رات کی کلاسیں شروع کی جائیں‘ انھیں ووکیشنل ٹریننگ کے ساتھ ساتھ انگریزی‘ اردو اور ریاضی کی ابتدائی تعلیم بھی دی جائے‘ حکومت اسکول نہ جانے والے تمام بچوں کے لیے ووکیشنل تعلیم ضروری قرار دے دے ‘ اس سے تعلیم کو غیر ضروری سمجھنے والے والدین بھی مطمئن ہو جائیں اور بے کار بچوں کو بھی اپنا مستقبل روشن دکھائی دینے لگے۔
حکومت دنیا بھر سے ہنرمندوں کے لیے معاہدے کرے اور ان ووکیشنل اداروں کے کوالیفائیڈ بچوں کو باقاعدہ سرکاری سرپرستی میں ملک سے باہر بھجوایا جائے‘ حکومت اس سلسلے میں بینکنگ سیکٹر کی مدد لے سکتی ہے‘ بینک ووکیشنل اداروں کے طالب علموں کو آسان قرضے دیں‘ یہ ووکیشنل اداروں کے طالب علموں کی فیسیں براہ راست جمع کرا دیں اور یہ لوگ تعلیم سے فراغت کے بعد کما کر بینکوں کو ادائیگی کر دیں‘ اس سے ملک میں معاشی تبدیلی بھی آجائے گی اور کام کے بارے میں ہمارا رویہ بھی بدل جائے گا۔
حکومت ملک میں پانچ سال بعد مکان بنانے پر پابندی لگا دے‘ ملک میں تعمیرات کی ہزاروں چھوٹی بڑی کمپنیاں رجسٹرڈ کی جائیں‘ حکومت انھیں ایسے گھر ڈیزائن کروا کر دے جو سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے رہیں اور جن میں روشنی اور ہوا کا بندوبست بھی ہو‘ اس سے انرجی کامسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور تعمیراتی کمپنیوں کی شکل میں نیا شعبہ بھی کھل جائے گا‘ یہ کمپنیاں ووکیشنل اداروں سے فارغ التحصیل بچوں کو جاب بھی دیں گی اور عام شہریوں کو سستے اور اچھے گھر بھی مل جائیں گے اور یوں ملک میں ساٹھ کے قریب انڈسٹریز چلنے لگیں گی۔ حکومت تمام شہروں میں چھوٹے انڈسٹریل زون بنا دے‘ مقامی ایم پی اے اور ایم این اے کو ان زون کا سرپرست بنا دیا جائے‘ ان زونز میں زمین مفت الاٹ کی جائے‘ یہ زمین لیز پر ہو‘ یہ لیز نان ٹرانسفر ایبل ہو‘ نوجوانوں کو چھوٹے چھوٹے یونٹ لگانے کا موقع دیا جائے اوران یونٹس میں ووکیشنل اداروں سے فارغ التحصیل بچوںکو جاب دی جائے‘ ایک انڈسٹریل زون میں ایک ہی قسم کی پراڈکٹ بنائی جائیں‘ اس سے ہر علاقہ کسی ایک فن میں ماہر ہو جائے گا۔
اس سے کساد بازاری بھی کم ہو گی اور دوسرے علاقوں کی انڈسٹری بھی پروان چڑھے گی ۔ مثلاً آپ فرض کیجیے‘ قصور میں دھاگا بن رہا ہے‘ پاکپتن میں بٹن بن رہے ہیں‘ بہاولپور میں بکرم بن رہی ہے‘ ملتان میں کپڑے کے رنگ تیار ہو رہے ہیں‘ سکھر میں گارمنٹس فیکٹریاں لگی ہیں اور حیدرآباد میں پیکنگ کی انڈسٹری کام کر رہی ہے‘ اس سے شہروں میں اسپیشلائزیشن کا رجحان بھی بڑھے گا‘ خریدار کی سردردی بھی کم ہو جائے گی‘ ٹرانسپورٹیشن کی فیلڈ بھی ترقی کرے گی اور صنعت کار کی مناپلی بھی ٹوٹ جائے گی‘ سیاسی جماعتیں ارکان اسمبلی کی کارکردگی کو ووکیشنل اداروں اور انڈسٹریل زون سے ’’لنک‘‘ کر دیں جس رکن اسمبلی کی انڈسٹریل زون اور ووکیشنل ادارے زیادہ پیداوار دیں گے سیاسی جماعت اس رکن اسمبلی کے درجے میں بھی اضافہ کر دے اور اس کا ٹکٹ بھی پکا ہو جائے بصورت دیگر اس کا سیاسی کیرئر ختم ہو جائے۔
شہر کی نالیاں‘ سڑکیں‘ گلیاں‘ پارکس‘ لائبریریاں‘ گرائونڈز‘ سیوریج اور ٹریفک انڈسٹریل زون کے حوالے کر دی جائیں‘ یہ لوگ انھیں خود تعمیر کروائیں‘ خود ان کی حفاظت کریں‘ ان پر خود ٹکٹ لگائیں اور انھیں خود چلائیں‘ اس سے شہر میں ’’سینس آف اونر شپ‘‘ بھی ڈویلپ ہو گی‘ کرپشن بھی کم ہو جائے گی‘ حکومت کا ترقیاتی بجٹ بھی بچے گا‘ انفرااسٹرکچر بھی بہتر ہو گا اور تعمیرات کا معیار بھی اچھا ہو جائے گا۔ حکومت اس خدمت کے بدلے صنعت کاروں کو ٹیکس میںچھوٹ دے دے۔
(نوٹ: یہ معیشت کے لیے چند ایسے نسخے ہیں جو میں نے ستر ممالک کی سیاحت کے دوران سیکھے‘ دنیا میں ان پر عمل بھی ہو رہا ہے اور دنیا نتائج بھی حاصل کر رہی ہے‘ اگر کوئی صاحب یاصوبائی اور ضلی حکومت ان میں سے کسی ایک پر کام کرنا چاہے تو ہم اسے تفصیل سے ڈسکس کر سکتے ہیں۔)

سوچیے گا ضرور…!
جاوید چوہدری ہفتہ 17 نومبر 2012
فوربز میگزین ہر سال دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست شایع کرتا ہے‘ فوربز میگزین کے بارے میں کہا جاتاہے دنیا کا کوئی ارب پتی شخص اس وقت تک ارب پتی نہیں بنتا جب تک فوربز میگزین اسے ارب پتی تسلیم نہیں کر لیتا۔
فوربز نے ستمبر2012 میں دنیا کے چار سو ارب پتی لوگوں کی فہرست شایع کی‘ ا س فہرست میں پہلی بار ایک پاکستانی امریکن شہری کا نام آیا‘ اس شخص کا نام شاہد خان ہے‘ یہ 1950 میں لاہور میں پیدا ہوئے‘ ان کا خاندان تعمیرات کے شعبے سے وابستہ تھا‘ شاہد خان سولہ سال کی عمر میں امریکا چلے گئے‘ یہ امریکا میں ابتدائی راتیں دو ڈالر کے کمرے میں گزارتے رہے‘ امریکا میں ان کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ عام پاکستانیوں کی طرح چھوٹی موٹی نوکری تلاش کرتے اور خود کو روزگار کے تنور کا ایندھن بنا دیتے یا پھر یہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے اور اپنے لیے کوئی باعزت پیشہ چن لیتے‘ امریکا میں غیر ملکی طالب علموں کے لیے تعلیم بہت مہنگی ہے لیکن شاہد خان نے اس کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
امریکا سپر پاور ہے اور سپر پاور ہر شعبے میں سپر ہوتی ہے‘ امریکا تعلیم کے شعبے میں پوری دنیا سے آگے ہے‘ یہ تعلیم کا ویٹی کن سٹی ہے چنانچہ جو شخص امریکا میں رہ کر تعلیم حاصل نہیں کرتا اس شخص کی مثال اس مسلمان جیسی ہے جو مکہ میں رہ کر حج یا عمرہ نہیں کرتا‘ مںا امریکا سے آنے والے اکثر پاکستانیوں سے پوچھتا ہوں ’’کیا آپ نے امریکا کے کسی پروفیشنل اسکول یا یونیورسٹی سے کوئی کورس کیا؟‘‘ نوے فیصد کا جواب ناں ہوتا ہے۔ میں ان سے عرض کرتا ہوں آپ کس قدر بدنصیب ہیں آپ سونے کی کان میں رہتے ہیں لیکن آپ نے سونے کا رنگ نہیں دیکھا‘ امریکا اپنے تعلیمی اداروں کی وجہ سے امریکا ہے‘ امریکا میں رہنے والے لوگوں کو اس کے تعلیمی اداروں میں چند مہینے ضرور گزارنے چاہئیں‘ خواہ یہ وہاں باتھ روم ہی کیوں نہ صاف کریں۔ شاہد خان سمجھدار تھے چنانچہ انھوں نے یونیورسٹی آف ایلی نوئز کالج آف انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا‘ یہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ریستوران میں برتن بھی دھوتے تھے‘ انھیں اس کام کا ایک ڈالر 20 سینیٹ فی گھنٹہ مزدوری ملتی تھی۔
شاہد خان نے انجینئرنگ اسکول میں تھوڑی مدت گزارنے کے بعد فلیکس اینڈ گیٹ نام کی کمپنی میں پارٹ ٹائم کام شروع کر دیا‘ یہ کمپنی گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس بناتی تھی‘ شاہد خان کام کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے 1971 میں انجینئرنگ اسکول سے گریجویشن کر لی‘ گریجوایشن کے بعد یہ فلیکس اینڈ گیٹ میں ڈائریکٹر لگ گئے‘ نوکری کے دوران انھیں محسوس ہوا امریکا کی کوئی کمپنی پک اپ ٹرکس کے لیے ’’ون پیس‘‘ بمپر نہیں بنا رہی‘ کمپنیاں دو دو‘ تین تین پیس میں بمپر بناتی ہیں‘ یہ بمپر ٹکڑوں میں ٹرک کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں‘ سفر اور وزن کی وجہ سے بہت جلد ان بمپرز کے جوڑ کھل جاتے ہیں۔ شاہد خان نے نوکری سے استعفیٰ دیا‘ اسمال بزنس لون کارپوریشن سے پچاس ہزار ڈالر قرض لیا‘ ان کے پاس 16ہزار ڈالر اپنے جمع تھے‘ انھوں نے 1978 میں 66 ہزار ڈالر سے ون پیس بمپر بنانا شروع کر دیے‘ آئیڈیا اچھا تھا چنانچہ ان کا کام چل نکلا‘ خوشحالی آئی اور شاہد خان نے دو سال میں وہ فلیکس اینڈ گیٹ کمپنی خرید لی جس میں وہ طالب علمی کے دوران کام کرتے رہے تھے۔
انھوں نے فلیکس اینڈ گیٹ خریدی اور امریکا کی تین بڑی آٹو موبائل کمپنیوں کو بمپر سپلائی کرنا شروع کر دیے۔ شاہد خان پر ترقی کے دروازے کھل گئے۔ 1984میں ٹویوٹا کمپنی نے شاہد خان سے پک اپ گاڑی کے بمپر خریدنا شروع کر دیے۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ شاہد خان1987 تک ٹویوٹا پک اپ کے لیے بمپر سپلائی کرنے والے واحد صنعت کار بن گئے۔1989 میں شاہد خان کو ٹویوٹا کمپنی کی تمام گاڑیوں کے بمپر مل گئے‘ یہ واحد کمپنی تھی جو ٹویوٹا کو بمپر فراہم کرتی تھی اور یوں شاہد خان امریکا کے بڑے بزنس مین بنتے چلے گئے۔ 2011 میں ان کی کمپنی میں 12 ہزار 4 سو 50 ملازم تھے اور ان کے پاس 48 مینوفیکچرنگ پلانٹس تھے‘شاہد خان نے دسمبر 2011 میں 76 کروڑ ڈالر میں امریکا کا بڑا فٹ بال کلب جیکسن ولے جیگوار بھی خرید لیا‘ یہ امریکا کی قومی فٹ بال لیگ ہے۔ فوربز نے ستمبر2012میں شاہد خان کو دنیا کے ارب پتیوں کی فہرست میں شامل کر لیا‘ یہ امریکا کے 179 ویں اور دنیا کے 491 ویں امیر ترین شخص ہیں‘ ان کے پاس اڑھائی ارب ڈالر ہیں۔
امریکا کی ساڑھے 31 کروڑ کی آبادی میں 179ویں نمبر پر آنا اور دنیا کے ساڑھے چھ ارب لوگوں میں 491 ویں نمبر کا امیر شخص کہلانا واقعی اعزاز کی بات ہے اور یہ اعزاز صرف اور صرف اپنی محنت کی بنیاد پر 34 برسوں میں حاصل کرنا کمال ہے اور شاہد خان اس کمال پر مبارک باد کے قابل ہیں لیکن یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے‘ اگر شاہد خان پاکستان میں ہوتے تو کیا یہ اس ملک میں بھی ارب پتی بن سکتے تھے؟ اس کا جواب دو کلومیٹر لمبی ناں ہے‘ اس ناں کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ‘ ہمارا قومی رویہ ہے‘ ہمارے معاشرے میں سیلف میڈ لوگوں کو قبول نہیں کیا جاتا‘ ہم دولت کو صرف وڈیروں‘ جاگیرداروں اور جدی پشتی سرمایہ داروں کا حق سمجھتے ہیں اور ہم میں سے اگر شاہد خان جیسا کوئی شخص آگے نکل جائے تو یہ معاشرہ اس کے ساتھ جذام کے مریضوں جیسا سلوک کرتا ہے‘ یہ اسے ولن بنا دیتا ہے۔
میں اس سلسلے میں بے شمار لوگوں کی مثال دے سکتا ہوں‘ میں پاکستان کے ایسے درجنوں لوگوں کو جانتا ہوں جو اگر یورپ یا امریکا میں ہوتے تو ان معاشروں کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے‘ یہ لوگ میٹرک پاس ہیں لیکن انھوں نے اس واجبی تعلیم کے باوجود ایشیا کی سب سے بڑی ہائوسنگ اسکیم بنائی‘ تیسری دنیا کا سب سے بڑا بینک بنایا‘ انھوں نے کوریا‘ ملائیشیا اور دبئی کے سسٹم بنائے اور یہ جب ملائیشیاء جاتے ہیں تو مہاتیر محمد اور ترکی جاتے ہیں تو طیب اردگان اور سائوتھ افریقہ جاتے ہیں تو نیلسن منڈیلا کے ساتھ ڈنر کرتے ہیں‘ ان لوگوں نے بے روزگاری کے شکار اس ملک کو پانچ پانچ‘ دس دس لاکھ نوکریاں دیں‘ اس ملک جس میں پی آئی اے اور ریلوے جیسے ادارے بیٹھ گئے ہیں اس میں ان عام لوگوں نے تمام تر معاشرتی‘ سرکاری‘ دفتری اور سیاسی دبائو کے باوجود اربوں روپے کے منصوبے بنائے‘ انھوں نے لوگوں کا طرز معاشرت تک تبدیل کر دیا۔
آج جب وفاقی حکومت سی ڈی اے اور پنجاب حکومت ایل ڈی اے نہیں چلا پا رہی‘ پوری حکومت مل کر گھروں کے سامنے سے کچرا صاف نہیں کر پا رہی‘ اس میں چند لوگوں نے پورے پورے ماڈرن شہر آباد کر دیے جن میں چوبیس گھنٹے پانی‘ چوبیس گھنٹے بجلی‘ چوبیس گھنٹے سیکیورٹی‘ چوبیس گھنٹے اسپتال اور چوبیس گھنٹے فائر بریگیڈ کی سروس دستیاب ہوتی ہے اور اسکول‘ کالج اور یونیورسٹی بھی‘ پارکس بھی‘ مارکیٹس بھی اور ڈے کیئر سینٹر اور اولڈ ہومز بھی اور میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو اربوں روپے کے ویلفیئر ادارے چلا رہے ہیں لیکن معاشرہ انھیں تسلمی کرنا تو دور کی بات انھیں چور ثابت کرنے میں جتا ہوا ہے۔
اگر امریکا جیسا اسلام دشمن ملک شاہد خان جیسے پاکستانی کو ترقی کا موقع فراہم کرتا ہے‘ یہ اسے فوربز میگزین کے ارب پتیوں میں بھی شامل کرتا ہے اور امریکا کی تین بڑی یونیورسٹیاں اسے ایوارڈ دیتی ہیں تو ہمںا بھی کم از کم ان لوگوں کے کنٹری بیوشن کو تسلیم کرنا چاہےت جو پاکستان میں رہ کر ترقی بھی کرتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو ملازمتیں بھی دیتے ہیں‘ ہمیں ان لوگوں کو صرف ترقی کرنے کے جرم میں عبرت کا نشان نہیں بنانا چاہیے۔ ہمارے ملک میں کسی شخص کے لیے ترقی کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے آپ اس کااندازہ لگانے کے لیے اپنے گھر یا اپنے دفتر میں دو ملازم رکھ لیجیے‘ یہ دو ملازم اگر آپ کو ایک مہینے میں رونے پر مجبور نہ کر دیں تو آپ میرا نام بدل دیجیے گا چنانچہ اس ملک میں چار‘ پانچ لاکھ لوگوں سے کام لینا اور آخر میں ڈیلیور بھی کرنا واقعی کمال ہے لیکن ہم ایسے کمال کرنے والوں کی عزت نہیں کرتے۔
پاکستان میں شاہد خان جیسے لوگوں کی ناکامی کی دوسری وجہ ہماری غیر سرمایہ کارانہ سوچ ہے‘ ہم آج بھی دولت‘ سرمایہ داروں‘ صنعت اور تجارت سے نفرت کرتے ہیں۔ آج پوری دنیا تبدیل ہو چکی ہے‘ آج فوربز کی فہرست کے پہلے 100ارب پتیوں میں اس روس کے 12 ارب پتی موجود ہیں جو 25 سال پہلے تک دنیا میں مارکسزم کا قبلہ ہوتا تھا‘ آج سوشلزم کا سب سے بڑا چیمپئن چین سرمایہ داری نظام میں ناک تک دفن ہو چکا ہے اور آج حج اور عمرہ اسلامی دنیا کا سب سے بڑا کاروبار بن چکا ہے لیکن ہم آج بھی فیکٹری والے‘ فارم ہائوس والے‘ دکان والے اور تجارت والے کو گالی دیتے ہیں اور ہم اس سے نفرت کرتے ہوئے یہ تک بھول جاتے ہیں یہ لوگ معاشرے کے اصل محسن ہیں‘ ان میں سے ہر شخص سیکڑوں‘ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہا ہے اور اگر یہ لوگ کام بند کر دیں تو انسان دوسرے انسان کو کھانا شروع کر دے۔
ہم آج 2012 میں سرمایہ داری کو بھی گالی دے رہے ہیں اور فیکٹریوں کو بھی آگ لگا رہے ہیں جب کہ امریکا جیسے ملک پاکستان کے اس شاہد خان کو ایوارڈز دے رہے ہیں جو تیرہ ہزار امریکیوں کے روزگار کا ذریعہ بن رہا ہے اور جس نے امریکی معاشرے میں اڑھائی ارب ڈالر کمائے۔ آپ انٹرنیٹ سے شاہد خان کی تصویر نکالیے اور اس کے بعد سوچیے کیا امریکا ٹھیک ہے یا پھر ہم لوگ اور اگر امریکا ٹھیک ہے تو پھر ہم اس ملک کے شاہد خانوں کو ایسا ماحول کیوں نہیں دیتے جس میں رہ کر یہ ترقی بھی کر سکیں اور اس ملک کو امریکا بھی بنا سکیں۔ سوچیے گا ضرور…!
کینسر
جاوید چوہدری جمعـء 16 نومبر 2012
ازبکستان میں پچھلے دس برسوں سے کوئی گاڑی چوری نہیں ہوئی۔
لوگ گاڑیاں گلیوں میں کھڑی کر جاتے ہیں اور کوئی ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھتا‘ اس کی وجہ سزا ہے‘ ازبکستان میں گاڑی چوری کی سزا موت ہے اور اس سزا میں کسی سے کوئی رعایت نہیں برتی جاتی جب کہ ازبکستان کے مقابلے میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے روزانہ تنا گاڑیاں چوری ہو تی ہیں اور پولیس بے بسی سے دائیں بائیں دیکھتی رہتی ہے‘ ہم اگر وجوہات میں جھانک کر دیکھیں تو دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں‘ کار چوری کے لیے تین گروہ کام کر رہے ہیں‘ کار چور‘ کار ہینڈلر اور کار سیلر‘ کار چور وفاقی دارالحکومت کے نوجوان لڑکے ہیں‘ یہ اسلام آباد کی ایک ایک گلی‘ ایک ایک سڑک سے واقف ہیں‘ یہ دو دو‘ تین تین کی ٹولیوں میں ہفتہ بھر گاڑیوں کی ریکی کرتے ہیں‘ یہ نئے ماڈل کی کرولا گاڑیاں تلاش کرتے ہیں۔
ان کا پچھلا شیشہ توڑتے ہیں‘ گاڑی کھولتے ہیں اور گاڑی لے جاتے ہیں‘ ان کے پاس ’’چور سوئچ ‘‘ کو ڈس فنکشن کرنے کے آلات ہوتے ہیں‘ یہ لائیٹر کی جگہ جیمر لگاتے ہیں اور گاڑی اسلام آباد کی مختلف گلیوں اور سڑکوں سے گزار کر موٹروے تک لے جاتے ہیں‘ موٹر وے پر ہینڈلر کھڑے ہوتے ہیں‘ ہینڈلر اس سے گاڑی وصول کرتے ہیں اور اسے خیبر پختونخواہ میں کار سیلر تک پہنچا دیتے ہیں‘ کار چور اور ہینڈلر کو اس کارروائی میں پچاس پچاس ہزار روپے ملتے ہیں جب کہ کار سیلر یہ گاڑی اڑھائی سے تین لاکھ روپے میں خریدتا ہے‘ یہ اس کا انجن نمبر اور چیسز نمبر تبدیل کرتا ہے‘ اس کے کاغذات تیار کرتا ہے اور یہ گاڑی لاہور اور کراچی میں بیچ دی جاتی ہے‘ یہ کاروبار کئی برسوں سے جاری ہے لیکن آج تک اس ریکٹ کا کوئی ملزم نہیں پکڑا گیا‘ کیوں نہیں پکڑا گیا‘ اس کی وجہ وہ با اثر لوگ ہیں جن کا ہاتھ اس ریکٹ کے سر پر ہے۔
پولیس نے ایک بار مرکزی ملزم کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن یہ ملزم کے قریب پہنچی تو ملزم کی گاڑی پر وزارت کا جھنڈا لگا تھا اور اس کے آگے اور پیچھے ایف سی کی چار چار گاڑیاں تھیں چنانچہ پولیس سیلوٹ کر کے واپس آ گئی‘ کراچی اور لاہور کی صورتحال بھی مختلف نہیں‘ کراچی اور لاہور سے گاڑیاں چوری ہوتی ہیں‘ ہائی وے اور موٹروے کے ذریعے قبائلی علاقوں میں پہنچتی ہیں اور شناخت کی تبدیلی کے بعد نئے گاہکوں کو بیچ دی جاتی ہیں‘ چوری شدہ گاڑیوں کے کاغذات اور نمبر حکومت کے مختلف اداروں تک پہنچتے ہیں اور یہ ادارے یہ نمبر نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر لگا کر ملک میں دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی ان سے ایک لفظ تک نہیں پوچھتا۔
یہ قانون کی خلاف ورزی کی صرف ایک مثال تھی‘ آپ دوسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور خوشحال شہر ہے‘ یہ پاکستان کا دل کہلاتا ہے لیکن یہ آج اپنی ہی نعش کا نوحہ بن گیا ہے‘ کراچی میں پچھلے دس برسوں میں گیارہ ہزار لوگ قتل ہوئے‘ چار برسوں مںی چھ ہزار نو سو لوگ مارے گئے جب کہ ایک سال میں ایک ہزار 8 سو 23 لوگ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے‘ اس مہینے 88 لوگ مارے گئے‘ شہر کی حالت یہ ہے گلیوں سے اچانک لوگ نکلتے ہیں اور ان کے سامنے جو بھی کھڑا ہو اسے گولی مار کر اطمینان سے گھر چلے جاتے ہیں اور نعش دیر تک سڑک پر پڑی رہتی ہے‘ تاجروں‘ صنعت کاروں‘ دکانداروں‘ سرمایہ کاروں حتیٰ کہ سیاستدانوں تک کو بھتے کی پرچیاں ملتی ہیں اور وہ شخص پرچی پر لکھے نمبر پر رابطے کے لیے بھی مجبور ہوتا ہے اور مطالبہ ماننے پر بھی‘ بھتے کی کارروائی اس قدر پھیل چکی ہے کہ اب غیر ملکی سرمایہ کاروں سے بھی بھتہ مانگا جاتا ہے اور یہ بھی جان‘ مال اور آبرو بچانے کے لیے مطالبہ ماننے پر مجبور ہیں۔
کراچی کے مختلف علاقے مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں اور ہر گروہ اپنے علاقے میں رہنے والوں سے ’’ پروٹیکشن منی‘‘ کے نام پر بھتہ وصول کر رہا ہے مگر حکومت خاموش بیٹھی ہے‘ یہ خاموشی سیاسی مصلحت کا نتیجہ ہے‘ کراچی میں تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی‘ یہ تینوں کولیشن پارٹنر ہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سندھ اور وفاق دونوں حکومتوں میں اتحادی ہیں جب کہ اے این پی وفاق میں جمہوریت کا ستون ہے‘ ان تینوں جماعتوں کے ریکٹ کراچی میں سرگرم ہیں‘ ان تینوں نے شہر کو آپس میں تقسم کر رکھا ہے اور حکومت صرف اپنا اقتدار بچانے کے لیے خاموش رہنے پر مجبور ہے‘ یہ اگر پیرول پر رہا ہونے والے ملزمان کی گرفتاری کا فیصلہ کرتی ہے تو اپنی بڑی اتحادی جماعت ناراض ہو جاتی ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کا سندھ اور وفاق دونوں میں اقتدار لرزنے لگتا ہے۔
اسی طرح اگر حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کے مافیا کے سروں پر لگی قیمت نہیں ہٹاتی تو پارٹی کے اندر بغاوت شروع ہو جاتی ہے‘ اے این پی بھی بوقت ضرورت وفاقی حکومت کو دبا لیتی ہے جس کے نتیجے میں صدر آصف علی زرداری کو ان کے لیے بھی وسیع تر مفاد کے دروازے کھولنا پڑتے ہیں‘ سنی تحریک اور مہاجر قومی موومنٹ (آفاق گروپ) بھی تیزی سے سے سر اٹھا رہی ہے اور اگلی حکومت کو ان دونوں کو بھی اقتدار میں حصہ دینا ہو گا‘ جماعت اسلامی بھی کراچی کی دعویدار ہے اور اگر انھوں نے بھی الیکشن لڑا اور کراچی میں سیٹیں حاصل کر لیں تویہ بھی اقتدار میں حصہ مانگے گی‘ کراچی بڑی تیزی سے شیعہ سنی میں بھی تقسیم ہو رہا ہے‘ لوگ اب ایک دوسرے کی سیاسی وابستگی کے ساتھ ساتھ مسلک کی ٹوہ لگانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔
کراچی میں بے شمار ایسی سڑکیں‘ چوک اور گلیاں ہیں جن میں روزانہ مقررہ وقت پر گاڑیاں روک کر پرس اور موبائل چھینے جاتے ہیں‘ کراچی میں عوام ان جرائم کو نفسیاتی طور پر قبول کر چکے ہیں‘ آج کراچی کا ہر شہری دو موبائل اور دو پرس لے کر گھر سے نکلتا ہے‘ اصلی پرس اور مہنگا موبائل گاڑی کے خفیہ خانوں میں چھپا دیا جاتا ہے جب کہ سستا موبائل اور عام پرس جس میں تین چار ہزار روپے ہوتے ہیں یہ جیب میں ڈال لیا جاتا ہے اور جوں ہی کوئی شخص ریوالور دکھاتا ہے ہدف چپ چاپ موبائل اور پرس اس کے حوالے کر دیتا ہے‘ لوگ اب لٹنے کے بعد خدا کا شکر ادا کرتے ہیں ہماری جان اور عزت بچ گئی‘ کراچی کے تاجر مہنگی اور بڑی گاڑیاں گیراج میں کھڑی کر کے چھوٹی گاڑیوں میں گھروں سے نکلتے ہیں‘ یہ اچھے کپڑے‘ قیمتی گھڑی اور زیورات بھی نہیں پہنتے کہ کہیں یہ مافیا کی نظر میں نہ آ جائیں۔
یہ گھر کا سودا سلف بھی دس پندرہ کلو میٹر دور جا کر خریدتے ہیں کہ کہیں دکاندار ان کی خوشحالی کی مخبری نہ کر دے‘ آپ کراچی کے کسی شہری سے پوچھ لیں ’’آپ کتنی بار لوٹے گئے یا کتنی بار گولی آپ کے کان یا سر کے قریب سے ہو کر گزر گئی‘‘ وہ بڑے اطمینان سے جواب دے گا‘ دس بارہ مرتبہ‘ کراچی شہر میں لوگوں نے اب اپنا پورا نام بتانا چھوڑ دیا ہے‘ لوگ اب امین میمن سے صرف امین‘ طاہر نقوی سے صرف طاہر‘ احمد فاروق سے صرف احمد اور علی خان سے صرف علی ہیں‘ کراچی کے لوگ جان بچانے کے لیے بلوچی بھی سیکھتے ہیں‘ سندھی بھی‘ اردو بھی اور پشتو بھی اور یہ جس جس علاقے سے گزرتے ہیں وہاں کی اکثریت کی زبان بولنے لگتے ہیں یہاں تک کہ اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں چنانچہ کراچی اب کراچی نہیں رہا ہے خوف‘ موت اور آسیب کا گھر بن چکا ہے اور یہ گھر اس وقت تک آسیب‘ موت اور خوف کی قیام گاہ رہے گا جب تک ہم کراچی پر قانون کی چادر نہیں ڈالتے۔
ہم نے ملک کو مختلف مافیاز میں بانٹ دیا ہے اور ہر مافیا قانون‘ انصاف اور اخلاقیات سے زیادہ مضبوط ہے‘ ہم نے خیبر پختونخواہ کے علاقے کار اور منشیات مافیا کے حوالے کر دیے ہیں‘ کراچی بھتہ مافیا کے کنٹرول میں ہے‘ سندھ وڈیروں کے قبضے میں ہے‘ بلوچستان کرپٹ سیاستدانوں اور حریص سرداروں کی جیب میں چلا گیا‘ پنجاب پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے اور اسلام آباد روز وسیع تر قومی مفاد کی قربان گاہ میں ذبح ہوتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم ملزم کو ملزم کے بجائے پٹھان‘ مہاجر‘ پنجابی‘ بلوچی‘ پیپلز پارٹی‘ ن لیگ‘ میرا بھائی اور میرا اتحادی کی نظر سے دیکھتے رہیں گے۔
ہم جب تک قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ نہیں دیں گے‘ ہم جب تک انھیں یہ اجازت نہیں دیں گے آپ صرف جرم دیکھیں‘ جرم کرنے والے کا چہرہ‘ سماجی اسٹیٹس اور قومیت نہ دیکھیں‘ ہم جب تک یہ اصول پورے پاکستان میں نافذ نہیںکریں گے‘ ہمارے ملک کا کینسر پھیلتا رہے گا یہاں تک کہ ایک دن یہ ملک‘ ملک نہیں رہے گا قبرستان بن جائے گا‘ ہم نے آج فیصلہ کرنا ہے ہم نے قبرستان میں رہناہے یا پھر پاکستان میں‘ اس پاکستان میں جس کا ایک ہی ستون ہو گا‘ قانون۔
بانجھ
جاوید چوہدری بدھ 14 نومبر 2012
شیئر
میں نے پیرس شہر میں ریستوران میں پانی مانگا‘ ویٹرس میرے سامنے بار پر گئی‘ اس نے ٹونٹی کھولی‘ جگ میں پانی بھرا‘ اس میں پودینے کے دو پتے ڈالے اور جگ میرے سامنے رکھ دیا۔
میں نے جگ کی طرف دیکھا اور ویٹرس سے پوچھا ’’ کیا یہ منرل واٹر ہے‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’ جی نہیں یہ ٹیپ واٹر (ٹونٹی کا پانی) ہے‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’ کیا واٹر سپلائی پینے کے لیے محفوظ ہے‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’ پیرس کی ساری آبادی یہ پانی پیتی ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’ وزیراعظم اور صدر بھی‘‘ اس نے جواب دیا ’’ ملک کی پوری کابینہ‘ تمام ارکان پارلیمنٹ‘ پیرس کے ارب پتی تاجر اور ملک کے عام لوگ‘ سب یہ پانی پیتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’فرانس کا منرل واٹر پوری دنیا میں مشہور ہے‘ آپ لوگ یہ کیوں نہیں پیتے‘‘ اس نے جواب دیا ’’ ہم لوگ پانی کی بوتلیں صرف سفر کے دوران خریدتے ہیں‘ ہم گھروں‘ دفتروں اور ریستورانوں میں عام نلکے کا پانی پیتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’ یہ پانی آلودہ تو نہیں ہوتا؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’ منرل واٹر میں 9 منرلز ہوتی ہیں جب کہ سپلائی کے پانی میں 21 منرل ہیں اور یہ منرل واٹر سے زیادہ صاف اور زیادہ محفوظ ہے‘‘ میں نے گلاس میں پانی ڈالا اور بے خطر پی گیا لیکن ساتھ ہی اپنے آپ سے پوچھا ’’ کیا میں یہ رسک پاکستان میں بھی لے سکتا ہوں‘‘ میرا جواب ’’نہیں‘‘ تھا ‘ میں نے اپنے آپ سے مزید پوچھا ’’ کیا میں بچپن سے منرل واٹر پی رہا ہوں‘‘ اس کا جواب بھی ’’ نہیں‘‘ تھا۔
ہم سب‘ صدر آصف علی زرداری سے لے کر میاں نواز شریف تک ایک لمحے کے لیے ماضی میں چلے جاتے ہیں‘ ہم 80 کی دہائی میں چلے جاتے ہیں اور اس وقت کے پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں‘ پاکستان میں اس وقت منرل واٹر کا نام و نشان نہیں تھا‘ پورا ملک نلکے اور میونسپل کمیٹی کی سپلائی کا پانی پیتا تھا‘ گلیوں‘ چوکوں اور سڑکوں پر واٹر سپلائی کے لیے ٹونٹیاں لگی ہوتی تھیں اور ہم سڑک اور گلی میں کھڑے ہو کر ہاتھ کی ’’ اوک‘‘ بنا کر پانی پی جاتے تھے اور میاں نواز شریف سے لے کر صدر آصف علی زرداری تک کسی کا پیٹ خراب ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی بما ر ہوتا تھا لیکن آج پاکستان کے کسی شہر‘ کسی قصبے حتیٰ کہ کسی گائوں کا پانی صاف نہیں‘ آج لوگ دیہات اور قصبوں تک میں منرل واٹر پینے پر مجبور ہیں۔
آپ حد ملاحظہ کیجیے واسا کے اہلکار بھی منرل واٹر پیتے ہیں اور واٹر سپلائی کی میٹنگز میں بھی میز پر منرل واٹر کی بوتلیں پڑی ہوتی ہیں‘ صدر‘ وزیراعظم‘ وزیر اعلیٰ اور گورنر سمیت ملک کی تمام کابینوں اور تمام اسمبلیوں کے ارکان بھی منرل واٹر پیتے ہیں اور ملک کے تمام سرکاری دفاتر‘ تمام پرائیویٹ کمپنیوں اور تمام فیکٹریوں میں بھی منرل واٹر پیا جاتا ہے۔ آپ بیڈ گورننس کی انتہا دیکھئے پاکستان کی کوئی حکومت کسی صوبائی دارالحکومت میں صاف پانی فراہم نہیں کر پا رہی‘ اسلام آباد پاکستان کا صاف ستھرا‘ مہنگا ترین اور جدید ترین شہر ہے‘ اس شہر میں بھی آپ واٹر سپلائی سے وضو نہیں کر سکتے کیونکہ شہر میں واٹر سپلائی کے پائپ جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے ہیں‘ ان میں سیوریج کا پانی شامل ہو رہا ہے اور میں نے اپنی آنکھوں سے پینے کے پانی میں دو دو انچ لمبے کیڑے دیکھے ہیں۔
اگر وفاقی حکومت دارالحکومت میں صاف پانی فراہم نہیں کر سکتی تو آپ باقی ملک کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ اگر سی ڈی اے کے ملازمین منرل واٹر پینے پر مجبور ہیں تو آپ باقی شہریوں کی صورتحال خود سمجھ سکتے ہیں۔ آپ پانی کی طرح اسپتالوں‘ اسکولوں اور سیکیورٹی کی صورتحال کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں‘ مجھے یقین ہے 80 کی دہائی تک میاں نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری اپنا علاج سرکاری اسپتالوں میں کراتے ہوں گے اور پاکستانی کمپنیوں کی بنائی ادویات کھاتے ہوں گے لیکن کیا یہ آج بھی سرکاری اسپتالوں میں جاتے ہیں اور میڈ ان پاکستان دوائیں کھاتے ہیں‘ آپ صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے بیرون ملک دوروں کا ڈیٹا نکال لیں‘ آپ کو یہ درجنوں بار اپنا میڈیکل چیک اپ کرانے یا اپنے خاندان کا علاج کرانے کے لیے ملک سے باہر جاتے دکھائی دیں گے۔
میاں شہباز شریف ہر دوسرے مہینے میڈیکل چیک اپ کے لیے لندن جاتے ہیں‘ ہم عام لوگ بھی 80 کی دہائی میں سرکاری ڈاکٹروں اور سرکاری اسپتالوں میں جاتے تھے لیکن آج ہم بھی پرائیویٹ کلینک میں جاتے ہیں اور ہماری کوشش ہوتی ہے ہم باہر سے ادویات منگوا کر کھائیں۔ 80 کی دہائی تک ہمارے حکمران‘ بیورو کریٹ‘ فوج اور بزنس کلاس کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھتے تھے‘ میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری نے بھی سرکاری اسکولوں سے تعلیم حاصل کی لیکن آج ان سب کے بچے امریکن اسکولوں میں پڑھتے ہیں یا پھر بیرون ملک زیر تعلمے ہیں‘ ہم عام لوگ بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھاتے ہیں اور 80 کی دہائی تک ہمارے گھروں کے سامنے کوئی سیکیورٹی گارڈ نہیں ہوتا تھا۔
ہمارے دروازے رات بارہ بجے تک کھلے رہتے تھے اور ہمارے بچے گلیوں میں رات گئے تک کھیلتے رہتے تھے اور کسی کو ذرا برابر خوف نہیں ہوتا تھا‘ میں نے اپنی آنکھوں سے وزیروں‘ مشیروں اور کروڑ پتی بزنس مینوں کو اکیلے پھرتے دیکھا لیکن کیا آج ہم اپنے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ سکتے ہیں‘ کیا ہم اپنے بچوں کو گلی میں کھیلنے کی اجازت دے سکتے ہیں اور کیا آج گارڈز اور اسلحے کے بغیر ملک کا کوئی تاجر‘ کوئی سینئر بیورو کریٹ اور کوئی سیاستدان اپنے ملک کی گلیوں اور سڑکوں پر نکل سکتا ہے‘ ملک کی حالت یہ ہے کہ عوام کے محبوب ترین لیڈر کو اپنے حلقے میں جانے کے لیے پولیس‘ ایلیٹ اور رینجرز کی بھاری نفری چاہیے اور آئی جی پولیس‘ ڈی جی رینجرز اور کور کمانڈر سیکیورٹی کے بغیر گھروں سے نہیں نکلتے۔
ہم اگر 80 کی دہائی کے پاکستان کا 2012سے تقابل کریں تو ہمیں 80 کا پاکستان آج کے پاکستان سے ہزار درجے اچھا دکھائی دیتا ہے‘ اس وقت ٹریفک اتنی بے ہنگم نہیں تھی‘ پالوشن بھی نہیں تھی‘ شہروں میں گندگی اور کوڑا کرکٹ بھی نہیں تھا‘ چوری چکاری‘ ڈاکہ زنی اور قتل و غارت گری بھی نہیں تھی‘ اس وقت شیعہ سنی اور سنی شیعہ سے چھپتا نہیں پھر رہا تھا اور اس وقت پشاور صرف پشتونوں‘ لاہور صرف پنجابیوں‘ کوئٹہ صرف بلوچوں اور کراچی صرف مہاجروں یا سندھیوں کا شہر نہیں تھا‘ پاکستان کے سارے شہر ہمارے تھے اور ہم بلا روک ٹوک پورے ملک میں پھرتے تھے لیکن آج میرا شناختی کارڈ میری موت کا پروانہ بن گیا ہے‘ میں اگر شیعہ اکثریت کے علاقے میں فاروق ہوں تو مارا جائوں گا اور اگر میرے نام کے ساتھ نقوی‘ مشہدی‘ حسین یا علوی آ گیا تو میں سنیوں کے ہاتھوں مارا جائوں گا۔
میں پنجابی ہوں تو میں کوئٹہ‘ پشاور اور کراچی میں محفوظ نہیں ہوں اور اگر میں سندھی‘ پشتون اور بلوچی ہوں تو پھر پشاور‘ کراچی‘ کوئٹہ اور لاہور میرے لیے غیر محفوظ ہو جائیں گے چنانچہ ہمیں آج اس ملک میں 80 کا پاکستان بھی نہیں مل رہا‘ ہم اس سے بھی دور ہو گئے ہیں اور ہماری لیڈر شپ کس قدر بانجھ ہے‘ یہ کسی ایک شہر کو بین الاقوامی نہیں بنا سکے‘ یہ کسی ایک شہر کو صاف پانی‘ اعلیٰ تعلیم‘ شاندار سرکاری اسپتال اور سیکیورٹی نہیں دے سکے‘ یہ اسلام آباد‘ لاہور‘ پشاور‘ کراچی یا کوئٹہ ہی کو محفوظ ترین شہر بنا دیں‘ یہ لاہور کے تمام شہریوں کو صاف پانی فراہم کر دیں۔
یہ اسلام آباد کے سرکاری اسکولوں کا معیار اتنا بلند کر دیں کہ راجہ پرویز اشرف کے پوتے ان اسکولوں میں پڑھ سکیں‘ یہ کوئٹہ شہر کے اسپتالوں کو اتنا شاندار بنا دیں کہ نواب اسلم رئیسانی کو علاج کے لیے دوبئی نہ جانا پڑے اور یہ پشاور یا کراچی کو اس قدر محفوظ بنا دیں کہ وزیراعلیٰ‘ آئی جی اور وزراء سمیت کسی بزنس مین کو شہر میں نکلنے کے لیے سیکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے‘ یہ لوگ بھی عام لوگوں کی طرح سڑکوں پر دکھائی دیں اور کوئی ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہ دیکھے‘ اگر ہمارے حکمران کسی ایک شہر کو اتنا محفوظ‘ اتنا صاف اور اتنا بلند معیار نہیں بنا سکتے تو پھر اس ملک میں ان سے بڑا بانجھ‘ ان سے بڑا نالائق کوئی نہیں اور ہم بار بار انھیں چن کر اپنی قبریں کھود رہے ہیں۔

سلطان یہاں بھی اندھے ہیں
جاوید چوہدری پير 12 نومبر 2012
سینیٹر پرویز رشید میرے دوست بھی ہیں اور محسن بھی‘ دوست اس لحاظ سے ہیں کہ انھوں نے مجھے سیاست کے قبرستان میں دفن ہونے سے بچایا تھا‘ پرویز رشید 1997 میں پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرمین تھے۔
اس دور میں پاکستان میں صرف پی ٹی وی ہوتا تھا‘ پرویز رشید نے مجھے اپنے دفتر بلوایا اور پی ٹی وی میں ڈائریکٹر نیوز کے عہدے کی پیش کش کی‘ میں اس وقت ایک بے نام صحافی تھا‘ مجھے لوگ پہچانتے تک نہیں تھے‘ پرویز رشید کی آفر میری اوقات سے بڑی تھی‘ آپ خود سوچئے سوزوکی کار میں پھرنے والا ایک بے نام صحافی جسے صحافت میں صرف پانچ سال ہوئے ہوں اور جس کی عمر بمشکل 26 سال ہو‘ اسے اچانک پاکستان کے واحد ٹی وی کی ڈائریکٹر شپ کی پیش کش ہو جائے تو اس کی کیا حالت ہوگی‘ میں بھی چند لمحوں کے لیے سکتے میں آ گیا‘ انسان کی زندگی کے بعض لمحات میک یا بریک کی حیثیت رکھتے ہیں۔
وہ میری زندگی کاایک ایسا ہی لمحہ تھا‘ میں آج سوچتا ہوں‘ میں نے اگر اس وقت ہاں کر دی ہوتی تو شاید میرا کیریئر 1999 میں ختم ہو گیا ہوتا اور میں باقی زندگی کسی ایم این اے‘ سینیٹر یا کسی سیاسی جماعت کی خوشامد کا بستہ اٹھا کر گزار رہا ہوتا مگر اللہ نے کرم کیا‘ میں نے ایک لمبا سانس لیا‘ پرویز رشید سے چائے کا آخری کپ مانگا‘ قہقہہ لگایا اور عرض کیا ’’ میں اس وقت آپ کے سامنے دوست کی حیثیت سے بیٹھا ہوں‘ میں جوں ہی ہاں کروں گا‘ میں دوست سے ماتحت ہو جائوں گا‘ انسان کو دوستی کو ماتحتی پر ہمیشہ فوقیت دینی چاہیے‘‘ پرویز رشید اپنی جگہ سے اٹھے‘ میرے کندھے پر تھپکی دی اور کہا ’’ جاوید زندگی میں ہمیشہ اسی طرح آزاد اور بے غرض رہنا‘ لوگ اس ملک میں تمہارے ہاتھ چومیں گے‘‘ میں نے ان کے ساتھ چائے کا آخری کپ پیا اور اس کے بعد کبھی پرویز رشید کے دفتر نہیں گیا۔
مگر پرویز رشید کی اس تھپکی نے مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد اور بے غرض بنا دیا۔ وہ 1999 میں اقتدار سے فارغ ہوئے‘ فوج کے ایک دستے نے انھیں گرفتار کیا‘ انھیں سیف ہائوس لے جایا گیا اور وہاں ان کے ساتھ وہ سلوک ہوا جسے میں تحریر تک نہیں کر سکتا‘ آپ نے انسانیت سوز کا صرف لفظ سنا اور پڑھا ہو گا‘ پرویز رشید نے اس بھگتا تھا‘ پرویز رشید کے ساتھ وہاں کیا ہوا‘ اس کے لیے صرف ایک مثال کافی ہو گی‘ پرویز رشید کی شلوار خون سے لتھڑی ہوئی تھی اور انھیں اس عالم میں جوان بیٹی کے سامنے بٹھا دیا گیا تھا‘ یہ وہ لمحہ تھا جب پرویز رشید اور ان کی بیٹی دونوں اپنے حواس کھو بیٹھے‘ پرویز رشید بعد ازاں امریکا میں زیر علاج رہے‘ وہاں ایک یہودی نفسیات دان ان کا علاج کر رہا تھا۔
اس نے جب پرویز رشید کی داستان سنی تو اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے اور اس نے ان سے فیس لینے سے انکار کر دیا۔ پرویز رشید کے ساتھ زیادتی کرنے والا میجر بعد ازاں سندھ میں سانپ ڈسنے سے ہلاک ہو گیا‘ میں 2007 میں پرویز رشید سے ملاقات کے لیے لندن گیا‘ میں نے ان کی حالت دیکھی تو میں منہ پر ہاتھ رکھ کر رو پڑا‘ میں آج تک ان کی آنکھ میں آنکھ نہیں ملا سکتا کیونکہ میں اس ملک کے ہر اس شخص کو پرویز رشید کا مجرم سمجھتا ہوں جو دوسروں پر ہونے والے ظلم پر خاموش رہتا ہے اور میں بھی ان چپ شاہوں میں شامل ہوں۔
میں اس دن سے پرویز رشید کو پاکستان کے ہر جمہوریت پسند شخص کا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ پرویز رشید جیسے لوگ ہی جمہوریت کے اصل محسن ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حقیقتاً اس ملک میں آزادی‘ آزادی رائے اور آزادی فکر کے لیے خون دیا جب کہ محلوں سے نکل کر محلوں میں جانے اور پھر وہاں سے دوبارہ محلوں میں آنے والے لوگ قائد تو ہو سکتے ہیں مگر جمہوریت نواز نہیں‘ یوں پرویز رشید میرے دوست بھی ہیں اور محسن بھی چنانچہ ان کا احترام مجھے ہمیشہ بے بس کر دیتا ہے۔ پرویز رشید صاحب نے پچھلے دنوں مجھے ایک خط لکھا‘ میں اسی بے بسی اور احترام کی وجہ سے ان کا یہ خط من و عن شایع کر رہا ہوں‘ آپ ان کا خط ملاحظہ کیجیے۔
’’محترم جاوید چوہدری صاحب! 6 نومبر 2012 کو اپنے کالم میں ’’نادان دوست‘‘ کے عنوان سے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے مختلف سیاستدانوں کی شمولیت کے حوالے سے آپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ معاملات اور واقعات کی صحیح تصویر پیش نہیں کرتے۔ محترم چوہدری صاحب! پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے پالیسی اسی وقت تیار کر لی گئی تھی جب مسلم لیگ (ن) کی قیادت جبری جلاوطنی کے زمانے میں جدہ سے لندن منتقل ہوئی تھی اور ہمیں12 اکتوبر 1999کے پانچ برسوں کے طویل عرصے کے بعد مل بیٹھنے کے مواقعے میسر آنے لگے تھے۔
اس پالیسی میں یہ طے کیا گیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دروازے ان لوگوں کے سوا جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کو مشرف کی آشیر باد سے توڑنے کے عمل میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے‘ ہر اس شخص کے لیے کھلے رکھے جائیں جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اختیار کردہ اصولی موقف کو باآواز بلند اپناتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس پالیسی کی تیاری میں وہ تمام ساتھی شامل تھے جنھیں آپ نے اپنے کالم میں ’’ نادان دوست‘‘ قرار دیا ہے۔ میں یہاں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میں یہ سطور آپ کو مسلم لیگ (ن) کے ان تمام نادان دوستوں کی مشاورت اور توثیق کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔
میرے یہ تمام ساتھی اس بات سے متفق ہیں کہ آپ نے حال ہی میں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے جن خواتین و حضرات کی شمولیت کو جواز بنا کر نواز شریف کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ان میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جسے ان ’’ نادان دوستوں‘‘ کے براہ راست علم اور مشورے کے بغیر پارٹی میں شامل کیا گیا ہو۔ یہ سب لوگ ہم ’’ نادان دوستوں‘‘ کے ذریعے ہی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں اور پھر آپ نے جن لوگوں کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت پر پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ان میں سے ایک آدھ استثنیٰ کے سوا زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو کبھی بھی مسلم لیگ (ن) کا حصہ نہیں رہے اور یہ لوگ 1999 کے بعد سیاست کی وادی میں داخل ہوئے ہیں۔
اسی طرح میں یہ وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پارٹی کے وضع کردہ طریقے کے مطابق شمولیت کے خواہش مند افراد کے معاملات پر منفی یا مثبت فیصلے مقامی قیادت کی رضامندی کے بغیر نہیں کیے جاتے۔آپ نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے ملک میں ڈکٹیٹر شپ اور پارٹی کے لیے قربانیاں دینے والوں کو نظر انداز کیے جانے کا جو تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اس کا حقائق سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔ میں زیادہ تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا آپ نے پیر صابر شاہ صاحب کی کمٹمنٹ کا ذکر کیا ہے۔
یہ ان کی اسی کمٹمنٹ کا اعتراف ہے کہ وہ نہ صرف خیبر پختوانخواہ کی مسلم لیگ (ن) کے منتخب صدر ہیں بلکہ پارٹی کے اہم ترین فیصلہ کرنے والے ہر ادارہ کے رکن بھی ہیں۔ صرف یہی نہیں جب ہزارہ کی مقامی سیاست میں جناب نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کی جانب سے مبینہ طور پر کچھ ناپسندیدہ الفاظ پیر صاحب کے لیے استعمال ہوئے تو کیپٹن صفدر کے پارٹی عہدے اور رکنیت کو خود صدر نواز شریف نے معطل کر دیا جو ابھی تک بحال نہیں ہوئی اور ان کی رکنیت کا فیصلہ نواز شریف نہیں بلکہ پارٹی کے چیئرمین راجہ ظفر الحق‘ قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان‘ سردار مہتاب خان عباسی اور پرویز رشید پر مشتمل کمیٹی کے ہاتھ میں ہے۔ جناب چوہدری صاحب! آپ نے جوش تحریر میں مسلم لیگ (ن) کے ان اکابرین کو بھی ’’ راندہ درگاہ‘‘ قرار دینے سے گریز نہیں کیا جن کی حیثیت پارٹی کے نفس ناطقہ کی ہے اور جو آج میاں نواز شریف کے دست بازو کی حیثیت میں پارٹی کی پالیسیوں اور لائحہ عمل کی صورت گری میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ آپ نے اپنے مفروضات کو بنیاد بنا کر پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف اور جمہوریت کے بارے میں جو الفاظ استعمال کیے ہیں میں ان کے بارے میں کیا عرض کروں؟ البتہ درویش شاعر ساغر صدیقی کی زبان میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ :
کہانیوں کو نئے رنگ بخشنے والو
حقیقتوں میں بھی ترمیم کی ضرورت ہے
والسلام،مخلص،سینیٹر پرویز رشید، لاہور
آپ نے پرویز رشید کا عرفانہ بلکہ صدیقانہ خط ملاحظہ کیا‘ اس خط میں ایسے پانچ نقطے اور تضادات ہیں جن پر کئی دن بات ہو سکتی ہے لیکن مجھے صرف اور صرف پرویز رشید کا حیاء ہے چنانچہ میں یہ پانچ نقطے درویش شاعر ساغر صدیقی ہی کے ایک شعر کے ساتھ قرض چھوڑ رہا ہوں:
بے رنگ شفق سی ڈھلتی ہے ،بے نور سویرے ہوتے ہیں
شاعر کا تصور بھوکا ہے ،سلطان یہاں بھی اندھے ہیں
قائد پھر بھی
جاوید چوہدری ہفتہ 10 نومبر 2012
مجھے کل ایک نوجوان کا فون آیا‘ نوجوان نے گرم جوشی سے کہا ’’ سر میں پاکستان کا صدر بننا چاہتا ہوں‘ میں کیسے بن سکتا ہوں‘‘ میری ہنسی نکل گئی‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ آپ کیا کرتے ہیں‘‘ اس نے جواب دیا ’’میں اسٹوڈنٹ ہوں‘ ایف اے کر رہا ہوں‘ میں سوچ رہا ہوں‘ میں تعلیم کے بعد سیاست میں آئوں اور محنت کرتا ہوا آہستہ آہستہ صدرپاکستان بن جائوں‘ میں اپنے مقصد تک کیسے پہنچ سکتا ہوں۔
میری رہنمائی کریں‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ آپ کے والد کیا کرتے ہیں‘‘ اس نے جواب دیا’ ’ وہ میری والدہ کو طلاق دے کر ملک سے باہر چلے گئے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’ آپ کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں‘‘ اس نے جواب دیا ’’ میری والدہ سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں اور ان کی محنت سے ہم تین بہن بھائی پل رہے ہیں‘‘ میں نے ٹھنڈا سانس لیا اور اس سے کہا ’’آپ پھر سیاست کا خواب دیکھنا بند کر دیں‘ آپ کبھی صدر پاکستان نہیں بن سکتے‘ آپ بی اے یا ایم اے کریں اور کسی پرائیویٹ کمپنی میں منشی بھرتی ہو جائیں‘ آپ کے لیے اس سے بڑا خواب دیکھنا جرم ہے‘‘ وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گیا‘ اس نے خاموشی کے وقفے کے بعد لمبا سانس لیا اور بولا ’’ سر اگر سیاہ فام اوباما دوسری بار امریکا کا صدر بن سکتا ہے تو میں پاکستان کا صدر کیوں نہیں بن سکتا‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’ وہ کافر ملک ہے‘ ایسے معجزے صرف کافر ملکوں میں ہوتے ہیں‘ اسلامی جمہوریتوں میں نہیں‘‘ اس نے فون بند کر دیا۔
میں دیر تک ہنستا رہا لیکن پھر سنجیدہ ہو گیا کیونکہ نوجوان کی خواہش لطیفہ نہیں تھی‘ المیہ تھی‘ آپ ایک لمحے کے لیے سوچیے یہ سوال اگر امریکا کی کسی پسماندہ ریاست کے کسی دور دراز قصبے کا کوئی نوجوان کسی صحافی سے پوچھتا تو وہ اس کا کیا جواب دیتا؟ کیا وہ بھی اس نوجوان کو یہ کہتا‘ آپ ایم اے کرو اور کسی پرائیویٹ فرم میں منشی بھرتی ہو جائو‘ آپ کے لیے اس سے بڑا خواب دیکھنا جرم ہے‘ یا پھر وہ اسے مشورہ دیتا‘ آپ تعلیم مکمل کرو‘ ری پبلکن یا ڈیموکریٹ پارٹی میں شامل ہو جائو‘ محنت کرو‘ پارٹی کے چھوٹے الیکشن لڑو‘ سینیٹر بنو‘ گورنر کا الیکشن لڑو اور صدارتی امیدواروں کی فہرست میں شامل ہو جائو‘ تم بھی کسی نہ کسی طرح‘ کبھی نہ کبھی باراک حسین اوباما اور بل کلنٹن کی طرح صدر بن جائو گے۔
آپ سوچیے کیا یہ المیہ نہیں امریکا جیسے کافر معاشرے میں لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص بل کلنٹن اور باراک حسین اوباما کی طرح صدر بن سکتا ہے جب کہ پاکستان کے اسلامی معاشرے میں سیاست عام لوگوں کے لیے شجر ممنوعہ ہے‘ آپ اس ملک میں کتنے ہی پڑھے لکھے‘ ذہین‘ قابل اور دانشور ہو جائیں آپ سیاست نہیں کر سکتے کیونکہ سیاست کے لیے آپ کی رگوں میں رائل بلڈ‘ دولت‘ برادری اور کم علمی ہونی چاہیے اور آپ کی جیب میں اگر یہ سارے اثاثے ہیں تو آپ الیکشن لڑ سکیں گے بصورت دیگر آپ کونسلر تک نہیں بن سکتے‘ آپ زندگی میں کسی پرائیویٹ فرم میں منشی ہو سکتے ہیں اور آپ کے لیے باقی خواب عقاب کے گوشت کی طرح حرام ہوں گے۔
آپ ایک بار! باراک حسین اوباما کا پس منظر دیکھ لیجیے‘ بعد میںپاکستان کی سیاست اور قیادت کا جائزہ لے لیجیے ہر چیز روز روشن کی طرح روشن دکھائی دے گی‘ صدر اوباما کے گلے میں صدیوں کی غلامی کا طوق تھا‘ ان کی والدہ این ڈنہم ریاست آرکنساس کی سفید فام خاتون تھی‘ والد باراک حسین اوباما سینئر کینیا کے لو قبیلے سے تعلق رکھتے تھے‘ اوباما سینئر پڑھنے کے لیے ہوائی آئے‘ ان کی ملاقات صدر اوباما کی والدہ سے ہوئی‘ شادی ہوئی‘ اوباما جونیئر پیدا ہوا اور اوباما سینئر اپنے بیٹے اور بیوی کو امریکا چھوڑ کر واپس چلے گئے‘ والدہ نے بعد ازاں انڈونیشیا کے ایک طالب علم لولو سوئیترو سے شادی کر لی اور اس کے ساتھ جکارتہ چلی گئی‘ اوباما بھی ان کے ساتھ انڈونیشیا آ گیا۔
یہ ایک مشکل دور تھا‘ اوباما کے سوتیلے والد کو زبردستی فوج میں بھرتی کر لیا گیا‘ تنخواہ انتہائی کم تھی‘ گھر میں گاڑی‘ ٹیلی ویژن‘ فریج اور ائیر کنڈیشن نہیں تھا‘ ماں اوباما کو انگریزی اسکول تک میں داخل نہیں کرا سکتی تھی چنانچہ اوباما مقامی سرکاری اسکول میں پڑھتے رہے‘ ماں نے بعد ازاں اوباما کو اپنی والدہ کے پاس ہوائی بھجوا دیا‘ والدین میں طلاق ہو ئی اور یوں اوباما کی والدہ بھی واپس امریکا آ گئی‘ اوباما کا بچپن اور جوانی خستہ حالی میں گزری‘ یہ تین پیدائشی مسائل کا شکار تھے‘ یہ سیاہ فام تھے اور سفید فام معاشرے مںر سیاہ فام کتنا بڑا جرم ہوتا ہے اسے صرف ایک سیاہ فام ہی سمجھ سکتا ہے‘ اوباما کے اپنے الفاظ کے مطابق ’’ میں جب کسی بڑے اسٹور میں داخل ہوتا تھا تو سیکیورٹی گارڈ میری رنگت کی وجہ سے مجھے چور سمجھ لیتے تھے اور میں جب تک اسٹور میں رہتا تھا یہ میرے پیچھے پیچھے منڈلاتے رہتے تھے۔
میں جوان ہوا اور کھانے کے لیے ریستورانوں میں جانے لگا تو سفید فام جوڑے مجھے ریستوران کا کار بوائے سمجھ کر اپنی گاڑیوں کی چابیاں مجھے پکڑا دیتے تھے اور مجھے پولیس بھی بلا وجہ تنگ کرتی تھی ‘ میں ان زیادتیوں پر دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا‘ میں بعض اوقات اشتعال میں بھی آ جاتا تھا‘‘ اوباما کا دوسرا ایشو والد کی شفقت سے محرومی تھی‘ اوباما کا اصلی والد زندہ تھا لیکن وہ ان کی پیدائش سے فوراً بعد کینیا شفٹ ہو گیا تھا اور اس نے اوباما اور اس کی والدہ سے کوئی رابطہ نہ رکھا‘ سوتیلے والد نے ان کی والدہ کو اس وقت طلاق دے دی جب اوباما چھ برس کے تھے چنانچہ یہ دو دو والد کے باوجود یتیم تھے اور اوباما کا تیسرا مسئلہ غربت تھی‘ یہ امریکا کے انتہائی غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے‘ ان کی والدہ سخت محنت کرتی تھی اور وہ اس محنت سے اپنے دو بچے پالتی تھی چنانچہ اوباما کے پاس محنت کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔
انھوں نے سنجیدگی سے تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور کمال کر دیا‘ انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے گریجوایشن کی‘ ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی‘ چھوٹی موٹی نوکریاں کیں‘ این جی او میں کام کیا‘ شکاگو میں پسے ہوئے محروم لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑی اور 35 سال کی عمر میں اچانک سیاست میں آنے کا فیصلہ کر لیا‘ ان دنوں ریاست الی نوائے کی اسمبلی میں ایک سیٹ خالی ہوئی تھی‘ باراک حسین اوباما نے اس سیٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ اکیلے بھی تھے‘ ناتجربہ کار بھی تھے اور غریب بھی مگر اس کے باوجود انھوں نے چانس لینے کا فصلہس کیا‘ اوباما نے اپنا پمفلٹ چھپوایا‘ پمفلٹ تھیلے میں بھرے اور شہر میں نکل گئے‘ یہ گرجا گھروں‘ کلبوں‘ بیوٹی شاپس‘ حجاموں کی دکانوں‘ شاپنگ سینٹرز‘ ریستورانوں حتیٰ کہ انھیں جہاں دو لوگ بیٹھے نظر آتے تھے یہ وہاں چلے جاتے تھے۔
انھیں اپنا پمفلٹ دیتے تھے اور انھیں کنوینس کرنے کی کوشش کرتے تھے‘ لوگوں نے ان کا مذاق بھی اڑایا‘ ان کی بے عزتی بھی کی اور ان کا نام پڑھ کر یہ بھی کہا ’’ یہ بھی کوئی نام ہے باراک اوباما‘‘ لیکن یہ ڈٹے رہے‘ انھوں نے عوامی تقریریں بھی شروع کر دیں‘ لوگوں نے وہاں بھی ان کا مذاق اڑایا مگر یہ ڈٹے رہے یہاں تک کہ لوگ آہستہ آہستہ ان سے متاثر ہونے لگے‘ اوباما سیاست کے ساتھ ساتھ شکاگو یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی تھے‘ اوباما نے 3جنوری 2005 کو سینیٹ کا الیکشن لڑا اور یہ جیت گئے‘ اس وقت ان کی عمر44 سال تھی‘ 16 نومبر 2008 کوسیٹر ا کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار منتخب ہوئے‘ انھوں نے جان مکین کے خلاف صدارتی الیکشن لڑا اور یہ 349 الیکٹورل ووٹ لے کر جیت گئے جب کہ ان کے مقابلے میں جان مکین صرف 163 الیکٹورل ووٹ حاصل کر سکے اور یوں ایک مسلمان‘ سیاہ فام‘ غیر ملکی باشندے کا غریب بیٹا دنیا کی واحد سپر پاور کا صدر بن گیا‘ یہ کارنامہ صرف امریکا جیسے ملک ہی میں ممکن تھا۔
صدر اوباما چھ نومبر 2012 کو دوسری بار صدر منتخب ہوئے اور انھوں نے ثابت کر دیا آپ اگر پڑھے لکھے ہیں‘ باصلاحیت ہیں‘ آپ میں اگر لیڈر شپ کی کوالٹی ہے اور آپ اگر محنت کرنا جانتے ہیں تو آپ خواہ غریب ہوں‘ یتیم ہوں یا پھر کالے ہوں آپ امریکا کے صدر بن سکتے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں آپ پاکستان کی سیاست دیکھئے‘ آپ خواہ کچھ بھی ہو جائیں‘ آپ دنیا کے انتہائی تعلیم یافتہ ہوں‘ آپ دنیا کے دانشور ترین شخص ہوں‘ آپ قابل اور ماہر ترین شخص ہوں اور آپ خواہ ڈاکٹر عبدالقدیر یا ڈاکٹر ثمر مبارک مند ہوں آپ اس ملک میں وزیراعظم یا صدر تو رہے ایک طرف آپ ایم پی اے اور ایم این اے تک نہیں بن سکتے‘ آپ خواہ پوری زندگی محنت کر لیں‘ گھر بار‘ زمین جائیداد حتیٰ کہ اولاد تک کی قربانی دے لیں آپ کا درجہ اپنے قائد کی خوشامد سے اوپر نہیں جا سکتا‘ قائد محترم آپ کو زیادہ سے زیادہ اپنے کان میں سرگوشی کی اجازت دیں گے اور یہ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہو گا۔
رہ گئے عہدے یا پارٹی کی قیادت تو یہ میاں نواز شریف کے پاس رہے گی یا پھر آصف علی زرداری‘ مولانا فضل رحمن‘ اسفند یار ولی یا چوہدری شجاعت حسین کے پاس اور ان کے بعد چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی‘ اسفند یار جونیئر‘ مولانا عطاء الرحمن‘ بلاول زرداری بھٹو اور حمزہ شہباز یا مریم نواز اس عظیم سیاسی تخت کے وارث ہوں گے‘ یہ صاحبزادے جمہوریت کے نام پر اقتدار کا تاج سر پر رکھیں گے ‘ عوام کی رائے سے بنی کرسی پر بیٹھیں گے اور اٹھارہ کروڑ اوباما خواہ کچھ بھی کر لیں یہ منشی سے اونچا خواب نہیں دیکھ سکیں گے اور خواب کے راستے کی یہ رکاوٹ اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
آپ خود سوچیے جس ملک میں چند گھرانوں کی خواتین بادشاہ پیدا کرتی ہوں اور باقی نو کروڑ عورتیں ہر بار منشی جنتی ہوں اس ملک کی زمینوں پر خواب کیسے کاشت ہوں گے‘ اس ملک میں ترقی‘ خوش حالی اور مساوات کیسے جنم لے گی اور جس ملک میں پیدائش قیادت کا سب سے بڑا اصول ہو اس ملک میں اوباما جیسے لوگ کیسے سامنے آئیں گے‘ اس ملک میں نئی سیاسی قیادت کیسے جنم لے گی‘ اس میں ایک ہی قسم کے قائد محترم ہوں گے اور یہ ملک کی آخری سانس تک قائم رہیں گے۔
نوٹ:آپ مجھے ٹوئیٹر @javedchoudhry پر جوائن کرسکتے ہیں۔
میڈیا دشمن نہیں
جاوید چوہدری جمعرات 8 نومبر 2012
آپ ڈینگی کی مثال لے لیجیے‘ پاکستان میں پچھلے سال ڈینگی بخار نے شدت کے ساتھ حملہ کیا‘ پنجاب میں 18 ہزار سے زائد لوگ متاثر ہوئے‘ ان میں سے 207 لوگ جاں بحق ہو گئے‘ ماہرین کا خیال تھا ڈینگی اگلے سال مزید شدت سے حملہ کرے گا اور ہلاکتوں کی تعداد کئی گنابڑھ جائے گی‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اس پیشن گوئی کو اپنے لیے چیلنج بنا لیا۔
میاں صاحب نے سری لنکا سے ماہرین بلوائے‘ اپنے لوگوں کو ٹریننگ دلوائی‘ پنجاب بھر میں تین چار بار سپرے کروایا‘ ڈینگی کے خلاف معلوماتی مہم چلوائی‘ میڈیا نے بھی پنجاب حکومت کی مدد کی اوریوں یہ مسئلہ اس سال قریباً حل ہو گیا‘ پنجاب میں اس سال 126 مریض رپورٹ ہوئے جب کہ اب تک کوئی ہلاکت سامنے نہیں آئی‘ آپ اس مثال سے اندازہ لگا لیجیے حکومت اگر کوئی مسئلہ حل کرنا چاہے تو یہ ناممکن کو ممکن بنادیتی ہے۔ ڈینگی ایک خوفناک وباء ہے‘ سری لنکاڈینگی کے خلاف 1962سے لڑ رہا ہے‘ یہ اب تک اربوں روپے خرچ کر چکا ہے اور اسے بڑی مشکل سے 2011 میں کامیابی ملی جب کہ پنجاب حکومت نے ذرا سی توجہ سے یہ مسئلہ ایک سال میں حل کر لیا اور آج پنجاب میں ڈینگی سے کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی‘ میاں شہباز شریف اگر اسی طرح کوشش کرتے رہے تو شاید اگلے سال ڈینگی پنجاب سے فارغ ہو جائے گا‘ ڈینگی اب سندھ پہنچ چکا ہے‘ کراچی سمیت سندھ میں اب تک اڑھائی سو مریض سامنے آئے‘ سندھ حکومت کو چاہیے یہ پنجاب کی مہارت سے فائدہ اٹھائے‘ پنجاب سے ڈاکٹر اور ماہرین منگوائے‘ سندھ کے ڈاکٹروں کو تربیت دلوائے اور پنجاب حکومت کی اسپرٹ سے ڈینگی کا مقابلہ کرے‘ انشاء اللہ اگلے سال سندھ بھی ڈینگی فری ہو جائے گا۔
یہ مثال ثابت کرتی ہے ہم میں مسائل سے لڑنے کا حوصلہ موجود ہے‘ ہم چاہیں تو ہم ایک سال میں ڈینگی جیسی وباء سے بھی نمٹ سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے ہم میں اگر اتنا حوصلہ‘ اتنی ہمت اور اتنا پوٹینشل ہے تو ہم ملک کے باقی مسائل حل کیوں نہیں کر پا رہے‘ ہم پچھلے دس برسوں سے لوڈ شیڈنگ کا کیوں شکار ہیں‘ ہم اپنی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کیوں نہیں کر پا رہے‘ ہماری پی آئی اے کیوں نہیں اڑ رہی‘ ہمارا ریلوے کیوں نہیں چل رہا‘ ہماری اسٹیل مل ترقی کیوں نہیں کر رہی‘ ہمارے ملک سے دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہو رہی‘ ہم غیر ملکی امداد کے نشے سے باہر کیوں نہیں آ رہے‘ ہم ڈرون حملوں کے کنفیوژن سے آزاد کیوں نہیں ہو رہے‘ ہماری پولیس بہتر کام کیوں نہیں کر رہی۔
ہم ملک کو کرپشن سے پاک کیوں نہیں کر پا رہے اور ہم اپنی معیشت کو سنبھالا کیوں نہیں دے رہے؟ اس کا جواب ایک لفظ میں چھپا ہے اور وہ لفظ ہے اہمیت۔ ہم نے آج تک ان مسائل کو اہمیت ہی نہیں دی چنانچہ اہمیت نہ ملنے کی وجہ سے ان مسائل کے حل کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنی ‘ پالیسی نہ بننے کی وجہ سے ہم نے ایماندار‘ وژنری اور ماہر ٹیم کا بندوبست نہیں کیا اور ماہر ٹیم کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسائل حل نہیں ہو رہے‘ ہم اگر ایک سال میں ڈینگی جیسی وباء کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو ہم ذرا سی توجہ‘ فوکس اور ہمت سے ملک کے دوسرے مسئلے بھی حل کر سکتے ہیں کیونکہ یہ تمام مسائل وبائوں سے بڑے نہیں ہیں‘ ہم اگر فوکس‘ اچھی ٹیم‘ میرٹ اور احتساب کے ذریعے وباء کو شکست دے سکتے ہیں تو یہ مسئلے ہرگز ہرگز بڑے نہیں ہیں۔
ہم اگر متحد ہو جائیں اور اچھے قابل لوگوں کا انتخاب کریں تو یہ مسائل چند ماہ میں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے مگر بدقسمتی سے ہم لوگ مسائل اور ایشوز پر اکٹھا ہونے کے بجائے تقسیم در تقسیم اور شکوک و شبہات کے عمل سے گزر رہے ہیں‘ ہمارا ہر آنے والا دن ہمیں مزید تقسیم کر رہا ہے اور ہمارا ہر ادارہ دوسرے اداروں کو ملک دشمن سمجھ رہا ہے۔ آپ میڈیا‘ عدلیہ‘ سااست اور فوج کی موجودہ لڑائی کی مثال ہی لے لیجیے‘ یہ چاروں ادارے اس وقت ملک کی سلامتی اور ترقی کے لیے بے انتہا اہمیت رکھتے ہیں‘ دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ کا حتمی فصلہ ہے کوئی بھی ملک آزاد‘ خود مختار اور بے خوف عدلیہ کے بغیر نہیں چل سکتا‘ ہمیں تاریخ کے اس نتیجے تک پہنچنے میں ساٹھ سال لگ گئے‘ 2007میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری باوردی آمر کے سامنے کھڑے ہوئے‘ عوام اور میڈیا دونوں ان کے کندھے سے کندھا جوڑ کر کھڑے ہو گئے۔
اس وقت افتخار محمد چوہدری کے ساتھی ججوں اور وکلاء نے بھی ان کا ساتھ دیا‘ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن بھی اس تحریک میں شامل ہو گئیں‘ فوج عوام‘ سیاستدانوں‘ میڈیا اور عدلیہ کا رد عمل دیکھ کر نیوٹرل ہو گئی چنانچہ جج بحال ہو گئے‘ جنرل پرویز مشرف یونیفارم اتارنے پر مجبور ہوئے‘ الیکشن ہوئے‘ نئی جمہوری حکومت بنی اور عدلیہ اور میڈیا نے سیاستدانوں پر کام شروع کر دیا‘ عدلیہ نے بدعنوانی‘ ظلم اور زیادتی کا جو مسئلہ اٹھایا‘ میڈیا نے اس کا بھرپور ساتھ دیا اور یوں سیاست کا گند صاف ہوتا چلا گیا‘ آپ این آر او کا ایشو لے لیجیے‘ این آئی سی ایل کا اسکینڈل لے لیجیے‘ حج اسکینڈل‘ رینٹل پاور اسکینڈل‘ ایفی ڈرین اسکینڈل‘ میمو اسکینڈل اور ایبٹ آباد کا سانحہ دیکھ لیجیے‘ آپ مسنگ پرسنز کا ایشو بھی لے لیجیے اور آپ آخر میں کراچی اور بلوچستان میں بدامنی کے ایشوز کا مطالعہ بھی کر لیجیے‘ ملکی تاریخ کی پہلی آزاد عدلیہ یہ ایشوز اٹھاتی رہی‘ میڈیا اس کا ساتھ دیتا رہا‘ فوج نیوٹرل رہی اورسیاستدان قانون کے دائرے میں آتے چلے گئے لیکن پھر میڈیا اور عدلیہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔
انسان کے دو ایسے جذبے ہیں جن کی کوئی لمٹ نہیں ہوتی‘ انسان آزادی اور محبت دونوں میں انتہا کو چھونا چاہتا ہے‘ میڈیا اور عدلیہ کی آزادی میں بھی یہی ہوا‘ عدلیہ آزاد ہوئی تو یہ آزاد ہوتی چلی گئی اور میڈیا بے خوف ہوا تو یہ بھی بے خوف ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ملک کے کسی دور دراز علاقے کے کسی گائوں کے نلکے میں پانی نہ آئے تو عوام کسی چینل کو فون کر دیتے ہیں ‘ عدلیہ میڈیا کے اس کردار کو سراہتی رہی لیکن پھر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے صاحبزادے کا اسکینڈل آگیا‘ رئیل اسٹیٹ ٹائی کون ملک ریاض نے ڈاکٹر ارسلان افتخار پر الزام لگایا‘ ملک ریاض نے نصف درجن اینکرز اور کالم نگاروں کومبینہ ثبوت دکھائے اور میڈیا نے اس ایشو کو بین اٹھا لیا‘ میڈیا کی یہ ’’ حرکت‘‘ جوڈیشری کے ہمدردوں کو پسند نہ آئی اور یوں میڈیا عدلیہ کی گڈ بکس سے خارج ہو گیا‘ یہ ردعمل میڈیا کے لیے حیران کن تھا ۔
ہم یہ سمجھتے تھے ہم اگر آزاد ہیں تو پھر ہم ہر سیکٹر میں آزاد ہیں‘ ہم اگر بے خوفی سے صدر آصف علی زرداری کے مبینہ چھ ملین ڈالر کا ذکر کر سکتے ہیں‘ ہم اگر شریف فیملی کی ملک سے باہر موجود جائیداد پر انگلی اٹھا سکتے ہیں‘ ہم اگر ارکان اسمبلی کی جعلی ڈگریوں اور دہری شہریت کی بات کر سکتے ہیں‘ ہم اگر کیری لوگربل کا ایشو اٹھا سکتے ہیں‘ ہم اگر ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ اٹھا سکتے ہیں‘ ہم اگر حسین حقانی کا میمو اسکرین پر لا سکتے ہیں اور ہم اگر دو مئی2011کو موضوع بنا سکتے ہیں تو ہم ڈاکٹرارسلان افتخار کی بات کیوں نہیں کر سکتے؟ مگر ہماری اس دلیل کے باوجود عدلیہ ہم سے ناراض رہی۔
سپریم کورٹ نے 19 اکتوبر کو اصغر خان پٹیشن کا فیصلہ دے دیا‘ اس فیصلے میں تاریخ میں پہلی بار سابق آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم ہوا‘ میڈیا نے اسے بھی اٹھایا‘ اس سے قبل این ایل سی کے تین جرنیلوں لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد منیر خان‘ لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد افضل مظفر اور میجر جنرل (ر)خالد ظہیر اختر کا ایشو سامنے آچکا تھا‘ میڈیا نے اس پر بھی سوالیہ نشان لگائے تھے اور اس کے بعد نیب نے ریلوے کی زمین لیز پر دینے کے ایشو پر تین جرنیلوں لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی‘ لیفٹیننٹ جنرل (ر) سعید ظفر اور میجر جنرل (ر) حامد حسن بٹ کے خلاف کارروائی شروع کر دی‘ میڈیا نے جنرل جاوید اشرف قاضی کا شٹ اپ اور ایڈیٹ بھی قوم کو دکھادیا‘ ان تینوں ایشوز پر فوج بھی میڈیا کے ساتھ ناراض ہو گئی۔
اب سوال یہ ہے کیا میڈیا واقعی سیاستدانوں‘ عدلیہ اور فوج کا دشمن ہے‘ اگر یہ دشمن ہے تو پھر یہ 2007 میں اس وقت سیاستدانوں کا ہیرو کیوں تھا جب یہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف لڑ رہا تھا اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف انھیں جمہوریت کا محسن قرار دے رہے تھے‘ یہ ارسلان افتخار کا ایشو آنے تک اس عدلیہ کا کیوں ہیرو تھا جس کی بحالی کے لیے اس نے مار بھی کھائی‘ دھمکیاں بھی سہیں اور بے روزگاری بھی دیکھی‘ یہ ممبئی حملوں‘ جی ایچ کیو‘ مہران بیس‘ کامرہ ائیر بیس اور سلالہ چیک پوسٹ پر حملوں کے دوران ذمے دار اور محب وطن کیوں تھا اور یہ گیاری سیکٹر کے سانحے کے دوران شہیدوں کا محسن کیوں تھا‘ اگر ہم ماضی میں اچھے تھے توپھر ہم ڈاکٹر ارسلان افتخار اور اصغر خان فیصلے کے بعد برے کیوں ہو گئے۔
میڈیا اب اس ریاست کا اہم ستون ہے اور یہ ریاست اب اس ستون کے بغیر نہیں چل سکے گی‘ آپ مہربانی فرما کر اس ستون کو تسلیم کر لیں‘ آپ اسے اپنا حصہ سمجھیں‘ مسائل کی فہرست بنائیں اور عدلیہ‘ فوج اور حکومت میڈیا کو اپنے ساتھ شامل کرے اور ہم سب ملک کر ملک کے مسائل پر توجہ دیں کیونکہ ہم اگر اس طرح ایک دوسرے کو غیر محب وطن‘ نادان اور ایڈیٹ کہتے رہیں گے تو یہ ملک نہیں بچے گا اور جب ملک نہیں رہتے تو پھر سیاستدان‘ عدلیہ اور فوج بھی قائم نہیں رہتی‘ گری ہوئی عمارت تلے دب کر سب فوت ہو جاتے ہیں۔

بے چارے نادان
جاوید چوہدری منگل 6 نومبر 2012
پیر صابر شاہ پاکستان مسلم لیگ ن کے پرانے کارکن اور رہنما ہیں۔
یہ 1993-94ء میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ بھی رہے‘ یہ پیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں‘ میں جب بھی انھیںٹیلی ویژن پر دیکھتا ہوں یا اخبارات میں ان کا کوئی بیان پڑھتا ہوں تو مجھے بے اختیار ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے اور میں پیر صابر شاہ کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا‘ یہ 2001-02 ء کا واقعہ تھا‘ اسلام آباد میں ہائی پروفائل ڈنر تھا‘ ڈنر میں ایک سابق وفاقی سیکریٹری ہماری میز پر بیٹھے تھے‘ پاکستان مسلم لیگ ق ان دنوںتازہ تازہ بنی تھی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے اہم مہرے درجنوں کے حساب سے ٹوٹ ٹوٹ کر شاہی جماعت میں شامل ہو رہے تھے‘ ہماری میز پر بیٹھے حضرات ان مہروں کا نام لے رہے تھے‘ قہقہے لگا رہے تھے اور ان کی سابق وفاداریوں کے واقعات سنا رہے تھے۔
گفتگو کے دوران سابق سیکریٹری نے مجھ سے پوچھا ’’ کیا صابر شاہ بھی پاکستان مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے ہیں‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’ نہیں‘ یہ ابھی تک اپنی پوزیشن پر قائم ہیں‘‘ سیکریٹری نے قہقہہ لگایا اور مجھے ایک عجیب ذمے داری سونپ دی‘ انھوں نے کہا ’’ پیر صابر شاہ نے میرے سامنے میاں نواز شریف سے کہا تھا میرے والد نے مرنے سے پہلے میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دیا تھا‘ میں مرنے تک آپ کا ہاتھ نہیں چھوڑوں گا‘‘ وہ سابق سیکریٹری رکے اور اس کے بعد بولے ’’پیر صابر شاہ جس دن اپنی وفاداری تبدیل کریں گے تم نے ان کے پاس جانا ہے‘ انھیں یہ واقعہ سنانا ہے اوران سے عرض کرنا ہے آپ نے اقتدار کے لیے اپنے والد کی قسم بھی توڑ دی‘‘ اور اس کے بعد میز پر موجود تمام لوگوں نے قہقہہ لگایا۔
میں اس دن سے اس وقت کا انتظار کر رہا ہوں جب پیر صابر شاہ میاں نواز شریف کا ساتھ چھوڑیں اور میں انھیں ان کا دعویٰ یاد کرائوں لیکن پیر صابر شاہ نے پچھلے گیارہ برسوں میں وہ موقع نہیں آنے دیا‘ 2002ء سے 2008ء تک اقتدار کی گنگا ان کے اردگرد بہتی رہی مگر یہ اپنے والد کے وعدے پر قائم رہے ‘میری پوری زندگی میں ان سے دو سے زائد ملاقاتیں نہیں ہوئیں مگر میں ان کی استقامت کی وجہ سے ان کا فین ہوں‘ صابر شاہ کی اس استقامت کو کریکٹر کہتے ہیں اور یہ وہ جنس ہے جسے ہماری سیاست سے رخصت ہوئے دہائیاں گزر چکی ہیں‘ پاکستان میں بدقسمتی سے سیاست 1964ء سے سیاست نہیں رہی یہ حصول اقتدار کا ذریعہ بن چکی ہے اور اقتدار کی اس ریس میں اصول اور کریکٹر بہت پیچھے رہ گئے ہیں چنانچہ بے اصولی اور ہوس اقتدار کے اس جوہڑ میں پیرصابر شاہ جیسے چند کنول بہت اچھے لگتے تھے مگر 2012ء میں پہنچ کر یہ لوگ اب نادان بلکہ اگر یہ گستاخی نہ ہو تو بے وقوف لگنے لگے ہیں‘ یہ لوگ نادان کیوں لگ رہے ہیں‘ اس کی وجہ پیر صابر شاہ کی استقامت کی طرح شاندار ہے۔
ہم لوگوں نے 2002ء میں ایسے ایسے لوگوں کو میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سے ٹوٹتے ہوئے دیکھا جو اپنے رہنمائوں کو قسم جتنی اہمیت دیتے تھے‘ جن کا سورج تک جاتی عمرہ اور گڑھی خدا بخش سے نکلتا تھا اور جو میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا نام لینے سے پہلے ٹوتھ پیسٹ کرتے تھے‘ یہ لوگ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے ٹوٹ کر شاہی جماعت میں شامل ہوئے‘ وزارتیں‘ سفارتیں اور مشاورتیں حاصل کیں‘ پانچ سال ٹکا کر حکومت کی‘ اقتدار کے مزے لوٹے‘ زمینیں‘ جائیدادیں‘ کارخانے بنائے اور اقتدار سے جی بھر کر منہ دھویا ۔ یہ کھیل جس وقت جاری تھا اس وقت چند لوگ اپنے قدموں پر کھڑے رہے‘ ان لوگوں نے وفا کی مٹی سے پائوں نہ اٹھایا‘ ان میں پیر صابر شاہ بھی شامل تھے‘ اسحاق ڈار بھی‘ چوہدری نثار بھی‘ خواجہ آصف بھی‘ احسن اقبال بھی‘ پرویز رشید بھی‘ شاہد خاقان عباسی بھی اور خواجہ سعد رفیق بھی۔
اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑے رہنے والے لوگوں میں میاں رضا ربانی‘ چوہدری اعتزاز احسن‘ امین فہیم‘ نذر محمد گوندل‘ قمر زمان کائرہ اور جہانگیر بدر شامل تھے‘ میں اس دور میں ان لوگوں کی استقامت دیکھتا تھا تو ان کے کریکٹر کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا‘ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف نے وفاداری کی اس جنگ میں جیل بھی دیکھی اور تشدد بھی سہا‘ احسن اقبال کو وفاداری کی تبدیلی کے بدلے تعلیم کی وفاقی وزارت یا منصوبہ 2010ء جاری رکھنے کی پیش کش بھی ہوئی‘ اس طرح جنرل پرویز مشرف میاں رضا ربانی‘ چوہدری اعتزاز احسن‘ ڈاکٹر صفدر عباسی اور مخدوم امین فہیم کو بہت پسند کرتے تھے‘ جنرل صاحب نے چوہدری اعتزاز احسن اور مخدوم امین فہیم کو وزارت عظمیٰ تک کی پیش کش کی لیکن ان لوگوں نے بھی استقامت کا مظاہرہ کیا مگر آج دس بارہ سال بعد یہ لوگ نادان محسوس ہوتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں ان لوگوں نے اپنی جگہ کھڑے رہ کر غلطی کی۔
انھیں بھی 2002ء میںپاکستان مسلم لیگ ق میں شامل ہو جانا چاہیے تھا‘ یہ بھی گنگا میں اشنان کرنے والے سیاسی ننگوں کے ساتھ عیش کرتے‘ پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹتے‘ 2008ء میں تھوڑی سی اپوزیشن دیکھتے اور اس کے بعد سلیم سیف اللہ‘ ہمایوں اختر عبدالرحمن‘ امیر مقام‘ طارق عظیم‘ کشمالہ طارق‘ سمیرا ملک اور ماروی میمن کی طرح میاں نواز شریف سے ملاقات کرتے‘ ان کے ساتھ تصویر بنواتے‘ پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہوتے‘ اپنا ٹکٹ پکا کرتے‘ 2013ء میں الیکشن لڑتے‘ جیتتے اور اگلی حکومت میں ایک بار پھر وزیر بن جاتے ‘ یہ لوگ پاکستان پیپلز پارٹی پیٹریاٹ میں شامل ہو جاتے‘پاکستان مسلم لیگ ق کے ساتھ اقتدار میں شریک ہوتے‘ 2008ء تک عیش کرتے اور اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحاد میں شامل ہوجاتے‘ چار سال مزید صدر آصف علی زرداری کی مونچھ کے بال رہتے۔
2012ء کے آخر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹ منٹ کرتے اور تیسری ٹرم کے اہم مہرے بھی بن جاتے‘ کیا یہ لوگ نادان نہیں ہیں کیونکہ انھیں رضا ربانی‘ ڈاکٹر صفدر عباسی‘ جہانگیر بدر‘ اسحاق ڈار‘ خواجہ آصف‘ احسن اقبال‘ چوہدری نثار علی‘ خواجہ سعد رفیق‘ شاہد خاقان عباسی اور پیر صابر شاہ بننے کا کیا فائدہ ہوا؟ یہ لوگ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی دھکے کھاتے رہے اور اپنی قیادت کی واپسی کے بعد بھی راندہ درگاہ رہے‘ یہ کل بھی خسارے میں تھے‘ آج بھی ہیں اور کل بھی ہوں گے۔
آپ پاکستان کی سیاست کا کمال دیکھئے آج چوہدری پرویز الٰہی اور میاں منظور وٹو صدر آصف علی زرداری کے کندھوں کے فرشتے بن کر پاکستان پیپلز پارٹی کی پالیسیوں اور حماقتوں کا دفاع کر رہے ہیں اور ماروی میمن‘ میرے عزیز ترین دوست طارق عظیم‘ جنرل پرویز مشرف کے وہ وزیر قانون زاہد حامد جنہوں نے میاں نواز شریف کو پانچ سال تک انصاف کے قریب نہیں پھٹکنے دیا‘ سلیم سیف اللہ‘ ہمایوں اختر‘ حامد ناصر چٹھہ‘ امیر مقام‘ کشمالہ طارق اور سمیرا ملک مسلم لیگ ن کا جھنڈا اٹھا کر پھر رہے ہیں‘ یہ ’’ ہمارے میاں صاحب‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں اور خواجہ آصف‘ احسن اقبال‘ خواجہ سعد رفیق اور چوہدری نثار دور کھڑے اقتدار کی نظریں بدلتے دیکھ رہے ہیں‘ کاش کوئی شخص 2002ء سے 2012ء کی وڈیو ریسرچ کرے اور یہ ان تمام لوگوں کے میاں صاحبان اور پاکستان مسلم لیگ ن کے بارے میں نشر ہونے والے خیالات ایک جگہ جمع کر دے تو مجھے یقین ہے شرمندگی سے ان لوگوں کے ماتھے پر بھی پسینہ آ جائے گا۔
ابھی تو محترم گوہر ایوب‘ عمر ایوب‘ فصیح بخاری اور محمد علی درانی بھی ن لیگ کی ریسپشن پر پہنچ گئے ہیں اور کسی بھی وقت ان کی بھی میاں نواز شریف کے ساتھ تصاویر جاری ہو جائیں گی‘ میاں نواز شریف انھیں بھی پارٹی میں خوش آمدید کہیں گے اور ساتھ ہی ایک طویل خطاب فرمائیں گے جس میں بارہ اکتوبر کے شب خون کا ذکر بھی ہو گا اور جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ پالیسیوںکا ماتم بھی۔میں بھی خواجہ آصف‘ خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال کی طرح نادان ہوں کیونکہ میں بھی یہ سمجھتا تھا ملکی سیاست سے نظریہ ضرورت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکا ہے۔
لیکن جس دن صدر آصف علی زرداری نے قوم کے وسیع تر مفاد میں پاکستان مسلم لیگ ق کو گلے لگایا اور چوہدری صاحبان نے ماضی کے ’’ سیکیورٹی رسک‘‘ کو پاکستان اور جمہوریت کا تحفظ مانا اور میاں شہباز شریف نے پنجاب کی حکومت کے عوض پاکستان مسلم لیگ ق کے 47 ایم پی اے ہتھام لیے اور میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں کو اچھے ق لیگیوں اور برے ق لیگیوں میں تقسیم کیا اور جب انھوں نے کل کے بے وفائوں کے لیے اپنے دروازے اور باہیں دونوں کھول دیں تو مجھے یقین ہو گیا اس ملک سے نظریہ ضرورت کبھی رخصت نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی شاخیں صرف فوج اور عدلیہ کے جگر میں پیوست نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری سیاسی قیادت کے ضمیر میں بھی گڑی ہوئی ہیں اور جب اقتدار اصولوں سے بڑی حقیقت ہو جائے تو پھر خواجہ آصف‘ خواجہ سعد رفیق‘ احسن اقبال‘ پیر صابر شاہ اور پرویز رشید جیسے لوگ نادان ہو جاتے ہیں اور نادان اسی سلوک کے حق دار ہوتے ہیں‘ یہ کل بھی محروم تھے‘ یہ آج بھی محروم ہیں اور یہ کل بھی محروم رہیں گے‘ یہ سیاسی جذبات کے شکار ناسمجھ لوگ ہیں اور ناسمجھوں اور جذباتی لوگوں کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے۔
میں اکثر سوچتا ہوں اگر جنرل پرویز مشرف کی ’’ پالیسیاں‘‘ میاں نواز شریف کی میز پر بیٹھ چکی ہیں تو پھر جنرل پرویز مشرف اور شیخ رشید کا کیا قصور ہے‘ میاں نواز شریف انھیں بھی پارٹی میں شامل کیوں نہیں کر لیتے کیونکہ میاں نواز شریف کو نواب اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن‘ چیف جسٹس کے خلاف احکامات جاری کرنے اور لال مسجد آپریشن کے حق میں میڈیا پر تقریریں کرنے والوں میں کوئی نقص نظر نہیں آرہا تو پھر بے چارے شیخ رشید اور جلاوطن پرویز مشرف کا کیا قصور ہے‘ یہ بھی تو اس وقت قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے بہت اہم ہیں‘ اگر روزہ ہی توڑنا ہے تو پھر شراب کا گھونٹ بھرنے میں کیا حرج ہے‘آپ انھیں بھی لے لیں تا کہ جمہوریت کا منہ پوری طرح کالا ہوجائے۔

عوام اصل مجرم ہیں (آخری حصہ)
جاوید چوہدری ہفتہ 3 نومبر 2012
ہم عوام کا سب سے بڑا مسئلہ کنفیوژن ہے‘ ہم اپنے بنیادی تصورات میں بھی کنفیوژہیں۔
مثلاً آپ دولت کو لے لیجیے‘ ہم میں سے ہر شخص ہر نماز میں کشادگی رزق کی دعا کرتا ہے‘ ہم رزق میں اضافے کے لیے وظائف بھی کرتے ہیں‘ صدقہ بھی دیتے ہیں‘ منتیں بھی مانگتے ہیں اور پیر صاحب اور مولوی صاحب سے تعویذبھی لیتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم دولت کو برا بھی سمجھتے ہیں‘ ہم اسے ہاتھ کی میل بھی کہتے ہیں‘ ہم دولت مند سے نفرت بھی کرتے ہیں اور ہم درویشی بھی اختیار کرنا چاہتے ہیں‘ اگر دولت اور خوشحالی اتنی ہی بری ہے تو پھرہم اس کے لیے دعا کیوں کرتے ہیں اور ہم اپنے بچوں کو امیر کبیر کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟۔آپ سرمایہ داری کو بھی لے لیجیے ‘ ہم میں سے ہر شخص سرمایہ دار بننا چاہتا ہے‘ ہم منافع حاصل کرنے کے لیے پلاٹ بھی خریدیں گے اور زمین بھی۔ ہم میں سے کون ہے جو دکان نہ بنانا چاہتا ہو‘ ورکشاپ نہ کھولنا چاہے‘
کارخانہ یا فیکٹری نہ لگانا چاہے اور فرم یا کمپنی نہ بنانا چاہے لیکن ہم ساتھ ہی ساتھ کمپنیوں‘ فیکٹریوں‘ کارخانوں‘ دکانوں‘ زمین داروں اور پلاٹ والوں کو گالی بھی دیتے ہیں اور ان کے کام میں سو سو کیڑے بھی نکالتے ہیں‘ ہم ان کے ساتھ جنگی قیدیوں جیسا سلوک کرتے ہںو‘ ہم اپنے سیٹھ‘ مالک یا کارخانے دار سے ہر مہینے تنخواہ لیتے ہیں لیکن ہم اس کارخانے‘ اس فیکٹری کو چلنے نہیں دیں گے ‘ ہم اس میں ہڑتال بھی کریں گے‘ مشینری بھی خراب کریں گے‘ ہم اس کی بجلی‘ گیس اور خام مال بھی ضایع کریں گے اور ہم کام بھی ادھورا چھوڑ کر چلے جائیںگے‘ ہم مالک سے اپنی صلاحیت‘ مہارت اور علم میں اضافے کے بغیر زیادہ سے زیادہ تنخواہ کا مطالبہ بھی کریں گے‘ ہم اس مالک کو ہزار ہزار طریقے سے تنگ کریں گے اور اس کے بعد نوکریوں کی کمی اور بے روزگاری کا شکوہ بھی کریں گے۔
ہم نے آج تک سوچا ہوٹل کے ایک کمرے سے 127 لوگوں کا رزق وابستہ ہوتاہے‘ فیکٹری کا ایک مالک یا چھوٹے سائز کی ایک کمپنی ہزار بارہ سو لوگوں کا چولہا جلاتی ہے اور ملک میں جب تیس ملازمین کی کمپنی بند ہوتی ہے تو دو ہزار لوگ اس سے براہ راست یا بالواسطہ متاثر ہوتے ہںم‘ پنکچر کی ایک دکان پچیس لوگوں کو پالتی ہے اور جب یہ دکان بند ہوتی ہے تو اس سے چھ سات خاندانوں کے چولہے بجھ جاتے ہیں!۔ہم نے آج تک نہیں سوچا معاشرے اور ملک بزنس اور سرمایہ کاری سے چلتے ہیں‘ ہمارے رسولﷺ اور ان کے صحابہؓ تاجر تھے‘ مدینہ منورہ کو سب سے پہلے تجارتی مرکز بنایا تھا اور نبی اکرمﷺ کے دور کے بازار آج بھی مدینہ میں موجود ہیں‘ہم نہیں سوچتے پوری دنیا نے آج سرمایہ کاروں کے لیے بانھیں کیوںکھول رکھی ہیں؟۔
ہم نے کبھی سوچا اس بنگلہ دیش نے ہماری کاٹن انڈسٹری کے لیے اپنے دروازے کیوں کھول دیے جس نے کبھی پاکستان کی فوج اور سرمایہ داروں کے رویے سے مجبور ہو کر ہم سے آزادی لے لی تھی کیونکہ انھیں اب یہ اندازا ہوا تاجر‘ صنعت کار اور سرمایہ کار معاشرے کے محسن ہوتے ہیں‘ یہ ہزاروں‘ لاکھوں لوگوں کے رزق کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا دبئی سے لے کر امریکا تک پوری دنیا سرمایہ کاروں کے لیے کیوں کھلی ہے اور پوری دنیا سرمایہ کاروں کو شہریت کیوں دیتی ہے؟ اس لیے کہ دنیا جان گئی ہے معاشرے سرمایہ کاروں کے بغیر بھوکے مر جاتے ہیں لیکن ہم لوگوں میں سے ہر شخص سرمایہ کار بھی بننا چاہتا ہے اور سرمایہ کاروں کو گالی بھی دیتا ہے ‘ہم پوری کوشش کرتے ہیں وہ ادارہ جو ہمیں ہر مہینے تنخواہ دیتا ہے ہم اسے بند کرا دیں۔
ہماری یہ اپروچ دولت ‘ سرمایہ کاری اور ہنر مندی کے بارے میں ہماری کنفیوژن ملک کو معاشی بدحالی کے دہانے تک لے آئی ہے اور آپ عوام اس کے قصور وار ہیں کیونکہ آپ فیصلہ نہیں کر رہے آپ نے درویش بن کر زندگی گزارنی ہے یا پھر آپ نے رزق کی کشادگی کی طرف جانا ہے چنانچہ آپ عوام مجرم ہیں۔
ہم عوام میں سے ہر دوسرا شخص یورپ اور امریکا جانا چاہتا ہے‘ ہمارے بیسیوں نوجوان ایران‘ ترکی اور یونان کے بارڈر پر مارے جاتے ہیں‘ ہمارے نوجوان لاکھوں روپے دے کر غیر قانونی طریقے سے یورپ اور امریکا پہنچتے ہیں‘ امریکا شہریت کی لاٹری شروع کرتا ہے تو پاکستان سے دو‘ دو کروڑ لوگ اپلائی کر دیتے ہیں لیکن ہم ساتھ ہی ساتھ امریکا اور یورپ کو گالی بھی دیتے ہیں‘ ہم ان لوگوں کو اپنا دشمن بھی کہتے ہیں‘ انھیں اسلام کا مخالف بھی سمجھتے ہیں اور ان کی تہذیب کو ننگا اور فحش بھی کہتے ہیں‘ ہم عوام کس قدر کنفیوژ ہیں اگر یورپ اور امریکا سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک برے ہیں‘ ہمارے دشمن ہیں تو پھرہم نوکری اور رزق کے لیے وہاں کیوں جاتے ہیں‘ یہ لوگ اگر ننگے‘ فحش اور ہمارے نظریاتی دشمن ہیں تو پھر ہم ان کی شہریت کیوں حاصل کرتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کو وہاں کیوں رکھتے ہیں۔
آپ میں سے کسی کے پاس اس کا جواب موجود ہے ؟ ہم اپنے ملک کے بارے میں بھی کنفیوژن کا شکار ہیں‘ ہم سارا سارا دن ملک کو گالی دیتے ہیں لیکن ہم اس کے برے نظام کا تحفظ بھی کر رہے ہیں‘ ہم فوج‘ بیوروکریٹس اور پولیس کو بھی گالی دیتے ہیں لیکن ہم اپنے بچوں کو پولیس‘ سرکاری دفتروں اور فوج میں بھرتی کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا دیں گے‘ ہم رشوت بھی دیں گے‘ جعلی ڈگریاں بھی لیں گے اور سفارش کی انتہائی نچلی سطح پر بھی چلے جائیںگے‘ ہم سیاستدانوں کو بھی برا کہتے ہیں لیکن ہم میں سے ہر دوسرا شخص ایم پی اے‘ ایم این اے‘ سیٹر اور وزیر بھی بننا چاہتا ہے‘ ہم انگریزی کو برا کہتے ہیں لیکن ہم میں سے ہر شخص فون اٹھاتے ہی ہیلو‘ معذرت کے لیے سوری‘ شکریے کے لیے تھینک یو کہے گا اور ہم میں سے ہر شخص اپنے بچے کو انگریزی اسکول میں داخل کرائے گا۔
ہم اس ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں‘ ہم پوری دنیا میں اسلام کا بول بالابھی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم میں سے کسی کو عربی زبان نہیں آتی‘ ہم قرآن مجید بھی پنجابی‘ سندھی‘ پشتون اور بلوچی لہجے میں پڑھتے ہیں۔آپ المیہ ملاحظہ کیجیے‘ ہم حج اور عمرے کے دوران بھی مسلمان بھائیوں سے انگریزی میں بات چیت کرتے ہیں اور ہم کھجور اور آب زم زم کی قیمت بھی انگریزی میں پوچھتے ہیں‘ ہم اسلام کو مکمل ضابطہ اخلاق سمجھتے ہیں لیکن ہم نے بارہ سو سال پہلے اسلام پر تحقیق بند کر دی تھی‘ ہمارے مدارس میں آج بھی آٹھ سو سے لے کر بارہ سو سال تک پرانی کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں‘ ہم میں سے ہر شخص حضرت عمر فاروقؓ جیسا حکمران چاہتا ہے لیکن اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے کوئی حضرت عمرفاروقؓ جیسا طرززندگی گزارنا نہیں چاہتا۔
ہم رتبہ حضرت عثمانؓ جیسا چاہتے ہیں لیکن ان کی طرح قربان نہیں ہونا چاہتے‘ ہم میں سے ہر شخص انصاف چاہتا ہے لیکن ہم اپنی مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیں گے‘ ہم عورت کو آزاد اور خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنی بہن‘ اپنی بیٹی کا رشتہ اس سے پوچھے بغیر کردیں گے‘ ہم جمہوریت کو بہترین نظام کہتے ہیں لیکن ووٹ کبھی نہیں دیں گے‘ اللہ سے رحم مانگیں گے لیکن اس کا کوئی حکم نہیں مانیں گے‘ نبی اکرمﷺ سے عشق کی قسمیں کھائیں گے لیکن ان کے احکامات کی پیروی نہیں کریں گے اور ہم سیلاب سے لے کر آتشزدگی تک اور الیکشن سے لے کر مردم شماری تک اور بلوچستان میں حالات کی خرابی سے لے کر کراچی کی قتل و غارت گری تک فوج کو آوازدیں گے لیکن مارشل لائوں کو گالی دیں گے‘ہم شادیوں میں ویلیں دیں گے اورطوائفوں پر نوٹ نچھاور کریں گے لیکن سادگی اور کفایت شعاری کے درس دیں گے۔
ہم صفائی کو نصف ایمان سمجھتے ہیں لیکن ہماری مسجدوں اور قبرستانوں میں گرد بھی ہوگی‘ بے ترتیبی بھی اور گندگی بھی‘ ہم پوری زندگی کسی کتاب کو ہاتھ نہیں لگائیں گے لیکن عالم بھی کہلانا چاہیں گے اور ہم گھردریائوں‘ نہروں اور پہاڑوں کے نشیب میں بنائیں گے لیکن سیلاب میں ڈوبنے کے بعد واویلا بھی کریں گے ‘ غرض ہم روایت سے لے کر مذہب اور تعلیم سے لے کر خوشحالی تک کنفیوژن کا شکار ہیں‘ سوال یہ ہے اس کنفیوژن کا ذمے دار کون ہے؟ اس کے ذمے دار عوام ہیں کیونکہ کوئی ریاست‘ کوئی حکومت فرد کو کنفیوژن سے نہیں نکال سکتی مگر ہم عوام روز خواجہ سرائوں کی گود ہری ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور شام کو مایوس ہو کر ریاست اور ملک کو گالی دے دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں ریاست اور ملک خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو جائے یہ خواجہ سرائوں کو ماں یا باپ نہیں بنا سکتا۔
(نوٹ: عوام پر اعتراضات کی سیریز ختم ہو گئی ہے‘ میں چند دن بعد ان مسائل کا حل تجویز کروں گا)

عوام اصل مجرم ہیں (پانچواں حصہ)
جاوید چوہدری جمعرات 1 نومبر 2012
آپ عوام کا یہ دعویٰ درست ہے ملک میں مہنگائی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔
ملک میں کھانے پینے کی اشیاء امریکا اور یورپ سے زیادہ مہنگی ہیں‘ ذخیرہ اندوز‘ ملاوٹ باز اور سرمایہ دار چیزوں کی مصنوعی قلت پیدا کرتے دیتے ہیں اور عوام کے لیے تنخواہوں میں گزارا ممکن نہیں‘ یہ اعتراض سو فیصد درست ہے لیکن آپ نے کبھی غور کیا، مہنگائی میں حکومت کا ہاتھ تیس فیصد جب کہ عوام کا ستر فیصد ہوتا ہے‘ ہم صرف گندم ہی کیوں کھاتے ہیں‘ دنیا بھر کے ڈاکٹر شوگر‘ بلڈپریشر‘ کولیسٹرول اور ٹینشن کے مریضوں کو گندم ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور مریض جوں ہی آٹا چھوڑتے ہیں ان کا مرض آدھا رہ جاتا ہے‘ ہم لوگ گندم یا آٹے کی مہنگائی کے دنوں میں متبادل خوراک پر کیوں نہیں جاتے ‘ ہم آٹے میں جو‘ باجرے یا مکئی کا آٹا مکس کر کے کیوں نہیں کھاتے‘ ہم عوام مہنگائی کے دنوں میں پیاز یا ٹماٹر کا استعمال کم کیوں نہیں کر دیتے‘ ہم مہنگائی کے ساتھ ساتھ گھی اور چینی کا استعمال کم اور زیادہ کیوں نہیں کرتے۔
یہ درست ہے بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتیں ناقابل برداشت ہیں لیکن ہم ذاتی زندگی میں پٹرول‘ گیس اور بجلی کی لوڈ مینجمنٹ کوزں نہیں کرتے‘ ہم گیس صرف ضرورت کے وقت استعمال کیوں نہیں کرتے‘ ہم گھر روشنی کے رخ پر کیوں نہیں بناتے‘ ہم گھروں میں روشن دان اور کھڑکیاں کوشں نہیں بناتے اور ہم گھروں میں دن کے وقت روشنی کیوں جلاتے ہیں‘ ہم سگنل پر اپنی گاڑی اور موٹر سائیکل کیوں اسٹارٹ رکھتے ہیں‘ مارکیٹ سے دودھ کا ڈبہ لینے کے لیے بھی گاڑی پر کیوں جاتے ہیں‘ ہم روزانہ کے بجائے مہینے میں ایک بار گھر کا سودا کیوں نہیں خریدتے‘ ہم دکانوں کے بجائے ہول سیل مارکیٹ سے چیزیں کیوں نہیں خریدتے اور ہم گھر کا سارا بوجھ ایک شخص کی جیب پر کیوں ڈال دیتے ہیں‘ گھر کا ہر شخص گھر کی معیشت میں کم یا زیادہ حصہ کیوں نہیں ڈالتا۔
ہم اپنے بچوں کو شروع سے خود انحصاری کی تربیت کیوں نہیں دیتے‘ ہم انھیں دن میں ایک آدھ گھنٹہ کام کرنے‘ ٹیوشن پڑھانے یا پھر دکانوں پر اشیاء سپلائی کرنے کی ترغیب کیوں نہیں دیتے‘ اگر دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص وارن بفٹ آج بھی روزانہ دکانوں پر کوکا کولا کے کریٹ رکھتا ہے یا بل گیٹس کے بچے پڑھائی کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کما رہے ہیں تو ہم اور ہمارے بچے ایسا کیوں نہیں کر سکتے‘ یہ بھی درست ہے غریب کو بیماریاں زیادہ چمٹتی ہیں‘ تھیلیسیمیا اور ہیپاٹائٹس کے زیادہ تر مریضوں کا تعلق لوئر طبقے سے ہوتا ہے لیکن ہم لوگ شادی سے پہلے اپنا اور اپنی بیوی کا خون ٹیسٹ کیوں نہیں کرا لیتے‘ ہم صرف چھ سو روپے خرچ کر کے آنے والے مسائل سے بچ سکتے ہیں‘ ہمارا مزدور‘ ہمارا غریب فیکٹری میں کام کرتے ہوئے منہ پر ماسک کیوں نہیں چڑھاتا‘ سر پر ہیلمٹ اور ہاتھوں پر دستانے کیوں نہیں پہنتا۔
یہ پانی ابال کر کیوں نہیں پیتا اور یہ گھر میں گوبر جلا کر مچھر کیوں نہیں بھگا لیتا‘ یہ چوبیس گھنٹے میں ایک گھنٹہ واک یا ڈنڈ بیٹھک کیوں نہیں نکال لیتا اور اگر یہ ایفورڈ نہیں کر سکتا تو یہ کم بچوں کی پالیسی پر کیوں نہیں جاتا ‘ ہمارے ملک میں غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری کی ستر فیصد جڑیں عوام کی ضداور ہٹ دھرمی میں گڑھی ہیں۔ اگر چودہ لوگوں کے خاندان کا صرف ایک فرد کام کرے گا یا ہم پیاز کے بغیر ہانڈی نہیں پکائیں گے اور ہمیں ہر سالن میں ٹماٹر اور ہر دوسرے دن گوشت چاہیے ہو گا‘ ہم بے ہنر ہوں گے اور ہم خاندان کو گندا پانی پلائیں گے تو ہم خواہ سونے کی کان کے مالک کیوں نہ ہو جائیں ہم غربت اور مہنگائی سے جان نہیں چھڑا سکیں گے چنانچہ ہم اپنی غربت‘ اپنی بے روزگاری اور اپنی مہنگائی کے خود مجرم ہںپ‘ ہم ہی اس کے قصور وار ہیں۔
میں دل سے سمجھتا ہوں ریاست کو باپ کا کردار ادا کرنا چاہیے اور اگر ریاست یہ فنکشن ادا نہیں کر رہی تو پھر ہر شخص کو گریبان پکڑنے کا حق حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کیاہم گریبان پکڑنے سے پہلے اپنے آپ سے یہ پوچھتے ہیں ’’ہم ریاست کو دے کیارہے ہیں؟‘‘ ہم اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے صرف 18 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں‘ باقی 17کروڑ 78لاکھ لوگ صرف گریبان پکڑ رہے ہیں‘ ان سب کو سڑک بھی چاہیے‘ اسپتال بھی‘ اسکول بھی‘ کھانے پینے کی اشیاء بھی‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول اور کھاد میں سبسڈی بھی‘ لاء اینڈ آرڈر بھی‘ فوج بیل‘ نیوکلیئر بم بھی اور امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے قدموں پر کھڑے حکمران بھی لیکن کیا یہ صرف اٹھارہ لاکھ لوگوں کے ٹیکس میں ممکن ہے؟
امریکا کے امریکا ہونے کی دس وجوہات ہیں اور ان وجوہات میں سے ایک وجہ ٹیکس کولیکشن بھی ہے‘ امریکا کے 31کروڑ 46لاکھ 86ہزار لوگوں میں سے 13کروڑ 80لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں جب کہ ہمارے ملک کے ننانوے فیصد لوگ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ مجھے حکومت سے کوئی دلچسپی اور ہمدری نہیں‘ میں پاکستان کی حکومتوں کو سفاک اور خون آشام سمجھتا ہوں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے مطالبہ‘ احتجاج اور دعویٰ صرف اس شخص کو کرنا چاہیے جو جیب سے کچھ دے رہا ہو‘ آپ ٹیکس ایک روپیہ نہ دیتے ہوں اور ساتھ ہی مطالبہ بھی کرتے ہوں اور بے غیرتی کا طعنہ بھی دیتے ہوں تو کیا یہ رویہ درست ہو گا؟ہم یقین کریں یا نہ کریں مگر ہم ملک کی بربادی میں برابر کے شریک ہیں‘ ہم قصور وار بھی ہیں اور مجرم بھی۔
آپ عوام اپنے رویوں پر بھی توجہ دیجیے‘ ہم نے سگنل فری سڑکوں سے سگنلز تک کا سفر ساٹھ برسوں میں طے کیا‘ پاکستان کے نوے فیصد عوام میں سے آپ اور میں گاڑی خریدنے والی پہلی نسل ہیں‘ یہ معاشرہ طویل ذاتی اور اجتماعی جدوجہد کے بعد شیشوں والے دفاتر اور عمارتوں تک پہنچا‘ پولیس کو ایک گاڑی خریدنے کے لیے دودو سال خط و کتابت کرنا پڑتی ہے‘ ہم لوگ نسلوں کی غربت‘ جدوجہد اور محنت کے بعد یونیورسٹیوں تک پہنچتے ہیں اور ہم میں سے چند خاندان ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر اس لیول تک آتے ہیں کہ یہ پٹرول پمپ لگا سکیں یا پھر چھوٹی موٹی دکان کھول سکیں لیکن آپ عوام امریکا میں بننے والی توہین آمیز فلم کا انتقام ان لوگوں سے لیتے ہیں‘ آپ پٹرول پمپ جلا دیتے ہیں‘ نوجوانوں کو قتل کر دیتے ہیں‘ دکانوں‘ گاڑیوں اور دفتروں کو آگ لگا دیتے ہیں‘ پولیس وینز اور گاڑیاں توڑ دیتے ہیں اور سڑکوں کے سگنلز کرچی کرچی کر دیتے ہیں۔
آپ بتائیے گستاخانہ فلم میں ان لوگوں اور ان املاک کا کیا قصور تھا اور کیا یہ ہم عوام کا فرض نہیں تھا‘ ہم ان عناصر کو روکتے‘ ہم اگر احتجاج بھی پر امن نہیں کر سکتے تو کیا پھر ہمیں قوم کہلانے یا مطالبہ کرنے کا حق ہے اور کیا ہم اس ملک میں یہ قانون نہیں بنا سکتے اگر آیندہ کسی مظاہرے کے دوران توڑ پھوڑ ہوئی تو مظاہرین اور احتجاج کرنے والی تنظیم نقصان پورا کرے گی؟ یہ درست ہے اس ملک میں ’’لاء لیس نیس‘‘ ہے‘ ہم رات تو دور دن کو بھی گھر سے نہیںنکل سکتے اور قتل‘ ڈاکے‘ چوریاں اور لڑائی مار کٹائی ہمارے روز مرہ کا حصہ بن چکی ہے لیکن ہم عوام نے آج تک انھیں روکنے کے لیے کیا کیا؟ کیا ہم ملزموں سے واقف نہیں ہیں؟ کیا یہ چور‘یہ ڈاکو‘ یہ قاتل‘ یہ قبضہ گروپ‘ یہ منشیات فروش‘ یہ رشوت خور اور یہ جواء باز ہماری گلیوں اور ہمارے محلوں میں نہیں رہتے‘ کیاہم ان اور ان کے حامیوں سے واقف نہیں ہیں؟
ہم واقف ہیں توپھر ہم نے آج تک ان کی گرفتاری اور ان کی بیخ کنی کے لیے کیا کیا؟ کیاہم نے آج تک پولیس‘ عدالت اور میڈیا سے رابطہ کیا‘ کیاہم نے محلے اور قصبے کی سطح پر کوئی پریشر گروپ بنایا؟ ہم اگر سیم باسیل کی فلم پر پورے ملک میں مظاہرہ کر سکتے ہیں‘ ہم اگر چیف جسٹس کی بحالی کے لیے جلوس نکال سکتے ہیں اور ہم اگر نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے خلاف لانگ مارچ کر سکتے ہیں توکیاہم معاشرے کو ان برائیوں سے پاک کرنے کے لیے مظاہرے نہیں کر سکتے اور کیاہم مظلوموں کی لاشیں اٹھا کر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا گھیرائو نہیں کر سکتے؟
آپ اگر ظلم سہہ کر خاموش رہیں گے یا بلیوں کو کبوتر کھاتے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں گے یا پھر دوسروں کے گھروں کو سیلاب میں بہتے دیکھ کر ٹیلوں پر بیٹھ کر ہنسیں گے تو یہ سیلاب‘ یہ بلی اور ظالم کے یہ ہاتھ ایک نہ ایک دن آپ کی گردن تک بھی پہنچیں گے اور آج اگر یہ ہاتھ آپ کی گردن تک پہنچ رہے ہیں تو پھر آپ چیختے کیوں ہیں؟ آپ اعتراض کیوں کرتے ہیں؟ آپ کی خاموشی‘ آپ کی بے حسی‘ آپ کی لاتعلقی اور آپ کی تماش بین فطرت اس ظلم‘ اس زیادتی اور اس خرابی کی ذمے دار ہے۔ آپ نے کبھی بھیڑیوں کو روکا ہی نہیں چنانچہ آج آپ کی خواہشوں کی بھیڑیں ادھڑی ہوئی آنتوں کے ساتھ آپ کے صحن میں پڑی ہیں‘ آپ اب ان کا تماشا دیکھئے‘ آپ بین کیوں کرتے ہیں‘ آپ مجرم ہیں اور مجرموں کو بین نہیں کرنا چاہیے۔ (جاری ہے)
نوٹ: آپ مجھ سے ٹوئٹر پر رابطہ کر سکتے ہیں (twitter.com/javedchoudhry) ۔
عوام اصل مجرم ہیں (چوتھا حصہ)
جاوید چوہدری بدھ 31 اکتوبر 2012
آپ عوام ایک اور دلچسپ حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے۔
ہمارے ملک میں دو لاکھ 28ہزار اسکول و کالج اور 73سرکاری یونیورسٹیاں ہیں‘ ہمارے یہ تعلیمی ادارے معیار میں اتنے بلند تھے کہ افغانستان سے لے کر انڈونیشیا اور دوبئی سے لے کر مراکش تک مسلمان اشرافیہ اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے پاکستان بھجواتی تھی ‘ ہمارے ملٹری‘ ایئرفورس اور بحریہ کے ادارے بھی مڈل ایسٹ‘ افریقی اسلامی ممالک اور مشرق بعید کے افسروں کو تعلیم اور ٹریننگ دیتے تھے‘ آج سے تیس برس پہلے تک ہماری سول سروس‘ ہمارے ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ چارٹر اکائونٹنٹ اور ہمارے بڑے بزنس مین ان سرکاری اسکولوں سے پڑھ کر نکلتے تھے لکنٹ آج حالت یہ ہے عام لوگ بھی اپنے بچے سرکاری اداروں میں داخل نہیں کراتے‘ آپ قریب ترین سرکاری اسکول چھوڑ کر اپنا بچہ پانچ کلومیٹر دور پرائیویٹ اسکول میں داخل کرا دیں گے ‘ آپ کی اس ’’حرکت‘‘ کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں داخلے کی شرح تیزی سے گر رہی ہے جب کہ پرائیویٹ اسکول ہر محلے‘ ہر گلی میں کھمبیوں کی طرح اگ رہے ہیں اور ان میں داخلہ بھی نہیں ملتا۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی وجہ بہت دلچسپ ہے‘ حکومت نے آج سے تیس سال قبل ان تعلیمی اداروں پر توجہ دینا چھوڑ دی تھی‘ اسکولوں اور کالجوں کی عمارتیں بوسیدہ ہو چکی ہیں‘ دروازے ٹوٹ چکے ہیں‘ ٹاٹ پھٹ چکے ہیں‘ کرسیاں اور میزیں غائب ہو چکی ہیں‘ اسکولوں اور کالجوں مںا باتھ رومز نہیں ہیں‘ لیبارٹریوں‘ کھیل کے میدان اور لائبریریوں کا نشان تک مٹ چکا ہے‘ ان اداروں میں استاد نہیں ہیں اور اگر ہیں تو یہ اسکول اور کالج نہیں آتے چنانچہ آج ملک کا تعلیمی نظام قبرستان بن چکا ہے اور آپ والدین اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے پرائیویٹ اسکولوں کا رخ کر رہے ہیں لیکن قصور وار کون ہے؟ عوام اس کے قصور وار ہیں کیونکہ آپ نے آج تک اپنے بچوں کے اسکول پر توجہ ہی نہیں دی‘ آپ نے کبھی اپنے اسکول‘ اپنے کالج کے لیے احتجاج نہیں کیا۔
آپ نے کبھی اپنے اسکول‘ اپنے کالج میں استادوں کی کمی پر اپنے ایم پی اے‘ اپنے ایم این اے کے گھر کا گھیرائو نہیںکیا‘ آپ نے اسکول کی گرتی ہوئی عمارت‘ اسکول کے باتھ روم‘ لائبریری‘ لیبارٹری اور کھیل کے میدان کے لیے کمپین نہیںکی‘ آپ نے کبھی محکمہ تعلیم کی توجہ اس جانب مبذول نہیں کرائی اور آپ نے کبھی اپنی مدد آپ کے تحت ان سرکاری اسکولوں کی تزئین و آرائش نہیںکی چنانچہ آپ ملک کے تعلیمی نظام کے زوال کے ذمے دار ہیں‘ آپ پیٹ کاٹ کر‘ ڈبل شفٹ میں کام کر کے‘ زمین اور زیور بیچ کر اور رشوت لے کر بچوں کو پرائیویٹ تعلیم دلا لیں گے لیکن سرکاری اسکول بحال نہیں کرائیں گے اور آپ کی اس سوچ کی وجہ سے تعلیم کا جنازہ نکل گیا۔
ملک میں صحت اور ہائوسنگ کے سیکٹر میں بھی یہی ہوا‘ آپ سرکاری اسپتالوں میں علاج کیوں نہیں کراتے؟‘ آپ ڈاکٹر کو اسپتال میں ملنے کے بجائے اس کے پرائیویٹ کلینک کیوں جاتے ہیں؟اس لیے کہ سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر ہوتا ہی نہیں اور اگر ہو تو اس کے پاس مریض دیکھنے کے لےل وقت نہیں ہوتا چنانچہ آپ بھیک مانگ لیں گے مگر اپنا علاج پرائیویٹ کروائیںگے۔ سرکاری ہائوسنگ اسکیموں میں بھی کیا ہوا‘ سرکار سستے پلاٹ دے دیتی ہے لیکن اس میں گلی‘ سڑک‘ بجلی اور گیس نہیں دیتی جب کہ پرائیویٹ ہائوسنگ اسکیموں میں سہولتیں پہلے ملتی ہیں اور آباد کاری بعد میں ہوتی ہے‘ آپ نے کبھی اپنے نمایندوں کے سامنے یہ ایشو اٹھایا‘ آپ نے کبھی حکومت کے سامنے اس پر احتجاج کیا‘ آپ نے کبھی اپنے ووٹ کو اپنی سرکاری آبادیوں کی صورتحال سے نتھی کیا۔
آپ نے نہیں کیا چنانچہ آج آپ کی جیب میں ہزار روپے ہیں تو آپ ڈاکٹر کا منہ دیکھ سکتے ہیں اور آپ ایک مربع زمین بیچیں گے تو آپ دس مرلے کا گھر خرید سکیں گے ۔ آپ عوام نے کبھی سوچا پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ہم میں سے نوے فیصد لوگ سبزی‘ دالیں‘ گندم‘ چینی اور گھی بازار سے خریدتے ہیں‘ یہ ملک دنیا کے پانچ زرعی ممالک میں شمار ہوتا ہے جو خوراک اور پھل درآمد کرتا ہے‘ جاپان کے لوگ گملوں میں ٹماٹر‘ پیاز اور گوبھی اگا لیتے ہیں لیکن ہم لوگ اپنے لیے سبزی‘ اناج‘ گوشت اور فروٹ کا بندوبست نہیں کر سکتے‘ ہمارے دیہات تک کے لوگ شہر سے چینی‘ دالیں اور فروٹ خریدتے ہیں‘ آپ نے کبھی خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہونے کی کوشش نہیں کی ۔ سرکاری ملازم ملکوں کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں‘ اگر محکموں میں اہل‘ ایماندار اور محنتی لوگ نہیں آئیں گے تو سسٹم کیسے چلے گا؟
آپ نے کبھی سوچا آپ ملکی سسٹم کو کس قسم کا ٹیلنٹ دے رہے ہیں! آپ اپنے سست ترین‘ نالائق ترین اور کرپٹ ترین بچے کو سرکاری ملازمت دلواتے ہیں‘ آپ رشوت دے کر اپنے بچوں کو پولیس‘ محکمہ مال‘ ریلوے‘ پی آئی اے اور سوئی گیس میں بھرتی کرواتے ہیں‘ آپ بچے کو پانچ پانچ‘ دس دس سال گھر بیٹھا لیں گے لیکن آپ اسے بھرتی سرکاری محکمے ہی میں کرائیں گے چنانچہ آپ حکومت کو جس قسم کا ٹیلنٹ دیں گے حکومت بھی اسی طرح چلے گی اور اگرحکومت میں نااہلی‘ کرپشن اور سستی ہو گی تو اس کا اثر آپ اور آپ کے خاندان پر بھی پڑے گا اور آپ اب یہ اثرات بھگت رہے ہیں۔
آپ نے کبھی سوچا آپ دین کو کیسا ٹیلنٹ دے رہے ہیں! آپ اپنے معذور‘ اندھے اور نالائق بچے مدرسوں میں بھرتی کرا دیتے ہیں‘ یہ بچے بعدازاں حافظ اور عالم بن جاتے ہیں‘ آپ اگر ایک معذور یا کم فہم شخص کو بی ایم ڈبلیو کار دے دیں گے تو وہ اس کا کیا حشر کرے گا چنانچہ یہ کم فہم اور معذور بچے دین کا وہی حشر کر رہے ہیں جس کی ان سے توقع کی جا سکتی ہے۔ آپ نے کبھی ایچی سن‘ صادق پبلک یا ہاورڈ اور کیمبرج کا تعلیم یافتہ بچہ دین کو دیا؟ آپ دے کر دیکھ لیجیے‘ اس ملک سے فرقہ واریت اور دین سے دوری ختم ہو جائے گی لیکن آپ ایسا نہیں کر رہے چنانچہ آپ اس کا نتیجہ بھی بھگت رہے ہیں اور آپ اس معاملے میں بھی مجرم ہیں۔
آپ نے کبھی سوچا معاشرے میں سکون کے لیے چار چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔ کتابیں‘ کھیل‘ تفریح اور سوشل گیدرنگ۔ پاکستان میں کبھی ہر شہر اور ہر تعلیمی ادارے میں لائبریری ہوتی تھی ‘ یہ لائبریریاں ختم ہو گئیں‘ آج کسی شہر میں لائبریری نہیں اور اگر ہے تو یہ بند پڑی ہے یا پھر اسے کوئی استعمال نہیں کر رہا۔ پاکستان کی ستر فیصد آبادی پوری زندگی کوئی کتاب نہیں خریدتی اور باقی تیس فیصد آبادی بھی زندگی میں اوسطاً آدھی کتاب خریدتی ہے۔ پاکستان کے تمام شہروں میں پارک اور کھیل کے میدان ہوتے تھے‘ ملک کے تمام تعلیمی اداروں‘ محلوں اور کمیونٹیز کی ٹیمیں ہوتی تھیں لیکن یہ ٹیمیں‘ کھیل کے میدان اور پارکس ختم ہو گئے۔
ان کی جگہ ہائوسنگ اسکیمیں بن گئیں یا پھر یہ قبضہ مافیا کے قبضے میں ہیں۔ تفریح کی حالت یہ ہے آج 2012ء میں بھی آپ کو اس ملک میں فلم‘ موسیقی اور تھیٹر کے کروڑوں مخالفین مل جائیں گے‘ آپ کو اس ملک میں آڈیو لائبریری‘ اوپن ایئر تھیٹر اور سینما نہیں ملتے اور اگر ہیں تو یہ آخری سانس لے رہے ہیں اور رہ گئی سوشل گیدرنگ تو آپ کو اس پورے ملک میں ریستوران اسٹریٹس اور کیفے ایریاز نہیں ملتے۔ اگر ہیں تو یہ خود رو ہیں اور عوام اور حکومت اس کی منصوبہ بندی میں شامل نہیں۔ ملک میں کلبز نہیں ہیں‘ سوئمنگ پولز نہیں ہیں‘ چائے خانے نہیں ہیں‘ کمیونٹی سینٹر نہیں ہیںاور اگر ہیں تو یہ کسی قانون اور قاعدے کے مطابق نہیں چل رہے چنانچہ آپ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں لاکھوں کروڑوں نوجوانوں کو شام کے وقت بے مہار پھرتے دیکھتے ہیں۔
یہ کبھی اس گلی میں اکٹھے ہوتے ہیں‘ کبھی اس چوک میں بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی کسی بازار کا رخ کر لیتے ہیں ‘ نوجوانوں کی اس نقل و حرکت سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور آپ عوام اس بگاڑ کے بھی ذمے دار ہیںکیونکہ آپ نے کبھی ان نوجوانوں کے بیٹھنے اور ان کی ’’سوشل گیدرنگ‘‘ کے لیے کام نہیںکیا‘ آپ نے شہر یا محلے میں ایسے چائے خانے یا کمیونٹی سینٹر نہیں بنائے جہاں یہ بیچارے شام گزار سکیں‘ آپ نے شہر میں آڈیو لائبریریاں اور چھوٹے سینما ہائوس بھی نہیںبنائے یا میونسپل کمیٹی کو بنانے کی ترغیب نہیں دی۔
آپ نے اپنے نمایندوں اور بزنس مین کو پارکس اور کھیل کے میدان بنانے اور شہر میں لائبریریاں قائم کرنے کے لیے بھی مجبور نہیں کیا چنانچہ پھر آپ اور آپ کے بچوں کی زندگی میں سکون کیسے ہو سکتا ہے‘ آپ کی زندگی میں اطمینان کیسے آ سکتا ہے !! آپ اس معاشرتی بے سکونی کے ذمے دار بھی ہیں‘ آپ معاشرتی بگاڑ‘ سسٹم کی خرابی‘ خوراک کی کمی‘ ہائوسنگ اسکیموں‘ صحت اور تعلیم کی پستی کے بھی ذمے دار ہیں‘ آپ اپنی ہی ذات کے مجرم ہیں اور آپ کو اس صورتحال پر رونے دھونے کا کوئی حق حاصل نہیں‘ آپ اس شخص کی طرح ہیں جو پہلے خود کشی کرتا ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے اپنی بے وقت موت کا شکوہ کرتا ہے ۔(جاری ہے۔۔)۔
عوام اصل مجرم ہیں (تیسرا حصہ)
جاوید چوہدری جمعـء 26 اکتوبر 2012
آپ عوام نے کبھی سوچا دنیا میں امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ ہالینڈ‘ بیلجیئم‘ اسپین اور اٹلی جیسے ملک بھی ہیں‘ دنیا میں جاپان‘ چین اور تائیوان بھی ہیں اور ان ممالک کے عوام کرپٹ سیاستدانوں‘ بدعنوان بیوروکریٹس‘ جانبدار ججوں‘ طالع آزما جرنیلوں اور بلیک میلر صحافیوں سے کیا سلوک کرتے ہیں! کیا آپ عوام جانتے ہیں۔
امریکا کی فوج دنیا کی سب سے بڑی‘ مضبوط اور تکنیکی لحاظ سے موسٹ ماڈرن عسکری طاقت ہے‘ امریکی فوج کا بجٹ ساڑھے پانچ سو بلین ڈالر ہے‘ یہ کتنی بڑی رقم ہے آپ اس کا اندازا پاکستان کے کل بجٹ سے لگا لیجیے‘ پاکستان کا 2012 کا بجٹ 29کھرب 60ارب روپے تھا‘ یہ ڈالرز میں 31بلین بنتے ہیں‘ آپ 31بلین اور 550 بلین ڈالر کا فرق دیکھ لیجیے‘ امریکی فوج کے پاس ایسے جہاز‘ رائفلیں اور توپیں بھی ہیں جو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مار کر سکتی ہیں‘ یہ اس قدر طاقتور ہے کہ یہ امریکی صدر کو بھی اپنے پچاس فیصد منصوبوں کی خبر نہیں ہونے دیتی‘ اب سوال یہ ہے کیا امریکی جرنیل‘ ایڈمرلز اور ائر چیفس کے دل میںدنیا کی واحد سپر پاور کا حکمران بننے کی خواہش پیدانھیں ہوتی‘ کیا یہ سو جوان بھجوا کر وائٹ ہائوس خالی نہیں کرا سکتے ‘ کیا یہ امریکا کا آئین معطل نہیں کر سکتے‘ کیایہ امریکی ججوں سے پی سی او پر حلف نہیں لے سکتے اور کیایہ اپنی مرضی کی تیسری سیاسی جماعت نہیں بنوا سکتے ؟لیکن سوال یہ ہے یہ لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے؟
ان کے عزائم کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے ؟ کیا آپ عوام جانتے ہیںامریکی سی آئی اے دنیا کی سب سے بڑی‘ مضبوط اور امیر خفیہ ایجنسی ہے‘ کیا یہ چند بلین ڈالرز خرچ کر کے صدر اوباما کی حکومت نہیں گرا سکتی‘ کیا یہ 14بلین ڈالرز خرچ کر کے میٹ رومنی کو صدر نہیں بنوا سکتی اور کیا امریکا کا کوئی جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی مل کر امریکا کا پورا سیاسی نظام نہیں بدل سکتا ؟لیکن سوال یہ ہے یہ لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ ان کے عزائم کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے ؟ کیا آپ عوام یہ سمجھتے ہیں برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ ہالینڈ‘ بیلجیئم‘ اسپین‘ اٹلی‘ جاپان‘ چین اور تائیوان کے سیاستدان کرپشن نہیں کرنا چاہتے‘ یہ حاجیوں کی جیب نہیں کاٹنا چاہتے‘ یہ ایفی ڈرین سے سات ارب روپے نہیں کمانا چاہتے‘ یہ پارٹی کے جلسوں سے خطاب کے لیے سرکاری جہاز استعمال نہیں کرنا چاہتے‘ یہ صدارتی الیکشن کے لیے آئی بی کے فنڈز سے پچاس پچاس کروڑ روپے نہیں نکالنا چاہتے۔
یہ ریلوے‘ پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی ہڈیاں نہیں بیچنا چاہتے‘ یہ اپنے منظور نظر وکیلوں کو پانچ پانچ کروڑ روپے نہیں دینا چاہتے‘ یہ سرکاری فنڈز سے خورد برد نہیں کرنا چاہتے‘ یہ صوابدیدی فنڈز قائم نہیں کرنا چاہتے اور یہ فنڈز اپنے دوستوں میں نہیں باٹنا چاہتے ‘ یہ اپنی زمینوں کی قیمتیں بڑھانے کے لیے رنگ روڈز‘ موٹرویز اور قومی شاہرات کا رخ نہیں موڑنا چاہتے‘ یہ ذاتی کاروبار کے لیے قانون نہیں بدلنا چاہتے اور یہ بچوں کے کانووکیشن میں شرکت کے لیے سرکاری دوروں کے نام پر ہفتہ ہفتہ امریکا اور لندن نہیں رہنا چاہتے‘ یہ سیاست کے ذریعے اپنی دولت‘ زمین جائیداد اور کاروبار میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے؟
یہ سکیورٹی آلات اور ٹیلی فون کالز کے ذریعے اربوں روپے نہیں کمانا چاہتے ہیں‘ یہ اپنی ذاتی رہائش گاہوں کو پرائم منسٹر ہائوس اور ایوان صدر کا کیمپ آفس نہیںبنانا چاہتے ‘ یہ سرکاری عملے کو ذاتی عملے اور ذاتی عملے کو سرکاری عملے میں تبدیل نہیںکرنا چاہتے اور یہ ووٹرزکو کھینچنے کے لیے لاکھ‘ لاکھ لوگوں کو سرکاری نوکری نہیں دینا چاہتے ؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے یہ لوگ پھر ایسا کیوں نہیں کرتے؟ ان کے عزائم کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے؟
کیا آپ عوام یہ سمجھتے ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے بیوروکریٹس کے دل میں کرپشن کا خیال پیدا نہیں ہوتا‘ یہ نوکریاں نہیں بیچنا چاہتے‘ یہ سرکاری رہائش گاہوں‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ گاڑی‘ ملازمین‘ علاج اور پلاٹس حاصل نہیں کرنا چاہتے‘یہ ’’صاحب میٹنگ میں ہیں‘‘ جیسی عیاشی سے لطف اندوز نہیں ہونا چاہتے اوریہ کرپٹ سیاستدانوں اور اقتدار کے بھوکے جرنیلوں کی ہوس کا حصہ بن کر اپنی دنیا اور آخرت نہیں ’’سنوارنا‘‘ چاہتے اور ان ممالک کا ہر جعلی ڈگری ہولڈر سرکاری ملازمت اختیار نہیں کرنا چاہتا اورکیا وہاں لوگ پانچ‘ دس لاکھ روپے دے کر پٹواری‘ نائب تحصیلدار اور اے ایس آئی بھرتی نہیں ہونا چاہتے اور کیا وہاں کی پولیس رات کے وقت ناکے لگا کر لوگوں کی جیبیں خالی نہیں کرنا چاہتی‘ کیاوہاں کی ایجنسیاں بے گناہوں کو مقدموں میں پھانس کر پیسے نہیں اینٹھنا چاہتیں اور کیا وہاں قانونی ادارے شراب‘ جوئے اور فحاشی کے اڈوں سے بھتے وصول نہیں کرنا چاہتے اور کیا وہاں کے تاجر‘ بزنس مین‘ سرمایہ دار اور صنعت کار صارفین کی چمڑی کے جوتے نہیں بنانا چاہتے‘
کیا وہ مرچوں میں لکڑی کا برادہ‘ دودھ میں سنگھاڑے کا آٹا‘ گندم کے آٹے میں جو اور مردہ گدھے کا گوشت بکری کے گوشت میں نہیں ملانا چاہتے اور کیا ان کے صنعت کار جعلی مصنوعات بنانا اور مارکیٹ میں بیچنا نہیں چاہتے؟ کیا ان کے ڈاکٹرز‘ انجینئرزاور ٹیچرز اسکولوں‘ دفتروں اور اسپتالوں سے غائب نہیں ہونا چاہتے اور کیا ان کے نوجوان ہاتھ میں پستول لے کر دس‘ بیس لوگوں کو پرس اور موبائل سے محروم نہیں کرنا چاہتے‘ جی ہاں یہ لوگ بھی ایسا کرنا چاہتے ہیں‘ یہ بھی مفت تنخواہیں لینا چاہتے ہیں‘ یہ بھی دس ڈالر خرچ کر کے سو ڈالر کمانا چاہتے ہیں‘ یہ بھی جعلی ڈگریوں کے ساتھ سرکاری نوکریاں حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ یہ بھی سرکاری مراعات پر پلنا چاہتے ہیں‘ یہ بھی جی بھر کر کرپشن کرنا چاہتے ہیں‘ یہ بھی انا کی تسکین کے لیے بیس‘ بیس گاڑیوں کے پروٹوکول کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں اور یہ بھی اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں لیکن ان کی خواہشوں کے راستے میں صرف ایک رکاوٹ ہے اور وہ رکاوٹ عوام ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے حکمران سمجھتے ہیں ہم اپنی خواہش تو پوری کر لیں گے لیکن ہمیں معاشرہ قبول نہیں کرے گا‘ اسکول کے بچے اسکول نہ آنے والے استاد کا محاسبہ کریں گے‘ مریض اسپتال سے غائب ڈاکٹر کو معاف نہیں کریں گے‘ عوام بے ایمانی کرنے والے تاجرکا ناطقہ بند کر دیں گے‘ عوامی دولت لوٹنے والے بیوروکریٹس کو سب سے پہلے اپنی بیوی اور بچوں کو جواب دینا ہو گا اور اس کے بعد اسے محلے‘ برادری اور دوستوں کی عدالت کا سامنا کرنا ہو گا‘ کرپٹ سیاستدان اپنے ووٹروں کی حمایت کھو بیٹھے گا‘ عوام اسے سڑکوں پر روک کر پوچھیں گے ’’تم نے ایسا کیوں کیا‘‘ اور اگر کسی جرنیل یا ایڈمرل نے مارشل لاء لگایا‘
اس نے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کیے یا پھر مرضی کی حکومت لانے کی کوشش کی تو اسے پانچ‘ دس کروڑ لوگوں کی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا‘ عوام اسے کبھی اپنا حکمران تسلیم نہیں کریں گے اور یہ خیال محض خوف نہیں‘ یہ حقیقت ہے کیونکہ تائیوان‘ چین‘ جاپان‘ اٹلی‘ اسپین‘ بیلجیئم‘ ہالینڈ‘ جرمنی‘ فرانس‘ برطانیہ اور امریکا میں جب کسی سرکاری ملازم‘ تاجر‘ سیاستدان اور فوجی افسر پر الزام لگتا ہے تو اسے ملک بھر میںمنہ چھپانے کی جگہ نہیں ملتی‘ اس کے بچے تک اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور یہ بیچارہ نفسیاتی مریض بن کر مر جاتا ہے یا پھر خود کشی پر مجبور ہو جاتا ہے جب کہ آپ اس کے مقابلے میں اپنی حالت ملاحظہ کیجیے‘ آپ کے سامنے اسکول سے استاد‘ اسپتال سے ڈاکٹر اور سائٹ سے انجینئر غائب ہوتا ہے‘ پولیس آپ کے سامنے رشوت لیتی ہے‘
پٹواری آپ سے دس پندرہ ہزار روپے مانگتا ہے‘ ججوں کے ریڈر عدالت میں بیٹھ کر وصولیاں کرتے ہیں‘ تاجر مصنوعات کا معیار روزکم کرتے ہیں اور قیمتیں روزبڑھاتے ہیں‘ سیاستدان کرپشن کو اپنا آئینی‘ سیاسی اور جمہوری حق سمجھتے ہیں‘ آپ کے سامنے بھوکے ننگے لوگ سیاست میں آتے ہیں اور دنوں میں ارب پتی بن جاتے ہیں‘ آپ اپنی سڑکوں پر روزانہ ہوٹر والی گاڑیاں دیکھتے ہیں‘ آپ وزراء کو سرکاری جہاز لے جاتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں‘ فوج آپ کے سامنے مارشل لاء لگاتی ہے‘ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرتے ہیں ’’ہاں ہم نے 1990 میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی تھیں‘‘ سیاستدانوں کی ڈگریاں جعلی اور شہریت دوہری نکلتی ہے‘ آپ کے سامنے عدلیہ کے فیصلوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور آپ کے محلے میں منشیات بیچی جاتی ہے.
جوئے کے اڈے قائم ہوتے ہیں اور فحاشی کا کاروبار ہوتا ہے لیکن آپ میں سے کسی شخص نے کبھی احتجاج کیا؟ آپ نے کبھی اپنے حق پر پڑنے والا ڈاکہ روکنے کی کوشش کی؟ روکنا تو دور کی بات‘ احتجاج کرنا تو محال آپ ہمیشہ برائی‘ لوٹ کھسوٹ اور غبن کا ساتھ دیتے ہیں‘ آپ لوٹنے والوں کو ہار بھی پہناتے ہیں‘ ان کے ساتھ تصویریں بھی اترواتے ہیں اور ان کا رشتے دار ہونے پر فخر بھی کرتے ہیں‘ آپ آج بھی اپنے بیٹے کو پولیس میں بھرتی کروانا چاہتے ہیں‘ آپ اسے سرکاری ملازم دیکھنا چاہتے ہیں تا کہ اسے کام بھی نہ کرنا پڑے اور یہ تنخواہ اور مراعات بھی حاصل کرتا رہے‘ آپ کے سامنے بجلی کے کنڈے لگتے ہیں‘ آپ کے سامنے گیس چوری ہوتی ہے‘ آپ کے سامنے ریل کی پٹڑیاں کباڑیوں کو بیچی جاتی ہیں‘ آپ کے سامنے آپ کا ایم پی اے‘ آپ کا ایم این اے سائیکل سے پراڈو تک پہنچتا ہے اور آپ کے سامنے وزیر دس‘ دس سرکاری گاڑیاں لے کر پھرتے ہیں لیکن آپ اسے جھک کر سلام بھی کرتے ہیں اور اسے شاباش بھی دیتے ہیں۔
آپ نے آج تک کسی شخص کا عوامی محاسبہ کیا؟ آپ نے کسی کرپٹ شخص کا حقہ پانی بند کیا؟ آپ نے کسی بدمعاش سے رشتہ ناتا توڑا؟ اگر نہیں تو پھر آپ اس ملک کی خرابیوں کے ذمے دار ہیں اور آپ کو حالات کی خرابی پر اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں‘ آپ عوام اصل مجرم ہیں چنانچہ آپ کو چیخنا نہیں چاہیے۔
(جاری ہے)
عوام اصل مجرم ہیں (دوسرا حصہ)
جاوید چوہدری بدھ 24 اکتوبر 2012
آپ عوام کی نفسیات سمجھنے کے لیے دو مثالیں کافی ہوں گی۔
جمشید دستی 2008ء میں حلقہ این اے 178 سے ایم این اے منتخب ہوئے ‘مظفرگڑھ نوابوں اور جاگیرداروں کا علاقہ ہے‘ اس علاقے سے جمشید دستی کا جیت جانا واقعی کمال تھا مگر اس کمال میں جمشید دستی کا بہت ہاتھ تھا‘یہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں‘ علاقے کے لوگوں کو ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں اور یہ عوام کی سہولت کے لیے روزانہ مفت بس بھی چلاتے ہیں چنانچہ لوگوں نے انھیں نوابوں کے مقابلے میں ووٹ دیے اور یہ ایم این اے بن گئے مگر پھرمارچ 2010ء میں انکشاف ہوا جمشید دستی کی ایم اے اسلامیات کی ڈگری جعلی ہے ۔
میں پہلا صحافی تھا جس نے جمشید دستی کی ڈگری کا ایشو اٹھایا‘ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا‘ جمشید دستی عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت نے انھیں ڈس کوالیفائی یا اسمبلی رکنیت سے استعفے کا آپشن دے دیا‘جمشید دستی نے اسی روز یعنی 25مارچ 2010ء کو عدالت میں استعفیٰ دے دیا‘ پاکستان پیپلزپارٹی نے انھیں دوبارہ ٹکٹ دیا‘ جمشید دستی نے 15مئی 2010ء کو ضمنی الیکشن لڑا اوریہ54056 ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے دوبارہ رکن منتخب ہو گئے۔ میں جمشید دستی کی جعلی ڈگری کے انکشاف سے لے کر ضمنی الیکشن تک ان کے خلاف بولتا رہا لیکن عوام نے انھیں جونہی دوسری بار منتخب کیا میں نے انھیں فون کیا‘ مبارک باد دی‘ ماضی کی ’’گستاخی‘‘ کی معافی مانگی اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔
جمشید دستی مسلسل میرے پروگرام میں آ رہے ہںی‘ عوام میں سے کچھ لوگ جمشید دستی کے نیشنل میڈیا پر آنے اور بولنے پر اعتراض کرتے ہیں مگرمیں ان سے عرض کرتا ہوں مظفرگڑھ کے 54ہزار لوگوں نے انھیں دوسری بار ایم این اے بنایا‘ میں اکیلا یا آٹھ دس اینکرز غلط ہو سکتے ہیں لیکن دو لاکھ 82ہزار384 ووٹرز کا حلقہ غلط نہیں ہو سکتا۔مظفرگڑھ کی اکثریت نے انھیں دوسری بار ایم این اے بنایا اور ہم لوگ اب جمشید دستی کو صرف اور صرف عوام کے احترام میں ٹی وی پر لے کر آتے ہیں کیونکہ مظفرگڑھ کے عوام نے ووٹ کے ذریعے ہم ’’بے وقوفوں‘‘ کو یہ پاغصم دے دیا ہے ’’ہمیں جمشید دستی چاہیے خواہ اس کی ڈگری اصلی ہو یا جعلی‘‘۔
آپ دوسری مثال رحمان ملک کی ملاحظہ کیجیے‘ رحمان ملک کے پاس دوہری شہریت تھی‘ یہ پاکستان کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے شہری بھی تھے‘ پاکستان کے آئین کے مطابق دوہری شہریت کا حامل کوئی شخص سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا‘ یہ صوبائی ‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر بھی نہیں بن سکتا۔ مئی 2012ء میں رحمان ملک کی دوہری شہریت کا انکشاف ہوا‘ میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ عدالت ایکٹو ہوئی اور رحمان ملک نے 10جولائی کو استعفیٰ دے دیا یوں یہ سینیٹ کی رکنیت سے فارغ ہو گئے‘
رحمان ملک نے دوبارہ سینیٹ کا الیکشن لڑا اور یہ مڈل کلاس قیادت کی دعویدار ایم کیو ایم کی مہربانی سے ایک بار پھر سینیٹربھی بن گئے اور وزیر داخلہ بھی۔ سینیٹ پاکستان کا سب سے بڑا انتخابی حلقہ ہوتا ہے‘ ایک سینیٹر کو عموماً دس سے سولہ ایم پی اے کی حمایت درکار ہوتی ہے اور اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ایک ایم پی اے اوسطاً پچاس ہزار ووٹ لیتا ہے تواس کا مطلب ہو گا رحمان ملک کو پانچ سے آٹھ لاکھ ووٹروں کا اعتماد حاصل ہے چنانچہ پھر میرے اور میرے کولیگز کے پاس رحمان ملک کو برا کہنے کا کیا جواز بچتا ہے۔
آپ پاکستان کی حکمران جماعتوں کی مثال بھی لیجیے‘ پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس قومی اسمبلی کی 125 نشستیں ہیں‘ عوام کی اکثریت نے انھیں اپنا نمائندہ چنا اور یہ عوام کے دوسرے نمائندوں مثلاً پاکستان مسلم لیگ ق‘ اے این پی‘ ایم کیو ایم اور فاٹا اراکین کے ساتھ مل کر حکومت چلا رہے ہیں‘ کیا ان میں کوئی ایک ایسی جماعت موجود ہے جس کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ ہو یا جس نے عوام کا ووٹ نہ لیا ہو‘ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہے‘ خیبرپختونخواہ میں اے این پی برسراقتدار ہے‘ بلوچستان میں پیپلزپارٹی‘ جے یو آئی اور ق لیگ کی حکمرانی ہے اور سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی حکومت کر رہی ہیں‘ کیا یہ سب آپ عوام کے ووٹ لے کر نہیں آئے! کیا آپ نے انھیں اپنے ہاتھوں سے منتخب نہیں کیا؟ اگر نہیں کیاتو کیاپھر یہ انڈیا‘ ایران یا افغانستان کے نمائندے ہیں؟۔
اگر یہ آپ کے نمائندے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کی نظر میں جعلی ڈگری‘ دوہری شہریت‘ کرپشن‘ قبضہ گیری‘ بھتہ‘ جعل سازی‘ بدمعاشی‘ جہالت‘ بدتمیزی‘ لوٹا سازی‘ سیاسی منافقت اور نااہلیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی؟ آپ اقتدار میں ایسے ہی لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہںا!۔ آپ مزید تھوڑا سا آگے چلیے ‘ آپ حج سکینڈل کے بعد عبدالقادر گیلانی اور ایفی ڈرین کیس کے بعد موسیٰ گیلانی کو ایم این اے منتخب کر لیتے ہیں ‘آپ مخدوم امین فہیم کے اکائونٹ سے این آئی سی ایل کے پانچ کروڑ روپے برآمد ہونے کے بعد بھی انھیں اپنا سینئر وفاقی وزیر تسلیم کر لیتے ہیں ‘ آپ انھیں ہار بھی پہناتے ہیں اور ان پر پھول بھی برساتے ہیں ۔
آپ چار پارٹیاں تبدیل کرنے اور کرپشن کے درجنوں الزامات کے باوجود میاں منظور وٹو کو پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب کا صدر بھی مان لیتے ہیں اور ان کے استقبال کے لیے لاہور ائرپورٹ کو میدان جنگ بھی بنا دیتے ہیں ‘آپ این آئی سی ایل سکینڈل کی غیرجانبدارانہ انکوائری کرنے اور اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی دائو پر لگانے والے ظفر قریشی کے بجائے مونس الٰہی اور محسن وڑائچ کا ساتھ دیتے ہیں ‘ آپ آج بھی مونس الٰہی کا والہانہ استقبال کرتے ہیں‘ ان کی دعوتیں کرتے ہیں اور ان کے ساتھ تصویریں کھینچواتے ہیں‘ آپ اصغر خان پٹیشن کے فیصلے کے بعد بھی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں اور الزامات کے باوجود آصف علی زرداری ہی کو اپنا صدر دیکھنا چاہتے ہیں‘ کیا یہ غلط ہے‘ اگر میری بات غلط نہیں تو پھر آپ اعتراض کیوں کرتے ہیں!
آج بھی اگر تین تین ناکام حکومتوں کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن آپ کی پارٹیاں ہیں تو پھرآپ صبر کیوں نہیں کرتے ‘ آپ برداشت کیوں نہیں کرتے اور آپ چیختے کیوں ہیں؟ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں چار مارشل لاء لگے اور جس میں سپریم کورٹ نے جرنیلوں کو الیکشن سیل بنانے‘ جمہوری حکومتیں توڑنے اور الیکشن میں دھاندلی کرانے کا مجرم ڈکلیئر کیا لیکن آپ عوام کسی ایک مارشل لاء کے خلاف سڑکوں پر آئے اور نہ ہی آپ نے باوردی جرنیلوں کو حکمران تسلیم کرنے سے انکار کیا ‘ آپ مارشل لائوں پر خاموش رہتے ہیں اور جب ووٹ کی باری آتی ہے تو آپ اس وقت اپنے حلقے کے بدترین شخص کو اسمبلی میں بھجوا دیتے ہیں چنانچہ مارشل لائی حکمران آپ کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں اور آپ کے نمائندے ان مسائل کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں۔
مگر آپ اس کے باوجود فرشتے ہیں‘ آپ اس کے باوجود مظلوم ہیں‘ آپ اگر مظلوم ہیں تو اس کی نوے فیصد ذمے داری آپ پر عائد ہوتی ہے‘ آپ اگر مافیا ذہنیت ‘ لوٹا کریسی ذہنیت اور قبضہ گروپ ذہنیت کے نااہل ترین‘ جاہل ترین‘ کرپٹ ترین اور مفاد پرست ترین لوگوں کو اپنا نمائندہ بنائیں گے اور آپ اگرمارشل لائوں کو قبول کریں گے تو پھر آپ کو نتائج کی ذمے داری بھی قبول کرنی چاہیے۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے‘ آپ نے چار صوبائی اسمبلیوں اور نیشنل پارلیمنٹ میں بجلی کا کوئی ایک ایکسپرٹ بھجوایا‘ آپ نے روزگار‘ صحت‘ تعلیم‘ انڈسٹری‘ بین الاقوامی تعلقات اور سماجی رویوں کا کوئی ایک ماہر اسمبلیوں میں بھیجا اور آپ نے گیس‘ پی آئی اے‘ اسٹیل ملز اور ریلوے جیسے اداروں کو بحران سے نکالنے کا کوئی ایک ایکسپرٹ اسمبلیوں میں بھیجا‘ آپ نے اگر نہیں بھجوایا تو پھر آپ کو اعتراض کا بھی کوئی حق نہیں!۔ آپ پھر بجلی‘ گیس‘ انڈسٹری‘ بزنس‘ روزگار‘ تعلیم اور صحت کو بھول جائیے‘ آپ پھر صبر کا گھونٹ بھرئیے اور آسمانوں سے فرشتے اترنے کا انتظار کیجیے۔
آپ عوام اگر ڈیڑھ ‘ دولاکھ ووٹروں کے حلقے سے ایک پی ایچ ڈی‘ ایک ایماندار‘ اہل‘ سمجھدار‘ محنتی اور بے خوف شخص تلاش نہیں کر سکتے‘ آپ اگر ڈیڑھ ‘دولاکھ لوگ مل کر ایک اچھا شخص سامنے نہیں لا سکتے‘ آپ اگر اپنے حلقے سے کوئی ایک ایسا شخص نہیں نکال سکتے جو حکومت کی مدد کے بغیر آپ کے چھوٹے چھوٹے مسئلے حل کر سکے‘ جو آپ کے ساتھ مل کر اسکولوں کی عمارتیں مرمت کر سکے‘ آپ کے ساتھ مل کر آپ کی گلیاں‘ نالیاں اور سڑکیں پکی کر سکے اور آپ کے اسکولوں میں استاد اور اسپتالوں میں ڈاکٹر پورے کر سکے اور حکومت کی مدد کے بغیر حلقے کے تمام بچوں کے لیے تعلیم کا بندوبست کر سکے تو پھر آپ کو اس جمہوری نظام‘ ان اسمبلیوں اور اس پارلیمنٹ پر اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں!۔
آپ اگر بلیاں پالیں گے تو پھر آپ دودھ نہیں پی سکیں گے‘ آپ اگر چیلوں کی پرورش کریں گے تو پھر آپ گوشت کی دکان نہیں کھول سکیں گے‘ آپ اگر کیکر پرانگور کی بیل چڑھائیں گے تو پھر آپ ثابت انگور نہیں کھا سکیں گے اور آپ اگر ندیوں اور نہروں میں مگرمچھ پالیں گے تو پھر آپ وہاں غسل نہیں کر سکیں گے۔یہ حقیقت ہے شہد کھانے کے لیے جنگلوں کو ریچھوں سے پاک کرنا پڑتا ہے لیکن آپ ہر بار شہد پکنے سے پہلے ریچھ کو درخت پر چڑھا دیتے ہیں اور اس کے بعد اعتراض کرتے ہیں ہمارے گھر میں بجلی نہیں آ رہی‘ ہمیں گیس نہیں مل رہی‘ ہمارا ریلوے کام نہیں کر رہا‘ ہمیںتعلیم اور صحت کی سہولتیں نہیں مل رہیںاور ملک میں امن وامان‘ انصاف اور مساوات نہیں؟ اور ملک سے مہنگائی کم نہیں ہو رہی؟ یہ مسئلے اس لیے مسئلے ہیں کہ آپ بھوکے بلوں کو دودھ کے سرہانے بیٹھا کر ان کے ایماندار ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اور یوں خود بھی بھوکے مرر ہے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی مار رہے ہیں۔ آپ مان لیجیے ‘ آپ مجرم ہیں‘ ایسے مجرم جو اپنی لاش کے قاتل بھی ہیں اور مدعی بھی۔
(جاری ہے)
عوام اصل مجرم ہیں
جاوید چوہدری پير 22 اکتوبر 2012
آپ فلم انڈسٹری کی مثال لیجیے‘ یش چوپڑا انڈین فلم انڈسٹری کے لیجنڈ تھے‘ امیتابھ بچن ہوں یا شاہ رخ خان یہ ان درجنوں سپر اسٹارز میں شامل ہیں جنھیں پردہ اسکرین پر لانے اور اداکار بنانے کا سہرا یش چوپڑا کے سر جاتا ہے۔
یہ کل 80سال کی عمر میں انتقال کر گئے‘ آپ کو شائد یہ جان کر حیرت ہو گی‘ یش چوپڑا نہ صرف لاہور کے رہنے والے تھے بلکہ انھیں فلم سازی کا چسکا بھی لاہور میں پڑا تھا لیکن یش چوپڑا کو عروج ممبئی سے ملا۔ یش پاکستان سے تعلق رکھنے والا پہلا فلم ساز نہیں تھا‘ آپ اگر انڈین فلم انڈسٹری کے دس بڑے ناموں کاپروفائل نکالیں تو آپ حیران رہ جائیں گے‘ یہ لوگ پاکستان سے ہوتے ہوئے بھارت پہنچے اور بھارتی فلم انڈسٹری کا مستقل ستارہ بن گئے۔ آپ دیو آنند سے لے کر دلیپ کمار تک‘ راج کپور سے لے کر گلزار تک اور سلمان خان اور عامر خان کے خاندانوں سے لے کر محمد رفیع تک انڈیا کے ٹاپ اسٹار کا پروفائل دیکھ لیجیے‘ یہ سب پاکستان سے تعلق رکھتے تھے لیکن پھر یہ انڈیا گئے‘ انڈیا میں انھیں تخلیقی ماحول اور پذیرائی ملی اور یہ بیل کی طرح تیزی سے پھلتے اور پھولتے چلے گئے۔
سوال یہ ہے یہ لوگ پاکستانی علاقوں میں کیوں پیدا ہوئے اور یہ نقل مکانی پر کیوں مجبور ہوئے؟ اس کی بہت دلچسپ وجوہات ہیں‘ پاکستانی علاقوں میں موسیقی اور اداکاری کے حیران کن جینز پائے جاتے ہیں‘ ہمارے علاقے میں ایسے ایسے گلے اور ایسی ایسی آوازیں ہیں‘ جو سننے اور دیکھنے والوں کو ششدر کر دیتی ہیں۔ آپ نورجہاں‘ مہدی حسن‘ استاد امانت علی خان ‘ ریشماں‘ پٹھانے خان اور نصرت فتح علی خان کو چھوڑ دیجیے‘ یہ لوگ واقعی صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں‘ آپ غلام علی خان‘ شوکت علی‘ محمد علی شہکی‘ طفیل نیازی‘ نیرہ نور‘ نازیہ حسن‘ راحت فتح علی خان‘ عاطف اسلم‘ عدنان سمیع اورعلی ظفر کو دیکھ لیجیے‘ ہمارے استاد ان میں سے اکثریت کو گلوکار ہی نہیں مانتے لیکن یہ انڈیا گئے اور پوری فلم انڈسٹری کو ورطہ حیرت میں ڈال کر واپس آ گئے‘ راحت فتح علی‘ عاطف اسلم اور علی ظفر آج بھی انڈیا کے ایک دورے میں دو‘ دو کروڑ روپے کماتے ہیں۔
آپ نغمہ نگاری کی مثال بھی لیجیے‘ قتیل شفائی جیسے شاعر انڈین فلم انڈسٹری میں ہاٹ کیک تھے‘ ہمارے تھیٹر کے ان پڑھ اداکار ببوبرال‘ امان اﷲ ‘ معین اختر‘عمر شریف اور شکیل صدیقی نے انڈیا کے ناقدین کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ ہماری اداکاری کی روایات بھی بہت مضبوط تھیں‘ پاکستان میں سنتوش کمار‘درپن‘ محمد علی‘ آغا طالش‘ ندیم‘ شاہد‘ غلام محی الدین‘ نیئر سلطانہ‘ فردوس‘ صبیحہ خانم‘ رانی‘ سنگیتا اور شبنم جیسے لازوال اداکار اور اداکارائیں تھیں‘ دنیا میں ہمارے موسیقاروں کی بھی کوئی مثال نہیں تھی‘آپ کوپورے ہندوستان میں باباچشتی‘ وجاہت عطرے اور خواجہ خورشید انور جیسا ایک موسیقار نہیں ملے گا ۔
آپ کو یہ جان کر شائد حیرت ہو گی ہماری فلمیں 1965ء تک افغانستان سے لے کر مالدیپ تک سینمائوں میں دکھائی جاتی تھیں‘ بھارتی اداکار ٹریننگ کے لیے کراچی اور لاہور آتے تھے‘ پاکستان کے بڑے بڑے سرمایہ کار فلم سازی اور سینما ہائوسز میں سرمایہ کاری کرتے تھے‘ ہم اکثر صدر آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری کے بمبینو سینما کی مثال دیتے ہیں ۔ آپ اس مثال سے اندازا لگا لیجیے پاکستان میں ایک ایسا وقت بھی تھا جب ملک کے باعزت سیاسی خاندان سینمائوں کے مالک ہوتے تھے اور فلموں کی ٹکٹیں بھی بلیک ہوتی تھیں۔
ہمارے ٹی وی ڈرامے انڈیا کی فلم اکیڈمیز میں پڑھائے جاتے تھے‘ اجے دیوگن اس وقت انڈیا کے پانچ بڑے فلمی ہیروز میں شمار ہوتے ہیں‘ انھوں نے بولنے کا اسٹائل ہمارے ڈرامہ اداکار توقیر ناصر کی کاپی کر کے سیکھا تھا۔ آپ پرفارمنگ آرٹ میں پاکستان اور انڈیا کا تقابل کر کے دیکھئے ‘ بھارت کی سوا ارب آبادی اور 32لاکھ 88ہزار مربع کلومیٹر رقبہ بیسیوں برسوں میں ایک اے آر رحمان‘ ایک آر ڈی برمن ‘ ایک سونونگم‘ ایک ایلکا‘ ایک کشور کمار اور ایک کمار سانوپیدا کرتا ہے جب کہ دس‘ پندرہ اٹھارہ کروڑ آبادی کا پاکستان تمام تر معاشی جبر‘ موسیقی‘ اداکاری‘ فلم اور ٹیلی ویژن کے خلاف سیکڑوں فتوئوں اور خاندان سے عاق کی درجنوں دھمکیوں کے باوجود ہر سال ایسے بیسیوں نوجوان پیدا کر دیتا ہے۔
جو انڈیا کی موسیقی‘ گلوکاری اور اداکاری کی اس انڈسٹری کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیتے ہیں‘ جہاں گانا‘ بجانا‘ ناچنا اور اداکاری مذہب کا درجہ رکھتی ہے‘ کیا ٹیلنٹ کی اس سے بڑی کوئی مثال ہو سکتی ہے چنانچہ دیوآنند ہو یا یش چوپڑا یہ اس خطے میں پیدا ہوئے تھے لیکن آج پرفارمنگ آرٹ کا یہ مردم خیز علاقہ اداکاری‘ موسیقی‘ گلوکاری‘ فلم اور ڈرامہ کا قبرستان بن چکا ہے ۔ آپ حد ملاحظہ کیجیے‘ اس مردم خیز ملک میں مہدی حسن جیسا شخص علاج کے لیے حکومت کا راستہ دیکھتے دیکھتے مر جاتا ہے اور نورجہاں ’’میں ہوں حسن کی کلاشنکوف‘‘ جیسے معرکۃ الآراء گانے گانے پر مجبور ہوجاتی ہے‘ رانی کینسر کا علاج نہیں کرا پاتی اور سنگیتا آخری عمر میں محض ٹی وی اداکارہ بننے پر مجبور ہوجاتی ہے‘ اس ملک میں سینما بند ہو جاتے ہیں‘ کنسرٹ ہالوں پر تالے پڑ جاتے ہیں‘ تھیٹر کا نام ونشان مٹ جاتا ہے‘ موسیقاروں کو مراثی اور کنجر کی گالی پڑتی ہے اور شاعر گھر چلانے کے لیے جعلی ناموں سے لچر گانے لکھتے ہیں‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ اور اس کا ذمے دار کون ہے ؟
آپ عوام اس کے ذمے دار ہیں‘ یہ ملک کبھی فلم‘ موسیقی‘ تھیٹر اور گلوکاری میں برصغیر کا لیڈر تھا‘ ہمارے سینمائوں میں فیملیز اکٹھی بیٹھ کر فلم دیکھتی تھیں‘ ہمارے ٹی وی ڈرامے پورے خاندان کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے تھے اور موسیقی تنے ہوئے اعصاب کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے ترتیب دی جاتی تھی لیکن پھر مولا جٹ کے نام سے ایک لچر اور واہیات فلم بنی اور اس نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے‘ عوام سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے گنڈاسے اور انجمن کی اچھل کود دیکھنے سینمائوں پر امڈ آئے اور اس کے ساتھ ہی اچھی اور معیاری فلم کا جنازہ نکل گیا‘ فلم سازوں اور اداکاروں کے پاس اس وقت دو آپشن رہ گئے‘ یہ بھی گنڈاسا یا کلاشنکوف اٹھا لیں‘ ڈھائی گھنٹے کی فلم میں چار سو لاشیں‘ دس بارہ آبروریزیاں‘ دو تین مجرے اور چار پانچ لڑائیاں دکھائیں اور ولن کو ہیرو بنا دیں اور ہیرو کو مظلوم یا پھر چپ چاپ اس فڈلا سے نکل جائیںچنانچہ ہمارے فلم ساز اور اداکار تقسیم ہو گئے۔
ان میں سے کچھ نے گنڈاسا اٹھا کر خود کشی کر لی اور کچھ گمنامی کے دریا میں چھلانگ لگا کر مر گئے اور ان کے ساتھ ہی فلم بھی مر گئی اور سینما گھر بھی۔ تھیٹر کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ کسی ستم ظریف نے تھیٹر میں مجرا کا تڑکا لگا دیا اور عوام کا جم غفیر تھیٹر گھروں کے سامنے کھڑا ہو گیا‘ عوام مجروں سے تھک گئے تو یہ ’’ڈو مور‘‘ کا نعرہ لگانے لگے چنانچہ اداکاروں اور ہدایت کاروں نے تھیٹر میں ماں بہن کی گالیاں ڈال دیں اور اس کے ساتھ ہی تھیٹر بھی دفن ہو گیا‘ آج کل یہ کام ٹی وی پر ہو رہا ہے‘ اداکار تیری ماں‘ تیرا باپ اور تیری پھوپھی کا ذکر اس آسانی سے لیتے ہیں جس سے اجڈ سے اجڈ شخص جمائی نہیں لے سکتا اور عوام اس پر قہقہہ بھی لگاتے ہیں اور تالیاں بھی بجاتے ہیں لہٰذا مجھے خطرہ ہے ان پروگراموں کا انجام بھی وہی ہو گا جو تھیٹر کا ہوا ۔ ٹی وی ڈراموں کے ساتھ بھی ایساہی ہوا۔
کسی مہرباں نے ناظرین کی تعداد بڑھانے کے لیے اس میں فحاشی کی ہلکی سی لپ اسٹک لگا دی اور آپ عوام ٹی وی سے جڑ کر بیٹھ گئے‘ ڈرامے کی ریٹنگ بڑھی‘ اسے اشتہارات ملے‘ بزنس میں اضافہ ہوا اور ہدایت کاروں نے ڈرامہ نگاروں سے ہیروئن کے سر سے دوپٹہ اتارنے اور قمیض ٹائٹ کرنے کے مطالبے شروع کر دیے‘ ڈرامہ نگاروں کے پاس بھی دو آپشن بچ گئے‘ یہ قمیض ٹائٹ کریں‘ خواتین کو سگریٹ اور شراب پیتے دکھائیں یا پھر بے روزگاری کے جہنم میں چھلانگ لگا دیں چنانچہ ٹی وی ڈرامے کا یہ انجام ہوا کہ اول ہم پاکستانی ڈرامے نہیں دیکھتے اور اگر دیکھنا چاہیں تو ہم پہلے اپنی ماں‘ بہن اور بیٹی کو کمرے سے نکالتے ہیں اور اس کے بعد ٹی وی کا سوئچ آن کرتے ہیں۔
موسیقی کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ بڑے غلام علی خان کراچی میں اپنے ایک ڈرائیور رشتے دار کے سرونٹ کوارٹر میں پڑے رہے اور عوام ننگے ڈانس دیکھنے کے لیے میٹرو پول ہوٹل کے شیشے توڑتے رہے چنانچہ بڑے غلام علی خان کراچی سے انڈیا چلے گئے اور لوگوں نے دیکھا انڈیا کے وزیراعظم لال بہادر شاستری ان کا ستار اٹھا کر ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں‘ہمارے حکمران مجرے دیکھتے رہے اور عوام ٹھمکوں پر سیٹیاں اور تالیاں بجاتے رہے لہٰذا آپ بتائیے پھر ذمے دار کون ہے؟ لکھنے والے‘ اداکاری کرنے والے‘ فلمانے والے‘ بجانے والے‘ گانے والے یا پھر لچر اور واہیات پروڈکشن پر ویلیں دینے‘ تالیاں بجانے اور نعرے لگانے والے لوگ یعنی آپ عوام ۔
آج اس ملک میں اگر انڈین فلم دیکھی جا رہی ہے یا بھارتی موسیقی سنی جا رہی ہے یا بھارتی ڈرامے مقبول ہیں یا پھر ہمارے چنلزن پر چھ چھ گھنٹے بھارتی اداکاروں کی آخری رسومات دکھائی جاتی ہیں یا کرینہ کپور اور سیف علی خان کی شادی دکھائی جاتی ہے یا راجیش کھنہ اور یش چوپڑا کو کوریج ملتی ہے یا محمد رفیع کی برسی پر رپورٹ چلتی ہے یا پھر بھارتی فلموں کے ٹریلر چلائے جاتے ہیں تو اس کے ذمے دارتوآپ لوگ ہیں کیونکہ آپ نے اس ملک میں معیاری فلم‘ ڈرامے‘ تھیٹر‘ موسیقی اور گلوکاری پر لچر اور واہیات چیزوں کو فوقیت دی‘ آپ نے نصیبو لال کو نورجہاں اور عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کو مہدی حسن پر اہمیت دی چنانچہ آج سونونگم‘ راجیش کھنہ اور رام گوپال ورما ان لوگوںکی جگہ لے چکے ہیںاور آپ چیخ رہے ہیں‘ آپ اب چیختے کیوں ہیں؟ آپ مجرم ہیں لہٰذا آپ اب خاموشی سے برداشت کریں۔
(جاری ہے)
پھر بھی ہم مجرم ہیں (آخری حصہ)
جاوید چوہدری ہفتہ 20 اکتوبر 2012
لیکن اس کا ہرگز ہر گز یہ مطلب نہیں میڈیا خامیوں سے پاک ہے‘ ہم میں بھی بے شمار خامیاں ہیں‘ ہم میں بھی کالی بھیڑیں ہیں۔
ہم بھی غلطیاں کرتے ہیں اور ہم میں بھی نالائق لوگ موجود ہیں مگر کیا چند لوگوں کی نالائقی‘ بلیک میلنگ یا خامی کی وجہ سے پورے شعبے کو گالی دینا ٹھیک ہوگا‘ ہم اگر موسیٰ گیلانی اور عبدالقادر گیلانی کی وجہ سے ملک کے تمام گیلانیوں کو حج اور ایفی ڈرین فروش کہیں تو کیاآپ کو اچھا لگے گا‘ ہم اگر مونس الٰہی اور محسن وڑائچ کی بنیاد پر ملک کے تمام وڑائچوں اورچوہدریوں کو کرپٹ کہیں‘ ہم جمشید دستی‘ حاجی پرویز‘ فیض ٹمن ‘ عبدالقیوم جتوئی ‘طارق تارڑ‘ حیات اﷲ ترین‘ دیوان عاشق اور نذیر احمد جٹ کی جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر تمام سیاستدانوں کو برا بھلا کہیں اور ہم اگر رمشا کیس میں محبوس خالد جدون کی وجہ سے ملک کے تمام پیش اماموں اور مولویوں کو برا کہیں تو کیا یہ ٹھیک ہو گا؟ اگر نہیں تو پھر چند لوگوں کی غلطی‘ بلیک میلنگ‘ نالائقی یا جہالت کی بنیاد پر پورے میڈیا کو گالی کیوں دی جاتی ہے؟ یہ درست ہے ہم میں خامیاں ہیں۔
ہم بھی نان ایشوز کو ایشوز بنا دیتے ہیں‘ ہم چیزوں کو ’’پلے اپ ‘‘ کر دیتے ہیں‘ ہم سیاستدانوں کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور سیریس صورتحال پر گانے لگا کر اسے نان سیریس بنا دیتے ہیں لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے ‘ اس کے لیے آپ کو میڈیا کی تنظیم سمجھنا ہو گی۔ میڈیا کے دو حصے ہیں‘ ادارہ اور صحافی۔ اسکرین ہو یا اخبار کا صفحہ آپ کو اس کے فرنٹ پر ہم لوگ دکھائی دیتے ہیں‘ ہم واقعات رپورٹ بھی کرتے ہیں‘ اس پر تبصرہ بھی کرتے ہیں‘ کالم بھی لکھتے ہیں اور پروگرام بھی کرتے ہیں لیکن اس پروگرام نے کتنی دیر چلناہے‘ کب چلنا ہے اور کب نہیں چلنا ‘ کون سی خبر کس وقت نشر ہو گی اور کتنی بار دہرائی جائے گی۔
کس ایشو کو اسکرین پر کتنی دیر دکھایا اور چلایا جائے گااور اس کا کون سا اینگل اٹھایا جائے گا اور کس کو دبایا جائے گا اور یہ خبر کس وقت اسکرین سے غائب ہو جائے گی‘ اخبار میں کون سی خبر لیڈ لگے گی اور کس کو سنگل کالم جگہ ملے گی اور کون سی تصویر شایع ہو گی اور کون سی نہیں‘ اس کا فیصلہ میڈیا کی انتظامیہ کرتی ہے‘ یہ بھی درست ہے ہمیں اپنے کالموں اور ٹی وی کے کرنٹ افیئرز پروگرام میں آزادی ہوتی ہے‘ ہم موضوع اور مہمانوں کی چوائس میں خودمختار ہوتے ہیں‘ یہ اپنی مرضی سے لکھتے اور بولتے ہںو لیکن ان کی آزادی اور خود مختاری صرف اپنے پروگرام اور کالم تک محدود ہوتی ہے چنانچہ ہم صرف اپنے پروگرام اور کالم کے جوابدہ اور ذمے دار ہیں‘ ہمارے پروگرام کے علاوہ ٹی وی پر کیا چل رہا ہے اور ہمارے کالم کے ساتھ شایع ہونے والے دوسرے کالموں میں کیا چھپ رہا ہے ہم اس میں دخل نہیں دے سکتے ہیں۔
رپورٹرز کا معاملہ بھی یہی ہوتاہے‘ اخبارات اور ٹی وی کا رپورٹر صرف اپنی ’’بیٹ ‘‘کی خبریں دیتا ہے‘ یہ بھی دوسرے رپورٹرز پر اثرانداز نہیں ہو سکتا ۔ ملالہ کے ایشو کو سات دن تک دکھانے کا فیصلہ کسی اینکر یا رپورٹر نے نیںے کیا‘ یہ چینلز کی انتظامیہ کا فیصلہ تھا اور اس کے جوابدہ بھی یہ لوگ ہیں‘ آپ ہمارے پروگراموں کو دیکھئے‘ کیایہ ایشو کسی چینل کے کسی کرنٹ افیئرپروگرام پر ’’پلے اپ‘‘ ہوا ؟ کیا کوئی اینکراسے ہفتہ بھر اپنے پروگرام میں ڈسکس کرتارہا؟ اگر اس کا جواب ہاں ہو تو آپ اسے ضرور برا کہیں لیکن اگرہم نے اس ایشو پر ایک یا دو پروگرام کیے ہیں تو پھر ہم بے گناہ ہیں لیکن آپ اس کے باوجود ہم لوگوں کو برا بھی سمجھ رہے ہیں اور یہودو نصاریٰ کا ایجنٹ بھی۔کیا یہ زیادتی نہیں۔
میڈیا پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے یہ بہت کمرشل ہے‘ یہ بے تحاشا اشتہارات دکھاتا ہے‘ یہ اعتراض بھی درست ہے لیکن آپ نے کبھی سوچا اس کی وجہ کیا ہے ؟ میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا ایک مہنگا بزنس ہے‘ پاکستان میں صف اول کا نیوز چینل بنانے کے لیے دو سو کروڑ روپے اور ایک بڑا اخبار نکالنے اور چلانے کے لیے پچاس کروڑ روپے چاہئیں۔ پاکستان کے پانچ بڑے چینلز میںدو دو ‘ ڈھائی ڈھائی ہزار لوگ کام کر رہے ہیں‘ یہ لوگ ہر مہینے تنخواہ لیتے ہیں‘ ٹی وی کے آلات بھی بہت مہنگے ہیں اور یہ روزانہ مینٹینس بھی مانگتے ہیں اور پھر اس کے بعد دفاتر کے کرائے‘ بجلی کے بل‘ گیس کی پے منٹ‘ گاڑیاں اور بینکوں کی قسطیں ان کے لیے بھی رقم چاہیے اور کوئی سرمایہ دار صرف صحت مندانہ صحافت یا خدمت خلق کے لیے اپنا سرمایہ نہیں لگاتا‘ صحافت صرف ہم صحافیوں کے لیے جنون ہو سکتی ہے۔
یہ مالکان کے لیے انڈسٹری ہے اور کوئی انڈسٹری سرمائے کے بغیر نہیں چلتی چنانچہ اگر چینل کو اشتہار نہیں ملیں گے توسرمایہ نہیں آئے گا اوراگر سرمایہ نہیں آئے گا تو دفاتر کے کرائے‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کے بل ادانھیں ہوں گے اور کارکنوں کو تنخواہیں نہیں ملیں گی اور اگر کارکنوں کو تنخواہیں نہیں ملیں گی تو میڈیا انڈسٹری نہیں چلے گی لہٰذا کون سرمایہ دار ہو گا جو اپنے دو ڈھائی ارب روپے اندھے کنوئیں میں پھینک دے۔ دنیا میں ایئرلائن حاجیوں کو مفت مکہ نہیں لے جاتیں‘ ڈاکٹر ایکسیڈنٹ میں زخمی شخص کا مفت علاج نہیں کرتا۔
دنیا میں کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کے لیے پچاس ساٹھ لاکھ روپے چاہئیں اور مسجدوں سے بھی بجلی کے بل وصول کیے جاتے ہیں لیکن آپ اس کمرشل دنیا میں چاہتے ہیں آپ کو اطلاع‘ علم اور تفریح مفت فراہم کی جائے‘ آپ انٹرنیٹ پر مفت ٹی وی دیکھیں‘ آپ کیبل آپریٹر کو مہینے کے دو سو روپے دے کر سو چینلز کے مزے لوٹیں‘ ایک کنکشن کی پے منٹ کر کے دس دس ٹی وی چلائیں اور آخر میں پوری میڈیا انڈسٹری کو گالی بھی دیں‘ کیا یہ ٹھیک ہو گا؟ آپ کیبل آپریٹر کو مہینے کے دو سو روپے دیتے ہیں۔
آج کے دور میں اس رقم میں صابن نہیں آتا‘ آپ اس سے سی ڈی 70 میں پٹرول نہیں ڈلوا سکتے لیکن آپ چاہتے ہیں آپ کے دو سو روپے میں ملک کے 70 ٹی وی چینلز بھی چلیں اور یہ اشتہارات بھی نہ چلائیں۔ آپ بتائیے یہ لوگ پھر کیا کریں؟ یہ میڈیا فرمز چلانے کے لیے پیسے کہاں سے لائیں؟ یہ تنخواہیں اور اخراجات کہاں سے پورے کریں؟ آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو گی پاکستان میں اس وقت کوئی میڈیا فرم پرافٹ میں نہیں جا رہی‘ میڈیا کا ملک کے معاشی حالات سے گہرا تعلق ہوتا ہے‘ ملک میں جب انڈسٹری‘ تجارت اور بزنس زوال پذیر ہوتا ہے تو میڈیا سب سے پہلے اس کا شکار بنتا ہے‘ ملک کے معاشی حالات آپ کے سامنے ہیں۔
پانچ سال سے ملک کی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے چنانچہ میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا شدید دبائو میں ہے‘ کمپنیوں نے اپنا ایڈورٹائزنگ بجٹ بھی کم کر دیا ہے چنانچہ معاشی دبائو کی وجہ سے میڈیا دو برسوں سے ڈائون سائزنگ کے عمل سے گزر رہا ہے‘ اخبارات کی حالت بھی بہتر نہیں لیکن صحافی ان حالات کے باوجود آپ کو خبر بھی دے رہے ہیں اور آپ کی گالیاں بھی کھا رہے ہیں‘ کیا یہ درست رویہ ہے! آپ دو گھنٹے کی فلم دیکھنے کے لیے تین سو روپے خرچ کرتے ہیں لیکن ستر ٹی وی چینلز مفت دیکھتے ہیں اور ہمیں گالی بھی دیتے ہیں‘ آپ نے اگر آج تک کسی چینل‘ کسی پروگرام کے لیے ’’پے‘‘ کیا ہے تو آپ بے شک پوری میڈیا انڈسٹری کو جوتے مار لیں لیکن اگر ہم موت کے منہ میں بیٹھ کر آپ کو مفت اطلاع‘ علم اور تفریح دے رہے ہیں تو پھر آپ کو کم از کم ہمیں گالی نہیں دینی چاہیے۔
یہ کمرشل دور ہے‘ آپ کو اس دور میں داتا دربار اور بری امام کے مزار پر چڑھاوے کے لیے دیگ بھی خریدنا پڑتی ہے‘ آپ بازار سے قرآن مجید‘ جائے نماز اور تسبیح بھی خریدتے ہیں اور آپ کو کفن اور قبر کے لیے بھی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ یہ کمرشل دنیا کس قدر سنگدل ہے آپ اس کا اندازا ’’نیوز ویک‘‘ سے لگا لیجیے‘ یہ دنیا کا معتبر ترین جریدہ تھا‘ یہ 80 سال سے پوری دنیا کی رہنمائی کر رہا تھا لیکن اشتہارات اور سرکولیشن کی کمی کے باعث یہ بند ہو رہا ہے‘31دسمبر کو نیوز ویک کا آخری شمارہ مارکیٹ میں آئے گا اوراس کے بعد صحافت کا 80 سال پرانا بین الاقوامی باب بند ہو جائے گا‘ کیوں؟ کیونکہ اس کی سرکولیشن چالیس لاکھ سے کم ہو کر پندرہ لاکھ رہ گئی ہے اور امریکی معیشت میں خسارے کی وجہ سے اس کے اشتہارات بھی آدھے رہ گئے ہیں چنانچہ نیوز ویک بند ہو رہا ہے ۔
آپ خود سوچئے اگر نیوز ویک کی انتظامیہ سرکولیشن اور اشتہارات کی کمی کے باعث دنیا کا سب سے بڑا ہفت روزہ بند کرنے پر مجبور ہوچکی ہے تو آپ پاکستان کی مڈزیا انڈسٹری سے توقع کرتے ہیں یہ آپ کو مفت سروسز بھی دے گی اور آپ کی گالیاں بھی کھائے گی‘ کیا یہ ممکن ہے؟حقتقی تو یہ ہے آپ اگر تیس سال کی عمر میں اپنے والد‘ اپنی والدہ کے ہاتھ پر اپنی کمائی نہ رکھیں‘ آپ اپنے بچوں کی ضروریات پوری نہ کر سکیں تو والدین آپ کو عاق کر دیتے ہیں یا اولاد چلا کر کہتی ہے ’’کھِلا نہیں سکتے تھے تو پیدا کیوں کیاتھا؟‘‘ مگر آپ میڈیا سے توقع کرتے ہیں یہ بھوکا بھی رہے‘ خطرے میں بھی رہے۔
آپ کو خبر اور اطلاع بھی دے اور آپ کی گالیاں بھی سنے‘کیا یہ رویہ ٹھیک ہے؟ یہ یقیناً درست نہیں ‘ آپ تربوز بھی خرید کر کھاتے ہیں لیکن آپ کو میڈیا مفت چاہیے اور آپ کو اس کے بعد اس سے نفرت کرنے اور اسے برا کہنے کا حق بھی چاہیے! کیا آپ نے کبھی ایک بار ‘ جی ہاں صرف ایک بار اپنے رویے پر غور کیا؟ شاید نہیں کیا کیونکہ آپ اگر ایک لمحے کے لیے سوچ لیتے تو آپ ہمیں کبھی برا نہ کہتے ‘ آپ ہمیں یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ بھی نہ سمجھتے۔ یقین کیجیے اگر ہم برے ہیں تو پھر اس معاشرے میں کوئی شخص اچھا نہیں اور اگر ہم یہودو نصاریٰ کے ایجنٹ ہیں تو پھر اس ملک میں کسی شخص کو حب الوطنی کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔
پھر بھی ہم مجرم ہیں (تیسرا حصہ)
جاوید چوہدری جمعرات 18 اکتوبر 2012
میڈیا پر ایک اوراعتراض بھی کیا جاتا ہے‘ آپ کہتے ہیں صحافی یہ تمام خدمات مفت انجام نہیں دیتے ‘ یہ معاوضہ لیتے ہیں۔
آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر کیا ہم سرکاری خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں؟‘ کیا ہم عوامی پیسہ لوٹ رہے ہیں یا پھر عوام ہر مہینے چندہ کر کے ہمیں تنخواہ دیتے ہیں؟ ہم پرائیویٹ ملازم ہیں اور صحافت بھی ہزاروں دوسرے شعبوں کی طرح ایک پروفیشن ہے لیکن اگرآپ اس کے باوجود یہ سمجھتے ہیں ہمیں اپنی خدمات کا معاوضہ نہیں لینا چاہیے تو ٹھیک ہے‘ ہم نہیں لیتے مگر پھر ہمارے ساتھ ساتھ ان لوگوں کوبھی قربانی دینی چاہیے جو قرآن مجید پڑھانے‘ اذان دینے اور نماز پڑھانے کا معاوضہ لیتے ہیں‘دنیا میں ڈاکٹر شفا دینے کی فیس وصول کرتے ہیں‘ جج انصاف دینے‘ وکیل مظلوم کی وکالت کرنے‘ فوجی رائفل اٹھانے‘ استاد علم دینے‘ سرکاری ملازم سرکاری وقت ضایع کرنے حتیٰ کہ سیاستدان قومی مفاد کے نام پر قومی حمیت کو پائوں میں روندنے تک کا معاوضہ لیتے ہیں ‘
کیا یہ تمام پیشے صحافت سے زیادہ مقدس ہیں؟ اگر ہیں تو پھر آپ ان پر اعتراض کیوں نہیں کرتے ؟ آپ سیاستدان‘ سرکاری ملازمین‘ وکلاء‘ جج‘ استاد اور امام مسجد سے کیوں نہیں پوچھتے آپ معاوضہ کیوں لیتے ہیں؟ آپ یہ دلیل بھی چھوڑ دیجیے‘ آپ بتائیے ‘ کیا ہم کوالی فائیڈ لوگ نہیں ہیں؟ کیا ہم میں اکثریت پاکستان کی بہترین یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے نہیں آئی اور کیا ہم روزانہ علم حاصل نہیں کرتے‘ یہ ملک جس میں پروفیسر‘ سیاستدان‘ بیوروکریٹس اور علماء کی اکثریت کتاب نہیں پڑھتی ہم اس ملک میں اپنے بجٹ اور وقت کا ایک بڑا حصہ کتابوں پر خرچ کرتے ہیں مگر آپ اس کو بھی جانے دیجیے ‘
آپ پاکستان کے صف اول کے صحافیوں کا ڈیٹا نکال لیجیے‘ آپ کو ان میں سے کوئی شخص ٹپکا ہوا نہیں ملے گا‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زندگی فٹ پاتھ سے شروع کی‘ جو فرش پر اخبار بچھا کر سوتے تھے اور ایک چمچ چینی کھا کر دوبارہ کام پر چلے جاتے تھے‘ پاکستان میں چالیس سال سے اوپر تمام صحافیوں نے پندرہ پندرہ سو روپے ماہانہ پر کام شروع کیا اور یہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کر کے اس لیول تک پہنچے‘ ہم میں سے کسی شخص نے فیملی لائف نہیں گزاری‘ ہمارے بچے کب بڑے ہوئے‘ یہ بیچارے کس طرح اسکول جاتے رہے اور انھیں کس کس جائز ضرورت کے لیے کتنا کتناانتظار کرنا پڑا‘ آپ تصور نہیں کر سکتے مگر آپ اس کو بھی جانے دیجیے ‘ پاکستان میں سیاستدان اپنے بیٹے کو سیاستدان ‘ ڈاکٹر اپنے بیٹے کو ڈاکٹر‘ بیوروکریٹ بیوروکریٹ اور فوجی اپنے ولی عہد کو فوجی بنانا چاہتا ہے لیکن پاکستان میں کسی بڑے صحافی کا بیٹا صحافی نہیں بنتا؟ کیوں؟
اس کی وجہ اس شعبے کے دکھ ہیں‘ ہم وہ بدنصیب لوگ ہیں قدرت جن کا رزق ڈائنوسارس کے پنجروں میں اگاتی ہے اور ہم روزانہ ڈائنوسارس کے کھروں پر گدگدی کر کے ان کے پائوں سے اپنا رزق نکالتے ہیں‘ ہم جانتے ہیں یہ پیشہ کتنا مشکل‘ پرخطر اور بے آرام ہے چنانچہ کوئی صحافی اپنے بچوں کو صحافی نہیں بنانا چاہتا‘ یہ اسے اس پروفیشن میںنہیں لانا چاہتا جس میں گولی سے بچ جائیں تو گالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم برے بھی ہیں اور یہودو نصاریٰ کے ایجنٹ بھی ۔
ہم پر یہ الزام بھی لگتا ہے اینکرز لاکھوں روپے معاوضہ لیتے ہیں ‘ یہ الزام بھی درست ہے لیکن آپ نے کبھی سوچا لاکھوں روپے معاوضہ لینے والے لوگ کتنے ہیں! پانچ‘ سات یا دس۔ پاکستان میں اس وقت چھوٹے بڑے تین لاکھ صحافی ہیں‘ تین لاکھ صحافیوںمیں سے اگر65 سال کی صحافتی تاریخ میں پہلی بار دس لوگ اتنے معاوضے تک چلے گئے ہیں تو کیایہ انتہائی پست شرح نہیں؟۔اس ملک جس میں تین سو جرنیل ‘ دو سو سیکریٹری اور سو حکمران ہیں اور جس میں قلفیاں بیچنے والے چٹے ان پڑھ ان اینکرز سے زیادہ پیسے کمارہے ہیں ‘ ان میں دس لوگ زیادہ ہیں؟ اور آپ ہمیشہ ان دس لوگوں کو میڈیا بھی سمجھتے ہیں۔
یہ دس لوگ میڈیا نہیںہیں‘ میڈیاوہ دو لاکھ ننانوے ہزار نو سو نوے لوگ ہیں جن کے بارے میں آج تک اس معاشرے کے کسی شخص نے نہیں سوچا ‘ آپ نے کبھی سوچا! صحافت پاکستان کا واحد پیشہ ہے جس میں کوئی پنشن‘ کوئی بعداز مرگ مراعات نہیں‘ ہم بیمار ہو جائیں‘ ہم مر جائیں اور ہمیں کسی بھی وقت نوکری سے نکال دیا جائے ‘ ہماری پرواہ کوئی نہیں کرتا ‘ اس ملک میں کوئی عدالت ہمارا کیس تک نہیں سنتی اور پاکستان دنیا میں صحافیوں کے لیے تیسراخطرناک ترین ملک ہے‘ دس سال میں ہمارے 85 صحافی بھائی ڈیوٹی کے دوران مارے گئے اور سیاستدانوں سے لے کر عوام تک کسی نے ان کا جنازہ تک نہیں پڑھا‘ آج ان صحافیوں کے بچے کس حال میں ہیں یاان کی بیوائیں کیا کر رہی ہیں‘ کیا 18کروڑ لوگوں کے اس ملک میں کسی نے سوچا؟ اس ملک میں فوجی اور سپاہی ڈیوٹی کے دوران مارا جائے تو اس کے بچوں کو جاب بھی ملتی ہے‘ اس کی بیوہ کو پنشن بھی اور مکان بھی۔
ملک میں سرکاری ملازمین کے لیے میڈیکل اور تعلیم فری ہوتی ہے لیکن پاکستان کے نوے فیصد صحافیوں کو یہ سہولتیں حاصل نہیں ہیں اور باقی دس فیصد بھی یہ سہولتیں اپنی جیب سے خریدتے ہیں مگر آپ اس کو بھی جانے دیجیے ‘ آپ یہ بھی ملاحظہ کیجیے ‘ہم لوگ ہر مرنے والے کے لیے موم بتیاں بھی جلاتے ہیں اور موم بتیاں جلانے والوں کی کوریج بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے لیے اس ملک میں کوئی موم بتی نہیں جلتی‘ ہماری قبروں پر کوئی فاتحہ پڑھنے نہیں آتا‘ عوام کی مہربانی کا یہ عالم ہے ارشاد احمد حقانی ملک کے سب سے بڑے کالم نگار تھے‘ حقانی صاحب چالیس سال تک عوام کو انفارمیشن اور نالج دیتے رہے‘ یہ24جنوری 2010ء کو وفات پا گئے اور عوام انھیں چالیس گھنٹے میں بھول گئے ‘آج آپ میں سے کتنے لوگوں کو ارشاد احمد حقانی کا نام یاد ہے۔
آپ حمید اختر صاحب‘ احمد بشیر اور وارث میر صاحب کو بھی بھول گئے ہیں‘ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پوری زندگی آپ کی سچ تک رہنمائی کی ۔آپ لوگ ان کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں تو وہ بیچارے جو پوری زندگی سانپوں کے بل میں ہاتھ ڈال کر خبریں نکالتے اور آپ تک پہنچاتے ہیں اور کسی روز چپ چاپ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور آپ کوان کا نام تک معلوم نہیں ہوتا‘ آپ کا ان کے بارے میں کیا رویہ ہو گا! کیا آپ سلیم شہزاد کو جانتے ہیں؟ کیا آپ کو حیات اللہ اور چشتی مجاہد یاد ہیں ؟ آپ اس کو بھی جانے دیجیے ‘ آپ ایک اور حقیقت ملاحظہ کیجیے ‘ یہ پاکستان کی واحد فیلڈ ہے جس میں ایلیٹ کلاس کا کوئی بچہ نہیں آتا‘ پاکستان کی خوشحال کلاس اپنے بچوں کو بیوروکریسی‘ فوج‘ سیاست اور بزنس میں بھجواتی ہے‘
یہ لوگ اپنے بچوں کو ڈاکٹر‘ انجینئر‘ آرکی ٹیکٹ حتیٰ کہ مولوی بنا لیں گے لکنپ یہ انہیںصحافی نہیں بنائیں گے ‘ کیوں؟کیونکہ یہ لوگ اس پیشے کی سختیوں اور مجبوریوں سے واقف ہیں‘ یہ جانتے ہیں پاکستان میں صحافی کی عمرتمام شعبوں سے کم ہوتی ہے چنانچہ صحافت ملک کا واحد پیشہ ہے جس میں مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ آتے ہیں۔ آپ نے زندگی میں سیلف میڈ کا صرف لفظ سنا ہوگا‘ آپ نے اگراسے کھلی آنکھوں سے دیکھنا ہے توآپ اس ملک کے ان صحافیوں کو دیکھئے جنھیں آپ برا بھی کہتے ہیں‘ یہودو نصاریٰ کا ایجنٹ بھی ‘ منافق بھی‘ بکے ہوئے بھی اور بے شرم بھی۔ لیکن یہ اس کے باوجود آگ میں ہاتھ ڈال کر آپ کے لیے خبر لے کر آتے ہیں۔ شرم تو ان لوگوں کو آنی چاہیے جو اس وقت چھینک نہیں مارتے جب تک ان کے سامنے مائیک اور کیمرے نہیں لگ جاتے یا پھر ان لوگوں کو آنی چاہیے جو بجلی بند ہونے یا گیس نہ آنے پر بھی ٹی وی چینل میں فون کر دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی میڈیا کو برا بھی کہتے ہیں اور یہودو نصاریٰ کا ایجنٹ بھی۔ اگر ہم ایجنٹ ہیں تو پھر اس ملک میں کوئی پاک باز نہیں اور اگر میڈیا کے لوگوں کا رزق حرام ہے تو پھر اس ملک میں کسی شخص کو رزق حلال کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔
آپ لوگ کہتے ہیں میڈیا کا احتساب کون کرے گا؟ بھائی اگراس ملک میں کسی کا احتساب ہو رہا ہے تو وہ صرف اور صرف میڈیا ہے‘ ہمارا احتساب تو ریمورٹ کنٹرول کے بٹن اور ہاکر کو ایک ٹیلی کال سے ہوجاتا ہے‘ ہمارا کل اثاثہ کریڈیبلٹی ہوتی ہے ہم جس دن کریڈیبلٹی کھو بیٹھتے ہیں‘ ہم اسی دن اس فیلڈ سے فارغ ہو جاتے ہیں‘ اس ملک میں کرپٹ بیوروکریٹ کو زیادہ سے زیادہ کیاسزا ملتی ہے؟اسے او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے‘ معطل افسر کو چند ہفتے بعد نئی پوسٹنگ مل جاتی ہے‘ جعلی ڈگری والے دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلی پہنچ جاتے ہیں‘ دوہری شہریت کے ارکان کے لیے قانون بدل جاتا ہے‘ طیارہ سازش کیس میں سزا یافتہ میاں نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آ جاتے ہیں‘ کرپشن کیسز میں جیل میں بند آصف علی زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن جاتے ہیں اور حد تو یہ کہ معاشرہ میچ فکسنگ میں سزا پانے والے کرکٹرز تک کو بھی معاف کر دیتا ہے لیکن صحافی ‘یہ اگر ایک بار اپنے مقام سے گر جائے‘ یہ اگر ایک بار اپنی کریڈیبلٹی کھو بیٹھے تو اسے کوئی معاف نہیں کرتا۔ اس ملک میں ایک مسجد سے نکالے ہوئے مولوی کو دوسری مسجد مل جاتی ہے لیکن کریڈیبلٹی کی دوڑ سے نکلے صحافی کو دوبارہ نوکری نہیں ملتی۔
ہم صحافیوں میں بھی احتساب کی کڑی ویلیوز موجود ہیں‘ ہم لوگ ’’کریڈیبلٹی لوز‘‘ کرنے والے لوگوں میں نہیں بیٹھتے‘ آپ دیکھ لیجیے کیا پاکستان کے کسی بڑے صحافی نے کبھی کریڈیبلٹی لوز کرنے والے کسی صحافی کا ساتھ دیا؟‘ یہاں اس ملک میں چوہدری شجاعت حسین بے نظیر بھٹو کو عدالتی فیصلوں سے بچانے کے لیے ملک سے باہر بھجوا دیتے ہیں اور میاں نواز شریف اپنے والد کو دفتر سے کرسی سمیت اٹھوانے والے رحمان ملک کے گھر پہنچ جاتے ہیں اور جنرل پرویز مشرف ’’اوور مائی ڈیڈ باڈی‘‘ کے نعرے لگانے کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میز پر بیٹھ جاتے ہیں لیکن کوئی صحافی ایک بار‘ جی ہاں ایک بار کسی سیاسی جماعت کی جیب میں چلا جائے تو دوسرے صحافی اس کے ساتھ نہیں بیٹھتے ‘ یہ اس کی سپورٹ نہیں کرتے لیکن ہم اس کے باوجود برے بھی ہیں اور یہودو نصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔ خدا خوفی کریں‘ کچھ تو رحم کریں‘ گالی دینے سے پہلے ایک بار‘ہاں ایک بار تو ہمیں بھی انسان سمجھ لیں‘ ایک بار تو یہ سوچ لیں آج اگر یہ آزاد میڈیا نہ ہو تو معاشرہ دو دن میں1971ء میں واپس چلا جائے جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا لیکن ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر فتح کے ترانے بج رہے تھے‘ کیا آپ ایک ایسا ملک چاہتے ہیں۔
(جاری ہے)
پھر بھی ہم مجرم ہیں (دوسرا حصہ)
جاوید چوہدری جمعرات 18 اکتوبر 2012
آپ ریمنڈ ڈیوس کی مثال لیجیے‘ ریمنڈ ڈیوس نے 27 جنوری 2011ء کو لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کو سرِ عام گولی مار دی۔
پنجاب حکومت‘ وفاقی حکومت اور ہمارے خفیہ ادارے اس واقعے کو چھپانا چاہتے تھے لیکن میڈیا نے ریمنڈ ڈیوس کو تین منٹ میں قوم کے سامنے پیش کر دیا‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے وہ کون تھا جو روز آپ کو محمد فہیم کی بیوہ‘ اس کے والدین اور اس کا خاندان دکھاتا تھا اور وہ کون تھا جس نے آپ کو امریکی قونصل خانے کی گاڑی کے نیچے کچلے جانے والے عبادالرحمن کا خاندان دکھایا؟ یقیناً وہ میڈیا تھا اور کیا اس وقت ہم پر پاکستان کے خفیہ اداروں‘ وفاقی اور صوبائی حکومت کا دبائو نہیں تھا؟ اور کیا امریکی حکام نے میڈیا سے رعایت کرنے کی درخواست نہیں کی تھی؟ یہ سب کچھ ہوا لیکن میڈیا اس کے باوجود آپ کو حقائق دکھاتا رہا۔
آپ ریمنڈ ڈیوس کے ایشو پر حکومتوں اور عوام کی صورتحال بھی ملاحظہ کیجیے‘ حکومت ریمنڈ ڈیوس کو جیل میں پیزا فراہم کرتی تھی‘ اسے فائیو اسٹار ہوٹل سے کھانا بھجوایا جاتا تھا‘ وفاقی حکومت نے ریمنڈ ڈیوس کو لے جانے کے لیے امریکی جہاز کو لاہور ائیرپورٹ پر اترنے کی اجازت دے دی‘ پنجاب حکومت ڈیل کے دوران خاموش بھی رہی اور پولیس‘ جیل خانہ جات اور پنجاب کی ہوم منسٹری نے ریمنڈ ڈیوس کے ریلیز آرڈر بھی جاری کیے اور ہمارے خفیہ اداروں نے اپنے اکائونٹس سے اپنے شہریوں کا خون بہا بھی ادا کیا‘ ریمنڈ ڈیوس کے جانے کے بعد پورے ملک میں اس واقعے کے خلاف کوئی مظاہرہ نہیں ہوا‘ جنرل حمید گل نے 17 مارچ 2011ء کو اسلام آباد میں مظاہرے کا اعلان کیا۔
اس مظاہرے میں میڈیا موجود تھا لیکن عوام کی طرف سے صرف 14 لوگ شریک ہوئے‘ میڈیا اس سارے معاملے کے دوران آپ کو پل پل کی خبر دیتا رہا مگر شاہ محمود قریشی کے سوا کسی نے کریکٹر کا مظاہرہ نہیں کیا‘ حکومت کی حالت یہ ہے کہ یہ آج تک قونصل خانے سے وہ گاڑی برآمدنہیں کر سکی جس نے عبادالرحمن کو سرِ راہ کچل دیا تھا اور آپ کے جمہوری حکمرانوں نے ریمنڈ ڈیوس کو پاسپورٹ کے بغیر جہاز پر سوار کر دیا تھا لیکن ہم‘ ہمارے مائیک اور ہمارے کیمرے چیختے رہے مگر اس کے باوجود ہم برے بھی ہیں اور یہود ونصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔
آپ جنرل پرویز مشرف کے دور کا جائزہ لیجیے‘ ہماری محترمہ بے نظیر بھٹو اور ہمارے محترم میاں نواز شریف اس دور میں کہاں تھے‘ میاں صاحب جنرل پرویز مشرف سے تحریری معاہدہ کرکے جدہ چلے گئے تھے اور انھوں نے 2006ء تک جنرل پرویز مشرف کے خلاف منہ سے ایک لفظ نہیں نکالا تھا‘ یہ جاوید ہاشمی تک کا فون نہیں سنتے تھے‘ محترمہ بے نظیر بھٹو لندن اور دوبئی میں بیٹھی تھیں لنکو میڈیا باوردی جرنیل کے سامنے کھڑا تھا‘ میڈیا نے اس وقت بھی رول آف لاء اور جمہوریت کی بات کی جب جمہوریت کے چیمپیئن کلمہ تک بریگیڈیئر نیاز اور طارق عزیز سے پوچھ کر پڑھتے تھے‘ جمہوریت کے ان پہلوانوں نے پاکستان میں اس وقت تک قدم نہیں رکھا جب تک سعودی عرب‘ یو اے ای‘ برطانیہ اور امریکا نے انھیں ضمانت نہیں دے دی اور جنرل پرویز مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس ضمانت کی تصدیق نہیں کی‘ یہ لوگ اقتدار سے فارغ ہو کر ملک سے باہر چلے گئے تھے اور واپس آ کر دوبارہ مسند اقتدار پر بیٹھ گئے‘ یہ باہر بھی محفوظ تھے اور اندر بھی۔
میڈیا نے میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کواس وقت بھی زندہ رکھا جب ان کے تیس تیس سال کے ساتھی اور بھائی ان کا ساتھ چھوڑ گئے اور یہ اپنے سائے سے بھی ڈر رہے تھے مگر ہم اس کے باوجود برے بھی ہیں اور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔ آپ بارہ مئی 2007ء کے واقعے کو لے لیجیے وہ کون تھا جو آپ کو ٹی وی پر کراچی میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی دکھا رہا تھا‘ کیا اس وقت اینکرز‘ رپورٹرز اور کیمرہ مینوں پر سیدھی گولیاں نہیں برس رہی تھیں‘ کیا ہم نے آپ کو الزام لگانے والوں کی تقریریں نہیں سنائیں لیکن آج بارہ مئی کے دن ایک دوسرے پر گولیاں برسانے اور خون بہانے والے بھائی بھائی ہیں اور ہم برے بھی ہیں اور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔
آپ اگر حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو پھر سنیے 8 اکتوبر 2005ء کے زلزلے کے دن جنرل پرویز مشرف اور ان کی حکومت رمضان میں ناشتہ فرما رہی تھی لیکن میڈیا آپ کو ملک بھر میں آنے والی تباہی دکھا رہا تھا‘ ہمارے کیمرے اس وقت دیواروں اور چھتوں کے نیچے دبے لوگوں تک پہنچے جب فوج کو بھی اپنی یونٹوں کا علم نہیں تھاہم اس وقت بھی زلزلہ زدہ لوگوں کے ساتھ تھے اور ہم نے پچھلے ہفتے بھی ان لوگوں کی یاد منائی۔ ہمارے صدر جس وقت قوم کو سیلاب میں چھوڑ کرلندن چلے گئے تھے اور وزیراعظم سفید شلوار قمیض اور اطالوی جوتے پہن کر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرتے تھے اور واپسی پر ان کے جوتوں کے تلوے تک گیلے نہیں ہوتے تھے اور یہ جب جعلی میڈیکل کیمپس میں تصویریں بنوا کر واپس چلے جاتے تھے ہم لوگ اس وقت عوام کے ساتھ پانی میں کھڑے تھے۔
ہماری ڈی ایس این جی‘ ہمارے رپورٹر اور ہمارے اینکرز اس وقت کیمپوں میں کھڑے ہوتے تھے‘ ہم نے عیدیں تک پانی میں گزاریں اور میں یہ بھی دعوے سے کہتا ہوں ہم لوگ اگر آج سیلاب کی کوریج بند کر دیں تو حکومت جعلی کیمپوں تک کا دورہ نہ کرے! کیا ہم نے قوم کو2011ء میں کراچی میں گرنے والی بارہ سو نعشیں نہیں دکھائیں‘ کیا ہم قوم کو کٹی پہاڑی اور اورنگی ٹائون تک نہیں لے کر گئے‘ کیا ہم نے آپ کے سامنے میمو اسکینڈل نہیں رکھا‘ کیاآپ کو حج اسکینڈل نہیں بتایا‘ کیا آپ کو ایفی ڈرین کیس میڈیا کے ذریعے معلوم نہیں ہوا‘ کیا ہم آپ کو گلگت ‘ بلتستان اور بلوچستان میں شیعہ کمیونٹی کے مرنے والوں کی نعشیں نہیں دکھا رہے‘ کیا ہم نے ہر بم دھماکے‘ ہر خودکش حملے اور مناواں والا سے لے کر جی ایچ کیو‘ مہران بیس اور کامرہ ائیر بیس پر حملے کی لائیو فوٹیج نہیں دکھائی‘ مقامی آبادی جب گھروں میں پناہ لے لیتی ہے کیا آپ کو اس وقت ہمارے رپورٹر‘ ہمارے کیمرہ مین گولیوں کی باڑ میں تن تنہا دکھائی نہیں دیتے۔
کیا ہم آپ کو بلوچستان اور سندھ میں لگی ہوئی آگ نہیں دکھا رہے‘ کیا ہم نے آپ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے 3500 فوجی اور ان کے اہل خانہ نہیں دکھائے‘ کیا ہم نے آپ کو کراچی میں جل کر مرنے والے تین سو فیکٹری ورکرز کی چیخیں نہیں سنائیں‘ کیا ہم نے جعلی ڈگریوں والے ایم این اے‘ ایم پی اے اور سینیٹرز آپ کے سامنے پیش نہیں کیے‘ کیا ہم نے ارکان پارلیمنٹ کی دوہری شہریت کا ایشو نہیں اٹھایا اور کیا ہم نے 10 اکتوبر 2012ء تک سوئس اکائونٹس اور صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات آپ کے سامنے پیش نہیں کیے اور کیا ہم نے آپ کو وحیدہ شاہ کا تھپڑ‘ ایم پی اے اسلم مڈھیانہ کے ہاتھوں اسکول ٹیچر کی تذلیل‘ شمائلہ رانا کی چوری‘ ایم این اے حاجی پرویز خان کا جعلی امتحان اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی صاحبزادی کے گارڈز اور ایلیٹ فورس کے ہاتھوں بیکری ملازم پر تشدد نہیں دکھایا اور پیچھے رہ گئی ملالہ تو کیا یہ سچ نہیں!
سوات میں جب بچیوں کے اسکول گرائے جا رہے تھے تو ملالہ علاقے کی واحد بچی نہیں تھی جس نے اپنے حق کے لیے آواز لگائی‘ کیا یہ حقیقت نہیں جس وقت فوج‘ وفاقی حکومت اور غیرت مند پختون حکومت سوات کا تماشا دیکھ رہی تھی ملالہ اس وقت دنیا کو علاقے کی بچیوں پر ہونے والا ظلم سنارہی تھی‘ ہم نے اس وقت اس بچی کا ساتھ دیا کیونکہ اس وقت کوئی دوسرا بولنے کے لیے تیار نہیں تھا اور یہ بچی جب 9 اکتوبر 2012ء کو زخمی ہوئی تو ہم ایک بار پھر اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے‘ ہم نے ملالہ کا کیس اس وقت آپ کی عدالت میں پیش کیا جب ملالہ کا والد سیدو شریف کے ڈاکٹروں کے پیچھے بھاگ رہا تھا اور کوئی اس کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا‘
کیا یہ کسی جاگیردار‘ کسی سرمایہ دار یا کسی سیاستدان کی بچی ہے؟ کیا اس کا والد لوئر مڈل کلاس سے تعلق نہیں رکھتا؟ اور اگر ہم اس وقت اس بچی کا ساتھ نہ دیتے تو کیا یہ اب تک اسپتال کے کوریڈورز میں نہ مر چکی ہوتی‘ یہ حقیقت ہے اس کا والد اسے کبھی پشاور‘ اسلام آباد اور لندن نہ لے جا سکتا چنانچہ کیا ہم نے غلط کیا؟ اگر میڈیا کی وجہ سے ایک غریب اور معصوم بچی کی جان بچ گئی تو کیا یہ غلط تھا؟ اور کیا ہم کائنات اور شازیہ کو بھول گئے‘ کیا میڈیا کے شور کی وجہ سے حکومت ان دونوں بچیوں کا نوٹس لینے پر مجبور نہیں ہوئی اور کیا آج حکومت ان کا علاج بھی مفت نہیں کروا رہی اور کیا یہ اب ان کی تعلیم کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور کیا میڈیا نے پوری قوم کو‘ پوری پارلیمنٹ کو ایک معصوم اور غریب بچی کے سرہانے کھڑا کر کے غلط کیا؟
کیا یہ حقیقت نہیں یہ واقعہ اگر خدانخواستہ مریم نواز شریف یا آصفہ بھٹو زرداری کے ساتھ پیش آتا تو ان کے لیے ائیر ایمبولینس نہ آتی اور ان کا علاج کوئین الزبتھ اسپتال میں نہ ہوتا؟ اگر ہاں تو پھر ہم نے حکومت کو ملالہ کے لیے ائیر ایمبولینس منگوانے اور اس کا برطانیہ میں مفت علاج کرانے پر مجبور کر کے کیا غلطی کی؟ کیا میڈیا پر صرف آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی بیٹیوں کا حق ہے؟ کیا میڈیا غریب ہونے یا سوات کا شہری ہونے کی وجہ سے ملالہ‘ شازیہ اور کائنات کو کوریج نہ دیتا؟ کیا آپ کا انصاف یہ کہتا ہے؟ اگر نہیں توکاک اس کے باوجود ہم برے بھی ہیں اور یہودو نصاریٰ کے ایجنٹ بھی! کیا ہم اس کے باوجود گالی کے حق دار ہیں؟
(جاری ہے)
پھر بھی ہم مجرم ہیں
جاوید چوہدری منگل 16 اکتوبر 2012
اللہ تعالیٰ نے عطاء الحق قاسمی صاحب کو مزاح کی دولت سے بے انتہا نواز رکھا ہے‘
یہ جہاں بیٹھ جاتے ہیں وہاں پھلجھڑیاں بھی چھوٹتی ہیں اور قہقہے بھی گونجتے ہیں‘ آپ اگر بات کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو قاسمی صاحب کی شاگردی اختیار کرنا ہوگی کیونکہ یہ بڑی سے بڑی اور بری سے بری بات اس خوبصورتی سے کہہ دیتے ہیں کہ بری بات بری نہیں رہتی اور بڑی بات مزید بڑی ہو جاتی ہے‘ میرے ایک دوست نے قاسمی صاحب سے پوچھا ’’ بوڑھی بیوی کے جوان خاوند کو کیا کرنا چاہیے‘‘ قاسمی صاحب نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا ’’ بیرونی امداد‘‘ اسی طرح جب بھی کوئی بزرگ شخص خوبصورت خاتون کو دیکھ کر ماشاء اللہ کہتا ہے تو قاسمی صاحب کے منہ سے بے اختیار ’’ انشاء اللہ‘‘ نکل جاتا ہے‘ یہ محبت‘ لگائو اور کشش کی کان بھی ہیں‘ آپ اگر ان کے لگائو کے دائرے میں آ گئے تو پھر یہ پوری زندگی ماں کی طرح آپ پر اپنی محبت نچھاور کرتے رہیں گے‘
ہم زندگی میں بے شمار لوگوں کو دیکھتے ہیں‘ ان میں سے کچھ لوگ محض لوگ ہوتے ہیں‘ کچھ لوگ اچھے تخلیق کار‘ ہنر مند یا پرفارمر ہوتے ہیں اور کچھ محض پبلک ریلیشننگ کا شاہکار اور آپ کو ان کے قریب جا کر معلوم ہوتا ہے ان کی رنگین شخصیت محض سایہ تھی لیکن عطاء الحق قاسمی ان چند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں آپ جن کا کام دیکھتے ہیں تو مبہوت ہو جاتے ہیں اور آپ جب ان کے حلقہ ارادت میں قدم رکھتے ہیں تو آپ کو ان کی شخصیت گنگ کر دیتی ہے‘ قاسمی صاحب کا کام ان کی شخصیت سے بڑا ہے اور شخصیت ان کے کام سے کہیں بلند‘ یہ زندہ لیجنڈ ہیں جن کے بغیر پاکستانی صحافت مکمل ہوتی ہے‘ نہ ادب اور نہ ہی محفل۔
عطاء الحق قاسمی پچھلے تین برسوں سے لاہور آرٹس کونسل کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین ہیں‘ تین برسوں سے ہی لاہور میں ادبی اور ثقافتی کانفرنس منعقد کر رہے ہیں‘ انھوںنے 12 سے 14 اکتوبر 2012ء کو تیسری ادبی اور ثقافتی کانفرنس کا اہتمام کیا‘ اس میں پاکستان بھر سے ادیب‘ شاعر‘ مصور‘ گلوکار‘ ایڈیٹر‘ کالم نگار ‘ اینکر پرسنز‘ اداکار اور موسیقار جمع کیے‘ 14 اکتوبر کی سہ پہر ’’میڈیا کے ادب اور معاشرے پر اثرات‘‘ کے عنوان سے میڈیا کانفرنس تھی‘ اس میں چوٹی کے صحافی‘ کالم نگار اور اینکرز پرسنز شریک ہوئے‘ عوام نے کبھی اتنے نامور صحافیوں کو کسی ایک جگہ اکٹھے نہیں دیکھا ‘ یہ قاسمی صاحب کی محبت اور تعلق کا کمال تھا ورنہ یہ وہ لوگ ہیں جو اکٹھے حج تک نہیں کر سکتے‘ عوام بھی الحمرا کے ہال سے لے کر لان تک جمع تھے‘
میں قاسمی صاحب کے لاکھوں کروڑوں عقیدت مندوں میں سے ایک ہوں چنانچہ میں بھی اس محفل میں شریک تھا‘ یہ کانفرنس سنجیدہ موضوع پر سنجیدگی سے شروع ہوئی لیکن جلد ہی میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر اعتراضات میں تبدیل ہو گئی اور شرکاء نے اسٹیج پر بیٹھے حضرات کے ساتھ وہی سلوک شروع کر دیا جو یہ سوشل میڈیا پر روزانہ کرتے رہتے ہیں‘ وہی پرانے اعتراضات میڈیا یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ ہے‘ یہ لوگ چھوٹے ایشو کو بڑا بنا دیتے ہیں‘ یہ ہمیشہ برائی کو بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں‘ یہ لوگ سب کا احتساب کرتے ہیں لیکن کسی کو اپنا احتساب نہیں کرنے دیتے‘ یہ ریٹنگ کی دوڑ میں اخلاقیات‘ انسانیت اور مشرقیت کی حدود روندتے چلے جارہے ہیں‘ یہ عالمی ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں اور یہ جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ‘ عوام نے ملالہ کا ایشو بھی اٹھایا‘
لوگوں کا کہنا تھا ملالہ ایک عام سی بچی تھی لیکن میڈیا نے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اسے ہیروئن بنا دیا‘ یہ بھی کہا گیا ملالہ پر حملہ شمالی وزیرستان کے خلاف آپریشن کی سازش ہے وغیرہ وغیرہ اور ہم یہ اعتراضات سن سن کر مسکراتے رہے کیونکہ بدقسمتی سے اعتراضات اب ہماری ڈیلی روٹین کا حصہ بن گئے ہیں اور اعتراض اٹھانے والا کوئی شخص ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا‘ ہمیں لوگ ہمیشہ کہتے ہیں آپ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بات نہیں کرتے‘ میں ان لوگوں سے پوچھتا ہوں آپ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اس پر ہونے والے ظلم کی خبر کس نے دی تھی‘
یہ ایک لمحہ سوچتے ہیں اور اس کے بعد بے بسی سے جواب دیتے ہیں ’’میڈیا نے‘‘ اور میں اس جواب پر ہنس پڑتا ہوں کیونکہ پاکستانی عوام 2004ء تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے نام سے بھی واقف نہیں تھے‘ یہ میڈیا تھا جس نے عین اس وقت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا پرچم اٹھایا جب جنرل پرویز مشرف کا اقتدار سوا نیزے پر چمک رہا تھا اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے لے کر مذہبی تنظیموں تک کوئی عافیہ صدیقی کا نام لینے کے لیے تیار نہیں تھا‘ میڈیا نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے اس قدر لکھا اور اس کے بارے میں اس قدر بات کی کہ امریکی حکام اسے بگرام سے امریکی عدالت میں لانے اور اسے امریکی قانون کے مطابق تمام مراعات دینے پر مجبور ہو گئے لیکن آج یہ میڈیا برا ہے اور وہ تمام لوگ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بھائی ہیں جو 2007ء تک عافیہ صدیقی کا نام تک نہیں لیتے تھے‘
عوام کو ڈرون حملوں کی اطلاع کون دیتا ہے؟ پاکستان میں18 جون2004ء میں پہلا ڈرون حملہ ہوا اور یہ یہود و نصاریٰ کا ’’ ایجنٹ‘‘ میڈیا تھا جس نے ایک گھنٹے میں عوام کو اس ڈرون حملے اور اس میں شہید ہونے والے افراد کی شہادت کی اطلاع دی‘ پاکستان میں آخری ڈرون حملہ 11 اکتوبر2012ء کو ہوا اور ہم نے جون 2004ء سے 2012ء کے آخری حملے تک قوم کو اطلاع دی اور اس اطلاع کے لیے ہمیں دبائو کی کس کس چکی سے گزرنا پڑتا ہے ‘ یہ ہم جانتے ہیں اور ہمارا خدا۔ پاکستان کا کون سا لیڈر‘ کون سا سیاسی اور مذہبی ورکر ہے جو ڈرون حملوں کے شکار لوگوں کے آنسو پونچھنے شمالی اور جنوبی وزیرستان گیا‘
عوام میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے ڈرون کے شکار لوگوں کے جنازے پڑھے جب کہ میڈیا کے ورکرز ان علاقوں میں بھی پہنچے‘ انھوں نے جنازوں کی تصاویر اور فلمیں بھی بنائیں اور ملک کے ان مشکل ترین علاقوں میں پروگرام بھی کیے‘ آج جب پارلیمنٹ اور حکومت ڈرون حملے کی مذمت تک نہیں کرتی ہم لوگ آپ کو حملے کے چند سیکنڈ بعد اس کی اطلاع بھی دیتے ہیں اور قوم اور حکومت دونوں کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن قوم اٹک کا پل تک پار نہیں کرتی اور وہ لوگ جو گولیوں کی باڑ میں قوم کو اطلاع فراہم کرتے ہیں وہ برے بھی ہیں اور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔
آپ مسنگ پرسنز کے ایشو کولیں‘ ہماری ایجنسیاں لوگوں کو غائب کر رہی ہیں‘ آپ کو یہ اطلاع کس نے دی اور یہ خبر روزانہ کون دے رہا ہے؟ مسنگ پرسنز کے کیمپس کی کوریج کون کر رہا ہے؟ وہاں کھڑے ہو کر پروگرام کون کر رہا ہے؟ آمنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ 2005ء سے کون کھڑا ہے؟ بلوچستان کے مسنگ پرسنز کی بات کون کر رہا ہے؟ ہمارے ملک‘ جس میں وزیراعظم اور صدر تک ایجنسیوں کے خلاف منہ نہیں کھولتے‘ جس میں بڑے بڑے مذہبی اور سیاسی رہنما بھی آئی ایس آئی‘ ایم آئی اور آئی بی کا نام نہیں لیتے میڈیا اس ملک میں پچھلے سات برسوں سے نہ صرف ان اداروں کا نام لے رہا ہے بلکہ ان پر براہ راست الزام بھی لگا رہا ہے‘
اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک‘ جس میں مسنگ پرسنز کے لیے اٹھارہ ہزار لوگ گھروں سے نہیں نکلے ‘ ہم چند مٹھی بھر لوگ اس ملک میں روزانہ بم کو ٹھوکریں ماررہے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود برے بھی ہیں اور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔ پاکستان میں جس وقت صدر‘ وزیراعظم اور آرمی چیف کو ایبٹ آباد میں امریکی فوج کی آمد اور اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ پر حملے کی اطلاع نہیں تھی ہم نے عوام کو اس وقت جلتا ہوا امریکی ہیلی کاپٹر دکھایا تھا‘ بھارتی حکومت اور میڈیا نے ممبئی اٹیکس کے بعد جس وقت پاکستان کے خلاف محاذ کھول دیا اور ملک کا کوئی شخص‘ کوئی ادارہ اس کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں تھا پاکستانی میڈیا اس وقت نہ صرف بھارتی پروپیگنڈے کے سامنے سینہ سپر ہوا بلکہ اس نے بھارتی حکومت اور انڈین میڈیا کو پاکستان سے معذرت کرنے پر مجبور کیا‘
آپ یہ بھی چھوڑ دیجیے‘ آپ یہ بتائیے جنرل پرویز مشرف نے جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معطل کیا تو آپ کو یہ خبر کس نے دی اور عدلیہ نے جس وقت اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف جوڈیشل کمیشن قائم کر دیا افتخار محمد چوہدری کے ساتھ اس وقت کون کھڑا تھا اور آج جب چوہدری اعتزاز احسن اور علی احمد کرد تک افتخار محمد چوہدری کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں اس وقت چیف جسٹس کے ساتھ کون کھڑا ہے اور جب افتخار محمد چوہدری کے صاحبزادے ارسلان افتخار کا اسکینڈل سامنے آیا تو چیف جسٹس کو کس نے اپنے صاحبزادے کے خلاف سوموٹو ایکشن لینے پر مجبور کیا اور جب ہمارے اپنے اینکرز ساتھیوں نے اسپانسر پروگرام کیا تو کس نے ٹیلی ویژن اسکرین پر آپ کو ان کی یہ غیر اخلاقی حرکت دکھائی اور جب لال مسجد پر فوجی آپریشن ہوا تو کیا یہود و نصاریٰ کا یہ ’’ ایجنٹ‘‘ میڈیا نہیں تھا جو برستی گولیوں میں نہ صرف لال مسجد کے سامنے کھڑا تھا بلکہ یہ قوم کو مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید غازی کی آواز بھی سنا رہا تھا‘
آپ آج بھی یو ٹیوب پر چلے جائیں آپ کو لال مسجد کے آپریشن کی ٹی وی رپورٹس بھی ملیں گی‘ شہداء کی آخری تقریریں بھی اور مظلوم بچیوں کی سسکیاں بھی اور ہم آپ کو یہ سب کچھ اس وقت دکھا رہے تھے جب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اکثر رہنما ملک سے باہرتھے‘بے نظیر بھٹو‘ ما ں نواز شریف‘ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن اس وقت لندن میں تھے اور خاموش تھے جب کہ عوام کو فیض آباد تک آنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی لیکن ہم لوگ اس وقت بھی ان بچیوں کے ساتھ کھڑے تھے ہمارے سیاستدان‘ ہماری سیاسی جماعتیں اور ہماری سپریم کورٹ جب فوج کے خوف سے لال مسجد کا نام نہیں لیتی تھی‘ میڈیا نے اس وقت آپ کو مدرسے کی بچیاں بھی دکھائیں اور مسجد کی زخمی ہوتی دیواریں بھی لیکن آج لال مسجد کے لیے فوج اور پولیس بھجوانے اور مولانا عبدالعزیز کو برقعہ پہنا کر ٹی وی اسٹیشن لانے والے اچھے ہیں اور میڈیا برا اور یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ‘ واہ کیا یہ ہے آپ کا انصاف۔
(جاری ہے)
ہم محسنوں کو نہیں بھولتے
جاوید چوہدری ہفتہ 13 اکتوبر 2012
وہ دو تھیں‘ ایک میکسیکو میں پیدا ہوئی، دوسری جرمنی کے شہر لائزگ میں۔
ایک نن تھی اوردوسری ڈاکٹر۔ سسٹربیرنس کا تعلق میکسیکو سے تھا جب کہ ڈاکٹر روتھ فائو جرمنی کی رہنے والی تھی‘ یہ دونوں انسانیت کی خدمت کرنا چاہتی تھیں۔ ڈاکٹر روتھ نے 1958ء میں پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض ہے جس مںر مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘ کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔
پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹااں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘ ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔
ڈاکٹر روتھ فائو اس وقت تیس سال کی جوان خاتون تھی‘ یہ انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور عورت تھی اور یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھی‘ زندگی کی خوبصورتیاں اس کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن اس نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا‘ ڈاکٹر روتھ جرمنی سے کراچی آئی اور اس نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گئی‘ اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی تیاگ دی‘ ڈاکٹر روتھ نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا‘ کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو اﷲ کا عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔
چنانچہ لوگ ان مریضوں کو گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے تھے‘ ڈاکٹر روتھ اور سسٹر بیرنس کے لیے پہلا چیلنج اس تصور کا خاتمہ تھا‘ انھیں بیماری کو بیماری ثابت کرنے میں بہت وقت لگ گیا اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا‘ ڈاکٹر روتھ اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بیے کرتی تھی جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔ ڈاکٹر روتھ کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی‘ یہ مریضوں کا علاج کرتی اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا‘ اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی‘ ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا ۔
یوں یہ سینٹر 1965ء تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘ ڈاکٹر روتھ نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا‘ ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے‘ ڈاکٹر روتھ واپس جرمنی گئی اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئی‘ جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔ ڈاکٹر روتھ پاکستان میںجزام کے سینٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔
یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔ ڈاکٹر روتھ کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا‘ پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جزام کنٹرول ہوا تھا‘ یہ لوگ اب قبائلی علاقے اور ہزارہ میں جزام کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے اگلے چند برسوں میں پاکستان سے جزام کے جراثیم تک ختم ہو جائیں گے۔
حکومت ڈاکٹر روتھ فائو کی خدمات سے واقف ہے چنانچہ حکومت نے 1988ء میں ڈاکٹر روتھ کو پاکستان کی شہریت دے دی‘ اسے ہلال پاکستان‘ ستارہ قائداعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے ڈاکٹر روتھ فائو کو ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ جرمنی کی حکومت نے بھی اسے آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ تمام اعزازات‘ یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت خاتون اس سے کہیں زیادہ ’’ڈیزرو‘‘ کرتی ہے‘ جوانی میں اپنا وہ وطن چھوڑ دینا جہاں آباد ہونے کے لیے تیسری دنیا کے لاکھوں لوگ جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور اس ملک میں آ جانا جہاں نظریات اور عادات کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا جاتا بلکہ انسانوں کو مذہب اور عقیدت کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے‘ جس میں لوگ خود کو زیادہ اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو بلا خوف کافر قرار دے دیتے ہیں۔
جس میں لوگ آج بھی کینسر کا علاج پھونکوں‘ شوگر کا علاج پانی اور نفسیاتی عارضوں کا علاج عاملوں کے ڈنڈوں سے کرتے ہیں اور جس میں ہم بغیر کسی وجہ کے ہر گورے کے خلاف ہیں اور ہم سیم باسیل جیسے بیمار ذہنیت کے لوگوں کی حرکتوں کی سزا پاکستانی چرچوں‘ پاکستانی اے ٹی ایم مشینوں‘ پاکستانی پٹرول پمپوں اور پاکستانی گاڑیوں کو دیتے ہیں اور جس میں اسکول کھولنے کا مطالبہ کرنے پر ملالہ یوسف زئی جیسی بچیوں کو گولی مار دی جاتی ہے اور جس میں وہ لوگ پورا معاشرہ ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
جو میٹرک تک تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور جو عملی زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ جس میں لوگ معاشرے کے انتہائی برے‘ نالائق ‘کرپٹ اور بے ایمان لوگوں کو پہلے پارلیمنٹ میں بھجواتے ہیں اور پھر ان کے خلاف جلوس نکالتے ہیں اور جس میں مارشل لاء اور جمہوریت کھیل بن چکی ہے اور جس میں آج تک کسی سیاستدان (عمران خان کے علاوہ)‘ کسی بڑے عالم کو کسی بیماری کے خلاف جہاد کی توفیق نہیں ہوئی‘ جس میں لوگ قربانی کی کھالیں جمع کر کے اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے بجائے مساجد اور مدارس پر لگا دیتے ہیں اور جس میں لوگ تعلمر‘ صحت اور صاف پانی کا بجٹ بھی کھا جاتے ہیں اور جس میں آج بھی لوگوں کو واش روم استعمال کرنا نہیں آتا۔
ڈاکٹر روتھ کا عین جوانی میںجرمنی سے اس پاکستان میں آ جانا اور اپنی زندگی اجنبی ملک کے ایسے مریضوں پر خرچ کر دینا جنھیں ان کے اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ جاتے ہیں واقعی کمال ہے بلکہ یہ لکھتے ہوئے میرے ملک کے علمائے کرام مجھے معاف کر دیں تو یہ جہاد اکبر ہے۔ ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ خاتون‘ اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو شاید ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتے اور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے‘ ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں چنانچہ ہمیں ان کی ایوارڈز سے بڑھ کر تکریم کرنا ہو گی۔
میری خواہش ہے ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈاکٹر روتھ کا پروفائل چھوٹے بچوں کے سلیبس میں شامل کر لیں‘ یہ وفاقی دارالحکومت اور صوبائی دارالحکومتوں میں مرکزی جگہوں پر ڈاکٹر روتھ کی یادگار بھی بنوائیں‘ ڈاکٹر روتھ کی تصویر کنندہ کی جائے‘ اس کے ساتھ اس کا پروفائل تحریر کیاجائے اور عوام اور اسکولوں کے بچوں کو تحریک دی جائے یہ ڈاکٹر روتھ کی یادگار پر آئیں اور یہاں موم بتی جلا کر پاکستان کی اس محسنہ کا شکریہ ادا کریں۔ ہمارا سی ڈی اے پہلا قدم اٹھا سکتا ہے‘ یہ شاہراہ دستور یا بلیو ایریا کے کسی نمایاں مقام پر ڈاکٹر روتھ کی یادگار بنا دے‘ ڈاکٹر صاحبہ شائد اس وقت تک زندہ ہیں آپ انھیں بلوا کر اس یاد گار کا افتتاح کروائیں اور ہمارا میڈیا انھیں سراہے تا کہ جرمنی سمیت یورپ اور امریکا کے لوگوں کو علم ہو سکے ہم جہاں سیم باسیل جیسے شیطانوں کی مذمت کرتے ہیں ہم وہاں ڈاکٹر روتھ جیسی فرشتہ صفت خواتین کی عظمت کا احترام بھی کرتے ہیں‘ ہم انھیں اپنے دل اور دماغ دونوں میں جگہ بھی دیتے ہیں اور‘ اور ‘ اور ہم احسان فراموش نہیں ہیں‘ ہم اپنے محسنوں کوکبھی نہیں بھولتے۔
ملالہ
جاوید چوہدری جمعرات 11 اکتوبر 2012
دنیا میں معاشروں کو پرکھنے کے تین بڑے ٹیسٹ ہیں‘ ٹریفک‘ شراب اور خواتین۔ آپ کسی ملک میں چلے جائیں۔
آپ کو اگر وہاں ٹریفک ترتیب‘ ضابطے اور تہذیب کے ساتھ چلتی نظر آئے‘ گاڑیاں اپنی لین میں ہوں‘ آپ کو سڑک پر افراتفری دکھائی نہ دے‘ آپ ہر گاڑی کو اسپیڈ لمٹ میں چلتا دیکھیں‘گاڑیاں پیلی لائٹ پر رک جائیں اور سبز پر چلنا شروع کریں‘ لوگ صرف زیبرا کراسنگ پر سڑک عبور کریں‘ سڑک پر پیدل چلنے‘ سائیکل چلانے اور موٹر سائیکل سوار کو گاڑی والے سے زیادہ حقوق حاصل ہوں‘ پیدل چلنے والوں کے لیے باقاعدہ اوور ہیڈ برج اور انڈر گرائونڈ راستے بنے ہوں۔
لوگ گاڑیوں سے بوتلیں‘ ڈبے‘ ریپر اور چھلکے سڑکوں پر نہ پھینک رہے ہوں‘ ٹریفک سارجنٹ قانون کی خلاف ورزی پر گاڑی کے مالک کا تعارف لیے بغیر اس کا چالان کر رہے ہوں اور گاڑی کا ڈرائیور اور مالک چپ چاپ جرمانہ ادا کر دے اور ملک میں لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے کا تصور تک نہ ہو تو وہ ملک مہذب بھی ہو گا‘ ترقی یافتہ بھی اور ڈسپلنڈ بھی اور اس ملک میں ہر چیز قانون اور قاعدے کے تابع ہو گی جب کہ اس کے برعکس اگر ٹریفک کے کسی ایک یا ایک سے زائد ضابطے کی خلاف ورزی ہو رہی ہو تو آپ سمجھ لیں اس میں قانون کی حکمرانی ہے اور نہ ہی ریاست کی رٹ اور جس ملک میں یہ دونوں چیزیں نہ ہوں آپ کو وہاں آمریت بھی ملے گی‘ بری جمہوریت بھی‘ کرپشن بھی‘ شدت پسندی بھی‘ فسادات بھی‘ مذہبی اختلافات بھی‘ غربت بھی‘ بیماری بھی اور جہالت بھی چنانچہ سڑکیں ملک کی صورتحال کا پہلا آئینہ ہوتی ہیں۔ معاشرے کا دوسرا ٹٹس شراب ہے۔
اگر کسی ملک میں لوگ شراب پی کر گاڑی نہ چلائیں‘ غل غپاڑہ نہ کریں‘ شرابی ایک دوسرے کے سر میں بوتلیں نہ ماریں‘ لوگ زہریلی شراب پی کر جان نہ دیں‘ نوجوان شادی بیاہ پر شراب نہ پئیں اور مدہوشی میں طوائفوں پر نوٹ نچھاور نہ کریں اور ملک میں پابندی کے بعد شراب نہ ملتی ہو تو وہ معاشرہ مہذب بھی ہوتا ہے اور تعلیم یافتہ بھی اور اس معاشرے میں قانون کا احترام اور ریاست کی رٹ بھی ہوتی ہے اور جس معاشرے میں ریاست کی رٹ اور قانون کا احترام سلامت ہو وہ معاشرہ ترقی بھی کرتا ہے اور اس میں امن بھی ہوتا ہے جب کہ اس کے برعکس اگر معاشرے میں لوگ شراب پی کر گاڑی چلاتے ہوں۔
شرابی گلیوں اور محلوں میں سرِعام غل غپاڑہ کرتے ہوں اور پولیس رات کو ناکے لگا کر لوگوں کے منہ سونگھتی ہو تو آپ جان لیجیے اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہے اور نہ ہی ریاست کی رٹ اور جس ملک میں یہ دونوں چیزیں نہ ہوں وہ ملک غیر ترقی یافتہ بھی ہوتا ہے‘ پسماندہ بھی‘ جاہل بھی‘ بیمار بھی اور شدت پسند بھی اور معاشرے کا تیسرا ٹیسٹ خواتین ہیں‘ اگر کسی معاشرے میں خواتین بلا خوف و خطر گھر سے باہر نکلتی ہوں‘ یہ اسکول‘ کالج اور یونیورسٹی جاتی ہوں‘ یہ دفتروں میں کام کرتی ہوں‘ اکیلی بسوں‘ وینوں اور ٹرینوں میں سفر کرتی ہوں‘ بازاروں میں خریداری کرتی ہوں۔
بچوں کو ساتھ لے کر پارک جاتی ہوں اور رات کے بارہ ایک بجے بھی اگر کوئی جوان لڑکی سڑک یا گلی میں اکیلی جا رہی ہو اورکسی کو اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ ہو تو آپ جان لیں وہ معاشرہ محفوظ ہے‘ اس میں قانون اور ریاست دونوں جاگ رہی ہیں لیکن اس کے برعکس اگر خواتین گھر سے نکلتے ہوئے ڈرتی ہوں‘ انھیں اسکول‘ کالج اور یونیورسٹی جانے کے لیے کسی مردانہ سپورٹ کی ضرورت ہو‘ یہ خوف کی وجہ سے جاب نہ کر سکیں اور یہ بھائی‘ والد‘ بیٹے اور خاوند کے بغیر خریداری نہ کر سکیںاور والدین بچیوں کے جوان ہونے کے ساتھ گھروں تک محدود ہو جاتے ہوں تو آپ سمجھ لیں وہ معاشرہ‘ معاشرہ نہیں جنگل ہے جس میں مرد درندے اور خواتین مظلوم ہرن ہیں اور قانون اور ریاست مظلوم ہرنوں کو درندوں سے بچانے میں ناکام ہو چکی ہے۔
اور آپ کو بدقسمتی سے یہ تینوں خرابیاں اس ملک میں نظر آئیں گی‘ ہمارے ملک میں سڑکیں موت کا کنواں ہیں‘ پولیس موٹروے پر بھی ’’ اووراسپیڈنگ‘‘ پر صرف جرمانہ کرتی ہے‘ یہ گاڑی بند کر سکتی ہے اور نہ ہی کسی کا لائسنس ضبط کر سکتی ہے اور اگر لائسنس ضبط ہو بھی جائے تو بھی ہم اس شخص کو گاڑی چلانے سے نہیں روک سکتے‘ ملک میں شراب پر پابندی ہے لیکن ہماری سڑکیں رات کے وقت شرابیوں کی سرکس بن جاتی ہیں ‘ ملک کے تمام بڑے شہروں میں غل غپاڑہ بھی ہوتا ہے‘ شرابی شرابیوں کے سر بھی پھاڑتے ہیں۔
شراب پی کر طوائفوں پر نوٹ بھی برسائے جاتے ہیں اور بعض اوقات غریب شرابی کو گرفتار کرنے والا پولیس اہلکار بھی نشے میں دھت ہوتا ہے‘ اس کا معائنہ کرنے والا ڈاکٹر بھی‘ اس کے خلاف کارروائی کی اجازت دینے والا مجسٹریٹ بھی اور اسے سزا سنانے والا جج بھی اور پیچھے رہ گئیں خواتین تو یہ معاشرہ خواتین کے معاملے میں بارہویں صدی سے آگے نہیں بڑھ سکا‘ ہماری خواتین امام مسجد ‘ پولیس کانسٹیبل ‘ مجسٹریٹ ‘ جج حتیٰ کہ قانون سازوں تک سے محفوظ نہیں ہیں اور یہ وہ سچ ہے ہم جب تک جس کا سامنا نہیں کریں گے یہ معاشرہ اس وقت تک ملالہ یوسف زئی جیسی بچیوں کے لیے محفوظ نہیں بنے گا۔
ملالہ یوسف زئی پاکستانی معاشرے میں زنانہ جرأت‘ بہادری اور حوصلے کی علامت ہے‘ یہ 2009ء میں طالبان کے دور میں گیارہ سال کی بچی تھی‘ طالبان نے لڑکیوں کے اسکول بند کر دیئے تو آٹھویں جماعت کی اس بچی نے علم کے لیے جہادیوں کے خلاف جہاد شروع کر دیا‘ یہ گل مکئی کے نام سے سوات کی ڈائری لکھنے لگی‘ ملالہ کی ڈائری بی بی سی میں شائع ہوئی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے عالمی شخصیت بن گئی‘ ملالہ ملٹری آپریشن کے دوران بھی ڈائری لکھتی رہی‘ یہ آپریشن کے بعد پاکستانی بچیوں کی ہیروئن بن گئی‘ انٹرنیشنل اور نیشنل میڈیا اس کی طرف متوجہ ہوا‘ اس کے انٹرویوز بھی ہوئے اور چینلز نے اس پر پیکیج بھی بنائے۔
یہ ڈائری اور میڈیا کے ذریعے ’’کڈز رائٹس فائونڈیشن‘‘ جیسی بین الاقوامی تنظیم کی نظر میں آئی‘ فائونڈیشن نے 2011ء میں اسے انٹرنیشنل چلڈرن پیس ایوارڈ کے لیے نامزد کر دیا‘ اس ایوارڈ کے لیے 245 ممالک سے صرف پانچ بچیاں چنی گئیں اور ملالہ ان پانچ بچیوں میں شامل تھی‘ ملالہ بدقسمتی سے انٹرنیشنل چلڈرن پیس ایوارڈ حاصل نہ کر سکی تاہم یہ بین الاقوامی شخصیت بن گئی‘ حکومت پاکستان نے 19 دسمبر 2011ء کو اسے پاکستان کا پہلا امن ایوارڈ دیا ‘یہ بچی ملک میں تبدیلی کا نشان تھی لیکن 9 اکتوبر کو طالبان نے اسے اسکول وین میں گولی مار دی‘ اس کی گردن اور سر میں دو گولیاں لگیں‘ پورا ملک اس واقعے پر غمزدہ ہے‘ ملک کے زیادہ تر اسکولوں میں ملالہ کی صحت کے لیے دعائیں ہو رہی ہیں۔
کل پارلیمنٹ میں بھی ملالہ کے لیے قرار داد پاس ہوئی لیکن سوال یہ ہے کیا یہ پاکستان میں اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے‘کیاپاکستان کی ہر گلی میں روزانہ ملالہ جیسی بچیاں بے عزت نہیں ہوتیں‘کیا یہ جنسی درندگی سے لے کر قتل تک کی سزا نہیں بھگتتیں اور ریاست اعداد و شمار تک جمع کرنے کی روادار نہیں ہوتی‘ کیا اس ملک میں غیرت کے نام پر بچیاں قتل نہیں ہو رہیں‘ کیا اس ملک میں چار چار سال کی بچیوں کو ونی نہیں کیا جاتا‘ کیا اس ملک میں آج بھی بچیوں کی تعلیم پر پابندی نہیں‘ کیا اس ملک میں آج بھی عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جاتا‘ کیا اس ملک میں آج بھی عورتوں کے منہ پر تیزاب نہیںپھینکا جاتا اور کیا اس ملک میں عورت آج بھی بنیادی حقوق سے محروم نہیں؟ اگر ان تمام سوالوں کا جواب ہاں ہے تو پھر کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہماری ریاست مفلوج ہو چکی ہے اور ہم ملالہ کا رونا رو کر اپنا ریاستی فالج چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگرریاست اور ریاست کی پارلیمنٹ بلال کھر جیسے سیاستدان کے ہاتھوںفاخرہ یونس کے منہ پر تیزاب پھینکنے کے واقعے پر خاموش رہے گی تو کیا پھر طالبان کو ملالہ یوسف زئی کو گولی مارنے کا حق حاصل نہیں ہوگا؟ کیا ان دونوں واقعات میں صرف کراچی اور سوات اور کلین شیو اور داڑھی کا فرق نہیں؟ ہم اگر کراچی یا مظفر گڑھ کے بلال کھروں کو عورت کی تذلیل اور قتل کی پوری پوری اجازت دے دیتے ہیں یا پھر ہم قبائلی روایات کی آڑ میں وزراء اور سیاستدانوں کو عورتوں پر کتے چھوڑنے اور پانچ پانچ سال کی بچیوں کو ونی کرنے کا موقع دے دیتے ہیں تو پھر ہم طالبان کے ہاتھوں ملالہ کے زخمی ہونے پر کیوں چیخ رہے ہیں۔
اگر ہمیں معصوم بچیاں اتنی ہی عزیز ہیں تو پھر ہماری پارلیمنٹ نے اس شازیہ کے حق میں قرارداد پاس کیوں نہیں کی اور وزیراعظم نے اس کے لیے ہیلی کاپٹر کیوں نہیں بھجوایا‘ ہمارے آرمی چیف اس کی عیادت کے لیے مینگورہ کیوں نہیں گئے اور ہم نے اس کو طبی امداد کیوں نہیں دی جو وین میں ملالہ کے ساتھ بیٹھی تھی اور طالبان نے اسے بھی گولی مار دی ‘ ہم ملالہ کے لیے چیخ رہے ہیں لکنہ ہم نے دوسری بچی کو مرنے کے لیے سیدو شریف کے اسپتال میں چھوڑ دیا‘ کیوں؟ کیونکہ وہ ملالہ کی طرح انٹرنیشنل فگر نہیں ‘ وہ صرف پاکستانی بچی ہے انٹرنیشنل فمی پاکستانی بچی نہیں‘ کیا یہ ہے انصاف؟ کیا یہ ہے خواتین کے بارے میں ہمارا رویہ؟
حقیقت تو یہ ہے اس ملک میں عورت اس وقت تک محفوظ نہیں ہوتی جب تک وہ مختاراں مائی نہ بن جائے یا پھر کوئی یورپی ملک اس کی سپورٹ میں آگے نہ آجائے اورجب تک ہمارا یہ رویہ قائم رہے گا ملک میں اس وقت تک مختاراں مائی محفوظ رہے گی اور نہ ہی ملالہ یوسف زئی اورہم نے اگر اپنا رویہ نہ بدلا تو ہمیں کفر کے اس دور میں واپس جاتے دیر نہیں لگے گی جس میں ہر شخص کے کندھے پر کسی معصوم بچی کی نعش تھی اور زندہ درگور ہونے والی ان بچیوں کی داستانیں سن کر نبی رحمتؐ اپنی سسکیاں نہیں روک پاتے تھے۔

ٹیم‘ ٹیم اور ٹیم
جاوید چوہدری جمعرات 11 اکتوبر 2012
آپ رونلڈ ریگن کی مثال لیجیے‘ ریگن جوتوں کے سیلزمین کا بیٹا تھا‘ ریڈیو پر اسپورٹس انائونسر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔
وارنر برادرز کے اسٹوڈیو میں دو سو ڈالر تنخواہ پر ملازم ہوا‘ اسٹوڈیو میں کام کرتے کرتے اداکار بن گیا‘ پچاس سے زائد فلموں میں کام کیا‘ ہیرو بھی رہا لیکن صف اول کا اداکار نہ بن سکا‘ دوسری جنگ عظیم میں ائیر فورس میں چلا گیا وہاں بھی کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہ دے سکا‘ جنگ ختم ہوئی تو ہالی ووڈ میں واپس آ گیا‘ مزید 54 فلموں میں کام کیا مگر عالمی شہرت نہ ملی‘ مایوس ہو گیا تو سیاست کے کنوئیں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی‘ ڈیموکریٹک پارٹی سے ہوتا ہوا ری پبلکن پارٹی میں آ گیا ‘ دو بار کیلیفورنیا کا گورنر منتخب ہوا لیکن یہاں بھی کوئی کمال نہ کر سکا‘ 1980ء میں جب اس کی عمر 70 سال تھی تو اچانک صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا‘ جمی کارٹر جیسے شخص کے ساتھ مقابلہ ہوا اور وہ الیکشن جیت گیا‘ ریگن امریکا کا 40 واں صدر بن گیا۔
ریگن 20 جنوری 1981ء کوجب وائٹ ہائوس میں داخل ہوا تو یہ بوڑھا بھی تھا‘ کمزور بھی اور عمر بھر کا مایوس بھی‘ یہ دنیا میں سفارتی تبدیلیوں کا دور تھا‘ ایران میں انقلاب آ چکا تھا اور انقلابیوں نے تہران میں امریکی سفارتکار کو یرغمال بنا رکھا تھا‘ سوویت یونین افغانستان تک پہنچ چکا تھا اور یہ اب پاکستان اور بحیرہ عرب کی طرف بڑھ رہا تھا‘ دنیا کی معیشت زوال پذیر تھی ‘ امریکا کی کارپوریشنز معاشی بدحالی کے عفریت کے بالکل سامنے پڑی تھیں اور چین بڑی تیزی سے معاشی دیو بن رہا تھا اور یہ تمام مسائل ایک ایسے شخص نے حل کرنا تھے جس نے ستر سال میں سے ساٹھ برس شوبز میں خرچ کر دیے تھے۔
جس نے عمر بھر سفارت‘ معیشت اور سیاست کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی اور جسے یہ تک معلوم نہیں تھا افغانستان‘ ایران اور پاکستان عالمی نقشے پر کس جگہ واقع ہیں اور جس کا ذاتی اکائونٹ بھی اس کے دوست اور بیگم ہینڈل کرتی تھی اور جس کے جسم میں الزائمر جیسی ناقابل علاج بیماری کے ابتدائی آثار پائے جاتے تھے اور جو بعض اوقات اپنا لنچ تک بھول جاتا تھا‘ ریگن کی خامیاں صرف یہاں تک محدود نہیں تھیں بلکہ وہ سست الوجود اور ’’ ایزی لائف‘‘ کا دلدادہ بھی تھا‘ وہ جب تک اپنی بطخوں کے ساتھ دو گھنٹے نہیں گزار لیتا تھا اس وقت تک اس کی صبح نہیں ہوتی تھی۔
وہ اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ قہقہے لگانے اور جنسی لطائف شیئر کرنے کی علت میں بھی مبتلا تھا چنانچہ دنیا کا خیال تھا غیر سنجیدہ رونلڈ ریگن دنیا کے سنجیدہ ترین مسائل حل نہیں کر سکے گا اور یوں امریکا تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہو جائے گا لیکن ریگن نے چند ماہ میں پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ اس نے نہ صرف ایران میں محصور امریکی یرغمالی چھڑا لیے بلکہ اس نے پاکستان جیسے ممولے کو افغانستان میں سوویت یونین جیسے عقاب سے بھی لڑا دیا‘ اس نے ’’ ریگ نامکس‘‘ کے نام سے ایک نئی معیشت کی بنیاد رکھ دی اور یہ عام امریکی شہری کی زندگی میں بھی خوشحالی اور اطمینان لے آیا اور اس نے یہ تمام کارنامے اس وقت سر انجام دیے جب یہ قاتلانہ حملے کی وجہ سے شدید زخمی بھی تھا اور یہ بے شمار داخلی اور خارجی مسائل کا بھی شکار تھا۔
وہ ریگن جس کے بارے میں دنیا کا خیال تھا یہ صدارتی کرسی پر بیٹھتے ہی ٹینشن کی وجہ سے فوت ہو جائے گا‘ امریکی عوام نے اسے 1984ء میں دوسری بار صدر منتخب کر لیا اور تاریخ نے کامیابی کے لاتعداد ہار اس کے گلے میں ڈال دیے‘ وہ بیسویں صدی کا آخری معیشت دان بھی کہلایا‘ اس نے روس کو افغانستان جیسے پرائے میدان جنگ میں پرانے فوجیوں کے ذریعے شکست بھی دی اور اس نے سوویت یونین کو بھی توڑدیا اور اس نے روس کو جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے معاہدے پر بھی رضا مند کر لیا‘ ریگن اپنی تمام نالائقی اور ناتجربہ کاری کے باوجود کینیڈی کے بعد امریکا کا مضبوط ترین صدر کہلایا اور امریکا کی تاریخ کا کوئی صدر اس کی مقبولیت کے دامن تک نہ پہنچ سکا۔
ہمارے ذہن میں اب سوال پیدا ہوتا ہے ریگن نے یہ تمام کامیابیاں حاصل کیسے کیں؟ اس کی صرف ایک وجہ تھی‘ ریگن نے صدارتی عہدہ سنبھالتے ہی تسلیم کر لیا وہ ایک نالائق اور ناتجربے کار شخص ہے چنانچہ اس نے چن چن کر امریکا کے شانداردماغ اپنے اردگرد جمع کر لیے‘ اس کے ساتھیوں میں نکولس ایف بریڈی جیسا بینکر‘ ایلن گرین پین جیسا معاشی ماہر‘ بیرل سپرنکل جیسا اکانومسٹ‘ ڈین کرپن جیسا بجٹ ایکسپرٹ‘ کولن پاول جیسا دفاعی ماہر‘ کیسپر ولارڈ جیسا وزیردفاع اور جارج پی شلٹز جیسا وزیر خارجہ شامل تھے اور یہ وہ لوگ تھے جو نہ صرف امریکا میں مشہور تھے۔
بلکہ ان کی ذہانت کا سکہ پوری دنیا پر چلتا تھا اور ریگن نے ان لوگوں کی مدد سے اپنی نالائقی اور ناتجربہ کاری کو کامیابی میں تبدیل کر لیا اور اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ میں رقم کر لیا۔ ریگن ایکٹر تھا وہ جانتا تھا فلم کی کامیابی کے لیے صرف ایکٹر کافی نہیں ہوتے اس کے لیے رائٹر‘ ڈائریکٹر‘ موسیقار‘ صدا کار‘ سیٹ ڈیزائینر‘کیمرہ مین‘ لائیٹ مین اور اسٹوڈیو بھی اہم ہوتے ہیں چنانچہ اس نے وائیٹ ہائوس کو ٹیلنٹ کا اسٹوڈیو بنا لیا‘ اس نے کامیابی کے تمام عناصر اپنے گرد جمع کر لیے اور ان لوگوں نے آگے جا کر ریگن کو ریگن بنا دیا۔
ہمارا ملک بھی 1980ء کے امریکا سے ملتا جلتا ہے‘ ہمارے مسائل بھی گمبھیر ہیں اور ہمارے سیاستدان بھی ریگن کی طرح ناتجربہ کار‘ نالائق اور وژن سے عاری ہیں لیکن یہ لوگ بدقسمتی سے اپنی غلطی‘ اپنی خامی تسلیم نہیں کررہے‘ یہ اپنے آپ کو ریگن ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں لہٰذا ملک برباد ہو رہا ہے‘ ہمارے لیڈر 2012ء میں بھی حلقے کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں‘ یہ آج بھی ان لوگوں کو ٹکٹ دینے‘ اسمبلیوں میں لانے اور وزارتیں دینے پر مجبور ہیں جو برادری‘ مافای یا بدمعاشی کی وجہ سے الیکشن جیت سکتے ہیں‘ ہماری پارٹیاں ان لوگوں کو ٹکٹ دیتے ہوئے ان کی کوالی فکیشن‘ ان کی اخلاقی اقدار اور ان کی دہری شہریت تک چیک نہیں کرتیں۔
آپ دیکھ لیجیے 2008ء کے الیکشن کے بعد کتنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی ڈگریاں جعلی نکلیں‘ کتنے پارلیمنٹیرینز دوہری شہریت کے مالک نکلے اور کتنے پارلیمنٹیرینز پر کرپشن اور اخلاقی جرائم میں پرچے درج ہوئے؟‘ ہم اگر ان لوگوں کا معیار دیکھیں تو یہ لوگ پارلیمنٹ تو دور کسی معمولی سرکاری ملازمت تک کے حق دار نہیں ہیں لیکن ہم لوگ مسائل کا شکار پورا ملک ان کے سر پر لاد دیتے ہیں لہٰذا یہ لوگ اس کا وہ حشر کر رہے ہیں جو ایک نالائق‘ ناتجربہ کار اور بے ایمان شخص کر سکتا ہے‘ ہم لوگ اور ہمارے لیڈر اپنی فیکٹری کا چوکیدار تک مررٹ پر رکھتے ہیں۔
یہ منیجر بھی فارن کوالی فائیڈ رکھیں گے لیکن جب ملک کی باری آتی ہے یا قانون سازی کے ایوان کا معاملہ آتا ہے تو ہم لوگ معاشرے کے بدترین شخص کا انتخاب کرتے ہیں اور یہ شخص بھی انتخاب کے بعد ہمیں ’’ مایوس‘‘ نہیں کرتا‘ یہ کرپشن اور تباہی کے دریا بہا دیتا ہے جب کہ آپ اس کے مقابلے میں پاکستان کے تینوں آمرانہ ادوار کا مطالعہ کیجیے‘ آپ کو جنرل ایوب خان ‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار بدقسمتی سے جمہوری ادوار کے مقابلے میں معاشی‘ سفارتی اور انتظامی لحاظ سے بہتر نظر آئیں گے‘ آپ اگر صرف جرنیلوں کے ادوار کی معیشت اور جمہوری حکومتوں کی اکانومی کا جائزہ لے لیں تو آپ کو بہت فرق دکھائی دے گا‘ یہ فرق کیوں ہے؟ اس کی واحد وجہ ٹیم ہے۔
جرنیلوں کی ٹیمیں اچھی تھیں‘ یہ لوگ اعلیٰ عہدوں پر ماہر‘ قابل اور ایماندار لوگوں کو لگاتے رہے ہیں‘ ان کے پاس ڈاکٹر عبدالقدیر‘ ڈاکٹر عطاء الرحمن اور عبداللہ یوسف جیسے لوگ تھے چنانچہ ان کے ادوار میں ملک ترقی کرتا دکھائی دیتا ہے مگر ملک میں جب جمہوریت آتی ہے تو طاقت کے سرچشمے نااہل‘ کرپٹ اور وژن لیس لوگوں کے قبضے میں چلے جاتے ہیں اور یہ لوگ ملک کو بھی دیوالیہ تک لے جاتے ہیں اور جمہوریت کو بھی آمریت کی کھائی میں دھکیل دیتے ہیں اور یہ اس ملک میں پچھلے 60 برس سے ہو رہا ہے۔
آپ سوئس حکام کے نام خط کے ایشو کو ہی لے لیجیے‘ یہ کتنا چھوٹا سا مسئلہ تھا‘ کل وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے خط کا ڈرافٹ سپریم کورٹ میں پیش کیا اور سپریم کورٹ اور حکومت کی چار سال پرانی جنگ ختم ہو گئی‘ یہ کام اگر یوسف رضا گیلانی کر دیتے تو کیا جاتا تھا‘ یہ آج وزیراعظم بھی ہوتے اور ملک بھی نقصان سے بچ جاتا لیکن ہم نے کیونکہ نالائقی اور ضد کوجمہوریت سمجھ لیا ہے چنانچہ ہم خطوں جیسے ایشوزکو بھی جوہری جنگ میں بدل دیتے ہیں اور یوں ملک بھی بدنام ہو جاتا ہے اور ہمارے سر بھی خاک زدہ ہو جاتے ہیں‘ ہمارے حکمران آج بھی ریگن جیسے حکمرانوں سے سیکھ سکتے ہیں۔
یہ اقتدار خواہ جیسے چاہیں حاصل کرلیں لیکن یہ جب حکومت بنائیں تو یہ ریگن کی طرح اہل ترین لوگوں کو عہدے دیں اور یہ اہل ترین لوگ اہل ترین لوگوں کو محکموں اور کارپوریشنوں کی سربراہی سونپیں‘ یقین کیجیے ہماری ریلوے‘ پی آئی اے‘ اسٹیل مل‘ او جی ڈی سی اور واپڈا چند دنوں میں زندہ ہو جائے گی ورنہ دوسری صورت میں ہمارا ہر وزیراعظم فارغ ہونے کے بعد گیلانی ہو جائے گا اور یہ ہر شام اپنے خانساموں‘ چوکیداروں اور ڈرائیوروں کو جمع کر کے اپنے کارنامے سنائے گا اور یہ منہ پیچھے کر کے ہنسیں گے کیونکہ حکمرانوں کو حکومت حکمران نہیں بناتی انھیں ان کی ٹیم حکمران کے درجے تک پہنچاتی ہے چنانچہ راجہ پرویز اشرف ہو یا کوئی اقتدار علی خان اسے ٹیم چاہیے‘ صرف ٹیم‘ ٹیم اور ٹیم۔