ترقی کا سفر، مگر کیسے؟
تحریر یاسر محمد خان
’’ابراہم لنکن‘‘ کی زندگی اور کارناموں پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ سب سے زیادہ پراَثر کتاب ’’A Lincoln Reader‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اسے ’’پال ایم اینجل‘‘ نے تصنیف کیا۔ یہ کتاب لنکن کی پیدائش سے لے کر اُس کی آخری سانسوں تک کی جامع رُوداد ہے۔ سوا 6 سو صفحات کی ضخامت کے باوجود اس کا ورق ورق انتہائی دلچسپ معلومات سے بھرا ہوا ہے۔ موت سے چند روز قبل اُس نے خواب دیکھا: ’’اُس پر گولی چلائی گئی۔ اُس کی نعش ایک تابوت میں رکھ دی گئی اور لوگ بین کررہے ہیں۔‘‘ پال اینجل کے مطابق اُس نے نیند سے بیدار ہوکر اپنے سارے بڑے عہدیداروں کا اجلاس بلایا۔ دن رات ایک کرکے آنے والی نسلوں کی پالیسیاں بنائیں۔ اُنہیں سینٹ اور کانگریس سے پاس کروایا اور موت آنے پر خاموشی سے دنیا سے کوچ کرگیا۔ یوں وہ امریکی ہی نہیں دنیا بھر کی تاریخ میں امر ہوگیا۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں نائن الیون ہوا۔ امریکیوں نے اس بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان سے نپٹنے کے لیے پالیسیاں بنائیں اور دنوں میں اُن پر کام شروع ہوگیا۔
سب سے پہلے 5 بڑی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں وسیع اُکھاڑ پچھاڑ کی گئی۔ عہدیدار یکسر تبدیل کردیے گئے۔ اعلیٰ ترین صلاحیتوں والے افراد کو ذمہ داریاں دی گئیں۔ ایرپورٹوں، بندرگاہوں، بسوں کے اڈّوں پر اُترنے والے ہر مسافر کا پورا بائیوڈیٹا اسکین ہونے لگا۔ ملک بھر میں ہر مشتبہ شخص کی پوری جانچ پڑتال کی گئی۔ ٹیلی فون ٹیپ ہونے لگے۔ ہوٹلوں اور اقامت گاہوں پر مسلسل نظر رکھی جانے لگی۔ عوامی شعور اُبھارنے کے لیے اسپیشل کلاسز منعقد ہوئیں۔ ہر لوکلیٹی کے لوگوں کو قومی دفاع کے لیے تیار کیا جانے لگا۔ بیرون ملک امریکا نے بڑے ظلم ڈھائے۔ پر اندرونِ ملک اُس نے خود کو ہر قسم کے حملوں اور تباہ کاریوں سے بچالیا۔
(1) فوجی افسران کی سربراہی میں اسپیشل کورٹس بنائی جارہی ہیں۔ (2) ان خصوصی عدالتوں کی میعاد دو سال ہوگی۔ (3) ملک میں کسی بھی مسلح دہشت گرد تنظیم کو کام کرنے کی اجازت ہر گز نہ ہوگی۔ (4) دہشت گردی کی روک تھام کے ادارے سے نیکٹا کو مؤثر اور مضبوط بنایا جارہا ہے۔ (5) نفرت انگیز تقریروں، انتہا پسندی اور عدم برداشت کو فروغ دینے والے مواد کے خلاف بھرپور کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ (6) دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کی مالی سپلائی لائن ختم کی جائے گی۔ (7) کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں سے بھی کام کرنے سے بزور روکا جائے گا۔ (8) خصوصی انسداد دہشت گردی فورس کا قیام اور تعیناتی عمل میں لائی جائے گی۔ (9) مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت اقدامات اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ (10) دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطہ بندی کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ (11) پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دہشت گرد تنظیموں اور ان کے نظریات کی تشہیر نہیں ہونے دی جائے گی۔ (12) فاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کی جائیں گی۔ آئی ڈی پیز کی واپسی پر توجہ دی جائے گی۔ (13) دہشت گردوں کا مواصلاتی نظام ختم کیا جائے گا۔ (14) انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دہشت گردوں کے لیے استعمال روکا جائے گا۔ (15) پنجاب کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی ناقابل برداشت ہوگی۔ (16) کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ (17) بلوچستان حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز سے مفاہمت کا اختیار دیا جائے گا۔ (16) فرقہ وارانہ دہشت گردی کرنے والوں کے ساتھ نہایت سختی سے نپٹا جائے گا۔ (19) افغان پناہ گزینوں کے معاملے کے لیے جامع پالیسی مرتب کی جائے گی۔ (20) صوبائی انٹیلی جنس اداروں کو دہشت گردوں کے مواصلاتی رابطوں تک رسائی دینے اور انسداد دہشت گردی کے اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے فوجداری عدالتوں میں اصلاحات کے عمل کو تیز تر کیا جارہا ہے۔
آپ برطانیہ کی مثال لیں۔ یہاں سیون سیون برپا ہوا۔ اس کے فوراً بعد برطانوی حکومت نے اپنی پالیسیاں اس طرح مربوط کیں کہ مزید حملوں کا اندیشہ ختم ہوکر رہ گیا۔ امیگریشن کے قانون میں ترامیم ہوئیں۔ مشکوک سرگرمیاں کرنے والے پکڑے گئے اوربرطانیہ نے دہشت گردی کے محرکات کو اپنے مکمل کنٹرول میں لے لیا۔ اسپین میں دہشت گردی کے بعد ملک کی ایجنسیاں فعال کی گئیں اور اسپین میں پھر کبھی ایسا واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ سعودی عرب کی مثال دیکھیں۔ کئی مطلوب دہشت گردوں کے اس ملک سے تعلق کے باوجود سعودی عرب ہر طرح کی بدامنی سے محفوظ رہا ہے اور ہمیں یہاں امن و امان کا کوئی بگاڑ دکھائی نہیں دیتا۔
پاکستان کرئہ ارض کے اُن ملکوں میں سے ہے جہاں پالیسیوں کی کوئی سمت متعین نہیں ہے۔ ہم پر تیزرو کے ساتھ دوڑتے ہیں۔ کچھ دور تک چل کر مخالف سمت میں دوڑنا شڑوع کردیتے ہیں۔ کوئی واقعہ ہمیں جھنجھوڑتا ہے۔ ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہوتے ہیں، خوب ہاتھ پائوں مارتے ہیں اور پھر واپس بے بسی اور لاچارگی کے سمندر میں غوطے کھانا شروع کردیتے ہیں۔ ہم اکتوبر 2001ء کے بعد سے دہشت گردی کے شکار ملکوں میں عرصہ تک پہلے نمبر پر رہے ہیں۔ 50 ہزار افراد ان شعلوں میں راکھ ہوئے۔ ایک کھرب ڈالرز ہماری معیشت کو نقصان ہوا۔ لاکھوں لوگ اپاہجوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے اسکول، مدرسے، دفاتر، شاپنگ پلازے اس آگ میں جل گئے۔ ہم نے متعدد بار سوئے ہوئے ایوانوں میں تقریریں کیں۔ کمیٹیاں بنائیں او رپھر اُنہیں داخل دفتر کردیا۔ مدتوں تک ہم کسی دُشمن کا تعین نہ کرسکے۔ کبھی ہم را، سی آئی اے اور موساد کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے۔ کبھی ہم طالبان کے مختلف گروہوں سے اس کے ڈانڈے ملاتے۔ عملی میدان میں ہماری ایجنسیاں صرف اطلاع رساں اداروں کا کام کرتیں کہ جلد دہشت گردی کی کوئی بڑی واردات ہونے جارہی ہے۔ 16 دسمبر کا خونیں دن طلوع ہوا تو ہم نے 145 بچوں کے خون سے اسے غسل کرتے ہوئے دیکھا۔ ملک بھر میں ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ فوراً پھانسی گھاٹوں پر سرگرمیاں دیکھنے میں آنے لگیں۔ دھڑا دھڑ پھانسیاں شروع ہوگئیں۔ 24 دسمبر کو وزیراعظم کی سربراہی میں 11 گھنٹے کا ایک اجلاس ہوا۔
اُس میں 20 سفارشات کو منظور کرلیا گیا۔ اُسی رات وزیراعظم ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوئے اور قوم کے سامنے یہ ساری طے شدہ سفارشات رکھ دیں۔
ہر شے کی الٹ پلٹ کرتے وقت ہمیں خیال رکھنا ہوگا کہ وہ دینی لوگ جو بے موت ہوکر وطن کی خدمت کررہے ہیں، کہیں اُنہیں ہی شکنجے میں نہ کس لیا جائے۔ اونٹ کا تعاقب کرنے والے صرف اُسی کے پیچھے جائیں۔ ہم کہیں انقلاب برپا کرتے ہوئے اپنا دینی محور نہ چھوڑ دیں۔ کہیں ہم معاشرے کو سدھارتے ہوئے لبرل اور سیکولر نظریہ حیات کو اپنا منشور نہ بنالیں۔ حکومت بڑے شوق سے آپریشن کرے، مگر پہلے کارگر پالیسیاں بنائی جائیں۔ معاشرے کو تنگ نظری اور تنگ دستی سے پاک کیا جائے۔ افغانستان کے بارڈر پر امن قائم کیا جائے۔ ہر مسلح گروہ کو حکومتی رٹ کے نیچے لایا جائے۔ افغان مہاجرین کو اُن کے وطن واپس بھیجنے کے لیے حکمت عملی بنائی جائے۔ جو مدارس میانہ روی کو شعار بناکر بچوں کو دین و دنیا کی تعلیم دے رہے ہیں، اُن پر شب خون نہ مارا جائے۔ این جی اوز کو خوش کرنے کے لیے دین کی بیخ کنی نہ کی جائے۔ سزائے موت کو امریکا اور یورپ کی خوشنودی کے ساتھ منسلک نہ کیا جائے۔ دیکھا جائے کہ موت کی سزا پانے والے کو قانون کے سارے مرحلوں سے گزارکر موت کی سرحد تک لے کر جایا گیا ہے۔ (باقی صفحہ5پر) فوجی عدالتوں کا نظام کار کیا ہوگا؟ وہاں منصف کن بنیادوں پر سزائیں دیں گے؟ اس سارے نظام پر ٹھنڈے دل سے غور و غوض ضروری ہے۔ تند و تیز ہوائوں میں اُڑتے پتوں کی طرح ہم اپنی منزل گم نہ کر بیٹھیں۔ معاشرتی بگاڑ کی جڑیں دریافت کیے بغیر ہم کسی بھی محاذ پر کامیاب نہ ہوپائیں گے۔ عقل و فہم کو تج کر ہم کسی بھی بڑی کامیابی سے میلوں دور چلے جائیں گے۔ امریکا اور یورپ کی اندھی تقلید اور ہمارے معاشرتی ڈھانچے سے ناآشنائی مسائل کو اور گھمبیر کردے گی۔ سمجھ بوجھ عقل دانائی کو ایسے ہر عمل کا پشتیبان ہونا ہوگا جسے ہم اختیار کرنے جارہے ہیں۔
ہمیں شمالی وزیرستان آپریشن کو جلد پایۂ تکمیل تک پہنچاکر مہاجرین کو اُن کی بستیوں میں منتقل کرنا ہوگا۔ فاٹا میں امن و امان کے لیے ایک ایسا ریاستی ڈھانچہ بنایا جائے جو وہاں کے تمام مسائل حل کرے اور لوگوں کو امن و امان کے دُشمن عناصر کے ہاتھوں یرغمال بننے سے روکے۔ ہمارے پانچوں صوبوں کو ایسی تعلیم پروان چڑھانی چاہیے جو دین کی روح کے ساتھ بچوں کو فنی تعلیم دے۔ بچوں کو کتابیں اَٹانے کی بجائے ایسے ہنر سکھائے جائیں جو اُن کو رزق کے حصول کے لیے دست نگر نہ بنائیں۔ ہماری تعلیم ڈگریو ںکے حصول کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یوں ہم بے روزگاری کی طغیانیوں کی زد میں ہیں۔ ہر برس بے روزگاروں کی تعداد بڑھنے سے معاشرے میں خلفشار اور بدامنی بڑھ رہی ہے۔ جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ بچے نت نئے نشوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ سماج دُشمن عناصر نے بے شمار نوجوانوں کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ ہمارے 3 کروڑ بچے مدرسوں اور اسکولوں سے یکسر دور ہیں۔ اُن کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ آنے والے برسوں میں اُن کی تعداد بڑھنے سے معاشرہ مزید ابتری کا شکار ہوجائے گا۔ غربت کو سب بیماریوں کی جڑ کہا جاتا ہے۔ ہمارے 12 کروڑ 70 لاکھ نفوس خط غربت سے نیچے ہیں۔ اُن کی تعداد بے رحم حکومتی پالیسیوں سے مزید بڑھتی جارہی ہے۔ ہمارے ہسپتال مذبح خانے بن چکے ہیں۔ دوائیاں ناپید ہیں، ڈاکٹر، نرسیں فراہم نہیں ہیں۔ علاج معالجے کا سارا نظام مریضوں کی کھال اُتارلینے پر موقوف ہوجاتا ہے۔ ہمیں ہر مریض کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرنے کی پالیسی بنانا ہوگی۔ شہروں میں صاف پانی کی عدم دستیابی نے بیماریوں میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔
ملک کے اکثر حصوں میں تھر جیسی قحط سالی نے بچوں، بڑوں اور بوڑھوں کو زندہ لاشیں بنادیا ہے، حکومتیں بیانات بازی کی گرد میں حقیقتوں کو چھپائے جارہی ہیں۔ ہمیں ملکی دفاع کے علاوہ عوام کے دفاع کی بھی پالیسیاں بنانی چاہییں۔ ملک صرف سرحدیں نہیں ہوتے، اگر عام عوام کے دل زندگی کی حرارت سے خالی ہوجائیں تو ایسے ملکوں کی حفاظت ایک بے معنی فعل بن کر رہ جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ملک رئوسا، جاگیرداروں، سرمایہ کاروں کے لیے جنت بنا ہوا ہے۔ ہماری اسمبلیوں کو ٹیکس نادہندگان نے لبالب بھر رکھا ہے۔ بیرونی قرضوں کے انباروں میں اضافہ کرکرکے وزیر، سفیر اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ملکی دولت کو لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے اردگرد کھربوں روپوں کی سڑکیں اور جنگل بیس بنے جارہی ہیں۔
اس ساری ترقی کے پڑوس میں زندگی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث سسک سسک کر بسر ہورہی ہے۔ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ے باج گزار بن کر رہ گئے ہیں۔ آنے والی نسلوں پر قرضوں کا فی کس بوجھ آئے روز بڑھے جارہا ہے۔ ملک کے خوشحال طبقوں نے انکم ٹیکس کے نظام میں ایسی نقب لگا رکھی ہے کہ حکومتی خزانہ خالی ہی رہتا ہے۔ سیلز ٹیکس کے نام پر حکومت غریبوں کی روٹی کا تین چوتھائی ہتھیالینے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ اکیسویں صدی میں ہمارے شہر بجلی گیس کی سہولت سے محروم ہیں۔ بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ نے معاشرتی ترقی پر سخت کاری وار کر رکھا ہے۔ انڈسٹری بند ہوکر رہ گئی ہے۔ گیس کی بندش نے زندگی کو ایک عذاب بنا رکھا ہے۔ ہمارے حکمران سچی انسانی ہمدردی سے یکسر محروم ہیں۔ اُن کا طرز رہائش بارشاہانہ ہے۔ ہمارے حکومتی وسائل اُن کی جنبش ابرو پر حرکت میں آجاتے ہیں۔ ملک ہر سال لاکھوں سیلاب متاثرین کو بھگتتا ہے۔ ہم نے ڈیموں، بندوں اور بیراجوں کی تعمیر روک رکھی ہے۔ بزنس مینوں کے مکمل کنٹرول کی وجہ سے ہر تعمیری منصوبے میں اُن کے پنجے گھسے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری اپوزیشن حرص اقتدار میں بالکل اندھی ہوکر ملک کو کھربوں ڈالرز کا نقصان پہنچادیتی ہے۔ ہمارے لیڈروں کی کورچشم جدید تاریخ میں کہیں بھی مثال سے لگا نہیں کھائی۔ جرائم کی افراط اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کج فہمی نے معاشرے کو خوف و ہراس کی جاگیر بنادیا ہے۔ ہمارا عدالتی نظام میں ایسے ایسے رخنے ہیں کہ طاقتور مجرم بآسانی اُن سے نکل جاتا ہے۔ بے بسوں اور کمزوروں کو پیس کر یہ نظام نرملہ بنادیتا ہے۔ جیلوں کی فضا ایسی ہولناک ہے کہ معمولی جرم میں سزا یافتہ بھی یہاں سے اعلیٰ ڈگری کے ساتھ فارغ تحصیل ہوتا ہے۔ غیرملکی ایجنسیوں کے لیے پاکستان چرنے کا ایک اعلیٰ کھیت بن چکا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 50 سے زائد یہ ایجنسیاں ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کررہی ہیں۔ ہماری سرحدیں ہر ناپسندیدہ عنصر سے فی الفور خالی کروائی جائیں۔ ڈرون حملوں کی صورت بے گناہوں کا خون کرنے کے عمل کو بھی روکنا ہوگا۔ ہم کبھی نہیں جان پاتے کہ مرنے والوں میں خطاکار کتنے تھے؟ اور معصوم کتنے؟ ملک میں ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کو ختم کرنے کے لیے بھی عمل کی فوری ضرورت ہے۔ لسانی قبائلی بنیادوں پر تقسیم کو روکنا ہوگا۔ ملکی بیورو کریسی نے رشوت اور کرپشن کو صنعت کا درجہ دے رکھا ہے۔ ہمارا سارے کا سارا نظام ایک آدھ کا ایک فراڈ پر مبنی ہے۔ اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو ان ساری کی ساری بُرائیوں کی جڑ ایک ہے۔ اگر ہم سب پاکستانی دین کے صرف ایک کلیے کو اپنالیں تو ملک بھر سے یہ ساری بُرائیاں ختم ہونا شروع ہوجائیں گی۔
وہ کلیہ یہ ہے کہ ہم ہر قسم کی صورت حال میں سچ بولیں۔ ہمارے لیڈر، ہمارے فوجی حکام، ہمارے اپوزیشن لیڈر، ہماری سارے کی ساری اشرافیہ، ہمارے بیورو کریٹ، ہمارے سیاست دان اگر آج سے سچ اور صرف سچ بولنا شروع کردیں تو یہ دُھند چھٹنا شروع ہوجائے گی۔ راستے سامنے دکھائی دینا شروع ہوجائیں گے۔ ہم پھر کبھی کھائیوں میں نہیں گریں گے۔ آج کی ساری بربادی صرف اس وجہ سے آئی کہ ہم نے جھوٹ کاشت کیا۔ جھوٹ کی آبیاری کی یوں جھوٹ کا یہ زہریلا پھل آج ہمارے کام و دہن کو اپنی کڑواہٹ سے بھررہا ہے۔ ہرحال میں سچ بولنے کی حدیث نبوی میں ہی ہمیں ان خوفناک معاشرتی عذابوں سے بچاسکتی ہے۔ روح کو مشکبار کردینے والا یہی دین کا عطر ہے۔