مدارس میں تعلیمی سال کے آغاز و اختتام پر اساتذہ کرام جن قیمتی نصیحتوں سے طلبہ کو نوازتے ہیں، ان کا مجموعہ احقر راقم الحروف نے ’’پاجا چراغ زندگی‘‘ کے نام سے جمع کیا تھا۔ اس میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے لے کر برادر مکرم حضرت مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ تک کے بیانات و تحریں جمع کی گئی تھیں۔ ان بیانات اور نصائح کا تعلق تمام طلبہ سے بالعموم اور دورۂ حدیث شریف سے فراغت پانے والے فضلاء سے بالخصوص ہوتا ہے۔ اس کتاب میں برصغیر کے تقریباً ان تمام مشاہیر کی ہدایات ، تجربات، مشوروں اور نصیحتوں کا نچوڑ آ گیا ہے جو علم اور عمل، روحانیت و للہیت کی دنیا کے آفتاب و ماہتاب تھے اور بندہ کی رسائی ان کی تحریر یا بیان تک ہوسکی۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس مجموعے میں مدارس کی سبقی دنیا سے نکل کر اکیسویں صدی کے معرکے میں اترنے والے نو وارد داعیانِ اسلام کے لیے اتنا کچھ ہے کہ انہیں ان شاء اللہ تشنگی کا احساس نہ ہوگا۔ بعض جگہ عصری تعلیم کے حوالے سے بعض حضرات کی آراء میں ختلاف ہے، جیسے بعض حضرات تضاد پر محمول کریں گے، لیکن اس اختلاف میں بھی ان شاء اللہ خیر ہے اور اس خیر کے بطن سے امت کے لیے خیر کثیر کے نئے افق نمودار ہوں گے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ علمائے کرام ہر چیز میں اختلاف کرتے ہیں یا بہت سی چیزوں کی پہلے مخالفت کرتے ہیں اور پھر موافقت، اس حوالے سے لاؤڈ اسپیکر اور الیکٹرونک میڈیا کی مثال برے زور و شور سے دی جاتی ہے۔ لیکن اس کا جواب واضح ہے کہ علماء کے اختلاف سے ہوتا یہ ہے کہ نئی چیزیں بہت چھن کر اور باریک بینی کے ساتھ لیے گئے جائزے سے گزر کر آہستہ آہستہ قبول پاتی ہیں اور کوئی نئی چیز جس میں فتنے یا ضرر کا پہلو غالب ہو، جلدی سے رواج عام حاصل نہیں کر پاتی۔ اس طرح علمائے کرام کا یہ اختلاف امت کے اجتماعی نظریات و عملیات کا محافظ بن جاتا ہے اور اور اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بحث، مباحثے اور تحقیق و تدقیق کے بغیر کسی چیز کو رواج عام پانے نہیں دیتا۔ یوں یہ سراسر رحمت ہے۔ اسے زحمت سمجھنا قابل اصلاح رویہ ہے۔
بات استقبال یا الوداعی بیانات سے شروع ہوئی تھی اور اختلاف علماء حمت ہے یا زحمت؟ تک چلی گئی۔ بہر حال! ہمارے اکابر کو اللہ تعالیٰ نے ایسی بصیرت سے نوازا ہے کہ ان کے چند جملے مبسوط بیانات سے زیادہ متواتر اور بلیغ ثابت ہوتے ہیں۔ حال ہی میں استاد العلماء والمحدثین، صدر الوفاق، مشفق مکرم جناب حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے دست مبارک سے لکھی ہوئی ایک چند سطر کی مختصر تحریر ہاتھ لگی ہے جو اپنے حسن خط، ایجاز و جامعیت اور ارشاد و نافعیت میں کئی مقالوں پر بھاری ہے۔ یوں لگتا ہے حضرت والا نے عمر بھر کے تجربات کا نچوڑ چند موتیوں میں پرو دیاہے۔ آنجناب کا خوبصورت خط، ’’کوزہ در دریا‘‘ کا مصداق منتخب الفاظ اور اصابت رائے کا منفرد انداز، غرض کہ یہ مختصر تحریر پڑھنے اور بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس عاجز کو جب یہ مکتوب پڑھنے کا موقع ملا تو تعجب ہوا کہ جس چیز کو سالہا سال ٹھوکریں کھانے اور اوراق کے اوراق سیاہ کرنے کے باوجود اچھی طرح سمجھ سکا، نہ سلیقے سے کسی کو سمجھا سکا، اس کو حضرت نے کس سادگی اور پُرکاری سے چند سطروں میں دل نشیں کرا دیا ہے۔ احقر کو تقریباً ربع صدی زائد عرصہ ہوا کہ علمائے کرام کے لیے جاری کیے گئے تخصصات سے وابستہ ہے، اس لیے اس تحریر کے مضمرات پر نہایت دلچسپی اور دل جمعی کے ساتھ غور و فکر کا موقع ملا۔ اس شعبے سے وابستہ حضرات اسے جتنی مرتبہ پڑھتے اور سوچتے جائیں گے اور دوبارہ پڑھ کر سہ بارہ سوچتے جائیں گے، اتنا ہی ان پر اس کی معنویت اور حضرات والا کی دقت نظر آشکارا ہوتی جائے گی۔
حضرت الشیخ دامت برکاتہم العالیہ نے جس اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ فقہ میں تخصص کی طرف بہت زیادہ رجحان ہے، لیکن حدیث شریف کے علوم سے دلچسپی کم، بلکہ مفقود جیسی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ صرف کراچی شہر میں بلامبالغہ بیسیوں مراکز مل جائیں گے جہاں فقہ و افتاء میں تخصص ہو رہا ہے اور ایک ایک جماعت میں پچاس پچاس تک شرکاء ہیں۔ نجانے ان کی اصلاح کون دیکھتا ہے اور مطالعہ کون سنتا ہے؟ جبکہ تخصص فی الحدیث جن اداروں میں ہورہا ہے ان کا شمار شروع کریں تو محاورۃ نہیں، حقیقتاً انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ اس عاجز کو اللہ تعالیٰ سے بہت شرم آتی تھی کے ہمارے ہاں الحمد للہ ایسے ایسے کورس ہوئے جو مدارس کی دنیا میں متعارف ہی نہ تھے۔ بس حدیث شریف کی خدمت ایسی ہے جس سے ہم آج تک محروم ہیں، لہٰذا تقریباً سات سال پہلے تخصص فی الحدیث کی کتب کو باقاعدہ سبقاً پڑھنا شروع کیا۔ اس کا راستہ اللہ تعالیٰ نے یوں آسان فرمایا کہ مادر علمی جامعۃ العلوم الاسلامیہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے تخصص فی الحدیث کے مشرف و رئیس، استاد محترم جناب مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ جامعہ کے قریب سکونت پذیر ہوئے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ ہماری تو مراد برآئی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کے تخصص میں جو کتابیں سبقاً پڑھائی جارہی ہیں وہ حضرت سے اور ان کے تجویز کردہ تلامذہ سے ہم نے سبقاً سبقاً پڑھیں۔ اس کے بعد فقیر بیرون ملک در در کی خاک چھانتا رہا۔ دو تین سفر اسی غرض سے کیے اور باقاعدہ دوبارہ طالب علمی اور مسافرانہ طالب گردی کے مزے لیے۔ ابھی حال ہی میں آج جب یہ سطریں لکھنے بیٹھا ہوں تو ہمارے ہاں حضرت چشتی صاحب ہی کے ایک محبوب شاگرد جناب مولانا اح
مد رضا خان صاحب دامت برکاتہم نے ’’فتاویٰ حدیثیہ کی تدوین و ترتیب‘‘ کے موضوع پر چھ روزہ دورہ مکمل کروایا ہے۔ اب فقیر کا بیرون ملک ایک سفر اور درپیش ہے۔ اس کے بعد ان شاء اللہ اپنے اساتذہ اور اکابرین کی اجازت سے اگلے سال سے ’’جامعۃ الرشید‘‘ میں تخصص فی الحدیث شروع کرانے کا ارادہ ہے۔ ان اسفار کے دوران اللہ تعالیٰ نے یہ فضل و کرم فرمایا کہ دنیا کی کچھ عالی سندات اور مثالی و مستند اجازات حدیث نصیب ہوئیں۔ جن میں سے کچھ کو ایک کالم میں بیان کرچکا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو کسی مجلس میں طالب علمی کے ان اسفار اور ان اجازات کے ملنے کی روئیداد قارئیں کے گوش گذار کروں گا۔
عرصے سے اس فقیر کی رائے تھی کہ متخصص فی الفقہ کو حدیث شریف میں بھی تخصص کرنا چاہیے۔ اب حضرت کا یہ مکتوب منظر عام پر آنے سے اس رائے کی تقویت محتاج بیان نہیں رہی۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے فضلائے کرام کی بڑی تعداد تخصص فی الفقہ سے نہایت شغف رکھتی ہے بلکہ اسے اپنی علمی ترقی کی معراج سمجھتی ہے۔ جبکہ آگے جاکر اسے اپنی عملی زندگی میں اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع کم ہی ملتا ہے۔ فضلائے کرام کا عموماً عذر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس وقت کم ہے، لہٰذا تخصص فی الحدیث اور تخصص فی الفقہ دونوں کو دو دو سال نہیں دے سکتے۔ جب تطبیق نہ دے سکیں تو ترجیح دیتے وقت فقہ و افتاء کو ہی مقدم رکھنا پڑتا ہے کہ بسہولت ہر جگہ ممکن ہے۔ حضرت رئیس الوفاق دامت برکاتہم نے اس کے لیے جس ممزوج تخصص کی تجویز دی ہے، اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ اور دونوں میں آسانی سے دو سال کے دوران دونوں تخصص ہوسکتے ہیں۔ ایک تو مخلوط کہ دونوں سال حدیث و فقہ دونوں کے اسباق ہوں اور توازن کے ساتھ ملے جلے ہوں۔ ایسا برادر محترم جناب حضرت مولانا نورالبشر صاحب دامت برکاتہم کے ہاں جامعہ عثمان بن عفان نزد دارالعلوم کراچی میں کامیابی سے ہورہا ہے۔ دوسری صورت یہ کہ ایک سال مکمل حدیث کا اور دوسرا مکمل فقہ کا۔ یہ ترتیب ہمارے ہاں زیرغور ہے۔ اگر طلبہ کم اور ممتاز لیے جائیں، وقت کی حفاظت کی جائے، یعنی تعلیمی سال جلدی شروع ہو، اور دیر سے ختم ہو اور شام کو مطالعہ اور تخریج کی باقاعدہ نگران ہو، مقامی اساتذہ کے ساتھ ماہرین فن سے مہمان اساتذہ کے طور پر مختصر دورے کروائے جاتے رہیں تو احقر کا دو عشروں سے زیادہ تجربہ ہے کہ ایک سال میں دو سال کے قریب قریب کام کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اکابر کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر عافیت کے ساتھ قائم رکھے اور ہمیں ان سے فیض اٹھانے کی باسعادت توفیق نصیب فرمائے۔