وی آئی پی گاڑی گورنر ہائوس کی جانب رواں دواں تھی کہ اچانک ڈرائیور کو بریک لگانا پڑ گئی۔ سامنے ایک اہلکار پھاٹک بند کررہا تھا۔ ٹرین آنے میں وقت تھا۔ وی آئی پی کے سیکرٹری گاڑی سے اترنے لگے کہ جاکر اسے بتائیں کہ ہمارا وقت قیمتی ہے جبکہ ٹرین آنے میں ابھی ٹائم ہے لہٰذا ہماری گاڑی کے گزرنے کے بعد پھاٹک بند کرلیا جائے لیکن وی آئی پی نے اسے روک دیا اور کہا کہ میں کوئی ایسی مثال نہیں بننا چاہتا کہ میری خاطر قانون کو توڑا جائے۔ ہم وقت قیمتی ہونے کے باوجود انتظار کریں گے۔ یہ تھے بانی پاکستان محمد علی جناح اور یہ واقعہ پاکستان بننے کے تھوڑی دیر بعد کا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب ملک اکیلے قائد اعظم کا پاکستان کہلاتا تھا۔ بدقسمتی سے آج ہم قائد اعظم کے نت نئے جانشینوں میں گھرے ہیں جنہوں نے قائداعظم تو درکنار ، پاکستان کو پاکستان نہیں رہنے دیا۔ جو اینٹ اٹھائو، نیچے سے قائد اعظم کا سچا پیروکار ہونے کا علمبردار نکلتا ہے۔ہر جماعت اور ہر لیڈر کا یہ دعویٰ ہے کہ جتنا وہ قائد اعظم کے ویژن کو سمجھا اور اس پر چل رہا ہے، کوئی اس کی گرد راہ کو بھی نہیں پہنچ سکتا لیکن صرف باتوں سے تو کوئی قائد اعظم نہیں بن جاتا۔ اس کے لیے اپنا آپ مارنا پڑتا ہے، اپنی وی آئی پی انا کو قربان کرنا پڑتا ہے، اصولوں اور قوانین کی تپتی ریت پر ننگے پائوں چلنا پڑتا ہے۔ ہمارے وی آئی پی تو سیکورٹی گارڈ کے صرف یہ پوچھنے پر اسے تھپڑ جڑ دیتے ہیں کہ ’’ آپ کون ہیں؟‘‘
کیا ایسے ہوتے ہیں جانشین؟
ہمارے صدر صاحب کا مرتبہ ویسے تو ایسا ہے کہ ان سے کسی کو خطرہ ہوسکتا ہے نہ انہیں کسی سے۔ ان کے دو ہی کام ہیں، سرکاری احکامات پر دستخط کرنا یا کسی غیر ضروری تقریب سے خطاب کرنا۔ ویسے وہ ایوان صدر سے کم ہی باہر نکلتے ہیں مگر جب نکلتے ہیں عوام کو مصیبت میں ڈال دیتے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں ملتان کے دورے پر گئے تو شہریوں کو پریشان کرکے رکھ دیا۔ پروٹوکول کی وجہ سے ہسپتال کو جانے والے راستے بند کردیے گئے جس کی وجہ سے مریض میلوں پیدل چل کر ہسپتال آئے کیونکہ صدر کے دورے کے مقام سے ایک کلومیٹر تک اردگرد کی تمام سڑکوں کو بند کرادیا گیا تھا۔ ایک نوجوان کو تشویشناک حالت میں بھی پیدل چلا کر ہسپتال لایا گیا۔ اس کے باوجود صدر صاحب عوام کی تکلیف کے حوالے سے انجان بن گئے، درد کے درماں، زخم کے مرہم کے طور پر کوئی وضاحت تک نہ آئی۔ ایسے صدر صاحب اگر یہ فرمائیں کہ صحت کے مسائل اتنے ہیں حکومت تنہا نہیں نمٹ سکتی تو کوئی کیسے عمل کرے۔
ہمارے وزیر اعظم بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے ملک کے کونے کونے میں تشریف لے جاتے ہیں، وہاں دھواں دھار بیانات فرماتے ہیں اور اپنے مخالفین کو ہر بار بائونسر مار کر آتے ہیں ، مگر افسوس کی بات ہے جہاں جاتے ہیں وہاں کے اسکول، کاروبار اور سڑکیں بند کرادیتے ہیں۔ وہ بنوں ہو، مانسہرہ ہو ، سکھر یا کوئٹہ، ہر جگہ ایسا ہوا۔ اس کے باوجود ان کے دعوے ہیں کہ انہوں نے ملک کو قائد اعظم کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ کیا قائد اعظم کا راستہ یہی تھا؟
صدر اور وزیر اعظم کسی بھی ملک کا سربراہ ہوتا ہے۔ بیرونی دنیا اسے دیکھ کر قوموں کے مزاج کا اندازہ لگایا کرتی ہے۔
پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم کو اس کا احساس تھا ، اسی لیے وہ اپنی قوم کے لیے مشکلات پیدا نہیں کم کرنے والا وی آئی پی بنے۔ آج کے قائد اعظم کے نام نہاد جانشینوں کی کوشش تو صرف اپنی مشکلات کم کرنے کی ہوتی ہے۔ عوام سے انہیں کیا مطلب، کیا لینا دینا؟یہ قائد اعظم کا ویژن ہرگز نہیں تھا۔ اپنے مفاد کو قائد اعظم سے نتھی نہ کرو۔ قائد اعظم کا راستہ اپنانا ہے تو بائے بائے وی آئی پی کرو ، اگر اتنی ہمت، اتنا حوصلہ نہیں تو یہ بھی نہ کہو کہ ہم تو قائد اعظم کے جانشین ہیں۔ ہم تو قائد اعظم کی راہ پر چل رہے ہیں۔