السلام علیکم..طلحہ السیف

اصل بات

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 463)

میں آپ کو صرف 10منٹ کا الٹی میٹم دے رہا ہوں…

آپ اگر یہ کالم پڑھ رہے ہیں تو نہ پڑھیں،آدھا پڑھ چکے ہیں تو پورا نہ کریں اور پورا کر چکے ہیں تو اُگل دیں…

اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو 10 منٹ بعد

میں اگلے دس منٹ کا ٹائم دے دوں گا…

اور اس طرح میں پورا سال آپ کو ٹائم دیتا رہوں گا۔اس لئے آپ بے فکر رہیں اور میری کسی بات کو سنجیدہ نہ لیں…

امید ہے گزشتہ ایک ماہ سے اخبارات میں یہ کارروائی پڑھ پڑھ کر آپ ’’بھر‘‘ چکے ہو نگے…

لوگ کہتے ہیں ’’ڈیڈ لائن‘‘ عزت کا مسئلہ ہوتی ہے، اس لئے تبدیل نہیں کرنی چاہیے اور جو ڈیڈ لائن دینی چاہیے اس پر کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔’’جناب‘‘ ایسا نہیں کرتے اس لئے ان پر تنقید کی جاتی ہے…

تو صاحبانِ ذی وقار!

جھنگ میں جو انگریزی اردو ڈکشنری قصبہ روڈو سلطان کے بک سٹالز پر بکتی تھی اور بڑی مستند تھی،سب سے بڑی دلیل اس کے مستند ہونے کی یہ ہے کہ اس کا دیباچہ جناب کے والد گرامی جناب ڈاکٹر…صاحب نے لکھا۔انہوں نے اور بھی کئی کتابیں لکھیں جن میں بیس سے زائد شعری دیوان تھے۔پانچ بھوری بھینس نے کھا لیے تھے،4پر کلینک میں علاج کے لئے جانے والے ایک بدتمیز کتے نے ایک ناقابل اشاعت حرکت کر کے انہیںقابل اِشاعت نہ چھوڑا۔بقیہ دوا وین کا مسودہ جس گدھے پر لاد کر پریس لے جایا جا رہا تھا وہ گدھا نہر میں اُتر گیا۔پہلے اس نے الٹی میٹم دیا کہ دس منٹ کے اندر اندر اس پر سے یہ ’’فضول بوجھ‘‘ اتارا جائے ورنہ…

اور پھر اس ’’گدھے‘‘ نے اپنے ہی الٹی میٹم پر عمل کر ڈالا کیونکہ اس نے وہ ڈکشنری نہیں پڑھی تھی جس کا ذکر ابھی معلّق ہے اور بات ’’صاحبِ دیوان شاعر‘‘ جناب کمپاؤنڈر…صاحب کی طرف چلی گئی ہے۔بہرحال بھینس،کتے،اور گدھے کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں وہ بیس دیوان بہہ گئے اور خلق خدا ان سے فیضیاب نہ ہو سکی۔یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ وہ بیس دیوان باری باری کیوں نہ چھپوا لیے گئے اکھٹے چھپوانے کے لئے کیوں رکھے گئے؟

ممکن ہے گنیز بک میں نام لکھوانا مطلوب ہو…

بہرحال آتے ہیں ڈکشنری کی طرف۔اس مستند لغت میں ’’ڈیڈ لائن‘‘ کا مطلب لکھا ہوا تھا ’’ مردہ لکیر‘‘

اب آپ خود سوچیے!

یہاں کسی کو زندوں کی فکر اور پرواہ نہیں اور لوگ ہیں کہ اس بات کو محل تنقید بنا رکھا ہے کہ ’’جناب‘‘ ایک مردار کی پرواہ نہیں کرتے۔یہ ناقدین بھی بس…

دوسری بات کہ ’’مردار لکیر‘‘عزت کا مسئلہ ہوتی ہے۔قانون کی اس شق کا موصوف پر اطلاق ہی نہیں ہوتا۔کیوں؟؟…آپ اس سطر کو دو تین بار پڑھیں وجہ خود سمجھ آ جائے گی۔

اور رہی تیسری بات کہ ڈیڈ لائن پر کچھ کرنا چاہیے تو سب سے بہتر کام جو اس موقع پر ہو سکتا ہے وہ اگلی ڈیڈ لائن دینا ہی ہے

بے کارِ معاش کچھ تو کیا کر

بخیے اُدھیڑ کر ، سیا کر

’’بخیے‘‘ لگانا، پھر اُدھیڑنا اور پھر لگانا انگریزی میں اس سے ڈیڈ لائن پر ڈیڈ لائن دینا ہی مراد ہوتا ہے…

اب آپ یہ نہ سوچیں کہ شیخل صاحب اپنی کسی بھی ڈیڈ لائن پر عمل نہیں کرتے۔آج رات واپسی کی ڈیڈ لائن دی جانے والی ہے امید ہے اس پر عمل وقت آنے سے پہلے ہی ہو جائے گا۔

آج کل مخالف ذہن رکھنے والے اخبارات و جرائد میں ان لوگوں پر بہت تنقید کی جا رہی ہے جنہوں نے ’’جناب‘‘ کے پسینہ آلود ٹشو پیپر حاصل کئے اور اس پر بڑے فخر کا اظہار بھی کیا۔تو صاحبو! فقہ کی کتب میں لکھا ہے کہ’’ ان‘‘ کا پسینہ پاک البتہ جھوٹا پانی ’’مشکوک فیہ‘‘ ہے۔اس لئے جن لوگوں نے پاک چیز لی ہے انہیں برا بھلا مت کہو۔انہیں اس کام کے پیسے ملتے ہیں اور آپ لوگ غریبوں کی روزی پر لات کیوں مارنا چاہتے ہیں۔

٭…٭…٭

پنجاب سے سیلاب گزر گیا۔

اور پنجاب کے حکمرانوں نے اس بار بھی لانگ بوٹوں کی نمائش بہت اچھے طریقے سے کی،اب وہ بوٹ سنبھال کر رکھ لئے گئے ہیں آئندہ سال کام آئیں گے۔

سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لئے حکومت پنجاب نے ہنگامی طور پر ان اقدامات کا اعلان کیا ہے۔

(۱) وزیر اعظم کی لئے بھی اسی رنگ اور قسم کے لانگ بوٹ سلائے جا رہے ہیں جو وزیر اعلی پہنتے ہیں۔آئندہ سال ان کا بھی ’’شوٹنگ‘‘ میں حصہ لینے کا ارادہ ہے،اس سے ریٹنگ اچھی آتی ہے۔

(۲) اس بار تقریباً ایک درجن مقامات پر ’’امدادی کیمپ‘‘ جعلی ثابت ہو گئے اور میڈیا پر بہت شور ہوا۔آئندہ سال کے لئے پٹواریوں اور تحصیل داروں کو اس مسئلے سے نمٹنے کی خصوصی ٹریننگ ابھی سے دی جائے گی کہ کیمپ کا جعلی ہونا ثابت نہ ہو سکے۔

(۳) پنجاب میں پلوں اور میٹرو کی ہر شہر میں تعمیر کو جلد یقینی بنایا جائے۔حالیہ سیلاب میں لاہور میں تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ جو لوگ بارشوں اور سیلاب کے وقت میٹرو پر سوار تھے یا کسی پل پر تھے ان کا بالکل نقصان نہیں ہوا۔پلوں کے اردگرد کی بستیوں کا جو خصوصی کباڑا ہوا اس پر غور کے لئے کمیٹی بنا دی گئی ہے جو 2019؁ء میں رپورٹ پیش کرے گی۔

(۴) سلمان و مشہود کو پولٹری کی پیداوار بڑھانے کا خصوصی آرڈر جاری کر دیا گیا ہے کیونکہ وزیر اعلی کے حکمنامے کے مطابق چکن کڑاہی کو سیلاب زدگان کے کھانے کا مستقل حصہ بنا دیا گیا ہے۔اس سلسلے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔حکومت پنجاب اس کے لئے پولٹری صنعت کے لئے ’’خصوصی ‘‘فنڈز اور مراعات جاری کر رہی ہے۔مٹن کڑاہی کی شمولیت کا بھی اعلان کیا گیا تھا لیکن فی الحال اس کا نام خارج کر دیا گیا ہے کیونکہ ’’گوٹ فارمنگ‘‘ کی صنعت فی الحال خاندان سے باہر ہے۔ ’’حمزہ‘‘ اس کے امکانات کاجائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں گے اور کام ’’جم‘‘ جانے کے بعد آئندہ کسی سیلاب پر اسے بھی مینیو کا حصہ بنا لیا جائے گا۔

(۵) سیلاب زدگان سے خطاب کے دوران مخالفانہ نعرے بازی اور ’’گو گو‘‘ کے نعروں کے واقعات تسلسل سے پیش آنے کے بعد آئندہ اس امر کو یقینی بنانے کی ہدایت جاری کی گئی ہے کہ آئندہ کوئی بھی حقیقی سیلاب زدہ ایسی تقریبات میں نہ آنے پائیں۔

(۶) سیلاب سے زمینوں کے نشانات اور حدود مٹ جانے سے پٹواریوں کے لئے ’’کام ‘‘ کافی نکل آتا ہے۔اس سلسلے میں انہیں خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں اور ان پر ان علاقوں میں عمل درآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔پنجاب حکومت کو اس سے کافی آمدنی متوقع ہے جو سیلاب زدگان کے لئے برائلر خریدنے پر خرچ کی جائے گی۔

وفاقی حکومت نے بھی سیلاب کو کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔وزیر اعظم نے سیلاب پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے کہ اتنی شدت کے باوجود وہ دھرنے ختم کروانے میں ناکام رہا اور ان کے استعفیٰ کا معاملہ تاحال جوں کا توں ہے۔اسی طرح انہوں نے سیلاب زدگان کی امداد میں ہونے والی بے قاعدگیوں خصوصاً حکومت مخالف نعرے بازی کا شدید نوٹس لیا ہے اور آئندہ اس کی روک تھام کے لئے سخت آرڈر جاری کئے ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے بلا اطلاع پانی چھوڑنے پر ہندوستان سے بھی شدید احتجاج کیا ہے ۔ہندوستان کی اس حرکت کی وجہ سے ان کی حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔وہ ہمیشہ پلا ننگ کے ساتھ اپنے علاقے بچانے اور غریبوں کو ڈبونے کی تیاری نہیں کر سکی اور اس بار گندم کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔انہوں نے مودی سے کہا ہے کہ وہ آئندہ جب ہندوستان آئے، پیدل ’’لکشمی متل‘‘ کے گھر جا کر اس کی شکایت لگائیں گے۔سنا ہے مودی اس دھمکی پر تھر تھر کانپ اُٹھا ہے اور اس نے ڈیموں کے منہ فوراً بند کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

٭…٭…٭

نواز حکومت قائم ہوئے چند ہی ماہ گذرے تھے کہ پاکستان کے سب سے محترم’’ کارٹون‘‘ نے لکھا کہ میاں صاحب ہنسنے مسکرانے والے بندے تھے اور ان کی مسکراہٹ کالم نویس کے دل کو شاد کرتی تھی۔عوامی مسائل کے بوجھ اور ملکی حالات کی تلخیوں نے اس روئے زیبا سے وہ مسکراہٹ چھین کر سنجیدگی طاری کر دی ہے۔اس امر پر بہت افسوس کا اظہار کیا گیا۔ میں صاحب نے اس درخواست پر توجہ کی اور سنجیدگی کا ڈرامہ ختم کرکے ہنسنے مسکرانے لگے۔ انڈیاکی طرف سے غیرمتوقع دعوت،وہاں کا دورہ،دورے میں ملنے والا پروٹوکول،کاروبای طبقے سے خفیہ ملاقاتیں،اوبامہ سے شرف ملاقات،چین کا دورہ اور وہاں کاروباری معاملات میں حیران کن ترقی ان عوامل نے بھی طبیعت پر اچھا اثراڈالا اور طبیعت کچھ بحال ہوتی نظر آئی لیکن اچانک…

دھرنے سے سب دھڑن تختہ کر دیا۔وہ تو خیر ہو زرداری صاحب کی کہ بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے آئے اور میاں صاحب کو کچھ تسلی دے گئے،ان کی پارٹی بھی ساتھ آن کھڑی ہوئی۔ورنہ ان کے آنے سے پہلے تو ایسا لگتا تھا کہ میاں صاحب یوم پیدائش سے آج تک کبھی نہیں مسکرائے۔پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ختم ہو گیا ہے اور دھرنے ختم نہیں ہوئے۔اب پھر میاں کی حالت پھر پہلے والی ہوتی جا رہی ہے اور مجھے پھر اسی طرح کے کسی کالم کا انتظار ہے۔

کیا وہ محترم کالم نگار اور ان کے جیسے دیگر حضرات جو بادشاہ سلامت کو مسکراہٹ بھرے چہرے سے دیکھنے کے آرزو مند ہیں بتا سکتے ہیں کہ کشمیری ماؤں کے جوان لخت جگر شہداء کرام کے خون کا سودا کرنے اور ایک سال میں اپنے ملک کے پسے ہوئے غربت کے مارے عوام کے لئے بجلی کے بل دوگنے کر کے دن رات بددعائیں سمیٹنے والے چہرے پر مسکراہٹ سجی رہ سکتی ہے؟ کیا قدرت کے انتقام اور پکڑ سے لوگ اس قدر غافل ہو چکے ہیں؟

پرویز مشرف نے مسلمان اہل ایمان بچیوں پر ظلم کیا پھر نہ مسکرا سکا۔

وزیرستان کی وہ لاکھوں مائیں،بہنیں،بیٹیاں جن کے ننگے سر سورج نے بھی کبھی نہ دیکھے ہوں گے انہیں رمضان المبارک کے مہینے میں روزے کی حالت میں سخت گرمی میں بلکتے بچوں کے ساتھ سڑکوں پر لا بٹھانے والا نواز شریف مسکرا سکتا ہے تو مسکرا کر دکھائے…

’’کیا لوگ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور پکڑ سے غافل ہو گئے؟

اللہ کی تدبیر سے تو صرف خسارے میں پڑنے والے ہی غافل ہوتے ہیں‘‘ (الاعراف)

عمران خان کچھ نہیں اور نہ ہی اس کا ڈانسر طبقہ۔کسی کو تو مکافات عمل کی تصویر بننا ہی تھا تو یہ سہی…

عفت مآب اہل ایمان عورتیں جھولی پھیلا دیں تو یہی ہوا کرتا ہے لیکن اصل بات سوچتا کون ہے؟…

٭…٭…٭
محمد ’’الضیف‘‘۔۲

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 462)

محمد الضیف ابتداء سے ہی القسّام کے انٹیلی جنس شعبے سے وابستہ ہوئے۔اس شعبے کا کام خفیہ رہ کر اسرائیل کے اندر اہداف کی تلاش اور ان تک مجاہدین کی رسائی کو ممکن بنانا تھا۔وہ بظاہر تعلیم میں مشغول رہے اور حقیقت میں اپنی خداداد ذہانت،پختہ تدبیر اور صبر مندی کی طبعی خصوصیت بروئے کار لا کر اپنے کام کو مہارت سے انجام دیتے رہے۔چند سالوں میں ہی انہوں نے القسّام کے اس نیٹ ورک کو اسرائیل کے اندر ہر طرح کی کارروائیاں کرنے کے قابل بنا لیا۔اسی دوران ’’القسّام‘‘ کے کئی اعلیٰ کمانڈر شہادت نوش فرما گئے اور القسّام کی قیادت ان کے قریبی دوست ’’صلاح شحادۃ‘‘ کے ہاتھ میں آ گئی۔اس وقت ’’محمد الضیف‘‘ کو اپنے نیٹ ورک کو عملاً فعال بنانے کا حکم دیا گیا۔’’الضیف‘‘ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسرائیلی سیکیورٹی جال کو توڑ کر تین اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کیا اور کچھ دنوں بعد قتل کر کے تمام عالمِ یہود پر اپنی دہشت کا سکہ بٹھا دیا۔اسی طرح حماس کے میزائل سازی پروگرام کے بانی انجینئر ’’یحییٰ عیاش‘‘ کی شہادت کے بعد حماس قیادت کی طرف سے اسرائیل کے اندر انتقامی کارروائیاں کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس اعلان کو عملی جامہ ’’محمد الضیف‘‘ کے نیٹ ورک نے ہی پہنایا اور 1996؁ء سے اگلے تین سال تک اسرائیل پے درپے فدائی حملوں سے گونجتا رہا۔اسرائیل کے انٹیلی جنس ادارے اس دوران یہ پتا لگانے میں کامیاب ہو گئے کہ اس ساری تباہ کاری کے پیچھے کون سا ذہن کارفرما ہے ۔ ہزاروں صفحات پر مشتمل رپورٹ ’’محمد الضیف‘‘ کے بارے میں تیار کر کے اسرائیلی حکومت کو دی گئی اور کہا گیا کہ جب تک اس شخص کو ٹھکانے نہ لگایا جائے گا اسرائیل خطرے میں رہے گا۔اسرائیل نے ہر طرح سے محمد الضیف تک رسائی کی کوشش کی،ہر طرح کے اسباب بروئے کار لائے،کثیر تعداد میں مال خرچ کیا لیکن وہ احتیاط پسندی اور خفیہ پن کی انتہائی حدوں کو پہنچے ہوئے الضیف کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔2000؁ء میں فلسطین کی حکومت نے ایک سفر کے دوران الضیف کو گرفتار کر لیا۔اسرائیل کو اس کا علم ہوا تو اس نے فلسطینی اتھارٹی کو ہر طرح کی سودے بازی کی پیشکش کی کہ وہ جو چاہے لے کر الضیف کو اس کے حوالے کر دے۔یہ سودا آخری مراحل میں تھا کہ ’’محمد ‘‘ان کی جیل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔کہا جاتا ہے کہ ’’الفتح ‘‘ میں موجود ان اسرائیل مخالف جہادی ذہن رکھنے والے بعض قائدین نے اس فرار کی راہ ہموار کی جو اپنی حکومت کے اس حرام سودے پر خوش نہ تھے۔بہرحال جو بھی ہوا اللہ تعالیٰ کی مدد سے ’’الضیف‘‘ اس جیل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر تاحال ان تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔

۲۰۰۲؁ء میں ’’صلاح الشہادۃ‘‘ بھی جام شہادت نوش فرما گئے، تو القسّام کی باگ ڈور ’’الضیف‘‘ کے ہاتھ میں آ گئی لیکن انہوں نے اپنے رفیق ’’محمد الجعبری‘‘ کے بارے میں یہ تاثر عام کیا کہ وہ القسام کے قائد ہیں اور خود پس پردہ رہ کر ان مقاصد کی تکمیل میں کوشاں رہے جن کی خاطر انہوں نے روپوشی کی سخت زندگی اختیار کی تھی۔وہ مقصد تھا ’’القسام ‘‘ کی عسکری قوت کو ناقابل تسخیر حد تک بڑھانا اور اسرائیل کے مقابلے کے لئے ایسی افرادی اور مادی قوت کا حصول جو اس اسرائیل کی عسکری قوت کو صحیح معنوں میں ٹکر دے سکے۔حماس کی دینی قیادت شیخ احمد یٰسین ،پھر عبد العزیز رنتیسی اور اب خالد مشعل جیسے ان لوگوں کے ہاتھ میں رہی ہے جنہوں نے اپنے ذاتی کردار اور قرآنی دعوت کے ذریعے اس جماعت کے ایک ایک فرد کو جذبہ جہاد اور صحیح نظریہ جہاد سے مالا مال رکھا ہے اور حماس کو اس حوالے سے دنیا بھر کی عسکری تحریکوں میں ایک نمایاں مقام حاصل رہا ہے کہ اس سے وابستہ لوگ باوجود دنیوی تعلیم اور عوامی رہن سہن کے صحیح اسلامی نظریے اور ناقابل شکست نظریہ جہاد کے حاملین ہیں۔ دوسری طرف ’’محمد الضیف‘‘ اس محاذ پر سرگرم رہے کہ عسکری تربیت اور سازوسامان اور عسکری تدبیر و تکنیک میں بھی اس جماعت کو ایک امتیازی مقام پر لے جائیں۔ وہ اپنی اس سوچ میں کامیاب رہے اور انہوں نے اپنی لگن اور انتھک محنت سے حماس کو وہ جماعت بنا دیا جو دنیا کے کئی بڑے ممالک سے بہتر عسکری ٹیکنالوجی اور تدبیر کی حامل ہے۔حماس آج میزائل سازی میں خود کفیل ہے اور اس کایہ نیٹ ورک اس قدر فعال ہے کہ غزہ کے جیل جیسے تنگ و سخت ماحول میں ہر طرف سے شدید پابندیوں میں گھرے ہونے کے باوجود وہ ہزاروں میزائل کا ذخیرہ رکھتے ہیں اور پروڈکشن کا کام بلا رکاوٹ جاری رہتا ہے اور ساتھ ہی یہ نظام اس قدر پوشیدہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ ہزار کوششوں کے باوجود اس چھوٹے سے علاقے میں اسے ڈھونڈ نکالنے اور تباہ کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔یحییٰ عیاش کی شہادت کے وقت حماس زیادہ سے زیادہ 20 تا30 کلومیٹر مار کرنے والے میزائل رکھتی تھی۔آج ان کی یہ صلاحیت دو سو کلومیٹر سے زیادہ رینج والے میزائلوں سے تجاوز کر چکی ہے۔

حماس کے پاس کامیاب اور مؤثر ڈرون ٹیکنالوجی موجود ہے جس کا اس نے حالیہ آپریشن میں کامیابی سے استعمال کیا ہے۔یہ ٹیکنالوجی حماس نے مکمل ذاتی ذرائع سے حاصل کی ہے اور دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کو اس میدان میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

حماس کا انٹیلی جنس نیٹ ورک دنیا کا بہترین جاسوسی نظام شمار کیا جاتا ہے حتی کہ اسرائیلی اخبارات اس حالیہ آپریشن کے دوران یہاں تک لکھنے پر مجبور ہوئے کہ شاید اسرائیلی پارلیمنٹ ’’کنبست‘‘ اور اسرائیلی فوج کے اندر محمد الضیف کے جاسوس موجود ہیں۔حماس کا یہ نیٹ ورک اسرائیل کے اندر اس قدر فعال ہے کہ اسرائیل کی جانب سے بروئے کار لائے جانے والے ہر اقدام کی اطلاع اور اس کا دفاع پہلے سے تیار کر لیا گیا تھا اور اسرائیلی فوج نے اُن تمام مقامات کو بارودی سرنگوں اور القسام کے کمانڈوز سے پُر پایا جہاں سے ان کا خیال تھا کہ وہ خاموشی سے غزہ میں داخل ہو جائیں گے۔انہی پے درپے شکستوں کے زیر اثر مایہ ناز اسرائیلی دستے ’’جولان بریگیڈ‘‘ کا کمانڈر انچیف استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گیا اور آپریشن کی کمان بھی اس دستے سے لے کر دوسروں کو منتقل کرنا پڑی۔یہ تھے وہ چند مقاصد جن کے حصول کے لئے ’’محمد الضیف‘‘ نے خود کو پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔2012؁ء میں ’’محمد الجعبری‘‘ بھی اسرائیلی میزائل کا نشانہ بن گئے تو ’’الضیف‘‘ دنیا کے سامنے آئے اور ایک ویڈیو پیغام میں اسرائیل کویہ واضح پیغام دیا:

’’ ہم دو ٹوک الفاظ میں بتا دینا چاہتے ہیں کہ اسرائیل نے اب جب بھی ہماری سرزمین کی طرف پیش قدمی کی اسے بھاری قیمت چکانا ہو گی۔‘‘…

’’ ہم آج سے بیت المقدس کی آزادی کے مشن کا آغاز کر رہے ہیں ۔ہر آنے والا دن ہماری اس منزل کے قریب آنے کی خبر دے گا ۔‘‘…

اور پھر انہوں نے جو کچھ کہا اسے 2014؁ء کے آپریشن میں ثابت کر دکھایا۔

اسرائیلی کہتے ہیں کہ محمد الضیف ’’راس الافعی‘‘ (سانپ کا سر) ہے۔جب تک اسے کچلا نہ جائے گا ہم محفوظ نہیں ہو سکتے…

حماس کہتے ہیں’’ محمد الضیف‘‘ ہی وہ قائد ہیں جو ان شاء اللہ بیت القدس کو آزاد کرائیں گے اور اس پر اسلامی جھنڈا لہرائیں گے۔اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور امت کے اس فخر کو سلامتی کے ساتھ کفار یہود کے سروں پر مسلط رکھے۔آمین

البتہ اس دوران وہ چار بار قاتلانہ حملوں کی زد میں آ چکے ہیں۔ان کی ایک آنکھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو چکی ہے اور وہ کمر میں شدید چوٹ کہ وجہ سے چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو چکے ہیں۔لیکن ان کا رعب اور خوف ہے کہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا چلا گیا ہے۔گذشتہ ماہ کے اس آخری حملے میں وہ خود مکمل محفوظ رہے لیکن ان کی باوفا شریکِ حیات اور کمسن بیٹا ’’احمد‘‘ شہید ہو گئے۔۷ ستمبر بروز اتوار اسرائیلی ٹیلی ویژن نے اسرائیلی عوام سے حکومت کی طرف سے اس ناکامی پر معافی مانگی ہے اور بتایا ہے کہ مکمل اور یقینی انٹیلی جنس معلومات کی بناء پر کئے گئے اس آپریشن کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ اس گھر پر فائر کیے جانے والے پہلے تینوں میزائل پھٹے نہیں۔تین منٹ بعد دو مزید میزائل فائر کیے گئے جن سے گھر مکمل تباہ ہو گیا ’’محمد الضیف‘‘ غالباً اس دوران وہاں سے نکلنے میں کامیاب رہے۔

محمد الضیف کے بارے میں آخری اور اہم سبق آموز بات جو ان کے انتہائی قریبی رفیق نے ذکر کی وہ یہ ہے کہ ان پر اپنے اسیر ساتھیوں کی فکر ہر وقت سوار رہتی ہے اور وہ انہیں رہا کرانے کے لئے بے چینی کے عالم میں کارروائیاں ترتیب دینے میں لگے رہتے ہیں۔اسرائیلی فوجی ’’گیلاد شالیط‘‘ کا زندہ اِغوا اور اس کے بدلے میں ہزاروں فلسطینیوں کی رہائی ان کی اسی فکر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔حالیہ آپریشن کے دوران بھی انہوں نے ’’القسّام‘‘ دستوں کو خصوصی تاکید کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو زندہ گھیرنے کی کوشش کریں تاکہ ان کے بدلے قیدی چھڑائے جا سکیں۔

یہ ہیں امت مسلمہ کے اس حقیقی ہیرو کے مختصر احوال جو آج عالم کفر کے لئے دہشت و خوف اور اہل ایمان کے لئے فتح و نصرت کی علامت بن چکے ہیں۔’’مسجد کے خادم‘‘ سے لے کر ’’اسرائیل کے حقیقی حکمران‘‘ تک ان کے سفرِ حیات میں ہر مسلمان کے لئے ہر مجاہد کے لئے بہت سے اسباق ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے اس عظیم بندے کی ہر جہت سے حفاظت فرمائے۔یہ ہیں وہ لوگ جو اس بات کے حقیقی مستحق ہیں کہ انہیں جانا جائے اور ان سے محبت کی جائے ۔ ان کی محبت ہی لاکھوں اعمال سے قیمتی عمل اور گرانما یہ متاع ہے اور اس پر اپنی مغفرت کی امید رکھی جا سکتی ہے۔

٭…٭…٭
محمد ’’الضیف‘‘

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 461)

دو ہفتے قبل وعدہ کیا تھا کہ حماس کے شیر اور ’’القسّام‘‘ کے قائد ’’محمد الضیف‘‘ کے سبق آموز حالات زندگی سے اپنے قارئین کو آگاہ کروں گا۔گزشتہ ہفتہ کسی عذر کی وجہ سے یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا۔آج کو شش کی جائے گی کہ ہو جائے۔ ’’غزہ‘‘ میں جنگ بندی اور حماس کی فتح عظیم والے معاہدے کے بعد بھی محمد الضیف کا خوف تاحال اسرائیل کے اعصاب پر شدت سے سوار رہے۔ اس ہنستے اسرائیل کے سب سے بڑے اخبار میں ایک دلچسپ رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے ’’اسرائیل کا حقیقی حکمران‘‘

تجزیہ نگار نے اس مضمون میں کئی سروے، جائزوں ،تاثرات اور واقعات سے یہ ثابت کیا ہے کہ اسرائیل کے عوام جتنا محمد الضیف کی باتوں اور اعلانات پر یقین رکھتے ہیں اتنا اپنے حکمرانوں،فوجی اداروں کی باتوں کا اعتبار نہیں کرتے۔’’اگر محمد الضیف کہے کہ وہ کچھ کرنے والا ہے اور اس کے بر خلاف اسرائیل کے تمام ادارے سیکیورٹی کا یقین دلاتے رہیں ایک اسرائیلی کچھ ہونے کے خوف میں ہی مبتلا رہے گا تا وقتیکہ الضیف اسے اپنی زبان سے ہی امن دینے کا اعلان کر دے۔ لہٰذا اصلی حکمران وہی ہے جس کا حکم اسرائیل پر چلتا ہے‘‘…یہ ہیں اس تجزیہ نگار کے الفاظ…

تو آئیے اس اصلی ’’حکمران‘‘ فقیر کے کچھ حالات کا تذکرہ کرتے ہیں:

’’الضیف‘‘ جن کا اصلی نام ’’محمد دیّاب المصری‘‘ اور کنیت ’’ابو خالد‘‘ ہے، خان یونس کے ایک مہاجر کیمپ میں 1965؁ء میں پیدا ہوئے۔ان کا اصلی خاندانی علاقہ ’’قبیبہ‘‘ ہے جو مقبوضہ فلسطین کا ایک معروف قصبہ ہے۔ان کے خاندان کو اسرائیلی قبضے کے بعد 1945؁ء میں وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔مختلف مہاجر کیمپوں سے ہوتا ہوا یہ خاندان خان یونس کی بستی میں وارد ہوا اور یہاں اس انتہائی غریب گھرانے کے ایک کمرے پر مشتمل نامکمل تعمیر اور ٹین کی چھت والے گھر میں اس بچے کی ولادت ہوئی جو آج ’’اسد الاسلام ‘‘ کے لقب سے پورے فلسطین کے ایک ایک شخص کی زبان پر ہے۔

’’محمد‘‘ کا بچپن اسی مہاجر کیمپ کی گلیوں میں کھیلتے کودتے گزرا۔ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی اور گھر میں شدید عسرت کے سبب بہت کمسنی سے ہی مزدوری کی مشقت اپنا لی۔اپنے والد کی معیت میںقالین بافی کے ایک کارخانے میں کام کیا۔لڑکپن (14) سال کی عمر میں ایک چھوٹا سا مرغی خانہ قائم کیا تاکہ والدین کی مدد کر سکیں،اور اس طرح کے کئی چھوٹے بڑے مشقت بھرے کام کرتے رہے۔ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی اور سکول سے فراغت کے بعد کالج میں داخلہ لیا۔اس زمانے کا ’’محمد الضیف‘‘ علاقے بھر میں اپنی خوش طبعی اور کھلنڈرے پن کی وجہ سے معروف تھا۔سکول اور کالج کے زمانے میں ڈراموں میں مزاحیہ کردار ادا کرتا تھا اور اپنے رُفقاء کا دل بہلاتا تھا۔گریجویشن کے بعد کچھ عرصے کے لئے انہوں نے اداکاری کو باقاعدہ پروفیشن کے طور پر بھی اختیار کر لیا اور کئی ٹیلی ویژن ڈراموں میں مختلف مزاحیہ اور دیگر کردار ادا کئے۔خصوصاً ایک تاریخی ڈرامے میں بنو عباس کے زمانے کی ایک افسانوی شخصیت ’’ابو خالد المہرج‘‘ کا کردار ادا کر کے بہت شہرت حاصل کر لی۔ان کے اس زمانے کے قریبی دوست اور کلاس فیلو ’’علی‘‘ کا کہنا ہے کہ ’’محمد‘‘ اپنی کھلنڈری طبیعت اور اداکاری کی لائن میں شہرت کے باوجود ایک بلند کردار شخص تھا۔اس کی ذات میں ایسی کوئی خرابی نہ تھی جس پر انگلی اٹھائی جا سکتی۔وہ لوگوں کو خوش رکھتا تھا اور ان کی مدد کر کے خوش ہوتا تھا۔ایک بار خانیونس میں سیلاب کی وجہ سے بہت تباہی آ گئی،لوگوں کے نامکمل مکان گر گئے، ایسے میں ’’محمد‘‘ ان کی مدد کرنے میں سب سے آگے آگے تھا،اس نے اپنے دوستوں کو جمع کیا اور ملبے سے لوگوں کو نکالا،پھر ان کے ساتھ مل کر ان کے گھر تعمیر کرنے میں مدد کی ،علاج معالجہ فراہم کیا اور ہر طرح سے امداد پہچائی،وہ ہمیشہ لوگوں کی مدد کر کے خوش ہوتا تھا۔’’علی‘‘ مزید کہتے ہیں کہ ’’وہ ہمیشہ ہنساتا تھا لیکن تنہائی میں گہری فکر اور سوچ میں مبتلا رہتا تھا۔شاید اس کے دل میں کوئی خلش تھی جو ہم سب محسوس کرتے تھے۔‘‘

’’محمد ‘‘ کی اندرونی خلش ہی انہیں راہ راست پر لے آئی اور وہ اس راستے پر آ گئے جس کے لئے وہ پیدا کئے گئے تھے۔انہوں نے اداکاری کو خیر آباد کہا اور ’’مسجد ‘‘میں آ گئے۔مسجدِ امام شافعی وہ پہلی جگہ ہے جہاں سے ’’محمد ‘‘ کی نئی زندگی کا آغاز ہوا۔اہل علاقہ کے بقول وہ مسجد میں آئے تو مسجد کے ہوگئے۔مسجد کی صفائی کرنا ، رضاکارانہ طور اس کے امور میں حصہ لینا،درس میں حاضر رہنا اور دیر تک اکیلے مسجد میں بیٹھے رہنا ان کی پختہ عادت بن گئی۔پھر وہ نماز کے داعی بن گئے۔نوجوانوں کو دعوت دے کر مسجد کی طرف راغب کرنے کو اپنا مشن بنا لیا۔ علاقے کے نوجوان پہلے سے ان کے گرویدہ تھے انہوں نے دعوت پر لبیک کہا اور یوں وہ شخص جو پہلے ان کو تھیٹر کی طرف لے گیا کھینچ کر مسجد میں لے آیا۔’’محمد ‘‘ کی بستی کے اردگرد پانچ مساجد تھیں۔وہ ان سب میں ایک ایک نماز ادا کرتے اور قریب کے نوجوانوں کو اپنے ساتھ مسجد میں لے جاتے،کچھ دنوں بعد انہوں نے ایک اور عجیب کام کیا۔انہوں نے ’’شباب المساجد‘‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی اور ہر مسجد کے نوجوان نمازیوں کو اس کا رُکن بنا لیا۔یہ شباب (نوجوان) ان مساجد کو صاف رکھتے، لوگوں کو نماز کی دعوت دیتے اور سب سے بڑھ کر اپنی مسجد کے نمازیوں کی ہر ممکن خدمت کرتے،ان کی مسجد کے ایک نماز ی کے بقول:

’’ہم میں سے جسے کوئی مشکل کام در پیش ہوتا مثلاً مکان کی تعمیر یا کسی مریض کو ہسپتال لے جانا وغیرہ۔یہ شباب فوراً ہماری مدد کو آ جاتے اور ہماری مشکل آسان کر دیتے‘‘…

اس طرح ’’محمد الضیف‘‘ اپنے علاقے میں نماز اور خدمت کا شعار بن گئے…

اس دوران وہ نظریہ جہاد کو بھی پا چکے تھے اور جذبہ جہاد ان کے دل میں موجزن تھا لیکن انہوں نے اس کا اظہار نہ کیا تھا۔وہ خاموشی سے ’’حماس‘‘ میں شامل ہو گئے اور ’’شباب المساجد‘‘ کے بھی کئی ارکان کو اپنی خفیہ دعوت کے ذریعے حماس کے ساتھ جوڑ چکے تھے۔انہوں نے مختلف اوقات میں عسکری تربیت بھی حاصل کر لی تھی اور حماس کی طرف سے اس علاقے میں ذمہ داری پر فائز ہو چکے تھے لیکن اس بات کا علم ان کے خاص رُفقاء کو علاوہ کسی کو نہ تھا۔یہ راز اس طرح کھلا کہ ایک بار ان کے علاقے میں ’’الفتح‘‘ اور ’’حماس‘‘ کے کارکنوں کے درمیان زبانی بحث چھڑی جو کچھ دیر بعد جدل کی شکل اختیار کر گئی اور دونوں طرف سے اسلحہ تان لیا گیا۔قریب تھا کہ فائرنگ شروع ہو جاتی ’’محمد‘‘ اس وقت دوڑتے ہوئے آئے اور حماس کے کارکنوں کو ان الفاظ میں ڈانٹا:

’’ اپنا اسلحہ دشمن کے خلاف لڑنے کے لئے سنبھال کر رکھو۔اللہ تعالیٰ نے یہ ہمیں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے نہیں دیا۔‘‘

حماس کے کارکن ان کی ڈانٹ سن کر جھگڑا ترک کر کے گھروں کو چلے گئے اور اہل علاقہ پر یہ راز فاش ہو گیا کہ محمد الضیف ہی یہاں حماس کے کمانڈر ہیں۔ان کی رازداری کا یہ عالم تھا کہ اس واقعہ کے تین سال قبل وہ حماس کے ساتھ منسلک ہو چکے تھے۔اعلیٰ قیادت کے معتمد بن چکے تھے اور سولہ ماہ اسرائیل کی جیل میں بھی گذار آئے تھے۔لیکن نہ ان تین سالوں میں ان کے اہل علاقہ کو اس بات کا علم ہو سکا اور نہ اسرائیلی سیکیورٹی ادارے سولہ ماہ میں ان سے یہ راز اُگلوا سکے۔

1992؁ء میں ’’محمد ‘‘ اپنا علاقہ چھوڑ کر غزہ آ گئے اور ’’جامعہ غزہ‘‘ میں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے داخلہ لے لیا۔ساتھ ہی حماس کی قیادت کے خصوصی معتمدین میں شامل ہو گئے۔حماس کا عسکری ونگ ’’عز الدین القسّام بریگیڈ‘‘ جو ہر اسرائیلی کے لئے موت اور خوف کا شعار بن چکا ہے اس وقت تشکیل کے مراحل میں تھا۔محمد الضیف کو اس حوالے سے القسّام کے بانی ارکان میں شمار کیا جاتا ہے اور میڈیا پر زیر گردش ان کی واحد تصویر بھی اس زمانے کی ہے جس میں وہ حماس کے دیگر قائدین کے ساتھ بانیٔ حماس شیخ احمد یاسین شہید رحمہ اللہ کے پہلو میں کھڑے نظر آئے۔(اس وقت ان کا نام معروف نہیں تھا۔بعدمیں اسرائیل نے ان کی شناخت کے لئے اس تصویر کو عام کیا)

٭…٭…٭
کون جیتا؟

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 460)

مبارک ہو صد مبارک…

’’غزہ‘‘ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی جیت گیا…

’’غزہ‘‘ والے مومن ہیں…وہ مومن جنہیں نہ دبایا جا سکتا ہے…

نہ جھکایا جا سکتا ہے…اور…نہ ان کی مرضی کے خلاف کسی شرط پر آمادہ کیا جا سکتا ہے…

حضرت بابا سعدیؒ نے بتایا ہے کہ مومن کی یہی شان ہوتی ہے:

موحد چہ بر پائے ریزی زرش

یا فولاد ہندی نہی برسرش

امید و ہراسش نہ باشد ز کس

ہمیں است بنیاد توحید و بس

فتح و شکست کا ایمانی معیار…عام انسانی سوچ کے ہمیشہ برعکس رہا ہے…

اُحد کے دن کو یاد کرو…

اللہ کے نبی ﷺ بھی زخمی…

سارا لشکر زخموں سے چور…

ٹکڑوں میں بٹی لاشیں…

پریشانی کا عالم…

مگر آسمان سے کیا آواز آئی…

’’انتم الاعلون‘‘…

فتح مند تو تم ہی ہو…

اب ’’غزہ‘‘ چلو…

’’غزہ‘‘ میں تین ہزار شہید ہیں…

’’غزہ‘‘ تباہ حال ہے…

اس کی بستیاں ملیامیٹ ہو چکی ہیں…

ماؤں کے چہروں پر آنسوؤں نے سڑکیں بنا لی ہیں…

بچے سراسیمہ تھے…

ہر وقت آگ و فولاد کی بارش…

مگر ’’غزہ‘‘ میں جشن ہے…

مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں اور …ہر شخص فتح کا نشان بنائے پھر رہا ہے…

’’اسماعیل ہانیہ‘‘ اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر کھڑا…مکا لہرا کر تکبیر کے نعرے لگاتا نظر آیا… چہرے پر مسکراہٹ اور فتح کی سرشاری…

سپر پاور اسرائیل کا وزیر اعظم…’’نیتن یاہو‘‘ تقریر کرنے آیا تو اس کے منہ پر …

بارہ بج کر دو منٹ ہو رہے تھے…

’’غزہ‘‘ والوں نے کہا ’’خالد مشعل‘‘ پر ہمیں فخر ہے…

اسرائیل والے کہتے ہیں…چیف آف آرمی سٹاف برطرف ہو…

’’محمد الضیف‘‘ نے جو کہا کر دکھایا…

’’گولان فورسز‘‘ کا کمانڈر انچیف میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا…

نیتن یاہو نے غزہ کے پڑوس میں آباد یہود آباد کاروں سے کہا…گھروں کو لوٹ جاؤ…

یہود نے کہا…نہیں…جب تک ’’الضیف ‘‘ امن دینے کا اعلان نہ کر دے…

حکومت کس کی ہے؟

ایٹم بموں کے مالک نیتن یاہو کی…یا … وہیل چیئر پر بیٹھے ’’الضیف‘‘ کی…

’’حماس‘‘ نے ایک شرط نہیں مانی…

یہود کو سب کچھ ماننا پڑا…ساتھ ہی ساتھ مصر کے فرعونِ اصغر کو بھی…

کافر و منافق ایک ہی گڑھے میں گرے… ذلت و رسوائی کا گڑھا…شکست و ندامت کا گڑھا …

’’غزہ‘‘ کی ایک ماں جشن منا رہی تھی… خوشی سے بے قابو…

مغربی صحافی حیرت زدہ اس کے پاس آیا…

اماں! لاشوں کے ڈھیر اور ملبے کے انبار میں جشن ؟؟…

جواب سنیے اور سر دھنیے:

ہاں جشن!

’’ہم نے گھر کھوئے…وہ پھر بن جائیں گے…

ہم نے بچے کھوئے…وہ پھر جن لیں گے…

ہم نے ایمان بچا لیا…ہم نے عزت بچا لی …ہم نے وقار بچا لیا…

یہ کھو جاتا تو نہ ملتا…

دیکھو! سارے عرب نے سب کچھ بنا لیا ہے مگر ایمان نہیں…

وہ ذلیل و سرنگوں ہیں…

’’غزہ‘‘ نے سب کچھ کھو کر ایمان بچا لیا ہے…وہ سرفراز ہے…

لو تم بھی مٹھائی کھاؤ‘‘…

اسرائیل کو بظاہر کچھ نہیں ہوا…

نہ زیادہ لاشیں گریں…

نہ علاقہ تباہ ہوا …اور

نہ ہی کوئی مقبوضہ جگہ ہاتھ سے نکلی…

مگر ہر گھر میں صف ماتم ہے…

ہر چہرہ ستا ہوا ہے…

کوئی خود کو فاتح نہیں سمجھ رہا…

کوئی وکٹری کا نشان نہیں بنا رہا…اور اب آپس میں لڑ رہے ہیں …الزام تراشیاں کر رہے ہیں…

کیوں؟؟…

کیونکہ وہ ہزاروں کو شہید کر کے بھی ہار گئے…

انہوں نے ’’شجاعیہ‘‘ کو صفحہ ہستی سے مٹا کر بھی شکست کھائی…

وہ آگ برسا کر دشمن کو جلا کر بھی فتح کی خوشی سے محروم رہے…

وہ نہ غزہ میں گھس سکے…

نہ حماس کو ختم کر سکے…

نہ اپنے اہداف پا سکے…

بلکہ انہیں ’’غزہ‘‘ کا محاصرہ ختم کرنا پڑے گا…

’’غزہ‘‘ اب آزاد ہے…

وہ اب ’’جیل‘‘ نہیں آزاد وطن ہے…

حماس کو مبارک ہو…

’’القسام ‘‘ کے شیروں اور ان کے بادشاہ ’’الضیف‘‘ کو مبارک ہو…

الشیخ احمد یاسینؒ کے وارث خالد مشعل کو مبارک ہو…

پوری امت مسلمہ کو مبارک ہو…

امام کعبہ نے خوب کہا:

’’غزہ‘‘ کی فتح پر اسے ضرور خوشی ہو گی جس کے دل میں ایمان ہے…

کیونکہ ’’جہاد‘‘ اور فتح سے:

’’اور اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے دلوں کو شفائ( سکون و خوشی) عطاء فرمائے گا۔‘‘(القرآن)

اور منافق کو تکلیف ہوگی…کیوں کہ یہ ان کی قرآنی نشانی ہے

اگر عملی تفسیر دیکھنی ہو تو ’’غزہ‘‘ کی سرفرازی کے بعد…

جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے محمد مرسی کا تمتماتا چہرہ…

اور کرسی صدارت پر بیٹھے ’’السیسی‘‘ کی تازہ تصویر ملاحظہ کریں…

٭…٭…٭
افسانوی ہیرو

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 459)

چار دن قبل ’’غزہ‘‘ میں ایک خاتون اور اس کے نو عمر بچے کا جنازہ تھا۔

’’غزہ‘‘ میں تو روزانہ درجنوں جنازے ہوتے ہیں مگر یہاں کوئی خاص بات تھی کہ پورا شہر ہی چلا آ رہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ جمع ہو گئے۔یہ سب لوگ رو رہے تھے،شدت جذبات سے بے قابو ہو رہے تھے اور زبردست نعرے بازی کر رہے تھے،شدید خطرہ تھا کہ اسرائیل اس بے پناہ ہجوم پر اپنے طیاروں کے ذریعے بم گرا دے اور یوں درجنوں اور لوگ شہید ہو جائیں مگر یہ سب اس سے بے پرواہ ہر طرف سے امڈے آ رہے تھے اور یہ سب اس شخص سے اپنی والہانہ عقیدت اور قلبی محبت کا اظہار کر رہے تھے جس کی اہلیہ اور دو بچوں کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا۔ہر شخص کی زبان پر اسی کا نام تھا اور اسی کا تذکرہ…

کون ہے وہ؟…

وہ شخص جو چند قدم اپنے قدموں پر نہیں چل سکتا مگر اس نے گزشتہ بارہ سال سے اسرائیل کے قدموں کو غزہ سے روک رکھا ہے…

وہ شخص خود وہیل چیئر پر ہے لیکن اس نے دنیا کی تیسری سب سے بڑی عسکری طاقت کو اپنے قدموں پر جھکا رکھا ہے…

جس کی صرف ایک آنکھ ہے لیکن وہ سب کچھ اس کی نظر میں ہے جسے چھپانے کے لئے اور محفوظ رکھنے کے لئے دنیا کا سب سے مہنگا اور سب سے جدید سیکیورٹی سسٹم وضع کیا گیا ہے…

جسے بارہ سال سے دنیا نے نہیں دیکھا لیکن اسرائیل کا ہر شہری غزہ سے آنے والے ہر میزائل کے ساتھ اسے دیکھتا ہے…

جس نے اپنا نام مٹا رکھا ہے لیکن اسرائیلی اور مغربی میڈیا پر آج کل اسی کے نام کی سب سے زیادہ گونج ہے…

جسے قتل کرنے کی کوششوں پر اسرائیل اپنے بقول سب سے زیادہ مال خرچ کر چکا ہے اور تمام ذرائع بروئے کار لا چکا ہے لیکن وہ زندہ ہے اور اس کی زندگی اسرائیل اور یہودیوں کی موت بنتی جا رہی ہے۔ اسرائیل کے سرکاری ترجمان جریدے’’ یدیعوت‘‘ کے الفاظ ہیں ’’وہ‘‘ ہمارا سب سے بڑا خوف ہے، ہماری سب سے بڑی بیماری ہے،وہ سب سے خوفناک ہتھیار ہے،وہ سانپ کا سر ہے،وہ موت کا پیغام ہے اور جب تک وہ زندہ ہے ہمارا وجود خطرے میں ہے …

وہ دورحاضر کا ’’ابن بطال‘‘ ہے جس کے نام سے کفار کی مائیں اپنے بچوں کو ڈراتی ہیں۔

فرانسیسی جریدے’’لوموند‘‘ کے مطابق وہ ایک افسانوی ہیرو اور ایک دیومالائی کردار جیسا ہے،شاید آنے والے زمانے میں اس کی بھی اساطیری داستانیں لکھی جائیں۔ایک سایہ جو یہودیوں کو ہمیشہ ڈراتا رہے گا…

جی ہاں! وہ ہے ’’محمد الضیف‘‘

حماس کے عسکری ونگ عز الدین القسام بریگیڈ کا کمانڈر اعلیٰ…

جنہیں شہید کرنے کی یہ چوتھی کوشش ناکام ہوئی مگر ان کی باوفا بیوی اور سات ماہ کے معصوم بیٹے نے جنت کو کوچ کیا۔آج ان کا جنازہ تھا اور غزہ کا ہر شہری اپنے عظیم قائد سے اظہار محبت کے لئے کھنچا چلا آیا،جنہیں اطلاع نہ ہو سکی وہ بعد میں افسوس کرتے دکھائی دیئے…

’’محمد الضیف‘‘ کون ہیں؟…

ہمیں اگر طاہر القادری سے فرصت ہوتی تو ہم بھی ان کے بارے میں ضرور جانتے ہوتے جو امت کے حقیقی قائدین ہیں۔لیکن ہماری بد اعمالیوں نے ہمیں ان لوگوں میں الجھا رکھا ہے جن کا کردار پڑھ کر ابکائیاں آتی ہیں۔ایسا شخص ہمارے ملک کے لاکھوں لوگوں کا مقتدا ہے جسے ’’طاہر‘‘ کہیں تو لفظ ’’طہارت‘‘ کا معنی الٹنا پڑتا ہے اور ’’القادری‘‘ کہتے ہوئے اللہ والوں کے ایک پورے عظیم سلسلے کی شان میں گستاخی ہوتی ہے۔بہرحال دفع کیجئے آئیے اس شخص کے تذکرے سے اپنی محفل کو معطر کرتے ہیں جس کا نام ایک پوری قوم کو لڑنے،مرنے اور قربانیاں دینے کا حوصلہ بہم پہنچاتا ہے اور عزائم کو زندہ کرتا ہے…

فرانسیسی صحافی’’ ایلین سالون‘‘ نے معروف جریدے ’’لاموند‘‘ میں اس عظیم شخصیت کی سوانح و کردار پر ایک تحریر لکھی ہے۔اس کے کچھ اقتباسات کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔عربی کا ایک مقولہ ہے:

الفضل ما شہدت بہ الاعداء ( مرتبہ و مقام وہ ہوتا ہے دشمن بھی جس کی گواہی دے)

کے مصداق ایک غیر مسلم کے ان کے بارے میں خیالات ملاحظہ کیجیے:

’’محمد الضیف‘‘ جن کا اصل نام ’’محمد دیَّاب المصری‘‘ہے۔1965؁ء میں خانیونس کے ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔جامعہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کی اور وہیں ’’الاخوان المسلمون‘‘ میں شمولیت اختیار کی۔90ء کی دہائی میں حماس کے معروف عسکری قائد یحیی عیاش شہید کے ساتھ ملے اور حماس کے عسکری ونگ میں ایک معمولی ذمہ داری پر فائز ہوئے۔اپنی انتھک محنت اور ذہانت کے سبب کچھ ہی عرصے میں اہم ذمہ داریوں تک پہنچ گئے۔اسرائیل کے انٹیلی جنس ذرائع کہتے ہیں کہ انہیں 90ء کی دھائی میں ہی علم ہو گیا تھا کہ ’’محمد الضیف‘‘ حماس کے اہم عسکری ذمہ دار بن چکے ہیں لیکن ان کے منظر عام پر نہ آنے اور شہرت سے دور رہنے کی پختہ عادت کی وجہ سے اسرائیلی حکومت انہیں ایک بڑے خطرے کے طور پر نہ بھانپ سکی،اسی دوران انہیں گرفتار کر لیا گیا لیکن تعارف حاصل نہ ہو سکنے کی بنیاد پر تیرہ ماہ بعد اسرائیلی حکومت نے انہیں رہا کر دیا،اگر وہ حقیقت حال سے واقف ہوتے تو ایسا ہرگز نہ کرتے۔اسی طرح 1994؁ء میں انہیں ’’الفتح‘‘ کی فلسطینی اتھارٹی نے بھی قید کیا مگر انہیں بھی چودہ ماہ کے لگ بھگ عرصہ جیل میں رکھ کر انہیں رہا کرنا پڑا کیونکہ وہ مکمل غیر عسکری عنصر کے طور پر جانے گئے تھے۔یحیی عیاش(حماس کے میزائل سازی پروگرام کے بانی) کی شہادت کے بعد ’’صلاح شحادہ‘‘ القسام کے کمانڈر اعلی بنے اور انہوں نے یحیی عیاش کے انتقام کی غرض سے اسرائیل کے اندر فدائی حملوں کا سلسلہ شروع کرایا،اس پوری کارروائی کی نگرانی اور پلاننگ ’’محمد الضیف‘‘ نے کی اور اس وقت وہ ایک حقیقی خطرے کے طور پر معروف ہوئے اور ان کا نام ہر طرف گونجنے لگا۔فدائی حملوں کا یہ سلسلہ 2006؁ء تک جاری رہا اور اس میں اسرائیل کو شدید نقصان پہنچا۔جولائی 2002؁ء میں اسرائیل نے ایک فضائی حملے میں ’’صلاح شحادہ‘‘ کو نشانہ بنایا اور وہ شہید ہو گئے۔ان کے بعد حماس کی طرف سے باضابطہ اس بات کا اعلان نہیں کیا گیا کہ ’’القسام‘‘ کا کمانڈر اعلی کس کو بنایا گیا ہے لیکن وہ ’’محمد الضیف‘‘ ہی تھے اور اس بات کا علم دنیا کو 2012؁ء میں منظر عام پر آنے والی اس ویڈیو میں ہوا جس میں ’’محمد الضیف‘‘ ایک سائے کی طرح نظر آئے اور انہوں نے اسرائیل کو چیلنج کیا کہ اب جب بھی اسرائیل نے غزہ پر زمینی حملہ کیا اسے اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی اور پھر انہوں نے جو کہا اسے سچ کر دکھایا۔2007؁ء سے اب تک اسرائیل جب بھی غزہ کی زمین پر آیا ہے اسے شدید نقصان اٹھا کر بھاگنا ہی پڑا ہے اور یہ سب ’’محمد الضیف‘‘ کی اس جنگی حکمت عملی سے ممکن ہوا ہے جو انہوں نے خاموشی سے بنائی،پس پردہ رہ کر بروئے کار لائی اور خود کو پوشیدہ رکھنے کی کامیاب اسٹرٹیجی اختیار کر کے اسرائیل کو اس سے دھوکے میں رکھا۔اسی دوران ’’محمد الضیف‘‘ ایک حملے میں زخمی ہوئے اور ان کی ایک آنکھ شہید ہو گئی۔اس حملے کے بعد انہوں نے اپنے قریبی ساتھی ’’محمد الجعبری‘‘ کو القسام کا کمانڈر بنا دیا اور خود غائب ہو گئے۔شاید ان کے پیش نظر یہ بات تھی کہ اسرائیل الجعبری کے پیچھے لگا رہے گا وہ اس دوران اپنا کام سر انجام دیتے رہیں گے۔اور ایسا ہی ہوا۔ 2012؁ء میں اسرائیل الجعبری کو بھی فضائی کارروائی میں نشانہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔’’محمد الضیف‘‘ ان کے جنازے پر آئے اور پھر پس پردہ چلے گئے۔

حماس کے عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’الجعبری‘‘ کی شہادت کے بعد ’’محمد الضیف‘‘ نے القسام کی جنگی حکمت کو مکمل طور پر نیا رخ دیا ہے اور انتہائی خفیہ انداز میں تمام ترتیبات کو ازسرنو اس طرح منظم کیا ہے کہ اسرائیل کو اسے سمجھنے میں بہت سا وقت لگ جائے گا۔

حالیہ حملہ جس میں ان کی اہلیہ اور بچے کی شہادت ہوئی ان پر اسرائیل کی طرف سے پانچواں حملہ ہے جس سے وہ بچ نکلے ہیں۔اس سے پہلے 2012؁ء کی اسرائیلی کارروائی کے دوران ان کی گاڑی پر ’’اپاچی‘‘ہیلی کاپٹر سے شیلنگ کی گئی،گاڑی مکمل تباہ ہو گئی، ان کے دونوں رفقاء بھی شہید ہو گئے لیکن وہ باوجود معذوری کے سالم رہے اور بچ نکلے،یہ ایک معجزہ نما فرار تھا اسرائیل کو یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کافی وقت لگا اور جب ان کا بچ نکلنا یقینی طور پر ثابت ہو گیا تو یہ اس کے لئے بہت بڑا جھٹکا تھا۔

’’محمد الضیف‘‘ کو پوشیدہ رہنے کا اس قدر اہتمام ہے کہ ان کے سسر مصطفی العصفور بتاتے ہیں کہ انہوں نے ’’محمد الضیف‘‘ کو صرف ایک بار دیکھا جب وہ ان کی بیٹی کا رشتہ مانگنے 2007؁ء میں ان کے گھر آئے تھے۔انہوں نے اپنی بیٹی سے اس کا ذکر کیا تو وہ خوشی سے تیار ہو گئی،خود انہوں نے بھی اسے اپنے لئے قابل فخر و اعزاز سمجھا۔اس کے بعد انہوں نے ’’محمد الضیف‘‘ کو نہیں دیکھا اور نہ ہی بیٹی اور نواسے کو شہادت سے پہلے کبھی دیکھاحالانکہ جس گھر میں یہ لوگ شہید ہوئے وہ غزہ کے عین وسط میں واقع ہے۔

غزہ یونیورسٹی کے پروفیسر ’’ھانی بسوس‘‘ کا کہا ہے کہ ’’محمد الضیف‘‘ کی طبیعت ایسی ہے کہ وہ ایک سال سے زائد عرصہ ایک کمرے میں بند رہ کر بخوشی اور با آسانی گذار سکتے ہیں،وہ بہت کم لوگوں سے ملتے ہیں،ان کے روابط انتہائی محدود ہیں،انہیں اپنے اوپر مکمل ضبط ہے اور وہ ایک انفرادی خصوصیات کے حامل انسان ہیں

اور رپورٹ کے آخری الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

’’محمد الضیف‘‘ 2014؁ء میں القسام کے قائد اعلی کے طور پر باضابطہ سامنے آ گئے ہیں۔اس وقت ان کے کندھے پر بھاری ذمہ داریاں ہیں اور ہاتھ میں بہت سے کارڈ ہیں جنہیں وہ کامیابی سے کھیل رہے ہیں۔اسرائیل کا خیال تھا کہ وہ اس کارروائی میں ضرور نشانہ بن جائیں گے کیونکہ یہ آپریشن بہت طویل محنت کے بعد اور پختہ معلومات کی روشنی میں مرتب کیا گیا تھا لیکن حماس کے ترجمان نے اس کے بعد آ کر اعلان کر دیا ہے کہ ’’محمد الضیف‘‘ زندہ ہیں۔وہ القسام کی قیادت کر رہے ہیں اور اس نے چیلنج کیا ہے کہ ’’محمد الضیف‘‘ ہی القسام کے وہ کمانڈر ہیں جو القدس کو فتح کریں گے( ان شاء اللہ) اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے پاس ایک بار پھر ناکامی کے ساتھ سر جھکانے کے سوا کوئی چارہ نہیں‘‘۔

اسلام کا یہ عظیم مجاہد اور غزہ کا شیر اس مقام اور مرتبے کو پہنچنے میں زندگی کے جن کٹھن مراحل سے گذرا ہے یہ کافی سبق آموز داستان ہے۔ان شاء اللہ آئندہ شمارے میں آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کریں گے۔

٭…٭…٭
انقلاب…آزادی

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 458)

مبارک ہو…مبارک ہو…مبارک ہو…

انقلاب بھی آ گیا ہے اور آزادی بھی مل گئی ہے…

مبارک ہو…مبارک ہو…مبارک ہو…

انقلاب ایک نہیں آیا کئی ایک اکھٹے آ گئے ہیں…

پہلا انقلاب یہ کہ ’’اسلام آباد‘‘ منقلب ہو کر ’’سیہون‘‘ بن گیا ہے…

جو مناظر دیکھنے لوگ ’’لال شہباز قلندر‘‘ کے عرس پر جاتے تھے اور گرمی،گھٹن،چرس کے غلیظ دھویں اور بدبو کے بھبھکوں کے درمیان وہ دیکھنے کو ملتے تھے اسلام آباد کی سڑکوں پر آ گئے ہیں…

دھمالیں ہی دھمالیں ہیں اور اہل شوق کی قطاریں… ساتھ ہی ٹھنڈا موسم اور بہترین لوکیشن…

بی بی سی کے نمائندے نے ایک ایسے ہی شوقین کا جملہ بطور عنوان اپنی ویب سائٹ پر سجا رکھا ہے

’’یار چل کھانا کھا کر کہ جلدی واپس آتے ہیں، یہاں تو بڑا ماحول بنا ہوا ہے‘‘…

اس سے پہلے کبھی آپ نے کسی مذہبی پیشوا کی جماعت کے ترجمان اعلی کو سرعام ’’بیلے ڈانس‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور مریدنیوں و مریدوں کو یوں ’’سربازار‘‘ محو رقص دیکھا؟…

یقیناً نہیں دیکھا ہو گا…یہ انقلاب نمبر دو ہے…

لیبیا کے معمر قذافی کے بعد ایک اور ’’مسلمان‘‘ رہنما منظر عام پر آیا ہے جس نے اپنی حفاظت کے لئے خواتین کی فورس بنائی ہے۔یہ فورس روزانہ صبح سویرے سڑک پر کھڑی ورزش کرتی ہے جو ٹی وی پر براہ راست نشر کی جاتی ہے۔سنا ہے لوگ آج کل لوگ صبح سویرے ٹی وی سے چپکے اسی منظر کے منتظر پائے جاتے ہیں۔’’انقلاب‘‘ اور کسی چیز کا نام ہے؟ پہلے یہ سارے لوگ صبح سویرے اوندھے منہ بستروں پر سو رہے ہوتے تھے۔امام انقلاب نے ان کی سحر خیزی کا سامان بہم پہنچایا ہے…

انقلاب کے قریب ہی ’’آزادی‘‘ براجمان ہے …

یہاں ہر چیز کی مکمل آزادی ہے۔

آپ بھلے ہی ایک صوبے کے وزیر اعلی ہوں لیکن آزادی سے ناچ سکتے ہیں…

قائد آزادی کی تقریر کے دوران تو یوں لگتا ہے کہ ساری قوم بالکل مادرپدر آزاد ہو گئی ہے،شرکاء ہر اخلاقی قدر سے،ہر شرم سے،ہر حیا سے اور ہر اسلامی و قومی تشخص سے مکمل آزاد…

شرکاء کو گند مچانے کی بھی مکمل آزادی ہے اور گھومنے پھرنے کی بھی…

یوں دونوں ’’مارچ‘‘ مکمل طور پر کامیاب رہے ہیں اور اپنے مقاصد مکمل کر چکے ہیں…

کوئی شک میں نہ رہے…

٭…٭…٭

آپ نے سانپ بلکہ اژدھے کو اچانک کینچوے کا روپ دھارتے یا ہاتھی کو یکدم خرگوش بنتے دیکھا ہے؟…آپ نے سریے والی گردن کو اچانک ربڑ کی ہوتے یا سٹیل کی ناک کو موم کی ناک میں تبدیل ہوتے ملاحظہ کیا ہے؟

اگر آج کل آپ پاکستان میں رہتے ہیں تو یقیناً دیکھا ہو گا یہ الگ بات ہے کہ غور نہ کیا ہو۔

آپ کو اب سے محض ایک ہفتہ پہلے تک والے ’’نواز شریف صاحب‘‘ مع برادر صغیر و بھتیجہ امیر و اہل و عیال و دوستانِ با توقیر یاد ہیں؟

جی وہی جن کے پاس جاوید ہاشمی سے ملنے کا وقت نہیں تھا یہاں تک کہ وہ پارٹی چھوڑ گئے…

جن کے پاس پارلیمنٹ میں آنے کا وقت نہیں تھا اگرچہ پورا میڈیا پوری اپوزیشن چیختے چلاتے رہے اور ان کے اپنے ترجمان شرمندہ ہوتے رہے…

جن کی گردن میںقومی مفاد کی طرف مڑنے جتنی لچک بھی نہیں تھی اور نہ ہی ریاستی پالیسی کے سامنے جھکنے کی نرمی،انڈیا کی دوستی کرنے نکلے اور گردن اٹھائے بگٹٹ دوڑے چلے گئے،راستے میں 1947سے 1999 کارگل تک کے شہداء کا خون،شہداء کشمیر کا خون اور نہ جانے کیا کیا روندتے چلے گئے،جنہیں کشمیر کی روتی ماؤں کے آنسو یاد نہ رہے مگر قاتل مودی کی مٹھائی کھلاتی ماں بہت پسند آئی اس کے لئے ساڑھیاں خریدتے پھرے …

جنہیں سخت ترین بلکہ بد ترین حالات نہ کبھی ملک میں رہنے پر مجبور کر سکے نہ مشاورت پر آمادہ…

جو اپنے رہن سہن میں مغلیہ بادشاہوں اور فیصلوں میں من مانیوں اور ریاستی جبر کے استعمال میں عرب بادشاہوں کے مکمل ہم قدم اور ہم مثل تھے۔اصل ’’انقلاب‘‘ یہ آیا ہے کہ ’’جناب‘‘ آج کل سب کو بلا بلا کر ملتے ہیں۔دن میں کئی کئی بار ملتے ہیں،ہر وقت مشاورت میں مشغول ہیں،بات چیت پر آمادہ ہیں،مطالبات تسلیم کرنے پر تیار ہیں،مذکرات کا دعوت نامہ بن چکے ہیں،چہرے پر ہر وقت مصنوعی مسکراہٹ ہے،مکا بند رہنے کی بجائے کھلا رہتا ہے،گلا خراب ہو چکا ہے،وزن تیزی سے کم ہو رہا ہے اور زبان پر ہر وقت یہ بات ہے:

’’میں سب کچھ ماننے پر آمادہ ہوں،ہر بات کرنے پر تیار ہوں بس آ کر بات چیت کر لیجیے،ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرا لیجیے جو کچھ کرنا ہے کر لیجیے بس حکومت رہنے دیجیے‘‘…

کاش!

بادشاہ سلامت شہداء کے خون کو نہ بیچتے اور قومی پالیسی سے اتنا سپیڈی انحراف نہ کرتے تو یہ صورتحال پیش نہ آتی۔کھانے پینے،کرپشن،اقربا پروری ،دوست نوازی،عالمی قوتوں کی کاسہ لیسی،آئی ایم ایف کی گدائی،لوڈ شیڈنگ وغیرہ کے جرائم تو پچھلی حکومت نے ان سے بہت بڑھ کر کئے مگر اپنے پانچ سال پورے کر گئی اور ایسی کسی صورتحال سے دوچار نہ ہوئی اور ادھر یہ وبال دو سال سے پہلے ہی آ گیا۔

بادشاہ سلامت یا تو خود سوچنے کی زحمت کر لیں یا اپنے ساتھ موجود چند پڑھے لکھے حضرات کو سوچنے کا حکم دیں کہ کچھ تو ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے یہ ’’انقلاب‘‘ آیا ہوا ہے۔

٭…٭…٭

’’آزادی‘‘ صاحب اپنے مادرپدر آزاد لشکر کے ساتھ تاحال اسلام آبادکی سڑکوں پر ہیں،ہر چند گھنٹے بعد بیان بدل رہے ہیں اور ایک کے بعد ایک دھمکی کے ذریعے بادشاہ سلامت کے ہوش اڑا رہے ہیں۔وہ سول نافرمانی کا اعلان کر چکے ہیں اور حسب سابق یہ اعلان کرتے وقت انہوں نے کسی سے سول نافرمانی کا مطلب پوچھا اور نہ اس دھمکی پر عمل درآمد کے امکانات کا جائزہ لینے کی زحمت کی۔

لوگ بجلی اور گیس کا بل نہ دیں۔اس پر اگر بجلی گیس کٹ جائے تو صبر کریں پہلے کون سی آتی ہیں۔لوگ حکومت کو ٹیکس نہ دیں میں بھی نہیں دوں گا۔اب کوئی خان صاحب سے پوچھے جناب ٹیکس کٹوائے بغیر ایک موبائل کارڈ چارج کر کے دکھا دیں یا ایک ماچس خرید کر دکھا دیں۔

لیکن وہ تو فاسٹ باؤلر ہیں ان کا کام بال پھینکنا ہے،آگے کیا ہوتا ہے یہ کام بیٹسمین اور تماشائیوں کا ہے ان کا نہیں۔ویسے بھی ٹیکس نہ دینا نواز شریف کے ساتھ اتحاد کے مترادف ہے کہ اس کی نافرمانی،وہ بمع اہل و عیال پہلے سے ہی ٹیکس نہیں دیتے۔ان کے اس علان پر تو پرویز خٹک کو بھی تھوڑی دیر کے لئے ہوش آ گیا اور انہوں نے اعلان کیا کہ خان صاحب کا یہ اعلان باقی ملک کے لئے ہے ان کے صوبے کے لئے نہیں،سنا ہے اپنے آزاد ساتھیوں کی طرف سے اس اعلان پر کافی ’’آزادانہ‘‘ لعن طعن کے بعد خان صاحب اس کام سے غیر اعلانیہ دستبردار ہو گئے ہیں اور اس دستبرداری کا اعلان انہوں نے حسب سابق اگلی سیڑھی چڑھ کر کیا ہے۔آج رات ریڈ زون میں داخلے،نواز شریف کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے اور حکومت سے ہٹانے کا اعلان ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ عہد بھی ہے کہ نہ کوئی چیز توڑی جائے گی نہ پھوڑی جائے گی البتہ نواز شریف کے گریبان کا بٹن ٹوٹ گیا تو اس پر پیشگی معذرت اور ایسے کمزور بٹن لگانے والے درزی پر پیشگی …ویسے توخان صاحب اچھے آدمی ہیں،بس ذراسوچنے اور مشورہ کرنے کی عادت ڈال لیں تواور اچھے ہو جائیں گے…

٭…٭…٭

جناب’’انقلاب‘‘ بھی تا حال ہر بارہ گھنٹے بعد ’’انقلاب ‘‘برپا کر رہے ہیں۔آپ حیران نہ ہوں،انقلاب کا مطلب ہوتا ہے بدلاؤ اور وہ ہر بارہ گھنٹے بعد بیان،مطالبات اور اعلانات بدل رہے ہیں۔یہ انقلاب نہیں تو اور کیا ہے؟…

ویسے ’’جناب ‘‘تو ہیں ہی سراپا انقلاب، ان کی ساری زندگی اس انقلاب کا نام ہے کہ آج جو کچھ ہو کل وہ نہ ہو،آج جو کچھ کہو کل وہ نہ کہو،اردو میں جو کچھ کہو انگریزی میں اس کے برعکس کہو، پاکستان میں کچھ کہو کینیڈا میں جا کر کچھ اور کہو۔ایسا آدمی انقلاب نہیں لائے گا تو اور کیا لائے گا۔جناب کی تو یہ حالت ہے:

کروں گا کیا جو ’’انقلاب‘‘ میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

اللہ تعالیٰ جب ناراض ہوتے ہیں تو عقل سلب فرما لیتے ہیں۔’’جناب‘‘ کی کتابیں ،تقریریں ،ذاتی زندگی اتنے تضادات اور انقلابات کا مجموعہ اور مرقع ہے کہ

تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہم

اس کے باوجود جو لوگ ان کے پیچھے چل رہے ہیں ،انہیں رہنما اور مقتدا سمجھ رہے ہیں اور قوم کی بیٹیوں کو اس طرح سر عام نچاتا دیکھ بھی ایک مذہبی اور روحانی شخصیت سمجھ رہے ہیں،ان کی عقل چھین لی گئی ہے۔وہ توبہ کریں تاکہ انہیں یہ بیش بہا دولت واپس مل جائے۔یقیناً یہ تمام لوگ قابل رحم اور قابل دعاء ہیں کہ ایک سخت مصیبت اور عذاب سے دوچار ہیں۔

اللہ تعالیٰ انہیں ایمان اور نجات عطاء فرمائے۔

بہرحال اس سارے قضیے کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظالموں پر ظالموں کو مسلط کر رکھا ہے اور یہ ایک دوسرے کو غلطیوں کی سزا دے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ان سب سے بچا کر ان لوگوں کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے جو زبان کے سچے اور کردار کے پکے ہیں۔الحمد للہ رب العالمین

٭…٭…٭
رپورٹیں

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 457)

دنیا کے بڑے اور معروف اخبارات کی چند تازہ رپورٹیں ملاحظہ فرمائیں، کئی خوش کن باتیں ان میں درج ہیں ،جو غموں کی برسات میں خوشیوں کا ایک لطیف جھونکا ہیں:
’’امریکی اسلحہ غائب‘‘

افغانستان کی تعمیر نو کے لئے قائم کیے گئے امریکی ادارے کے اہم عہدیدار ’’جان سوبکو‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی حکومت کی طرف سے افغان فورسز کو فراہم کئے جانے والے اسلحہ کی ایک بڑے مقدار پُراسرار طور پر ’’غائب‘‘ ہو گئی ہے۔بیان کے مطابق امریکی کلاشنکوف کا جدید امریکی ماڈل اور شیل فائر کرنے والے گرنیڈ لانچر (جو کلاشنکوف کے ساتھ لگا کر چلائے جاتے ہیں) ۸ لاکھ سے زائد مقدار میں افغان آرمی اور مقامی امن لشکروں( جنہیں طالبان ’’اربکی‘‘ کہتے ہیں) کے حوالے کئے تھے۔تازہ تحقیقات کے مطابق ان میں سے تقریباً ۱۰ ہزار کے لگ بھگ گنیں اور لانچر ’’غائب‘‘ ہو چکے ہیں۔اس حوالے سے تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا جس کا سربراہ انہی موصوف ’’جان سوبکو‘‘ کو بنایا گیا۔تحقیقات ہوئیں تو عقدہ کھلا کہ اسلحہ طالبان کے ہاتھوں میں ہے۔اس کا کچھ حصہ انہوں نے قیمتاً خریدا ہے جبکہ زیادہ تر مقدار افغان فورسز کی طرف سے رضاکارانہ طالبان کے حوالے کی گئی ہے،اس معاہدے پر کہ طالبان کچھ عرصے تک اس علاقے میں تعینات افغان فورسز پر ازخود حملہ نہیں کریں گے۔گویا جان بخشی کی قیمت ادا کی گئی ہے۔شروع میں اس خبر سے امریکی ایوان اقتدار اور افواج میں بہت کھلبلی مچی،انہوں نے افغان حکومت سے احتجاج کیا،افغان فوجی حکام کی گوشمالی کی اورتحقیقات کے لئے کمیشن بٹھایا لیکن اب امریکی حکام ایک جملہ کہہ کر اس معاملے سے لاتعلق ہو گئے ہیں کہ ’’ہم توافغانستان سے چلے جائیں گے،اس اسلحہ کا سامنا انہی لوگوں نے کرنا جنہوں نے یہ بیچا یا حوالے کیا ہے‘‘…

اس اسلحہ کی مالیت 6 ارب 26 کروڑ ڈالر بتائی جا رہی ہے۔یقینی بات ہے کہ اتنا مہنگا سامان طالبان خرید تو نہیں سکتے اس لئے یہی بات درست لگتی ہے کہ اسلحہ ان کے حوالے ہوا ہے۔دراصل افغان فورسز میں طالبان کے حامی بلکہ باقاعدہ ارکان کی تعداد گنتی سے باہر ہے۔ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی افغان فوجی کوئی بڑی کارروائی کر گزرتا ہے۔حال ہی میں ایک افغان سپاہی نے امریکی جنرل کو ہلاک کر دیا،جرمن جنرل کو زخمی کیا اور دیگر کئی اہم نیٹو اور افغان اہلکاروں کو نشانہ بنا کر جام شہادت نوش کیا ہے۔یہ کارروائیاں اتفاقی یا کسی وقتی غصے کا مظہر نہیں بلکہ یہ لوگ اصل میں ’’طالبان‘‘ ہیں جو انہی کاموں کے لئے افغان آرمی میں بھرتی ہوتے ہیں۔یہ مناسب موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور میسر آتے ہی کام کر گزرتے ہیں۔اسی طرح افغان آرمی اور پولیس میں بڑے بڑے افسران در حقیقت ’’طالبان‘‘ ہیں،نیٹو کانوائے گزرنے کی اطلاعات،چھاپوں کی بروقت خبر اور ان کی نقل و حرکت کی مکمل جانکاری طالبان کو ان سے ملتی ہے۔کیا عجب کہ یہ لوگ امریکہ سے اسلحہ وصول کرتے ہی اسے ’’محفوظ‘‘ ہاتھوں میں پہنچا دیتے ہوں اور وہ اس کام پر باقاعدہ مامور کیے گئے ہوں۔
’’پرانا خوف‘‘

روس کو یاد ہے کہ جب اسے افغانستان میں شکست ہوئی اور اس کی افواج کو ذلیل و رسوا ہو کر وہاں سے نکلنا پڑا تھا تواس کا نتیجہ محض ایک ملک میں فوجی شکست نہیں تھا، بلکہ پورے سوویت یونین کی بربادی اور تمام مقبوضات کی آزادی کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔افغانستان میں اب دوسری سپرپاور ذلت و شکست کے دھانے پر ہے اور یہ جہاد بھی اپنی عظیم کامیابی سے بالشت بھر فاصلے پر ہے تو روس کو پھر انجانے خوف ستانے لگے ہیں۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ سوویت یونین والے انجام سے دوچار ہو کر جانے والا ہے۔اس کے بعد خطرہ ہے کہ تاجکستان اور ازبکستان میں جہادی تحریکیں پروان چڑھیں گی اور ہمارے لئے اس خطے میں مشکلات پیدا ہوں گی۔

تاجکستان کے صدر سراج الدین اسلوف سے ملاقات کے بعد دونوں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اس تشویش کا اظہار کیا اور اس صورتحال میں باہمی تعاون کا عہد کیا۔یہ بھی کہا گیا کہ چین کے جھنڈے تلے ’’شنگھائی تعاون فورم‘‘ کو بھی اس امر سے آگاہ کیا جائے گا اور ایک مشترکہ لائحہ عمل بنائے پر غور کیا جائے گا۔

عجیب بات ہے کہ بہت سے مسلمانوں کو ابھی تک افغانستان کا جہاد سمجھ ہی نہیں آیا جبکہ کفار اس کے شعلوں کو افغانستان کی سرحد پار کرتا دیکھ رہے ہیں۔
’’ہر معیار پر شکست‘‘

اسرائیل میں عبرانی زبان میں شائع ہونے والے ایک بڑے اخبار ’’والا‘‘ میں معروف اسرائیلی دفاعی عسکری تجزیہ نگار ’’مناہم بن‘‘ نے ایک تہلکہ خیز تجزیہ رقم کیا ہے:

’’ آپ جنگ میں فتح و شکست کا کوئی بھی معیار مقرر کریں اور پھر اس معیار پر اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط کی گئی حالیہ جنگ کو پرکھیں۔آپ ہر طرح سے یہ کہنے پر مجبور ہونگے کہ ہم نے شکست کھائی ہے…

ہم جنگ بندی کرتے ہیں جبکہ اس کے خاتمے کا اعلان’’حماس‘‘ کی طرف سے راکٹ بازی کے ذریعے ہوتا ہے۔جنگ بندی ہمیشہ کمزور کرتا ہے اور اس کا خاتمہ طاقتور اور فاتح کی طرف سے ہوا کرتا ہے۔

غزہ کے لوگ اتنی شدید بمباری کے باوجود نہ اپنا علاقہ چھوڑ رہے ہیں اور نہ حماس سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں،سب لوگ وہیں ہیں اور حماس کے ساتھ ہیں،عارضی جنگ بندی کے مختصر دورانیے میں غزہ کے عوام نے حماس کے ساتھ یکجہتی کے لئے ریلی نکالی جبکہ اسرائیل میں صورتحال یہ ہے کہ عسقلان،بیر السبع اور اسدود جیسے غزہ کے قریب واقع شہر یہودیوں سے خالی ہو چکے ہیں اور یہ لوگ تل ابیب آ کر حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ یا تو انہیں تحفظ فراہم کرے یا پھر وہ اسرائیل چھوڑ کر اپنے پرانے ملکوں کو واپس لوٹ جائیں گے جہاں سے وہ اسرائیل آئے تھے۔‘‘…

’’ میں خدا کی قسم دے کر نیتن یاہو کو کہتا ہوں کہ ایسا کبھی مت کہنا کہ ہم فتحیاب ہوئے۔یہ شکست ہے واضح شکست اور اسرائیل کو اس کا خمیازہ بہت طویل عرصے تک بھگتنا ہو گا۔‘‘…

’’ہماری فوج جسے ہم نے اور دنیا بھر میں ہمارے معاونین نے ہر طرح کے سازوسامان اور تربیت سے لیس کیا حماس کا کیا بگاڑ سکی؟…کیا اس نے حماس کی قیادت کو شہید کر لیا؟ …کیا وہ سرنگوں تک رسائی حاصل کر سکی؟…کیا وہ ان خفیہ اڈوں کو تباہ کر سکی جہاں سے میزائل آتے ہیں؟…کیا وہ حماس کی تباہ کن جنگی قوت کو بکھیر سکی؟…اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو نیتن یاہو اور اس کی کابینہ کس فتح کی نوید ہمیں سنا رہے ہیں؟…‘‘

’’اس بدترین شکست نے اسرائیل کے وجود کو ہی خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔یہودی آبادکار ابھی عسقلان اور غزہ کے قریبی علاقوں سے سکونت ترک کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب دور کے علاقوں میں بھی شروع ہو جائے گا کیونکہ سب ہی عدم تحفظ کا شکار ہیں‘‘…

‘‘ہماری فوج ’’حماس‘‘ سے لڑنے گئی لیکن اپنی بکتر بند گاڑیوں سے باہر نہیں نکلی کیا اس فوج کے بھروسے پر لوگ اسرائیل میں رہ سکیں گے؟‘‘…

’’آخری بات یہ ہے کہ یہ ہماری بدترین شکست ہے اور حکومت کا یہ کہنا کہ انہوں نے بہت سے فلسطینی مار دئیے ہیں اور غزہ کو تباہ کر دیا ہے ہمارے دلوں کو تسلی نہیں دے سکتے۔ہم نے بہرحال شکست کھائی ہے۔‘‘…

’’اہل غزہ کی عزیمت کی گواہی‘‘

برطانیہ کے معروف ترین اخبارات میں سے ایک ’’سنڈے ٹائمز‘‘ کے مراسلہ نگار ’’مائیلز اومر‘‘ نے غزہ سے مراسلہ بھیجا ہے جس کے الفاظ درج ذیل ہیں:

’’ حماس نے حالیہ جنگ میں اسرائیل کو جن نقصانات سے دوچار کیا ہے وہ ابھی تک ایسی تمام جنگوں میں کئے جانے والے نقصان سے چھ گنا زائد ہیں اور غزہ کے لوگ باوجود شدید تباہی اور جانی نقصانات کے حماس کے ساتھ شیروں کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔یہ لوگ حماس کے مجاہدین کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور ہر نقصان اٹھا کر دل سے ان کے ساتھ ہیں۔میں نے حماس کے چند مسلح مجاہدین کو دیکھا جو کئی دن ایک سرنگ میں رہ کر نکلے تھے۔وہاں صرف کھجوریں کھا کر یہودی افواج سے لڑتے رہے تھے،لوگ ان کے باہر آنے کے بعد انہیں گلے لگا کر مل رہے تھے اور ان کے حق میں نعرے بلند کر رہے تھے۔اسرائیل نے اس جنگ میں 1900سے زائد فلسطینی قتل کر دئیے ہیں،کئی محلے صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں اور تقریباً 65ہزار لوگ بے گھر ہوئے ہیں اس کے باوجود غزہ والوں کا یہ جذبہ ہے۔

مجھے ایک مجاہد نے کہا:

’’ ہم نے یہودیوں پر ثابت کر دیا ہے کہ ہم ان سے طاقتور اور مضبوط ہیں۔غزہ میں سب لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور ہماری مدد کر رہے ہیں…‘‘

حماس نے اس جنگ میں یہود کو دو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچایا ہے۔پہلی بار حماس کے مقاتلین نے اسرائیل کے اندر تک گھس کر عسکری کارروائیاں کی ہیں،انہوں نے اسرائیلی فوج کو گھیر کر مارا ہے،پہلی بار ان کے مقامی طور پر تیار کیے میزائل اسرائیل کے دوردراز علاقوں تک جا پہنچے ہیں اور انہوں نے پہلی بار اسرائیلی بحریہ کے جہازوں کو نشانہ بنایا ہے۔پہلی بار وہ اسرائیل پر خود ساختہ ڈرون اڑانے میں کامیاب رہے ہیں۔اس طرح انہوں نے اس جنگ میں اسرائیلی فضائی حدود کو بھی معطل کر دیا اور دو دن تک ملک کے تمام بڑے ائیر پورٹ بند رہے۔‘‘…
’’اسرائیل ناکام‘‘

دی آبزرور نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ

’’اسرائیل اس جنگ میں بری طرح ناکام ہوا ہے اور پوری دنیا کے سامنے اس کا مقام بری طرح مجروح ہوا ہے۔اسرائیل کا دعوی ہے کہ وہ میزائل باری کے دسیوں اڈے اور میزائل سازی کے کئی کارخانے تباہ کرنے میں کامیاب رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میزائل باری کے سینکڑوں مقامات، سرنگیں اور کارخانے ابھی تک محفوظ اور فعال ہیں اور حماس آج ہر زمانے کی نسبت زیادہ مضبوط اور موثر قوت بن چکی ہے اور وہ جنگ کے تمام وسائل سے لیس ہو چکی ہے۔

غزہ میں ہونے والی تباہی ،عوامی ہلاکتیں اور لوگوں پر فقرو فاقے اور بے سروسامانی کی جو کیفیت ہے اس کے باوجود شدید مزاحمت نے اہل غزہ اور حماس کو دنیا کے سامنے ایک ہیرو کے روپ میں پیش کیا ہے اور اسرائیل زمینی حملے سے پسپائی اختیار کرنے کی وجہ سے ایک ناکام طاقت تصور کیا جا رہا ہے۔‘‘…

٭…٭…٭
کرنے کے کام…

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 456)
پہلی بات:

کیا فیس بک،ٹویٹر وغیرہ ایسے ذرائع ہیں جن کی بنیاد پر کسی کے بارے میں درست رائے قائم کی جا سکے؟…

اگر ان شیطانی ہتھیاروں کی ایجاد کا مقصد سچ کا فروغ ہوتا تو انہیں یہود نہ بناتے۔ان پر جھوٹ بکتا ہے،جھوٹ پھیلایا جاتا ہے اور جھوٹ میں الجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔وہ لوگ اچھے ہیں اور اچھا کر رہے ہیں جو ان کا مثبت استعمال کر کے سچ سامنے لانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی بہرحال یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ ان ذرائع سے رائے سازی کا کام ہرگز نہ لینا چاہیے۔
دوسری بات:

’’جہاد‘‘ جب اپنے عروج کی طرف گامزن ہوتا ہے اور تحریکاتِ جہاد کے اثرات سامنے آنے لگتے ہیں تو کفار کے لئے چونکہ میدان میں مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے اس لئے ایک حرکت عام طور پر یہ کی جاتی ہے کہ اس تحریک کے بارے میں کوئی ایسی فضول بحث شروع کر دی جاتی ہے جس میں الجھ کر لوگوں کا ذہن اس تحریک سے پھرنے لگتا ہے۔یہ کام پہلے بھی ہوتا تھا لیکن ان شیطانی ذرائع کی ایجاد اور میڈیا کے ملیریائی پھیلاؤ کے بعد تو بہت آسان اور بہت شدید ہو گیا ہے۔

اب آئیے مقصودی بات کی طرف!

شام میں گذشتہ ڈھائی سال سے جاری تحریکِ جہاد کے بارے میں عامۃ المسلمین کے ذہن تقریباً یکسو تھے اور ان کی تمام تر ہمدردیاں سفاک قاتل بشار کی حکومت کے خلاف برسرپیکار مجاہدین کے ساتھ ہو گئیں تھیں۔بشار اور اس کی قاتل ملیشیا کے غیر انسانی مظالم، بچوں کی بے گوروکفن لاشیں،تشدد زدہ بکھرے جسم اور گلی گلی بکھری ظلم و تشدد کی ان داستانوں نے مسلمانوں کو ایک رائے پر جمع کر رکھا تھا کہ اس تحریک میں عوام اور ان کے نمائندگان حق پر ہیں۔سب کی دعائیں بھی ان کے ساتھ تھیں اور جو جس حد تک عملی تعاون کی استعداد رکھتا تھا وہ بھی کر رہا تھا۔اس صورتحال نے کفریہ طاقتوں خصوصا ًاس جنگ کے اصل فریق ایران کو شدید پریشانی میں مبتلا کر رکھا تھا۔اس کا نفاق پوری امت مسلمہ پر طشت ازبام ہو رہا تھا،اسلام دشمنی آشکار ہو رہی تھی،ساری دنیا کے مسلمان ان مظالم کو دیکھ رہے تھے جو ایرانی ایجنٹوں کی طرف سے شام میں ڈھائے جا رہے تھے اور وہ یہ دیکھ کر سوچنے پر مجبور تھے کہ کیا یہ سب کرنے والے لوگ مسلمان کہلانے کے مستحق ہیں۔شام کی تو یہ صورتحال تھی۔ہمسایہ ملک عراق میں بھی صورتحال اس سے کچھ مختلف نہیں تھی لیکن اب تک دنیا کے سامنے نہ آئی تھی۔امریکہ کی طرف سے قائم کی گئی ایرانی حکومت کی طرف سے وہاں اہل سنت کے ساتھ کیاسلوک روا رکھا جا رہا تھا کچھ معروف عرب علماء کی طرف سے ان کی جو تفصیلات متاثرین کی زبانی سامنے لائی گئیں اسے چند منٹ دیکھنا کسی مضبوط ترین دل والے شخص کے لئے بھی ممکن نہیں ہے۔

اس صورتحال نے وہاں بھی ایک زبردست تحریک ِمزاحمت کو جنم دیا اور اہل ایمان اپنے ایمان،جانوں اور عزتوں کے تحفظ کے لئے ہتھیار اٹھا کر میدان میں آنے پر مجبور ہو گئے۔عراق کے سنی اکثریت والے علاقوں میں قبائل نے اس تحریک کا آغاز کیا۔شروع میں مقامی طور پر حکومت نے ریاستی طاقت کے زور پر اسے دبانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی تو اس نے ایران اور حزب اللہ سے مدد طلب کی۔یہ دونوں اس خطے میں ہر جگہ مذہبی بنیاد پر مداخلت کے لئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔ان کے لڑائی میں کود پڑنے سے مزاحمت میں اور شدت آئی اور مجاہدین کے لشکروں نے علاقے فتح کرنا شروع کر دئیے اور صورتحال بالکل شام جیسی ہو گئی کہ دنیا بھر کے اہل ایمان کی قلبی اور عملی ہمدردیاں عراق میں جہاد کرنے والوں کے ساتھ ہوتی جا رہی تھیں۔ایسے میں دونوں جگہ وہی شیطانی کھیل کھیلا گیا اور ایک فضول خرافہ گھڑ کر مسلمانوں کو اس کے بارے میں بحث میں مبتلا کر کے اصل مقصد سے ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی جو بد قسمتی سے کافی کامیاب نظر آ رہی ہے۔ اور اب توجہ کا زیادہ محور شامی و عراقی حکومت کے مظالم اور ان کے خلاف جاری تحریک نہیں بلکہ یہ بات ہے کہ ’’داعش‘‘ ٹھیک ہے یا غلط…

شام اور عراق میں کارروائیوں کے حوالے سے ایک نام کافی عرصے سے گردش میں ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر اس نامبارک بحث کو چھیڑا گیا ہے۔وہ نام ہے ’’داعش‘‘ یعنی ’’الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام‘‘۔یہ تنظیم کچھ عرصے قبل ہی منظر عام پر آئی اور پھر اپنی تباہ کن کارروائیوں اور میڈیا کے بھرپور اور مؤثر استعمال کے ذریعے اس کا نام دنیا بھر میں گونج اٹھا۔پہلے شام کے سرحدی علاقوں پر کنٹرول اور پھر عراق میں باقاعدہ لشکر کشی کے انداز میں پیش قدمیاں اور عظیم فتوحات۔یہ سب کچھ کافی خوش کن تھا اور اہل ایمان اپنے قلوب میں ٹھنڈک محسوس کر رہے تھے کہ ساتھ ہی سوشل میڈیا پر اس تنظیم کے حوالے سے ایک منظم مہم چل پڑی۔

یہ تکفیری لوگ ہیں۔انہوں نے شام و عراق میں پہلے سے برسرپیکار مجاہدین کو قتل کیا ہے۔یہ بیعت نہ کرنے والوں کا خون مباح سمجھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔اس بحث نے فتوحات کے منظر نامے کو دھندلا دیا،بشار اور مالکی حکومت کے وحشیانہ مظالم اور اہل ایمان کی مظلومیت سے نظریں ہٹا دیں اور اب لوگ صرف اس بحث میں الجھے نظر آ رہے ہیں کہ حق پر کون ہے؟ داعش یا دوسری تنظیمیں؟ یہ سوچے بغیر کہ اس بحث کے لئے یہ مناسب وقت ہے یا نہیں؟ اس وقت یہ بحث مفید ہے یا مضر؟ ہمارے پاس بھی اس سوال کی بھرمار ہے اور اب تک جواب نہ دینے کی وجہ سے کئی حضرات دشنام طرازی پر بھی اتر آئے ہیں۔اس لئے ضرروی ہے کہ کچھ مختصر باتیں عرض کر دی جائیں۔

ہم اس جواب کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

پہلے چند سوالات:

(۱) ان دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کے یا دونوں کے حق پر ثابت کر دئیے جانے کی صورت میں یہ بحث کرنے اور اسے ہر جگہ چھیڑ بیٹھنے والے حضرات حق جماعت کے ساتھ مل کر جہاد پر چلے جائیں گے؟…

(۲) کیا وہ اپنا مالی تعاون ان حضرات تک پہنچانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں میں انہیں حق و باطل میں امتیاز کرنا لازم ہو گیا ہے؟

(۳) کیا داعش اور بقیہ تنظیمیں طاغوت اور اس کے لشکر کے خلاف برسرپیکار نہیں؟…

(۴) کیا عالم کفراور اس کے حواری داعش اور دیگر جہادی تنظیموں سے خوش ہیں؟

(۵) عالم اسلام میں کفر سے برسرپیکار کون سی حق جہادی تنظیم ہے جس پر سی آئی اے اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ ہونے کا الزام نہیں لگایا گیا؟

(۶) کیا محض زبانی تلذذ اور ذہنی عیاشی کے لئے چھیڑی جانے والے یہ بحث جہاد کی تقویت اور مظلوموں کی اشک شوئی کا باعث بن رہی ہے یا اس کے برعکس معاملہ ہے؟

(۷) کیا دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کے غلط ثابت ہو جانے کی صورت میں آپ اس کے خلاف لڑنے جائیں گے یا محض فیس بک پر نئی پوسٹس اور موبائل پر میسج چلائیں گے؟

سب سے پہلے تو خود سے ان سوالات کے جوابات مانگیں۔امید ہے افاقہ ہو گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ جہاں بھی جہاد ہوتا ہے وہاں اتنی تنظیمیں کیوں بن جاتی ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں:

(۱) خلافت کا نہ ہونا۔جب خلافت قائم ہو تو مسلمان طوعاً و کرھاً کسی ایک شخصیت پر جمع ہوتے ہیں۔ سوائے مخصوص حالات کے اس شخص کی اطاعت میں رہنا لازم اور اس سے روگردانی کرنا حرام ہوتا ہے، اس لئے تنظیمیں بننے اور ایک سے زائد امراء کے مقرر ہونے کا کوئی احتمال باقی نہیں رہتا۔مسلمانوں کو متحد رکھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے خلافت۔جب یہ موجود نہ ہو تو اتحاد و اتفاق ایک ایسا خواب بن کر رہ جاتے ہیں جو شرمندہ تعبیر تو نہیں ہو سکتا البتہ ریٹائرڈ اور بیکار افراد کے لئے چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بنانے کا بہانہ ضرور بن جاتا ہے۔ایسے میںیہ سوچنا کہ جہاد ہو مگر ایک ہی تنظیم کے تحت ہو ممکن نہیں ہو سکتا۔

(۲) دنیا کے اس وقت جو حالات ہیں ان کے پیش نظر بھی ایسا ہونا فطری عمل ہے۔مسلمان ہر جگہ مظلوم ہیں، جہاد اقدامی نہیں دفاعی ہے،جہاں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے اور انہیں سمجھ میں آتا ہے کہ جہاد اور مزاحمت کے بغیر وہ نجات نہیں پا سکتے وہاں اس مقصد کے حصول کے لئے جہاد شروع کر دیتے ہیں۔جہاد کے لئے چونکہ جماعت اور امیر ہونا لازم ہے اس لئے وہ اپنے درمیان بہترین اور کار آمد شخص کو اپنا امیر بناتے ہیں اور جہاد شروع کر دیتے ہیں اس طرح ایک تنظیم وجود میں آ جاتی ہے۔مسلمان ایک ہی ملک میں مختلف علاقوں اور محاذوں میں بٹے ہوتے ہیں،آپس میں مل جل نہیں سکتے،ایک دوسرے سے نا آشنا ہوتے ہیں اس لئے ہر علاقے اور محاذ کے لوگ اپنی جماعت بناتے ہیں۔اپنا امیر منتخب کرتے ہیں تاکہ جہاد کر سکیں۔روس کے خلاف افغانستان میں جو جہاد ہوا اس میں تنظیموں کے تعدد کی یہی وجہ تھی۔اصل تو یہی ہے کہ مسلمان متحد ہوں اور امیر ایک ہو۔لیکن حالات کی وجہ سے اگر تنظیموں کا تعدد ہو جائے اور سب ایک مقصد کے لئے جدوجہد کر رہے ہوں تو یہ کوئی برائی نہیں۔البتہ جہاد سے جب حکومت قائم ہو تو ایک ہو اور اس وقت تنظیمی بنیادوں پر الگ ہونا اور باہم جھگڑنا بلاشبہ برائی ہے۔افغان جہاد میں باوجود درجنوں جماعتوں کے کسی نے اسے غیر شرعی نہیں کہا اور نہ ان تنظیموں کے وجود کو برائی کہا۔ہر ایک نے ان کی مدد کی اور ان کے ساتھ رہا۔البتہ جب یہ تنظیمیں آپس میں لڑ پڑیں سب نے افسوس کا اظہار بھی کیا اور براء ت بھی کی اور متحد ہونے کی طرف بلایا۔اللہ تعالیٰ نے طالبان اور امارت اسلامیہ کی صورت میں اس جہاد کا نتیجہ خلافت کے قیام اور ایک امیر پر اتفاق کی صورت میں عطاء فرمایا۔

(۳) میڈیا کا بے تحاشا پھیلاؤ اور مسلمانوں کا اس پر اعتماد:

یہ ایک امیر اور ایک شخصیت پر اتفاق نہ ہونے کی بڑی وجہ ہے۔کفار اور منافقین ہرگز نہیں چاہتے کہ مسلمانوں میں سے کسی ایک شخصیت کو ایسا مقام اور مرتبہ حاصل ہو جائے کہ تمام لوگ اس پر متفق ہو جائیں۔اس میں انہیں صریح موت نظر آتی ہے اس لئے وہ ایسی شخصیت کو میڈیا اور افواہوں کے ذریعے مجروح کرتے ہیں جس کے بارے میں شبہ ہو کہ وہ امت مسلمہ کی قیادت کی صلاحیت رکھتی ہے۔مسلمان چونکہ میڈیا کی باتوں پر کان دھرتے ہیں خود حالات دیکھنے اور جانچ پرکھ کرنے کے عادی نہیں۔سرحدوں کے نظام،باہمی میل ملاپ کے ذرائع کا فقدان اور ہر شخصیت تک رسائی ناممکن ہونے کی وجہ سے فیصلہ بھی نہیں کر پاتے اس لئے جمع نہیں ہوتے۔پھر انہیں جہاد سے دور کرنے کے لئے اپنے لوگوں کے ذریعے یہ’’دردمندانہ‘‘ دعوت عام کی جاتی ہے کہ جہاد کے لئے ایک امیر لازم ہے اور اتحاد کے بغیر جہاد بے کار ہے وغیرہ وغیرہ۔

اب ان وجوہات کے ہوتے ہوئے اتحاد تو ایک کارِ بعید نظر آتا ہے، کیا اس انتظار میں ’’جہاد‘‘ جیسے فریضے کو ترک کر دیا جائے اور مظلوم مسلمانوں کو ظالموں کے ہاتھوں ذبح ہونے کے لئے چھوڑ دیا جائے یا جیسے تیسے ممکن ہو یہ فریضہ بجا لا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوا جائے؟…
آخری بات:

داعش کیا ہے؟ ان کا طرز عمل کیا ہے؟ ان کا انداز فکر کیا ہے؟ وہ کیا کر رہے ہیں؟ ان باتوں کو جاننے کا ذریعہ ہمارے پاس صرف فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ ہیں۔ان کے مخالفین سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور حامی بھی۔اس لئے سچ جھوٹ کا جاننا اور فیصلہ کرنا نا ممکن ہے۔البتہ جو بات یقینی طور پر معلوم ہے وہ یہ ہے کہ:

بشار اور مالکی دونوں قاتل ہیں۔ان دونوں نے اہل ایمان پر شام و عراق کی سرزمین کو تنگ کر دیا ہے،انہوں نے سفاکیت میں ہلاکو کو مات دے دی ہے۔یہ کفریہ طاقتوں کے آلہ کار اور اسلام دشمن ہیں۔جتنے لوگ بھی ان کے خلاف جہاد کر رہے ہیں خواہ کسی بھی نام سے وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔وہ اسلام کی بقاء اور اپنے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ان سے کفریہ طاقتوں کو بھی تکلیف ہے اور ان کے آلہ کار منافقین کو بھی۔

اب ایک یقینی اور غیر یقینی بات میں ہمیں کس پہلو کو ترجیح دینی چاہیے؟…

لہذا غیر یقینی کو دفع کیجیے!

جتنے لوگ عراق و شام میں جہاد کر رہے ہیں سب کے لئے دعا کیجیے۔سب کے ساتھ جو ممکن ہو تعاون کیجیے۔دعا کیجیے کہ جہاد اپنے نتیجے کو پہنچے۔ظالم شکست کھا کر بھاگ جائیں،مظلوموں کو فتح وامن نصیب ہو جائے۔

خلافت کس کا حق ہے؟

ابو بکر البغدادی ٹھیک ہیں یا غلط؟

انہوں نے اپنے ہاتھ میں رولیکس گھڑی کیوں باندھ رکھی ہے؟ یہ جائز ہے یا ناجائز؟

ان ’’اہم‘‘ مسائل کو فتح کے بعد کے لئے اٹھا رکھیے گا اس وقت خوب بحث کر لیں گے۔

’’یار زندہ صحبت باقی‘‘

فی الحال جو کرنے کا کام ہے وہ ہم سب کر لیں،اسی میں کامیابی ہے…

٭…٭…٭
فتح مبین،حزن عظیم

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 455)

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہود کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

’’ یہ تمہارے خلاف نہیں لڑ سکتے مگر قلعہ بند بستیوں میں بند ہو کر یا دیواروں کے پیچھے سے‘‘( الحشر)

اور یہ بھی کہ:

’’اگر تم سے قتال کریں گے پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے‘‘ (آل عمران)

’’آئرن ڈوم‘‘ کی آڑ میں چھپ کر غزہ پر برستے بموں کا تماشہ دیکھنے والے جونہی زمین پر لڑنے آئے ہیں قرآن کا فرمان عملی شکل میں ظاہر ہو گیا۔

اگرچہ فتح عظیم ہے لیکن ’’شجاعیہ‘‘ کا ملیا میٹ قصبہ اور ڈیڑھ سو سے زائد عورتوں بچوں کی لاشیں ’’حزن عظیم‘‘ بھی ہیں۔اسرائیل نے زمینی کارروائی کے لئے آغاز میں اس علاقے کا انتخاب کیا،دو دن وارننگ دی کہ لوگ یہاں سے نقل مکانی کر جائیں،لوگ فلسطینی ہیں،القدس کے بیٹے ہیں، ’’حماس‘‘ ہیں، وہ نہ نکلے،وحشیانہ بمباری ہوئی،ہر دس سیکنڈ بعد سینکڑوں شیل،کارپٹ بمبنگ اور آگ۔سینکڑوں لوگ شہید ہو گئے،پھر بکتر بند گاڑیوں میں پیک بہادر افواج نے غزہ کی جانب پیش قدمی شروع کردی، مجاہدین حماس نے تو پہلے ہی اعلان کررکھا تھا کہ وہ بڑی شدت سے منتظر اوراستقبال کی بھر پور تیاری میں ہیں اورانہوں نے جو کیا حسب اعلان کیا۔اللہ تعالیٰ کا ایک اور حکم پورا ہوا:

’’اگر ان کو میدان جنگ میں پالو تو ایسا حال کرو کہ پچھلوں کے لئے نشان عبرت بن جائے‘‘ (الانفال)

سو اسرائیل کا پہلا زمینی دستہ پورے اسرائیل کے لئے نشان عبرت بن گیا۔

زمین میں نصب بارودی سرنگیں پھٹیں،گاڑیاں ناکارہ ہو گئیں،اندر بیٹھے فوجی حماس ترجمان کے بقول برائلر مرغیوں کی طرح کانپ رہے تھے۔ایک فائر بھی نہ کر سکے،مجاہدین نے بکتر بند گاڑیوں کے دروازے توڑ کر سب کو مار ڈالا۔شجاعیہ آپریشن کا انچارج ’’دیرزی غسان علیان‘‘ مارا گیا ہے،اسرائیل نے اس کی موت کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔اس بریگیڈئر کے علاوہ دو کرنل،ایک میجر اور تیرہ فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔اسرائیل نے پہلے انکار کر دیا۔مجاہدین نے فوجیوں کی لاشوں کی تصاویر،ان کے بیج نمبر اور نام شائع کر دیے تو ماننا پڑا۔اب پورے اسرائیل میں سوگ ہے اور زمینی کارروائی معطل کر کے پھر وحشیانہ فضائی بمباری شروع کر دی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک اسرائیل فوجی’’شارڈل ارون‘‘ بیج نمبر 6092065 مجاہدین کی قید میں آ گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ حماس پر رحم فرمائے۔ان کی نصرت فرمائے کہ انہوں نے غم و اندوہ کے سیلاب میں اہل ایمان کو خوشی کی ایک خبر سنائی۔ہاں مگر ’’شجاعیہ‘‘ اور غزہ کے دیگر علاقوں میں اہل ایمان خصوصاً غزہ کے معصوم بچوں کے لاشے’’حزن عظیم ‘‘ ہیں۔لازمی ہے کہ ہم اس غم کو محسوس کریں، ان کے لئے دعاء گو رہیں، انہیں یادرکھیں اور اللہ تعالیٰ سے ان کی مدد کی توفیق مانگتے رہیں۔

افغانستان میں کابل پھر فدائی یلغاروں سے گونج اٹھا۔مجاہدین نے گزشتہ کچھ عرصے سے کفار کے سامان حرب کو نشانہ بنانے کی جس پالیسی کا آغاز کیا ہے اس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شدید معاشی نقصان سے دوچار کیا ہے اور ان کی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے۔’’بدری سنت‘‘ پر عمل سے اب تک مجاہدین نے بارہ پندرہ افراد کی قربانی سے دشمن کو اربوں ڈالر مالیت کا نقصان پہنچایا ہے اور اس قدر سامان حرب تباہ کیا ہے جو ایک مضبوط فضائیہ بھی اتنی آسانی سے نہیں کر سکتی۔مجاہدین کے ہاتھوں میں فضائی قوت نہیں ہے،ایسے راکٹ بھی نہیں ہیں جن سے بڑے ہیوی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تباہ کی جا سکیں۔ایسے میں ان فدائی مجاہدین نے ابابیلوں کا کردار ادا کیا ہے۔جنہوں نے کنکروں جیسے چھوٹے چھوٹے بموں سے مسلح ہو کر ان کے اڈوں میں گھس کر ہاتھیوں جیسے دیوہیکل ٹینکر،بکتر بند گاڑیاں اور بڑے بڑے فوجی ٹرک سینکڑوں کی تعداد میں ملیامیٹ کر ڈالے۔رمضان المبارک کے دوسرے ہفتے میں کابل میں اسی نوعیت کی ایک اور بہت بڑی کارروائی ہوئی اور افغانستان میں نیٹو کو تیل کی رسد فراہم کرنے والا سب سے بڑا اڈہ مجاہدین نے تباہ کر دیا۔اس حملے میں دورمارراکٹ کام میں لائے گئے،بغیر کسی مجاہد کی شہادت کے یہ کام انجام پذیر ہوا اور تین سو سے زائد آئل ٹینکر جل کر خاکستر ہو گئے۔اربوں کی مالیت کا تیل جل گیا اور کفار کے خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔اللہ تعالیٰ کی نصرت کے یہ کھلے مناظر ہیں کہ بے سروسامان مجاہدین کس طرح دشمن کو وہ نقصان پہنچانے میں کامیاب رہے جو بغیر جدید طیاروں اور تباہ کن بموں کے بظاہر بالکل ممکن نظر نہیں آتا۔رمضان المبارک کے ایام میں یہ واقعات دراصل بدر کا تسلسل ہیں۔جس اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے ایک نہتی جماعت کو کفار کے کیل کانٹے سے ہر طرح لیس،تکبر میں غرق لشکر پر غالب کر دیا وہ آج بھی اسی طرح اپنی طاقت اور نصرت کے مظاہر دکھاتا ہے تاکہ اس کی حجت تام ہو۔

کابل کاائیرپورٹ ایک بار پھر فدائیوں کے نرغے میں آیا۔عجیب بات ہے کہ سیکیورٹی کے نام پر پورے کابل کو ریڈ زون بنا کر رکھنے والے دنیا کے نامور ادارے تمام تر اسباب کے باوجود اپنی نوعیت کے دوسرے حملے کو روکنے میں ناکام رہے۔پہلے بھی مجاہدین اسی طرز کاحملہ کرکے کابل ایئرپورٹ، اہم تنصیبات اورطیاروں کو نشانہ بناچکے ہیں۔ اس کے بعد سیکیورٹی اداروں کا کہنا تھا کہ انہوں نے آئندہ کے لیے ایسے حملے روکنے کا مکمل انتظام کرلیاہے، لیکن اللہ تعالی کی قدرت کہ عین اسی انداز میں بالکل اسی وقت مجاہدین نے اسی جگہ پر دوسری کارروائی کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے شیروں کو روکنا دنیا کے سیکورٹی اداروں،ان کے آلات اور ان کی تدابیر کے لئے ممکن نہیں ہے۔چار مجاہدوں کا کابل ائیرپورٹ پر راکٹ برسانا اور پانچ گھنٹے تک ہزاروں دشمنوں سے لڑتے رہنا نصرت الہٰی کی واضح نشانی ہے۔

ہندوستان میں بھی سترہ رمضان المبارک کے دن مجاہدین نے انڈین آرمی کو بدر کی یاد دلائی اور چار فوجیوں کو خاک و خون میں تڑپایا۔کشمیر میں اتنی سخت صورتحال، پاکستان،انڈیا بارڈر پر شدید مشکلات اور سخت پابندیوں کے علی الرغم مجاہدین کا باقی رہنا اور کارروائیاں سر انجام دینا بتاتا ہے کہ مشرکین کے خلاف غزوہ ہند کا بازار گرم ہے، ٹھنڈا نہیں پڑا۔ہاں کمی ضرور آئی ہے لیکن اہل ایمان کا عزم ان شاء اللہ ان تمام مشکلات پر غالب آ جائے گا اور کشمیر میں ہندوستانی افواج پر پھر وہی برا وقت لوٹے گا جو آج سے چند سال قبل تک مسلط تھا۔مجاہدین ان مشکلات کے آگے دبے نہیں اور نہ ہی دبنے کا ارادہ رکھتے ہیں،ان کا عزم ہے کہ ہزاروں شہداء کرام کے خون سے معطر اس تحریک کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں گے، خواہ اس کی کچھ بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔

’’القلم‘‘ کے قارئین کو غم اور خوشی کی ملی جلی خبروں کے ساتھ پیشگی ’’عید مبارک‘‘

اللہ کرے ہم سب کے رمضان کا اختتام ایسا ہو کہ عید کا دن واقعی عید مبارک بن جائے۔

گناہوں کی معافی،جہنم سے آزادی اور رحمتوں کی بارش والی عید۔

٭…٭…٭
مرحبا بالشہادۃ

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 454)

کیسی کیسی دردناک تصویریں ہیں…کلیجہ منہ کو آتا ہے…

’’غزہ‘‘

مأسدۃ الاسلام۔ اسلام کے شیروں کا مسکن…

جہاں لوگ ایک جیل میں مقیم ہیں…نہ کھانے کی فراوانی ہے اور نہ پینے کو صاف پانی دستیاب…

نہ دوائیں ہیں اور نہ وہ سامان تعیش،جس کے بغیر رہنا آج کے انسان کا شاید سب سے بڑا مسئلہ ہے…

نہ امن ہے اور نہ روزی…

مگر جسے دیکھو سینہ تانے جی رہا ہے…سر اٹھا کر جی رہا ہے اور انگلیوں سے فتح کا نشان بنا کر جی رہا ہے…

نہ کوئی بھاگنے کے چکر میں ہے اور نہ بکنے پر آمادہ…

’’حماس‘‘ ڈنڈا بردار فورس نہیں جو جبر، سزاؤں، گلے کاٹنے کی ویڈیوز،سر عام کوڑے بازی اور مارا ماری کے زور پر اس علاقے پر قابض ہو…

یہاں سب لوگ ’’حماس‘‘ ہیں۔اپنی خوشی سے، اپنے ایمان کی بنیاد پر اور نظریاتی طور پر…

یہاں رہنے والوں کی شکل کیسی بھی ہو…لباس جس ڈھنگ کا بھی ہو،تعلیم جیسی بھی ہو…

مگر یہ سب ’’حماس‘‘ ہیں…

یہ ارض جہاد ہے،ارض شہداء ہے اور ارض اہل عزیمت ہے…

یہاں سرفروش رہتے ہیں،مزاحمت کار آباد ہیں، ہر دم تیار ہر آن مستعد…

غزہ کا رمضان ہر سال عجیب ہوتا ہے…

شہادتوں کی بہاریں لیے سرخ رمضان…

امت کا امتحان اور غزہ کے کئی لوگوں کے لئے امتحان سے خلاصی اور نجات…

جی ہاں! امت کا امتحان…

’’غزہ‘‘ میں بہنے والا لہو ہمارے لئے ایک سوال ہے اور ہم سب کو جواب دینا ہے…

غزہ میں کٹی پھٹی لاشیں،روتی مائیں،تڑپتی جوانیاں،بھوک سے بلبلاتے بچے،دواؤں کو ترستے زخمی،فاقہ کش روزہ دار…کیا ہماری کوئی مسئولیت نہیں؟…

غزہ تو ایک بار پھر سرفراز ہو جائے گا مگر ہم؟…

غزہ تو پھر جیت جائے گا…امتحان میں کامیاب رہے گا،اس کا فخر اور بڑھ جائے گا…

اس کا نام مزید اونچا ہو جائے گا…مگر امت؟…

مگر عرب و عجم میں بکھرے اربوں مسلمان؟…

اس غزہ کو احمد یاسین نے حماس بنایا ہے…

عبد العزیز رنتیسی نے اپنی لہو سے اس کی بنیاد مستحکم کی ہے…

اور اب قرآن مجید کا بہترین قاری خالد مشعل ایمانی مشعل ہاتھ میں لئے غزہ کی کمان سنبھالے ہوئے ہے…غزہ کو کیسے جھکایا جا سکتا ہے؟اس کے قائد کے صرف ہاتھ ہی نہیں سینے میں بھی قرآن ہے اور قرآن کہتا ہے:

’’کمزور مت ہو،غم مت کرو،تم ہی غالب ہو اگر ایمان پر رہو‘‘ ( آل عمران)

یہ قرآن غزہ والوں کو یہود کے بارے میں بتا رہا ہے:

’’یہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے سوائے زبانی تکلیف پہنچانے کے اور اگر تم سے لڑیں گے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے‘‘ ( آل عمران)

٭…٭…٭

’’مزاحمت‘‘ اور کفر سے ٹکراؤ مسلمان کو کیسا مسلمان بنا دیتے ہیں؟…

آئیے غزہ سے سیکھتے ہیں…

تصور کیجیے۔بمباری ہو رہی ہے۔کالج میں پڑھنے والی ایک طالبہ کو یقینی طور پر نظر آ رہا ہو کہ اس کا بچ نکلنا محال ہے۔موت یقینی ہے۔ایسے میں دنیا کے نام صرف ایک پیغام بھیجنے کا وقت ہو تو وہ کیا لکھے گی؟…

ہو سکتا ہے کوئی مظلومانہ جملہ جو لوگوں کو دیر تک رلاتا رہے…

ممکن ہے کوئی شکوہ…کوئی شکایت کہ ہماری مدد کو کوئی نہ آیا…

ہو سکتا ہے کوئی اپیل…عالمی ضمیر کے نام،اقوام متحدہ کے نام،امریکہ کے نام یا مسلمان حکمرانوں کے نام…

مگر غزہ والے کتنے عظیم،کتنے اونچے اور کتنے عزیمت والے مسلمان ہیں،کیسے سچے مسلمان ہیں،کیسے بلند پایہ ایمان والے ہیں…

غزہ میں کالج پر بم برسائے گئے…ایک سترہ سالہ طالبہ’’ وھبۃ‘‘ نے اس لمحے اپنا آخری پیغام سوشل میڈیا پر شئیر کیا:

’’مرحبا بالشہادۃ‘‘ ( شہادت کو خوش آمدید)

اور پھر اس نے شہادت پا لی…

اہل ایمان!

اسے ایمان کہتے ہیں…اسے محبت کہتے ہیں… یہ ہوتا ہے عشق الہی…اس کا نام ہے شوق لقائے محبوب…

ہاں مگر یہ سوغات غزہ، کشمیر، افغانستان، شام، عراق جیسی جہادی خانقاہوں میں ہی ملتی ہے…

٭…٭…٭

غزہ پر جو شخص حکومت کرتا ہے ایمان و استقامت کا پہاڑ ہے…

اس نے بھی ہم سب کے نام ایک پیغام بھیجا ہے…آئیے پڑھ کر تھوڑا شرمندہ ہوتے ہیں…

تھوڑا روتے ہیں اور کچھ دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے لئے کچھ کرنے کے قابل بنا دے، راستے کھول دے اور رکاوٹیں دور کر دے…

’’مسلمانو!

تمہیں اطلاع کرنی تھی کہ ہم پر بمباری ہو رہی ہے،ہمارے بچے قتل ہو رہے ہیں…

تمہارے آرام میں مخل ہونے پر معذرت…

تمہارا بھائی ’’اسماعیل ہانیہ‘‘

٭…٭…٭
مؤفَّق بندہ

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 453)

ہم کراچی میں پڑھتے تھے۔حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی قدس سرہ کے پاس ان کے ایک مرید کبھی کبھار آیا کرتے تھے۔چھوٹا قد،نحیف سا جسم،سادہ سی صورت ولباس مگر بلا کی پھرتی۔ادھیڑ عمر تھے مگر چھوٹے بچوں کی طرح بھاگتے دوڑتے آتے اور اسی طرح چلے جاتے،آہستہ چلنا انہیں آتا ہی نہیں تھا شاید۔حضرت کی طرف سے انہیں ایک خطاب ملا۔’’مؤفق‘‘ یعنی توفیق یافتہ بندہ۔

پھر ان سے شناسائی ہوئی،دوستی ہوئی اور تعلق محبت تک جا پہنچا۔وہ واقعی مؤفق تھے اور حقیقت میں بہت تیز۔

آہ! ابھی ایک گھنٹہ پہلے وہ موفق بندہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے نیکیوں کے خزانے تیزی سے سمیٹتا سمیٹتا دنیا سے رخصت ہوا

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
ان للّٰہ ما اعطی ولہ ما اخذ وکل شیء عندہ باجل مسمی

’’بھائی حبیب‘‘ رخصت ہوئے۔’’جہاد‘‘ کا ایک باب بند ہوا اور عشق ومحبت و قربانی کی ایک عجیب داستان ختم ہوئی۔اگر کچھ ختم نہیں ہوا تو ان شاء اللہ وہ بھائی حبیب کے وہ صدقات جاریہ ہیں جو انہوں نے اپنی مختصر سی زندگی میں دنیا میں چھوڑے اور ان گنت چھوڑے اور بھائی حبیب کی یادیں ہیں جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔

بھائی حبیب جماعت کے سلسلہ خیر کے تب سے رفیق تھے جب جماعت بنی بھی نہ تھی۔امیر المجاہدین حضرت مولنا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ ہندوستان کی جیل میں تھے،رابطے کے تمام ذرائع مسدود تھے،محدود سی خط و کتابت تھی اس کے علاوہ کچھ نہ تھا۔تب اللہ تعالیٰ کے یہ مؤفق بندے میدان میں کودے۔اللہ تعالیٰ نے مال کی نعمت سے نوازہ تھا اور سخاوت کی صفت سے بھی۔ان کا ہاتھ کھلا اور دل کشادہ تھا۔وہ مال کمانا بھی خوب جانتے تھے اور اس مال سے ’’کمانا‘‘ بھی۔ایسا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بہت سے مالدار لوگ کرتے ہیں لیکن بھائی حبیب کے پاس ایک صفت اور بھی تھی جو اس طبقے میں ان کی امتیازی شان کہی جا سکتی ہے۔مالدار لوگ مال خرچ کرتے ہیں اور دین کے کاموں میں حصہ دار بنتے ہیں مگر ’’رسک‘‘ اور خطرہ مول لینے سے بہت پرہیز کرتے ہیں،دامن بچا کر رکھتے ہیں اور تحفظ کی گارنٹی حاصل کر کے ’’جہاد‘‘ میں شرکت کرتے ہیں۔بھائی حبیب خطرات میںکود پڑتے تھے اور دیوانہ وار کودتے تھے،وہ جب کسی کام کی ٹھان لیتے تو تحفظ اور سیکیورٹی کے ضابطوں سے ماورا ہو کر اسے کرتے تھے۔وہ تیشہ فرہاد لے کر اس وقت میدان میںکودے اور انہوں نے اپنے مال،اپنی لگن اور اپنی قربانی کے ذریعے پاکستان اور تہاڑ جیل کے درمیانی فاصلے کھود کر جوڑ دیے۔رابطے کا ایسا نظام کہ جیل میں لکھا جانے والا ہر لفظ چند منٹ میں پاکستان اور پاکستان سے لکھا جانے والا جواب چند لمحوں میں جیل کی دیواروں میں۔کتابیں آنے لگیں،سامان جانے لگا،مشاورتیں ہونے لگیں اور پلان بننے لگے اور یہ سب کرنے والے حبیب بھائی مزے سے اپنی مقدر شدہ دنیا بھی کماتے رہے،۔دنیا میں گھومتے پھرتے بھی رہے اور مزے بھی کرتے رہے۔ہندوستان کی جیلوں میں قید اسیروں تک کو خیر جب تک پہنچتی رہے گی بھائی حبیب کا نامہ اعمال ان شاء اللہ بھاری ہوتا رہے گا۔پھر جماعت بنی تو وہ سب سے پہلے شامل ہونے والوں میں سے ایک تھے۔وہ پوری صداقت اور جذبے کے ساتھ جماعت میں آئے اور پھر زندگی بھر ہر قیمت پر اپنے اس قیمتی تعلق کو نبھاتے رہے۔ان کی اسی امتیازی شان کے پیش نظر ان کا پہلا جہادی نام’’بھائی فرقان‘‘ مشہور ہوا۔وہ اپنے طبقے میں واقعی ’’فرقان ‘‘تھے۔

وہ مال کے باب میں کیسے مؤفق تھے؟ جماعت سے اللہ تعالیٰ نے خیر کے جتنے بھی کام کرائے ان کا ان تمام کاموں میں ابتدائی حصہ ہوتا،کوئی مہم کوئی بڑی کارروائی اور خدمت کا کوئی کام ایسا نہ ہوگا جس میں ان کا حصہ بالکل ابتداء میں ہی نہ ہو۔ساتھ ساتھ ان بڑے بڑے کاموں میں ان کا بھر پور ’’عملی‘‘ اور ’’جانی‘‘ حصہ بھی رہا جن کی تفاصیل اللہ تعالیٰ کے ہاں درج ہیں۔نہ ان کا پرچار ہو سکتا ہے اور نہ ان پر کہیں سے شاباش مل سکتی ہے۔انہوں نے اپنی اس دیوانگی اور قربانی کی عادت کے سبب تکالیف بھی بہت اٹھائیں ،ستائے گئے،ڈرائے دھمکائے گئے،اور قید کیے گئے۔لیکن ان کے پائے استقلال میںلرزش نہ آئی نہ ہی انہوں نے اپنی روش بدلی۔

وہ مشکلات کی ’’چابی‘‘ تھے۔جہاں سب کی تدبیر دم توڑ جاتی اور وسائل ختم ہو جاتے آگے کا کام اللہ تعالیٰ کی توفیق سے وہ کر دیا کرتے تھے۔اسی وجہ سے ایک بار انہیں محبت سے کسی نے ’’دادا‘‘ کہہ دیا اور پھر ان کا یہ لقب ان کے نام سے زیادہ مشہور ہو گیا۔وہ جماعت میں اسی تعارف سے جانے اور پہچانے جاتے۔

’’دادا‘‘ جہاد کے شیدائی تھے۔مجاہدین کے محب صادق تھے۔وہ مجاہدین میں رہنا پسند کرتے۔بار بار مرکز آتے،بالا کوٹ جاتے اور اپنی سادہ مزاجی اور خوش طبعی کے ذریعے ساتھیوں میں گھل مل جاتے۔بہت جلد بے تکلف تعلقات بنا لیتے اور حلقہ جما لیتے۔حضرت امیر صاحب حفظہ اللہ کے عاشق زار تھے۔دونوں کے درمیان کیسا قلبی ربط اور تعلق تھا اس کی داستان تو حضرت امیر محترم ہی تحریر فرما سکتے ہیں۔مفتی عبد الرؤف اصغر صاحب کے ساتھ بے تکلفی کا قابل دید تعلق تھا۔اور کئی مجاہدین کے ساتھ دوستانہ اور محبانہ تعلقات رکھتے تھے۔آج جس جس نے بھی ان کے اچانک ارتحال کی خبر سنی ہے سکتے میں ہے اور ایصال ثواب میں مشغول ہے۔

’’دادا‘‘ حرمین شریفین کے عاشق تھے،بار بار حاضری کی توفیق ملتی تھی،خوب جاتے تھے اور وہاں خوب کماتے تھے،حرمین میں روزے کے ساتھ رہنا،کثرت سے طواف کرنا،روزانہ قرآن پاک کا ختم کرنا اور وہاں مساکین کی خدمت کرنا ان کا دائمی معمول تھا اور پھر حرمین سے ان کا یہ عشق ان کی ذات تک ہی محدود نہ تھا وہ اپنے متعلقین کو اپنے خرچ پر ساتھ لے جاتے،نہ جانے کتنے لوگ ہوں گے جن کے لئے انہوں نے یہ انتظام کیا،ان کا تو علاج کے لئے کسی طبیب سے بھی تعلق قائم ہو جاتا تو اسے بھی عمرہ کرا دیا کرتے تھے۔

’’دادا‘‘ جماعت کے دیوانے تھے۔جماعت کے ساتھ تعلق کی خاطر انہوں نے اپنے بہت پرانے اور پختہ تعلقات تک قربان کر ڈالے مگر ہر طرح کے حالات میں جماعت کے ساٹھ ڈٹ کر کھڑے رہے اور قربانیاں پیش کرتے رہے۔اس حوالے سے انہیں ایسے حالات سے گذرنا پڑا جو اچھوں اچھوں کا پتہ پانی کر دیں لیکن یہ حالات بھائی حبیب کے جماعت کے ساتھ والہانہ،محباہ اور ایک حد تک سرپرستانہ تعلق میں معمولی سے دراڑ بھی نہ ڈال سکے اور وہ تادم آخر جماعت کے سلسلہ خیر سے جڑے رہے۔جہاد کا اجر کماتے رہے اور مجاہدین کے زمرے میں رہے۔ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشائ۔

’’دادا‘‘ انفاق فی سبیل اللہ کے میدان میں تو ’’سباق‘‘ تھے۔جہادی کارروائیوں میں حصہ شامل کرنا،اپنے مال سے جہادی کتب ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کرانا ان کا دائمی معمول تھا۔ان کے علاوہ جماعت میں جس کام کی بھی آواز لگتی وہ سب سے پہلے اس پر لبیک کہا کرتے تھے اور بھر پور حصہ شامل کرتے۔یوں وہ ہر کام میں سبقت کا اجر پاتے۔

جماعتی امور سے ہٹ کر وہ خیر کے کن کن کاموں میں شامل ہوتے اس کا حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔انہیں ہمیشہ ’’الید العلیا‘‘ کی حالت میں ہی دیکھا۔وہ دیتے رہے اور اللہ تعالیٰ سے لیتے رہے۔ انہوں نے اپنی جان کو ہر خطرے میں ڈالا لیکن اتنی زندگی جی کر گئے جتنی ان کے لئے لکھ دی گئی تھی۔ہندوستان کے دشمنوں کی صف اول میں نام کے باوجود ان کی زندگی کا ایک سانس بھی کم نہ ہوا اور نہ ہی ان کے دشمن ان کا بال بیکا کر سکے۔

انہوں نے اپنے مال سے ہر نیکی کی ،خوب خوب مال خرچ کیا مگر اس سے ان کی دولت کم نہ ہوئی۔وہ مالدار رہے اور مال ان کے پیچھے دوڑ دوڑ کر آتا رہا۔وہ اپنے طبقے کے لوگوں کے لئے ایک روشن مثال ہیں اگر کوئی روشنی حاصل کرے۔

’’دادا‘‘ جیسے خادم جہاد کا یوں اچانک اٹھ جانا سب کے لئے عظیم صدمہ ہے۔سب مغموم ہیں اور دل گرفتہ ہیں مگر یہ اللہ تعالیٰ کی قضاء ہے۔مالک کا فیصلہ ہے اس لئے سوائے یہ کہنے کے اور کوئی چارہ نہیں: انا للہ وانا الیہ راجعون

اللہ تعالیٰ اپنے مؤفق بندے کی کامل مغفرت فرمائے۔ان کے صدقات جاریہ کو تا قیامت جاری رکھے اور ان کے تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔

جہاد میں شرکت

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 452)

ہم سب ’’رحمت‘‘ کے محتاج ہیں۔بہت زیادہ محتاج ہیں…

ہم سب مغفرت کے محتاج ہیں اور بہت زیادہ محتاج ہیں…

ہم سب کو حاجت ہے کہ ہمیں ایمان کامل و صادق نصیب ہو جائے۔یقیناً بہت زیادہ ہے…

تو آئیے کیوں نہ ایسا عمل کریں جو ان تینوں کے حصول کا یقینی ذریعہ ہے…

ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے اور اللہ کے لئے وطن چھوڑ گئے اور (کفار سے) جنگ کرتے رہے وہی اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ اوراللہ بخشنے والا (اور) رحمت کرنے والا ہے۔(سورۃ البقرۃ آیت ۲۱۸)

لیجیے! ’’رحمت‘‘ کا وعدہ آ گیا۔جو ’’جہاد‘‘ کا عمل کر لے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار ہو جائے۔

اور جسے ’’وہ‘‘ خود امید دلا رہے ہیں بھلا اسے نا امید کر سکتے ہیں؟…

ترجمہ:اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور اللہ کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی۔ یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے (اللہ کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے ۔( سورۃ انفال آیت ۷۴)

لیجیے! ایمان کامل کی سند بھی،ایمان صادق کا وثیقہ بھی اور مغفرت بھی اور ساتھ ساتھ ’’رزق کریم‘‘ عزت والی روزی کا بونس بھی۔ اور کیا چاہیے؟…

ترجمہ: مومنو! میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں عذاب الیم سے نجات دے ،(وہ یہ کہ)اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لاؤ اوراللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو۔ اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ،وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تم کو باغہائے جنت میں جن میں نہریں بہہ رہی ہیں اور پاکیزہ مکانات میں جو بہشت ہائے جاودانی میں (تیار) ہیں داخل کرے گا۔ یہ بڑی کامیابی ہے ،(سورۃ الصف ۱۰۔۱۱۔۱۲۔۱۳)

لیجیے!’’عذاب الیم‘‘ سے نجات،گناہوں کی بخشش، جنت کا ٹکٹ،ہمیشہ کی سکونت کا پرمٹ۔ اور دنیا میں فتوحات کی بارش۔اب کیا باقی رہ گیا جسے پانے کی طلب ہو؟…

ایک عمل اور اتنے انعامات۔وہ بھی یقینی…

اب شیطان اور نفس سمجھا رہے ہوں گے کہ تم یہ عمل نہیں کر سکتے۔یہ تو مشکل عمل ہے اس لئے شرکت کا خیال چھوڑو جان چھڑانے کا بہانہ سوچو…

کیا خدانخواستہ ایسا خیال آ رہا ہے؟…

تو جناب کس نے کہہ دیا کہ شرکت مشکل ہے؟…

بہت آسان ہے صاحب! بہت آسان…

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے کسی مجاہد کو سامان جہاد فراہم کیا اس نے بھی جہاد کیا‘‘…

محاذ گرم ہیں،مجاہد برسرپیکار ہیں،سامان آپ کو پتا ہی ہے…

بس فراہم کرنے کی ترتیب بنائیے اور جہاد میں شامل ہو جائیے…

کوئی ہینگ یا پھٹکڑی لگی؟…

مگر رنگ کتنا آیا؟…

ارے صاحب! سب سے جدا رنگ سب سے الگ شان…

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے کسی مجاہد کے گھر والوں کی بھلائی کے ساتھ دیکھ بھال کی اس نے بھی جہاد کیا‘‘

آپ کو علم ہے کہ ’’الرحمت‘‘ والے آج کل آپ کے پاس آ رہے ہوں گے یہ شہداء کرام ،اسیران اسلام اور غازیان دین کے ہزاروں گھروں کی کفالت کر رہے ہیں۔ابھی ایک مہینہ ہی گزرا ہے،انہوں نے کروڑوں روپے کی گندم اور عشر کی رقم ان گھرانوں تک پہنچائی ہے۔اب رمضان اور عید کا خصوصی تعاون جا رہا ہے اور پھر پورا سال ماہانہ وظائف۔اس کے علاوہ ان اونچے گھرانوں میں علاج معالجہ اور دیگر ایمرجنسی حالات میں ہر طرح کا تعاون!یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے اور روز افزوں ہے۔

آپ اس کا حصہ بن جائیے تو آپ کی ’’جہاد‘‘ میں شرکت ہو گئی اور یہ وعدہ ہے نبی کریمﷺ کا۔

تو اب خود بتائیے! شرکت آسان ہوئی یا مشکل؟…

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ(راہ جہاد کے) ایک تیر کے بدلے میں تین لوگوں کو جنت میں داخل کریں گے:

(۱) تیر چلانے والا مجاہد (۲) جہاد کی نیت سے تیر بنانے والا (۳) مجاہد کو تیر پکڑانے والا۔‘‘

تو سوچیے! جو تیر خرید کر دے گا اسے کیا مقام ملے گا؟…

گولی تیر کا مقام رکھتی ہے اور گولی خرید کر دینا کونسا مشکل کام ہے؟…

اب بھی شرکت میں تأمل ہے؟…

اور ہاں! ایک بات اور ذہن نشین کر لیں:

’’جہاد‘‘ میں مال سے شرکت کرنا ایسا عظیم عمل ہے کہ اس کے اجر و ثواب کا پیمانہ ہی الگ مقرر کر دیا گیا ہے۔بنی آدم کی ہر نیکی کم از کم دس گنا بڑھائی جاتی ہے اور زیادہ کی حد نہیں۔مگر ’’جہاد‘‘ میں مال خرچ کرنے کی نیکی کم از کم سات سو گنا بڑھائی جاتی ہے اور زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں…

ترجمہ: جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سو دانے ہوں اوراللہ جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے۔ وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔(سورۃ البقرۃ آیت ۲۶۱)

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’جس شخص نے جہاد میں مال خرچ کیا مگر خود گھر پر رہا اسے ہر درہم کے بدلے سات سو درہم کا ثواب ملے اور جو خود جنگ کے لئے نکلا اور اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے مال خرچ کیا اسے ہر درہم کے بدلے سات لاکھ درہم کا ثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتے ہیں اس کا ثواب بڑھا دیتے ہیں۔‘‘(ابن ماجہ)

صاحب روح المعانی علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں:

’’اجر کا اس قدر بڑھنا جہاد کے ساتھ خاص ہے یعنی جہاد میں خرچ کرنے پر اللہ تعالیٰ اس قدر اجر بڑھا دیتے ہیں جب کہ جہاد کے علاوہ دیگر کسی بھی راستے پر خرچ کرنے سے اجر اس قدر نہیں بڑھتا بلکہ ہر نیکی کا اجر دس گنا دیا جاتا ہے۔‘‘…

اب کیا خیال ہے؟…

آئیے! رمضان المبارک میں اس عظیم عمل میں شرکت کیجیے تاکہ اجر اور بھی بڑھ جائے۔

٭…٭…٭
مجھے جلدی ہے

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 451)

پہلے ایک واقعہ پڑھیے پھر بتاتا ہوں کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں…

صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے بدر کے دن یہ ارشاد فرمایا:

الے لوگو!اٹھو جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے۔ یہ سن کر حضرت عمیرؓ نے کہابخ بخ ( واہ واہ) آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عمیرؓ! کس چیز نے تجھ بخ بخ کہنے پر آمادہ کیا؟ عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا: یارسول اللہ(ﷺ)! خدا کی قسم کچھ بھی نہیں مگر صرف یہ اُمید کہ شاید میں بھی جنت والوں میں سے ہوجائوں۔ آپﷺ نے فرمایا: فانک من اھلھا پس تحقیق بلاشبہ تو اہل جنت میں سے ہے۔ بعدازاں کھجوریں نکال کر کھانا شروع کیں مگر فوراً ہی پھینک دیں اور یہ کہا: اگرمیں ان کے کھانے میں مشغول ہوگیا تو پھر زندگی بڑی طویل ہے۔ کھجوریں پھینک کر قتال میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ رضی اللہ عنہ

ابن اسحق کی روایت ہے کہ عمیرؓ نے تلوار ہاتھ میں لی اور یہ کلمات ان کی زبان پر تھے:
رکضاالی اللہ بغیر زاد
الا التقی وعمل المعاد
والصبر فی اللہ علی الجھاد
وکل زاد عرضۃ النفاد
غیر التقی والبر والرشاد

اللہ کی طرف بغیر توشہ کے دوڑو۔ مگرتقویٰ اور عمل آخرت اور جہاد فی سبیل اللہ پر صبر کا توشہ ضرور ہمراہ لے لو۔ اور ہر توشہ معرض فنا میں ہے۔ مگر تقویٰ اور بھلائی اور رُشد کا توشہ کبھی نہ خراب ہو سکتا ہے اور نہ فنا۔( فتح الجواد جلد ۲)

میرے سامنے ابھی ایک بزرگ بیٹھے تھے،تھوڑی دیر میں چلے جائیں گے،کچھ دیر کے لئے تشریف لائے ہیں اور مجھے کہاں لے گئے ہیں…وہ محویت کے عالم میں سنا رہے ہیں اور میں سن رہا ہوں…

عثمان گھر آیا ہوا تھا۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنی والدہ سے لپٹ جاتا اور بے قراری سے کہتا:

’’ امی! میرے لئے دعائیں نہیں کرتی؟مجھے اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے‘‘…

کبھی بہنوں سے کہتا وظیفہ کرو،صلوۃ التسبیح پڑھ کر دعاء کرو،تہجد کے وقت اٹھا کرو اور دعا کیا کرو…پھر بھائیوں کے ساتھ پروگرام بنایا کہ قلعہ ڈیراور کے قریب مشہور ہے کہ چند صحابۂ کرامؓ کی قبور ہیں،وہاں جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔صبح موٹر سائیکلوں پر روانہ ہوئے،ساٹھ کلومیٹر کا سفر طے کر کے وہاں پہنچے ہی تھے کہ شاید آپ کا فون آ گیا کہ جلدی سے آ جاؤ…وہ فوراً واپس چل پڑا،راستے میں بھائی کہتے رہے کہ کچھ دیر وقفہ کر لیتے ہیں،چائے بوتل پی لیتے ہیں مگر وہ کہتا نہیں! ’’مجھے جلدی ہے‘‘…

گھر آ کر جلدی سے بیگ باندھنے لگا،والدہ نے کہا رات رک جاؤ، صبح چلے جانا،بہاولپور قریب ہی تو ہے۔مگر ایک ہی جواب ’’مجھے جلدی ہے‘‘ …کھانا تو کھا لو…نہیں ’’مجھے جلدی ہے‘‘…مجھے فون کیا:ابو ملاقات کر لیں میں جا رہا ہوں۔میں نے کہا: بیٹا رکو میں ابھی سارے کام چھوڑ کر آتا ہوں۔

نہیں ابو مجھے جلدی ہے،آپ گاؤں نہ آئیں میں وہیں شہر آ کر آپ سے مل لیتا ہوں…

وہ شہر آ گیا، میں نے کہا بیٹا بوتل پی لو۔

’’نہیں ابو مجھے جلدی ہے بس رخصت کریں‘‘

میں نے فون کے تین کارڈ لے کر جیب میں رکھے ہوئے تھے،اسے دئیے کہ رکھ لو گھر رابطے کے کام آئیں گے۔اس نے ایک رکھ کر دو واپس کر دئیے۔میں نے کہا بیٹا رکھ لو کام آ جائیں گے۔

’’نہیں ابو اتنا وقت نہیں ہے،ضائع ہو جائیں گے، مجھے جلدی ہے‘‘…

بس یہ ہماری آخری ملاقات تھی اور مجھے یاد نہیں اس نے اس دن سب گھر والوں سے یہ لفظ کتنی بار کہا:

’’مجھے جلدی ہے‘‘

وہ بہت دھیمے مزاج کا تھا۔بات بھی آہستہ کرتا تھا،کبھی کسی کام میں جلد بازی نہیں کرتا تھا۔پھر اسے آج کیا جلدی تھی؟…

میں نے اس سے پوچھ ہی لیا

عثمان! بیٹا کس بات کی جلدی ہے؟ پہلے تو کبھی ایسے نہیں کہا۔

بس ابو آج بہت جلدی ہے،معاف کر دیجیے گا لیکن آج بہت جلدی ہے۔

دوستو! کوئی سمجھائے گا ہمیں کہ عثمان جیسوںکو اتنی جلدی کیوں ہوتی ہے؟؟

عرصہ ہو گیا ان لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آئی…

کوئی تو سمجھائے…

یہ کون لوگ ہیں جنہیں

تھیلے میں رکھی چند کھجوریں کھا لینے میں،اسٹاپ پر رُک کر بوتل پی لینے یا موبائل کے صرف تین کارڈاستعمال کر لینے میں ’’دیر ہو جائے گی‘‘۔ ان کے پاس ان کاموں کا وقت ہی نہیں کیونکہ انہیں ’’جلدی‘‘ ہے…

یہ لوگ تاریخ کے طاقوں میں جلتے روشن چراغ ہیں،ہر زمانہ ان کی لو سے جگمگاتا ہے…

یہ لوگ زندہ مومن ہیں،قرآن مجید کا وہ مومن جو کسی زمانے میں مرتا نہیں…

یہ وہ حقیقی ’’رجال‘‘ ہیں جن کی تعریف قرآن کریم کی آیات میں مہکتی ہے،ان کے صرف نام بدلتے ہیں کردار صدیوں سے ایک ہی ہیں۔

سلام! صد سلام! ان تمام لوگوں کو جنہیں’’ جلدی‘‘ ہے…

٭…٭…٭

یہ سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال کا ایک گاؤں ہے۔ایک گھر میں دو ڈھائی سو لوگ جمع ہیں اور یہ سب ایک خط سن کر رو رہے ہیں…

اس گھر میں چند دن پہلے تک ایک شخص رہتا تھا۔وہ دیوانہ وار ’’جہاد‘‘ کی دعوت دیتا تھا۔ایک ایک دروازے پر دستک دینا،جہادی لٹریچر تقسیم کرنا،اخبار بانٹنا،کھالیں جمع کرنا،رمضان المبارک میں انفاق کے لئے دلوں کے دروازے کھٹکھٹانا ان کا سالوں کا معمول تھا۔لیکن ساتھ ساتھ انہیں جلدی بھی تھی۔وہ صاحبِ عیال تھے،معمر تھے،دنیا میں اچھے باعزت مقام رکھتے تھے،ایسے لوگوں کو عموماً جلدی نہیں ہوتی مگر ’’ڈاکٹر بابر صاحبؒ‘‘ کو تو نوجوانوں سے بھی زیادہ جلدی تھی۔یہ جلدی ان کی باتوں سے بھی جھلکتی تھی لیکن آنکھوں سے زیادہ چھلکتی تھی۔وہ روتے بہت تھے اور اب رلاتے بہت ہیں۔سنا ہے ان کے وصیت نامے نے تو سب کو رلایا ہی نہیں چیخیں نکلوا دیں۔ڈاکٹر صاحب چلے گئے۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطاء فرمائے اور انہیں اعلیٰ ترین شہداء کا مقام عطا فرمائے۔

ان کے علاقے میں جہاد مخالف لوگوں نے ان کی والہانہ دعوت اور مجنونانہ تحریض کو مشکوک بنانے اور اس کا اثر توڑنے کے لئے وہی طریقہ اختیار کیا جو ان لوگوں کا صدیوں سے شعار چلا آرہا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹرصاحب کی دیانت کو مشکوک بنانے کی کوششیں کیں۔جو لوگ انہیں جہاد کے لئے معاونت فراہم کرتے تھے انہیں کہا گیا کہ آپ کی یہ معاونت مجاہدین تک نہیں پہنچتی وغیرہ وغیرہ

ڈاکٹر صاحب کے دل پر ان باتوں کا اثر تھا لیکن وہ ان باتوں میں الجھنے کی بجائے اپنے کام میں دیوانہ وار لگے رہے۔اب جبکہ وہ اپنی منزل مراد کو پا چکے اور اپنی سب سے بڑی خواہش کی تکمیل کر چکے انہوں نے ان لوگوں کا جواب بھیج دیا ہے:

’’میںجن لوگوں سے قربانی کی کھالیں لیتا رہا ہوں ان سب کی امانت کا عند اللہ مسئول ہوں،سوائے اس خون کے جو کھالوں سے بہہ جاتا ہے، باقی ہر چیز میں نے پوری ایمانداری سے مرکز تک پہنچائی اور اس پر روز قیامت بھی امین ہوں گا…‘‘

ڈاکٹر صاحب کو بھی جلدی تھی، وہ جلدی چلے گئے،ان کی جلدی کی وجہ سمجھ میں آئی دوستو!

جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس درجہ امانت و دیانت عطاء فرمائی ہو کہ وہ اس طرح علی الاعلان ایک ایک پائی کا خود کو مسئول قرار دے سکے اور وہ بھی دنیا سے جاتے وقت…ایسا شخص کس طرح لقاء اللہ کا طلبگار نہیں ہو گا؟…

ڈاکٹر صاحب کی یہ دیانت انہیں اس بلند مقام پر لے آئی۔دین و جہاد کے ہر داعی پر لازم ہے کہ وہ ایسی امانت کو اپنا شعار بنائے۔تب ملاقات آسان ہو جائے گی اور ہمارے دل کو بھی یہ مبارک ’’جلدی‘‘نصیب ہو جائے گی۔’’جلدی‘‘ تو انہی دلوں کو نصیب ہوتی ہے جو خیانت کے بوجھ اور حبّ دنیا سے پاک ہوں۔

٭…٭…٭
خاموش مجاہد

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 450)

اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے،عظیم مگر خاموش مجاہد،مہاجر فی سبیل اللہ

حضرت مولانا عبد العزیز کشمیری بھی دارفانی سے رخصت ہوئے۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

میں کشمیری قوم کا بہت مداح ہوں اور ان کی صفات کا بہت قائل،خصوصاً اگر مجھے کسی قوم کی عزیمت،مزاحمت اور جرأت کو سلام دینا ہو تو میں کشمیریوں کو ہی مثال بناتا ہوں۔کراچی دورہ تفسیر میں ایک دن یہ بات آ گئی کہ مسلمان دنیا بھر میں کس طرح باندھ باندھ کر ،قطاروں میں کھڑے کر کے قتل کئے جا رہے ہیں۔عرض کیا کہ جہاں مزاحمت ہو خواہ نعروں سے،پتھروں سے،جوتوں سے اور گھریلو استعمال کے برتنوں سے ہی،وہاں ایسے مناظر دیکھنے میں نہیں آتے۔برائلروں کی طرح اپنی باری کے انتظار میں دست قاتل کی راہ تکتے رہنا اور یوں مظلومیت کی تصویر بننا مسلمان کو زیبا نہیں۔وہ جیسے بھی لڑ سکے لڑنا چاہیے،موت پھر بھی آئے گی لیکن اس کی شان جدا ہو گی۔ایسے لوگ جو کسی بھی طرح مزاحمت کرتے ہیں یوں نہیں مارے جاتے۔ہمیں ایسے تمام مسلمانوں سے دلی ہمدردی ہے،ہمارے قلوب ان کے غم میں چھلنی ہیں اور آنکھیں ان کے دکھ پر روتی ہیں البتہ انہیں چاہیے کہ کشمیریوں اور غزہ والوں سے سبق لیں۔دنیا کی سب سے گندی،سب سے بد عہد اور سب سے ظالم دو اقوام سے جن کا مقابلہ ہے لیکن عدو جرات نہیں کر سکتا کہ انہیں اس طرح باندھ کر مارے۔

بات اور طرف نکل جائے گی۔عرض یہ کر رہا تھا کہ کشمیری لوگ جن صفات کی وجہ سے اچھے لگتے ہیں حضرت مولانا عبد العزیز صاحب قدس سرہ ان کی عملی تصویر تھے۔

وہ صاحب عزیمت تھے۔اس لئے باوجود اتنی جلالت علمی کے کہ دارلعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔حضرت مولنا قاری محمد طیب صاحب حکیم الاسلام قدس سرہ کے خاص تعلق والے شاگرد تھے۔عربی فارسی ادب میں غیر معمولی مہارت کے حامل تھے،حضرت ابا جی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ان کی محبانہ دلچسپ مجالس ادب بندہ کو اب بھی یاد ہیں،جامعہ کشمیر میں پروفیسر کا منصب رکھتے تھے،کشمیر کی بڑی بڑی علمی،سیاسی اور سماجی شخصیات کے استاذ تھے اور ہر طرح سے ایک ایسی آسودہ زندگی گزارنے کے اسباب رکھتے تھے جو اہل دنیا کے لئے خواب اور ہدف ہوتی ہے مگر انہوں نے اپنے لئے کانٹوں بھری،تکالیف سے پر راہ جہاد کا انتخاب کیا اور پھر اس کے لئے ہر قربانی ہنستے مسکراتے پیش کر دی کہ راہ جہاد کی کمر توڑ صعوبتیں ان سے ہونٹوں کی دائمی مسکراہٹ نہ چھین سکیں۔

وہ ’’ذہین‘‘ تھے، ان کی یہ ذہانت ہمیشہ ان کی آنکھوں سے ٹپکتی رہتی تھی۔اپنی اسی خداداد ذہانت سے کام لے کر انہوں نے جس طرح کشمیر کی حکومت،ہندوستان سرکار، افواج اور انٹیلی جنس اداروں کو عرصہ دراز تک بے وقوف بنائے رکھا اور ہر وقت ان اداروں کی آنکھوں میں رہتے ہوئے ’’کمانڈر سجاد افغانی شہیدؒ‘‘ جیسے عظیم مجاہد کو ساتھ لئے پھرتے رہے اور تحریک کشمیر کے عسکری ادارے کی تشکیل کا کام کیا کہ ہندوستانی ادارے سر پیٹ کر رہ گئے۔ایک معمر ’’بابے‘‘ نے منی سپر پاور کا پورا جاسوسی نظام،کشمیر کی رگوں میں گھس چکے غداروں کا مکمل نظام اس طرح جام کر دیا کہ سالہا سال ایک سرکاری گھر اور ایک سرکاری گاڑی میں سرکاری تنخواہ پر عسکریت مضبوط ہوتی رہی،پھیلتی رہی،جڑیں پھیلاتی رہی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔حضرت مولانا کے اس کارنامے کی تفصیلات امت کے سامنے آنی چاہئیں۔جو حضرات اس کی مکمل تفصیلات سے آگاہ ہیں انہیں ضرور اس پہلو پر روشنی ڈالنی چاہیے۔

ایک بات بہت حیران کن تھی۔حضرت مولانا اس حد تک سادہ مزاج تھے کہ ہر ملاقات میں ان کی سادگی کا کوئی نہ کوئی ایسا پہلو سامنے آتا کہ عرصے تک گدگداتا رہتا ۔اس حد سے بڑھی ہوئی سادگی کے پیش نظر یقین نہ آتا تھا کہ ان کے بارے میں جو کچھ سنا ہے وہ حقیقت ہو سکتا ہے لیکن وہ سب حقیقت تھا۔

میں نے کسی کتاب میں پڑھاہے کہ جو شخص کسی میدان میں ’’جینئیس‘‘ یعنی ’’نابغہ‘‘ کا مقام رکھتا ہو وہ دوسرے کاموں میں حد سے بڑھ کر سادہ ہوتا ہے۔ہر بہت ہی ماہر ڈاکٹر،بہت ماہر سائنسدان،بہت ماہر پروفیسر تھوڑا سا ’’ہونق ‘‘ہوتا ہے اور اپنے فن کے علاوہ ہر کام میں لطیفوں کا فیورٹ کردار رہتا ہے۔اسی طرح علماء کرام میں فناء فی العلم مدرسین کی سادگی اور سادہ مزاجی ضرب المثل اور زبان زد عام ہوتی ہے۔حضرت مولانا عبد العزیز کشمیری قدس سرہ اسی نسبت کے حامل تھے۔وہ ’’علم‘‘ میں بھی جینئس تھے اور ’’جہاد‘‘ میں بھی۔ان کے سامنے جب بھی ان موضوعات کا تذکرہ چلتا گویا مشک کے برتن سے ڈھکن اٹھ جاتا،گویا دریائے فراواں کا بند ٹوٹ جاتا،گویا اونچے پہاڑوں پر بارش برس اٹھتی اور چشمے نشیب کی جانب چل پڑتے اور پھر وہ اچانک اپنی سادگی والی چادر اوڑھ لیتے۔ان کے ساتھ کئی مجالس ہوئیں اور چند طویل اسفار بھی۔انہیں عربی اشعار سینکڑوں کی تعداد میں یاد تھے اور اپنے اساتذہ کے ہزاروں نکات،خصوصاً انہیں حضرت حکیم الاسلام قدس سرہ سے خصوصی نسبت تھی اور ان کے کئی بیانات اور نکات ازبر تھے۔

تحریک کشمیر کا وہ چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا تھے،ایک ایک دور اور ہر دور کی شخصیات کا مکمل دائرۃ المعارف۔کسی کا نام لیجیے اور اس کی پوری خاندانی،علمی اور تحریکی زندگی کا کچا چھٹا حاضر۔کمانڈر سجاد شہیدؒ کا نام ان کے سامنے لیا جاتا تو ان کی آنکھیں اور زبان اکھٹے ہی رواں ہو جاتے اور داستان محبت و عزیمت شروع ہو جاتی۔

کیا کیا یاد کیا جائے۔حضرت مولانا ان کی مجالس کی یادیں چھوڑ کر ادھر ہی چل دئیے جہاں ان کے اہل محبت پہلے سے آباد ہیں۔

وہ بہت مہمان نواز تھے جیسے کشمیری لوگ ہوتے ہیں۔گڑھی حبیب اللہ میں ان کا دستر خوان مہمانوں کا منتظر رہتا تھا اور وہ روایتی محبت کے ساتھ کھانا کھلاتے۔دستر خوان خود لگانا،پیرانہ سالی میں خود اندر جا کر کھانا لانا اورپھر ساتھ بٹھا کر کھلانا،کبھی کبھار کھانے کے اجزاء پر بات شروع ہو جاتی،تاریخ،خواص،فوائد وغیرہ۔مہمان کھانا بھی کھاتے اور باتوں سے محظوظ بھی ہوتے۔

ہمارے لئے حضرت مولانا کی ایک خاص نسبت ان کی حضرت ابا جیؒ کے ساتھ محبت اور تعلق کی تھی۔ان دونوں بزرگوں کی کئی دلچسپ ادبی ملاقاتیں اب بھی ذہن میں ہیں اور گویا نظروں کے سامنے ہیں۔فارسی،اردو اشعار،ادبی قصے، بزرگوں کے واقعات اور باہمی دلچسپی کی مزیدار باتیں،شگوفے اور چٹکلے۔دونوں جب بھی ملتے خوب کھل جاتے اور حاضرین کے لئے ایک خوبصورت مجلس سج جاتی۔حضرت ابا جیؒ کے انتقال کے بعد جب بھی ملاقات ہوئی حضرت مولانا ان باتوں کو یاد کرتے،کئی بار مرکز تشریف لائے،بات بات پر ابا جیؒ کی باتیں اور یادیں دہراتے،مناجات صابری کے افتتاح پر بھی تشریف لائے تھے،بیان بھی فرمایا اور دعا بھی کروائی،ابا جیؒ کے مرقد پر تشریف لے جاتے اور بہت دیر تک بیٹھے رہتے،گڑھی حبیب اللہ میں اپنی صاحبزادی کو مدرسۃ البنات کھول کر دیا تھا۔حضرت ابا جیؒ سے اصرار فرماتے کہ اپنے گھر کی خواتین میں سے کسی کو وہاں پڑھانے بھیج دیں۔حالات کہ وجہ سے ایسی کوئی ترتیب نہ بن سکی مگر یہ بات ہمیشہ یاد دلاتے کہ مدرسہ اس لئے قائم کیا تھا کہ آپ کے گھر سے کوئی وہاں ضرور آ کر پڑھائے۔حضرت ابا جیؒ کے بعد بھی یہ بات ہمیشہ ان کی زبان پر رہتی۔حضرت مولانا نے بڑی بھر پور سعادتوں والی زندگی گزاری،اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر قربانیاں پیش کیں،ہجرت کا درد اٹھایا۔خاندان اور اولاد کے ایک حصے سے جدائی تا دم آخر زخم دل بنی رہی۔کشمیر کا درد انہیں گھن کی طرح کھاتا رہا مگر وہ ایک سایہ دار چنار کی طرح تن کر مجاہدین کے سر پر سایہ بن کر کھڑے رہے ،سرپرستی فرماتے رہے اور دعاؤں سے نوازتے رہے۔ہفتے کی شام یہ ’’چنار‘‘ گر گیا اور ایک گھنا سایہ سروں سے اوجھل ہوا۔انا للہ وانا الیہ راجعون

یا اللہ! آپ کے دین کا ایک خاموش مجاہد آپ کے دربار میں حاضر ہے اس کے ساتھ مغفرت اور اکرام والا معاملہ فرما اور انہیں اپنی شان کے مطابق ہر خدمت اور عزیمت کا اجر عطاء فرما۔آمین یا ارحم الراحمین

٭…٭…٭
یاد آتے ہیں…

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 449)

کراچی میں دورۂ تفسیر کے دوران منگل کا دن آتا ہے…

ظہر کے بعد دوسری نشست ہوتی ہے اور ایک مشکل پیش آ جاتی ہے…

کچھ دیر زبان لڑکھڑاتی ہے…

منہ ایک بُرے سے ذائقہ سے بھر جاتا ہے اور آواز کپکپا اُٹھتی ہے…

اور پھر چند لمحوں کے بعد سب نارمل ہو جاتا ہے…

آہ! ایک مشکل دن ہر سال آ جاتا ہے…

چار سال ہو گئے۔مسجد بطحیٰ میں دورہ تفسیر جاری تھا۔منگل کے دن صبح کا سبق ۱۲ بجے ختم ہوا۔’’اُن‘‘ سے فون پر بات ہوئی ۔بہت ہی مختصر بات…آواز میں شدید نقاہت اور لہجہ کمزور…تھوڑی دیر بعد پھر فون آیا…’’اُنہوں‘‘نے پچھوایا کہ انگور کھانے کا دل کر رہا ہے دو چار دانے کھا لوں۔پتا نہیں مجھ سے کیوں پُچھوایا…

میں نے عرض کیا ضرور شوق فرمائیں…

ظہر کی نماز ہوئی…

سبق کی دوسری نشست…

چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ’’قاصد‘‘ آہستگی سے چلتے ہوئے آئے اور ’’فراق‘‘ کی خبر کان میں ڈال دی…

پگھلا ہوا سیسہ کان میں کیسے جاتا ہے؟…

شاید بالکل اسی طرح…

میں نے سوچا ’’صبر‘‘ کرنا چاہیے…کسی کو پتا نہ چلے ورنہ سب رو پڑیں گے…

’’اُن‘‘ سے محبت پر ہماری اجارہ داری تو گھر میں’’جہاد‘‘ آتے ہی ختم ہو گئی تھی…

اب تو ’’وہ‘‘ سب کے لئے وہی مقام رکھتے تھے جو ہمارے لئے…

چپ کر کے سبق شروع کر دیا…

آواز کپکپائی اور لہجہ لڑکھڑا گیا مگر بات چل پڑی…

شاید دس منٹ گزرے ہوں گے کہ یوں لگا منہ خون سے بھر گیا ہے…

کچھ دیر اور راستہ نہ دیا تو دل کی گھٹن سینہ پھاڑ دے گی…

میں اُٹھ کر کمرے کی طرف چل دیا اور وہاں آ کر غم کی تصویر بنے بھائی جان کے گلے لگ کر بوجھ ہلکا کر لیا…

مسجد میں دورہ پڑھنے والے بھی سب یہی کر رہے تھے…

چار سال ہو گئے…

دورہ تفسیر کا ’’منگل‘‘ اور ظہر کے بعد کا سبق…

اتفاق یہ ہے کہ سوائے ایک سال کے ہر سال جگہ بھی وہی ہوتی ہے ،وقت بھی اور مجلس بھی…

تاریخ اگرچہ کبھی بھی وہ نہیں ہوتی مگر دورۂ تفسیر میں منگل کے دن

ابا جی! آپ بہت یاد آتے ہیں…

اللہ تعالیٰ کی ہر لمحہ لاکھوں رحمتیں آپ کی قبر پر برستی رہیں،ہم ہر دن آپ کی دعاؤں کے ٹھنڈے جھونکے اپنے ساتھ پاتے ہیں…

جماعت کو کوئی کامیابی ملے یا کوئی ذاتی سعادت…

کوئی فتح کی خبر ہو یا کوئی مبارکبادی کا لمحہ…

یوں لگتا ہے ’’ابا جی‘‘ نے سنا…اُن کی آنکھیں مسکرائیں…

چہرہ کھل اُٹھا اور انہوں نے حسب عادت دعاء کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے…

مرکز عثمانؓ و علیؓ اور جامعۃ الصابر کا ایک ایک کونا اُن کی یادوں کی خوشبو سے مہکتا ہے…

کوئی مجلس ہو، کوئی تقریب…ہر جگہ ان کی یادگاریں چمکتی ہیں…

دفتر میں ان کی کرسی،ان کی میز،ان کا بستر سب جوں کے توں ہیں اور روزانہ انہی چیزوں کے ساتھ صحبت ہوتی ہے…

یوں یادیں تو کسی جگہ بھی پیچھا نہیں چھوڑتیں…

خاص طور پر جب تلاوت کے لیے قرآن مجید ہاتھ میں اُٹھایا جائے تو ’’ابا جی‘‘ شدت سے یاد آجاتے ہیں۔

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں قرآن مجید اپنے لیے حفظ کرایا تھا۔ ہم نے حفظ بھی کیا اور رسمی طور پر عالم بھی بنے۔ ’’اباجی‘‘ خوش ہر مرحلے پر ہوتے تھے۔ لیکن خوشی منائی انہوں نے صرف حفظِ قرآن پر۔ ایک سرشاری ان پر طاری ہوجاتی اور اس وقت ان کے پاس جو کچھ ہواکرتا سب اس خوشی پر بانٹ دیا کرتے۔ مجھے اپنا حفظِ قرآن بھی یاد ہے اور بڑے چھوٹے بہن بھائیوں کا بھی اور سب کا عالم بننا بھی اور ابا جی کا کہیں صرف خوش ہونا اور کہیں خوشی میں مست ہوکر خوشی منانا بھی۔ اس لیے وہ قرآن مجید کی تلاوت کے وقت خاص یاد آتے ہیں۔ اللہ کرے انہیں یہ خوشیاں ملتی رہیں۔ ہمارا قرآن سے تعلق قائم رہے اور ’’اباجی‘‘ کی نسل میں حفاظ اور حافظات ہوتے رہیں۔

مگر

دورہ تفسیر…بطحیٰ مسجد…منگل کا دن…ظہر کے بعد کا سبق…

ابا جی! آپ بہت یاد آتے ہیں…

آہ!

رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے

جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے

کتنی بے فیض سے رہ جاتی ہے دل کی بستی

کتنے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

جانے والے تیری تربت پہ کھڑا سوچتا ہوں

خواب ہی ہو گئے تعبیر بتانے والے

ہر نیا زخم کسی اور کے سینے کا سعود

چھیڑ جاتا ہے میرے زخم پرانے والے

یا اللہ! ’’ابا جی‘‘ کو ان کی دینی خدمات کا،دنیوی تکالیف کا،مجاہدین کے ساتھ والہانہ محبت کا، اور ہر نیک عمل کا شایانِ شان اجر عطا فرما اور ان کو راحتیں ہی راحتیں ،خوشیاں ہی خوشیاں نصیب فرما…آمین یا ارحم الراحمین

٭…٭…٭

عموماً کسی کے جانے پر کہا جاتا ہے:

ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

لیکن کچھ چراغ ایسے ہوتے ہیں جن کا بجھنا تاریکی بڑھنے کا غم نہیں صبح روشن طلوع ہونے کی نوید لاتا ہے اس لئے ان کے بجھنے پر کہا جاتا ہے…

ہم چراغوں کو تو تاریکی سے لڑنا ہے فراز

گل ہونے پر صبح کے آثار بن جائیں گے

یوں ’’عبد المعید‘‘ کے بعد ’’عثمان‘‘ بھی نشانِ صبح بن کر میری نظروں سے گل ہو گیا…

اور یہ سب بہت یاد آتے ہیں…

اللہم اغفرلہم وارحمہم وعافہم واعف عنہم واکرم نزلہم ووسع مدخلہم واغسلہم بالماء والثلج والبرد ونقہم من الذنوب والخطایا کما ینقی الثوب الابیض من الدنس

عرصہ ہو گیا یہ منظر نہیں دیکھا:دفتر میں مہمان بیٹھے ہوں۔دستر خوان پر سالن رکھا ہو اور پانی بھی لیکن روٹیاں غائب ہوں۔پوچھنے پر کوئی معصومیت سے کہے: آپ نے روٹیاں لانے کا کب کہا تھا؟

بھائی جان! آپ کی پانی ٹھنڈا کرنے والی مشین خراب ہے،بوتل لگانے پر بُڑ بُڑ کرتی ہے…

سادہ اور معصوم لوگ…

دنیا سے نا آشنا لوگ…

ہر طرح کے بوجھ سے … تفکرات سے اور پریشانیوں سے آزاد لوگ…

راتوں کو مسجد میں اُمت کے لئے،بہن عافیہ کے لئے،ایک ایک اسیر اور مظلوم مسلمان کے لئے تڑپنے،رونے اور گڑگڑانے والے لوگ…

ہاں! اپنی ذات کی تباہ کن پریشانیوں سے آزاد اور اُمت کے لئے شدید پریشان اور غمگین…

شہادت کے متوالے،حوروں کے دیوانے،شوقِ دیدار میں سرشار لوگ…

ہمارے ساتھ رہتے ہیں مگر دل کہیں اور دئیے رکھتے ہیں اور پھر اسی جانب دوڑ جاتے ہیں…جیتے دوسروں کے لئے ہیں اور اپنے لئے صرف ’’موت‘‘ کی تڑپ میں رہتے ہیں…

یہ سب لوگ بہت یاد آتے ہیں…

یہ اُمت کے لئے مبارکبادی کا پیغام ہیں…

روشنی کی نوید ہیں…

کہ دنیا میں اسلام کی خاطر تڑپنے والے…قرآن کی عظمت کے لیئے بے قرار ہونے والے،جیلوں میں تڑپتی سسکتی جوانیوں کا غم کھانے والے اُمت کو نصیب ہو چکے،اسلام کو میسر آ چکے…

اب اُمت کی عزت و سرفرازی اور اسلام کے غلبے اور سربلندی کا وقت قریب ہے…ان شاء اللہ بہت قریب

٭…٭…٭
رہائی مبارک ہو

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 448)

امت مسلمہ کے قابل فخر فرزند اور امارت اسلامیہ کے چیف آف آرمی سٹاف ’’ملا محمد فضل اخوند‘‘ اپنے چار ساتھیوں کے ہمراہ گوانتاناموبے کی طویل اور شدید قید سے رہائی پا کر اپنے لوگوں میں پہنچ گئے ہیں۔

اللہ اکبر کبیرا والحمد للہ رب العالمین

یقیناً اللہ تعالیٰ کی طاقت سب سے بڑی ہے…امریکہ نے کتنی بار یہ اعلان کیا اور دنیا بھر کے ممالک کو اس خاموش معاہدے پر مجبور کیا کہ کوئی بھی حکومت ’’مجاہدین‘‘ اور ان کے الفاظ میں دہشت گردوں کے مطالبات کے سامنے نہیں جھکے گی اور ان کے کسی قسم کے مطالبات تسلیم نہ کئے جائیں گے اگرچہ اس کی کوئی بھی قیمت چکانا پڑے لیکن اللہ تعالیٰ نے خود امریکہ کو مجاہدین کے آگے جھکنے پر مجبور کر دیا اور اپنے ایک سارجنٹ کے بدلے میں اسے بالٓاخر پانچ اہم ترین طالبان رہنماؤں کو قید سے رہا کرنا پڑا۔

یہ قیدی رہا ہو کر قطر میں امارت اسلامیہ کے دفتر پہنچ چکے ہیں اور مجاہدین ان کی آمد کا جشن منار ہے ہیں۔

’’ملا محمد افضل اخوند‘‘ ملت اسلامیہ کا بجا طور پر فخر ہیں۔اللہ تعالیٰ کی راستے کا وہ عظیم مجاہد جس کی پوری زندگی عزیمت اور قربانیوں سے لبریز اور جسم راہ جہاد کے زخموں سے سجا ہوا ہے۔امیرالمؤمنین حضرت ملا محمد عمر حفظہ اللہ نے جب چند طلبہ کو ساتھ لے کر افغانستان میں خلافت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کیا تو ملا محمد فضل ان کے ابتدائی دستے کے رکن تھے۔تحریک اسلامی طالبان کے پہلے چیف کمانڈر’’ملا محمد مشر‘‘ کے نائب مقرر ہوئے۔۱۹۹۷؁ء میں ہرات کی طرف پیش قدمی کے دوران شدید زخمی ہوئے۔ایک ٹانگ جسم سے جدا ہو گئی اور دوسری کئی جگہ سے ٹوٹ گئی۔علاج کے لئے کراچی منتقل ہوئے۔کٹی ہوئی ٹانگ کی جگہ مصنوعی ٹانگ لگا دی گئی لیکن ان کے عزائم کمزور نہ ہوئے۔صحتیاب ہوتے ہی محاذوں پر سرگرم ہو گئے۔کابل کی فتح میں قائدانہ کردار ادا کیا۔شمالی علاقوں کی مہم کی قیادت کی۔ہمیشہ امیرالمؤمنین کے خاص مقرب اور معتمد رہے۔اطاعت ان کا خاص شعار تھا جس کی وجہ سے ہمیشہ فتنوں سے محفوظ رہے۔شمال کی مہمات میں ایک بار پھر شدید زخمی ہوئے۔کئی گولیاں جسم میں پیوست ہو گئیں۔باقی گولیاں نکال لی گئیں مگر سر میں دماغ کے قریب تک گھس جانے والی گولی اب تک ان کے جسم کا حصہ ہے۔اس شدید صدمے کے بعد بھی ان کے پایۂ استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی اور وہ امارت اسلامیہ کے کمانڈر اعلی کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالے رہے۔افغانستان پر امریکی حملے کے بعد بھی تمام محاذوں پر سرگرم رہے۔جنرل دوستم کی بد عہدی اور عہد شکنی کی وجہ سے گرفتار ہوئے۔امریکیوں نے خطرناک ترین قیدی قرار دے کر ’’گوانتاناموبے‘‘ منتقل کیا اور وہاں بھی سخت ترین قید میں رکھے گئے اور بد ترین تشدد کا نشانہ بنائے گئے لیکن جیل سے رہا ہو کر آنے والے تمام مجاہدین ان کے عزم آہن اور استقامت کی گواہی دیتے رہے۔امریکیوں نے گوانتاناموبے سے کئی افغان اور دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو وقتاً فوقتاً رہا کیا لیکن ملا محمد فضل کو باوجود ان کی شدید علالت کے خطرناک ترین سے کم درجے پر منتقلی کی سہولت فراہم نہ کی۔اللہ کا شیر غیر معمولی قوت برداشت اور استقامت کے بل بوتے پر مظالم سہتا رہا اور بالٓاخر رحمت الہی جوش میں آئی اور ان کا امتحان اختتام کو پہنچا۔آج انہیں جاننے والا ہر شخص اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہے اور اس نعمت عظمی پر شکر گزار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خوشی کا موقع عطاء فرمایا۔

ملا خیر اللہ خیر خواہ بھی امارت اسلامیہ کے فعال رکن ہیں۔وزیر داخلہ کے منصب پر فائز رہے۔سخت جنگجو طبیعت کے حامل ہیں۔اتنے اہم منصب پر فائز ہونے کے باوجود محاذوں پر جنگوں کی کمان کیا کرتے تھے۔لوگ افغانستان کے وزیر داخلہ کو عام مجاہدین کے ساتھ محاذوں پر لڑتے،زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے،بغیر بستر گاڑی کی سیٹ پر آرام کرتے دیکھتے تو عجیب تاثرات کا اظہار کرتے اور ان کے ذہنوں میں قرون اولی کی یادیں تازہ ہو جاتیں۔

ملا عبد الحق واثق امارت اسلامیہ کے ذہین انٹیلی جنس چیف تھے۔ایک ایسے پرنور چہرے والے نوجوان جن کی پیشانی پر تقوی اور سادگی کا نور چمکتا تھا۔جو شخص بھی ان سے ملتا ان کے حسن اخلاق اور اعلی صفات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔کابل میں امارت اسلامیہ کا نظام حکومت مستحکم کرنے اور وہاں داخلی شورشیں دبانے میں ان کی مدبرانہ صلاحیتوں کا بہت دخل رہا۔

ان کے علاوہ رہا کئے جانے والے دیگر حضرات ملا نور اللہ نوری اور ملا محمد نبی عمری بھی اہم طالبان رہنما ہیں اور امارت اسلامیہ میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔

اللہ تعالیٰ نے امارت اسلامیہ افغانستان کے مجاہدین کو میدان جنگ میں تو امریکہ پر کھلی فتح عطاء فرمائی ہی ہے ساتھ ساتھ یہ سادہ مزاج، درویش منش، فقیر صفت لوگ میدانِ سیاست میں بھی دنیا بھر پر بازی لے گئے۔مسلمانوں کی اصل سیاست ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے ساتھ ہی ہے۔اس سیاست سے انہیں عزت ملتی ہے، باوقار مقام ملتا ہے اور ہر بحران میں مکمل فتح،وہ سیاست جو جہادی عنصر سے خالی ہو مسلمانوں کو اورا سلام کو آج تک کیا خیر پہنچا سکی؟ یہ سوال تو اہل سیاست سے پوچھا جانے کا ہے۔طالبان نے البتہ ثابت کر دیا ہے کہ جہاد اور قربانی کی پشت پناہی سے کی جانے والی سیاست ہر حریف کو زیر کرنے کی قوت رکھتی ہے۔مجاہدین نے امارت کا سقوط برداشت کیا،جیلیں برداشت کیں۔پاکستانی حکومت اور اداروں کے شدید مظالم اور توہین آمیز رویہ برداشت کیا،ان کے کئی اہم عہدیدار اور اعلی قیادت پاکستان کی جیلوں میں بند رہی مگر انہوں نے کوئی جذباتی فیصلہ یا انتقامی کارروائی کرنے کی بجائے اپنی توجہ امریکہ کے خلاف جہاد پر مرکوز رکھی،عسکری کارروائیاں تیز کیں،خوفناک فدائی حملے کیے،فوجیوں کو یرغمال بنایا اور تباہ کن عسکریت کے دباؤ سے امریکہ اور اس کی حامی قوتوں کو مذاکرات کی میز پر آنے اور بات چیت کی بھیک مانگنے پر مجبور کیا۔جب مذاکرات شروع ہوئے تو بھی ان کا ایجنڈہ اور دائرہ کار محدود رکھا اور اپنی عسکری کارروائیاں بدستور جاری رکھیں،صرف چند ایشو مختص کر کے ان پر بات چیت کی تاکہ دباؤ میں کمی نہ آئے اور دشمن مذاکرات کے بہانے تازہ دم نہ ہو جائے۔مذاکرات کا کئی بار تسلسل ٹوٹا اور انہوں نے بحالی پر کوئی اصرار کرنے کی بجائے عسکری دباؤ بڑھا دیا۔یوں ہر بار امریکہ کو ہی جھک کر مذاکرات بحال کرنا پڑے۔مذاکرات کے آخری دور میں بھی بات چیت کا محور صرف قیدیوں کی رہائی اور تبادلہ رہا۔جنگ بندی وغیرہ معاملات زیر بحث نہ لانے دئے گئے۔

اور کل جب یہ تبادلہ عمل میں آیا خوست کے ایک مخصوص علاقے میں محض چند گھنٹوں کی جنگ بندی کی گئی تاکہ امریکی فوجی وہاں سے بحفاظت منتقل کیا جا سکے۔

اس طرح مجاہدین نے امریکہ کو ہر طرح سے بے دست و پا کر کے اپنا مقصد بھی حاصل کر لیا۔اپنے اہم اور عظیم رہنما بھی آزاد کر الئے اور اپنی تحریک جہاد کا تسلسل بھی نہ ٹوٹنے دیا۔امریکہ اور دنیا کی مہذب کہلانے والی ان اقوام کے مذاکرات کار ڈپلومیٹس بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے سیاسیات کی اعلی ڈگریوں کے حامل اور مذاکرات کے داؤ پیچ سیکھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں لیکن ان کی یہ تمام ڈگریاں ان بوریا نشینوں کی سیاست کے آگے ہیچ رہیں جنہوں نے چٹائیوں پر بیٹھ کر مسجدوں میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھا۔

آفرین اور سلام ہے امیر المومنین کی مدبرانہ قیادت کو اور صد ہا مبارکباد کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ فتح مبین عطاء فرمائی اور خوشی کا یہ دن دکھایا۔ان شاء اللہ وہ دن بھی جلد آئے گا جب افغانستان کے صدارتی محل پر پھر امارت اسلامیہ کا کلمہ طیبہ والا پرچم لہرا رہا ہو گا اور ملا محمد فضل جیسے مجاہد پھر افواج اسلامیہ کی قیادت کر رہے ہوں گے۔

قیدیوں کی رہائی اور تبادلے کے ان مناظر میں ان روشن خیال کہلانے والے تاریک دماغوں کے لئے بڑے عبرت ہے جو امریکہ اور مغرب کو انسانی حقوق کا علمبردار اور مجاہدین کو ظالم و غاصب قرار دیتے نہیں تھکتے۔امریکہ کا جو فوجی رہا کیا گیا ہے اس کی صحت اس وقت سے بھی بہت بہتر حالت میں ہے جب اسے پکڑا گیا تھا۔جبکہ طالبان رہنما اس قدر کمزور اور نحیف ہو چکے ہیں کہ جن لوگوں نے انہیں بارہا دیکھا ہے اور ان کے ساتھ طویل وقت گزارے ہیں وہ بھی تصاویر سے انہیں پہچان نہیں پا رہے۔اللہ تعالیٰ کی یہ شیر اپنی عمروں سے بہت زیادہ بوڑھے نظر آ رہے ہیں۔یہ کھلا تضاد مغرب کی انسانیت نوازی اور حقوق کی پاسداری کا پردہ بہت اچھی طرح چاک کر رہا ہے۔ہمیں تو نہ اس بارے میں کوئی اشتباہ ہے اور نہ شکوہ۔کافر مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں اور ان سے یہی توقع رکھی جا سکتی ہے جیسا انہوں نے کیا۔ہاں وہ لوگ جو ان کے ظاہر اور محض اقوال سے متاثر رہتے ہیں وہ ضرور غور کریں تو شاید انہیں فائدہ ہو۔

بہرحال القلم کے تمام قارئین کو اور امت کا درد رکھنے والے تمام مسلمانوں کو مجاہدین کی یہ عظیم فتح اور اللہ کے ان شیروں کی رہائی بہت مبارک ہو۔

٭…٭…٭
چار باتیں

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 447)

حکیم الامت مرشد الملت حضرت مولانا رومی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شہرہ آفاق ’’مثنوی‘‘ میں ایک حکایت لکھی ہے:

’’ ایک ’’بہادر‘‘ اور ’’شیر صفت‘‘ شخص کو اپنے بازو پر شیر کا ’’ٹیٹو‘‘ کھدوانے کا شوق چرایا( ممکن ہے اس علاقے کا مسلم لیگ ن کا کوئی عہدیدار یا ورکر ہو)وہ ٹیٹو ساز کے پاس گیا اور اس کے سامنے اپنا بازو پھیلا کر کہا اس پر میاں شیر شریف کی تصویر بنا دو۔مصور نے سوئی گرم کی۔سیاہی میں ڈبوئی اور بازو پر رکھی ہی تھی کہ نون لیگی صاحب چلائے:

’’ارے یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘…

’’شیر کی دم بنا رہا ہوں‘‘…

’’ایسا کرو بغیر دم کے شیر بنا دو‘‘…

مصور نے پھر سوئی گرم کر کے دوسری جگہ لگائی تو ورکر صاحب پھر چلائے…

’’اب کیا بن رہا ہے…‘‘

بازو!

’’ایسا کرو شیر بغیر بازو کے بنا دو‘‘…

یوں ہر بار سوئی چبھونے پر وہ شیر کے اس مبینہ عضو کو کالعدم قرار دے کر باقی شیر بنانے کا کہہ دیتا…

مصور نے تنگ آ کر سوئی رکھ دی اور کہا:

’’بھائی ایسا شیر نہ دیکھا ہے نہ سنا ہے جس کے نہ کان ہوں نہ آنکھیں…نہ دانت ہوں اور نہ دم…

تم یا تو شیر بنوانے کا خیال دل سے نکال دو یا پھر شیر بنو،تکلیف برداشت کرو اور شیر بنواؤ۔لیکن خدارا! شیر کو شیر ہی رہنے دو،اس کا حلیہ مت بگاڑو‘‘…

یہ ایک بات ہو گئی کہ شیر وہی ہوتا ہے جس کے دانت ہوں،دم ہو، مضبوط بازو اور بارعب چہرہ ہو…

اب سنیے دوسری بات!

جہاد کا معنی ہے قتال اور لڑائی۔اس میں سر کٹتے ہیں، جسموں کے ٹکڑے ہوتے ہیں،خون بہتا ہتے، گھوڑے دوڑتے ہیں،غبار اڑتا ہے،تلواریں چمکتی ہیں،نیزے جسم چھید ڈالتے ہیں،خنجر رگوں کا خون چوس لیتے ہیں،تیر بدنوں کو چھلنی بنا دیتے ہیں،لاشیں بکھرتی ہیں، زخمی تڑپتے ہیں، قیدی سسکتے ہیں، تاج اچھلتے ہیں اور تخت الٹتے ہیں۔نظام دگرگوں ہو جاتے ہیں اور آئین قدموں تلے روند ڈالے جاتے ہیں۔ظلم کا زور ختم ہوتا ہے اور عدل کا بول بالا ہوتا ہے۔باطل بھاگ اٹھتا ہے اور حق غالب آتا ہے۔اسی کو ’’جہاد‘‘ کہا جاتا ہے ناں جس میں لشکر صف آراء ہوتے ہیں اور گھمسان کے رن پڑتے ہیں؟ بے سروسامانی والے ’’بدر‘‘کو، زخموں سے چور چور ’’احد‘‘ کو،شب خون والے ’’خیبر‘‘ کو،سخت محاصرے والے ’’بنو نضیر‘‘ کو اور تین لاکھ کے ساتھ تین ہزار کے ٹکراؤ والے’’موتہ‘‘ کو ہی ’’جہاد‘‘ کہا جاتا ہے ناں؟…

غالباً قرآن میں،احادیث میں،اسلامی تاریخ میں اور سیرت میں ’’جہاد‘‘ اسی عمل کا نام ہے جس میں ابو جہل بد رکے گندے کنویں میں ڈال دیا گیا،ابن خطل کا بیت اللہ کی دیواروں پر خون بہا دیا گیا ہے،کعب بن اشرف اور ابو رافع جیسے گستاخانِ رسول کو ان کے مضبوط قلعوں میں سوتے خون میں تڑپا دیا گیا۔بنو قریظہ باندھ کر ذبح کر دئیے گئے اور بنو نضیر گھیر کر جلا وطن…

اور ہاں!’’جہاد‘‘ اسے کہتے ہیں جس میں آقا مدنی ﷺ کے دندان مبارک شہید ہو گئے۔چہرہ مبارک خون آلود ہوا،رخسار مبارک میں کڑیاں پیوست ہو گئیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی لاشوں کے ٹکڑے جمع کر کے چادروں میں لپیٹ کر دفنانے پڑے…

دنیا کا ہر مسلمان،ہر کافر،ہر منافق آج تک یہی جانتا آ رہا ہے کہ ‘‘جہاد‘‘ کے اعضاء اور اجزاء وہی ہیں جو اوپر تحریر کیے گئے،انہی کاموں کا کرنے والا شخص نام مجاہد پاتا ہے اور جہادی کے تمغے سے سرفراز ہوتا ہے۔اوبامہ سے لے کر کرزئی تک اور نریندر مودی سے لے کر پرویز مشرف تک سب یہی جانتے اور مانتے ہیں…

اب سنیے تیسری بات:

یار لوگوں نے مولانا روم والے’’شیر‘‘ کی طرح کا ایک عمل بنایا ہے جس میں نہ تلوار ہے نہ تیر، نہ خنجر ہے اور نہ گھوڑا،نہ خون ہے نہ پسینہ،نہ لاشیں ہیں نہ زخمی،نہ حق کا غلبہ ہے نہ باطل کی رسوائی،نہ مسلمانوں پر کوئی مشقت ہے نہ کفار پر کوئی شدت۔ اور ان کا اصرار ہے کہ یہ ’’جہاد‘‘ ہے۔،اصلی، خالص اور بڑا جہاد… ’’الجہاد الاکبر‘‘…

چوتھی اور آخری بات یہ ہے کہ انہیں اس حرکت پر اگر کوئی جہاد کا منکر یا مخالف کہہ دے تو سخت ناراض ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے ساتھ بڑے زیادتی ہو رہی ہے۔ہم تو ’’جہاد‘‘ کے داعی ہیں اور بڑے مفکر (یہ لوگ داعی تو نہیں البتہ ’’دائی‘‘ ضرور ہیں جنہوں نے الحاد کی کوکھ سے ایک نامعلوم الجنس بچہ نکالا ہے اور اس کا نام ’’جہاد‘‘ رکھ دیا ہے۔) ان چار باتوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ آپ خود کر لیں۔ساری بات میں ہی لکھوں تو اخبار کم پڑ جائے گا۔

مثل مشہور ہے’’ سو سنار کی اور ایک لوہار کی‘‘…

امیر المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ نے ’’القلم‘‘ کے گذشتہ شمارے میں اپنے مضمون بعنوان’’مسلمانوں کے لئے دردمندی‘‘ میں چند مختصر الفاظ ان ’’شیروں‘‘ کے بارے میں تحریر کیا فرما دئیے کہ ان لوگوں نے فوراً مختاراں مائی کا روپ دھار لیا اور مظلومیت کے ساتھ شکوہ شروع کر دیا کہ ہماری اس بلند پایہ کا وش کو ’’انکار جہاد‘‘ کا نام کس طرح دے دیا گیا…تو جناب! جس طرح بے اعضاء شیر کو شیر نہیں کہا جا سکتا اسی طرح جو کام آپ نے لکھا ہے اے ’’جہاد‘‘ تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا اور اگر آپ اصلی جہاد کی جگہ اسی کو جہاد کہنے پر مصر ہیں تو آپ کو اصلی جہاد کا منکر نہیں تو اور کیا کہا جائے گا؟…

قرآن مجید بتاتا ہے کہ ’’حق جب باطل پر ٹوٹتا ہے تو اس کا بھیجا نکال کر باہر کرتا ہے‘‘

آپ کس حق کو باطل کے مقابل لا رہے ہیں جو بھیجا تو کیا باطل کا ایک دانت بھی نہیں توڑ سکتا بلکہ باطل کے لئے ہر طرح سے قابل برداشت ہے اور وہ ان لوگوں کو ناقابل برداشت بتا رہا ہے جو حق کے اس معیار پر پورا اتر رہے ہیں۔

قرآن مجید نے جہاد کے ایک ایک جزوی مسئلے کو بھی اتنی وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا کہ کوئی سوال یا خفاء باقی نہیں رہا۔جہاد کے کسی موضوع کو لے لیں قرآن مجید نے اس کے ہر پہلو کو اچھی طرح اجاگر کر رکھا ہے اور آپ سے ابھی تک یہی طے نہیں ہو سکا کہ جہاد ظلم کے خلاف ہے یا کفر کے خلاف،جہاد کے وجوب کی علت حربیت ہے یا شرک؟…جہاد کا مقصد کیا ہے اور منہج کیا؟…جہاد کا معنی کیا ہے اور حکم شرعی کیا؟…

ہر چیز میں فضول بحثیں ہیں اور خلاف اصل باتیں اور مقصد صرف یہی کہ ’’شیر‘‘ کو شیر نہ رہنے دیا جائے بکری بنا دیا جائے۔

اس لئے گستاخی معاف! آپ کے بارے میں ’’القلم‘‘ میں جو لکھا گیا وہ کافی کم تھا لیکن لگتا ہے کہ کافی رہا۔اللہ کرے آپ لوگوں کو اسی قدر سے ہی خوف خدا نصیب ہو جائے اور امت مسلمہ کے حالات کا ادراک کرتے ہوئے آپ اپنی مساعی رذیلہ سے باز آ جائیں۔امت مسلمہ کو ’’جہاد‘‘ کے بارے میں فضول لفظی مباحث کی نہیں کھلی دعوت کی ضرورت ہے جو ’’تحریض‘‘ کی شان رکھتی ہو اور نبی کریم ﷺ کی وراثت کا تقاضا بھی یہی ہے۔مسلمانوں کو مسجد اقصی کی زمین کے تنازعے میں الجھانے کی نہیں قبلہ اول کے بارے میں اپنی ایمانی ذمہ داری کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔اہل ایمان کو ناموس رسالت کے بارے میں غیرت مند بنانے کی ضرورت ہے نہ کہ گستاخانِ رسول کی سزاؤں اور شرعی حد میں رعایتیں نکالنے کی۔قرآن مجید کی حرمت و تقدس اور اسلام کے غلبے کی ذمہ داری کے حوالے سے نوجوانوں کے جذبات ابھارنے کی ضرورت ہے نہ کہ ابھرے ہوئے جذبات کو دبانے کی مذموم کوششوں کی۔جہاد کے بارے میں اہل کفر مستشرقین کے وساوس کا جواب دینے اور الحاد و تلبیس کے پردے چاک کرنے اور مسئلہ بے غبار کرنے کا وقت ہے نا کہ مزید پردے ڈالنے اور نئے شبہات پیدا کرنے کا۔بے راہ روی اور نفس پرستی کے زمانے لوگوں کو ’’مرکز‘‘ کے ساتھ اور اسلاف کے ساتھ جوڑنے کی حاجت ہوتی ہے نہ کہ تحقیق جدید کے نام پر نفس پرستی کو نئے بہانے فراہم کرنے اور اکابر سے کاٹ کر نئی راہوں پر چلانے کی۔لیکن جب دماغ الٹ جائیں تو ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں اور سوچ کا پہیہ الٹی جانب چل پڑے تو عمل کی گاڑی بھی صراط مستقیم سے اتر کر الحاد کی پگڈنڈیوں پر چل پڑتی ہے۔ اور اگر آپ کو اصرار ہے کہ آپ کو یہی کچھ کرنا ہے تو کم از کم ’’جہاد‘‘ کی جان چھوڑ دیجیے۔جہاد ایمان کا امتحان ہے۔جہاد ایمان اور نفاق کے درمیان فارق ہے اور جہاد ہی اس وقت امت مسلمہ کے مسائل کا حل ہے،جہاد سے ہی امت مسلمہ کی بھنور میں پھنسی کشتی کو اس گرداب سے نکالا جا سکتا ہے۔اس لئے شوق تحقیق کے لئے کوئی اور میدان منتخب کر لیجیے۔ویسے ہمیں آپ کی ان کاوشوں سے ادنی سا خطرہ بھی نہیں کیونکہ ’’جہاد‘‘ کی حقیقت اور اصلیت سمجھانے کے لئے خود قرآن موجود ہے۔اس کے سامنے کسی خصوصی شمارے یا چند ایک لفاظی سے بھر پور مضامین کی کیا مجال کہ ٹھہر سکیں۔آپ کو مشورہ دینے کا مقصد محض خیر خواہی ہے کہ آپ اس گناہ سے توبہ کر لیں اور آئندہ بچ جائیں۔

٭…٭…٭
دوراتِ تفسیر

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 446)

جہاد لازم ہے: ماننا بھی اور کرنا بھی…

کیسے پتا چلا؟…

قرآن مجید کی درجنوں واضح اور محکم آیات سے…

جہاد کس کس پر لازم ہے؟…

کیونکر لازم ہے؟…

کن کے خلاف ہے اور کن اہداف کے لیے ہے؟…

کب تک ہے؟…

یہ سب کیسے معلوم ہو گا؟…

قرآن مجید کی سینکڑوں آیات میں یہ مضامین بیان ہوئے ہیں۔قرآن مجید پڑھیں گے تو سب معلوم ہو جائے گا…

جہاد میں فتح شکست کیسے ہوتی ہے؟…

فتح کے بعد کیا کرنا چاہیے اور شکست سے کیسے نمٹا جاتا ہے؟…

جہاد کے راستے کی رکاوٹیں کیا کیا ہیں اور ان سے نبرد آزما کیونکر ہوا جا سکتا ہے؟…

بے سروسامانی اور قلت کے عالم میں کس طرح بڑی طاقتوں سے بھڑا جاتا ہے اور نتیجہ کیا نکلتا ہے؟…

جان کیوں مانگی جا رہی ہے اور مال کیوں؟

ان کا بدلہ کیا ملنے والا ہے؟…

ان سوالوں کے جواب کسی دانش ور، علامہ اور مفتی کے پاس نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کلام میں بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہیں…

اور ہاں!…

جہاد سے دور رکھنے کے لئے نفس کیا کیا بہانے گھڑتا ہے؟…

شیطان کیا کیا دانشورانہ حیلے سمجھاتا ہے؟…

’’اخوان الشیاطین‘‘ کس طرح قدموں میں تاویلات کی زنجیریں اور دماغ پر تلبیسات کے پردے چڑھاتے ہیں؟…

ایک ایک بات، ایک ایک بہانہ، ایک ایک تاویل صدیوں پہلے قرآن مجید میں نازل ہو چکی اور اس کا شافی جواب بھی…کیا آپ نے پڑھا ہے؟…

اور پھر انجام:…

جو ان جالوں میں پھنس کر رہ جائے اس کا بھی…

اور…

ان کا بھی جو

سمجھ کر اے خرد اس دل کو پابند علائق کر

یہ دیوانہ اڑا دیتا ہے ہر زنجیر کے ٹکڑے

کہہ کر حدود سودوزیاں سے گذر جاتے ہیں…

(علائق عقل اور نفس کی طرف سے ڈالے جا رہے ہوں تو ’’اسے خرد‘‘ کہتے ہیں اور اگر کسی ’’عقلمند غامدی‘‘ کی طرف سے تو خطاب سے ’’خرد‘‘ کی دال اڑا دیتے ہیں)

پھر ان میں سے ’’جو جاں سے گذر گئے‘‘ ان کا خوبصورت،حسین، دل آویز انجام بھی تفصیل سے اور واپس لوٹ آنے والوں کا مقام بھی مفصل انداز میں قرآن مجید نے ہی ذکر کیا ہے…کیا آپ کی نظر سے گذرا؟…

جماعت کیوں ضروری ہے؟…

اطاعت کیوں کر لازم ہے؟…

یہ چیزیں مضبوط نہ ہوں تو نتائج کیسے بدلتے ہیں؟…

اتنا اہم موضوع قرآن مجید میں مذکور ہے کیا آپ نے دیکھا ہے؟…

جہاد کے بارے میں ہر طرف سوالات بکھرے ہیں،شکوک و شبہات کے انبار ہیں اور الحادی نظریات کے ڈھیر…بظاہر مدلل مبرھن اور عقلی مگر حقیقت میں مکڑی کے جالے سے کمزور تر محض لفظوں کے کھیل…

آپ سوالات سے تو ضرور متاثر ہوں گے کیا جوابات بھی جانتے ہیں؟…

چونکہ ’’جہاد‘‘ کو سوالات کا سامنا ہے اور ہمیشہ سے ہے اس لئے جہاد کے ہر عقلی پہلو،ہر عملی زاویے اور ہر نظریاتی رخ پر باریکی سے قرآن مجید نے کلام کیا ہے…

جنہوں نے پڑھ لیا ہے انہیں اب کوئی سوال اور شبہ پریشان نہیں کرتا کیا آپ نے بھی پڑھ لیا ہے؟…

نہیں…؟ تو دو کام کیجیے!

(۱) چار جلدوں کی ایک کتاب خرید لیجیے۔نام ہے اس کا ’’فتح الجواد فی معارف آیات الجہاد‘‘…

مصنف کا نام ہے۔’’ امیر المجاہدین حضرت مولنا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ‘‘…

یہ کتاب اردو زبان میں ہے اور اپنے موضوع پر لکھی جانے والی واحد کتاب ہے…

آپ اسے آسانی سے پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں…

اس میں ایسے ہر سوال کا شافی جواب قرآن کی زبان میں ہی موجود ہے۔روزانہ کچھ وقت مختص کیجیے اور قرآن مجید کے پیغام جہاد سے اپنے دل و دماغ کو معطر کر لیجئے…

لیکن!

اگر آپ مطالعہ کرنے میں سست ہیں یا کسی اور وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے تو دوسرا کام کر لیجیے جو آسان بھی ہے اور مختصر بھی…

ہفتہ 24مئی سے ملک بھر میں’’دورات تفسیر آیات جہاد‘‘ کا سالانہ سلسلہ ہو رہا ہے۔محض ایک ہفتے کے اس دورے میں قرآن مجید کی ان آیات کا ترجمہ اور تفسیر پڑھائے جاتے ہیں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حکم جہاد سے ہے۔ان چھ دنوں میں عقیدہ بھی سمجھایا جاتا ہے،نظریے کے خدوخال بھی نمایاں کئے جاتے ہیں،عمل کی ترتیب بھی سمجھائی جاتی ہے اور سوالوں کے جوابات بھی دئیے جاتے ہیں۔قرآن مجید میں مذکور نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے غزوات و سرایا بھی تفصیل سے بیان ہوتے ہیں اور سابقہ امتوں کے جہادی واقعات بھی۔سیرت مطہرہ سے آقا مدنی ﷺ کے مبارک جہاد کی تفصیلات سامنے آئیں تو ایک مومن اور محب نبی ﷺ کے ذہن سے سوالات کے پردے ویسے ہی ہٹنے لگتے ہیں اور دل خود میدان عمل کی طرف کھنچنے لگتا ہے۔بے شک ’’محبت‘‘ ہزار سوالوں کا جواب اور سو بیماریوں کا شافی علاج ہے۔

یہ دورات مختلف مقامات پر تین ہفتے مسلسل جاری رہیں گے۔ان کا مکمل شیڈول القلم کے اسی صفحے پر درج ہے،اس میں دیکھ لیں کہ آپ کے علاقے کے قریب تر کون سی جگہ اور کون سی تاریخ کو آرہا ہے۔اگر قریب میسر نہ ہو تو اپنی اس ایمانی ضرورت کیلئے سفر گوارہ کریں۔آج گلی گلی،قریہ قریہ، ہر اخبار،ہر ٹیلی ویژن پر فتنہ انکار جہاد زوروں پر ہے۔غامدی اور اس کے ہم نوا مختلف انداز میں مختلف ناموں سے صرف اسی ایک کام کو ہدف بنا کر مصروف عمل ہیں۔انہوں نے جہاد فی سبیل اللہ کے اسلامی مفہوم کو بدلنے کے لئے امت کو فضول مباحث میں الجھا دیا ہے۔قرآن مجید ان تمام فتنوں کا توڑ ہے۔آپ جہاد کو قرآن مجید سے سمجھ لیں۔حضرت آقا مدنی ﷺ کی تعلیمات اور عمل سے جان لیں اور صحابہ کرام کے تعامل سے دیکھ لیں تو نہ صرف خود ان فتنوں سے محفوظ ہو جائیں گے بلکہ ان شاء اللہ دوسروں کو بچانے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کو دو نعمتیں نصیب فرمائی ہیں۔فتح الجواد اور دورات تفسیر آیات جہاد…ان کی قدر کریں اور ان سے بھر پور استفادہ کریں۔دورات کے اس شیڈول کو غور سے پڑھ لیں اور پھر فوری طور پر اپنی اور اپنے احباب کی شرکت کی ترتیب بنائیں۔جہاد کی دعوت دینے والے ساتھی خود بھی اہتمام سے ان دورات میں شرکت کریں اور اپنی دعوت کو قرآنی دلائل سے مضبوط کریں۔

امید ہے 24مئی سے 12جون تک جاری رہنے والے اس مسعود سلسلے سے القلم پڑھنے والے تمام لوگ فیض یاب ہوں گے۔

٭…٭…٭
منتخب جواہر

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 445)

طویل مضمون میں سے مختصر جملوں کا انتخاب کرنا،انہیں موضوعات میں تقسیم کرنا قدیم زمانے سے مصنفین کا طریقۂ کار چلا آ رہا ہے۔خود احادیث مبارکہ میں حضرات محدثین کرام نے یہ طریقہ اختیار کیا۔نبی کریم ﷺ کی طویل روایات یا خطبات میں سے مختصر جوامع الکلم اور جواہر پاروں کا انتخاب اور پیشکش کتب حدیث میں بکثرت ملتے ہیں اور حضرات محدثین کرام کے ہاں یہ روایت حدیث کا ایک مستقل طریقہ رہا ہے۔

اس سے فائدہ بھی ہوتا ہے،توجہ بھی اور تلذذ بھی۔طویل کلام میں بسا اوقات ان نکات و معارف کی طرف اتنی توجہ نہیں جاتی جتنی ان کا حق ہوتی ہے اس لئے نہ ان سے کما حقہ نفع اٹھایا جاتا ہے اور نہ ہی پوری لذت حاصل ہوتی ہے۔جب انہیں الگ کر کے پڑھا جائے تو گویا ایک نیا جہانِ معنی آشکار ہوتا ہے۔ایک عجیب کیف و سرور حاصل ہوتا ہے۔بسا اوقات رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جسم میں حرارت دوڑ جاتی ہے اور پڑھنے والے کو یہ احساس ہوتا ہے کہ گویا اس نے یہ بات اب پہلی مرتبہ پڑھی ہے حالانکہ وہ اسے بارہا پڑھ چکا ہوتا ہے۔اس لئے تو ’’انتخاب‘‘ کو مصنفین کے ہاں ہمیشہ سے ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔جن حضرات کو مطالعہ کتب کا بہت ذوق اور ایک گونہ چسکا ہوتا ہے ان کی غالباً یہ مشترک عادت ہے کہ ان کے زیر مطالعہ کتب لکیروں، حاشیوں اور دائروں سے پُر ملیں گی۔وہ اسی طرح منتخب باتوں کو نشان زد کرتے رہتے ہیں،ان کے حوالے جلد پر یا خالی صفحات پر نقل کرتے رہتے ہیں اور مختصر عنوانات لکھ لیتے ہیں۔اور اگر کوئی حضرات زیادہ صفائی پسند ہوں تو وہ کتاب کالی کرنے کی بجائے ڈائری وغیرہ ساتھ رکھتے ہیں اور اس قسم کے شذرات و جواہر ان میں نقل کر لیتے ہیں۔یہ ایک فطری واقعہ ہے۔یہ انتخاب صاحب مطالعہ کے ذوق کا آئینہ دار بھی ہوتا ہے اور موضوع کتاب و مصنف کتاب سے اس کے قلبی تعلق کا بھی۔پھر بعض حضرات کا یہ انتخاب محض ان کے ذاتی استفادہ تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ اسے افادہ عام کے لئے طبع کرا دیتے ہیں اس طرح ان کا ذوق اور محنت کئی لوگوں کے لئے عظیم فائدے کا باعث بن جاتا ہے اور ایسی کتابیں عام موضوعات پر لکھی گئی کتب سے زیادہ دلچسپی اور توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ہمارے علمائے کرام میں سے کئی اہل قلم حضرات نے اس طرز کی بہت سی اعلی کتابیں تالیف کی ہیں اور انہیں بہت مقبولیت ملی ہے۔اسی طرح کئی اکابر اہل علم کے تلامذہ اور محبین نے ان کی تصنیفات،خطبات ومواعظ پر اس انداز میں کام کیا ہے اور ان کا بہترین انتخاب قارئین کے لئے پیش کیا ہے۔ہمارے اکابر میں سے حکیم الامت حضرت مولنا اشرف علی تھانویؒ قدس سرہ کو اس حوالے خصوصی امتیاز رہا ہے۔ان کے ملفوظات کے درجنوں مجموعے اس انداز میں شائع ہوئے ہیں۔ان کی طرف منسوب تفسیر قرآن اسی انداز سے مرتب کی گئی ہے کہ ہزاروں ملفوظات اور مواعظ میں سے تفسیری اقوال جمع کر کے مجموعہ مرتب کر دیا گیا۔حتی کہ لطائف و طرائف جو ان کے مواعظ میں سے کہیں بغرض تمثیل آئے ان کے بھی مستقل مجموعے شائع ہوئے۔غرضیکہ ان کے علوم و معارف پر ان کے متعلقین نے اس انداز میں خاص محنت کی اور اس انداز میں انہیں امت کے سامنے لائے ،یہ ان کا اپنے شیخ سے قلبی تعلق اور ان کے علوم و معارف سے دلی وابستگی کا اظہار تھا جو دوسروں کے لئے استفادہ اور دلچسپی کا ذریعہ بن گیا اور اس سے حضرت تھانویؒ کے معارف عام ہوئے اور ان کی تعلیمات کو فروغ ملا۔

میرے سامنے بھی اس وقت ایک کتاب رکھی ہے جو اسی جذبے کے تحت لکھی گئی ہے۔اس کا نام ہے’’ منتخب جواہر‘‘۔ جامع ہیں محترم نظر نواز صاحب جو لکی مروت کے رہنے والے ہیں اور ایک پر جوش داعی جہاد ہیں اورا س کتاب پر مختصر اور مفید حواشی چڑھائے ہیں جناب مولنا محمد زاہد صاحب نے جو اہل قلم عالم دین اور اہل جہاد ہیں، القلم اور ماہنامہ المرابطون کے قارئین ان کے نام اور تحریروں سے بخوبی آشنا ہیں۔

کتاب کا موضوع اس کے نام سے ظاہر ہے کہ اسی طرح کا انتخاب ہے جس کا تعارف اوپر کی سطور میں گزرا۔

اور یہ انتخاب ہے امیر المجاہدین حضرت مولنا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ کی بعض کتب سے۔وجہ انتخاب صاحب کتاب نے مقدمہ میں ذکر کر دی ہے کہ وہ نظریہ ساز سٹیکر چھپوانے کے لئے اس کام کی طرف متوجہ ہوئے کہ حضرت امیر محترم کے مضامین میں کچھ مختصر جملوں کا انتخاب کریں اور اور پھر ان کا یہ کام ایک خوبصورت،مفید عام، دلچسپ اورنظریہ ساز کتاب کی شکل اختیار کر گیا۔حضرت امیر المجاہدین حفظہ اللہ کی تحریروں میں کئی رنگ و آہنگ ہیں جو ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ عقیدے کی درستگی،اعمال کی اصلاح ،نظریے کی پختگی، کردار سازی،قرآن فہمی ،عشق و محبت کے مبارک جذبات ،ترغیب،ترہیب اور دردمندانہ دعوت۔یوں ان کا ایک ایک مضمون کئی متنوع موضوعات پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں عنوانات سے ممتاز کیا جاتا ہے۔’’القلم’’ کے قارئین اور حضرت کی کتب کے شائقین اس طرز تحریر سے بخوبی آشنا ہیں۔مضامین کے درمیان کچھ جملے اپنی اثر انگیزی کے اعتبار سے اور کئی سطور اپنی ادبی چاشنی کے اعتبار سے ایک جداگانہ حیثیت کے حامل ہوتی ہیں جن کا بار بار پڑھنا اور الگ سے پڑھنا مزا دیتا ہے اور فائدے کا باعث بنتا ہے۔بھائی نواز صاحب نے خصوصیت کے ساتھ انہی جواہر کو چنا۔ان پر عنوانات لگا کر ان کے فائدے اور لذت کو مزید دو آتشہ کیا اور اپنا یہ حسین انتخاب قارئین کے سامنے رکھا۔ان میں دروس جہاد کے نظریہ ساز مضامین سے وہ شذرات ہیں جن سے نظریہ جہاد سمجھ میں آتا ہے۔’’القلم‘‘ کے سینکڑوں مضامین سے وہ جواہر اٹھائے ہیں جن سے راہ عمل واضح ہوتی ہے۔’’یہود کی چالیس بیماریاں‘‘ جیسی جامع کتاب سے وہ موتی چنے ہیں جو عقیدے و عمل کی اصلاح کا ذریعہ ہیں اور آخر میں زمانہ ساز کتاب ’’فتح الجواد فی معارف آیات الجہاد‘‘ سے قرآنی علوم و معارف کے ہیرے۔کچھ جملے ’’جمال جمیل‘‘، ’’آزادی مکمل یا ادھوری‘‘ اور ’’سات دن روشنی کے جزیرے پر‘‘ نامی کتب سے بھی ہیں جن کی قیمت کا اندازہ قارئین خود لگا لیں گے۔

بہرحال ایک لاجواب انتخاب آپ کے سامنے ہے۔مرتب کتاب جماعت کے ایک پرجوش اور انتھک کارکن ہیں،ان کا یہ انتخاب ان کے حسن ذوق کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کے ساتھ، حضرت امیر المجاہدین کے ساتھ اور نظریہ جہاد کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی کا بھی آئینہ دار ہے۔کتاب چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہے۔اسے جلد حاصل کیجیے اور ان کام کی باتوں کو پڑھیے۔یقیناً ہم سب کے لئیے ان میں فوائد کے بہت سے پہلو ہیں ان سے محروم نہ رہیں۔حسن انتخاب کے چند نمونے ملاحظہ ہوں ۔پہلا شذرہ ہی انتخاب لاجواب کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا:
ایک مفیدمشورہ

اے باصلاحیت مسلمانو! اﷲ کے لئے خود کو تولو… اور پھر اپنا سارا وزن دین کے کاموں پر خرچ کرڈالو… اگر تمہارے چلنے سے کوئی کام ہوتا ہے تو بغیر تھکے چلتے رہوخواہ ٹانگیں ٹوٹ جائیںاگر تمہارے بولنے سے کچھ کام ہوتا ہے توبولتے رہو خواہ سینہ پھٹ جائے… اگر تمہارے جاگنے سے کچھ کام ہوتا ہے تو جاگتے رہوخواہ دماغ تھک جائے… اورسنو! اگر تمہارے مرنے سے کچھ کام ہوتاہے تو مر جاؤ… تب رب کریم خود استقبال فرماتا ہے… اور یاد رکھنا! زندہ رہنے والے تمہاری موت کو رشک کی نگاہ سے دیکھیں گے (رنگ ونورجلد۱:ص۴۲۷)
اللّٰہ تعالیٰ کی یاد

پس اے مجاہد!تو کبھی بھی مالک کی یاد سے غافل نہ ہو… تو پیدل چل رہا ہو یا تیرے نیچے پیجارو گاڑی ہو… تو خچر یا گھوڑے پر سوار ہو یا ہوائی جہاز پر… تو دھول سے اٹے ہوئے میدان میں ہویا ائیر کنڈیشن دفتر میں…تو میدان جہاد میں جنگ کا نقشہ بنا رہا ہو یا کسی دفتر میں… تنظیمی اجلاس میں مصروف ہو تو کسی حال میں بھی اﷲ تعالیٰ سے غافل نہ ہو… تیرادل اس کی یاد سے معموراورتیری زبان اس کے ذکر سے تر رہنی چاہیے۔ (دروس جہاد:ص۷۶)
شیطان کا آسان لقمہ

ایک انسان کو اﷲ تعالیٰ ’’جماعت‘‘ عطاء فرماتا ہے… اس جماعت کے ذریعے اسے دین کے وسیع کام کی توفیق ملتی ہے… دنیا آخرت میں عزت کا سامان بنتا ہے… اعمال میں جڑنے کی ترغیب ملتی ہے… اور قیامت تک کے لئے صدقہ جاریہ چھوڑنے کا موقع ملتا ہے… اچانک شیطان اس پر ناشکری کا حملہ کرتا ہے اور اسے جماعت بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے… شیطان اس کے کان میں کہتا ہے کہ تو تو اکیلا اچھا ہے، تو تو اکیلا بہت کچھ ہے، تو تو اکیلا بڑی چیز ہے، اکیلا ہونے میں آزادی اور عزت ہے اور جماعت میں پابندی اور ذلت ہے… تب یہ شخص ناشکری کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی نعمت ’’جماعت‘‘ سے الگ ہو کر شیطان کا آسان لقمہ بن جاتا ہے… اور ایک لمحے کے فیصلے سے کروڑوں اربوں نیکیوں سے محروم ہو کربے کاری اور غیبت کی مکھیاں مارنے میں مشغول ہوجاتا ہے…(رنگ ونورجلد۳:ص۲۳)
ایک شرم ناک مرض

یاد رکھئے! بزدلی ایک شرم ناک مرض ہے جو انسان کے لئے دنیاو آخرت میں شرمندگی کا باعث ہے، اس لئے ہمیں اس بات سے شرم کرنی چاہئے کہ ہم اﷲتعالیٰ کے حضوراس حال میں پیش ہونگے کہ ہمارے اندر اﷲتعالیٰ کے لئے جان دینے کا جذبہ نہ ہو۔(فضائل جہاد:ص۶۸۸)
انٹر نیٹ اور ای میل

وہ مسلمان نوجوان جو زمین کا سینہ چیر سکتے تھے اور جو چاند پر اذان دے سکتے تھے انٹرنیٹ پر اپنی زندگی اور جوانی تباہ کر رہے ہیں… ہر شخص نے اپنے کئی کئی نام رکھے ہوئے ہیں اور ہر نام کا الگ ای میل ایڈریس… اور ہر نام سے الگ دوستیاں، الگ لڑکیاں، الگ لڑکے… ہائے مسلمان ہائے تجھے کیا ہوگیا ہے؟…ای میل پر یاریاں کرنے والے نوجوان! مدینہ منورہ کی طرف تو دیکھ … اﷲ کے لئے تھوڑی سی شرم کر… میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ امریکہ انشاء اﷲ مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ مسلمانوں کو برباد کرکے رکھ دیں گے…(رنگ ونورجلد۳:ص۳۹۶)

٭…٭…٭