السلام علیکم..طلحہ السیف

بادشاہ کی نماز
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 483)
کیا آپ کو یاد ہے کہ کس مسلمان حکمران نے آخری بار ایسا کام کب کیا تھا جسے اچھا قرار دیا جاسکے…؟
وہ آخری حکمران کون سا تھا جس نے اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو اپنی دنیاوی مصالح پر ترجیح دی تھی…؟
ایسا آخری بار کب ہوا تھا کہ کسی مسلمان حکمران نے کفار کی غلامی کی بجائے اللہ تعالیٰ کی عبدیت کا ثبوت اپنے عمل سے پیش کیا تھا…؟
آپ کو یاد ہو کہ کسی مسلمان حکمران نے کوئی ایسا کام کیا ہو جس سے کفار کے دل جلے ہوں اور اہلِ ایمان کو خوشی ملی ہو…؟
ارے صاحب!
ابھی چند دن پہلے ہی تو ایسا ہوا ہے… لیکن اکثر لوگوں کے نوٹس میں آئے بغیر گزر گیا کیونکہ میڈیا ایسی خبر کو کیونکر اجاگر کرنے لگا جو اس کے فرض منصبی کے خلاف بلکہ شدید خلاف ہو۔
اب آپ سوچ رہے ہوںگے کہ شاید میں چنیوٹ میں معدنیات کے ذخیرے پر کھڑے ہوکر ’’کشکول‘‘ توڑنے کے اعلان کی بات کررہا ہوں تو آپ بالکل غلط سوچ رہے ہیں۔
کشکول توڑنا ہمارے ہاں سرکاری فیشن ہے۔ ہندوستان میں ہندو حکمران جس طرح ناریل توڑتے ہیں ہمارے ہاں بالکل اسی طرح ہر نیا حکمران کشکول توڑتا ہے،آئی ایم ایف سے آزادی کا اعلان کرتا ہے، قوم کو قرضوں سے نجات کی نوید سناتا ہے، معاشی خود مختاری حاصل کرنا اپنا اولین مقصد بتاتا ہے اور پھر چند سال بعد قوم کو پہلے سے بڑا کشکول تھماکر قرضوں کا مزید بوجھ لاد کر اور معیشت کو مزید غلامی میں دھکیل کر چلتا بنتا ہے۔
پھر آپ کے خیال میں میرا اشارہ لوہے کے اس موصل نما ڈنڈے کی طرف ہوگا جو وزیر اعظم صاحب نے لہرا کر دکھایا شاید اس سے کفار کے دل جلے اور ڈرے ہوںگے تو ایسا بھی ہرگز نہیں۔ کفار کی تو باچھیں کھل گئی ہوںگی کہ پاکستان میں لوٹ کا ایک اور مال منظر عام پر آیا۔ اب ان کی کمپنیوں کے مقامی ایجنٹ متحرک ہوں گے ، ٹھیکوں کی بندر بانٹ ہوگی، کمیشن کی بارش برسے گی، کرپشن کا ایک اور بازار کھلے گا اور عالمی سرمایہ دار کمپنیوں کو ننگا نہانے کے لیے ایک حمام اور کھلا کھانے کے لیے ایک اور دسترخوان مہیا ہوگا۔ ’’لوہا‘‘طاقت کا وہ خزانہ ہے جو ازروئے نص قرآنی ’’نازل‘‘ کیا۔ بڑی سخت پکڑ اور مارنے کی صلاحیت کے ساتھ اُتارا گیا تاکہ دین اسلام کے غلبے اور کفار کی طاقت کو توڑنے کے لیے خرچ ہو۔ اگر اس مقصد کو سامنے رکھا جائے تو ’’لوہے‘‘ کے عظیم الشان ذخیرے کا مسلمانوں کے ہاتھ آنا کفار کے لیے واقعی شدید پریشانی کا باعث ہوتا لیکن کفار کو علم ہے کہ یہ لوہا سورۃ ’’الحدید‘‘ پڑھنے والے مسلمانوں کے ہاتھ نہیں آیا ’’اتفاق‘‘ باہمی کے ساتھ اس کے پل،پٹڑیاں، میٹرو ٹرمینل اور سریا بنانے والوں کے ہاتھ آیا ہے، اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
تو پھر ایسا کون سا کام کس حکمران نے کردیا ہے؟
جی ہاں! یہ کام کیا ہے سعودی عرب کے نئے بادشاہ ملک سلمان نے۔ لیکن چونکہ میڈیا کو پسند نہیں آیا اس لیے نہ بڑی خبر بنی اور نہ کوئی کالم لکھے گئے۔ یوں مسلمان خوشی کی اس خبر سے بے خبر رہے اور شفائے قلب کے اس حسین منظر کی دید سے محروم…
آپ کو یاد ہوگا کہ اباما پچھلے دنوں ہندوستان کے دورے پر آیا ہوا تھا، مودی اس کی خوشی میں ہر گھنٹے جوڑا بدل رہا تھا، جن جھپے ڈالے جارہے تھے، بے تکلفی کے ایسے ایسے مناظر تھے کہ نہ پوچھئے۔ یوں اباما اسی خوشی سے سرشار اور ہندوستان میں ملنے والے پروٹوکول پر نازاں اپنا دورہ ایک دن مختصر کرکے سعودی عرب چلا گیا تاکہ پرانے بادشاہ کی تعزیت کرے اور نئے بادشاہ کے پروٹوکول سے حسِّ غلامی کا اندازہ بھی لگالے کہ آگے کیسی نبھنے والی ہے۔ امریکی صدر کا طیارہ جس وقت ریاض کے ائیر بیس پر اترا ،سعودی بادشاہ اس کے استقبال کے لیے ائیر پورٹ پر مع لشکر شہزاد گان موجود تھے۔ وہ امریکی صدر کی طرف بڑھے، بڑے اعزاز کے ساتھ مصافحہ کیا ہی تھا کہ اذان عصر بلند ہوگئی۔ انہوں نے امریکی صدر کو نہ تو کوئی لفظ کہا اور نہ ہی سرخ قالین پر اسے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی، سیدھا ریورس گیئر لگایا اور خاموشی سے مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ بادشاہ کے اس عمل کی تقلید چونکہ باقی پروٹوکول عملے پر بھی لازم تھی، اس لیے تمام شہزاد گان، افسران اور نمائندگان بھی ساتھ ہی مڑ گئے۔ یوں ابامہ صاحب اپنے لتے ہوئے منہ، بجھی ہوئی مشعل اور سہمے ہوئے سفیر کے ساتھ وہیں کے وہیں کھڑے رہ گئے۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے صدر یعنی دنیا کے طاقتور ترین شخص کا منہ ایسے ہورہا ہے جیسے کسی نے تھپڑوں کی بارش سے لال کردیا ہو۔ اس کے چہرے پر کئی سوالات نقش ہیں جن کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔ وہ جھنجھلائے ہوئے انداز میں خالی ائیربیس کو دیکھ رہا ہے اور اپنے سفیر سے سخت لہجے میں باز پرس کررہا ہے۔ اس کا بس نہیں چل رہا کہ اردگرد لگے سارے کیمرے توڑ دے جو اس کی بے بسی کی تصویر پوری دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ ابامہ اور مشعل کا منہ پہلے بھی کوئی خاص دیکھنے لائق نہیں مگر اس وقت تو…
اور شاہ سلمان عالی شان بزبان حال یہ کہتے ہوئے بڑی شانِ بے نیازی سے وہاں سے جاچکے ہیں ؎
اے دوست نماز عصر وقت پہ پڑھنا
بہتر ہے ملاقاتِ ابامہ و مشعل سے
میں نے یہ منظر دیکھا یقین کیجئے میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ رکھ سکا۔ دورِ حاضر کا ایک مسلمان حکمران نماز جیسے شان والے فریضے کی اہمیت پوری دنیا کے سب سے بڑے دشمن اسلام کو دکھا دے گا ،کبھی تصور بھی نہ تھا۔ ہمارے حکمرانوں کا اسلام کے اس شان والے فریضے سے کتنا تعلق رہ گیا ہے؟ محض عید کی نماز وہ بھی منہ طرف کیمرے کے۔ اسمبلی کے اجلاس ہوں یا کابینہ کے، اپنے ملک کے دورے ہوں یا بیرون ملک کے، جو چیز سب سے آسانی کے ساتھ نعوذ باللہ ترک کردی جاتی ہے وہ نماز ہے۔ مگر سلام ہو شاہ سلمان کو کہ نماز کے لیے جاتے ہوئے نہ تو رسماً کوئی الفاظ معذرت کے کہے اور نہ کسی پروٹوکول کا خیال کیا بس یوں گئے کہ گویا اعلان کررہے تھے کہ نماز سب سے اہم، سب سے ضروری اور سب سے مقدم کام ہے۔
اب میڈیا کو پریشانی شروع ہوئی کہ ایک مسلمان حکمران خصوصاً خادم الحرمین الشریفین کے اس عمل کی اگر تشہیر ہوگئی تو مسلمانوں کے لیے نماز کی پرزور ترغیب اور دعوت بن جائے گی۔ اس لیے اس خبر کو زیادہ کوریج نہ دی گئی۔ ساتھ یہ بحثیں چھیڑ دی گئیں کہ ان کایہ عمل دراصل مذہبی طبقے کے دبائو کی وجہ سے تھا۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ سعودیہ میں جس طرح کی بادشاہت رائج ہے، وہاں بادشاہ پر کسی کے دبائو کا تصور بھی محال ہے چہ جائیکہ کہ کوئی دبائو ایسا شدید ہو جو بادشاہ کو اپنی مرضی کے خلاف پروٹوکول کے دنیاوی اور شاہی تقاضے ترک کرنے پر مجبور کرسکے۔
سبحان اللہ!
شاہ سلمان کا مسجد کی طرف بڑھتا ہوا ایک ایک قدم ابامہ کے دل پر جیسی ضربیں لگارہا تھا ان کی تکلیف اس کے چہرے سے بالکل عیاں تھی اور چھپائے نہ چھپتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کے ان قدموں کو باعث اجر قرار دیا ہے جن کے اُٹھنے سے کفار کے دل جلیں۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۱۲۰میں یہ مضمون واضح الفاظ میں آیا ہے،اللہ تعالیٰ نے کفار کا دل جلانے اور ان پر شدت و سختی کا رویہ رکھنے والی جماعت کی تعریف فرمائی۔ سورۃ الفتح کی آخری آیت اور سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۵۴میں یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے۔ خادم الحرمین الشریفین نے نمازِ عصر کے لیے جو قدم اٹھائے اور کفار کا دل جلایا انہیں تکلیف پہنچائی یقیناً اس پر بڑا اجر پایا ہوگا۔ میں نے کئی اللہ والوں کو ان کی اس نماز پر رشک کرتے ہوئے دیکھا ہے، پھر معاملہ اسی پر ختم نہیں ہوا۔ دو دن بعد سعودی شاہی خاندان کے چند ایک وہ شہزادے جو امریکی نمک خواری اور وفا داری کے باب میں بڑی شہرت کے مالک ہیں از قبیل ’’بندر‘‘ و ’’ترکی‘‘ وغیرہ اپنے ان عہدوں سے معزول کر دئیے گئے جن پر وہ عرصہ دراز سے متمکن تھے۔ یہ عہدے بھی ایسے تھے جن کا تعلق عالمی معاملات سے تھا اور ان عہدوں پر ان شہزادوں کا تمکن امریکی خواہشات کے عین مطابق تھا ، میڈیا نے ان تبدیلیوں کو بھی معمول کی کارروائی قرار دے کر ہلکا کرنے کی کوشش کی جبکہ سعودی ذرائع کے مطابق یہ معمول کی کارروائی ہرگز نہیں بلکہ ان شہزادوں نے بادشاہ کے اس عمل پر ناگواری کا اظہار کیا تھا کہ وہ امریکی صدر کو یوں اکیلا چھوڑ کر کیوں گئے؟اس سے سعودیہ کی جگ ہنسائی ہوگی اور عالمی طاقتوں سے تعلقات متاثر ہوں گے اور انہوں نے حق نمک ادا کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ’’چاچا جی!تسی چنگی نئیں کیتی‘‘ …نماز تو بندہ بعد میں بھی پڑھ لیتا ہے۔
چاچا جی کو ان کی بات پسند نہیں آئی اور پھر ان کے ساتھ جو ہوا ان کے خیال میں تو یقینا’’چنگا ‘‘نہیں ہوا۔
بہرحال خادم الحرمین الشریفین کا یہ اقدام سرزمین حجاز سے تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مزید ایسے اقدامات کی توفیق بخشے جن سے اہلِ ایمان کے قلوب کو ٹھنڈک پہنچے اور کفار کے دل جلیں۔ اللہ تعالیٰ دیگر مسلمان حکمرانوں کو بھی توفیق نصیب فرمائے کہ وہ خود کو کفار کی بجائے اللہ تعالیٰ کا غلام اور بندہ سمجھیں اور اس کی بندگی کو ترجیح دیں۔ دورِ حاضر کا کوئی ایک مسلمان حکمران بھی ایسا نہیں جس کی تعریف کی جاسکے اور اس کے اعمال کی تحسین کی جاسکے۔ ایسے میں کوئی حکمران اگر ایسا کام کرے تو اس کا حق ہے کہ اس کی تحسین کی جائے۔ خادم الحرمین الشریفین کا یہ عمل کئی پہلوئوں سے لائقِ تحسین ہے، اسے عام کیا جانا چاہیے اور دعاء بھی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ مرکزِ اسلام کے حکمرانوں کو ایسا بنادے کہ وہ پوری اُمت مسلمہ کی دینی قیادت سنبھال لیں اور عالم کفر کے سامنے سینہ سپرہوجائیں۔
٭…٭…٭
اَکابر کی نسبتوں کے اَمین
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 481)
حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی نے بھی اس جہانِ فانی سے کوچ فرمایا اور اس عالَم کو داغِ مفارقت دیا جو ان کی طرف محتاج تھا۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ۔ اِنَّ للّٰہ ما اَعطیٰ ولہ ما اخذ وکل شییٔ عندہ باجل مسمی، اللہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ
وہ علماء ربانیین کے اُس طبقے کے گنے چنے اَفراد میں سے تھے جن کا علم اُن کے عمل سے چھلکتا ہے۔ جو اس دور میں طریقِ سلف کی علامت اور نشانی سمجھے جاتے ہیں۔ جو اِستقامت کے ساتھ نہ صرف اس منہج پر قائم ہیں جو ہمارے اَکابر کا اَصل وِرثہ ہے بلکہ ان کا وجود دوسروں کے لئے بھی اس راہ پر ثبات کا سبب ہے۔ جو جدّت پسندی کے شدید سیلاب میں ان جزیروں کی طرح ہیں جن پر قدامت کی پُرامن راہ چلنے والے پناہ لیتے ہیں۔ جو زمانے کی چکا چوند سے متاثر ہوئے بغیر اپنی چال چلتے رہے، زمانہ انہیں اپنے راستے سے نہ ہٹا سکا۔ایسے لوگ بہت کم ہیں اور اب مزید کم ہو گئے۔
وہ ان علماء راسخین میں سے تھے کہ علم جن کا اوڑھنا بچھونا،ان کا سب سے بڑا تعارف اور گویا کہ ان کی زندگی ہوتا ہے۔ ان کی تمام عمر علم حاصل کرنے ،علم بانٹنے اور علم کا نور پھیلانے میں گزری۔ دارالعلوم کبیر والا میں اپنے اَساتذہ اور بزرگوں کی مسندِ تدریس پر جلوہ اَفروز رہے اور نوجوانی میں بڑی بڑی کتابیں پڑھائیں۔ اسی وجہ سے ان کے کئی شاگرد تقریباً ان کے ہم پلہ معلوم ہوتے ہیں مگر بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ وہ ’’شیخ عبد المجید‘‘ سے تلمذ کا شرف رکھتے ہیں۔چالیس سال سے زائد عرصہ ’’اَصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ اور درس نظامی کی سب سے بڑی کتاب ’’صحیح بخاری‘‘ کا درس دیا۔ جامعہ باب العلوم جیسا معروف ادارہ قائم کیا اور اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ اسی گلشن کی آبیاری پر صرف کیا۔ درجنوں مدارس کی سرپرستی کی۔ تحریکات دینیہ کے بہی خواہ اور مشفق سرپرست رہے۔ آخر عمر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر بنائے گئے، یوں اس مسند پر رونق افروز ہوئے جس کو حضرت خواجہ خان محمد صاحب قدس سرہ جسے امام الاولیائ، حضرت بنوری قدس سرہ جسے امام العلماء اور حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نور اللہ مرقدہ جیسے امام زمانہ کی نسبت حاصل ہے۔ وہ ان اکابر کے طریقے کے امین تھے، اسی لئے ان کی جانشینی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے، وہ مثالی مدرس تھے اور ان کا طرز تدریس مسلم تھا ۔
وہ حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب قدس سرہ کے سلسلہ سے وابستہ تھے۔حضرت شاہ صاحب کے بارے میں ہر خاص و عام جانتا ہے کہ انہیں امام المجاہدین حضرت سید احمد شہید ؒ سے خصوصی نسبت تھی۔گویا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت سید صاحب ؒ کے علوم ومعارف کی ترویج کے لئے منتخب فرمایا تھا۔وقائع سید احمد شہیدؒ کی اشاعت جیسا عظیم اور بے مثل کارنامہ انہی کے ہاتھوں انجام پایا۔زندگی بھر سید صاحبؒ کے آثار ڈھونڈتے رہے اور دنیا کے سامنے لاتے رہے۔ مجاہدین کی ہمیشہ عملی سرپرستی فرمائی اور اپنی اکلوتی نرینہ اولاد بھی اسی راستے کی نذر کی۔حضرت سید صاحبؒ کی کھلی کرامت ہے کہ دو صدیوں کا عرصہ گذر جانے کے باوجود ان کی تحریک کا نہ صرف نام بلکہ اس کا مکمل نظریہ اور منہج آج بھی زندہ و تابندہ ہے اور قافلہ حق کے راہرو اس سے روشنی حاصل کر رہے ہیں۔اس کے ظاہری سبب کو تلاش کیا جائے تو دو علمائِ راسخین کی کاوشیں سب سے بڑھ کر نظر آتی ہیں۔ ایک حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی قدس سرہ جنہوں نے اپنی ساری زندگی سید صاحب کی تحریکیں سنانے میں گذار دی۔ وہ دنیا بھر میں پھر پھر کر قافلہ بالاکوٹ کی صدائیں سناتے رہے اور مسلمانوں تک اس کی روشنی پہنچاتے رہے اور دوسرے حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحبؒ جنہوں نے سید صاحب کی مٹی ہوئی یادگاروں کو محفوظ کر دیا۔حضرت مولانا عبد المجید صاحبؒ بھی اسی سلسلہ سے وابستہ تھے۔ شاہ صاحب کے مسترشد اور خلیفہ مجاز تھے تو اب کس طرح ممکن ہے کہ وہ قافلہ بالاکوٹ سے وابستہ نہ ہوتے۔وہ سید صاحب کی تحریک اور ان کے آثار کے گویا حافظ تھے، ان کی مجلس میں جب یہ موضوع چھیڑا جاتا تو علم کا دریا رواں ہو جاتا۔دو سال قبل وہ ہماری دعوت پر جامعۃ الصابر تشریف لائے۔کئی گھنٹے قیام رہا اور اس میں زیادہ تر وقت اسی موضوع پر اِظہارِ خیال ہوتا رہا۔ دَمِ رخصت گاڑی کے پاس آ گئے تو بندہ نے تلوار ہدیہ میں پیش کی۔بہت خوشی کا اظہار فرمایا، واپس کمرے میں تشریف لے آئے اور کہا:
مولوی صاحب! نبی کریم ﷺ کی تلوار مبارک پر چاندی استعمال کی گئی تھی۔محدثین کرام نے اس پر مستقل ابواب باندھے ہیں ۔اس میں اَلفاظ ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی تلوار کا’’قبیعہ‘‘ چاندی کا تھا۔قبیعہ کے معنیٰ عام طور پرا س حلقے کے کئے جاتے ہیں جو دستے کے اوپر ہوتا ہے لیکن اس کا اصل معنی یہ نہیں بلکہ وہ پیچ ہے جو دستے کو تلوار سے جوڑتا ہے۔ حلقہ مراد لینے میں کئی علمی اشکالات ہیں جو پیچ مراد لینے سے ختم ہو جاتے ہیں۔پھر دیر تک ان اشکالات کی وضاحت فرمائی۔ جاتے ہوئے تلوار کو چوما اور کہا:
’’بخاری کے سبق میں طلبہ کو آج تک یہ مسئلہ غائبانہ سمجھاتا تھا۔مشکل پیش آتی تھی،آپ نے مسئلہ حل کر دیا اب تلوار سامنے رکھ کر سمجھاؤں گا تو آسانی ہو گی‘‘
مرکز میں اس وقت ’’دورہ تربیہ‘‘ چل رہا تھا۔ظہر کے بعد کھانے کے دوران دفتر میں ذکر اللہ کی آواز آئی تو پوچھا یہ آواز کیا ہے؟
بندہ نے بتایا دورہ تربیہ جاری ہے اور اس میں اس وقت پندرہ ہزار بار اسم ذات ’’اللہ‘‘ کا ذکر ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ’’دورہ تربیہ‘‘ کا پورا تعارف پیش کیا اور کارڈ دکھایا۔دیر تک اس کارڈ کو ملاحظہ کیا اور پھر جامعہ کے بزرگ استاذ قاری محمد صادق صاحب زید مجدہ سے فرمایا:
’’ میں مجاہدین کے پاس ہر جگہ جاتا رہا ہوں اور اب بھی جاتا ہوں۔ میرے علم کے مطابق ایسا نظام کہیں پر رائج نہیں اور یہ میرے خیال کے مطابق سید احمد شہیدؒ کی محنت کا تسلسل ہے‘‘…
کھانے کے بعد مسجد تشریف لے جا کر ’’ذکر اللہ ‘‘ کا مشاہدہ کیا اور اس امر پر بار بار حیرانی کا اظہار فرماتے رہے کہ دورہ تربیہ کئی سالوں سے مسلسل تسلسل کے ساتھ جاری ہے اس میں کبھی تعطل نہیں آیا۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ ان کا تعلق حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب قدس سرہ کے سلسلے سے تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ قافلہ سید احمد شہید کے حدی خوان سے تعلق کا اثر ان کے نظریۂ جہاد پر نہ پڑتا۔ذیل میں حضرت مولانا عبد المجید صاحب ؒ کے ایک بیان کا اقتباس درج کر رہا ہوں، اس سے قارئین کو علم ہو جائے گا کہ جماعت کی طرف سے جس نظریہ جہاد کی دعوت دی جاتی ہے اور اس پر اعتراض کیے جاتے ہیں، ہر زمانے کے علماء ِراسخین کا یہی نظریہ رہا ہے اور آج بھی ہے۔ یہ کوئی اختراعی دعویٰ نہیں، قرآن و حدیث کا پیغام ہے۔حضرت مولانا نے یہ بیان بہاولپور کی ایک دینی درسگاہ میں ختم بخاری شریف کے موقع پر فرمایا تھا۔
بیان کا موضوع تھا : اللہ کی محبوب جماعت
سورۂ مائدہ کی آیت ۵۴ کو بنیاد پر بنا کر یہ سمجھایا جا رہا تھا کہ فسادِ زمانہ کے وقت جو جماعت حق پر قائم رہے گی اور دین پر ڈٹی رہے گی اس کی صفات کیا ہوں گی۔ اس میں قرآنی الفاظ
’’ یجاہدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومۃ لائم ‘‘
کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اگلا لفظ، جس کا استعمال آج کل کے معاشرے میں جرم بنا ہوا ہے، اللہ کے محب اور اللہ کے محبوب’’ یجاھدون فی سبیل اللّٰہ‘‘اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔
لایخافون لومۃ لائم
کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈریں گے نہیں، خوف نہیں کریں گے۔ ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرنے کا کیا مطلب ہے، آج کل ہمارے ہاں گھروں کے اندر، شادیوں کے موقعوں پر اور موتوں کے موقعوں پر جتنی رسوم ہوتی ہیں وہ سب ’’خوف لومۃ لائم‘‘ ہیں۔
یہ لومۃ لائم کیا چیز ہے؟ لوگ کیا کہیں گے، اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو فلاں کیا کہے گا، برادری کی طرف سے ملامت کا ڈر ہے، دوسرے عام لوگوں کی ملامت کا ڈر ہے، اس لیے ملامت کا خوف ہمیں اللہ کی نافرمانی پر برانگیختہ کرتا ہے۔ ہم، لوگوں کی ملامت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، اللہ کے نافرمان بن جاتے ہیں۔لوگ کیا کہیں گے اور یہ کبھی نہیں سوچتے کہ اللہ کیا کہے گا؟
اب یہ جہاد کے ساتھ جو آیا ہے ’’لایخافون لومۃ لائم‘‘ اس کا مفہوم اگرچہ عام ہے، لیکن آج کے دور میں یہ بات جہاد کے ساتھ بڑی مناسبت رکھتی ہے۔ جہاد کا نام نہ لو، لوگ کیا کہیں گے، ’’یہ دہشت گرد ہیں، دہشت گرد‘‘۔ جہاد کا نام نہ لو، لڑنے مرنے کا نام نہ لو، لوگ کہیں گے دہشت گرد ہے۔ اب یہ ہے جو خوف لومۃ لائم سے ہم نے ترک کردیا۔
یہ محب ومحبوبوں کی جماعت کااللہ نے تعارف کرایا کہ میرے محبوب وہ ہوں گے ، یجاھدون فی سبیل اللّٰہ، جو اللہ کے راستے میں جہاد کرینگے۔ اسی کی وضاحت دوسری آیت میں سورۃ صف میں موجود ہے ، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم بیٹھے آپس میں مذاکرہ کررہے تھے ، صحابہ کی جماعت، ہمارے مذاکرے میں یہ بات آگئی کہ اگر ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ اللہ کو کون ساعمل پسند ہے تو ہم وہ کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ ان کے سامنے یہ بات ہوئی، اس سوال کا جواب اللہ نے قرآن میں دیا ہے کہ تم جو پوچھتے ہو کہ اللہ کو کون سا عمل پسند ہے، ہم وہ عمل کریں گے۔ تو یا تو بات کہونہ یا پھر کرکے دکھاؤ،لم تقولون مالاتفعلون۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ زبان سے کہتے ہو تو کرکے دکھاؤ۔کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو۔اس کا تعلق لاف زنی کے ساتھ ہے، یعنی بڑھکیں مارنا، جس کو ہم اپنی زبان میں ’’پھڑیں مارنا‘‘کہتے ہیں۔ (یعنی) بہتی پھڑیں نہ مارا کرو، اگر منہ سے نکالتے ہو تو پھر کرکے دکھاؤ۔
پہلے تو یہ کہا کہ … منہ سے کہتے ہو کہ ہمیں محبوب عمل کا پتہ چل جائے تو ہم ویسا کریں، یہ کہتے ہو تو کرکے دکھاؤ پھر، میں بتاتاہوں محبوب عمل کیا ہے، ’’ ان اللّٰہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفّاًکانّھم بنیانٌ مرصوص‘‘لیجیے! اللہ محبت کرتا ہے ان لوگوں کے ساتھ جو اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں قتال۔ لفظ ’’قتال‘‘ ہے، ’’جہاد‘‘ کے لفظ میں تو میرے جیسے بزدل کئی تاویلیں کرلیں گے، قتال میں کیا تاویل کریں گے؟ جہاد میںتو تاویلیں ہوجاتی ہیں، قلمی جہاد بھی ہوتا ہے، مالی جہاد بھی ہوتا ہے، قولی جہاد بھی ہوتاہے، فعلی جہاد بھی ہوتا ہے، تقسیم در تقسیم، تقسیم در تقسیم کرتے کرتے ہم اپنے گھسنے کے لیے کوئی سوراخ تلاش کرلیتے ہیں ، کہ یہ فرض ہم ادا کررہے ہیں، یوں کررہے ہیں، یوں کررہے ہیں۔ قتال میں کیا تاویل کریں گے؟ قتال کا لفظ توقتل سے لیا گیاہے، اور قتال کامعنی: آپس میں لڑنا۔تو ’’ ان اللّٰہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ‘‘یہاں یجاھد کا لفظ نہیں ہے،(بلکہ) اللہ پسند کرتا ہے ان لوگوں کو جو اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں،اور اس طرح سے جم کے لڑتے ہیں جس طرح سے چونا گچ دیوار ہوتی ہے،جوہلائے نہیں ہلتی۔ اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔یجاھدون فی سبیل اللّٰہ، یقاتلون فی سبیل اللّٰہ۔ یقاتلون نے آکر یجاھدون فی سبیل اللّٰہ کی تفسیر کردی،کہ محبوب عمل وہ اللہ کے رستے میں جہاد کرنا ہے اور جہاد سے یہاں مراد اس کی اَعلیٰ قسم ہے۔
اور اس بارے میں کسی کی پرواہ نہیں کریں گے کہ کوئی کیا کہتا ہے کیا نہیں کہتا، لایخافون لومۃ لائم، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔ میں ایسی جماعت لے آؤں گا’’سوف یاتی اللّٰہ بقوم یحبھم ‘‘اللہ ان سے محبت کرے گا وہ اللہ سے محبت کریں گے۔اور کام یہ ہوگا کہ مومنوں کے حق میں بہت نرم، کافروں کے بارے میں بڑے مضبوط اور اللہ کے راستے میںجہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔ یہ اللہ نے اپنے محبوبوں کی جماعت کاتعارف کرایا ہے‘‘۔
لیجئے ایک عالم ربانی کے الفاظ میں ’’جہاد‘‘ کا حقیقی معنیٰ اور اللہ تعالیٰ کی محبوب جماعت کا عمل معلوم ہو گیا۔ یہی وہ بات ہے جو ہر زمانے میں کہی گئی اور اسی کی دعوت دی گئی۔ قرآن و حدیث اور نبی کریم ﷺ کا اپنا اور صحابہ کرام کی جماعت کا عمل بھی اسی کا شاہد ہے اور یہ امت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ ہے۔مگر جب جماعت کی طرف سے اس نظریہ کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس پر اعتراضات اور اشکالات اٹھائے جانے لگتے ہیں۔حضرت نے اس طرز عمل کو جان چھڑانے اور گھسنے کا نام دے کر سارا معاملہ حل کر دیا۔
آہ! زمانہ حق سنانے والے ایک عالم ربانی سے محروم ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کاملہ کا مقام نصیب فرمائے اور ان کی عمر بھر کی محنتوں پر انہیں اپنی شان کے مطابق اَجر عطاء فرمائے۔تعزیت کس سے کی جائے۔یہ صرف اہل خاندان یا ان کے علمی و روحانی سلسلے کے وابستگان کے لئے نہیں پوری اُمت کے لئے سانحہ ہے۔
٭…٭…٭
زورِ بازو
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 480)
کتنا عجیب لگتا ہے جب ہم کفار کو، ان کے حاشیہ نشین منافقین کو،عالمی طاقتوں کو، بڑے ناموں والے اداروں کو اور حکمرانوں کو آئینہ دِکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہم حقائق اور ان کے طرز عمل کا موازنہ کرتے ہیں اور انہیں اس پر شرمندہ کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔صرف عجیب نہیں بلکہ فضول سا کام لگتا ہے۔ہاں البتہ یہ باتیں اگر نا پختہ ذہنوں کی صفائی اور حق پر کھڑے اہل ایمان کی نظریاتی پختگی کے لئے کی جائیں تو اچھا عمل ہے۔
عالمی طاقتیں ظلم پر ہیں، ظلم کی حامی ہیں،باطل پر ہیں اور باطل کی محافظ ہیں۔جھوٹ پر قائم ہیں اور جھوٹ کے فروغ میںہی ان کی زندگی ہے۔انصاف،جمہوریت،حقوق ،آزادی یہ سب ان کے ڈھونگ ہیں جن کی حقیقت کچھ بھی نہیں اور ان نقابوں کے پیچھے چھپا ان کا اصل چہرہ از حد بھیانک ہے۔ یہ انصاف کا نام لیتے ہیں لیکن ہر جگہ ظلم کے ساتھ ہیں۔ یہ برابری کی، مساوات کی بات کرتے ہیں لیکن ان کی حمایت ہمیشہ انہی قوتوں کو حاصل رہی ہے جو تقسیم کی علمبردار ہیں۔ یہ حقوق کے نعرے لگاتے ہیں لیکن ہرغاصب کا ہاتھ ہمیشہ انہی نے تھاما ہے۔یہ جمہوریت کو اپنا فخر قرار دیتے ہیں لیکن ہر آمر انہی کے دستِ شفقت کے زیر سایہ پرورش پاتا ہے اور یہ کام کسی ایک آدھ جگہ نہیں، اِن طاقتوں کی تمام تر تاریخ ایسے سیاہ کارناموں سے لبریز ہے اورآئندہ کے لئے ان کی اعلان کردہ پالیسیاں بھی یہی ہیں، تو ایسے میں انہیں شرم دلانے یا آئینہ دکھانے سے کیا حاصل؟ …لیکن عوام الناس ’’میر‘‘ کے بیان فرمودہ فارمولا کے مطابق ہر مرض، ہر پریشانی کی دوا لینے اُسی عطار کے لونڈے کی خدمت میں عرضیاں پیش کرتے رہتے ہیں۔
مصر کی مثال لے لیجئے!
تقریباً پون صدی سے آمریت کی زنجیروں میں جکڑا اور پانچ سال قبل اَنگڑائی لے کر بیدار ہوا اور لوگ جمہوریت اور حقوق کی بحالی کا نعرہ لے کر سڑکوں پر نکل آئے۔ اور نکلے بھی عمران خان کے دھرنے کی طرح نہیں کہ چند دن ناچ گانا اور آخر میں ایک عدد شادی کر کے رخصت ہو جائیں، بلکہ یوں نکلے کہ ٹینک روند کر گذر گئے مگر لوگ اپنی جگہ سے نہیں ہلے۔گولیوں کی بارش ہوتی رہی مگر دھرنا ٹس سے مس نہ ہوا۔اس طرح یہ تحریک آمریت کو بہا لے جانے میں کامیاب رہی اور ملک میں جمہوری عمل یعنی انتخاب کے ذریعے ایک منتخب جمہوری قوت برسراقتدار آ گئی لیکن جمہوریت کے علمبرداروں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ جمہوریت پر شب خون مارا گیا، جمہور قتل کر دیے گئے ، لاشوں کے ڈھیر لگا کر فوجی بوٹ پھر ایوان اقتدار پر قابض ہو گئے اور آج صورتحال یہ ہوئی کہ ہزاروں بے گناہوں کا قاتل حسنی مبارک آزاد،اس کے بیٹے تمام الزامات سے بری اور سیسی نامی فرعون ہر کارروائی کے لئے مختار و آزاد ہے۔مصر میں کل انقلاب کی چوتھی سالگرہ تھی۔جمہوریت نواز اِخوان اپنے صدر محمد مرسی کی تصاویر اُٹھائے سڑکوں پر نکلے اور ہر سال کی طرح گولیوں اور ڈنڈوں کا نشانہ بنے اور بیس افراد اس میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن پوری دنیا سے مصری حکومت کی مذمت میں ایک بیان بھی سنائی نہ دیا۔ مصر میں کل کیا ہوا اس کی کچھ جھلک اس رپورٹ کے مندرجات میں ملاحظہ فرمائیں:
مصری پولیس اورفوج نے ’’فوجی‘‘ شب خون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں میں سے ۲۰ مظاہرین کو قتل اور۱۶۸افراد کو گرفتار کر لیا۔ تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ مصری پولیس نے ۵ مظاہرین کو گولیوں سے بھون دیا، دو منصوریہ میں، دو مطریہ میں اورایک جیزہ نامی علاقے میں، اس طرح ان پانچ کے ساتھ کل قتل ہوجانے والے مظاہرین کی تعداد ۲۰ تک پہنچ جاتی ہے جنہیں خطرناک شیلنگ کا سامنے کرنے کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اسی وجہ سے مصر کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس موقع پر یہ کہا ہے کہ مصری پولیس اور فوج ، مظاہرین کے ساتھ بے تحاشا ظلم کررہی ہے اورمصری فوج وپولیس کے جرائم تمام حدود کو کراس کرچکے ہیں۔ انہوںنے یہ بھی واضح کیا کہ مصری فوج اورپولیس تمام مظاہرین کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کررہی ہے اور مظاہروں میں شریک مردوخواتین اور بڑوں بچوں میں کوئی فرق روانہیں رکھ رہی، بلکہ اندھا دھند طاقت استعمال کی جاری ہے اورانہیں جیلوں میں ٹھونس رہی ہے۔ جن میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے۔ علاوہ ازیں ماورائے قانون قتل کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے جس میں ایک درجن کے قریب افراد کو حالیہ دنوں میں ہی قتل کر ڈالا ہے۔ جن میں حسان عطاء اللہ، عمرزغلول شعلان، رائد سعد، محمد سعید، عبدالرحمن صفوت، محمد الصادق، اورمصطفی فوزی وغیرہ نوجوان شامل ہیں۔ مصری ذرائع ابلاغ نے یہ بھی واضح کیاہے کہ ان حالیہ مظاہروں میں شریک افراد پر ہونے والے تشدد میں ۱۶۸افراد نشانہ بنے ہیں، ان افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق اسکندریہ، قاہرہ، جیزہ، کفر الشیخ، منیاوغیرہ سے تھا۔ علاوہ ازیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مصری فوج اورپولیس مظاہرین کے خلاف چھوٹابڑاتمام اسلحہ اور خطرناک شیل بم استعمال کررہے ہیں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔اس سلسلے میں افسوس ناک بات یہ ہے کہ مصری پولیس کے ساتھ مصری فوج بھی اپنے شہریوں پر اس طرح کے بہیمانہ تشدد میں بری طرح ملوث ہے جس سے حالات میں بہتری آنے کے بجائے مزید خرابی پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔ اس وقت مصر کے کئی بڑے بڑے شہروں میں مظاہرین اورپولیس کاآمنا سامنا ہے ۔ قاہرہ کے مشرقی علاقے میں مظاہرین کے ایک ہجوم پر مصری پولیس نے دسیوں شیل بم گرائے۔ مصری پولیس اورفوج جو کچھ اپنے عوام کے خلاف کررہی ہے اس سب کے باوجود مصری عوام نے اس ظلم کے مقابل گھٹنے ٹیکنے سے انکارکر رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ متعدد علاقوں میں پولیس کو مظاہرین کے مقابلے سے فرارہونا پڑا، چنانچہ مطریہ کے میدان میں موجود مظاہرین کا جب پولیس کے ساتھ آمنا سامنا ہوا تو اگرچہ پولیس نے بھرپور طاقت کا استعمال کیااورمختلف طریقوں سے ان مظاہرین کو مشتعل کرنے کی کوشش کی جس میں بہت سے افراد شدید زخمی بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود آخر کار پولیس کو وہاں سے پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی طرح یہ بھی بتایاگیا ہے کہ اسکندریہ کے علاقے میں مظاہروں میں شریک افراد کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں صرف ایک دن میں گرفتار کیے جانے والے افراد کی تعداد۷۰ سے زائد ہے۔ مصری عوام اس سب کے باوجود ہرجگہ اپنے حق کے لیے مظاہرے کررہے ہیں ، اوران مظاہروں کے درمیان انہوں نے مختلف پلے کارڈز اور اپنے شہداء ساتھیوں کی تصاویر اٹھا رکھی ہوتی ہیں اوران کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ ایک منتخب اسلام پسند حکومت کا تختہ اُلٹنے والی فوج واپس پلٹ جائے اوراب تک ان مظاہرین میں سے جتنے افراد بھی گرفتار کیے گئے ہیں انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ‘‘
اور جن مسلمانوں کی طرف سے مذمت کی گئی انہوں نے پھر وہی انداز اختیار کیا کہ کفار کے حضور عرضیاں،اقوام متحدہ کو یادداشتیں، عالمی طاقتوں سے مداخلت کی اپیل، عالمی عدالت انصاف سے عدل کا تقاضا، دہرے معیار کا رونا اور شرم دھونے کی ناکام کوشش وغیرہ۔ کیا ان باتوں سے پہلے کچھ حاصل ہوا کہ اب ہو گا؟…
نتیجہ کیا نکل رہا ہے؟…
یہی کہ جب سے جبر زور کے ساتھ سامنے آیا ہے، دنیا القاعدہ، داعش ،بوکر حرام وغیرہ جیسی جماعتوں سے بھرتی جا رہی ہے۔جب سے اِسلامی شدت پسندی کا خاتمہ اولین ترجیح قرار پایا ہے، الحمد للہ اس خیر عظیم نے دنیا میں خود کو ایک بڑی اور فیصلہ کن طاقت کے طور پر منوا لیا ہے۔ جب سے اسلام پسند جمہوری قوتوں کو زور سے دبانے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے، تقریباً ہر ملک میں ایسی قوتوں کی طاقت اور پذیرائی میں اضافہ ہوا ہے۔اس لئے دنیا میں مسلمانوں کو جہاں بھی کوئی مسئلہ درپیش ہے وہ ان قوتوں کے سہارے رہنے اور ان کے اِستغاثہ کی بجائے اپنا زورِ بازو آزمائیں۔عالمی طاقتوں کا ہاتھ، آپ کو تھامنے کی بجائے ہمیشہ مودی،بشار،مالکی ،سیسی اور ان جیسی کے سروں پر رہے گا۔مودی اور ابامہ کی بے تکلّفانہ مسکراہٹوں اور معانقوں میں کشمیر کی لیڈر شپ کے لئے بھی ایک بہت واضح پیغام ہے۔
٭…٭…٭
ومن تکن…
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 479)
وہ شاعر تھے۔قصیدہ خوانیاں ،وزرائ، اُمراء اور بادشاہوں کی جھوٹی سچی تعریف ان کا پیشہ تھا۔غزل گو تھے ۔عرب کے قبائل کے تفاخر بیان کرنا، عرب کے حسن کے تذکروں میں مبالغہ آرائی اور جنگوں کے منظوم قصے کہنا، دن رات کا مشغلہ تھا۔ مجلس آباد رہتی تھی اور لوگ جمع رہتے تھے۔اس لئے اشعار میں درد اور آواز میں سوز تھا، سو خوب سنے جاتے اور خوب سراہے جاتے تھے۔ زندگی اسی عیش مستی میں کٹ رہی تھی کہ ایک امتحان میں مبتلا ہو گئے۔امتحان و اِبتلاء کیا؟ اصل میں وہ تو در محبوب سے بلاوا تھا اور مقام حقیقی سے نوازنے کا ایک انداز۔ فالج ہوا اور جسم کا ایک دھڑ بے کار ہو گیا۔زبان نے کام کرنا چھوڑ دیا۔دماغ پر بھی قابو نہ رہا، یوں نہ تو وہ خیالات کی ندرت رہی اور نہ وہ پُر سوز اندازِ بیاں۔ یوں بھیڑ چھٹنے لگی،اپنے پرائے ہو گئے، ہر وقت کے حاضر باش غائب اور واہ واہ کا شور کرنے والے عنقا۔
قصیدہ خوانی سے عاجز آئے تو درباروں کے دروازے بند ہو گئے اور خزانوں کے منہ بھی۔ ایک مفلوج و عاجز انسان اکیلا اور درماندہ پڑا ہوا، اپنے ماضی کو یاد کر کے آنسو بہاتا رہتا۔اچانک ایک دن دماغ میں ایک روشن خیال کوندا۔ دنیا کے بادشاہوں کی تعریف کی، محبوبوں کے گن گائے، آج کوئی بھی میرے ساتھ نہیں، نہ کوئی مشکل میں کام آیا۔ عمر ضائع ہو گئی۔ تعلقات بے فائدہ رہے اور کلام بے سود۔کیوں نہ اُن سے تعلق جوڑا جائے اور رشتہ گانٹھا جائے جو ایک بار جسے اپنے دامن میں لے لیں کبھی فراموش نہیںکرتے۔ بس خیال آنا تھا اور محبت کا جاگنا تھا۔وہی ندرت خیال بھی عود کر آئی اور وہی آتشیں انداز بھی جو ’’محمد بن سعید المعروف شرف الدین البوصیری‘‘ کا خاصہ اور تعارف تھا۔دل و دماغ سوئے مدینہ ہوئے اور زبان سے نکلا:
امن تذکر جیران بذی سلم
مزجت دمعاجری عن مقلۃ بدم
’’ کیا کوئی پرانے ہمنشین یاد آئے جن کی یاد نے آنسوؤں کو خون آلود کر دیا‘‘
یوں خون بھرے آنسوؤں سے وہ قصیدہ تشکیل پایا جو صدیاں گذر جانے کے باوجود آج بھی زندہ اور ترو تازہ ہے۔ ’’البوصیری‘‘ نے ان آنسوؤں سے راہِ ہدایت پا لی،فالج سے بھی خلاصی پا لی اورقیامت تک باقی رہنے والا نام بھی۔بعد میں ساری زندگی اپنی زبان کو مدحِ حبیب ﷺ کے لئے وقف رکھا،درجنوں قصائد کہے لیکن ’’البردۃ‘‘ لازوال ہو گیا اور آج تک ان کی وجہ شہرت بنا ہوا ہے۔جانے کس سچائی، کس درد اور کس بے کسی میں یہ الفاظ ان کی زبان سے نکلے کہ آج بھی تنہائی میسر آ جائے یا مسجد نبوی شریف کی حاضری،دل کی توجہ سے ’’قصیدہ بوصیریؒ ‘‘ شروع کیا جائے تو آنسو خون آلود ہونے لگتے ہیں اور لگتا ہے کہ دل کا سارا خون آنکھوں کے راستے بہہ جائے گا۔ متشدد قسم کے سلفی کہتے ہیں کہ البوصیریؒ نے بعض اشعار میں شرک کا ارتکاب کیا( نعوذ باللہ) قصیدہ پڑھتے دیکھ لیں تو شور شرابا اور جھگڑا شروع کر دیتے ہیں،کسی کے پاس لکھا ہوا برآمد کر لیں تو اس پر لعن طعن کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں لیکن بخت دیکھئے اور نصیب کی بلندی کہ روزانہ لاکھوں مسلمان جس ’’ادب گاہ‘‘ اور عرش سے نازک تر مقام پر کھڑے ہو کر سلام پیش کرتے ہیں اس جالی مبارک کے دائیں ہاتھ جو پہلا ستون ہے ’’بوصیریؒ ‘‘ کے مقبول عشق نے وہاں ڈیرہ جمایا ہے۔اس ستون پر بُردہ شریف کا شعر سنہری حروف میں درج ہے:
لا طیب یعدل تربا ضم اعظمہ
طوبٰی لمنتشق منہ وملتثم
’’وہ مٹی جو آپ کے جسد خاکی سے متصل ہے اس کے برابر دنیا میں کوئی خوشبو نہیں ،جو اُسے سونگھے وہ بھی مبارک، جو آنکھوں سے لگا لے وہ بھی خوش بخت‘‘…
یوں دنیا کی سب سے بڑی عدالت ،سب سے عظیم بارگاہ اور سب سے اونچی مسند سے فیصلہ سنا دیا گیا ہے کہ صحیح کون ہے اور غلط کون؟شور مچانے والے آتے جاتے رہتے ہیں مگر بوصیریؒ وہاں مستقل براجمان ہیں اور پہریدار کی طرح ایک ستون سنبھالے ہوئے ہیں۔سبحان اللہ
این سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
ایک مسئلہ معلوم ہو گیا۔عاشق نہیں مرتے، عشق نہیں مرتا اور جب خون ملے آنسو نہیں مرتے تو خود خون کیسے مر سکتا ہے…خالص خون…بوصیریؒ عاشق تھے وہ بھی زندہ ہیں۔ان کا قصیدہ عشق تھا وہ بھی زندہ ہے۔ان کے آنسو عشق والے تھے وہ بھی آج تک زندہ ہیں، تو اے اہل ایمان! اے اہل عقل! وہ عاشق جو بنامِ حبیبﷺ اپنی جانیں وارتے ہیں، صرف آنسونہیں گرم خون پیش کرتے ہیں اور عشق میں ’’جہاد‘‘ جیسی عظیم مشقت کا بار اُٹھاتے ہیں وہ خود ،ان کا نام اور ان کا کام کس طرح مر سکتے ہیں؟
کوئی ہے جو نواز شریف کو یہ بات سمجھا دے…!
قصیدہ بُردہ شریف سارا کا سارا عجیب ہے۔ بڑے بڑے اللہ والوں نے اس کی شروح لکھی ہیں اور عجیب و غریب نکات نکالے ہیں۔اس میں نبی کریم ﷺ کی مدح کے ہر پہلو پر بوصیری ؒ نے روشنی ڈالی ہے۔آپ ﷺ کے کمالات،آپ ﷺ کے معجزات، آپ ﷺ کی برکات، آپ ﷺ کا مقام عالی شان اور پھر آخر میں عجیب عاشقانہ انداز کی مناجات۔ پورے قصیدے کے بارے میں لکھا جائے تو مضمون کیا کتاب بھی کم پڑتی ہے اور لکھ بھی کون سکتا ہے…کوئی بوصیریؒ جیسا ہو تولکھے۔ میں تو آج ان کے صرف دو شعر لکھنے اور پیغام دینے بیٹھا تھامگر بات کھنچتی چلی جا رہی ہے۔اصل بات کی طرف جاتے ہیں لیکن ایک شعر پہلے فرانس اور اس کے ساتھ یکجہتی کرنے والے ان بد بختوں کے لئے جنہوں نے اپنی بربادی اور تباہی کے آخری حیلے کے طور پر گستاخی رسول ﷺ کے طریقے کو اپنایا ہے:
قد تنکر العین ضوء الشمس من رمد
وینکر الفم طعم الماء من سقم
’’جن کی آنکھوں میں جالا ہو انہیں سورج کی روشنی بھی نظر نہیں آتی اسی طرح بیمار کا منہ کھانے، پینے کی لذت پانے سے محروم رہتا ہے‘‘…
اندھو! تمہیں مقامِ مصطفی ﷺ کا اِدراک نہیں ہوتا تو قصور تمہاری آنکھوں کا ہے…
تم اگر لذتِ ایمان و اسلام سے محروم ہو تو اپنے اندر کی بیماری کی وجہ سے ہو…
اب چاہو تو اپنی ان محرومیوں پر خون کے آنسو روؤ، چاہو تو آج ہنس لو۔جلد رونا پڑے گا…
چلئے اصل بات کی طرف آتے ہیں:
الامام شرف الدین بوصیریؒ نے لکھا ہے:
ومن تکن برسول اللّٰہ نصرتہ
ان تلقہ الاسد فی آجامھا تجم
’’جس کی فتح و ظفر رسول کریم ﷺ کے طفیل سے ہوتی ہے اگر شیر بھی اپنے بَن میں اس کو مل جاتے ہیں تو دَم بخود رہ جاتے ہیں…
ولن تری من ولی غیر منتصر
بہ ولا من عدو غیر منقصم
’’ سو تم (رسول اللہ ﷺ ) کے کسی ولی یا دوست کو نہیں دیکھو گے کہ وہ حضور ﷺ کے طفیل مظفر و منصور نہ ہو اور نہ رسول اللہ ﷺ کے کسی دشمن کو دیکھو گے کہ وہ شکست خوردہ نہ ہو ‘‘
اَشعار ہیں بوصیریؒ کے اور ترجمہ ہے حضرت حماد اللہ ہالیجوی قدس سرہ کا…
بوصیریؒ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں پر نبی کریم ﷺ کے طفیل اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہوتی ہے ان کے مقابل شیر بھی آ جائیں تو دُم دَبا کر بھاگنے پر مجبور ہونگے یا اپنی کھچاروں میں دَبک جائیں گے۔وہ لوگ کون ہیں جو نبی کریم ﷺ کے طفیل اللہ کی نصرت پاتے ہیں؟…
وہ لوگ جو نبی کریم ﷺ کی صداقت کی جنگ لڑ رہے ہیں ان سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے…
اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:جہاد، دجال کے قتل تک برابر جاری رہے گا،اسے نہ کسی عادل کا عدل روک سکتا ہے اور نہ کسی ظالم کا ظلم…
جہاد کا جاری رہنا آقا مدنی ﷺ کا فرمان ہے ۔دنیا چاہتی ہے اسے روک دے، کیا وہ قادر ہے کہ نبی کریم ﷺ کے فرمان عالی شان کو غلط ثابت کر سکے؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں…
اب جو لوگ اس فرمان مبارک کی سچائی کی علامت ہیں اور اس کی خاطر ہر دکھ، ہر تکلیف، ہر جبر، سہہ رہے ہیں لیکن اپنے آقا ﷺ کی محبت میں ان کے فرمان کے مطابق ڈٹے ہوئے ہیں ۔ان کی نصرت میں کیا شک ہو سکتا ہے …
ان کی نصرت کل بھی تھی، آج بھی ہے…کل بھی دنیا کو ان کے سامنے جھکنا پڑا تھا آج بھی جھکے گی…
شہادتوں اور جیلوں کو کوئی یہ نہ سمجھے کہ نصرت نہ رہی ۔یہ تو اس راستے کا حصہ ہیں اور عین سعادت اور عین نصرت ہیں۔ایک شہید کا خون کتنوں کے لئے نصرت کا باعث بنتا ہے اور ایک قیدی کی آہیں کتنوں کے لئے آسمان سے نصرت کھینچ لاتی ہیں، اس کا ادراک کسی اور کو ہو نہ ہو مجاہدین کو ضرور ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ اس لئے وہ ان باتوں سے گھبرائے بغیر اپنے کام میں لگے رہتے ہیں اور آج بھی لگے ہوئے ہیں۔ کوئی میدان چھوڑنے کا ہرگز نہ سوچے۔ الحمد للہ نصرت اُتر رہی ہے اور ہر میدان میں اُتر رہی ہے۔
ہاں! کوئی حکمرانوں کو یہ پیغام بوصیریؒ کے الفاظ میں پہنچا دے:
کہ آقا مدنی ﷺ کے سچے غلاموں کے مقابل شیر بھی آ جائیں تو دُم دَبا کر بھاگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اصلی شیر ہوں یا نون لیگ کے نقلی شیر:
ومن تکن برسول اللّٰہ نصرتہ
ان تلقہ الاسد فی آجامہا تجم
٭…٭…٭
ہم ان کے ساتھ ہیں
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 478)
عصماء ایک یہودی عورت تھی، جو رسول اللہ ﷺ کی ہجو میں اَشعار کہا کرتی تھی اور طرح طرح سے آپ کو اِیذاء پہنچاتی تھی۔لوگوں کو آپ سے اور اِسلام سے برگشتہ کرتی تھی، ہنوز آپﷺ غزوہ بدر سے واپس نہ ہوئے تھے کہ پھر اسی قسم کے اشعار کہے۔عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ کو سنتے ہی جوش آ گیا اور یہ منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے رسول اللہﷺ بدر سے صحیح سالم واپس آ گئے تو اِس کو ضرور قتل کروں گا۔
رسول اللہ ﷺ جب بدر سے مظفر و منصور اور صحیح سالم تشریف لائے توحضرت عمیر بن عدیؓ شب کے وقت تلوار لے کر روانہ ہوئے اور اس کے گھر داخل ہوئے۔چونکہ نابینا تھے اسی لئے عصماء کو ہاتھ سے ٹٹولا اور بچے جو اس کے اردگرد تھے ان کو ہٹایا اور تلوار کو سینے پر رکھ کر اس زور سے دبایا کہ پشت سے پار ہو گئی۔
نذر پوری کر کے واپس ہوئے اور صبح کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اَدا فرمائی اور واقعہ کی اطلاع دی اور عرض کیا کہ: یا رسول اللہ ﷺ! مجھ پر اس بارے میں کوئی مؤاخذہ تو نہ ہو گا؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’لا ینططح فیھا عنزان‘‘
اس بارے میں دو بھیڑیں بھی سر نہ ٹکرائیں گی یعنی یہ ایسا فعل نہیں کہ جس میں کوئی کسی قسم کا اختلاف اور نزاع کر سکے۔انسان تو درکنار بھیڑ اور بکریاں بھی اس میں اپنے سینگ نہ ٹکرائیں گی۔
پیغمبر برحق کی شان میں گستاخی کرنے والے کا قتل کہیں قابل مؤاخذہ ہو سکتا ہے؟ بلکہ اعظم قربات اور افضل عبادات میں سے ہے جس میں کوئی نزاع ہی نہیں کر سکتا۔جانور بھی اس کو حق سمجھتے ہیں۔
رسول اللہﷺ، حضرت عمیرؓ کے اِس فعل سے بے حد مسرور ہوئے اور صحابہؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’اذا احببتم ان تنظروا الی رجل نصر اللہ ورسولہ بالغیب فانظروا الی عمیر بن عدی‘‘
’’اگر ایسے شخص کو دیکھنا چاہتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی غائبانہ مدد کی ہو تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس اعمی (نابینا) کو دیکھو تو سہی کہ کس طرح چھپ کر اللہ کی اطاعت کے لئے روانہ ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان کو اعمیٰ (نابینا) نہ کہو یہ تو بصیر(بینا) ہیں۔ یعنی ظاہراً اگرچہ اعمی (نابینا) ہیں مگر دل کے بصیر اور بینا ہیں۔رمضان المبارک کی پانچ راتیں باقی تھیں جس وقت یہ عورت قتل کی گئی۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عمیر بن عدی ؓ بیمار ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’انطلقوا بنا الی البصیر الذی فی بنی واقف لنعودہ‘‘
’’ہم کو اس بینا کے پاس لے چلو جو بنی واقف میں رہتا ہے اس کی عیادت کریں گے۔‘‘
٭…٭…٭
شوال سنہ ۲ھ میں رسول اللہ ﷺ نے سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ کو ابو عفک یہودی کے قتل کے لئے روانہ فرمایا: ابو عفک مذہباً یہودی تھا۔بوڑھا تھا۔ایک سو بیس سال کی عمر تھی۔رسول اللہ ﷺ کی ہجو میں شعر کہتا تھا اور لوگوں کو آپ کی عداوت پر برانگیختہ کرتا تھا۔جب ا سکی دریدہ د ہنی حد سے گزر گئی تو یہ ارشاد فرمایا:
’’من لی بھذا الخبیث‘‘
’’ کون ہے جو میرے لئے یعنی محض میری عزت و حرمت کے لئے اس خبیث کا کام تمام کرے‘‘
سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ! میں نے پہلے ہی منت مانی ہوئی ہے کہ ابو عفک کو قتل کر دوں گا یا خود مر جاؤں گا۔یہ کہتے ہی سالم تلوار لے کر روانہ ہوئے۔گرمی کی رات تھی اور ابو عفک غفلت کی نیند سو رہا تھا۔پہنچتے ہی تلوار اس کے جگر میں رکھی اور اس زور سے دبایا کہ پار ہو کر بستر تک پہنچ گئی۔عدواللہ ابو عفک نے ایک چیخ ماری۔لوگ دوڑے مگر کام تمام ہو چکا تھا۔
٭…٭…٭
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ کعب بن اشرف بڑا شاعر تھا۔رسول اللہ ﷺ کی ہجو میں اشعار کہا کرتا تھا،کفار مکہ کو رسول اللہ ﷺ کے مقابلے کے لئے ہمیشہ بھڑکاتا رہتا تھا اور مسلمانوں کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچاتا تھا۔
صحیح بخاری میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ تم میں سے کون کعب بن اشرف کے قتل کے لئے تیار ہے،اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بہت ایذاء پہنچائی ہے‘‘
یہ سنتے ہی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا آپ اس کا قتل چاہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا :یا رسول اللہ ! پھر مجھے کچھ کہنے اجازت دیجیے( یعنی ایسے مبہم ،تعریضی اور ذو معنی الفاظ) کہہ سکوں جن کو سن کر بظاہر وہ خوش ہو۔آپ ﷺ نے فرمایا: اجازت ہے۔
یہ لوگ رات کو پہنچے اور جا کر کعب کو آواز دی، کعب نے اپنے قلعہ سے اترنے کا ارادہ کیا،بیوی نے کہا اس وقت کہاں جاتے ہو،کعب نے کہا محمد بن مسلمہ اور میرا دودھ شریک بھائی ابو نائلہ ہے کوئی غیر نہیں تم فکر نہ کرو،بیوی نے کہا مجھ کو اس آواز سے خون ٹپکتا ہوا محسوس نظر آتا ہے۔کعب نے کہا کہ شریف آدمی اگر رات کے وقت نیزہ مارنے کے لئے بھی بلائے تو ضرور جانا چاہیے، اسی اثناء میں محمد بن مسلمہ نے اپنے ساتھیوں کو سمجھا دیا کہ جب کعب آئے تو میں اس کے بال سونگھوں گا جب دیکھو کہ میں نے اس کے بالوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا ہے تو فوراً اس کا سر اتار لینا۔چنانچہ جب کعب نیچے آیا تو سرتاپا خوشبو سے معطر تھا۔محمد بن مسلمہ نے کہا کہ آج جیسی خوشبو تو میں نے کبھی سونگھی ہی نہیں۔ کعب نے کہا میرے پاس عرب کی سب سے حسین و جمیل اور سب سے زیادہ معطر عورت ہے۔محمد بن مسلمہ نے کہا کہ کیا آپ مجھ کو اپنے معطر سر کو سونگھنے کی اجازت دیں گے،کعب نے کہا ہاں اجازت ہے۔محمد بن مسلمہ آگے بڑھے اور خود بھی سر کو سونگھا اور اپنے رفقاء کو بھی سونگھایا۔کچھ دیر کے بعد پھر محمد بن مسلمہ نے کہا کہ آپ دوبارہ اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیں گے؟ کعب نے کہا۔شوق سے۔ محمدبن مسلمہ اٹھے اور سر سونگھنے میں مشغول ہو گئے اور جب اس کے سر کے بال مضبوطی سے پکڑ لئے تو ساتھیوں کو اشارہ کیا۔فوراً ہی سب نے اس کا سر قلم کیا اور آناً فاناً کام تمام کیا۔
اور اخیر شب میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے دیکھتے ہی فرمایا:
’’افلحت الوجوۃ ‘‘
ان چہروں نے فلاح پائی اور کامیاب ہوئے۔
ان لوگوں نے جواباً عرض کیا:
’’ ووجھک یا رسول اللہ‘‘
اور سب سے پہلے آپ کا چہرہ مبارک اے اللہ کے رسول ﷺ
اور بعد ازاں کعب بن اشرف کا سر آپ کے سامنے ڈال دیا۔آپ نے الحمد للہ کہا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
روایات حدیث سے کعب بن اشرف کے قتل کی جو وجوہ اور اسباب معلوم ہو سکے وہ حسب ذیل ہیں:
(۱) نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں دریدہ دہنی اور سبّ اور شتم و گستاخانہ کلمات کا زبان سے نکالنا
(۲) آپ کی ہجو میں اَشعار کہنا
(۳) غزلیات اور عشقیہ اشعار میں مسلمان عورت کو بطور تشبیب ذکر کرنا
(۴) غدر اور نقض عہد
(۵) لوگوں کو آپ کے مقابلہ کے لئے ابھارنا، اکسانا، اور ان کو جنگ پر آمادہ کرنا
(۶) دعوت کے بہانے سے آپ ﷺ کے قتل کی سازش کرنا
(۷) دین اسلام پر طعن کرنا
لیکن قتل کا سب سے قوی سبب آپ ﷺ کی شان اقدس میں دریدہ دہنی اور سب و شتم اور آپ کی ہجو میں اشعار کہنا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے اپنی کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول میں اس پر مفصل کلام کیا ہے۔
٭…٭…٭
کعب بن اشرف کے قاتل محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء رضی اللہ عنہم چونکہ سب قبیلہ اوس کے تھے، اس لئے قبیلہ خزرج کو یہ خیال ہوا کہ قبیلہ اوس نے تو رسول اللہ ﷺ کے ایک جانی دشمن اور بارگاہ رسالت کے ایک گستاخ اور دریدہ دہن کعب بن اشرف کو قتل کر کے سعادت اور شرف حاصل کر لیا ،لہذا ہم کو بھی چاہیے کہ بارگاہ نبوت کے دوسرے گستاخ اور دریدہ دہن ابو رافع کو قتل کر کے دارین کی عزت و رفعت حاصل کریں، چنانچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر ابو رافع کے قتل کی اجازت چاہی۔آپ نے اجازت دی۔
عبد اللہ بن عتیک،مسعود بن سنان، عبد اللہ بن انیس،ابو قتادہ حارث بن ربعی اور خزاعی بن اسود رضی اللہ عنہم کو اس کے قتل کے لئے روانہ فرمایا اور عبد اللہ عتیک کو ان کا امیر بنایا اور یہ تاکید فرمائی کہ کسی بچہ اور عورت کو ہرگز قتل نہ کریں۔(ملخصاً سیرت المصطفیٰﷺاز مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ)
اس موذی کو بھی ان صحابہ کرام نے عجیب تدبیر سے اس کے قلعے میں گھس کر واصل جہنم کیا اور نبی کریم ﷺ سے دعا پائی۔
٭…٭…٭
فرانس والوں نے پھر کیا کچھ غلط کیا؟…
’’من لی بھذا الحدیث‘‘ کی آواز تو ہر اُس لمحے آتی ہے جب کوئی بد باطن گستاخی کا اِرتکاب کرتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہر کان اسے سن نہیں پاتا اور جو چند ایک سن پاتے ہیں وہ پھر آرام و سکون نہیں پاتے،چین نہیں پاتے، قرار نہیں پاتے جب تک عمیرؓ و محمد ؓکی طرح، عبد اللہ بن عتیکؓ کی طرح یہ کانٹا نکال نہ دیں۔
سلام ان بھائیوں اور بہن پر جنہوں نے دنیا کی تیسری سپر پاور کو تین دن تگنی کا ناچ نچایا اور گستاخوں کو عشقِ مصطفی ﷺ کا نمونہ دِکھایا…جنہوں نے زمانے کے کعب بن اشرف اور ابو رافع کو نشانِ عبرت بنایا۔ہم ان کے ساتھ ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں،ان پر فخر کرتے ہیں اور انہیں سلامِ عقیدت و محبت پیش کرتے ہیں۔
ولوکرہ الکافرون…ولوکرہ المشرکون…ولوکرہ المنافقون…
٭…٭…٭
اشتہار…
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 477)
خبردار!
دہشت گرد ملک و قوم کے دشمن ہیں، اس لئے فوری طور پر اطلاع کیجئے!
٭ اگر کوئی شخص قتل و غارت کرتا نظر آئے
لیکن ذرا رُکیے! اگر قتل کرنے والا باریش نہیں…
اگر پشتو نہیں بولتا یا پشتونوں کے علاقے میں آمدورفت نہیں رکھتا…
اگر اس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے…
یا کسی لسانی گروہ سے…
اور اگر یہ قتل کراچی میں ہو رہا ہے یا غیرت کے نام پر کہیں بھی یا بلوچستان میں علیحدگی کے نام پر یا پنجاب میں سیاست اور دشمنی کے نام پر تو ہرگز اطلاع نہ کیجئے گا…مندرجہ بالا قتل دہشت گردی کے زُمرے میں نہیں آتے…
لہٰذا اگر آپ نے ایسے کسی قتل کی اطلاع اشتہار میں درج انسداد دہشت گردی ادارے کے نمبر پر کی تو آپ کے خلاف غلط اطلاع دینے پر قرار واقعی فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے…
٭ اگر آپ سنیں کہ کوئی شخص قتل و غارت،مار دھاڑ پر اُکسا رہا ہے،کسی کو مارنے کی ترغیب دے رہا ہے تو فوراً اطلاع کیجئے…
لیکن…
احتیاط!…پہلے تحقیق کر لیجئے کہ اُکسیایا کس مد میں جا رہا ہے؟…
اگر ایسا لسانیت،عصبیت،قومیت،سیاسی وابستگی،خاندانی دشمنی،ٹارگٹ کلنگ کے طور پر یا بھتہ وقت پر ادا نہ کرنے کی پاداش میں یا سیاسی مفادات کے حصول کے لئے حالات خراب کرنے کی غرض سے یا محض تفریحِ طبع کرے لئے کیا جا رہا ہے تو ہرگز فون کرنے کی زحمت نہ کریں۔مندرجہ بالا امور ادارے کے دائرۂ عمل سے خارج ہیں…
٭ اگر کہیں مجرمانہ سرگرمی نظر میں آئے تو فوراً خبر کیجئے! یہ آپ کا لازمی فریضہ ہے…
لیکن…
یہاں بھی احتیاط کا دامن نہ چھوٹنے پائے…
ڈکیتی، راہزنی،چوری،عصمت دری،ناجائز قبضہ،عورتوں کو ننگا پھرانا، اغوا، بھتہ خوری،ملاوٹ،چور بازاری، حرام اشیاء کی خرید و فروخت،جعلی ادویات کا دھندا، منشیات فروشی، شراب نوشی، بدکاری کا اڈہ چلانا،بے حیائی اور بدکاری کے لئے عام ترغیب، ٹیکس چوری، بجلی چوری، گیس چوری، وغیرہ امور عامہ جرائم کی فہرست سے خارج ہیں، ان کی اطلاع کرنے والا نتائج کا خود ذمہ دار ہو گا…
٭ امن عامہ کی خاطر لاؤڈسپیکر کا غلط استعمال قابل دست اندازی ادارہائے سرکاری ہے…
اس لئے جس کو لاؤڈسپیکر کا غلط استعمال کرتا دیکھیں مثلاً دینی تقریر،محفل حسن قراء ت وغیرہ فوراً سرکار کے علم میں لائیں…
ضروری وضاحت: گانے بجانے کے پروگرام، شادی ہالوں میں کان پھاڑ میوزک،گاڑیوں کے دیوہیکل بفر،میوزیکل نائٹ شو، اس قانون سے مستثنیٰ ہیں اگرچہ مریضوں کو تکلیف دیں،نمازیوں کی عبادت خراب کریں اور گھروں میں سونے نہ دیں…
٭ کوئی شخص ’’جہاد‘‘ کی بات کرتا نظر آئے یا ’’ جہاد‘‘ سے ملتا جلتا کوئی لفظ مثلاً جہاز وغیرہ کسی کی زبان سے سنیں تو فوراً اطلاع کریںالبتہ قلم کا جہاد،زبان کا جہاد اور دیگر درجنوںاقسام ہائے جہاد مستثنیٰ ہیں ۔پہلے غور سے سنیں پھر اطلاع کریں۔
٭اگر آپ نے کسی ایسے شخص کا قرضہ ادا کرنا ہے جس کا تعلق کسی کالعدم تنظیم سے ہے تو فوراً اسے گرفتار کرا دیجئے،آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔مفاد عامہ کے اس قانون سے ہر شہری فائدہ اُٹھا سکتا ہے…
٭ ہاں! یہ احتیاط لازمی ہے کہ وہ کالعدم تنظیم حکومت پنجاب کی پسندیدہ نہ ہو ورنہ معاملہ اُلٹا پڑ سکتا ہے…
٭کالعدم تنظیموں کے اَرکان ہنستے کھیلتے نظر آئیں ،ان میں سے کوئی شادی کرتا یا شادیوں میں شرکت کرتا نظر آئے،کسی نے نیا لباس،قیمتی جوتا، چمکدار گھڑی یا بیش قیمت شال یا جیکٹ پہن رکھی ہو،زیادہ کھانا کھا رہا ہو یا …
سکون سے سانس لیتا نظر آ جائے تو فوراً فون اٹھائیے اور نمبر ملائیے۔سماج دشمن عناصر کو مزے کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتاالبتہ کالعدم پی پی پی،کالعدم امن کمیٹی، کالعدم سپاہ محمد، کالعدم بی این پی، کالعدم بی ایل اے وغیرہ اس قاعدے سے مستثنیٰ ہیں…
٭اگر آپ کی مسجد کے امام صاحب جنت کی ترغیب دیتے ہیں اور حوروں کا تذکرہ اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں تو اس بات کو نظر انداز نہ کیجئے! خطرے کی گھنٹی کو محسوس کریں،کان کھلے رکھیں،ہو سکتا ہے اشارے کنائے میں کسی نمازی نوجوان کو خود کش حملے کے لئے ترغیب دی جا رہی ہو۔عطاء الحق قاسمی نے لکھا ہے کہ حوروں کا اس طرح کا تذکرہ نوجوانوں کے جذبات بھڑکاتا ہے۔معتبر ہے ان کا فرمایا ہوا۔لہٰذا ایسے اماموں پر نظر رکھیے…
٭اگر آپ کے امام صاحب جمعہ کے بیان میں یا درسِ قرآن میں جہنم سے زیادہ ڈراتے ہوں تو بھی اطلاع کیجئے۔عوام الناس کو ڈرانا دہشت گردی کے زمرے میںآتا ہے۔خصوصاً ایسے شخص کی طرف سے جس کی داڑھی ہو اور سر پر ٹوپی یا پگڑی…
٭ اپنے گھروں پر نظر رکھیے: ایسا نہ ہو کوئی دہشت گرد آپ کے گھر میں پل رہا ہو اور آپ کو اس کا علم بھی نہ ہو۔اگر آپ کا بچہ اچانک نماز پڑھنے لگا ہے۔داڑھی رکھنے کا کہہ رہا ہے۔فون کا استعمال کم کر دیا ہے،نائیٹ پیکج اچانک ختم کر دئیے ہیں،آپ سے جیب خرچ کم لینے لگا ہے،مدرسہ میں پڑھنے کا کہنے لگا ہے،آوارہ گردی ترک کر دی ہے اور مسجد میں زیادہ آنے جانے لگا ہے۔ لڑکیوں کو تاڑنا چھوڑ دیا ہے اور نظر جھکانے لگا ہے۔آپ سے اور دوسروں سے اچانک تمیز سے بات کرنے لگا ہے ۔بک بک کی عادت ترک کر دی ہے اور خاموشی پسند ہو گیا ہے،سگریٹ پیتا تھا اچانک چھوڑ دیا ہے یا ایسی کوئی بھی اچانک ’’اچھی ‘‘تبدیلی آپ کو اس میں محسوس ہونے لگی ہے تو ہوشیار ہو جائیے!
یقیناً آپ کا بچہ شدت پسندوں کے ہاتھ لگ چکا ہے۔اس کی فوراً اصلاح کیجئے اور تمام متروکہ عادات بحال کرائیے اور اگر آپ کی کوشش بار آور ثابت نہ ہوں تو اس کے بہتر مستقبل کے لئے اسے ہمارے حوالے کر دیجئے…
٭ تین چیزیں ہر حال میں مشکوک اور قابل نفرت ہیں۔انہیں ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھنے اور ان سے دور رہیے۔مولوی ،مدرسہ اور جہاد ۔جہاں نظر آئیں کان کھڑے کر لیجئے۔ناک سکیڑ لیجئے،منہ سے جھاگ نکالئے اور زور زور سے چِلّائیے۔طریقہ سمجھ نہ آئے تو کسی بھی ٹی وی مذاکرے میں حکومت اور پی پی پی کے نمائندگان کو دیکھ لیجئے۔اگر آپ ٹی وی نہیں دیکھتے تو گلی کے کتے سے طریقہ سیکھ لیجئے۔ویسے اگر آپ ٹی وی نہیں دیکھتے؟ تو آپ خود مشکوک آدمی ہیں احتیاط کیجئے…
وارننگ…
اگر آپ کا تعلق کسی کالعدم دینی جماعت سے ہے، آپ جہاد کا نام لیتے ہیں ،مجاہدین کی خدمت کرتے ہیں،جہاد کی دعوت دیتے ہیں،نبی کریم ﷺ کی جہادی سیرت کا بیان کرتے ہیں،صحابہ کرام کے مجاہدانہ کارنامے سناتے ہیں،شہداء کرام اور اسیران اسلام کے گھرانوں کی معاونت کرتے ہیں،کشمیری مسلمانوں کا درد روتے ہیں، ہندوستان سے دشمنی کی بات کرتے ہیں،پاکستان کے تحفظ اور اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے لڑنے کی بات کرتے ہیں،اگر آپ کی داڑھی ہے،ٹوپی پہنتے ہیں،مدرسے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس تعلق پر فخر کرتے ہیں۔
تو آپ کے لئے آخری موقع ہے…سخت قوانین آپ کے منتظر ہیں اور آپ کے بنیادی حقوق بھی معطل ہیں۔
یہ سب چھوڑ دیجئے ورنہ آپ کو نہیں چھوڑا جائے گا
اور اگر آپ شوقیہ قاتل ہیں،ٹارگٹ کلر ہیں،ڈاکو ہیں،اغواکار ہیں،بھتہ خور ہیں، ریپ کے شوقین ہیں، معصوم بچوں کے قاتل ہیں،دودھ ،گوشت،ادویات اور اشیائے خورونوش میں حرام اور مضر صحت ملاوٹ کے مرتکب ہیں،قومی غدار ہیں،دشمنوں کے ایجنٹ اور یار ہیں،پاکستان توڑنے اور جلانے کی باتیں کرتے ہیں،قومیت کے نام پر ہزاروں کے قاتل ہیں،امن کے دشمن ہیں اور بد امنی کے علمبردار ہیں، قومی خزانے کے دشمن ہیں،قرضہ چور ہیں،کرپٹ ہیں، بدمعاش ہیں، ناجائز قبضوں کے لئے غنڈے پا لتے ہیں اور لوگوں کی زمینیں ہڑپ کرتے ہیں تو اگلے دو سال مکمل اطمینان ،پوری توجہ اور بے فکری سے اپنے یہ کام جاری رکھیے!
حکومت فی الحال ضروری کام میں مصروف ہے
٭…٭…٭
اگر آپ کو میرا یہ کالم مزاحیہ اور غیر حقیقی لگ رہا ہے تو یہ خبر پڑھ لیجئے:
’’وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کے صولت مرزا کے ڈیتھ وارنٹ پر عمل روکنے کی ہدایت جاری کر دی‘‘…
صولت مرزا سو سے زائد پاکستانی شہریوں کا قاتل ہے،اسے سزائے موت سنائے ہوئے دس سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے،اس کے ہاتھوں قتل ہونے والوں میں سرکاری اور سیکیورٹی اداروں کے ارکان بھی شامل ہیں۔اس کی تمام اپیلیں بھی مسترد ہو چکی ہیں، صدر مملکت اس کے ڈیٹھ وارنٹ پر دستخط بھی کر چکے ہیں،پھر کیا فرق پڑتا ہے؟
صولت مرزا کی داڑھی نہیں،وہ جہاد کا نام نہیں لیتا اور اس کی پھانسی سے الطاف حسین ناراض ہو کر کراچی میں آگ لگا دے گا۔
پاکستان کے امن کی خاطر قربانی دینے والی ’’ جہادی جماعتوں‘‘ پر شیر کی طرح دھاڑنے والے نواز شریف پاکستان کے امن کے بدترین دشمن الطاف حسین کے سامنے بکری کیوں بن گئے ہیں؟
دربار میں بیٹھ کر لاکھوں لوگوں کو قتل کرانے والا ظالم زمانہ حجاج بن یوسف ایک بار ایک باغی عورت’’غزالہ‘‘ سے لڑنے خود لشکر لے کر نکلا اور مقابلے سے بھاگ کھڑا ہوا۔کچھ عرصہ بعد اس نے حسب عادت ایک دیہاتی بدو کے قتل کا حکم صادر کیا تو اس نے یہ اشعار کہے…بلا ترجمہ یہ اشعار ’’شیر‘‘ وزیر اعظم کی نذر…ترجمہ عطاء الحق قاسمی یا کسی حاشیہ بردار سے کروالیں:
اسد علی وفی الحروب نعامۃ
فتخاء یفتخ من صفیر الصافر
ھلا برزت علی غزالۃ فی الوغاء
وقد کان قلبک فی جناح الطائر
حجاج پھر بھی بہتر تھا عورت سے تو ڈرا تھا…آپ تو ایک…الطاف حسین … سے ڈر گئے…
٭…٭…٭
کس کا عمل…؟
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 475)
میں ایک ایک کر کے سوچ رہا ہوں مگر کوئی اچھا نام ذہن میں نہیں آرہا، جس نے اس کام کے حوالے سے شہرت پائی ہو…
فرعون سے بشار الاسد تک یہ کام ہمیشہ برے لوگوں کا ہی وطیرہ رہا ہے…
فرعون کو زوال مملکت اور خدائی کے اختتام کا خطرہ تھا اس نے بچے مارے اور تاریخ میں اس حوالے سے اولیت کا مقام پایا…
بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرتے تھے اور عورتوں کو باقی رکھتے تھے…
فرعون کی قوم میں کسی نے نہ پوچھا کہ بچوں کا قصور کیا ہے؟…
جی ہاں! سرکاری حکم ہو تو عمل کرنے والے دلوں کو پتھر،آنکھوں کو اندھا اور کانوں کو بہرا کر کے عمل کرتے ہیں…
جائز نہ جائز،صحیح غلط، مناسب نا مناسب کی بحث میں کون پڑتا ہے…
یہی کام آج بھی ہر طرف جاری ہے…
بشار الاسد کے خلاف بغاوت ہوئی…لوگ غلامی سے نجات پانے سڑکوں پر نکل آئے،جبر کے خلاف مزاحمت کا اعلان ہوا اور دوسری طرف سے جبر اپنی پوری قوت کے ساتھ ٹوٹ پڑا۔عجیب بات ہے کہ بشار کی حکومت نے اس تحریک کے خلاف سب سے پہلے کار ر وائی بچہ قتل کر کے کی۔’’حمزۃ الخطیب‘‘ دفاعِ کرسی کے لئے قتل کیا جانے والا پہلا بچہ اور پھر اس کے بعد شام کی سرزمین پر بچوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، فرعون حسرت اور حیرت سے بشار کے چہرے کو تکتا ہو گا۔
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی؟
بچوں کو زندہ جلانے، آریوں سے ان کے گلے کاٹنے،زہریلے گیسوں سے ان کا قتل کرنے اور ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کرنے والے تکبیر کے نعرے لگاتے ہیں،خوشی سے چیختے چلاتے ہیں اور ایک جشن مرگ کا سا سماں برپا کر کے یہ کام کرتے ہیں۔نہ ان کے اندر کچھ جاگتا ہے اور نہ عالمی ضمیر۔اور نشانہ بننے والے پھول حیرت و حسرت سے پوچھتے ہیں: بایّ ذنب قتلت؟…
امریکہ نے دہشت گردی کا ٹریننگ کیمپ قرار دے کر باجوڑ میں قرآن پاک پڑھنے والے 86بچے شہید کر ڈالے کیونکہ اسے مستقبل کے خطرات سے بچنا تھا…
رِٹ قائم کرنے کے لئے بمباری کرتے طیارے قبائل علاقوں پر آگ برساتے ہیں تو کتنے پھول مسلے جاتے ہیں، کسی کو کیا خبر؟ لیکن رِٹ کا قائم ہونا بہرحال لازمی ہے…
سخت گرمی کے موسم میں اور اب سخت سردی کے موسم میں ہجرتوں کی رُت آتی ہے، اس کی صعوبتوں سے موت کا رزق بنتے ہیں تو بچے… کیونکہ وہ بے گناہ ہیں، بے قصور ہیں…
اور اب قصاص اور اِنتقام کے نام پر چھلنی کیے گئے تو صرف بچے کیونکہ وہ نہ قاتل تھے نہ مجرم…
اور رسم زمانہ یہی چل رہی ہے کہ قصاص معصوموں سے اور انتقام بے گناہوں سے ہی لیا جاتا ہے…ہر جگہ ہر بستی ہر ملک میں یہی قانون ہے اور ہر طاقتور اسی پر عمل پیرا ہے۔جس کا جو حقیقی مجرم ہے وہ اس کی پہنچ سے باہر ہے،اس تک ہاتھ پہنچانے کے لئے جتنی جرأت اور مردانگی کی ضرورت ہے اس سے سب عاری ہیں اس لئے ہر کسی کی گولی ہو یا گولہ بے گناہوں سے قصاص و انتقام لے رہی ہیں۔ہاں! بس ہر جگہ نام مختلف ہیں اور انداز بھی مگر کام ایک ہی ہے۔کہیں بغاوت کچلنے کے نام پر،کہیں رِٹ قائم کرنے کے نام پر، کہیں پُر اَمن مستقبل کی پیش بندی کے نام پر اور کہیں جہاد و اِنتقام کے نام پر…
ناموں سے یہ سب لوگ اُمتی تو محمد رسول اللہ ﷺ کے لگتے ہیں مگر کام کس کا کر رہے ہیں؟…
اُس کا جسے زمین نے مرنے کے بعد بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا اور وہ آج بھی نشانِ عبرت بنا آنکھوں کے سامنے پڑا ہے…
٭…٭…٭
کل یکم ربیع الاول ہو گی۔ہر طرف ایک نام مبارک کا چرچا شروع ہو جائے گا۔یوں تو ہر سال ہر دن انہی کا نام صفحہ گیتی پر سب سے زیادہ گونجتا ہے لیکن اس ماہ مبارک میں کچھ اور زیادہ…محمد ﷺ
ہر کوئی اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے طور پر میلاد منائے گا لیکن ہو گا کیا؟…
جس آقا ﷺ نے بچوں سے پیار کرنا سکھایا، بچوں کو جنت کا پھول بتایا،بچوں کو چوما، محبت سے اُٹھایا، کندھوں پر سواری کروائی، بچوں کی خاطر بے قرار ہو کر کبھی خطبہ منقطع فرما دیا،بچوں کی بیماری پر تڑپے اور تکلیف پر بے چین ہوئے، بچوں کے ساتھ شفقت کو ایمان کی علامات میں سے قرار دیا ، بچوں پر نرمی نہ کرنے والوں کو ’’لَیْسَ مِنَّا‘‘ کے سخت الفاظ سے ڈانٹ پلا دی، بچوں کی حق تلفی پر بڑوں کو ڈانٹ پلا دی، کفار کے بچوں کے ساتھ نرمی کا حکم فرمایا،قتال و جہاد میں انہیں قتل کرنے سے منع فرمایا،اپنے ہر لشکر کو ہر سریہ کو عورتوں بچوں کے قتل سے گریز کا تاکیدی حکم فرمایا، بدعہد قوم بنو قریظہ جو اپنی شریعت کی رو سے بھی واجب القتل ہو چکے تھے ان کے بھی بچوں کو معاف فرما دیا تھا،جو بچوں کو پھولوں کی طرح سونگھا کرتے تھے،جنہوں نے لاوارث بچوں کی کفالت فرمائی تھی، ان کے امتی جس جس مقصد کی خاطر بچوں کو قتل کر رہے ہیں، کرتے رہیں گے۔اپنے عمل پر دلائل قائم کرتے رہیں گے اور میلاد بھی منائیں گے۔
خونِ مسلم کو بے کار اور بے قیمت چیز سمجھ کر اس کے نالے بہانے والے بھول جائیں گے کہ جن کا میلاد منایا جا رہا ہے انہوں نے مسلمان کو بیت اللہ سے بھی زیادہ حرمت والا قرار دے دیا تھا اور اس کے خون کو حرام قرار دیا تھا،جنہوں نے اپنے اس لاڈلے صحابی کو جسے بچپن میں اپنی فرزندی کی دولت بخشی،گھر میں پالا، اپنی عزت والی چادر سے اس کی ناک تک صاف فرمائی، اپنی ازواج مطہرات کو اس کا خیال رکھنے کی تلقین فرمائی ایک نو مسلم کے ایسے قتل پر جس کے جواز کی مضبوط دلیل ان صحابی کے پاس تھی ایسا ڈانٹا اور ڈرایا کہ ان پر کپکپی طاری ہو گئی اوروہ دعاء کرتے تھے کہ کاش اس واقعہ کے بعد مسلمان ہوئے ہوتے۔یہ میلاد کی تقریروں میں لوگوں کو خون مسلم کی طرف بلائیں گے۔ایک دوسرے کو قتل کرنے پر فخر کریں گے اور انہی تقریروں میں ایک دوسرے کو خون مسلم کی طرف بلائیں گے۔کوئی کہے گا کہ فلاں کو قتل کر دو، فلاں کو مار دو تاکہ امن ہو جائے اور کوئی کہے گا فلاں کو مار دو تاکہ انتقام پورا ہو جائے۔یہ سب بھول جائیں گے کہ جس آقا ﷺ کی شفاعت کے ہم سب طلبگار بلکہ محتاج ہیں انہوں نے مسلمان کا خون کرنے والوں کو اپنی شفاعت کی محرومی سے ڈرایا تھا…
’’جہاد بند کر دو،مجاہدین کو ختم کر دو‘‘ کا پُر جوش نعرہ اور پر زور مطالبہ ان جلسوں میں زور زور سے دُہرایا جائے گا جن کا موضوع اس آقا مدنی ﷺ کی سیرت مطہرہ کا بیان ہو گا جن کی زندگی کے آخری دس سال پیہم عمل جہاد میں گذرے کہ کوئی مہینہ بھی جہادی مہم سے خالی نہیں ملتا، جہاد بند کروانے کے مطالبے کرنے والے بھول جائیں گے کہ حضرت آقا مدنیﷺاپنے مرض الوفات میں بھی سب سے زیادہ فکر مند اس لشکر کے لئے تھے جسے روانہ نہ فرما سکے تھے اور حکم فرمایا تھا کہ اسے روکا نہ جائے بلکہ جلدی روانہ کیا جائے ۔ مجاہدین کو گالیاں دینے والی زبانیں بھول جائیں گی کہ آقا مدنیﷺ نے مجاہد کا کیا مقام بتایا اور کیا بلندی ۔وہ کس کام کو بند کرنے کی فکر میں گھلیں گے؟اُسے جس کا صبح قیامت تک جاری رہنا محمد رسول اللہ ﷺ کا اپنا اعلان ہے اور اپنا فیصلہ۔کیا وہ انہی کے فیصلے سے جنگ کرنا چاہیں گے ؟…
اس جہاد کو دہشت گردی کہہ کر جہنمی عمل بتانے کی کوشش پر زور صرف ہو گا جسے حضرت آقا مدنی ﷺ نے جنت کی پکی ضمانت قرار دیا۔دہشت گردی قتل مسلم کو کہتے ہیں جس سے ہمارے آقا ﷺ نے براء ت کا اعلان فرمایا اور اس سے سختی سے روکا اور کفار سے خود اپنے لشکروں کو لڑایا،ان کے قتل پر انعامات دئیے۔انہی دونوں کو ایک عمل بنا کر سمجھیں گے کہ حقِ غلامی ادا کر دیا۔یہ اُن کی غلامی نہیں، اُن کے دشمنوں کی غلامی ہے…
عصبیت اور قومیت کے نعروں پر اُمت کو نفرتوں کی دلدل میں دھکیلنے اور خون کے سمندر میں ڈبو دینے والے بد شکل بدکردار ملعون بھی سیرت کے جلسے کریں گے اور رو کر دِکھائیں گے تاکہ سننے والے یہ فراموش کر بیٹھیں کہ آقا مدنیﷺنے عصبیت کے نعرے کو بدبودار اور ناپاک قرار دیا تھا اور اس کی بنا پر مسلمانوں کو بانٹنے اور لڑانے والوں کو منافق!
کتنا بڑا لطیفہ ہے کتنا بڑا۔الطاف حسین چلّا چلّا کر کہتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے …
الطاف حسین خون ناحق پر رونے کی ایکٹنگ کرتا ہے…
الطاف حسین پاکستان کے دشمنوں پر برستا ہے…
الطاف حسین حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرتا ہے…
الطاف حسین قاتلوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتا ہے…
الطاف حسین قیام امن کے لئے تعاون کی پیشکش کرتا ہے…
الطاف حسین سورۃ المنافقون کی تفسیر بیان کرتا ہے اور عصبیت کی بات کرنے پر عبد اللہ بن اُبیّ کی مذمت کرتا ہے…
آہ!
ربیع الاول میں ایک سرکاری جلسہ بھی ہو گا جس میں حکمران مسلمانوں پر شکنجہ کسنے،کافروں کی غلامی میں مزید آگے بڑھنے،ملک کو مادر پدر آزادی کی دلدل میں مزید آگے دھکیلنے اور حضرت آقا مدنی ﷺ کے طریقوں سے مزید دور کرنے کے فخریہ اعلانات کریں گے اور ربیع الاوّل یہ سب دیکھتا ہر سال کی طرح رخصت ہو جائے گا کہ نام کس کا لیا جا رہا تھا اور عمل کس کا کیا جا رہا تھا … محبت کا اعلان کس کا تھا اور غلامی کسی کی ہو رہی تھی…کس کی اتباع کا دعویٰ تھا اور طریقہ کس کا اپنایا جا رہا تھا…
کیا ہم اس سال بھی یہی سب کچھ کریں گے یا کچھ بدلنے کی فکر ہو گی؟…
کاش ہم بدل جائیں! حالات ہمارے بدلنے کے اِنتظار میں ہیں …
٭…٭…٭
’’مکتوب خادم‘‘
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 476)
موبائل فون کے منفی اِستعمال نے…اسے ایک آلۂ ضرورت سے زیادہ …آلۂ معصیت کا رُوپ دے دیا ہے…اور ہر منٹ بلکہ ہر لمحہ …یہ لوگوں کے گناہوں میں کتنے اضافے کا باعث بن رہا ہے…اور کن کن فسادات کا موجب؟…تفصیل میں جائیں تو بہت دُکھ ہو گا…لیکن اگر میں آپ کو کہوں…کہ موبائل فون کہیں پر ہدایت کا ذریعہ بن رہا ہے…اِیمان واَعمال کی موثر دعوت کا آلہ بن چکا ہے…اس سے مردہ دلوں کو زندگی…بنجر زندگیوں کو حیات … اور بے عمل اَفراد کو عمل کی قوت مہیا ہو رہی ہے…یہ عزائم کو جلا بخش رہا ہے…اور دلوں کا زنگ دور کر رہا ہے…یہ گناہگاروں کو نجات کا راستہ دکھا رہا ہے…اور بھٹکے ہوؤں کو راہِ راست پر لا رہا ہے…یہ جہاد کے زبردست داعی…اور اعمال صالحہ کے موثر مناد کا کردار ادا کر رہا ہے…یہ درودشریف کا نور پھیلا رہا ہے…نماز کی طرف بلا رہا ہے…اور زندگیوں کو مدینہ منورہ کے راستے پر چلانے کی… بھرپور محنت کر رہا ہے…تو آپ حیران مت ہوئیے گا…
ایسا ہو رہا ہے اور عرصہ چودہ سال سے ہو رہا ہے…
’’مکتوب خادم‘‘ کی شکل میں…
’’مکتوب خادم‘‘ …یہ نام اور عنوان ان لوگوں کے لئے اجنبی نہیں جو ’’جماعت‘‘ کے ساتھ وابستہ ہیں…یہ حضرت امیر المجاہدین مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ کے…اُن مکاتیب کا عنوان ہے…جن کا سلسلہ عرصہ چودہ سال سے جاری و ساری ہے…اور ان تمام مقاصد کی تکمیل کر رہا ہے…جن کا ذکر اوپر سطور میں ہوا…پہلے یہ مکتوبات پندرہ روزہ ’’جیش محمد ﷺ‘‘ ماہنامہ ’’راہِ وفا‘‘ اور ہفت روزہ ’’شمشیر‘‘ میں شائع ہوتے تھے…بعد ازاں یہ سلسلہ موبائل میسج پر منتقل کر دیا گیا…
ان مکتوبات میں جماعتی اصول و ضوابط …اعمال کی ترغیب…اور سب سے بڑھ کر ہر پیش آمدہ واقعہ اور معاملہ کی بابت …جماعتی اَرکان کی رہنمائی کا سامان ہوتا ہے…ان مکتوبات نے…جماعت کے اَرکان کو نظریاتی رہنمائی فراہم کی…ہر موقع پر انہیں صحیح لائحۂ عمل عطاء کیا…اور ہر طرح کے فتنوں سے آگاہی …اور بچاؤ کی فکر بخشی…کبھی درودشریف کی طرف متوجہ کیا…اور کبھی اِستغفار کے راستے پر لگایا…مہمات میں حوصلہ افزائی بھی کی اور راہنمائی بھی…کتنی ہی مٹی ہوئی سنتوں کا اِحیاء کیا…اور کتنے ہی بھولے ہوئے اَعمال یاد دِلائے…اور یوں ہزاروں زندگیوں میں ایک صالح اِنقلاب برپا کیا…اور یہ سلسلہ الحمد للہ آج بھی پوری آب و تاب سے جاری ہے…مکتوبات کی اسی اثر انگیزی اور افادۂ عام کے پیش نظر …انہیں جلد ایک کتاب کی شکل میں بھی شائع کیا جائے گا…اس مجموعہ کی تیاری کا کام جاری ہے…اس وقت ان مکاتیب کے اقتباسات …اس ڈائری کی شکل میں شائع کیے جا رہے ہیں…تاکہ یہ اہل ایمان کے لئے ایک بہترین رہنمائی ہمسفر ثابت ہوں…
قارئین استفادہ کریں…کتاب کی جلد اشاعت کے لئے دعا کریں…اور خاص دعاء یہ کریں کہ یہ ایمانی سلسلہ جاری رہے…اور اس کا فیض عام و تام ہو…
مکتبہ عرفان گذشتہ کئی سالوں سے ایک ڈائری شائع کرتا ہے اور اس کے لئے کسی اہم اور مفید موضوع کا انتخاب کر کے اس کے ذریعے شائقین کو ایک بہترین علمی و روحانی تحفہ فراہم کرتا ہے…
اس نے کبھی ڈائری کی صورت میں… سیرت النبی ﷺ سے متعلق حسین اور دلنواز مجموعہ تیار کیا اور کبھی…المساجد ڈائری کی شکل میں…اللہ تعالیٰ کے گھروں کی عظمت اور اہمیت اہل ایمان کو سمجھائی…اس بار مکتبہ کا انتخاب ہے:
’’مکتوبِ خادم‘‘
اہم اور ضروری موضوعات پر مکتوبات کے تراشے اور اقتباسات منتخب کر کے ڈائری کا حصہ بنائے گئے ہیں آپ انہیں پڑھیں گے تو ان کی افادیت کا خود اندازہ لگالیں گے…میرا مقصد آپ تک اطلاع پیشگی پہنچانا ہے کہ یہ تحفہ ان شاء اللہ عنقریب آیا ہی چاہتا ہے…
٭…٭…٭
السلام علیکم
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 474)
اللہ تعالیٰ کی کتنی بے پایاں رحمت اور بے بدل احسان ہے کہ ہمیں آپس میں ملاقات اور بات چیت کے لئے بھی اپنا مبارک نام عطاء فرمایا اور نام بھی کیسا؟…دنیا و آخرت میں سلامتی کا ضامن’’السلام‘‘…
نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث مبارک پڑھئے:
’’ السلام اللہ تعالیٰ کا نام ہے، جو اس نے تمہارے درمیان رکھ دیا ہے،اسے باہم خوب پھیلاؤ‘‘ …
یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے، اس لئے نبی کریم ﷺ کی ہر نماز کے بعد کی دعاء یوں منقول ہے:
اللہم انت السلام ومنک السلام ( الحدیث)
’’ اے اللہ! آپ ’’السلام‘‘ ہیں اورآپ کی طرف سے ہی سلامتی ہے‘‘…
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ فرشتوں کی ایک جماعت کے پاس جا کر انہیں سلام کریں۔وہ جو جواب دیں، بس وہی آپ کی اولاد کا باہمی سلام و جواب ہو گا…حضرت آدم علیہ السلام نے فرشتوں کو کہا: السلام علیکم
جواب میں فرشتوں نے کہا:
السلام علیک ورحمۃ اللہ( بخاری)
یوں سلام و جواب مقرر ہو گیا…
پھر ہمیں قرآن مجید میں تاکید سے حکم دیاگیا کہ ہم اسے عام کریں اور باہم رواج دیں…
ترجمہ :مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں کے) گھروں میں گھر والوں سے اجازت لئے اور ان کو سلام کئے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے (اور ہم) یہ نصیحت اس لئے کرتے ہیں کہ شاید تم یاد رکھو ۔(سورہ نور آیت ۲۷)
اور فرشتوں کے اسی عمل کو اختیار کرنے کا بھی حکم کہ جواب بڑھا کر دیں۔جیسا کہ انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سلام کا جواب بڑھا کر دیا۔
ترجمہ:اور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) دعا دو یا انہیں لفظوں سے دعا دو۔ بیشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے ( سورۃ النساء ۸۶)
نبی کریم ﷺ سے ایک شخص نے سوال کیا: اسلام میں بہترین عادات کیا ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:کھانا کھلاؤ اور ہر شخص کو سلام کرو، اسے جانتے ہو یا نہیں…
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
اے لوگو! سلام کو عام کرو،کھانا کھلاؤ،رشتہ داریاں جوڑ کر رکھو،اور راتوں کو جب لوگ سوتے ہوں اٹھ کر نماز پڑھو،سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل کر دئیے جاؤ گے۔
اور ایک روایت میں جنت کے ضامن ان اعمال کا تذکرہ یوں آیا ہے:
اے لوگو!سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ اور کفار کی گردنیں اُڑاؤ،جنتوں کے مالک بن جاؤ گے…
اسلامی طریقہ اور شعار یہ ہے کہ دو مسلمان جب بھی آپس میں ملیں تو بات چیت سے پہلے ایک دوسرے کو سلام کریں۔جاہلیت کا دستور یہ تھا کہ لوگ سلام کیا کرتے تھے مگر جب بے تکلفی ہو جاتی اور کسی سے میل جول بڑھ جاتا اس سے سلام کرنا اور گھر آنے سے پہلے دستک دے کر اجازت طلب کرنا بند کردیتے تھے…
یوں جب کسی دوست یا رشتہ دار کے گھر جاتے تو اندر جا کر بتاتے کہ میں آ گیا ہوں۔نبی کریم ﷺ کے ساتھ بھی لوگوں نے ایسا معاملہ کرنا چاہا تو آپ ﷺ نے اسے ناپسند فرمایا۔شریعت میں ’’استیذان ‘‘ یعنی کسی کے گھر داخل ہونے کے لئے دستک دینا اور اجازت طلب کرنا لازم قرار دیا گیا اور اس کی سخت تاکید وارد ہوئی اور آشنائی کے بعد سلام ترک کر دینے کی روش کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی تاکہ اسلامی معاشرے میں سلامتی کی دعا اور محبت کے اس تحفے کا رواج برقرار رہے اور ماحول اس کی وجہ سے برکت اور سلامتی سے پُر رہے۔اس لئے فرمایا:
’’جو شخص تم سے سلام کئے بغیر کلام شروع کر دے اسے جواب نہ دو‘‘…
ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اخلاق سے تخلق کریں یعنی انہیں اپنائیں اور سلام اللہ تعالیٰ کا اسم شریف بھی ہے اور عمل بھی…یوں اسے اپنا کر ہم گویا اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپنانے والے بن جائیں گے۔
’’سلام فرمان ہو گا رب رحیم کی طرف سے‘‘ (یس)
یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل جنت کو انہی الفاظ میں خوش آمدید کہا جائے گا۔
ہمیں نبی کریم ﷺ کی مبارک عادات کو اپنانے کا حکم ہے اور سلام کرنا آپ ﷺ کی دائمی عادت مبارکہ بھی ہے اور تاکیدی حکم بھی۔
’’تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک مومن نہ بن جاؤ اور (کامل) مومن نہیں بن سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔کیا تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جسے کرنے لگو تو تمہاری آپس میں محبت ہو جائے؟…
’’باہم سلام کو عام کرو‘‘…
حضرات صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب بھی تشریف لاتے سلام فرماتے اور اگر مجلس بڑی ہوتی تو تین بار دہراتے تاکہ ہر طرف کے لوگوں کو آواز چلی جائے۔حتی کہ رات کو آخری پہر جب آپ مسجد میں تشریف لاتے تو بھی اتنی آواز میں سلام فرماتے کہ جاگنے والے سن لیں اور سننے والوں کی نیند میں خلل نہ آئے۔اور دیکھئے یہ تو زندوں کے ساتھ معاملہ ہوا ۔نبی کریم ﷺ کا گذر جب قبور پر ہوتا تو ان مسلمانوں کو بھی سلام کے لفظ سے ہی خطاب فرماتے جو دنیا سے جا چکے ہیں۔
’’ السلام علیکم دار قوم مومنین‘‘
اور آپ ﷺ کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے حکم کا امتثال تھا:
’’(اے نبی) جب آپ کے پاس ایمان والے آئیں تو کہئے ’’سلام علیکم‘‘ ( الانعام)
اس لئے آپ ﷺ نے سلام کی عادت کو اختیار فرمایا اور اپنی امت کو ہمیشہ رحمت کی اس دعا سے نوازا۔صحابہ کرام کو اشتیاق رہتا تھا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی اس دعاء کو زیادہ سے زیادہ حاصل کریں، اس لئے بسا اوقات جب آپ ﷺ کسی کے گھر تشریف لے جا کر دستک دیتے اور سلام کر کے اندر آنے کی اجازت طلب فرماتے، تو اہل خانہ اس نیت سے کہ آپ ﷺ بار بار انہیں سلام فرمائیں، جان بوجھ کر آہستہ جواب دیتے تاکہ آپ ﷺ تک آواز نہ پہنچے اورآپ بار بار سلام فرمائیں۔
فرشتے اللہ تعالیٰ کی مقرب اور نورانی مخلوق ہیں۔ہر طرح کی نافرمانیوں سے پاک اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول۔سلام کہنا ان کا بھی عمل ہے،یوں سلام کہنے والا ملکوتی صفات سے بھی متصف ہو جاتا ہے۔دیکھئے قرآن مجید میں ان کا عمل مذکور ہے۔دنیا میں جب وہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آئے تو کیا کہا؟
’’ جب وہ (ابراہیم) کے گھر آئے تو کہا ( سلاماً) سلامتی ہو تم پر‘‘ ( الذاریات)
اورآخرت میں اہل جنت سے وہ کس طرح مخاطب ہوں گے؟
’’سلام علیکم طبتم‘‘
’’سلام علیکم بما صبرتم‘‘
اور پھر دیکھئے! جنت میں سلام کا ماحول ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام،فرشتوں کی طرف سے سلام اور آپس میں بھی ہر وقت سلام سلام …
ترجمہ:’’ (اور یہ اہل جنت) نہیں سنیں گے جنت میں فضول بات اور نہ ہی گناہ کی بات،مگر ہر طرف کہا جانا سلام سلام۔‘‘ ( سورۃ الواقعہ)
یعنی سلام ہی سلام ہو گا، کوئی لغو اور بری بات نہ ہو گی۔اب سوچئے جو معاشرہ سلام سلام کی آواز میں گونجتارہے اور اس میں سلام کا رواج ہو جنت نظیر بن جائے گا یا نہیں؟…
ایک ایسا معاشرہ جو باہمی دشمنیوں سے اَٹا ہوا، قتل و غارت اور بغض و عناد سے بھرا ہوا تھا،اس میں سلام کا چلن ہوا تو وہی معاشرہ قیامت تک کے لئے محبت ،ایثار اور اخوت کی بے مثل مثال بن گیا۔ اور آج ہر طرف سلامتی سے محرومی ہے، حسد، بغض اور عناد کا دور دورہ ہے،نفرتوں کا چلن ہے اور دل کٹے ہوئے ہیں۔ اس کا سبب اللہ تعالیٰ کے اس عظیم تحفے کی ناقدری نہیں تو اور کیا ہے؟…گھروں میں سلام کا رواج نہیں، ایک ماحول میں رہنے والے لوگ کچھ دنوں بعد ایک دوسرے کو سلام کرنا بند کر دیتے ہیں،بالکل دور جاہلیت کے طریقے کے مطابق ، مساجد و مدارس میں سلام کا عمل متروک ہوتا جارہا ہے ، بے دین لوگوں کو تو چھوڑئیے ، اہل دین بھی اس باب میں شدید تساہل کا شکار نظر آ رہے ہیں اور ہم سب اس غفلت کی وجہ سے کتنی نعمتوں سے محروم ہو رہے ہیں اس کا ہمیں ادراک و شعور بھی نہیں۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سلام کا کتنا اہتمام تھا اور اس عمل کی ان کی نظر میں کتنی اہمیت تھی اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے لگا لیجئے۔
طفیل بن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مجھے اپنے ساتھ بازار چلنے کا حکم فرمایا کرتے اور بازار جا کر ہر دوکاندار،ہر مسکین اور ہر خریدار کو سلام کرتے۔ایک دن میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بازار چلنے کا فرمایا؟ میں نے عرض کیا:
آپ بازار جا کر نہ کچھ خریدتے ہیں، نہ اشیاء کی قیمت معلوم کرتے ہیں اور نہ دوکانداروں کے پاس بیٹھتے ہیں تو پھر بازار جانے کا مقصد؟ آپ یہیں بیٹھئے ہم ادھر ہی باتیں کرتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
موٹے بھائی(مزاحاً انہیں اس لقب میں پکارا ) ہم بازار جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو سلام کریں۔ جو بھی ملے گا اسے سلام کر کے لوٹ آئیں گے۔
دیکھئے! حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی اس عمل کی فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے بازار تشریف لے جارہے ہیں اور سوائے سلام کے کوئی اور کام درپیش نہیں اور ہم کہیں جانا تو دور کی بات، اپنے ماحول میں رہتے ہوئے بھی اس فضیلت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
آئیے! اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے اس پسندیدہ عمل کو فروغ دیں اور سلامتی والا معاشرہ اور محبت والا ماحول پا لیں۔غفلت کو ترک کریں،اس عمل پر نہ مال خرچ ہوتا ہے اور نہ وقت۔پھر سستی کی کیا وجہ؟…
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
٭…٭…٭
غلط رجحانات
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 473)
آج دو باتیں عرض کرنی ہیں…
پہلی یہ کہ وعظ و نصیحت کارِ پیغمبری ہے اور ملکۂ خطابت وہ خداداد صلاحیت ہے جو اس کے اثر کو دو چند کر کے چار چاند لگا دیتی ہے۔اصل تاثیر تو داعی اور واعظ کے اخلاص اور عمل کی ہوتی ہے۔مخلصین کی زبان سے نکلے ہوئے سادہ کلمات میں بھی وہ تاثیر ہوتی ہے جو خطباء کی محض شعلہ بیانی سے بڑھ کر ہوتی ہے اور سننے والوں کی کایا پلٹ دیتی ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکۂ خطابت رکھنے والا شخص اپنی بات لوگوں تک اَحسن انداز میں پہنچانے اور ان کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے اور اگر ایسا شخص صاحبِ عمل و اخلاص بھی ہو تو سبحان اللہ…حقیقی معنوں میں اس پر’’ سونے پر سہاگہ‘‘ والی مثل صادق آتی ہے۔
قرآن مجید میں حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے قصص پڑھنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اکثر انبیاء ِکرام کو اس صلاحیت سے نوازہ تھا۔خصوصاً حضرت نوح علیہ السلام ،حضرت ہود علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام اور پھر ان سب سے بڑھ کر ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے مبارک خطبات … سبحان اللہ! ایک ایک لفظ شاہکار،ایک ایک جملہ بے مثال اور ہر انداز بے بدل…کروڑوں اربوں درود و سلام ہوں دارین کی روح حضرت محمد ﷺ پر جنہوں نے خطابت کو عزت عطا فرما دی۔
’’خطابت‘‘ چونکہ میراث نبوی کا ایک جزء ہے اس لئے اچھی خطابت وہی شمار کی جائے گی جس میں نبوی رنگ ہو اور جو علوم ِنبوت سے مزین ہو۔بازاری یا بناوٹی اندازِ بیان،بے بنیاد قصوں کہانیوں پر مشتمل تقریر ، غیر معیاری زبان اور غیر مستند مواد کسی صورت بھی لائق تعریف نہیں،اسے سراہا نہیں جانا چاہیے اور خطیب کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ ان امور سے مکمل اجتناب برتے۔
آج کل اس حوالے سے ایک بہت غلط رجحان سامنے آ رہا ہے۔بعض ایسے حضرات نے بحیثیت خطیب شہرت پا لی ہے جن کا نہ انداز مناسب ہے اور نہ مواد قابل اعتماد،لیکن وہ بہرحال سامعین کے ذہنوں سے کھیلنے اور قابو کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور ہر طرف ان کے نام کا طوطی بولتا ہے۔اگرچہ اس شہرت میں بھی زیادہ دخل سوشل میڈیا نامی مہلک وائرس کے پھیلاؤ کا ہے اور کسی بھی شخص کی شہرت کا پیمانہ اس کی فیس بک،ٹویٹر،یوٹیوب اور ایسی دیگر چند بلاؤں پر موجودگی کے تناسب کو مان لیا گیا ہے۔اب جو شخص ان کھلونوں سے جتنا کھیلنا جانتا ہے اسی قدر معروف گردانا جاتا ہے۔جس کی تقریر کے جتنے زیادہ کلپس ان مقامات پر دستیاب ہیں وہ اسی قدر معتبر ہے۔ہمیں کسی کی شہرت سے کوئی غرض ہے نہ کسی کے کلپس پر کوئی اعتراض۔ مقصد صرف ایک غلط رجحان کی اصلاح ہے جو عزیز طلبہ میں بڑی تیزی سے سرایت کرتا جا رہا ہے۔ ہمارا طالبعلم طبقہ بھی چونکہ سوشل میڈیا کا کافی رسیا ہو چکا ہے اور سمارٹ فون کی آمد نے کیسٹ ،سی ڈی کے دور کو گویا کہ پتھر کا زمانہ بنا دیا ہے لہٰذا ان سے کوئی استفادہ نہیں کرتا اور ہمارے وہ بزرگ خطباء جن کی خطابت میں قرآن و سنت کا رنگ تھا اور تقاریر ٹھوس علمی مواد پر مشتمل ہوا کرتی تھیں ان کے بیانات انہی زمانہ قدیم کی یادگاروں پر ہی دستیاب ہیں۔لہٰذا اب ہمارا طالبعلم جن لوگوں کو فیس بک اور یوٹیوب پر سن سن کر ان کے انداز کو کاپی اور ان کے جس علمی مواد کو آگے نقل کر رہا ہے اس پر تبصرے کے لئے مہذب الفاظ ڈھونڈنے میں بھی کافی دقت پیش آ رہی ہے۔مصیبت یہ ہے کہ کتاب کے ساتھ بھی اب لوگوں کا تعلق بہت کم اور کمزور ہو چکا ہے، سنی سنائی بات کی تحقیق کی بھی کوئی تکلیف نہیں کرتا اور اسے آگے پہنچانا اپنا فریضہ سمجھ لیتا ہے، لہٰذا اپنے ان طالبعلم بھائیوں کی خدمت میں چند گزارشات کرنا لازمی ہے جو خطابت کا ذوق رکھتے ہیں اور اس میدان میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔چند وہ غلط رجحانات جو اس میدان میں رائج ہوتے جا رہے ہیں ان کی نشاندہی کر دی جائے تو ممکن ہے اصلاح کی کوئی صورت نکلے۔
(۱) خطابت کا یہ جدید انداز جس میں خطیب بولتا کم اور بُلواتا زیادہ ہے یا کم از کم خطیب اور سامع کی تقریر برابر ضروری ہوتی ہے۔بات بات پر لوگوں سے بولنے کا مطالبہ،ہر بات کئی بار دہرانے کا حکم اور پھر ہر نکتے پر داد کے ڈونگرے برسانے کا امر اور ان احکام پر عمل نہ کرنے والوں سے سخت اور بھونڈے الفاظ میں خطاب…
اس غیر سنجیدہ طرز عمل نے پہلے نعت و نظم کی مجالس کو ناقابل شرکت بنایا اور اب ہر جگہ خطابت کا رنگ بھی یہی ہوتا جا رہا ہے۔ کیا وہ بزرگ خطباء جن پر فن خطابت کو بھی ناز ہوتا ہو گا اُن کی تقاریر کا یہی انداز تھا؟اور کیا یہ انداز تاثیر میں کچھ بڑھ کر ہے؟ یا خوبصورتی میں؟…جواب آپ پر قرض ہے ،اس انداز کو اپنانے سے پہلے ضرور سوچ لیجیے گا…
(۲) حضرات انبیائِ کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام، صحابہ کرامؓ،امہات المومنینؓ،ائمہ کرامؒ وغیرہم جیسی مقدس ہستیوں کا گستاخانہ انداز میں بے تکلفی کے ساتھ ذکر۔یہ رُجحان تو اس قدر خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے کہ الامان الحفیظ۔ان ہستیوں کے نام بغیر کسی لقب و دعا کے اس قدر عامیانہ انداز میں لئے جا رہے ہوتے ہیں جس طرح ہم اپنے والد، پیر یا استاذ یا کسی بھی معزز شخص کا نام لینا گوارہ نہیں کرتے۔بندہ نے کچھ عرصہ قبل ایک جلسے کے بعد ایک خطیب صاحب کو اکیلے میں اس طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے پہلے تو تاویل پیش کی کہ خیر القرون میں اس طرح سب کو محض نام سے پکارا جاتا تھا کوئی سابقے لاحقے کا رواج نہیں تھا۔میں نے عرض کیا ہم اس زمانے میں ہوتے تو اور بات تھی ۔یہاں ہم کسی قاری کا نام شمس،بدر، فخر القراء کے بغیر نہیں لیتے،کسی خطیب کے لئے جب تک ایک شخص پہلے آ کر پوری قوالی جتنی مدح سرائی نہ کرے کام پورا نہیں ہوتا،ہر نعت خواں کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے ہم پلہ قرار دئیے بغیر رونق نہیں لگتی اور اپنے استاذ،شیخ ،بزرگ کا تذکرہ مبالغہ آمیز اَلقاب کے بغیر ادھورا سمجھتے ہیں ،اب یہاں بے تکلفی صرف انہی ہستیوں کے لئے مخصوص رہ گئی ہے؟ اس پر انہوں نے اصل بات فرمائی کہ پھر تقریر میں تسلسل نہیں رہتا، ٹیمپو ٹوٹ جاتا ہے۔آگ لگے تسلسل کو اور بھاڑ میں جائے ٹیمپو۔ہمارا دین ادب ہے سراپا ادب، بے ادب خود دین سے محروم ہے دوسروں کو کیا دین پر لائے گا۔پھر یہ تسلسل اس وقت بھی عذر کیوں نہیں بنتا جب یہی خطیب جو صحابہ کرام کا نام چھوٹے بھائیوں کی طرح لے رہے ہوتے ہیں، سٹیج پر براجمان کسی شخص کا ذکر شروع کر دیں تو پھر آپ ادب، احترام اور مبالغہ آرائی کا منظر ملاحظہ فرمائیںاور پھر کوئی لازم نہیں کہ جو القابات تحریر میں لکھے جاتے ہیں وہ سب لگا کر نام لیا جائے کیونکہ تحریر و تقریر کا معاملہ مختلف ہوتا ہے لیکن یہ تو بہر حال لازم ہے کہ کسی بھی مناسب لفظ سے ادب کا عنصر شامل کر لیا جائے تو ٹیمپو اور تسلسل نامی ضروریات بھی پوری ہو جائیں گی اورنا مناسب بے تکلفی سے بھی حفاظت رہے گی۔سو عزیز طلباء کرام! ایسے انداز خطابت کو ہرگز نہ اپنائیں اور اتنا ضرور ذہن میں بٹھالیں کہ جس انداز سے اپنے والد کا نام نہیں لیا جا سکتا اسی انداز میں ان مقدس ہستیوں کا ذکر کس طرح روا ہو سکتا ہے ؟ …
(۳) ایسے نکات کا بیان اور ان پر داد طلبی جن کا نہ کہیں کتابوں میں ذکر ہے اور نہ خطبات میں۔بس دل نے بنائے اور زبان نے ادا کر دئیے اور جبراً داد وصول کر لی گئی۔گذشتہ دنوں ایک صاحب کو ایسا ہی ایک نکتہ بیان کرتے سنا۔اگر یہاں لکھ دوں تو افسوس سے دماغ پھٹنے لگے۔میں نے ان کو بلا کر پوچھا کہ یہ دُرّ کہاں سے دریافت کیا؟ انہوں نے ایک بہت ہی معروف خطیب صاحب کا نام لیا جو اگرچہ عالم نہیں ہیں لیکن آج بقول انہی صاحب کے سب سے ’’مہنگے‘‘ ہیں۔یقین نہ آیا کہ انہوں نے ایسا کہا ہو گا تو وہ صاحب بطور سند ان کا بیان لے آئے اور سنا دیا۔ انہوں نے اس نکتے کو اتنے فخریہ انداز میں بیان کیا اور اس پر یہ کہہ کر داد سمیٹی کہ یہ نکتہ تمہیں کہیں نہیں ملے گا۔مجمع میں اگر کوئی اچھے استاذ سے نحومیر پڑھا ہوا طالبعلم بیٹھا ہو گا تو دل میں خوب ہنسا ہو گا۔لیکن انہیں اس پر جس طرح داد ملی اس کے پیش نظر خطرہ ہے کہ وہ اب تک ایسے کئی نکات ایجاد کر چکے ہوں گے۔اور ادھر حال یہ ہے کہ آگے نقل کرنے والے بھی انہی باتوں سے تقریر سجا کر داد سمیٹ رہے ہیں۔قرآن مجید کی آیت غلط پڑھی،غلط ترجمہ کیا،غلط مفہوم بیان کیا اور ان سارے گناہوں پر نعرے بھی لگوائے۔سو اے عزیز طلبائ! تحقیق کو اپنائیے۔غلط باتیں ہرگز نہ بیان کیجیے ۔ بلا تحقیق کسی کے نکات نقل نہ کیجیے ،کتاب سے رشتہ جوڑیئے اوراسی سے روشنی لے کر بات کیجیے۔ہدایت کتاب میں ہی ہے یہ بات تو ہوئی طلباء کرام سے۔
دوسری بات عامۃ المسلمین کے لئے ہے۔ ہمارے بہت سے دینی بھائی اس دور میں گناہوں اور دنیاداری کی زندگی سے دین کی طرف آئے ہیں۔یوں تو روزانہ سیکڑوں ہزاروں لوگ آتے ہیں لیکن جو چند مشہور لوگ آتے ہیں ان کا آنا بھی مشہور ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہر طرح کی عزت و اکرام اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں۔مسلمانوں کو ان کی دلجوئی کرنی چاہیے تاکہ انہیں ثبات نصیب ہو اور وہ دوسروں کے لئے مثال بنیں لیکن خطرناک رجحان یہ ہے کہ معاملہ اکرام سے بڑھ کر اقتدا تک جا پہنچا ہے اور ایسے حضرات کو جلد ہی ایسے مقام اور منصب پر بٹھا دیا جاتا ہے جو اس امت میں صرف علماء کے لئے مخصوص ہے اور یہ رجحان جو گل کھلا رہا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ان میں سے چند لوگ پورے طور پر ظاہری دینداری کے رنگ میں رنگے جا چکے ہیں مگرعلم میں خام ہیں اور کچھ لوگ ابھی ظاہری دینداری کے معیار سے بھی دور ہیں مگر آپ یہاں سے لے کر منیٰ و عرفات کے میدان تک یہ رجحان کھلی آنکھوں سے ملاحظہ کر لیں کہ ان کے بیان میں لوگ زیادہ اور راسخین فی العلم بزرگوں کی مجالس میں کم آتے ہیں۔چند ماہ قبل میں نے اپنے شہر میں یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک حاضر سروس کرکٹر کے بیان کا اعلان ہوا، ایک بہت بڑی مسجد یوں بھر گئی کہ جوتوں میں بھی جگہ نہ تھی۔منبر پر جلوہ افروز خطیب جینز میں ملبوس تھے۔کالا چشمہ لگا رکھا تھا۔منہ پر دو دن کی داڑھی تھی اور پورا بیان اس موضوع پر تھا کہ نہی عن المنکر سے نقصان ہوتا ہے( معاذ اللہ) لہٰذا اسے ترک کر کے بس بلانا چاہیے۔ انہوں نے اس پر اس شخص کی مثال دی جو اب بھی اسٹیج ایکٹر ہے،ڈانس ڈائریکٹر ہے،سٹیج پر نیم برہنہ لڑکیوں کے ساتھ ناچنے اور بیہودہ جملہ بازی میں مشہور ہے۔وہ اب تک صرف اسی وجہ سے دین سے دور رہا کہ عالم اسے کہتے تھے کہ یہ سارے کام چھوڑنا ہوں گے۔اب انہیں پیار سے بلایا گیا تو وہ اب ہر سال حج کرتے ہیں، گروپ لے کر جاتے ہیں،وقت لگاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور ساتھ ساتھ سارے کام بھی جاری ہیں۔سنا ہے منیٰ اور عرفات میں اس ایکٹر کا بھی بیان ہوتا ہے اور لوگ پوچھ پوچھ کر جگہ تلاش کر کے حاضری دیتے ہیں۔مجھے اس پر ان صحابی کا وہ مشہور جملہ یاد آیا جو انہوں نے زمین پر گرا لقمہ اٹھا کر کفار کے سامنے کھا لینے پر اعتراض کرنے والے شخص کو فرمایا تھا کہ کیا ہم ان احمقوں کے کہنے پر اپنے حبیب ﷺ کی سنت کو ترک کر دیں۔تو کیا ان لوگوں کے کہنے پر نہی عن المنکر کے حکم کو اسلام سے نکال دیا جائے کہ اس سے نقصان ہوتا ہے اوراسٹیج ایکٹرنہیں جڑتے؟ اور پھر میں نے اُس جمعرات کو ایک بہت بڑے عالم دین،شیخ الحدیث اور شیخ طریقت کے درس قرآن میں بھی چند منٹ حاضری دی۔مجھ سمیت ۱۰۰ افراد نہ تھے حالانکہ شہر بھی وہی تھا اور تشہیر بھی کی گئی تھی۔سنا ہے کہ حج میں بھی علمائِ کرام اور کرکٹرز و ایکٹرز کے بیانات میں حاضری کا یہی تناسب ہوتا ہے۔واللہ اعلم
یہ رجحان بہرحال غلط ہے،خطرناک ہے اور مضر ہے۔سامعین کے لئے بھی اور خود ان لوگوں کے لئے بھی جن کے ساتھ یہ معاملہ کیا جا رہا ہے۔آپ سب کو یاد ہو گا کہ چند سال پہلے ایک کمپنی کے چپس کے بارے میں حلال و حرام کا ایک مسئلہ کافی معرکۃ الآراء بنا رہا ۔ علمائِ کرام کی ایک رائے تھی اور اسی کے پیش نظر انہوں نے کمپنی سے کچھ سوالات کیے تھے،کمپنی والوں نے پہلے تو ان سوالات کا جواب ایسے دیا جو ’’سوال گندم جواب چنا‘‘ کا بالکل صحیح مصداق تھا۔ساتھ یہ کیا کہ انہی معروف شخصیات میں سے ایک کو ٹی وی پر لے آئے۔انہوں نے بڑے سٹائل سے چپس کا پیکٹ کھولا اور قوم کو کھا کر دکھا دئیے۔اس طرح اپنے کھانے کو سب کے لئے حلت کی دلیل بنا کر چل دئیے۔کیا یہ دین کے ساتھ استہزاء نہیں؟… اب جو تازہ واقعہ ہوا اس کی کچھ بھی تاویلات کی جائیں بہرحال یہ تسلیم کرنا لازم ہے کہ یہ لوگ دین میں پختہ نہیں،علم راسخ نہیں رکھتے،اصول دین سے ناواقف ہیں اس لئے انہیں قوم کے لئے مقتدا نہ بنایا جائے اور نہ ہی انہیں منبر و محراب کا وارث بنایا جائے، ورنہ نتیجہ یہی نکلے گا کہ جو اب نکلا۔قصور جتنا ان کا ہے ان سے بڑھ کر انہیں اس مقام پر فائز کرنے والوں کا ہے۔
کاش! ابھی بھی اس غلط رجحان کر ترک کر دیا جائے اور دینی رہنمائی کا معاملہ علماء کرام کے ہاتھ میں ہی رہنے دیا جائے۔ہمارے یہ بھائی لائق اکرام ضرور ہیں لائق امامت نہیں۔کسی چیز کو اس کے مقام سے ہٹا دینا ظلم ہے اور ظلم آخرت کا اندھیرا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ظلم سے بھی توبہ نصیب فرمائے۔
٭…٭…٭
سچا منشور
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 472)
کشمیر میں الیکشن ڈرامہ عروج پر ہے۔
انتہا پسند اور اکھنڈ بھارت کی علمبردار بی جے پی اس منصوبے کے ساتھ میدان میں اُتری ہے کہ وہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی میں اپنی اکثریتی حکومت قائم کرے گی۔بی جے پی کے سرپرست کارپوریٹ سیکٹر نے وسائل کا رخ ریاست کی طرف کر دیا ہے اور تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات بروئے کار آ رہے ہیں۔ایک ایک ووٹ کی قیمت لگا دی گئی ہے،ایک ایک ضمیر کو منہ مانگی قیمت پر خریدا جا رہا ہے،سرنڈر کرنے والے غدارانِ قوم کو وسائل سے مالا مال کر کے میدان میں اتارا گیا ہے تاکہ خدمت کے نام پر لوگوں کو ہندوستان سرکار کی طرف مائل کریں۔قوم کی تمام تر محرومیوں اور علاقائی پساماندگی کا سبب عسکری تحریک کو قرار دے کر لوگوں کو اس سے برگشتہ کرنے کی سر توڑ محنت کی جا رہی ہے۔لمبے چوڑے منصوبوں،بڑے بڑے دعووں اور روشن مستقبل کے جھانسوں میں پھنسا کر نعرہ ٔآزادی سے دستبرداری کی کوشش زوروں پر ہے۔لیکن کیا ایسا ہو جائے گا؟…
ایسی سرزمین پر جہاں ایک لاکھ سے زائد شہدائِ کرام کی قبور جہاد اور حریت کی دعوت دے رہی ہیں ۔ ایسی فضاؤں میں جہاں سید آفاق شہید سے لے کر کتنے گمنام اللہ والوں کے جسموں کے ٹکڑوں کی خوشبو سمائی ہوئی ہے۔
اُس دھرتی پر جس کا ایک ایک ذرہ، ایک ایک پتھرایمان وعزیمت کی انمول داستانوں کا گواہ ہے…
کیا ایسا ہو جائے گا؟…
کیا ایک الیکشن میں ووٹوں کا ٹرن آؤٹ بڑھا ہوا دکھا کر یہ باور کر لیا جائے گا کہ ایمان و جہاد،قربانی و عزیمت کے خمیر میں گندھی کشمیری قوم اپنے حق سے دستبردار ہو رہی ہے اور شہداء کرام کے عظیم مشن سے روگردانی کر رہی ہے؟…
تو جواب یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں۔مودی کسی دھوکے میں نہ رہے،کشمیری ہندوستان کو اور ہندو کو جس طرح جانتے ہیں ایسا کوئی نہیں جانتا، وہ ان سے کبھی دھوکہ نہیں کھائیں گے۔
یہ وہی بھارت سرکار ہے جس نے ان کا حق خود ارادیت سلب کیا،ان پر فوج کشی کی،ان کا وحشیانہ قتل عام کیا،کیا جموں کے ڈھائی لاکھ سے زائد مسلمانوں کا خون کسی اور قوم نے بہایا تھا؟
یہ وہی ہندوستان ہے جس کی افواج کے ہاتھوں لاکھوں مسلمان قتل ہوئے،ہزاروں جیلوں میں سسک سسک کر جان کی بازی ہار گئے،ہزاروں آج تک لاپتہ ہیں…
یہ وہی ہندو ہے جس نے ان کی عزتوں کو پامال کیا،کشمیر کے طول و عرض میں پھیلا ہر فوجی کیمپ ایسی کتنی ہی المناک داستانوں کا گواہ ہے۔کیا کشمیری قوم اپنی ان بیٹیوں کی بے گوروکفن لاشوں کو بھول جائے گی جو پامال کرکے چشموں میں بہا دی گئیں یا جلا دی گئیں…
یہ وہی ہندوستان ہے جس کے فوجی محض تفریح طبع لینے یا میڈل حاصل کرنے کے لئے کشمیری جوانوں کا خون بہاتے ہیں،مزدروں کو اغوا کر کے قتل کرتے رہتے ہیں اور انہیں اس پر کبھی سزا نہیں ملی…
یہ وہی بھارت ہے جس کے تعلیمی اداروں میں کشمیری طلبہ کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے جس کے ہر شہر میں ہر ریاست میں کشمیری نفرت کا نشان ہیں اور انہیں نفرت کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے…
اسی بھارت نے اپنے ایک فوجی کے جھوٹ کو چھپانے کے لئے اس غیور قوم کے دو سو سے زائد نہتے بچوں پر سیدھے فائر کر کے انہیں شہید کر دیا اور اب اس کا جھوٹ تسلیم کر لیا۔کیا یہ جھوٹی معذرت ان سینکڑوں معصوم جانوں کا بدل ہو سکتی ہے؟…
کشمیری کیا بی جے پی کے اس مکارانہ بدلے لہجے اور انداز سے یہ باور کر لیں گے کہ ہندوستان بدل رہا ہے ،ہندوبدل رہا ہے؟ ہندو کی نفرت آئینہ سوچ بدل رہی ہے؟
میرا نہیں خیال کہ ایسا ہو سکتا ہے…
اور کیا کشمیریوں کو چند ماہ پہلے آنے والے بدترین سیلاب کے دوران اور بعد ہندوستانی حکومت کا ان کے ساتھ رویہ بھول جائے گا؟…
بی جے پی مال خرچ کر کے ووٹ ڈلوالے،وسائل خرچ کر کے امیدوار خرید لے،بوگس نتائج کے ذریعے ریاستی اسمبلی کی حکمران بن جائے،شہداء کرام کا مقدس خون کہہ رہا ہے کہ کشمیر کی سرزمین اپنے حق سے کبھی دستبردار نہ ہو گی اور نہ ہی تحریک آزادی اور تحریک جہاد تھمے گی۔وقت اس کا بہترین گواہ ہے وہ اپنا فیصلہ جلد ثابت کر دے گا…
بی جے پی سرکار نہ ہی سردار پٹیل سے زیادہ سفاک ہے اور نہ نہرو سے زیادہ چالاک۔وہ دونوں اس حسرت کو دل میں لئے آگ میں جل کر خاک ہوئے اور ہمیشہ کی آگ کا رزق بنے۔ان کی امید بر نہ آئی،مودی بھی کوشش کر کے دیکھ لے،بی جے پی بھی اپنا زور آزمالے…
وہ اپنا منشور کشمیری عوام کے سامنے رکھ کر انہیں پھسلانے کی کوشش کر رہی ہے ہم کشمیری قوم کے سامنے اسی کے قابل فخر سپوت شہید اسلام محمد افضل گورو شہیدؒ کے الفاظ میں وہ منشور رکھتے ہیں جو کشمیری قوم کا مایہ افتخار بھی ہے اور دنیا بھر میں بلکہ رہتی دنیا تک اس کا تعارف بھی…
’’کشمیری نوجوان کے نام:
نوجوانانِ کشمیر! شہداء کی امانت، ان کا مشن آپ کے کندھوں پر ہے اس کو آگے لے جانا آپ پر ایسا ہی فرض بن چکا ہے جیسے نماز اور روزہ… بھارتی فوج کی موجودگی میں ہمارا مال، ہماری جان، سب سے بڑی چیز ایمان اور ہماری بیٹی، ماں، بہن کی عزت نہ صرف غیر محفوظ ہے بلکہ اسکا لٹنا یقینی ہے (اگر ہم کھڑے نہ ہوئے) یہ لڑائی و جنگ اب پہنچتے پہنچتے ہماری ماں بیٹی کی عزت و عصمت بچانے کے مرحلے و مقام تک پہنچ گئی ہے اب حجت قائم ہو چکی ہے۔
نوجوانانِ کشمیر! غازی بابا کے مشن کو لے کر آگے بڑھنا ہو گا ورنہ ہمارا دینی وجود اور تشخص ختم ہو جائیگا۔ یہ جنگ اب ہماری وجودی (Existential) جنگ بن گئی۔ گھر گھر کے باہر،سڑک، میدان، روڈ،جنگل، کھیت، سکول ہر جگہ ظالم و جابر فوج موجود ہے ہماری زندگی کا ہر پہلو اب اس قابض فوج کے رحم و کرم پر ہے، غفلت، بے حسی، جمود ہمارے ملی و دینی وجود کو ختم کر کے رکھ دے گی۔ ہماری آنے والی نسل کی تباہی کے ذمہ دار ہم ہونگے، سکولوں میں ایک ایسا تعلیمی نظام رائج ہے جو ہماری اخلاقی و روحانی اقدار و اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ نسل جب ایسے نظام میں پرورش پائے گی تو ان کی سوچ، فکر، جذبہ، اٹھنا بیٹھنا غرض ہر چیز اخلاقی و روحانی اقدار و اصولوں سے خالی ہوگی۔ آنے والی نسل کو بچانے کے لیے بھی جہاد کو آگے بڑھانا ہوگا۔ زندہ رہنا ضروری نہیں زندگی کا مقصد ضروری ہے۔ مسلمان کی جان خون میں نہیں بلکہ ایمان میں ہوتی ہے۔ جب ایمان و غیرت کا شعلہ بجھ گیا پھر انسان و حیوان میں کوئی فرق نہیںرہتا۔ جب پھول میں خوشبو ہی نہیں تو پھول کا کیا فائدہ؟
شہید آفاق شاہؒ ایک مثال:
نوجوانانِ کشمیر! ہمیں شہید آفاق شاہؒ کا طرز عسکریت اپنانا ہوگا۔ شہید آفاق شاہؒ شہید غازی باباؒ کا مرید او ر شاگرد ایک پراسرار 20سال کا نوجوان شہر سری نگر کا مرد مؤمن غازی باباؒ کی پراسرار و وجدانی نظر اس نوجوان کو سیدھا جنت ’’ملا ء اعلیٰ‘‘ تک لے گئی۔ اس نوجوان نے جہاد کشمیر کی تاریخ میں ایک نئے باب، ایک نئے طریقے، ایک نئی عاشقانہ ادا کو جنم دیا، بھارتی قابض و ظالم فوج کے مرکزی ہیڈکوارٹر بادامی باغ میں 25سے 30بھارتی فوجیوں کے پرخچے اڑا دئیے اور خود سیدھا جنت میں جا پہنچا۔اس پاکیزہ 20 سال کے نوجوان نے کوئی سرحد پار نہیں کی کوئی ٹریننگ نہیں کی تھی۔ اس کے دل میں طلب و تڑپ تھی۔ اس شہر سری نگر کے نو عمر 20 سال کے نوجوان نے شہادت کے ذریعہ زندگی کی سچائیوں کو اپنے وجدانی تجربوں سے ہمیں آگاہ کیا۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
اس نوجوان کو کشمیر میں ظالم فوجی قبضہ پسند نہیں تھا، اس نوجوان سے ملت کا غم، ملت کی توہین دیکھی نہیں جاتی تھی یہ نو جوان پاک نظر اور پاک دل کا مالک تھا۔ مرید کی طلب و تڑپ پیر و مرشد کو کھینچ لائی، یہ ایک وجدانی و روحانی معاملہ ہے۔ بہر حال غازی باباؒنے چند نوجوانوں سے مشورہ کیا ان کے دل کی کیفیت جاننی چاہی یہ معصوم20 سال کا نوجوان، اس ملت کا پھول کھڑا ہو گیا، شہادت کے مشن کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا، اس نوجوان نے غازی بابا کو حیرت میں ڈال دیا۔
کیونکہ اس نوجوان کو عرش پر سے ملاء اعلیٰ کی روحانی طاقت و تاثیر چھو چکی تھی۔ یہ 20 سال کا نوجوان اور غازی باباؒ 35سال کا مرشد۔ آفاق شہیدؒبابا کی طرف لپک کر گیا اور آنسو جاری ہو گئے۔ مرید نے مرشد کا دامن اپنے موتیوں جیسے آنسوؤں سے تر کر دیا، مرشد بھی رو پڑا پوری مجلس رو پڑی عرش اعلیٰ پر قبولیت کا سامان پیدا ہوگیا۔ آفاق شاہؒ فرزندانِ ملت کا ایک فرد چھوٹی گاڑی میں سوار ہوا ظالم بھارتی سامراجی فوج کے ہیڈکوارٹر پہنچ گیا۔ ہاتھ بٹن پر زبان پر کلمہ توحید ہونٹوں پر کلمہ توحید… ایک زور دار دھماکہ 25سے 30 فوجیوں کی لاشیں زمین پر… آفاقؒ کی روح عرش اعلیٰ پر… اللہ اکبر!بھارتی خفیہ اداروں کی نیندیں اُڑ گئیں۔ بھارت نواز حکمرانوں کاچین اُڑ گیا۔ ایک نئی ابتدائ، ایک نئی ادا، ایک نیانعرہ…
غلامی سے نفرت:
کشمیر کے سنگ بازو! (stone-pelter) آفاق شاہؒاور اس کے مرشد غازی باباؒکے مقبروں کی زیارت کرو اپنے دل کی گہرائیوں کو جانچ لو، جھنجھوڑ دو، اپنے دل، ضمیر اپنی روح کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ تمہیں ایک صدا، ایک آواز ، ایک دھڑکن سنائی دے گی کہ انسان آزاد پیدا ہوا اور اس کو آزاد رہنے کا حق اللہ پاک نے دیا ہے، غلامی ذلت اور موت ہے بلکہ موت سے بدتر۔ اہل ایمان غلام نہیں ہو سکتے اور جو غلامی پر مطمئن ہے اس میں ایمان کا آخری درجہ جو ذرہ برابر ہوتا ہے وہ بھی نہیں کیونکہ غلامی اور گناہ و بدی کی نفرت دل میں ہوناایمان کا آخری درجہ ہے۔ جب ایمان ہی نہیں تو پھر زندگی کا کیا مطلب؟ ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے پھول کی حقیقت خوشبو، آگ کی حقیقت گرمی، برف کی حقیقت سردی۔ دین و ایمان کی بھی حقیقت ہے، حیاء اور غیرت ایمان سے ہے، سادگی ایمان سے ہے، راستے سے پتھر یا رکاوٹ ہٹانا ایمان کی آخری حقیقت ہے۔ اگر ہم بھارتی فوج کی موجودگی سے پریشان نہیں، اگرہم ان کے ساتھ دل سے ہنس کر بات کرتے ہیں اگر ہم اپنے ارادہ اور اختیار کے ساتھ ان سے مطمئن ہیں تو ہمارے دل میں ایمان کا آخری درجہ بھی موجود نہیں۔ جنہوں نے ہماری ایک نسل کو ختم کیا ہماری ماؤں، بہنوں کی عزت و عصمت تارتار کی، ہمارے گھروں باغوں ہمارے مال کو تباہ کیا، جو ہماری جان، مال اور عزت کے ساتھ کھیل رہے ہیں، ان ساتھ رہنے میں جو کراہت، بے چینی اور پریشانی محسوس نہیں کر رہا اس میں ایمان کا آخری درجہ بھی موجود نہیں۔ غداروںکے ساتھ زندہ رہنا ہی غداری ہے۔‘‘ (ماخوذ از ’’آئینہ‘‘)
اے اہل کشمیر!
چھوڑیے جھوٹے مودی کے جھوٹے منشور کو۔ تھوک دیجئے اس پر۔اور اس منشور کو اپنائیے جو آپ کے ایک سچے بھائی نے آپ کو دیا ہے اور آپ کو اس کی طرف اس دردمندانہ آواز میں دعوت دے کر اپنی جان اسی پر ثابت قدم رہتے ہوئے رب کی راہ میں وار دی ہے۔آپ کی عزت اسی میں ہے، اسی کی طرف آئیے اور اسی پر ڈٹ جائیے۔ہمیں یقین ہے ان شاء اللہ کہ اس جنگ میں مودی نہیں، افضل گورو اور کشمیر کے لاکھوں شہداء ہی جیتیں گے۔
٭…٭…٭
دوخبریں
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 471)
پہلی خبر تو دل شاد کرنے والی ہے اور دوسری دلچسپ…
آپ نے پڑھ یا سن لیا ہوگا کہ ’’القدس‘‘ میں دو فلسطینی فدائیوں نے کیا کارنامہ سر انجام دیا…؟
یہ دونوں فدائی حماس کے سربراہ خالد مشعل حفظہ اللہ کے قریبی عزیز اور آپس میں چچا زاد بھائی تھے۔ دونوں ایک ہی کمپنی میں ملازم تھے۔ انہوں نے مقبوضہ القدس کے ہائی سکیورٹی علاقے میں اپنی نوعیت کا وہ منفرد ’’فدائی حملہ‘‘ کردیا ہے جس کے بعد اب یہودیوں کے لیے رات کو سونا مشکل ہوچکا ہے۔ اس فدائی حملے میں نہ بارود استعمال ہوا اور نہ گولی چلی لیکن پانچ یہودی مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ مارے جانے والے یہودی بھی عام افراد نہیں تھے بلکہ امریکہ اور برطانیہ سے امپورٹ شدہ’’رِبّی‘‘ (یہود کے مذہبی پیشوا) تھے اور اب یہودی سرگرداں ہیں کہ اس حملے کا توڑ کیسے تلاش کیا جائے۔
سلام اے حماس!
آج کی دنیا میں آپ جیسا شاید کوئی نہیں۔
یہ دونوں مجاہد ایک چھری اور ایک چھوٹی کلہاڑی سے لیس ہوکر اس یہودی معبد میں گھسے اور بڑی سرعت سے وہاں موجود لوگوںکو کاٹنا شروع کردیا۔ جس کی گردن زد میں آگئی وہ تو جہنم رسید ہوا اور جو گردن بچانے میں کامیاب رہا خوف اور دہشت کا ایک نشان جسم پر لے کر جئے گا جو اسے ’’آل جمل‘‘ کے ان دو فدائین کی یاد دلاتا رہے گا اور جو یہودی اس حملے سے بچ گئے انہیں اب ہر طرف موت ہی موت نظر آتی ہے۔
’’حماس‘‘ نے انہیں دنیا کی ہر چیز سے توڈرا رکھا ہے۔ یاد کیجئے! نوے کی دہائی میں اسرائیل میں فدائی حملے شروع ہوئے، بارود بھری گاڑیاں پھٹیں، پھر اس طریقے کا توڑ کرلیاگیا اور قوم کو یقین دلایا گیا کہ اب ایسا کچھ نہ ہوگا۔ تب بارودی جیکٹوں سے لیس نوجوان ہر طرف سے یہودیوں پر ٹوٹ پڑے۔ اس کا حل ایک بڑی دیوارتعمیر کر کے کیا گیا کہ اس پار سے اب کوئی شخص جامہ تلاشی دئیے بغیر اس جانب نہ آسکے۔ پھر میزائیل آنا شروع ہوگئے تو آئرن ڈوم نظام بنایا گیا۔اس سفید ہاتھی کو بنانے اور پالنے پر اربوں ڈالر ہر سال خرچ ہوجاتے ہیں لیکن اطمینان تو ہوا کہ حماسی میزائیلوں کا راستہ روک لیا گیا ہے۔ لیکن حماس تو حماس ہیں۔ اسرائیلی یہودی بڑے فخر سے ایک چھوٹی ’’اوزی‘‘ مشین گن ساتھ رکھا کرتے تھے یا کم از کم بیلٹ سے بندھا ایک ریوالور تو ہر یہودی کے ساتھ لازمی ہوا کرتا تھا۔
صہیونیوں کو سکول کالج اور سرکاری اداروں میں باقاعدہ تربیت دے کر یہ اسلحہ دیا جاتا تھا تاکہ وہ اپنے دفاع کے لیے اسے ساتھ رکھیں۔ حماس کے مجاہد نہتے آتے، دیوار پار کرتے، تسلی سے جامہ تلاشی دیتے اور مزدوری کرنے کے لیے القدس میں داخل ہوجاتے۔ جونہی کوئی اکیلا یہودی نظر آتا اس پر حملہ آور ہوکر گن یا ریوالور چھین لیتے اور حسب توفیق حسب موقعہ جتنے یہودی میسر آسکتے پھڑکا ڈالتے۔ یوںدفاع کے لیے رکھا جانے والا اسلحہ یہودیوں کے لیے موت کی نئی علامت بن گیا۔ اب اس کا سوائے اس کے کیا حل کیاجاتا کہ یہودیوں نے یہ اسلحہ پاس رکھنا چھوڑ دیا اور فاتحانہ انداز میں مسکراکر حماس کو چیلنج کیا کہ اب کچھ کرکے دکھائو…
حماس بھی کہاں ہار ماننے والے تھے، انہوں نے یہودیوں پر گاڑیاں دوڑادیں…
آپ کو علم ہوگا کہ یہودی دنیا کی سب سے بخیل قوم ہیں۔ مال ودولت کی بہتات کے باوجود گاڑیاں کم استعمال کرتے ہیں، پیدل بہت چلتے ہیں۔ القدس ویسے بھی تنگ علاقہ ہے اس لیے سڑکوں پر پیدل چلنا ان کی ایک گونہ مجبوری بھی ہے اور دشمن کی مجبوری پر نظر رکھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا ایک مجاہد کی اہم ذمہ داری ہے۔ حماس نے اپنی اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا اور پیدل چلتے یہودیوں کو گاڑیوں سے کچلنا شروع کردیا۔جہاں دوچار صہیونی پیدل چلتے نظر آئے زن سے گاڑی آتی اور قیمہ بنا کر گزر جاتی۔
اب کیا کیا جائے…؟
حل یہ نکالا گیا کہ اسرائیل کے اندر عربوں پر پابندی لگادی جائے کہ وہ گاڑی نہیں چلا سکتے۔ ابھی اس مسئلے پر بحث جاری ہی تھی کہ یہ بالکل نیا طریقۂ جہاد متعارف کرا دیا گیا۔
سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم
’’انہوں نے ہمیں بکریوں کی طرح ذبح کردیا۔ وہ بہت بے رحم تھے۔‘‘
خوف سے تھر تھر کانپتا ایک یہودی جس کے کندھے سے خون فوارے کی طرح بہہ رہا تھا جس انداز میں یہ بات میڈیا کو بتا رہا تھا میرا تو دیکھ کر بہت ایمان بڑھا اور غزہ والوں کا کیسا ایمان بڑھا کہ پورا شہر جشن منانے سڑکوں پر نکل آیا۔ سچ ہے…
ویشف صدور قوم مؤمنین (التوبہ)
کفار کی ایسی ذلت اور بربادی سے اہل ایمان کے قلوب کو ٹھنڈک پہنچتی ہے اور دل کو والہانہ خوشی ملے تو اس کا اظہار بھی ضرور ہوتا ہے۔ مصر کا ’’السیسی‘‘ اور فلسطین کا’’ محمود عباس‘‘ بھی اگر کہیں مؤمنین کی صف میں ہوتے تو ضرور خوش ہوتے مگر وہ دونوں تو اسرائیلیوں سے زیادہ غمگین ہیں۔ یہی وہ صہیونی ہیں جو کچھ دنوں پہلے غزہ پر ہونے والی بمباری کا تماشہ دیکھنے یوں جاتے تھے جیسے کوئی رنگین میلہ دیکھا جاتا ہے۔ آج اپنا خون دیکھ کر بکریاں بن رہے ہیں، اس وقت غزہ والے روتے تھے، آج جب ان کے دشمن رو رہے ہیں تو وہ خوشی کیوں نہ منائیں…
’’حماس‘‘ نے ہر دستیاب ذریعہ استعمال کرکے یہودیوں کو ہمہ وقتی خوف میں قید کردیا ہے، اب انہیں ہر گاڑی، ہر چھری اور ہر چلتا پھرتا عرب اپنی موت نظر آتا ہے۔ وہ آزاد ہوکر بھی محصور اور قید ہیں جبکہ حماس قید اور محصوری میں بھی آزاد، جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں اور جب چاہتے ہیں معافی دے دیتے ہیں۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اس حملے کے بعد پھر اسی نام کی گونج اٹھی جسے اللہ تعالیٰ نے یہود کے لیے دنیا میں ایک عذاب الیم بنادیا ہے۔ بحث کے ہنگام ایک رکن پارلیمان نے کہا:
’’ان مسائل کا اصل حل یہ ہے کہ یا تو ہمارے پاس بھی ایک ’’محمد الضیف‘‘ ہو یا حماس کے پاس بھی نہ رہنے دیا جائے۔‘‘
گویا ان کے خیال میں مسئلے کی جڑ ’’محمد الضیف‘‘ ہے اور حل بھی۔ لیکن ’’محمد الضیف‘‘ جیسے لوگ تو ہمیشہ مسلمانوں کے پاس ہی رہتے ہیں، یہود جیسی مغضوب اور لعنتی اقوام کی قسمت میں کہاں…
یہ لوگ ایمان کی کھیتیوں میں اُگتے ہیں، اسلام کے باغات میں نشوونما پاتے ہیں۔ شوقِ جہادو شہادت ان کی تربیت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر یقین وتوکل ان کا اسلحہ ہوا کرتا ہے۔
واہ ’’محمد الضیف‘‘ واہ… آپ کو کتنا سلام پیش کروں۔ آپ کے دشمن آپ کو سلام کرنے اور آپ کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ آج کے زمانے میں اسلام کی عزت کا بلند ترین نشان ہیں۔
٭…٭…٭
دوسری اور دلچسپ خبر ہندوستان سے ہے۔
آپ کو علم ہوگا کہ ہندو جن خدائوں کے آگے ماتھا ٹیکتے ہیں ان میں ایک اہم اور صاحب مرتبہ بھگوان ’’بندر‘‘ بھی ہے۔ جس کا نام ’’ھنومان‘‘ ہے۔ اس ھنومان کی نسبت سے اب ہر بندر ان کے ہاں معزز ہے۔ ہندو بندروں کی تعظیم کرتے ہیں۔ انہیں کھلاتے پلاتے ہیں اور ہر طرح کی کاروائیوں کی مکمل اجازت دیتے ہیں۔
بندر شرارتی اور ذہین جانور ہے۔ انہیں اپنے پروٹوکول کے اسباب کا علم ہے، اس لیے وہ اپنی اس حیثیت کا خوب ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہندوئوں کو اچھی طرح ستاتے ہیں۔ سنا ہے کہ یہ بندر کھانے پینے کی چیزوں میں اپنا حصہ وصول کرنے کے علاوہ عینکوں کے سخت دشمن ہیں اور جس کی ناک پر عینک دیکھیں اُچک لے جاتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہوا کہ گزشتہ دنوں ہندوستان کے ’’راشٹرپتی‘‘ یعنی صدر مملکت پرناب مکھرجی نے ایک مندر کا افتتاح کرنا تھا، جس علاقے میں یہ مندر قائم ہوا ہے وہ بندروں کا خاص مسکن اور ان کی چیرہ دستیوں کا خاص میدان ہے۔ اوپر سے مستزاد یہ کہ مکھرجی کو چشمہ بھی لگا ہوا ہے۔ صدر صاحب کو جانا بھی ضرور تھا اور یہ خطرہ بھی تھا کہ اگر بھگوان ان پر حملہ آور ہوگئے تو کیا بنے گا؟ صدر کی عینک گئی تو سمجھئے کہ ہندوستان کی ناک گئی اور ممکنہ حملہ آور بھی چونکہ بھگوان ہیں تو انہیں بھی روکا نہ جاسکے گا ورنہ ہندو دھرم کی ناک کٹ جائے گی۔ سو ہندو سیانے مل بیٹھے اور اس مشکل کا حل یہ ڈھونڈا کہ صدر صاحب کے سکیورٹی سکواڈ میں ’’لنگور‘‘ شامل کردئیے جائیں۔ بندر لنگور سے ڈرتے ہیں، اس لیے قریب نہ آئیں گے، یوں ہندوستان کی ناک بھی بچ جائے گی اور ہندو دھرم کی بھی۔ اس طرح صدر صاحب بحفاظت مندر کا دورہ کرکے واپس آگئے۔
ہندوستانی میڈیا میں خبر اتنی آئی ہے لیکن اصل کہانی وہ گول کر گئے۔ اندر کی خبر یہ ہے کہ پرناب مکھرجی جب اس مندر میں پہنچے تو سکیورٹی والے سارے لنگور اکٹھے فرار ہوگئے۔ انتظامیہ کے ہاتھ پائوں پھول گئے کہ اب کوئی متبادل انتظام بھی نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے بات گول کردی اور ڈرتے ڈرتے مکھرجی کو دورہ کردایا۔ مگر یہ کیا…
بندر دور کھڑے تماشہ دیکھتے رہے، کوئی بھی قریب نہ پھٹکا۔ صدر صاحب دورہ کرکے آگئے اور لنگوروں نے بھی واپس آکر سکواڈ جوائن کرلیا۔ شام کو ان کے انسٹرکٹرنے انہیں بلایا سخت سست کہا اور پھر اجتماعی فرار کی وجہ پوچھی۔
لنگوروں کا کمانڈر بولا:سر! ہمیں یقین تھا کہ بندر صدر صاحب پر حملہ نہیں کرینگے، اس لیے ہم جنگل میں پکنک منانے چلے گئے۔
تمہیں کیسے یقین تھا کہ حملہ نہیں ہوسکتا…؟
سر! سارے بندر یہ سمجھ رہے تھے کہ آپ نے انہیں دھوکہ دینے کے لیے ایک لنگور کو ہی شیروانی اور عینک پہناکر آگے کر رکھا ہے، صدر کوئی اور ہے، یقین نہ آئے تو آپ بھی غور سے ایک بار راشٹرپتی جی کا فوٹو دیکھ لیجئے …
سو اے محترم قارئین!
اگر آپ کو بھی اس اندر کی خبر پر یقین نہ آرہا ہو تو پرناب مکھرجی کا فوٹو غور سے دیکھ لیجئے۔
٭…٭…٭
بل احیاء
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 470)
کتنے عجیب لوگ ہیں ٗ جیتے ہیں تو بڑی شان سے ٗ عزت و عظمت والے میدانوں میں ٗ سربلندی والے راستے پر ٗ سرفروشی کے طریقے پر ٗ دشمن کی آنکھ میں کانٹا بن کر ٗ اسلام کی عظمت کا نشان بن کر مشکلات پر ہنستے ہیں اور مصائب پر مسکراتے ہیں ٗ دیوانوں کی طرح دربدر ٗ مقصد کے حصول کی سعی میں سربسر۔ اور مرتے ہیں تو اپنی مرضی کی موت منتخب کرکے ٗ کوئی اکیلا سینکڑوں ٗ ہزاروں دشمنوں کے بیچ گھس جاتا ہے اور جب تک توفیق ملے خوب دل بھر کے شکار کرکے جان جان آفرین کے سپرد کردیتا ہے اور کوئی خود اپنے جسم سے بم باندھ کر بٹن دبانے کی آخری رسم بھی خود ادا کرکے اس کے دربار تک رسائی حاصل کرتا ہے جس نے اس کی میزبانی کیلئے مالاعین رأت والی جنت سجا رکھی ہے ٗ اور آج کل تو جدید دور ہے ٗ فیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے ان میں سے کئی ایک تو اب اپنی شادی کی بارات سجی سجائی گاڑیوں اور جہازوں میں بھی لے کر جاتے ہیں۔ بہرحال مرضی کے مالک ہیں خالق کائنات کے دست قدرت کے آلہ کار ہیں ٗ اس لئے جو طریقہ چاہے منتخب کریں ۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جدا تو ہو جاتے ہیں لیکن پابندی لگوا جاتے ہیں کہ مردہ مت کہو اور صرف کہنا ہی کیا سوچنے پر بھی پابندی ہے ۔ اللہ اکبر بل احیاء بلکہ وہ زندہ ہیں کا اعزاز انہی کو تو ملا اور کس کی پرواز اس مقام پر جاسکی؟
مخبر صادق ٗ محسن اعظم ا نے خبردی ہے کہ جب اللہ کے دربار میں ان کی حاضری ہوئی حوروں کے حسن و جمال کے نظارے بھی دیکھ چکے ٗ ان کے قرب ووصل کی لذت سے لطف اندوز بھی ہوچکے ٗ جنت کے باغات اور نہریں بھی دیکھ آئے ٗ خوبصورت ٗ عالیشان بلند و بالا محلات کی سیر بھی کر آئے ٗ اور سب سے بڑھ کر محبوب حقیقی جس کی راہ میں اپنی متاع عزیز لٹا آئے کی زیارت سے بھی مشرف ہوچکے ٗ اب پوچھا جاتا ہے کہ عزیز بندو! یہ سب کچھ پالینے کے بعد بھی تمہارے دل میں کوئی تمنا باقی ہے تو بتائو تاکہ کریم میزبان اس کا بندوبست کرے۔ عرض کرتے ہیں ٗ مولیٰ کریم! آپ کی بے پایاں رحمتیں اور بے حساب نعمتیں مل گئیں بس خواہش جو دل میں اب بھی مچلتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں لوٹا دیئے جائیں تاکہ آپ کی خاطر جان دیتے وقت جو لذت میسر ہوئی تھی باردگر اس سے لطف اندوز ہوسکیں اور اپنے بھائیوں کو بھی اس لذت اور جنت کی نعمتوں کی خبر پہنچا سکیں تاکہ وہ بھی ان کے حصول کی کوشش میں اور اضافہ کریں اور اس راہ سے کبھی نہ ہٹیں جو ان سعادتوں اور فضیلتوں تک پہنچانے والی ہے۔
اللہ رب العزت نے فرمایا میرے اکرام والے بندو! یہ فیصلہ تو روزازل سے ہوچکا کہ دنیا سے کوچ کر آنے کے بعد کوئی اس میں واپس نہ جاسکے گا لیکن تمہارے اعزاز و اکرام کی خاطر میں تمہاری خواہش اس طرح پوری کردیتا ہوں کہ تمہاری جانب سے خود ترجمان بن کر تمہارا پیغام پچھلوں تک پہنچا دیتا ہوں۔ سورۃ بقرہ اور آل عمران میں شہداء کا یہ تفصیلی پیغام اللہ رب العزت نے قیامت تک کیلئے محفوظ کردیا اور صبح قیامت تک یہ سارے لوگوں تک پہنچتا رہے گا ٗ بل احیاء وہ زندہ ہیں کا مطلب صرف یہ نہیں کہ وہ اللہ رب العزت کی مہمانی میں زندہ ہیں اور اس کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ اس دنیا میں بھی وہ اپنے پیغام کی صورت میں زندہ ہیں جو قیامت تک ان کے جانشینوں کو میدان میں لاتا رہے گا ٗ انہیں قتال ٗ شہادت ٗ جنت اور رضائے الٰہی کی ترغیب و تحریض دے کر ان میدانوں کو آباد رکھے گا جہاں ان لوگوں نے اپنی جانیں لٹائیں۔ ایک شہید دنیا سے جائے گا اس کے بدلے میں کئی آجائیں گے جو اس کا علم تھام لیں گے۔
کیا عجب کے جب ان لاڈلے بندوں نے یہ فرمائش کی ہو اس وقت یہ فیصلہ کرلیا گیا ہو کہ دنیا میں ایسے حالات اور ایسے لوگ پیدا کئے جاتے رہیں گے جو ان کا پیغام ان کے ترجمان بن کر اپنوں تک پہنچاتے رہیں گے اور ان عاشقوں کی تعداد بڑھاتے رہیں گے۔
بدر اور احد کے شہداء کا پیغام آل عمران اور بقرہ کے ذریعے اللہ نے خود بندوں تک پہنچایا ٗ اللہ کے نبی ا نے سینکڑوں ٗ ہزاروں احادیث ارشاد فرمائیں جن میں ان کے پیغام کی ترجمانی ہے ٗ اور پھر ہر دور میں اللہ نے ایسے بندے پیدا فرمائے جنہوں نے اپنے عمل ٗ اپنی زبان اور اپنے قلم کے ذریعے ان شہداء کے مبارک و مقدس پیغام کو زندہ رکھا ٗ یہ شہداء کی حیات ہے ٗ دیکھئے ٗ بل احیاء وہ زندہ ہیں قرآن کریم کی آیتوں میں ٗ بل احیاء وہ زندہ ہیں بخاری ٗ مسلم ٗ ترمذی ٗ نسائی اور دیگر کتب حدیث کے کتاب الجہاد اور فضائل الشہداء کے انگنت ابواب اور احادیث میں ٗ بل احیاء وہ زندہ ہیں عبداللہ بن مبارک کی دعوت جہاد کی شکل میں ٗ بل احیاء وہ زندہ ہیں ابو قدامہ اور ابن النحاس کے خطبوں میں، وہ زندہ ہیں عبداللہ عزام اور مجدد جہاد مولانا محمد مسعود ازہر کے پراثر خطبات اور دلگداز تحریروں کی شکل میں ٗ ان کا مشن زندہ ہے وہ زندہ ہیں ٗ ان کے میدان آباد ہیں وہ زندہ ہیں ٗ قافلے نکل رہے ہیں وہ زندہ ہیں۔ کشمیر ٗ عراق ٗ فلسطین ٗ چیچنیا ٗ افغانستان اور جہاد کے ہر میدان و معرکے میں شہید ہونے والوں کے حالات دیکھئے ٗ سنیئے اور پڑھئے آپ خود کہیں گے کہ بدر و احد کے شہداء ابھی زندہ ہیں ٗ بل احیاء وہ زندہ ہیں ٗ بل احیاء وہ زندہ ہیں ٗ بل احیاء وہ زندہ ہیں۔
شہید ِاسلام بھائی افضل گورو شہیدؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب ’’آئینہ‘‘ میں بڑی خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے کہ شہداء کی زندگی کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے چلے جانے کے بعد ان کا کام جاری رہتا ہے بلکہ تیزی پکڑتا ہے اور یہ اَلفاظ لکھنے کے بعد وہ خود اس کی عملی مثال بن گئے۔
ان شہدائِ کرام، حقیقی زندہ لوگوں کے تذکرے میں یہ خاصیت ہے کہ اس سے دل زندہ ہوتے ہیں،عزائم اُبھرتے ہیں،جذبات کو جِلا ملتی ہے،دلوں میں شوق شہادت کے ولوے پیدا ہوتے ہیں اور ایمان و عزیمت کی شمعیں روشن ہوتی ہیں۔’’القلم‘‘ کے صفحات پر پہلے یہ سلسلہ ’’تذکرہ شہدائ‘‘ کے نام سے عرصہ دراز تک جاری رہا۔اب ایک بار پھر نئے عنوان’’ بل احیائ‘‘ کے ساتھ اس کا اِحیاء کیا جا رہا ہے۔ان شاء اللہ شہدائِ کرام کے حالات مستقل شائع ہوا کریں گے۔آپ بھی اس حسین سلسلے اور عظیم دعوت کا حصہ بنیں۔اپنے گھر یا گردوپیش کے جس شہید کے ساتھ آپ کا وقت گزرا ہو اس کے حالات لکھ بھیجیں۔کوشش کریں کہ وہ واقعات تحریر کریں کہ جو سبق آموز ہوں اور جذبہ جہاد اُبھارنے کا ذریعہ بنیں۔یہ شہدائِ کرام کے ساتھ آپ کی محبت کا عملی اِظہار ہو گا اور یاد رکھیے! یہ محبت بہت کام آنے والی ہے۔
٭…٭…٭
روشنی کے جزیرے
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 469)
اﷲ رب العزت نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے اور عبادت کا منہج بھی اسے خود تعلیم فرمادیا ہے اور پھر چونکہ انسان فطرۃً سست اور سہولت پسند واقع ہوا ہے اس لئے اسے عبادت پر ابھارنے اور مقصد حیات پورا کرنے کی دعوت دینے کے لئے ترغیب وترہیب کے طریقے بروئے کار لائے ہیں۔ اسے جگہ جگہ بتایا گیا ہے کہ عبادت کرنے کی صورت میں اسے اپنے خالق ومالک کی رضا نصیب ہوگی جس کی علامت کے طور پر اسے دنیا میں سکون اور آخرت میں نعمتوں اور آسائشوں سے بھری جنت ملے گی۔ ختم نہ ہونے والی زندگی کا دائمی عیش وآرام ملے گا اور من چاہی زندگی ملے گی، جبکہ کوتاہی کرنے پر خالق ومالک کی ناراضگی مقدر بنے گی جس کی علامت دنیا میں بے سکونی وپریشانی، آخرت میں جہنم، اس کے ہولناک عذاب، قیامت کے دن کی شدت، حشر کی ندامت مقرر کیے گئے ہیں۔ لیکن انسان یہ سب باتیں پڑھنے، جاننے اور سمجھنے کے باوجود اس سستی اور کوتاہی سے مکمل نجات نہیں پا سکتا، جب تک اسے ایسا ماحول میسر نہ آجائے جس میں رنگ کر وہ اﷲ رب العزت کا مکمل فرمانبردار تابعدار بندہ بن جائے۔ اسی طرح وہ اس غفلت سے اس وقت تک مکمل نجات نہیں پا سکتا تاوقتیکہ اپنے نفس پر جبر کرے، اس کے ساتھ سختی کا معاملہ کرے اور شدت کے ساتھ اسے غفلت سے عبادت کی طرف پھیرے۔ یوں تو صرف رب کا فرمان غفلت کے پردے چاک کرنے کے لئے کافی ہونا چاہئے لیکن عادت اسی طرح چلی آرہی ہے کہ جب تک صالح ماحول اور جبر نہ پائے جائیں، انسان عبادت کا عادی نہیں ہوتا کیونکہ ایک دوسری قوت ساتھ ہی کارفرما ہے جس کا مقصد وحید ہی انسان کو اس کے رب سے کاٹ کر نفس کی قید میں دینا اور اس کی دنیا وآخرت برباد کرتا ہے اور وہ قوت ہے انسان کے ازلی دشمن شیطان کی قوت۔ یہ صالح ماحول اور جبراً خود کو عبادت کا عادی بنانے کی محنت ہی ہے جو نفس کو شیطانی قوت کے اثرات سے آزاد کراتی ہے اور اسے مہذب اور مطیع بناتی ہے اور نفس کے اس طرح رام ہوجانے کے بعد ہی انسان اﷲ رب العزت کا صحیح عبادت گزار بندہ بن کر اپنا مقصد حیات پورا کرسکتا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ رب العزت کے آخری نبی ہیں۔ آپ پر نبوت کا دروازہ بند کردیا گیا اور آپ کے دین کو ہی قیامت تک کے لئے ذریعۂ نجات اور معیار ہدایت مقرر کردیا گیا۔ اس دین کا پیغام عالم بھر میں پہنچانے کے لئے آپ کو جو جماعت عطا کی گئی ان کی تربیت وتہذیب کے لئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ۴ نکاتی پروگرام عطا کیا گیا۔ (۱)تلاوت (۲)تعلیم کتاب (۳)تعلیم حکمۃ (۴) تزکیہ۔ کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس جماعت کو کتاب اﷲ کے الفاظ یاد کرائیں۔ انہیں کتاب اﷲ کے معانی اور احکام کی تعلیم دیں، انہیں حکمت سکھائیں جس سے انہیں دنیا پر چھا جانے اور پھر اس کا نظام چلانے کا سلیقہ ملے اور چوتھا کام یہ کہ ان کا تزکیہ فرمائیں۔ یعنی ان کے نفوس میں جو برائیاں یا کوتاہیاں ہیں ان کا علاج فرمائیں۔ اب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نیابت میں جو شخص بھی امت کے اجتماعی امور کا امین ہوگا اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی جماعت اور اس ماحول میں جس پر اس کا اختیار چلتا ہے ان چاروں امور کا اہتمام کرے اور امت مسلمہ کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے ان امور کا التزام کیا اور ان کے زیر سایہ ایک صالح جماعت دین کے غلبے کی محنت میں مصروف رہی۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے تزکیہ کی یہ دولت لمحوں میں حاصل ہوجاتی تھی کیونکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس منور کی تاثیر بہت قوی تھی اور حضرات صحابہ کرام کے قلوب بھی گویا تیار شدہ زمین تھے البتہ جوں جوں زمانہ خیر القرون سے دور ہوتا گیا اسی قدر یہ کام محنت طلب اور مشکل ہوتا گیا، اﷲ رب العزت نے ہر دور میں جن حضرات کو اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی نیابت کی یہ ذمہ داری عطاء فرمائی انہیں اس کا وہ مناسب طریقہ بھی الہام فرمایا جس سے یہ مقصد حاصل ہوسکے اس لئے ہر دور میں تزکیہ کے نصاب اور طریق میں تنوع رہا ہے۔
یوں تو دین کے ہر کام اور عبادت کی ہر نوع کی بجا آوری کے لئے تزکیہ نفس ضروری ہے لیکن دین کے اہم ترین، مشکل ترین اور حساس ترین عمل ’’جہاد‘‘ کی ادائیگی کے لئے تو اس کی ضرورت واہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ جہاد انتہائی مشکل عمل ہے اس میں نکلنے پر وہی نفس آمادہ ہوسکتا ہے جس کا دنیا کی ہر نوع کی محبت سے تزکیہ کرلیا گیا ہو۔ ’’جہاد‘‘ حساس ترین عمل ہے اس میں نیت یاعمل کی تھوڑی سی کوتاہی عظیم ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے اس میں ثابت قدم وہی نفس رہ سکتا ہے جس کا غفلت اور ریاء سے تزکیہ کرلیا گیا ہو۔ ’’جہاد‘‘ سے عالم کا نظام مجاہد کے قبضے میں آتا ہے اس نظام کو بہتر انداز میں وہی نفوس چلا سکتے ہیں جن کا ظلم، نافرمانی، تکبرّ سے تزکیہ ہوچکا ہو اور سب سے بڑھ کر جہاد میں جان، مال کی قربانی ہے اسے وہی نفس ادا کرسکے گا جس کا غیراﷲ کی محبت سے تزکیہ ہوچکا ہو اور اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق اس میں پیدا ہوچکا ہو۔ اس طرح تزکیہ کی ضرورت میدان جہاد میں دیگر عبادات کی بہ نسبت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ خصوصاً دورِ حاضر میں جبکہ ہر طرف نفس اور نفسانیت کا زور ہے۔
دورِ حاضر میں اﷲ رب العزت نے احیاء جہاد کے عالمی کام کے لئے جن شخصیات کو منتخب فرمایا ہے ان میں ایک نمایاں ترین شخصیت امیر المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر صاحب حفظہ اﷲ تعالیٰ کی ہے۔ امیر المجاہدین کو اﷲ رب العزت نے جہاں کتاب وسنت کے صحیح علم سے نوازا ہے وہیں تزکیہ نفس کی ذمہ داری سنبھالنے کی بھی بھرپور صلاحیت عطا فرمائی ہے اور آپ نے اپنی جماعت میں روز اول سے ہی ان چاروں امور کا التزام فرمایا ہے جو نیابت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں ایک شرعی امیر پر عائد ہوتے ہیں۔ آپ نے جہاں اپنے مجاہدین کو قرآن وسنت کی تعلیم دینے کے لئے مختلف انداز میں محنت کی اسی طرح ان کے لئے تزکیہ نفس کا بھی بھرپور اہتمام فرمایا اور اس مقصد کے لئے ’’دورۂ تربیہ‘‘ کے نام سے ایک بہترین نصاب مرتب فرمایا۔ جماعت کے ہر مجاہد کے لئے کم از کم ایک بار اور ذمہ داروں کے لئے بار بار اس نصاب سے گزرنا لازم ہے۔ یہ نصاب غفلتوں کے پردے چاک کرکے عبادت کا ذوق وشوق پیدا کرتاہے، دنیا کی محبت سے چھٹکارہ دلا کر رب کی ملاقات کا شوق پیدا کرتا ہے، رب سے مانگنے اور اسے دینے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ ۴۰ اصلاحی اعمال پر مشتمل یہ دورہ عموماً سات دن اور رمضان میں ۱۰ دن کا ہوتا ہے جس میں اب تک ہزاروں لوگ شرکت کرچکے ہیں اور ان میں سے سینکڑوں اپنے دلوں میں ایسی شمع روشن کرکے اٹھے کہ دنیا کی زندگی کا چین وسکون چھوڑ کر پہاڑوں کوہساروں کی طرف نکل پڑے اور اپنی جانیں وار کر محبوب حقیقی کے دربار میں جا پہنچے۔ وہ چالیس اعمال جو دورۂ تربیہ کا ہرشریک روزانہ صبح سے رات تک ادا کرتا ہے درج ذیل ہیں:
(۱) نماز میں جماعت کا اہتمام
(۲) تہجد (۳) مسجد کا التزام
(۴) تلاوت
(۵) مسنون اذکار
(۶)صبح سورۂ یٰس ٓ کی تلاوت
(۷) مراقبات
(۸) فجر کی سنتوں کے بعد چالیس بار
یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ
(۹) ایک ہزار بار سبحان اللّٰہ وبحمدہ
(۱۰) اورادِ فتحیہ(۱۱) منزل (۱۲) اشراق (۱۳) لاالہ الااﷲ بار ہ سومرتبہ (۱۴) کلمہ طیبہ ایک سو بار
(۱۵) اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی ایک سو بار
(۱۹) اسم اعظم ش کا ورد پندرہ ہزار بار (۲۰) یااٰخر ایک ہزار بار (۲۱) یَاخَبیر ایک ہزار بار (۲۲)اوّابین (۲۳) جائزہ (۲۴)مذاکرہ (۲۵) تجدید ایمان تجدید توبہ اور تجدید عہد کے بیانات (۲۶) نفل روزے (۲۷) کثرت دعاء (۲۸) ورزش و چہل قدمی (۲۹) فضائل جہاد اور زاد مجاہد کی تعلیم (۳۰) محاسبہ (۳۱) زبان کی حفاظت (۳۲) دوسروں کے عیوب سے چشم پوشی (۳۳) صلوٰۃ توبہ وآہ وزاری (۳۴) تکبیر اولیٰ کا اہتمام (۳۵) قلت طعام (۳۶) نظر کی حفاظت (۳۷) طہارت کا اہتمام (۳۸) امت مسلمہ کیلئے دعائیں (۳۹) تکبر و خود نمائی سے احتراز (۴۰) رات کو سورۃ ملک کی تلاوت۔
الحمد للہ تسلسل کے ساتھ جاری اس دورہ نے اب تک ہزاروں لوگوں کی زندگیوں میں صالح انقلاب برپا کیا ہے،کتنی ہی بھٹکی ہوئی جوانیاں اور غفلت شعار بڑھاپے راہ راست پر آ گئے،کتنے ہی لوگ سعادتوں کی ان بلندیوں سے ہمکنار ہوئے جن کی طلب اور دعاء مقتدایان اُمت کا شعار رہی۔پہلے یہ دورہ صرف مرکز عثمان ؓو علیؓ بہاولپور میں منعقد ہوتا تھا۔ملک بھر سے اہل سعادت لمبا سفر طے کر کے آتے اور اپنے قلوب کو منور کرتے۔اب استفادہ مزید آسان ہو گیا اور یہ دورہ تین مقامات پر الحمد للہ جاری ہے۔
(۱) مرکز عثمانؓ و علیؓ بہاولپور
(۲) جامعۃ النور گڈاپ ٹاؤن کراچی
(۳) جامعہ مسجد سنان بن سلمہ رضی اللہ عنہ پشاور
اول الذکر مقام پر مہینے میں دو باراوردیگر دونوں مقامات پر ایک ایک بار اس کا انعقاد ہوتا ہے۔جو حضرات یہ دورہ پہلے کر چکے ہیں انہیں تو دعوت کی حاجت نہیں،وہ خود بار بار تشریف لاتے رہتے ہیں۔جن حضرات نے ابھی تک نہیں کیا انہیں پر زور دعوت ہے،دورہ کے معمولات مضمون میں آ گئے ہیں۔ان تمام اعمال کے فوائد،فضائل اور اہمیت جاننے کے لئے حضرت امیر المجاہدین حفظہ اللہ کی کتاب’’ سات دن روشنی کے جزیرے پر‘‘ کا مطالعہ کر لیں،ان شاء اللہ دل خود ان کی طرف کھنچا چلا آئے گا۔
٭…٭…٭
بدمعاشی
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 468)
ہندوستان میں نریندر مودی آیا تو ترقی کے نام پر اقتدار میں، لیکن واقفانِ حال جانتے تھے کے ترقی کا نعرہ محض ایک ڈھونگ ہے اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی ایک کوشش۔اصل میں آر ایس ایس نے اپنے پون صدی پر مشتمل عزائم اور اَیجنڈے کو تکمیل تک پہنچانے کی ٹھان لی ہے اور اس کام کے لئے انہیں مودی سے بہتر شخص دستیاب نہیں تھا۔اس لئے انہوں نے ایڈوانی اور دیگر لیڈران کو بائی پاس کر کے اسے آگے کیا۔بی جے پی میں اس فیصلے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ بھی ہوئی،جسونت سنگ جیسے لوگ پارٹی بھی چھوڑ گئے لیکن آر ایس ایس ٹھان چکی تھی کہ اب اسے یہ کام بہرحال کر گزرنا ہے۔ہندوستان کے تمام بڑے کارپوریٹ ادارے آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے مکمل قابو میں ہیں۔ان تنظیموں نے ان اداروں کی چابی بھری اور یہ تمام اپنے وسائل لے کر مودی کو الیکشن میں جتوانے کی دوڑ میں کود پڑے۔ہندوستان کی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ہوئے جن میں صرف بی جے پی کی مہم پر خرچ ہونے والی رقم کا تخمینہ 6کھرب روپے لگایا گیا ہے۔ان انتخابات کا نتیجہ آر ایس ایس کی پلاننگ کے عین مطابق نکلا اور نریندر مودی ہندوستان کے اقتدار پر قابض ہو گیا۔وہ دن اور آج کا دن،ان چند مہینوں میں ہندوستان کے حالات مسلمانوں کے لئے حد درجہ بگڑ چکے ہیں اور مزید بگاڑ کی طرف گامزن ہیں۔پہلی بار ہندوستان کے سرکاری ٹیلی ویژن دور درشن پر آر ایس ایس کے سربراہ کا خطاب براہِ راست نشر کیا گیا۔اس سے پہلے ہندوستان کی تریسٹھ سالہ تاریخ کے کسی دور میں بھی ایسا نہیں ہوا۔اس تقریر میں بھگو مت نے صاف الفاظ میں کہا کہ ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص ’’ہندو‘‘ ہے اور اسے ’’ہندی‘‘ زبان کو لازمی اپنانا چاہیے۔گویا اس نے اپنے ایجنڈے کا سرکاری طور پر اعلان کر دیا ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے ہر شخص کو ہندو مذہب اپنانا ہو گا اور ہندی زبان بولنا ہو گی جو اردو میں سنسکرت کے الفاظ شامل کر کے انتہا پسند ہندوؤں نے گھڑی ہے۔
بی جی پی کے حالیہ اقتدار نے ان ابتدائی چار ماہ میں ہی ہندو تھراکا دہشت گردانہ ایجنڈا اور اکھنڈ بھارت کا مذموم خواب جس قدر کھل کر سامنے آیا ہے ایسا ہندوستان میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔جگہ جگہ ہندو جتھوں کی طرف سے مسلمانوں پر حملے،انفرادی اور اجتماعی قتل کے واقعات ،جلاؤ گھیراؤ،مذہبی پابندیاں،مساجد پر قدغن،عبادات اور مذہبی معاملات میں دخل اندازی اور فسادات کے درجنوں بلکہ سینکڑوں واقعات اس مختصر سی مدت رپورٹ ہو چکے ہیں۔ اور اب حال ہی میں اس بدمعاشی کا تازہ ترین مظاہرہ دیوالی کے تہوار کے موقع پر بنائے جانے والے پٹاخوں میں قرآنی اوراق کے استعمال اور دہلی میں شراب کے نشے میں دھت ہندوؤں کی طرف سے مسجد جلائے جانے کے واقعات کی صورت میں رونما ہوا ہے۔ہندوستان کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ میڈیا پر آنے والے حالات حقیقت کا عشرِ عشیر بھی نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مودی کو اقتدار میں لانے والا کارپوریٹ طبقہ ہی چونکہ ہندوستانی میڈیا کا مالک ہے اور ہر ٹی وی چینل یا اخبار کسی نہ کسی بڑے کاروباری ادارے کی ملکیت ہے اس لئے وہ ان حالات کو مکمل طور پرسامنے نہیں لاتا تاکہ مودی حکومت کی یہ دہشت گردانہ اور انتہاپسندانہ پالیسیاں پردے میں رہیں اور حکومت ترقی کے نام پر چلتی رہے اور اس کی آڑ میں آر ایس ایس اپنا ایجنڈا پایۂ تکمیل کو پہنچا لے۔
دوسری طرف مودی نے اقتدار میں آتے ہی پاکستان کے حوالے سے جس دوستانہ اور مصالحانہ رویے کا منافقانہ اظہار کیا تھا اس کی حقیقت بھی سرحدوں پر اندھی جارحیت سے بالکل واضح ہو گئی ہے۔مودی نے نواز شریف صاحب کو اپنی تقریبِ حلف برداری میں کیا مدعو کر لیا حکومت سے میڈیا تک ہر طبقہ اس کی وسعت ظرفی اور نیک عزائم کے گن گانے لگا۔سب نے اس بات کو فراموش کر دیا کہ یہ شخص گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کا قاتل ہے،آر ایس ایس کا نظریاتی کچھا پوش کارکن ہے،پاکستان اور مسلمانوں کے حوالے ماضی میں شدید دہشت گردانہ اور نفرت انگیز عزائم کا اظہار کرتا رہتا ہے،اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی اس نے پاکستان کے تئیں ہمیشہ کڑا رویہ اپنائے رکھا اور مکروہ عزائم کا برملا اظہار کرتا رہا۔کشمیر کے بارے میں اس کا نظریہ ہمیشہ سے سخت ہے اور وہ اسے بات چیت کا موضوع قرار دینے والوں پر بھڑکتا رہا ہے اور ہر طرح کی بات چیت کا شدید مخالف رہا ہے۔وہ کشمیر کو ایک متنازعہ موضوع ماننے پر ہی آمادہ نہیں ہوتا۔یہ سب کچھ بھلا دیا گیا اور میاں صاحب کو ہندوستان سے دوستی اور آزادانہ تجارت کا خواب مودی کی شکل میں شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آنے لگا اور وہ دوڑے دوڑے اس کی تقریب حلف برداری میں جا پہنچے۔پاکستانی میڈیا نے ان دونوں رہنماؤں کے اس اقدام کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے اور اسے ایک نئے عہد کی شروعات قرار دے دیا۔
آج حالات یہ ہیں کہ پاکستان کی ہندوستان کے ساتھ ایک طویل سرحد ناقابل سکونت علاقہ بن چکی ہے۔لوگ ان علاقوں سے ترکِ سکونت پر مجبور ہو گئے ہیں۔دن رات فائرنگ،شیلنگ جاری ہے اور ساتھ میں ہندوستانی میڈیا بیک زبان پاکستان پر برس رہا ہے اور ان تمام حالات کے لئے اسے ہی موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔پاکستان نے ہندوستان کو خوش کرنے کے لئے ہر ناجائز اور غیرت سے عاری کام کر کے دیکھ لیا۔مجاہدین پر پابندیاں،کشمیر پر قومی پالیسی سے انحراف،پانی کے معاملے پر مجرمانہ خاموشی اور غفلت شعاری،بارڈر پر ہندوستان کی غیر قانونی تعمیرات کی کھلی اجازت،جنگ بندی کے نام پر کشمیری مجاہدین کے خلاف کارروائیوں کی کھلی اجازت،ہندوستانی کلچر اور سامانِ تجارت کی کھلی منڈی کی فراہمی،ہر معاملے میں معذرت خواہانہ روش،مذاکرات کے لئے ہر طرح کی شرائط تسلیم کرنے کی عادت، مگر ان سب کے لئے ہندوستان کی طرف سے ہمیشہ صرف ایک ہی جواب آیا’’بدمعاشی‘‘…کھلی ’’بدمعاشی‘‘
اس کے علاوہ ہم آج تک کچھ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ہم نے آج تک ہندوستان کی طرف سے لگایا جانے والا ہر الزام تسلیم کر کے اس کے کہنے پر اپنے لوگوں کے خلا ف کارروائیاں کرتے آرہے ہیں، جبکہ ہندوستان کی دہشت گرد تنظیموں آر ایس ایس،بجرنگ دل اور وی ایچ پی پر پاکستان میں کتنے دہشت گردانہ حملوں کا الزام ثابت ہو چکا ہے لیکن ہم نے آج تک کسی فورم پر ان مسائل کو اٹھانے کی کوشش نہیں کی اور اب بھی ہمارا دفتر خارجہ دن رات ہندوستان سے مذاکرات کی بھیک مانگتے نظر آ رہا ہے کہ کہیں مودی نواز شریف صاحب سے ملاقات کی حامی بھر لے اور انہیں پھر وفائے یار یا وصال محبوب نصیب ہو جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اس رویے کو ترک کیا جائے اور ہندوستان کی بدمعاشی کے جواب میں اسی طرح کا سخت رویہ اپنایا جائے۔بارڈر پر جارحیت ،پانی پر قبضہ،لائن آف کنٹرول پر ناجائز تعمیرات اور مسئلہ کشمیر پر جراتمندانہ موقف نہ صرف اختیار کیا جائے بلکہ طاقت سے نافذ کیا جائے۔ہندو کی فطرت ہے کہ وہ کمزوری کے جواب میں ہمیشہ ہٹ دھرمی اور طاقت کے سامنے ہمیشہ جھکاؤ اختیار کرتا ہے۔ہندوستان کے مسلمان بھی اپنی بقاء چاہتے ہیں تو اب واویلاکرنے اور رونے پیٹنے کی پالیسی چھوڑ کر اسلامی غیرت مندانہ رویہ اپنائیں۔مزاحمت کی قوت بروئے کار لائیں اور جہاد کے حوالے سے غیر اسلامی پالیسی ترک کریں۔مودی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس اب جس قدر کھل کر بدمعاشی پر اتر آئے ہیں اس کا جواب اسلامی غیرت کے مظاہرے سے دیا جا سکتا ہے،چیخ و پکار اور معذرت کی پالیسی ان کے ظلم و تکبر میں اضافے کا باعث تو بن سکتی ہے ان کے مکروہ عزائم کی راہ میں رکاوٹ نہیں اور تاریخ اس امر کی بہترین گواہ ہے۔
٭…٭…٭
انقلاب کی واپسی
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 467)
’’اِنقلاب‘‘ رخصت ہو گیا اور ’’جناب انقلاب‘‘ بھی یہ مضمون شائع ہونے تک بیرون ملک پدھار چکے ہوں گے۔دو ماہ ڈیڑھ ہفتے تک انقلاب کے انتظار میں سڑکوں پر گند مچانے والا جلوس ایک دو درجن کے قریب طلاقیں،تین چار درجن نئے رشتے اور کئی ناقابل بیان شرمناک داستانیں لے کر اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ایک جھوٹے، بے کردار، بے ایمان انسان کے پیچھے چل پڑنے والوں کو اس سے بہتر انجام کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے تھی۔
لوگ اب سوال اٹھا رہے ہیں۔کوئی پوچھ رہا ہے کہ کیا مِلا؟
کسی کے لب پر ہے انقلاب کہاں ہے؟
وہ قسمیں ،عہد اور دعوے کیا ہوئے؟
’’کیا مِلا‘‘ کا جواب تو دو لوگ ہی دے سکتے ہیں۔
ایک وہ جسے ’’مِلا‘‘ ہے اور دوسرا وہ جس نے ’’دیا‘‘ ہے۔
قرائن اور رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ بہت کچھ ملا ہے۔
طاہر القادری کے تمتماتے اور شہباز شریف کے تلملاتے چہرے کو دیکھ کر بھی یہی لگتا ہے۔
اوپر سے یہاں بڑے صاحب نے آرڈر جاری کر دیا ہے کہ لوگوں کو بتایا بھی نہیں جا سکتا۔بس جو ملا اور دیا ہے جانبین اس کے تذکرے سے گریز کریں۔
حکومت کے حصے میں بہت سا گند آیا جسے اُٹھانے میں کئی ماہ لگیں گے اور کافی بڑا جرمانہ آیا جو اَدا کر دیا گیا۔
جناب کے حصے میں بہت سا مال آیااور کافی بڑی مقدار میں پھٹکار۔مال ساتھ لے کر وہ کینیڈا فرار ہو رہا ہے اور پھٹکار اسی صندوق میں ڈال کر دفن کر دی ہے جس میں بچپن سے اب تک یہی خزانہ جمع ہوتا رہا ہے۔جھنگ میں جھوٹے خوابوں پر پڑنے والی پھٹکار، اتفاق فاؤنڈری مسجد میں بے ایمانی اور بے وفائی پر پڑنے والی پھٹکار،کینیڈا میں قیام کے دوران گستاخیٔ رسول(ﷺ) بل کے بارے میں دو رخی اختیار کرنے پر ملنے والی پھٹکار،جعلی قاتلانہ حملے اور عدالتی فیصلے میں استعمال کئے جانے والے الفاظ کی پھٹکار اور اب دھرنے میں جھوٹے دعوؤں ،عوامی ہمدردی کے جعلی ڈراموں اور انقلاب کے بغیر نہ اُٹھنے کے عزم توڑ کر بھاگ جانے پر اگلے کافی عرصے تک پڑنے والی پھٹکار۔ صندوق میں ان کے والد کے بیس شعری دیوان اور درجنوں صوفیانہ کتابیں بھی دفن ہیں۔اب اس صندوق کو بند کر کے اب اس پر یہ مصرعہ کندہ کرادیا ہے:
ایم ہم اندر شاطری بالائے گندھائے دگر
اور جو لوگ اتنے دن انقلاب کے انتظار میں سڑک پر بیٹھے رہے، ان کے حصے میں کیا آیا؟یہ ان میں سے کوئی ملے تو اسی سے پوچھ لیجئے گا،مجھے ان لوگوں پر بہت ترس آتا ہے، بے چارے بہت بڑے آفت اور مصیبت میں مبتلا ہیں، اس لئے میں خود ان پر تبصرہ کرنے سے گریز کررہا ہوں،ایسے شخص کے اتباع اور اسے اپنا قائدورہنما کہنے سے بڑی مصیبت اوربلامیرے خیال میں اس دنیا میں اور کوئی نہیں۔ یہ لوگ سیلاب زدگان سے زیادہ ہمدردی اور دعاء کے مستحق ہیں ۔اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور سچی توبہ نصیب فرمائے۔
دوسرا سوال کہ انقلاب کہاں ہے؟
تو جناب یہ انقلاب نہیں کہ کل جہاں دھرنا تھا اب وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔
کل جہاں ورزش ہوتی تھی اب وہاں صفائی ہو رہی ہے۔
کل تک جہاں روزانہ تقریر ہوتی تھی اب وہاں خاموشی ہے۔
کل جہاں ’’رادھائے انقلاب‘‘ عمر ریاض عباسی بیلے ڈانس کرتا تھا اب وہاں صرف کیلے کے چھلکے پڑے ہیں۔
انقلاب لانے والا شخص طاہر القادری ہو گا تو انقلاب ایسا ہی آئے گا۔ویسے طاہر القادری خود سراپا انقلاب ہے۔اس شخص کے تو خون میں ہی انقلاب شامل ہے۔ایک بار اس کے جسم سے خون نکل کر سڑک پر ٹپکا۔لوگوں نے نعرے لگائے:
قائد تیرے خون سے…انقلاب آئے گا
خون سے تو انقلاب نہ آیا البتہ خون میں انقلاب آ گیا۔لیبارٹری ٹیسٹ میں پتا چلا کہ یہ خون آدھا بکرے کا ہے اورآدھا مرغے کا۔طبیعت بھی ان کی بالکل ایسی ہی ہے،خواتین میں ہوں تو مرغے اور مردوں میں ہوں تو بکرے بن جاتے ہیں۔تفصیل واقفانِ حال جانتے ہیں، لکھی نہیں جا سکتی۔ایک اور کردار جو اس پورے ڈرامے میں انتہائی مشکوک انداز میں سامنے آیا ہے وہ ہے گورنر پنجاب کا۔موصوف کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انقلاب ڈرامے کے ماسٹر مائند ہونے کا اعزاز انہی کے چٹیل سر کو حاصل ہے۔طاہر القادری کے پرانے دوست ہیں اور ہر جگہ پر اپنا یہی کردار نبھاتے ہی نظر آتے ہیں۔
آخری سوال کہ وہ قسمیں،عہد،معاہدے اور انقلاب تک نا اُٹھنے کی بیعت کیا ہوئے؟
تو اس کا جواب ہے
ہا ہا ہا ہا ہا ہا…
جن لوگوں کو طاہر القادری کے بارے میں خیال گزرا تھا کہ اس کی قسم، عہد،بیعت اور معاہدے کا کوئی اعتبار ہو سکتا ہے اوران کی کوئی حیثیت ہے ان کے لئے ایک بار پھر
ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا…
خصوصاً حسن نثار کے لئے۔اپنے آپ کو کالم نگاری کا جینئس،سیاسی تجزیہ نگاری کا امام،زمانے کا فرعون اور مردم شناسی کا سکندر اعظم سمجھنے والے حسن نثار اور اس کے چوراہے کے لئے ایک بار پھر زور سے
ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا… ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا
اُسے طاہر القادری کے اندر ایک ایسا لیڈر نہ جانے کب سے نظر آ رہا تھا جو عوام کی امنگوں پر پورا اتر کر حکمرانوں کے محلات میں شگاف ڈال سکتا ہے۔ ہا ہا ہا ہا ہا…
ایک بات کی وضاحت کر دوں۔مجھے اتنی بے انتہا خوشی طاہر القادری کے رسوا ہونے اور حسن نثار کے خوار ہونے کی ہو رہی ہے ،ناکہ نواز شریف کے بچ جانے کی۔نواز شریف اور یہ فرعونی حکومت اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو قدرت کی پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے اور انہیں انجام تک پہنچانے کے لئے کوئی سچا لیڈر سامنے آ جائے گا۔یہ کام اگر طاہر القادری کے ہاتھوں ہو جاتا تو یہ بذات خود ایک بہت بڑا المیہ ہوتا، اس لئے دعاء تھی کہ اس کا دھرنا اسی انقلاب سے دورچار ہو جس سے ہوا ہے۔الحمد للہ قوم ایک المیے سے بچ گئی ہے، دوسرے المیے سے نجات کے لئے کوئی اور امر پردۂ غیب سے اپنے وقت پر ظاہر ہو جائے گا۔ایک صاحب نواز شریف کی حکومت بچ جانے کی دو وجوہات بیان کر رہے تھے۔
(۱) حج جمعہ کے دن ہوا ہے۔
(۲) حکومت نے اس سال حجاج کی خدمت اور راحت آسانی کے تاریخی انتظامات کئے ہیں اور پہلی بار ایسا ہوا کہ سرکاری کوٹے پر جانے والے حجاج پرائیویٹ حاجیوں سے زیادہ راحت میں ہیں اور حکومت کو دعائیں دیتے رہے ۔
پہلی وجہ تو خود انہیں بھی صحیح طرح سمجھ نہیں آئی تھی۔دوسری کے بارے میں عرض کیا کہ مشرکین مکہ بھی حجاج کی خدمت کیا کرتے تھے اور اسے ایسی نیکی سمجھتے تھے جو ان کے تمام جرائم اور کفریات کے بدلے میں ان کے لئے کافی ہو جائے گی مگر وہ ان کے کام نہ آئی۔ویسے بھی ان حجاج کرام کو پاکستان واپس آنے دیں بجلی کا پہلا بل آتے ہی سب دعائیں بھول کر بدعاؤں میں مشغول ہو جائیں گے ۔
اس لئے حکومت ان اصل چیزوں کی طرف توجہ دے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ایذاء میں ہے اور حکمرانوںکو کوس رہی ہے۔طاہر القادری کا چلے جانا ان کے لئے باعث اطمینان نہ ہو، وہ جو جرائم کرتے چلے جا رہے ہیں ان کی سزا کسی بھی شکل میں نمودار ہو سکتی ہے۔
٭…٭…٭
کون پوچھے گا؟
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 466)
پرانے زمانے میں مدارس میں ایک بنیادی قاعدہ پڑھایا جاتا تھا جس کا نام تھا ’’پکی روٹی‘‘
اس قاعدے کی ہر تقطیع ان الفاظ سے شروع ہوتی تھی:
’’ جے کوئی پُچھے تیرے کولوں، تو کیڑی تقطیع پڑھدا ‘‘( اگر کوئی تم سے پوچھے کہ تم کون سی تقطیع پڑھتے ہو)
پھر آگے اُس کا جواب سکھایا جاتا۔استاذ ہر نئی تقطیع سے پہلے شاگرد کو یہ اَلفاظ کہلواتا اور آگے پڑھاتا تھا۔ایک پہلوان جی کو بڑی عمر میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہو گیا اور مسجد میںاستاذ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
استاذ جی نے حسب معمول پہلوان کو یہ الفاظ دہرانے کا کہا:
پہلوان! جے کئی پچھے تیرے کولوں تو کیڑی تقطیع پڑھدا؟
پہلوان جی بے نیازی سے بولے:
استاذ جی! پہلوان سے پوچھے گا کون؟…کس میں جرأت ہے…
نواز شریف صاحب پوری دنیا کے دورے کرتے ہیں، ہر جگہ معیشت کی بد حالی کا رونا روتے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں، مگر بھیک مانگنے کے لئے آنے پر سستے ہوٹل میں قیام کیوں نہ کر لیا؟
ساری دنیا کے کاروباری طبقے کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں،پُرکشش پیکج اور مراعات و سہولیات دینے کا اعلان کرتے ہیں۔پاکستان نئے سرمایہ کاروں کے لئے بہترین منڈی بن سکتا ہے، اس پر گھنٹوں خود دلائل دیتے دیتے ہیں اور سمدھی صاحب سے دلواتے ہیں۔پاکستان میں سرمایہ کاری کے فوائد بتاتے ہیں لیکن اپنا سارا کاروبار پاکستان سے باہر رکھا ہے اور واپس لانے کا کوئی ارادہ بھی نہیں۔
مالدار طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے روزانہ نئی پالیسیوں اور منصوبوں کی منظوری دیتے ہیں۔ٹیکس چوروں کو لٹکانے کی باتیں کرتے ہیں لیکن خود ٹیکس نہیں دیتے۔
کیا کسی میں جرأت ہے ’’پہلوان‘‘ سے پوچھ سکے کہ کیوں؟…
پاکستان کی پارلیمنٹ ناکام ہے،بیکار ہے،مسائل کے حل سے بے بہرہ ہے،ڈلیور نہیںکر رہی ہے،یہ جمہوریت نقلی ہے،مذاق ہے،ڈھونگ ہے،الیکشن کا نظام سارا غلط ہے،عدالتیں انصاف نہیں کر رہیں،الیکشن کمیشن کرپٹ ہے، اسمبلی کا خاتمہ ضروری ہے،حکومت کا گرانا فرض ہے،اس نظام کو تبدیل کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔دھرنے سے ہو سکے،ناچ گانے سے ہو سکے،جلسوں سے ہو سکے،شہزاد رائے یا ابرار الحق سے ہو سکے یا جنید جمشید سے، نظام کا خاتمہ اور تبدیلی بہرحال ضروری ہے۔عمران خان صاحب دن رات یہی کہتے ہیں ناں؟…
پھر اسی نظام کے تحت اسی پارلیمنٹ میں ایک فرد کے داخلے اور ایک فرد کے داخلے کو روکنے کے لئے بھرپور انتخابی مہم بھی چلاتے ہیں مگر
پہلوان سے کون پوچھے؟…
’’جناب‘‘ مِنی پوپ، منی شیخل،منی لیڈر طاہر القادری غریبوں کی بات کرتے ہیں،غریبوں کے مسائل کا دن رات رونا روتے ہیں،غریبوں کے لئے انقلاب لانے کا اعلان کرتے ہیں،غرضیکہ غریبوں کے لئے کچھ کر گزرنے کو اپنا مقصدِ حیات بتاتے ہیں،غریب غریب ہر وقت ان کی زبان پر یہی جاری رہتا ہے لیکن تھوڑی دیر غریبوں کے درمیان آتے ہیں تو ناک پر ماسک چڑھا کر آتے ہیں تاکہ غربت کی بو ناک میں جانے نہ پائے۔
پہلوان سے کون پوچھے کہ غریبوں کے لئے انقلاب لانے کے لئے غریبوں کے درمیان رہنا ضروری ہوتا ہے یا کہ غریبوں سے ناک بند کرنا؟…
عبد الستار ایدھی صاحب رفاہی خدمات سرانجام دینے والوں کے پہلوان ہیں۔خدمت کے نام پر مال جمع کرتے ہیں،ادارے بناتے ہیں،چندے کرتے ہیں اور صدقات خیرات مانگتے ہیں۔پاکستان کا ہر چھوٹا بڑا ٹرسٹ اپنا سرمایہ بنکوں میں رکھتا ہے۔خصوصاً فارن کرنسی اتنی بڑی تعداد میں اپنی تحویل میں رکھنا قانوناً غلط ہے لیکن ہر کچھ عرصے بعد ان کے ادارے سے سونا اور ڈالر لوٹ لئے جاتے ہیں،کبھی دوسری بیوی کے ہاتھوں اور کبھی مبینہ ڈاکوؤں کے ہاتھوں۔پھر مذمتیں ہوتی ہیں اور افسوس کا اظہار۔ہمدردی کے کالم آتے ہیں اور بیانات۔لیکن پہلوان سے یہ کوئی کیوں نہیں پوچھتا کہ خدمت کے نام پر جمع ہونے والا سونا اور لاکھوں ڈالر بنک کی بجائے دفتر یا گھر میں کیوں ہوتے ہیں؟ان جیسے ادارے تو ٹیکسوں سے بھی مستثنیٰ ہوتے ہیں انہیں مال چھپا کر رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی؟یہ لاکھوں ڈالر باہر سے آئے تو بنکوں میں کیوں نہیں تھے؟اور اگر ادھر وصول ہوئے تو پاکستان میں ڈالر کون دیتا ہے؟ اور وہ بھی دستی؟ لیکن پہلوان سے کون پوچھے؟
پچھلی بار جب ان کی ایک بیوی اسی طرح لاکھوں ڈالر اور کئی کلو سونا لے کے بھاگ گئی تھی تب کچھ اخبارات نے یہ سوال اٹھانے کی کوشش کی مگر کسی نے نہ سنی۔اب پھر یہ واقعہ دوسرے انداز میں دہرایا گیا۔اب بھی نہ کوئی سنے گا اور نہ پوچھے گا، وہ پہلوان جو ہوئے۔
ہم پر اور ساری دنیا پر ایسے ہی پہلوانوں کی چل رہی ہے۔ادھر اِیران اور امریکہ کی دشمنی نما گہری دوستی اسی طرح کی پہلوانی کا شاہکار مظہر ہے۔دونوں جب چاہیں ایک دوسرے پر مرگ مرگ کے نعرے لگائیں اور جب چاہیں مل کر اتحادی بن کر کسی پر بمباری کریں۔پہلوانوں سے کون پوچھ سکتا ہے؟
بشار نے ہزاروں بے گناہ مسلمان بچوں کا خون بہایا،پہلوان اس پر بمباری کا سوچتے رہ گئے، کر نہ سکے۔داعش پر ایک غیر معروف فرقے کے لوگوں کے قتل عام کا بے بنیاد الزام لگا اور ایک ہفتے میں بمباری کا فیصلہ ہو گیا۔لیکن یہ پہلوان اب کسی غلط فہمی میں نہ رہیں،پوچھنے والے وجود میں آ چکے ہیں اور بڑی قوت کے ساتھ آ چکے ہیں اور اب اچھی طرح پوچھ بھی رہے ہیں۔
امید ہے عنقریب پہلوانوں کو ضد سے اور تکبر سے باز آ کر اچھے بچوں کی طرح اُستاذ کے کہنے پر تقطیع دہرانا ہی پڑے گی اور کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ:
پہلوان سے کون پوچھے گا؟
٭…٭…٭
اونٹ کا ہونٹ
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 465)
ایک اونٹ صحرا میں جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ ایک لومڑی دوڑتی جا رہی تھی۔
کسی نے پوچھا:
’’ بی لومڑی! اتنی دیر سے کیوں اونٹ کے ساتھ دوڑی چلی جا رہی ہو؟…‘‘
’’عقلمند ‘‘ لومڑی بولی:
’’اونٹ کا نچلا ہونٹ لٹکا ہوا ہے کسی بھی لمحے جدا ہو کر گرنے والا ہے۔اسے کھانے کی طلب میں مشقت اُٹھا رہی ہوں۔‘‘
سننے والے نے کہا:
’’ بی صاحبہ! پھر ہمیشہ بھوکی ہی رہو۔اس گوشت کی ساخت ایسی ہے کہ گرتا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر گرے گا نہیں اور تم خواہ مخواہ کی مشقت اُٹھاتی پھرو گی…‘‘
دنیا بھر کے حکمرانوں کو عید مبارک اور یہ تاریخی ضرب المثل بھی اُن کی نذر…
بے چاروں کو جہاد اور مجاہدین کے پیچھے دوڑتے دوڑتے اِتنا وقت ہو گیا اس امید میں کہ یہ گریں گے اور ہم انہیں ہڑپ کر جائیں گے۔مگر اللہ سب سے بڑا ہے۔اس کا کلمہ سب سے بلند ہے اور اس کلمے کے محافظ بہت سخت جان ہیں۔ہاں یہ بات ہے کہ ’’جہاد‘‘ کی ساخت اس طرح کی ہے کہ دھوکہ ضرور ہو جاتا ہے دیکھنے والوں کو کہ یہ اب ختم ہوا اور اب مٹا…تعداد کی قلت،اسباب تھوڑے ، ٹیکنالوجی میں پیچھے ،مالی اعتبار سے کمزور اور انسانی خامیوں سے لبریز اور مقابل تعداد میں برتر، اسباب میں فائق، مال سے مالا مال اور تربیت میں بھی بڑھ کر ، تو دیکھنے والوں کو ایسا لگتا ہے کہ ختم ہو جائے گا، مٹ جائے گا۔بھلا مسجدوں کے جوتوں والی جگہ کھڑے ہو کر رومال پھیلا کر چند نوٹ جمع کر لیے جائیں تو ان سے دنیا کی بڑی بڑی معیشتوں بگ فور اور بگ ایٹ جیسے معاشی مگرمچھوں کے بے انتہاء وسائل کا مقابلہ کیونکر ممکن ہے؟
دنیا کی طاقتور اور انتہائی تربیت یافتہ فوجوں سے کیلشیم اور دیگر ہر طرح کے وٹامنز کی کمی کے شکار نحیف اور کمزور نوجوان لڑا کر مجاہدین کس طرح غالب آ سکتے ہیں؟ غلبہ تو دور کی بات ہے اپنا وجود کس طرح برقرار رکھ سکتے ہیں۔یہ سب باتیں سوچ کر مجاہدین کے خاتمے کی آس لگا کر دوڑنے والے لوگ اب باقاعدہ ہانپنا شروع ہو چکے ہیں اور کچھ ہی دنوں کی بات ہے تھک ہار کر گریں گے اور مر جائیں گے۔ان شاء اللہ ۔لیکن اونٹ کا ہونٹ نہیں گرے گا۔
دنیا میں ہر سال جہاد کا ایک نیا محاذ کھل رہا ہے۔ہر چند ماہ بعد ایک نئی جہادی قوت منظر عام پر آ رہی ہے۔عورتوں اور بچوں کے شوق جہاد میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔مال خرچ کرنے والے بڑھ رہیں ہیں۔انفاق فی سبیل اللہ کا عمل ترقی پکڑ رہا ہے۔مجاہدین کی افرادی قوت بھی بڑھ رہی ہے اور مال بھی۔ترقی یافتہ ملکوں کے وہ پاسپورٹ جو ویزے کے محتاج نہیں اور ان پر کہیں بھی آیا جایا جا سکتا ہے جہاد میں شمولیت کا آسان راستہ بن گئے ہیں۔انٹرنیٹ جہاد کی دعوت میں اضافے کا موثر ذریعہ بن کر سامنے آیا ہے۔ٹی وی کا شیطان مجاہدین کی کارگزاریاں مفت میں دنیا بھر کو سنا رہا ہے۔حالانکہ یہ تمام ذرائع جہاد کو ختم کرنے ،بدنام کرنے اور نوجوانوں کو راہِ جہاد سے ہٹانے کے لئے ایجاد کئے گئے تھے۔لیکن بی لومڑی کے یہ تمام جوتے اسی کے اپنے سر پر برس رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس زمانے کے شہدائِ کرام کو جزائے خیر عطاء فرمائے اور انہیں اعلیٰ مقامات عطاء فرمائے، اُنہوں نے اپنا گرم خون پیش کر کے اُمتِ مسلمہ کا سر فخر سے بلند کر دیا اور اسلام کی حقانیت منوا دی۔
الحمد للہ ’’الرحمت‘‘ کی قربانی مہم جس میں مسلمانوں کو قربانی کے ایثار کا اہم سبق پڑھایا جاتا ہے گذشتہ تمام سالوں کا ریکارڈ توڑ گئی اور چرمِ قربانی مہم جس میں انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت ہے وہ بھی نئی بلندیوں کو پہنچی۔
اہل ایمان کا شکریہ! جنہوں نے اپنی قربانی جہاد کے ساتھ ملا کر اسے اور بھی قیمتی بنا لیا اور کفر کی تباہی ،ذلت اور بربادی میں اپنا موثر حصہ شامل کیا۔سب کو دل کی گہرائیوں سے عید مبارک۔
ہمارے حکمران بے چارے ہر سال نئی قانون سازی کرتے ہیں کہ قربانی کی کھالیں مجاہدین کے ہاتھ نہ لگیں لیکن ہر سال اَعداد و شمار دوسری کہانی سنا دیتے ہیں۔ہدایت کی دعا کے ساتھ انہیں بھی عید مبارک۔
کاش یہ حقیقت کو سمجھ لیں اور اونٹ کا ہونٹ گرنے کے انتظار میں فضول بھاگ دوڑ ترک کر دیں ۔
یہ ہونٹ نہیں گرے گا۔
٭…٭…٭
پیغامِ ’’رحمت‘‘
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 464)
مرحبا! قربانیوں کا موسم آن پہنچا، اﷲ کے بندے اﷲ کے حکم پر ابوالانبیاء خلیل اﷲ ابراہیم علیہ السلام کی سنت زندہ کریں گے اور جانوروں کا خون بہا کر رب کو راضی کریں گے۔ انہیں اس جانور کے ایک ایک بال پر نیکی ملے گی۔ اس کے خون کے ہر قطرے پر نیکی ملے گی۔ اگر کچھ دن اسے باندھا ہوگا، خدمت کی ہو گی تو اس پر بھی نیکی ملے گی، اس کے گوشت پر بھی نیکی ملے گی، خود کھالیا تب بھی اور دوسروں کو کھلادیا تب بھی۔ سبحان اﷲ! کیسا موسم بہار آیا چاہتا ہے کہ ہر طرف نیکیوں کے پھول ہی پھول کھلے ہوں گے۔
اﷲ رب العزت کااس امت پر احسان دیکھئے کہ اس نے مسلمانوں کو سال میں دودن عید کے عنایت فرمائے ہیں: عید الفطر، عید الضحیٰ
ان لکل قوم عیدا وہذا عیدنا
ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔
لیکن ہماری عیدوں کا ہر قوم کی عید سے بہت فرق ہے، دوسری قوموں نے عیدیں خود بنائی ہیں ہمیں اﷲ رب العزت کی طرف سے انعام کے طور پر مقرر ہوکر ملی ہیں۔
دوسری قوموں کے پاس اپنی عیدیں گزارنے کا کوئی الٰہی طرز عمل اور شرعی نظام نہیں جبکہ ہماری عیدوں کے اعمال اور عبادات آسمان سے اترے ہیں۔
دوسری قوموں کی عیدیں اور تہوار صرف اور صرف غفلت، بے راہ روی اور عیاشی کے لئے ہیں جبکہ ہماری عیدیں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے دی گئیں، رمضان کے روزے رکھ کر اطاعت گزار ہونے کا ثبوت دیا کہ اﷲ کے حکم پر کھانا پینا اور دیگر لذائذ ترک کردیئے، اﷲ نے توفیق دی کہ اس کا حکم پورا کیا اب اس توفیق کا شکر ادا کرو اور عبادت کرنے کی خوشی مناؤ لہذا یہ تمہاری عید ہے۔ اﷲ کی توفیق سے حج کا فریضہ ادا ہوگیا، سبحان اﷲ! ایسی عاشقانہ عبادت… رب کے حکم پر زیب وزینت ترک، اعلیٰ لباس ترک، خوشبوئیں ترک، عمامے ترک، دیوانہ وار گھر کے چکر، شیطان کی رمی، یہ سب کچھ ادا ہوگیا اب خوشی مناؤ یہ تمہاری عید ہے۔
اور سب سے بڑا امتیاز یہ کہ دوسروں کی عیدیں سراسر خود غرضی اور اسراف پر مبنی ہیں، اپنے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ کپڑے بناؤ، زیب وزینت کا مہنگا ترین سامان خریدو، پارٹیوں میں تکلفات پر مال بہاؤ، جوتوں اور خوشبوؤں پر ہزاروں لاکھوں لٹاؤ، جبکہ ہماری دونوں عیدوں کی تو خاص عبادت ہی دوسروں کی مدد کرنا اور محروموں کو خوشیوں میں شریک کرنا ہے۔
پہلی عید آتی ہے حکم ہوتا ہے نماز سے پہلے ہی غریبوں کی عید کا انتظام کردو، انہیں مال دو تاکہ وہ بھی خوشی مناسکیں۔ ان میں صدقہ الفظر کی شکل میں ’’عیدی‘‘ بانٹو تاکہ وہ بھی مسرتوں میں شریک ہوسکیں، انہیں غنی کردو تاکہ وہ بھی آج اچھا کھا پی سکیں، آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود اس طرح سے عید منا کر دکھا دی، نماز سے واپس تشریف لاتے ہوئے یتیم، لاوارث بچہ ساتھ لے آئے فرمایا آج سے تو حسن حسین (رضی اﷲ عنہما) کا بھائی ہے۔ فاطمہ (رضی اﷲ عنہا) کا بیٹا ہے۔ سبق تھا امت کے لئے کہ تمہاری عید غفلت میں پڑے رہنے کا نام نہیں، مستی میں گم ہوجانے کا نام نہیں، سیرسپاٹوں کا نام نہیں، لباس کی زینت کا نام نہیں، بلکہ بے سہاروں کا سہارا، بے آسروں کے آسرا بننے کا نام ہے، غریبوں کی مدد کا نام ہے، یتیموں بیواؤں کی خبر گیری کا نام ہے۔
دوسری عید مسلمانوں کو وفاء جانثاری کے ایک عظیم واقعے کی یاد دلاتی ہے۔ جسے سنت ابراہیمی کہاگیا ہے، اہم بات تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اس دن ایک نہیں دو قربانیاں لی گئی تھیں، ایک بڑی قربانی تھی کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم پر اپنے لخت جگر کی قربانی پیش کرو۔ اکلوتا بیٹا، بلوغ کی عمر کو پہنچا ہی تھا کہ اسے اپنے ہاتھو ں قربان کردینے کا حکم ہوگیا۔ کتنا مشکل کام معلوم ہوتا ہے لیکن اس وقت جب محبت نہ ہو۔ اور یہاں تو محبت آگے بڑھ کر ’’خلت‘‘ کا مقام پا چکی تھی۔ خلیل کے لیے کہاں مشکل ہے کہ وہ اپنی محبوب چیزیں قربان کردے، اس لیے یہ بھی نہیں سوچا کہ ایک ہی بیٹا ہے، اپنی عمر ڈھل رہی ہے، بڑھاپے کا کوئی اور سہارا نہیں، بس حکم آیا اور بیٹے کو لے کر صحراء کی طرف روانہ ہوگئے۔ اﷲ کے منتخب بندے آج بھی حضرت خلیل اﷲ علیہ السلام کی اس سنت پر عمل پیرا ہیں۔ اﷲ کا دین قربانیاں مانگ رہا ہے، میدان سجے ہوئے ہیں شہادتوں کے بازار آباد ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے لخت جگر قربان کرانے ان میدانوں کی طرف بھیج دیتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے گلے پر خود چھری تو نہیں چلا تے کیونکہ یہاں قربانی کا مطالبہ بانداز دگر ہے لیکن ان کی گردنوں پر بوسہ دے کر انہیں قربان گاہوں کی طرف بھیج دیتے ہیں۔ انہیںعلم ہے کہ اس قربانی کے بغیر دین غالب نہیں ہوسکتا، غلامی کی زنجیریں نہیں ٹوٹ سکتی۔ اسلام کا نظام نافذ نہیں ہوسکتا اور اﷲ کے باغیوں، دشمنوں کی کمر نہیں ٹوٹ سکتی ان کی قوت و شوکت برباد نہیں ہوسکتی۔ زمین فساد سے پاک نہیں ہوسکتی اور مسلمانوں کی جانیں، مال اور عزتیں محفوظ نہیں ہوسکتی۔
انہیں یہ بھی علم ہے کہ یہ قربانی پیش کرکے وہ اپنے رب کے ہاں اونچے مقامات پالیں گے۔ انہیں دنیا میں بھی امتیازی شان مل جائے گی اور آخرت کے بلند درجات بھی حاصل ہوں گے۔ اس لیے وہ بخوشی اپنی قربانیاں رب کے حضور پیش کرکے عاجزی کے ساتھ کہہ دیتے ہیں:
سپردم بتو مایۂ خویش را
تو دانی حساب کم و بیش را
قربانی کے موسم میں یہ ماں باپ خلیل اﷲ ابراہیم علیہ السلام کے سچے پیروکار ہیں۔
باپ نے بیٹے کو خواب سنایا اور فرمایا بیٹا یہ میرے رب کا حکم ہے۔ بتاؤ تمہاری کیا منشا ہے؟ ابا جان رب کا حکم ہے تو منشا کیسی۔ فوری عمل کرگزرئیے۔ بندے کے لیے اس سے بڑھ کر سعادت کیا ہوگی کہ اس کا مالک اسے خود مانگ کر قبول فرمالے۔ یہ سعادت مند فرزند ذبیح اﷲ حضرت اسماعیل علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام ہیں۔ انہوں نے بھی نہیں سوچا کہ نوجوانی کی عمر ہے۔ ابھی جوانی کے مزے لینے باقی ہیں۔ امنگوں کی تکمیل تشنہ ہے ایسے میں خود کو موت کے سپرد کردینے سے تو ان ساری لذتوں سے محرومی ہوجائے گی۔ بلکہ صرف یہ سوچا کہ محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ محبوب بلائے تو سر کے بل جاسکو تو دریغ نہ کرو۔ گھسٹ کر جا سکو تو تاخیر نہ کرو۔ بندگی کا تقاضہ یہ ہے کہ مالک بلائے تو دیر نہ کی جائے اور نہ انجام کو سوچا جائے۔ سو انہوں نے اس حکم کو پورا کردیا۔ رب کے حکم پر اپنی گردن زیر خنجر رکھ دینا اسماعیل علیہ السلام کی سنت ٹھہری۔ اور یہ سنت آج بھی پوری ہو رہی ہے۔ افغانستان، عراق، کشمیر، فلسطین، چیچنیا اور دنیا بھر کے محاذوں پر فرزندان اسماعیل خنجر تسلیم کے نیچے سر جھکائے ہوئے ہیں۔ ان پر بم برس رہے ہیں، گولے گر رہے ہیں، تباہ کن ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں، لیکن ان کے عزائم میں فرق نہیں آتا نہ ان کے قدم لڑ کھڑاتے ہیں۔ انہوں نے بھی دنیا کی رنگینیاں چھوڑ کر اپنی جوانی موت کی سنگینیوں کے حوالے کردی ہے کیونکہ انہوں نے اسے عبودیت اور محبت کا حق سمجھا ہے۔ انہو ںنے جان لیا ہے کہ بلندی پانے کے لیے انہیں قربانی دینا ہوگی۔ راحت پانے کے لیے قربانی پیش کرنا ہوگی اور عزت کا حصول بھی قربانی سے ہی ہوگا، انہوں نے اپنے لیے اسماعیل علیہ السلام والا طریقہ اختیار کرلیا۔ قربانیوں کے موسم میں یہ اسماعیل علیہ السلام کے پیروکار ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام سے اس دن جو چھوٹی قربانی لی گئی وہ یہ تھی کہ اﷲ رب العزت نے ان کے اس پیارے عمل کی یادگار عامۃ المسلمین میں باقی رکھنے کے لیے ایک جانور ان کے ہاتھوں ذبح کرایا اور اس عمل کو ہماری امت میں مخیر اور ذی استطاعت لوگوں پر فرض کردیا۔ اب حکم یہ ہے کہ ہر صاحب نصاب شخص اس دن اﷲ کے نام پر جانور کی قربانی کرے، اس کا گوشت خود کھائے، دوسروں کو بھی کھلاے، فقراء ومساکین میں تقسیم کرے اور رشتہ داروں تک پہنچا کر صلہ رحمی کا حق ادا کرے۔ قربانیوں کے موسم میں ہر سال کروڑوں مسلمان اپنے جد امجد کی اس سنت کو اﷲ کے حکم سے زندہ کرتے ہیں اور اس کی رضا تلاش کرتے ہیں۔
اس دن بھی قربانی کرنے والوں کے کئی رنگ ہیں، کوئی اپنے گھروں میں قربانی کرکے اپنے بچوں کا دل خوش کرتے ہیں اور رشتہ داروں کو خوشی میں شریک کرتے ہیں اور کئی ا ﷲ کے بندے اس دن بھی ’’امت‘‘ کے لیے قربانی دیتے ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ امت محمدیہ میں کتنے لوگ دشمنوں کی یلغار کے سبب ان خوشیوں سے محروم ہیں۔ کتنے گھرانے ایسے ہیں جنہوں نے اﷲ کے راستے میں بڑی قربانی دی اس لیے اب ان میں قربانی نہیں ہوتی اور بچوں کے چہرے مسکرا نہیں سکتے۔ کتنے مسلمان ایسے ہیں جو آسمانی آفات کے سبب گھر بار سے محروم ہوگئے ہیں اور ان کے ہاں عید کی خوشیاں نہیں آتی اور ان سب سے بڑھ کر وہ لوگ ہیں جو اس امت کے غموں کا مداوہ کرنے اور دکھوں کا صحیح علاج کرنے کی غرض سے اپنے گھر بار چھوڑ گئے ہیں اور فریضہ جہاد کی ادائیگی میں مشغول ہیں۔ شہروں، آبادیوں سے دور کہساروں، ریگزاروں کو ٹھکانا بنائے ہوئے اسلام کی سربلندی کی محنت میں مصروف ہیں۔ یہ مسلمان سوچتے ہیں کہ اپنی قربانی ان لوگوں تک پہنچادیں۔ اﷲ کے راستے کا کوئی غازی محاذ جنگ پر بیٹھا ہوا ان کی قربانی کا گوشت کھالے اور انہیں محاذ سے سینکڑوں، ہزاروں میل دور بیٹھے غازی کو کھلانے کا وہ عظیم ثواب مل جائے جو آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اور ہاں ! یہ غازی شہید بھی بن سکتا ہے جن کی شفاعت اﷲ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے ممکن ہے اس غازی کو عید کی خوشی میں شریک کرنا ان کے لیے قیامت کے دن اس کی مقبول شفاعت کا سبب بن جائے۔
یہ مسلمان پسند کرتے ہیں کہ ان کی قربانی کسی شہید، اسیر یا غازی کے گھر میں ہوجائے، اﷲ کے ان منتخب بندوں کے اہل خانہ عید کی خوشی منالیں اور قربانی دینے والے کو مجاہد کے اہل کی خبر گیری اور ن کے ساتھ حسن سلوک کا وہ عظیم ثواب مل جائے جو اس عمل کے علاوہ مل ہی نہیں سکتا۔ جی ہاں! کسی شخص کا عمل مجاہد کے عمل کے برابر نہیں ہوسکتا سوائے اس شخص کے عمل کے جو مجاہد کے گھر کی دیکھ بھال کرے اور اس کے اہل خانہ سے حسن سلوک کرے۔ یہ مسلمان اس بات سے خوش ہوتے ہیں کہ ان کی قربانی کسی شہید کے یتیم بچے کے چہرے پر مسکراہٹیں سجادے اور کسی مجاہد کے بوڑھے ماں باپ کی آنکھوں سے خوشی کے دو آنسو رواں کردے اس سے بڑھ کر ذخیرہ آخرت کیا ہوگا؟
ان مسلمانوں کے لیے باعث تسکین یہ امر ہے کہ ان کی قربانیاں اﷲ کے دین کا علم حاصل کرنے والے طلباء تک پہنچ جائیں وہ انہیں ذبح کرنے کی خوشی بھی منالیں اور ان کا گوشت بھی کھالیں۔
یہ مسلمان سعادت سمجھتے ہیں کہ ان کی قربانی اﷲ کے راستے میں گھر بار چھوڑ کر آنے والے یا نکال دیئے جانے والے مہاجرین تک پہنچ جائیں اور انہیں مہاجر کی نصرت کا وہ عظیم اجر مل جائے جو قرآن و حدیث میں بارہا بیان ہوا اور اس پر ایمان والوں کی تعریف کی گئی۔
اور اﷲ کے بندوں میں کچھ عظیم بندے وہ ہیں جو ان دردمند مسلمانوں کی ان حسین آرزوؤں کی تکمیل کا انتظام کرتے ہیں۔ وہ دن رات کا آرام ترک کرکے گلی گلی کوچہ کوچہ جاکر مسلمانون کو ان عظیم لوگوں کا درد سناتے ہیں اور پھر جب وہ اس سعادت کے حصول پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو پھر یہ دیوانے دن رات ایک کرکے ان کی یہ امانتیں حقداروں تک پہنچانے کا پورا نظام بناتے ہیں۔ اموال کی فراہمی سے مقررہ وقت کے اندر ہر قربانی ادا کرانے اور دور دراز علاقوں میں برسر پیکار مجاہدین تک، جیلوں میں بند اسیران اسلام تک، ملک بھر اور بیرون ملک میں پھیلے شہداء کے گھرانوں تک، آسمانی آفات کا شکار غریب عوام تک اور دینی مراکز ومدارس تک پہنچانے کی محنت کرتے ہیں۔ وہ اس بات کے امین اور ضامن ہیں کہ قربانی ان کے حوالے کرنے والے ہر مسلمان کا یہ فریضہ بروقت بھی ادا ہو اور جس سعادت کی اس نے خواہش کی ہے اس کی بھی تکمیل ہو۔ آپ انہیں جانتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی عید کی خوشیاں اور مصروفیات آپ کے لیے قربان کرتے ہیں تاکہ آپ کی قربانیاں ان لوگوں تک پہنچائیں جو اﷲ کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں یا دے چکے ہیں۔
’’الرحمت ‘‘ ہمارے ملک کا وہ ادارہ ہے جس کی باگ ڈور جید علماء کرام کے ہاتھوں میں ہے اور تقویٰ، اخلاص، امانتداری کی بنیاد پر یہ ادارہ پچھلے کافی عرصہ سے اہل ایمان کی امانتیں اہل ایمان تک پہنچا رہا ہے، شہداء کرام، اسیران اور مجاہدین اسلام کے گھرانوں کی کفالت اس ادارے کا طغرائے امتیاز ہے، یہ ادارہ تو ان گھرانوں کی مالی کفالت بھی کرتا ہے اور دیگر ضروریات بھی بوقت ضرورت بہم پہنچاتا ہے۔ اس ادارے کے تحت شہدائ، اسیران اور مجاہدین کے بچوں کی تعلیم کا بھی مربوط نظام قائم ہے۔ اس کے علاوہ اس عظیم ادارہ کے تحت کئی بڑے مدارس اور مکاتب کام کر رہے ہیں جن میں ہزاروں لوگوں کو دینی تعلیمات سے بلامعاوضہ روشناس کرایا جارہا ہے۔ اسی طرح یہ ادارہ ملک بھر میں مختلف تبلیغی مہمات بھی چلاتا ہے، تعمیر مساجد کا ایک وسیع اور مربوط نظام بھی الرحمت ٹرسٹ کے زیر اہتمام چل رہا ہے۔ ٹرسٹ کے جانباز مخلص رضاکاروں کی انتھک محنت اور اخلاص کا ثمر ہے کہ سال بہ سال اہل ایمان کا ٹرسٹ پر اعتماد بڑھتا جارہا ہے۔ عید کے دنوں میں یہ ساتھی اپنی تمام تر توانائیاں اسی محنت پر صرف کرتے ہیں کہ اہل ایمان کو اپنے ان بھائیوں کی طرف متوجہ کیا جائے اور انہیں سعادتوں کے اس عظیم راستے کی جانب لایا جائے اور پھر یہ اپنی پوری محنت صرف کرکے ان امانتوں کو حقداروں تک پہنچانے کی سعی کرتے ہیں۔ ان کی محنت یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے بعد انہیں اپنے مجاہد بھائیوں کی مدد کے لیے کھالیں بھی جمع کرنا ہوتی ہیں۔ حقیقت میں اگر کسی کو ’’قربانی‘‘ والی عید دیکھنی ہو تو اﷲ کے ان بندوں کی عید دیکھ لے، محنت ہی محنت، قربانی ہی قربانی۔ ہماری دعوت ہے کہ آپ بھی اپنی قربانی ان کے حوالے کردیں تاکہ وہ بڑی قربانی والے لوگوں تک پہنچ جائے۔ یقینا یہ عمل آپ کے لیے خیر اور سعادت کے بہت سے دروازے کھول دے گا۔
٭…٭…٭
اصل بات
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 463)
میں آپ کو صرف 10منٹ کا الٹی میٹم دے رہا ہوں…
آپ اگر یہ کالم پڑھ رہے ہیں تو نہ پڑھیں،آدھا پڑھ چکے ہیں تو پورا نہ کریں اور پورا کر چکے ہیں تو اُگل دیں…
اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو 10 منٹ بعد
میں اگلے دس منٹ کا ٹائم دے دوں گا…
اور اس طرح میں پورا سال آپ کو ٹائم دیتا رہوں گا۔اس لئے آپ بے فکر رہیں اور میری کسی بات کو سنجیدہ نہ لیں…
امید ہے گزشتہ ایک ماہ سے اخبارات میں یہ کارروائی پڑھ پڑھ کر آپ ’’بھر‘‘ چکے ہو نگے…
لوگ کہتے ہیں ’’ڈیڈ لائن‘‘ عزت کا مسئلہ ہوتی ہے، اس لئے تبدیل نہیں کرنی چاہیے اور جو ڈیڈ لائن دینی چاہیے اس پر کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔’’جناب‘‘ ایسا نہیں کرتے اس لئے ان پر تنقید کی جاتی ہے…
تو صاحبانِ ذی وقار!
جھنگ میں جو انگریزی اردو ڈکشنری قصبہ روڈو سلطان کے بک سٹالز پر بکتی تھی اور بڑی مستند تھی،سب سے بڑی دلیل اس کے مستند ہونے کی یہ ہے کہ اس کا دیباچہ جناب کے والد گرامی جناب ڈاکٹر…صاحب نے لکھا۔انہوں نے اور بھی کئی کتابیں لکھیں جن میں بیس سے زائد شعری دیوان تھے۔پانچ بھوری بھینس نے کھا لیے تھے،4پر کلینک میں علاج کے لئے جانے والے ایک بدتمیز کتے نے ایک ناقابل اشاعت حرکت کر کے انہیںقابل اِشاعت نہ چھوڑا۔بقیہ دوا وین کا مسودہ جس گدھے پر لاد کر پریس لے جایا جا رہا تھا وہ گدھا نہر میں اُتر گیا۔پہلے اس نے الٹی میٹم دیا کہ دس منٹ کے اندر اندر اس پر سے یہ ’’فضول بوجھ‘‘ اتارا جائے ورنہ…
اور پھر اس ’’گدھے‘‘ نے اپنے ہی الٹی میٹم پر عمل کر ڈالا کیونکہ اس نے وہ ڈکشنری نہیں پڑھی تھی جس کا ذکر ابھی معلّق ہے اور بات ’’صاحبِ دیوان شاعر‘‘ جناب کمپاؤنڈر…صاحب کی طرف چلی گئی ہے۔بہرحال بھینس،کتے،اور گدھے کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں وہ بیس دیوان بہہ گئے اور خلق خدا ان سے فیضیاب نہ ہو سکی۔یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ وہ بیس دیوان باری باری کیوں نہ چھپوا لیے گئے اکھٹے چھپوانے کے لئے کیوں رکھے گئے؟
ممکن ہے گنیز بک میں نام لکھوانا مطلوب ہو…
بہرحال آتے ہیں ڈکشنری کی طرف۔اس مستند لغت میں ’’ڈیڈ لائن‘‘ کا مطلب لکھا ہوا تھا ’’ مردہ لکیر‘‘
اب آپ خود سوچیے!
یہاں کسی کو زندوں کی فکر اور پرواہ نہیں اور لوگ ہیں کہ اس بات کو محل تنقید بنا رکھا ہے کہ ’’جناب‘‘ ایک مردار کی پرواہ نہیں کرتے۔یہ ناقدین بھی بس…
دوسری بات کہ ’’مردار لکیر‘‘عزت کا مسئلہ ہوتی ہے۔قانون کی اس شق کا موصوف پر اطلاق ہی نہیں ہوتا۔کیوں؟؟…آپ اس سطر کو دو تین بار پڑھیں وجہ خود سمجھ آ جائے گی۔
اور رہی تیسری بات کہ ڈیڈ لائن پر کچھ کرنا چاہیے تو سب سے بہتر کام جو اس موقع پر ہو سکتا ہے وہ اگلی ڈیڈ لائن دینا ہی ہے
بے کارِ معاش کچھ تو کیا کر
بخیے اُدھیڑ کر ، سیا کر
’’بخیے‘‘ لگانا، پھر اُدھیڑنا اور پھر لگانا انگریزی میں اس سے ڈیڈ لائن پر ڈیڈ لائن دینا ہی مراد ہوتا ہے…
اب آپ یہ نہ سوچیں کہ شیخل صاحب اپنی کسی بھی ڈیڈ لائن پر عمل نہیں کرتے۔آج رات واپسی کی ڈیڈ لائن دی جانے والی ہے امید ہے اس پر عمل وقت آنے سے پہلے ہی ہو جائے گا۔
آج کل مخالف ذہن رکھنے والے اخبارات و جرائد میں ان لوگوں پر بہت تنقید کی جا رہی ہے جنہوں نے ’’جناب‘‘ کے پسینہ آلود ٹشو پیپر حاصل کئے اور اس پر بڑے فخر کا اظہار بھی کیا۔تو صاحبو! فقہ کی کتب میں لکھا ہے کہ’’ ان‘‘ کا پسینہ پاک البتہ جھوٹا پانی ’’مشکوک فیہ‘‘ ہے۔اس لئے جن لوگوں نے پاک چیز لی ہے انہیں برا بھلا مت کہو۔انہیں اس کام کے پیسے ملتے ہیں اور آپ لوگ غریبوں کی روزی پر لات کیوں مارنا چاہتے ہیں۔
٭…٭…٭
پنجاب سے سیلاب گزر گیا۔
اور پنجاب کے حکمرانوں نے اس بار بھی لانگ بوٹوں کی نمائش بہت اچھے طریقے سے کی،اب وہ بوٹ سنبھال کر رکھ لئے گئے ہیں آئندہ سال کام آئیں گے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لئے حکومت پنجاب نے ہنگامی طور پر ان اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
(۱) وزیر اعظم کی لئے بھی اسی رنگ اور قسم کے لانگ بوٹ سلائے جا رہے ہیں جو وزیر اعلی پہنتے ہیں۔آئندہ سال ان کا بھی ’’شوٹنگ‘‘ میں حصہ لینے کا ارادہ ہے،اس سے ریٹنگ اچھی آتی ہے۔
(۲) اس بار تقریباً ایک درجن مقامات پر ’’امدادی کیمپ‘‘ جعلی ثابت ہو گئے اور میڈیا پر بہت شور ہوا۔آئندہ سال کے لئے پٹواریوں اور تحصیل داروں کو اس مسئلے سے نمٹنے کی خصوصی ٹریننگ ابھی سے دی جائے گی کہ کیمپ کا جعلی ہونا ثابت نہ ہو سکے۔
(۳) پنجاب میں پلوں اور میٹرو کی ہر شہر میں تعمیر کو جلد یقینی بنایا جائے۔حالیہ سیلاب میں لاہور میں تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ جو لوگ بارشوں اور سیلاب کے وقت میٹرو پر سوار تھے یا کسی پل پر تھے ان کا بالکل نقصان نہیں ہوا۔پلوں کے اردگرد کی بستیوں کا جو خصوصی کباڑا ہوا اس پر غور کے لئے کمیٹی بنا دی گئی ہے جو 2019؁ء میں رپورٹ پیش کرے گی۔
(۴) سلمان و مشہود کو پولٹری کی پیداوار بڑھانے کا خصوصی آرڈر جاری کر دیا گیا ہے کیونکہ وزیر اعلی کے حکمنامے کے مطابق چکن کڑاہی کو سیلاب زدگان کے کھانے کا مستقل حصہ بنا دیا گیا ہے۔اس سلسلے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔حکومت پنجاب اس کے لئے پولٹری صنعت کے لئے ’’خصوصی ‘‘فنڈز اور مراعات جاری کر رہی ہے۔مٹن کڑاہی کی شمولیت کا بھی اعلان کیا گیا تھا لیکن فی الحال اس کا نام خارج کر دیا گیا ہے کیونکہ ’’گوٹ فارمنگ‘‘ کی صنعت فی الحال خاندان سے باہر ہے۔ ’’حمزہ‘‘ اس کے امکانات کاجائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں گے اور کام ’’جم‘‘ جانے کے بعد آئندہ کسی سیلاب پر اسے بھی مینیو کا حصہ بنا لیا جائے گا۔
(۵) سیلاب زدگان سے خطاب کے دوران مخالفانہ نعرے بازی اور ’’گو گو‘‘ کے نعروں کے واقعات تسلسل سے پیش آنے کے بعد آئندہ اس امر کو یقینی بنانے کی ہدایت جاری کی گئی ہے کہ آئندہ کوئی بھی حقیقی سیلاب زدہ ایسی تقریبات میں نہ آنے پائیں۔
(۶) سیلاب سے زمینوں کے نشانات اور حدود مٹ جانے سے پٹواریوں کے لئے ’’کام ‘‘ کافی نکل آتا ہے۔اس سلسلے میں انہیں خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں اور ان پر ان علاقوں میں عمل درآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔پنجاب حکومت کو اس سے کافی آمدنی متوقع ہے جو سیلاب زدگان کے لئے برائلر خریدنے پر خرچ کی جائے گی۔
وفاقی حکومت نے بھی سیلاب کو کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔وزیر اعظم نے سیلاب پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے کہ اتنی شدت کے باوجود وہ دھرنے ختم کروانے میں ناکام رہا اور ان کے استعفیٰ کا معاملہ تاحال جوں کا توں ہے۔اسی طرح انہوں نے سیلاب زدگان کی امداد میں ہونے والی بے قاعدگیوں خصوصاً حکومت مخالف نعرے بازی کا شدید نوٹس لیا ہے اور آئندہ اس کی روک تھام کے لئے سخت آرڈر جاری کئے ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے بلا اطلاع پانی چھوڑنے پر ہندوستان سے بھی شدید احتجاج کیا ہے ۔ہندوستان کی اس حرکت کی وجہ سے ان کی حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔وہ ہمیشہ پلا ننگ کے ساتھ اپنے علاقے بچانے اور غریبوں کو ڈبونے کی تیاری نہیں کر سکی اور اس بار گندم کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔انہوں نے مودی سے کہا ہے کہ وہ آئندہ جب ہندوستان آئے، پیدل ’’لکشمی متل‘‘ کے گھر جا کر اس کی شکایت لگائیں گے۔سنا ہے مودی اس دھمکی پر تھر تھر کانپ اُٹھا ہے اور اس نے ڈیموں کے منہ فوراً بند کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔
٭…٭…٭
نواز حکومت قائم ہوئے چند ہی ماہ گذرے تھے کہ پاکستان کے سب سے محترم’’ کارٹون‘‘ نے لکھا کہ میاں صاحب ہنسنے مسکرانے والے بندے تھے اور ان کی مسکراہٹ کالم نویس کے دل کو شاد کرتی تھی۔عوامی مسائل کے بوجھ اور ملکی حالات کی تلخیوں نے اس روئے زیبا سے وہ مسکراہٹ چھین کر سنجیدگی طاری کر دی ہے۔اس امر پر بہت افسوس کا اظہار کیا گیا۔ میں صاحب نے اس درخواست پر توجہ کی اور سنجیدگی کا ڈرامہ ختم کرکے ہنسنے مسکرانے لگے۔ انڈیاکی طرف سے غیرمتوقع دعوت،وہاں کا دورہ،دورے میں ملنے والا پروٹوکول،کاروبای طبقے سے خفیہ ملاقاتیں،اوبامہ سے شرف ملاقات،چین کا دورہ اور وہاں کاروباری معاملات میں حیران کن ترقی ان عوامل نے بھی طبیعت پر اچھا اثراڈالا اور طبیعت کچھ بحال ہوتی نظر آئی لیکن اچانک…
دھرنے سے سب دھڑن تختہ کر دیا۔وہ تو خیر ہو زرداری صاحب کی کہ بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے آئے اور میاں صاحب کو کچھ تسلی دے گئے،ان کی پارٹی بھی ساتھ آن کھڑی ہوئی۔ورنہ ان کے آنے سے پہلے تو ایسا لگتا تھا کہ میاں صاحب یوم پیدائش سے آج تک کبھی نہیں مسکرائے۔پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ختم ہو گیا ہے اور دھرنے ختم نہیں ہوئے۔اب پھر میاں کی حالت پھر پہلے والی ہوتی جا رہی ہے اور مجھے پھر اسی طرح کے کسی کالم کا انتظار ہے۔
کیا وہ محترم کالم نگار اور ان کے جیسے دیگر حضرات جو بادشاہ سلامت کو مسکراہٹ بھرے چہرے سے دیکھنے کے آرزو مند ہیں بتا سکتے ہیں کہ کشمیری ماؤں کے جوان لخت جگر شہداء کرام کے خون کا سودا کرنے اور ایک سال میں اپنے ملک کے پسے ہوئے غربت کے مارے عوام کے لئے بجلی کے بل دوگنے کر کے دن رات بددعائیں سمیٹنے والے چہرے پر مسکراہٹ سجی رہ سکتی ہے؟ کیا قدرت کے انتقام اور پکڑ سے لوگ اس قدر غافل ہو چکے ہیں؟
پرویز مشرف نے مسلمان اہل ایمان بچیوں پر ظلم کیا پھر نہ مسکرا سکا۔
وزیرستان کی وہ لاکھوں مائیں،بہنیں،بیٹیاں جن کے ننگے سر سورج نے بھی کبھی نہ دیکھے ہوں گے انہیں رمضان المبارک کے مہینے میں روزے کی حالت میں سخت گرمی میں بلکتے بچوں کے ساتھ سڑکوں پر لا بٹھانے والا نواز شریف مسکرا سکتا ہے تو مسکرا کر دکھائے…
’’کیا لوگ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور پکڑ سے غافل ہو گئے؟
اللہ کی تدبیر سے تو صرف خسارے میں پڑنے والے ہی غافل ہوتے ہیں‘‘ (الاعراف)
عمران خان کچھ نہیں اور نہ ہی اس کا ڈانسر طبقہ۔کسی کو تو مکافات عمل کی تصویر بننا ہی تھا تو یہ سہی…
عفت مآب اہل ایمان عورتیں جھولی پھیلا دیں تو یہی ہوا کرتا ہے لیکن اصل بات سوچتا کون ہے؟…
٭…٭…٭