’’ اسکول کے قواعدوضوابط کے مطابق بچوں کو وقت پر صاف ستھرے یونیفارم میں آنا ہے۔ کتابیں بوسیدہ اور پھٹی ہوئی نہ ہوں۔ اساتذہ کا احترام کیا جائے۔ اساتذہ کی جانب سے طلبہ کی پٹائی پر سخت پابندی ہے۔ مارپیٹ کرنے والے اساتذہ کو نکال دیا جاتا ہے۔ اسکول میں کشادہ کمرے، حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق کینیٹین، صاف ستھرے بیت الخلا، جدید سہولیات سے آراستہ کمپیوٹر لیب موجود ہے اور…‘‘ یہ وہ بروشر تھا جسے پڑھ کر میں نے ایک اسکول میں ٹیچنگ کے لیے اپلائی کیا تھا۔ یہ چند سال پہلے کی بات ہے۔ اسکول جوائن کرنے کے 5دن کے اندر اندر یہ حقیقت کھل گئی کہ اسکول کے قواعد و ضوابط اور سہولیات صرف کاغذ پر ہی ہیں۔ اسکول قوانین کا احترام اساتذہ کرتے ہیں نہ ان کی تنبیہ ہی ہوتی ہے۔ چونکہ آج کے دور میں مستقل اساتذہ کی کمی ہے، اس لیے مصلحت ساری قانون شکنیاں چھپا لیتی ہے۔ طلبہ وقت پر آتے ہیں نہ اساتذہ، کتابیں پھٹی ہوتی ہیں، اساتذہ غصے میں طلبہ کو مار مار کر ادھ موا بھی کردیتے ہیں اور جدید کمپیوٹر لیب میں 486کے زمانے کے کمپیوٹر پڑے ہیں جن تک بھی طلبہ کو مکمل رسائی نہیں۔ پانی کا انتظام ہے نہ بیت الخلا ہی صاف رہتے ہیں۔ اگر تمام کمروں کو ملا کر ایک کیا جائے تب تو کلاس رومز کشادہ قرار دی جاسکتی ہیں، ورنہ نہیں۔
دیکھا جائے تو یہ صورتحال ایک اسکول تک محدود نہیں۔ ہم سب روزانہ اسی سے ملتی جلتی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔ ہم چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھ کر لپکتے ہیں مگر بعد میں وہ پتھر نکلتی ہے۔ ہم اشیاء کے ریپرز دیکھ کر انہیں خریدتے ہیں تو اس کے غیر معیاری ہونے کا عقدہ ہم پر کھلتا ہے۔ ہم کھانا کھانے سب سے اونچی دکان پر جاتے ہیں تو اس کا پکوان اکثر پھیکا ملتا ہے۔ موجودہ دور کا یہ المیہ ہے کہ یہاں چیزوں سے لے کر انسان تک صرف اپنا ظاہر بناتے، سجاتے، سنوارتے ہیں اور اندروں چنگیز سے تاریک تر ہوتا ہے۔ ساری محنت، ساری کوشش چیزوں کے ظاہر کو خوشنما بنانے پر صرف ہوتی ہے۔ ایک روپے کی چیز کے بھی ایسے ایسے چمکتے کور بنائے جاتے ہیں کہ بچے دیکھتے ہی فدا ہوجاتے ہیں اور ضد باندھ لیتے ہیں۔ اللہ کے بنائے ہوئے پھل ہوں، سبزیاں یا اناج ہر ایک پر چھلکا یا جھلی ضرور ہوتی ہے ۔ بہت کم پھل یا سبزیاں ایسی ہیں جن کا چھلکا کھایا جاتا ہے اور ان سبزیوں، پھلوں یا اناج کا اندر باہر کے چھلکے سے زیادہ خوش نما ، خوش ذائقہ اور مزے دار ہوتا ہے۔اللہ نے ان کا چھلکا بھی خوبصورت بنایا اور اندر کا گودا بھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چھلکے کے بغیر گودا بھی اچھا نہیں لگتا اور گودے کے بغیر صرف چھلکا تو ہے ہی بے کار۔ انسان کو بھی ایسا ہونا چاہیے ۔ اس کا اندر باہر ایک جیسا نہیں، اندر باہر سے زیادہ شفاف ہونا چاہیے مگر ایسا کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔
ہم دن رات حکمرانوں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ برے کی برائی اس امید پر ظاہر کرنا کہ وہ اچھا ہوجائے گا، کوئی برائی کی بات نہیں مگر چند منٹ کے لیے اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ہم قانون کی پاسداری کا مطالبہ حکومتوں سے کرتے ہیں مگر ہمیں موقع ملتا تو ہم بھی ملک کو اسکول کی طرح ہی چلاتے ہیں۔ ہم صاحبان اقتدار کی منافقت کا رونا روتے ہیں مگر خود اندر کچھ باہرکچھ ہیں۔ہم مسند پر بیٹھے ہوئوں کو بیماری میںبھی طعنے دیتے ہیں اور خود ہاتھ لگے توبیرون ملک جانے میں ایک منٹ نہیں لگاتے۔ ہم آف شور کمپنیوں کا صرف اس لیے شور مچاتے ہیںکہ ہمیں دولت کمانے کا یہ طریقہ پتا نہیں ہوتا۔ باتیں کڑوی ہیں مگر کیا کریں… سچ بھی تو ہیں!