امریکا کیا چاہتاہے؟…تحریر:…. مولانا محمد اسماعیل ریحان

سانحہ گلشن اقبال پار ک لاہور کے بعد ملک میں ایک بڑا آپریشن شروع کردیا گیا۔ پنجاب خصوصاً اس کے جنوبی اضلاع میں بطور خاص چھاپے مارے گئے اور بہت سے افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے بہت سے کسی مدرسے، کسی دینی تنظیم یا تحریک سے تعلق رکھتے تھے اور بہت سے ایسے تھے جنہیں محض ظاہری دینی شباہت کی بناء پر مشکوک سمجھ کر حراست میں لے لیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ سانحۂ گلشن اقبال کا سب سے زیادہ نقصان دینی مدارس کو ہوا۔ اس حادثے کا فوری اثر اس ملک گیر نمایندہ اجلاس کے التواء کی شکل میں نکلا جو اسی پارک میں منعقد ہونے والا تھا۔ اس لیے یہ شبہ کرنا بہت ہی حیران کن ہے کہ مدارس کے لوگ خود اپنے جلسے کو سبوتاژ کرائیں گے۔ اس کی بجائے یہ بات بالکل قرینِ قیاس ہے کہ مدارس کو اپنے حق میں آواز بلند کرنے سے روکنے کے لیے غیرملکی ایجنسیوں نے اندرونی غداروں کے ساتھ مل کر یہ خون کی ہولی کھیلی ہو۔

مدارس کے اربابِ اختیار ملک میں دہشت گردی کی دیگر وارداتوں کی طرح اس سانحے کی بھی پرزور مذمت کرچکے ہیں۔ متعدد صحافی اس میں ’’را‘‘ کا ہاتھ ہونے کے قرائن پیش کرچکے ہیں۔ اربابِ مدارس کی طرف سے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہ پیش کش برقرار ہے کہ اگر مدارس سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد واقعی دہشت گردی کی کسی واردات میں ملوث ہے تو اس پر ہاتھ ڈالنے کے لیے اہلِ مدارس پورا تعاون کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں، مگر اس کا کوئی جواز نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے جب چاہیں، جہاں چاہیں، کبھی معمولی شبہے کی بناء پر اور کبھی محض گنتی پوری کرنے کے لیے علمائ، قرائ، ائمہ وخطباء کو ہراساں کریں، انہیں حبسِ بے جا میں رکھیں اور اس سے بڑھ کر تشدد کے ذریعے انہیں ناکردہ جرائم کا اعتراف کرنے پر مجبور کریں۔

ملک میں اس قسم کے افسوس ناک قضیے ایک تواتر سے پیش آرہے ہیں۔ علماء اور اربابِ اقتدار کے درمیان بڑی کوششوں کے بعد افہام و تفہیم کی فضا قائم ہوتی ہے، مگر کچھ ہی دن گزرتے ہیں کہ پھر کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے اور شکوک و شبہات کی فضا دوبارہ پید اکردی جاتی ہے۔ پاکستان کے ان حالات کو مقامی نہیں، بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تب ہی ہم اس صورتحال کی اصل وجہ تک پہنچ سکتے ہیں۔

امریکا کئی سالوں سے افغانستان سے جانے کے لیے پرتول رہا ہے، مگر جانے سے قبل وہ دو چیزوں کی ضمانت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایک تو یہ کہ افغانستان میں سرگرم القاعدہ یا طالبان امریکا کی واپسی کے بعد اس کا تعاقب نہیں کریں گے۔ اس کے مفادات پر حملے نہیں کریں گے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک کی حیثیت سے امریکا کے لیے خطرہ نہیں بنے گا۔ یہاں کوئی اسلامی انقلاب نہیں آئے گا۔

ہمیں معاملے کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے نائن الیون کی طرف پلٹنا ہوگا۔ جہاں سے اس تصادم کا آغاز ہوا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نائن الیون سے قبل امریکا دنیا بھر کا اکیلا تھانے دار بننے کے خبط میں مبتلا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو اس نے اپنے غنڈے کے طور پر چلا رکھا تھا جو فلسطینیوں کے خون کی ندیاں بہارہا تھا۔ اس نے خلیج کی جنگ کا ناٹک رچاکر جزیرالعرب کو بھی اپنے محاصرے میں لے لیا تھا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے احتجاج اور نفرت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے امریکا نے یہ روش نہ صرف جاری رکھی،

بلکہ عالم اسلام کے تقریباً تمام ممالک کو یرغمال بنانے پر تلا رہا۔ اسے حیرت کا شدید جھٹکا اس وقت لگا جب افغانستان کے طالبان نے اس کا آلۂ کار بننے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد ورلڈ ٹریڈ سینٹر تباہ ہوا جس کے ذمہ داروں کی ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ نشان دہی آج تک نہیں ہوسکی، البتہ اُسامہ بن لادن نے ستمبر 2004ء میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی۔ طالبان حکومت گرانے کے لیے امریکا نے یہی بہانہ استعمال کیا کہ اس حکومت نے القاعدہ کو پناہ فراہم کی ہے۔

امریکا کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ افغانستان پر حملہ کرکے دہشت گردی کے مراکز کو جڑ سے اکھاڑدے گا اور پوری دنیا میں دہشت گردوں کا چن چن کر صفایا کرڈالے گا۔ اس طرح افغانستان میں ہلال و صلیب کا معرکہ شروع ہوا۔ یہ جنگ کئی لحاظ سے سوویت روس کے خلاف افغان مجاہدین کے جہاد سے مختلف تھی۔

-1 روس سے جنگ حقیقتاً دفاعی جنگ تھی۔ روس حملہ آور ہوا تھا۔ افغان مجاہدین دفاع کررہے تھے۔ ساری دنیا اس جنگ کو اس نگاہ سے دیکھتی تھی۔ روس کی شکست بے شک بہت بڑا انقلاب تھا، مگر اس انقلاب کو جنم دینے والی فتح کو دنیا ایک دفاعی فتح ہی کی حیثیت سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور افغانستان کے اس معرکے کو دنیا خصوصاً امریکا کی اتحادی دنیا بالکل مختلف نظر سے دیکھتی ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دینے کے بعد امریکا نے شروع سے خود کو مدافعانہ جنگ لڑنے والا فریق باور کرایا ہے۔ میڈیا کے ذریعے کئی سالوں سے دنیا کو یہی سبق یاد کرایا گیا ہے۔ اتحادیوں سمیت دنیا کی بیشتر حکومتیں اور ان کے عوام، بلکہ ماڈرن مسلمان بھی یہ کہتے اور سمجھتے ہیں کہ امریکا نے اپنی حفاظت کو یقینی بنانے اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کا بدلہ لینے کے لیے یہ جنگ چھیڑی ہے۔ اربوں ڈالر خرچ کرکے اپنی ناجائز اور مہلک جنگ کو جواز فراہم کرنے کے لیے پھیلائے گئے اس تاثر نے آج امریکا کے پائوں باندھ دیے ہیں۔

یہی وہ سب سے بڑی زنجیر ہے جس کی وجہ سے امریکا کا اس جنگ سے پیچھے ہٹنا بے حد مشکل ہوگ
یا ہے جوکہ امریکا کے اس موقف نے طالبان، القاعدہ اور مسلمانوں کو دہشت گرد بناکر پیش کیا ہے۔ اس لیے اب امریکا کی شکست کا واضح مطلب جو دنیا کے سامنے آرہا ہے یہ ہے کہ نہتے مسلمان دنیا کی سب سے بڑی طاقت پر حملہ آور ہو کر اسے شکست فاش دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب امریکی افواج افغانستان سے واپس ہوں گی تو دنیا پر اس کا تاثر یہ نہیں پڑے گا کہ مسلمانوں نے ایک دفاعی جنگ جیتی ہے۔ بلکہ اس فتح کا مطلب یہی نکلے گا کہ مسلمان ایک جارحانہ جنگ میں فتح یاب ہوئے ہیں۔

اس لیے امریکا کو یقین ہے کہ اس کی واپسی کے بعد دنیا میں ابھر کر سامنے آنے والی سب سے بڑی قوت اسلام ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ بھی خطرہ ہے کہ اس کے بعد دنیا بھر میں دبی ہوئی سامراج مخالف قوتیںآزادی کا علم اٹھا کر کھڑی ہو جائیں گی۔ اسے یہ بھی ڈر ہے کہ افغانستان میں ابھرنے والی اسلام پسندی کی لہر سے اسلامی ایٹمی قوت پاکستان سب سے پہلے متاثر ہوگی جس کے نتیجے میں پاکستان میں اسلام پسندوں کی حکومت آسکتی ہے۔ چنانچہ اس وقت امریکا کا پورا زور ان خطرات سے تحفظ کی ضمانت حاصل کرنا ہے۔ جس کے لیے وہ فی الوقت یہ طریقہ اپنا رہا ہے کے پاکستان حکومت اسلام پسند طبقے سے برسر پیکار رہے۔ یہ جنگ کسی طرح ختم نہ ہو۔

اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان دوفریقوں میں کشیدگی نفرت اور ذہنی فاصلے بڑھتے رہیں گے۔ ان کی باہمی کشمکش دونوں کو کسی اور دشمن سے نمٹنے کی فرصت ہی نہیں دے گی۔ ا س مقصد کے لیے اگر امریکا بھارتی ایجنسی کوخصوصی ٹاسک دے چکاہواورپاکستان میں دہشت گردی کے بہیمانہ واقعات کاسلسلہ ایک بارپھر شروع ہوگیاہو، اورہمارے محافظ ادارے ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کو پکڑنے میں کامیاب ہورہے ہوں تواس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ یہ تو امریکا کی سوچ اور اس کے منصوبے ہیں، مگر یقین ہے کہ امریکا جس طرح صدیوں کی منصوبہ بندی کرکے دنیا بھر کو زیر نگیں کرنے کا خواب پورا نہیں کر سکا، اس طرح وہ اپنی شکست کے بد اثرات کی روک تھام بھی نہیں کر سکے گا۔ امید ہے کہ پاکستانی حکام اورعوام مل کر ان حقائق کو سمجھ لیں گے، ’’را‘‘ کی سازشیں پوری طرح بے نقاب ہوں گی اوران شاء اللہ مستقبل کاپاکستان نظریاتی، سیاسی اورعسکری حوالوں سے مضبوط ترہوگا۔