تحریر مفتی ابولبابہ شاہ منصور
وہ جو مشہور مصرعہ ہے: ’’ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔‘‘ ہفت روزہ اخبار کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اس میں ’’باعث تاخیر‘‘ کی فہرست کچھ زیادہ ہی طویل ہوتی ہے۔ مضمون لکھا جاچکا ہوتا ہے۔ اخبار چھپنے چلا جاتا ہے اور ایسا واقعہ ہوجاتا ہے جس کے علاوہ کوئی موضوع اس ہفتے ہونا ہی نہیں چاہیے، مگر قارئین جب اخبار کھولتے ہیں تو انہیں سب کچھ ملتا ہے سوائے اس کے جس کی انہیں توقع تھی۔
غازی ممتاز قادری شہیدؒ کی مرتبہ بھی صورت حال کچھ ایسی ہی رہی۔ بڑے عرصے بعد چمن میں کوئی دیدہ ور پیدا ہوا تھا اور اس کی شہادت کے واقعے نے دل کی تارو ںکو کچھ اس انداز میں چھیڑا تھا کہ لاکھوں لوگوں نے ایمان و عقیدت کے نجانے کون کون سے مقامات چند لمحوں میں طے کرلیے تھے، لیکن یہ سب کچھ پچھلا کالم لکھے جانے، بلکہ چھپ جانے کے بعد ہوا اور ہم دل کی بات دل میں ہی لیے رہ گئے۔ ویسے بھی جب موضوع ایسا ہو تو وہاں باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
عقل دور کھڑی تماشا دیکھتی رہتی ہے اور عشق بے خطر آتش نمرود میں کود کر ابدی مقام پاجاتا ہے۔ دنیا والے کیا جانیں؟ دل والوں کی دنیا کا اسلوب و انداز کیسا منفرد اور کیسا دل رُبا ہوتا ہے؟ کچھ موضوع ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں نہ لفاظی چلتی ہے اور نہ عقلی فارمولوں کی جمع تفریق کا کوئی گزر ہے۔ بس شفاعت کے امیدواروں میں نام لکھانے کی غرض سے ہم جیسے گنہگار بھی قلم کا صدقہ نہ دینا یا خون دل میں ڈبوکر نذرانہ عقیدت پیش نہ کرنا دنیا کی سب سے بڑی شقاوت سمجھتے ہیں۔ کوچہ جاناں میں حالات کچھ بھی ہوں، دیوانے متلاشی رہتے ہیں کہ دل بیچ آئیں یا جان دے آئیں، بس اشارہ ابرو کی دیر ہے۔ راقم الحروف دو ہفتے قبل لکھ چکا تھا کہ ہمارے آئین میں دو ضابطے ایسے ہیں کہ انہوں نے بہت سے طوفانوں کے آگے روک لگائی ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک کو منسوخ کیا جاچکا ہے۔ دوسرے کے لیے کوششیں ہورہی ہیں، میدان تیار ہورہا ہے اور خدانخواستہ اگر مغرب کی ایماء پر اسے بھی منسوخ کردیا گیا تو ہم لوگوں کے بقا کی روحانی ضمانت ختم ہوجائے گی اور پھر نجانے کس وقت نقارے پر چوٹ پڑجائے، کلمہء حق نازل ہوجائے یا پھر صور ہی پھونک جائے۔
پہلا: حدود آرڈیننس جو اللہ کی قائم کردہ حدود کی حفاظت اور فحاشی و عریانی روک تھام کے لیے تھا۔ جب تک یہ نافذ تھا تو بے ہودگی کی کھلم کھلا کسی کو ہمت نہ ہوتی تھی۔ جب سے یہ منسوخ ہوا پارکوں کے ہر درخت، ہر بس اسٹاپ پر آپ کو آزاد خیال جوڑے کھل کھیلتے نظر آسکتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
دوسرا: رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی تحفظ کے لیے بنایا گیا قانون ہے۔ نجانے ہماری تاریخ کے کون سے سعید لمحے تھے جن میں یہ قانون منظور ہوا اور مغرب کی اس مہم کے آگے بند باندھ گیا جو وہ حسد و بغض سے جل بھن کر چلا رہا ہے۔ اس سے مسلم دنیا کی وہ روحانی قوت برداشت نہیں ہوتی جو دامن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے چمٹے رہنے کے سبب ادنیٰ درجے کے مسلمان کو بھی حاصل ہے اور جس کی بنا پر وہ ہر مرتبہ تین کی گنتی سے پہلے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسے جتنا بھی مغرب زدہ، دنیا پرستی میں مبتلا، دین سے دور، شہوات و لذات کا خوگر بنادیا جائے، مگر ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز لگنے کی دیر ہے کہ وہ جھرجھری لے کر اُٹھتا ہے اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر فدا ہوکر یا فدا ہونے والے پر فدا ہوکر حیات جاوداں پاجاتا ہے۔
انسانی تاریخ میں عقیدت و فریفتگی اور عشق و محبت کا ایسا جذبہ نہیں جو اُمت محمدیہ میں اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے پایا جاتا ہے۔ انسان نامی مخلوق مادّی یا روحانی عشق میں مبتلا تو ہوتی رہتی ہے، لیکن ایسا والہانہ عشق، ایسا فدایانہ جذبہ، نہ آسمان نے پہلے دیکھا ہے اور نہ بعد میں دیکھ سکے گا۔ خاص کر مسلمانانِ برصغیر میں یہ جذبہ جس بے مثال انداز میں ہے اس کی تو کوئی نظیر صحابہ کرامؓ کے بعد اُمت کے دوسرے طبقات میں ملنا مشکل ہے۔ غازی علم دین سے لے کر غازی ممتاز قادری تک انہوں نے بارہا ثابت کیا کہ ہمارے عشق کی حد کے لیے دیوانہ یا ازخود رفتہ جیسے الفاظ کم ہیں۔ دنیا والوں کے پاس ابھی ایسی لغت نہیں کہ وہ ہمارے جذبے یا اس کی شدت کی صحیح تعبیر کرسکیں۔ ایسا ایک بار نہیں، انگریز کے دورِ حکومت سے لے کر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی بے دینی تک، بارہا ایسا ہوا ہے کہ ہم نے ثابت کیا: ہمیں ہر میدان میں شکست دی جاسکتی ہے، لیکن اس میدان میں اگر کسی نے ہمیں چھیڑنے کی کوشش کی تو اسے خاک چاٹنے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ غازی علم دین شہیدؒ کے کارنامے میں جیسے علامہ اقبال سے لے کر عام مسلمان تک سب کچھ بھلاکر بے خود ہوگئے تھے، بالکل اسی طرح بلکہ کچھ زیادہ ہی بے مثال اور لافانی مناظر
غازی ممتاز قادری شہیدؒ کی شہادت کے حوالے سے دیکھنے میں آئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زمانہ جیسا بھی بدل جائے، گنہگار مسلمانوں کا دامن رسالت سے چمٹے رہنا آفاقی معجزہ ہے جو بدلا ہے نہ بدل سکے گا۔ پنڈی اسلام آباد اور پھر پاکستان بھر کے مسلمانوں نے، جنازے میں شریک ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے، اور وہاں حاضری کی سعادت پانے والے علماء و مشایخ نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کردی ہے کہ یہ دنیا کیا، لوح و قلم اسی کے ہیں جو محبوب دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کرے۔ سلام عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ سلام فدا ہوکر امر ہوجانے والوں پر۔ سلام فنا کی تہہ میں بقا کا راز پاجانے والوں پر۔