بات واضح ہوچکی……………تحریر اوریا مقبول جان

 

 

وہ جن کو زعم تھا کہ ہم رائے عامہ تخلیق کرتے ہیں۔ ہم لوگوں کو آزادیٔ اظہار کا راستہ دکھاتے ہیں۔ ہمیں صحافتی آزادی کسی ڈکٹیٹر نے تحفے میں نہیں دی، بلکہ ہم نے مدتوں جدوجہد کرکے یہ آزادی حاصل کی۔ 29 فروری اور یکم مارچ 2016ء کو لوگوں نے ان کے یہ تمام دعوے غلط ثابت ہوئے۔ عوام نے یہ ثابت کر دکھایا کہ تم وہ بزدل اور مصلحت کوش ہجوم ہو جو صرف اپنے نہیں، بلکہ اپنے آقاؤں کے مفاد میں لکھتا اور بولتا ہے۔ جس آزادیٔ صحافت اور حرمت قلم کو وہ اپنا آدرش اور مقصد حیات سمجھتے تھے، کوئی اتنی آسانی سے ان سے چھین کے لے جائے گا۔ پورے ملک میں پھیلے لاکھوں صحافیوں میں سے کسی ایک نے بھی صدائے احتجاج بلند نہ کی۔ یہ وہی لوگ تھے جن کے چند پروگراموں پر افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں پرویز مشرف نے پابندی لگائی تھی تو وہ تمام اینکرپرسن اپنے پروگرام لے کر اسلام آباد کی ایک سڑک پر آ گئے تھے اور وہاں عوام کے سامنے اپنے پروگرام منعقد کرتے، لیکن ان سب کو ان دو دنوں میں یہ سب کچھ یاد نہ آیا۔ اپنے خوبصورت دفاتر میں بیٹھے اس بات پر بحث کرتے رہے کہ ٹھیک ہوا یا نہیں ہوا؟ لیکن شاید سب لوگ یہی چاہتے تھے۔

ذرا اس پورے قصے کی تاریخ میں جائیں تو آپ کو میڈیا کے بڑے بڑے نام اس داستان سے کھیلتے ہوئے اور اپنا مقصد حاصل کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ جس دن آسیہ کو توہین رسالت کے جرم میں عدالت سے سزا ہوئی تو اس دن سے لے کر سلمان تاثیر کے واقعے تک آپ تمام ٹی وی چینلز کے پروگرام ملاحظہ کریں۔ آپ کو یہ سب کے سب عدالت، قانون، انصاف اور حکومت کا مذاق اڑاتے نظر آئیں گے۔ مملکتِ خداداد پاکستان کی وہ این جی اوز جو اس ملک میں موجود مغرب کے سفارت خانوں سے ایک خاص نظریے اور مقصد کی ترویج کے لیے مسلسل مدد حاصل کر تی ہیں، جن کے گروہ کو سول سوسائٹی کا نام دیا جاتا ہے۔ ایسا گمراہ کن نام جیسے 18 کروڑ لوگوں میں یہ چار یا پانچ سو لوگ ہی سول ہیں، جب کہ باقی پوری قوم تو غیرمہذب یا غیرسول ہیں۔ ان پروگراموں میں ان کے کرتا دھرتا لوگ آکر آسیہ کی سزا، عدالت اور توہین رسالت کے قانون پر بحثیں کرتے رہے۔ ان کے لہجے میں تمسخر بھی تھا اور تحقیر بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر پروگرام میں گورنر سلمان تاثیر کو بلاوجہ گھسیٹا گیا۔ میڈیا کے یہ کرتا دھرتا جانتے تھے کہ وہ اس بارے میں کیسے خیالات رکھتا ہے، لیکن میڈیا کو تو اپنا چورن بیچنا تھا۔ ریٹنگ کی دھن میں پاگل ہوئے یہ سب لوگ اسے بار بار دکھاتے اور بار بار پروگراموں میں اس کے منہ سے ایسے فقرے اگلوانے کی کوشش کرتے جس سے اشتعال پیدا ہو۔

ان کا ایک خاص طریقۂ کار ہے۔ پاکستان میں کسی بھی قسم کی کوئی برائی، ظلم، زیادتی ہو، انہوں نے بدنام کرنے کے لیے اسلام کو نشانہ ضرور بنانا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کاروکاری سندھی یا بلوچ معاشرہ کی ہزاروں سال پرانی رسم ہے جو اسلام کے آنے سے پہلے سے جاری ہے، لیکن جب بھی غیرت کے نام پر کوئی قتل ہوتا ہے یہ سندھی یا بلوچ قوم پرست کو نہیں بلائیں گے، بلکہ ایک کمزور سے جعلی مولوی کو بلائیں گے اور اس کو گھیر گھار کے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ سارا قصور مذہبی طبقے کا ہے۔ کس قدر بھونڈی دلیل ہے کہ مولوی منبر پر بیٹھ کر ایسے جرائم کو روکتا کیوں نہیں؟ تم مولوی کی سنتے ہو۔ کیا تم نے تو اسے بچوں کے کان میں اذان دینے، نکاح پڑھانے اور جنازے کی دعا کے لیے رکھا ہوا ہے؟

پورے دو ماہ پاکستان کے ٹیلی ویڑن چینلز پر ایک ہنگامہ برپا رہا۔ وہ جس نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا۔ جس نے کہا تھا کہ ’’میں اسلام جو اس پاکستان کا نظریہ اور بنیاد ہے اس کا تحفظ کروں گا۔‘‘ جسے اسمبلی کے بنائے ہوئے قانون اور عدالت کے فیصلوں کا دلوں بھی احترام پیدا کرنا تھا۔ ان ٹاک شو والوں نے اسے گھسیٹ گھسیٹ کر اس سے ایسے الفاظ کہلوائے جو اس قانون اور عدالت کے فیصلے کو مشکوک کرتے تھے۔ پھر ایک دن وہ اپنی جان سے چلا گیا۔ میڈیا تو ایک جانب اس کی اپنی پارٹی میں بھی سناٹا چھا گیا اور اس کے لیڈر منہ چھپاتے پھرتے رہے۔

ایسے میں اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میڈیا کے یہ بڑے بڑے نام ممتاز قادری کے جنازے پر لگائی گئی پابندی کو ناپسند کرتے تھے، اسے آزادیٔ صحافت پر قدغن خیال کرتے تھے تو یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کے حق میں کوئی شواہد موجود نہیں۔ اس لیے کہ یہ لوگ خود بھی اس جنازے کو دکھانا ہی نہیں چاہتے تھے۔ کیسے دکھاتے؟ جس میڈیا نے گزشتہ 15 سالوں میں اسلام اور مسلمانوں کا یہ چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہو کہ یہ شیعہ، سنی، دیوبندی اور بریلوی مسالک میں الجھے ہوئے ہیں۔

یہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ ایسے میں میڈیا کی موت تھی کہ وہ ان لوگوں کو دکھاتا جو ہر مسلک سے تعلق رکھتے تھے، لیکن عشق رسول کی لڑی نے انہیں ایک ساتھ پرو دیا تھا۔ میڈیا کا دوسرا ہتھیار یہ تھا کہ وہ یہ ثابت کرتا پھرے کہ اسلام کے پیروکار تشدد پسند ہوتے ہیں، توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ انہیں یہ سب کیسے گوارا تھا۔ اتنا بڑا ہجوم کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا نہ ہوسکا، اس قدر پرامن رہے، دو جنازے اس ملک میں نزدیکی دور میں ہیں۔ ایک بے نظیر بھٹو کا جنازہ اور سوگ کہ تین دن تک اس ملک میں ہر طرح کا ظلم روا رکھا گیا۔ درجنوں ریلوے اسٹیشنوں کو آگ لگائی گئی۔ ہزاروں گھروں کو لوٹا گیا۔ عصمتیں تک تار تار کی گئیں اور یہ سب میڈیا نے دکھایا اور پھر اس کی کوکھ سے اپنی پسند کا ہیرو آصف زرداری نکالا جس کے ’’پاکستان کھپے‘‘ پر امن قائم ہوا،

لیکن میڈیا کو یہ داڑھی اور عمامے والے نظر نہ آئے جو کہہ رہے تھے کہ ہم امن کی ضمانت د
یتے ہیں اور انہوں نے وہ کر دکھایا، لیکن ایسا کچھ لکھنے سے ان کالم نگاروں کے دل پر چھریاں چلتیں، ان اینکر پرسنوں کا دل بیٹھ جاتا جو یہ ثابت کرنے میں اپنی زندگیاں گزار چکے ہیں کہ مسلمان صرف شدت پسند اور دہشت گرد ہوتا ہے۔

دو دن پاکستان میڈیا کے 80 سے زیادہ چینلز کو چار یا پانچ انچ کے موبائل فون پر لگی ہوئی اسکرین نے شکست دے دی اور اسی سوشل میڈیا کی فوٹیج نکال کر ٹی وی چینلوں پر چلانے کو مجبور ہیں۔ ماتم کر رہے ہیں کہ ہمارے صحافیوں پر تشدد ہوا۔ کس قدر دوغلا معیار ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے قاتل کہا اور پھانسی کی سزا سنائی۔ اسے پاکستان کا پورا میڈیا شہید بھی کہتا ہے اور اس کی برسی کو ہر سال براہ راست نشر بھی کرتا ہے۔ ایمل کانسی نے امریکا میں دو لوگوں کو قتل کیا۔ اسے امریکا کے حوالے کیا گیا اور ہم نے امریکی اٹارنی جنرل سے یہ فقرہ بھی سنا کہ ’’پاکستانی سرمائے کے لیے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں۔‘‘ جس دن اسے سزا دی گئی پرویز مشرف کی آمریت تھی، لیکن اس پر پروگرام ہوتے رہے۔ میں خود کوئٹہ میں اس کے جنازے میں موجود تھا۔ اسے لائیو دکھایا جا رہا تھا۔ اسامہ بن لادن کی موت کے بعد ٹیلی ویڑن چینلوں پر کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ ایک مصنوعی خوف پھیلایا گیا کہ پتہ نہیں کیا ہو جائے گا، لیکن ان سب کو اندازہ نہیں کہ کچھ جرم ایسے ہوتے ہیں جن کی ایف آئی آر، زمینوں پر نہیں آسمانوں پر درج ہوتی ہے۔ جیسے یہاں اعانت جرم پر سزا ہوتی ہے ویسے ہی آسمانوں پر بھی اعانت جرم پر سزا سنائی جاتی ہے بلکہ وہ سزا شاید جرم کرنے والے سے بھی زیادہ سخت ہے۔

رسول اکرم نے فرمایا: ’’اللہ نے جبریل کو ایک بستی پر عذاب مسلط کرنے کے لیے بھیجا۔‘‘ جبریل واپس آ گئے۔ کہا: ’’وہاں ایک ایسا شخص ہے جس نے آپ کی عبادت میں آنکھ جھپکنے جیسی غفلت بھی نہیں برتی۔‘‘ اللہ نے فرمایا: ’’یہ وہ بدبخت ہے جو عابد و زاہد تھا، لیکن میرے نام کی غیرت پر اس کے چہرے کا رنگ نہیں بدلتا تھا۔ اس کے اوپر پوری بستی الٹ دو۔‘‘ ( مفہوم حدیث)۔ اہل نظرجب کہتے تھے کہ پاکستان اللہ کے غیظ و غضب کا شکار ہونے والا ہے، سیلابوں اور زلزلوں کی آمد ہے۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیسے، لیکن شاید اب تو بات روشن ہو چکی ہے۔ اللہ ہمیں اپنے عذاب سے محفوظ رکھے اور اگر ہماری موت یقینی ہے تو ہمیں ان لوگوں کی معیت میں اٹھائے جو اللہ کے محبوب ہیں۔