احسن صاحب وہ یونیورسٹی کہاں ہے

احسن صاحب وہ یونیورسٹی کہاں ہے
جاوید چوہدری  جمعرات 25 فروری 2016

پروفیسر احسن اقبال ملک کے چند اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں‘ انھوں نے دنیا کی چار بڑی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی‘ یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے وارٹن اسکول سے ایم بی اے کیا‘ یہ ہارورڈ یونیورسٹی کے کینڈی اسکول کے طالب علم رہے اورانھوں نے جارج ٹاؤن یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے بھی کورسز کیے‘ یہ اعلیٰ تعلیم کے بعد سیاست میں آئے اور آج تک ان کے ہاتھ اور منہ دونوں کرپشن اور ’’زمینی حقائق‘‘ کی کالک سے محفوظ ہیں۔
سیاست میں انھوں نے اچھا نام کمایا مگر یہ ان عزائم کو تکمیل تک نہیں پہنچا سکے جن کو یہ جیب میں ڈال کر سیاست میں آئے تھے ‘ ان کے اصل عزائم کیا تھے؟یہ ایک دلچسپ کہانی ہے‘ احسن اقبال ملک میں اس سطح کی ایک یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے جس قسم کی یونیورسٹیوں میں یہ خود پڑھتے رہے تھے‘ آپ کو یاد ہوگا‘ احسن اقبال نے23مارچ 2010کو پاکستان میں ایک سو دس ملین ڈالر کی لاگت سے ’’انٹرنیشنل یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ اکنامکس‘‘ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا‘ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا‘ میں نے اس اعلان پر احسن اقبال کو مبارکباد بھی پیش کی تھی اور یہ بھی لکھا تھا’’ احسن اقبال کا اصل سیاسی کیرئیر 23مارچ سے شروع ہوا ہے‘‘۔
احسن اقبال نے دعویٰ کیا تھا‘ یہ یونیورسٹی پرائیویٹ ہو گی‘ یہ راولپنڈی اسلام آباد میں قائم ہو گی‘ اس کی زمین کے لیے پنجاب اور وفاقی حکومت دونوں سے درخواست کی جائے گی اور احسن اقبال فنڈز کے لیے سر سید احمد خان کی طرح ہر صاحب حیثیت کے دروازے پر جائیںگے‘ یہ بیرون ملک موجود پاکستانیوں سے بھی رابطہ کریں گے اور پاکستان کے تاجروں‘ صنعت کاروں‘ سرمایہ داروں اور عام لوگوں سے بھی مدد لیںگے۔
احسن اقبال کا خیال تھا اگر انھیں 25ملین ڈالر مل جائیں تو یونیورسٹی کا کیمپس اور ابتدائی فکیلیٹیز مکمل ہو جائیں گی۔ ان کا خیال تھا‘ انھیں یونیورسٹی کے لیے دو ہزار دس بانی درکار ہیں‘ یہ 2010 لوگ ایک سو دس ملین ڈالر فراہم کریں اور اسلامی دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی کی بنیاد میں اپنا نام رکھ دیں‘یہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ لوگوں کا مقدر بدل دیں۔
احسن اقبال کو اس یونیورسٹی کا خیال 2010 میں پہلی بار نہیں آیا تھا‘ یہ 1992سے یہ یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے‘ وہ میاں نوازشریف کا پہلادورتھا‘ میاں صاحب ازبکستان کے دورے پر تھے‘ وہاں ازبک حکومت کے ساتھ معاہدہ ہوا‘ پاکستان میں عالمی معیار کی ایک یونیورسٹی قائم کی جائے گی‘ ازبک حکومت اپنے طالب علموں کو اس یونیورسٹی میں داخلہ دلائے گی۔
وزیراعظم نے پاکستان آ کر یہ ذمے داری احسن اقبال کو سونپ دی‘ احسن اقبال نے منصوبہ تیار کیا‘ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے 1993 میں منظوری دے دی لیکن یونیورسٹی بننے سے پہلے ہی میاں صاحب کی حکومت ٹوٹ گئی‘ 1994 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت آگئی‘ احسن اقبال نے یونیورسٹی کے قیام کے لیے کوششیں جاری رکھیں لیکن حکومت نے اسے مسلم لیگ کی یونیورسٹی قرار دے کر منصوبہ سرد خانے میں پھینک دیا۔
1997 میں دوبارہ مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو احسن اقبال نے یونیورسٹی کے منصوبے کو زندہ کر دیا‘ 1999 میں وفاقی کابینہ نے یونیورسٹی کی منظوری دے دی لیکن بدقسمتی سے چند ماہ بعد پھر حکومت ختم ہو گئی‘ جنرل پرویز مشرف آئے تو میاں نواز شریف کے دوسرے منصوبوں کے ساتھ یہ منصوبہ بھی ’’غدار‘‘ ہو گیا۔ احسن اقبال نے ہائی کورٹ سے رابطہ کیا‘ ہائی کورٹ نے وزارت قانون اور وزارت تعلیم کو طلب کیا لیکن حکومت نے اس دوران یونیورسٹیز کے لیے کرائی ٹیریا تبدیل کر دیا چنانچہ معاملہ دوبارہ کھٹائی میں پڑ گیا‘ پاکستان مسلم لیگ ق بنی تو جنرل مشرف نے احسن اقبال کو پاکستان مسلم لیگ ق میں شمولیت کے بدلے یونیورسٹی کی آفر دے دی مگر احسن اقبال نے یہ پیش کش مسترد کر دی اور یوں یہ یونیورسٹی ایک بار پھر کولڈ اسٹوریج میں چلی گئی۔
یہاں تک کہ احسن اقبال نے 23مارچ 2010 کے دن حکومتوں کے  بجائے عوام کی مدد سے یونیورسٹی قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا ’’میں نے 23مارچ کا دن اس لیے منتخب کیا کہ یہ خوابوں کی کاشت کا دن ہے‘ آج سے ستر سال پہلے اس زمین پر خوابوں کی کاشت شروع ہوئی تھی‘ میں بھی اسی دن تعلیم کے خواب کا بیج بو رہا ہوں اور یہ بیج انشاء اللہ بہت جلد تناور درخت بنے گا‘‘۔
مجھے آج بھی یاد ہے‘ میں نے جب احسن اقبال کو یہ منصوبہ عوام کے سامنے پیش کرتے دیکھا تھا تو میں نے سپاہی بن کر اس خواب میں ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا‘ کیوں؟ کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں ہم جب تک تعلیم کے میدان میں جوہری طاقت نہیں بنیں گے ‘ ہم اس وقت تک ایک آزاد اور خودمختار قوم نہیں بن سکتے ۔ پاکستان میں اس وقت ساڑھے چھ کروڑ نوجوان ہیں‘ ان کی عمر 17 سے 23سال کے درمیان ہے‘ ان میں سے صرف چار فیصد نوجوان کالج اور یونیورسٹی کی نعمت سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں‘ ہمارے مقابلے میںبھارت کے 11فیصد‘ ملائشیا کے 18فیصد اور چین کے 20 فیصدنوجوان کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پہنچتے ہیں۔
گویا ہمارے ملک کے 96فیصد نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ آپ خود سوچئے ان 96 فیصد نوجوانوں کا کیا مستقبل ہے؟ کیا یہ لوگ چور‘ ڈاکو اور قاتل نہیں بنیں گے؟ کیا یہ خود کش بمبار نہیں بنیں گے؟یہ ایک حقیقت ہے‘ دوسری حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے‘ آپ کسی دن کالج یا یونیورسٹی تک پہنچنے والے ان چار فیصد نوجوانوں کی حالت بھی دیکھیے‘ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے‘ ان میں سے ستر فیصد نوجوان آرٹس مضامین لیتے ہیں اور تیس فیصد سائنس‘ مینجمنٹ اور فنانس کے شعبوں میں داخل ہوتے ہیں۔ آپ یہ فیصلہ بھی کیجیے آرٹس کے ان ستر فیصد نوجوانوں کا کیا مستقبل ہے؟ کیا یہ کلرک‘ چپڑاسی ‘ نائب تحصیلدار اور کانسٹیبل سے آگے سوچ سکتے ہیں؟ ہمارے ملک کی پسماندگی کی جڑیں ان سوالوں کے جوابوں میں گڑھی ہیں۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا‘ ہمارے سیاسی نظام کے پاس ان مسائل کاکوئی حل نہیں اور ہم اگر ملک کو بچانا‘ اس کو آگے بڑھانا اور حالات کا رخ بدلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اجتماعی کے  بجائے انفرادی اقدامات کرنا ہوں گے‘ ہمیں عبدالستار ایدھی اور رمضان چھیپا کی طرح کامیاب ادارے بنانا ہوں گے چنانچہ میں نے جب احسن اقبال کو اس نیک کام کا بیڑا اٹھاتے دیکھا تو میں خوش ہو گیا اور میں نے لکھا ’’ہمارے ہر اس سیاستدان جس کی کریڈیبلٹی قائم ہے اسے احسن اقبال کی طرح یونیورسٹیوں‘ کالجوں‘ اعلیٰ معیار کے اسکولوں‘ اسپتالوں‘ ڈسپنسریوں‘ پینے کے صاف پانی اور ماحول کی صفائی جیسے منصوبوں پر کام کرنا چاہیے مثلاً خواجہ آصف اپنے والد کے نام پر اسپتال قائم کریں‘ خواجہ سعد رفیق اپنے والد کے نام پر ٹیکنیکل تعلیم کے کالج بنائیں‘ رضا ربانی اور منور حسن ڈسپنسریوں اور پینے کے صاف پانی کی اسکیمیں شروع کریں‘ ایم کیو ایم اور اے این پی کے لیڈرز ملک بھر میں سستے بازار لگائیں اور جے یو آئی ’’صفائی نصف ایمان ‘‘ کا علم اٹھا لے تو اٹھارہ کروڑ لوگوں کا مقدر بدل سکتا ہے ۔
پاکستان کے ہمارے سیاستدانوں‘ بزنس مینوں اور صنعت کاروں پر بے تحاشا احسان ہیں‘ یہ ملک نہ ہوتا تو ان میں سے نوے فیصد لوگ کسی مہاجن یا کسی ہندو لالے کی دکان پر جھاڑو مار رہے ہوتے‘ یہ اس ملک کی مہربانی ہے ‘یہ لوگ آج پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے بھی دیکھے جارہے ہیں اور یہ اختیار اور اقتدار کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں لیکن اب اللہ کے کرم کو پے بیک کرنے کا وقت آ گیا ہے‘ یہ ملک اب ان لوگوں سے اپنی مہربانیوں کے بدلے کا طلب گار ہے‘ یہ ملک چاہ رہا ہے‘ یہ لوگ اب احسن اقبال کی طرح انفرادی سطح پر کوئی نہ کوئی علم اٹھا لیں‘ یہ اللہ کے کرم اور ملک کی مہربانیوں کو پے بیک کریں اس سے پہلے کہ مہلت ختم ہو جائے ۔
مجھے آج بھی یاد ہے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے میرے اس آئیڈئیے کو بہت سراہا گیا ‘ احسن اقبال نے شکریے کے لیے مجھے فون کیا اور فرمایا ’’یہ یونیورسٹی میری زندگی کا سب سے بڑا مشن ہے‘ میں ہر صورت یہ مشن پورا کروں گا‘ میں نے انھیں یقین دلایا ’’آپ کو اس مشن میں جہاں بھی میری ضرورت پڑے‘ آپ مجھے اپنے دروازے پر کھڑا پائیں گے‘‘ احسن صاحب نے دوبارہ شکریہ ادا کیا اور بات ختم ہوگئی‘ سیاست اور وقت کا دریا اپنی رفتار سے بہتا رہا‘ 2013 کے الیکشن ہوئے اور احسن اقبال طاقتور وزیر بن کر قوم کو اصلاحات کی نوید سنانے لگے۔
آج وقت 2016 میں داخل ہو چکا ہے‘ اس دوران احسن اقبال کے ہاتھ سے بے شمار منظوریاں ہوئیں‘ اصلاحات بھی یقینا ہوئی ہوں گی اگر نہیں بنی تو یہ یونیورسٹی نہیں بنی جس کا ڈھول احسن اقبال 2010 میں قوم کے سامنے پیٹتے رہے‘ آپ احسن اقبال کا کمال دیکھیے‘ یہ 2010 میں یونیورسٹی کے لیے سرسید احمد خان کی طرح بھیک مانگنے کے لیے تیار تھے لیکن آج جب یہ تعلیم کے وائسرائے ہیں تو ان کے پاس اپنے ہی ’’برین چائلڈ‘ ‘ کے لیے وقت نہیں‘ یہ اس منصوبے کو بھول چکے ہیں جس کے لیے میرے جیسے لوگ ان کے سپاہی بننے کے لیے تیار تھے‘ کیا یہ تضاد نہیں اور کیا ہمیں اس تضاد پر ان سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے ’’احسن صاحب وہ یونیورسٹی کہاں ہے‘‘۔