کہاں ہیں رواداری کے دعویدار؟
تحریر یاسر محمد خان
’’جیلانڈز پوسٹن‘‘ ڈنمارک کا سب سے کثیر الاشاعت اخبار ہے۔ یہ کوپن ہیگن کے علاوہ 10 ڈینش شہروں سے شائع ہوتا ہے۔ 30 ستمبر 2005ء کو اس اخبار نے دنیا بھر میں بدنامی کمائی۔ اس نے 12 گستاخانہ خاکے شائع کیے۔ اشاعت سے پہلے اخبار کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں کوپن ہیگن سے شائع ہونے والی ایک کتاب زیر بحث آئی۔ ’’کارکے گور‘‘ نامی رائٹر کو اس کتاب کے لیے ایک کارٹونسٹ چاہیے تھا۔ ڈنمارک کے بڑے کارٹونسٹوں نے گستاخانہ خاکے بنانے سے انکار کردیا تھا۔ جیلانڈز پوسٹن نے اس رذیل ترین کام کا بیڑا اُٹھایا اور اخبار کے کارٹون نگاروں کو خاکے بنانے کا فریضہ سونپا۔ اس بورڈ میٹنگ میں ان خاکوں کو شائع کرنے کی منظوری دے دی گئی۔
30 ستمبر کو خاکے شائع ہوتے ہی ڈنمارک میں طوفان آگیا۔ مسلم سولیڈیرٹی موومنٹ نامی تنظیم نے ان خاکوں کے خلاف ایک مظاہرہ کیا۔ اس میں 3500 مسلمان شریک ہوئے۔ انہوں نے اخبار کی کاپیاں جلائیں۔ پولیس نے انہیں منتشر کردیا۔ 15 اکتوبر کو سارے ڈنمارک میں مسلمانوں نے شہروں شہروں جلوس نکالے۔ کوپن ہیگن میں وزیراعظم کے دفتر میں ایک یادداشت پیش کی گئی۔
حکومت کو اس صحافتی دہشت گردی روکنے کے لیے اپنا رول ادا کرنے کی درخواست کی گئی۔ ڈینش وزیر اعظم نے آزادیٔ اظہار رائے کا بہانہ کرکے معاملے سے جان چھڑالی۔ 12 دسمبر 2005ء کو ڈینش کورٹ میں ایک کیس دائر کیا گیا۔ عدلیہ سے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے والے پریس کو روکنے کی استدعا کی گئی۔ 31 جنوری 2006ء کو ڈینش کورٹ نے خاکوں کی اشاعت کو درست قرار دے کر درخواست خارج کردی۔ اس دوران یہ خاکے جرمنی، سوئیٹرزلینڈ، پولینڈ، فرانس، میکسیکو، اٹلی، فن لینڈ، آئس لینڈ، رومانیہ، بلغاریہ، ہنگری اور چیک ری پبلک کے اخبارات میں وقفے وقفے سے شائع ہونا شروع ہوگئے۔ عیسائی یورپ سے نکل کر یہ سیلابِ بلا لاطینی امریکا، اسٹریلیا، نیوزی لینڈ جیسے دور افتادہ ملکوں اور براعظموں میں پھیل گیا۔ کئی ملکوں کی حکومتوں نے فری پیرس کے خوشنما نعرے کی اوٹ میں پناہ لے لی۔ اخبارات کو اس شیطانی فعل سے روکنے کی کوئی بندش یا رکاوٹ کھڑی نہ کی گئی۔ امریکا اور برطانیہ نے اپنے اخبارات کو ان خاکوں کے شائع کرنے سے روک دیا۔ کئی صحافیوں کو ملازمتوں سے برخاست کیا گیا۔ اس ضمن میں سخت قوانین بنائے گئے اور یوں ان ملکوں میں نسبتاً امن رہا۔
٭ ان حالات میں سارے مسلمان ملکوں کی قیادت کو آگے آنا ہوگا۔ ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جو اس شرانگیزی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے۔ ٭
مارچ 2006ء میں بیرون ملک 11 ڈینش سفیروں نے وزیراعظم کو خط لکھے۔ اُسے ان سفارت خانوں پر حملوں اور جانی نقصان کے احتمال کے بارے میں بتایا۔ مشرق وسطیٰ میں 15.4 فیصد ڈینش تجارت پر زد لگی۔ ڈیری مصنوعات کا بائیکاٹ ہوا۔ یوں ڈنمارک کی اکانومی نے زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے۔ ڈنمارک کے مسلمان لیڈروں نے مشرق وسطیٰ کے دورے کیے۔ مسلم حکومتوں کو یورپ میں پھیلنے والی اس بدترین دہشت گردی کے بارے میں آگاہ کیا۔ شام میں ڈنمارک اور ناروے کے سفارت خانوں پر حملے ہوئے۔ پاکستان میں2008ء میں ڈینش ایمبیسی کو نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر میں ڈنمارک کے باشندے غیرمحفوظ قرار پاگئے اور اپنے ملک لوٹ گئے۔ ان توہین آمیز خاکوں کی مسلسل اشاعت کے بعد 2006ء کا سارا سال مسلم دنیا میں مظاہروں کا سال رہا۔ یورپی ایمبیسیوں اور مشنوں پر دنیا بھر میں حملے جاری رہے۔ 200 سے زائد افراد ان کارروائیوں میں ہلاک ہوگئے۔ اپریل 2006ء میں ڈینش وزیراعظم نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے معافی مانگی۔ ان خاکوں کیا شاعت پر گہرے افسوس کا اظہار کیا اور خاکوں کو رکوانے پر اپنی بے بسی کا بھی اظہا رکیا۔
26 اپریل 2006ء کو جیلانڈز پوسٹن نے اپنے فرنٹ پیج پر مسلمانوں کی دل آزاری پر گہری ندامت کا اظہار کیا۔ آیندہ ان خاکوں کو شائع کرنے سے اجتناب برتنے کا تہیہ کیا۔ اس اعتذار کو عربی زبان میں بھی شائع کرادیا گیا۔ سارے ڈینش پریس ٹی وی، ریڈیو پر اس اقدام پر تاسف کا اظہار کیا گیا۔
اس دوران دنیا بھر کے عیسائی اور یہودی پریس نے ان خاکوں کو مسلسل شائع کیے رکھا۔ خصوصاً فرانسیسی پریس نے جس سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ کیا اُس کی مثال نہیں ملتی۔ زبان اور قلم اجازت نہیں دیتے کہ اس اخلاقی گراوٹ سے پردہ اُٹھایا جائے۔ یہی وہ سفلہ پن تھا جس نے چارلی ہیبڈو کو شرانگیزی پر اُکسایا کہ وہ خاکے شائع کرے اور نتیجے میں 17 افراد کی لاشیں اُٹھائے۔ 30 ہزار کی اس محدود اشاعت کے جریدے نے اگلے شمارے میں یہ خاکے دوبارہ چھاپنے اور لاکھوں کی تعداد میں شائع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یوں خاکے دوبارہ چھاپ دیے گئے۔ یہ بدی ہے کہ 2005ء کے بعد سے رکنے پر نہیں آرہی۔ اس دراز کو بڑھ کر شگاف بنانے والی قوتیں میدان میں آگئی ہیں۔ بیجمن نیتن یاہو جو 2500 مسلمانوں کو شہید کرنے کے بعد میڈیا کا سب سے بڑا چیمپین بن کر سامنے آگیا ہے۔ اُس نے چارلی ہیبڈو کی پالیسی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں اُس نے اسرائیلی حکومت کی بھرپور مدد فراہم کرنے کی ’’خوش خبری‘‘ بھی دی ہے۔ جب سی این این کے مشہور اینکر جم کلینزی نے خاکوں کی اشاعت پر یہودیوں کی پشت پناہی کو بے نقاب کیا تو امریکا میں طوفان آگیا۔ جم کلینزی کے خلاف مظاہرے ہوئے، اُس کے گھر پر پتھرائو کیا گیا اور اُسے جبراً نوکری سے برخاست کردیا گیا۔ یوں 34 برس سی این این کا ملازم رہنے کے بعد جم کلینزی کو حق گوئی کی پاداش میں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ سخت حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ بین الاقوامی میڈیا میں یہودیوں کی نام نہاد Genocide کا ذکر تک نہیں کرسکتے۔ دنیا بھر کا پریس اور الیکٹرانک میڈیا گھیرائو کرلیتا ہے۔ اسے یہودیوں کے زخموں پر نمک پاشی قرار دیا جاتا ہے۔ وہی میڈیا دنیا کی سب سے متبرک ہستی کی توہین کرتا پھرے تو اسے آزادیٔ اظہار قرار دیا جاتا ہے۔ یوں مغربی دنیا نے بدترین دوغلا رول اپنا رکھا ہے۔ اسے بخوبی علم ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اپنے پیغمبر کی گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ اس کے باوجود یہودی تسلط کا شکار مغربی دنیا بار بار اس شرمناک ترین فعل کا ارتکاب کیے جارہی ہے۔ چارلی ہیبڈو واقعے کے بعد فرانسیسی حکومت نے اخلاق باختگی کا ثبوت دیا۔ دنیا کے 40 ملکوں کی قیادت پیرس میں جمع ہوئی۔ چارلی ہیبڈو کے دفتر سے ایک مارچ شروع کیا گیا۔ اسے مارچ برائے آزادیٔ اظہار رائے قرار دیا گیا۔ چارلی ہیبڈو جیسے چھیتڑے کو جسے چند ہزار بے ضمیروں کے علاوہ کوئی منہ نہ لگاتا تھا، اب اُس کی اشاعت لاکھوں میں پہنچادی گئی ہے۔ سارا یورپ اس کا خریدار بن گیا ہے۔ یوں فرانسیسی حکومت کی بداعمالی نے ایک معاملے کو ڈی فیوز کرنے کے بجائے اُسے اور بڑھکادیا ہے۔ آگ کے یہ شعلے فرانس کے درودیوار کو چاٹ جائیں گے۔ مسلمان مظاہرین کو دل کا غبار نکالنے کے لیے جلسے جلوسوں سے روک دیا گیا ہے۔ باپردہ عورتوں پر اس ضمن میں پابندی لگادی گئی ہے۔ جلوسوں میں نماز پڑھنے کو زورِ بازو کے ذریعے روکا جارہا ہے۔ فرانس میں مسلم آبادی کے گرد گھیرا تن کیا جارہا ہے۔ یوں فرانس یورپ کا ایسا ملک بن گیا ہے جہاں کے مسلمان حکومت کے سب سے زیادہ زیرعتاب آگئے ہیں۔
اگر ہم تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو ہمیں فرانس ہی ایک ایسا ملک دکھائی دیتا ہے جس کے دانشوروں نے اسلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اعلیٰ ترین ارشادات دنیا کے سامنے رکھے۔ 18 ویں صدی کا سب سے بڑا فرنچ شاعر، تاریخ دان اور فلاسفر ’’والتیر‘‘ تھا۔ اُس نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’فلاسفیکل ڈکشنری‘‘ میں مذاہب عالم کا ایک جامع موازنہ کیا۔ اُس نے پادریوں کی پھیلائی گئی جماعت کی سیاہیوں کو علم کے نور سے دھو ڈالا۔ اُس نے انہیں للکارا اور کہا کہ تم سارے راہب اور پادری کیا انسانوں پر یہ قانون عائد کرسکتے ہو کہ صبح 4 بجے سے رات 10 بجے تک نہ کچھ پینا ہو نہ کھانا ہو۔ اپنے آپ کو دن بھر کامل روزے کی حالت میں رکھنا ہو۔ زندگی بھر شراب کو منہ نہ لگانے کو اپنے آپ پر لاگو کرکے دیکھو کہ تمہارا حال کیا ہو؟ کیا جلتے بلتے صحرائوں میں تم لوگ سفر کرکے حج کے لیے نکل سکتے ہو؟ کیا تم لوگ اپنے اندر اتنی توانائی اتنی طاقت رکھتے ہو کہ تم اس مقصد کے لیے دس قدم بھی چل سکو؟ کیا تم پادری لوگ غریبوں کو اپنی آمدنی کا ایک معقول حصہ زکوٰۃ کی صورت میں ادا کرسکتے ہو؟ کیا تم لوگ اتنا بڑا جگر اور حوصلہ رکھتے ہو؟ تم لوگ جو خود 18، 18 عورتوں کی محبت سے لطف اندوز ہوتے ہو، جب اس حکم کو سنتے ہو کہ مسلمان مرد چار سے زیادہ عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا تو تم لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہو۔ تم منافق لوگ ایسے پاکیزہ مذہب کو شہوانی قرار دیتے ہو۔ وہ بندش جو اسلام اپنے ماننے والوں پر لگاتا ہے اُس سے معاشرے میں کس درجہ اخلاقی سدھار آتا ہے؟ تم لوگ کبھی نہیں جان پاتے، کیونکہ تم تعصب کی عینک سے یہ سب کچھ دیکھتے ہو۔ سچائی اور حقیقت تک تمہاری نظر نہیں جاسکتی۔ تعصب ایک ایسی رائے ہے جس میں انصاف کا ذرا برابر عنصر باقی نہیں بچتا۔ سب سے خطرناک مذہبی تعصب ہوتا ہے جو سب سے پہلے تحمل اور بردباری کو ختم کردیتا ہے۔ مسیحی پادری دنیا کی سب سے رذیل قسم لوگ ہیں۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر الزامات لگاتے ہیں۔ تاریخ انسانی کا سب سے زریں باب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک ہے۔ مسیحی مورخ جو چاہے بکواس کریں۔ تاریخ اُن کی کسی ایک بات کی بھی تصدیق نہیں کرتی۔‘‘
18 ویں صدی کے ہی فرانس میں دانشوروں کی ایک جماعت بنی، جسے ’’قاموسی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ فلسفہ کی تاریخ میں ’’The Encyclopedists‘‘ کہلاتے ہیں۔ ’’دیدرو‘‘ نامی فلاسفر ان کا سربراہ تھا۔ اس جماعت نے دنیا بھر کے علوم اکھٹے کیے اور سینکڑوں جلدوں میں انہیں شائع کیا۔ یہ سب مواد بعد میں انقلابِ فرانس کا پیش خیمہ بن گیا۔ دیدرو کے ایک قریبی ساتھی مانٹیکیو نے ’’The Persian Letters‘‘ نامی کتاب لکھی جس میں اسلام کو دنیا میں روشنی بکھیرنے والا مذہب قرار دیا۔ مانٹیکیو حیرانی سے پوچھتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں کون سا ایسا جوہر تھا جس نے چند برسوں میں دنیا کی سب سے روشن تہذیب کو وجود بخشا؟
ہم دیکھتے ہیں کہ فرانسیسی دانشوروں کی اس روایت کے خاتمے کے بعد اس ملک نے ایسی نسلیں پیدا کیں جنہوں نے اسفل السافلین پادریوں کے نقشِ قدم پر چلنا اپنا فرض جانا۔ اکیسیویں صدی کا فرانس ایک ایسا ملک ہے جس میں تعصب کے بھپکے اُٹھ رہے ہیں۔ جس نے انسانی ضمیر کے سب سے بڑے سوداگروں کا روپ دھار لیا ہے۔ یہودیوں کا یہ فعل کہ وہ آیندہ چارلی ہیبڈو کے سارے مالی معاملات میں معاونت کریں گے، ثابت کرتا ہے کہ اس سازش میں مسیحی اور یہودی ایک ہیں۔ یہودی چھپ کر وار کررہا ہے، اُس نے ایک ایسی آڑ لی ہے جہاں سے وہ شب خون مارنے کی تیاریاں کررہا ہے۔ موساد کی ساری ذیلی ایجنسیاں یورپ میں مقیم مسلمانوں پر شب و روز کو مزید بھاری بنانے کے لیے سرگرم ہوگئی ہیں۔ جرمنی نے مسلمان باشندوں پر سخت گیر قوانین لاگو کرنے شروع کردیے ہیں۔ سارے یورپ میں ایک مہم چل پڑی ہے جو ان ملکوں سے مسلمانوں کے بزور انخلا پر ختم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ سارے یورپ کے مسیحی لیڈر اجلاس کررہے ہیں۔ سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کس طرح یورپ کو مسلمانوں سے خالی کروایا جائے؟ یورپی مسلمان ان ملکوں کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کررہے ہیں۔ دفتروں میں اعلیٰ ترین صلاحیتوں والے کارکن ہوں یا فیکٹریوں میں مشینوں کو چلانے والے فنی ماہرین سب جگہ مسلمان ان ملکوں کی اکانومی میں سرگرم پارٹ ادا کررہے ہیں۔ یورپ اتنی آسانی سے اس بھاری بوجھ کو نہیں اُٹھاپائے گا۔ مسلم آبادی کے انخلا کے بدترین اثرات ان ملکوں کی اکانومی کو دیں گے۔
اس نازک ترین دور میں بھی مسلم حکومتوں کا طرز عمل مایوس کن ہے۔ ان کی جانب سے ڈھیلا ڈھالا احتجاج ان بھیانک شعلوں کو سرد نہیں کرسکے گا۔ عوامی سطح پر مسلم دنیا سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ ہر شہر اور قصبے میں جلوس نکل رہے ہیں۔ لوگ بجاطور پر گہرے اشتعال کی حالت میں ہیں۔ ان حالات میں سارے مسلمان ملکوں کی قیادت کو آگے آنا ہوگا۔ ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جو اس شرانگیزی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے۔ اگر مسلم دنیا نے 2005ء میں جیلانڈز پوسٹن کی شرمناک اور ذلت آمیز پالیسی کے خلاف کوئی کارگر اسٹرٹیجی بنائی ہوتی تو آج ہم یہ دن نہ دیکھ رہے ہوتے۔ جس بھی ملک میں ایسے خاکے شائع ہوں اُس کی حکومت کا بائیکاٹ کردیا جائے۔ سارے مسلم ممالک سفارتی تعلقات منقطع کردیں۔ تجارت کے سب دروازے بند ہوجائیں۔ حکومتی سطح پر تعلقات کے خاتمے سے ان ملکوں کو ایک ایسا بے لچک پیغام جائے گا جو ان کی پالیسیاں بدل دے گا۔ وہ آزادی اظہارِ رائے کی آڑ میں شیطانی اعمال پر مہرتصدیق ثبت نہیں کرپائیں گے۔ مسلم دنیا کے انتہائی شدید ردّعمل کا ڈر و خوف ہی انہیں فعال کردار ادا کرنے پر مائل کرے گا۔
اب یہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ آگے بڑھیں۔ ایک روڈ میپ بنائیں۔ ایک پلان آف ایکشن بنایا جائے۔ مسلمان قیادت واقعی قیادت کا حق ادا کرے۔ ابھی تک اس کا کردار چند لیڈروں کو چھوڑ کر شرمناک رہا ہے۔ متمول عرب ممالک یورپی ملکوں پر گہر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ یہ یورپی ملک پیٹرولیم مصنوعات کی خرید کے لیے مشرق وسطیٰ کے زیرنگیں ہیں۔ یورپ کی مصنوعات سب سے زیادہ عرب ملکوں میں بکتی ہیں۔ اگر عرب حکومتیں اس ضمن میں قیادت سنبھالیں تو یورپ کو نکیل ڈالی جاسکتی ہے۔ انہیں بے مہار چھوڑ دینے کا مطلب مستقبل میں بھی ایسی شرمناک حرکتوں کے ارتکاب کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ اربوں کی مسلم آبادی کا یوں بے بس ہوجانا ملی جمود کی نشانی ہے۔ اس جمود کو مسلم دنیا کی قیادت ہی توڑ سکتی ہے۔ قوت رکھتے ہوئے اُسے کڑے وقت میں استعمال نہ کرنا بڑی بدنصیبی کی علامت ہے۔