قانون کی حکمرانی
تحریر یاسر محمد خان
کنیا لال گابا (کے ایل گابا) تقسیم ہند سے قبل قانون دانی میں ایک بہت بڑا نام تھا۔ قبولِ اسلام کے بعد وہ خالد لطیف گابا کی حیثیت سے جانے گئے۔ انہوں نے برطانیہ سے قانون کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ لاہور میں پریکٹس کا آغاز کیا۔ خدا نے انہیں زمینِ رساء عطا کیا ہوا تھا۔ سیرت النبی پر اُن کی کتاب بہت مشہور ہوئی۔ کئی زبانوں میں اُس کا ترجمہ ہوا۔ کے ایل گابا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مقدس کا قانون دان کی حیثیت سے بڑا مبسوط مطالعہ پیش کیا۔ اُن کی کئی تصانیف میں برٹس اور اسلامک لا کا موازنہ ملتا ہے۔ اُن کی ایک کتاب نہایت درجہ دلچسپ ہے۔ یہ تقسیم ہند سے پہلے شائع ہوئی تھی۔ اب بھی اسے بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ یہ ’’Famous Trials for Love and Murder‘‘ ہے۔ اس میں ہندوستانی تاریخ کے مشہور مقدمات کی رُوداد ہے۔ ہر مقدمہ ایک ہوش رُبا داستان ہے۔ سب مقدمات میں مجرموں کو سزائیں ہوئیں اور ان سزائوں پر ہوبہو عمل ہوا۔ کئی مقدموں میں جرم کرنے والے انگریز تھے۔ انہیں اپنی اعلیٰ سماجی حیثیت کا زعم تھا، مگر قانون نے انہیں بھی پابند سلاسل کیا۔ اُن کی سزائوں میں کسی قسم کی کوئی تخفیف نہ ہوپائی۔ ایک مقدمے میں انگریز مرد اور عورت کو سزائے موت ہوئی۔ دونوں نے مل کر عورت کے خاوند کو قتل کیا تھا۔ سزا دینے والے سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج ہندوستانی تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ میں اس سزا پر عملدرآمد رُک جائے گا۔ سپریم کورٹ کے انگریز ججوں نے نچلی عدالتوں کے فیصلے کی توثیق کی۔
انگریز مرد ملکہ برطانیہ کے رشتہ داروں میں سے تھا۔ ملکہ اُس کی 5 سزا میں تخفیف کا قانونی حق رکھتی تھی۔ اُس نے بھی عدالتوں کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کی اور یوں دونوں انگریز مرد اور عورت تختۂ دار پر لٹکائے گئے۔ کے ایل گابا نے لکھا انگریز راج نے ہندوستان میں بے شمار قباحتوں کو جنم دیا۔ انہوں نے ’’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘‘ کے فارمولے پر عمل کیا۔ اُن کی تہذیب کی درخشاں علامت اُن کا انصاف تھاجس میں وہ وہ اپنے قانون سے روگردانی نہیں کرتے تھے۔ یوں انہوں نے ہندوستان کے وسیع و عریض رقبے پر حکمرانی کی۔ اُن کا آئین کتابوں میں لکھا ہوا نہ تھا۔ اُن کا قانون مجرم کو پکڑتا تھا اور اُسے اُس کے سماجی مقام سے الگ کرکے سزا دیتا تھا۔ اُن کے نظامِ عدل و انصاف نے اپنے بیشتر ضابطے اسلامی قانون سے اَخذ کیے ہوئے تھے۔
٭ ہمارا سارا جمہوری نظام ایک ’’مقدس فراڈ‘‘ ہے۔ اس میں شروع سے آخر تک دھوکہ دہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ٭ دنیا میں آج تک کسی بھی ملک نے قانون کی حکمرانی کے بغیر ترقی نہیں کی۔ ٭
قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے ایک صاحبِ بصیرت جج ہوا کرتے تھے جس کا نام جسٹس رستم کیانی تھا۔ ایک بار انہوں نے کہا تھا: ’’انگریز جاتے ہوئے ملک سے سب سے قیمتی چیز ایک ڈبے میں ڈال کر لے گئے۔‘‘ جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ کیا شے تھی؟ انہوں نے کہا: ’’قانون کی عملداری۔‘‘ جی ہاں! پاکستان میں وقت کے ساتھ قانون کتابوں میں بند ہوتا گیا۔ باہر معاشرے میں اندھی طاقت کی حکمرانی قائم ہوگئی۔ ہم صرف انتخابی عمل تک خود کو محدود کرکے سوچیں تو احساس ہوگا کہ ہم کس درجہ بے قانون معاشرہ ہیں۔ اگر ہم صرف 2013ء کے انتخابات کی بات کریں تو اِس کے نتیجے میں ہمارے ملک میں اب تک بدنظمی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس الیکشن کے نتیجے میں قومی اور صوبائی حکومتیں نہیں، مگر ابتدا سے ہی ان پر سوالیہ نشان لگ گئے۔ دوسری پارٹیوں کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف نے سب سے زیادہ واویلا مچایا۔ یہ شور شرابا پچھلے برس یومِ آزادی کے موقعے پر ایک ملک گیر احتجاج میں بدل گیا۔ لاہور سمیت دوسرے شہروں سے قافلے روانہ ہوئے۔ انہوں نے اسلام آباد کا گھیرائو کرلیا۔ ہفتوں بلکہ مہینوں تک شہر اقتدار میں غدر مچارہا۔ پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ ہوا۔ شہر بھر کی سڑکیں بند رہیں۔ کاروبار تباہ ہوکر رہ گیا۔ بیرون ملک سے آنے والے سربراہان کے دورے ملتوی کرنے پڑے۔ سرکاری دفتروں میں روزمرہ کا کام رُک گیا۔ دوسرے شہروں سے آنے والے سائلین کے لیے کوئی جائے پناہ نہ رہی۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کی چھوٹی بڑی عدالتوں تک رسائی ناممکن حد تک مشکل بنادی گئی۔ دونوں شہروں میں اشیائے خوردنوش کا کال پڑگیا اور اُن کی قیمتیں آسمانوں تک جاپہنچیں۔ اسکولوں، کالجوں میں پڑھائی لکھائی کا عمل رُک گیا۔ سڑکوں پہ ٹرانسپورٹ نہ چلنے کی وجہ سے شہریوں کو ہر قدم پر سو سو رکاوٹوں کا عبور کرنا پڑا۔ بیماروں کی ہسپتالوں تک رسائی ممکن نہ رہی۔ ہر جگہ کنٹینرز پڑے ہوئے تھے۔ راستے کھود کر رکاوٹیں کھڑی کردی گئی تھیں۔ سارا کارِ مملکت ایک نوگوایریا بن گیا تھا۔ ہر طرف پولیس کے دستے گشت کرتے تھے اور ہر گزرنے والے کو شکوک بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔ اس دوران عمران خان اور طاہر القادری کو ہمارے میڈیا نے ہر دم اپنی آنکھ کے سامنے رکھا۔ اُن کی جگالی شدہ تقریریں اتنی بار دکھائی اور سنائی گئیں کہ لوگوں کے ہوش و حواس گم ہوکر رہ گئے۔ ان لیڈروں نے لاہور سے روانہ ہونے پر جو وعدہ وعید کیے تھے، انہیں پس پشت ڈال دیا گیا۔ مائیک گرجتے رہے اور تقریروں کا سیلاب ملک کے گلی کوچوں میں بہتا رہا۔ عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں میں مغربی لباسوں میں خواتین ڈانس کرتی رہیں۔ اسے نیا پاکستان قرار دیا گیا۔ ایک طوفان تھا بدتمیزی کا جس کے حصار میں سارا پاکستان ہفتوں کسا رہا۔ خدا خدا کرکے یہ طوفان تھما۔ حکومت اور تحریک انصاف میں مذاکرات کے دوڑ شروع ہوئے۔ اس کے نتیجے میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کا ایک معاہدہ عمل میں آیا ہے۔ وزیراعظم نے مشاورتی اجلاس میں اس کی منظوری دے دی ہے۔ یہ کمیشن 45 دنوں میں اپنی کارروائی پوری کرے گا۔ دھاندلی ثابت ہوگئی تو اسمبلیاں نہ توڑنے کا کوئی جواز حکومت کے پاس نہیں رہے گا۔ ایک صدارتی آرڈیننس جاری ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ کے 3 ججوں پر مشتمل جوڈیشنل کمیشن بنادیا گیا ہے۔ ان میں چیف جسٹس ناصر الملک، جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس امیرہانی مسلم کے نام شامل ہیں۔ اس کمیشن کو سول اور فوجداری دونوں عدالتوں کے اختیارات حاصل ہیں۔ اس کمیشن میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا موقف پیش کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ اس ضمن میں پہلا اجلاس سپریم کورٹ میں ہوچکا ہے۔ اس اجلاس میں کارروائی کا طریقۂ کار وضع کردیا گیا ہے۔ یہ کمیشن کسی بھی فرد کو یا اتھارٹی کو طلب کرسکے گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کے ساتھ ہر طرح سے تعاون کرنے کی پابند ہوں گی۔ کمیشن کی انکوائری پر اثرانداز ہونے والے کو توہین عدالت کا مرتکب تصور کیا جائے گا۔ اس کمیشن کی سفارشات حتمی ہوں گی۔
سچی بات یہ ہے کہ ہمارا سارا جمہوری نظام ایک ’’مقدس فراڈ‘‘ ہے۔ اس میں شروع سے آخر تک دھوکہ دہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ہمارے نمایندے اربوں پتی ہوتے ہوئے بھی انتخابی فارموں میں خود کو کنگال دکھاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن انتخابات پر اخراجات کا جو پیمانہ وضع کرتا ہے اُس کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ ہر حلقے میں کروڑوں اربوں روپے صرف ہوتے ہیں۔ اَن پڑھ دولت مندوں کے لیے یہ سارا انتخابی عمل ایک گیم کی حیثیت رکھتا ہے۔ پڑھے لکھے شائستہ لوگ پہلے ہی جھٹکے میں انتخابی چھلنی سے باہر ہوجاتے ہیں۔ پھر ووٹ خریدے جاتے ہیں۔ گائوں دیہات میں ووٹ برادری ذات کی سطح پر دیے اور بیچے جاتے ہیں۔ بڑے جاگیرداروں کے مزارعوں نے الیکشن کے دن بس اپنے انگوٹھوں پر سیاسہی لگوانا ہوتی ہے۔ زرد آور لوگ جعلی ووٹوں کی قطاریں باندھ دیتے ہیں۔ گھی کے ڈبوں اور آٹے کے تھیلوں کے عوض بھی ووٹ اسی دھرتی پر خریدے جاتے ہیں۔ ہر بڑے اُمیدوار نے لنگر کا انتظام کیا ہوتا ہے۔ بھوکی مجبور مخلوق چند دن خوابوں میں ملنے والے کھانوں اور مشروبات کا لطف لے لیتی ہے۔ بڑے شہروں میں نسلی اور لسانی تقسیم ہی ووٹ کے لیے بہترین جائے امان بن جاتی ہے۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری اسمبلیاں اور سینیٹ میں ایک بھاری تعداد ان لوگوں کی ہے جو بدترین کرپشن میں ملوث ہیں۔ جن نے کبھی ملکی خزانے کو ٹیکس نہیں دیا۔ جو زمینوں پر قبضے کرواتے اور جائیدادیں ہڑپ کرلیتے ہیں۔ جو بڑے شہروں کی قیمتی زمینوں میں اپنے ناجائز پلازے کھڑے کرلیتے ہیں۔ دولت اور الیکشن میں ملنے والی اندھی طاقت جب اکھٹے ہوتے ہیں تو سب سے پہلے قانون کو شکست ہوجاتی ہے۔ یہی وہ جڑ ہے جس سے تمام تر معاشرتی بگاڑتی پیدا ہورہا ہے۔ اسی کے نتیجے میں ملک پر ایک ایسی نحوست چھائی ہوئی ہے جس میں سے نکلنا مشکل ہوا جارہا ہے۔ ہمارے جمہوری نمایندگان کو جو مرعات ملتی ہیں وہ غریب غربا نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچی ہوں گی۔ ان کی رہائش گاہیں اور دعوتیں نری ہوتی ہیں۔ یہ من چاہے ہوٹلوں میں قیام کرسکتے ہیں۔ ان کا ہوائی سفر سرکار کے ذمے ہوتا ہے۔ ان کا بیرون ملک علاج ٹیکس ادا کرنے والے غریبوں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ ان کے بچے بیرون ملک کے جی سے ماسٹرز تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ سوئس بینکوں میں ان کی دولت کے انبار جمع ہوتے رہتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں جمع یہ طبقہ صرف بادشاہت کے مزے اُڑانے کے لیے جمع رہتا ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ غریب طبقہ ان کی عیاشیوں کے لیے اپنے خون پسینے کی کمائی اُڑاتا رہتا ہے۔ ملکی قرضوں کے انباروں میں اضافے کے ساتھ ساتھ سود بڑھتا جاتا ہے۔
آئی ایم ایف ہر ضرورتِ زندگی کو مہنگا کرنے کا عندیہ دیتی رہتی ہے۔ بجلی گیس آئے روز مہنگے ہوتے رہتے ہیں۔ جی ایس ٹی میں اضافے پر اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ آٹا، دالیں، گھی کے نرخ غباروں کی طرح اُفق پر جھولنے لگتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم، ان کی کتابیں، اسکول یونیفارم، بیگ بستے مہنگے پر مہنگے ہوتے جاتے ہیں۔ غربت کی چادر سے سر اور پائوں ایک ساتھ ڈھاپنا ناممکن ہوتا جاتا ہے۔ بچیوں کے لیے جہیز جمع کرنے میں عمریں لگ جاتی ہیں۔ جائز ضرورتوں کا گلہ گھونٹ گھونٹ کر سانس کی ڈوری کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ ان مجبور طبقوں کے لیے قوانین بنانے والے سالہا سال سے انہیں شکنجوں میں کس کر اُن کا لہور نچوڑے جارہے ہیں۔ آپ ساری بڑی پارٹیوں کے قائدین کو دیکھ لیں۔ آپ کو احساس ہوگا کہ ان کے رہن سہن میں ایک عام پاکستانی کی زندگی کی جھلک تک نہیں۔ ان کے الیکشن کے سارے کھیل میں حرصِ اقتدار اور دولت اکٹھی کرنے کے علاوہ کوئی مشن نہیں نظر آئے گا۔ اس الیکشن پر بیٹھنے والے جوڈیشنل کمیشن کا نتیجہ جو بھی آئے اُس میں عام آدمی کے لیے خیر کی خبر شاید کوئی نہ ہو۔ اگر ملک میں اس کے نتیجے میں قانون کی مکمل عملداری قائم ہوجائے تو اسے ایک عجوبہ ہی قرار دیا جاسکتا۔ یہا ںتلخ حقائق کا سورج سوا نیزے پر آیا ہوا ہے۔ یہاں تپتی ریت سے پائوں آبلہ پا ہیں۔ زبانوں میں کانٹے چبھے ہوئے ہیں۔ ہونٹوں پہ پیاس کی کہانیاں ہیں۔ قانون کی مکمل عملداری کا نخلستان ہی عام آدمی کے دُکھوں کا درماں بن سکتا ہے۔ کاش! یہ کمیشن اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم اُٹھاسکے۔
دنیا میں آج تک کسی بھی ملک نے قانون کی حکمرانی کے بغیر ترقی نہیں کی۔ جب قانون لہو میں رَچ بس جاتا ہے تو قومیں زقند بھر کر آگے کی طرف گامزن ہوجاتی ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ نام نہاد جمہوری حکومتیں اپنے اندر آمریت کا زہر رکھتی ہیں۔ یہ دہائیوں تک بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی رہتی ہیں۔ یہ اپنی طاقت نیچے نمایندوں کو منتقل نہیں کرتیں۔ وزرائے اعلیٰ اٹھارہ اٹھارہ محکموں کے قلمدان اپنے پاس رکھتے ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک ایسا بے بس ادارہ ہے جس کے کہے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یوں سارے ملک میں بے انصافی ہر گلی کوچے میں بچے جن رہی ہے اور انصاف بے اولاد ہے۔
وقت کی ضرورت ہے کہ ہمارا سارا جمہوری نظام سخت گیر قوانین کے تحت ہو۔ ہر نمایندہ مقررہ رقم سے زیادہ الیکشن پر خرچ نہ کرے۔ بدمعاشوں، رسہ گیروں، جرائم پیشہ افراد کو نااہل قرار دیا جائے۔ شریف شرفا کو بلدیاتی نظام سے لے کر پارلیمنٹ تک منتخب کیا جائے۔ دھن دولت اور زور زبردستی سے ووٹ چھیننے والوں کی سخت حوصلہ شکنی ہو۔ دیہی معاشرے کو جاگیرداری کی لعنت سے آزاد کروایا جائے۔ متوسط طبقے کو زیادہ سے زیادہ نمایندگی ملے۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ خالصتاً عوام سے ہوں۔ وی وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہو۔ ہر فرد ملکی قوانین کے تابع ہو۔ تبھی ہم خود کو جمہوریت کہلاپائیں گے۔ قانون جب تک زور آوروں کو دیکھ کر کونے کدروں میں چوہے کی طرح چھپتا رہے گا، ہم جمہوریت کے صرف خول کے پجاری بنے رہیں گے۔ اس کا گودا کبھی ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا۔