شب عاشورہ

شب عاشورہ
جمعرات کا دن گزرنے کے بعد عاشورہ کی وہ تاریک رات نمودار ہوئی جس کی صبح کو میدان کربلا میں قیامت بپا ہونے والی تھی درمیان میں صرف ایک ہی رات رہ گئی تھی جس میں حضرت حسینؓ کو حجلۂ عبادت میں جمالِ حقیقت کے ساتھ راز ونیاز کرنا تھی اوراس کی راہ میں جان دینے کے لئے تیاریاں بھی کرنی تھی؛چنانچہ آپ نے منتشر خیموں کو ایک جگہ ترتیب سے نصب کرایا، ان کی پشت پر خندق کھدوا کر آگ جلوادی کہ دشمن عقب سے حملہ آور نہ ہوسکیں اورہتھیاروں کی صفائی کرائی جس وقت آپ کی تلوار صاف کی جارہی تھی، اس وقت آپ نے چند عبرتناک اشعار پڑھے آپ کی جان نثار بہن حضرت زینبؓ کو ان انتظامات سے ہونے والے واقعات کا کچھ اندازہ ہوگیا تھا، اوروہ حضرت حسینؓ کے پاس بدحواس دوڑتی ہوئی آئیں اور چیخ چیخ کر رونے لگیں کہ کاش آج موت میری زندگی کا خاتمہ کردیتی ہائے میری ماں فاطمہؓ میرے باپ علیؓ اورمیرے بھائی حسنؓ میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا، بھیا ان گزرے ہوؤں کے جانشین اورہم لوگوں کے محافظ اورہمارا سہارا تم ہی ہو،بہن کو اس طرح مضطرو بے قرار دیکھ کر فرمایا زینب علم ووقار کو شیطان کے حوالہ نہ کرو؛ لیکن یہ وقت وقار وسکینہ کا نہ تھا، زینب بولیں بھائی! میں آپ پر سے قربان،آپ کے بدلہ میں اپنی جان دینا چاہتی ہوں، بہن کی یہ دلدوز اورمحبت بھری باتیں سن کر بھائی کا دل بھی بھر آیا اورآپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے فرمایا زینب ذرا چین سے رہنے دو، یہ جواب سن کر زینبؓ نے منہ لپیٹ لیا اورڈاڑھیں مار کر رونے لگیں کہ آپ کا اپنے کو مجھ سے الگ الگ رکھنا میرے دل کے ٹکڑے اڑائے دیتا ہے، یہ کہا اورچیخ مار کر بیہوش ہوگئیں ،حضرت حسینؓ نے منہ پر پانی کے چھینٹے دیئے جب ہوش آیا تو صبر کی تلقین کی کہ زینبؓ خدا سے ڈرو اورخدا سے تسکین حاصل کرو،ایک نہ ایک دن سارے روئے زمین کے باشندے مرجائیں گے آسمان والوں میں بھی کوئی باقی نہ رہے گا آسمان وزمین کی تمام چیزیں فانی ہیں صرف ایک خدا کی ذات باقی رہے گی،میری ماں میرے باپ اورمیرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے اورہر مسلمان کے لئے رسول اللہ ﷺ کی ذات نمونہ ہے تم اسی نمونہ سے صبر و تسلی حاصل کرو، میں تم کو خدا کی قسم دلاتا ہوں کہ اگر میں مرجاؤں تو اسوۂ رسول کے خلاف نہ کرنا، میری موت پر گریبان نہ پھاڑنا، منہ نہ نوچنا، اوربین نہ کرنا، بہن کو صبر وشکر اورضبط وتحمل کی تلقین کرکے خیمہ سے باہر تشریف لائے اورحفاظت کے ضروری انتظامات کرکے صبح صادق تک سب لوگ نماز ،دعا استغفار اورتضرع وزاری میں مصروف رہے۔
(ابن اثیر:۴/۵)