مشیت خداوندی اس کی رضا کو مستلزم نہیں

مشیت خداوندی اس کی رضا کو مستلزم نہیں۔
خلق شر برا نہیں، اسے اختیار کرنا براہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ حضرات کی خدمت میں ایک غیرمسلم کا اعتراض پیش کیا جا رہا ہے جس کا مدلل اور مفصل جواب درکار ہے،
سوال یہ ہے کہ؛
سورہ انعام کی آیت 107  ہے:
ولو شاء اللہ ما اشرکنا
یعنی اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔
غیرمسلم کا اعتراض یہ ہے کہ پھر ہمیں عذاب کیوں کر ہوگا؟  اور مسلم ہمیں شرک سے منع کیوں کرتے ہیں جبکہ ہم خدا کی مشیت کے مطابق شرک کرتے ہیں۔
نور الحسن القاسمی پڑتاب گڑھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
بندہ نہ تو فاعل مستقل اور خالق افعال ہے۔ اور نہ ہی شجر و حجر کی طرح مجبور محض۔ کھانٹی علمی اصطلاح میں نہ جبر محض ہے نہ قدر محض۔
ہر شئی کا خالق حقیقی اللہ تعالی ہے۔ وہی قادر مطلق ہے۔ اس نے بندہ کو  بھی اپنی عبادت کرنے کے لئے کچھ قدرت واختیار عطا کئے ہیں۔ اسی لئے بندہ کو “کاسب” کہتے ہیں۔ اور اس خداداد اختیار وقدرت سے بندہ جو کام کرتا ہے اصطلاح شرع میں اسے “کسب” کہتے ہیں۔ خلق اللہ کا عمل اور کسب بندہ کا فعل ہے۔
بھلائی یا برائی کی نسبت بندہ کی طرف یا  بندہ کے ثواب وعذاب کا استحقاق اسی کسب کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مدح وذم  کی نسبت خلق کی طرف نہیں ہوگی۔ یعنی برے کام کرنے سے بندہ ہی کو برا کہا جائے گا۔ خالق ہونے کی وجہ سے خدا تعالی کی طرف کوئی برائی منسوب نہیں کی جاسکتی۔
تلوار چلانے والے ہی کو قاتل کہا جاتا ہے۔ تلوار بنانے والے کو کوئی قاتل کہتا اور نہ کوئی برائی اس کی طرف منسوب کی جاسکتی ہے۔ تلوار بنانا تو کمال ہی کمال ہے۔ اگر اس کا استعمال بے محل ہے تو وہ بلاشبہ معیوب ومذموم ہے۔
رنگریز کو اسود یعنی سیاہ نہیں کہا جاسکتا۔ جو کپڑا سیاہ رنگ میں رنگ گیا ہے اس کو سیاہ کہا جائے گا۔
اسی طرح کافر، گمراہ، زانی، قاتل وغیرہ وہی کہلائے گا جو کفر وضلالت زنا وقتل وغیرہ کی سیاہی میں رنگین ہے۔ جس نے کفر وضلالت کی سیاہی پیدا کی اس کی طرف کوئی برائی منسوب نہیں کی جاسکتی۔
اس خلاق اعظم نے  تو کفروایمان، طاعت ومعصیت، نوروظلمت کے ہر قسم کے رنگ پیدا کئے اور رسولوں کے ذریعہ خوب اچھی طرح بتلادیا کہ کون رنگ برا ہے اور کون بھلا!
بھلے برے میں امتیاز کے لئے عقل بھی دی۔ بغیر عقل کے مکلف نہ کیا۔ کرنے اور نہ کرنے کی طاقت وقدرت بھی دی۔ اس پر بھی اگر کوئی ایمان وطاعت کے صاف وشفاف سفید رنگ چھوڑ کے کفر وضلالت کی سیاہی اپنے قلب پر لگالے تو یہ اس کا قصور ہے۔ کیا قادر مطلق نے اسے کفر وضلالت اختیار کرنے پہ مجبور کیا تھا ؟؟؟؟ جان بوجھ کے ممانعت کے باوجود طاعت چھوڑ کے معصیت کرتا ہے تو یہ خود ظالم نہ ہوا ؟؟؟
خلاصہ یہ کہ خلق قبیح ‘قبیح نہیں۔ ایجاد شر، شر نہیں۔ اس لئے کہ اس میں حکمت ہے چاہے ہمیں معلوم نہ ہو!! سیاہ خال و بال اگرچہ فی حد ذاتہ برے ہیں۔ مگر چمکدار چہرہ کی خوبصورتی ورعنائی اسی سے تو ہے! معدہ اور آنتیں اگرچہ سرتاپا ناپاک ہیں۔ مگر اسی پہ مدار حیات بھی تو ہے! اگرچہ یہ انفرادا برے ہیں لیکن مجموعہ کے لحاظ سے خیر محض ہیں۔ لہذا خلق قبیح میں کوئی برائی نہیں کہ اس میں بے شمار حکمتیں ہوتی ہیں۔
لیکن ‘کسب’ شر، شر ہے۔ کیونکہ کسب میں کوئی حکمت نہیں ہوتی۔
اسی لئے وہ مذموم ہے اور اللہ کی ذات کے لئے کسب کا اثبات باطل ہے۔
سیر کی کتابوں میں ہے کہ ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کا عذر یہ کیا کہ میں نے تقدیر کی موافقت کی۔اس میں میرا کیا قصور ہے؟ لہذا مجھے سزا کیوں دے رہے ہیں ؟؟؟
عرض ہوا کہ تجھے کیسے پتہ چلا کہ تیری تقدیر میں کیا ہے ؟؟؟ جو تو نے تقدیر کی موافقت کی؟؟
یہ سب حیلے بہانے ہیں! تو نے شرارت نفس کی وجہ سے انکار سجدہ کیا ہے !!!
اسی طرح جتنے برے افعال ہیں ان کا کسب قبیح ہے۔ ان کا اکتساب موافقت تقدیر کی نیت سے نہیں ہوتا! (کیونکہ تقدیر کا تو کسی کو پتہ ہی نہیں۔ وہ تو سر من اسرار اللہ ہے) بلکہ شرارت نفس اور اس کی بہیمیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تقدیر کی آڑ لینا بالکل غلط اور ڈھونگ ہے۔ اس لئے اکتساب پہ سزا وعتاب ہوگا۔
عالم کے لئے جیسے خیر کی ضرورت ہے ویسے ہی شر کی بھی ضرورت ہے۔ قصر شاہی کا سارا حسن بیکار ہے اگر اس میں بیت الخلا نہ ہو!
یہ دنیا خدا کے جملہ کمالات وصفات کے مظہر ہے۔ اس کے کمالات مختلف ہیں۔ وہ رحیم  وکریم ہے تو ذو عقاب شدید بھی۔ معز ہے تو مذل بھی۔ اس کے صفات کمالیہ کے مظاہر کی  ضرورت ہے تو صفات جلالیہ کے بھی۔ ایمان عالم میں ایمان ضروری ہے تو کفر بھی۔ بوبکر وعمر ضروری ہیں تو ابو جہل وابولہب بھی۔

در کارخانہ عشق از کفر ناگزیر است
دوزخ کرا بسوزد گربولہب نہ باشد ؟

اب یہ اس مالک کا حق ہے کہ جس تختہ کو چاہے شہ نشیں میں لگائے،
اور جس تختہ کو چاہے بیت الخلا کے قدمچہ میں لگائے۔۔۔ جس تختہ سے چاہے قرآن رکھنے کی رحل بنائے
یہ حاکم مطلق کا اختیار یے۔ نہ کوئی ظلم ہے۔ اور نہ کسی کو اس پہ حق اعتراض۔
اس  کے بعد اب سوال کا جواب  سمجھئے کہ اللہ تعالی بحیثیت خالق  اپنے ارادے اور مشیت سے بعض چیزوں کو پیدا کرتا ہے، پھر انسان کو اختیار دیتا ہے کہ وہ چاہیں تو فلاں کام کرلیں مگر ساتھ ہی واضح کردیتا ہے کہ یہ کام برا ہے، اس کی انجام دہی ہماری ناراضگی کا باعث ہوگی، پھر بندہ اپنی مرضی سے وہ کام انجام دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا قانون سامنے آجاتا ہے۔
لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت،
(البقرہ)
جو اس نے اچھا کام کیا وہ اس کے حق میں بہتری کی خوشخبری لائے گا اور جو غلط کیا اس کا وبال اسی پر پڑے گا، اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اچھے برے اعمال کا فی الجملہ اختیار دے رکھا ہے، اگر وہ یہ اختیار نہ دیتا تو انسان جمادات کی طرح مجبور محض ہوتے ، لہذا یہ تاویل قطعی بےبنیاد ہے کہ اگر اللہ کی رضا نہ ہوتی تو ہم یہ کام نہ کر پاتے ، دراصل لوگوں نے اللہ کی مشیت اور رضا کو ایک چیز سمجھ لیا ہے حالانکہ یہ دو مختلف اشیاء ہیں، بعض کام اللہ اپنی مشیت اور ارادے سے کرتا ضرور ہے مگر ان میں اس کی رضا شامل نہیں ہوتی ، جیسے تخلیق ہے، ہر اچھی بری چیز اللہ ہی کی پیدا کردہ ہے۔ مگر وہ بعض چیزوں کو پسند نہیں کرتا ، جیسے سورة زمر میں موجود ہے ، ولا یرضی لعبادہ الکفر، وہ اپنے بندوں سے کفر کو پسند نہیں کرتا، اگرچہ کفر کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے اور پھر اس کی توفیق بھی دی ہے، اس کا فیصلہ تو یہ ہے، نولہ ما تولی، جدھر کوئی جانا چاہتا ہے وہ ادھر ہی پھیر دیتا ہے۔ توفیق دے دیتا ہے، تاہم ہر چیز کا خالق وہی ہے،
واللہ خلقکم وما تعملون،
اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تمہارے اعمال کو بھی اسی نے پیدا فرمایا ہے۔
یاد رہے کہ کسی شخص کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ غلط کام کرنے پر فورا گرفت کیوں نہیں کرتا، تاکہ لوگ اس سے باز آجائیں، یہ چیز بھی اللہ کی حکمت کے خلاف ہے وہ چاہے تو فورا پکڑ لے یا مہلت دے دے۔ دنیا کی سلطنت کا بھی قانون یہی ہے کہ عام طور پر جرم پر حکومت فورا گرفت ہیں کرتی بلکہ ڈھیل دیتی ہے اور ملزم کی کارگردگی پر نگاہ رکھتی ہے اور بالآخر گرفت کرلیتی ہے، اگر کسی ملزم کو فوری طور پر گرفتار نہ کیا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بدکردار حکومت کی نگاہ میں اچھے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حکومت میں جب کوئی بغاوت اور سرکشی کرتا ہے تو مالک الملک بسا اوقات ڈھیل دیتا ہے۔ جب اس کی شرارت حد سے بڑھ جاتی ہے تو اچانک پکڑ لیتا ہے قرآن پاک میں موجود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ گرفت کرنے پہ آتا تو دنیا میں کوئی چلنے پھرنے والی چیز نظر نہ آتی۔ انسانوں کی طرح جانور اور چرند پرند بھی غلطی کرتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ سب کو فی الفور سزا دیتا تو سب ہلاک ہوجاتے مگر اس کا قانون ہے
و یوخرکم الی اجل مسمی۔
(سورة نوح)
مقررہ وقت تک مہلت دیتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ گنہگار آدمی اللہ کے ہاں پسندیدہ ہے، وہ اپنی حکمت کے مطابق جب چاہے گا پکڑلے گا اور جب چاہے گا سزا دے گا۔ لہذا مشرکین کی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ شرک کے کام اگر غلط ہوتے تو خدا تعالیٰ ان کی توفیق ہی نہ دیتا مشرکین کے مطابق اگر انجام پانے والا ہر فعل درست ہے، تو جب کوئی آدمی زہر استعمال کرلیتا ہے تو پھر وہ تریاق کی تلاش میں کیوں پھرتا ہے، اگر اس نے زہر کا استعمال اللہ کی رضا سے کیا ہے تو پھر اس کا نتیجہ بھی بھتگنا چاہے، اور ہلاکت سے بچنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ، اسی طرح جب کوئی بیمار ہوجاتا ہے تو بیماری میں خدا تعالیٰ کی رضا تلاش کر کے اس پر صبر کرنا چاہئے، نہ کہ ڈاکٹر سے دوائی لینی چاہئے، بہرحال یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور رضا دو مختلف چیزیں ہیں ، انسان ہر کام بیشم اللہ کی توفیق ہی سے کرتا ہے مگر یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ جو کام میں کر رہا ہوں اس میں اللہ کی رضا شامل ہے یا ناراضگی ، اگر اس بات کی سمجھ آجائے تو کوئی آدمی شرک پر آمادہ نہ ہوگا ، اور نہ وہ اسے خدا کی رضا پر محمول کرے گا۔
علمی دلیل کے طور پہ اللہ تعالی
ارشاد فرماتے ہیں  اے پیغبر ! آپ ان سے کہہ دیں “ھل عندکم من علم ! کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے، یعنی شرک پر اصرار کرنے کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہے ؟ اگر ہے،
“فتخرجوہ لنا”
تو اسے ہمارے سامنے نکال لاؤ، ہم بھی دیکھیں کہ کس بنا پر تم شرک کا ارتکاب کر رہے ہو۔ تم نے یہ جو بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام بنا رکھے ہیں اور انھیں بعض پر حرام اور بعض کے لیے حلال کرتے ہو، اس کے ثبوت کے لئے کوئی چیز تو پیش کرو، کوئی صحیفہ ہو، کوئی کتاب ہو، کسی عقلمند نے، کسی دانشور نے، کسی بڑے فلاسفر نے ان شرکیہ افعال کی تصدیق کی ہو ، لاؤ کیا دلیل ہے تمھارے پاس، قرآن پاک میں جگہ جگہ مطالبہ کیا گیا ہے
ھاتوا برھانکم
لاؤ اپنی دلیل جو تمہارے دعوے کی تصدیق کرے، اور اگر کچھ پیش نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب یہ ہے
ان تتبعون الا الظن،
تم صرف گمان کا اتباع کر رہے ہو، جو بات وہم و خیال میں آجاتی ہے اس کے پیچھے بھاگ نکلتے ہو
وان انتم الا تخرصون،
اور تم محض اٹکل دوڑا رہے ہو کہ فلاں شخص نے یہ منت مانی تھی تو اس کی فلاں مراد پوری ہوگئی یا فلاں نے فلاں کام نہیں کیا تھا تو اس کا یہ نقصان ہوگیا۔ فرمایا یہ سب اٹکل پچو باتیں ہیں جن کے پیچھے کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ یہ محض ظن ہے جس کے متعلق فرمایا،
ان الظن لا یغنی من الحق شیئا۔
(النجم)
حق کے مقابلے میں ایسے ظن اور گمان کی کیا حیثیت ہے اور یہ کیا فائدہ دے سکتا ہے ؟
(تفسیر معالم العرفان)
شاہ عبدالقادر صاحب (رحمہ اللہ) تعالیٰ فرماتے ہیں کافروں کا شبہ تھا کہ اگر ہمارے کام اللہ کو پسند نہ ہوتے تو ہم کو کرنے نہ دیتا اس کا جواب فرمایا کہ اگلوں کو گناہ پر کیوں پکڑا معلوم ہوا کہ وہ بھی ایک مدت (تک) ناپسند کام کرتے تھے اور اللہ نہ پکڑتا تھا آخر پکڑا (موضح القرآن)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
سیدپور /بیگوسرائے