تعطیل کی اجرت

ایام تعطیل میں مدرسین کا مدرسہ کا اضافی کام کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدارس اسلامیہ ہندیہ کا عرف عام یہ ہے کہ ایام تعطیلات میں مدرسین مشاہرہ کے مستحق ہوتے ہیں…
بندہ ایک مدرسے سے وابستہ ہے، مدرسے کا قانون یہ ہے کہ تعطیل میں تنخواہ جاری رہے گی، البتہ جو مدرس تعطیل رمضان المبارک میں مدرسے کا چندہ کرے گا وہ فیصدی انعام کا مستحق ہوگا، الگ سے کوئی تنخواہ نہیں دی جائے گی … بندے کو اس قانون پر اشکال ہے، بندے کے خیال میں یہ صورت اجارہ فاسدہ کی ہے؛ کیونکہ چندے کی اجرت مجہول ہے، صرف فیصدی انعام کو عمل چندہ کی اجرت متعین کیا گیا ہے اور محض انعام اجرت نہیں بن سکتا.
صحت اجارہ کے لئے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ اجرت معلوم ہو اور جو ایک تنخواہ تمام مدرسین کو ایام تعطیل میں دی جاتی ہے وہ چندے کی اجرت نہیں بن سکتی ہے؛ کیونکہ یہ واحد تنخواہ تو گھر بیٹھے بھی مل سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جو اساتذہ رمضان المبارک میں چندہ نہیں کرتے مدرسہ ان کو بھی تنخواہ دیتا ہے؛ جب یہ تنخواہ عمل چندہ کی اجرت بننے سے خارج ہوگئی تو باقی صرف فیصدی انعام رہ جاتا ہے اور انعامِ محض پر چندہ اجارہ فاسد ہے
عدم جواز کی دوسری وجہ یہ ہے کہ “اجیر” اس عمل پر بنفسہ قادر نہیں ہوتا ہے؛ بل کہ قادر بقدرة الغير ہوتا ہے اس کا عمل چندہ دینے والوں کے عمل پر موقوف ہوتا ہے اور قادر بقدرة الغير ” عاجز کے حکم میں ہوتا ہے؛ جب کہ صحت اجارہ کے لئے بوقت عقد” اجیر ” کا قادر علی العمل ہونا اور مستأجر کا قادر علی تسلیم الأجرة ہونا شرط ہے.
اس سلسلے میں اردو فتاوی میں جو مذکور ہے کہ “تنخواہ دار ملازم کے لئے کمیشن پر چندہ کرنا جائز ہے.” (فتاوی قاسمیہ جلد ١١) اس میں تنخواہ دار ملازم سے کونسا ملازم مراد ہے؟
زید کہتا ہے کہ وہ ملازم مراد ہے جو مدرسے کا سال بھر کام کرتا ہے اس مطلب کی رو سے مدرسے کا ملازم صرف انعام (کمیشن) پر چندہ کرسکتا ہے؛ جب کہ عمر کا کہنا یہ ہے کہ تنخواہ دار ملازم سے وہ ملازم مراد ہے جس کی چندے میں تنخواہ متعین ہو غیر ِرمضان میں مدرسے کا ملازم رہا ہو یا نہ رہا ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا… اگر یہ مطلب مراد نہ لیں تو اجرت مجہول رہ جائے گی
بندہ خدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
ایام تعطیل ایام عمل کے تابع ہیں۔ چونکہ رخصت کے ایام آئندہ کے عمل کے لئے مزید تازہ دم ہونے (استراحت) کے لئے ہوتے ہیں۔اس لئے حقیقت میں یہ بھی ایام عمل ہی ہوئے۔ اسی بنیاد پہ ایام تعطیل کی اجرت کے مستحق حسب ضوابط مدرسہ مدرسین ہوتے ہیں۔ اگر شعبہ تعلیم کے ملازمین ومدرسین اپنے ان ایام رخصت  واستراحت کو مدرسہ کے دوسرے کام مثلا فراہمی چندہ میں صرف کردیں تو دیکھا جائے گا کہ اس طرح کی شرط وقت تقرر ان سے لگائی گئی یا مدرسہ کا اس طرح کا ضابطہ ہے یا نہیں؟ اگر ہاں، تو یہ بھی مدرسین کے فرائض اجارہ کا ایک جزء ہوگا اور اب تعطیل رمضان میں فراہمی چندہ کی صورت میں مزید کسی اضافی تنخواہ کا تعین ضروری نہیں۔ صرف فی صدی انعام پہ انہیں قناعت کرنا پڑے گا۔
مستفاد: إذا استأجر رجلاً لیعمل لہ عملاً الیوم إلی اللیل بدرہم صباغۃ أو خبزًا أو غیر ذٰلک، فالإجارۃ فاسدۃ في قول أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ، وفي قولہما یجوز استحسانًا ویکون العقد علی العمل دون الیوم حتی إذا فرغ منہ نصف النہار فلہ الأجر کاملاً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، الباب السادس / ومما یتصل بہٰذا الفصل إذا جمع في عقد الإجارۃ بین الوقف والعمل ۴؍۴۲۳)
اور اگر مدرسہ میں اس طرح کا کوئی قانون نہ ہو اور مدرسین پر وصولی چندہ کی بھی  کوئی ذمہ داری وقت تقرر نہیں ڈالی گئی۔انھیں صرف اور صرف تدریس کے لئے رکھا گیا ہو تو پہر اب تعطیل کلاں کی اجرت کا مستحق محض تدریس سے ہوگا۔ اگر ایسے مدرسین تعطیل رمضان میں فراہمی چندہ کا اضافی  عمل کریں تو کام اور مدرسین کی حیثیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے لئے  اضافی تنخواہ کا تعین ضروری ہے۔ اور وہ شرعا اس مطالبہ کے حقدار ہیں۔ محض فی صدی کمیشن وانعام پہ ان سے چندہ وصول کروانا حق تلفی ہے اور جہالت اجر کی وجہ سے فساد عقد کا بھی خطرہ ہے:
وہل یأخذ أیام البطالۃ کعید ورمضان لم أرہ وینبغي إلحاقہ ببطالۃ القاضي، واختلفوا فیہا والأصح أنہ یأخذ؛ لأنہا للاستراحۃ أشباہ من قاعدۃ العادۃ محکمۃ (الدر المختار) وتحتہ في الشامي: فحیث کانت البطالۃ معروفۃ في یوم الثلاثاء والجمعۃ وفي رمضان والعیدین یحل الأخذ۔ (الدر المختار مع الشامي / مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ ۴؍۳۷۲ بیروت، ۶؍۵۶۷-۵۶۸ زکریا)
کل محبوس لمنفعۃ غیرہ تلزمہ نفقتہ۔ (شامي، کتاب الطلاق / باب النفقۃ، مطلب في نفقۃ المملوک ۴؍۵۷۲ کراچی، ۵؍۳۷۶ زکریا)
فی صدی کمیشن یا انعام کے جواز کے ذیل میں جو “تنخواہ دار” ملازم ہونے کی شرط لگائی جاتی ہے تو اس سے مراد  سفیر اور محصل جیسا تنخواہ دار ہے اور وہ مدرس بھی مراد ہو سکتا ہے جس کی ذمہ داریوں میں تدریس کےساتھ فراہمی مالیہ کی شرط بھی جزو عمل ہو۔
لیکن جسے مدرس محض کے بطور اجیر رکھا گیا ہواور صرف اسی کی تنخواہ وہ پاتاہو اور یہ ایام تعطیل میں اپنی راحتوں کو تج کے فراہمی کا کام کرتا ہو تو اسے تنخواہ دار کہکے فی صدی کمیشن پہ ہی کام چلا لینا شرعا درست نہیں۔ اب عمر کا قول درست ہے۔
اور اس صورت میں نئی تنخواہ طے کئے بغیر صرف کمیشن پہ چندہ کروالینے سے عقد فاسد ہوجائے گا۔
في ’’ الہدایۃ ‘‘ : ولا یصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ لما روینا ، ولأن الجہالۃ في المعقود علیہ وفي بدلہ تُفضي إلی المنازعۃ کجہالۃ الثمن والمثمن في البیع ۔ (۳/۲۷۷، کتاب الإجارات)
في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وشرطہا : کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین لأن جہالتہما تفضي إلی المنازعۃ ۔ (۹/۷ ، کتاب الإجارۃ)
في ’’ المبسوط للسرخسي ‘‘ : ولو دفع الغزل إلی حائک غزلا لینسجہ بالنصف فلہ أجر مثلہ ، وکذا إذا استأجر حمارًا یحمل علیہ طعامًا بقفیز منہ فالإجارۃ فاسدۃ لأنہ جعل الآجر بعض ما یخرج من عملہ فیصیر في معنی قفیز الطحان، وقد نہی النبي ﷺ عنہ وہو أن یستأجر ثورًا لیطحن لہ حنطۃ بقفیز من دقیقۃ ، وہذا أصل کبیر یعرف بہ فساد کبیر من الإجارات لا سیما في دیارنا ۔
(۳/۲۸۹، کتاب الإجارات ، باب الإجارۃ الفاسدۃ ، التنویر وشرحہ مع الشامیۃ :۹/۷۸،۷۹، باب الإجارۃ الفاسدۃ ، مطلب تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ والتہلیل ، ط؛ بیروت ، البحر الرائق :۸/۴۱، کتاب الإجارۃ ، باب الإجارۃ الفاسدۃ)
ہذا ماعندی والصواب عند اللہ
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے /سیدپور