شانِ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

شانِ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

امام الانبیاءﷺ نے فرمایا

اللھم اجعلہ ھادیا مھدیا واھدبہ (ترمذی)

اے اللہ! معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے۔

اسلام اپنے دامن میں بے شمار ایسی ہستیوں کو سمیٹے ہوئے ہے جنہوں نے غلبۂ اسلام کی ایسی تاریخ رقم کی کہ دشمنوں کو بھی ان کی تعریف کرنا پڑی۔ ان ہستیوں میں سے ایک ہستی ایسی ہے جو نبی اکرمﷺ کی مندرجہ بالا دعا سے ثمر حاصل کرتی ہے اور جس طرف رخ کرتی ہے میدان کار زار ان کے حق میں سرتسلیم ختم کرتا ہوا دیکھائی دیتا ہے۔ اس عظیم ہستی نے سب سے پہلے بحری بیڑہ تیار کرکے بحری لڑائیوں کا آغاز کیا ۔ صرف یہ نہیں کہ وہ پہلے اسلامی بحری بیڑے کے موجد ہیں بلکہ پہلے بحری لشکر کے سپہ سالار بھی ہیں جس لشکر کے شرکاء کے لیے نبی اکرمﷺ نے جنت کی عظیم بشارت دی ہے۔
اصحابِ رسول میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ وہ نبی اکرمﷺ کے برادرِ نسبتی ہیں۔ ان کی حقیقی ہمشیرہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ازواجِ مطہرات کے زمرہ میں شامل ہیں۔ ازواجِ مطہرات مومنوں کی مائیں ہیں اس نسبت سے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خال المومنین کے منصب پر فائز ہیں۔
عہد ِفاروقی وعثمانی میں ہونے والی وسیع وعریض فتوحات میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلیدی کردار ہے انہوں نے ایشیائی ممالک تک فتوحات حاصل کیں۔ محکمہ رجسٹرار، جہاز سازی اور سب سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافِ حریر چڑھایا، شکایات سننے کا اہتمام کیا، افواج منظم طریقے سے تشکیل دیں، کئی شہر فتح کیے، ہزاروں جامع مسجد تعمیر کروائیں، ہسپتال، فلاحی ادارے قائم کیے۔ 64لاکھ سے زائد مربع میل پر اسلام کا پرچم لہرا کر آدھی سے زیادہ دنیا پر اسلامی نظامِ خلافت قائم کر کے عالم کفر کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔
مغربی مفکرین کا کہنا ہے کہ عالم کفر کے دور میں متعصب رہنمائوں کو اگر مسلمانوں میں سے کسی کو سب سے زیادہ نفرت ہے تو وہ یہی شخصیت ہیں جن کے کارنامے اوپر ذکر کیے گئے۔ وہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ اس شخصیت نے عالم کفر کے لیے زمین تنگ کر دی تھی۔ اسلام کے دشمن کھلے عام اسلام دشمنی ان کے دورِ حکومت میں نہیں کر سکتے تھے جب اس قابل فخر شخصیت کی وفات 22رجب کو ہوئی تو روافض نے کونڈے (حلوہ پوری) اس خوشی میں تقسیم کیں۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمرۃ القضاء کے موقع پر 7ہجری میں اسلام قبول کر لیا تھا اور اسی عمرۃ القضاء پر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرمﷺ کے سر مبارک کے بال کاٹے لیکن اپنے والد (ابوسفیان) سے اسلام کو چھپایا۔ (البدایہ والنہایہ 117/8)
یہ بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سعادت ہے کہ ان کی اہلیہ قُرَیْبۃُالصُغْریٰ، ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن تھیں۔ اس عظیم المرتبت شخصیت کو دنیا ہم زُلفِ رسول، خال المسلمین، کاتب وحی، خلیفۂ راشد سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نامِ نامی اسم گرامی سے یاد کرتی ہے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان مبارک، قرآن مجید، فرامین رسالتﷺ اور فرامین صحابہ وخانوادۂ علی میں منفرد انداز میں وارد ہوئی ہے۔ طوالت سے بچتے ہوئے آپ کی خدمت میں چند ارشادات اپنے ایمان وعمل کو تروتازہ کرنے کے لیے پیش کرنے کی جسارت کیے دیتے ہیں۔
صحابیت کے بعد آپ کا سب سے اہم ترین اعجاز کاتب وحی ہونے کا ہے اس منصب کی عظمت خالق ارض سماء نے اپنے کلام میں یوں بیان فرمائی ہے:

بِاَیْدِیْ سَفَرۃٍ کِرَامٍ بَرَرَۃٍ (عبس 15.16)

چمکتے ہوئے ہاتھ قرآن کو تحریر کرتے ہیں۔

سبحان اللہ! کیا شان ہے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی کہ قرآن آپ کے ہاتھوں کو چمکتے ہوئے قرار دے رہا ہے۔ اللہ کے نبیﷺ کے فرمان پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

٭ معاویہ کا تذکرہ بھلائی سے کرو۔ ٭ اے اللہ! معاویہ کا پیٹ علم سے بھر دے۔ ٭ اے معاویہ! اگر تم مسلمانوں کے والی وحاکم اور خلیفہ بن جائو تو اللہ سے ڈرتے رہنا اور انصاف کرتے رہنا۔ ٭ دن اور رات کی گردش جاری رہے گی یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاکم (خلیفہ) بن جائیں گے۔ (البدایہ والنہایہ)
٭ اے اللہ! معاویہ کو کتاب اللہ کا علم عطا فرما اور شہروں کی حکومت عطا فرما اور عذاب سے محفوظ رکھ۔ (مسند احمد 147/4)
اس دعائے نبوت سے معلوم ہوا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت ان کی اپنی جدوجہد اور ذاتی کوششوں کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ عطیہ الٰہی تھا جسے آمریت وملوکیت سے تعبیر کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عہدِ نبوت میں زیادہ تر وقت تربیت رسولﷺ میں گزارنے کے لیے بارگاہِ رسالت میں ہی قیام پذیر رہتے، جو وحی نازل ہوتی تحریر فرماتے۔ ایک دن سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ مسجد نبویﷺ میں ایک عیسائی شہزادہ آتا ہے نبی اکرمﷺ سے گزارش کرتا ہے نبی اکرمﷺ میں نے آپ کو کچھ تحائف دینے ہیں مگر وہ یہاں سے کچھ دور ہیں۔ آپ اپنے کسی خادم کو حکم دیں وہ میرے ساتھ چلے اور وصول کر کے لے آئے۔ نبی اکرمﷺ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم فرمایا کہ اس عیسائی شہزادے کے ساتھ جائو جو سامان دے لے آئو۔ عیسائی شہزادہ واپس جانے لگتا ہے، سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جوتا مسجد کے دوسرے کونے میں پڑا ہے اگرسیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جوتا پکڑتے ہیں تو شہزادے کے چلے جانے کا خدشہ ہے اس طرح حکم رسالت کی تعمیل میں تاخیر ہونے کا اندیشہ تھا۔ اس لیے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ننگے پائوں ہی شہزادے کے گھوڑے کے ساتھ ساتھ دوڑتے جارہے ہیں۔عرب کی سخت گرمی اور ریت کی تپش کی حرارت نے جب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعایٰ عنہ کے پائوں پر گرمی کے اثرات مرتب کیے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہزادے سے کہا کہ مجھے اپنے ساتھ سواری پر بیٹھا لو یا اپنا جوتا مجھے دے دو، توشہزادے نے کہا کہ تو نوکر ہے میں شہزادہ ہوں، میں تجھے اپنے ساتھ سواری پر کیسے بٹھا سکتا ہوں اور نہ ہی میں تمہیں اپنا جوتا دینا پسند کرتا ہوں۔

الغرض یہ لمبا سفر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیدل گھوڑے کے ساتھ دوڑ کر طے کیا۔ تحفے لے کر جب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دربارِ رسالت میں حاضر ہوتے ہیں تو آپ کے پائوں سے خون بہہ رہا تھا۔ نبی اکرمﷺ نے خون بہنے کی وجہ دریافت کی تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرمﷺ کو سارا واقعہ سنایا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ اے معاویہ! تو واپس کیوں نہ آیا؟ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر معاویہ ٹکڑے ٹکڑے بھی ہو جاتا تو معاویہ واپس نہ آتا کیونکہ اس سے آپ کے حکم کی نافرمانی ہوتی تھی۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس جواب پر نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

میری امت میں سب سے زیادہ بردبار معاویہ ہے۔ (تطہیر الجنان 14)

قارئین کرام! مکہ کے سب سے بڑے سردار ابوسفیان کا یہ بیٹا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ کا نوکر اور غلام بن کر کس طرح حکم نبوت کی تکمیل میں سرگرم عمل نظر آتا ہے۔ اس سے ان کے جذبۂ اطاعت ِرسول کا پتہ چلتا ہے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عہد خلافت جدید دور کے مسلمانوں کے لیے نعمت ِعظمیٰ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ آپ کا عہد ِخلافت رخصت وعزیمت جیسی نعمت سے سرفراز ہے۔ قدرت نے اس صحابیٔ رسول کے عہد ِخلافت کو رخصت وعزیمت سے مزیّن کر کے مسلمانوں کو ہر ترقی یافتہ دور میں جدید تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خلافت اسلامیہ قائم کرنے کا راستہ فراہم کیا ہے۔ چند شرپسند اور بے ایمان لوگ امت کو اس نعمت سے محروم کرنے کے لیے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد ِخلافت کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد ابوسفیان، والدہ ہند اور بیٹا یزید ہے۔ تو اس میں طعن یا خفت کی کیا بات ہے؟ ہمیں عمل ِرسالت یاد رکھنا چاہیے کہ نبی اکرمﷺ نے جب ابو سفیان اور سیدہ ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہماکو صحابیت کے شرف سے سرفراز کر کے اپنے دامن رحمت میں جگہ دے دی تو ہم کون ہوتے ہیں ان کی شان میں تنقیص کرنے والے۔

باقی رہ گیا مسئلہ یزید کی تقرری کا تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا صحابہ اور اہل حل وعقد سے رائے لینا ثقہ روایاتِ کثیرہ سے ثابت ہے۔ اگر بالفرض سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے امت کے اتحادو اتفاق کی خاطر یزید کو خلیفہ مقرر کر دیا تو بھی اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ خلیفۂ راشد، سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے انتخاب میں مخلص تھے اور جیسا کہ کتب ِتاریخ میں نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے جمعہ کے دن دمشق کی مرکزی مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر تمام لوگوں کے سامنے یہ دعا کی:

اے اللہ! اگر میں یزید کو اس کی اہلیت وقابلیت دیکھ کر ولیٔ عہد بنایا ہے تو اسے اس مقام تک
پہنچا دے جس کی میں نے اس کے لیے امید کی ہے اور اس کی مدد فرما اور اگر مجھے اس کام پر
صرف اس محبت نے آمادہ کیا ہے جو باپ کی بیٹے سے ہوتی ہے تو اس کے خلافت تک پہنچنے

سے پہلے اس کی روح قبض کرلے۔ (الذہبی، تاریخ اسلام وفیات المشاہیر والاعلام 169/4)

علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تاریخ الخلفاء (186/1) میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ دعا نقل کی ہے۔
یہ دعا تو سراپا اخلاص وللّٰہیّت میں ڈوبے ہوئے کسی صحابی رسول کے دل سے ہی نکل سکتی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اخلاص کی تصدیق تو ربِ کائنات نے قرآن کریم میں کردی ہے۔ (المجادلہ 22)

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد ِزریں کو جھوٹے، بے بنیاد دشمنان اسلام کے پروپیگنڈے سے متأثر ہو کر نظر انداز کر دینا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت وعقیدت کا اظہار کرنے سے گھبرانا اپنے ایمان کی کمزوری کی علامت ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے تاکیداً فرمایا:

اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملے میں، میرے بعد ان کو طعن وتشنیع
کا نشانہ نہ بنانا۔ (ترمذی)

قارئین کرام! امیر المومنین، خلیفۂ راشد، سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان ومنقبت، عظمت وکردار اور عہد ِخلافت میں بہت سے گوہر نایاب موجود ہیں۔ امت کے ہر فرد کو چاہیے کہ اس عظیم ہستی کی سیرت کا بغور مطالعہ کر کے جدید دور کے کفریہ حملوں کا منہ توڑ جواب دے اور منظم طریقے سے وحدتِ امت کا پرچم لے کر اٹھے اور ادارہ خلافت کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے تن من دھن لگا دے کہ اسی میں امت مسلمہ کی بھلائی، عزت وعظمت اور رفعت کا راز مضمر ہے۔
دورِ حاضر میں ایک عظیم فقیہ ومحدث مولانا مفتی رشید احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب احسن الفتاویٰ جلد 4میں فرمایا ہے:

سابق زمانہ میں روافض وخوارج کی تردید کے لیے انہی صحابہ کا ذکر کافی تھا جو جمعہ کے مطبوعہ خطبوں
میں مذکور ہیں۔ جدید دور میں ایک ایسی جماعت کا ظہور جدید فتنہ ہے جو اہلسنت ہونے کے مدعی ہے
اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے عقیدت کی مدعی ہے مگر ان کے قلوب بغض سے مسموم ہیں۔
سیدنا عثمان اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے متعلق ان کے قلوب کی نجاست ان کی زبان وقلم سے
مسلسل اُبل رہی ہے۔ یہ لوگ اہلسنت سے خارج ہیں، الحاد میں روافض کی راہ پر چل رہے ہیں، نیز
روافض کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوا (تینوں) بنات مکرمات سے بھی بغض ہے اس لیے ان فتنوں
کی تردید کے پیش نظر خطبۂ جمعہ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بنات مکرّمات کے مناقب وفضائل
کا ذکر اور ان کے لیے دعائے ترضی کا معمول بنانا چاہیے۔

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مطبوعہ خطبہ موجود ہے جس میں ازواجِ مطہرات سیدہ خدیجہ، سیدہ عائشہ، سیدہ حفصہ، سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن، خلفائے صحابہ اور سیدنا حسن وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نام موجود ہیں۔ عشرہ مبشرہ میں سے باقی چھ حضرات کے نام بھی موجود ہیں، چاروں بنات طیّبات کے علاوہ چاروں اسباطِ نبی سیدنا علی بن ابی العاص، سیدنا عبد اللہ بن عثمان اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مبارک ومتبرک اسمائے گرامی بھی درج ہیں۔ اس لیے نہایت لجاجت سے ائمہ خطباء حضرات کو خطبہ میں اسے ہی پڑھنے کی درخواست ہے کیونکہ اس طرح بہت سے فتنوں کا رد بآسانی کیا جا سکتا ہے۔

شاعر، مداح صحابہ انجم نیازی نے اسلام کے پہلے امیر البحر، فاتح قبرص وقسطنطنیہ، قاطع سبائیت، مدبر بے مثال اور کاتب وحی امیر المومنین وخال المسلمین سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں کیا خوب شعر کہا ہے:

سِکھایا ساری دنیا کو جہاں بانی کا ڈھنگ اس نے بنایا پانیوں کو بارہا میدانِ جنگ اس نے