سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطالبہ قصاصِ عثمان کی وجوہات

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطالبہ قصاصِ عثمان کی وجوہات
پروفیسر محمد حمزہ نعیم
ہاں اگر میں شہید ہو جائوں تو تُو میرے خون کا مطالبہ کرے گا یہ تجھے میں اختیار دیتا ہوں۔ میرا خون
رائیگاں نہ جائے گا۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو خاتم المرسلینﷺ کے دوہرے داماد سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی شہادت سے چند ماہ پہلے کہے تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وقت سے علاقہ شام کے گورنر چلے آرہے تھے انہوں نے بارگاہِ خلافت سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا:
امیر المومنین! مدینہ میں کچھ بدقماش داخل ہو چکے ہیں ان کا مؤاخذہ کیجیے۔ فرمایا: نبی کے شہر میں مَیں
تیر وتلوار کی اجازت نہیں دے سکتا۔ عرض کیا امیر المومنین! میرے سپاہیوں کا ایک دستہ اپنی حفاظت
کے لیے مدینہ ٹھہرا لیجیے، فرمایا: یہ تو مدینہ والوں پر بوجھ ہو گا۔ عرض کیا: امیر المومنین! آپ میرے پاس
شام تشریف لے چلیے، فرمایا: جیتے جی مدینہ نہیں چھوڑ سکتا۔ عرض کیا: آخری درخواست کی اجازت دیجیے۔
فرمایا: وہ کیا ہے؟ عرض کیا حضور اپنا وصی نامزد فرما دیجیے کیونکہ مجھے آپ شرپسندوں کے ہاتھوں شہید ہوتے
نظر آ رہے ہیں۔ اِجْعَلْ لِیَ الطَّلَبَ بِدَمِکَ اِنْ قَتَلْتَ ۔۔۔۔۔ ارشاد ہوا: نَعَمْ ھَذَا لَکَ اِنْ قَتَلْتُ
فَلَا یَطِلُّ دَمِیْ ۔۔۔۔۔ہاں اگر میں شہید کر دیا جائوں تو تو میرا خون کا مطالبہ کرے گا، یہ تجھے اختیار دیتا
ہوں (تو میرا وصی ہے میرا خون رائیگاں نہ جائے) (الامامۃ السیاسۃ منسوب بہ ابن قتیبہ دینوری 29) ​
یہ کتاب اگرچہ کسی سبائی تبرائی کی لکھی ہوئی ہے تاہم یہی صفحہ فوٹواسٹیٹ بھجوا کر محقق دوراں مولانا محمد نافع رحمۃ اللہ علیہ سے بندہ نے رائے چاہی تو جواباً لکھا کہ قصاصِ عثمان کا مطالبہ کرنے والے اکیلے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نہ تھے، امام مظلوم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادگان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ خود سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دوسرے کے عمّ زاد بھائی (چچازاد بھائی)تھے کیونکہ دونوں کے دادا ابو العاص اور حرب حقیقی بھائی تھے۔ اس طرح چچا زاد بھائی ہو کر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصی الدم اور ولی الدّم بھی تھے۔
علمائے سلف اور مؤرخین ِاسلام اس بات پر متفق ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کا دعویٰ قطعاً نہیں کیا تھا۔ مطالبہ فقط دمِ عثمان کا تھا اور اس بات پر عشرہ مبشرہ میں سے سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما (جو سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پھوپھی زاد اور عمِّ رسول حمزہ شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سگے بھانجے) بھی تھے۔ ان کے علاوہ اصحابِ رسول کی ایک عظیم جماعت بشمول ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قاتلینِ عثمان سے قصاص لینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔۔۔ سیدنا معاویہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں صفین کے مقام پر جنگ وقوع پذیر ہو چکی تھی اس جنگ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض ساتھیوں نے قرآن بلند کیا تھا یہاں تک کہ جنگ ِصفین میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض مخلص اہل ایمان ساتھیوں نے یہی سوچا کہ فیصلہ تلوار سے نہیں قرآن کے ذریعے کیا جائے اس طرح قرآن بلند کر کے حَکَمَیْن کو دعوت دی گئی۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری اور سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما جیسے اہل بصیرت کو حَکَم بنایا گیا۔ انہوں نے طرفین کے دلائل سنے اور فیصلہ دیا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطالبہ خلافت کا تو ہے نہیں قصاصِ دمِ عثمان کا ہے اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر قصاص نہیں لے سکتے تو کسی تیسرے شخص کے معاملہ سپرد کیا جائے۔۔۔ چھ ماہ بعد حَکَمَیْن پھر ملیں اور حالات کے مطابق فیصلہ کریں۔۔۔ مگر قاتلینِ عثمان کے گروہ کو اس فیصلے میں اپنی جانیں سولی پر نظر آرہی تھیں انہوں نے چھ ماہ کی مقرر مدت سے پہلے ہی امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیسیوں الجھنوں میں الجھا دیا اور ایک بڑا گروہ یہ کہہ کر الگ ہو گیا کہ لا حکم الا اللہ۔۔۔ تم نے امر تحکیم کو قبول ہی کیوں کیا۔
اب انہوں نے فتویٰ لگا دیا کہ سیدنا علی، سیدنا معاویہ اور سیدنا عمر وبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہم تینوں کافر ہو گئے کیونکہ انہوں نے تحکیم کو قبول کیا۔ ان تینوں کو قتل کیا جائے۔ تین خارجیوں کو اس کام کے لیے بھیجا گیا۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس دن بیمار تھے فجر کی نماز میں ان کا قائم مقام شہید کر دیا گیا۔ دمشق کی مسجد میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کیا گیا، وہ زخمی ہوئے، حملہ آور گرفتار ہوا۔ تیسرا خارجی مجرم ابن ملجم جامع مسجد کوفہ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ آور ہوا ، انہیں مہلک زخم آئے اور شہید ہو گئے۔ ابن ملجم گرفتار ہو کر قتل کیا گیا۔
حَکَمَیْن مقرر کرنے پر جب شیعانِ علی میں فساد پیدا ہوا اور اپنی جانیں بچانے کے لیے جب انہوں نے لشکر ِعلی میں ہنگامے کھڑے کر دیئے، اب امت کو سنبھالنے کے لیے بعض اصحابِ رسول اور خیرخواہانِ امت کے مشورے سے حجاز اور عراق کو چھوڑ کر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفۃ المسلمین قرار دے دیا گیا۔ اس وقت امت میں بیک وقت دو امیر المومنین ہو گئے۔ حجاز اور عراق وغیرہ میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عمِّ رسول اور شام ، مصر وغیرہ میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نسبتی برادر اور ہم زلفِ رسول، تاہم سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت پر ابن علی، نواسۂ رسول سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی۔ پھر چند ماہ بعد نبوی پیشینگوئی کو پورا کرتے ہوئے کہ میرا بیٹا حسن سردار ہے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا ۔ سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام اہل ایمان کی طرف سے امیر المومنین نامزد کرتے ہوئے ان کی بیعت کرلی اور اہل اسلام نے اس موقع کو ’’عام الجماعۃ‘‘ یعنی تمام اہل اسلام کے ایک امیر پر مجتمع ہونے کا سال قرار دے دیا۔
خلاصہ یہ کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطالبۂ قصاص کئی وجوہ پر مبنی تھا۔
(1) وہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے۔
(2) وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ذمہ دار (گورنر) تھے۔
(3) سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے ان کے ساتھ مل کر مطالبۂ قصاص میں پیش پیش تھے۔
(4) غزوۂ حدیبیہ میں نبی اکرمﷺ نے ایک اڑتی خبر پر کہ ’’سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (سفیر ِرسول) شہید کر دیئے گئے‘‘ قصاصِ عثمان پر بیعت لی تھی۔ چودہ سو اصحابِ رسول نے اس بات پر بیعت کی تھی کہ اگر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعی شہید کر دیئے گئے ہیں تو ہم ان کے قاتلین سے بدلہ لیں گے یا خود شہید ہو جائیں گے۔
(5) اس بیعت پر اصحابِ رسول کے لیے آسمان سے رضوان سرٹیفیکٹ نازل ہو کر قصاصِ عثمان کو حق قرار دے رہا تھا۔
(6) بہت سے اصحابِ رسول اور عشرہ مبشرہ میں سے سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اسی موقف پر کہ اب تو واقعی سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہو چکے لہٰذا قصاص لینا فرض ہو چکا۔ یہ عظیم صحابہ اسی بنیاد پر قاتلینِ عثمان سے قصاص کے مطالبہ میں پیش پیش تھے۔ سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ نہیں تھے مگر اسی عنوان پر جدوجہد میں شہید ہوئے۔
(7) سب سے اہم وجہ مذکورۃ الصدور وصیت ِعثمان تھی کہ انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وصی قرار دے کر تاکید کر دی تھی کہ میں شہید ہو جائوں تو تم نے قصاص لینا ہے میرا خون رائیگاں نہ جائے۔ بہرحال امت تمام اصحابِ رسول کو اپنے اپنے موقف میں برحق سمجھتی ہے۔ واللہ الہادی