عید میلاد کی شرعی حیثیت

إرشاد العباد في عید المیلاد
یعنی
عید میلاد کی شرعی حیثیت
پیش ازہمہ شاہان غیور آمدہ
ہرچند کہ آخر بظہور آمدہ
اے ختم رسل قرب تو معلومم شد
دیر آمدہ ز راہ دور آمدہ
حمدوصلوٰۃ کے بعد گزارش ہے کہ آج کل بعض نا سمجھ مدعیانِ محبت نے حضور اکرم ﷺ کے ذکرِمبارک کو بھی آپ ﷺ کی ولادت کے زمانہ کے ساتھ خاص کردیاہے اور وہ بطورِ رسم کے ماہِ ربیع الاول میں آں حضرت ﷺ کا ولادت کا یوم منانے لگے ہیں۔ جیساکہ بعض مدعیانِ محبتِ حضرت حسین ؓ نے یومِ حسین منانے کے لیے ماہِ محرم کی دسویں تاریخ کو خاص کر رکھاہے۔ حالاں کہ حضور اکرم ﷺ کا ذکرِمبارک ایسی با برکت چیز ہے کہ اس کو ہر وقت مسلمانوں کے رگ وپے میں سرایت کرجانا چاہیے تھا اور کوئی وقت آپﷺ کے تذکرہ سے خالی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پھر نہ صرف یہ کہ آپﷺ کی ولادتِ شریفہ اور معراج شریف ہی کا ذکر قابلِ بیان ہے بلکہ آپ کی ہربات یہاں تک کہ آپﷺ کی نشست و برخاست اور طعام و لباس اخلاق و عبادات، مجاہدات و ریاضات افعال و احکام اور اوامر و نواہی سب کا ہی تذکرہ کرنا مسلمان کے لیے نیکی اور باعثِ ثواب ہے، کیوں کہ آں حضرت ﷺ کااُٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا حتیٰ کہ حوائجِ ضروریہ میں مشغول ہونا سب ہی عبادت ہے اورنماز روزہ وغیرہ احکامات کی تبلیغ وتعلیم کرنابھی عبادت میںشامل ہے۔ اس لیے حضور ﷺ کے ان سب حالات کا بیان اور ذکر کرنا ذکر رسول میں داخل اور موجب برکت ہے۔ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادآبادی کاارشاد ہے کہ ہم توہر وقت ذکرمیلاد کرتے ہیں، کیوں کہ لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ (ﷺ) پڑھتے رہتے ہیں، اگرحضور ﷺ پیدا نہ ہوتے توہم یہ کیوں پڑھتے؟ توکلمۂ طیبہ پڑھنا بھی آپﷺ کی ولادت کاذکرکرناہے۔ غرضے کہ حضور ﷺ کاذکر مبارک توہروقت ہی ہونا چاہیے اور آپﷺ کی ہر ادا کا ذکر ہونا چاہیے، کیوں کہ محب کو محبوب کی ہر ادا پسند ہوتی ہے اور چوں کہ احکامِ شرعیہ اور اوامر و نواہی بھی سب حضور ﷺ کے واسطہ سے اور آپﷺ کے ہی طفیل امت کو عطاکیے گئے ہیں اس لیے احکامِ شرعیہ کاتذکرہ کرنا بھی آں حضرت ﷺ کاہی تذکرہ کرناہے۔ صرف ولادتِ شریفہ ہی کوآں حضرت ﷺ کاتذکرہ سمجھنا بہت بڑی غلطی اور محبت کی حقیقت سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ اگر حضور ﷺ سے محبت ہے تو سمجھنا چاہیے کہ ذکرِولادت جس طرح آپ کاذکرہے ایسے ہی احکامِ شرعیہ اور اوامرو نواہی کاذکربھی آپﷺ ہی کاذکرہے۔

علامتِ محبت: محبت کی علامت بھی یہ ہے کہ محبوب کی ہربات کاذکرہو، ولادت شریفہ کا بھی آپﷺ کی سخاوت کابھی، عادات اور عبادات کا بھی اور اس میں کسی مہینہ اور تاریخ اور مقام کی کوئی خصوصیت نہیں ہے، بلکہ دوسرے وظیفوں کی طرح روزمرہ اس کاوظیفہ ہوناچاہیے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اہلِ محرم کی طرح سال بھر میں مقررہ تاریخ پریومِ میلاد منالیا جائے اور اس کے بعد پھر کچھ نہیں، حالاں کہ حضور ﷺ کاذکرمبارک توغذا ہے، یہ ہروقت ہوناچاہیے اس میں کسی وقت کی تخصیص کی کیاضرورت ہے؟ آپ ﷺ کے حالات مبارکہ میں جوصحیح کتابیں لکھی گئی ہیں ان کوہمیشہ پڑھنا اور سننا اور آپ ﷺ کے ذکر کو اپنا وظیفہ بنانے کی ضرورت ہے۔ حضرت حکیم الامت کی کتاب ’’نشر الطیب في ذکر النبي الحبیب‘‘ اس مقصد کے لیے بہت مفید اور با برکت ہے۔

ذکرکا نیا طریقہ: آج کل بعض مدعیان محبت نے حضور ﷺ کے ذکر کا ایک نیا طریقہ نکالا ہے کہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو یومِ میلاد مناتے ہیں اورانھوں نے اس کا نام عید میلاد النبی رکھا ہے۔
ایسامعلوم ہوتاہے کہ یہ نیاطریقہ اصل میں عیسائیوں کے توڑ کے لیے ایجاد کیاگیا ہے کہ جیسے وہ لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدایش کادن مناتے ہیں اور ان کے یہاں بڑے دن کی خوشی قومی طرز پرہوتی ہے، اسی طرح ان مدعیانِ نبوت نے بھی یومِ میلاد کو اپنی قومی شوکت کے اظہار کا دن بنالیا اور اس پر سیاسی رنگ چڑھا دیاہے۔ اس نئے طریقے کے ایجاد کرنے والے چوں کہ اکثر انگریزی خواں اورجدید تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ اپنی ایجاد کااس سے زیادہ کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکتے کہ اس میں قومی شوکت کے اظہار کی مصلحت ہے اور دنیوی با وجاہت شخصیتوں کے اعزاز میںجلوس نکالنے اور خوشی منانے کو اس کے جواز اور مثال میں پیش کرنے کے سوا وہ اور کوئی شرعی دلیل اس پرپیش نہیں کرسکتے۔ حالاں کہ آں حضرت ﷺ کی ولادت شریفہ اور آپﷺ کی دنیامیں تشریف آوری پردنیوی طریقہ سے اظہارِ مسرت اور خوشی منانا آپﷺ کی شان کو دنیوی بادشاہوں اورلیڈروں کے ساتھ ملانا اور آپﷺ کے مرتبۂ عُلیاسے آپﷺ کونیچے لے جانا ہے۔ اس میں بارگاہِ رسالت کے ساتھ کس قدر گستاخی اور بے ادبی پائی جاتی ہے وہ اہلِ دانش پرپوشیدہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ آں حضرت ﷺ کی ولادت مبارکہ پرفرح اورسرور کا شریعت نے حکم دیاہے اورجوچیزیں شرعی طور پر ماموربہٖ ہوتی ہیں اس کو ذکر کرنا دین میں اصل ہوتا ہے۔ لہٰذا آپﷺ کی ولادت مبارکہ پر خوشی اور مسرت دین میں داخل ہے تو اس پرخوشی اورمسرت کے ظاہر کرنے کا جو طریقہ شریعت نے بتلایا ہو اس کے
موافق اس کا اظہار کرناچاہیے۔
مقامِ غور ہے کہ آں حضرت ﷺ کے ساتھ ایسابرتائوکرنا جودنیوی اُمرا اور حکام کے ساتھ کیاجاتاہے جن کو آں حضرت ﷺ کے ارفع اور اعلیٰ شان کے ساتھ وہ نسبت بھی نہیں جو زمین کو آسمان کے ساتھ ہے۔ بارگاہِ نبوت میں بے ادبی اور گستاخی نہیں ہے؟
اب دیکھنا چاہیے کہ ولادتِ نبویﷺ پراظہارِ خوشی کا جو طریقہ آج کل رواج پاگیا ہے جس کو’’عیدمیلاد‘‘ کہا جاتاہے کیایہ طریقہ اسی شرعی طریقہ کے موافق ہے جس کی تعلیم ہم کو دی گئی ہے؟

قرآن کریم سے آں حضرت ﷺ کی ولادتِ مبارکہ پر فرحت و سُرور کا ثبوت:
قرآن کریم میں ہے:
{قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo}1
(اے محمدﷺ!) آپ فرماد یجیے کہ اللہ کے فضل اور رحمت ہی کے ساتھ بس صرف چاہیے کہ خوش ہوں (اس لیے) کہ وہ بہترہے اس شے سے کہ جس کویہ لوگ جمع کرتے ہیں۔
اس آیت کے سیاق پرنظر کرکے توفضل ورحمت سے مراد قرآن مجید ہے لیکن اگرایسے معنی عام مراد لیے جائیں کہ قرآن مجید بھی اس کا ایک فرد رہے تو یہ زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ معنی ہے کہ فضل و رحمت سے حضور کا قدوم مبارک اور آپ کی دنیا میں تشریف آوری کو مراد لیاجائے۔ اس تفسیر کے موافق جتنی نعمتیں اور رحمتیں ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا دینی ہوں اور اس میں قرآن مجید بھی ہے، سب اس میں داخل ہوجائیں گی، اس لیے کہ حضور ﷺکا وجود باجود اصل ہے تمام دینی اور دنیوی نعمتوں کی، اورسرچشمہ ہے تمام رحمتوں اور فضل کا۔ اس طرح یہ تفسیرتمام تفسیروں کی جامع تفسیر ہوجائے گی۔
اس تفسیر کی بنا پر حاصل آیتِ مبارکہ کا یہ ہوگا کہ ہم کو حق تعالیٰ ارشاد فرمارہے ہیں کہ حضورﷺ کے وجود باجود پر خوش ہونا چاہیے اس لیے کہ حضورﷺ ہمارے لیے تمام نعمتوں کے واسطہ ہیں، خواہ وہ دنیوی نعمتیں ہوں یا دینی، جن میں سب سے بڑی دولت ایمان ہے جس کا حضور اکرم ﷺ کی بدولت ہم کوپہنچنا تو بالکل ظاہر ہے۔ غرضے کہ اصل الاصول تمام مواد فضل ورحمت کی حضورﷺ کی ذات بابرکات ہوئی۔
اس لیے اس ذات بابر کات کے وجود پرجس قدر بھی خوشی اور فرح ہوکم ہے۔ بہرحال اس آیت سے عموماً یاخصوصاً
نہایت بلیغ طور سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اس نعمتِ عظیمہ پرخوش ہوناچاہیے۔ اس لیے کہ اول توجار مجرور {بِفَضْلِ اللّٰہِ} کو مقدم لائے کہ جومفیدِ حصر ہے، اس کے بعد رحمت پر پھر حرفِ جار کا اعادہ فرمایا جس سے اس میں استقلال کا حکم پیدا ہوگیا۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اس کو مزید تاکید کے لیے {فَبِذٰلِکَ} سے مکرر ذکر فرمایا اور ذلک پر حرفِ جار اور فاءؔ عاطفہ لائے تاکہ اس میں اور اہتمام ہوجائے۔ پھر نہایت اہتمام دراہتمام کی غرض سے {فَلْیَفْرَحُوْا}پر فاءؔ لائے جو کہ مشیر ہے ایک شرط مقدّر کی طرف اور وہ إِنْ فَرِحُوْا بِشَيْئٍ ہے۔
حاصل یہ ہوا کہ اگر کسی شے کے ساتھ خوش ہوں تواللہ تعالیٰ ہی کے فضل و رحمت کے ساتھ پھر اسی کے ساتھ ہوں ۔ یعنی اگردنیا میں کوئی شے خوشی کی ہے تو یہی نعمت ہے اور اس کے سوا کوئی شے خوشی کے قابل نہیں ہے اور اس سے بدلالۃ النص یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ نعمت تمام نعمتوں سے بہتر ہے، لیکن چوں کہ ہم لوگوں کی نظروں میں دنیا اور دنیا کی ہی نعمتیں ہیں اور اسی میں ہم کوانہماک اورمشغولی ہے، اس لیے اس پر بس نہیں فرمایا، آگے اورنعمتوں پر اس کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے صراحتہً ارشاد ہے {ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo} یعنی یہ نعمت ان تمام چیزوں سے بہترہے جن کویہ لوگ جمع کرتے ہیں۔ یعنی دنیابھر کی نعمتوں سے یہ نعمت افضل ہے اور بہتر ہے۔ یہ حاصل ہے اس آیت کا جو مبنی ہے اس تفسیر پرکہ فضل ورحمت سے حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی مرادلی جائے۔

حضور ﷺ کے وجود با جود پر فرحت کس بنا پر ہے:
قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے:
{لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ ٰاٰیتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo}1
حق تعالیٰ نے ایمان والوں پراحسان فرمایاکہ ان میں ایک رسول ان کی جنس سے بھیجا کہ وہ ان پران کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں، اور ان کو (ظاہری وباطنی) نجاستوں (گند گیوں) سے پاک کرتے ہیں، اور ان کوکتاب وحکمت سکھاتے ہیں، اور بے شک وہ اس سے پہلے ایک کھلی گمراہی میں تھے۔
اس آیتِ مبارکہ میں{ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ ٰاٰیتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ}الآیۃ سے صاف معلوم ہورہاہے کہ اصل شے خوشی کی اور ما بہ الفرح والمنۃ یہ ہے کہ حضور ﷺ ہمارے لیے سرمایۂ ہدایت ہیں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضورﷺ کے متعلق خوش ہونے کی بہت سی چیزیں ہیں ۔ مثلاً حضورﷺ کی ولادت، اورحضورﷺ کی بعثت، اور حضورﷺ کے دیگر تمام
حالات، مثلاً: معراج شریف وغیرہ، یہ سب حالات واقعی خوش ہونے کے ہیں لیکن اس حیثیت سے کہ ہمارے لیے یہ مقدمات ہیں ہدایت وسعادتِ ابدی کے ۔ چناں چہ اس آیت سے صاف ظاہر ہے، اس لیے کہ اس میں بعثت کے ساتھ یہ صفات بھی بڑھائی گئی ہیں: {یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ ٰاٰیتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ} الآیۃ پس بقاعدۂ بلاغت ثابت ہوتاہے کہ اصل ما بہ المنۃ یہ صفات ہیں۔ باقی ولادت شریفہ یامعراج شریف وہ باعثِ خوشی زیادہ اسی لیے ہیں کہ مقدمات ہیں اس دولتِ عظیمہ کے حصول کے، اس لیے کہ اگرولادتِ شریفہ نہ ہوتی توہم کو یہ نعمتِ عظیمہ کیسے ملتی؟

ذکرِ ولادتِ شریفہ اور ذکرِ نبوتِ شریفہ میں بڑا فرق ہے: اس آیت مبارکہ میںا س مقصود کا ذکر تصریحاًاور قصداً فرمایا گیا ہے اور دوسری آیت میں حضور ﷺ کے وجود باجود کا ذکر اشارتاً و ضمناً فرمایا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے : { لَعَمْرُکَ اِنَّہُمْ لَفِیْ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ}1 اسی میں حضور ﷺ کی بقا اور آپ ﷺ کے وجودِ مقدس کو مقسم بہ بنایا گیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ قسم میں جواب قسم مقصود ہوتا ہے اور مقسم بہ کو تبعاً ذ کر کیا جاتا ہے۔ اور ایک مقام پرحضور ﷺ کی ولادتِ شریفہ کو بھی اس طرح ذکر فرمایاہے، فرماتے ہیں : {لَآ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِoلا وَاَنْتَ حِلٌّ مبِہٰذَا الْبَلَدِoلا وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَoلا}2کی تفسیر میں بعض مفسرین کاقول ہے کہ اس کی مصداق حضور ﷺ کی ذات والا صفات ہے۔ مگر اس اہتمام سے اس کا ذکر نہیں فرمایا گیا جیسا کہ آیت {لَقَدْ مَنَّ }الآیۃمیں نبوت وبعثت اور تعلیم و تزکیہ کوبیان فرمایا گیا ہے۔

نبوتِ شریفہ پرولادتِ شریفہ سے زیادہ خوش ہونا چاہیے: اسی وجہ سے فرحت وسرور میں بھی تفاوت ہوگاکہ جس قدر ولادتِ شریفہ پر فرحت و سرور ہو اس سے زائد نبوت شریفہ پر ہونا چاہیے، کیوں کہ قرآن مجید سے ثا بت ہو رہا ہے کہ زیادہ اہتمام کے قابل اور اصل ما بہ المنۃ اور فرح وسرور کا باعث نبوت وبعثت ہے، اسی لیے نبوت وبعثت کا ذکر بہ نسبت ولادت شریفہ کے ذکر کے زیادہ اہتمام کے لائق ہوا، اور نبوت و بعثت ہی اس قابل ہے کہ اس پر سب سے زیادہ مسرت و خوشی کا اظہار کیا جائے۔ شا ید اس فرق کی وجہ سے ہی قرآن کریم میں جس اہتمام اور صراحت کے ساتھ نبوت وبعثت کاذکرفرمایاگیا ہے اس اہتمام و صراحت کے ساتھ آں حضور ﷺ کی ولادت شریفہ کاذکرنہیں فرمایاگیا، بلکہ اس کاذکر اشارتاً یا اجمالاً ہی فرمایاگیاہے، جیساکہ اوپرگزراہے۔
ُُُُُُُُ
قصّۂ ولادت یحییٰ وعیسیٰ ؑ کے قرآن مجید میں مذکورہونے سے استدلال کا جواب: ان دونوں حضرات کے قصۂ ولادت کو اہتمام سے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں حضرات کی ولادت ایک عجیب طریقہ سے خرق عادت کے طور پرہوئی ہے۔ یحییٰ ؑ کے والد ماجداور والدہ ماجدہ بوڑھے بہت تھے کہ اسبابِ ظاہرہ کے اعتبار سے ان میں صلاحیت ہی توالدوتناسل کی نہ رہی تھی۔ چناںچہ ارشاد ہے: { وَاَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗط}1 اس لیے ایسی حالت میں انسان کی ولادت عجیب تھی۔ اور عیسیٰ ؑ بے باپ کے پیدا ہوئے تھے اس لیے ان کی ولادت اس سے بھی زیادہ عجیب تراور خارقِ عادت تھی۔
اس واسطے حق تعالیٰ شانہ نے ان دونوں قصوں سے اپنی قدرت او ر توحید پراستدلال فرمایاہے۔ یہ وجہ ہے کہ دونوں قصوں کو اہتمام سے قرآن مجید میں ذکرفرمایاگیا۔ اور حضور ﷺ کی ولادت شریفہ چوںکہ عادت اللہ کے موافق والدین کے ذریعے بطریق معہود ہوئی ہے اس لیے آں حضرت ﷺ کی ولادت شریفہ کے ذکرکا اس قدراہتمام قرآن مجید میں نہیں فرمایاگیا۔
اب دونوں پیغمبروں کے ذکرِ ولادت کے اہتمام پرآں حضرت ﷺ کے ذکرِ ولادت کو قیاس کرکے اس کے اہتمامِ ذکر کو ثابت کرناقیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہے۔

حضورﷺکی ولادتِ شریفہ بطریق متعارف ہونے میں حکمت: حضورﷺ کی دنیا میں تشریف آوری اور آپ کی ولادتِ مبارکہ اسی طرح ہوئی جس طرح عادت اللہ جاری اورمعروف طریقہ ہے۔ خرقِ عادت کے طور پرغیرمعروف اور غیر متعارف طریقہ سے آپ ﷺ کی ولادتِ مبارکہ نہ ہونے میں ایک حکمت یہ ہے کہ آدمی کو زیادہ اُنس اس سے ہوتاہے جس سے کچھ مناسبت ہو اور قاعدہ ہے کہ جس قدر مناسبت زیادہ ہوگی اُنس بھی زیادہ ہوگا اور جس قدر مناسبت کم ہوگی اسی قدر وحشت بڑھے گی۔ اس واسطے آدمی کو اپنے ہم جنس کی طرف زیادہ میلان ہوتاہے اورجانوروں کی طرف کم ہوتاہے اورجنوں سے اور بھی کم بلکہ وحشت ہے، اور اسی وجہ سے انبیا ؑ سب آدمی اور انسان ہوئے ہیں۔ فرشتوں کونبی بناکرنہیں بھیجا گیا اس لیے کہ ان سے انسانوں کو وحشت ہوتی اور افادہ اور استفادہ ممکن نہ ہوتا۔ اس لیے سب رسول انسان ہوئے ہیں اور اس لیے بجر معجزات کے حضور ﷺ کی اورکوئی حالت ولادت وغیرہ بھی معمول کے خلاف نہیں بنائی گئی۔ اس لیے کہ اگرعادتِ جاریہ اورمتعارف طریقہ کے ذرا بھی خلاف کوئی بات ہوتی تومناسبت میں اور پھر اس کے سبب اُنس و محبت میں ضرورکمی آجاتی ہے۔ اس سے غرضِ محبت افادہ اور استفادہ میں نقصان آتااس لیے آں حضور ﷺ
کی ولادت مبارکہ کسی نئے طرز سے نہیں ہوئی اور یہی آپﷺ کی شان محبوبیت اور افادہ کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ اس کے خلاف کو ثابت کرنا اس حکمتِ مذکور کو نظرانداز کرناہے۔

خلاصہ: یہ ہے کہ مدار منت اورفرحت و سرور کا شانِ {یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ ٰاٰیتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ }1 ہے اور ولادت شریفہ نیز نشوونما کے واقعات کی خوشی بھی اس واسطے ہے کہ وہ واسطہ ہیں اس دولت کی تحصیل کا۔ پس اصل میں تومقصود چاند کا کامل ہونا اور اس کی حالت ہدایت کی ہے لیکن پہلے دن کے چاند اور ہلال ہونے کی خوشی بھی اسی واسطے ہے کہ وہ ذریعہ ہے کامل ہونے اور ہدایت کا، اس لیے اصل سرور اور مسرت تو اس لیے ہے کہ ہم کو حضور ﷺ نے دین کی بڑی نعمت عطافرمائی، باقی اس کے جس قدر اسباب ہیں وہ چوں کہ واسطے ہیں اس لیے ان سے بھی خوشی اور مسرت ہے۔
اظہارِ خوشی کاصحیح طریقہ: یہ تو واضح ہوگیا کہ حضور ﷺ کے وجود باجود اور دلادتِ مبارکہ پر فرحت اور خوشی کا ہم کو حکم دیاگیا ہے ۔ اب یہ سمجھنا چاہیے کہ اس فرحت کے اظہار کاصحیح طریقہ کیاہے؟
سوجاننا چاہیے کہ اس آیت کے مضمون پرجس طرح امت کے لیے عمل کرنا ضروری تھا اسی طرح اس فرحت کے اظہار کاطریقہ وہی صحیح ہوگاجس طریقہ پرخود آں حضور ﷺ نے عمل کرکے اس کو ظاہر فرمایا ہوگا۔
دیکھنا چاہیے کہ حضور ﷺ نے اس فرحت و خوشی کو کس طریقہ سے ظاہرفرمایا ہے۔ کیا آپ کی سیرتِ مقدسہ یا آپ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین کی سیرت میں کہیں اظہارِ مسرت کے اس طریقہ کا ذکر ملتا ہے جس کو آج کل کے بعض مدعیانِ محبت نے عید میلاد کے نام سے ایجاد کیا ہے؟ اور یومِ ولادت کو انھوں نے عید بنا لیاہے؟ سوال یہ ہے کہ آپ کے جانشین، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ جوکہ حضور ﷺ کی صحبتِ مقدسہ کو اٹھائے ہوئے تھے اور تمام عالم سے زیاہ قرآن مجید اور آں حضرت ﷺ کے منشائے مبارک کو سمجھتے تھے۔ آخر ان کی سمجھ میں اظہارِ مسرت کا یہ طریقہ کیوں نہیں آیا؟ جب کہ آں حضرت ﷺ کی محبت بھی ان حضرات کے رگ وپے میں سرایت کیے ہوئی تھی، اور اتباع کے جذبہ سے بھی ان کے قلوب معمور تھے۔ اسی طرح تابعین جن میں بڑے بڑے مجتہد ہوئے ہیں ان کی نظربھی یہاں تک کیوں نہیں پہنچی؟
بدعت وسنت کے پہچاننے کاقاعدۂ کلیہ: ظاہر ہے کہ ولادتِ نبوی ﷺ باعثِ خوشی اور اظہارِ مسرت کا سبب ہے اور اسی خوشی کے اظہار کے لیے آج کل یہ نیاطریقہ ایجاد کیاگیاہے کہ اس دن کو عید مناتے ہیں اور جلوس وغیرہ نکالتے ہیں،

اور یہ سبب حضورﷺ اورصحابہ کرام ؓ کے سامنے بھی موجود تھا۔ جب خود آں حضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے آپﷺ کی ولادت مبارکہ کی خوشی اور مسرت کا اظہار اس طرح نہیں کیا اور یوم ولادت کو عید نہیں بنایا اورنہ ہی اس دن میں جلوس وغیرہ نکالا تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شریعت میں اظہارِ خوشی کایہ طریقہ درست نہیں ہے ورنہ آپﷺ خود اورصحابہ کرامؓ اس طریقہ پر اظہار خوشی کرکے اس کاجواز ضروربتلا دیتے، یہی ایک دلیل کافی ہے اس عید میلاد کے بدعت ہونے اور حدیث: مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہٗ فَھُوَ رَدٌّ (جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جودین نہیں ہے، وہ مردود ہے) میں داخل ہو کر واجب الردّ ہونے کی۔
البتہ جس چیز کاسببِ جدید ہواور وہ چیز کسی ضروری امرکے لیے موقوف علیہ ہوکہ اس کے بغیر ماموربہ پر عمل نہ ہوسکتا ہو، جیسے کتبِ دینیہ کی تصنیف وتدوین اور مدارس وخانقاہ کی بنا و تعمیر کہ حضور ﷺ کے زمانہ کے بعد ان کی ضرورت پیش آئی اور ان کاسببِ جدید پیدا ہوا کیوں کہ دین کی حفاظت سب کے ذمہ ضروری ہے، کتبِ دینیہ اور مدارس وخانقاہوں کے بغیر اس کی حفاظت کی کوئی صورت نہ تھی، اس لیے علما ئے کرام نے حدیث، اصولِ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ اور عقائد کی کتابیں لکھیں اوران کی تعلیم وتدریس کے لیے مدارس تعمیر کیے اور باطنی نسبتِ سلسلہ اور تعلق مع اللہ کے باقی رکھنے اور تربیت کے لیے مشایخِ عظام نے خانقاہیں بنائیں۔ بہر حال یہ چیزیں وہ ہیں جن کاسبب جدید ہے اور وہ سب خیرالقرون کے زمانہ کے بعد پیداہواہے اس لیے بظاہر نظر دیکھنے میں یہ چیزیں بدعت اورنئی معلوم ہوتی ہیں، لیکن واقع میں بدعت نہیں ہیں بلکہ حسبِ قاعدہ مقدمۃ الواجب واجب قرارپائیں۔یہ قاعدۂ کلیہ ہے بدعت اور سنت کے پہچاننے کا، اس سے تمام جزئیاتِ مختلفہ کا حکم معلوم کیاجاسکتاہے۔
رسمِ میلاد کی تردید دلائل سے: شریعت کے دلائل چارہیں: کتاب وسنت، اجماع و قیاس۔ اوّل کتاب اللہ کوسمجھئے۔ حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں:
{اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ م بِہِ اللّٰہُط} 1
یعنی کیاان کے لیے شُرَکا ہیں کہ انھوں نے دین کی وہ بات مقرر کردی جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔
یہ آیت صاف بتلارہی ہے کہ دین کی بات بدوں اِذنِ الٰہی (یعنی بغیر دلیل شرعی) کسی کو مقرر کرنا مذموم ومستنکرہے۔ یہ تودلیل کا کبریٰ ہے اور صغریٰ یہ ہے کہ عید میلاد کو دین کی بات سمجھ کرہی بغیر دلیل کے مقرر کیاگیاہے۔ لہٰذایہ نتیجہ واضح ہے کہ عید میلادبدعت اور واجب الترک ہے۔
اب حدیث لیجیے۔ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہٗ فَھُوَ رَدٌّ۔
جوشخص ہمارے اس دین میں وہ شے نکالے جواس میں نہیں ہے پس وہ واجب الردّ ہے۔
اور مراد نئی شے سے وہ ہے جس کاسبب قدیم ہواور پھر اس وقت اس پرعمل نہ کیاگیا ہو، باقی جس کاسبب جدید ہواور وہ موقوف علیہ کسی مامور بہٖ کا ہو وہ بدعت میں داخل نہیں ہے جیسا کہ اوپر گزرچکا ہے۔
اور یہ واضح ہے کہ عید میلاد کاسبب خواہ ولادتِ نبویہ علی صاحبہا الصلاۃ والتحیۃ پرخوشی اور مسرت ہویا اسلام کی شوکت اورعظمت کااظہار اس کاسبب بتلایاجائے۔ بہرحال ان میں سے جوبھی سبب قراردیا جائے وہ قدیم ہے یعنی فرحت وسروراور شوکتِ اسلام کے اظہار کی زمانۂ خیر القرون میں بھی ضرورت تھی بلکہ اس وقت سے کچھ زیادہ ہی ضرورت تھی مگر حضور ﷺ اورصحابۂ کرام ؓ بلکہ خیرالقرون کے زمانہ میں کسی نے بھی اس پرعمل نہیں کیا، تومعلوم ہواکہ یہ نئی چیز اور بدعت واجب الترک ہے۔

دوسری حدیث: حضور ﷺ فرماتے ہیں: ’’میری قبرکو عید مت بنائو‘‘۔
اس حدیث میں غیر عید کو عید منانے کی ممانعت فرمائی گئی ہے اورمطلب یہ ہے کہ قبر شریف پرعید کی طرح تاریخ معیّن کرکے اہتمام کے ساتھ جمع ہونا منع ہے اس لیے روضۂ اقدس پرحاضری کے لیے کوئی خاص تاریخ معیّن نہیں ہے۔ آگے پیچھے قافلے جاتے ہیں اور زیارت کرکے چلے آتے ہیں، نہ زیارت کی کوئی تاریخ معیّن ہے اورنہ اہتمام عید کا سا ہے۔ اس لیے اس سے قبرمبارک کی زیارت کی ممانعت نہیں ثابت ہوتی، بلکہ زیارت کامستحب ہونادوسری حدیثوں سے ثابت ہے۔ اس حدیث سے عید میلاد کی نفی نہایت واضح ہے۔ اول بطورِ مقدمہ کے جاننا چاہیے کہ آں حضور ﷺ کی قبر مبارک کے لیے بہت کچھ شرف اور فضیلت حاصل ہے، اس لیے کہ جسدِ اطہر اس کے اندر موجود ہے، بلکہ حضورﷺ خود مع تلبس الروح (روح کے تعلق کے ساتھ) اس کے اندر تشریف فرما ہیں، کیوں کہ آپ ﷺ قبرِمبارک میں زندہ ہیں، قریب قریب تمام اہلِ حق کا اس پراتفاق ہے۔ جب حضور ﷺ کاجسدِ اطہر قبرمبارک میں روح مبارک سمیت محفوظ ہے اور علما نے تصریح کی ہے کہ زمین مبارک کاوہ بقعہ جس سے جسم مبارک مع روح کے مَس (ملاہواہے) کیے ہوئے ہے وہ عرش سے بھی افضل ہے، کیوںکہ عرش پر(معاذ اللہ) حق تعالیٰ شانہ بیٹھے ہوئے تو نہیں، اس کو صرف اسی وجہ سے دوسرے مقامات پرفضیلت ہے کہ وہ حق تعالیٰ کی تجلی گاہ ہے، اور ظاہرہے کہ حق تعالیٰ کی مخلوق میں حضور ﷺ سے زیادہ کون تجلی گاہِ الٰہی ہوگا، اور رسول اللہ ﷺ کے واسطے سے قبرمبارک پر تمام مکانات سے زیادہ حق تعالیٰ کی
تجلیات فائض ہوتی ہیں اس حیثیت سے بھی قبرمبارک کا وہ بقعہ جس سے جسم مبارک ملاہوا ہے عرش وغیرہ تمام جگہوں سے افضل ہے۔
یہ تو ایک مقدمہ ہواکہ بقعہ شریف اور قبر شریف تمام مکانات سے افضل ہے۔ اب اس مقدمہ کے بعد یہ سمجھنا چاہیے کہ قبر شریف تو بلا اختلاف بعینہٖ باقی ہے، اس میں کسی کو بھی شک نہیں ہوسکتا اور ولادت اسی طرح معراج وغیرہ کے دن یقینا باقی نہیں ہیں، کیوں کہ زمانہ غیر قار ہے یعنی اس کوقرار نہیں ہوتا اور وہ بدلتارہتاہے، اس لیے وہ دن جس میں حضور ﷺ کی ولادت ہوئی تھی اب وہ بعینہٖ نہیں لوٹتا بلکہ اس کا مثل لوٹتا ہے۔دوسرامقدمہ یہ ہوا۔
اس کے بعد سمجھوکہ جب حضورﷺ نے قبرمبارک کو عید بنانا جو کہ بعینہٖ باقی ہے منع فرما دیا اور اس کا عید بنانا ناجائز ہوگیا تو ان دنوں کاعید بنانا جوکہ بعینہٖ باقی نہیں ہیں کیوں کر جائز ہوسکتاہے؟ اورجب اپنی طرف سے عیدِ مکانی (یعنی قبرکی عید بنانے) کو منع فرمادیا گیا توعیدِ زمانی خودکسی دن کوعید منانے سے کیوں منع نہیں کیاجائے گا؟ اس تقریر سے صراحتہً عید میلاد کا ناجائز ہوجانا ثابت ہوجاتاہے۔
یہ تو قرآن و حدیث سے اس عید میلاد کی ممانعت کا ثبوت تھا، اب رہا اجماعِ اُمت سو اس سے بھی اس کی ممانعت ثابت ہے۔ تقریر اس کی یہ ہے کہ اصول کاقاعدہ ہے کہ تمام امت کا کسی کام کے ترک پرمتفق ہونا یہ اجماع ہوتاہے عدمِ جواز پر۔ چناں چہ فُقَہا نے جا بجا اس قاعدہ سے استدلال کیاہے اور اسی بنا پر نمازِ عیدین میں نہ اذان کہی جاتی ہے نہ تکبیر (اقامت)، اگر یہ قاعدہ مسلّم نہیں ہے توکیا عیدین کی نماز میں اذان اور تکبیر کااضافہ کردینا جائز ہوگا؟اور اگر مسلّم ہے تواس قاعدہ سے اور جگہ بھی کام لیناچاہیے۔
جب زمانِ سابق میں جب تک کہ یہ عید میلاد ایجاد نہیں کی گئی تھی اس کے ترک پرتمام امت کااتفاق ہوچکاہے تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عید میلاد ناجائز اور منع ہے۔ جیسا کہ عیدین کی نماز میں اذان اور تکبیر کا کہنا اسی دلیل سے ممنوع ہے اور بعد کے زمانہ میں اس عید کو ایجاد کرکے اس اتفاق کو رفع نہیں کیا جا سکتا جو زمانِ سابق میں متحقق ہوچکاہے، ورنہ توپھر آج اس زمانے میں کوئی شخص عیدین کی نماز میں اذان وتکبیر کااضافہ کرکے کہہ سکتاہے کہ اس میں اختلاف ہوگیا اور اب زمانِ سابق کا وہ اتفاق رفع ہوگیا جو آج تک اس کے ترک پرچلاآرہا ہے۔

مُوجِدینِ عید میلاد کے دلائل اور ان کا جواب: عیدمیلاد کے ناجائز اور بدعت ہونے کے دلائل کے بعد اب بعض ایسے دلائل کا ذ کر کیا جاتاہے جن سے اس عید کے ایجاد کرنے والے بالکل نا آشنا اور ناواقف ہیں، مگر بعض بدعت پسند

عربی خوانوں نے اس بدعت کی تائیدمیں ان کو پیش کیاہے یاوہ پیش کرسکتے ہیں اور اس طرح موجدینِ عید میلاد کے ہاتھوں میں انھوں نے دلائل دینے کی کوشش کی ہے۔

اول: وہ آیت { قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط}1 سے اس طرح استدلال کرسکتے ہیں کہ اس آیت سے فرحت کا حکم ثابت ہوا، اور یہ بھی اظہارِ فرحت کے لیے ہے لہٰذا جائز ہے۔ جواب ظاہر ہے کہ اس آیت سے فقط فرحت کا حکم ثابت ہوتا ہے اور گفتگو اس خاص متعارف طریقۂ عید میلادمیں ہے، اس سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔
اگراس کلیہ میں اس کا داخل کرنا صحیح ہو توکتبِ فقہ میں جن بدعات کو روکا گیاہے وہ بھی کسی ایسے ہی کلیہ میں داخل ہوسکتی ہیں، توپھر کیا ان کو بھی جائز کہاجائے گا؟ حالاں کہ کتبِ فقہ میں جو فریقین کے نزدیک مسلّم ہیں ان بدعات کی ممانعت صراحۃً مذکورہے۔ ہم جس بات کو منع کرتے ہیں وہ ہیئتِ خاصہ ہے، اور جوفرحت آیت {فَلْیَفْرَحُوْاط} سے ثابت ہوتی ہے وہ فرحتِ مطلقہ ہے، پس اہلِ بدعت یہ سمجھتے ہیں کہ ہم فرحت کو منع کرتے ہیں حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے بلکہ اگر غور سے کام لیاجائے توہم اس فرحت پر زیادہ عمل کرتے ہیں، اس لیے کہ موجدین توسال بھر میں ایک ہی مرتبہ خوشی کااظہارکرتے ہیں اور گویا ان کے نزدیک اظہارِ خوشی کایہی طریقہ متعین ہے اور اس کے بغیر خوشی کااظہار ہوتاہی نہیں، اس لیے جوشخص ان کے مقررہ طریقہ کے موافق خوشی کااظہار نہیں کرتااس کوسمجھتے ہیں کہ اس نے خوشی کااظہار کیا ہی نہیں اورہم ہروقت اس فرحت پرعامل ہیں جس کاحکم اس آیت میں فرمایاگیا ہے، اس لیے کہ اہلِ حق ایمان کی خوشی سے ہروقت دلشاد اور فرحاں رہتے ہیں اور اس کا اس آیت میں امر فرمایا گیا ہے۔

دوسرا استدلال موجدین کا اس حدیث سے ہوسکتاہے کہ جب ابولہب نے حضور ﷺ کی ولادت کی خبر سنی تو اس نے خوشی میں آکر ایک باندی آزادکردی تھی اور اس پر ابولہب کی جہنم کی سزا میں تخفیف ہوگئی۔ جواب اس کابھی ظاہر ہے کہ ہم نفسِ فرحت کے منکر نہیں گفتگو تو اس نئی ایجاد شدہ خاص ہیئت میں ہے۔ اس واقعہ میں صرف فرحت کاثبوت ہوتاہے۔ اس ہیئتِ جدیدہ کا نام و نشان نہیں ہے۔

تیسرا استدلال اس آیت سے ہوسکتاہے جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے اللہ! ہم پرآسمان سے خِوان نازل فرماکہ وہ ہمارے لیے عیدبن جائے ۔ ہمارے پہلوں کے لیے اورہمارے پچھلوں کے لیے اور ایک نشانی قدرت کی آپ کی طرف سے‘‘۔ اس آیت سے معلوم ہواکہ عطائے نعمت کی تاریخ کو عید بنانا جائز ہے اور پہلی امتوں کی شریعت بھی ہم پر رحمت ہے۔ اگر اس پرہماری شریعت میں رد و انکار نہ کیا گیا ہو، اور حضور ﷺ کی ولادت ظاہر ہے کہ نعمتِ عظیمہ ہے، پس آپ کی تاریخِ ولادت کو عید بنانا جائز ہوگا۔
جواب اس کایہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ اس امرپررد و انکار اسی جگہ ہوجہاں وہ منقول ہے۔ دیکھیے قرآن مجید میں جس جگہ سجدۂ تعظیمی منقول ہے اس جگہ اس پررد و انکار نہیں فرمایا گیابلکہ اس کی حرمت کے دلائل دوسرے مقام پرذکرکیے گئے ہیں۔ اسی طرح جوآیات واحادیث ہم نے عید بنانے کی ممانعت میں اپنے دلائل میں بیان کی ہیں وہ سب اس پررد و انکار کے دلائل ہیں۔ یہ جواب تواس صورت میں ہے جب کہ آیت کے یہ معنی صحیح تسلیم کرلیے جائیں جو بیان کیے گئے ہیں ورنہ اس آیت سے یہ مطلب ثابت ہی نہیں ہوتاکہ نزولِ مائدہ کی تاریخ کو عید بنایا جائے گا۔ اس لیے کہ تکون کی ضمیر المائدۃ کی طرف راجع ہے، نہ یوم کی طرف، اس سے یومِ نزولِ مائدہ مرادلینا مجاز ہوگا، اورمعنیٔ حقیقی کو بلاوجہ ترک کرنا درست نہیں۔ اس لیے صحیح معنی یہ ہیں: تَکُوْنُ الْمَائِدَۃُ سُرُوْرًا لَنَا۔ یعنی وہ مائدہ ہمارے لیے سرور کا باعث ہوجائے، اور یہ معنی درست نہیں ہیں کہ وہ دن ہمارے لیے عیداور باعثِ سروربن جائے۔ اور اس جگہ عید کے متعارف معنی مراد نہیں ہیں بلکہ عید سے مطلق سرور مرادہے، مطلب یہ ہے کہ وہ مائدہ ہمارے پچھلوں کے لیے سرمایۂ سروربن جائے کہ اس نعمت پرہمیشہ شاداں و فرحاں اور شاکررہیں۔

لطیفہ:شائقینِ متعہ کے لیے جہاں م،ت،ع آتاہے اس سے وہ متعہ کا ثبوت مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک شیخ سعدی کے شعر ع
تمتع زہر گوشہ یافتم
سے بھی شاید متعہ نکلتا ہے اور آیت{ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ} 1 کے بھی یہی معنی ہوں گے کہ اے رب ہمارے! بعض نے بعض سے متعہ کیاہے۔ ایسے ہی شائقینِ عید میلاد نے اس آیت میں ع، ی، د دیکھ کر اس سے عید میلاد کا ثبوت مہیاکرنے کی کوشش کی ہے۔

چوتھا استدلال اس قصّہ سے ہوسکتا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ جب آیت {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ}2 الآیۃ نازل ہوئی تو ایک یہودی نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اگریہ آیت ہم پرنازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنالیتے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ یہ آیت عید کے ہی دن نازل ہوئی ہے، یعنی جمعہ اور عرفہ کو نازل ہوئی ہے۔ اور’’ ترمذی شریف‘‘ میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے اس آیت کی تفسیرمیں فرمایاہے: نزلت في یوم جمعۃ ویوم عرفۃ۔
تقریر استدلال اس حدیث سے یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت عمر او رابن عباس ؓ نے عید بنانے پرانکار نہیں فرمایا۔ معلوم ہواکہ عطائے نعمت کی تاریخ کو عید بنانا جائز ہے۔ اس کا ایک جواب تویہی ہے کہ انکار کا اس جگہ ہونا ضروری نہیںہے۔ چناںچہ ہمارے فقہا نے عرفہ کے دن حاجیوں کی مشابہت سے جمع ہونے پرانکار فرمایا ہے حالاں کہ یہ بھی ایک عید ہے۔ اور حضرت عمرؓ سے شجرۂ حدیبیہ پراجتماع کاانکار کہ وہ بھی مشابہ عید کے تھا، منقول ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ ایسی عید بنانے کوجائز نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ کاقول ’’بخاری‘‘ اور’’ مسلم‘‘ میں ہے: لَیْسَ التَّحْصِیْبُ بِشَيْئٍ۔ (وادیٔ محصّب میں قیام کرناکوئی چیز نہیں ہے۔) حالاںکہ حضور اکرم ﷺ سے اس وادی میں قیام منقول ہے، لیکن صرف اتنی بات کی وجہ سے کہ کوئی شخص عادت کو عبادت نہ سمجھ لے اس پریہ انکار فرمایا، توغیر منقول کو عبادت سمجھنا ان کے نزدیک کس قدر قابلِ انکار ہوگا۔
یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباسؓ سے جو تعریف یعنی عرفہ کے دن جمع ہونا منقول ہواہے وہ بھی یاتو اسی علت سے معطل ہے جس پرتحصیب کے بارے میں ان کا فتویٰ دلالت کررہاہے کہ اس جمع ہونے کو عبادت نہ سمجھاجائے، یا بغیر التزام اور اہلِ عرفات کے ساتھ بغیر تشبیہ کے قصدِ دعاکے ساتھ مُأوّل ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ وہ شخص مسلمان نہیں تھا یہودی تھا اس کو اس فرعی مسئلہ کے بتلانے کی حاجت نہیں تھی کہ عید بناناکیساہے؟ بلکہ اس کو ایک خاص طرز پرجواب دیا کہ تم جویہ کہتے ہو کہ ایسی نعمتِ عظمیٰ کے ملنے پرعید نہیں ہوئی، یہ غلط ہے۔ ہمارے یہاں اس روز پہلے ہی سے عید تھی۔ بلکہ اگرغور کیاجائے تواس جواب سے خود معلوم ہوتاہے کہ عید بناناجائز نہیں، یعنی حضرت عمرؓکامطلب یہ ہے کہ ہماری شریعت میں چوںکہ ایسے اسباب سے عید کرنا درست نہ تھا اور اللہ تعالیٰ کو اس آیت کے نزول کے دن کو عید کرنا مقصود تھا ا س لیے اس کو ایسے ہی دن میں نازل فرمایاکہ عید بھی ہو جائے اور از خود عید بنانے کی بدعت سے بھی حفاظت ہوجائے۔

پانچواں استدلال: وہ اس حدیث سے کرسکتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے پیر کے دن روزہ رکھا۔ کسی نے وجہ پوچھی تو یہ ارشاد فرمایا:
ذٰلِکَ الْیَوْمُ الَّذِيْ وُلِدْتُّ فِیْہِ۔
میں اس دن پیدا ہوا ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ ولادت کے دن میں قُربات کا ادا کرنا مشروع ہے، اور فرح و سرور، اجتماع للذکر و تقسیمِ طعام یا شیرینی یہ سب قربات ہیں، پس یہ بھی مشروع ہوں گے۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہ تسلیم نہیں کہ یومِ ولادت ہونا روزہ رکھنے کی علت ہے۔ اس لیے کہ دوسری حدیث میں اس کی علت یہ منقول ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جمعرات اور پیر کے دن نامۂ اعمال پیش ہوتے ہیں تو میرا جی چاہتاہے کہ میرے اعمال روزہ کی حالت میں پیش ہوں۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ روزہ کی علت تو اعمال نامہ پیش ہونا ہے اور ولادت کا ذکر بطورِ حکمت کے فرما دیا گیا ہے، دار و مدار حکم کا علت ہوتی ہے نہ کہ حکمت، اب اس پر قیاس کرکے دوسرے قربات کو ثابت کرناکیسے درست ہوسکتاہے؟ اس لیے کہ حکمت کے ساتھ حکم دائر نہیں ہوتا۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ بالفرض اگرعلت حکم بھی ہو تو غور کرنا چاہیے کہ یہ علت کی کون سی قسم ہے کیوں کہ علت کی دوقسمیں ہیں: ایک وہ علت جو اپنے مَورِد کے ساتھ خاص ہوتی ہے اور ایک وہ جس کاتعدیہ دوسری جگہ ہوتاہے۔ اگریہ علت متعدیہ اور عام ہے اور حکم موافق قیاس کے ہے، تو کیا وجہ ہے کہ ولادت کے دن میں نوافل اور تلاوتِ قرآن اور اطعامِ طعام وغیرہ دوسرے قربات حضور ﷺ سے کیوں منقول نہیں ہیں؟ نیز مثل یومِ ولادت کے تاریخِ ولادت میں کہ ربیع الاوّل کی ۸ یا ۱۲ ہے روزہ رکھنا کیوں منقول نہیں؟
دوسرے یہ کہ نعمتیں اور بھی ہیں، مثلاً: ہجرت اور فتحِ مکّہ، معراج شریف، آں حضور ﷺ نے ان کی وجہ سے کوئی عبادت کیوں نہیں فرمائی؟ اس سے معلوم ہواکہ نہ یہ علت عام ہے اور نہ حکم موافق قیاس کے ہے، علت بھی اسی مقام کے ساتھ خاص ہے اور حکم بھی خلافِ قیاس ہے اور اصل مدار روزہ رکھنے کا وحی پر ہے۔ آں حضور ﷺ کو روزہ رکھنے کا حکم وحی سے ہوا ہوگا۔ باقی حکمت کے طور پر ولادت کا ذکر بھی فرما دیاگیاہے ورنہ دوسری نعمتوں کے دن بھی آپﷺ روزہ وغیرہ رکھتے، کیوںکہ وہ نعمتیں بھی باعثِ سرورہیں،بلکہ باعثِ ازدیادِ سرور ہیں۔ جب علت خاص اور حکم خلافِ قیاس ہوتا ہے جیساکہ اس مقام پرہے تو ایسی صورت میں مجتہد کے لیے بھی اس پر قیاس کرکے دوسرے احکام کا ثابت کرنا درست نہیں ہوتا۔ پھر آج کل کے غیر مجتہدین کو روزہ پرقیاس کرکے دوسرے احکام کاثابت کرناکیسے جائز ہوسکتاہے؟ اگریہ
قیاس درست ہوتا تو صحابہ کرام اور ائمۂ مجتہدین اس سے ضرورکام لیتے اور اس’’ عیدمیلاد‘‘ کو اس سے ثابت کرکے اس پرعمل فرماتے مگرانھوں نے ایسانہیںکیا۔ یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ یہ قیاس بالکل غلط او رناجائز ہے۔
حیرت کا مقام ہے کہ پیرکے دن روزہ رکھنے سے ’’عید میلاد‘‘ کا جواز ثابت کرنے والے ربیع الاول کو توعید میلاد مناتے ہیں حالاں کہ اس تاریخ میں خصوصیت کے ساتھ نبی اکرم ﷺ سے کوئی عمل بھی منقول نہیں ہے، اور ہر پیر کے دن جس میں آں حضرت ﷺ نے روزہ رکھا ہے یہ لوگ اس میں نہ تو عید ہی مناتے ہیں اور نہ روزہ ہی رکھتے ہیں۔

ایک شبہ کا اِزالہ: حضور اکرم ﷺ کے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے موقع پر مدینہ منورہ میں آں حضرت ﷺ کی تشریف آوری کاانتظار تھا، اس لیے کئی روز تک صحابہ کرام ؓ کا وفد مدینہ منورہ سے باہر آپ کی تشریف آوری کے انتظار میں آتارہا۔ اس سے بھی بعض کم فہم لوگوں نے اپنے مقصد یعنی جلوس کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالاں کہ آں حضرت ﷺ کے قدوم میمنت لزوم کے وقت آپﷺ کے استقبال کے لیے اجتماع ہوجانا ایک علیحدہ مسئلہ ہے، اس کو اس عید میلاد کے جلوس سے کیا تعلق ہے؟ اور ان بدفہم لوگوں کویہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا صحابہ کرام ؓ ہرسال ہجرت کے دن جلوس نکالا کرتے تھے؟ یہ استقبال کا جلوس تو پہلے قدوم مدینہ کے وقت ہی ثابت ہے یا غزوات سے واپسی پرا ستقبال کے وقت ایسا ہوا ہے ۔ یومِ ولادت پر توایسانہیں ہوا اور نہ ہی یومِ ہجرت پر ہر سال ایسا ہوتا رہا۔

رسمِ عید میلادپر عقلی کلام: شریعت میں ہرفعل کا ایک سببِ خاص ہوتاہے، جس قدر عبادات شریعت نے مقرر کی ہیں، ان کے اسباب بھی مقرر کیے ہیں، اس سبب اور مُسبَّبِیَّت کی تین صورتیں شریعت میں پائی جاتی ہیں:
ایک یہ کہ سبب میں تکرار ہواور وہ باربار پایاجاتاہو توسبب کے مکرّر ہونے سے مسبب بھی بار بار پایا جائے گا۔ جیسے وقت نماز کے لیے سبب ہے، جب وقت آئے گا نماز بھی فرض ہوجائے گی۔ اسی طرح رمضان روزہ کے لیے سبب ہے، جب رمضان المبارک آئے گا روزہ فرض ہوجائے گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ سبب بھی ایک ہو اور مسبب بھی ایک ہو،کہ جیسے بیت اللہ شریف حج کے لیے، چوںکہ سبب ایک ہے اس لیے حج عمر بھر میں ایک ہی مرتبہ فرض ہے۔ یہ دونوں قسمیں تو مُدرَک بالعقل ہیں (عقل میں آتی ہیں) اس لیے کہ عقل بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ سبب کے تکرار اور توحّد سے مسبب متکرر اور متوحدہو۔
تیسری قسم یہ ہے کہ سبب ایک ہواور مسبب کے اندر تکرار ہو، یعنی سبب ایک بارپایا گیا مگر مسبب باربار پایاجاتاہے۔ جیسے حج کے طواف میں رمل (یعنی شانے ہلاتے ہوئے اکڑکر طواف کرنا) اس کاسبب ’’اراء ۃِقوت‘‘ (مشرکین کواپنی قوت دکھلانا) تھا، کیوںکہ مدینہ طیبہ سے جب صحابہ کرامؓ حج کے لیے مکہ معظمہ آئے تومشرکین مکہ نے کہاتھا کہ ان لوگوں کو یثرب کے بخار نے ضعیف اور بوداکردیاہے۔ تو حضور ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ طواف میں رمل کریں۔ اب وہ سبب ’’اراء ۃِ قوت‘‘ تو نہیں رہا لیکن طواف میں رمل باقی رہا۔ یہ عمل مدرک بالعقل نہیں، اور جوعمل خلافِ قیاس ہوتاہے اس کے لیے نقل اور وحی کی ضرورت ہوتی ہے، اس میں بجزوحی کے کوئی راستہ نہیں ہے، ایسے عمل پرقیاس کرکے کسی دوسرے عمل کوجاری نہیں کیا جاسکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ عید میلاد کاسبب کیاہے؟ ظاہرہے کہ صرف حضور ﷺ کی ولادت کی تاریخ ہونا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ تاریخ جوسبب ہے عیدمیلاد کا وہ ایک ہے جوگزر گئی یا وہ تاریخ بار بار آتی ہے؟ یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ تاریخ ہوگئی ہے، کیوں کہ اب جو ۱۲ ؍ربیع الاوّل کی تاریخ آتی ہے وہ اس خاص تاریخِ ولادت کی عین نہیں صرف مثل ہے۔ اس واسطے مثل کا مدارِ حکم ہونا اور مثل کے لیے وہی حکم ثابت ہوناجوعین کے لیے تھا کسی دلیل نقلی کا محتاج ہوگا اور بوجہ غیرمدرک بالعقل ہونے کے اس میں قیاس حجت نہیں ہوگا اور عید میلاد منانے میں کوئی دلیل نقلی پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی۔ اس لیے اس کو شریعت پر زیادتی اور بدعت کہا جائے گا۔
یہاںیہ شبہ نہ کیاجائے کہ حضور ﷺ نے پیر کے دن روزہ رکھنے کی وجہ وُلِدْتُّ فِیْہِ (اس میں میری ولادت ہوئی ہے) سے بیان فرمائی ہے حالاں کہ روزِ ولادت گزر گیا ہے ، اب یہ اس کامثل ہے اس کو اصل کاحکم کیوں ہوا؟ اس لیے کہ روزہ توخود منقول ہے اور یہ اوپر گزر چکا ہے، کہ اس صورت میں وحی کی ضرورت ہوتی ہے، اور آپ ﷺ نے وحی سے یہ روزہ رکھا ہے، اس لیے اس پر قیاس نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح حجۃ الوداع میں باوجود یہ کہ مکہ مکرمہ فتح ہو چکا تھا اور مشرکین کو اراء ۃِ قوت کی ضرورت نہ رہی تھی، پھر بھی حضور ﷺ اور صحابۂ کرام ؓ نے طواف میں رمل باقی رکھا، یہ اس کی دلیل ہے کہ یہ عمل اراء ۃِ قوت کے بغیر بھی مامور بہٖ ہے اور سبب کے فقدان کے باوجود بھی بحالہٖ باقی ہے۔ ورنہ حجۃ الوداع میں ارتفاعِ علت کی وجہ سے حکم مرتفع ہوجاتا۔
غرضے کہ نقل اور عقل ہر طرح سے بحمد اللہ ثابت ہوگیا کہ یہ عید میلاد مخترع، ناجائز اور بدعت واجب الترک ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ہم کو ولادتِ نبوی ﷺ پر فرحت اور سرور کا حکم ہے، مگر یومِ ولادت کو عید منانا شرعاً درست نہیں
ہے۔

رائے گرامی
مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت الحاج مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی نَوَّرَ اللّٰہُ مَرْقَدَہٗ
بذریعۂ مکتوبِ اقدس بنام مصنف علامہ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمْ

عزیز محترم مولانا عبدالشکور صاحب ترمذی زَادَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی عِلْمًا وَشَرَفًا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ

آپ کا رسالۂ نافعہ ’’مسائل و فضائل رمضان‘‘ پہنچا۔ اگرچہ وقت نہیں ملتا، خصوصاً آج کل اور بھی پریشانی اہلیہ کی علالت کے سبب چل رہی ہے۔ مگر اسی حال میں رسالہ کو مختلف مقامات سے خصوصاً مسئلہ تعجیلِ افطار اور مسئلہ انجکشن فی الصوم کو شوق کے ساتھ دیکھا۔ ماشاء اللہ تحقیقاتِ مفیدہ کا جامع رسالہ ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں اور نافع و مفید بنائیں اور مصنف کو ترقیات ظاہرہ و باطنہ عطا فرمائیں۔
وَاللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی أَعْلَمُ۔

بندہ
محمد شفیع عفااللہ عنہ