سیرتِ طیبہ کااجمالی خاکہ

سیرتِ طیبہ کااجمالی خاکہ
از: حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزّاق اسکندر مدظلہ
رئیس جامعة العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی

یَا صَاحِبَ الجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ البَشَرْ مِنْ وَجْہِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ

لَا یُمْکِنُ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقَّہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اے صاحب جمال کل اے سرورِ بشر رُوئے منیر سے ترے روشن ہوا قمر

ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا ہو حق اَدا بعد از خدا بزرگ توہے قصہ مختصر

اِبتدائی حالات

نسب شریف: سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم۔

کنیت: ابو القاسم۔ وَالدہ کا نام: آمنہ بنت وہب۔ وِلادت: بروز دوشنبہ ۱۲/ ربیع الاوّل عام الفیل۔ وَالد ماجد کا اِنتقال وِلادت سے قبل ہی بحالتِ سفر مدینہ منورَہ میں ہوچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت آپ کے دادا عبد المطلب نے کی اور حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا۔ پھر آپ کی عمر مبارک چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو مدینہ آپ کے ننہال لے گئیں، واپسی میں بمقامِ ابوا اُن کا انتقال ہوا اور آپ کی پرورش اُمّ ایمن کے سپرد ہوئی۔ آٹھ سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا، کفالت کا ذمہ آپ کے چچا ابو طالب نے لیا۔ نو سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور ۲۵ سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے دو ماہ بعد حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے عقد ہوا۔ ۳۵ سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا اور پتھر ڈھوئے، حجرِ اسود کے بارے میں قریش کے اُلجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا جس پر سبھی خوش ہوگئے۔
تعلیم و تربیت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیدا ہوئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا؛ مگر آپ بغیر کسی ظاہری تعلیم و تربیت کے نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے؛ بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی؛ یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ کو صادق و امین کا خطاب دیا۔
مری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی
خلوت و عبادت
بچپن میں چند قیراط پر اہلِ مکہ کی بکریاں بھی چرائیں؛ مگر بعد میں آپ کو خلوت پسند آئی؛ چناں چہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھنے لگے، خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستورِ تعلیم
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور اُمت کے لیے مینارِ ہدایت ہے؛ اگرچہ آپ کا تشریعی دور، نبوت کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے کا دور بھی چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا اُمت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔
آپ کے دودھ پینے کا زمانہ ہے؛ لیکن اتنی چھوٹی عمر میں بھی آپ کو عدل و انصاف پسند ہے اور آپ دوسروں کا خیال فرماتے ہیں، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا ایک طرف کا دودھ پلاکر دوسری طرف پیش فرماتی ہیں؛ لیکن آپ اسے قبول نہیں فرماتے؛ کیوں کہ وہ آپ کے دودھ شریک بھائی کا حق ہے۔
بچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگاؤ اور دلچسپی ہے کہ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ بھی قریشِ مکہ کے ساتھ پتھر اٹھاکر لا رہے ہیں۔
اور شرم وحیاء اتنی غالب ہے کہ جب آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ دیکھتے ہیں کہ آپ ننگے کندھے پر پتھر اُٹھاکر لارہے ہیں تو ترس کھاتے ہوئے آپ کا تہ بند کھول کر کندھے پر رکھ دیا۔ آپ شرم کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑے، یہ فرماتے ہوئے کہ میری چادر مجھ پر ڈال دو۔
کسب حلال کی یہ اہمیت کہ قریش کی بکریاں چراتے اور اس کی مزدوری سے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور التاجر الصدوق الأمین (امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے۔
معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیت ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اپنی جگہ رکھنے پر قریش کی مختلف جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا اور قریب تھا کہ ناحق خون کی ندیاں بہہ جاتیں؛ لیکن آپ نے ایسا فیصلہ فرمایا جس کی سب نے تحسین کی اور اس پر راضی ہوگئے۔
صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ الصادق الأمین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپ کے اس وصف کا اقرار کرتے تھے؛ چناں چہ قبائل قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ”ہم نے بارہا تجربہ کیا؛ مگر آپ کو ہمیشہ سچا پایا“۔ یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی؛ کیوں کہ آپ کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتدیٰ بنانا تھا اور امت کے لیے آپ کی زندگی کو بہ طورِ اُسوہٴ حسنہ پیش کرنا تھا۔

”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْرًا“․(الاحزاب:۲۱)

”بلاشہ اے مسلمانو! تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں عمدہ نمونہ ہے اُس شخص کے لیے جو اللہ کی ملاقات کا اور قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔“
نبوت:
جب سنِ مبارک چالیس کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں تھے کہ جبرئیل علیہ السلام سورة اقرأ کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے، اس کے بعد کچھ مدت تک وحی کی آمد بند رہی، پھر لگاتار آنے لگی۔
وحی آسمانی آپ تک پہنچانے کے لیے جبریلِ امین علیہ السلام کا انتخاب ہوا جن کو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔
”اِنَّہ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ، ذِیْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ، مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ“․ (التکویر۱۹ تا ۲۱)
”بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے جو بڑی قوت والا صاحبِ عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔“
اس وحی اِلٰہی کی روشنی میں آپ کی ایسی تربیت ہوئی کہ آپ ہر اعتبار سے کامل بن گئے اور آپ کی زندگی کا ہر پہلو اُمت کے لیے ایک بہترین اُسوہٴ حسنہ بن کر سامنے آگیا۔ امت کے ہر فرد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک اعلیٰ مثال ہے، جسے وہ سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کرسکتاہے۔
دعوت و تبلیغ
اِبتداء ً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ طور پر دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع فرمایا، ابتدائی دعوت پر عورتوں میں حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا، مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، آزاد شدہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اِیمان لائے، ان کے بعد بہت سے آزاد اور غلام اس دولت سے بہرہ مند ہوئے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ دعوت و تبلیغ کا حکم ہوا؛ چناں چہ آپ نے تمام قوم کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور بت پرستی چھوڑنے کی دعوت پوری قوت سے شروع کی، بعض نے مانا اور بعض اپنی گم راہی پر قائم رہے۔
ہجرتِ حبشہ
قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو طرح طرح سے ستانا شروع کیا، چناں چہ ۵ ء نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو حبشہ ہجرت کرجانے کا حکم فرمایا، یہ سب سے پہلی ہجرت تھی، اسی سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔
۷ ء نبوی میں قریش نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے خلاف ایک معاہدہ پر دستخط کیے کہ جب تک یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حوالے نہیں کرتے اُس وقت تک ان سے ہر قسم کا مقاطعہ کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شعب ابی طالب میں نظر بند کردیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہجرتِ حبشہ کا حکم فرمایا، یہ دوسری ہجرت کہلاتی ہے۔
۱۰ ء نبوت میں قریش کے بعض افراد کی کوشش سے یہ معاہدہ ختم ہوا اور آپ کو آزادی ملی، اسی سال نصاریٰ نجران کا ایک وفد مسلمان ہوا، اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب اور آپ کی غم گسار زوجہٴ مطہرہ حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ قریش کی اِیذا رسانی اور بڑھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف کی تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔ اُنہوں نے ایک نہ سنی؛ بلکہ اُلٹا درپے ایذاء ہوئے۔ یہ سال عام الحزن (غم کا سال) کہلاتا ہے۔
۱۱ ء نبوت اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی، پنج گانہ نماز فرض ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر عرب کے مختلف قبائل کو دعوت دی؛ چناں چہ مدینہ کے قبیلہ خزرج کے چھ آدمی مسلمان ہوئے۔
۱۲ ء نبوت اس سال اوس و خزرج کے بارہ افراد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ یہ بیعت عقبہٴ اولیٰ کہلاتی ہے۔
۱۳ ء نبوت اس سال مدینہ کے ستر مردوں اور بیس عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، یہ بیعت عقبہٴ ثانیہ کہلاتی ہے۔
ہجرتِ مدینہ
مدینہ میں اسلام کی روشنی گھر گھر پھیل چکی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ہجرتِ مدینہ کا حکم فرمایا، قریش کو پتہ چلا تو اُنہوں نے دار الندوة میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا، اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے گھیرے سے باطمینان نکلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، ان کو ساتھ لے کر غارِ ثور تشریف لے گئے، یہاں تین دن رہے، پھر ہجرت فرمائی اور مدینہ کی نواحی بستی قُبا پہنچے۔
۱ ؁ ھ اِسلام کا نیا دور
یہاں سے اِسلام کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے قبا میں چودہ دن قیام رہا، وہاں ایک مسجد بنائی، وہاں سے مدینہ طیبہ منتقل ہوئے۔ حضرت ابو ایوب اَنصارِی رَضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی، اذان شروع ہوئی اور جہاد کا حکم ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و جہاد کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعتیں بھیجنا شروع کیں۔
سرایا و غزوات
جس جہاد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود شریک ہوئے اسے غزوہ کہتے ہیں اور جس میں خود نہیں گئے، صحابہ کی جماعت کو بھیجا اسے سریہ کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرایا کی تعداد ۴۷/ ہے اور غزوات کی تعداد ۲۷/ ہے۔ اس سال آپ نے تین دستے (سریے) روانہ فرمائے؛ لیکن مقابلہ نہیں ہوا۔

۲ ؁ ھ:
اس سال غزوہٴ دُوّان، غزوہٴ بواط، غزوہٴ عشیرہ اور غزوہٴ بدر صغریٰ ہوئے۔ تحویلِ قبلہ کا حکم ہوا، روزہ رمضان، زکوٰة و فطرة واجب ہوئے۔ اسی سال (رمضان میں) مشہور غزوہٴ بدر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ۳۱۳/ جاں نثار تھے اور قریش ایک ہزار؛ مگر شکست قریش ہی کو ہوئی، ان کے سردار مارے گئے اور ستر قید ہوئے، مسلمانوں کے چودہ آدمی شہید ہوئے۔ اسی سال غزوہٴ قرقرة الکدر، غزوہٴ بنی قینقاع اور غزوة السویق ہوئے، تینوں میں جنگ نہیں ہوئی۔ سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر رُخصتی ہوئی۔

۳ ؁ ھ:
اس سال غزوہٴ غطفان اور غزوہٴ بحران ہوئے، مقابلہ نہیں ہوا، پھر مشہور جنگ اُحد ہوئی، قریش قبائلِ عرب کو اکٹھا کر کے بدر کے مقتولوں کا بدلہ لینے جبلِ اُحد کے پاس جمع ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ مدینہ سے باہر نکلے، ۳۰۰/ منافق راستہ ہی میں پلٹ گئے، دامنِ اُحد میں دونوں فوجیں لڑیں، کفار کو شکست ہوئی، ایک درّہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازوں کی ایک جماعت اس وصیت کے ساتھ مقرر فرمائی تھی کہ ہم مریں یا جئیں تمہیں بہرحال تاحکم ثانی اپنی جگہ رہنا ہوگا۔ ان میں سے بعض نے مسلمانوں کی فتح اور کافروں کی شکست دیکھ کر جگہ چھوڑ دی، دشمن کو لوٹ کر پیچھے سے حملہ کا موقع مل گیا، جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، ستر صحابہ شہید ہوئے جن کے سردار حمزہ رضی اللہ عنہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہٴ اَنور زخمی ہوا، سامنے کے دندانِ مبارک شہید ہوئے، اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے تعاقب میں حمراء الاسد تک گئے؛ مگر دشمن بچ نکلا، مقابلہ نہیں ہوا، اسی سال شراب کی حرمت نازل ہوئی۔
۴ ؁ ھ:
اس سال غزوہٴ بنی نضیر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کا محاصرہ کیا اور انھیں جلا وطن کیا، پھر غزوہٴ ذات الرقاع ہوا، مقابلہ کی نوبت نہیں آئی، اس سفر میں ”نمازِ خوف“ اور ”تیمم“ کا حکم نازل ہوا، پھر غزوہٴ اُحد صغریٰ ہوا، گزشتہ سال جنگ اُحد سے واپسی پر قریش کہہ گئے تھے کہ آئندہ سال پھر اسی مقام پر جنگ ہوگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسبِ وعدہ اُحد کی طرف نکلے؛ لیکن قریش مقابلہ کے لیے نہیں آئے۔
۵ ؁ ھ:
اس سال غزوہٴ دومة الجندل ہوا، دشمن اپنے مویشی چھوڑ کر بھاگ گئے، پھر غزوہٴ بنی مصطلق ہوا، مقابلہ میں اس قبیلے کے دس آدمی مارے گئے۔ باقی قید ہوئے، انہی قیدیوں میں ان کے سردار حارث کی لڑکی جویریہ تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو آزاد کر کے اُن سے نکاح کرلیا، یہ نکاح تمام قیدیوں کے آزاد کرنے اور ان کے اِسلام لانے کا ذریعہ بنا۔ پھر غزوہٴ احزاب پیش آیا، قریش نے تمام قبائلِ عرب اور یہود کو ساتھ لے کر دس ہزار کی تعداد میں مدینہ کا محاصرہ کیا، مسلمانوں نے اپنی حفاظت کے لیے ایک لمبی خندق کھودی، قریش کا محاصرہ پندرہ دِن جاری رہا بالآخر اللہ تعالیٰ نے تند ہوا اور فرشتوں کا لشکر بھیجا اور دشمن ناکام لوٹا، پھر غزوہٴ بنی قریظہ ہوا اور یہود بنی قریظہ کو عہد شکنی کی سزا میں قتل کیا گیا، اسی سال حج فرض ہوا اور پردہ کی آیات نازل ہوئیں۔
۶ ؁ ھ:
اس سال غزوہٴ بنی لحیان، غزوة الغابہ اور صلح حدیبیہ ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ کے ساتھ عمرہ کی نیت سے غیر مسلح مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے۔ قریش نے مقامِ حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا۔ آخر کار چند شرطوں پر صلح ہوئی، ان میں سے ایک یہ تھی کہ دونوں فریق دس سال تک آپس میں جنگ نہیں کریں گے۔ اسی موقع پر ایک درخت کے نیچے بیعتِ رضوان ہوئی، اسی سال آپ نے مختلف بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط بھیجے، ان میں سے بعض مسلمان ہوگئے۔
۷ ؁ ھ:
اس سال حدیبیہ سے واپسی پر خیبر فتح ہوا، مہاجرین حبشہ کی واپسی ہوئی، فدک مصالحانہ طور پر فتح ہوا، غزوہٴ وادی القریٰ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی معیت میں عمرة القضاء کے لیے مکہ تشریف لے گئے، وہاں تین دن قیام کے بعد واپسی ہوئی۔
۸ ؁ ھ:
اس سال جنگ موتہ ہوئی، جس میں مسلمانوں کے تین سپہ سالار، زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب، عبد اللہ بن رواحہ یکے بعد دیگرے شہید ہوئے۔ پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو امیرِ لشکر مقرر کیا گیا، دشمن کو شکست ہوئی اور کافی مالِ غنیمت ہاتھ آیا، اسی سال مکہ مکرمہ کی فتح کا عظیم واقعہ ہوا۔ قریش نے جنگ بندی کا معاہدہ توڑ ڈالا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے، قریش نے ہتھیار ڈال دیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امنِ عام کا اعلان فرمایا، کعبة اللہ کے گرد و پیش سے بتوں کی نجاست کو صاف کیا، اِرد گرد کے قبائل میں بت شکنی کے لیے وفود بھیجے۔
مکہ کی فتح اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دُشمنوں سے سلوک
کون نہیں جانتا کہ مکی زندگی کے تیرہ (۱۳) سالوں میں مکہ وَالوں نے آپ اور آپ کے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم پر کیا کیا ستم ڈھائے، انھیں تپتی ریت اور آگ کی چنگاریوں پر لٹایا گیا، اُنھیں مکہ میں اَپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا حتیٰ کہ انھیں شہید تک کردِیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح کی تکلیفیں دِی گئیں، آپ کے رَاستے میں کانٹے بچھائے گئے، نماز میں سجدہ کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی سر پر ڈالی گئی؛ یہاں تک کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنایا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وَہاں بھی اُن کے خلاف سازشیں رچیں اور جنگِ بدر، جنگِ اُحد اور جنگِ احزاب کی نوبت آئی۔
لیکن اب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح کی حیثیت سے اس شہر میں دَاخل ہوتے ہیں؛ لیکن دُنیا کے فاتحین کی طرح متکبرانہ اَنداز میں ہر گز نہیں؛بلکہ نہایت تواضع اور اِنکساری کے ساتھ، سرِ مبارک جھکائے ہوئے، ہزاروں جانثاروں کے ساتھ رَبُّ العزت کا شکر اَدا کرتے ہوئے۔ بیت اللہ کو بتوں سے پاک فرماتے ہیں اور اُس کا طواف فرماتے ہیں۔ مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے۔ قریشِ مکہ آپ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور اُن کے دِل و دماغ میں وہ تمام جرائم آکھڑے ہوتے ہیں جو اُنہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کیے تھے۔ آج یہ سب مجرم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرجھکائے بیٹھے ہیں۔
آج اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کوئی اور دُنیا کا فاتح حکمران ہوتا تو اَپنے دُشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا؟ غالباً وہی کرتا جو جابر حکمران کیا کرتے ہیں؛ لیکن آپ اللہ کے رسول اور رحمة للعٰلمین ہیں، اخلاق کے اُونچے مقام پر فائز ہیں، جن کے اَعلیٰ اور عظیم اخلاق کی تعریف خود بارِی تعالیٰ نے فرمائی ہے:

”وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“۔(القلم:۲)

ترجمہ: اور بے شک آپ بڑی بلند اخلاقی پر قائم ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب سے مخاطب ہوکر فرمایا: تمہارَا کیا خیال ہے آج میں تم سے کیا سلوک کرنے وَالا ہوں؟ سب نے بیک زبان جواب دِیا: أخٌ کریمٌ وابنُ أخٍ کریمٍ۔ آپ ایک شریف بھائی ہیں اور ایک شریف بھائی کے فرزند ہیں یعنی ہم آپ سے اُمید رکھتے ہیں جو ایک شریف بھائی سے رَکھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اَپنے بھائیوں سے کہی تھی:

”لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ط یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ“․(یوسف:۹۲)
ترجمہ:آج تم پر کوئی سرزنش اور ملامت نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ سب رحم کرنے وَالوں سے زیادَہ رحم کرنے وَالا ہے۔
یعنی سزا تو سزا آج میں تمہارے جرائم بھی یاد نہیں دِلاوٴں گا کہ اُن کا تذکرہ کر کے تم پر ملامت کی جائے۔ پھر فرمایا: اذْہَبُوا فَأَنْتُمُ الطُلَقَاءُ۔”جاوٴ تم سب آزاد ہو“!
آج رحم و کرم کا دن ہے، جو شخص ابو سفیان کے گھر داخل ہوجائے اسے امن ہے، جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا اسے امن ہے ، جو مسجدِ حرام میں داخل ہوگیا اسے امن ہے۔
اِسی حسنِ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ اُن میں سے اَکثر مسلمان ہوئے اور دِل و جان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے لگے اور دُشمن کی بجائے دوست بن گئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اُمت کو کریمانہ اخلاق کی تعلیم دِی ہے، وہاں اپنے عمل سے اُن کے سامنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بھی پیش فرمایا ہے۔ آپ کی یہ اخلاقی تعلیمات آپ کی زِندگی میں روزِ روشن کی طرح واضح ہیں، جن کی نظیر انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔

غزوہٴ حنین
فتحِ مکہ کے بعد غزوہٴ حنین ہوا، قبیلہٴ ثقیف و ہوازن کے لوگ مقابلہ کی تیاری کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِطلاع ملی تو بارہ ہزار کا لشکر ان کے مقابلہ میں لے کر نکلے، بعض مسلمانوں کو خیال ہوا کہ اتنا بڑا لشکر کیسے مغلوب ہوسکتا ہے؛ مگر دشمن نے تیروں کی بارش شروع کی تو مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ جمے رہے، پھر مسلمانوں نے پلٹ کر حملہ کیا، دشمن کو شکست ہوئی، کچھ مارے گئے، کچھ بھاگ گئے، ان کی عورتیں اور بچے قیدی بنے، تمام مال مویشی پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا، جو بھاگ نکلے تھے وہ طائف جاکر قلعہ بند ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس دن تک طائف کا محاصرہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ واپس ہوئے، جنگِ حنین کے قیدی یہیں تھے، اتنے میں قبیلہٴ ہوازن مسلمان ہوکر حاضر خدمت ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قیدی واپس کردیے۔ جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا اور راتوں رات عمرہ ادا کر کے مدینہ طیبہ روانہ ہوگئے۔
۹ ؁ ھ:
اس سال غزوہٴ تبوک ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رُومیوں کی تیارِی کی اِطلاع ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کی سرحد پر مقامِ تبوک پہنچ گئے۔ لیکن رومی مقابلہ کے لیے نہیں آئے، اَئیلہ کے سردار اور دوسرے قبائل نے جزیہ پر صلح کرلی۔ اسی سال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ”اَمیرِ حج“ بناکر بھیجا، یوم النحر میں اعلان کیا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک حج کرنے نہیں آئے گا، نہ برہنہ طواف کرے گا۔ اسی سال مختلف علاقوں کے وفود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے۔
۱۰ ؁ ھ

اس سال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امارت میں ایک دستہ بنی مذحج کے مقابلہ میں بھیجا، ان کے بیس آدمی مارے گئے باقی مسلمان ہوئے۔ اسی سال حضرت معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو تعلیم و تبلیغ کے لیے یمن بھیجا۔ اس سال کا اہم ترین واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری حج ہے۔ جسے حجة الوداع، حجة البلاغ، حجة الکمال، حجة التمام، حجة الاسلام کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات اور منیٰ کے خطبوں میں دین کے بنیادی اُصولوں کی تعلیم فرمائی۔

بنیادی اُصولوں کی تعلیم

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی حاکمِ وقت اور قاضی کے لیے نمونہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پورے عالم کے لیے نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک مسلمان حاکم کے لیے بھی اُسوہٴ حسنہ ہے؛ کیوں کہ آپ ایک اِسلامی مملکت کے ایک عادل سربراہ بھی تھے اور آپ نے اس مملکت کو نہایت کامیابی کے ساتھ چلایا۔

آپ کی سیرت ایک قاضی اور جج کے لیے بھی بہترین نمونہ ہے؛ کیوں کہ آپ ایک عادل اور منصف قاضی بھی تھے اور آپ نے قضاء اور عدل و انصاف کے وہ اُصول بیان فرمائے جن سے اِنسانیت قیامت تک مستغنی نہیں ہوسکتی، آپ ہی کا فرمان ہے:

”بخدا اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کا اِرتکاب کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔“

اور آپ ہی کا فرمان ہے:

”اگر لوگوں کو صرف ان کے دعوے اور مطالبہ پر ان کا مطلوب دے دیا جائے تو کچھ لوگ دوسروں کے خون اور مالوں کا دعویٰ شروع کردیں گے؛ لیکن مدعی کے ذمہ ثبوت ہے اور مدعا علیہ پر قسم ہے۔“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی فوجی جرنیل کے لیے نمونہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک فوجی جرنیل اور بہادر سپاہی کے لیے بھی اُسوہٴ حسنہ ہے؛ کیوں کہ آپ میں ایک فوجی قائد کی شجاعت، تدبر اور شفقت جیسی اعلیٰ صفات موجود تھیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری اور شجاعت

بہادری اور شجاعت ایسی کہ غزوہٴ حنین میں جب دشمنوں نے تیروں کی بارش برسادی تو بہتوں کے قدم اُکھڑ گئے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانثاروں کے ساتھ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ رہے تھے اور فرمارہے تھے:

أنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ

أنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

”میں سچا نبی ہوں، میں عبد المطلب کا سپوت ہوں۔“

ایک بار اہلِ مدینہ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کوئی دُشمن حملہ کرنے والا ہے، گھبرا کر باہر نکلے؛ تاکہ معلومات حاصل کریں، کیا دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا ایک گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار باہر سے واپس تشریف لارہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ گھبراؤ نہیں میں سب دیکھ کر آگیا ہوں، کوئی خطرہ نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے ہر فرد کو ایک مجاہد اور مضبوط اِنسان دیکھنا چاہتے تھے، آپ ہی کا ارشاد ہے:

”ایک قوی مومن اللہ کے ہاں زیادہ بہتر اور پیارا ہے کمزور مومن کے مقابلے میں اور دونوں میں خیر موجود ہے“۔

سنتِ مشورہ

آپ غزوات میں تجربہ کار صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ بھی فرماتے تھے اور اس پر عمل بھی فرماتے جیسا کہ غزوہٴ بدر اور غزوہٴ خندق کے واقعات اس پر شاہد ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحم دلی اور عدل و اِنصاف

اس شجاعت کے ساتھ رحم دلی اور عدل و اِنصاف کا یہ عالم ہے کہ جب کسی لشکر اور فوج کو روانہ فرماتے تو انھیں اس بات کی تاکید فرماتے کہ کسی عورت، بچے، بوڑھے اور عبادت میں مشغول اِنسان کو ہرگر قتل نہ کیا جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر و تحمل

صبر و تحمل میں آپ سب کے امام ہیں، ایک اَعرابی آتا ہے اور آپ کی چادر کو اتنا زور سے کھینچتا ہے کہ گردنِ مبارک پر نشانات پڑجاتے ہیں اور وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اللہ کے مال میں سے دیجیے۔ آپ مسکرا رہے ہیں اور حکم فرماتے ہیں کہ اس کو اتنا مال دے دیا جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِستقامت کے پہاڑ

حق پر صبر و اِستقامت کی آپ نے وہ مثال قائم فرمائی جس کی نظیر تاریخِ انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے، آپ کے مخالفین نے آپ کو مال و دولت، خوب صورت عورت اور دنیا کے جاہ و جلال کی لالچ دی؛ تاکہ آپ دعوتِ حق کو ترک کردیں؛ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی آپ کو ذرہ برابر متأثر نہ کرسکی اور آپ نے ان کو ان تاریخی کلمات سے جواب دیا جو اہلِ حق کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہیں گے، آپ نے فرمایا:

”قسم بخدا! اگر یہ لوگ سورج کو میرے داہنے ہاتھ پر رکھ دیں اور چاند کو بائیں ہاتھ پر رکھ دیں؛ تاکہ میں اپنی اس دعوتِ حق کو چھوڑدوں تو میں ہرگز اسے نہیں چھوڑوں گا؛ جب تک کہ اللہ اسے غالب نہ کردے یا اسی میں میری موت آجائے۔“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و کرم

عفو و کرم میں اگر دیکھا جائے تو آپ کا کوئی ثانی نہیں ملے گا، فتحِمکہ کی مثال جو اوپر گزری، ایسی ہے کہ اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی، خود آپ کا ارشاد ہے:

”جو تجھ سے قطع رحمی کرے تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کر، جو تجھے نہ دے تو اسے دے، جو تجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کردے اور جو تجھ سے برا سلوک کرے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کر۔“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت

جود و سخا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے ہیں، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں:

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو آپ کی جود و سخا کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا۔“

اُونچے اخلاق

اخلاق میں آپ اتنے اُونچے مقام پر تھے کہ خود باری تعالیٰ نے آپ کی اس صفت کو خصوصیت سے ذکر کیا: ”اور یقینا آپ بڑے بلند خلق پر قائم ہیں“۔

بہترین شوہر، مشفق باپ اور وفادار دوست

اسی طرح آپ ایک بہترین شوہر، مشفق باپ اور وفادار دوست بھی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا نمونہ پیش فرماکر اُمت کو بتادیا کہ ایک مسلمان شوہر کیسا ہونا چاہیے؟ ایک باپ کیسا ہو؟ اور ایک دوست کیسا ہو؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامیاب معلم اور مربی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک امتیازی صفت معلم اور مربی کی ہے۔ آپ کامل معلم، استاذ اور ایک عظیم مربی تھے؛ اس لیے تعلیم کے میدان میں کام کرنے والے اور جن حضرات پر نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری ہے سب کے لیے آپ اُسوہٴ حسنہ ہیں۔

۱۱ ؁ ھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وِصال

۱۱ ؁ ھ: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رُومیوں کے مقابلہ میں ”اُسامہ کا لشکر“ تیار فرمایا؛ مگر لشکر کی روانگی سے قبل ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ناساز ہوگئی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرضِ وفات تھا، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہے، نماز کی امامت کے لیے اپنی جگہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔ دو شنبہ بارہ ربیع الاوّل کو ۶۳/ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وِصال ہوا؛ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی امانت اللہ کے بندوں کو پہنچاچکے تھے اور دعوت و ہدایت کا کام پورا ہوچکا تھا۔ چہار شنبہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا، تین کپڑوں میں کفن دیا گیا اور مسلمانوں نے غم زدہ دلوں کے ساتھ فرداً فرداً نمازِ جنازہ پڑھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وہی حجرہ آپ کی آخری آرام گاہ بنی۔

صلی اللّٰہ علیہ وعلی آلہ وأصحابہ وأتباعہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا․

اولاد

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین صاحب زادے تھے: قاسم، عبد اللہ، اِبراہیم سب کا بچپن میں ہی اِنتقال ہوا۔

چار صاحب زادیاں تھیں: زینب، رُقیہ، اُمّ کلثوم اورفاطمة الزہرا۔

ازواجِ مطہرات

خدیجة الکبریٰ، عائشہ صدیقہ، حفصہ، اُمّ سلمہ، سودہ، زینب بنت جحش، میمونہ، زینب بنت خزیمہ، جویریہ، صفیہ، اُمّ حبیبہ۔

حضرت خدیجة الکبریٰ اور زینب بنت خزیمہ کی وفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہوئی۔ باقی نو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وِصال کے وقت موجود تھیں رضی اللّٰہ عنہن۔

حسن و جمال

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کے بیان سے تو قلم و قرطاس قاصر ہیں؛ تاہم حضرت حسان بن ثابت کے دو اشعار تشنگیِ شوق کی تسکین کے لیے حاضر ہیں۔

وَأحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِيْ

وَأجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاء

خُلِقْتَ مُبَرَّئًا مِنْ کُلِّ عَیْبٍ

کَأنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاء

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین میری آنکھوں نے نہیں دیکھا

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جمیل کسی ماں نے کوئی بچہ نہیں جنا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر عیب سے فطرتاً پاک و صاف پیدا ہوئے

گویا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے ویسے ہی پیدا ہوئے