تعلیم قرآن کی اجرت

تعلیم قرآن کی اجرت; احادیث شریفہ کی روشنی میں
ائمہ مجتہدین کے مابین یہ مسئلہ قابل غور وبحث رہا ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت ومعاوضہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ فقہا امت کا اس میں اختلاف ہے. امام مالک شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ جائز قرار دیتے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض دوسرے ائمہ کرام رحمہم اللہ منع فرماتے ہیں کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کو  کسب معاش کا  ذریعہ بنانے سے منع فرمایا ہے:
قال علیہ السلام: اقرؤوا لقرآن ولا تأکلوا بہ ولا تستکثروا بہ ولا تجفوا عنہ ولا تغلوا فیہ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۲؍۴۰۱ رقم: ۷۸۲۵)
وقال علیہ السلام: من قرأ القرآن یتأکل بہ الناس جاء یوم القیامۃ وجہہ عظم لیس علیہ لحم (رواہ البیہقي في شعب الإیمان ۲؍۵۳ رقم: ۲۶۲۵)
وقال علیہ الصلاۃ والسلام: من قرأ القرآن فلیسأل اللّٰہ بہ فإنہ سیجئ أقوام یقرؤون القرآن یسألون بہ الناس۔ (سنن الترمذي ۲؍۱۱۹)
وقال عبد اللّٰہ ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ إنہ سیجئ زمان یسئل فیہ بالقرآن فإذا سألوکم فلا تعطوہم۔ (رواہ البیہقي ۲؍۵۳۴ رقم: ۲۶۳۱)
عن عبد اللّٰہ ابن معقل رضي اللّٰہ عنہ أنہ صلی بالناس في شہر رمضان فلما کان یوم الفطر بعث إلیہ عبید اللّٰہ ابن زیاد بحلۃ وبخمس مأۃ درہم فردہا، وقال إنا لا نأخذ علی القرآن أجراً۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۲؍۴۰۰ رقم: ۷۸۲۱)۔
جواز کے قائلین ائمہ ثلاثہ کے پیش نظر بخاری شریف کی یہ حدیث ہے۔ جو تعلیم قرآن کی اجرت کے جواز پہ بالکل ہی واضح، صریح اور دو ٹوک ہے:
بَاب الشَّرْطِ فِي الرُّقْيَةِ بِقَطِيعٍ مِنْ الْغَنَمِ
5405 حَدَّثَنِي سِيدَانُ بْنُ مُضَارِبٍ أَبُو مُحَمَّدٍ الْبَاهِلِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ الْبَصْرِيُّ هُوَ صَدُوقٌ يُوسُفُ بْنُ يَزِيدَ الْبَرَّاءُ قَالَ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ أَبُو مَالِكٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِمَاءٍ فِيهِمْ لَدِيغٌ أَوْ سَلِيمٌ فَعَرَضَ لَهُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَاءِ فَقَالَ هَلْ فِيكُمْ مِنْ رَاقٍ إِنَّ فِي الْمَاءِ رَجُلًا لَدِيغًا أَوْ سَلِيمًا فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ عَلَى شَاءٍ فَبَرَأَ فَجَاءَ بِالشَّاءِ إِلَى أَصْحَابِهِ فَكَرِهُوا ذَلِكَ وَقَالُوا أَخَذْتَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا حَتَّى قَدِمُوا الْمَدِينَةَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ” ۔۔صحيح البخاري
حدیث کا آخری بین القوسین والا جزو محل استشہاد ہے۔
ترمذی شریف کی یہ حدیث بھی جواز کی دلیل ہے:
[ص: 348] بَاب مَا جَاءَ فِي أَخْذِ الْأَجْرِ عَلَى التَّعْوِيذِ
2063 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ فَنَزَلْنَا بِقَوْمٍ فَسَأَلْنَاهُمْ الْقِرَى فَلَمْ يَقْرُونَا فَلُدِغَ سَيِّدُهُمْ فَأَتَوْنَا فَقَالُوا هَلْ فِيكُمْ مَنْ يَرْقِي مِنْ الْعَقْرَبِ قُلْتُ نَعَمْ أَنَا وَلَكِنْ لَا أَرْقِيهِ حَتَّى تُعْطُونَا غَنَمًا قَالَ فَأَنَا أُعْطِيكُمْ ثَلَاثِينَ شَاةً فَقَبِلْنَا فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَبْعَ مَرَّاتٍ فَبَرَأَ وَقَبَضْنَا الْغَنَمَ قَالَ فَعَرَضَ فِي أَنْفُسِنَا مِنْهَا شَيْءٌ فَقُلْنَا لَا تَعْجَلُوا حَتَّى تَأْتُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَيْهِ ذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي صَنَعْتُ قَالَ وَمَا عَلِمْتَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ اقْبِضُوا الْغَنَمَ وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو نَضْرَةَ اسْمُهُ الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ وَرَخَّصَ الشَّافِعِيُّ لِلْمُعَلِّمِ أَنْ يَأْخُذَ عَلَى تَعْلِيمِ الْقُرْآنِ أَجْرًا وَيَرَى لَهُ أَنْ يَشْتَرِطَ عَلَى ذَلِكَ وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَجَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ هُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ وَهُوَ أَبُو بِشْرٍ وَرَوَى شُعْبَةُ وَأَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ۔     سن الترمذی
ہناد، ابومعاویہ، اعمش، جعفر بن ایاس، ابونضرہ، حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا تو ہم ایک قوم کے پاس ٹھہرے اور ان سے ضیافت طلب کی لیکن انھوں نے ہماری میزبانی کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر ان کے سردار کو بچھونے ڈنک مار دیا۔ وہ لوگ ہمارے پاس آئے اور پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی بچھو کے کاٹے پر دم کرتا ہے؟
میں نے کہا، ہاں لیکن میں اس صورت میں دم کروں گا کہ تم ہمیں بکریاں دو۔
انھوں نے کہا، ہم تمھیں تیس بکریاں دیں گے۔ ہم نے قبول کرلیا اور پھر میں نے سات مرتبہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ ٹھیک ہوگیا اور ہم نے بکریاں لے لیں پھر ہمارے دل میں خیال آیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم جلدی نہ کریں۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھ لیں۔
جب ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچے تو میں نے پورا قصہ سنایا۔
فرمایا، تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ سے دم کیا جاتا ہے۔ بکریاں رکھ لو اور میرا حصہ بھی دو۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ابونضرہ کا نام منذر بن مالک بن قطعہ ہے۔ امام شافعی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے قرآن کی تعلیم دینے پر اجرت لینے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسے مقرر کرنا بھی جائز ہے۔ شعبہ ابوعوانہ اور کئی راوی یہ حدیث ابومتوکل سے اور وہ ابوسعید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل کرتے ہیں۔
متاخرین حنفیہ نے بھی جب ان حالات کا مشاہدہ کیا کہ قرآن مجید کے معلمین کو اسلامی بیت المال سے گذارہ ملا کرتا تھا، اب ہر جگہ اسلامی نظام میں فتور کے سبب یہ معلمین محنت مزدوری یا تجارت وغیرہ میں لگ جائیں تو بچوں کو تعلیم قرآن کا سلسلہ یکسر بند ہوجائے گا کیونکہ وہ دن بھر کا مشغلہ چاہتا ہے، اس لئے تعلیم قرآن پر تنخواہ لینے کو بضرورت جائز قرار دیا جیسا کہ صاحب ہدایہ نے فرمایا ہے کہ آج کل اسی پر فتویٰ دینا چاہئے کہ تعلیم قرآن پر اجرت وتنخواہ لینا جائز ہے صاحب ھدایہ کے بعد آنے والے دوسرے فقہا نے بعض ایسے ہی دوسرے وظائف جن پر تعلیم قرآن کی طرح دین کی بقاء موقوف ہے مثلاً امامت واذان اور تعلیم حدیث وفقہ وغیرہ کو تعلیم قرآن کے ساتھ ملحق کرکے ان کی بھی اجازت دی ہے۔ (درمختار، شامی)
قوله: (وبعض مشايخنا استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم لأنه ظهر التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن، وعليه الفتوى).
ایصال ثواب کے لئے ختم قرآن پر اجرت لینا باتفاق جائز نہیں۔
علامہ شامی نے درمختار کی شرح میں اور اپنے رسالہ شفاء العلیل میں بڑی تفصیل اور قوی دلائل کے ساتھ یہ بات واضح کردی ہے کہ تعلیم قرآن وغیرہ پر اجرت لینے کو جن متاخرین فقہاء نے جائز قرار دیا ہے اس کی علت ایک ایسی دینی ضرورت ہے جس میں خلل آنے سے دین کا پورا نظام مختل ہوجاتا ہے، اس لئے اس کو ایسی ہی ضرورت کے مواقع میں محدود رکھنا ضروری ہے، اس لئے مردوں کو ایصال ثواب کیلئے ختم قرآن کرانا یا کوئی دوسرا وظیفہ پڑھوانا اجرت کے ساتھ حرام ہے کیونکہ اس پر کسی عام دینی ضرورت کا مدار نہیں اور اجرت لے کر پڑھناحرام ہوا تو اس طرح پڑھنے والا اور پڑھوانے والا دونوں گناہگار ہوئے اور جب پڑھنے والے ہی کو کوئی ثواب نہ ملا تو میت کو وہ کیا پہنچائے گا. علامہ شامی نے اس بات پر فقہاء کی بہت سی تصریحات تاج الشریعۃ، عینی شرح ہدایہ، حاشیہ خیر الدین بر بحر الرائق وغیرہ سے نقل کی ہیں اور خیر الدین رملی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ایصال ثواب کے لئے قبر پر قرآن پڑھوانا یا اجرت دے کر ختم قرآن کروانا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین اور اسلاف امت رحمہم اللہ سے کہیں منقول نہیں اس لئے بدعت ہے (شامی ص ٤٧، ج ١
الآخذ والمعطی أثمان … فالحاصل أن ماشاء فی زماننا من قراء تہ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ و إعطاء الثواب للآمر، والقرأۃ لأجل المال فإذا لم یکن ثواب للقاری لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر؟ ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد فی ہذاا لزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا و وسیلۃ إلی جمع الدنیا إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ (شامي ۹؍۷۷ زکریا، رسائل ابن عابدین ۱؍۱۷۱، البحر الرائق ۸؍۱۹، الفتاویٰ الہندیۃ ۶؍۳۹۰)
إن ما أجازہ المتأخرون إنما أجازوہ للضرورۃ ولا ضرورۃ فی الإستئجار علی التلاوۃ فلا یجو۔ (رسائل ابن عابدین ۱؍۱۶۸)
تعلیم قرآن پہ اجرت لینا بتصریح حدیث بخاری وترمذی و اتفاق ائمہ ثلاثہ ومتاخرین حنفیہ جائز اور درست ہے۔ لہذا اس کی تعلیم وتعلم سے وابستہ افراد سب سے افضل عمل میں وابستہ شمار ہونگے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش یقینا نہیں کہ یہ عمل صدقہ جاریہ ہے ۔۔ جہت عبادت کا انکار خطرناک امر ہے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ قَال سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَذَاکَ الَّذِي أَقْعَدَنِي مَقْعَدِي هَذَا وَعَلَّمَ الْقُرْآنَ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ حَتَّی بَلَغَ الْحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
سنن الترمذي ۔رقم الحدیث 2907۔
محمود بن غیلان، ابوداؤد، شعبہ، علقمہ بن مرثد، سعد بن عبیدہ، ابوعبدالرحمن، حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ اس حدیث کے روای ابوعبدالرحمن کہتے ہیں کہ اسی حدیث نے مجھے اس جگہ بٹھایا، چنانچہ انھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے سے لے کر حجاج بن یوسف کے زمانے تک قرآن کی تعلیم دی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
ہاں جن جگہوں پہ کوئی ضرورت نہیں، جہاں دین ونظام دین کے ضیاع کا کوئی خطرہ باقی نہ ہو جیسے مردوں کے ایصال ثواب کے لئے قرات قرآن پہ اجرت ۔۔تو ایسی جگہوں پہ اجرت قرآن والی ممانعت اپنی اصلی شکل میں باقی رہے گی اور اجرت دینے اور لینے والے دونوں گنہگار اور ثواب صدقہ سے محروم ہونگے۔
الآخذ والمعطی أثمان … فالحاصل أن ماشاء فی زماننا من قراء تہ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ و إعطاء الثواب للآمر، والقرأۃ لأجل المال فإذا لم یکن ثواب للقاری لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر؟ ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد فی ہذاا لزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا و وسیلۃ إلی جمع الدنیا إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ (شامي ۹؍۷۷ زکریا، رسائل ابن عابدین ۱؍۱۷۱، البحر الرائق ۸؍۱۹، الفتاویٰ الہندیۃ ۶؍۳۹۰)
إن ما أجازہ المتأخرون إنما أجازوہ للضرورۃ ولا ضرورۃ فی الإستئجار علی التلاوۃ فلا یجوز۔ (رسائل ابن عابدین ۱؍۱۶۸)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
سیدپور، بیگوسرائے ۔بہار