کیا انتخابات صالح انقلاب کا ذریعہ ہیں؟
س… پاکستان میں انتخابات ہونے والے ہیں، اور بار بار یہ عمل دُہرایا جاتا ہے، اس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، مختلف پارٹیوں کے راہ نما اپنی اپنی منطق بیان کرتے ہیں، کیا برسرِ اقتدار آنے کا یہ طریقہ صحیح ہے؟ آیا انتخابات صالح انقلاب کا ذریعہ ہیں؟
ج… وطنِ عزیز میں انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ ہوں گے تو ان کی نوعیت کی ہوگی؟ ان کے لئے کیا طریقہٴ کار اختیار کیا جائے گا؟ اور انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر گفتگو ہو رہی ہے، اور ہر شخص اپنی ذہنی و فکری سطح کے مطابق ان پر اظہارِ خیال کرتا نظر آتا ہے۔
حکومت کی جانب سے انتخابات کی قطعی تاریخ کا اعلان اگرچہ نہیں کیا گیا، لیکن اربابِ حل و عقد کی جانب سے بڑے وثوق سے اعلان کیا جارہا ہے کہ نیا سال انتخابی سال ہوگا، اگرچہ سرحدوں کے حالات مخدوش ہیں۔ افغان طیارے پاکستانی فضائی حدود کی مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں، رُوس کے فوجی دستے پاکستان کی سرحد پر جمع ہیں اور رُوس کی جانب سے پاکستان کو خفی و جلی الفاظ میں دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ادھر بھارت کی مسلح افواج پاکستان کی سرحدوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بھارتی افواج کی طرف سے پاکستانی سرحدوں پر گولہ باری کی خبریں بھی آرہی ہیں اور پاکستان کی پُرامن ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے منصوبے بھی تیار کئے جارہے ہیں۔ مختصر الفاظ میں پاکستان کی سرحدوں پر حالات “تشویشناک” ہیں، اس کے باوجود صدرِ مملکت کا ارشاد ہے کہ:
“سرحدوں پر دباوٴ سے انتخابی پروگرام متأثر نہیں ہوگا۔ ہم جنگ کی توقع نہیں رکھتے، لیکن اگر ہماری خواہشات اور کوششوں کے باوجود کوئی ناخوشگوار اور تلخ صورتِ حال پیدا ہوئی تو انتخابی پروگرام کا جائزہ لیا جائے گا۔”
(روزنامہ “جنگ” کراچی ۴/ستمبر ۱۹۸۴ء)
ظاہر ہے کہ خدانخواستہ سرحدوں پر حالات زیادہ سنگین ہوجائیں تو وطنِ عزیز کا دفاع سب سے اہم تر فریضہ ہے، اور اس صورتِ حال میں انتخابات کا التواء ناگزیر ہوگا۔ گویا حکومت کے اعلانات پر مکمل اعتماد کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل قریب میں انتخابات ہوں گے یا نہیں؟
رہا دُوسرا سوال کہ انتخابات کس نوعیت کے ہوں گے اور ان کے لئے کیا طریقہٴ کار اختیار کیا جائے گا؟ اس سلسلے میں شہسوارانِ سیاست مشوروں کی تیر اندازی فرما رہے ہیں، لیکن افسوس کہ ابھی تک کوئی تیر نشانے پر نہیں بیٹھا اور نہ اس سلسلے میں حکومت کا دو ٹوک فیصلہ سامنے آیا ہے۔ گویا یہ مسئلہ ہنوز حکومت اور سیاست دانوں کے درمیان متنازعہ فیہ ہے کہ انتخابات جماعتی بنیاد پر ہوں یا غیرجماعتی بنیاد پر۔ اسی طرح انتخابی حکمتِ عملی اور لائحہ عمل کی تفصیلات بھی ابھی تک پردہٴ خفا میں ہیں، البتہ صدرِ مملکت اور ان کی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ اچھے آدمی منتخب ہوکر سامنے آئیں، لیکن یہ سوال پھر باقی رہ جاتا ہے کہ “اچھے آدمی” کا معیار کیا ہوگا؟ اسے کن صفات کی ترازو میں تول کر دیکھا جائے گا؟ اور یہ کہ بگڑے ہوئے معاشرے میں “اچھے آدمی” کیسے تلاش کئے جائیں گے؟ اور اگر ان کی “دریافت” میں ہم کامیاب بھی ہوجائیں تو ان کے اندر انتخابی کارزار میں “ھل من مبارز؟” پکارنے کی صلاحیت کیسے پیدا کی جائے گی؟ اور وہ زرد دولت کے جادو کا توڑ کیسے کریں گے؟ کیا ہماری سیاسی فضا میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ کوئی اچھا آدمی محض اپنی اچھائی کے بل بوتے پر انتخابات جیت جائے؟ ان سوالوں کا کوئی اُمید افزا جواب دینا مشکل ہے۔
اب رہا آخری سوال کہ ملک و ملت اور دِین و مذہب کے حق میں یہ انتخابات کس حد تک مفید اور بار آور ہوں گے؟ اس کا فیصلہ تو مستقبل ہی کرے گا۔ لیکن گزشتہ تجربات اور موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان انتخابات سے (سوائے تبدیلیٴ اقتدار کے) خوش کن توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ اگر انتخابات کو کسی صالح انقلاب کا ذریعہ بنانا مقصود ہو تو اس کے لئے اوّلین شرط یہ ہے کہ تمام دِین دار حلقے گروہی، جماعتی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر کوئی متفقہ لائحہ عمل تجویز کرتے اور اپنا مجموعی وزن انتخابی پلڑے میں ڈالتے۔ تب توقع کی جاسکتی تھی کہ وطنِ عزیز میں لادِین قوّتیں سرنگوں ہوتیں اور ملک میں خیر و فلاح کا علم بلند ہوتا، لیکن افسوس ہے کہ صورتِ حال اس سے یکسر مختلف ہے، جو لوگ اس ملک میں دِینی اقتدار کو بلند دیکھنا چاہتے ہیں اور جن سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ لادینیت کے سامنے سینہ سپر ہوں گے، ان کا شیرازہ کچھ اس طرح بکھیر دیا گیا ہے کہ کوئی معجزہ ہی ان کو متحد کرسکتا ہے۔ نہ جانے یہ حضرات حالات و واقعات کا صحیح تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہی سے محروم ہوچکے ہیں، یا مسلمانوں کی بدقسمتی نے ان کی دُور اندیشی وژرف نگاہی پر پردے ڈال دئیے ہیں، کس قدر افسوس ناک اور لائقِ صد ماتم ہے یہ منظر کہ جن حضرات کے کندھوں پر ملک و ملت کی قیادت و رہنمائی کا بار ہے ان کی نظر سے راہ و رسم منزل اوجھل ہو رہی ہے اور وہ حزبی و گروہی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں، اس تلخ نوائی پر معذرت خواہ ہوں لیکن اظہارِ دردِ دِل کے بغیر چارہ نہیں:
مرا دردے ست اندر دِل اگر گویم زباں سوزد
وگر درلشم ترسم کہ مغز استخواں سوزد
حالات کی شدّت مجبور کر رہی ہے کہ کسی لاگ لپیٹ کے بغیر صاف صاف عرض کیا جائے:
نوا را تلخ تر می زن چوں ذوق نغمہ کم یابی
حدی را تیز تر می خواں چوں محمل را گراں بینی
ملک کی سیاسی فضاء مارشل لاء کی وجہ سے ٹھٹھری ہوئی ہے، اس کی ظاہری سطح کے پُرسکون ہونے کی وجہ سے کسی کو یہ اندازہ نہیں کہ اس کی اندرونی سطح میں کیسے کیسے لاوے پک رہے ہیں؟ ملک و ملت کے خلاف سازشوں کے کیسے کیسے جال بنے جارہے ہیں؟ لادِینی قوّتیں – “اَلْکُفْرُ مِلَّةٌ وَّاحِدَةٌ” کے اُصول پر- متفق و متحد ہیں، ان کے پاس اربوں کا سرمایہ ہے، اور بیرونی طاقتوں کی حمایت و رہنمائی میں وہ اس اَمر کے لئے کوشاں ہیں کہ اس ملک سے دِین اور اہلِ دِین کی آواز کو دبایا جائے، (یا پھر اس ملک کے وجود ہی کو معرضِ خطر میں ڈال دیا جائے)، ان کے مقابلے میں دِین کے عَلم برداروں کے پاس نہ سرمایہ ہے، نہ قوّت، نہ اجتماعی سوچ، ان کی تمام تر صلاحیتیں باہمی نزاعات و اختلافات کو ہوا دینے پر صَرف ہو رہی ہیں، دیوبندی، بریلوی (اپنے اختلافات کے باوجود) دِینی محاذ پر متحد ہوجایا کرتے تھے، اور ان کا یہ اتحاد لادِین طبقے کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن موجودہ صورتِ حال سب کے سامنے ہے، اسی طرح تمام دِینی جماعتوں کا شیرازہ کچھ اس طرح بکھر رہا ہے کہ ان کے درمیان کسی اہم ترین مقصد پر بھی اتفاق و اتحاد کا سوال خارج از بحث ہوتا جارہا ہے۔
اس تمام تر صورتِ حال کا انجام کیا ہوگا؟ بزرگانِ ملت کو اس کا احساس ہے․․․؟
مہاجرین یا اولاد المہاجرین؟
س… لفظ “مہاجر” قرآن شریف میں کس کس جگہ پر آیا ہے؟ یعنی کن کن سورتوں کی کون کون سی آیات میں؟ کس معنی میں؟ لفظ “مہاجر” احادیث شریف کی کن کن کتابوں میں کہاں کہاں پر آیا ہے؟ کن معنی میں؟
ج… لفظ “مہاجر”، “ہجرت” سے ہے، جس کے معنی ہیں: “ہجرت کرنے والا” اور “ہجرت” کے معنی ہیں: “اپنے دِین کو بچانے کے لئے دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف یا دار الفساد سے دار الامن کی طرف ترکِ وطن کرکے جانا۔”
مکہ مکرّمہ میں جب کفار کا غلبہ تھا اور مسلمانوں کو اپنے دِین پر عمل کرنا دوبھر تھا، اس وقت دو مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مکہ مکرّمہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس مکہ مکرّمہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے، اور مکہ مکرّمہ کے تمام مسلمان جو ہجرت کرسکتے تھے وہ بھی آگے پیچھے مدینہ طیبہ آگئے، اور مکہ مکرّمہ میں چند گنے چنے ایسے مسلمان رہ گئے جو اپنے ضعف اور کمزوری کی وجہ سے ہجرت کرنے سے معذور تھے، مکہ مکرّمہ کے فتح ہونے تک ان تمام لوگوں پر ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنا فرض تھا، جو کافروں کے درمیان رہتے ہوئے اپنے دِین پر عمل نہ کرسکتے ہوں۔ فتحِ مکہ کے بعد یہ فرضیت باقی نہ رہی، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: “فتحِ مکہ کے بعد ہجرت نہیں” قرآن میں ان مہاجرین کا ذکر بار بار آیا ہے اور ان کے بے شمار فضائل بیان فرمائے گئے ہیں، حوالے کے لئے درج ذیل آیات دیکھ لی جائیں:
الحشر: ۹، التوبہ:۲۰، الانفال:۷۲، النور:۲۲، الاحزاب:۵۰، النحل:۴۱، ۱۱۰، العنکبوت:۲۶، الاحزاب:۶، آل عمران:۱۹۵، البقرة:۲۱۸، الحج:۵۸، الممتحنہ:۱۰، الحشر:۸، النساء:۹۷، ۱۰۰، التوبہ:۱۰۰، الانفال۷۲ تا ۷۴، النساء:۸۹، التوبہ:۱۱۷۔
“ہجرت” اور “مہاجرین” کا لفظ صحاحِ ستہ اور دیگر کتبِ حدیث میں بھی بڑی کثرت سے آیا ہے، ان تمام کتابوں کے حوالے درج کرنا میرے لئے ممکن نہیں، ان احادیث میں ہجرت اور مہاجرین کے فضائل، ہجرت کی شرائط، اس کی ضرورت اور اس کی قبولیت کی شرط وغیرہ مضامین بیان فرمائے گئے ہیں۔
س… کیا لفظ “مہاجر” قرآن و سنت کے منافی ہے؟
ج… “مہاجر” کا لفظ قرآن و سنت کے منافی نہیں، البتہ غیرمہاجر کو “مہاجر” کہنا بلاشبہ قرآن و سنت کے منافی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:
“المھاجر من ھجر ما نھی الله عنہ۔”
(صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابوداوٴد، نسائی)
ترجمہ:… “مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔”
ظاہر ہے جو شخص محرّمات کا مرتکب اور فرائضِ شرعیہ کا تارک ہو، اس کو “مہاجر” کہنا اس کے منافی ہوگا۔
س… مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ہندوستان کے ان حصوں سے جو اَب بھارت کہلاتا ہے، پاکستان آئی، وہ “مہاجر” کہلاتے ہیں اور ان کی اولاد بھی، کیا اس میں از رُوئے شریعت کوئی قباحت ہے؟
ج… جو لوگ اپنے دِین کی خاطر ہندوستان سے ترکِ وطن کرکے پاکستان آئے وہ بلاشبہ “مہاجر” ہیں، اور جن لوگوں کے مدِ نظر دِین نہیں تھا بلکہ دُنیاوی مفادات کی خاطر یہاں آئے وہ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں “مہاجر” نہیں، نہ قرآن و حدیث کی رُو سے وہ “مہاجر” کہلاسکتے ہیں۔ “ہجرت” ایک عمل ہے اور اس عمل کے کرنے والے کو “مہاجر” کہا جاتا ہے۔ اس لئے جن حضرات نے خود ہجرت کی وہ تو “مہاجر” ہیں، ان کی اولاد کو “اولاد المہاجرین” کہنا تو صحیح ہے، مگر خود ان کو “مہاجر” کہنا قرآن و سنت کی اصطلاح نہیں، جس طرح کسی نمازی کی اولاد کو نمازی، کسی حاجی کی اولاد کو حاجی، کسی غازی کی اولاد کو غازی کہنا غلط ہے، اسی طرح کسی مہاجر کی اولاد کو مہاجر کہنا بھی غلط ہے۔ احادیث میں انصار کی اولاد کو “اولاد الانصار” فرمایا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا منقول ہے:
“اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَلِأَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ وَلِأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ۔ وفی روایة: وَلِذَرَارِیِّ الْأَنْصَارِ وَلِذَرَارِیِّ ذَرَارِیْھِمْ۔” (صحیح بخاری، مسلم، ترمذی، جامع الاصول ج:۹ ص:۱۶۳، ۱۶۴)
پس جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی اولاد کے لئے “ابناء الانصار” اور “ذراری الانصار” کے الفاظ فرمائے، خود “انصار” کے خطاب میں ان کو شامل نہیں فرمایا، اسی طرح “مہاجر” کی اولاد کو “اولاد المہاجرین” یا “ابناء المہاجرین” کہنا تو بجا ہے، لیکن خود “مہاجر” کا لقب ان کے لئے تجویز کرنا بے جا بات ہے۔
ہمارے یہاں جو “نعرہٴ مہاجر، جئے مہاجر” بلند کیا جاتا ہے، حدیثِ نبوی کی رُو سے دعوائے جاہلیت ہے۔ چنانچہ حدیث کا مشہور واقعہ ہے کہ کسی مہاجر نے کسی انصاری کے لات ماردی تھی، انصاری نے “یا للأنصار!” کا نعرہ لگایا، اور مہاجر نے “یا للمھاجرین!” کا نعرہ لگایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا:
“ما بال دعوی الجاھلیة”
“یہ جاہلیت کے نعرے کیسے ہیں؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قصہ بتایا گیا تو فرمایا:
“دعوھا فانّھا منتنة۔ وفی روایة: فانّھا خبیثة۔” (بخاری، مسلم، ترمذی، جامع الاصول ج:۲ ص:۳۸۹)
ترجمہ:… “اس نعرے کو چھوڑ دو، یہ بدبودار ہے!”
ہمارے بزرگوں نے پاکستان “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر بنایا تھا، یہ سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ کے نعرے “دو قومی نظریہ” کی نفی ہے، اسی طرح مہاجر قومیت کا تصوّر بھی انہی نعروں میں سے ہے۔ اسلام، رنگ و نسل اور وطنیت کے بتوں کو پاش پاش کرنے آیا تھا، نہ کہ ایک مسلمان کو دُوسرے مسلمان سے لڑانے اور ٹکرانے کے لئے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ رنگ و نسل اور قبیلے کی بنیاد پر حمایت و مخالفت کے پیمانے وضع نہ کرو، بلکہ مظلوم کی مدد کرو، خواہ کسی رنگ و نسل اور قبیلے کا ہو اور ظالم کا ہاتھ روکو خواہ کسی برادری کا ہو۔
“جمہوریت” اس دور کا صنمِ اکبر
س… میری ایک اُلجھن یہ ہے کہ: “اسلام میں جمہوریت کی گنجائش ہے یا نہیں؟” کیونکہ میری ناقص رائے کے مطابق “جمہوریت” کی حکومت میں آزاد خیالی اور لفظِ “آزادی” کی وجہ سے مسلمان تمام حدوں سے تجاوز کرجاتے ہیں، جبکہ مذہب “گھر” تک محدود ہوجاتا ہے، حالانکہ “اسلام” نہ صرف ایک بے مثال مذہب ہے بلکہ اس میں خدا کے مستند قوانین سموئے ہوئے ہیں، اور اسلام میں ایک حد میں رہتے ہوئے آزادی بھی دی گئی ہے۔ برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں۔
ج… بعض غلط نظریات قبولیتِ عامہ کی ایسی سند حاصل کرلیتے ہیں کہ بڑے بڑے عقلاء اس قبولیتِ عامہ کے آگے سر ڈال دیتے ہیں، وہ یا تو ان غلطیوں کا ادراک ہی نہیں کرپاتے یا اگر ان کو غلطی کا احساس ہو بھی جائے تو اس کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں کرسکتے۔ دُنیا میں جو بڑی بڑی غلطیاں رائج ہیں ان کے بارے میں اہلِ عقل اسی المیے کا شکار ہیں۔ مثلاً “بت پرستی” کو لیجئے! خدائے وحدہ لا شریک کو چھوڑ کر خود تراشیدہ پتھروں اور مورتیوں کے آگے سر بسجود ہونا کس قدر غلط اور باطل ہے، انسانیت کی اس سے بڑھ کر توہین و تذلیل کیا ہوگی کہ انسان کو – جو اَشرف المخلوقات ہے- بے جان مورتیوں کے سامنے سرنگوں کردیا جائے اور اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوگا کہ حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ مخلوق کو شریکِ عبادت کیا جائے۔ لیکن مشرک برادری کے عقلاء کو دیکھو کہ وہ خود تراشیدہ پتھروں، درختوں، جانوروں وغیرہ کے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تمام تر عقل و دانش کے باوجود ان کا ضمیر اس کے خلاف احتجاج نہیں کرتا اور نہ وہ اس میں کوئی قباحت محسوس کرتے ہیں۔
اسی غلط قبولیتِ عامہ کا سکہ آج “جمہوریت” میں چل رہا ہے، جمہوریت دورِ جدید کا وہ “صنمِ اکبر” ہے جس کی پرستش اوّل اوّل دانایانِ مغرب نے شروع کی، چونکہ وہ آسمانی ہدایت سے محروم تھے اس لئے ان کی عقلِ نارسا نے دیگر نظام ہائے حکومت کے مقابلے میں جمہوریت کا بت تراش لیا اور پھر اس کو مثالی طرزِ حکومت قرار دے کر اس کا صور اس بلند آہنگی سے پھونکا کہ پوری دُنیا میں اس کا غلغلہ بلند ہوا یہاں تک کہ مسلمانوں نے بھی تقلیدِ مغرب میں جمہوریت کی مالا جپنی شروع کردی۔ کبھی یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ “اسلام جمہوریت کا عَلم بردار ہے” اور کبھی “اسلامی جمہوریت” کی اصطلاح وضع کی گئی، حالانکہ مغرب “جمہوریت” کے جس بت کا پجاری ہے اس کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی ضد ہے، اس لئے اسلام کے ساتھ “جمہوریت” کا پیوند لگانا اور جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کرنا صریحاً غلط ہے۔
سب جانتے ہیں کہ اسلام، نظریہٴ خلافت کا داعی ہے جس کی رُو سے اسلامی مملکت کا سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور نائب کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی زمین پر اَحکامِ الٰہیہ کے نفاذ کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ مسند الہند حکیم الاُمت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ، خلافت کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
“مسئلہ در تعریف خلافت: ھی الریاسة العامة فی التصدی لاقامة الدین باحیاء العلوم الدینیة واقامة ارکان الاسلام والقیام بالجھاد وما یتعلق بہ من ترتیب الجیوش والفرض للمقاتلة واعطائھم من الفییٴ والقیام بالقضاء واقامة الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنھی عن المنکر نیابة عن النبی صلی الله علیہ وسلم۔”
(ازالة الخفاء ص:۲)
ترجمہ:… “خلافت کے معنی ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں دِین کو قائم (اور نافذ) کرنے کے لئے مسلمانوں کا سربراہ بننا۔ دِینی علوم کو زندہ رکھنا، ارکانِ اسلام کو قائم کرنا، جہاد کو قائم کرنا اور متعلقاتِ جہاد کا انتظام کرنا، مثلاً: لشکروں کا مرتب کرنا، مجاہدین کو وظائف دینا اور مالِ غنیمت ان میں تقسیم کرنا، قضا و عدل کو قائم کرنا، حدودِ شرعیہ کو نافذ کرنا اور مظالم کو رفع کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔”
اس کے برعکس جمہوریت میں عوام کی نمائندگی کا تصوّر کار فرما ہے، چنانچہ جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے:
“جمہوریت وہ نظامِ حکومت ہے جس میں عوام کے چنے ہوئے نمائندوں کی اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت حکومت چلاتی ہے اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔”
گویا اسلام کے نظامِ خلافت اور مغرب کے تراشیدہ نظامِ جمہوریت کا راستہ پہلے ہی قدم پر الگ الگ ہوجاتا ہے، چنانچہ:
Y:… خلافت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا تصوّر پیش کرتی ہے، اور جمہوریت عوام کی نیابت کا نظریہ پیش کرتی ہے۔
Y:… خلافت، مسلمانوں کے سربراہ پر اِقامتِ دِین کی ذمہ داری عائد کرتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ کا دِین قائم کیا جائے، اور اللہ کے بندوں پر، اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے مقرّر کردہ نظامِ عدل کو نافذ کیا جائے، جبکہ جمہوریت کو نہ خدا اور رسول سے کوئی واسطہ ہے، نہ دِین اور اِقامتِ دِین سے کوئی غرض ہے، اس کا کام عوام کی خواہشات کی تکمیل ہے اور وہ ان کے منشاء کے مطابق قانون سازی کی پابند ہے۔
Y:… اسلام، منصبِ خلافت کے لئے خاص شرائط عائد کرتا ہے، مثلاً: مسلمان ہو، عاقل و بالغ ہو، سلیم الحواس ہو، مرد ہو، عادل ہو، اَحکامِ شرعیہ کا عالم ہو، جبکہ جمہوریت ان شرائط کی قائل نہیں، جمہوریت یہ ہے کہ جو جماعت بھی عوام کو سبز باغ دِکھاکر اسمبلی میں زیادہ نشستیں حاصل کرلے اسی کو عوام کی نمائندگی کا حق ہے۔ جمہوریت کو اس سے بحث نہیں کہ عوامی اکثریت حاصل کرنے والے ارکان مسلمان ہیں یا کافر، نیک ہی یا بد، متقی و پرہیزگار ہیں یا فاجر و بدکار، اَحکامِ شرعیہ کے عالم ہیں یا جاہلِ مطلق اور لائق ہیں یا کندہ ناتراش، الغرض! جمہوریت میں عوام کی پسند و ناپسند ہی سب سے بڑا معیار ہے اور اسلام نے جن اوصاف و شرائط کا کسی حکمران میں پایا جانا ضروری قرار دیا، وہ عوام کی حمایت کے بعد سب لغو اور فضول ہیں، اور جو نظامِ سیاست اسلام نے مسلمانوں کے لئے وضع کیا ہے وہ جمہوریت کی نظر میں محض بے کار اور لایعنی ہے، نعوذ باللہ!
Y:… خلافت میں حکمران کے لئے بالاتر قانون کتاب و سنت ہے، اور اگر مسلمانوں کا اپنے حکام کے ساتھ نزاع ہوجائے تو اس کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رَدّ کیا جائے گا اور کتاب و سنت کی روشنی میں اس کا فیصلہ کیا جائے گا، جس کی پابندی راعی اور رعایا دونوں پر لازم ہوگی۔ جبکہ جمہوریت کا “فتویٰ” یہ ہے کہ مملکت کا آئین سب سے “مقدس” دستاویز ہے اور تمام نزاعی اُمور میں آئین و دستور کی طرف رُجوع لازم ہے، حتیٰ کہ عدالتیں بھی آئین کے خلاف فیصلہ صادر نہیں کرسکتیں۔
لیکن ملک کا دستور اپنے تمام تر “تقدس” کے باوجود عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ کا کھلونا ہے، وہ مطلوبہ اکثریت کے بل بوتے پر اس میں جو چاہیں ترمیم و تنسیخ کرتے پھریں، ان کو کوئی روکنے والا نہیں، اور مملکت کے شہریوں کے لئے جو قانون چاہیں بناڈالیں، کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ یاد ہوگا کہ انگلینڈ کی پارلیمنٹ نے دو مردوں کی شادی کو قانوناً جائز قرار دیا تھا اور کلیسا نے ان کے فیصلے پر صاد فرمایا تھا، چنانچہ عملاً دو مردوں کا، کلیسا کے پادری نے نکاح پڑھایا تھا، نعوذ باللہ!
حال ہی میں پاکستان کی ایک محترمہ کا بیان اخبارات کی زینت بنا تھا کہ جس طرح اسلام نے ایک مرد کو بیک وقت چار عورتوں سے شادی کی اجازت دی ہے، اسی طرح ایک عورت کو بھی اجازت ہونی چاہئے کہ وہ بیک وقت چار شوہر رکھ سکے۔ ہمارے یہاں جمہوریت کے نام پر مرد و زن کی مساوات کے جو نعرے لگ رہے ہیں، بعید نہیں کہ جمہوریت کا نشہ کچھ تیز ہو جائے اور پارلیمنٹ میں یہ قانون بھی زیر بحث آجائے۔ ابھی گزشتہ دنوں پاکستان ہی کے ایک بڑے مفکر کا مضمون اخبار میں شائع ہوا تھا کہ شریعت کو پارلیمنٹ سے بالاتر قرار دینا قوم کے نمائندوں کی توہین ہے، کیونکہ قوم نے اپنے منتخب نمائندوں کو قانون سازی کا مکمل اختیار دیا ہے۔ ان صاحب کا یہ عندیہ “جمہوریت” کی صحیح تفسیر ہے، جس کی رُو سے قوم کے منتخب نمائندے شریعتِ الٰہی سے بھی بالاتر قرار دئیے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں “شریعت بل” کئی سالوں سے قوم کے منتخب نمائندوں کا منہ تک رہا ہے لیکن آج تک اسے شرفِ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکا، اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اسلام، مغربی جمہوریت کا قائل ہے؟
Y:… تمام دُنیا کے عقلاء کا قاعدہ ہے کہ کسی اہم معاملے میں اس کے ماہرین سے مشورہ لیا جاتا ہے، اسی قاعدے کے مطابق اسلام نے انتخابِ خلیفہ کی ذمہ داری اہلِ حل و عقد پر ڈالی ہے، جو رُموزِ مملکت کو سمجھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ اس کے لئے موزوں ترین شخصیت کون ہوسکتی ہے، جیسا کہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا:
“انما الشوریٰ للمھاجرین والأنصار۔”
ترجمہ:… “خلیفہ کے انتخاب کا حق صرف مہاجرین و انصار کو حاصل ہے۔”
لیکن بت کدہٴ جمہوریت کے برہمنوں کا “فتویٰ” یہ ہے کہ حکومت کے انتخاب کا حق ماہرین کو نہیں بلکہ عوام کو ہے۔ دُنیا کا کوئی کام اور منصوبہ ایسا نہیں جس میں ماہرین کے بجائے عوام سے مشورہ لیا جاتا ہو، کسی معمولی سے معمولی ادارے کو چلانے کے لئے بھی اس کے ماہرین سے مشورہ طلب کیا جاتا ہے، لیکن یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ حکومت کا ادارہ (جو تمام اداروں کی ماں ہے اور مملکت کے تمام وسائل جس کے قبضے میں ہیں، اس کو) چلانے کے لئے ماہرین سے نہیں بلکہ عوام سے رائے لی جاتی ہے، حالانکہ عوام کی ننانوے فیصد اکثریت یہی نہیں جانتی کہ حکومت کیسے چلائی جاتی ہے؟ اس کی پالیسیاں کیسے مرتب کی جاتی ہیں؟ اور حکمرانی کے اُصول و آداب اور نشیب و فراز کیا کیا ہیں․․․؟ ایک حکیم و دانا کی رائے کو ایک گھسیارے کی رائے کے ہم وزن شمار کرنا، اور ایک کندہ ناتراش کی رائے کو ایک عالی دماغ مدبر کی رائے کے برابر قرار دینا، یہ وہ تماشا ہے جو دُنیا کو پہلی بار “جمہوریت” کے نام سے دِکھایا گیا ہے۔
درحقیقت “عوام کی حکومت، عوام کے لئے اور عوام کے مشورے سے” کے الفاظ محض عوام کو اُلُّو بنانے کے لئے وضع کئے گئے ہیں، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت میں نہ تو عوام کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اور نہ عوام کی اکثریت کے نمائندے حکومت کرتے ہیں، کیونکہ جمہوریت میں اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی کہ عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کون کون سے نعرے لگائے جائیں گے اور کن کن ذرائع کو استعمال کیا جائے گا؟ عوام کی ترغیب و تحریص کے لئے جو ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جائیں، ان کو گمراہ کرنے کے لئے جو سبز باغ بھی دِکھائے جائیں اور انہیں فریفتہ کرنے کے لئے جو ذرائع بھی استعمال کئے جائیں وہ جمہوریت میں سب روا ہیں۔
اب ایک شخص خواہ کیسے ہی ذرائع اختیار کرے، اپنے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے، وہ “عوام کا نمائندہ” شمار کیا جاتا ہے، حالانکہ عوام بھی جانتے ہیں کہ اس شخص نے عوام کی پسندیدگی کی بنا پر زیادہ ووٹ حاصل نہیں کئے بلکہ روپے پیسے سے ووٹ خریدے ہیں، دھونس اور دھاندلی کے حربے استعمال کئے ہیں اور غلط وعدوں سے عوام کو دھوکا دیا ہے، لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود یہ شخص نہ روپے پیسے کا نمائندہ کہلاتا ہے، نہ دھونس اور دھاندلی کا منتخب شدہ اور نہ جھوٹ، فریب اور دھوکا دہی کا نمائندہ شمار کیا جاتا ہے، چشمِ بد دُور! یہ “قوم کا نمائندہ” کہلاتا ہے۔ انصاف کیجئے! کہ “قوم کا نمائندہ” اسی قماش کے آدمی کو کہا جاتا ہے؟ اور کیا ایسے شخص کو ملک و قوم سے کوئی ہمدردی ہوسکتی ہے․․․؟
عوامی نمائندگی کا مفہوم تو یہ ہونا چاہئے کہ عوام کسی شخص کو ملک و قوم کے لئے مفید ترین سمجھ کر اسے بالکل آزادانہ طور پر منتخب کریں، نہ اس اُمیدوار کی طرف سے کسی قسم کی تحریص و ترغیب ہو، نہ کوئی دباوٴ ہو، نہ برادری اور قوم کا واسطہ ہو، نہ روپے پیسے کا کھیل ہو، الغرض اس شخصیت کی طرف سے اپنی نمائش کا کوئی سامان نہ ہو اور عوام کو بے وقوف بنانے کا اس کے پاس کوئی حربہ نہ ہو۔ قوم نے اس کو صرف اور صرف اس بنا پر منتخب کیا ہو کہ یہ اپنے علاقے کا لائق ترین آدمی ہے، اگر ایسا انتخاب ہوا کرتا تو بلاشبہ یہ عوامی انتخاب ہوتا اور اس شخص کو “قوم کا منتخب نمائندہ” کہنا صحیح ہوتا، لیکن عملاً جو جمہوریت ہمارے یہاں رائج ہے، یہ عوام کے نام پر عوام کو دھوکا دینے کا ایک کھیل ہے اور بس․․․!
کہا جاتا ہے کہ: “جمہوریت میں عوام کی اکثریت کو اپنے نمائندوں کے ذریعہ حکومت کرنے کا حق دیا جاتا ہے” یہ بھی محض ایک پُرفریب نعرہ ہے، ورنہ عملی طور پر یہ ہو رہا ہے کہ جمہوریت کے غلط فارمولے کے ذریعہ ایک محدود سی اقلیت، اکثریت کی گردنوں پر مسلط ہوجاتی ہے! مثلاً: فرض کرلیجئے کہ ایک حلقہٴ انتخاب میں ووٹوں کی کل تعداد پونے دو لاکھ ہے، پندرہ اُمیدوار ہیں، ان میں سے ایک شخص تیس ہزار ووٹ حاصل کرلیتا ہے، جن کا تناسب دُوسرے اُمیدواروں کو حاصل ہونے والے ووٹوں سے زیادہ ہے، حالانکہ اس نے صرف سولہ فیصد حاصل کئے ہیں، اس طرح سولہ فیصد کے نمائندے کو ۸۴ فیصد پر حکومت کا حق حاصل ہوا۔ فرمائیے! یہ جمہوریت کے نام پر ایک محدود اقلیت کو غالب اکثریت کی گردنوں پر مسلط کرنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے․․․؟ چنانچہ اس وقت مرکز میں جو حکومت “کوس لمن الملک” بجا رہی ہے، اس کو ملک کی مجموعی آبادی کے تناسب سے ۳۳ فیصد کی حمایت بھی حاصل نہیں، لیکن جمہوریت کے تماشے سے نہ صرف وہ جمہوریت کی پاسبان کہلاتی ہے بلکہ اس نے ایک عورت کو ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رکھا ہے۔
الغرض! جمہوریت کے عنوان سے “عوام کی حکومت، عوام کے لئے” کا دعویٰ محض ایک فریب ہے، اور اسلام کے ساتھ اس کی پیوندکاری فریب در فریب ہے، اسلام کا جدید جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں، نہ جمہوریت کو اسلام سے کوئی واسطہ ہے، “ضدان لا یجتمعان” (یہ دو متضاد جنسیں ہیں جو اکٹھی نہیں ہوسکتیں)۔
اُولو الامر کی اطاعت
س… اطاعتِ اولو الامر کی قرآنی ہدایت کے تحت پاکستانی مقننہ کے نافذ کردہ وہ قوانین جن کی صحت کی تصدیق اسلامی نظریاتی کونسل کرچکی ہو ان کی خلاف ورزی کرنے پر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نافرمان قرار پائے گا یا نہیں؟ نیز حکومتِ وقت کی کب تک اور کہاں تک اطاعت ضروری ہے؟
ج… “اولو الامر” کی اطاعت ان اُمور میں لازم ہے، جن پر اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ ہوتی ہو، پس جو ملکی قوانین شریعت کے خلاف نہیں ان کی پابندی لازم ہے، اور جو شریعت کے خلاف ہوں ان کی پابندی حرام اور ناجائز ہے۔ الغرض! اولو الامر کی اطاعت مشروط ہے، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت غیرمشروط ہے۔
اسلامی نظام کے نفاذ کا مطلب
س… آج تقریباً عرصہ ۴ سال ہوگئے، جب سے ہمارے ملک میں اسلامی نظام آرہا ہے، پینٹ کوٹ وغیرہ لوگ بہت کم پہنتے ہیں، لوگوں میں شلوار قمیص یا کرتے کا رواج ہوگیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ مرد اور عورتیں سب تقریباً یکساں ڈیزائنوں کے شلوار قمیص اور کرتے پہن رہے ہیں، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو مرد جیسا لباس اور مرد کو عورت جیسا لباس کے بارے میں فرمایا ہے کہ ایسے پر لعنت ہے۔ ہمارا ٹی وی اس معاملے میں پیش پیش ہے اور پھر ہمارے ملک کے ادبی اور سماجی رسالے، ڈائجسٹ بھی نئے نئے ڈیزائن تخلیق کر رہے ہیں، آیا ہمارے اسلامی معاشرے میں ان چیزوں کی گنجائش ہے؟ یہ ایک معمولی بات ہوسکتی ہے لیکن قرآن کی رُو سے لازم ہے کلمہ پڑھنے والے پر کہ “اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاوٴ” اسلام کی رُو سے مرد اور عورت کے لباس کی وضاحت کریں۔ اقبال #
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حریمے توفیق
ج… اسلامی نظام کے نفاذ کا مطلب ہے: “اپنی خواہشات پر اَحکامِ الٰہیہ کی بالادستی قائم کرنا اور حکمِ الٰہی کے سامنے اپنی خواہشات کو چھوڑ دینا۔ “مگر شاید ہم اس کے لئے تیار نہیں، اس لئے ہم اسلامی نظام کے نفاذ کا مطلب سمجھتے ہیں: “اسلامی اَحکام کو اپنی پسند و ناپسند کے مطابق ڈھالنا” چنانچہ اسی کا مظاہرہ ہمارے یہاں ہو رہا ہے، جس کی آپ کو شکایت ہے۔
کیا اِسراف اور تبذیر حکومت کے کاموں میں بھی ہوتا ہے
س… گزشتہ دنوں یہاں ایک مسجد میں ایک جید عالمِ دِین تقریر کر رہے تھے، جس کا عنوان یہ تھا کہ ہم پاکستان کے وزیراعظم کی آمد کا خیر مقدم کرتے ہیں مگر حکومت آزاد کشمیر ان کے استقبال کے لئے جو بے پناہ رقم خرچ کر رہی ہے، اس کا کوئی جواز شرعاً نہیں، بلکہ یہ اِسراف ہے۔ اس پر انہوں نے ۱۵ویں پارے کی آیت اِسراف پڑھ کر تقریر ختم کردی۔ اختتامِ تقریر پر آزاد کشمیر کی اعلیٰ عہدے پر فائز ایک شخصیت نے اُٹھ کر کہا کہ مولوی جاہل ہوتے ہیں اور یہ کہ اِسراف کا تعلق انسان کی ذات سے ہوتا ہے اور سلطنت میں اِسراف کا اطلاق نہیں ہوتا، اور یہ کہ میں جمعہ پڑھنے کے لئے مسجدوں میں اس لئے نہیں آتا کہ یہ جاہل مولوی کچھ نہ کچھ بے تکی باتیں کردیتے ہیں، جن کی وضاحت یا تردید کرنی ضروری ہوتی ہے، جس سے فساد کا امکان ہوتا ہے۔ قابلِ دریافت یہ اَمر ہے کہ اِسراف اور تبذیر میں کیا فرق ہے؟ اور بغیر استثنا کے تمام مولویوں کو جاہل کہنے والا شرعاً کیسا ہے؟ اور اسی خدشے سے جمعہ کو عملاً ترک کرنے والا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟
ج… اپنی ذاتی رقم تو آدمی کی ملکیت ہوتی ہے اور حکومت کے خزانے میں جو روپیہ جمع ہوتا ہے وہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ وہ امانت ہے، اور اس پر حکومت کا قبضہ بھی امانت کا قبضہ ہے، جب ذاتی ملکیت میں بے جا تصرف اِسراف ہے تو امانت میں بے جا تصرف اِسراف کیوں نہ ہوگا؟ بلکہ یہ اِسراف سے بڑھ کر ہے، یعنی امانت میں خیانت۔ یہ تو اُصولی جواب ہوا۔ رہا یہ کہ کون سا تصرف بے جا ہے اور کون سا نہیں؟ اس میں بحث و گفتگو کی کافی گنجائش ہے، بہت ممکن ہے کہ ایک شخص کسی خرچ کو بے جا سمجھے اور دُوسرا اس کو بے جا نہ سمجھے۔
ان صاحب نے علماء کے بارے میں جو الفاظ کہے وہ بہت سخت ہیں، ان کو ان الفاظ سے ندامت کے ساتھ توبہ کرنی چاہئے۔ کسی عالم، مولوی میں اگر کوئی غلطی واقعتا نظر آئے تو اس کی وجہ سے صرف اسی کو غلط کہا جاسکتا ہے، لیکن علماء کی پوری جماعت کو مطعون کرنا یا ان کی تحقیر کرنا کسی طرح بھی قرینِ عقل و انصاف نہیں۔ بلکہ اہلِ علم کی تحقیر و توہین کو کفر لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس آفت سے بچائے۔ اور ان صاحب کا “مولویوں” کی وجہ سے جمعہ کی جماعت تک کو ترک کردینا اور بھی سنگین ہے، حدیث میں ہے کہ جو شخص بغیر عذر کے محض معمولی بات سمجھتے ہوئے تین جمعہ چھوڑ دے، اللہ تعالیٰ اس کے دِل پر مہر کردیتے ہیں۔ نعوذ باللہ! (مشکوٰة ص:۱۲۱)
اپنے پسندیدہ لیڈر کی تعریف اور مخالف کی بُرائی بیان کرنا
س… آج کل سیاست کا بہت زور ہے، ہر کوئی اپنے پسندیدہ لیڈر کی تعریف کرتا ہے اور اپنے مخالف لیڈر کی بُرائی کرتا ہے، کیا یہ بُرائی بھی غیبت میں شامل ہے؟
ج… اپنے لیڈر کی بے جا تعریف کرنا یا ایسی بات پر تعریف کرنا جو اس کے اندر نہیں پائی جاتی یا ایسی چیز پر تعریف کرنا جو شرعاً مستحسن نہ ہو، جائز نہیں۔ اور مخالف لیڈر کے ذاتی عیوب و نقائص کو بیان کرنا یہ بھی غیبت ہے، البتہ اگر اس کی کوئی پالیسی یا بیان و تقریر ملک و ملت کے مفاد کے خلاف ہو تو اس پر تنقید جائز ہے۔
مروّجہ طریقِ انتخاب اور اسلامی تعلیمات
س۱:… مروّجہ طریقِ انتخاب میں جس میں قومی اسمبلی کے اُمیدوار وغیرہ چنے جاتے ہیں اور اس میں جاہل، عقل مند، باشعور، بے شعور، دِین دار اور بے دِین کے ووٹ کی قدر (Value) ایک برابر ہوتی ہے، کیا از رُوئے قرآن و حدیث صحیح ہے؟
س۲:… ہر پانچ سال کے بعد الیکشن کروانا اور ملک کے اندر ہیجان برپا کرنا کیا قرآن و حدیث کی رُو سے از حد ضروری ہے؟ کیا ایک مرتبہ کا انتخاب کافی نہیں؟ اگر ضروری ہے تو بحوالہ قرآن و حدیث تحریر فرمائیں، بار بار الیکشن کی مثال اسلامی رُو سے دیں۔
س۳:… مروّجہ قانون کے تحت وزیراعظم اسمبلی کی اکثریت کے فیصلے کا پابند ہوتا ہے، کیا یہ شریعت کے خلاف نہیں؟ کیا اکثریت کے فیصلے کے ماننے کا وزیراعظم از رُوئے قرآن و حدیث پابند ہے؟
ج۱:… اسلامی نقطہٴ نظر سے حکومت کا انتخاب تو ہونا چاہئے لیکن موجودہ طریقِ انتخاب جو ہمارے یہاں رائج ہے، کئی وجوہ سے غلط اور محتاجِ اصلاح ہے:
اوّل:… سب سے پہلے تو یہی بات اسلام کی رُوح اور اس کے مزاج کے خلاف ہے کہ کوئی شخص مسندِ اقتدار کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے، اسلام ان لوگوں کو حکومت کا اہل سمجھتا ہے جو اس کو ایک مقدس امانت سمجھتے ہوں اور عہدہ و منصب سے اس بنا پر خائف ہوں کہ وہ اس امانت کا حق بھی ادا کرسکیں گے یا نہیں؟ اس کے برعکس موجودہ طریقِ انتخاب، اقتدار کو ایک مقدس امانت قرار دینے کے بجائے حریصانِ اقتدار کا کھلونا بنادیتا ہے، حدیث میں ہے کہ: “ہم ایسے شخص کو عہدہ نہیں دیا کرتے جو اس کا طلب گار ہو یا اس کی خواہش رکھتا ہو۔” (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
دوم:… مروّجہ طریقِ انتخاب میں الیکشن جیتنے کے لئے جو کچھ کیا جاتا ہے وہ اوّل سے آخر تک غلط ہے، رائے عامہ کو متأثر کرنے کے لئے سبز باغ دِکھانا، غلط پروپیگنڈہ، جوڑ توڑ، نعرے بازی، دھن، دھونس، یہ ساری چیزیں اسلام کی نظر میں ناروا ہیں، اور یہ غلط رَوِش قوم کے اخلاق کو تباہ کرنے کا ایک مستقل ذریعہ ہے۔
سوم:… موجودہ طریقِ انتخاب میں فریقِ مخالف کو نیچا دِکھانے کے لئے اس پر کیچڑ اُچھالنا اور اس کے خلاف نت نئے افسانے تراشنا لازمہٴ سیاست سمجھا جاتا ہے، اور تکبر، غیبت، بہتان، مسلمان کی بے آبروئی جیسے اخلاقِ ذمیمہ کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے، افراد و اشخاص اور جماعتوں کے درمیان بغض و منافرت جنم لیتی ہے اور پورے معاشرے میں تلخی، کشیدگی اور بیزاری کا زہر گھل جاتا ہے، یہ ساری چیزیں اسلام کی نظر میں حرام اور قبیح ہیں، کیونکہ ملک و ملت کے انتشار و افتراق کا ذریعہ ہیں۔
چہارم:… اس طریقِ انتخاب کو نام تو “جمہوریت” کا دیا جاتا ہے، لیکن واقعتا جو چیز سامنے آتی ہے وہ جمہوریت نہیں “جبریت” ہے، الیکشن کے پردے میں شر و فتنہ کی جو آگ بھڑکتی ہے، ہلڑبازی، ہنگامہ آرائی، لڑائی جھگڑا، دنگا فساد، مارپٹائی سے آگے بڑھ کر کئی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں، یہ ساری چیزیں اسی جبریت کا شاخسانہ ہے جس کا خوبصورت نام شیطان نے “جمہوریت” رکھ دیا ہے۔
پنجم:… ان ساری ناہموار گھاٹیوں کو عبور کرنے کے بعد بھی جمہوریت کا جو مذاق اُڑتا ہے وہ اس طریقِ انتخاب کی بدمذاقی کی دلیل ہے، ہوتا یہ ہے کہ ایک ایک حلقے میں دس دس پہلوانوں کا انتخابی دنگل ہوتا ہے، اور ان میں سے ایک شخص پندرہ فیصد ووٹ لے کر اپنے دُوسرے حریفوں پر برتری حاصل کرلیتا ہے، اور چشمِ بد دُور! یہ صاحب “جمہور کے نمائندے” بن جاتے ہیں۔ یعنی اپنے حلقے کے پچاسی فیصد رائے دہندگان جس شخص کو مسترد کردیں، ہماری جمہوریت صاحبہ اس کو “نمائندہٴ جمہور” کا خطاب دیتی ہے۔
ششم:… تمام عقلاء کا مُسلّمہ اُصول ہے کہ کسی معاملے میں صرف اس کے ماہرین سے رائے طلب کی جاتی ہے، لیکن سیاست اور حکمرانی شاید دُنیا کی ایسی ذلیل ترین چیز ہے کہ اس میں ہرکس و ناکس کو مشورہ دینے کا اہل سمجھا جاتا ہے اور ایک بھنگی کی رائے بھی وہی قدر و قیمت اور وزن رکھتی ہے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی، اور چونکہ عوام ذاتی اور وقتی مسائل سے آگے ملک و ملت کے وسیع ترین مفادات کو نہ سوچ سکتے ہیں اور نہ سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لئے جو شخص رائے عامہ کو ہنگامی و جذباتی نعروں کے ذریعہ گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجائے وہ ملک و ملت کی قسمت کا ناخدا بن بیٹھتا ہے، یہی وہ بنیادی غلطی ہے جسے اِبلیس نے “سلطانی جمہور” کا نام دے کر دُنیا کے دِل و دِماغ پر مسلط کردیا ہے۔ اسلام اس احمقانہ نظریے کا قائل نہیں، وہ انتخابِ حکومت میں اہلِ بصیرت اور اربابِ بست و کشاد کو رائے دہندگی کا اہل سمجھتا ہے، شاعرِ ملت علامہ اقبال مرحوم کے الفاظ میں:
گریز از طرزِ جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر کار یک انسان نمی آید
ہفتم:… موجودہ طریقِ انتخاب تجربے کی کسوٹی پر بھی کھوٹا ثابت ہوا ہے، اس طریقِ انتخاب سے جو لوگ مسندِ اقتدار تک پہنچے وہ ملک کی شکست و ریخت کے سوا ملک و قوم کی کوئی خدمت نہ کرسکے، اور جو چیز تجربے سے مضر ثابت ہوئی ہو اور قوم اس کا خمیازہ بھگت چکی ہو اس تجربے کو دوبارہ دُہرانا نہ تو شرعاً جائز ہے اور نہ عقلاً ہی اُسے صحیح اور دُرست کہا جاسکتا ہے، لہٰذا موجودہ طریقہٴ کار کو بدل کر ایک ایسا طریقہٴ انتخاب وضع کرنا ضروری ہے جو ان قباحتوں سے پاک ہو اور جس کے ذریعہ اقتدار کی پُرامن منتقلی ہوسکے۔
ج۲:… انتخاب ہر پانچ سال بعد کرانا کوئی شرعی فرض نہیں، لیکن اگر حکمران میں بھی کوئی ایسی خرابی نہ پائی جائے جو اس کی معزولی کا تقاضا کرتی ہو تو اس کو بدلنا بھی جائز نہیں۔ دراصل اسلام کا نظریہ اس بارے میں یہ ہے کہ وہ حکومت تبدیل کرنے کے مسئلے کو اہمیت دینے کے بجائے منتخب ہونے والے حکمران کی صفاتِ اہلیت کو زیادہ اہمیت دیتا ہے، اسلامی ذوق سے قریب تر بات یہ ہے کہ قوم کے اہلِ رائے حضرات صدر یا امیر کا چناوٴ کریں اور پھر وہ اہل الرائے کے مشورے سے اپنے معاونین و رُفقاء کو خود منتخب کرے۔
ج۳:… حکومت کا سربراہ اہلِ مشورہ سے مشورہ لینے کا پابند ہے، مگر کثرتِ رائے پر عمل کرنے کا پابند نہیں، بلکہ قوّتِ دلیل پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ اس مسئلے میں بھی جمہوریت کا اسلام سے اختلاف ہے، جمہوریت کہنے والوں کی بات کا وزن کرنے کی قائل نہیں، صرف مردم شماری کی قائل ہے، بقول اقبال:
جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ اس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے!